تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي20%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162402 / ڈاؤنلوڈ: 3884
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

بہانے تراشياں

منافقين جنگ ميں شركت نہ كرنے كے لئے بڑے لچر بہانے تراشتے رہتے تھے_رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے '' جدّ ابن قيس'' نامى ايك منافق سے كہا_

'' كيا تم روميوں كے ساتھ لڑنے كے لئے خود كو آمادہ كرنے كا ارادہ نہيں ركھتے؟''جدّا بن قيس نے جواب ديا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات كى اجازت ديں كہ ميں شہر ہى ميں رہوں مجھے فتنہ ميں نہ ڈاليں _ اس لئے كہ ميرے قبيلہ كے لوگ جانتے ہيں كہ كوئي مرد بھى ميرى طرح عورتوں كا ديوانہ نہيں ، مجھے ڈر ہے كہ اگر ميں روم كى عورتوں كو ديكھوںگا تو فتنہ (وگناہ) ميں پڑ جاؤں گا''_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منہ پھير ليا اور فرمايا'' جہاں جانا چاہتے ہو جاؤ''(۱۷)

قرآن اس منافق كى بہانہ بازى كے بارے ميں فرماتا ہے:

'' ان ميں سے كچھ لوگ كہتے ہيں كہ ہم كوجہاد ميں شركت كرنے سے معاف ركھيں اور فتنہ ميں نہ ڈاليں آگاہ ہو جاؤ كہ يہ لوگ خود فتنہ ميں پڑے ہوئے ہيں اور بے شك دوزخ كافروں كو گھيرے ہوئے ہے ''_(۱۸)

منافقين كام ميں رخنہ ڈالنے اور جنگ كے بارے ميں لوگوں كے حوصلے پست كرنے كے لئے كہتے تھے اس گرمى كے موسم ميں جنگ كے لئے نہ جاؤ يہ موسم جنگ كے لئے مناسب نہيں ہے _خدا ان لوگوں كے بارے ميں فرماتا ہے :

'' جن لوگوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ركاب ميں حكم جہاد سے روگردانى كى وہ خوش ہيں اور راہ خدا ميں جان و مال كے ساتھ جہاد كرنے كوناگوار جانتے ہيں (اور مومنين كو بھى جہاد سے منع كرتے ہيں)وہ لوگ كہتے ہيں كہ اس گرمى ميں كوچ نہ كرو _ ان سے كہہ ديجئے كہ دوزخ

۲۲۱

كى آگ زيادہ جلانے والى ہے اگرلوگ سمجھ ليں _(۱۹)

منافقين، آرام طلب ثروت مندافراد اور كچھ ناواقف اعراب نے مختلف بہانوںسے جنگ ميں شركت كرنے سے گريز كيا_

خداوند عالم اعراب كے بارے ميں فرماتا ہے :

'' باديہ نشينوں (اعراب) ميں سے كچھ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس عذر كرتے ہوئے آئے اور جہاد سے معافى چاہ رہے تھے اور كچھ لوگ جو خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تكذيب كرتے تھے_ جہاد سے بيٹھ رہے كافر ج ہى دردناك عذاب ميں مبتلا ہوں گے''_(۲۰)

منافقين كے خفيہ مركز كا انكشاف

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ملى كہ منافقين كا ايك گرو ہ سُوَيْلَمْ يہودى كے گھر ايك انجمن بنا كر سازشوں اور لوگوں كو جہاد ميں شركت كرنے سے روكنے كى پلا ننگ ميں مصروف ہے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے تھے اگر ان كے ساتھ كوئي عبرتناك اور فيصلہ كن سلوك نہ كيا گيا تو يہ مكارانہ سازشوں سے اسلام كو نقصان پہنچائيں گے_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ اس گروہ كے مركز كو گھير كر آگ لگادى جائے _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے اسلام كے چند محافظين نے اس گھر كو آگ لگادى اور منافقين كے فرار كے نتيجہ ميں يہ گروہ ختم ہو گيا اور فرار كے دوران چھت سے گرنے كى وجہ سے ايك منافق كى ٹانگ ٹوٹ گئي_(۲۱)

جنگى اخراجات كى فراہمي

مضبوط لشكر مرتب كرنے كے لئے مخيّر اور ثروت مند مسلمانوں نے جاں بازان اسلام

۲۲۲

كى مالى امداد كى اور مسلمانوں نے اخراجات جنگ مہيا كرنے ميں بے مثال دلچسپى كے ساتھ حصہ ليا _ مسلمان عورتوں نے اپنے زيورات رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيج ديئےا كہ جنگ كے اخراجات ميں كام آئيں _ ہر شخص اپنى طاقت كے مطابق مدد كرنے ميں كو شاں تھا_ مثال كے طور پر ايك غريب مزدور ايك صاع ( تين كيلو) خرما پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں لايا اور عرض كرنے لگا'' _ اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں نے نخلستان ميں كام كيا تو دو صاع خرما مزدورى ملى ايك صاع ميں نے اپنے گھر كے لئے ركھ ليا اور ايك صاع جنگ كے اخراجات جمع كرنے كے لئے لايا ہوں''_

منافقين نے يہاں بھى غلط پرو پيگنڈہ جارى ركھا _ اگر كوئي دولت مند مالى امداد كرتا تو كہتے '' ريا كارى كررہا ہے ''_ اور اگر كوئي غريب خلوص كى بناپر تھوڑى سى مدد كرتا تو كہتے كہ '' ''خدا كو اس مددكى ضرورت نہيں ''(۲۲)

منافقين كى ان باتوں كے بارے ميں قرآن مجيد ميں خدا فرماتا ہے:

'' جو لوگ مدد كرنے والے مومنين اور اپنى استطاعت كے مطابق عطا كرنے والوں كے صدقہ ميں عيب نكالتے اور مذاق اڑاتے ہيں خدا ان كا تمسخر كرتا ہے اور ان كے لئے دردناك عذا ب ہے'' _(۳۲)

اشك حسرت

منافقين كى سازشوں ،پروپيگنڈوں اور افواہوں كے بالمقابل پاكيزہ دل مومنين كا ايك گروہ جنگ ميں شركت كے شوق ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں حاضر ہوا چونكہ يہ لوگ غريب تھے اور سوارى كا انتظام نہ تھا لہذا انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خواہش كى كہ ان كو

۲۲۳

مركب عطا كيا جائے تا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ركاب ميں صحراؤں كا سفر كركے جہاد مقدس ميں شركت كريں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _ ميرے پاس كوئي ايسى سوارى نہيں ہے جس پر تم كو سوار كروں _ يہ لوگ اس وجہ سے افسوس اور گريہ كرتے ہوئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس سے نكلے كہ ان كو جہاد ميں شركت كى توفيق حاصل نہ ہو سكى _ يہ جماعت تاريخ ميں گروہ '' بكّاؤون''(۲۴) كے نام سے مشہور ہوئي _ ( يعنى بہت رونے والے) خدا قرآن مجيد ميں ان كو اس طرح ياد كرتا ہے_

'' اى پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،مومنين جہاد كے لئے تيار ہو كر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئيں تا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان كو كسى مركب پر سوار كرديں ( اور ميدان جہاد لے جائيں ) اور آپ نے جواب ميں فرمايا كہ ميرے پاس مركب نہيںہے جس پر ميں تم كو سوار كروں اور وہ لوگ اس حالت ميں واپس چلے گئے كہ غم كى شدت سے ان كى آنكھوں سے آنسو جارى تھے كہ اخراجات سفر كيوں نہ فراہم كر سكے _ ايسے لوگوں پر جہاد ترك كردينے ميں كوئي گناہ نہيں ہے ''(۲۵)

۲۲۴

سوالات

۱_ طائف كى جنگ ميں كس قسم كا اسلحہ استعمال ہوا؟

۲_ ہوازن كے اسيروں كى رہائي نے ان كے اسلام كى طرف ميلان پر كيا اثر ڈالا_

۳_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بخششيںكن وجوہات كى بناء پر تھيں؟

۴_ لشكر كے چند افراد كا اعتراض كس چيز پر اور كس تصوّر كے زير اثر تھا؟

۵_ روم كى بڑى طاقت كے حملہ كے ارادہ اور ان كے فوجى نقل و حمل سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كس طرح آگاہ ہوئے؟

۶_ جنگ سے فرار كيلئے منافقين كيا بہانے تراش رہے تھے؟

۷_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منافقين كے گروہ كے گھر كے لئے كياحكم ديا؟

۲۲۵

حوالہ جات

۱_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۲۱_۱۲۵

۲_مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۲۷

۳_ پيامبرى و حكومت ص ۳۷۶

۴_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۱۵۸

۵_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۳۰_۱۳۱

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۳۳_

۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ص ۱۳۴_ ۱۳۵

۸_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۳۵

۹_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۳۹_ انجام كار وہ زمانہ امام على عليہ اسلام ميں خوارج كے رہبروں ميں سے ايك رہبر بنا اور نہروان كى جنگ ميں حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سپاہيوں كے ہاتھوں قتل ہو گيا_

۱۰_ يہ ياد دلانا ضرورى ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى گفتگو كاصرف كچھ حصّہ يہاں پر نقل ہوا ہے _

۱۱_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۴۱_۱۴۲

۱۲_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۴۳ _

۱۳_ شام كى سر حد پر حجر سے جو راستہ شام كو جاتا ہے اس كے درميان تبوك ايك مضبوط قلعہ تھا اور آج كل سعودى عرب ميں مدينہ سے ۷۷۸ كيلوميٹر دور ايك فوجى شہر ہے_

۱۴_ ہر اكيلو س بھى لكھا گيا ہے_

۱۵_امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۴۵_۴۴۶ _طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۱۶۵_ سيرت حلبى ج ۳ ص ۱۴۱_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵۹

۲۲۶

۱۶_ سيرت حلبيہ ، مطبوعہ بيروت ج ۳ ص ۱۴۴ _ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷۳ _امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۸۰

۱۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵۹_

۱۸_( وَ منْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذنْ ليْ وَلاَ تَفْتنّى اَلاَ فى الْفتْنَة سَقَطوُا وَ اَنَّ جَهَنَّمَ مُحيطَةُ بالْكَافرين ) _(سورہ توبہ آيت ۴۹)

۱۹_( فرحَ الْمُخَلَّفُونَ بمَقْعَدهمْ خلاَفَ رَسُول اللّه وَ كَرهوُا اَنْ يُجَاهدوُا باَمْوالهمْ وَ اَنْفُسهمْ فى سبيل اللّه وَ قَالُوا لاَتَنْفَروُا فى الْحَر قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَراً لَوْ كَانوُا يَفْقَهُون ) _(توبہ/۸۱)_

۲۰_( وَ جَائَ الْمُعَذَّرُونَ منَ الْاَعْراب ليُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذينَ كَذَّبُوا اللّه وَ رَسُولَهُ سَيُصيبَ الَّذين كَفَرُوا منْهُمْ عَذَابٌ اَليم ) (توبہ/۹۰)_

۲۱_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۰_

۲۲_ تفسير مجمع البيان ج ۵ص ۲۵۷_اسباب النزول واحدى ص ۱۷۲_

۲۳_( اَلَّذيْنَ يَلْمزُونَ الْمُطَّوعين منَ الْمُوْمنيْن فى الصَّدَقَات وَالَّذينَ لاَ يَجدُوْنَ الاَّ جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ منْهُمْ سَخرَ اللّهُ منْهُمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَليم ) (توبہ/۷۹)_

۲۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۱_

۲۵_( وَ لاَ عَلَى الَّذين اذَا مَا اَتَوْكَ لتَحْملَهُمْ قُلْتَ لاَ اَجدُ مَا اَحْملُكُمْ عَلَيْه تَوَلَّوْا وَ اَعيُنهمْ تَفيضُ منَ الدَّمْع حُزْناً الاّ يَجدوُا مَا يُنْفقُون ) (توبہ/۹۲)

۲۲۷

تيرھواں سبق

بے نظير لشكر

منافقين كى واپسي

شخصيت پر حملہ

تپتا صحرا

حضرت ابوذر كا واقعہ

لشكر اسلام تبوك ميں

دومة الجندل كے بادشاہ كى گرفتاري

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ كى سازش

مسجد ضرار كو ويران كردو

اسلحہ فروخت نہ كرو

جنگ ميں دعا كى تاثير

غزوہ تبوك سے ماخوذ نتائج

سوالات

۲۲۸

بے نظير لشكر

منافقين كى رخنہ اندازى اور پروپيگنڈے ، راستہ كى دورى ، شديد گرمى ، خشك سالى ، دشمن كا بے شمارلشكر،ان ميں سے كوئي چيزبھى مسلمانوں كو وسيع پيمانہ پر جنگ ميں شركت سے نہ روك سكي_

تقريباً تيس ہزار افراد نے آمادگى كا اعلان كيا اور'' ثنية الوداع ''كى لشكر گاہ ميں خيمہ زن ہوگئے اس مسلح لشكر كے پاس دس ہزار گھوڑے اور بارہ ہزار اونٹ تھے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر گاہ ميں سپاہيوں كا معائنہ كيا ، پرچم ان كے حوالے فرمايا اور روانگى كے لئے آمادہ ہوگئے_(۱)

منافقين كى واپسي

منافقين كے سر براہ عبداللہ ابن ابى نے اپنے چند ساتھيوں كے ساتھ '' ذباب ''كے علاقہ ميں _ ثنية الوداع ميں جو لشكر گاہ تھى اس سے ذرا پيچھے_ خيمے نصب كئے اور وہيں سے مدينہ لوٹ گئے اور كہا '' محمد اس گرمى ، دورى ، اور سختى ميں روميوں سے لڑنے جارہے ہيں ، وہ سمجھتے ہيں كہ روميوں كے ساتھ جنگ ايك كھيل ہے خدا كى قسم ميں ديكھ رہا ہوں كہ كل ان كے اصحاب اسير اور گرفتار ہوجائيں گے_(۲)

۲۲۹

منافقين چاہتے تھے كہ عين روانگى كے موقع پر نفسياتى حربوں كے ذريعہ لشكر اسلام كے حوصولوں كو كمزور كرديا جائے _ ليكن ان كى يہ چال كارگر نہ ہوئي _(۳)

شخصيت پر حملہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ركاب ميں حضرت على (ع) كو ہر جنگ ميں شركت كا افتخار حاصل تھا ليكن اس جنگ ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے شريك نہيں ہوئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق مدينہ كى ديكھ بھال كے لئے مدينہ ميں ہى رك گئے _ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منافقين كى سازشوںسے آگاہ تھے كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ شرك پر باقى رہ جانے والے اعراب كى مدد سے منافقين ، شہر مدينہ پر مجاہدين سے خالى ہو جانے كى بنا پر حملہ كرديں اور كوئي ناگوار حادثہ پيش آجائے_ پريشان كن سياسى حالات ميں سازشوں كا مقابلہ كرنے كيلئے اسلام كے مركز كى ديكھ بھال صرف علي(ع) كر سكتے ہيں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على (ع) كو اپنى جگہ پر اس لئے بٹھايا تا كہ اطمينان سے جہاد كے لئے جا سكيں _ منافقين نے علي(ع) كو اپنى سازشوں ميں ركاوٹ محسوس كيا تو ان كو ميدان سے ہٹانے كے لئے ما حول بنانا ، افواہيں پھيلانا اور در حقيقت ان كى شخصيت پر حملہ كرنا شروع كرديا _ انہوں نے يہ افواہ پھيلائي كہ '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،على (ع) سے افسردہ خاطر ہوگئے تھے اس ليے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے بے اعتنائي كى اور اپنے ساتھ نہيں لے گئے '' يہ باتيں على (ع) كے كانوں تك پہنچيں تو آپ(ع) نے اسلحہ اٹھايا اور مدينہ سے تين ميل دور مقام '' جرف'' ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جا ملے اور عرض گيا: اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منافقين كہتے ہيں كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے تنگ آگئے ہيں اس لئے مدينہ چھوڑ ے جارہے ہيں ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا :

۲۳۰

'' وہ لوگ جھوٹ بولتے ہيں _ ميں نے اپنے بعد تمہيں مدينہ ميں حفاظت اور نگہبانى كے لئے چھوڑا ہے _اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہاں موجود بہت سارے اصحاب كے سامنے حضرت على (ع) سے فرمايا _

'' ميرے بھائي مدينہ واپس جاؤ، مدينہ كے لئے ميرے يا تمہارے علاوہ كوئي مناسب نہيں، تم ہى ميرے خاندان ، مقام ہجرت (مدينہ) اور ميرى قوم كے در ميان ميرے جانشين ہو ، كيا تمہيں يہ پسند نہيں كہ تم ميرے ليے ايسے ہى ہو جيسے موسي(ع) كےلئے ہارون(ع) مگر يہ كہ ميرے بعد كوئي پيغمبر نہيں ہوگا''_

حضرت على (ع) مدينہ لوٹ آئے اور رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے مقصد كے لئے روانہ ہوگئے _(۴)

تپتا صحرا

سختيوں ميں گھرے ہوئے لشكر '' جيش العُسْرَہ'' كى كمان ۶۱ سالہ با ہمت و جرى رہبر يعنى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھ ميں تھى _دشمن تك پہنچنے كے لئے سپاہيوں كو ۷۷۸ ، كيلوميٹر كے گرم ريگستان كو عبور كرنا تھا _لشكر چل پڑا ، آفتاب آگ بر سارہا تھا _ شديد گرمى كا خطرہ دشمن سے كم نہ تھا_ ليكن لشكر اسلام بھى استقامت و مقاومت كا پيكر تھا _ صرف چند منافقين تخريب كارى اور اذيت رسانى كے ارادے سے ساتھ ہوگئے تھے_ يہ لوگ راستہ ميں خيانت آميز حركتيں اور زہر يلے پروپيگنڈے كررہے تھے_ لشكر اسلام كا گزر اصحاب '' حجر''(۵) كے علاقہ سے ہوا، اصحاب حجر كے ويران شہر ميں ايك كنواں تھا سپاہيوں نے كنويں سے پانى كھينچا اور ظروف بھر لئے _ جس وقت يہ لوگ اترے اور سپاہى آرام كرنے لگے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ نہ كنويں كا پانى پينا اور نہ آٹا گوندھنا اور اگرآٹا گوندھ ليا ہے تو اس كو نہ

۲۳۱

كھانا بلكہ چوپايوں كو ديدينا ''_

اسى طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' آج رات كوئي لشكر گاہ سے باہر نہ نكلے'' اس رات لشكر گاہ سے كوئي باہر نہيں گيا سوائے دو افراد كے اور ان كے ساتھ ناگوار حادثات پيش آئے_

صبح سويرے لشكر اسلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس طلب آب كے لئے پہنچا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا فرمائي ، بارش ہوئي اور پانى گڑھوں ميں بھر گيا _ جان بازوں نے بارش كے پانى سے مشكيں بھر ليں _ ايك منافق نے كہا '' ايك گذر تا ہوا بادل تھا جو اتفاقاً برس گيا_(۶) ايك جگہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اونٹ گم ہو گيا كچھ لوگ ڈھونڈھنے كے لئے نكلے منافقين ميں سے ايك شخص نے كہا كہ يہ كيسے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں جو آسمانوں كى خبر ديتے ہيں ليكن يہ نہيں معلوم كہ ان كا اونٹ كہاں ہے _ يہ باتيں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك پہنچائي گئيں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدا جو بتاديتا ہے ميں غيب كى وہى باتيں جانتا ہوں '' اسى وقت جبرئيل نازل ہوئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اونٹ كى جگہ سے با خبر كيا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ميرااونٹ فلان وادى ميں ہے اور اس كى مہار فلاں درخت ميں الجھ گئي ہے جاؤ اس كو پكڑ لاؤ''_(۷)

حضرت ابوذر كا واقعہ

چلتے چلتے راستہ ميںحضرت ابوذر كا اونٹ بيٹھ گيا انہوں نے بڑى كوشش كى كہ كسى طرح قافلہ تك پہنچ جائيں _ ليكن كامياب نہ ہو سكے _ چنانچہ اونٹ سے اتر پڑے _ سامان پيٹھ پر لادا اور پيدل ہى چل پڑے _ آفتاب شدت كى گرمى بر سارہا تھا _ابوذر پياس سے نڈھال چلے جارہے تھے _ اپنے آپ كو بھلا چكے تھے اور صرف لشكر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك پہنچنے كے علاوہ كوئي مقصد نہ تھا_ پياس سے تپتے ہوئے جگر كے ساتھ پيدل ، پستيوں اور بلنديوں كو پيچھے

۲۳۲

چھوڑتے ہوئے چلے جارہے تھے_ كہ دور سے آپ كى نگاہيں لشكراسلام پر پڑيں ، آپ نے اپنى رفتار بڑھادى اس طرف ايك سپاہى كى نظر ايك سياہى پر پڑى اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض كى كہ '' كوئي شخص ہمارى طرف آرہا ہے ''_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اچھى بات ہے وہ ابوذر ہونگے '' آنے والى سياہى اور قريب ہو گئي ايك شخص نے چلّا كر كہا '' وہ ابوذر ہيں'' خدا كى قسم وہى ہيں '' آنحضرت نے فرمايا:

خدا ابوذر پر رحمت نازل كرے وہ اكيلے راستہ طے كرتے ہيں ، تنہا مريں گے اور تنہا اٹھائے جائيں گے _(۸)

لشكر اسلام تبوك ميں

لشكر اسلام نے اپنا سفر جارى ركھا اور تبوك پہنچ گيا _ ليكن روميوں كو اپنے سامنے نہيں پايا اس لئے كہ رومى ، لشكر اسلام كى كثرت سے واقف ہو چكے تھے اور لشكر اسلام كى شجا عت اور بلند حوصلوں كى اطلاع ان كو پہلے سے تھى _(۹) اس بنا پر انہوں نے جان بچانے ہى ميں عافيت سمجھى اور شمال كى طرف عقب نشينى اختيار كرلى _(۱۰)

تبوك ميں لشكر اسلام نے اپنا پڑاؤ ڈال ديا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كے سامنے تقرير كى _(۱۱) مسلمان بيس دن تك تبوك ميں رہے_(۱۲) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہاں چند گروہوں كو اپنے زير اثر قبيلوں سے عہد و پيمان باندھنے كے لئے مختلف سرحدى علاقوں ميں روانہ فرمايا، سرحدى علاقوں ميں بسنے والے قبيلوں سے عہد و پيمان كے بعد جزيرة العرب كى سرحديں محفوظ ہوگئيں _

۲۳۳

دومة الجندل كے بادشاہ كى گرفتاري

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سواروں كے ايك دستہ كو خالدبن وليد كى سربراہى ميں دومة الجندل روانہ كيا _ خالد اور اس كے سپاہيوں نے وہاں كے بادشاہ اُكيدر اور اس كے بھائي حسان پر جب وہ ايك وحشى گائے كا پيچھا كررہے تھے غفلت كے عالم ميں حملہ كرديا _ حسان ماراگيا اور اُكيدر گرفتار ہو گيا _ خالد نے اُكيدر كو گرفتار كرنے كے بعد دُومةُ الجندل كو فتح كيا اور مال غنيمت كے ساتھ واپس پلٹا _ اُكيد ر كو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پيش كيا گيا _ رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے صلح كا معاہدہ كيا اور جزيہ ادا كرنا ضرورى قرار دے كر آزاد فرما ديا_(۱۳)

تبوك ميں شہر اَيْلَہ ، جہاں عيسائي آباد تھے ، كے رئيس يوحَنّا ابن رُوْبہَ نے دومة الجندل كے واقعات سننے كے بعد پيش قدمى كى اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں آكر اپنے آپ كو اور اپنے قبيلہ كو اسلام كى حمايت كے سايہ ميں پہنچا ديا _ وہاں يہ طے پايا كہ اہل اَيلہ سالانہ تين سو طلائي دينا ربعنوان جزيہ ادا كريںگے_(۱۴)

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ كى سازش

مقام تبوك ميں بيس دن قيام كے بعد ، لشكر اسلام نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے بموجب واپسى كا ارادہ كيا _ منافقين نے ديكھا جنگ يا لشكر اسلام كے قتل اور زخمى ہونے كى نوبت ہى نہيں آئي تو انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے قتل كا منصوبہ بنايا كہ واپسى كے دوران گھاٹى ميں چھپ جائيں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اونٹ كو بھڑ كا ديں تا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اونٹ سے گر كر درّوں ميں لڑھك كر ختم ہو جائيں_

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس گھاٹى پر پہنچے تو خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو منافقين كے ارادوں سے آگاہ

۲۳۴

كرديا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب سے فرمايا كہ وہ لوگ درّہ كے نيچے سے گزريں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود گھاٹى كے اوپر روانہ ہوئے _ عمار ياسر سے فرمايا كہ اونٹ كى مہار كھينچتے ہوئے لے چليں اور حذيفہ بن يمان سے فرمايا كہ اونٹ كو پيچھے سے ہانكتے رہيں _ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھاٹى كے اوپر پہنچے تو منافقين نے چاہا كہ حملہ شروع كريں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غصّہ كے عالم ميں حذيفہ كو حكم ديا كہ ان كو بھگادو جب حذيفہ نے ان پر حملہ كيا تو منافقين رسوائي كے ڈرسے فوراً ہى بھاگ كھڑے ہوئے اور شب كى تاريكى ميں لشكر سے جاملے _ دوسرے دن صبح اُسيد ابن حضير نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان لوگوں كو قتل كر ڈالنے كى اجازت مانگى ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اجازت نہيں دى _(۱۵)

مسجد ضرار كو ويران كردو

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تبوك سے واپسى پر جب منزل ذى آوان پر پہنچے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحى اور مندرجہ ذيل آيات كے نزول كے ذريعہ مسجد ضرار كے بانيوں كے منصوبہ سے باخبر ہوگئے قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے_

'' جن لوگوں نے ضرر پہنچانے ،كفر اختيا ركرنے ، مسلمانوں كے درميان تفرقہ ڈالنے اور ان لوگوں كے لئے مركز بنانے كے لئے جو اس سے پہلے خدا اورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ كرتے تھے _ مسجد بنائي ہے _ البتہ يہ لوگ قسم كھاتے ہيں كہ سوائے نيكى كے اور كچھ نہيں چاہتے اور خدا گواہى ديتا ہے كہ يہ لوگ جھوٹے ہيں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہرگز اس مسجد ميں نماز كے لئے نہ كھڑے ہوں _ وہ مسجد جو پہلے ہى دن سے اساس تقوى پر بنى ہے زيادہ بہتر ہے كہ آپ اس ميں كھڑے ہوں اس مسجد ميں وہ لوگ ہيں جو خود كو پاك و پاكيزہ ركھنے كو دوست ركھتے ہيں

۲۳۵

اور خدا بھى مطہرين كو دوست ركھتا ہے ''_(۱۶)

ان آيات كے نزول كے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند مسلمانوں كو حكم ديا كہ '' جاؤ اور اس مسجد كو كہ جس كو ستم گروں نے بناياہے ، ويران كردو اور جلاڈالو ''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم پر فوراً عمل ہوا اور مسجد كى چھت كو جو كھجور كى لكڑى سے بنائي گئي تھى آگ لگادى گئي ، منافقين بھاگ كھڑے ہوئے اور آگ بجھنے كے بعد مسجد كى ديواروں كو مليا ميٹ كرديا گيا _(۱۷)

اسلحہ فروخت نہ كرو

تبوك كے واقعہ كے بعد بہت سے جانبازوں نے يہ سمجھ كر كہ جہاد كا كام اب تما م ہوگيا اپنے اسلحہ كو بيچنا شروع كرديا _ دولت مند اسلحہ خريد نے لگے تا كہ اپنى قوت ميں اضافہ كريں جب يہ خبر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ملى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كام سے منع كيا اور فرمايا: '' ہمارى امت سے كچھ لوگ اسى طرح اپنے دين كا دفاع كرتے رہيں گے_ يہاں تك كہ دجال ظہور كرے''_(۱۸)

جنگ ميں دعا كى تاثير

تبوك كے واقعہ كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدواند عالم كى بارگاہ ميں شكر ادا كيا اور فرمايا

'' خدايا اس سفر ميں جو اجر ملا اور جو كچھ پيش آيا ہم اس پر تيرى بارگاہ ميں شكريہ ادا كرتے ہيں اس اجر و پاداش ميں وہ لوگ بھى ہمارے شريك ہيں جو عذر شرعى كى وجہ سے يہاں رك گئے تھے'' حضرت عائشےہ نے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ لوگوں كو سفركى تكليفيں

۲۳۶

اور سختياں جھيلنا پڑيں ايسے ميں جو لوگ گھروں ميں رہ گئے كيا وہ بھى آپ كے ساتھ شريك ہيں ؟ '' رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' ہم نے جہاں كہيں بھى سفر كيا ، جہاں كہيںبھى خيمہ زن ہوئے، جو لوگ مدينہ ميں رہ گئے تھے وہ ہمارے ساتھ تھے _ ليكن چونكہ يہ لوگ بيمارتھے اس لئے عملى طور پر ہمارے ساتھ نہ آسكے ، قسم اس ذات كى جس كے قبضہ قدرت ميں ميرى جان ہے _ ان كى دعا ہمارے ہتھياروں سے زيادہ دشمن پر انداز ہوئي _(۱۹)

غزوہ تبوك سے ماخوذ نتائج

۱_غزوہ تبوك موجب بنا كہ تاريخ اسلام ميں پہلى بار مسلمانو۷ں ميں سے ہر وہ شخص جو اسلحہ اٹھانے پر قادر تھا ، ميدان ميں آجائے(۲۰) اس طرح كہ مومنين ميں سے كسى نے بھى اس حكم كو ماننے سے انكار نہيں كيا مگر تين آدميوں نے كہ جنكى توبہ خدا نے بعد ميں قبول كرلى در حقيقت اس لشكر كشى نے مسلمانوں كى جنگى صلاحيتوں كو آشكار كيا _

۲_ تبوك كى جنگى مشق ، لشكر اسلام كے مضبوط ارادے اور جسمانى و روحانى طاقت كا مظاہرہ تھى اس لئے كہ نہايت نظم و نسق كے ساتھ ، اس دور كے ابتدائي وسائل كے ذريعہ انتہائي دشوار گزار اور طولانى راستہ طے كرنا ، لشكر اسلام كے حوصلوں كى بلندى اور تجربہ كارى كا ثبوت ہے _

۳_ غزوہ تبوك ، اعراب كى نظر ميں مسلمانوں كى عسكرى و معنوى عظمت بڑھانے كا موجب بنا _وہ اعراب جوابھى شرك پر باقى تھے اس حقيقت كو سمجھ گئے كہ جو لشكر نہايت سختى برداشت كركے روميوں سے لڑنے كے لئے سينكڑوں ميل كى مسافت طے كرسكتا ہے تو وہ بڑى آسانى سے مشركين عرب كا بھى مقابلہ كر سكتا ہے اور اسى لئے ہم ديكھتے ہيں كہ تبوك

۲۳۷

كے واقعہ كے بعد جزيرة العرب كے مختلف قبائل كى طرف سے مدينہ ميں وفود آنا شروع ہوگئے تا كہ اپنے قبيلہ كے مسلمان ہو جانے كا اعلان كريں اسى وجہ سے ہجرت كے نويں سال كو''و فود كا سال'' كہا جاتا ہے_

۴_ جزيرة العرب كى سرحدوں كا سرحدى قبائل سے معاہدہ كے بعد محفوظ ہو جانا _

۵_ منافقين كے مكروہ كردار كاپردہ فاش ہو جانا _ جو اس واقعہ ميں بے حد رسوا ہوئے_

۶_ غزوہ تبوك اس بات كا سبب بنا كہ مسلمان ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد بڑى آسانى سے شام اور روم كے مختلف علاقوں كو آزاد كراليں _

۲۳۸

سوالات

۱_ روم كى بڑى طاقت كے استكبارى لشكر سے لڑنے كے لئے كتنے مسلمان تيار ہوئے ؟

۲_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے راستہ ميں حضرت ابوذر كے بارے ميں كيا فرمايا؟

۳_ مدينہ سے تبوك كا فاصلہ كتنے كلو ميٹر ہے اور رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عمرمبارك اس سال كتنى تھى ؟

۴_ منافقين نے يہ كيوں چاہا كہ على (ع) مدينہ ميں نہ رہيں؟

۵_ منافقين نے كن مقاصد كيلئے مسجد ضرار كو تعمير كيا تھا؟

۶_كونسى آيات مسجد ضرار كے بارے ميں نازل ہوئيں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مسجد كے بارے ميں كيا فرمان جارى كيا؟

۷_ غزوہ تبوك كے كيا نتائج رہے؟

۸_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ختم كردينے كى سازش والا واقعہ كيا تھا؟

۲۳۹

حوالہ جات

۱_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۹۶_۱۰۰۲_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۲_

۲_مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۹۵_

۳_امتاع الاستماع ج ۱ ص ۴۵۰_

۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۳ _ارشاد شيخ مفيد ص ۸۳_امتاع الاسماع مقر يرى ج ۱ ص ۴۵۰_ انساب الاشراف ج ۱ ص ۹۴_۹۶ _صحيح بخارى ج ۵ (كتاب المغازى باب تبوك) ص ۱۲۹ _ صحيح مسلم ج ۲ص۳۶۰ _مسند احمد ابن حنبل ج ۳ ص ۵۰ _مستدرك حاكم ج ۳ ص ۱۰۹ _ سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۴۲ _ الاستيعاب ج ۳ ص ۳۴ ، ۳۵ بر حاشيہ الاصابہ_

۵_''اصحاب حجر'' قوم ثمود كے معذب افراد تھے جنہوں نے ناقہ صالح كوپئے كرديا تھا اور خدا نے ان كو ان كے گناہ كے جرم ميں سخت عذاب ميں مبتلا كيا _ ان كا ويران شہر مدينہ اور دمشق كے درميان واقع ہے _ چونكہ ان لوگوں نے پہاڑ كے دامن ميں اپنے گھر بنائے تھے اس لئے اصحاب حجر كے نام سے پكارے گئے _ يہ علاقہ مدينہ منورہ سے ۳۴۴ كيلوميٹر كے فاصلہ پر واقع ہے_

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۴_۱۶۶_ امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۵۶_

۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۶ _ امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۵۶_

۸_رَحمَ اللّهُ اَبَاذَر يَمْشى وَحْدَه وَ يَموُت وَحَده وَ يَبْعَث وَحْدَه _'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ غيبى پيش گوئي پورى ہو كررہى كئي برس بعد جب عثمان نے ابوذر كو جلا وطن كيا تو وہاں آپ نے فقر ور نج كى بناء پر تنہائي اور غربت كے عالم ميں دم توڑا _ عبداللہ ابن مسعود نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے يہ بات خودسنى تھى آپ ان كے جنازہ پر پہنچے دوستوں كے ساتھ انكے دفن ميں شركت كى پھر وہيں آپ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اس بات كو ياد كيا اور روئے _ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۷ _

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298