تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 298
مشاہدے: 132563
ڈاؤنلوڈ: 2897


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 132563 / ڈاؤنلوڈ: 2897
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 2

مؤلف:
اردو

بت شكن ، بت پرست

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان بت پرستوں سے بيعت لى جواب مسلمان ہوگئے تھے اورعورتوں كے لئے بھى پانى كا ايك برتن لا يا گيا اور اس ميں تھوڑا سا عطر ملا ياگيا _ عورتوں نے اپنے ہاتھ بيعت كى غرض سے پانى كے اندر ڈالے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے يہ عہد و پيمان ليا كہ وہ شرك، زنا اور چورى نہ كريں

پھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب كو حكم ديا كہ جو بت ان كے پاس ہيں ان كو توڑڈاليں يہاں تك كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بڑے بڑے مشركين كو بتوں كے توڑنے كے لئے قرب و جوار ميں بھيجا _يہ لوگ بتوں پر اعتقاد ركھتے تھے اور اپنے مفادات كے لئے بتوں كى حمايت كرتے تھے اب خود ہى بت شكنى ميں مصروف ہوگئے_

آزاد شدہ شہر ''مكہ ''كے لئے والى اور معلم دين كا تقرر

مشرك قبيلے '' ہوازن اور ثقيف'' كى سازشوں كى خفيہ خبريں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك پہنچ چكى تھيں_ اب ان كے علاقوں ميں پہنچ كر سازشوں كو كچل دينا پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے ضرورى تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بيس سالہ لائق اور مدبّر جوان ''عتّاب بن اسيد'' كو شہر مكہ كا والى بنايا(۱۱) اور معاذ ابن جبل كو جو معارف اسلام سے واقف فقيہ تھے ، تبليغ اسلام اور مكہ والوں كو احكام دين سے آشنا كرنے كے لئے معلّم كے عنوان سے معيّن فرمايا_(۱۲) فتح مكہ كے سلسلہ ميں سورہ نصر نازل ہوا _ ( ۱۳ )

اسلام كے نام پر خونريزى اور جرائم

فتح مكہ كے بعد ر سول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خالدبن وليد كو بت شكنى اور تبليغ اسلام كے لئے ۳۵۰ ، مہاجرين و انصار كے ساتھ قبيلہ بنى جذيمہ كى طرف بھيجا _خالد نے وہاں پہنچنے كے بعد بنى

۲۰۱

جذيمہ كو كسى قسم كا حملہ نہ كرنے كا يقين دلا كر غير مسلح كرديا اور پھر زمانہ جاہليت ميں بنى جذيمہ كے ہاتھوں قتل ہوجانے والے چچا كا بدلہ لينے كے لئے فرمان رسول خدا كى مخالفت كرتے ہوئے ان كو اسير بناليا اور پھر قتل كا حكم ديديا_ مہاجرين و انصار نے خالد بن وليد كے حكم پر عمل كئے بغير اسيروں كو آزاد كرديا جبكہ خالد كے قبيلہ ، بنى سليم نے بعض اسيروں كو قتل كرڈالا اور اس طرح كچھ بے گناہوں كو موت كے گھاٹ اتاردياگيا_

جب يہ خبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك پہنچى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدايا خالدنے جو كيا ہے اس كے لئے ميں تيرى بارگاہ ميں بيزارى كا اظہار كرتا ہوں''_پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علي(ع) كو معين فرمايا كہ مقتولين كا خون بہا اور ستم رسيدہ افراد كو ہر جانہ ادا كريں _

جو مال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ديا تھا حضرت عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے اپنے ساتھ لے كر بنى جذيمہ كے پاس پہنچے ،مقتولين كا خوں بہا اور نقصانات كا ہر جانہ ادا كيا _ يہاں تك كہ لكڑى كے اس برتن كا بھى حساب ہوا جس ميں كتّا پانى پيتا تھا جب آپ اس بات سے مطمئن ہوگئے كہ اب كوئي خون بہا اور ہر جانہ باقى نہيں رہا تو جو مال باقى بچا تھا اس كو بھى آپ(ع) نے ان كے درميان تقسيم كرديا تاكہ مصيبت زدہ افراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے راضى ہوجائيں _(۱۴)

حضرت على (ع) واپس پلٹے تو اپنے كام كى رپورٹ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پيش كى آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' ميرے ماں باپ فداہوں'' تم نے بڑا عمدہ كام كيا _ تم نے جو كيا وہ ميرى نظر ميں سرخ بالوں والے اونٹ ركھنے سے بہتر ہے _(۱۵)

جنگ حنين

۵ /شوال ۸ ھ بمطابق ۲۹ جنورى ۶۲۹ ء بروز جمعة المبارك

۲۰۲

مشركين كے اہم مركز مكہ كى فتح نے اطراف مكہ كے مشرك قبيلوں كے دلوں ميں شديد رعب ووحشت پيدا كرديا _ ان قبيلوں نے تحريك اسلام كى موج كو روكنے كے لئے ارادہ كيا كہ تمام قبائل كے اتحاد اور وحدت سے ايك وسيع منصوبہ كے تحت غفلت كے عالم ميں مسلمانوں كے حملہ سے پہلے ہى حملہ كرديا جائے_

ہوازن ، ثقيف ، نضر ، سعد اور چند دوسرے قبيلوں نے مل كر اسلام كے خلاف ايك مشتركہ محاذ بنا يا اور قبيلہ ہوازن كے دلير اور شجاع سردار مالك بن عوف كو لشكر كا سپہ سالار چناگيا _(۱۶)

دشمن كى سازش سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى آگاہي

جنگى محاذكى تشكيل اور دشمن كى سازشوں كى خبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے كانوں تك پہنچى آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سرا غرساں دستہ كے ايك آدمى كو دشمن كے جنگى راز حاصل كرنے كے لئے متحدہ قبائل كے درميان بھيجا _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا فرستادہ دشمن كے لشكر ميں گھس كر ان كے منصوبوں اورخفيہ جنگى ارادوں سے باخبر ہوگيا اور لشكر كا تجزيہ كرنے كے بعد مكّہ واپس آيا اور جو كچھ ديكھا اور سنا تھا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بيان كرديا_(۱۷)

حنين كى طرف روانگي

دشمن كے حالات سے مكمل آگاہى كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''۱۲ ہزار ''سپاہيوں كے ہمراہ ''دس ہزار فتح مكہ ميں شركت كرنے والے مہاجرين و انصار اور دوہزار ان دليران مكہ كے ساتھ جو اسلامى تحريك سے آملے تھے '' مكّہ سے دشمن كى طرف روانہ ہوئے _(۱۸) يہ لشكر

۲۰۳

جزيرة العرب كى تاريخ ميں بے نظير تھا ساتھيوں ميں سے ايك شخص نے سفر كى ابتدا ميں جب جاں بازوں كى كثرت اور لشكر اسلام كے جنگى سازو سامان كو ديكھا تو كہا كہ '' اب مسلمان ، سپاہ كى كمى كى بنا پر مغلوب نہيں ہوںگے ''(۱۹) وہ اس بات سے غافل تھا كہ صرف افراد اور ساز و سامان ہى كاميابى كا سبب نہيں ہوتے _

دشمن كى اطلاعات اور تياري

دشمن كے لشكر كے سپہ سالار مالك بن عوف نے تين آدميوں كو جاسوسى اور لشكر اسلام كا تجزيہ كرنے كے لئے بھيجا وہ لوگ لشكر اسلام كو ديكھنے اور اس كى عظمت و ہيبت كا مشاہدہ كرنے كے بعد وحشت زدہ ہو كر واپس گئے اور لشكر اسلام كى عظيم طاقت كى خبر سپہ سالار كو پہنچائي _ اس خبر سے مالك كو احساس ہو گيا كہ آمنے سامنے كى جنگ ميں اس كا لشكر ، لشكر اسلام كا مقابلہ نہيں كرسكے گا _ لہذا اس نے اپنے آدميوں كو حكم ديا كہ حنين كى بلنديوں پر جنگى اعتبار سے مناسب جگہوں ، پتّھروں كے پيچھے اور پہاڑ كى بلنديوں پر مورچہ سنبھال ليں اور اس تنگ جگہ پر لشكر اسلام كے آتے ہى يكبار گى حملہ كرديں _ جنگجو افراد كو جنگ ميں زيادہ استقامت كرنے پر مجبور كرنے كے لئے اس نے حكم ديا كہ عورتوں ، بچّوں ، چوپايوں اور ديگر اموال كو بھى اپنے ساتھ لے ليں تا كہ ان (مال و غيرہ )كے دفاع كى زيادہ كوشش كريں_(۲۰)

درہ حنين ميں

مكہ سے ۲۸ كيلوميٹر شرق ميں واقع درّہ حنين كے نزديك لشكر اسلام منگل كى رات ۱۰/شوال ۸ ھ كو پہنچ گيا _ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق لشكر اسلام رات كو سوگيا اور صبح

۲۰۴

سويرے خالد ابن وليد كى كمان ميں لشكر كا ہر اول دستہ تياركركے آگے بھيج ديا گيا_

خالد مكہ كے شمال مشرق ميں ۱۲ كيلوميٹر دور مقام جعّرانہ تك بڑھے_ ۱۰شوال كى صبح ،دونوں لشكرآپس ميں ملے اور درّہ حنين ميں داخل ہوگئے _(۲۱)

فرار

دشمن ،لشكر اسلام كے لئے آمادہ اور منتظر تھا لہذايكبار گى مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا، صبح كى تاريكى ان كى مددگار اور سنگلاخ چٹانيں پناہ گاہ تھيں _ ان پناہ گاہوں سے لشكر اسلام پر تير بارانى ہور ہى تھى اور گھوڑے بدك رہے تھے_

مسلمان فوج بھاگنے لگى ، سب سے پہلے بنى سليم كے سواروں نے جو خالد كى كمان ميں تھے فراركو قرار پر ترجيح دى اس كے بعد دوہزار مكّى بھاگنے والوں كے ساتھ ہوگئے پھر تو باقى افراد بھى بھاگنے لگے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس صرف دس آدمى رہ گئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن كے نرغے ميں گھرے نہايت دليرى سے مقابلہ كررہے تھے اور اردگرد جو لوگ تھے وہ مردانہ وار جنگ ميں مصروف تھے _ اس مقابلہ ميں ''ايمن'' نامى لشكر اسلام كا سپاہى ،اپنے رہبر اور مقصد كا دفاع كرتے ہوئے خاك و خون ميں غلطاں ہو كر شہادت پر فائز ہو گيا_(۲۲)

واپسى ،مقابلہ ،كاميابي

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس حساس موقع پر مخصوص انداز سے متفرق اور بھا گے ہوئے لشكر كو جمع كيا جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كو فرار كرتے ہوئے ديكھا تو فرمايا '' لوگو كہاں بھاگے جارہے ہو؟ اس كے بعد پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے چچا عباس سے '' جن كى آواز بلند تھي'' كہا آواز ديں كہ '' اے

۲۰۵

گروہ انصار اے اصحاب بيعت رضوان ، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف پلٹ آؤ'' پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى استقامت و پائيدارى اور عباس كى آواز سے مسلمان ہوش ميں آگئے اور ايك كے بعد ايك پلٹ آئے _ مقابلہ كرنے والے لشكر كى تعداد سو تك پہنچ گئي اور بہادروں كى زبردست جنگ شروع ہوئي جنگ كى تپش ميں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ ''اب جنگ كا تنور دہك اٹھا ہے''_

ميدان رزم و پيكار كے شجاع ترين بہادر حضرت على عليہ السلام شروع ہى سے شمع نبوت كے اردگر د پروانہ وار چكر لگاتے ہوئے ، جان كى بازى لگا كر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا دفاع كررہے تھے_ اس عرصہ ميں آپ نے بنى ہوازن كے ۴۰ جيالوں كو جہنّم رسيد كيا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دشمن كے ناگہانى حملہ كے خلاف اپنى حكيمانہ اور دقيق رہبرى كے ذريعہ ايك نئے طريقہ كار كا انتخاب فرماياآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفيس رجز پڑھتے اور ايسى شجاعت كے ساتھ دشمن سے مقابلہ كرتے جو تعريف سے باہر ہے _ دشمن اپنى فتح كو بچانے كى كوشش كررہے تھے ليكن لحظہ بہ لحظہ كمزور ہوتے جارہے تھے اور سامنے لشكر اسلام كى تعداد ہر لحظہ بڑھتى جارہى تھى _

آخر كار دشمن كا دفاعى حصار ٹوٹ گيا ، مال وزن اور اولاد كى محبت ،دشمن كى پائيدارى كے لئے مضبوط سہارا نہ بن سكى _لشكر اسلام كے واپس پلٹ آنے اور شجاعانہ جنگ كى بدولت نيز دن كى روشنى پھيلتے ہى دشمن كى شكست كے آثار نماياں ہوئے اور اسلام كو كاميابى ملى(۲۳) _ دشمن چھ ہزار اسير اور بہت زيادہ مال غنيمت جو چوبيس ہزار اونٹوں چاليس ہزار گوسفند اور تقريباً آٹھ سو پچاس كلو گرام چاندى پر مشتمل تھا چھوڑ كر ميدان جنگ سے بھاگ گئے_(۲۴)

۲۰۶

عورتوں اور بوڑھوں كو قتل نہ كرو

جنگ كى آگ بھڑك رہى تھى تواس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ايك عورت كى لاش كے پاس سے گزر ے لوگوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بتايا كہ يہ وہ عورت ہے جس كو خالد بن وليد نے قتل كيا ہے_ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجاہدين ميں سے ايك شخص كے ذريعہ حكم بھيجا كہ خالد كے پاس پہنچ كر كہو كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمہيں عورتوں اور بوڑھوں كو قتل كرنے سے منع فر ما رہے ہيں _(۲۵)

چند قدم آگے بڑھ كر آپ نے ايك دوسرى عورت كى لاش ديكھ كر فرمايا _'' اس كو كس نے قتل كيا ہے ؟'' ايك شخص نے آگے بڑھ كر كہا'' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں نے اسے قتل كيا ہے ميں نے اس كو اپنى سوارى كى پشت پر بٹھايا تھا اس نے مجھے مار ڈالنا چا ہاتو ميں نے اس كو قتل كرديا '' آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _'' اس كو سپرد خاك كردو''_(۲۶)

دشمن كے فرار كے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ تمام مال غنيمت '' بدَيل بن وَرْقائ'' كى نگرانى ميں مقام ''جعّرانہ'' ميں جمع كيا جائے اور لشكر كے چند دستے مشركين كے تعاقب ميں جائيں جو مقام ْنخْلہ اور اوطاس كى طرف بھاگ گئے تھے_تعاقب كرنے والے دستے دشمن كو مكمل شكست ديكر اپنے مركز پر پلٹ آئے_

آغاز جنگ ميں مسلمانوں كى شكست كا تجزيہ

۱_ غرور، كثرت اور جنگى سازو سامان پر اعتماد اور نتيجہ ميں خود فريبى اور غيبى امداد سے غفلت آغاز جنگ ميں مسلمانوں كى شكست و فرار كے اہم اسباب تھے_

جيسا كہ خداوند عالم قرآن مجيد ميں ارشاد فرماتا ہے_

'' خدا نے بہت سے جگہوں پر تمہارى مدد كى من جملہ جنگ حنين ميںتمہارى مدد كى ، اس وقت جب تمہيں تمہارى كثرت نے تعجب ميں ڈال ديا _ ليكن اس نے ذرا سا بھى فائدہ نہيں

۲۰۷

پہنچايا اور زمين اپنى تمام وسعتوں كے با وجود تم پر تنگ ہوگئي پھر تم روگرداں ہو كر بھاگ گئے پھر خدا نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مومنين پر سكينہ (اطمينان) نازل كيا اور ايسا لشكر نازل كيا جس كو تم ديكھتے نہ تھے اور كافروں كو ذلت و عذاب ميں ڈال ديا _(۲۷)

۲_ دوسرا سبب ،لشكر اسلام ميں ابوسفيان و غيرہ ايسے منافقين كا وجود تھا جو دشمن كے پہلے ہى حملہ سے بھاگ كھڑے ہوئے اور نتيجہ ميں دوسرے سپاہيوں كے حوصلوں كى كمزورى كا سبب بنے اور وہ لوگ بھى بھاگ گئے_

۳_ شب كى تاريكى اور جغرافيائي حالات بھى دشمن كے لئے معاون ثابت ہوئے_

۲۰۸

سوالات

۱_ فتح مكہ كے موقع پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تاريخى تقرير كا كچھ حصّہ بيان كيجئے _

۲_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مكہ كے بعد اہل مكہ كے ساتھ كيا سلوك كيا ؟

۳_ خالد بن وليد '' بنى جذيمہ'' كے ساتھ مجرمانہ سلوك كا مرتكب كيوں ہوا؟

۴_ مسلمانوں كے ساتھ ،قبيلہ ہوازن اور ثقيف كے لڑنے كا محرك كيا تھا؟

۵_ دشمن كے ارادوں سے لشكر اسلام كيوں كر آگاہ ہوا؟

۶_حملہ كے آغاز ميں مسلمانوں كے فرار و شكست كے اسباب كيا تھے؟

۲۰۹

حوالہ جات

۱_ استلام يعنى حجر اسود پر ہاتھ پھيرنا_

۲_ امتاع الاسماع ج ۱ ص ۳۷۸ مطبوعہ قاہرہ _

۳_ جاء الحق و ذہق الباطل ان الباطل كان زہوقاً(اسرائ/۸۱)_

۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۵۴_

۵_مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۳۴_

۶_اعيان الشيعہ ج ۱ ص ۳۵۸_

۷_ (سورہ يوسف /۹۲)_

۸_ اذخر ايك خوشبو دار گھاس ہے جو اطراف مكہ ميں اگتى ہے_

۹_مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۳۶_

۱۰_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۵۶_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۱۳۷_

۱۱_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۸۳_

۱۲_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۸۸۹_

۱۳_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۸۸۹_

۱۴_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۶۱_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص۷۰،۷۳_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۸۷۵سے ۸۸۲_طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۱۴۷_

۱۵_تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۶۱ _

۱۶_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۸۲_

۱۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۸۲_

۱۸_ سيرت ابن ہشام ج۴ ص ۸۳_

۱۹_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۸۸۹_

۲۱۰

۲۰_مغازى واقدى ج ۳ ص ۸۸۸_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۸۱_

۲۱_مغازى واقدى ج ۳ص ۸۹_

۲۲_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۸۵ _ ۸۶_

۲۳_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۸۷ _۸۸ _ارشاد شيخ مفيد ص ۷۴_

۲۴_ تاريخ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ڈاكٹر آيتى مرحوم ص ۵۵۲_

۲۵_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۰۰_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۱۲_

۲۶_مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۱۲_

۲۴_( لَقَدْنَصَرَكُم اللّهُ فى مَواطنَ كَثيرة وَ يَوْمَ حُنَيْن اذَا اَعْجَبَتْكُم كَثْرَتُكُم فَلَمْ تُغْن عَنْكُم شَيْئاً وَضَاقَت عَلَيْكُم اْلارْضُ بمَا رَحُبَتْ ثُمَ وَلَّيْتُمْ مُدْبرينَ ثُمَّ اَنْزَلَ اللّهُ سَكينَتَهُ عَلَى رَسُوله وَ عَلَى الْمُؤمنين وَ اَنْزَلَ جُنُوداً لَمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الذَينَ كَفَرُوا وَ ذلكَ جَزَائُ الْكافرين ) (سورہ توبہ/۲۵/۲۴)_

۲۱۱

بارھواں سبق

طائف كى جنگ

جديد جنگى ہتھياروں كى ٹيكنالوجي

واپسي

ہوازن كے اسيروں كى رہائي

مال غنيمت كى تقسيم

وہ افراد جن كى دلجوئي كى گئي

منافقين كا اعتراض

دوستوں كے آنسو

مدينہ واپسي

غزوہ تبوك

ايك ہولناك خبر

منافقين كى حركتيں

بہانے تراشياں

منافقين كے خفيہ مركز كا انكشاف

جنگى اخراجات كى فراہمي

اشك حسرت

سوالات

۲۱۲

طائف كى جنگ

شوال ۸ ھ بمطابق جنورى ، فرورى ۶۲۹ ئ

لشكر اسلام كى كاميابى كے ساتھ حنين كى جنگ ختم ہوگئي _ دشمن كے لشكر كا سردار مالك بن عوف اپنے ساتھيوں كے ساتھ بھا گ كر مكہ سے ۷۵ كيلوميٹر دور طائف ميں پناہ گزيں ہوا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كچھ مجاہدين اسلام كو ساتھ لے كر طائف كى طرف روانہ ہوئے تا كہ حجاز ميں مشركين كى آخرى پناہ گاہ كو بھى ختم كرديا جائے_

لشكر اسلام طائف پہنچا ، مشركين بلند ديواروں والے مضبوط قلعہ ميں بے پناہ كھانے پينے كے سامان اور قلعہ كے اندرہى پانى كے انتظام كے ساتھ نہايت اطمينان كے ساتھ مقابلہ كرنے لگے اور قلعہ كى ديواروں كے اوپرسے لشكر اسلام پر تيروں كى بارش شروع كردي_(۱)

جديد جنگى ہتھياروں كى ٹيكنالوجي

طائف كے مستحكم قلعہ كو فتح كرنے كے لئے حضرت سلمان نے ايك تجويز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں عرض كى كہ منجنيق اور پتّھر و گولہ بارى سے محفوظ كرنے والى گاڑيوں كو كام ميں لا كر قلعوں كو فتح كيا جا سكتاہے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت سلمان كو حكم ديا كہ اس قسم كا اسلحہ مہيّا

۲۱۳

كرو _حضرت سلمان اس كام ميں مشغول ہوگئے اور قلعہ كى ديواروں كے پار بڑے بڑے پتھّر پھينكنے كے لئے منجنيق(جيسے آجكل كاٹينك) اور قلعہ كى تباہى كى خاطر ديواروں كے نزديك پہنچنے كے لئے مخصوص گاڑى كو ميدان جنگ ميں پہنچايا_

گاڑى كى چھت موٹے اور سخت چمڑے كى بنى ہوئي تھى جس پر دشمنوں كے تير اثر انداز نہيں ہو سكتے تھے_(۲) (جيسے آجكل كى بكتر بندگاڑياں) اسى طرح پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے بہت زيادہ مقدار ميں خاردار شاخيں'' خار خسك'' قلعہ كے اطراف ميں بكھيردى گئيں (يہ كانٹے گويا بارودى سر نگوں كى مانند تھے جو دشمن كے سپاہيوں گھوڑوں اور اونٹوں كے پيروں ميں چبھ جاتے تھے)_(۳)

مخصوص گاڑى كے ذريعہ مجاہدين اسلام قلعہ كى ديوار تك پہنچ گئے اور ديوار كے كچھ حصّہ كو گرانے اور قلعہ كو فتح كرنے ميں دير نہ تھى كہ دشمن نے آگ اور پگھلے ہوئے لوہے كے ذريعہ حملہ كركے گاڑى كى چمڑے كى چھت كو جلا كر تہس نہس كرڈالا جس كے نتيجہ ميں بعض مجاہدين اسلام شہيد يا زخمى ہوئے اور قلعہ فتح كر نے كى كوشش با ر آورنہ ہو سكى _

واپسي

طائف ۲۰ دن سے زيادہ لشكر اسلام كے محاصرہ ميں رہا _ قبيلہ ثقيف كے افراد بڑى پامردى سے مقابلہ كررہے تھے ،قلعہ كے اندر غذائي اور ديگر ضروريات كے سامان كى وافر موجود گى كى بنا پر محاصرہ بے معنى تھا اور قلعہ فتح كرنے كے لئے ايك طولانى محاصرے كى ضرورت تھى _ايك طرف مدينہ سے دورى ،غذا اور جانوروں كے چارے كى كمى كا خطرہ ، اس كے علاوہ حرمت كا مہينہ اور حج كا زمانہ نزديك تھا_

۲۱۴

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اعلان كيا كہ غلاموں ميں سے جو كوئي بھى قلعہ سے باہر آجائيگا وہ آزاد ہے چنانچہ چند لوگوں نے خود كو لشكر اسلام كے حوالہ كرديا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آكر دشمن كے حالات كى اطلاع ديدى _ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں كو آزاد كرديا اور اس كے بعد اعلان كيا كہ طائف كا محاصرہ ختم كيا جائے اور سب واپس لوٹ جائيں_(۴)

ہوازن كے اسيروں كى رہائي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم درہ ''جعّرانہ'' يا جَعْرانہ (يہى زيادہ مشہور ہے ) لوٹ آئے تا كہ اسيروں اور مال غنيمت كے بارے ميں فيصلہ كيا جائے _ يہاں اسارى سائبان كے نيچے ٹھہرے ہوئے تھے_قبيلہ ہوازن كے بعض افراد جو جنگ ميں شريك نہيں تھے يا اسير نہيں ہوئے تھے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور اسيران ہوازن كى رہائي كى درخواست كى پيغمبر رحمتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى خواہش كو قبول فرمايا اور چھ ہزار اسيران ہوازن كو آزاد كرديا_(۵) اس طرح جزيرة العرب كابہت بڑا اور خطرناك قبيلہ اسلام كى طرف مائل ہو گيا _

جنگ كى آگ بھڑ كانے والوں كے رہبر مالك بن عوف كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پيغام بھجوايا كہ ہتھيار ڈال دو تو مال اور خاندان كى واپسى كے علاوہ سو اونٹ بھى عطا كئے جائيں گے_قبيلہ ہوازن كے سلسلہ ميں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحمت اور جواں مردى نے مالك ابن عوف جيسے سركش كو رام كرديا اوروہ راتوں رات طائف سے بھاگ كر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى خدمت ميں پہنچ كر مسلمان ہوگيا_ اس طرح فتنہ كے اہم سبب ، قبيلہ ہوازن كا خطرہ ٹل گيا_(۶)

۲۱۵

مال غنيمت كى تقسيم

اسيروں كى آزادى كے بعد كچھ سپاہى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گردجمع ہوئے اور نہايت اصرار كے ساتھ مال كى تقسيم كے خواستگار ہوئے _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا_

'' خدا كى قسم اگر تہامہ كے درختو ںكے برابر بھى گوسفند اور اونٹ تمہارے لئے ہوں تو ميں ان سب كو تمہارے ہى در ميان تقسيم كروں گا _ تم ميرے اندر خوف ، بخل اور جھوٹ نہيں پاؤگے _ مال غنيمت ميں ميرا حق پانچويں (خمس) حصّے سے زيادہ نہيں ، ميں اسے بھى تمہيں دے دوں گا لہذا اگر كسى نے ايك سوئي اور دھاگہ بھى اٹھايا ہو تو لوٹا دے اس لئے كہ غنيمت ميں خيانت كى سزا قيامت كے دن رسوائي ، بدنامى اور آتش كے سوا كچھ نہيں ہے _''

اس وقت انصار ميں سے ايك شخص ايك دھاگے كا گھچا لے آيا اور كہا '' ميں اس كو اپنے اونٹ كا سامان سينے كے لئے لے گيا تھا _''

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ اس دھاگہ ميں سے ميں نے اپنا حق تمہيں بخشا(اب باقى مسلمانوں كا مسئلہ ہے اگر وہ بھى اپنا حق تمہيں بخش ديں تو لے لو)مرد انصارى نے كہا كہ اگر اتنا سخت مسئلہ ہے تو مجھے دھاگے كى كوئي ضرورت نہيں ہے _ اور دھاگے كا گچھا مال غنيمت كے ڈھير ميں لے جا كرر كھ ديا_(۷)

وہ افراد جن كى دلجوئي كى گئي

جب مال غنيمت كى تقسيم شروع ہوئي اور تمام افراد كا حصّہ ديديا گيا ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مال غنيمت كے خمس كو سرداران قريش كے درميان تقسيم كرديا اور ابوسفيان، اس كے بيٹے معاويہ، حكيم ابن حزام ، حارث بن حارث اور حارث بن ہشام اور ...''جوكل تك گروہ

۲۱۶

شرك و كفر كے سردار تھے'' ان ميں سے ہر ايك كو سو اونٹ اورعظمت و مرتبت كے لحاظ سے معمولى افراد كو پچا س يا پچاس سے كم اونٹ عطا فرمائے_(۸)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بخشش كے دو سبب تھے ايك تو يہ كہ يہ لوگ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عطوفت و محبت سے متاثر ہو كر اسلام كى طرف مائل ہوںتا كہ كينہ ختم ہوجائے ، اصطلاح ميں اس عمل كو ''تاليف قلوب'' كہتے ہيں اور فقہ اسلام ميں زكات كے مصارف ميں سے ايك مصرف يہ بھى ہے_دوسرى بات يہ تھى كہ جزيرة العرب كے مشرك قبائل كے سربرآوردہ افراد اسلام قبول كرليںتا كہ كم سے كم لڑائي ہو اور جزيرة العرب كے باقى افراد حلقہ بگوش اسلام ہوجائيں_

منافقين كا اعتراض

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بخششيں بہت سے سپاہيوں كے اعتراض كا سبب بنيں اسى درميان ان افراد نے سب سے زيادہ اعتراض كى آواز بلند كى جو بظاہر احكام دين پر توجہ ديتے تھے مگر باطن ميں ان كو دين سے كوئي سروكار نہ تھا كوردل ذوالخويصرہ نے عتاب آميز لہجہ ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كہا '' اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے ڈريں اور عدل و انصاف سے كام ليں''_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اس شخص كى باتوں سے برہم ہوئے اور فرمايا '' اگر انصاف و عدالت سے كام نہيں لوں گا تو پھر عدالت كس كے پاس ملے گى ''؟ اصحاب ميں سے ايك صحابى نے عرض كى كہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر اجازت ہو تو جسارت كے جواب ميں اسكا سرتن سے جدا كردوں ؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اجازت نہيں دى اور فرمايا كہ :''ج ى اس شخص كو ايسے پيرو مليںگے جو دين ميں اتنى باريك بينى سے كام ليں گے كہ دين سے خارج ہوجائيں گے''_(۹)

۲۱۷

دوستوں كے آنسو

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بخششوں نے قريش اور قبائل كے سر برآوردہ افراد يہاں تك كہ انصار كو بھى رنجيدہ كرديا اور وہ يہ سوچنے لگے كہ يہ بخششيں خاندان اور رشتہ داريوں كى بناپر ہيں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو انصار سے يہ اميد نہ تھى ، آپ رنجيدہ ہوئے اور ان سے فرمايا: '' كيا تم اس بات پر راضى نہيں ہو كہ دوسرے افراد گوسفندوں اور اونٹوں كے ساتھ اپنے گھر كوجائيں اور تم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمراہ اپنے گھروں كو واپس جاؤ''(۱۰)

انصار، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بات سن كر شدّت سے روئے اور عرض كيا:'' ہمارے لئے يہى كافى ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے حصّہ ميں ہوں ، ہم اسى پر راضى ہيں''(۱۱)

مدينہ واپسي

مال غنيمت كى تقسيم تما م ہوئي ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمرہ كے قصد سے مقام جعرانہسے احرام باندھا اور زيارت خانہ خدا كے لئے مكّہ كى سمت روانہ ہوئے_

عمرہ كى ادائيگى كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عتّاب بن اميد اور معاذبن جبل '' جنہيں مكّہ كا امير اور معّلم دين بنا يا گيا تھا'' كى ماموريت كى مدّت بڑھادى _اس كے بعد ذى القعدہ كے مہينہ ميں مہاجرين اور انصار كے ساتھ مدينہ لوٹ آئے_(۱۲)

غزوہ تبوك(۱۳)

ايك ہولناك خبر

۹ ھ ،رجب كا مہينہ بڑى گرمى كا مہينہ تھا ، شديد قحط اور گرانى كے زمانہ كے بعد كہ

۲۱۸

جس سے لوگ حد درجہ پريشان ہو چكے تھے _ پھلوں اور كھجور كے چننے كا زمانہ آگيا _ لوگوں نے ذرا اطمينان كا سانس لينے كا سوچا ہى تھاكہ ہولناك قسم كى خبريں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آنے لگيں كہ مسلمانوں كو جزيرة العرب كى شمال مشرقى سرحدوں پر رومى بادشاہ كى طرف سے خطرہ ہے _

ميدہ اور زيتون كا تيل فروخت كرنے كے لئے مدينہ آنے والے نبطى تاجروں نے بتايا كہ '' بادشاہ روم ''ہرقل ''(۱۴) نے بلقاء كے علاقہ ميں ايك عظيم لشكر جمع كرركھا ہے اور لشكر كے كھانے پينے كا انتظام اور ايك سال كى تنخواہ كى ادائيگى كے علاوہ سرحدى قبائل لخم اور جذام كو بھى اپنے ساتھ ملاليا ہے اور اسلامى سرزمين پر حملہ اور اسلامى تحريك كو مٹا دينے كا ارادہ ركھتا ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايك ايسا عظيم لشكر جمع كرنے كے لئے آمادہ ہو گئے جو روم ايسى بڑى طاقت كے لشكر سے مقابلہ كى طاقت ركھتا ہو _

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگوں ميں منزل مقصود معين نہيں فرماتے تھے_اس كے بر خلاف اس بار لشكر جمع كرنے كے آغاز ہى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منزل مقصودكا اعلان كرديا _ تا كہ لشكر ، دشت سوزاں ميں دور دراز كے راستہ كو طى كرنے ، دشوار كام كے انجام دينے اور نہايت طاقتور دشمن سے جنگ كرنے كے لئے تما م تياريوں كے ساتھ ضرورى سازوسامان اور غذا لے كر روانہ ہو_(۱۵)

منافقين كى حركتيں

منافقين نے لشكر اسلام كى تيارى كے آغاز ميں ، حكومت اسلامى ميں دى گئي آزادى

۲۱۹

سے سوء استفادہ كرتے ہوئے ، حساس ترين لمحات ميں مايوس كن پروپيگنڈہ اور نفسياتى جنگ كے ذريعہ مسلمانوں كو راہ خدا ميں جہاد سے باز ركھنے كى كوشش كى ،يہ لوگ در حقيقت استكبارى طاقتوں كے مفادات كے لئے قدم اٹھارہے تھے _

اسلام كے خلاف منافقين كى خيانت آميز تحريك تاريخ اسلام ميں '' مسجد ضرار'' كے واقعہ كے نام سے مشہور ہے _ اس كى تفصيل حسب ذيل ہے _

منافقين ميں سے ايك سر كردہ '' ابوعامر'' نامى فاسق ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مدينہ ہجرت كے بعد اپنى خيانتوں كى بدولت بھاگ كر مكہ اور طائف چلا گيا او ر ان كے فتح ہونے كے بعد وہاں سے بھاگ كر روم چلا گيا اور وہاں سے مدينہ كے منافقين سے رابطہ اور فكرى امداد كرتا رہتا تھا _ اس نے اپنے ہواخواہوں كو خط ميں لكھا كہ '' ميں قيصر روم كے پاس جارہاہوں اور اس سے فوجى مداخلت كى درخواست كروں گا تا كہ اس كى مدد سے مدينہ پر حملہ كريں اب تم ''قبا'' كے ديہات ميں مسلمانوں كى مسجد كے مقابلہ ميں ايك مسجد بناؤ اور نماز كے موقع پر وہاں جمع ہو ، فريضہ كى ادائيگى كے بہانے اسلام اور مسلمانوں كے بارے ميں اپنے منصوبوں كو كس طرح عملى جامہ پہنايا جائے كے موضوع پر گفتگو كيا كرو_

يہ مسجد ، لشكر اسلام كے تبوك روانہ ہونے سے پہلے بن كر تيار ہوگئي _ منافقين اس مسجد كى آڑميں اپنى كاركردگى كو منظم شكل دے سكتے تھے ، لوگوں كو دھوكہ دينے كے لئے ان لوگوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست كى كہ آپ مسجد ميں نماز ادا كريں اور مسجد كا افتتا ح فرمائيں_

رسول 'صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے جواب ميں فرمايا '' ابھى ميں سفركا ارادہ ركھتا ہوں اور سفر كى تيارى ميں مصرف ہوں اگر خدا نے چاہا تو واپسى پر آؤںگا ''_(۱۶)

۲۲۰