تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي20%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162480 / ڈاؤنلوڈ: 3885
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

كے عنوان سے معروف ہوا _ وہ ابوحنيفہ كى آراء بالخصوص احكام شرعى كى تشخيص كے سلسلے ميں ابوحنيفہ كے فقہى قياس اور نظريات كے مد مقابل اپنے مخصوص نظريات ركھتے تھے انہوں نے سعى كى كہ فقہى روش پر حديث كى كتاب لكھ كر اپنى آراء پيش كريں اس كتاب ميں جس كا نام مؤطا ہے مالك سب سے پہلے حديث نقل كرتے ہيں پھر مدينہ كے فقہاء كا فتوى ذكر كرتے ہيں اسكے بعد اپنى فقہى نظر پيش كرتے ہيں انكا نظريہ يہ تھا كہ احكام شرعى كيلئے روايات جيسى مستند دليل كے ہوتے ہوئے قياس يا اپنى رائے كى طرف نہيں آنا چاہيے_ مالكى مذہب بتدريج شمالى آفريقا ، مصر اور اندلس ميں رواج پاگيا(۱)

اہل سنت كے تيسرے فقہى مكتب كو ابوعبداللہ محمد بن ادريس شافعى(۲) (۲۰۴ _ ۱۵۰ قمرى ) نے تشكيل ديا وہ چونكہ دونوں حنفى اور مالكى مذاہب كے بارے ميں معلومات ركھتے تھے اسى ليے انہوں نے كوشش كہ ان دو مذاہب ميں اساسى امتزاج پيدا كيا جائے اور اس امتزاج اور وحدت پر جديد فقہ كو تشكيل ديا جائے(۳) ليكن اسكے ساتھ ساتھ انہوں نے حنفى مكتب كے استحسان اور مالكى مكتب كى استصلاح كى بھى مخالفت كي_ انہوں نے اپنى فقہى آراء كے اساسى قواعد كو اصول الفقہ كے متعلق ايك رسالہ ميں تحرير كيا _ مصر ميں صلاح الدين ايوبى كے ذريعے فقہ شافى رائج ہوئي(۴) اور اس فقہ كے عراق اور مكہ ميں بھى حامى موجودہيں(۵)

اہل سنت كا چوتھا فقہى مكتب احمد بن حنبل(۶) (۲۴۱ _ ۱۶۴ قمري) كى طرف منسوب ہے جو فقہ حنبلى كے عنوان سے مشہور ہے _ احمد بن حنبل علماء حديث كے بڑے مفكرين ميں سے شمار ہوتے ہيں انہوں نے شافعى

____________________

۱)كاظم مدير شانہ چى ، علم الحديث، مشہد ص ۳۶_

۲)محمد ابوزہرہ ، امام شافعى حياتہ و عصرہ و آرا و فقہہ ، قاہرہ_

۳) ج م عبدالجليل ، تاريخ ادبيات عرب، ترجمہ آذر تاش آذرنوش ، تہران ص ۱۷۵_

۴)قيس آل متين ، سابقہ ما خذ ، ج ۵ ص ۵_

۵) بوجينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۴_

۶)ذائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۶ ، ذيل احمد بن حنبل_

۱۰۱

كے ہاں درس پڑھا(۱) تيس ہزار احاديث پر مشتمل حديث كى مسند لكھ كر دوسروں كو اپنى طرف متوجہ كرليا(۲) انكى فقہ كى بنياديں كتاب ، سنت ، صحابہ كے فتاوى ، قياس، استحسان ، مصالح او رذرايع سے تشكيل پائيں انكے مذہب كے سب سے زيادہ پيروكار حجاز ميں ہيں(۳)

فقہ حنبلى كے حوالے سے ايك نكتہ يہ ہے كہ چونكہ احمد بن حنبل آراء او رنظريات كے مكتوب شكل ميں جمع كرنے كے مخالف تھے اسى ليے انكے شاگردوں اور بعد ميں آنے والے حنبلى مسلك افراد كى آراء ميں جو احمد بن حنبل سے نقل كى گئي ہيں خاص فرق حتى كہ تضاد بھى نظر آتا ہے اور كبھى تو كسى ايك مسئلہ ہيں انكا نام ليكر نقل ہونے والے متضاد اقوال چار يا پانچ كى تعداد تك بھى ہيں(۴)

اہل سنت كے ان چار اماموں كے بعد سنى فقہ نے اپنى جدت اور تحرك كو كھوديا_ چوتھى صدى سے تيرھويں صدى تك ان آئمہ كے آثار پرصرف حاشيہ يا انكى شرح و تفسير كى حد تك كام ہوا ان مذاہب كے فقہاء نے انكى آراء كے ساتھ تقريبا كوئي نئے نكتے كا اضافہ نہ كيا اسى ليے اہل سنت كى فقہ ميں اجتہاد ان چار اشخاص كى تقليد ميں تبديل ہوكر رہ گيا اگر چہ ان چار آئمہ ميں اجتہاد كو منحصر كرنے پر كوئي بھى عقلى اور نقلى دليل موجود نہ تھى ليكن بتدريج اور حاكموں كے سياسى مقاصد اور كاموں كى بناء پر اس مسئلہ ميں اجماع كى كيفيت پيدا ہوگى كہ اب اسكے خلاف آواز بلند كرنا آسان كام نہ تھا(۵) ليكن تيرھويں صدى ہجرى سے عالم اسلام ميں واضح تبديلياں پيدا ہوئيں _ عصرى تقاضوں ، زندگى اور معاشرتى روابط ميں گہرى اور وسيع تبديليوں كے پيش نظر اہل سنت كے بعض فقہاء فقط ان چار آئمہ كى تقليد ميں منحصر ہونے كے مسئلہ ميں شك و ترديد كا شكار ہوگئے_

____________________

۱)وحينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۷ _

۲)كاظم مدير شانہ چي، سابقہ ما خذص ۵۵_

۳)دائرة المعارف بزرگ اسلامي، سابقہ ما خذ_

۴)رجوع كريں ، ابن حبيرہ الافصاح عن معافى الصحاح، حلب ج ۱ ص ۵۴_

۵) ابوالفضل عزتى ، سابقہ ما خذص ۸۳ _ ۷۱ _

۱۰۲

بتدريج اہل سنت كے فقہاء يہ بات سمجھ گئے كہ ان آئمہ كى تقليد پر كوئي عقلى و نقلى حكم اور معتبر دليل موجود نہيں ہے وہ بھى ان چار فقہاء كى مانند شرعى مسائل ميں اجتہاد كرسكتے ہيں اس حوالے سے مصر كے عظيم مفتى شيخ محمود شلتوت نے شيعہ فقہاء كى آراء پر توجہ كرتے ہوئے شيعہ فقہا كى آرا كى پيروى كے جواز كا اعلان كر كے ايك اہم ترين قدم اٹھايا _ (يہ بات قابل ذكر ہے كہ ان مندرجہ بالا چارمسالك كے علاوہ ديگر مسلك اور مكاتب بھى دائرہ وجود ميں آئے جن ميں سے بعض مسالك مثلا زيديہ اور اسماعيليہ شيعہ مسالك ميں شمارہوتے ہيں اور اپنى فقہ اور پيروكاروں كے ساتھ عہد حاضر ميں موجود ہيں اور بعض مسالك جو كسى سے وابستہ نہيں ہيں مثلا اباضى مسلك كہ جو خوارج كے مسلك ميں سے ابھى تك اپنا وجود برقرار ركھے ہوئے ہے(۱) يا ديگر مسالك مثلا مسلك اوزاعى (متوفى ۱۵۰ قمري) اور مسلك سفيان ثورى (متوفى ۱۶۱ قمري) اور مسلك داود بن على ظاہرى (متوفى ۲۷۰ قمري) كہ يہ سب سنى مسالك ميں سے شمار ہوتے ہيں ليكن بہت كم پيروكاروں كى بناء پر زيادہ عرصہ تك نہ چل سكے(۲)

ليكن ان تمام مسالك ميں ايك معمولى ساموازنہ كرتے ہوئے ہم ديكھتے ہيں كہ زيدى مسلك بہت زيادہ پيروكاروں اور بے شمار علما، محدثين ، معروف فقہاء اور مؤلفين كى بناء ايك ممتاز مقام كا حامل ہے اس مذہب كى بعض كتب مندرج ذيل ہيں :

زيد بن على بن الحسين (ع) سے منسوب '' المجموع''(۳) يحيى بن حسين (۹۸_ ۲۴۵قمري) كى جامع الاحكام فى الحلال و الحرام احمد بن يحيى المرتضى (۸۴۰ _ ۷۷۵قمري) كى البحر الزخار، ابراہيم بن محمد كى الروض فى الحامل شرح الكافل حسن بن احمد (متوفى ۱۰۴۸) كى ضوء النہار فى شرح الازہار اور محمد بن على الشوكانى (متوفى ۱۲۲۱)

____________________

۱)رجوع كيجئے : موسوعة الفقہ الاسلامى ج ۱ ص ۳۲ ، صبحى الصالح ، انظم الاسلامية ، نشا تہا و تطورہا ص ۲۰۷ ، صبحى رجب محمصانى ، فلسفة التشريع فى الاسلام ج ۵ ص ۶۹ _۷۰_

۲)عبدالكريم زيدان، المدخل لدراسة الشريعة الاسلامية ، بيروت ج ۱۱ ص ۱۴۸_

۳) سابقہ ما خذ_

۱۰۳

كى الدرر البھية والسيل الجرار و نيل الاوطار(۱) (زيدى مذہب سے كافى عرصہ كے بعد ہم داود بن على الظاہرى سے منسوب ظاہرى مذہب كا نام لے سكتے ہيں كيونكہ اسكے پيروكار بہت ہى كم تھے اور آج تقريباً موجود نہيں ہيں اس مذہب كى بنيادى فقہى كتا ب'' المحلى '' ہے كہ جسے ابن حزم ظاہرى نے تحرير كيا اس مذہب كے استحكام اور بقاء كا باعث تھى اسى شخص كى خدمات جانى گئيں(۲)

۵_ اصول

اسلامى علوم ميں وہ علم كہ جو اصلى منابع اور مصادر سے اسلامى احكام اور قوانين كے استنباط كيلئے تدوين ہوا علم اصول ہے يہ علم وجود ميں آنے كے بعد سے اب تك نو مراحل سے گزرا:_

۱)وجود ميں آنے كا دور: اس دور ميں اس علم كى تدوين اور اسكے مقدمات بيان كرنے كيلئے سب سے پہلى كوششيں ہوئيں _ شيعہ محققين كى رائے كے مطابق اس علم كے خالق امام باقر (ع) اور امام صادق (عليہما السلام ) ہيں _ اگر چہ عصر حاضر كے كچھ محققين كا خيال ہے كہ اصلى قواعد كا سادہ انداز ميں استعمال صدر اسلام سے ہى رائج تھا(۳)

۲) تصنيف كے دور كا آغاز: اس دور ميں علم اصول جس كا ذكر فقہى مسائل كے درميان ہوتا تھا جداگانہ شكل ميں سامنے آيا_ ميرے خيال ميں علم اصول كى سب سے پہلى تصنيف جناب حشام بن حكم كى ہے كہ جواماميہ متكلمين كے سربراہ شمار ہوتے ہيں انہوں نے كتاب '' الفاظ و مباحثہا'' تحرير كى(۴)

____________________

۱) موسوعة الفقہ الاسلام ، سابقہ ما خذ، الحليمي، الروض النضير ، مقدمہ ، دائرة المعارف بزرگ اسلام ج ۲ ص ۵۹ _۱۶۴ ، على بن عبدالكريم شرف الدين ، الزيدية نظريہ و تطبيق ، العصر الحديث ج ۲ ص ۱_۳ اور اسكے بعد ، فواد سزگين ، تاريخ التراث العربى ج ۱ ، جزء ۳ عربى ، ص ۳۵۳_

۲)مصطفى الزلمى ، اسباب اختلاف الفقہاء فى احكام الشريعة ص ۵۶_

۳)حسن شفايي، ملاك اصول استنباط، ص ۹ ، حسن ہادى الصدر، تاسيس الشيعہ لعلوم الاسلام بغداد ، ابولاقاسم گرجى ، مقالات حقوقى ،ج۲ ص ۱۱۷، ۱۱۳_

۴) ابوالقاسم گرجي، سابقہ ما خذص ۱۱۹ _ ۱۱۸_

۱۰۴

۳)علم اصول كے علم كلام كے ساتھ ملاپ كا دور: يہ دور جو كہ زيادہ تر اہل سنت كے حوالے سے ہے ، اہل سنت كے متكلمين بالخصوص معتزلہ علم اصول ميں داخل ہوئے اور اسے اسكے اصلى راہ '' فرعى و فقہى احكام كے استنباط'' سے ہٹا ديا_ اس دور ميں اہل سنت كے مولفين ميں سے ''كتاب آراء اصولى ابوعلي'' كے مصنف محمد بن عبدالوہاب بن سلام جبائي ( متوفى ۳۰۳ قمرى )كتاب التحصيل كے مصنف ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر تميمى اسفراينى (متوفى ۴۲۹ قمري) اور كتاب '' المستصفى ''كے مصنف ابوحامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمرى ) قابل ذكر ہيں _

۴)علم اصول كے كمال اور دوبارہ جدا ہونے كا دور : يہ دور جو كہ مكتب شيعہ كے حوالے سے ہے علم اصول بتدريج پختگى كى منازل طے كر گيا اور كافى حد تك علم كلام كے مسائل سے جدا ہوگيااس دور كے اہم ترين آثار كے جنہوں نے علم اصول كو ترقى كى انتہائي بلنديوں تك پہنچا ديا وہ ابن ابى عقيل ، شيخ مفيد اور شيخ طوسى كى تصنيفات و تاليفات ہيں _

۵)استنباط كے جمود اور علم اصول ميں ٹھہراؤ كا دور: شيخ طوسى كے علمى نبوغ اور عظمت كى بناء پر تقريباً ايك صدى تك مختلف علوم بالخصوص اصول فقہ ميں انكى آرا، اور نظريات بغير كسى علمى تنقيد كے باقى رہے اور اس دور كے مولفين كى كتب پر انكے آثار كى تقليد كى چھاپ باقى رہى _ مثلا سديد الدين حمصى رازى كى كتاب مصادر اور حمزہ بن عبدالعزيز المعروف سلار كى كتاب '' التقريب'' ميں يہ تقليد ديكھى جاسكتى ہے مجموعى طور پر اس دور كے تمام فقہى استنباط اور نتائج شدت كے ساتھ شيخ طوسى كى آراء سے متاثر تھے_

۶) تجديد حيات كى تحريك: اس دور كى خصوصيات ميں سے يہ ہيں كہ ايك طرف روح اجتہاد دوبارہ زندہ ہوئي اور دوسرى طرف گذشتہ بزرگان دين كى كتب كى شرح ، حاشيہ اور تلخيص كى گئي اور فن منطق كے بعض مسائل علم اصول ميں داخل ہوئے اس دور كے علما اور بزرگ محققين ميں سے محمد بن ادريس حلى (متوفى ۵۹۸ قمرى )محقق حلى ، علامہ حلي، فاضل مقداد اور شيخ بہائي قابل ذكر ہيں(۱)

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۲۱ ، ۱۳۰ ، ۱۳۵_

۱۰۵

۷)علم اصول ميں ضعف كا دور : تشيع كى علمى محافل اور حوزات ميں اخبارى مكتب فكر كى طرف ميلان بڑھنے سے علم اصول كى گذشتہ ادوار كى مانند رونق ختم ہوگئي اس دور ميں اخباريوں اور اصوليوں ميں شديد نزاع رہا، اس دور كى اخبارى مكتب فكر ميں اہم ترين تاليف '' كتاب فوائد المدنيہ'' ہے كہ جو محمد امين استر آبادى (متوفى ۱۰۳۳) نے تاليف كي_

۸)علم اصول كا جديدد ور: جناب وحيد بہبہانى كے علمى حوزات ميں ظاہر ہونے سے علم اصول بتدريج دوبارہ ترقى كے زينوں كى طرف بڑھنے لگا، آپ اور آپكے شاگردوں نے اپنى حيرت انگيز صلاحيتوں سے مالامال علمى طاقت سے اخبارى مكتب فكروالوں كے تمام شبہات اور تہمتوں كا جواب ديا اور يہ ثابت كرنے كيلئے بہت زيادہ كوشش كى كہ فقہى مسائل تك پہنچنے كيلئے ہم سب فقط اصولى قواعد كے محتاج ہيں اس دور ميں علامہ وحيد بہبہانى كے علاوہ عظيم علمى شخصيات ميں سے سيد مہدى بحر العلوم (متوفى ۱۲۱۲ قمري) كاشف الغطاء (متوفى ۱۲۲۷قمري) اور سيد على طباطبائي (متوفى ۱۲۲۱ قمري) قابل ذكر ہيں(۱)

۹)عصر حاضر : يہ دور جو كہ حقيقت ميں علم اصول كى معراج كا دور شمار ہوتاہے شيخ مرتضى انصارى (متوفى ۱۲۸) كے ظہور سے شروع ہوا اور انكے بعد انكے شاگردوں كى كوششوں سے جارى رہا _ واقعى بات تو يہى ہے كہ اس دور ميں علم اصول كى ترقى كاگذشتہ ادوار ميں كسى دور سے موازنہ نہيں كياجاسكتا اس دور ميں علم اصول ميں تحقيقات كيفيت اور كميت كے اعتبار سے وسيع ہونے كے ساتھ ساتھ انتہائي عميق بھى ہيں(۲)

۶_ كلام

اسلامى تمدن كے زير سايہ علم كلام كى پيدائشے كى كچھ وجوہات تھيں ان ميں سے ايك مسلمانوں كا غير مسلم اقوام مثلا ايرانيوں ، روميوں اورمصريوں سے تعلقات تھے ان روابط اور تعلقات كى بناء پر عقائد و نظريات

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۳۸_

۲)مرتضى مطہري، آشنائي با علوم اسلامى ، بخش اصول فقہ ص ۲۶۳_

۱۰۶

ميں اختلاف آشكار ہوا _ مسلمانوں نے دين اسلام كے دفاع كيلئے نئي فكرى اور استدلالى روشوں كو سيكھا_ اسى طرح اس علم كے وجود ميں آنے كى دوسرى وجہ ايسى اقوام كا اسلام قبول كرنا قرار پائي كہ جو اپنے مذاہب ميں اللہ تعالى كى صفات، توحيد ، قضا و قدر اور جزا و سزا و غيرہ كے مسائل ميں مخصوص عقائد و نظريات كے حامل تھے_ اسى بناء پہ نئے مسلمان لوگ اسى كوشش ميں رہتے تھے كہ اپنے سابقہ دينى عقائد كو دين اسلام كے سانچے ميں ڈھال كر پيش كريں اسى ليے مسلمانوں نے بھر پور كوشش كى كہ عقلى دلائل سے بہرہ مند ہوكر اسلام كے بنياد ى عقايد كو مستحكم اور پائيدار بنائيں(۱)

علم كلام اپنے آغاز ميں فقط عقائدى مسائل بالخصوص توحيد و غيرہ پر بحث كرتا تھا اور جو شخص عقائد كے امور ميں دليل سے بات كرتا اسے متكلم كہا جاتاتھا اور خود دينى عقائد اور اصول ميں بحث اور جدل كرنے كو علم كلام كا نام دياگيا _ اسلام كے بڑے متكلمين ميں سے جنہوں نے كلامى نظريات اور مسالك كى تشكيل ميں اہم كردار ادا كيا حسن بصرى (۱۱۰ _ ۲۱ قمري) كى طرف اشارہ كيا جاسكتاہے كہ جو گناہوں كے حوالے سے بہت سخت موقف ركھتے تھے _ انكا عقيدہ تھا كہ تمام افعال فقط انسانى مرضى كى بناء پر انجام پاتے ہيں

دوسرى صدى ہجرى ہيں ابو محرز جھم بن صفوان نے مسلك جھميہ كو تشكيل ديا _ اس مسلك كے ماننے والوں كا نظريہ يہ ہے كہ اللہ تعالى كى شناخت كيلئے فقط ايمان كافى ہے ديگر عبادات سے اس كا كوئي ربط نہيں ہے اور كوئي بھى اللہ تعالى كے ارادے كے سوا فعل انجام نہيں ديتا_ پس انسان اپنے افعال ميں مجبور ہے(۲)

تيسرى صدى ہجرى ميں ابو سہل بشر بن معتمر ہلالى كوفى بغدادى (متوفى ۲۱۰قمري) نے مسلك بشرية كو تشكيل ديا _ اسكا نظريہ يہ تھا كہ اللہ تعالى قادر ہے اور اس نے اپنے بندوں كو اپنے كام كرنے پر قادر كيا ہے ليكن يہ مناسب نہ سمجھا كہ حيات، موت اور قدرت جيسے امور بھى انسانوں كے سپرد كرے(۳)

____________________

۱) علامہ شبلى نعماني، تاريخ علم كلام، ترجمہ داعى گيلاني، ص ۸_

۲)خير الدين زركلى ، الاعلام ، ج ۲ ص ۲۲۶_

۳) محمد شہرستاني، الملل و النحل، محمد جواد شكور كى سعى سے ، ج۱، ص ۷۲_

۱۰۷

چوتھى صدى ميں ہم چند مشہور و معروف متكلمين كا عرصہ وجود ميں ظہور كا مشاہدہ كرتے ہيں ان ميں سے ايك شيخ مفيد ہيں انكى تقريباً دو سو كے قريب تاليفات تھيں كہ جن ميں سے اكثر مختلف كلامى مسالك كے عقائد كى رد پر لكھى گئيں _ اسى صدى كے دوسرے مشہور متكلم شيخ الطايفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسى ہيں وہ سب سے پہلے شخص تھے كہ جنہوں نے نجف كو شيعہ مكتب كے علمى اور دينى مركز ميں تبديل كيا انكى كلام ميں مشہور كتابوں كے نام مندرجہ ذيل ہيں :الشافي، الاقتصادالہادى الى الرشاد اورتمھيد الاصول_

پانچويں صدى ميں مشہور متكلم ابوحامد محمد غزالى پيدا ہوئے_ غزالى كا عقيدہ تھا كہ متكلمين نے اس زمانہ ميں دين كى نصرت كيلئے قيام كيا كہ جب دينى فرقوں ميں اختلاف بڑھ گيا تھا اور لوگوں كے دلوں ميں ايمان متزلزل ہوچكا تھا انہوں نے عقلى اور منطقى دلائل كے ساتھ شبہات پيدا كرنے كا راستہ بند كرديا تھا نيز انكا عقيدہ تھا كہ عوام كو علم كلام سے دور كرنا چاہيے كہ اگر ان ميں سے كوئي ''يد'' ، '' فوق'' اور عرش پر استوار'' كا معنى پوچھيں تو بھى انہيں نہ بتائيں خواہ انہيں تازيانے مارنا پڑيں(۱) جس طرح كہ خليفہ دوم حضرت عمرہر اس شخص سے ايسا سلوك كيا كرتے تھے كہ جو تشابہ آيات كے بارے ميں سوال كرتا پانچويں صدى كے ايك اور معروف متكلم ابوالفتح محمد بن عبدالكريم بن احمد شہرستانى ہيں انكى علم كلام ميں معتبرترين كتاب كا نام نہاية الاقدام فى علم الكلام ہے جو علم كلام كے بيس قواعد اور اس علم كے مسائل كى فروع پر تشريح كى حامل ہے(۲)

چھٹى صدى ہجرى كے مشہورترين متكلم امام فخر رازى ياامام المشككين ہيں وہ علم اصول و كلام ميں مكتب اشعرى پر اور فروع دين ميں شافعى مسلك پر تھے انكے بيشتر اعتراضات اورتشكيكات فلسفي، كلامى اور علمى مسائل ميں تھے_ وہ اسلامى عقايد كى تشريح اشعرى مكتب كے اصولوں كى بناء پر كيا كرتے تھے اور فقہ اہل سنت پر عمل پيرا تھے_

____________________

۱)ابوحامد محمد غزالي، المنقد من اللال والمفصح عن الاحوال، محمدحابر كى كوشش سے _ دہر، عبدالكريم گيلانى حاشيہ الانسان الكامل ، قاہرہ_

۲)ابراہيم مذكور، فى الفلسفة الاسلامية، قاہرہ_

۱۰۸

ساتويں صدى ہجرى كے عظيم ترين متكلم خواجہ نصير الدين طوسى ہيں چونكہ خواجہ شيعہ ہونے كے ساتھ ساتھ منگولوں كے بادشاہ ہلاكوخان كى نگاہ ميں اہم مقام كے حامل تھے لہذا اہل سنت كے بہت سے علماء ان سے حسد كيا كرتے تھے اور انہيں سب و شتم كيا كرتے تھے انكى علم كلام ميں اہم ترين كتاب '' تجريد الاعتقاد'' ہے(۱)

ساتويں صدى ميں ابن تيميہ پيدا ہوئے وہ قرآنى علوم، حديث، فقہ، كلام ، فلسفہ اور ہندسہ ميں مہارت ركھتے تھے، وہ مسلمانوں كى سنت كا دفاع كيا كرتے تھے كہ جسكى وجہ سے اہل سنت كے ديگر مسالك كے بہت سے پيروكاروں نے انكى مخالفت كى _ اگر چہ انكا حنبلى مسلك سے تعلق تھا ليكن اس مسلك كے اصول كو اجتہاد كے ذريعہ قبول كرتے تھے اور بدعات كى مخالفت كرتے تھے اور اولياء خدا سے تمسك كرنے اور انبياء كى قبور كى زيارت پر تنقيد كيا كرتے تھے _ علماء اسلام كے ايك گروہ نے انكى مذمت كى جبكہ ايك گروہ نے انكى تعريف كي(۲)

ان تمام گذشتہ صديوں ميں علماء اسلام ميں سے فقط علامہ حلى ہيں كہ جنہيں آيت اللہ كے لقب سے نوازا گيا آپ ساتويں صدى ميں پيدا ہوئے، آپكى چار سو سے زيادہ تاليفات ہيں انہوں نے اپنى علم كلام كے بارے ميں تاليفات ميں سياست كى بحث بھى كي_ وہ سياست كوعين دين سمجھتے تھے انكى علم كلام كى مباحث ميں شيعہ سياسى افكار جلوہ گر ہيں _ انكى علم كلام ميں اہم ترين كتا ب الباب الحادى عشر ہے اسكے ابواب ميں مذہب شيعہ كے مختلف كلامى موضوعات مثلا نبوت، عصمت پيغمبر(ص) كا ضرورى ہونا، پيغمبر (ص) كى افضليت ، پيغمبر(ص) كا نقص سے دور ہونا، امامت ، امام كا معصوم ہونا اور حضرت على (ع) كى امامت كے حوالے سے بحث اور تجزيہ و تحليل كياگيا ہے_(۳)

____________________

۱)ميان محمد شريف، تاريخ فلسفہ در اسلام تہران_

۲)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۳ ، ذيل ابن تيميہ_

۳)خوانسارى ، روضات الجنات، لقرآن ص ۴۲۱ _۴۱۹_

۱۰۹

۷_ تصوف، عرفان اورفتوت

تصوف كا لغت ميں معنى '' صوفى بننا'' ہے ، بظاہر سب سے قديمى كتاب كہ جسميں كلمہ صوفى اور صوفيہ استعمال ہوا وہ جاحظ (متوفى ۲۵۵ قمرى ) كى البيان و التبين ہے(۱) ابن خلدون نے اپنے مقدمہ ميں تصوف كو صحابہ ، تابعين اور انكے بزرگان كى روش كے طور پر ذكر كيا(۲) بعض نے لفظ صوفى كو صفا سے ليا كہ جسكا معنى روشنى اور پاكيزگى ہے اور صفوت سے مرادمنتخب ہے ليكن شہرت يہى ہے كہ صوفى صوف سے ليا گيا ہے كہ جسكا معنى پشم ہے اور صوفى يعنى پشم پوش (پشم پہننے والا)(۳)

عرفان كو يورپى زبانوں ميں '' مَيسٹك'' Mystics(۴) كا نام ديا گيا ہے كہ جو يونانى لفظ ميسٹيكوس( Mistikos ) سے ليا گياتھا(۵) اور اسكا مفہوم و معنى ايك مرموز ، پنہان اور مخفى امر ہے_

اور اصطلاح ميں ايسے خاص دينى پہلو پر دلالت كرتاہے كہ جس ميں كسى انسانى فرد كا كائنات كے رب كے ساتھ بلاواسطہ رابطہ اور اتصال پيدا ہونا ممكن ہے اور يہ علم انسان كو خالق كائنات كےساتھ كشف و شہود اور باطنى تجربات كے ذريعے متصل كرتا ہے دوسرے الفاظ ميں عرفان سے مراد وہ روش اور طريقہ كہ جو نظرياتى طورپر علم حضورى كہلاتاہے اور عملى حوالے سے عبادت، كوشش اور زہد و رياضت سے لولگانے كو كہتے ہيں(۶)

دوسرى صدى ہجرى ميں وہ خاص لوگ كہ جو دينى مسائل كى طرف بہت زيادہ توجہ ديتے تھے زاہد، عابد اورمتصوف كہلاتے تھے_ اس دور ميں ہميشہ ميں عبادت ميں مصروف ہونا ، اللہ تعالى كے ليے ترك دنيا،

____________________

۱)عمرو بن بحر حاحظ، البيان و التبين چاپ حسن سندولى قاہرہ ، ج۱ ص ۲۸۳_

۲)ابن خلدون، مقدمہ ، ج۱ ص ۶۱۱_

۳)منصور بن اردشير عبادي، مناقب الصوفيہ ص ۳، ۳۱_

۴) mystic

۵) mistikos

۶)نورالدين كيائي ناد، سير عرفان در اسلام، ص ۷_۶۵_

۱۱۰

دنياوى لذتوں سے دورى اختيار كرنا ، زہد اور ہر وہ چيز كہ جسے لوگ برا سمجھتے ہيں مثلا ثروت جمع كرنے اور جاہ طلبى و غيرہ سے پرہيز كرنا تصوف كہلا تا تھا(۱)

جاحظ اور ابن جوزى نے تقريباً ابتدا كے صوفيوں ميں سے چاليس افر اد كا تعارف كرواياہے جن ميں ابوذر، حذيفہ بن يمان، خباب بن ارث و بلال حبشي، سلمان فارسي، عمار ياسر ، مقداد اور ديگر وہ لوگ كہ جو عبادت اور زہد ميں معروف تھے انكا ذكر ہوا، اسى طرح وہ اشخاص كہ جو صدر اسلام كے شيعوں ميں سے شمار ہوتے ہيں(۲)

تيسرى صدى كے وسط سے صوفى حضرات گروہى اعتبار سے بتدريج منظم ہوگئے_ انكا اہم ترين گروہ بغداد ميں تھا_معروف صوفى مثلا ابوسعيد خرّاز (متوفى ۲۷۷ قمري) جنيد بغدادى (متوفى ۲۹۸قمري) اور ابوبكر شبلى (متوفى ۳۳۴ قمرى ) وہاں زندگى گذارتے تھے(۳) كلامى اوراعتقاد كے اعتبار سے صوفيوں ميں پائے جانے والے مختلف نظريات انكے فكرى اور باطنى مكتبوں اور فرقوں ميں اختلاف كا باعث تھے _ مثلا خواجہ عبداللہ انصارى اور ابوسعيد ابو الخير آپس ميں اختلاف رائے ركھتے تھے(۴)

تيسرى صدى ہجرى سے دوسرے علاقوں كے صوفيوں كا مركز سے رابطہ اور نظم بڑھ گيا يہانتك كہ بغداد ميں - ۳۰۹ قمرى ميں حلاج قتل ہوا _ يہ چيز باعث بنى كہ بغداد بتدريج صوفيوں كا محور اور مركزنہ رہا_ اسى صدى كے وسط سے ہى بغداد كے بڑے صوفى حضرات نے تاليف كا آغاز كيا اس دور كى اہم ترين كتابيں مندرجہ ذيل ہيں : خرگوشى نيشابورى (متوفى ۴۰۶ قمري) كى تہذيب الاسرار، ابوبكر كلا بازى كى

____________________

۱)عبداللہ بن محمد ارضاري، طبقات الصوفيہ ج ۱۲ ، ص ۵ _۱۹۴_

۲)رينولد'' نيكلسون'' پيدائشے و سير تصوف ترجمہ محمد باقر معين، ص ۱۴_۱۱، مانرى كورين ، تاريخ فلسفہ اسلامى ، ترجمہ جواد طباطبائي ص ۷۳_۲۶۵_

۳)ابوبكر محمد بن ابراہيم كلاباذي، التعرف لمذہب اہل التصوف ، دمشق ص ۳۰ _ ۲۸_

۴)احمد جامى ، مقامات شيخ الاسلام حضرت خواجہ عبداللہ انصارى طروى ، چاپ فكرى سلجوقى تہران ص ۳۴_ ۳۱_

۱۱۱

تصنيف ''التعرف لمذھب اہل التصوف ''اور ابونصر سراج طوسى كى تاليف'' كتاب اللمع فى التصوف'' چوتھى صدى ميں اور اس كے بعد بھى تاليف كى يہ روايت جارى رہي_ كتاب ''التعرف كلا بازى ''كو ابواسماعيل مستملى نے فارسى زبان ميں ترجمہ كيا_ ابو حامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمري) نے كتاب ''كيمياى سعادت ''كو عربى زبان ميں تحرير كيا اسى طرح شہاب الدين عمر سہروردى نے ساتويں صدى ہجرى ميں تصوف كے حوالے عربى ميں كتاب'' عوارف المعارف ''تاليف كى _

چوتھى صدى كے دوسرے نصف حصہ سے صوفيوں كى تاريخ خاص اہميت كى حامل ہے ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى نے كتاب طبقات الصوفيہ ميں ۱۰۳ معروف صوفيوں كا پہلى بار اپنى كتاب ميں تعارف كروايا نيز انكى كچھ باتوں كو بھى ذكر كيا_ اسى كتاب طبقات الصوفيہ كى مانند ابونعيم اصفہانى نے بھى كتاب حلية الاولياء تاليف كى جو ''طبقات الصوفيہ ''كا تقريباً چربہ تھى(۱)

چھٹى صدى ہجرى كے بعد سے صوفيوں ميں گوناگوں سلسلے تشكيل پائے ہر سلسلے كا نام اس طريقت كے بانى كے نام پر ہوتا مثلا سلسلہ سہرورديہ ، شہاب الدين عمر سہروردى كے ساتھ منسوب ہے اور سلسلہ مولويہ مولانا جلال الدين بلخى كے ساتھ منسوب ہے ان سلسلوں كو مختلف واسطوں كے ساتھ صدر اسلام اور حضرت رسول اكرم(ص) سے ملايا جاتا تھا كہ اس قسم كى نسبت مستحكم دليل و بنياد سے خالى ہوتى ہے(۲)

مجموعى طور پر پانچويں ، چھٹى اور ساتويں صدى ہجرى ميں شيعہ اور سنى ميں اختلاف نظر ، سنى مذاہب بالخصوص حنفيوں اور شافعيوں ميں مذہبى مجادلے ، فقہاء اور فلاسفہ ميں نظرياتى اختلاف اور مختلف جنگيں مثلا منگولوں كے حملے باعث بنے كہ تصوف لوگوں كيلئے بہت زيادہ پر كشش بن جائے، اس دور ميں بزرگ ، صوفى ظاہر ہوئے مثلا ابوالحسن فرقاني، ابوسعيد ابو الخير(۳) بابا طاہر عريان، ابوالقاسم قشيري، حجت الاسلام

____________________

۱)نصر اللہ پور جوادي، ابو منصور اصفہانى كى سير السلف و نصحات الانس كے حوالے سے معلومات ، معارف دورہ ۱۴ ش ۳ _

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ماخذج ۱۰ ص ۳ _۴۲۰_

۳)فريش ماير، ابوسعيد ابو الخير ، حقيقت و افسانہ، ترجمہ مہر آفاق بايبوردي_

۱۱۲

غزالى(۱) ابونعيم اصفہانى(۲) ، احمد غزالى ، عين القضات ہمدانى(۳) احمد جامى(۴) عبدالقادر گيلاني، سہروردى(۵) ، نجم الدين كبري، فريد الدين عطار نيشابورى(۶) شمس تبريزي، جلال الدين مولوي(۷) اور بالخصوص محى الدين ابن عربي_

پانچويں اور چھٹى صدى ميں تصوف ادب ميں سرايت كرگيا _اكثرشعراء حضرات عرفان اور تصوف كى طرف مائل ہوگئے مثلا مولوى نے عرفانى اشعار كو معراج پر پہنچا ديا_ اس سے بڑھ كر غزالى اور سہروردى كى مانند افراد كے ظاہر ہونے سے تصوف كا فلسفى پہلو بھى ترقى كرگيا_ اس پہلو اور نظريہ كے سربراہ محى الدين ابن عربى ہيں انكے معروف ترين آثار'' فتوحات مكيہ اورفصوص الحكم ہيں انہوں نے تصوف ، عرفان اور حكمت اشراق كو اپنى كتب ميں استدلالى اور برہانى روش كے ساتھ پيش كيا اور وہ اسلام ميں وحدت وجود كے مكتب كے حقيقى بانى بھى ہيں(۸)

چھٹى صدى ہجرى ميں عين القضات ہمدانى (متوفى ۵۲۵ قمري) جو ايك عظيم عارف اورفقيہ تھے ، پيدا ہوئے انہوں نے اپنے اوپر لگائے ہوئے الزامات كے مقابلے ميں اللہ تعالى پراپنے ايمان اورنبوت و آخرت پر ايمان كا مناسب انداز سے دفاع كيا ليكن ان پر كفر اور زندقہ كى تہمت لگاتے ہوئے انہيں تينتيس

____________________

۱)محمد بن محمد غزالي، احياء علوم الدين ، بيروت_

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ما خذ_

۳)عبداللہ بن محمد عين القضاة ، دفاعيات عين القضاة ہمداني، ترجمہ رسالہ شكورى الغريب ، ترجمہ و حاشيہ قاسم انصاري، تہران_

۴) عبدالرحمان بن احمد جامي،نفحات الانس، محمود عابدى كى كوشش كے ساتھ _تہران_

۵)يحيى بن جبش سہروردى ، مجموعہ مصنفات شيخ اشراق ، كوربن كى كوشش كے ساتھ، تہران ، محمد بن مسعود قطب الدين شيرازى شرح كلمة الاشراق سہروردى عبداللہ نورانى و مہدى محقق كى كوشش كے ساتھ تہران_

۶)محمد بن ابراہيم عطا، تذكرة الاولياء ،محمد استعلامى كى كوشش كے ساتھ ، تہران_

۷)جلال الدين محمد بن محمد مولوى ، مثنوى معنوي، تصحيح و ترجمہ رينو الاولين ينكلسون، تہران_

۸)رينو اور نيكلسون، سابقہ ما خذص ۴ _ ۳۲_

۱۱۳

۳۳ سال كى عمر ميں قتل كرديا گيا يہ واقعہ حسين بن منصور حلاج كے قتل كے بعد اسلامى تصوف كى تاريخ ميں انتہائي جانگداز واقعہ شمار ہوتاہے(۱)

اسى صدى ميں اس قسم كے خشك تعصب كا ايك اور مظاہرہ ايران كے مشہور فلسفى شہاب الدين سہروردى كے قتل كى شكل ميں سامنے آيا وہ ۵۴۹ قمرى ميں سہرورد زنجان ميں پيدا ہوئے اور ۵۸۷ قمرى ميں صلاح الدين ايوبى كے حكم اور حلب شہر كے متعصب لوگوں كے بھڑكانے پر اٹھتيس سال كى عمر ميں قتل ہوئے ساتويں صدى ہجرى ميں سہروردى كا مكتب تشكيل پايا اسى صدى ميں تصوف وجد اور حال كے مرحلہ سے '' قال'' كے مرحلہ تك پہنچا اور علمى فلسفى صورت ميں سامنے آنے لگا(۲)

آٹھويں صدى ميں سہروردى ، ابن عربى اور ابن فارض كا عرفانى مكتب شہرت پانے لگا اور تصوف اور عرفان آپس مخلوط ہوگئے_ عرفانى علوم اور خانقاہوں كى راہ و رسم كو ايك جگہ پڑھايا جانے لگا اسى صدى ميں ايران كے عظيم ترين عارف اور سخن سرا حافظ شيرازى پيدا ہوئے اسى طرح شيخ صفى الدين اردبيلى (۷۳۵ _ ۶۵۰ قمري) ، ابوالوفاء (متوفى ۸۳۵ قمري) زين الدين ابوبكر تايبادى (متوفى ۷۹۱) اور زين الدين ابوبكر محمود خوافى (متوفى ۸۳۸ قمري) كہ جو ايران كے آٹھويں صدى اور نويں صدى كے آغاز ميں بزرگ عرفا ميں شمار ہوتے تھے ظاہر ہوئے يہ سب سہرورديہ طريقت كے پيروكار اور شيخ نور الدين عبدالرحمان قريشى مصرى كے مريد تھے _ اس دور كے اور اسكے كچھ عرصہ بعد كے بڑے عرفاء ميں سے جامع الاسرار كے مصنف سيد حيدر آملي، علاء الدين سمنانى ( ۷۳۶ _۶۵۹ قمري) گلشن راز كے مصنف شيخ محمود شبسترى (متوفى ۷۲۰ قمري) نعمت اللہى سلسلہ كے بانى شاہ نعمت اللہ ماہانى كرمانى المعروف شاہ نعمت اللہ ولى اور مختلف كتب اور عرفانى نظموں كے خالق نور الدين عبدالرحمان جامى (متوفى ۹۱۲ قمري) قابل ذكر ہيں تصوف نے در حققت آٹھويں صدى ہجرى ميں اپنے كمال كے تمام مراحل طے كرليے تھے كيونكہ اس تاريخ كے بعد يہ زوال كاشكار ہوا(۳)

____________________

۱)زين الدين كيائي ناد ، سابقہ ما خذص ۴۲ _۱۳۱_

۲)قمر گيلانى ، فى التصوف الاسلامي، مفہومہ و نظورہ و اعلامہ ، بيروت_

۳)زين الدين كيانى ناد ، سابقہ ما خذص ۲ ، ۲۳۱_

۱۱۴

صفوى دورميں تصوف ايك نئے مرحلہ ميں داخل ہوا گذشتہ قرون ميں صوفى راہنماؤں كى ذمہ دارى يہ تھى كہ اپنے مريدوں كى راہنمائي اور تہذيب نفس كريں اسى ليے وہ دنيا كى كوئي پرواہ نہ كرتے تھے اور حق تك وصل اور كمال انسانى ميں سعادت حاصل كرنے كى كوشش ميں رہتے تھے_ نويں صدى ہجرى ميں صوفى مشايخ ميں سے ايك شيخ يعنى شيخ جنيد جو كہ شاہ اسماعيل كے جد تھے انہوں نے طاقت و قدرت اپنے ہاتھوں ميں لينے كيلئے صوفى گروہ اور اپنے مريدوں كو تيار كيا اور اسى ہدف كے پيش نظر صوفيوں كو كفار سے جہاد كيلئے مجبور كيا اور اپنے آپ كو سلطان جنيد كہلايا اس تاريخ كے بعد صوفى لوگ جنگى لباس ميں آگئے_

شاہ اسماعيل كے ابتدائي زمانہ حكومت ميں اسكے مريد اور پيروكار ايك مدت تك اسے صوفى كہتے رہے پھر صوفى اور قزلباش كا عنوان ايك دوسرے كيلئے لازم و ملزم ہوگيا _ شاہ تہماسب كے زمانہ ميں شيعوں اور قديم صوفى مريدوں كى اولاد كا ايك گروہ ديار بكر اور ايشيا ئے كوچك كے كچھ علاقوں سے ايران ميں داخل ہوا اور صوفى گروہ ميں شامل ہوگئے شاہ تہماسب كى وفات كے وقت قزوين ميں صوفيوں كى تعداد دس ہزار تك پہنچ گئي صوفى لوگ قزلباشوں كے ديگر گروہوں كى نسبت بادشاہ كے زيادہ قريب ہوتے تھے صوفيوں كے ہرگروہ كے سربراہ كو خليفہ كا نام ديا جاتا تھا اور تمام صوفيوں كے سربراہ كوخليفةالخلفاء كہا جاتا تھا(۱)

شاہ عباس نے صوفيوں كو نظرانداز كرديا اوروہ تمام اہم امور جو انكے ہاتھوں ميں تھے ان سے لے ليے_ جو كچھ بھى صفويہ دور ميں صوفيوں كے حوالے سے لكھا گيا وہ فقط شيخ صفى الدين اور انكے جانشينوں كے پيروكاروں كے بارے ميں ہے صفوى حكومت كے وسطى زمانہ سے علماء شريعت كى قوت بڑھنے لگى اور اسى نسبت كے ساتھ صوفى لوگ زوال كا شكار ہونے لگے اور انكى مخالفت بڑھنے لگى يہانتك كہ انكے حوالے سے مرتد كافراور زنديق ہونے كى باتيں ہونے لگيں ، قاجارى دورميں اگر چہ صوفيوں كے كام كچھ زيادہ لوگوں كى توجہ كا مركز قرار نہ پائے ليكن حكومت كے استحكام سے معمولى آسايش حاصل ہونے كے ساتھ ساتھ حملہ اور

____________________

۱)نور الدين مدرسى چہاردہي، سلسلہ ہاى صوفيہ ايران ، تہران_

۱۱۵

اذيت سے محفوظ ہوگئے ليكن خانقاہيں پھر منظم اور پرجوش نہ رہيں (۱)

فتوت، عربى زبان ميں ايسى صفت ہے كہ جو كلمہ '' فتي'' سے مشتق ہوئي ہے اور اس شخص كى صفت ہے كہ جس نے جوانى اور شباب ميں قدم ركھا ہويہ كتاب منتھى الارب ميں جوانمردى اور عوامى كے معنى ميں ذكر ہوئي ہے زمانہ جاہليت ميں يہ كلمہ دو مجازى معانى '' شجاعت اور سخاوت'' ميں استعمال ہوا كلمہ فتوت كے مشتقات قرآن مجيد كى سورتوں كہف،يوسف، نساء اورنور ميں ذكر ہوئے ہيں كہ دو يا تين مقامات سے ہٹ كر باقى تمام جگہوں پر جوانمرد يا جوانمردى كے علاوہ معانى ميں انكى تفسير ذكر ہوئي ہے(۲) جنگ احد ميں پيغمبر اكرم نے حضرت على (ع) كو كفار سے دليرى كے ساتھ جنگ كرنے كى بناپر فتى كا لقب ديا اور فرمايا : لا فتى الا علي_(۳) اموى دور ميں فتوت كے معنى ميں وسعت پيدا ہوئي اور مردانگى اور مروت كے مختلف موضوعات اس كے معنى ميں داخل ہوئے ليكن اسكا اساسى ركن ايثار كہلايا كہ جو صوفيانہ فتوت كى سب سے پہلى خصوصيت تھى _

صدر اسلام ميں زاہدين اور سچے مسلمان جہاد اور راہ اسلام ميں جنگ كى مانند اس چيز كواپنى ذمہ دارى سمجھتے تھے _ اس دور كے بعد صوفى حضرات خانقاہوں ميں بسيرا كرنے لگے اور جہاد اصغر سے جہاد اكبر يعنى نفس سے جنگ كى تعليم ميں مشغول ہوئے اسى ليے فتوت كہ جو شجاعت اور كرامت كے مترادف تھا اخلاق حسنہ اور ايثار كے معنى ميں تبديل ہوگيا اور صاحب فتوت كى تين علامات قرار پائيں : (۱_) ايسى وفا كہ جسميں بد عہدى نہ ہو (۲_) بغير توقع كے تعريف كرنا (۳_) بغير مانگے دينا_(۴)

فتوت كى بھى تصوف كى مانند كوئي جامع تعريف موجود نہيں ہے_(۵)

____________________

۱)زين الدين كيانى ناد، سابقہ ما خذص ۲۳۲_

۲)يوسف ۳۰ ، ۳۶ ، ۶۱، ۶۲ ، كہف ۱۰ ، ۱۳، ۵۹ ، ۶۱ ، نساء ۲۹ ، نور ۳۳ ، نيز رجوع كريں محمد جعفر محجوب '' مقدمہ فتوت نامہ سلطانى ، نوشتہ مولانا حسين واعظ كاشفى سبزوارى ص ۹_۷_

۳)سابقہ ما خذمقدمہ ص ۹ _

۴)سابقہ ما خذص ۱۱ _ ۹_

۵) سابقہ ماخذ، ص ۱۱

۱۱۶

فتوت كے حوالے سے ابن عمار حنبلى بغدادى جو اس موضوع پر قديمى ترين كتاب '' كتاب الفتوة'' كے مصنف ہيں اس ميں لكھتے ہيں كہ سنت ميں فتوت كے حوالے سے احاديث بيان ہوئيں ہيں كہ جن ميں سے بہترين احاديث امام جعفر صادق (ع) سے نقل ہوئيں جو انہوں نے اپنے والد اورجد مبارك سے روايت كى ہيں كہ رسول اكرم(ص) نے فرمايا: كہ ميرى امت كے جوانمردوں كى دس علامات ہيں : سچائي ، تعہد سے وفا، امانت ادا كرنا ، كذب سے پرہيز، يتيم پر سخاوت ، سائل كى مدد كرنا ، جو مال پہنچے اللہ كى راہ ميں دينا، بہت زيادہ احسان كرنا، مہمان بلانا اور ان سب سے بڑھ كر حيا ركھنا(۱)

مختلف كتابوں سے تصوف اور فتوت كے حوالے سے بہت سى تعريفيں ملتى ہيں كہ ان كتابوں ميں سے اہم ترين كتابيں '' الفتوة الصوفية اور طبقات الصوفيہ'' مصنف ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى اور سالہ قشيريہ كہ جسكے مصنف ابوالقاسم قشيرى ہيں _(۲)

مسلم بات يہ ہے كہ ان تمام كتب كے مطالعہ سے يہ استنباط ہوتاہے كہ فتوت شروع ميں تصوف كے مسالك ميں سے ايك مسلك كے طور جانا گيا ، عام طورپر يہ جوانمرد لوگ اپنے ''سراويل يا كسوت'' نامى لباس يا حليے كے حامل تھے جس كا عملى سرچشمہ حضرت على كى سيرت اوركردار كو جانتے تھے(۳)

تيسرى صدى كے بعد فتوت صوفيوں كى مذہبى و دينى كتابوں كے علاوہ فتوت ناموں ، عوامى داستانوں ، اشعار اور فارسى ادب كى صورت ميں شاعروں اور اہل سخن و كلام كى تعريف و ستائشے كا محور قرار پايا(۴)

____________________

۱)ابن عمار حنبلى بغدادي، الفتة ص ۲۳۳_ ۱۳۲ صالح بن جناح ، كتاب الادب و المروة ، ترجمہ و تصحيح سيد محمد دامادى ، پوہشگاہ علوم انسانى و مطالعات فرہنگى تہران ص ۸_

۲)فتوت نامہ سلطنى ، سابقہ ما خذص ۱۲ مقدمہ _

۳)محمد جعفر محجوب ، سابقہ ما خذص ۱۳ _ ۱۲_

۴)فتوت نامہ سلطانى ص ۱۳ تا ۱۵ ، على اكبر دہخدا ، امثال و حكم ج ۲_

۱۱۷

فتوت كے حوالے سے قديمى اور معتبر مصادر ميں سے عنصر المعانى كيكاووس بن اسكندر بن قابوس كى كتاب قابو سنامہ ہے كہ جس كے آخرى باب (چواليسواں باب ) ميں جوانمرد ہونے كيلئے قانون كاذكر ہے _ قابوسنامہ كى تفضيلات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس زمانہ ميں اور اس سے قبل فتوت معاشرہ كے تمام طبقات ميں عملى اور اخلاقى احكام كى شكل ميں رائج تھا ہر كوئي اپنے كاموں ميں جوانمرد ہو اور فتوت كے قوانين كى پابندى كرتا تھا_

دوسرى صدى سے فتوت كا مكتب عياري(۱) كے ساتھ مخلوط ہوا اور اسكے خاص آداب اور رسوم تشكيل پائيں اسى ليے پہلوان لوگ ، ورزش كرنےوالے ، طاقتور لوگ، سپاہى اورعيار لوگ اپنے آپ كو جوانمرد كہنے لگے اور دوسرى طرف سے پيشہ ور اورسوداگر و تاجر لوگ اپنى جوانمردى كيلئے مخصوص آداب اور رسوم ركھنے لگے صوفى اور خانقاہ نشين لوگ بھى اپنے مكتب ميں جوانمردى كى رسوم و آداب كا خيال ركھنے لگے اور جو اس راہ ميں دوسروں سے بڑھ كر كوشش كرتا وہ فتوت ميں برتر سمجھا جاتا تھا(۲)

بلا شبہ فتوت كى گروہى صورت ميں فعاليت ايران كے علاوہ ديگر تمام اسلامى علاقوں مثلا شام اور مصر و غيرہ ميں بھى موجود تھى _ اس سے بڑھ كر تمام صليبى جنگوں كے دوران بيت المقدس سے شواليہ نام كے سواروں كا گروہ فرانس اور ديگر يورپى ممالك ميں ان مسلمانوں جوانمردوں ، سواروں كى تقليد كرتے ہوئے يورپ ميں داخل ہوئے كہ جو كرد، لر، فارس، ترك اور عرب قوميتوں سے مخلوط تھے_ بعض مورخين كا عقيدہ ہے كہ يورپ ميں اخلاقى بالخصوص فرانس ميں اخلاقى تربيت اور اصلاح شواليوں كے ان ممالك ميں جانے سے ہوئي كہ انہوں نے ان ممالك ميں جوانمردى ، اصيل زادگى ( ذات كے حوالے سے نجيب ) اور شجاعت كے قانون كو رائج كيا(۳)

____________________

۱) عيارى (پہلوانى كى طرح) قديم زمانے ميں ٹريننگ اور رياضت كى بعض انواع ميں سے ايك تھى جو دوسرى صدى ہجرى كے اواخر سے اسلامى معاشرے ميں پائي جاتى ہے_ عيار اپنى زندگى ميں كچھ خاص طريقوں اور اصولوں كے پابند ہوتے تھے_ بعد ميں عيارى تصوف سے مخلوط ہوگئي_(مصحح)

۲)فتوت نامہ سلطانى ، ص ۱۷ ، ۱۸ ، مقدمہ_

۳) ہانرى كربن ، سابقہ ما خذص ۱۱۹_

۱۱۸

ملك الشعرا بہار نے سيستان كى تاريخ پر حاشيہ ميں لكھا عرب لوگ اپنے جنگجو ، زيرك اور ہوشيار اشخاص كہ جو ہنگاموں ،شورشوں يا جنگوں ميں شجاعت اور ذھانت دكھاتے انہيں عيار كا نام ديتے تھے _ بنى عباس كے دور ميں خراسان اور بغداد ميں عيار لوگ تعداد ميں بڑھ گئے تھے_ سيستان اور نيشابور ميں خاصہ (بادشاہوں يا امراء كے اصحاب و مقربين) اور يعقوب ليث صفار اس طايفہ كے سرداروں ميں سے تھے ہر شہر ميں عياروں كے سر براہ ہوتے تھے كہ جنہيں وہ ''سرہنگ ''كہا كرتے تھے اور كبھى تو ايك شہر ميں كئي سرہنگ اور چند ہزار عيار موجود ہوتے تھے(۱)

غزنوى اور سلجوى ادوار ميں عيار لوگ شہرى معاشرے كا ايك مخصوص طبقہ ہوتے تھے كہ يہ لوگ شہروں ميں عام لوگوں كى مانند يا مشرقى مصادر كى اصطلاح ميں ''اوباش'' كى صورت ميں ہوتے تھے يہ لوگ كفار كے ساتھ جہاد كيلئے مسلح گروہ تشكيل ديتے تھے جنہيں عيار كہا جاتا تھا(۲)

عباسى خليفہ '' الناصر لدين اللہ كا جوانمردوں كے گروہ ميں شامل ہونا اور فتوت كى ''سراويل ''پہننا چھٹى صدى ہجرى كے آخرى سالوں ميں ايك بڑا واقعہ تھا كہ جو فتوت كى تاريخ كے بہت بڑے واقعات ميں شمار ہوتا تھا_ چونكہ وہ جوانمردى كے مكتب كا اسلامى معاشرے ميں نفوذسے باخبر ہوچكا تھا اس ليے اس نے اسے عباسى حكومت كے ستونوں كو مستحكم كرنے كے ليے بہت مفيد جانا تا كہ اس كے ذريعے عباسى حكومت كو زوال سے بچالے اور عباسى حكومت كى عہد رفتہ كى شان و شوكت كودوبارہ زندہ كرے(۳) ۶۵۶ قمرى ميں منگولوں كے حاكم ہلاكو خان كے بغداد پر قابض ہونے اور بغداد ميں عباسى حكومت كے ختم ہونے كے ساتھ فتوت كى فعاليت ميں جمود پيدا ہوگيا چند سال كے بعد حكومت مماليك (سفيد فام غلام جو گردونواح كے مختلف علاقوں پر فرمانروائي كرتے تھے) كى حمايت كے ساتھ مصر ميں برائے نام عباسى خلافت ظاہر ہوئي كہ جن كے ساتھ

____________________

۱)تاريخ سيستان ص ۶_ ۱۷۵_

۲)مجلہ دانشكدہ ادبيات تہران ، س ۴ ، ش ۲ دى ۱۳۲۵ ص ۸۲_

۳)كاظم كاظمينى ، عياران ص ۱۴_ ۱۳ ، حائرى كوربن ، آئين جوانمردى ص ۱۸۰ ، ۱۷۵_

۱۱۹

فتوت بھى ظاہر ہوئے اور انكا مكتب مصر اور شام ميں رائج ہونے لگا اور يہ رواج بعد كے ادوار ميں بھى جارى رہا ليكن عراق ميں عباسى حكومت كے خاتمہ سے يہ مكتب زوال پذير ہوگيا اگر چہ اسكى جڑيں باقى رہيں(۱)

ناصر نے فتوت ناصرى كے طريقہ كو سلجوقيان كى رومى مملكت ميں رواج ديا _ عثمانيوں نے بھى طاقت اور حكومت تك پہنچے كيلئے ''اَخي'' اور اناطولى كے اہل فتوت كو پل كے طور پر استعمال كيا_

اہل فتوت كے ''اخيوں ''كا شيخ صفى الدين اردبيلى كے گرد موجود ہونا اور شاہ اسماعيل صفوى كا اپنے تركى اشعار كے ديوان ميں اپنے مددگاروں اور تابعين كيلئے عنوان ''اخى ''كا استعمال فتيان، قزلباشوں اور شيعوں كے درميان رابطے سے بڑھ كر ان لوگوں كے حكومتى انتظامى امور ميں ناقابل انكار سياسى اور معاشرتى كردار كو ظاہر كرتاہے _ خصوصاً يہ كہ وہ كسوت (صوفيا كا خاص لباس ) پوش اور پاكيزہ صوفيوں يعنى شاہ كے فدائيوں ميں سے شمار ہوتے تھے(۲)

ايرانى خاندانوں كے ايران پر حكومت كے دوران عيار لوگ كشتى كرنے والے پہلوانوں كے بھيس ميں سلاطين كے دربار ميں موجود ہوتے تھے يافوج ميں جنگجو كى صورت ميں اپنے وطن كى خدمت ميں مشغول تھے_ اور جب غير ايران پر قابض ہوئے تو يہ عيارى شكل و شمائل ميں انكے ساتھ جہاد كرتے جيسا كہ منگولوں كے تسلط كے آخرى دور ميں عياروں كى جماعت نے عبد الرزاق بن خواجہ شہاب الدين بيہقى كى سربراہى ميں قيام كيا اور سربداران كى تحريك كو وجودميں لائے_ يہ لوگ اپنے آپ كو شيعوں اور حضرت على (ع) كے جانثاروں ميں شمار كرتے تھے اور فتيان كے مكتب پر عياروں كى ماند عمل پيرا ہوكر لڑتے تھے_

مشہور ہے كہ چنگيز خان نے كسى كو سلسلہ كبرويہ كے چھٹى اور ساتويں صدى كے مشہور عارف اور بزرگ صوفى شيخ نجم الدين كبرى كے پاس (اس پيغام كے ساتھ) بھيجا كہ : '' ميں نے حكم دياہے كہ خوارزم ميں قتل

____________________

۱)جواد مصطفي، مقدمة الفتوة ، تاليف ، ابن عمار حنفى بغدادي، ہانرى كوربن، سابقہ ما خذص ۱۸۳_

۲)عباس اقبال آشتياني،فتوت و خلافت عباسي، محلہ شرق، دورہ يكم ، ش خرداد ۱۳۱۰ ص ۱۰۵ ،۱۰۱_

۳)صالح بن جناح، كتاب الاب والمروة ص ۹ _ ۷۹_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

۱۹_ مغازى واقدى ج ۲ ص۶۴۳ _

۲۰_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۵ _۶۸۷_

۲۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۶_

۲۲_مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۶_

۲۳_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۹ _ '' لا تحلّ الجنّة لعاص''_

۲۴_ جرجى زيدان نے خيبر كے قلعوں كى تصوير اپنى كتاب تاريخ التمدن الاسلامى ميں دى ہے ج ۱ ص ۶۱_

۲۵_ لاعطين الراية غدا رجلا يحبہ اللہ و رسولہ و يحب اللہ و رسولہ كراراً غير فرار لا يرجع حتى يفتح اللہ على يديہ ، بحار الانوار ج ۲۱_۲۸ _

۲۶_ حضرت على (ع) نے فرمايا كہ اس كے بعد ميں درد چشم ميں ہرگز مبتلا نہيں ہوا_

۲۷_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۵۴ _۶۵۳_

۲۸_ ارشاد مفيد ص ۶۷_

۲۹_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۵۴_ ۶۵۵_

۳۰_ بحار الانوار ج ۲۱ ص ۲۶_

۳۱_صحيح بخارى ج ۵ ص ۷۱ ۱ و ج ۵ ص ۲۳ _ تاريخ بخارى ج ۱ ص ۱۱۵ و ج ۴ ص ۱۱۵ _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۱ و ج ۵ ص ۱۹۵ و ج ۷ ص ۱۲۰ _ مسند الحافظ ابى داؤد ص ۳۲۰_مسند امام احمد بن حنبل ج ۱ ص ۹۹ و ج ۲ ص ۳۸۴ سنن ترمذى ج ۵ ص ۶۳۸ _ سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۶۵ _ خصايص ص ۴ _ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۳۱۰ _ طبقات ج ۳ ص ۱۵۶ _عقد الفريد ج ۳ ص ۹۴ _ مستدرك حاكم ج ۳ ص ۴۰۵_ معجم الصغيرطبرانى ص ۱۶۳_ حلية الاوليا ج ۱ ص ۴۳۰_ سنن الكبرى ج ۹ ص ۱۰۷ _ مناقب ابن مغازلى ص ۱۷۶ _ استيعاب در حاشيہ الاصابہ ج ۳ ص ۳۶۶ _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۲۰۱_معالم التنزيل ج ۴ ص ۱۵۶ _الشفا قاضى عياض ج ۱ ص ۲۷۲ _ اسد الغابہ ج ۳ ص ۲۵ _ تذكرة الخواص سبط ابن جوزى ص ۱۵_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۴ ص ۲۲۱_ كفاية الطالب باب ۶۲ص ۱۱۶ _ البداية و النہاية ابن كثير ج ۴ ص ۱۸۴_ مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۲۳ _ الاصابة ج ۲ ص ۵۰۲ _ينابيع المودة ص ۴۱_

۱۶۱

نواں سبق

طرفين كے خسارئے كا تخمينہ

اسيروں كيساتھ اچھا برتاؤ

فتح كے وقت در گزر

مال غنيمت

مال غنيمت ميں خيانت كى سزا

مال غنيمت كى تقسيم

خيبر پر حملے كے نتائج

خيبر ميں لشكر اسلام كى كاميابى كے اسباب

فدك -- غزوہ وادى القري

تيما -- فتح خيبر كے بعد انجام پانے والے سرايا

مكہ كى طرف (عُمرَةُ القضائ)

جنگ موتہ ، عالمى استكبار سے پہلا مقابلہ

گريہ كيوں؟ -- غير مساوى طاقتوں كى جنگ

لشكر اسلام كے دلير سردار جعفر ابن ابى طالب كى شہادت

عبداللہ ابن رواحہ اور زيد ابن حارثہ كى شہادت

مجاہدين كى واپسي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعفر ابن ابيطالب كے سوگ ميں

جنگ ذات السلاسل

سوالات

۱۶۲

طرفين كے خسارے كا تخمينہ

آخرى قلعہ كى فتح كے نتيجہ ميں يہوديوں كو شكست اور لشكر اسلام كو فتح حاصل ہوئي اس جنگ ميں يہوديوں كے ۹۳ سے زيادہ بڑے بڑے جنگجو ہلاك ہوئے جبكہ شہداء اسلام كى تعداد۲۰ افراد سے زيادہ نہ تھى _ اس كے علاوہ قلعوں پرحملے كے نتيجے ميں كچھ يہودى ، لشكر اسلام كى اسيرى ميں آئے_

اسيروں كيسا تھ اچّھا برتاؤ

قلعوں ميں سے جب ايك قلعہ فتح ہوا تو حيّ بن اخطب كى بيٹى صفيّہ اور ايك دوسرى عورت اسير ہوئي تو حضرت بلال ان دونوں كو يہوديوں كے مقتولين كى لاشوں كے قريب سے گزار كر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں لائے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُٹھے اور صفّيہ كے سر پر عباڈال دى اور دونوں عورتوں كے آرام كے لئے لشكر گاہ ميں ايك جگہ معين فرما دى پھر بلال سے سخت لہجہ ميں كہا '' كيا تمہارے دل سے مہرو محبّت ختم ہوگئي ہے كہ تم ان عورتوں كو ان كے عزيزوں كے پاس سے گزار كرلا رہے ہو ؟ '' صفّيہ ''كے دل پر پيغمبر كى محبّت نے بڑا اثر كيا بعد ميں آپ، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى باوفا بيويوں كے زمرہ ميں شامل ہوئيں _(۱)

۱۶۳

فتح كے وقت در گزر

تاريخ كے فاتحين نے جب بھى دشمن پر كاميابى حاصل كى تو شمشير انتقام سے اپنے كينہ كى آگ كو بجھايا اور دشمن كى تباہى ميں بڑى بے رحمى كا ثبوت ديا ليكن خدا رسيدہ افراد نے ہميشہ كاميابى كے موقعہ پر دشمنوں كے ساتھ نہايت لطف و محبّت كا سلوك كيا ہے _ فتح خيبر كے بعد ، خيبر كے جن افراد نے زيادہ مال صرف كر كے جنگ احزاب كى عظيم شورش بر پا كى تھى اور اسلام كو خاتمہ كے دہانہ پر لاكھڑا كيا تھا ان كے سروں پر پيغمبررحمتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لطف و عطوفت كا سايہ رہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہيں اجازت دى كہ سرزمين خيبر ميں اپنے گھروں ميں كام اور حسب سابق كھيتى باڑى ميں مشغول رہيں اس كے بدلے خيبر كى آمدنى كا آدھا حصّہ مسلمانوں كو ديں_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح كے وقت نيزے كى نوك پر اسلام مسلّط نہيں كيا بلكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو مذہبى شعائر و رسوم كى ادائيگى كى آزادى مرحمت فرمائي_(۲)

مال غنيمت

فتح خيبر اور يہوديوںكو غير مسلح كرنے كے بعد كافى مقدار ميں ہتھيار ، جنگى سازو سامان ، يہوديوں كے زيورات سے مالامال خزانہ ، كھانے كے برتن ،كپڑے ، بہت سے چوپائے اور كھانے پينے كا بہت زيادہ سامان مال غنيمت كے طور پر لشكر اسلام كے ہاتھ آيا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ ايك شخص جانبازان اسلام كے در ميان اعلان كرے كہ '' ہر مسلمان پر لازم ہے كہ مال غنيمت كو بيت المال ميں لا كر جمع كردے _چاہے وہ ايك سوئي اور دھاگہ ہى كيوں نہ ہو _ اس لئے كہ خيانت ننگ و عار ہے اور قيامت ميں اس كى سزا آگ ہے_(۳)

۱۶۴

پھر عادلانہ تقسيم كے لئے تمام مال غنيمت ايك جگہ جمع ہوا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ اس ميں سے كچھ نقد كى صورت ميں لوگ تبديل كر لائيں _

'' فروہ'' جو مال غنيمت بيچنے كے كام پر مامور كئے گئے تھے ، انہوں نے مال غنيمت ميں سے ايك دستار ،دھوپ سے بچنے كے لئے اپنے سر پر باندھ ركھى تھى ، فراغت كے بعد دستار اتارے بغيربے خبرى كے عالم ميں اپنے خيمہ ميں چلے گئے وہاں دستار كاخيال آيا تو فوراً خيمہ سے باہر نكلے اور دستار مال غنيمت كے ڈھير پر ركھ دى _ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو يہ خبر ملى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' يہ آگ كى دستار تھى جو تم نے اپنے سر پر باندھ ركھى تھى _(۴)

مال غنيمت ميں خيانت كى سزا

سپاہيوں ميں سے '' كَركَرہ'' نامى ايك شخص رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے مركب كى نگہبانى پر مامور تھا واپسى كے دوران اسے ايك تير لگا اور وہ مارا گيا_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لوگوں نے پوچھا كہ كيا ''كركرہ''شہيد ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' مال غنيمت ميں سے عبا چرا نے كے جرم ميں اب آگ ميں جل رہا ہے''_

اس موقع پر ايك شخص نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كہا كہ '' ميں نے بغير اجازت كے ايك جوڑا جوتا مال غنيمت سے لے ليا ہے _'' آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما يا '' واپس كردو ورنہ قيامت كے دن آگ كى صورت ميں يہ تمہارے پيروں ميں ہوگا _(۵)

مال غنيمت كى تقسيم

خمس نكالنے كے بعد ، جانبازان اسلام كے در ميان مال غنيمت تقسيم ہوا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے

۱۶۵

ان عورتوں كو جنہوں نے لشكر اسلام كى مدد اور تيمار دارى كى تھى بيش قيمت گلوبند و غيرہ عطا فرمائے_(۶)

ايك شخص كو ايك خرابہ سے دو سو درہم ملے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خمس نكال ليا اور بقيہ در ہم اس كو ديدئے_(۷)

لشكر اسلام خيبر سے كوچ كرنے ہى والا تھا كہ مہاجرين حبشہ كے سرپرست جعفر ابن ابى طالب حبشہ سے واپس آگئے جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مدينہ ميں نہيں پايا تو خيبر كى طرف چل پڑے _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعفر(ع) كى واپسى پر بہت خوش ہوئے سات قدم ان كے استقبال كے لئے بڑھے اور فرمايا سمجھ ميں نہيں آتا كہ كس بات كے لئے زيادہ خوشى مناؤں ؟فتح خيبر كے لئے يا جعفر كى واپسى كے لئے؟''(۸)

خيبر پر حملے كے نتائج

خيبر كا حملہ ، اسلام كے خلاف يہوديوں كى اقتصادى اور جنگى طاقت كى كمى كا باعث بنا_ اس حملے كے دوسرے نتائج ميں سے ايك يہ ہے كہ ، يہوديوں كے اس گروہ كے ہتھيار ڈال دينے كى بدولت مشركين كى فوج ميں خوف و ہراس پھيل گيا اوراسلام كى تحريك مزيد پائيدار ہوگئي_

خيبر ميں لشكر اسلام كى كاميابى كے اسباب

۱_ بہترين جنگى حربوں اور موثر حكمت عملى كا استعمال

۲_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام كى دقيق اور حكيمانہ سپہ سالارى اور لشكر اسلام كا سپہ سالار كے حكم پر مكمل عمل كرنا_

۱۶۶

۳_ جنگى حوالے سے مناسب جگہ پر پڑاؤ

۴_ خيبر كے كامل محاصرے تك لشكر اسلام كى مكمل پوشيدگى _

۵_ دشمن كے حالات كى اطلاع او ر ہر قلعہ ميں لشكر كى تعداد و كيفيت كے بارے ميں مكمل معلومات _

۶_ حضرت على (ع) كى بے امان جنگ '' ايسى جنگ كہ دشمن كے نقصانات ميں سے آدھا نقصان دست زبردست حيدر كرار كى توانائي كا نتيجہ تھا_

فدَك

خيبر سے ايك منزل اور مدينہ سے ۱۴۰ كيلوميٹر دور كچھ يہودى فدك نامى ايك قصبہ ميں رہتے تھے_يہ لوگ خيبر كے يہوديوں كے انجام سے خوفزدہ تھے ا ور خدا نے ان كے دل ميں خوف و دہشت مزيد بڑھاديا _ اس وجہ سے انہوں نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نمائندہ كے جواب ميں ايك شخص كو معاہدہ صلح كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيجا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معاہدہ كيا كہ آدھا فدك آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالہ كريں گے اور اسميں كھيتى كرنے كے ساتھ ساتھ اس كى آمدنى بھى ان كے حوالہ كريں گے _(۹)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فدك فاطمہ زہراء سلام اللہ عليھا كو عطا كرديا _ فدك كى سالانہ آمدنى ، ۲۴۰۰۰درہم تھى جناب فاطمہ(ع) اس آمدنى كا بيشتر حصّہ بے سہارا لوگوں كى امداد اور اجتماعى مصالح ايسے امور خير ميں صرف كرتى تھيں _(۱۰)

غزوہ وادى القري( ۷ ھ ق)

خيبر كى جنگ ختم ہونے كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدينہ سے ۳۵۰ كيلوميٹر دور وادى القرى كى

۱۶۷

طرف روانہ ہوئے جو يہوديوں كا ايك اہم مركز شمار كيا جاتا تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كا محاصرہ كر ليا ، قلعہ چند دنوں تك لشكر اسلام كے محاصرے ميں رہا _ انجام كار فتح و كامرانى كے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زمينوں كو انہى كے قبضہ ميں رہنے ديا اوروہى معاہدہ جو خيبر كے يہوديوں سے ہوا تھا ان سے بھى طے پايا_(۱۱)

تَيمائ( ۷ ھ ق)

مسعودى كى تحرير كے مطابق '' تيمائ''(۱۲) كے لوگ يہودى اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمن تھے جب ان لوگوں نے وادى القرى كے فتح ہونے كى خبر سنى تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صلح كرلى اور جزيہ دينے پر تيار ہوگئے(۱۳) اس طرح سے جزيرة العرب سے يہوديوں كى طرف سے جنگى خطرہ بالكل ہى ختم ہوگيا_

فتح خيبر كے بعد انجام پانے والے سرايا

خيبر كى فتح كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ديرينہ دشمن كى طرف سے مطمئن ہوگئے اور مدينہ ميں وہ امن و سكون ہوا جو پہلے كبھى نہ تھا _ماہ صفر سے لے كر ذيقعدہ تك چند مہينوں كى مدّت ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف چھ گروہ اطلاعات حاصل كرنے يا ان بكھرے دستوں اور جماعتوں كى تنبيہ و سزا كے لئے روانہ فرمائے جنہوںنے امن و امان ميں رخنہ ڈال ركھا تھا_ ان سرايا كے علاوہ كوئي دوسرا جنگى حملہ وقوع پذير نہيں ہوا_(۱۴)

مكہ كى طرف ( عمرة القضائ)

يكم ذيقعدہ ۷ ھ(بروز جمعرات بمطابق ۳ فرورى سنہ ۶۲۸ئ)

۱۶۸

صلح حديبيہ كے ايك سال بعد صلح نامہ كے مطابق مسلمان عمرہ بجالانے كے لئے تين روز تك مكہ ميں ٹھہر سكتے تھے _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشكر اسلام كے دو ہزار افراد كے ساتھ عمرہ كے لئے روانہ ہوئے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمراہ صلح حديبيہ اور بيعت رضوان ميں شامل تمام افراد موجود تھے سوائے خيبر ميں شہيد يا اس سے قبل وفات پا جانے والے مسلمانوں كے ، البتہ ك۱چھ دوسرے لوگ بھى سفر ميں شريك ہوگئے تھے_

معاہدے كے مطابق چونكہ مسلمان سوائے تلوار كے (جو مسافر كا اسلحہ سمجھا جاتا تھا)اپنے ساتھ زيادہ ہتھيار نہيں ركھ سكتے تھے_ اس لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ممكنہ خطرے سے بچنے كے لئے لشكر اسلام كے ايك سردار كو دوسو جاں بازوں كے ہمراہ كافى اسلحہ كے ساتھ آگے بھيج ديا تا كہ وہ لو گ '' مرّ الظّہران'' پر مكہ سے ۲۲ كيلوميٹر شمال ميںٹھہريں اور ايك درّہ ميں آمادہ رہيں _

مسلمان ، مكہ كے قريب پہنچے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ناقہ قصوى پر سوار اور عبداللہ ابن رواحہ مہار تھامے ہوئے فخر كے ساتھ رجز پڑھتے جاتے تھے_

دو ہزار مسلمان خاص شان وشوكت كے ساتھ جبكہ ان كى آواز فرط شوق سے لرزرہى تھى '' لبيك اللّہم لبيك'' كى آواز بلند كرتے جارہے تھے_ برسوں بعد ، كعبہ كى زيارت كى توفيق نصيب ہوئي تھي_

قريش نے شہر مكہ خالى كرديا تھا اور پہاڑ كى بلنديوں سے مسلمانوں كى جمعيت كو ديكھنے ميں مشغول تھے_ مسلمانوں كى صدائے لبيك كى پر شكوہ گونج نے ان كے دلوں پر وحشت طارى كردى تھى ، عمرہ ادا كرنے كے بعد احتياطى فوج كى جگہ دوسرے گروہ نے لے لى اور انہوں نے عمرہ كے فرائض انجام ديئے_

۱۶۹

مكہ ميں تين روزہ قيام كى مہلت تمام ہوئي _ قريش نے ايك شخص كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيجا اور مطالبہ كيا كہ جتنى ج ى ہو سكے مكّہ سے نكل جائيں_

اس سفر ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مكّہ كے شمال ميں ۱۲ كيلوميٹر كے فاصلہ پر مقام َسرف ميں جناب ميمونہ سے عقد فرمايا اور اس طرح قريش كے در ميان اپنى حيثيت اور زيادہ مضبوط كرلي_(۱۵)

عمرة القضاء كے بعد ۷ ھ ميں چار دوسرے سرايا بھى پيش آئے_

جنگ موتہ

يكم جمادى الاوّل ۸ ھ بمطابق اگست،ستمبر ۶۲۹ئ

عالمى استكبار سے پہلا مقابلہ

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بادشاہ بُصْرى كے پاس ايك سفير بھيجا سفير رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب شام كى سرحد پر واقع سرزمين ''موتہ ''پر(۱۷) پہنچے تو وہاں كے حاكم نے سفير كو قتل كر ديا _(۱۸) ربيع الاول كے مہينہ ميں پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے ۱۶ مبلغين مقام '' ذات اَطلاح'' كے سفر پر مامور كئے گئے وہ بھى اسى سرزمين كے لوگوں كے ہاتھوں قتل كرديئے گئے _ ان ميں سے ايك آدمى زخمى ہوا اور لاشوں كے بيچ گر پڑا اور پھر كسى طرح فرار ہو كر مدينہ پہنچا_(۱۹)

يہ واقعات سبب بنے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موتہ كى طرف ايك لشكر روانہ فرمائيں_

جہاد كا فرمان صادر ہوتے ہى تين ہزار مسلمان جمع ہوگئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كے سپہ سالاروں كو مندرجہ ذيل ترتيب كے مطابق معين فر مايا_

۱۷۰

جب تك زيد ابن حارثہ زندہ رہيں وہ تمہارے سپہ سالار ہوں گے اور اگر زيد شہيد ہوگئے تو پھر جعفر ابن ابى طالب(۲۰) او ر ا گر وہ بھى شہيد ہو گئے تو عبداللہ ابن رواحہ اور اگروہ بھى شہيد ہوگئے تو مسلمان اپنے درميان سے خود ہى ايك سالار كا انتخاب كر ليں(۲۱)

گريہ كيوں؟

لشكر كى روانگى كے وقت اہل مدينہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمراہ جانبازان اسلام كو رخصت كرنے كے لئے جمع ہوئے عبداللہ ابن رواحہ گھوڑے پر سوار تھے اور آگے اپنے بيٹے كو سوار كئے ہوئے تھے اور اسى حالت ميں شدّت كے ساتھ گريہ فرمارہے تھے _ لوگوں نے سوچا كہ وہ بيوى اور بيٹے كى محبت اور ان سے جدائي كے غم ميں يا موت كے خوف سے رورہے ہيں عبداللہ ابن رواحہ جب لوگوں كے گمان كى طرف متوجہ ہوئے تو سر اٹھايا اور كہا '' اے لوگوں ، ميرا گريہ زندگى ، بيوي، بيٹے، گھربار اور خاندان كى محبّت ميں نہيں ، ميں شہادت سے نہيں ڈرتا اور نہ ہى اس وجہ سے رورہا ہوں بلكہ ميرے گريہ كا سبب قرآن كى مندرجہ ذيل آيت ہے _

''( و انْ منْكُمْ الاّ وَاردُهَا كَانَ عَلى رَبّكَ حَتْمَاً مَقْضيّاً ثُمَّ نُنَجيَ الَّذينَ اتَّقَوا وَ نَذَرُ الْظَالمينَ فيهَا جثيّاً ) (۲۲)

''تم ميں سے كوئي شخص باقى نہيں رہے گا جز اس كے كہ دوزخ ميں جائے اور يہ تمہارے پروردگا ر كا حتمى حكم ہے _ دوزخ ميں داخل ہونے كے بعد ہم ان افراد كو جو خدا ترس اور

۱۷۱

باتقوا تھے، نجات ديں گے اور ستم گاروں كو چھوڑديںگے تا كہ وہ گھٹنوں كے بل آگ ميں گر پڑيں_

مجھے اطمينان ہے كہ مجھے جہنّم ميں لے جايا جائے گا ليكن يہ كيسے پتہ چلے كہ نجات دى جائے گى _(۲۳)

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كے ساتھ شہر كے دروازہ تك مجاہدين كو رخصت كيا اور فرمايا ''دفع اللہ عنكم و ردّكم سالمين غانمين'' يعنى خدا تمہارا دفاع كرے اور سلامتى اور غنيمت كے ساتھ واپس پلٹائے ليكن عبداللہ ابن رواحہ نے جواب ميں شعر پڑھا جس كا مطلب تھا_ميں خداوند رحمان سے مغفرت طلب كرتا ہوں اور اس سے شمشير كى ايسى ضربت كا خواہاں ہوں جو ميرى زندگى كو ختم كردے_(۲۴)

خداحافظ كہتے وقت عبداللہ ابن رواحہ نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نصيحت كرنے كى خواہش كى ، حضرت نے فرمايا '' جب تم ايسى سرزمين پر پہنچو جہاں اللہ كى عبادت كم ہوتى ہے تو اس جگہ زيادہ سجدے كرو''_عبداللہ نے كہا كچھ اور نصيحت فرمائيں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدا كو ياد كرو، خدا كى ياد مقصد تك پہنچنے ميںتمہارى مددگار ہے ''(۲۵) _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كے اميروں كو حكم ديا كہ '' خدا كے نام سے اس كى راہ ميں جنگ كرواور جو خدا كا انكار كرے اس سے لڑو _ دھوكہ بازى نہ كرو، بچوں كو قتل نہ كرو، جب مشركين سے سامنا ہوتو تين چيزوں ميں سے ايك كى دعوت دو اور جب كسى ايك كو قبول كرليں تو ان سے دست بردار ہو جاؤ _ پہلے اسلام كى دعوت دو اگر قبول كرليں تو ان سے جنگ نہ كرو_ دوسرے ان سے مطالبہ كرو كہ اپنى زمين سے چلے جائيں اور ہجرت كريں اگر قبول كرتے ہيں تو ان كے لئے وہى حقوق ہيں جو دوسروں كے لئے ہيں ،اگران دونوں باتوں كے قبول كرنے سے انكار كريں

۱۷۲

تو جزيہ ادا كرنے كى دعوت دو اگر ان تمام باتوں سے سرتابى كريں تو خدا سے مدد مانگو اور ان سے جنگ كرو''(۲۶) _

غير مساوى طاقتوں كى جنگ

لشكر اسلام موتہ كى جانب روانہ ہوا_ جنوب عمان ميں ۲۱۲ كيلوميٹر دور مقام ''معان''پرخبر ملى كہ بادشاہ روم ہرَقُل ايك لاكھ سپاہيوں كو ''بلقائ'' كے علاقہ ميں سرزمين ''مآب'' تك بڑھا لا يا ہے_ اور اس علاقہ كے ايك لاكھ عرب جنگجو روميوں كى مدد كے لئے لشكر روم سے آملے ہيں _

يہ خبر اميران لشكر كے آپس ميں مشورہ كا سبب بنى _ شروع ميں تو ان كا ارادہ تھا كہ اس واقعہ كى خبر پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو دى جائے اور ان سے معلوم كيا جائے كہ كيا كرنا چاہيئےكن عبداللہ ابن رواحہ نے شجاعانہ و حماسہ ساز تقرير كے ذريعے انہيںاس فكر سے بازر كھا_ آپ نے لشكر كو خطاب كرتے ہوئے كہا '' اے لوگوں خدا كى قسم ، جو چيز تمہيں اس وقت ناپسند ہے اسى كو طلب كرنے كے لئے تم نكلے ہو يہ وہى شہادت ہے جس كے شوق ميں تم نے سفر كى زحمت برداشت كى ہے ، ہم نے كبھى بڑے گروہ ، كثير جماعت اور عظيم لشكر كے ذريعہ جنگ نہيں كى ،ہم ايمان كى طاقت سے لڑتے ہيں جس كى بدولت خدا نے ہميں بزرگى دى ہے ، اٹھو اور اپنے راستہ پر چل پڑو ہمارے سامنے (احَدُ الحسنين ) دوا چھے راستے ہيں ، فتح يا شہادت_(۲۷)

عبد اللہ ابن رواحہ كى شعلہ بار تقرير كے بعد لشكر اسلام ٹڈى دل لشكر كى طرف چل پڑا _ اور بلقاء كى سر حد پر روم كا دو لا كھ كا لشكر تين ہزار مجاہدين سے روبرو ہوا _ لشكر اسلام كى بے

۱۷۳

امان جنگ شروع ہوئي اور اللہ والے جو شہادت كو بقاء كاراز سمجھتے تھے، شہادت كے استقبال كے لئے دوڑ پڑے_

لشكر اسلام كے دلير سردار جعفر ابن ابى طالب(ع) كى شہادت

جنگ كے شور و غل ميں جعفر ابن ابى طاب نے پرچم ہاتھ ميں ليا اور مردانہ وار قلب لشكر پر حملہ كرديا اور ان كے نرغہ ميں گھر گئے آپ نے اپنے گھوڑے كو پيچھے چھوڑ ديا تا كہ وہ دشمن كے ہاتھ نہ آسكے اور پيادہ لڑتے رہے(۲۸) جب آپ كا داہنا ہاتھ قلم ہوا تو پرچم كو بائيں ہاتھ ميں سنبھالا يہاں تك كہ آپ كا باياں ہاتھ بھى كٹ گيا اس كے بعد آپ نے پرچم كو سينے سے لگاليا _ يہاں تك كہ شہادت كى سعادت سے مشرف ہوئے خدا نے ان كے كٹے ہوئے ہاتھوں كے بدلے دو پر عنايت كئے تا كہ وہ فرشتوں كے ساتھ جنّت ميں پرواز كريں اس لئے آپ(ع) '' جعفر طيار'' كے لقب سے ملقب ہوئے _(۲۹)

عبداللہ ابن رواحہ اور زيد ابن حارثہ كى شہادت

جناب جعفر كى شہادت كے بعد زيد ابن حارثہ نے پرچم اٹھايا اور لشكر كفر پر حملہ كرديا اور دليرانہ جنگ كے بعد درجہ شہادت پر فائز ہوئے _ تيسرے سردار لشكر عبداللہ ابن رواحہ نے پرچم اٹھايا تھوڑى دير تك سوچتے رہے كہ جنگ جارى ركھى جائے يا نہيں ، آخر كار رجز پڑھتے ہوئے سپاہ دشمن پر حملہ آور ہوئے_

اے نفس ، اگر تو ابھى قتل نہيں ہوگا تو بالآخر مرہى جائے گا_كبوتر(فرشتہ) مرگ آن پہنچا ہے _

۱۷۴

جو تيرى آرزو تھى اس كا وقت بھى آگيا ہے _

اگر ان دونوں (جعفر اور زيد)كے راستے پر چلو گے تو نجات پاجاؤگے_

يہ رجز پڑھ كر عبداللہ دليرانہ انداز ميں قلب لشكر پر حملہ آور ہوئے ان كى تلوار كافروں كے سروں پر موت كے شعلے بر سار ہى تھى _ آخر كار عبداللہ بھى اپنے رب سے جا ملے اور انہيں اسى انداز ميں شہادت نصيب ہوئي جو انہوں نے خداوند عالم سے طلب كى تھى كہ ان كے جسم كو گلگوں بناديا جائے_(۳۰)

مجاہدين كى واپسي

عبد اللہ ابن رواحہ كى شہادت كے بعد سپاہيوں كى رائے اور پيش كش سے خالد ابن وليد(۳۱) سردار لشكر بنے _ خالد نے جنگ كو بے نتيجہ ديكھا اور رات تك تھوڑى بہت پراگندہ طور پر جنگ جارى ركھى ، رات كو جب دونوں لشكر جنگ سے رك گئے تو خالد نے لشكر گاہ كے پيچھے بہت سے سپاہيوں كو بھيجا تا كہ صبح كو خوب شور و غل مچاتے ہوئے لشكر سے آمليں _ صبح شور و غل سنكر روميوںنے يقين كر ليا كہ مدينہ سے ايك عظيم امدادى لشكر آن پہنچا ہے _ چونكہ رومى مسلمانوں كى تلوار كى طاقت اور ان كے جذبہ شہادت كوديكھ چكے تھے اس لئے جنگ ميں پس و پيش كرتے ہوئے حملہ كرنے سے باز رہے اور مسلمانوں كے حملہ كا انتظار كرتے رہے اور جب انہوں نے ديكھا كہ خالد كا حملہ كا كوئي ارادہ نہيں ہے تو عملى طور پر جنگ بندى ہو گئي _ خالد نے عقب نشينى كے ذريعہ مسلمانوں كو دشمن كے دولا كھ جنگجوؤں كے چنگل سے بچاليا_

اس جنگ كے نتيجہ ميں ايك طرف مسلمان روميوں كے جنگى حربوں اور طريقہ كار سے

۱۷۵

آگاہ ہوگئے اور دوسرى طرف شہادت كے شيدا لشكر اسلام كا رعب و دبدبہ روم كى مغرور فوج كے دلوں ميں بيٹھ گيا_ لشكر مدينہ واپس آيا لوگ نہايت بر انگيختہ اور غيظ وغضب كے عالم ميں تھے اور سپاہى ملول و خاموش ، لوگ آگے بڑھے اور خاك اٹھا كر سپاہيوں كے چہروں پر ڈالنے اور شور كرنے لگے كہ '' اے فراريو تم لوگ خدا كے راستے سے فرار كرتے ہو؟ سپاہى اپنے گھروں ميں چلے گئے اور ملامت كے خوف سے ايك مدّت تك گھروں سے باہر نہ نكلے _ يہاں تك كہ نماز جماعت ميں بھى نہيں آتے تھے _ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' يہ لوگ فرارى نہيں ہيں اور انشاء اللہ حملہ كرنے والے ہو جائيں گے''(۳۲) _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعفر ابن ابيطالب(ع) كے سوگ ميں

مسلمانوں كى كيفيت اور خصوصاً جعفر كى موت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بے حد غمگين تھے _ حضرت جعفر كے شہيد ہونے پر آپ نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شدّت كے ساتھ گريہ كيا جعفر كے گھر والوں كو تسلّى دينے كے لئے ان كے گھر تشريف لے گئے اور فرمايا كہ '' ميرے بچے ، عون ومحمد اور عبداللہ كہاں ہيں ؟ جناب جعفر كى بيوى اسمائ، حضرت جعفر كے بيٹوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں لائيں ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہيد كے بچوںكو پيار كيا ، گلے لگايا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى آنكھوں سے آنسو نكل كرڈاڑھى پر بہنے لگے _حضرت جعفر كى بيوى نے پوچھا _ '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فدا ہوں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرے بچوّںكو اس طرح پيار كررہے ہيں جيسے كسى يتيم كو پيار كياجاتا ہے گويا ان كے باپ اس دنيا ميں نہيں رہے ؟''رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمايا ، ہاں وہ قتل كرديئےئے ، پھر فرمايا، اے اسماء ايسا نہ ہو كہ تم اپنى زبان سے كوئي ناروا بات نكالو اور سينہ كو بى كرو ميں تمہيں خوشخبرى سناتا ہوں ، خدا نے جعفر كو دو ، ''پَر'' عطا كئے ہيں جن سے وہ بہشت ميں پرواز كرتے ہيں _(۳۳)

۱۷۶

جنگ ذات السّلاسل

جمادى الثانى ۸ ھ ق ستمبر ،اكتوبر ۶۲۹ ئ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اطلاع ملى كہ قبلائل بَليّ اور قضاعة كے كچھ لوگ جمع ہو كر مدينہ پر حملہ كرنے كى فكر ميں ہيں _

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے لشكر تيار ہوا اور اس كى سپہ سالارى عمروبن عاص كے سپرد ہوئي _ اسكى وجہ يہ تھى كہ عمرو كى بڑى ماں (دادى يا ناني) قبيلہ بليّ سے تھى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چاہا كہ عمرو بن عاص كو سپہ سالارى ديكر اس گروہ كے دلوں كو اسلام كى طرف مائل كيا جائے _ عمروبن عاص اور اس كا لشكر دن ميں كمين گاہ ميں چھپے رہتے اور راتو ں كو سفر كرتے جس وقت دشمن كے قريب پہنچے تو پتہ چلا كہ دشمن كى تعداد زياد ہے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابو عبيدہ جراح كو دو سو فراد كے ايك دستہ كے ساتھ مدد كے لئے بھيجا عمروبن عاص كے لشكر نے ابو عبيدہ كے امدادى لشكر كے ساتھ قبائل بليّ ، عذرہ اور بَلْقين كے تمام رہائشےى علاقہ كا دورہ كيا ليكن دشمن پہلے ہى خبر پا كر علاقہ سے بھاگ چكے تھے _

صرف آخرى مقام پر لشكر اسلام اور لشكر كفر كے در ميان ايك گھنٹہ تك ٹكراؤہوا جس ميں ايك مسلمان زخمى اور دشمن شكست كھا كر فرا كر گئے _(۳۴)(۳۵)

۱۷۷

سوالات

۱_خيبر ميں لشكر كى كاميابى كے اسباب كيا تھے؟

۲_مال غنيمت ميں خيانت كے سلسلہ ميں ايك واقعہ بيان كيجئے_

۳_ فدك كاواقعہ كيا ہے؟

۴_ عمرة القضاء كس مہينہ ميں تھا؟

۵_ روم كى بڑى طاقت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سپاہيوں نے كيوں جنگ كى ؟

۶_ روانگى كے وقت عبد اللہ ابن رواحہ كيوں رورہے تھے؟

۷_ جعفر ابن ابيطالب'' جعفر طياّر'' كے نام سے كيوں مشہور ہوئے؟

۱۷۸

حوالہ جات

۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۷۳

۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۷۱ و سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۵۱ _۳۵۲

۳_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۰

۴_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۱

۵_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۱

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۵۶ _۳۵۷

۷_مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۲

۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۳_زاد المعاد ج ۳ ص ۳۳۳ _سنن ابى داود (۲۷۴۵ ) صحيح بخارى ج ۷ ص ۳۷۱

۹_مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۰۶_

۱۰_پوہشى عميق از زندگانى على (ع) ص ۲۶۱ _۲۶۶

۱۱_تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۷ _۱۶ سے تلخيص _ محمد رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ص۲۸۴_فتوح البلدان ص ۴۷

۱۲_ تيماء ، مدينہ سے آٹھ منزل پر مدينہ اور شام كے راستہ ميں ايك مقام ہے _

۱۳_التنبيہ والاشراف ص ۲۲۴

۱۴_تاريخ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مصنفہ ڈاكٹر آيتى كے مطابق ص ۴۸۶ _۴۸۳_

۱۵_مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۴۰ _ ۷۳۱ يہاں خلاصہ ذكر كيا گيا ہے_

۱۶_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵_

۱۷_ يہ سرزمين ا ب شہداء موتہ كى آرام گاہ ہے اور سرزمين اردن ہاشمى ميں واقع ہے_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۵ _ بحارالانوار ج ۲۱_۵۸

۱۹_ طبقات كبرى ج ۲ ص ۱۲۸_مغازى ج ۲ ص ۷۸۲

۲۰_ اگر چہ اہل سنت كى بہت سى تاريخوں ميں يہ بات مرقوم ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كا پہلا اميرزيد بن حارث كو

۱۷۹

معيّن فر ما يا اور زيد كے قتل ہوجانے كى صورت ميں جعفر بن ابى طالب اور ان كے بعد عبداللہ بن رواحہ ليكن كعب بن مالك كے شہداء موتہ كے بارے ميں مرثيہ سے ثابت ہوتا ہے كہ جعفر لشكر كے پہلے امير تھے_ كعب كہتے ہيں كہ '' اذ يہتدون بجعفر ولوائة قدّام اوّلہم فنعم الاوّل'' سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۸_

۲۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۸ _ بحار الانوار ج ۲۱ ص ۵۵ _

۲۲_ سورہ مريم آيت ۷۱_۷۲_

۲۳_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵ _ اور تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۷

۲۴_'' ولكننّى ا سا ل الرّحمن مغفرة وضَربةً ذا ت فرع: تقذف الزّبداً '' سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵_

۲۵_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۸_

۲۶_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۷بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۱_

۲۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷ _ تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۸_

۲۸_ بحارالانوار ج ۲۱ ص ۵۴_

۲۹_ بحارالانوار ج ۲۱ ص ۶۲ _ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۰_

۳۰_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۱ _

۳۱_ خالد ابن وليد اور عمرو ابن عاص دونوں آپس ميں دوست اور اسلام كے سخت ترين دشمن تھے مسلمانوں كى پے در پے فتوحات او رعمرة القضاء كے موقع پر ان كى شا ن و شوكت و عظمت ديكھنے كے بعد ان لوگوں نے يہ سمجھ ليا كہ اسلام كى كاميابى اور فتح يقينى ہے _ اس وجہ سے ان دونوں نے يہ الگ الگ طے كيا كہ مسلمان ہوجائيں _ لہذا دونوں ايك دوسرے سے الگ اور بے خبر مدينہ كى طرف چلے اور راستہ ميں اچانك ايك دوسرے سے مل گئے اور پھر مدينہ ميں رسول خدا كى خدمت ميں شرفياب ہوئے اور اسلام قبول كيا _(مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۴۱ _۷۵۰ملاحظہ ہو)_

۳۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۶۵_

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298