تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي20%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167256 / ڈاؤنلوڈ: 4195
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو وحی کی : پہاڑوں، درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں کہ جن پر لوگ چڑھتے ہیں، گھر بنائے، پھر اس کے تمام ثمرات کو کھائے اور نرمی کے ساتھ اپنے پروردگار کی سیدھی راہ کو طے کرلے۔ اس کے شکم سے رنگا رنگ قسم کا شربت نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس چیز میں روشن علامت اور نشانی ہے اس گروہ کے لئے جو غور و فکر کرتا ہے۔( ۱ )

۴۔( و الله خلق کل دابة من ماء فمنهم من یمشی علیٰ بطنه و منهم من یمشی علیٰ رجلین و منهم من یمشی علیٰ أَربع یخلق الله ما یشاء ان الله علیٰ کل شیئٍ قدیر )

خدا وند عالم نے ہر چلنے والے جاندار کو پانی سے خلق فرمایا: ان میں سے بعض پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض اپنے دو پیروںپراور کچھ چار پیروں سے چلتے ہیں۔ خدا جو چاہے پیدا کرسکتا ہے اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔( ۲ )

۵۔( وما من دابة فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیه الا اُمَم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیئٍ ثم الیٰ ربهم یحشرون )

اورکوئی زمین پر چلنے والا ایسا نہیں اور کوئی اپنے دو پروں کے سہارے اڑنے والا پرندہ ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ وہ بھی تمہاری جیسی ایک امت ہے۔ اس کتاب میں کوئی چیز فروگز اشت نہیںہوئی ہے ۔ پھر سارے کے سارے اپنے پروردگار کی طرف محشور کئے جائیں گے۔( ۳ )

کلمات کی تشریح

۱۔ فرث :جو چیز معدہ کے اندر ہوتی ہے ۔

۲۔ حیوانات کو خدا کا وحی کرنا: جس سے ان کی زندگی اور امور کی درستگی وابستہ ہے اس کے انجام کے لئے الہام اور ہدایت غریزی کرنا اور کبھی زیادہ دقت اور ہوشمندی کے ساتھ ہوتی ہے، حیوانات کا فعل تقریبا ویسا ہی ہے جیسے کہ ایک تسخیر شدہ صنف انجام دیتی ہے ۔

۳۔ یعرشون:عرش کے ''مادہ'' سے ہے جس کے معنی چھت اور چھپر کے ہیںیعنی چھتوں کی بلندی کے اوپر بھی جہاں لوگ جاتے ہیں نیزگھر بنائو۔

۴۔ ذللاً: استوار اور ہموار

____________________

(۱)نحل۶۸۔۶۹(۲)نور۴۵(۳)انعام۳۸.

۱۶۱

بحث کا نتیجہ

خدا وند عالم نے ان موجودات کے لئے جنہیں آسمان کے نیچے محدود فضا میں زیور تخلیق سے آراستہ کیا ہے ایسی موجودات جو موت، زندگی اور حیوانی نفس کی مالک ہیں لیکن عقل سے بے بہرہ ہیں فضا میں ہوںیا زمین میں ؛ اس کے اندر ہوںیا دریائوں کی تہوںمیں ؛ خدا وند عالم نے ان کی ہر ایک صنف اور نوع کے لئے ایک نظام بنایا ہے جو ان کی فطری تخلیق اور حیوانی زندگی سے تناسب رکھتا ہے؛ اور ہر نوع کو ایک ایسے غریزہ کے ذریعہ جو اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے الہام فرمایا ہے کہ زندگی میں اس نظام کے تحت حرکت کریں؛ وہ خود ہی اس طرح کی مخلوقات کی ہدایت کا طریقہ اور کیفیت جیسے شہد کی مکھی کی زندگی کے متعلق حکایت کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے : تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو وحی کی کہ: پہاڑوں، درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں جہاں لوگ بلندی پر جاتے ہیں، گھربنائے، پھرہر طرح کے پھلوںسے کھائیاور اپنے پروردگار کی سیدھی راہ کو طے کرے اس کے شکم سے رنگ برنگ کا شربت نکلتاہے جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس میں روشن نشانیاں ہیں صاحبان عقل و ہوش کیلئے۔

معلو م ہو اکہ شہد کی مکھی اپنی مہارت اور چالاکی سے جو کام انجام دیتی ہے اور اسے حکیمانہ انداز اورصحیح طور سے بجالاتی ہے وہ ہمارے رب کے الہام کی وجہ سے ہے، یہ بیان اس طرح کے جانداروں کی ہدایت کا ایک نمونہ ہے جو اسی سورہ کی : ۸۔۵ آیات میں چوپایوں کی صنف ، ان کی حکمت آفرینش اور نظام زندگی اور وہ نفع جو ان میں پایا جاتا ہے ان سب کے بارے میں آیا ہے ؛ اور اوحیٰ ربک کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جس پروردگار نے شہد کی مکھی کو ہدایت کی کہ معین شدہ نظام کے تحت جو اس کی فطرت کے موافق ہے زندگی گز ارے وہی ہمارا خدا ہے جس نے ہمارے لئے بھی ہماری فطرت سے ہم آہنگ نظام بنایا ہے ایسی فطرت کہ ہمیں حکیمانہ اور متقن انداز میں جس پر پیدا کیا۔

چوتھے۔ پیغمبروں کے ذریعہ انسان اور جن کی تعلیم.

سورہ ٔ اعلی کی آیات( خلق فسوی و قدر فهدی ) میں انسان اور جن خدا وند عالم کے کلام کے مصداق ہیں۔

پہلے ۔ انسان: خدا وند عالم نے انسان کو خلق کیا اور اس کے لئے نظام حیات معین فرمایا: نیز اس کی ذات میں نفسانی خواہشات ودیعت فرمائیں کہ دل کی خواہشکے اعتبار سے رفتار کرے نیز اسے امتیاز اور تمیز دینے والی عقل عطا کی تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنا نفع اور نقصان پہچانے اور اسے ہدایت پذیری کے لئے دو طرح سے آمادہ کرے ۔

۱۶۲

۱۔ زبان سے گفتگو کے ذریعہ، اس لئے کہ بات کرنے اور ایک دوسرے سے تفاہم کا طریقہ خود خدا نے انسان کو الہام فرمایا ہے :( خلق الانسان، علمه البیان ) انسان کو خلق کیا اور اسے بات کرنے کا طریقہ سکھایا۔( ۱ )

۲۔ پڑھنے ، لکھنے اور افکار منتقل کرنے کے ذریعہ ایک انسان سے دوسرے انسان تک اور ایک نسل سے دوسری نسل تک جیسا کہ ارشاد ہوا:

( اقرأ و ربّک الأکرم٭ الذی علّم بالقلم٭ علم الانسان ما لم یعلم )

پڑھو کہ تمہار ارب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم دیا، جو کچھ انسان نہیں جانتا تھا اسے سکھایا۔( ۲ )

خداوند متعال نے اسی کے بعد انسان کے لئے اس کی انسانی فطرت کے مطابق نظام زندگی اور قانون حیات معین فرمایا ہے :

جیسا کہ ارشاد ہوا:

( فَأَقِم وجهک للدین حنیفاً فطرة َالله التی فطر الناس علیها )

اپنے رخ کو پروردگار کے محکم اور ثابت آئین(دین اسلام ) کی طرف رکھو اور باطل سے کنارہ کش رہو کہ یہ دین خدا کی وہ فطرت جس پر خدا نے لوگوں کو خلق کیاہے ۔( ۳ )

خدا وند عالم نے پیغمبروں پر وحی نازل کر کے انسانوںکو اس دین کی طرف جو اس کی فطرت سے سازگار اور تناسب رکھتا ہے ہدایت کی؛ جیسا کہ فرمایا:

۱۔( انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوحٍ و النبین من بعده... )

ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعد دیگر انبیاء کی طرف وحی کی ہے( ۴ )

۲۔( شرع لکم من الدین ما وصی به نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا به ابراهیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین )

____________________

(۱)رحمن۳۔۴

(۲)علق۳۔۴

(۳)روم۳۰

(۴)نسائ۱۶۳

۱۶۳

تمہارے لئے اس دین کی تشریع کی کہ جس کی نوح کو وصیت کی تھی اور جو تم پر وحی نازل کی اورہم نے ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو جس کی وصیت کی یہ ہے کہ دین قائم کرو...۔( ۱ )

خدا وند عالم نے اس دین کو جسے پیغمبروں پر نازل کیا ہے اس کا اسلام نام رکھا جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

( ان الدین عند الله الاسلام ) خدا کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔( ۲ )

دوسرے ۔ جن: خدا نے جن کو پیدا کیا اور انسان ہی کی طرح ان کی زندگی بھی بنائی کیونکہ ان کی سرشت میں بھی نفسانی خواہشات کا وجود ہے کہ نفسانی خواہشات کے مطابق رفتار کرتے ہیںاور عقل کے ذریعہ اپنے نفع اور نقصان کو درک کرتے ہیں ، مانندابلیس جو کہ جنوں میں سے تھا، اس کے بارے میں ہمیں آگاہ کیا ہے اور فرمایاہے:

( و اِذ قلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربه... )

جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کا سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا ،وہ جنوں میں سے تھا اورحکم پروردگار سے خارج ہو گیا؛ خدا وند عالم نے سورۂ اعراف میں ابلیس کی داستان بسط و تفصیل سے بیان کی ہے ۔( ۳ )

( ولقد خلقناکم ثم صورناکم ثم قلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس لم یکن من الساجدین٭ قال ما منعک الا تسجد اذ امرتک قال انا خیر منه خلقتنی من نار و خلقته من طین٭ قال فاهبط منها فما یکون لک ان تتکبر فیها فاخرج انک من الصاغرین٭ قال انظرنی الیٰ یوم یبعثون٭ قال انک من المنظرین٭ قال فبما أغویتنی لأقعدن لهم صراطک المستقیم٭ ثم لآتینهم من بین ایدیهم و من خلفهم و عن أیمانهم و عن شمائلهم و لا تجد اکثرهم شاکرین٭ قال اخرج منها مذئوما مدحورا لمن تبعک منهم لأملئن جهنم منکم اجمعین )

اورہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر شکل و صورت بنائی، اس کے بعد فرشتوں سے کہا: ''آدم کا سجدہ کرو'' تو ان سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والوںمیں سے نہیں تھا؛ خدا وند عالم نے اس سے فرمایا: جب میں نے حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے روک دیا؟ کہا: میں اس سے بہتر ہوں ؛ تونے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے خلق کیا ہے فرمایا: تو اس جگہ سے نیچے اتر جاتجھے حق نہیں ہے کہ اس جگہ تکبر سے کام لے نکل جا ؛اس لئے کہ تو پست اور فرومایہ شخص ہے ! ابلیس نے کہا: مجھے روز قیامت تک کی مہلت

____________________

(۱)شوری۱۳(۲)ال عمران۱۹(۳)کہف۵۰

۱۶۴

دیدے، فرمایا مہلت دی گئی! تو بولا:اب جو تونے مجھے گمراہ کر دیا ہے میں تیرے راستہ میں ان کے لئے گھات لگا کر بیٹھوں گا پھر آگے سے ، پیچھے سے ،دائیں سے، بائیں سے، ان کا پیچھا کروں گااور تو ان میں سے اکثر کوشکر گز ار نہیں پائے گا۔

فرمایا:اس منزل سے ننگ و خواری کے ساتھ نکل جا، قسم ہے کہ جو بھی ان میں سے تیری پیروی کرے گا جہنم کو تم لوگوں سے بھردوں گا۔( ۱ )

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا وند عزیز و جبار کی سرکش اور طاغی جنیمخلوق میں دیگر موجودات سے کہیں زیادہ قوی ہوائے نفس پائی جاتی ہے۔

خدا وند عالم نے سورۂ جن میں تمام جنات میں ہوای نفس کے وجود کی خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے : کہ جنات ہوائے نفس کی پیروی میں اس درجہ آگے بڑھ گئے کہ فرشتوں کی باتیں چرانے کے لئے گھات میں لگ گئے۔ اور اس رویہ سے باز نہیں آئے یہاں تک کہ خاتم الانبیاء مبعوث ہوئے اور خدا وند عالم نے جلادینے والے شہاب کا انہیں نشانہ بنایا، روایت ہے کہ وہ لوگ فرشتوں کی باتیں سنکر کاہنوں کے پاس آکر بتاتے تھے اور بربنائے ظلم و ستم اور انحراف و گمراہی آدمیوں کی اذیت اور آزار کے لئے جھوٹ کا بھی اضافہ کردیتے تھے۔

خدا وند عالم نے سورۂ جن میں اس رفتار کی بھی خبر دی ہے اور فرمایا ہے:( فزادوهم رهقاً ) یعنی جناتوں نے آدمیوں کی گمراہی میں اضافہ کر دیا. اور یہ کہ جنات خواہشات نفس کی پیروی کرنے میں آدمیوںکی طرح ہیں اور ان کے درمیان مسلمان اور غیر مسلمان سبھی پائے جاتے ہیں اس کی بھی خبر دی ہے ۔

سورۂ احقاف میں مذکور ہے : جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرآن کی تلاوت کررہے تھے توجنات کے ایک گروہ نے حاضر ہوکراسے سنا اور اپنی قوم کی طرف واپس آکر انہیں ڈرایا اور کہا: خدا وند عالم نے موسیٰ کے بعد قرآن نامی کتاب بھیجی ہے اور ان سے ایمان لانے کی درخواست کی ،اسی طرح سورۂ جن میں معاد کے سلسلے میں بعض جنات کا بعض آدمیوں سے نظریہ یکساںملتا ہے کہ ان کا خدا کے بارے میں یہ خیا ل ہے کہ : خدا کبھی کسی کو قیامت کے دن مبعوث نہیں کرے گا۔

گز شتہ مطالب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جنوں میں بھی انسانوں کی طرح عقلی سوجھ بوجھ اور کامل ادراک پایا جاتا ہے اور وہ لوگ انسانوں کی باتیں سمجھتے ہیں اور اسے سیکھنے میں گفتگو کرنے میں بھی انسان کے ساتھ

____________________

(۱)اعراف۱۱۔۱۸

۱۶۵

شریک ہیں، یہ موضوع سورۂ نمل کی ۱۷ میں اور ۳۹ویں آیت میں سلیمان کی ان سے گفتگو کے سلسلہ میں محسوس کرتے ہیں۔

اسی طرح یہ دونوں صنف نفسانی حالات میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہیںجس طرح رفتار وعمل کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں؛ خدا وند عالم نے سورۂ سبا میں فرمایا:

( یعملون له ما یشاء من محاریب و تماثیل و جفان کالجواب و قدور راسیات )

جنات جناب سلیمان کے لئے جو چاہتے تھے انجام دیتے تھے اور محراب، مجسمے، بڑے بڑے کھانے کے برتن اور دیگیںبناتے تھے۔( ۱ )

اور سورہ ٔ انبیاء میں فرماتا ہے :

( ومن الشیاطین من یغوصون له و یعملون عملا دون ذلک )

بعض شیاطین ( جنات )جناب سلیمان کے لئے غوطہ لگاتے تھے اور اس کے علاوہ بھی کام کرتے تھے۔( ۲ )

خدا وند عالم نے ان دو گروہ جن و انس کی اسلام کی طرف ہدایت اوررہنمائی کے لئے انبیاء بھیجے بشارت، انذار اور تعلیم دینے میں دونوں کومساوی رکھاتاکہ خدائے واحد و یکتا پر ایمان لائیں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں اس کے اور پیغمبروں، فرشتوں، قیامت، مشاہد اور مواقف پر ایمان لائیں۔

اسلامی احکام ، جو کچھ اجتماعی آداب سے متعلق ہیں جیسے : ناتواںکی مدد کرنا ، ضرورتمندوں اور مومنین کی نصرت کرنا اور دوسروں کو اذیت دینا اور ان کے مانند دوسری باتیں ،ان میں دونوں گروہ مشترک ہیں ،لیکن عبادات جیسے : نماز،روزہ، حج اور ان کے مانند جنوں سے مربوط دیگر احکام ضروری ہے کہ وہ جنوں کے حالات سے موافقت اور تناسب رکھتے ہوںجس طرح آدمی ایک دوسرے کی نسبت احکام میں اختلاف رکھتے ہیں جیسے مرد و عورت کے مخصوص احکام یا مریض و سالم ، مسافر اور غیر مسافر وغیرہ کے احکام۔

مباحث کا نتیجہ

خدا وند عالم نے فرشتوںکو خلق کیا تاکہ اس کی ''ربوبیت'' اور ''الوہیت'' کے محافظ و پاسدارہوں جیسا کہ

____________________

(۱)سبا۱۳

(۲)انبیائ۸۲

۱۶۶

خود ہی گز شتہ آیات میں نیز ان آیات میں جس میں فرشتوں( ۱ ) کا ذکر ہوا ہے اس کے بارے میں خبر دی ہے اسی غرض کے پیش نظر انہیں تمام لوگوں سے پہلے زیور تخلیق سے آراستہ کیا؛ وہ اس وقت حاملان عرش( ۲ ) تھے جب عرش الٰہی پانی پرتھا، جیسا کہ سورۂ ہود میں فرمایا ہے:

( وهوالذی خلق السمٰوات والارض فی ستة ایام وکان عرشه علٰی المائ... ) ( ۳ )

اوروہ خدا وہ ہے جس نے آسمان اور زمین کو چھ دن میں خلق کیاجب کہ اس کاعرش پانی پر ٹھہرا ہوا تھا۔

اور نیز خدا وند عالم نے آسمان کو اس کے داخلی اور خارجی اشیاء سمیت خلق کیا: جن فرشتوں کو ہم جانتے ہیں اورجن کو ہم نہیں جانتے اور جو کچھ آسمانوںکے نیچے ہے جیسے کہکشائیں ،ستارے ، چاند اور سورج وغیرہ کہ جن کو ہم جانتے ہیں اور ان میں سے بہت سی چیزوں کو ہم نہیں جانتے اور زمین جو کچھ اس کے اوپر اور جو کچھ اس کے اندر ہے جیسے پانی ، نباتات ، جمادات ، ( معادن ) وغیرہ جو کہ زندگی کیلئے مفید ہیں اور جو کچھ آسمانوں اور زمین کے درمیان ہے جیسے گیس وغیرہ جو ہم پہچانتے ہیں اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو نہیں پہچانتے یہ تمام چیزیںوہی ہیںجوان تینوں انسان، حیوان اور جن کی ضروریات زندگی میں شامل ہیں حیوانوں کو جن و انس سے پہلے اس لئے پیداکیا کہ انسان اور جن اس کی احتیاج رکھتے ہیں اور جنات کو انسان سے پہلے پیدا کیا جیسا کہ خود ہی حضرت آدم کی خلقت سے متعلق داستان میں ارشاد فرماتا ہے :

حضرت آدم کی خلقت کے بعدتمام ملائکہ کو ''کہ ابلیس بھی انہیں میں سے تھا ''حکم دیا کہ آدم کا سجدہ کریں پھر انسان کو تمام اصناف مخلوقات کے بعد پیدا کیا۔

یہ خدا وند عالم کی چہار گانہ اصناف مخلوقات کی داستان تھی کہ جس کا قرآن کریم کی آیات اور روایات سے بمقتضائے ترتیب ہم نے استنباط کیا، لیکن ان کی ہدایت کی قسمیں اس ترتیب سے ہیں:

جب خدا ''رب العالمین'' نے فرشتوں، جن و انس کو عقل و ادراک بخشا تو ان کی ہدایت بھی دو

طرح سے قرار دی، تعلیم بالواسطہ، تعلیم بلا واسطہ جیسا کہ فرشتوں کی زبانی حضرت آدم کی تخلیق کے بارے میں حکایت کرتا ہے( سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا ) تو پاک و پاکیزہ ہے ہم تو تیرے دئے ہوئے علم کے علاوہ کچھ جانتے ہی نہیں ہیں؛ اور صنف انسان کے بارے میں فرمایا: ( علم آدم الاسمائ

____________________

(۱)معجم المفہرس قرآن، میں مادہ''ملک''ملاحظہ ہو۔(۲)عرش سے مراد وہ جگہ و مقام ہے جہاں پر الوہیت اور ربوبیت سے مربوط امور پر مامور خدا کے فرشتہ رہا کرتے تھے کہ جو، پانی کے اوپر زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے رہتے تھے ۔(۳)ھود۷

۱۶۷

کلہا).خدا نے تمام اسماء ( اسرارخلقت ) آدم کو تعلیم دئے اور فرمایا:( علم الانسان ما لم یعلم ) جو انسان نہیں جانتا تھا اسے تعلیم دی۔ اور جنوںکی داستان میں جو کہ خود انہیں کی بیان کردہ ہے اس طرح ہے کہ ان لوگوں نے قرآن سیکھا اور اس سے ہدایت یافتہ ہو گئے ایسااس وقت ہوا جب رسول خدا سے قرآن کریم کی تلاوت سنی ۔

چونکہ خدا وند سبحان نے صنف حیوان اور زمین پر چلنے والوں کو تھوڑا سا شعور و ادراک بخشا ہے لہٰذا ان میں سے ہر ایک کی ہدایت الہام غریزی کے تحت ہے اور چونکہ ان کے علاوہ تمام مخلوقات جیسے ستارے، سیارے، جمادات، حتی کہ ایٹم ( e Atom ) وغیرہ کہ ان کوشمہ بھربھی حیات اور ادراک نہیں دیا ہے لہٰذاان کی ہدایت ، ہدایت تسخیری ہے، جیسا کہ تفصیل سے قرآن کریم میں بیان کیا ہے ۔

انسان کی ہدایت کے لئے جو نظام خدا نے بنایا ہے اس کا نام اسلام رکھا ہے اور ہم انشاء اللہ آئندہ بحثوں میں اس کی تحقیق کریں گے۔

۱۶۸

۵

دین اور اسلام

الف۔ دین کے معنی

ب۔ اسلام اور مسلمان

ج۔ مومن اور منافق

د۔ اسلام تمام آسمانی شریعتوں کا نام ہے

ھ۔ شرائع میں تحریف اور تبدیلی اور ان کے اسماء میں تغیر:

۱۔یہود و نصاریٰ نے کتاب خدا اور اس کے دین میں تحریف کی

۲۔ یہود و نصاریٰ نے دین کانام بھی بدل ڈالا

۳۔ تحریف کا سر چشمہ

و۔ انسان کی فطرت سے احکام اسلامی کا سازگار ہونا

ز۔ انسان اور نفس امارہ بالسوء ( برائی پر ابھارنے والا نفس)

ح۔ شریعت اسلام میں جن و انس شریک ہیں

الف۔ دین

لفظ''دین'' اسلامی شریعت میں دو معنی میں استعمال ہوا ہے :

۱ ۔جزا، کیونکہ ، یوم الدین قرآن میں جو استعمال ہوا ہے اس سے مراد روز جزا ہے ، اسی طرح سورۂ فاتحہ( الحمد) میں مالک یوم الدین( ۱ ) آیا ہے یعنی روز جزا کا مالک۔

۲۔ شریعت جس میں اطاعت و تسلیم پائی جاتی ہو، شریعت اسلامی میں زیادہ تر دین کا استعمال اسی معنی میں ہوتا ہے ، جیسے خدا وند عالم کا یوسف اور ان کے بھائیوں کے بارے میں قول:( ماکان لیأخذ أخاه فی دین الملک ) ( یوسف) بادشاہی قانون و شریعت کے مطابق اپنے بھائی کو گرفتار نہیں کر سکتے تھے۔( ۲ ) اور سورۂ بقرہ میں فرمایا:( ان اللہ اصطفیٰ لکم الدین)

خدا وند سبحان نے اطاعت اور تسلیم کے ساتھ تمہارے لئے شریعت کا انتخاب کیا ہے ۔( ۳ )

____________________

(۱) فاتحہ۴(۲)یوسف۷۶(۳)بقرہ۱۳۲

۱۶۹

ب۔ اسلام اور مسلمان

اسلام ؛ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا اور اس کے احکام ا و رشریعتوں کے سامنے سر جھکانا۔

خدا وند سبحان نے فرمایا:

( ان الدین عند الله الاسلام ) ( ۱ )

یعنی خدا کے نزدیک دین اسلام ہے ۔ اور مسلمان وہ شخص ہے جو خد اور اس کے دین کے سامنے سراپاسر تسلیم خم کر دے۔

اس اعتبارسے حضرت آدم کے زمانے میں اسلام خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا اور اس کی شریعت کے مطابق رفتار کرنا ہے اور اس زمانے میں مسلمان وہ تھا جو خدا اور آدم پر نازل شدہ شریعت کے سامنیسراپا تسلیم تھا؛ یہ سراپا تسلیم ہونا حضرت آدم کے سامنے تسلیم ہونے کو بھی شامل ہے جو کہ خدا کے برگزیدہ اور اپنے زمانے کی شریعت کے بھی حامل تھے۔

اسلام؛ نوح کے زمانے میں بھی خد ا کے سامنے تسلیم ہونا ، ان کی شریعت کا پاس رکھنا ، حضرت نوح کی خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی کے عنوان سے پیروی کرنا اور گز شتہ شریعت آدم پر ایمان لانا تھا۔ اور مسلمان وہ تھا جو تمام بتائی گئی باتوں پر ایمان رکھتا تھا، حضرت ابراہیم کے زمانے میں بھی اسلام خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونے ہی کے معنی میں تھا اور حضرت نوح کی شریعت پر عمل کرنے اور حضرت ابراہیم کی بعنوان بنی مرسل پیروی کرنے نیز آدم تک گز شتہ انبیاء و مرسلین پر ایمان لانا ہی تھا۔

اور حضرت موسی اور حضرت عیسیٰ کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔

نیز حضرت محمد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں بھی وہی اسلام کا گزشتہ مفہوم ہے اور

____________________

(۱)آل عمران۱۹

۱۷۰

اس کی حد زبان سے اقرار شہادتین ''اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمداً رسول اللہ'' تھا۔

اس زبانی اقرار کا لازمی مطلب یہ ہے کہ ضروریات دین خواہ عقائد ہوںیا احکام یا گز شتہ انبیاء کی نبوتیں کہ جن کا ذکرقرآن کریم میں ہوا ہے ان میں سے کسی کاا نکار نہ ہو، یعنی جو چیز تمام مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ ہے اور اسے اسلام میں شمار کرتے ہیںاس کا انکارنہیں کرنا چاہئے جیسے نماز، روزہ اور حج کا وجوب یا شراب نوشی، سود کھانا،محرموں سے شادی بیاہ کرنا وغیرہ کی حرمت یا اس جیسی اور چیزیں کہ جن کے حکم سے تمام مسلمان واقف ہیں،ان کا کبھی انکار نہیں کرنا چاہئے۔

ج۔ مومن اور منافق

اول : مومن

مومن وہ ہے جو شہادتین زبان پر جاری کرے نیز اسلام کے عقائد پر قلبی ایمان بھی رکھتا ہو۔

اور اس کے احکام پر عمل کرے اور اگر اسلام کے خلاف کوئی عمل اس سے سرزد ہو جائے تو اسے گناہ سمجھے اور خدا کی بارگاہ میں توبہ و انابت اور تضرع و زاری کرتے ہوئے اپنے اوپر طلب بخشش و مغفرت کو واجب سمجھے۔

مومن اور مسلم کے درمیان فرق قیامت کے دن واضح ہوگا لیکن دنیا میں دونوں ہی اسلام اور مسلمانوں کے احکام میں شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ خدا وند منان نے سورۂ حجرات میں ارشاد فرمایا:

( قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا و لما یدخل الاِیْمان فی قلوبکم... )

صحرا نشینوں نے کہا: ہم ایمان لائے ہیں ، تو ان سے کہو: تم لوگ ایمان نہیں لائے ہو بلکہ کہو اسلام لائے ہیں اور ابھی تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے( ۱ )

دوسرے ۔ منافق

الف۔ نفاق لغت میں : نفاق لغت میں باہر جانے کو کہتے ہیں، نافق الیربوع، یعنی چوہا

اپنے ٹھکانے یعنی بل کے مخفی دروازہ پر سرمار کر سوراخ سے باہر نکل گیا، یہ اس لئے ہے کہ ایک قسم کاچوہا جس کے دونوں ہاتھ چھوٹے اور پائوں لمبے ہوتے ہیں وہ اپنے بل میں ہمیشہ دودروازے رکھتا ہے ایک داخل ہونے کا آشکار دروازہ جو کسی پر پوشیدہ نہیں ہوتا؛ایک نکلنے کا مخفی اور پوشیدہ دروازہ ،وہ باہر نکلنے والے دروازہ کو اس طرح مہارت اور چالاکی سے پوشیدہ رکھتا ہے کہ جیسے ہی داخل ہونے والے دروازہ سے دشمن آئے؛

____________________

(۱)حجرات۱۴

۱۷۱

آہٹ ملتے ہی مخفی دروازے پر سرمار کر اس سے نکل کر فرار کر جائے تواس وقت کہتے ہیں: ''نافق الیربوع''۔

ب۔ اسلامی اصطلاح میں نفاق: اسلامی اصطلاح میں نفاق، ظاہر ی عمل اور باطنی کفر ہے ۔ نافق الرجل نفاقاًیعنی اسلام کا اظہار کرکے اس پر عمل کیا اور اپنے کفر کو پنہاں اور پوشیدہ رکھا، لہٰذا وہ منافق ہے خدا وند عالم سورۂ منافقون میں فرماتا ہے :

( اذا جاء ک المنافقون قالوا نشهد انک لرسول الله و الله یعلم انک لرسوله و الله یشهد ان المنافقین لکاٰذبون٭ اتخذوا أَیمانهم جنة... )

جب منافقین تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم شہادت و گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں،خدا وند عالم جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو، لیکن خدا گواہی دیتا ہے کہ منافقین ( اپنے دعوے میں ) جھوٹے ہیں، انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے۔

یعنی ان لوگوں نے اپنی قسموں کو اس طرح اپنے چھپانے کا پردہ بنا رکھا ہے اور اپنے نفاق کو اپنی جھوٹی قسموں سے پوشیدہ رکھتے ہیں اور خدا وند عالم ان کے گفتار کی نادرستگی (جھوٹے دعوے )کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ظاہر کرتا ہے ۔( ۱ )

سورۂ نساء میں ارشاد ہوا:

( ان المنافقین یخادعون الله و هو خادعهم و اذا قاموا الیٰ الصلٰوة قاموا کسالیٰ یرآء ون الناس... )

منافقین خدا سے دھوکہ بازی کرتے ہیں، جبکہ وہ خود ہی ان کو دھوکہ میں ڈالے ہوئے ہے اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی اور کسالت سے اٹھتے ہیں اور لوگوں کے سامنے ریا کرتے ہیں۔( ۲ )

____________________

(۱)منافقون۱۔۲

(۲)نسائ۱۴۲

۱۷۲

د۔ اسلام تمام شریعتوںکا نام ہے

اسلام کا نام قرآن کریم میں گز شتہ امتوں کے بارے میں بھی ذکر ہوا ہے ، خدا وند عالم سورۂ یونس میں فرماتا ہے:

نوح نے اپنی قوم سے کہا:

( فأِن تولیتم فما سئلتکم من اجر ان اجری اِ لَّاعلیٰ الله و أمرت ان اکون من المسلمین )

اگر میری دعوت سے روگردانی کروگے تومیں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا؛ میرا اجر تو خدا پر ہے ، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمان رہوں۔( ۱ )

ابراہیم کے بارے میں فرمایا:

( ماکان ابراهیم یهودیاً ولا نصرانیاً ولکن کان حنیفاً مسلماً و ما کان من المشرکین )

ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ خالص موحد ( توحید پرست) اور مسلمان تھے وہ کبھی مشرکوں میں سے نہیں تھے۔( ۲ )

۲۔( ووصیٰ بها ابراهیم بنیه و یعقوب یا بنیَّ ان الله اصطفیٰ لکم الدین فلا تموتن الا و انتم مسلمون )

ابرہیم و یعقوب نے اپنے فرزندوںکو اسلام کی وصیت کی اور کہا: اے میرے بیٹو! خدا وند عالم نے تمہارے لئے دین کا انتخاب کیا ہے اور تم دنیا سے جائو تو اسلام کے آئین کے ساتھ۔( ۳ )

۳۔( ما جعل علیکم فی الدین من حرجٍ ملة ابیکم ابراهیم هو سما کم المسلمین من قبل )

____________________

(۱) بقرہ۱۳۲

(۲) حج۷۸

(۳) ذاریات۳۵۔۳۶

۱۷۳

خدا وند عالم نے اس دین میں جو کہ تمہارے باپ کا دین ہے کسی قسم کی سختی اور حرج نہیں قرار دیا ہے اس نے تمہیں پہلے بھی مسلمان کے نام سے یاد کیا ہے۔( ۱ )

سورۂ ذاریات میں قوم لوط کے بارے میں فرمایا:

( فأَخرجنا من کان فیها من المؤمنین ٭ فما وجدنا فیها غیر بیت من المسلمین )

ہم نے اس شہر میں موجود مومنین کو باہر کیا،لیکن اس میں ایک مسلمان گھرانے کے علاوہ کسی کو مسلمان نہیں پایا۔( ۲ )

جناب موسیٰ کے بارے میں فرماتا ہے : انہوں نے اپنی قوم سے کہا:

( یا قوم ان کنتم آمنتم بالله فعلیه توکلوا ان کنتم مسلمین ) ( ۳ )

اے میری قوم! اگر تم لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر توکل اور بھرو سہ کرو اگر مسلمان ہو۔

اورسورۂ اعراف میں فرعونی ساحروں کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( ربنا افرغ علینا صبراً و توفنا مسلمین )

خدا وندا! ہمیں صبرو استقامت عطا کر اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں موت دینا۔( ۴ )

فرعون کی داستان سے متعلق سورۂ یونس میں فرماتا ہے :

( حتی اذا ادرکه الغرق قال آمنت انه لا الٰه الا الذی آمنت به بنو اسرائیل ٭ و انا من المسلمین )

جب ڈوبنے لگا توکہا: میں ایمان لایا کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔( ۵ )

سلیمان نبی کا ملکہ ٔسبا کے نام خطلکھنے کے بارے میں سورۂ نمل میں ذکر ہوا ۔

( انه من سلیمان و انه بسم الله الرحمن الرحیم٭ الا تعلو علی و أْتونی مسلمین )

یہ سلیمان کا خط ہے جو اس طرح ہے : خدا وند رحمان و رحیم کے نام سے، میری یہ نسبت فوقیت اور برتری کا تصور نہ کرو اور میری طرف مسلمان ہو کر آجائو۔( ۶ )

نیز اس سورہ میں فرماتا ہے :

____________________

(۱) حج۷۸(۲) ذاریات۳۵۔۳۶(۳) یونس۸۴(۴) اعراف۱۲۶(۵)یونس۹۰.(۶)نمل۳۰۔۳۱.

۱۷۴

( یا ایها الملاء ایکم یأ تینی بعرشها قبل ان یأتونی مسلمین )

اے گروہ!(اشراف سلطنت) تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس حاضرکرے گا ان کے میرے پاس مسلمان ہو کر آنے سے پہلے۔( ۱ )

سورۂ مائدہ میں عیسیٰ کے حواریوں کے بارے میں فرماتا ہے :

( واذا اوحیت الیٰ الحواریین ان آمنوا بی و برسولی قالوا آمنا و اشهد بأَِنا مسلمون )

جب میں نے حواریوں کو وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائو تو انہوں نے کہا: ہم ایمان لائے لہٰذا تو گواہی دے کہ ہم مسلمان ہیں۔( ۲ )

سورۂ آل عمران میں ارشاد فرماتا ہے :

( فلمّا احس عیسیٰ منهم الکفرقال من انصاری الیٰ الله قال الحواریون نحن انصار الله آمنا بالله واشهد بأِنا مسلمون )

جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان میں کفر محسوس کیا تو کہا: خدا کے واسطے میرے انصار کون لوگ ہیں؟

حواریوں نے کہا: ہم خدا کے انصار ہیں؛ ہم خدا پر ایمان لائے، آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلمان ہیں۔( ۳ )

یہ اصطلاح گز شتہ امتوں سے متعلق قرآن کریم میں منحصر نہیں ہے بلکہ دوسرے اسلامی مدارک میں بھی ان کے واقعات کے ذکر کے وقت آئی ہے مثال کے طور پر ابن سعد نے اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے نوح کے کشتی سے باہر آنے کاذکر کرنے کے بعد کہا : '' نوح کے آباء و اجداد حضرت آدم تک سب کے سب دین اسلام کے پابند تھے اس کے بعد روایت میں اس طرح وارد ہوا ہے کہ جناب آدم ونوح کے درمیان دس قرن کا فاصلہ تھا اس طولانی فاصلے میں سب کے سب اسلام پر تھے؛ اور اس نے ابن عباس کی روایت کے ذیل میں ذکرکیاہے کہ آپ نے ان لوگوں کے بارے میں جو کشتی سے باہر آئے اور ایک شہر میں سکونت اختیار کی کہا ہے: ان کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ افراد تک پہنچ گئی تھی اور سارے کے سارے دین اسلام کے پابند تھے۔( ۴ )

____________________

(۱)نمل۳۸.(۲)مائدہ۱۱۱.(۳)ال عمران۵۲.(۴)طبقات ابن سعد طبع یورپ، ج۱،ص۱۸، ابن کثیر نے اپنی تاریخ ج۱، ص ۱۰۱ پر یہ روایت ابن عباس سے نقل کی ہے کہ عشرہ قرون کلھم علیٰ الاسلام.

۱۷۵

ھ۔ گز شتہ شریعتوں اور ان کے اسماء میں تحریف

گز شتہ امتوں نے جس طرح رب العالمین کی اصل شریعت میں تحریف کر دی اسی طرح ان کے اسماء بھی تبدیل کر دئے ہیں ، اس لئے کہ بعض ادیان کا اسلام کے علاوہ نام پر نام رکھنا جیسے یہودیت و نصرانیت و غیرہ بھی ایک تحریف ہے جو دین کے نام میں ایک تحریف شمار کی جاتی ہے جس کی وضاحت اس طرح ہے:

الف۔ یہود کی نام گز اری

یہود یروشلم کے مغربی جنوب میں واقع صہیون نامی پہاڑ کے دامن میں شہر یہوداسے منسوب نام ہے کہ جو جناب داؤد کی حکومت کا پایۂ تخت تھا، انہوں نے اس تابوت کیلئے ایک خاص عمارت تعمیر کی، جس میں توریت اور بنی اسرائیل کی تمام میراث تھی بنی اسرائیل کے بادشاہ وہیں دفن ہوئے ہیں۔( ۱ )

ب۔ نصاریٰ کی وجہ تسمیہ

جلیل نامی علاقے میں جہاں حضرت عیسیٰ نے اپنا عہد طفولیت گز ارا ہے ایک ناصرہ نامی شہر ہے اسی سے نصرانی منسوب ہیں، حضرت عیسی اپنے زمانے میں ''عیسائے ناصری'' سے مشہور تھے ان کے شاگرد بھی اسی وجہ سے ناصری مشہور ہوگئے۔( ۲ )

مسیحیت بھی حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام سے منسوب ہے حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کو ۱ ۴ ء سے مسیحی کہا جانے لگا اور اس لقب سے ان کی اہانت اور مذمت کا ارادہ کرتے تھے۔

____________________

(۱)قاموس کتاب مقدس مادہ ''یہود'' یہودا'' صیہون۔

(۲)قاموس کتاب مقدس، مادہ ناصرہ و ناصری

۱۷۶

ج۔ شریعت کی تحریف

ہم اس وجہ سے کہ ''الوہیت'' اور ''ربوبیت'' کی معرفت اور شناخت؛ دین کے احکام اور عقائد کی شناخت اور معرفت کی بنیادواساس ہے لہٰذایہود و نصاریٰ کے ذریعہ شریعت حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ کی تحریف کی کیفیت کے بیان میں ہوا ہے یہاں پرہم صرف ان کے ذریعہ عقیدۂ ''الوہیت''اور ''ربوبیت''میں تحریف کے ذکرپر اکتفا کر تے ہیں۔

الف۔ شریعت موسیٰ میں یہود کے ذریعہ تحریف

جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے وہ توریت کے رسالہ ٔ پیدائش ( سفر تکوین ) سے دوسرے باب کا خلاصہ ہے اور تیسرا باب پورا جوکہ اصل عبرانی ، کلدانی اور یونانی زبان سے فارسی زبان میں ۱۹۳۲ئ میں ترجمہ ہو کر دار السلطنت لندن میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ہے۔

پروردگار خالق نے عدن میں ایک باغ خلق کیا اور اس کے اندر چار نہریں جاری کیں فرات اور جیحون بھی انہیں میں سے ہیں اور اس باغ میں درخت لگائے؛ اور ان کے درمیان زندگی کا درخت اور اچھے برے میں تمیز کرنے والا درخت لگایا اور آدم کو وہان جگہ دی، پروردگار خالق نے آدم سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ان درختوں میں سے جو چاہو کھائو، لیکن خوب و بد کے درمیان فرق کرنے والے درخت سے کچھ نہیں کھانا، ا س لئے کہ جس دن اس سے کھا لوگے سختی کے ساتھ مر جا ؤ گے اس کے بعد آدم پرنیندکا غلبہ ہوااور ان کی ایک پسلی سے ان کی بیوی حوا کو پیدا کیا،آدم و حوا دونوں ہی عریان و برہنہ تھے اس سے شرمسار نہیں ہوئے ۔

تیسرا باب

سانپ تمام جنگلی جانوروںمیں جسے خدا نے بنایا تھا سب سے زیادہ ہوشیار اور چالاک تھااس نے عورت سے کہا: کیا حقیقت میں خدا نے کہا ہے کہ باغ کے سارے درختوں سے نہ کھائو ، عورت نے سانپ سے کہا: ہم باغ کے درختوں کے میوے کھاتے ہیں لیکن اس درخت کے میوہ سے استفادہ نہیں کرتے جو باغ کے وسط میں واقع ہے خدا نے کہا ہے اس سے نہ کھانا اور اسے لمس نہ کرنا کہیں مر نہ جائو، سانپ نے عورت سے کہا یقینا نہیں مروگے بلکہ خدا یہ جانتا ہے کہ جس دن اس سے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی؛ اور خدا کی طرح نیک و بد کے عارف بن جائو گے جب اس عورت نے دیکھا کہ یہ درخت کھانے کے اعتبار سے بہت اچھا اور دیکھنے کے لحاظ سے دلچسپ؛ اور جاذب نظر اور دانش افزا ہے تواس نے اس کا پھل توڑ کر خود بھی کھایا اور اپنے شوہر کو بھی کھلا دیا اس وقت ان دونوں کی نگاہیںکھل گئیں تو خود کو برہنہ دیکھا تو انجیر کے پتوں کو سل کراپنے لئے لباس بنایا اس وقت خدا کی آواز سنی جو اس وقت باغ میں نسیم نہار کے جھونکے کے وقت ٹہل رہا تھا آدم اور ان کی بیوی نے اپنے آپ کوباغ کے درمیان خداسے پوشیدہ کر لیا،خدا نے آدم کو آواز دی اور کہا کہاں ہو؟

۱۷۷

بولے جب تیری آواز باغ میں سنی توڈر گئے چونکہ ہم عریاں ہیں اس لئے خود کو پوشیدہ کر لیا، اس نے کہا : کس نے تمہیں آگاہ کیا کہ عریاں ہو؟ کیا میں نے جس درخت سے منع کیا تھا تم نے کھا لیا؟آدم نے کہا اس عورت نے جس کو تونے میرا ساتھی بنایا ہے مجھے کھانے کو دیا تو خدا نے اس عورت سے کہا کیا یہ کام تو نے کیا ہے ؟عورت نے جواب دیا سانپ نے مجھے دھوکہ دیا اور میں نے کھا لیا پھر خدا نے سانپ سے کہا چونکہ تونے ایسا کام کیاہے لہٰذا تو تمام چوپایوں اور تمام جنگلی جانوروں سے زیادہ ملعون ہے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی پوری زندگی مٹی کھاتا رہے گا، تیرے اور عورت کے درمیان عداوت و دشمنی نیز تیر ی ذریت اور اس کی ذریت کے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عداوت پیدا کر دوں گا وہ تیرا سر کچلے گی اور تو اس کی ایڑی میں ڈسے گااور اس عورت سے کہا تیرے حمل کے در دو الم کو زیادہ بڑھادوں گا کہ درد و الم کے ساتھ بچے جنے گی اور اپنے شوہر کے اشتیاق میں رہے گی اور وہ تجھ پر حکمرانی کرے گا اور آدم سے کہا چونکہ تونے اپنی بیوی کی بات مانی ہے اور اس درخت سے کھایا جس سے کہ منع کیا گیا تھالہٰذا تیری وجہ سے زمین ملعون گئی، لہٰذا اپنی پوری عمراس سے رنج و الم اٹھائے گا ،یہ زمین کانٹے ، خس و خاشاک بھی تیرے لئے اگائے گی اور جنگل و بیانوں کی سبزیاں کھائے گا اور گاڑھی کمائی کی روٹی نصیب ہوگی ۔ یہاں تک کہ اس مٹی کی طرف لوٹ آئو جس سے بنائے گئے ہوچونکہ تم خاک ہو لہٰذا خاک کی طرف بازگشت کروگے ،آدم نے اپنی بیوی کا نام حوارکھا اس لئے کہ وہ تمام زندوںکی ماں ہیں خدا نے آدم اوران کی بیوی کا لباس کھال سے بنایا اور انہیں پہنایا،خدا نے کہایہ انسان تو ہم میں سے کسی ایک کی طرح نیک و بد کا عارف ہو گیا کہیں ایسا نہ ہو کہ دست درازی کرے اور درخت حیات سے بھی لیکر کھالے اور ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہے لہٰذا خدا نے اسے باغ عدن سے باہر کر دیا تاکہ زمین کا کام انجام دے کہ جس سے اس کی تخلیق ہوئی تھی ،پھر آدم کو باہر کر کے باغ عدن کے مشرقی سمت میں مقرب فرشتوں کو جگہ دی اورآتش بارتلوار رکھ دی جو ہر طرف گردش کرتی تھی تاکہ درخت حیات کے راستے محفوظ رہیں ۔

۱۷۸

ان دو باب کے مطالب کا تجزیہ

مذکورہ بیان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ : پروردگار خالق نے اپنی مخلوق آدم سے جھوٹ کہا، اس لئے کہ ان سے فرمایا: خیر و شر میں فرق کرنے والے درخت سے کھائو گے تو مر جائو گے؛ اور سانپ نے حوا کو حقیقت امر اور خالق کے جھوٹ سے آگاہ کیا، ان دونوں نے کھایا اور آنکھیں کھل گئیں اور اپنی عریانیت دیکھ لی اور جب باغ میں سیر کرتے ہوئے اپنے خالق پروردگار کی آواز سنی تو چھپ گئے،چونکہ خدا ان کی جگہ سے واقف نہیں تھا اس لئے آدم کو آوا زدی کہ کہاں ہو؟ آدم نے بھی عریانیت کے سبب اپنے چھپنے کو خدا سے بتایا اور خدا نے اس معنی کو درک کرنے کے متعلق آدم سے دریافت کرتے ہوئے کہا: کیا تم نے اس درخت سے کھا لیا ہے ؟ آدم نے حقیقت واقعہ سے با خبر کر دیا تو خداوند خالق نے آدم و حوا اور سانپ پر غیظ و غضب کا اظہار کیا اور انہیں زمین پر بھیج دیا اور ان کے کرتوت کی بنا پر انہیں سزا دی اور پروردگار خالق نے جب یہ دیکھا کہ یہ مخلوق اس کی طرح خیر و شر سے آشنا ہو گئی ہے اوراسے خوف محسوس ہوا کہ کہیں حیات کے درخت سے کچھ کھانہ لے کہ ہمیشہ زندہ رہے ، تو اس نے باغِ عدن سے نکال دیا اور زندگی کے درخت کے راستے میں محافظ اور نگہبان قرار دیا وہ بھی کر ّوبیوں(مقرب فرشتے) کو تاکہ انسان کو اس درخت سے نزدیک نہ ہونے دیں۔

سچ ہے کہ یہ خالق پروردگار کس درجہ ضعیف و ناتواں ہے ؟!( خدا اس بات سے پاک و پاکیزہ ہے کہ جس کی اس کی طرف نسبت دیتے ہیں)۔ یعنی اس خدا کا تصور پیش کرتے ہیں جو یہ خوف رکھتاہے کہ کہیں اس کی مخلوق اس کے جیسی نہ ہو جائے اسی لئے وہ تمام اسباب و ذرائع کہ جو مخلوقات کو اس کے مرتبہ تک پہونچنے سے باز رکھے بروئے کار لاتا ہے اور کتنا جھوٹااور دھوکہ باز ہے کہ اپنی مخلوق کے خلاف کام کرتا ہے اور اس سے جھوٹ بولتا ہے ، وہ بھی ایسا جھوٹ جو بعد میں فاش ہو جاتا ہے !

اور کتنا ظالم ہے کہ سانپ کو صرف اس لئے کہ اس نے حوا سے حقیقت بیان کر دی ہے سزا دیتاہے اور ہم نہیں سمجھ سکے کہ اس بات سے اس کی کیا مراد تھی کہ اس نے کہا :'' یہ انسان ہم ہی میں سے ایک کی طرح ہو گیا ہے '' آیا اس سے مرا دیہ ہے کہ یکتا اور واحد خالق پروردگار کے علاوہ بھی دوسرے خدائوںکا وجود تھا کہ''مِنَّا'' جمع کی ضمیر استعمال کی ہے ؟!

آخر کلام میں ہم کہیں گے ، اس شناخت او ر معرفت کا اثر اس شخص پر جو توریت کی صحت و درستگی کا قائل ہے کیا ہوگا؟! جب وہ توریت میں پڑھے گا: خدا وند خالق ہستی جھوٹ بولتا ہے اور دھوکہ دھڑی کرتا ہے اور اس انسان کے خوف سے ، اسے کمال تک پہنچنے سے روکتا ہے تووہ کیا سوچے گا؟!

۱۷۹

یقینا خدا وند عالم اس بات سے بہت ہی منزہ؛ پاک و پاکیزہ نیز بلند و بالا ہے جو ظالمین اس کی طرف نسبت دیتے ہیں ۔

ب۔ نصاریٰ کی تحریف

جو کچھ ہم نے اب تک بیان کیا ہے یہود و نصاریٰ کے درمیان مشترک چیزیں تھیں لیکن نصاریٰ دوسری خصوصیات بھی رکھتے ہیں اور وہ: عقیدۂ الوہیت اور ''ربوبیت'' میں تحریف ہے جس کا بیان یہ ہے :

نصاریٰ کے نزدیک تثلیث( تین خدا کا نظریہ)

نصاریٰ کہتے ہیں: مسیح خدا کے فرزند ہیں اور خدا ان کا باپ ہے اور یہ دونوں روح القدس کے ساتھ ایک شۓ ہیں کہ وہی خدا ہے ، لہٰذا خدا وند یکتا تین عدد ہے : باپ ، بیٹااور روح القدس اور یہ تینوں، خدا،عیسیٰ اور روح القدس ایک ہی ہیں کہ وہی خد اہے تین افراد ایک ہیں اور ایک، تین عدد ہے۔

خدا وند عالم سورۂ مائدہ میں فرماتا ہے :

( لقد کفر الذین قالوا ان الله هو المسیح بن مریم و قال المسیح یا بنی اسرائیل اعبدوا الله ربی و ربکم انه من یشرک بالله فقد حرم الله علیه الجنة و مأواه النار و ما للظالمین من انصار٭ لقد کفر الذین قالوا ان الله ثالث ثلاثة وما من الٰه الا الٰه واحد٭ ما المسیح بن مریم الا رسول قد خلت من قبله الرسل و اُمه صدیقة کانا یأکلان الطعام انظر کیف نبین لهم الآیات ثم انظر أنی یؤفکون )

جن لوگوںنے یہ کہا: خدا وہی مریم کے فرزند مسیح ہیں، یقینا وہ کافر ہوگئے، ( جبکہ خود) مسیح نے کہا: اے بنی اسرائیل !واحد اور ایک خدا کی عبادت اور پرستش کرو جو ہمارا اور تمہارا پروردگارہے اس لئے کہ جو کسی کو خدا کا شریک قرار دے گاتو خدا وند عالم نے اس پربہشت حرام کی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ؛ اور ستمگروں کا کوئی نا صر و مدد گار نہیں ہے، جن لوگوں نے کہا: خدا وند تین خدائوں میں سے ایک ہے یقینا وہ بھی کافر ہیں خدائے واحد کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے...، حضرت مسیح جناب مریم کے فرزند صرف اس کے رسول ہیں کہ ان سے پہلے بھی دیگر رسول آ چکے ہیں؛

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

بہانے تراشياں

منافقين جنگ ميں شركت نہ كرنے كے لئے بڑے لچر بہانے تراشتے رہتے تھے_رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے '' جدّ ابن قيس'' نامى ايك منافق سے كہا_

'' كيا تم روميوں كے ساتھ لڑنے كے لئے خود كو آمادہ كرنے كا ارادہ نہيں ركھتے؟''جدّا بن قيس نے جواب ديا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات كى اجازت ديں كہ ميں شہر ہى ميں رہوں مجھے فتنہ ميں نہ ڈاليں _ اس لئے كہ ميرے قبيلہ كے لوگ جانتے ہيں كہ كوئي مرد بھى ميرى طرح عورتوں كا ديوانہ نہيں ، مجھے ڈر ہے كہ اگر ميں روم كى عورتوں كو ديكھوںگا تو فتنہ (وگناہ) ميں پڑ جاؤں گا''_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منہ پھير ليا اور فرمايا'' جہاں جانا چاہتے ہو جاؤ''(۱۷)

قرآن اس منافق كى بہانہ بازى كے بارے ميں فرماتا ہے:

'' ان ميں سے كچھ لوگ كہتے ہيں كہ ہم كوجہاد ميں شركت كرنے سے معاف ركھيں اور فتنہ ميں نہ ڈاليں آگاہ ہو جاؤ كہ يہ لوگ خود فتنہ ميں پڑے ہوئے ہيں اور بے شك دوزخ كافروں كو گھيرے ہوئے ہے ''_(۱۸)

منافقين كام ميں رخنہ ڈالنے اور جنگ كے بارے ميں لوگوں كے حوصلے پست كرنے كے لئے كہتے تھے اس گرمى كے موسم ميں جنگ كے لئے نہ جاؤ يہ موسم جنگ كے لئے مناسب نہيں ہے _خدا ان لوگوں كے بارے ميں فرماتا ہے :

'' جن لوگوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ركاب ميں حكم جہاد سے روگردانى كى وہ خوش ہيں اور راہ خدا ميں جان و مال كے ساتھ جہاد كرنے كوناگوار جانتے ہيں (اور مومنين كو بھى جہاد سے منع كرتے ہيں)وہ لوگ كہتے ہيں كہ اس گرمى ميں كوچ نہ كرو _ ان سے كہہ ديجئے كہ دوزخ

۲۲۱

كى آگ زيادہ جلانے والى ہے اگرلوگ سمجھ ليں _(۱۹)

منافقين، آرام طلب ثروت مندافراد اور كچھ ناواقف اعراب نے مختلف بہانوںسے جنگ ميں شركت كرنے سے گريز كيا_

خداوند عالم اعراب كے بارے ميں فرماتا ہے :

'' باديہ نشينوں (اعراب) ميں سے كچھ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس عذر كرتے ہوئے آئے اور جہاد سے معافى چاہ رہے تھے اور كچھ لوگ جو خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تكذيب كرتے تھے_ جہاد سے بيٹھ رہے كافر ج ہى دردناك عذاب ميں مبتلا ہوں گے''_(۲۰)

منافقين كے خفيہ مركز كا انكشاف

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ملى كہ منافقين كا ايك گرو ہ سُوَيْلَمْ يہودى كے گھر ايك انجمن بنا كر سازشوں اور لوگوں كو جہاد ميں شركت كرنے سے روكنے كى پلا ننگ ميں مصروف ہے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے تھے اگر ان كے ساتھ كوئي عبرتناك اور فيصلہ كن سلوك نہ كيا گيا تو يہ مكارانہ سازشوں سے اسلام كو نقصان پہنچائيں گے_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ اس گروہ كے مركز كو گھير كر آگ لگادى جائے _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے اسلام كے چند محافظين نے اس گھر كو آگ لگادى اور منافقين كے فرار كے نتيجہ ميں يہ گروہ ختم ہو گيا اور فرار كے دوران چھت سے گرنے كى وجہ سے ايك منافق كى ٹانگ ٹوٹ گئي_(۲۱)

جنگى اخراجات كى فراہمي

مضبوط لشكر مرتب كرنے كے لئے مخيّر اور ثروت مند مسلمانوں نے جاں بازان اسلام

۲۲۲

كى مالى امداد كى اور مسلمانوں نے اخراجات جنگ مہيا كرنے ميں بے مثال دلچسپى كے ساتھ حصہ ليا _ مسلمان عورتوں نے اپنے زيورات رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيج ديئےا كہ جنگ كے اخراجات ميں كام آئيں _ ہر شخص اپنى طاقت كے مطابق مدد كرنے ميں كو شاں تھا_ مثال كے طور پر ايك غريب مزدور ايك صاع ( تين كيلو) خرما پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں لايا اور عرض كرنے لگا'' _ اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں نے نخلستان ميں كام كيا تو دو صاع خرما مزدورى ملى ايك صاع ميں نے اپنے گھر كے لئے ركھ ليا اور ايك صاع جنگ كے اخراجات جمع كرنے كے لئے لايا ہوں''_

منافقين نے يہاں بھى غلط پرو پيگنڈہ جارى ركھا _ اگر كوئي دولت مند مالى امداد كرتا تو كہتے '' ريا كارى كررہا ہے ''_ اور اگر كوئي غريب خلوص كى بناپر تھوڑى سى مدد كرتا تو كہتے كہ '' ''خدا كو اس مددكى ضرورت نہيں ''(۲۲)

منافقين كى ان باتوں كے بارے ميں قرآن مجيد ميں خدا فرماتا ہے:

'' جو لوگ مدد كرنے والے مومنين اور اپنى استطاعت كے مطابق عطا كرنے والوں كے صدقہ ميں عيب نكالتے اور مذاق اڑاتے ہيں خدا ان كا تمسخر كرتا ہے اور ان كے لئے دردناك عذا ب ہے'' _(۳۲)

اشك حسرت

منافقين كى سازشوں ،پروپيگنڈوں اور افواہوں كے بالمقابل پاكيزہ دل مومنين كا ايك گروہ جنگ ميں شركت كے شوق ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں حاضر ہوا چونكہ يہ لوگ غريب تھے اور سوارى كا انتظام نہ تھا لہذا انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خواہش كى كہ ان كو

۲۲۳

مركب عطا كيا جائے تا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ركاب ميں صحراؤں كا سفر كركے جہاد مقدس ميں شركت كريں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _ ميرے پاس كوئي ايسى سوارى نہيں ہے جس پر تم كو سوار كروں _ يہ لوگ اس وجہ سے افسوس اور گريہ كرتے ہوئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس سے نكلے كہ ان كو جہاد ميں شركت كى توفيق حاصل نہ ہو سكى _ يہ جماعت تاريخ ميں گروہ '' بكّاؤون''(۲۴) كے نام سے مشہور ہوئي _ ( يعنى بہت رونے والے) خدا قرآن مجيد ميں ان كو اس طرح ياد كرتا ہے_

'' اى پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،مومنين جہاد كے لئے تيار ہو كر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئيں تا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان كو كسى مركب پر سوار كرديں ( اور ميدان جہاد لے جائيں ) اور آپ نے جواب ميں فرمايا كہ ميرے پاس مركب نہيںہے جس پر ميں تم كو سوار كروں اور وہ لوگ اس حالت ميں واپس چلے گئے كہ غم كى شدت سے ان كى آنكھوں سے آنسو جارى تھے كہ اخراجات سفر كيوں نہ فراہم كر سكے _ ايسے لوگوں پر جہاد ترك كردينے ميں كوئي گناہ نہيں ہے ''(۲۵)

۲۲۴

سوالات

۱_ طائف كى جنگ ميں كس قسم كا اسلحہ استعمال ہوا؟

۲_ ہوازن كے اسيروں كى رہائي نے ان كے اسلام كى طرف ميلان پر كيا اثر ڈالا_

۳_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بخششيںكن وجوہات كى بناء پر تھيں؟

۴_ لشكر كے چند افراد كا اعتراض كس چيز پر اور كس تصوّر كے زير اثر تھا؟

۵_ روم كى بڑى طاقت كے حملہ كے ارادہ اور ان كے فوجى نقل و حمل سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كس طرح آگاہ ہوئے؟

۶_ جنگ سے فرار كيلئے منافقين كيا بہانے تراش رہے تھے؟

۷_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منافقين كے گروہ كے گھر كے لئے كياحكم ديا؟

۲۲۵

حوالہ جات

۱_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۲۱_۱۲۵

۲_مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۲۷

۳_ پيامبرى و حكومت ص ۳۷۶

۴_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۱۵۸

۵_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۳۰_۱۳۱

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۳۳_

۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ص ۱۳۴_ ۱۳۵

۸_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۳۵

۹_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۳۹_ انجام كار وہ زمانہ امام على عليہ اسلام ميں خوارج كے رہبروں ميں سے ايك رہبر بنا اور نہروان كى جنگ ميں حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سپاہيوں كے ہاتھوں قتل ہو گيا_

۱۰_ يہ ياد دلانا ضرورى ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى گفتگو كاصرف كچھ حصّہ يہاں پر نقل ہوا ہے _

۱۱_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۴۱_۱۴۲

۱۲_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۴۳ _

۱۳_ شام كى سر حد پر حجر سے جو راستہ شام كو جاتا ہے اس كے درميان تبوك ايك مضبوط قلعہ تھا اور آج كل سعودى عرب ميں مدينہ سے ۷۷۸ كيلوميٹر دور ايك فوجى شہر ہے_

۱۴_ ہر اكيلو س بھى لكھا گيا ہے_

۱۵_امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۴۵_۴۴۶ _طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۱۶۵_ سيرت حلبى ج ۳ ص ۱۴۱_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵۹

۲۲۶

۱۶_ سيرت حلبيہ ، مطبوعہ بيروت ج ۳ ص ۱۴۴ _ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷۳ _امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۸۰

۱۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵۹_

۱۸_( وَ منْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذنْ ليْ وَلاَ تَفْتنّى اَلاَ فى الْفتْنَة سَقَطوُا وَ اَنَّ جَهَنَّمَ مُحيطَةُ بالْكَافرين ) _(سورہ توبہ آيت ۴۹)

۱۹_( فرحَ الْمُخَلَّفُونَ بمَقْعَدهمْ خلاَفَ رَسُول اللّه وَ كَرهوُا اَنْ يُجَاهدوُا باَمْوالهمْ وَ اَنْفُسهمْ فى سبيل اللّه وَ قَالُوا لاَتَنْفَروُا فى الْحَر قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَراً لَوْ كَانوُا يَفْقَهُون ) _(توبہ/۸۱)_

۲۰_( وَ جَائَ الْمُعَذَّرُونَ منَ الْاَعْراب ليُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذينَ كَذَّبُوا اللّه وَ رَسُولَهُ سَيُصيبَ الَّذين كَفَرُوا منْهُمْ عَذَابٌ اَليم ) (توبہ/۹۰)_

۲۱_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۰_

۲۲_ تفسير مجمع البيان ج ۵ص ۲۵۷_اسباب النزول واحدى ص ۱۷۲_

۲۳_( اَلَّذيْنَ يَلْمزُونَ الْمُطَّوعين منَ الْمُوْمنيْن فى الصَّدَقَات وَالَّذينَ لاَ يَجدُوْنَ الاَّ جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ منْهُمْ سَخرَ اللّهُ منْهُمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَليم ) (توبہ/۷۹)_

۲۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۱_

۲۵_( وَ لاَ عَلَى الَّذين اذَا مَا اَتَوْكَ لتَحْملَهُمْ قُلْتَ لاَ اَجدُ مَا اَحْملُكُمْ عَلَيْه تَوَلَّوْا وَ اَعيُنهمْ تَفيضُ منَ الدَّمْع حُزْناً الاّ يَجدوُا مَا يُنْفقُون ) (توبہ/۹۲)

۲۲۷

تيرھواں سبق

بے نظير لشكر

منافقين كى واپسي

شخصيت پر حملہ

تپتا صحرا

حضرت ابوذر كا واقعہ

لشكر اسلام تبوك ميں

دومة الجندل كے بادشاہ كى گرفتاري

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ كى سازش

مسجد ضرار كو ويران كردو

اسلحہ فروخت نہ كرو

جنگ ميں دعا كى تاثير

غزوہ تبوك سے ماخوذ نتائج

سوالات

۲۲۸

بے نظير لشكر

منافقين كى رخنہ اندازى اور پروپيگنڈے ، راستہ كى دورى ، شديد گرمى ، خشك سالى ، دشمن كا بے شمارلشكر،ان ميں سے كوئي چيزبھى مسلمانوں كو وسيع پيمانہ پر جنگ ميں شركت سے نہ روك سكي_

تقريباً تيس ہزار افراد نے آمادگى كا اعلان كيا اور'' ثنية الوداع ''كى لشكر گاہ ميں خيمہ زن ہوگئے اس مسلح لشكر كے پاس دس ہزار گھوڑے اور بارہ ہزار اونٹ تھے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر گاہ ميں سپاہيوں كا معائنہ كيا ، پرچم ان كے حوالے فرمايا اور روانگى كے لئے آمادہ ہوگئے_(۱)

منافقين كى واپسي

منافقين كے سر براہ عبداللہ ابن ابى نے اپنے چند ساتھيوں كے ساتھ '' ذباب ''كے علاقہ ميں _ ثنية الوداع ميں جو لشكر گاہ تھى اس سے ذرا پيچھے_ خيمے نصب كئے اور وہيں سے مدينہ لوٹ گئے اور كہا '' محمد اس گرمى ، دورى ، اور سختى ميں روميوں سے لڑنے جارہے ہيں ، وہ سمجھتے ہيں كہ روميوں كے ساتھ جنگ ايك كھيل ہے خدا كى قسم ميں ديكھ رہا ہوں كہ كل ان كے اصحاب اسير اور گرفتار ہوجائيں گے_(۲)

۲۲۹

منافقين چاہتے تھے كہ عين روانگى كے موقع پر نفسياتى حربوں كے ذريعہ لشكر اسلام كے حوصولوں كو كمزور كرديا جائے _ ليكن ان كى يہ چال كارگر نہ ہوئي _(۳)

شخصيت پر حملہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ركاب ميں حضرت على (ع) كو ہر جنگ ميں شركت كا افتخار حاصل تھا ليكن اس جنگ ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے شريك نہيں ہوئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق مدينہ كى ديكھ بھال كے لئے مدينہ ميں ہى رك گئے _ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منافقين كى سازشوںسے آگاہ تھے كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ شرك پر باقى رہ جانے والے اعراب كى مدد سے منافقين ، شہر مدينہ پر مجاہدين سے خالى ہو جانے كى بنا پر حملہ كرديں اور كوئي ناگوار حادثہ پيش آجائے_ پريشان كن سياسى حالات ميں سازشوں كا مقابلہ كرنے كيلئے اسلام كے مركز كى ديكھ بھال صرف علي(ع) كر سكتے ہيں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على (ع) كو اپنى جگہ پر اس لئے بٹھايا تا كہ اطمينان سے جہاد كے لئے جا سكيں _ منافقين نے علي(ع) كو اپنى سازشوں ميں ركاوٹ محسوس كيا تو ان كو ميدان سے ہٹانے كے لئے ما حول بنانا ، افواہيں پھيلانا اور در حقيقت ان كى شخصيت پر حملہ كرنا شروع كرديا _ انہوں نے يہ افواہ پھيلائي كہ '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،على (ع) سے افسردہ خاطر ہوگئے تھے اس ليے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے بے اعتنائي كى اور اپنے ساتھ نہيں لے گئے '' يہ باتيں على (ع) كے كانوں تك پہنچيں تو آپ(ع) نے اسلحہ اٹھايا اور مدينہ سے تين ميل دور مقام '' جرف'' ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جا ملے اور عرض گيا: اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منافقين كہتے ہيں كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے تنگ آگئے ہيں اس لئے مدينہ چھوڑ ے جارہے ہيں ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا :

۲۳۰

'' وہ لوگ جھوٹ بولتے ہيں _ ميں نے اپنے بعد تمہيں مدينہ ميں حفاظت اور نگہبانى كے لئے چھوڑا ہے _اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہاں موجود بہت سارے اصحاب كے سامنے حضرت على (ع) سے فرمايا _

'' ميرے بھائي مدينہ واپس جاؤ، مدينہ كے لئے ميرے يا تمہارے علاوہ كوئي مناسب نہيں، تم ہى ميرے خاندان ، مقام ہجرت (مدينہ) اور ميرى قوم كے در ميان ميرے جانشين ہو ، كيا تمہيں يہ پسند نہيں كہ تم ميرے ليے ايسے ہى ہو جيسے موسي(ع) كےلئے ہارون(ع) مگر يہ كہ ميرے بعد كوئي پيغمبر نہيں ہوگا''_

حضرت على (ع) مدينہ لوٹ آئے اور رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے مقصد كے لئے روانہ ہوگئے _(۴)

تپتا صحرا

سختيوں ميں گھرے ہوئے لشكر '' جيش العُسْرَہ'' كى كمان ۶۱ سالہ با ہمت و جرى رہبر يعنى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھ ميں تھى _دشمن تك پہنچنے كے لئے سپاہيوں كو ۷۷۸ ، كيلوميٹر كے گرم ريگستان كو عبور كرنا تھا _لشكر چل پڑا ، آفتاب آگ بر سارہا تھا _ شديد گرمى كا خطرہ دشمن سے كم نہ تھا_ ليكن لشكر اسلام بھى استقامت و مقاومت كا پيكر تھا _ صرف چند منافقين تخريب كارى اور اذيت رسانى كے ارادے سے ساتھ ہوگئے تھے_ يہ لوگ راستہ ميں خيانت آميز حركتيں اور زہر يلے پروپيگنڈے كررہے تھے_ لشكر اسلام كا گزر اصحاب '' حجر''(۵) كے علاقہ سے ہوا، اصحاب حجر كے ويران شہر ميں ايك كنواں تھا سپاہيوں نے كنويں سے پانى كھينچا اور ظروف بھر لئے _ جس وقت يہ لوگ اترے اور سپاہى آرام كرنے لگے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ نہ كنويں كا پانى پينا اور نہ آٹا گوندھنا اور اگرآٹا گوندھ ليا ہے تو اس كو نہ

۲۳۱

كھانا بلكہ چوپايوں كو ديدينا ''_

اسى طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' آج رات كوئي لشكر گاہ سے باہر نہ نكلے'' اس رات لشكر گاہ سے كوئي باہر نہيں گيا سوائے دو افراد كے اور ان كے ساتھ ناگوار حادثات پيش آئے_

صبح سويرے لشكر اسلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس طلب آب كے لئے پہنچا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا فرمائي ، بارش ہوئي اور پانى گڑھوں ميں بھر گيا _ جان بازوں نے بارش كے پانى سے مشكيں بھر ليں _ ايك منافق نے كہا '' ايك گذر تا ہوا بادل تھا جو اتفاقاً برس گيا_(۶) ايك جگہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اونٹ گم ہو گيا كچھ لوگ ڈھونڈھنے كے لئے نكلے منافقين ميں سے ايك شخص نے كہا كہ يہ كيسے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں جو آسمانوں كى خبر ديتے ہيں ليكن يہ نہيں معلوم كہ ان كا اونٹ كہاں ہے _ يہ باتيں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك پہنچائي گئيں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدا جو بتاديتا ہے ميں غيب كى وہى باتيں جانتا ہوں '' اسى وقت جبرئيل نازل ہوئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اونٹ كى جگہ سے با خبر كيا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ميرااونٹ فلان وادى ميں ہے اور اس كى مہار فلاں درخت ميں الجھ گئي ہے جاؤ اس كو پكڑ لاؤ''_(۷)

حضرت ابوذر كا واقعہ

چلتے چلتے راستہ ميںحضرت ابوذر كا اونٹ بيٹھ گيا انہوں نے بڑى كوشش كى كہ كسى طرح قافلہ تك پہنچ جائيں _ ليكن كامياب نہ ہو سكے _ چنانچہ اونٹ سے اتر پڑے _ سامان پيٹھ پر لادا اور پيدل ہى چل پڑے _ آفتاب شدت كى گرمى بر سارہا تھا _ابوذر پياس سے نڈھال چلے جارہے تھے _ اپنے آپ كو بھلا چكے تھے اور صرف لشكر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك پہنچنے كے علاوہ كوئي مقصد نہ تھا_ پياس سے تپتے ہوئے جگر كے ساتھ پيدل ، پستيوں اور بلنديوں كو پيچھے

۲۳۲

چھوڑتے ہوئے چلے جارہے تھے_ كہ دور سے آپ كى نگاہيں لشكراسلام پر پڑيں ، آپ نے اپنى رفتار بڑھادى اس طرف ايك سپاہى كى نظر ايك سياہى پر پڑى اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض كى كہ '' كوئي شخص ہمارى طرف آرہا ہے ''_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اچھى بات ہے وہ ابوذر ہونگے '' آنے والى سياہى اور قريب ہو گئي ايك شخص نے چلّا كر كہا '' وہ ابوذر ہيں'' خدا كى قسم وہى ہيں '' آنحضرت نے فرمايا:

خدا ابوذر پر رحمت نازل كرے وہ اكيلے راستہ طے كرتے ہيں ، تنہا مريں گے اور تنہا اٹھائے جائيں گے _(۸)

لشكر اسلام تبوك ميں

لشكر اسلام نے اپنا سفر جارى ركھا اور تبوك پہنچ گيا _ ليكن روميوں كو اپنے سامنے نہيں پايا اس لئے كہ رومى ، لشكر اسلام كى كثرت سے واقف ہو چكے تھے اور لشكر اسلام كى شجا عت اور بلند حوصلوں كى اطلاع ان كو پہلے سے تھى _(۹) اس بنا پر انہوں نے جان بچانے ہى ميں عافيت سمجھى اور شمال كى طرف عقب نشينى اختيار كرلى _(۱۰)

تبوك ميں لشكر اسلام نے اپنا پڑاؤ ڈال ديا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كے سامنے تقرير كى _(۱۱) مسلمان بيس دن تك تبوك ميں رہے_(۱۲) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہاں چند گروہوں كو اپنے زير اثر قبيلوں سے عہد و پيمان باندھنے كے لئے مختلف سرحدى علاقوں ميں روانہ فرمايا، سرحدى علاقوں ميں بسنے والے قبيلوں سے عہد و پيمان كے بعد جزيرة العرب كى سرحديں محفوظ ہوگئيں _

۲۳۳

دومة الجندل كے بادشاہ كى گرفتاري

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سواروں كے ايك دستہ كو خالدبن وليد كى سربراہى ميں دومة الجندل روانہ كيا _ خالد اور اس كے سپاہيوں نے وہاں كے بادشاہ اُكيدر اور اس كے بھائي حسان پر جب وہ ايك وحشى گائے كا پيچھا كررہے تھے غفلت كے عالم ميں حملہ كرديا _ حسان ماراگيا اور اُكيدر گرفتار ہو گيا _ خالد نے اُكيدر كو گرفتار كرنے كے بعد دُومةُ الجندل كو فتح كيا اور مال غنيمت كے ساتھ واپس پلٹا _ اُكيد ر كو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پيش كيا گيا _ رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے صلح كا معاہدہ كيا اور جزيہ ادا كرنا ضرورى قرار دے كر آزاد فرما ديا_(۱۳)

تبوك ميں شہر اَيْلَہ ، جہاں عيسائي آباد تھے ، كے رئيس يوحَنّا ابن رُوْبہَ نے دومة الجندل كے واقعات سننے كے بعد پيش قدمى كى اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں آكر اپنے آپ كو اور اپنے قبيلہ كو اسلام كى حمايت كے سايہ ميں پہنچا ديا _ وہاں يہ طے پايا كہ اہل اَيلہ سالانہ تين سو طلائي دينا ربعنوان جزيہ ادا كريںگے_(۱۴)

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ كى سازش

مقام تبوك ميں بيس دن قيام كے بعد ، لشكر اسلام نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے بموجب واپسى كا ارادہ كيا _ منافقين نے ديكھا جنگ يا لشكر اسلام كے قتل اور زخمى ہونے كى نوبت ہى نہيں آئي تو انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے قتل كا منصوبہ بنايا كہ واپسى كے دوران گھاٹى ميں چھپ جائيں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اونٹ كو بھڑ كا ديں تا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اونٹ سے گر كر درّوں ميں لڑھك كر ختم ہو جائيں_

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس گھاٹى پر پہنچے تو خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو منافقين كے ارادوں سے آگاہ

۲۳۴

كرديا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب سے فرمايا كہ وہ لوگ درّہ كے نيچے سے گزريں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود گھاٹى كے اوپر روانہ ہوئے _ عمار ياسر سے فرمايا كہ اونٹ كى مہار كھينچتے ہوئے لے چليں اور حذيفہ بن يمان سے فرمايا كہ اونٹ كو پيچھے سے ہانكتے رہيں _ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھاٹى كے اوپر پہنچے تو منافقين نے چاہا كہ حملہ شروع كريں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غصّہ كے عالم ميں حذيفہ كو حكم ديا كہ ان كو بھگادو جب حذيفہ نے ان پر حملہ كيا تو منافقين رسوائي كے ڈرسے فوراً ہى بھاگ كھڑے ہوئے اور شب كى تاريكى ميں لشكر سے جاملے _ دوسرے دن صبح اُسيد ابن حضير نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان لوگوں كو قتل كر ڈالنے كى اجازت مانگى ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اجازت نہيں دى _(۱۵)

مسجد ضرار كو ويران كردو

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تبوك سے واپسى پر جب منزل ذى آوان پر پہنچے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحى اور مندرجہ ذيل آيات كے نزول كے ذريعہ مسجد ضرار كے بانيوں كے منصوبہ سے باخبر ہوگئے قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے_

'' جن لوگوں نے ضرر پہنچانے ،كفر اختيا ركرنے ، مسلمانوں كے درميان تفرقہ ڈالنے اور ان لوگوں كے لئے مركز بنانے كے لئے جو اس سے پہلے خدا اورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ كرتے تھے _ مسجد بنائي ہے _ البتہ يہ لوگ قسم كھاتے ہيں كہ سوائے نيكى كے اور كچھ نہيں چاہتے اور خدا گواہى ديتا ہے كہ يہ لوگ جھوٹے ہيں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہرگز اس مسجد ميں نماز كے لئے نہ كھڑے ہوں _ وہ مسجد جو پہلے ہى دن سے اساس تقوى پر بنى ہے زيادہ بہتر ہے كہ آپ اس ميں كھڑے ہوں اس مسجد ميں وہ لوگ ہيں جو خود كو پاك و پاكيزہ ركھنے كو دوست ركھتے ہيں

۲۳۵

اور خدا بھى مطہرين كو دوست ركھتا ہے ''_(۱۶)

ان آيات كے نزول كے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند مسلمانوں كو حكم ديا كہ '' جاؤ اور اس مسجد كو كہ جس كو ستم گروں نے بناياہے ، ويران كردو اور جلاڈالو ''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم پر فوراً عمل ہوا اور مسجد كى چھت كو جو كھجور كى لكڑى سے بنائي گئي تھى آگ لگادى گئي ، منافقين بھاگ كھڑے ہوئے اور آگ بجھنے كے بعد مسجد كى ديواروں كو مليا ميٹ كرديا گيا _(۱۷)

اسلحہ فروخت نہ كرو

تبوك كے واقعہ كے بعد بہت سے جانبازوں نے يہ سمجھ كر كہ جہاد كا كام اب تما م ہوگيا اپنے اسلحہ كو بيچنا شروع كرديا _ دولت مند اسلحہ خريد نے لگے تا كہ اپنى قوت ميں اضافہ كريں جب يہ خبر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ملى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كام سے منع كيا اور فرمايا: '' ہمارى امت سے كچھ لوگ اسى طرح اپنے دين كا دفاع كرتے رہيں گے_ يہاں تك كہ دجال ظہور كرے''_(۱۸)

جنگ ميں دعا كى تاثير

تبوك كے واقعہ كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدواند عالم كى بارگاہ ميں شكر ادا كيا اور فرمايا

'' خدايا اس سفر ميں جو اجر ملا اور جو كچھ پيش آيا ہم اس پر تيرى بارگاہ ميں شكريہ ادا كرتے ہيں اس اجر و پاداش ميں وہ لوگ بھى ہمارے شريك ہيں جو عذر شرعى كى وجہ سے يہاں رك گئے تھے'' حضرت عائشےہ نے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ لوگوں كو سفركى تكليفيں

۲۳۶

اور سختياں جھيلنا پڑيں ايسے ميں جو لوگ گھروں ميں رہ گئے كيا وہ بھى آپ كے ساتھ شريك ہيں ؟ '' رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' ہم نے جہاں كہيں بھى سفر كيا ، جہاں كہيںبھى خيمہ زن ہوئے، جو لوگ مدينہ ميں رہ گئے تھے وہ ہمارے ساتھ تھے _ ليكن چونكہ يہ لوگ بيمارتھے اس لئے عملى طور پر ہمارے ساتھ نہ آسكے ، قسم اس ذات كى جس كے قبضہ قدرت ميں ميرى جان ہے _ ان كى دعا ہمارے ہتھياروں سے زيادہ دشمن پر انداز ہوئي _(۱۹)

غزوہ تبوك سے ماخوذ نتائج

۱_غزوہ تبوك موجب بنا كہ تاريخ اسلام ميں پہلى بار مسلمانو۷ں ميں سے ہر وہ شخص جو اسلحہ اٹھانے پر قادر تھا ، ميدان ميں آجائے(۲۰) اس طرح كہ مومنين ميں سے كسى نے بھى اس حكم كو ماننے سے انكار نہيں كيا مگر تين آدميوں نے كہ جنكى توبہ خدا نے بعد ميں قبول كرلى در حقيقت اس لشكر كشى نے مسلمانوں كى جنگى صلاحيتوں كو آشكار كيا _

۲_ تبوك كى جنگى مشق ، لشكر اسلام كے مضبوط ارادے اور جسمانى و روحانى طاقت كا مظاہرہ تھى اس لئے كہ نہايت نظم و نسق كے ساتھ ، اس دور كے ابتدائي وسائل كے ذريعہ انتہائي دشوار گزار اور طولانى راستہ طے كرنا ، لشكر اسلام كے حوصلوں كى بلندى اور تجربہ كارى كا ثبوت ہے _

۳_ غزوہ تبوك ، اعراب كى نظر ميں مسلمانوں كى عسكرى و معنوى عظمت بڑھانے كا موجب بنا _وہ اعراب جوابھى شرك پر باقى تھے اس حقيقت كو سمجھ گئے كہ جو لشكر نہايت سختى برداشت كركے روميوں سے لڑنے كے لئے سينكڑوں ميل كى مسافت طے كرسكتا ہے تو وہ بڑى آسانى سے مشركين عرب كا بھى مقابلہ كر سكتا ہے اور اسى لئے ہم ديكھتے ہيں كہ تبوك

۲۳۷

كے واقعہ كے بعد جزيرة العرب كے مختلف قبائل كى طرف سے مدينہ ميں وفود آنا شروع ہوگئے تا كہ اپنے قبيلہ كے مسلمان ہو جانے كا اعلان كريں اسى وجہ سے ہجرت كے نويں سال كو''و فود كا سال'' كہا جاتا ہے_

۴_ جزيرة العرب كى سرحدوں كا سرحدى قبائل سے معاہدہ كے بعد محفوظ ہو جانا _

۵_ منافقين كے مكروہ كردار كاپردہ فاش ہو جانا _ جو اس واقعہ ميں بے حد رسوا ہوئے_

۶_ غزوہ تبوك اس بات كا سبب بنا كہ مسلمان ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد بڑى آسانى سے شام اور روم كے مختلف علاقوں كو آزاد كراليں _

۲۳۸

سوالات

۱_ روم كى بڑى طاقت كے استكبارى لشكر سے لڑنے كے لئے كتنے مسلمان تيار ہوئے ؟

۲_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے راستہ ميں حضرت ابوذر كے بارے ميں كيا فرمايا؟

۳_ مدينہ سے تبوك كا فاصلہ كتنے كلو ميٹر ہے اور رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عمرمبارك اس سال كتنى تھى ؟

۴_ منافقين نے يہ كيوں چاہا كہ على (ع) مدينہ ميں نہ رہيں؟

۵_ منافقين نے كن مقاصد كيلئے مسجد ضرار كو تعمير كيا تھا؟

۶_كونسى آيات مسجد ضرار كے بارے ميں نازل ہوئيں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مسجد كے بارے ميں كيا فرمان جارى كيا؟

۷_ غزوہ تبوك كے كيا نتائج رہے؟

۸_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ختم كردينے كى سازش والا واقعہ كيا تھا؟

۲۳۹

حوالہ جات

۱_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۹۶_۱۰۰۲_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۲_

۲_مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۹۵_

۳_امتاع الاستماع ج ۱ ص ۴۵۰_

۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۳ _ارشاد شيخ مفيد ص ۸۳_امتاع الاسماع مقر يرى ج ۱ ص ۴۵۰_ انساب الاشراف ج ۱ ص ۹۴_۹۶ _صحيح بخارى ج ۵ (كتاب المغازى باب تبوك) ص ۱۲۹ _ صحيح مسلم ج ۲ص۳۶۰ _مسند احمد ابن حنبل ج ۳ ص ۵۰ _مستدرك حاكم ج ۳ ص ۱۰۹ _ سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۴۲ _ الاستيعاب ج ۳ ص ۳۴ ، ۳۵ بر حاشيہ الاصابہ_

۵_''اصحاب حجر'' قوم ثمود كے معذب افراد تھے جنہوں نے ناقہ صالح كوپئے كرديا تھا اور خدا نے ان كو ان كے گناہ كے جرم ميں سخت عذاب ميں مبتلا كيا _ ان كا ويران شہر مدينہ اور دمشق كے درميان واقع ہے _ چونكہ ان لوگوں نے پہاڑ كے دامن ميں اپنے گھر بنائے تھے اس لئے اصحاب حجر كے نام سے پكارے گئے _ يہ علاقہ مدينہ منورہ سے ۳۴۴ كيلوميٹر كے فاصلہ پر واقع ہے_

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۴_۱۶۶_ امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۵۶_

۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۶ _ امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۵۶_

۸_رَحمَ اللّهُ اَبَاذَر يَمْشى وَحْدَه وَ يَموُت وَحَده وَ يَبْعَث وَحْدَه _'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ غيبى پيش گوئي پورى ہو كررہى كئي برس بعد جب عثمان نے ابوذر كو جلا وطن كيا تو وہاں آپ نے فقر ور نج كى بناء پر تنہائي اور غربت كے عالم ميں دم توڑا _ عبداللہ ابن مسعود نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے يہ بات خودسنى تھى آپ ان كے جنازہ پر پہنچے دوستوں كے ساتھ انكے دفن ميں شركت كى پھر وہيں آپ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اس بات كو ياد كيا اور روئے _ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۷ _

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298