تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي20%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162648 / ڈاؤنلوڈ: 3888
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

بت شكن ، بت پرست

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان بت پرستوں سے بيعت لى جواب مسلمان ہوگئے تھے اورعورتوں كے لئے بھى پانى كا ايك برتن لا يا گيا اور اس ميں تھوڑا سا عطر ملا ياگيا _ عورتوں نے اپنے ہاتھ بيعت كى غرض سے پانى كے اندر ڈالے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے يہ عہد و پيمان ليا كہ وہ شرك، زنا اور چورى نہ كريں

پھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب كو حكم ديا كہ جو بت ان كے پاس ہيں ان كو توڑڈاليں يہاں تك كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بڑے بڑے مشركين كو بتوں كے توڑنے كے لئے قرب و جوار ميں بھيجا _يہ لوگ بتوں پر اعتقاد ركھتے تھے اور اپنے مفادات كے لئے بتوں كى حمايت كرتے تھے اب خود ہى بت شكنى ميں مصروف ہوگئے_

آزاد شدہ شہر ''مكہ ''كے لئے والى اور معلم دين كا تقرر

مشرك قبيلے '' ہوازن اور ثقيف'' كى سازشوں كى خفيہ خبريں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك پہنچ چكى تھيں_ اب ان كے علاقوں ميں پہنچ كر سازشوں كو كچل دينا پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے ضرورى تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بيس سالہ لائق اور مدبّر جوان ''عتّاب بن اسيد'' كو شہر مكہ كا والى بنايا(۱۱) اور معاذ ابن جبل كو جو معارف اسلام سے واقف فقيہ تھے ، تبليغ اسلام اور مكہ والوں كو احكام دين سے آشنا كرنے كے لئے معلّم كے عنوان سے معيّن فرمايا_(۱۲) فتح مكہ كے سلسلہ ميں سورہ نصر نازل ہوا _ ( ۱۳ )

اسلام كے نام پر خونريزى اور جرائم

فتح مكہ كے بعد ر سول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خالدبن وليد كو بت شكنى اور تبليغ اسلام كے لئے ۳۵۰ ، مہاجرين و انصار كے ساتھ قبيلہ بنى جذيمہ كى طرف بھيجا _خالد نے وہاں پہنچنے كے بعد بنى

۲۰۱

جذيمہ كو كسى قسم كا حملہ نہ كرنے كا يقين دلا كر غير مسلح كرديا اور پھر زمانہ جاہليت ميں بنى جذيمہ كے ہاتھوں قتل ہوجانے والے چچا كا بدلہ لينے كے لئے فرمان رسول خدا كى مخالفت كرتے ہوئے ان كو اسير بناليا اور پھر قتل كا حكم ديديا_ مہاجرين و انصار نے خالد بن وليد كے حكم پر عمل كئے بغير اسيروں كو آزاد كرديا جبكہ خالد كے قبيلہ ، بنى سليم نے بعض اسيروں كو قتل كرڈالا اور اس طرح كچھ بے گناہوں كو موت كے گھاٹ اتاردياگيا_

جب يہ خبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك پہنچى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدايا خالدنے جو كيا ہے اس كے لئے ميں تيرى بارگاہ ميں بيزارى كا اظہار كرتا ہوں''_پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علي(ع) كو معين فرمايا كہ مقتولين كا خون بہا اور ستم رسيدہ افراد كو ہر جانہ ادا كريں _

جو مال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ديا تھا حضرت عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے اپنے ساتھ لے كر بنى جذيمہ كے پاس پہنچے ،مقتولين كا خوں بہا اور نقصانات كا ہر جانہ ادا كيا _ يہاں تك كہ لكڑى كے اس برتن كا بھى حساب ہوا جس ميں كتّا پانى پيتا تھا جب آپ اس بات سے مطمئن ہوگئے كہ اب كوئي خون بہا اور ہر جانہ باقى نہيں رہا تو جو مال باقى بچا تھا اس كو بھى آپ(ع) نے ان كے درميان تقسيم كرديا تاكہ مصيبت زدہ افراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے راضى ہوجائيں _(۱۴)

حضرت على (ع) واپس پلٹے تو اپنے كام كى رپورٹ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پيش كى آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' ميرے ماں باپ فداہوں'' تم نے بڑا عمدہ كام كيا _ تم نے جو كيا وہ ميرى نظر ميں سرخ بالوں والے اونٹ ركھنے سے بہتر ہے _(۱۵)

جنگ حنين

۵ /شوال ۸ ھ بمطابق ۲۹ جنورى ۶۲۹ ء بروز جمعة المبارك

۲۰۲

مشركين كے اہم مركز مكہ كى فتح نے اطراف مكہ كے مشرك قبيلوں كے دلوں ميں شديد رعب ووحشت پيدا كرديا _ ان قبيلوں نے تحريك اسلام كى موج كو روكنے كے لئے ارادہ كيا كہ تمام قبائل كے اتحاد اور وحدت سے ايك وسيع منصوبہ كے تحت غفلت كے عالم ميں مسلمانوں كے حملہ سے پہلے ہى حملہ كرديا جائے_

ہوازن ، ثقيف ، نضر ، سعد اور چند دوسرے قبيلوں نے مل كر اسلام كے خلاف ايك مشتركہ محاذ بنا يا اور قبيلہ ہوازن كے دلير اور شجاع سردار مالك بن عوف كو لشكر كا سپہ سالار چناگيا _(۱۶)

دشمن كى سازش سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى آگاہي

جنگى محاذكى تشكيل اور دشمن كى سازشوں كى خبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے كانوں تك پہنچى آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سرا غرساں دستہ كے ايك آدمى كو دشمن كے جنگى راز حاصل كرنے كے لئے متحدہ قبائل كے درميان بھيجا _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا فرستادہ دشمن كے لشكر ميں گھس كر ان كے منصوبوں اورخفيہ جنگى ارادوں سے باخبر ہوگيا اور لشكر كا تجزيہ كرنے كے بعد مكّہ واپس آيا اور جو كچھ ديكھا اور سنا تھا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بيان كرديا_(۱۷)

حنين كى طرف روانگي

دشمن كے حالات سے مكمل آگاہى كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''۱۲ ہزار ''سپاہيوں كے ہمراہ ''دس ہزار فتح مكہ ميں شركت كرنے والے مہاجرين و انصار اور دوہزار ان دليران مكہ كے ساتھ جو اسلامى تحريك سے آملے تھے '' مكّہ سے دشمن كى طرف روانہ ہوئے _(۱۸) يہ لشكر

۲۰۳

جزيرة العرب كى تاريخ ميں بے نظير تھا ساتھيوں ميں سے ايك شخص نے سفر كى ابتدا ميں جب جاں بازوں كى كثرت اور لشكر اسلام كے جنگى سازو سامان كو ديكھا تو كہا كہ '' اب مسلمان ، سپاہ كى كمى كى بنا پر مغلوب نہيں ہوںگے ''(۱۹) وہ اس بات سے غافل تھا كہ صرف افراد اور ساز و سامان ہى كاميابى كا سبب نہيں ہوتے _

دشمن كى اطلاعات اور تياري

دشمن كے لشكر كے سپہ سالار مالك بن عوف نے تين آدميوں كو جاسوسى اور لشكر اسلام كا تجزيہ كرنے كے لئے بھيجا وہ لوگ لشكر اسلام كو ديكھنے اور اس كى عظمت و ہيبت كا مشاہدہ كرنے كے بعد وحشت زدہ ہو كر واپس گئے اور لشكر اسلام كى عظيم طاقت كى خبر سپہ سالار كو پہنچائي _ اس خبر سے مالك كو احساس ہو گيا كہ آمنے سامنے كى جنگ ميں اس كا لشكر ، لشكر اسلام كا مقابلہ نہيں كرسكے گا _ لہذا اس نے اپنے آدميوں كو حكم ديا كہ حنين كى بلنديوں پر جنگى اعتبار سے مناسب جگہوں ، پتّھروں كے پيچھے اور پہاڑ كى بلنديوں پر مورچہ سنبھال ليں اور اس تنگ جگہ پر لشكر اسلام كے آتے ہى يكبار گى حملہ كرديں _ جنگجو افراد كو جنگ ميں زيادہ استقامت كرنے پر مجبور كرنے كے لئے اس نے حكم ديا كہ عورتوں ، بچّوں ، چوپايوں اور ديگر اموال كو بھى اپنے ساتھ لے ليں تا كہ ان (مال و غيرہ )كے دفاع كى زيادہ كوشش كريں_(۲۰)

درہ حنين ميں

مكہ سے ۲۸ كيلوميٹر شرق ميں واقع درّہ حنين كے نزديك لشكر اسلام منگل كى رات ۱۰/شوال ۸ ھ كو پہنچ گيا _ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق لشكر اسلام رات كو سوگيا اور صبح

۲۰۴

سويرے خالد ابن وليد كى كمان ميں لشكر كا ہر اول دستہ تياركركے آگے بھيج ديا گيا_

خالد مكہ كے شمال مشرق ميں ۱۲ كيلوميٹر دور مقام جعّرانہ تك بڑھے_ ۱۰شوال كى صبح ،دونوں لشكرآپس ميں ملے اور درّہ حنين ميں داخل ہوگئے _(۲۱)

فرار

دشمن ،لشكر اسلام كے لئے آمادہ اور منتظر تھا لہذايكبار گى مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا، صبح كى تاريكى ان كى مددگار اور سنگلاخ چٹانيں پناہ گاہ تھيں _ ان پناہ گاہوں سے لشكر اسلام پر تير بارانى ہور ہى تھى اور گھوڑے بدك رہے تھے_

مسلمان فوج بھاگنے لگى ، سب سے پہلے بنى سليم كے سواروں نے جو خالد كى كمان ميں تھے فراركو قرار پر ترجيح دى اس كے بعد دوہزار مكّى بھاگنے والوں كے ساتھ ہوگئے پھر تو باقى افراد بھى بھاگنے لگے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس صرف دس آدمى رہ گئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن كے نرغے ميں گھرے نہايت دليرى سے مقابلہ كررہے تھے اور اردگرد جو لوگ تھے وہ مردانہ وار جنگ ميں مصروف تھے _ اس مقابلہ ميں ''ايمن'' نامى لشكر اسلام كا سپاہى ،اپنے رہبر اور مقصد كا دفاع كرتے ہوئے خاك و خون ميں غلطاں ہو كر شہادت پر فائز ہو گيا_(۲۲)

واپسى ،مقابلہ ،كاميابي

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس حساس موقع پر مخصوص انداز سے متفرق اور بھا گے ہوئے لشكر كو جمع كيا جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كو فرار كرتے ہوئے ديكھا تو فرمايا '' لوگو كہاں بھاگے جارہے ہو؟ اس كے بعد پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے چچا عباس سے '' جن كى آواز بلند تھي'' كہا آواز ديں كہ '' اے

۲۰۵

گروہ انصار اے اصحاب بيعت رضوان ، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف پلٹ آؤ'' پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى استقامت و پائيدارى اور عباس كى آواز سے مسلمان ہوش ميں آگئے اور ايك كے بعد ايك پلٹ آئے _ مقابلہ كرنے والے لشكر كى تعداد سو تك پہنچ گئي اور بہادروں كى زبردست جنگ شروع ہوئي جنگ كى تپش ميں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ ''اب جنگ كا تنور دہك اٹھا ہے''_

ميدان رزم و پيكار كے شجاع ترين بہادر حضرت على عليہ السلام شروع ہى سے شمع نبوت كے اردگر د پروانہ وار چكر لگاتے ہوئے ، جان كى بازى لگا كر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا دفاع كررہے تھے_ اس عرصہ ميں آپ نے بنى ہوازن كے ۴۰ جيالوں كو جہنّم رسيد كيا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دشمن كے ناگہانى حملہ كے خلاف اپنى حكيمانہ اور دقيق رہبرى كے ذريعہ ايك نئے طريقہ كار كا انتخاب فرماياآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفيس رجز پڑھتے اور ايسى شجاعت كے ساتھ دشمن سے مقابلہ كرتے جو تعريف سے باہر ہے _ دشمن اپنى فتح كو بچانے كى كوشش كررہے تھے ليكن لحظہ بہ لحظہ كمزور ہوتے جارہے تھے اور سامنے لشكر اسلام كى تعداد ہر لحظہ بڑھتى جارہى تھى _

آخر كار دشمن كا دفاعى حصار ٹوٹ گيا ، مال وزن اور اولاد كى محبت ،دشمن كى پائيدارى كے لئے مضبوط سہارا نہ بن سكى _لشكر اسلام كے واپس پلٹ آنے اور شجاعانہ جنگ كى بدولت نيز دن كى روشنى پھيلتے ہى دشمن كى شكست كے آثار نماياں ہوئے اور اسلام كو كاميابى ملى(۲۳) _ دشمن چھ ہزار اسير اور بہت زيادہ مال غنيمت جو چوبيس ہزار اونٹوں چاليس ہزار گوسفند اور تقريباً آٹھ سو پچاس كلو گرام چاندى پر مشتمل تھا چھوڑ كر ميدان جنگ سے بھاگ گئے_(۲۴)

۲۰۶

عورتوں اور بوڑھوں كو قتل نہ كرو

جنگ كى آگ بھڑك رہى تھى تواس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ايك عورت كى لاش كے پاس سے گزر ے لوگوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بتايا كہ يہ وہ عورت ہے جس كو خالد بن وليد نے قتل كيا ہے_ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجاہدين ميں سے ايك شخص كے ذريعہ حكم بھيجا كہ خالد كے پاس پہنچ كر كہو كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمہيں عورتوں اور بوڑھوں كو قتل كرنے سے منع فر ما رہے ہيں _(۲۵)

چند قدم آگے بڑھ كر آپ نے ايك دوسرى عورت كى لاش ديكھ كر فرمايا _'' اس كو كس نے قتل كيا ہے ؟'' ايك شخص نے آگے بڑھ كر كہا'' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں نے اسے قتل كيا ہے ميں نے اس كو اپنى سوارى كى پشت پر بٹھايا تھا اس نے مجھے مار ڈالنا چا ہاتو ميں نے اس كو قتل كرديا '' آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _'' اس كو سپرد خاك كردو''_(۲۶)

دشمن كے فرار كے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ تمام مال غنيمت '' بدَيل بن وَرْقائ'' كى نگرانى ميں مقام ''جعّرانہ'' ميں جمع كيا جائے اور لشكر كے چند دستے مشركين كے تعاقب ميں جائيں جو مقام ْنخْلہ اور اوطاس كى طرف بھاگ گئے تھے_تعاقب كرنے والے دستے دشمن كو مكمل شكست ديكر اپنے مركز پر پلٹ آئے_

آغاز جنگ ميں مسلمانوں كى شكست كا تجزيہ

۱_ غرور، كثرت اور جنگى سازو سامان پر اعتماد اور نتيجہ ميں خود فريبى اور غيبى امداد سے غفلت آغاز جنگ ميں مسلمانوں كى شكست و فرار كے اہم اسباب تھے_

جيسا كہ خداوند عالم قرآن مجيد ميں ارشاد فرماتا ہے_

'' خدا نے بہت سے جگہوں پر تمہارى مدد كى من جملہ جنگ حنين ميںتمہارى مدد كى ، اس وقت جب تمہيں تمہارى كثرت نے تعجب ميں ڈال ديا _ ليكن اس نے ذرا سا بھى فائدہ نہيں

۲۰۷

پہنچايا اور زمين اپنى تمام وسعتوں كے با وجود تم پر تنگ ہوگئي پھر تم روگرداں ہو كر بھاگ گئے پھر خدا نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مومنين پر سكينہ (اطمينان) نازل كيا اور ايسا لشكر نازل كيا جس كو تم ديكھتے نہ تھے اور كافروں كو ذلت و عذاب ميں ڈال ديا _(۲۷)

۲_ دوسرا سبب ،لشكر اسلام ميں ابوسفيان و غيرہ ايسے منافقين كا وجود تھا جو دشمن كے پہلے ہى حملہ سے بھاگ كھڑے ہوئے اور نتيجہ ميں دوسرے سپاہيوں كے حوصلوں كى كمزورى كا سبب بنے اور وہ لوگ بھى بھاگ گئے_

۳_ شب كى تاريكى اور جغرافيائي حالات بھى دشمن كے لئے معاون ثابت ہوئے_

۲۰۸

سوالات

۱_ فتح مكہ كے موقع پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تاريخى تقرير كا كچھ حصّہ بيان كيجئے _

۲_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مكہ كے بعد اہل مكہ كے ساتھ كيا سلوك كيا ؟

۳_ خالد بن وليد '' بنى جذيمہ'' كے ساتھ مجرمانہ سلوك كا مرتكب كيوں ہوا؟

۴_ مسلمانوں كے ساتھ ،قبيلہ ہوازن اور ثقيف كے لڑنے كا محرك كيا تھا؟

۵_ دشمن كے ارادوں سے لشكر اسلام كيوں كر آگاہ ہوا؟

۶_حملہ كے آغاز ميں مسلمانوں كے فرار و شكست كے اسباب كيا تھے؟

۲۰۹

حوالہ جات

۱_ استلام يعنى حجر اسود پر ہاتھ پھيرنا_

۲_ امتاع الاسماع ج ۱ ص ۳۷۸ مطبوعہ قاہرہ _

۳_ جاء الحق و ذہق الباطل ان الباطل كان زہوقاً(اسرائ/۸۱)_

۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۵۴_

۵_مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۳۴_

۶_اعيان الشيعہ ج ۱ ص ۳۵۸_

۷_ (سورہ يوسف /۹۲)_

۸_ اذخر ايك خوشبو دار گھاس ہے جو اطراف مكہ ميں اگتى ہے_

۹_مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۳۶_

۱۰_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۵۶_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۱۳۷_

۱۱_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۸۳_

۱۲_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۸۸۹_

۱۳_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۸۸۹_

۱۴_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۶۱_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص۷۰،۷۳_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۸۷۵سے ۸۸۲_طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۱۴۷_

۱۵_تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۶۱ _

۱۶_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۸۲_

۱۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۸۲_

۱۸_ سيرت ابن ہشام ج۴ ص ۸۳_

۱۹_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۸۸۹_

۲۱۰

۲۰_مغازى واقدى ج ۳ ص ۸۸۸_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۸۱_

۲۱_مغازى واقدى ج ۳ص ۸۹_

۲۲_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۸۵ _ ۸۶_

۲۳_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۸۷ _۸۸ _ارشاد شيخ مفيد ص ۷۴_

۲۴_ تاريخ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ڈاكٹر آيتى مرحوم ص ۵۵۲_

۲۵_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۰۰_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۱۲_

۲۶_مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۱۲_

۲۴_( لَقَدْنَصَرَكُم اللّهُ فى مَواطنَ كَثيرة وَ يَوْمَ حُنَيْن اذَا اَعْجَبَتْكُم كَثْرَتُكُم فَلَمْ تُغْن عَنْكُم شَيْئاً وَضَاقَت عَلَيْكُم اْلارْضُ بمَا رَحُبَتْ ثُمَ وَلَّيْتُمْ مُدْبرينَ ثُمَّ اَنْزَلَ اللّهُ سَكينَتَهُ عَلَى رَسُوله وَ عَلَى الْمُؤمنين وَ اَنْزَلَ جُنُوداً لَمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الذَينَ كَفَرُوا وَ ذلكَ جَزَائُ الْكافرين ) (سورہ توبہ/۲۵/۲۴)_

۲۱۱

بارھواں سبق

طائف كى جنگ

جديد جنگى ہتھياروں كى ٹيكنالوجي

واپسي

ہوازن كے اسيروں كى رہائي

مال غنيمت كى تقسيم

وہ افراد جن كى دلجوئي كى گئي

منافقين كا اعتراض

دوستوں كے آنسو

مدينہ واپسي

غزوہ تبوك

ايك ہولناك خبر

منافقين كى حركتيں

بہانے تراشياں

منافقين كے خفيہ مركز كا انكشاف

جنگى اخراجات كى فراہمي

اشك حسرت

سوالات

۲۱۲

طائف كى جنگ

شوال ۸ ھ بمطابق جنورى ، فرورى ۶۲۹ ئ

لشكر اسلام كى كاميابى كے ساتھ حنين كى جنگ ختم ہوگئي _ دشمن كے لشكر كا سردار مالك بن عوف اپنے ساتھيوں كے ساتھ بھا گ كر مكہ سے ۷۵ كيلوميٹر دور طائف ميں پناہ گزيں ہوا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كچھ مجاہدين اسلام كو ساتھ لے كر طائف كى طرف روانہ ہوئے تا كہ حجاز ميں مشركين كى آخرى پناہ گاہ كو بھى ختم كرديا جائے_

لشكر اسلام طائف پہنچا ، مشركين بلند ديواروں والے مضبوط قلعہ ميں بے پناہ كھانے پينے كے سامان اور قلعہ كے اندرہى پانى كے انتظام كے ساتھ نہايت اطمينان كے ساتھ مقابلہ كرنے لگے اور قلعہ كى ديواروں كے اوپرسے لشكر اسلام پر تيروں كى بارش شروع كردي_(۱)

جديد جنگى ہتھياروں كى ٹيكنالوجي

طائف كے مستحكم قلعہ كو فتح كرنے كے لئے حضرت سلمان نے ايك تجويز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں عرض كى كہ منجنيق اور پتّھر و گولہ بارى سے محفوظ كرنے والى گاڑيوں كو كام ميں لا كر قلعوں كو فتح كيا جا سكتاہے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت سلمان كو حكم ديا كہ اس قسم كا اسلحہ مہيّا

۲۱۳

كرو _حضرت سلمان اس كام ميں مشغول ہوگئے اور قلعہ كى ديواروں كے پار بڑے بڑے پتھّر پھينكنے كے لئے منجنيق(جيسے آجكل كاٹينك) اور قلعہ كى تباہى كى خاطر ديواروں كے نزديك پہنچنے كے لئے مخصوص گاڑى كو ميدان جنگ ميں پہنچايا_

گاڑى كى چھت موٹے اور سخت چمڑے كى بنى ہوئي تھى جس پر دشمنوں كے تير اثر انداز نہيں ہو سكتے تھے_(۲) (جيسے آجكل كى بكتر بندگاڑياں) اسى طرح پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے بہت زيادہ مقدار ميں خاردار شاخيں'' خار خسك'' قلعہ كے اطراف ميں بكھيردى گئيں (يہ كانٹے گويا بارودى سر نگوں كى مانند تھے جو دشمن كے سپاہيوں گھوڑوں اور اونٹوں كے پيروں ميں چبھ جاتے تھے)_(۳)

مخصوص گاڑى كے ذريعہ مجاہدين اسلام قلعہ كى ديوار تك پہنچ گئے اور ديوار كے كچھ حصّہ كو گرانے اور قلعہ كو فتح كرنے ميں دير نہ تھى كہ دشمن نے آگ اور پگھلے ہوئے لوہے كے ذريعہ حملہ كركے گاڑى كى چمڑے كى چھت كو جلا كر تہس نہس كرڈالا جس كے نتيجہ ميں بعض مجاہدين اسلام شہيد يا زخمى ہوئے اور قلعہ فتح كر نے كى كوشش با ر آورنہ ہو سكى _

واپسي

طائف ۲۰ دن سے زيادہ لشكر اسلام كے محاصرہ ميں رہا _ قبيلہ ثقيف كے افراد بڑى پامردى سے مقابلہ كررہے تھے ،قلعہ كے اندر غذائي اور ديگر ضروريات كے سامان كى وافر موجود گى كى بنا پر محاصرہ بے معنى تھا اور قلعہ فتح كرنے كے لئے ايك طولانى محاصرے كى ضرورت تھى _ايك طرف مدينہ سے دورى ،غذا اور جانوروں كے چارے كى كمى كا خطرہ ، اس كے علاوہ حرمت كا مہينہ اور حج كا زمانہ نزديك تھا_

۲۱۴

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اعلان كيا كہ غلاموں ميں سے جو كوئي بھى قلعہ سے باہر آجائيگا وہ آزاد ہے چنانچہ چند لوگوں نے خود كو لشكر اسلام كے حوالہ كرديا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آكر دشمن كے حالات كى اطلاع ديدى _ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں كو آزاد كرديا اور اس كے بعد اعلان كيا كہ طائف كا محاصرہ ختم كيا جائے اور سب واپس لوٹ جائيں_(۴)

ہوازن كے اسيروں كى رہائي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم درہ ''جعّرانہ'' يا جَعْرانہ (يہى زيادہ مشہور ہے ) لوٹ آئے تا كہ اسيروں اور مال غنيمت كے بارے ميں فيصلہ كيا جائے _ يہاں اسارى سائبان كے نيچے ٹھہرے ہوئے تھے_قبيلہ ہوازن كے بعض افراد جو جنگ ميں شريك نہيں تھے يا اسير نہيں ہوئے تھے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور اسيران ہوازن كى رہائي كى درخواست كى پيغمبر رحمتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى خواہش كو قبول فرمايا اور چھ ہزار اسيران ہوازن كو آزاد كرديا_(۵) اس طرح جزيرة العرب كابہت بڑا اور خطرناك قبيلہ اسلام كى طرف مائل ہو گيا _

جنگ كى آگ بھڑ كانے والوں كے رہبر مالك بن عوف كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پيغام بھجوايا كہ ہتھيار ڈال دو تو مال اور خاندان كى واپسى كے علاوہ سو اونٹ بھى عطا كئے جائيں گے_قبيلہ ہوازن كے سلسلہ ميں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحمت اور جواں مردى نے مالك ابن عوف جيسے سركش كو رام كرديا اوروہ راتوں رات طائف سے بھاگ كر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى خدمت ميں پہنچ كر مسلمان ہوگيا_ اس طرح فتنہ كے اہم سبب ، قبيلہ ہوازن كا خطرہ ٹل گيا_(۶)

۲۱۵

مال غنيمت كى تقسيم

اسيروں كى آزادى كے بعد كچھ سپاہى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گردجمع ہوئے اور نہايت اصرار كے ساتھ مال كى تقسيم كے خواستگار ہوئے _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا_

'' خدا كى قسم اگر تہامہ كے درختو ںكے برابر بھى گوسفند اور اونٹ تمہارے لئے ہوں تو ميں ان سب كو تمہارے ہى در ميان تقسيم كروں گا _ تم ميرے اندر خوف ، بخل اور جھوٹ نہيں پاؤگے _ مال غنيمت ميں ميرا حق پانچويں (خمس) حصّے سے زيادہ نہيں ، ميں اسے بھى تمہيں دے دوں گا لہذا اگر كسى نے ايك سوئي اور دھاگہ بھى اٹھايا ہو تو لوٹا دے اس لئے كہ غنيمت ميں خيانت كى سزا قيامت كے دن رسوائي ، بدنامى اور آتش كے سوا كچھ نہيں ہے _''

اس وقت انصار ميں سے ايك شخص ايك دھاگے كا گھچا لے آيا اور كہا '' ميں اس كو اپنے اونٹ كا سامان سينے كے لئے لے گيا تھا _''

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ اس دھاگہ ميں سے ميں نے اپنا حق تمہيں بخشا(اب باقى مسلمانوں كا مسئلہ ہے اگر وہ بھى اپنا حق تمہيں بخش ديں تو لے لو)مرد انصارى نے كہا كہ اگر اتنا سخت مسئلہ ہے تو مجھے دھاگے كى كوئي ضرورت نہيں ہے _ اور دھاگے كا گچھا مال غنيمت كے ڈھير ميں لے جا كرر كھ ديا_(۷)

وہ افراد جن كى دلجوئي كى گئي

جب مال غنيمت كى تقسيم شروع ہوئي اور تمام افراد كا حصّہ ديديا گيا ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مال غنيمت كے خمس كو سرداران قريش كے درميان تقسيم كرديا اور ابوسفيان، اس كے بيٹے معاويہ، حكيم ابن حزام ، حارث بن حارث اور حارث بن ہشام اور ...''جوكل تك گروہ

۲۱۶

شرك و كفر كے سردار تھے'' ان ميں سے ہر ايك كو سو اونٹ اورعظمت و مرتبت كے لحاظ سے معمولى افراد كو پچا س يا پچاس سے كم اونٹ عطا فرمائے_(۸)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بخشش كے دو سبب تھے ايك تو يہ كہ يہ لوگ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عطوفت و محبت سے متاثر ہو كر اسلام كى طرف مائل ہوںتا كہ كينہ ختم ہوجائے ، اصطلاح ميں اس عمل كو ''تاليف قلوب'' كہتے ہيں اور فقہ اسلام ميں زكات كے مصارف ميں سے ايك مصرف يہ بھى ہے_دوسرى بات يہ تھى كہ جزيرة العرب كے مشرك قبائل كے سربرآوردہ افراد اسلام قبول كرليںتا كہ كم سے كم لڑائي ہو اور جزيرة العرب كے باقى افراد حلقہ بگوش اسلام ہوجائيں_

منافقين كا اعتراض

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بخششيں بہت سے سپاہيوں كے اعتراض كا سبب بنيں اسى درميان ان افراد نے سب سے زيادہ اعتراض كى آواز بلند كى جو بظاہر احكام دين پر توجہ ديتے تھے مگر باطن ميں ان كو دين سے كوئي سروكار نہ تھا كوردل ذوالخويصرہ نے عتاب آميز لہجہ ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كہا '' اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے ڈريں اور عدل و انصاف سے كام ليں''_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اس شخص كى باتوں سے برہم ہوئے اور فرمايا '' اگر انصاف و عدالت سے كام نہيں لوں گا تو پھر عدالت كس كے پاس ملے گى ''؟ اصحاب ميں سے ايك صحابى نے عرض كى كہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر اجازت ہو تو جسارت كے جواب ميں اسكا سرتن سے جدا كردوں ؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اجازت نہيں دى اور فرمايا كہ :''ج ى اس شخص كو ايسے پيرو مليںگے جو دين ميں اتنى باريك بينى سے كام ليں گے كہ دين سے خارج ہوجائيں گے''_(۹)

۲۱۷

دوستوں كے آنسو

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بخششوں نے قريش اور قبائل كے سر برآوردہ افراد يہاں تك كہ انصار كو بھى رنجيدہ كرديا اور وہ يہ سوچنے لگے كہ يہ بخششيں خاندان اور رشتہ داريوں كى بناپر ہيں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو انصار سے يہ اميد نہ تھى ، آپ رنجيدہ ہوئے اور ان سے فرمايا: '' كيا تم اس بات پر راضى نہيں ہو كہ دوسرے افراد گوسفندوں اور اونٹوں كے ساتھ اپنے گھر كوجائيں اور تم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمراہ اپنے گھروں كو واپس جاؤ''(۱۰)

انصار، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بات سن كر شدّت سے روئے اور عرض كيا:'' ہمارے لئے يہى كافى ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے حصّہ ميں ہوں ، ہم اسى پر راضى ہيں''(۱۱)

مدينہ واپسي

مال غنيمت كى تقسيم تما م ہوئي ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمرہ كے قصد سے مقام جعرانہسے احرام باندھا اور زيارت خانہ خدا كے لئے مكّہ كى سمت روانہ ہوئے_

عمرہ كى ادائيگى كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عتّاب بن اميد اور معاذبن جبل '' جنہيں مكّہ كا امير اور معّلم دين بنا يا گيا تھا'' كى ماموريت كى مدّت بڑھادى _اس كے بعد ذى القعدہ كے مہينہ ميں مہاجرين اور انصار كے ساتھ مدينہ لوٹ آئے_(۱۲)

غزوہ تبوك(۱۳)

ايك ہولناك خبر

۹ ھ ،رجب كا مہينہ بڑى گرمى كا مہينہ تھا ، شديد قحط اور گرانى كے زمانہ كے بعد كہ

۲۱۸

جس سے لوگ حد درجہ پريشان ہو چكے تھے _ پھلوں اور كھجور كے چننے كا زمانہ آگيا _ لوگوں نے ذرا اطمينان كا سانس لينے كا سوچا ہى تھاكہ ہولناك قسم كى خبريں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آنے لگيں كہ مسلمانوں كو جزيرة العرب كى شمال مشرقى سرحدوں پر رومى بادشاہ كى طرف سے خطرہ ہے _

ميدہ اور زيتون كا تيل فروخت كرنے كے لئے مدينہ آنے والے نبطى تاجروں نے بتايا كہ '' بادشاہ روم ''ہرقل ''(۱۴) نے بلقاء كے علاقہ ميں ايك عظيم لشكر جمع كرركھا ہے اور لشكر كے كھانے پينے كا انتظام اور ايك سال كى تنخواہ كى ادائيگى كے علاوہ سرحدى قبائل لخم اور جذام كو بھى اپنے ساتھ ملاليا ہے اور اسلامى سرزمين پر حملہ اور اسلامى تحريك كو مٹا دينے كا ارادہ ركھتا ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايك ايسا عظيم لشكر جمع كرنے كے لئے آمادہ ہو گئے جو روم ايسى بڑى طاقت كے لشكر سے مقابلہ كى طاقت ركھتا ہو _

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگوں ميں منزل مقصود معين نہيں فرماتے تھے_اس كے بر خلاف اس بار لشكر جمع كرنے كے آغاز ہى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منزل مقصودكا اعلان كرديا _ تا كہ لشكر ، دشت سوزاں ميں دور دراز كے راستہ كو طى كرنے ، دشوار كام كے انجام دينے اور نہايت طاقتور دشمن سے جنگ كرنے كے لئے تما م تياريوں كے ساتھ ضرورى سازوسامان اور غذا لے كر روانہ ہو_(۱۵)

منافقين كى حركتيں

منافقين نے لشكر اسلام كى تيارى كے آغاز ميں ، حكومت اسلامى ميں دى گئي آزادى

۲۱۹

سے سوء استفادہ كرتے ہوئے ، حساس ترين لمحات ميں مايوس كن پروپيگنڈہ اور نفسياتى جنگ كے ذريعہ مسلمانوں كو راہ خدا ميں جہاد سے باز ركھنے كى كوشش كى ،يہ لوگ در حقيقت استكبارى طاقتوں كے مفادات كے لئے قدم اٹھارہے تھے _

اسلام كے خلاف منافقين كى خيانت آميز تحريك تاريخ اسلام ميں '' مسجد ضرار'' كے واقعہ كے نام سے مشہور ہے _ اس كى تفصيل حسب ذيل ہے _

منافقين ميں سے ايك سر كردہ '' ابوعامر'' نامى فاسق ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مدينہ ہجرت كے بعد اپنى خيانتوں كى بدولت بھاگ كر مكہ اور طائف چلا گيا او ر ان كے فتح ہونے كے بعد وہاں سے بھاگ كر روم چلا گيا اور وہاں سے مدينہ كے منافقين سے رابطہ اور فكرى امداد كرتا رہتا تھا _ اس نے اپنے ہواخواہوں كو خط ميں لكھا كہ '' ميں قيصر روم كے پاس جارہاہوں اور اس سے فوجى مداخلت كى درخواست كروں گا تا كہ اس كى مدد سے مدينہ پر حملہ كريں اب تم ''قبا'' كے ديہات ميں مسلمانوں كى مسجد كے مقابلہ ميں ايك مسجد بناؤ اور نماز كے موقع پر وہاں جمع ہو ، فريضہ كى ادائيگى كے بہانے اسلام اور مسلمانوں كے بارے ميں اپنے منصوبوں كو كس طرح عملى جامہ پہنايا جائے كے موضوع پر گفتگو كيا كرو_

يہ مسجد ، لشكر اسلام كے تبوك روانہ ہونے سے پہلے بن كر تيار ہوگئي _ منافقين اس مسجد كى آڑميں اپنى كاركردگى كو منظم شكل دے سكتے تھے ، لوگوں كو دھوكہ دينے كے لئے ان لوگوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست كى كہ آپ مسجد ميں نماز ادا كريں اور مسجد كا افتتا ح فرمائيں_

رسول 'صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے جواب ميں فرمايا '' ابھى ميں سفركا ارادہ ركھتا ہوں اور سفر كى تيارى ميں مصرف ہوں اگر خدا نے چاہا تو واپسى پر آؤںگا ''_(۱۶)

۲۲۰

كپڑا اور قالين بننے كا كام

صفويوں نے قالين بننے كى صنعت كو ديہاتوں سے بڑھا كر ملكى سطح تك ترقى دى اور ملك كے اقتصاد كا اہم جزو قرار ديا_ قالين بننے كا سب سے پہلا كارخانہ تقريباً شاہ عباس كبير كے زمانہ ميں اصفہان ميں قائم ہوا(۱) صفوى دور كے قالينوں ميں سے قديم ترين نمونہ ''اردبيل'' نام كا مشہور قالين ہے كہ جو لندن كے ويكٹوريا البرٹ ميوزيم ميں موجود ہے اسے سال ۹۴۲ قمرى ميں تيار كيا گيا تھا_

شاہ عباس كے زمانہ ميں قالين تيار كرنے كے حكومتى كارخانوں كى تعداد زيادہ تھى اور آرڈر پر قيمتى قالين تيار كيے جاتے تھے_ مثلاپولينڈ كے بادشاہ سيگسمنڈ سوم نے ايران سے قالين خريد كر اپنى بيٹى كو جہيز ميں ديے _ قالين تيار ہونے كے علاوہ كپڑا بننے كى صنعت نے بھى قابل ذكر ترقى كي_ قيمتى لباس اور محلات كے خوبصورت پردوں نے سياحوں كو مبہوت كرديا تھا_ درخشاں رنگوں كى آميزش ، جدت اور اسليمى وگل دار ڈيزائينوں سے تزيين نے ايرانى ماہرين كو اس قابل بناديا كہ وہ ايسا كپڑا بنائيں جو خوبصورتى اور جدت ميں بے نظير ہو(۲)

كہا يہ جاتا ہے كہ اصفہان كے بازار ميں پچيس ہزار كاريگر كام كرتے تھے اور كپڑا بنانے كى انجمن كا صدر ملك كا ايك طاقتور ترين شخص شمار ہوتا تھا_ ريشم اور ريشم كے كپڑوں كى تجارت اس دور كى ايك اور صنعت تھى كہ جو انتہائي اہميت كى حامل تھى بقول چارڈن:شاہ عباس ريشم بنانے اور برآمد كرنے والا سب سے پہلابادشاہ تھا _ ريشم جارجيا ، خراسان، كرمان بالخصوص گيلان اور مازندران كے علاقوں سے حاصل ہوتا تھا اور سالانہ ۲۲ ہزار عدل(۳) ريشم كى پيداوار يورپ برآمد ہوتى تھى _(۴)

____________________

۱) راجر سيوري،سابقہ حوالہ ص ۳۳ _ ۱۳۲_

۲) سابقہ حوالہ ص ۶ _ ۱۲۵ _

۳) عدل: وزن كا ايك پيمانہ (مصحح)

۴) شاردن ، سياحتنامہ شاردن ، ترجمہ محمد عباسى ، تہران امير كبير ج ۴ ص ۳۷۰ _ ۳۶۹

۲۲۱

فوجى اسلحہ

چالدران كى جنگ ميں صفوى فوجى عثمانى فوج كے بارودى اسلحے اور توپخانہ كے مد مقابل زيادہ نہ ٹھہرسكے ، چونكہ اس قسم كے اسلحہ كے استعمال سے واقف نہ ہونے كى وجہ سے ايرانى فوج زيادہ طاقتور نہ تھي_

شاہ عباس كے بادشاہ بننے اور ماڈرن فوج كى تشكيل سے پہلے ايرانى فوج كا ڈھانچہ قزلباشوں كے گروہوں پر مشتمل تھا_ يہ وہ خوفناك جنگى طاقت تھى جنكا عثمانى بھى احترام كرتے تھے_ ليكن چالدران كى جنگ كے بعد فوجى ڈھانچے ميں تبديلى ناگزير تھى _ شاہ تھماسب نے جوانوں كے انتخاب سے پانچ ہزار افراد كى ايك رجمنٹ تشكيل دى كہ جنہيں ''قورچي'' كہا گيا _ اس رجمنٹ سے ايك ماڈرن فوج كى بنياد فراہم ہوئي اور شاہ عباس كبير كيلئے راستہ ہموار ہوا _(۲)

شاہ عباس كبير نے فوج كى ابتدائي بنياد (شا ہسونہا يعنى بادشاہ كے حامي) تشكيل دينے كے ساتھ ايك نئي فوج خاص نظم كے ساتھ تشكيل دى كہ جو مختلف اقوام اور اقليتوں پر مشتمل تھى _ شاہ نے اس كام كے ساتھ ساتھ شرلى برادران سے بہت قيمتى فوجى علوم بھى كسب كيے _ اور پہلى دفعہ ايرانى فوج ميں مختلف دھڑے ، پيادے ، سوار اور توپخانہ وجود ميں آئے _ اسى طرح توپ بنانے اور گولے مارنے كا فن بھى شرلى برادران سے سيكھا گيا _(۳) ليكن قابل افسوس بات يہ ہے كہ شاہ عباس نے ايرانى فوج ميں جس چيز كى بنياد ركھى اس كے جانشينوں نے اس كى طرف توجہ نہ كى جس كے نتيجہ ميں ايرانى فوج روز بروز كمزور ہوتى چلى گئي يہاں تك كہ نادر شاہ كے زمانہ ميں ايرانى فوج ميں دوبارہ قوت پيدا ہوئي_

____________________

۱) خانبابابيانى ، تاريخ نظامى ايران، جنگہاى دورہ صفويہ ص ۵۹_

۲) راجو سيوري، سابقہ حوالہ ص ۱۹۹ _

۲۲۲

صفويوں كا دفترى نظام

صفويوں كے حكومتى ڈھانچے ميں بادشاہ تمام امور كا سربراہ ہوتا تھا كہ جو ملك كو اداروں اور شعبوں كے عہديداروں اور منصب داروں كے ذريعہ چلا تا تھا ، ذيل ميں ان عہدوں اور مناصب كى طرف اشارہ كيا جاتا ہے:

ايك عہدہ ''وكيل نفس نفيس ہمايون' ' تھا كہ جو سياسى امور ميں برجستہ كردار ادا كرتا تھا يہ عہدہ سپہ سالاروں ميں سے ہوتا تھا اور ''صدر '' كے عہدہ كيلئے انتخاب ميں بہت زيادہ اثر و رسوخ ركھتا تھا_ چالدران كى جنگ كے بعد اس عہدہ كى اہميت ختم ہوگئي ،اب يہ دين اور دنياوى امور ميں نائب السلطنہ شاہ نہيں رہا تھا بلكہ دفاتر كے شعبہ كے سربراہ كى حيثيت اور صفوى حكومت كے نمائندہ كے حيثيت سے پہچانا جاتا تھا اور صفوى دور كے آخر ميں تو اس عہدہ كانام و نشان ہى نہ رہا _

دوسرا مقام ''اميرالامرائ'' كا تھا_ صفوى دور ميں قزلباش لشكروں كا سپہ سالار اس عہدہ پر فائز ہوتا تھا جو فوجى طاقت ركھنے كے ساتھ ساتھ دفترى امور پر واضح كنٹرول ركھتا تھا_(۱)

صفوى حكومت كے فوجى عہدوں ميں سے ايك عہدہ''قورچى باشي'' تھا كہ جو قبائلى رجمنٹوں كا كمانڈر ہوتا تھا _ شاہ اسماعيل اول كے بعد يہ عہدہ بہت اہميت كا حامل ہوا _ شاہ عباس كے دور ميں جارجين اور چركسوں كى وجہ سے ان فوجى مناصب نے ايك منظم اور مسلح فوج كو وجود بخشا_

شاہ كے بعد كا مقام '' وزير '' كہلاتا تھا كہ جسے''اعتماد الدولہ '' كا لقب ديا جا تا تھا _ ديوان كا سربراہ وزير اعظم ہوتا تھا كہ جسكے ماتحت بہت سے وزير ، منشى اور ديگر حكومتى عہديدار كام كرتے تھے _ ديوانى عہديداروں كا انتخاب وزير كى مہر كے بغير كوئي حيثيت نہ ركھتاتھا _''صدر'' كا عہدہ كہ جسكى ذمہ دارى نظرياتى اور مذہبى وحدت كو وجود ميں لانا تھا، صفوى حكومت كے مسلك مناصب ميں سے اہم منصب تھا_ اگر چہ ''صدر'' مسلك شيعہ

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۷۹_ ۷۰_

۲۲۳

كا سربراہ تھا ليكن سياسى نظام كى ہم آہنگى كے بغير فعاليت انجام نہيں ديتا تھا _ وہ ديوان بيگى (عمومى قوانين ميں شاہ كا مكمل اختيارات ركھنے والا نمائندہ) كے ساتھ عدالتى امور كو بھى نمٹا تا تھا _ يہ سب اعلى حكام درالحكومت ميں ہوتے تھے كہ جنكے ماتحت بہت سے عہديدار انكى ذمہ داريوں كو بجالانے ميں ان سے تعاون كيا كرتے تھے_(۱)

صفويوں كا زوال

اس شاہى سلسلہ كے زوال كے بارے ميں مختلف نظريات سامنے آئے ہيں _ صفوى جوكہ ايك شيعہ حكومت تھى تقريباً ۲۲۰ سال تك جارى رہى ، اس مدت ميں صفوى بادشاہوں نے جو بھى سياسى پاليسياں بنائيں وہ ايك طرح اس حكومت كے تدريجى زوال ميں كردار ادا كرتى ہيں _ شاہ عباس كبير كى تجربہ كار شخصيتوں اور شاہزادوں كو ختم كرنے كى سياست اور املاك ممالك كو املاك خاص ميں تبديل كركے بيشتر درآمد كے ذرائع پيدا كرنے كى سياست نے حكومتى ڈھانچے پر بہت برے اثرات ڈالے_ شاہ عباس كى فوج ميں بہت سى خوبيوں اور امتيازات كے باوجود قزلباشوں كى نسبت ديگر قبائل اور اقوام كے سپاہى صفوى حكومت اور ايران سے بہت كم عقيدت ركھتے تھے_

صفويوں كے سقوط كے ديگر اسباب ميں سے عہدوں اور مناصب پر نااہل اور نالائق افراد كا ہونا اور مريدى و مرشدى كا روحانى رابطہ ختم ہونا نيز افغانوں كا اصفہان پر ناگہان اور برق رفتارى سے حملہ تھا كہ اس طولانى مدت ميں ان تمام اسباب نے اكھٹے ہوكر ايرانى حكومت كے ايك اہم سلسلہ كو ختم كرديا_

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۹۷_

۲۲۴

عثمانى حكومت

امارت سے بادشاہت تك

عثمانى حكومت كى بنياد آٹھويں صدى ہجرى اور چودہويں صدى عيسوى كے آغاز ميں ركھى گئي _ اس حكومت كا نام عثمان غازى (حكومت ۷۲۴_۶۸۰) سے ليا گيا كہ جو اغوز تركوں كے ايك قبيلہ كا سردار تھا _ يہ ان ترك قبائل كا حصہ تھے جو سن ۴۶۳ ہجرى ذيقعدہ ميں الپ ارسلان سلجوقى كى بيزانس( مشرقى روم) كے بادشاہ رومانس چہارم پر فتح كے بعد موجودہ تركى ميں سلجوقى حكومت قائم ہونے كے ساتھ سلاجقہ روم اور بيز انس كے ما بين سرحدى علاقوں ميں سكونت پذير ہوئے(۱) منگولوں كے رومى سلاجقہ پر تسلط كے بعد جب ايلخانان (منگولوں ) كى گرفت كمزور پڑگئي تھى تو انہوں نے اسى علاقہ ميں سردارى حاصل كرلى تھي_

اگرچہ عثمانى قبائلى امراء كو اناتولى كے ديگر امراء پر كوئي برترى حاصل نہ تھى بلكہ ان كى نسبت كمزور اور حقير محسوس ہوتے تھے(۲) _ ليكن اپنى خاص جغرافيائي حدود اور ديگر عوامل بالخصوص جہاد كيلئے فوج تيار كرنا اور بحيرہ اسود كے كنارے كے ساتھ ساتھ بيز انس كى ديگر سرزمينوں كو اپنے ساتھ ملحق كرنے كى بناء پر يہ مملكت وسعت اختيار كر گئي اور روز بروز يہ اقتدار بڑھتا گيا جسكے نتيجہ ميں يہ ايك قبيلہ سے ايك وسيع حكومت اور بادشاہت تك پہنچ گئے _(۳)

عثمان غازى كى حكومت كے درميانى دور ميں عثمانى حكومت تشكيل پائي _ يہ كاميابى اہل تصوف كے شيوخ، ابدالوں اور با باؤں نيز علماء و فقہاء سے اچھے روابط كى وجہ سے حاصل ہوئي كيونكہ علماء وفقہاء كا مسلمان تركوں ميں روحانى اثر ورسوخ بہت زيادہ تھا _

____________________

۱) ادموند كليفورد ياسورٹ_ سلسلہ ہاى اسلامى ، ترجمہ فريدون بدرہ اى ص ۲۱۰_

۲) چاستا نفورد جى ، شاد، تاريخ امپراتورى عثمانى تركيہ جديد _ ترجمہ محمود رمضان زادہ ص ۳۶ _

۳) ہامر پور گشتال _ تاريخ امپراتورى عثمانى ، ترجمہ ميرزا ازكى على آبادي، تہران ج ۱ ص ۴۳ _

۲۲۵

اور اہل فتوت كى تنظيميں كہ جو انتہائي وسعت كے ساتھ تمام شہرى طبقات ميں مؤثر كردار ادا كر رہى تھيں ، انكى خدمات اور كوششوں كا نتيجہ عثمانى حكومت كى صورت ميں سامنے آيا _(۱)

عثمان غازى جو كہ اپنى مدبرانہ سياست اور عثمانى سماج كے تمام طبقات اور مختلف شعبہ جات زندگى كے لوگوں سے اچھے تعلقات اور اپنے مسلمان اور عيسائي ہمسايوں سے اچھے مراسم ركھنے كى بناء پر ترك قبائل كے رہبر كے مقام پر فائز ہوچكا تھا ،اس اپنى مملكت كو وسعت بخش كر اپنے جانشينوں كے لئے مزيد فتوحات كے اسباب فراہم كرديے تھے اور اپنى چھوٹى سى حكومت كى ايسى مضبوط بنياد ركھى تھى كہ جو حكومت كے استحكام اور وسعت كى ضمانت فراہم كرتى تھي_(۲)

اورخان غازى ( ۷۶۱_۷۲۴ق) جو كہ اپنے والد عثمان غازى كے سياسى اور فوجى معاملات ميں انكا داياں بازو تھا اس فتوحات كو جارى ركھنے كے ساتھ ساتھ حكومت كو منظم كركے اسے بادشاہت ميں تبديل كرنے كى كوشش جارى ركھي_ اس نے اہم شہر بروسہ پر قبضہ كرليا كہ جس پر فتح پانے كے حالات چند سالوں سے بن رہے تھے اور اسى شہر كو اپنا دارالحكومت قرار ديا اور عثمانى حكومت كے مستقل ہونے كے اعلان كيلئے اپنے نام سے سكہ جارى كيا اور اس كا نام خطبات ميں پڑھاجانے لگا_ يہ سال ۷۲۶ قمرى تھا(۳) اس ليے بعض مورخين اسے عثمانى حكومت كا پہلا بادشاہ شمار كرتے ہيں(۴)

اس نے اس كے بعد ايشاے كوچك اور ديگر اہم مناطق اور شہروں پر قبضہ كرتے ہوئے بيزانس (روم) كو ايشيا سے باہر دھكيل ديا(۵) _ اس سلطنت كے اندرونى كشمكش ميں بعض رقيبوں كى درخواست پر

____________________

۱) اوزون چارشيعى واسماعيل حقي، تاريخ عثمانى ،ترجمہ ايرج نوبخت تہران ج ۱ ص ۱۲۶ _ ۱۲۵_استانفورد چى ، شاو،سابقہ حوالہ ص ۴۳_

۲) استانفورد چى شاد، سابقہ حوالہ ص ۲۲۳ ، لردكين راس، قرون عثمانى ، ترجمہ پروانہ ستارى ، ص ۲۴ _

۳) مادر _ يورگشتال ، سابقہ حوالہ ص ۸۳ كے بعد سے ، اوزون چارشيلى ص ۱۴۱ _ ۱۲۹ _ ۱۴۷ كے _

۴) Sanderora ، siyasi Tarib ، Ank ، ۱۹۸۹ ، p۳۱

۵) اوزون چارشيلى ،سابقہ حوالہ ص ۱۴۷ _ ۱۴۱ _ استانفوردچى شاو، گذشتہ مدرك ص ۴۵_ ۴۴_

۲۲۶

اس كے اندرونى امور ميں دخل ديا اور كچھ مواقع سے بہترين فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں اپنى فوج كو داخل كيا _ بالكان ميں مزيد فتوحات كيلئے اپنے آپ كو تزويرى اہميت كے حامل جزيرے گيلى پولى ( Gallipoli )ميں مستحكم كيا _(۱)

بيزانسى (رومي) طاقت كے تشنہ لوگوں كے لئے اسكى اہميت اسقدر زيادہ تھى كہ اس ملك كے دوبادشاہوں نے اسكے ساتھ اپنى بيٹيوں كى شادى كيلئے ارادے كا اظہار كيا _ ايك اور بادشاہ نے مجبور ہوكر اپنى مملكت ميں اس كى فتوحات كو تسليم كرليا_(۲)

اور خان بيگ حكومت اور فوج كے معاملات كو منظم كرنے ميں بھى فعال تھا اس نے ايك منظم فوج كو تشكيل ديا تھا نيز ''ينى چري'' سپاہيوں كى ابتدائي شكل بھى اسى دور ميں وجود ميں آئي(۳) _ اسكے اپنے والد كى مانند اہل فتوت و تصوف اور علماء سے روابط بہت اچھے تھے ،اہل فتوت ميں سے اسكے كچھ وزير بھى تھے اس نے ابدالان (زاہدوں ) كے لئے خانقاہيں اور دينى علوم كى تدريس كيلئے مدارس بنائے(۴) اس كے بعد سب سے پہلے سياسى روابط جمہورى جنيوا(۵) سے ہوئے كہ جس كى كالونياں بحيرہ روم كے جزائر وسواحل ميں تھيں _ ان روابط كے نتيجہ ميں انكے درميان ايك تجارتى معاہدہ بھى وقوع پذير ہوا_(۶)

اور خان غازى كى وفات كے بعد اس كا بيٹا مراد اول (۷۹۱_ ۷۶۱ق) المعروف خداوندگار اسكا جانشين بنا_ وہ اپنے والدكے زمانہ حيات ميں ''روم ايلى ''ميں جنگ ميں مصروف تھا _ اس نے بھى اپنے والد كى مانند اسى سرزمين ميں فتوحات كا دائرہ بڑھانے كى كوشش جارى ركھي_ ادرنہ (موجودہ تركى كا ايك شہر) كى فتح

____________________

۱) Kramers ، op ، cil- p -۱۹۲-۱۹۳

۲) Gokbilgin ، Tayyib ، otnonin Ta ، vol ۹ ، P -۴۰۲-۴۰۳

۳_ احمد راسم، عثمانى تاريخى ، ج ۱ _ ص ۵۲_۵۱ استانفورد جى شاو،سابقہ حوالہ ص ۴۳ كے بعد ،اوزون چارشيلي،سابقہ حوالہ ص ۱۵۲_ ۱۵۰

۴_ شمس الدين ساى ، قاموس الاعلام، استانبول _ ص ۳۹۴۳ ،حامر ، يورگشتال ،سابقہ حوالہ ص ۱۱۱ _

۵- Genova

۶- kromers ، op c.+ p ۱۹۳

۲۲۷

كہ جو اس كے تخت نشينى كے سال انجام پائي برا عظم يورپ ميں عثمانيوں كى حكومت قائم ہونے كے اعتبار سے بہت اہميت كى حامل تھي_

يہ اور بالكان كى تاريخ بلكہ يورپ كى تاريخ ميں اہم مرحلہ شمار ہوتى ہے_(۱) اس بہت بڑے شہر جو كہ بعد ميں عثمانيوں كا درالحكومت بنا ،فتح كے بعد قسطنطنيہ كا خشكى كے راستے سے يورپ سے رابطہ كٹ گيا_(۲) اس طرح در حقيقت مشرقى روم كے دارالحكومت كے محاصرہ كا پہلا قدم اٹھايا گيا تھا_

مراد كے دور ميں بعد والى فتوحات نے جزيرہ يونان كے علاوہ تمام بالكان كو عثمانيوں كے اختيار ميں دے ديا_ كہاجاسكتا ہے كہ ان فتوحات كے ذريعہ پانچ صديوں تك چلنے والى حاكميت كے بيج بوئے گئے _ ايسى حاكميت كے جس نے اس نئے تمدن كو جنم ديا كہ جو تاريخ كے اوراق پر مختلف قومي، دينى اور لسانى عناصركى آميزش سے ظاہر ہوا_(۳) بہرحال ان فتوحات نے دنيائے غرب كو وحشت زدہ كرديا يہاں تك كہ پاپائے روم نے عثمانيوں كو روكنے كيلئے دو صليبى جنگوں كا آغاز كيا_(۴)

لارڈ كيں اس كے تجزيہ كے مطابق مراد اول فوجى اور سياسى قيادت ميں اپنے والد اور دادا سے بڑھ كر تھا اسكى كوششوں سے مغرب مشرق كى گرفت ميں آگيا جيسا كہ يونانيوں اور روميوں كے دور ميں مشرق اہل مغرب كى گرفت ميں تھا ،وہ پہلے تين عثمانى حكمرانوں كے باہمى موازنہ كے بعد اس نتيجہ پر پہنچا كہ عثمان نے اپنے گرد قوم كو جمع كيا ،اس كے بيٹے اور خان نے ايك قوم سے ايك حكومت تشكيل دى جبكہ اس كے پوتے مراد اول نے اس حكومت كو بادشاہت پہچاديا_ مراد كے بھى اپنے والد اور دادا كى مانند اہل فتوت سے بہت اچھے

____________________

۱- Inalcik ، in IA vol /p- ;sevim - yucel ، op ، cit ، vol ، p .۲۶ -۲۷

۲_ احمد راسم ،سابقہ حوالہ ص ۶۳_

۳- sander ، op. cit ، P .۳۱

۴ _ اوزون چارشيلى ، سابقہ حوالہ ، ص ۲۰۰ _ ۱۹۳ _ احمد راسم ،سابقہ حوالہ ج۱ ص ۶۷_۶۵_ ۷۹_ ۷۸_ لارڈكيں ، سابقہ حوالہ ، ص ۵۸_ ۵۷_

۲۲۸

روابط تھے يہاں تك كہ اس كے زمانے كے و قف ناموں ميں يہ عبارات موجود ہيں كہ فلان كو فلان جگہ اخى كى حيثيت سے معين كرتاہوں _(۱)

مراد كے بعد سلطان بايزيد اول (۸۰۴_ ۷۹۱ ق) نے روم ايلى ميں فتوحات كا دائرہ بڑھايا اور آناتولى كے چند امراء كو اپنا اطاعت گزار بنايا_ اور قسطنطنيہ كا تين بار محاصرہ كيا اور بيزانس كے بادشاہ كو ايسى قرار داد قبول كرنے پر مجبور كيا كہ جسكے تحت وہ شہر ميں ايك محلہ كہ جس ميں مسجد ہو مسلمانوں كے ساتھ خاص كردے اورعدالتى امور كے ليے ايك اسلامى ادارہ بھى قائم كرے(۲) اس كى فتوحات نے عثمانى مملكت كو فرات سے دانوب تك پھيلاديا تھا،ليكن آناتولى پر تيمور كى يلغار سے فتوحات كا يہ سلسلہ ختم ہوگيا_ انقرہ كى جنگ(۳) (ذى الحجہ ۸۰۴ق) ميں بايزيد كى تيمور سے شكست كھانے سے عثمانى تاريخ كا پہلا دور كہ جسے اسلامى فتوحات كا پہلا دور كہا گياہے ،ا پنے اختتام كو پہنچا_

عثمانى كاميابيوں اور انكے تسلط واقتدار كے اسباب كو دو اقسام ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے :

۱_ بيزانس اور بالكان كى حكومتوں كو كمزور اور عثمانى فتوحات كيلئے راستہ ہموار ہو نے كے اسباب:

۱) مذكورہ حكومتوں ميں اندرونى كشمكش اور ختم نہ ہونے والى باہمى جنگيں اور ملوك الطوايفى كا دور دورہ كہ جسكے نتيجہ ميں مركزى حكومت كا اقتدار كمزور پڑگيا_(۴)

۲) بالكان كے آرتھوڈوكس عيسائيوں كا لاطينى كليسائوں سے نفرت كرنا اور عثمانيوں كے خلاف پادريوں كے صليبى فوج تيار كرنے كے اقدامات كر قبول نہ كرنا_ يہ احساسات اتنے شديد تھے كہ بالكان كے بہت سے عيسائي عثمانيوں كو اپنے ليئے كيتھولك كليسا كے تسلط سے نجات دہندہ سمجھتے تھے_(۵)

____________________

۱- Neset ، Cagatar ، Makaleler velncele meler ، konra ،۱۹۸۳ ، P ۲۹۰

۲)ہامر، يورگشتال ، سابقہ حوالہ ص ۲۰۶ اوزون چارشيلى ،سابقہ حوالہ ص ۳۳۴_

۳- Yinane ، Op. Cit. P ۳۸۶ ، Sevil-Yucel ، Op. Cit P ۶۳ ،۶۸

۴) شاو، سابقہ حوالہ ص ۳۶ _ لارڈكين راس، سابقہ حوالہ ص ۵۵ _

۵) لارڈ كين رس ، سابقہ حوالہ ص ۴۴_ ۵۱_

۲۲۹

۳_ٹيكسوں كے بڑھانے كى وجہ سے ديہاتى لوگوں كا حكومتوں سے ناراض ہونا يہ ٹيكس وغيرہ اتنے زيادہ تھے كہ كبھى كبھى يہ لوگ حكومت كے خلاف بغاوت كيا كرتے تھے_(۱)

۲_ عثمانيوں كو مستحكم كرنے والے اسباب : فوجى صلاحيتوں سے مالامال ہونے كے ساتھ ساتھ اس دور ميں عثمانى حكومتوں كو اندرونى اختلافات كا سامنا نہيں كرنا پڑو_ اور مذہبى اور اقتصادى محركات كے ساتھ ساتھ فتوحات كى خاطر دائمى جنگ كے ليے آمادگى بھى اہم اسباب تھے_(۲)

عثمانيوں كو مستحكم كرنے والے بعض ديگر اسباب يہ ہيں كہ مفتوحہ سرزمين پر لچكدار سياست اور پاليسياں روا ركھنا ركھا، مفتوحہ علاقوں كے لوگوں سے مذہبى تعصب سے پاك رويہ ركھنا ، غير مسلم رعايا كو اپنى رسم و رواج كے مطابق رہنے كى اجازت دينا، آرتھوڈوكس كليسا كے ٹيكسوں كو معاف كرنے والے قانون كو برقرار ركھنا(۳) اورگردو نواح كے عيسائي امراء سے دوستانہ روابط ركھنا اور بعض اوقات ان ميں سے كچھ اسلام كى طرف راغب ہوكر مسلمان ہوجاتے تھے، اسى وجہ ان امراء كى بعد والى نسليں مثلاً ميخال اوغلواور اورنوس او غلو عثمانى مملك كے بارسوخ خاندانوں ميں ميں شمار ہونے لگے_(۴)

مفتوحہ سرزمينوں ميں رعايا كى سہولت كے پيش نظر قانون و نظم كى برقرارى ، انكى جان ومال كى حفاظت اور حكومت كا رعايا پر ٹيكسوں ميں كمى كرنا يہ وہ امور تھے جنكى بناء عيسائي رعايا عثمانيوں كو اپنے سابق حاكموں پر ترجےح ديتے تھے_(۵)

____________________

۱) استانفورڈ جى ، شاد ،سابقہ حوالہ ص ۱۰۰

۲) استانفورد جى شاد،سابقہ حوالہ ص ۴۰

۳) لارڈكين راس ، سابقہ حوالہ ص ۲۶_ ۲۴

۴) اوزون چارشيلى ، سابقہ حوالہ ص ۱۳۱ ، ۱۴۱ ، استانفورڈ جى شاو،سابقہ حوالہ ص ۸۵ _ ۸۲ _ ۵۲ لارڈكين راس، سابقہ حوالہ ص ۲۷ _ ۲۴

۵) Sender ، Op.Cit.P.۳۰

۲۳۰

تيمور كى يلغار اور بايزيد اول كے بيٹوں كے باہمى كشمكش سے خلاء پيدا ہوا ،اسكے بعد عثمانى تاريخ كا دوسرا دور شروع ہوا كہ جسے عثمانى بادشاہت كى دوبارہ تشكيل اور عثمانى حكومت كے عروج كے دور سے ياد كياجاتا ہے_ سلطان محمد اول كے زمانہ ميں دوبارہ عثمانيوں ميں يكجہتى پيدا ہونے كے بعد مراد دوم نے قسطنطيہ كو ايك مدت تك محاصرہ ميں ركھا_(۱) اور اناتولى كے بہت سے امراء كو اطاعت گزار بنايا _(۲)

سلطان محمد دوم (حكومت ۸۸۶_۸۵۵ / ۱۴۸۱_ ۱۴۵۱ عيسوي) المعروف فاتح تخت نشين ہوا، اسے عثمانى فتوحات كى تاريخ ميں اہم ترين فتح يعنى سنہ ۸۵۷ كا / ۱۴۵۲ عيسوى ميں قسطنطيہ كى فتح اور بيزانس كى بادشاہت كے خاتمہ كى توفيق حاصل ہوئي يہاں تك كہ قرون وسطى كا دور ختم ہوا اور قرون جديد كا دور شروع ہوا_ اس نے قسطنطيہ كو عظیم الشان مساجد اور مدارس كے اسلامى دارالحكومت ميں تبديل كرديا_(۳)

مغرب ميں سربيا ، بوسنيا، ہرزگوينيا اور شمال ميں جزيرہ كريمہ پر قبضہ كرليا_ ليكن شہربلغراد كو فتح كرنے سے ناكام رہا(۴) فاتح نے مشرقى روم كے دارالحكومت كو فتح كرنے اور ديگر فتوحات كے ذريعے مملكت عثمانيہ كو ايك بہت بڑى طاقتور بادشاہت ميں تبديل كيا اور خود ايك عظيم الشان بادشاہ كے روپ ميں دنيا كے سامنے جلوہ گر ہوا_(۵)

وہ تجارت كے پھلنے پھولنے كو بہت اہميت ديتا تھا_ عمومى مصالح كے پيش نظر اس نے مملكت عثمانيہ كے اٹلى سے روابط كو كنٹرول كرتے ہوئے انہيں ايك خاص نظم ميں لايا _ اٹلى كے تاجروں پر كسٹم ٹيكس كى معافى ختم كردي_ اور بعد ميں انكے تجارتى مال پر كسٹم ٹيكس دو فى صد سے پانچ فيصد بڑھاديا اور مملكت عثمانيہ كے شہرى خواہ يوناني، يہودى ، ارمنى اور مسلمانوں كو سہولت دى كہ اٹلى كے تاجروں كى جگہ يہ لوگ تجارت كريں _

____________________

۱) sevim-yucel ، Op.cit ، PP ،۶۹-۹۷

۲)احمد راسم،سابقہ حوالہ ، ص ۵۴_

۳) سابقہ حوالہ ص ۲۰۵_ ۲۰۲، ۲۱۵_ ۲۱۴_

۴) احمدراسم ، سابقہ حوالہ ص ۲۰۵ _ ۲۰۲_ ۲۱۵_۲۱۴_

۵) Kunt ، Metin ، Op.cit ، P ۷۶ ، inalcik ، intarkdunvasi...P ۴۶۴

۲۳۱

اس دور ميں بعض شہر مثلاً بروسہ جو كہ ايران اور سعودى عرب كے تجارتى قافلوں كے راستہ ميں آتا تھا ، تجارت كے مركز ميں تبديل ہوگيا بالخصوص يہ شہر ايرانى ريشم كى تجارت كے باعث ريشمى كپڑوں كى صنعت كا بہت بڑا مركز بن گيا _(۱)

سلطان محمد فاتح كا دور تہذيب وتمدن اور علوم كى ترقى اور پھلنے پھولنے كا زمانہ بھى تھا _ وہ خود بھى اعلى سطح كى تعليم حاصل كيے ہوئے تھا اور تركي، فارسي، عربى لاطينى ، يونانى اور عربى زبانوں كو جانتا تھا _(۲) استانبول كو فتح كرنے كے بعد فورى طور پر اس نے اياصوفيہ كليسا كو مسجد ميں تبديل كرنے اوراسكے نزديك ايك مدرسہ بنانے كا فرمان جارى كيا_ اور علاء الدين على قوشجى (متوفى ۸۷۹ قمري) كو وہاں كا سرپرست اور منتظم بنايا_

قوشجى ايك زمانہ ميں سمرقند كے رصدخانہ كا منتظم تھا_ الغ بيگ كے قتل كے بعد اوزدن حسن آق قونيلو كى خدمت ميں پيش ہوا چونكہ وہ مذكورہ بادشاہ اور عثمانى سلطان ميں ايك مصالحت كيلئے فاتح كے دربار ميں حاضر ہوا تھا اس ليے فاتح كى توجہ كا مركز قرار پايا اور اس نے قوشجى كے استنبول ميں اقامت پذير ہونے پر رضايت كا اظہار كيا_ قوشچى نے ثمرقند كے علمى مركز كو مملكت عثمانيہ ميں منقتل كرنے اور مملكت عثمانيہ ميں بہت سے علوم مثلاً رياضى اور نجوم كى ترقى ميں اہم كردار ادا كيا اس نے عربى زبان ميں علم ہيئت كے متعلق ايك رسالہ لكھا اور فاتح كى اوزدن حسن پر فتح كى مناسبت سے اسكانام فتحےہ ركھا_(۳)

فاتح كے حكم پر مسجد فاتح كے گرد ونواح ميں بننے والے مدارس نيز دربارسے وابستہ مدارس اور علمى مراكز علماء دين اور حكومتى عہديداروں كى تربيت كے اہم مراكز بن چكے تھے_(۴)

____________________

۱) Inalcik ، Op.cit ، P ۴۶۵ ، Inalcik ، La ، Vol ،۷ PP ۵۳۳ -۵۳۴

۲_ احمد راسم ، سابقہ حوالہ ص ۲۱۹_

۳_ ابوالقاسم قرباني، زندگى نامہ رياضى دانان دورہ اسلامي_ تہران ص ۳۶۴ _۳۶۰ _

۴) Huseyin ، Yurdaydin ، Dusunceve bilim Tavihi( ۱۳۰۰-۱۶۰۰ ) in Turkiye Tarihi ، ed sim Aksin ، Vd ۲ ، PP. ۱۸۱-۱۸۲

۲۳۲

فاتح كے بعد سلطان بايزيد دوم اور اس كے بعد سلطان سليم اول ( ۹۲۶_ ۹۱۸ق) المعروف ياووز (بے رحم) تخت نشين ہوا _ اس نے چالدران كى جنگ ميں شاہ اسماعيل صفوى پر كاميابى كے علاوہ مكمل طور پرا ناتولى پر تسلط، شام اور مصر كو فتح كرنا اور مماليك (غلاموں ) كى حكومت ختم كرتے ہوئے عثمانى مملكت كو دوگنا كرديا_ ''خادم حرمين شرفين'' كا لقب اختيار كيا اور شريف مكہ كى طرف سے اس كے نام كاخطبہ پڑھا گيا اور مصر ميں خاندان عباسى كے آخرى خليفہ ''متوكل على اللہ سوم'' سے خليفہ كا عنوان اپنے ليے اور اپنے عثمانى خاندان كيلئے منتقل كرنے كے ليے پورے عالم اسلام پر حكمرانى كے درپے ہوا(۱) _ انہى فتوحات بالخصوص بحيرہ روم كے مشرقى اور شمال مشرقى تمام سواحل كے عثمانى مملكت سے الحاق نے اس مملكت كى اقتصادى ترقى ميں اہم كردار ادا كيا _(۲)

شاہ سليم بذات خود شاعر تھا فارسى ميں اسكا ديوان آج بھى اس كى يادگار كے طور پر باقى ہے _ وہ علماء اور عرفاء كى محفل ميں بيٹھنا پسند كرتا تھا_ شيخ محى الدين ابن عربى كے ساتھ عقيدت كى بناء پر شام ميں انكى قبرپر ايك مقبرہ بنايا _(۳) اس نے اپنے زمانے كے مشہور علمى وثقافتى مراكز كى لائبريريوں سے نفيس كتابوں كو استنبول منتقل كيا اور علماء ، ہنرمندوں اور تاجروں كو بھى استنبول دعوت دي، اسطرح وہ چاہتا تھا كہ جسطرح وہ اسلامى دنيا كا طاقتورترين سلطان نظر آتا ہے _ اسى طرح اسكا دارالحكومت بھى عالم اسلام كا عظیم الشان شہر بن جائے(۴) _ اگر چہ شاہ سليم نے آٹھ سال سے زيادہ حكومت نہيں كى اسكے باوجود اتنى قليل مدت ميں روم ايلى اور آناتولى كے علاقوں كى ايك مقامى مملكت ايك عالمگير بادشاہت تك ترقى كرگئي _(۵)

____________________

۱) Serafeddinturan ، selim in La ، Vol ۱۰ p ۴۲۷-۴۳۲ sander ، opcit ، p ۳۵

۲) Derin ، op. citP ۴۸۱

۳) محمد امين رياحي، زبان و ادب فارسى در قلمرو عثمانى ،تہران ص ۱۷۸ _ ۱۶۸ الہامہ مفتاح و وہاب ولى ، نگاہى بہ روند نفوذ وگسترش زبان و ادب فارسى در تركيہ ، تہران ص ۲۰۲_۱۹۴

۴) P.۱۱۶ ، Kunt ، op دربارہ ہنرمندان و دانشمندان وشعراى راہى شدہ از ايران بہ استانبول در زمان سلطان سليم _ نصراللہ فلسفى ، جنگ چالدران _ مجلہ دانشكدہ ادبيات، س۱ ،ش ۲ ،ص ۱۱۱ _ فريدون بيك منشات السلاطين _ استانبول ج ۱ ، ص ۴۰۵ _

۵) kunt ، op ، cit ، p-۱۱۹

۲۳۳

سليم كے بعد اسكابيٹا سليمان ( ۹۷۴ _ ۹۲۶ قمرى / ۱۵۶۶_ ۱۵۲۰ عيسوي) المعروف قانوني، كبير اور باشكوہ _(۱) تخت نشين ہوا_ اس نے اپنے آباؤ اجداد كى روايت كو جارى ركھا _ اپنے اقتدار كے ابتدائي دور سے ہى مملكت عثمانيہ كو مشرق ومغرب سے برّى و بحرى مناطق ميں وسعت دينا شروع كرديا_ مثلاً اس نے سات مرتبہ ہنگرى پر حملہ كيا_(۲) جنگوں اور حملوں كا يہ دائرہ وہاں سے بڑھا يہاں تك كہ ہنگرى سے آگے بوہم (چيكو سلواكيہ) اور باداريا تك جاپہنچا_(۳) اس نے دوبارہ سن ۱۵۲۹ اور ۱۵۳۲ عيسوى ميں اس اميد پر ہيسبورگ خاندان كے مركز حكومت پر حملہ كيا جو يورپ كے وسيع حصہ پر حاكم تھے_(۴) تا كہ اس پر قبضہ كرسكے يا كم از كم آسٹرياكى فوجى حيثيت كو ايسا تباہ كردے كہ ہنگرى كے معاملات ميں دخل دينے سے باز رہے(۵) _ ليكن مختلف اسباب كى بناء پر اس شہر كو فتح نہ كرسكا(۶) _

سليمان نے كئي بارمسلسل چند سال تك صفوى سلطنت پر بھى حملہ كيا ليكن تہماسب صفوى كى افواج كى طرف سے زمين جلانے والى سياست كى بناء پر سليمان كى آذربائيجان عراق عجم اور عراق عرب پر فوجى كاميابياں زيادہ مستحكم نہ رہ سكيں _ بالآخر ۹۶۲ قمرى / ۱۵۰۵ عيسوى ميں آماسيہ معاہدہ پر دستخط كرتے ہوئے ان جنگى ثمرات كو بھى كھو بيٹھا_(۷)

ليكن عراق اس كے پہلے حملے (سال ۹۴۲ _ ۹۴۰ قمري) _( ۱۵۳۴ _۱۵۳۳عيسوي) ميں شاہ سليمان كے قبضہ ميں آگيا اس فتح كے ساتھ شاہ سليم كے زمانے سے شروع ہونے والى اسلامى خلافت كے تمام

____________________

۱- Magnificent

۲) لردكين راس ، سابقہ حوالہ ص ۲۶۱_

۳)استانفورڈجى ، شاو، سابقہ حوالہ ، ص ۱۷۱_

۴) دايرة المعارف فارسى ، ج ۱ ص ۳۲ _ ۲۵_

۵) استانفورد جى ، شاد،سابقہ حوالہ ص ۱۷۰_

۶) لرد كين راس، سابقہ حوالہ ص ۲۰۵_ ۱۹۸_

۷) رئيس نيا مقدمہ : نصوح مطراق چي، بيان منازل ، تہران ص ۵۳_ ۳۱ _ دايرة المعارف فارسى ج ۱ ص ۲۳۶_

۸- Kramers ، Op Cit ، P ۱۹۵

۲۳۴

دارالحكومتوں كو فتح كرنے كى مہم ختم ہوگئي_(۱)

مملكت عثمانيہ كى وسعت مشرق ميں خليج فارس تك پھيل گئي(۲) بلاشبہ باشكوہ سليمان كے دور ميں مملكت عثمانيہ كى سرحديں وسعت كى آخرى حدوں كو چھونے لگيں تھيں _ اسكى وفات كے زمانہ ميں يورپ ميں بن بوڈاپسٹ كى تمام سرزمين جزيرہ عرب كے آخرى كنارے بندگارہ عدن تك اور افريقا ميں مراكش سے ايشيا ميں ايران تك تمام سرزمينيں اسكى مملكت ميں شامل تھيں _(۳)

شاہ سليمان نے اپنى آدھى صدى پر محيط حكومت ميں سوائے زندگى كے آخرى چند سال كے بقيہ زندگى ايك محاذ سے دوسرے محاذ پر جنگ و حملہ ميں گذارى كيونكہ دارالحرب كى طرف مملكت كو وسعت دينا ، اسلامى عقيدہ جہاد كے ضرورى احكام ميں سے تھا_ اسى لئے جب وہ اپنى عمر كے آخرى دور ميں اندرونى مشكلات ومسائل كو حل كرنے اور بڑھاپے كى بناء پر چند سال جہاد نہ كرسكا تو شيخ نوراللہ جو كہ اس زمانہ كے فقہاء ميں سے تھے ، انہوں نے اعلان كيا كہ جو بادشاہ جہاد جيسا فرض اجرا نہيں كررہا ہے اسكا مواخذہ كرنا چاہئے _ بعض محققين اس تنقيد كو اس كے لشكر كشى كے دور كے اختتام كى وجہ سمجھتے ہيں اسى دور ميں وہ وفات پاگيا _(۴)

شاہ سليمان ايك انتھك جنگى كمانڈر ہونے كے ساتھ ساتھ عدل و نظم كے قيام كى خواہش ركھنے والا قانون دان بھى تھا_ اسكى واضح مثال اسكا ''قانون نامہ سليمان'' ہے كہ جو اس كى براہ راست نگرانى ميں شرعى احكام اور گذشتہ قوانين بالخصوص قانون نامہ محمد دوم فاتح كى رعايت كرتے ہوئے اور اس زمانہ كے تقاضوں كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے تدوين كيا گيا _ نيز اس قانون نامہ كو مترتب كرنے كى وجہ يہ تھى كہ طبقہ حاكم اور سلطان كے تابع افراد كے حقوق اور فرائض كى تشخيص كى جائے اور رعايا كے حقوق و مالى مسائل كو حل كياجائے اور حكومتى اداروں كے فرائض كى حدود معين كى جائيں وغيرہ

____________________

۱) kramers ، op.cit ، p ۳۷

۲)_ استانفورد چى ، شاوسابقہ حوالہ ص ۱۷۵_ ۱۷۴_

۳) Sander ، op cit ، P ۳۷

۴) Gokbilgin LA ،۱۱ ، P ۱۵۵

۲۳۵

مذكورہ قانون نامہ شيخ الاسلام ابوالسعود آفندى كى راہنمائي اور فتاوى كے ساتھ ساتھ ملا ابراہيم حلبى كى نگرانى ميں تدوين ہوا _ اس قانون نامہ كے وسيع پيمانہ پر اجراء ہونے كى صلاحيت كى بناء پر اسے ''ملتقى الابحر'' يعنى سمندروں كى ملاقات كى جگہ '' كانام ديا گيا _ اور يہ قانون نامہ انيسويں صدى ميں قانون ميں اصلاحات اور تراميم كے دور تك باقى رہا(۱) _ سليمان كو قانونى كا لقب بھى اسى لئے ديا گيا تھا_

شاہ سليمان كا طولانى دور حكومت ہنر و ادب كى رونق كے ادوار ميں سے ايك دور جانا جاتا ہے _ شعراء ، ہنرمند، قانون دان، فلاسفہ ، مورخےن ، دانشور حضرات ، علماء ، اہل ادب اور دربار كے مہمان ان تمام مادى وسائل سے بہرہ مند تھے جو اس نے ان كيلئے فراہم كئے تھے_(۲)

اسكے دور حكومت ميں برگزيدہ علماء كى فہرست ميں عبداللہ شيخ ابراہيم شبسترى اور ظہيرالدين اردبيلى بلاشبہ ايرانى مملكت سے تعلق ركھتے تھے_(۳)

معمارى كے آثار مثلاً سليمانيہ ، مسجد سلطان سليم اور اس كے گردو نواح كے آثار كہ جو شاہ سليمان كے حكم پر سال (۹۹۶_ ۸۹۴ قمري/۱۵۸۸_ ۱۴۸۹ عيسوي) ميں معروف معمارسنان كى نگرانى ميں دائرہ وجود ميں آئے، شاہ سليمان كے دور كے عظيم الشان شاہكار ہيں _ سنان فن معمارى ميں نابغہ روزگار تھا وہ سليمان كے بہت سے حملات ميں شريك تھا اور ۳۵۰ سے زيادہ معمارى كے فن پارے مثلاً بڑى ، چھوٹى مساجد، مدرسہ ، دالقرائ، مقبرہ ، عمارت، محل ، دارالشفاء ، كاروانسرااور حمام و غيرہ اس سے منسوب كيے جاتے ہيں(۴)

____________________

۱) استانفورد جى شاد،سابقہ حوالہ ص ۱۶۲ ، ۱۸۵_ ۱۸۴_ ۲۳۸ _ ۲۳۷ ،ورڈكين راس ،سابقہ حوالہ ص ۲۱۴_ شمس الدين سامى ،سابقہ حوالہ ص ۵۶۸_

۲) الہامہ مفتاح و وحاب لى ،سابقہ حوالہ ص ۲۰۶ _

۳) Gokbilgin ، OP.cit ، P ۱۵۲

۴) Oktay ، Aslanapa ، sinan in la ،۱۰ ، pp - Meydan. Lorousse ، vol.۱۱ ) ۱st ۱۹۸۱ ، pp ،۳۵ : Gokbilgin ، La vol.۱۱ p ،۱۴۹

۲۳۶

كہاجاتا ہے كہ شاہ سليم كے دور ميں جتنے ہنرمند لوگ اسكے حكم پر استنبول ميں آئے وہ سب شاہ سليمان كے دور ميں بھى اپنے ہنر وفن كے كرشمے دكھاتے رہے_(۱)

شاہ سليمان كا دور مملكت عثمانيہ كى عظمت كے عروج كا دور تھا ايك نظريے كے مطابق خود شاہ سليمان سياست ميں تمام عثمانى بادشاہوں ميں پہلے نمبر پر ہے(۲) _ ان سب عظمتوں كے ساتھ ساتھ، اسى شاہ كے نصف دور حكومت سے مملكت عثمانيہ كى جڑيں كھوكھلى ہونابھى شروع ہوگئيں يہ صورتحال بعد كى صديوں ميں بھى جارى رہي_(۳)

لارڈ كين راس نے اگر چہ شاہ سليمان كى شخصيت كے مختلف مثبت اور اہم پہلوؤں پر خاص توجہ اور انہيں زور دار انداز ميں بيان كياہے كہ جن كى بدولت اس نے عثمانى حكومت كو ايك خاص نظم ديكر عظمت و قدرت كى معراج پر پہنچايا ليكن وہ اس بات كو نہيں بھولا كہ انہى عظمتوں اور بلنديوں ميں زوال وپستى كے بيج بھى مخفى تھے كيونكہ اس كے بعد جو بھى سلاطين آئے ان ميں نہ كوئي فاتح تھا نہ قانون گذار اور نہ ہى فعال حاكم(۴)

۳_مغل سلاطين

دين اسلام كا ہندوستان ميں داخل ہونا اور پھر اسلامى حكومت كى تشكيل مختلف مراحل پر مشتمل ہے _ قرن اول كى ابتداء سے ہى مسلمان تجار نے مالابار اور گجرات كے ساحلوں ميں سكونت پذير ہندوستانيوں كى مقامى آبادى سے تجارتى تعلقات قائم كيے پھر اسلام كا ايك نئے اور پركشش دين كے عنوان سے ان علاقوں ميں آہستہ آہستہ تعارف ہوا_

____________________

۱) استانفورد جى شاد، سابقہ حوالہ ص ۶۱_

۲) آنستونى بريج، سابقہ حوالہ ص ۲۲_

۳) استانفورد جى شادسابقہ حوالہ ص ۲۹۱_

۴)لارڈكين راس_سابقہ حوالہ ص ۲۶۴_

۲۳۷

بعد كے ادوار ميں مسلمان غازيوں كے ان علاقوں پر حملوں سے ہندوستانيوں كى دين اسلام سے آگاہى اور دلچسپى بڑھتى چلى گئي _ مسلمان مجاہدين كے ساتھ عرفا اور صوفيوں كى بہت بڑى تعداد اسلام كى تبليغ و ترويج كيلئے اس سرزمين ميں داخل ہوئي كہ انہوں نے مسلمان مجاہدين سے مختلف انداز سے اپنے مكتب كى بہت وسيع شكل ميں اور عميق انداز ميں ہندوستانيوں ميں ترويج كى _

مسلمانوں كى زيادہ تر فتوحات ہندوستان كے شمالى علاقوں ميں انجام پائيں _ شروع ميں ترك اور افغان سلاطين ان علاقوں ميں داخل ہوئے_ بعد كے ادوار ميں مختلف مسلمان خاندان ہندوستان ميں حكومت كرتے رہے _ مثلاً دكن كے بہمن ، قطب شاہي، تغلق و آخركار مغل مسلمان خاندان ہندوستان كى بلا مقابلہ سياسى اور اقتصادى قوت كى صورت ميں سامنے آيا_ مغليہ خاندان اپنے منظم اور مرتب نظام حكومت كى بناء پورے ہندوستان كو ايك حكومت كے پرچم تلے لے آئے_ بلاشبہ ہندوستان ميں مسلمانوں كى حكومت كا عروج مغليہ خاندان كے اقتدار كے دوران تھا_

سياسى تاريخ

ہند كے مغليہ سلسلہ حكومت يا بابرى حكومت كى بنياد ظہر الدين بابر نے ركھى كہ جسكا نسب تيمور مغل تك پہنچتا تھا_ تيمور چونكہ منگول قوم سے نسبت ركھتا تھا اسى لئے بعض تاريخى ماخذات ميں مغليہ سلسلہ حكومت كو ہندوستان كے منگولوں كے عنوان سے بھى ياد كيا گيا ہے_(۱)

ظہيرالدين ابتدا ميں سمرقند كا حاكم تھا_ اس نے ۹۱۰ ہجرى قمرى ميں شہر كابل پر قبضہ كرليا اس دور ميں اسكے ہمسايوں ميں دو بڑى طاقتيں صفوى اور ازبك تھے ان كى موجودگى ميں وہ ہرگز اپنى مملكت كو مركزى ايشيا يا ايران كى طرف نہيں بڑھا سكتا تھااسى لئے اس نے اپنے حملات اور فتوحات كا مركز مشرقى علاقوں مثلاً ہند اور

____________________

۱) شيخ ابوالفضل مبارك ، اكبرنامہ، غلامرضا طباطبائي مجد كى كوشش سے تہران _ مؤسسہ مطالعات وتحقيقات فرہنگى ص ۱۳۸

۲۳۸

كابل كو قرار ديا _ بابر كى ۹۳۶ہجرى قمرى ميں وفات كے بعد اسكا فرزند ہمايوں تخت نشين ہوا ، ہمايوں اپنے طاقتور رقيبوں يعنى اپنے سوتيلے بھائي كامران ميرزا اور شيرشاہ سورى كى طرف سے دبائو ميں تھا ،بالآخر ۹۵۱ ہجرى قمرى ميں شير شاہ سورى سے شكست كھانے كے بعد اس نے شاہ طہماسب صفوى كے دربار ميں پناہ لى _ يہاں تك كہ ۹۶۲ہجرى قمرى ميں ايرانيوں كى مدد سے دوبارہ اپنا تاج و تخت واپس لے ليا _(۱)

ہمايوں كے بعد جلال الدين اكبر تخت نشين ہوا اگر چہ اس كى عمر چودہ سال سے زيادہ نہ تھى ليكن اس نے اپنے ايرانى شيعہ سرپرست بہرام خان كى تدبيروں سے اپنى حكومت كى ابتدائي مشكلات پر قابو پاليا _

اكبر نے اپنے دور حكومت ميں دارالحكومت كو دہلى سے آگرہ كى طرف منتقل كيا _ اس نے اپنے دانا وزير ابوالفضل علامى كى مدد سے اپنے ماتحت علاقوں ميں ايك خاص نظم و قانون جارى كيا_ اكبر بادشاہ كا دور حكومت مغليہ دور كا عروج شمار ہوتا ہے_(۲)

اس نے اپنے رقيبوں كى بہت سى بغاوتوں اور ہندووں كى بغاوت كا قلع قمع كرتے ہوئے اپنى حكومت كو پندرہ صوبوں ميں تقسيم كيا اور بذات خود گورنروں كے كاموں كى نگرانى كرتا تھا_

۱۰۱۴ ہجرى ميں جلال الدين اكبر نے آگرہ ميں انتقال كيا _ اسكے بعد اسكا بيٹا جہانگير تخت نشين ہوا_ جہانگير نے اپنى حكومت كے دوران سكھوں كى سب سے بڑى بغاوت كا خاتمہ كيا_ اس وجہ سے ہندوؤں ميں اسكے حوالے سے كينہ پيدا ہوا_ ہندوؤں نے جہانگير كے رقيبوں كا ساتھ ديا جسكى بناء پر بعض علاقے احمد نگر، دكن وغيرہ مغليہ مملكت سے نكل گئے_ جہانگير نے بھى زندگى كے آخرى سالوں ميں مجبورہوكر كابل ميں سكونت اختيار كي_

۱۰۳۷ قمرى ميں جہانگير كابڑا بيٹا شاہ جہاں تخت نشين ہوا چونكہ اسكى ملكہ نورجہاں ايرانى تھي، اسى ليے بہت

____________________

۱) بايزيد بيات _ تذكرہ ہمايوں واكبر، محمد ہدايت حسن كى تصحيح سے_ تہران، انتشارات اساطير ، ص ۳_

۲) شيخ ابوالفضل مبارك سابقہ حوالہ ص ۲۰۵_

۲۳۹

سے ايرانيو ں نے مغليہ دربار ميں جگہ پائي_(۱)

مغليہ سلسلہ كا آخرى قوى ترين بادشاہ اورنگ زيب تھا كہ اس نے اپنے خاص مذہبى رجحان كى بناء پر ايرانيوں سے اچھے روابط نہيں ركھے_ اسكے دور اقتدار كے بعد مغليہ حكومت روز بروز كمزور اور ضعيف ہوتى چلى گئي اور آہستہ آہستہ زوال پذير ہوگئي_

مغلوں كے صفويوں سے روابط

بابر بادشاہ نے كابل ميں حكومت كے دوران شاہ اسماعيل صفوى اور شاہ طہماسب صفوى سے محدود سے روابط شروع كيے اس نے صفويوں سے دوستى كى بناء پر ازبكوں كے مد مقابل اپنى حكومت كو محفوظ ركھا_ ہمايوں كا دور حكومت بہت اہميت كا حامل تھا_ ہمايوں كى ايران ميں اقامت اور ايرانيوں سے آشنائي كى بناء پر دونوں حكومتوں ميں قريبى روابط برقرار ہوئے اور بہت سے ايرانى مغليہ دربار ميں وابستہ ہوئے كہ ان ميں سب سے اہم ہمايوں كا وزير بہرام خان تھا_

جلال الدين اكبر صفويوں كے دوبادشاہوں شاہ طہماسب اور شاہ عباس كا ہم عصر تھا(۲) دونوں حكومتوں كے اچھے روابط ميں اہم مسئلہ قندھار تھا كہ جسے اكبر نے اپنے قبضہ ميں لے ليا تھا يہ شاہ عباس كبير كے ابتدائي دور ميں ہوا كہ جب ايران كے حالات كچھ اچھے نہ تھے_

اكبر كى مانند جہانگير اور شاہ جہاں كے بھى صفويوں كے ساتھ روابط ميں قندھار كا مسئلہ موجود رہا _مجموعى طور پر بابر كے زمانہ سے ليكر بعد تك قندھار دونوں حكومتوں كے مابين ادھر اُدھرمنتقل ہوتا رہا_ ليكن دونوں حكومتوں كے صبر وحوصلہ كى بناء پر اس مسئلہ سے خصومت نہيں بڑھى كيونكہ جب ايك حكومت قندھار پر قابض

____________________

۱) ش، ف ، دولافوز تاريخ ہند، ترجمہ محمد تقى فخرداعي، گيلانى ، تہران كميسيون معارف ص ۱۶۱_

۲) رياض الاسلام ، تاريخ روابط ايران وہند ، اميركبير ص ۲_۲۷۱ _

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298