تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي20%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162664 / ڈاؤنلوڈ: 3889
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۹_ روميوں نے جنگ موتہ ميں لشكر اسلام كے بلند حوصلوں كو ديكھا تھا اور سپاہ اسلام كى فتوحات پر مشتمل خبريں سننے كے بعد انہوں نے يہ سمجھ ليا تھا كہ مسلمانوں سے روبرو ہوكر مقابلہ كى ان ميں طاقت نہيں ہے _

۱۰_ پيامبرو آئين نبرد جنرل مصطفى طلاس ص ۴۸۳ _

۱۱_پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كامتن مغازى واقدى ج ۳ ص۱۰۱۵و ۱۰۱۶ پر موجود ہے _

۱۲_ ابن اسحاق كے قول كے مطابق ۱۰ سے ۱۵ دن تك _سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷۰_

۱۳_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۹_مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۲۵_

۱۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۹_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۴۲_

۱۵_سيرت حلبى ج ۳ص ۱۴۳ _ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۴۳_

۱۶_( وَالَّذينَ اتَّخَذوُا مَسْجداً ضرَارَاً وَ كُفْرَاً وَ تَفْريقَاً بَيْنَ الْمُؤْمنيْنَ وَ ارْصَاداً لمَنْ حَارَبَ اللّهَ وَ رَسوُلَهُ منْ قَبْلُ و لَيَحْلفنَّ انْ اَرَدْنَا الاَ الْحُسْنى وَاللّه يَشْهَدُ اَنَّهُمْ لَكَاذبُونَ لاَ تَقُمْ فيه اَبَداً لَمَسْجدٌ اُسّسَ عَلَى الَّتَقْوى منْ اَوَّل يَوْم: اَحَقُّ اَنْ تَقُومَ فيه ، فيه رجَالٌ يُحبُّونَ اَنْ يَتَطَهرُوا وَ اللّهُ يُحبُّ الْمُطّهّريْنَ ) _(توبہ /۱۰۶و۱۰۷)_

۱۷_ سيرت حلبى ج ۳ ص ۱۴۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷۴_ مغاز واقدى ج ۳ ص ۱۰۴۶_ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۸۰_ تفسير التاويل و حقائق التنزيل نسخہ خطي، واقعہ مسجد ضرار از ص ۴۷۳ تا ۴۷۵_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۵۷،۱۰۵۶_

۱۹_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۵۶ _ ۱۰۵۷_

۲۰_ عبداللہ بن ابّى اور ديگر ۸۳ منافقين كے علاوہ _

۲۴۱

چودھواں سبق

منافقين كے سربراہ كى موت

مدينہ ميں مختلف قبائل كے نمائندہ و فود كى آمد

وہ دين جس ميں نماز نہيں اس كا كوئي فائدہ نہيں

ابراہيم كا سوگ

خرافات سے جنگ

مشركين سے بيزاري

حضرت على (ع) اہم مشن پر

مباہلہ

حضرت على (ع) كى يمن ميں ماموريت

سوالات

۲۴۲

منافقين كے سربراہ كى موت

واقعہ تبوك كے بعد مسلمانوں كى كاميابيوں ميں سے ايك كاميابى منافقين كے فتنہ پرور سربراہ عبداللہ ابن ابى كى موت ہے وہ تھوڑ ے عرصہ تك بيمار رہ كر مر گيا اور اس طرح تحريك اسلامى كے ايك سخت ترين داخلى دشمن كا شر برطرف ہو گيا_(۱)

مدينہ ميں مختلف قبائل كے نمائندہ وفود كى آمد

فتح مكہ اور تبوك پر لشكر كشى كے بعد، ہر طرف سے مختلف قبائل كى نمائندگى كرنے والے وفود مدينہ ميں آئے _ چنانچہ اسى لئے سنہ ۹ ھ كو'' عام الوفود'' ( وفود كا سال) كہا جاتا ہے _ اعراب اس بات كے منتظر تھے كہ اسلام اور قبيلہ قريش كى باہمى چپقلش كا كيا نتيجہ نكلتا ہے ؟ اس لئے كہ قريش عرب كے پيشوا اور خانہ كعبہ كے متولى تھے_ جب مكہ فتح ہو گيا اور قريش مغلوب ہوگئے تو دوسرے عرب قبائل يہ سمجھ گئے كہ ان ميں اسلام سے مقابلہ كى طاقت نہيں ہے _ غزوہ تبوك سے يہ حقيقت اور زيادہ روشن ہوگئي تھى _ لہذا ناچار گروہ در گروہ دين خدا ميں داخل ہونے لگے_

۲۴۳

وہ دين جس ميں نماز نہيں اس كا كوئي فائدہ نہيں

عرب كے سخت ترين قبيلہ ، ثقيف كى جانب سے چھ سركردہ افراد پر مشتمل ايك وفداسلام قبول كرنے كے بارے ميں مذاكرہ كرنے كے لئے مدينہ آيا اور مغيرہ ابن شعبة ثقفى كے گھر ٹھہرا ، پذيرائي كا سامان رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر سے مغيرہ كے گھر بھيجا گيا انہوں نے اسلام قبول كرنے كے سلسلے ميں كچھ تجويزيں ركھيں منجملہ ان كے ايك يہ تھى كہ ''لات'' كے بتخانہ كو تين سال تك ويران نہ كريں_ دوسرے يہ كہ ان سے نماز معاف ہوجائے ، جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى تجويزوں كو قبول نہيں كيا تو وہ ترك نماز پر اصرار كرنے لگے _ آنحضرت(ع) نے فرمايا '' جس دين ميں نماز نہيں اس كا كوئي فائدہ نہيں''_ آخر كار انہوں نے اسلام قبول كيا اور نماز پڑھنے اور شرعى احكام پر عمل كرنے كے لئے آمادہ ہوگئے_(۲)

ابراہيم كا سوگ

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيوى ماريہ قبطيہ(۳) سے ايك بيٹا پيدا ہوا _ ولادت كى صبح پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب كو يہ خوش خبرى سنائي كہ كل رات خدا نے مجھے بيٹا عطا كيا ہے جس كا نام ميں نے اپنے جد ا،براہيم (ع) كے نام پر ابراہيم (ع) ہى ركھاہے _ ولادت كے ساتويں دن آپ(ع) نے عقيقہ ميں ايك گوسفند ذبح كيا اورمولود كے سر كے بال تراش كر اس كے برابر چاندى مسكينوں ميں صدقہ كے طور پر تقسيم كي_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دوسرى بيويوں نے جب يہ ديكھا كہ ماريہ كے ذريعہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صاحب اولاد ہوگئے ہيں تو ان كو ماريہ پررشك ہوا_(۴)

۱۸/ مہينہ كے بعد پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اكلوتا بيٹا بيمار پڑا اور انتقال كر گيا _پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے انتقال سے غم و اندوہ ميںمبتلا ہوئے_

۲۴۴

خرافات سے جنگ

جس دن ابراہيم كا انتقال ہوا اس دن آفتاب كو گہن لگا _ لوگوںنے يہ سوچا كہ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بيٹے كے غم ميں آفتاب كو گہن لگا ہے _ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہيں چاہتے تھے كہ لوگ خرافات كى طر ف مائل ہوں اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا '' آفتاب و ماہتاب قدرت كى نشانى ہيں وہ سنت الہى كے مطابق خاص راستے پر گردش كرتے ہيں اور انہيں ہرگز كسى كى ولادت ياموت پر گہن نہيں لگتا ، سورج گہن كے موقع پر تمہارا فريضہ يہ ہے كہ تم نماز پڑھو_(۵)

مشركين سے بيزاري

۱۰/ذى الحجہ ۹ ھ بمطابق ۲۲ مارچ ۶۳۱ ئ

حج كا زمانہ آگيا _ ابھى تك مشركين حج كے مراسم ميں گذشتہ لوگوں كے طريقہ كے مطابق شركت كرتے تھے_اس سال مشركين سے بيزارى ( سورہ برائت)(۶) والى آيتيں نازل ہوئيں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابتدا ميں ابوبكر كو امير الحاج كے عنوان سے مكہ روانہ كيا اور حكم ديا كہ ان آيات كو لوگوں كے مجمع ميں پڑھيں_ابوبكر اور ديگر مسلمان حج كے لئے مكہ كى طرف جادہ پيما ہوئے _

حضرت على (ع) اہم مشن پر

ابھى تھوڑى دير نہ گزرى تھى كہ جبرئيل نازل ہوئے اور خدا كى طرف سے پيغام لے كر آئے كہ '' مشركين سے بيزارى والے پيغام كو يا آپ خود پہنچا ئيں يا وہ شخص پہنچائے جو

۲۴۵

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہل بيت (ع) سے ہو'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى اونٹنى ''' ناقہ عضبائ'' كو على (ع) كے حوالہ كيا اور فرمايا ابوبكر سے جا كر وہ آيتيں لے لو جو مشركين سے بيزارى و برائت كے سلسلہ ميں نازل ہوئي ہيں اور زائرين خانہ خدا كے مجمع ميں خود پڑھو_ بروايت شيخ مفيد ،ابوبكر نے آيا ت كو على (ع) كے حوالہ كيا اور مدينہ لوٹ آئے _(۷) اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بارگاہ ميں پہنچ كر كہا '' كيا ميرے بارے ميں وحى نازل ہوئي ہے ؟'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہايت اطمينان سے فرمايا'' جبرئيل (ع) تشريف لائے اور خدا كا پيغام پہنچايا كہ اس كام كو ميرے يا ميرے اہل بيت كے فرد كے علاوہ كوئي دوسرا انجام نہيں دے سكتا _(۸)

حضرت على (ع) حج كے دوران مجمع كے درميان كھڑے ہوئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق اعلان كيا كہ '' اے لوگو كوئي كافربہشت ميں نہيں جائے گا اور اس سال كے بعد كسى مشرك كو حج نہيں كرنے ديا جائے گا اور نہ ہى كعبہ كا برہنہ طواف كرنے كى اجازت ہوگى _ جس كى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كوئي قرار داديا معاہدہ ہے تو وہ معاہدہ اپنى مدت تك باقى ہے اور دوسروں كو بھى آج سے چارمہينے كى مہلت ہے كہ ہر گروہ اپنے مسكن اور اپنى سرزمين كو پلٹ جائے _ چار مہينے كے بعد كسى بھى مشرك كے لئے كوئي عہد و پيمان نہيں رہ جائے گا مگر ان لوگوں كے لئے جنہوں نے خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ايك مدت تك كے لئے عہد و پيمان كيا ہے _ اس سال كے بعد مشركين نہ حج بجالائيں گے اور نہ كعبہ كے گرد برہنہ طواف كريں گے _(۹)

۲۴۶

مباہلہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دنيا كے سر كردہ افراد كو خط لكھنے كے بعد ايك خط اسقف ''نجران'' (مكہ كے جنوب مشرق ميں ۹۱۰ كيلوميٹر كے فاصلہ پر ايك شہر ہے )كو لكھا اور اس ديار كے عيسائيوں كو اسلام كى دعوت دى _

خط ميں كہا گيا تھا كہ اگر اسلام قبول نہيں كرتے تو جزيہ دو تا كہ تمہيں اسلامى حكومت كى حمايت حاصل ہوجائے يا پھر جنگ كے لئے تيار ہوجاؤ_اسقف نے حضرت عيسى (ع) كے بعد ايك پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ظہور كى بشارت آسمانى كتابوں ميں پڑھ ركھى تھى اس لئے اس نے اپنے نمائندوں كو مدينہ بھيجنے كا ارادہ كيا _عيسائيوں كا ايك عالى مرتبہ وفد مذاكرہ اور اسلام كے مسائل كے بارے ميں تحقيق كے لئے مدينہ پہنچا اور يہاں پہنچنے كے بعد انہوں نے مكمل آزادى كے ساتھ اپنے مذہبى مراسم مسجد مدينہ ميں انجام ديئے_ اس كے بعد حضرت عيسى (ع) كے بارے ميں ايك تفصيلى بحث شروع ہوئي _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عيسى (ع) كے بارے ميں فرمايا'' وہ خدا كى مخلوق اور اس كے بندے ہيں جن كو خدا نے مريم كے رحم ميں ركھا_(۱۰)

عيسائي نمائندے كہہ رہے تھے كہ '' عيسى (ع) خدا كے بيٹے ہيں اس لئے كہ مريم نے بغير كسى مرد كى قربت كے ان كو جنا ہے _ جواب ميں آيت نازل ہوئي اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كو پيش كيا كہ عيسى (ع) كى خلقت آدم (ع) كى تخليق كى طرح ہے خدا نے ان كو خاك سے پيدا كيا _(۱۱) يعنى اگر باپ كا نہ ہونا خدا كا بيٹا ہونے كى دليل ہے تو آدم كا نہ باپ تھا اور نہ ماں لہذا وہ خدا كا بيٹا ہونے كے زيادہ سزاوار ہيں_

مذاكرات اور بحثيں جارى رہيں ، عيسائي مذہبى نمائندے پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى منطق كے سامنے خاموش ہوگئے ، ليكن ان كا بے جا تعصب حقيقت و ايمان كو ماننے سے ركاوٹ بنا رہا_

۲۴۷

فرشتہ وحى نازل ہوا اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ملا كہ ان لوگوں كو مباہلہ كے لئے بلائيں_

يعنى دونوں گروہ صحرا ميں جائيں اور ايك معين وقت پر خدا كى بارگاہ ميں دعا كريں اور جھوٹے پر لعنت بھيجيں_(۱۲)

مباہلہ كے بارے ميں علامہ طباطبائي مرحوم فرماتے ہيں كہ '' مباہلہ''، اسلام كے زندہ معجزات ميں سے ہے ، ہر با ايمان شخص اسلام كے پہلے پيشوا كى پيروى ميں حقائق اسلام ميں سے كسى حقيقت كے اثبات كے لئے مخالف سے مباہلہ كر سكتا ہے اور خداوند عالم سے درخواست كر سكتا ہے كہ مخالف كو كيفر كردار تك پہنچائے اور شكست دے ''(۱۳)

مباہلہ كا وقت قريب آيا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں اور اپنے وابستگان كے درميان سے صرف چار افراد كا انتخاب كيا جو اس تاريخى واقعہ ميں شريك ہوئے اور وہ ہيں حضرت على (ع) پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى باعظمت بيٹى فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا اور حسن و حسين (ع) اس لئے كہ تمام مسلمانوں كے درميان ان چار افراد سے زيادہ پاكيزہ اور با ايمان انسان موجود نہ تھے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ساتھ جانے والوں سے كہا كہ جب ہم وہاں پہنچيں تو ہمارى دعا پر آمين كہنا_

پھر بے مثال معنوى شان و شوكت كے ساتھ ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حسين(ع) كو گود ميں لئے حسن (ع) كا ہاتھ پكڑے اور فاطمہ (ع) و على (ع) ان كے پيچھے اس مقام كى طرف چلے جہاں مباہلہ ہونا قرار پايا تھا_ جب عيسائيوں كى منتظر نگاہيں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان كے ساتھ آنے والے نورانى اور ملكوتى چہروں پر پڑيں تواسقف اعظم نے كہا _'' ميں ايسے ديكھ رہاہوں كہ اگر يہ شخصيات بارگاہ الہى ميں دعاكريں تو بيابان ديكھتے ديكھتے جہنم ميں بدل جائے اور عذاب كى چادر سرزمين نجران كو اپنے دامن ميں لپيٹ لے_اس بات كا خطرہ ہے كہ تمام عيسائي ختم

۲۴۸

ہوجائيں''(۱۴)

آخر كا وہ جزيہ دينے پر تيار ہوگئے اور طے پايا كہ ہر سال دو ہزار حلے اور تيس آہنى زرہيں بطور جزيہ ديا كريں گے _(۱۵)

حضرت على (ع) كى يمن ميں ماموريت

جب يمن كے فرماں روا اور كچھ لوگ اسلام كے گرويدہ ہوگئے تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك دانش مند صحابى معاذبن جبل كو قرآن كى تعليم اور تبليغ اسلام كے لئے اس علاقہ ميں بھيجا _وہ كچھ دنوں كے بعد لوٹ آئے_ پھر چند دنوں كے بعد پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خالد ابن وليد كو روانہ كيا _ خالد اپنى خشونت اور سلوك كى بنا پر لوگوں كے دلوں ميں ايمان كى لونہ بڑھا سكے_

اس وجہ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على عليہ السلام كو حكم ديا كہ يمن جا كر اس علاقہ كے لوگوں كو اسلام كى دعوت ديں ،احكام دين سكھائيں اور واپسى پر نجران كے لوگوں سے جزيہ وصول كرتے ہوئے آئيں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق حضرت على عليہ السلام چند مسلمانوں كے ساتھ يمن كى طرف روانہ ہو گئے _وہاں آپ(ع) نے حيرت انگيز فيصلوں اور پر زور تقريروںسے شيفتگان حق كو اسلام كى طرف مائل كيا _قبيلہ ہمدان كے درميان آپ كى صرف ايك تقرير اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كے پڑھنے سے اس قبيلہ كے لئے وہ مثل ثابت ہو گئي كہ '' دل سے جو بات نكلتى ہے اثر كرتى ہے'' اور اس طرح ايك دن سے بھى كم مدت ميں يہ عظيم قبيلہ حلقہ بگوش اسلام ہو گيا _(۱۶) قبيلہ ہمدان كے مسلمان ہو جانے سے پورے يمن ميں اسلام كى اشاعت پر بہت اچھا اثر پڑا_

۲۴۹

سوالات

۱_مشركين سے بيزارى والى آيات كو كس نے لوگوں كے سامنے پڑھا؟

۲_ مباہلہ كيا ہے؟

۳_ مباہلہ ميں شركت كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے على (ع) ، فاطمہ (ع) ، اور حسن (ع) و حسين (ع) ہى كو كيوں منتخب فرمايا؟

۴_ نجران كے عيسائيوں نے آخر ميں كيا كيا؟

۵_ حضرت علي(ع) نے يمن ميں اپنى ذمہ دارى كو كيسے ادا كيا؟

۲۵۰

حوالہ جات

۱_مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۵۷_

۲_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۶۵_سيرت النبويہ ابن كثير ج ۴ ص ۵۶_

۳_ماريہ قبطيہ ايك كنيز تھيں جنكو '' مقوقس'' بادشاہ مصر نے پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ہديہ ديا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے نكاح كرليا تھا_

۴_طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۱۳۴، ۱۳۵_

۵_ فروغ ابديت ج ۲ ص ۸۰۳_محاسن ص ۳۱۳ _ سيرت حلبى ج ۳ ص ۳۱۰_۳۱۱_

۶_ سورہ توبہ كى آيت اسے ۵ تك _البتہ بعض افراد بعد كى آيا ت كو بھى اس كا جزء سمجھتے ہيں _

۷_ چونكہ اہل سنت نے انكے پلٹ آنے كو اہانت سمجھا اس لئے انكى كتابوں ميں يہ نقل بہت عام ہے كہ ابوبكر اپنى امارت پر باقى رہے اور مكہ چلے گئے ليكن على (ع) نے آيات برائت كو مشركين كے سامنے پڑھا _ملاحظہ فرمائيں تفسير ابن كثير ج ۲ ص ۳۳۳ _ مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۳۳۲ _ مجمع الزوائد ج ۷ ص ۲۹ _ الدر المنثور ج ۳ ص ۲۰۹ _ ليكن نسائي و طبرى لكھتے ہيں كہ ابوبكر پريشانى كے ساتھ مدينہ پلٹے _رجوع كريں خصائص ص ۲۰ تفسير طبرى ج ۱۰ ص ۴۶_

۸_ بحار الانوار ج ۲۱ ص ۲۷۵_

۹_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۹۰ _ امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۹۸ _ مجمع البيان ج ۵ ص ۳ _تفسير تبيان ج ۵ ص۱۹۸_

۱۰_( انَّمَا الْمَسيْحُ عيْسَى بْنَ مَرْيَمَ رَسُولُ اللّه وَ كَلمَتُهُ اَلْقى ها مَرْيَمَ وَ روُحٌ منْهُ ) (نسائ/۱۷۱)_

۱۱_( انَّ مَثَلَ عيسَى عنَْدَ اللّه كَمَثَل آدَمَ خَلَقَهُ منْ تُرَاب: ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُون ) (آل عمران/۵۹)_

۱۲_( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَائَنَا وَ اَبْنَائَكُمْ وَ نسَائَنَا وَ نسَائَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهلْ فَنَجْعَلْ )

۲۵۱

( لَعْنَةَ اللّه عَلَى الْكَاذبينَ ) (آل عمران/۶۱) بحار الانوار ج ۲۱/ص ۳۴۰ و۳۵۳_تفسير الميزان ج ۳ ص ۲۲۸_

۱۳_فروغ ابديت ج ۲ ص ۸۲۱ _

۱۴_سيرت نبويہ بر حاشيہ سيرت حلبى ج ۳ ص ۴_

۱۵_ آيت مباہلہ، اہل بيت (ع) كى شان ميں نازل ہونے كے سلسلہ ميں اہل سنت كى كتابوں ميں بہت سى اسناد موجود ہيں _ ملاحظہ ہو _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۰_ سنن ترمذى ج ۴ ص ۲۹۳ _ مسند احمد ج ۱ ص ۱۸۵ _ تفسير طبرى آيہ مباہلہ كے ذيل ميں _ احكام القران جصاص ج ۲ ص ۱۴_مستدرك حاكم ج ۳ ص ۱۵۰_معرفتہ علوم الحديث حاكم ص ۵۰_ دلائل النبوة ابى نعيم ص ۲۹۷ _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۳۰۴_معالم التنزيل ج ۱ ص ۳۰۲بر حاشيہ المخازن _اسباب النزول واحدى ص ۷۵_ الكشاف زمخشرى ج ۱ ص ۳۶۸ _عمدہ بطريق ص ۹۵_تفسير كبير فخر رازى ج ۸ص ۸۵_جامع الاصول ابن اثير ج ۹ ص ۴۷۰_الشفا قاضى عياض ج ۲ ص ۳۶_مناقب خوارزمى ص ۹۶_كامل ابن اثير ج ۲ ص ۲۰۰_ذخائر العقبى محب الدين طبرى ص ۲۵ _ انوار التنزيل بيضاوى ص ۷۴_ كفاية الطالب ص ۵۵_مطالب السئول ص ۷_ تذكرة الخواص سبط ابن جوزى ص ۸_تفسير قرطبى ج ۴ ص ۱۰۴_سيرت احمد زينى دحلان سيرت الحلبيہ كے حاشيہ پر ج ۳ ص ۵ _ تفسير كشف الاسرار و عدة الابرار ج ۲ ص ۱۴۷_

۱۶_بحار الانوار ج ۲۱ ص ۳۶۰ _ ۳۶۳كامل ابن اثير ج ۲ ص ۳۰۵_

۲۵۲

پندرھواں سبق

حجة الوداع

جہان عدالت باعث عداوت ہے

حجة الوداع كے موقعہ پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پرجوش تقرير

غدير خم

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كا ترجمہ

سوالات

۲۵۳

حجة الوداع

روانگى كى تاريخ : ۲۵ ذى القعدہ ۱۰ ھ بمطابق ۲۶ فرورى ۶۳۱ ء بروز ہفتہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے اعلان كيا گيا كہ اس سال رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حج بيت اللہ كيلئے مكہ تشريف لے جائيں گے _ اس خبر نے لوگوں كے اشتياق كو بھڑ كا ديا اور ہزاروں مسلمان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ چلنے كے لئے تيار ہوگئے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابودجانہ كو مدينہ ميں اپنا جانشين معين فرمايا اور ساٹھ قربانى كے جانور لے كر ۲۵/ ذى القعدہ كو حج ادا كرنے كے لئے تمام ہمراہيوں كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہوگئے_(۱)

اس سفر ميں پيغمبر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيوياں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ تھيں جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدينہ سے ۹ كيلوميٹر جنوب ميں مقام ذوالحليفہ پر پہنچے تو آپ نے لباس احرام پہنا اور '' لَبَّيْكَ اَللَّہُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَريْكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، انَّ الْحَمْدَ وَ الْنّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ ، لاَ شَريكَ لَكَ '' كى آواز بلند كى _ روانگى كے دس دن بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مكہ پہنچ گئے مسجد الحرام ميں وارد ہوئے، كعبہ كا طواف كيا ، حجر اسود كو بوسہ ديا اور مقام ابراہيم (ع) پر دو ركعت نماز پڑھى ، پھر صفا و مروہ كے درميان سعى فرمائي _

۲۵۴

جہان عدالت باعث عداوت ہے

علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يمن ميں تبليغ اسلام ميں مشغول تھے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سفر حج سے آگاہ ہوئے تو اپنے ماتحت افراد كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہو گئے آدھے راستہ ميں ہمراہيوں كى كمان ايك افسر كے سپرد كى اور تيزى سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس مكہ پہنچے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں اپنى كارگزارى كى رپورٹ پيش كى _جب يمن كى طرف سے آنيوالاكاروان مكّہ سے نزديك ہوا تو على (ع) ان كے استقبال كے لئے بڑھے ليكن اميد كے برخلاف آپ نے ديكھا كہ انہوں نے بيت المال كے كپڑوں اور چادروں كو جو نجرانيوں نے جزيہ كے طور پر ديئے تھے، اپنے درميان تقسيم اور لباس احرام بنا كر پہن ليا ہے _ حضرت علي(ع) اس ناشائستہ حركت پر اپنے ماتحت افسر پر سخت ناراض ہوئے اور اس سے كہا '' تم نے كپڑوں كو كيوں تقسم كيا؟

اس نے جواب ميں كہا كہ '' جانبازوں نے اس بات پر اصرار كيا كہ ميں كپڑوں كو امانت كے طور پر انہيں ديدوں اور حج كے مراسم ادا كرنے كے بعد ان سے واپس لے لوں''_ عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' تم كو يہ اختيار نہيں تھا'' پھر آپ(ع) نے تمام كپڑے واپس لے لئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تحويل ميں دينے كے لئے تہہ كر كے ركھ دئے_ايك گروہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچا اور عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سخت گيرى كى شكايت كى ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ناراض ہونے والوں سے كہا كہ ''على (ع) پر تنقيد نہ كرو وہ خدا كا حكم جارى كرنے ميں قاطع اور سخت گير ہيں_(۲)

حجة الوداع كے موقعہ پررسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پر جوش تقرير

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حج كے دوران عرفہ كے دن نماز سے پہلے خطبہ پڑھا اور اس كے دوسرے دن منى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كچھ اس طرح كى تھي(۳)

۲۵۵

خداوند عالم اس بندہ كے چہرہ كو منور اور شاداب ركھے جو مير ى بات كو سنے ، ياد ركھے، محفوظ كرے اور پھر ان لوگوں تك پہنچائے جنہوں نے نہيں سنى ، بہت سے فقہ كے حامل ايسے ہيں جو خود فقيہ نہيں ہيں اور بہت سے فقہ كے پہنچانے والے ايسے ہيں كہ جو ايسے شخص تك پہنچا تے ہيں جو ان سے زيادہ عقلمند ہيں _ تين چيزيں ايسى ہيں كہ جن سے مرد مسلمان كا دل خيانت نہيں كرتا ، عمل كو خالص خدا كے لئے انجام دينا ، رہبروں كے لئے بھلائي چاہنا ، يك رنگى اختياركرنا اور مومنين كى جماعت سے جدا نہ ہونا اس لئے كہ ان كى دعا ہر ايك كو گھيرے رہتى ہے ''_

پھر فرمايا_'' اے لوگوں تم شايد اب اس كے بعد مجھے نہ ديكھو آيا تم جانتے ہو كہ يہ كون سا شہر ، كو ن سا مہينہ اور كون سا دن ہے؟''

لوگوں نے كہا '' ہاں يہ حرمت كا شہر ، حرمت كا مہينہ اور حرمت كا دن ہے ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدا نے تمہارے خون تمہارے مال كى حرمت كو اس شہر ، اس مہينہ اور اس دن كى حرمت كى طرح قرار ديا ہے _ كيا ميں نے (پيغام) پہنچا ديا ''_ مجمع نے كہا ''ہاں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدا يا تو گواہ رہنا''_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمايا'' خدا سے ڈرتے رہو اور كم نہ تولو ، زمين ميںتباہى نہ پھيلاو اور ہر وہ شخص جس كے پاس كوئي امانت ہو وہ اسے (اس كے مالك تك) پہنچائے، اسلام ميں سب لوگ برابر ہيں اس لئے كہ سب آدم (ع) و حوا كى اولاد ہيں _ عربى كو عجمى پر اور عجمى كو عربى پرسوائے پرہيزگارى كے اور كوئي برترى حاصل نہيں'' كيا ميں نے (پيغام) پہنچا ديا؟ لوگوں نے كہا'' ہاں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدايا گواہ رہنا''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اپنے نسب كو ميرے پاس نہ لانا بلكہ اپنے عمل كو ميرے پاس لانا

۲۵۶

، جو ميں لوگوں سے كہتا ہوں تم بھى يہى كہو ، كيا ميں نے (پيغام)پہنچا ديا ؟ لوگوں نے كہا ''ہاں'' فرمايا '' خدايا تو گواہ رہنا''_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا وہ خون جو جاہليت ميں بہايا گيا ہے ميرے پير كے نيچے ہے (يعنى اس كى كوئي حيثيت نہيں) اور پہلا خون جس كو ميں اپنے پير كے نيچے قرار ديتا ہوں وہ آدم ابن ربيعہ ابن حارث(۴) (رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وابستگان ميں سے ايك شير خوار بچہ جسے بنى سعد بن بكر نے مارڈالا تھا) كا خون ہے_كيا ميں نے (پيغام)پہنچا ديا؟ لوگوں نے كہا'' جى ہاں'' فرمايا'' خدايا گواہ رہنا''_

پھر فرمانے لگے'' ہر وہ سودجو جاہليت كے زمانہ ميں تھا ميرے پيروں كے نيچے ہے پہلاسود جو ميں اپنے پيروں كے نيچے ركھتا ہوں وہ عباس ابن عبدالمطلب كا رہا ہے '' كيا ميں نے (پيغام) پہنچا ديا؟ '' مجمع نے كہا'' ہاں'' فرمايا خدا يا تو گواہ رہنا _ پھر فرمايا بے شك ماہ حرام ميں تاخير، كفر ميں زيادتى كا باعث ہے اور كافرين اس سے گمراہ ہوں گے (كيونكہ وہ ) ايك سال كو حلال اور ايك سال كو(اپنے فائدہ كيلئے) حرام شمار كرتے ہيں تا كہ جس مہينہ كو خدا نے حرام كيا ہے اپنے مفاد كے موافق بناليں_ آگاہ ہو جاؤ كہ زمانہ ،گزشتہ صورتحال كى طرف پلٹ گيا ہے كہ جس دن خدا نے آسمان اور زمينوں كو پيدا كيا ، بيشك خداوند عالم كے نزديك اس كى كتاب ميں بارہ مہينے ہيں ان ميں سے چار مہينے حرمت كے ہيں _'' رجب ''جو كہ جمادى او ر شعبان كے درميان ہے اوراس كو '' رجب مضر'' كہتے ہيں اور پھر پے در پے تين مہينے ذى القعدہ ، ذى الحجة اور محرم ہيں''بتاؤ ميں نے تمہيں خبردار كرديا؟ لوگوں نے جواب ديا؟ '' ہاں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدايا توگواہ رہنا''_ پھر فرمايا ميں تم كو عورتوں كے ساتھ نيكى كرنے كيلئے كہتا ہوں اس لئے كہ ان كو تمہارے سپر د كيا گيا ہے وہ

۲۵۷

اپنے امر ميں سے كوئي چيز اپنے ہاتھ ميں نہيں ركھتيں تم نے انہيں خدا سے بطور امانت ليا ہے_ خدا كے حكم كے مطابق تم نے ان سے قربت كى ہے تمھارا ان پر كچھ حق ہے ، ان كى معمول و رائج غذا اور لباس تم پر لازم ہے اور تمھارا حق ان پر يہ ہے كہ كسى كا پير تمہارے بستر تك نہ پہنچنے ديں _تمہارى اطلاع اور اجازت كے بغير تمہارے گھروں ميںكسى كو داخل نہ ہونے ديں _ پس اگر ان ميں سے كوئي چيز انجام نہ ديں تو ان كى خواب گاہ سے دورى اختيار كرواور نہايت نرمى سے تنبيہ كرو_

كيا ميں نے تبليغ كردي؟ ''لوگوں نے كہا ''ہاں'' حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''خدا يا گوہ رہنا''_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گويا ہوئے '' اب ميں تم سے غلاموں كے بارے ميں كچھ كہتا ہوں جو كھانا تم كھاتے ہو وہى ان كو بھى كھلاؤ، جو تم پيتے ہو وہى ان كو بھى پلاؤ ،اگر يہ خطا كريں تو سزا كو معاف كردينا _ كيا ميں نے تبليغ كردي؟ '' سب لوگ بولے ''ہاں'' حضرت نے فرمايا'' خدايا تو گواہ رہنا'' پھر فرمانے لگے _'' مسلمان، مسلمان كا بھائي ہے ، ان كے ساتھ حيلہ اور خيانت نہ كرو، ان كى پيٹھ پيچھے بد گوئي نہ كرو نہ ان كا خون حلال ہے اور نہ مال، مگر ان كى رضايت سے ، كيا ميں نے تبليغ كردي؟ '' لوگوں نے كہا ہاں_ فرمايا ''خدا يا تو گواہ رہنا''_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كہا '' شيطان آج كے بعد اس بات سے نا اميد ہو گيا كہ ا س كى پرستش ہوگى _ليكن پرستش كے علاوہ جن كاموں كو تم چھوٹا سمجھتے ہو ان پر عمل ہوگا اور وہ (شيطان) اسى پر راضى اور خوش ہے _ كيا ميں نے بتاديا؟ لوگوں نے كہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدا يا گواہ رہنا'' پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''دشمن خدا ميں سب سے زيادہ گستاخ وہ ہے جو اپنے قتل كرنے والے كے علاوہ كسى كو قتل كرے اور اپنے مارنے والے كے علاوہ كسى كو مارے _ جو اپنے آقا كى نافرمانى كرے اس نے اس چيز كا انكار كرديا جو خدا نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل كى ہے اور جو

۲۵۸

كوئي اپنے باپ كے علاوہ كسى اور كى طرف اپنى نسبت دے اس پر خدا ، فرشتوں اور تمام لوگوں كى لعنت ہے _ كيا ميں نے بتاديا ؟ مجمع بولا '' ہاں'' فرمايا'' خدايا گواہ رہنا'' _پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمايا '' ميں مامور ہوں كہ جہاد كروں تا كہ لوگ خدا كى يكتائي اور ميرى رسالت كے معتقد ہوجائيں _ جب اس كا اقرار كرليں گے توگوياانہوںنے ا پنے مال اور خون كو محفوظ كرليا سوائے ان حقوق كے جو انكى گردنوں پر ثابت ہيں اور ان كا حساب خدا پر ہے ''كيا ميں نے بتاديا؟ '' لوگوں كے كہا '' ہاں'' فرمايا '' خدايا گواہ رہنا'' _پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہيں ايسا نہ ہو كہ ميرے بعد تم گمراہ كرنے والے كافر ہو جاؤ كہ تم ميں سے بعض ، بعض كى گردنوں كے مالك (مالك الرقاب) ہو جائيں_ ميں تمہارے درميان ايسى چيز چھوڑے جارہاہوں كہ اگر تم اس سے متمسك رہے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے _

كتاب خدا اور ميرى عترت و خاندان _(۵) كيا ميں نے تبليغ كردى لوگوں نے كہا _ ''بے شك'' فرمايا'' خدايا گواہ رہنا''_ اس كے بعد فرمايا _ البتہ تم سے سوال ہو گا لہذا تم ميں جو حاضر ہے وہ غائب تك ( يہ پيغامات) پہنچادے_(۶)

غدير خم

۱۸ /ذى الحجہ ۱۰ ھ بمطابق ۱۹ مار چ ۶۳۱ء بروز اتوار

اتوار ۱۸ ذى الحجہ كو جب پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجفہ سے غدير خم كے پاس پہنچے تو امين وحى حضرت جبرئيل ،خدا كى جانب سے يہ پيغام لائے كہ '' اے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى طرف سے جو پيغام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل كيا گيا ہے وہ لوگوں تك پہنچاديں ، اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہيں پہنچا يا تو رسالت كومكمل نہيں كيا _ خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو لوگوں سے بچائے گابے شك خدا كافروں كو ہدايت نہيں كرتا_(۷)

۲۵۹

اس طرح خدا كى جانب سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ديا گيا كہ لوگوں كے درمياں كھلم كھلا حضرت على (ع) كا تعارف كروائيں اور انكى ولايت و اطاعت (جو مسلمانوں پر فرض ہے) كا اعلان كرديں _ حجاج كا كاروان جحفہ(۸) پہنچا _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ وہ لوگ جو آگے بڑھ گئے ہيں لوٹ آئيں اور باقى ٹھہر جائيں تمام مسلمان جمع ہوگئے ان كى تعداد ايك لاكھ بيس ہزار سے زيادہ تھى _ اس روز سخت گرمى كے عالم ميں لوگ پيروں كے نيچے عبا بچھائے ، دامن كو سائبان بنا كر سروں پر ركھ رہے تھے _ نماز جماعت ادا گئي ،پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز كے بعد اس بلند منبر پر جلوہ افروز ہوئے جو اونٹوں كے پالانوں سے بنا يا گيا تھا اور ايك تقرير فرمائي_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كا ترجمہ ملاحظہ ہو

حمد و ثنا خداسے مخصوص ہے ہم اس سے مدد چاہتے اور اس پر ايمان ركھتے ہيں اس پر توكل كرتے اور نامناسب عمل سے اس كى پناہ چاہتے ہيں وہ خدا جس كے سوا كوئي ہادى اور رہنما نہيں ، جس كى وہ ہدايت كرے اس كو كوئي گمراہ كرنے والا نہيں ، ميں گواہى ديتا ہوں كہ اس كے سوا كوئي معبود نہيں ہے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے بندہ اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں _ اے لوگو عنقريب ميں دعوت حق كو لبيك كہنے والا اور تمہارے درميان سے جانے والا ہوں _ ميں بھى جوابدہ ہوں اور تم بھى جواب دہ ہو تم ميرے بارے ميں كيا كہتے ہو ؟ لوگوں نے بہ آواز بلند كہا _

'' ہم گواہى ديتے ہيں كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى رسالت كو پہنچا ديا، نصيحت اور كوشش كى ،خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو نيك جزا دے ''_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' كيا تم اس بات كى گواہى ديتے ہو كہ اللہ كے سوا اوركوئي خدا نہيں ہے _اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے بندہ اور فرستادہ ہيں اور يہ كہ بہشت ، دوزخ ، موت حق ہے اور قيامت كے دن ميں كوئي شك و شبہ نہيں ہے اور خدا قبروں سے تمام سونے

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298