تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي13%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167326 / ڈاؤنلوڈ: 4209
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۹_ روميوں نے جنگ موتہ ميں لشكر اسلام كے بلند حوصلوں كو ديكھا تھا اور سپاہ اسلام كى فتوحات پر مشتمل خبريں سننے كے بعد انہوں نے يہ سمجھ ليا تھا كہ مسلمانوں سے روبرو ہوكر مقابلہ كى ان ميں طاقت نہيں ہے _

۱۰_ پيامبرو آئين نبرد جنرل مصطفى طلاس ص ۴۸۳ _

۱۱_پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كامتن مغازى واقدى ج ۳ ص۱۰۱۵و ۱۰۱۶ پر موجود ہے _

۱۲_ ابن اسحاق كے قول كے مطابق ۱۰ سے ۱۵ دن تك _سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷۰_

۱۳_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۹_مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۲۵_

۱۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۹_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۴۲_

۱۵_سيرت حلبى ج ۳ص ۱۴۳ _ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۴۳_

۱۶_( وَالَّذينَ اتَّخَذوُا مَسْجداً ضرَارَاً وَ كُفْرَاً وَ تَفْريقَاً بَيْنَ الْمُؤْمنيْنَ وَ ارْصَاداً لمَنْ حَارَبَ اللّهَ وَ رَسوُلَهُ منْ قَبْلُ و لَيَحْلفنَّ انْ اَرَدْنَا الاَ الْحُسْنى وَاللّه يَشْهَدُ اَنَّهُمْ لَكَاذبُونَ لاَ تَقُمْ فيه اَبَداً لَمَسْجدٌ اُسّسَ عَلَى الَّتَقْوى منْ اَوَّل يَوْم: اَحَقُّ اَنْ تَقُومَ فيه ، فيه رجَالٌ يُحبُّونَ اَنْ يَتَطَهرُوا وَ اللّهُ يُحبُّ الْمُطّهّريْنَ ) _(توبہ /۱۰۶و۱۰۷)_

۱۷_ سيرت حلبى ج ۳ ص ۱۴۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷۴_ مغاز واقدى ج ۳ ص ۱۰۴۶_ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۸۰_ تفسير التاويل و حقائق التنزيل نسخہ خطي، واقعہ مسجد ضرار از ص ۴۷۳ تا ۴۷۵_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۵۷،۱۰۵۶_

۱۹_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۵۶ _ ۱۰۵۷_

۲۰_ عبداللہ بن ابّى اور ديگر ۸۳ منافقين كے علاوہ _

۲۴۱

چودھواں سبق

منافقين كے سربراہ كى موت

مدينہ ميں مختلف قبائل كے نمائندہ و فود كى آمد

وہ دين جس ميں نماز نہيں اس كا كوئي فائدہ نہيں

ابراہيم كا سوگ

خرافات سے جنگ

مشركين سے بيزاري

حضرت على (ع) اہم مشن پر

مباہلہ

حضرت على (ع) كى يمن ميں ماموريت

سوالات

۲۴۲

منافقين كے سربراہ كى موت

واقعہ تبوك كے بعد مسلمانوں كى كاميابيوں ميں سے ايك كاميابى منافقين كے فتنہ پرور سربراہ عبداللہ ابن ابى كى موت ہے وہ تھوڑ ے عرصہ تك بيمار رہ كر مر گيا اور اس طرح تحريك اسلامى كے ايك سخت ترين داخلى دشمن كا شر برطرف ہو گيا_(۱)

مدينہ ميں مختلف قبائل كے نمائندہ وفود كى آمد

فتح مكہ اور تبوك پر لشكر كشى كے بعد، ہر طرف سے مختلف قبائل كى نمائندگى كرنے والے وفود مدينہ ميں آئے _ چنانچہ اسى لئے سنہ ۹ ھ كو'' عام الوفود'' ( وفود كا سال) كہا جاتا ہے _ اعراب اس بات كے منتظر تھے كہ اسلام اور قبيلہ قريش كى باہمى چپقلش كا كيا نتيجہ نكلتا ہے ؟ اس لئے كہ قريش عرب كے پيشوا اور خانہ كعبہ كے متولى تھے_ جب مكہ فتح ہو گيا اور قريش مغلوب ہوگئے تو دوسرے عرب قبائل يہ سمجھ گئے كہ ان ميں اسلام سے مقابلہ كى طاقت نہيں ہے _ غزوہ تبوك سے يہ حقيقت اور زيادہ روشن ہوگئي تھى _ لہذا ناچار گروہ در گروہ دين خدا ميں داخل ہونے لگے_

۲۴۳

وہ دين جس ميں نماز نہيں اس كا كوئي فائدہ نہيں

عرب كے سخت ترين قبيلہ ، ثقيف كى جانب سے چھ سركردہ افراد پر مشتمل ايك وفداسلام قبول كرنے كے بارے ميں مذاكرہ كرنے كے لئے مدينہ آيا اور مغيرہ ابن شعبة ثقفى كے گھر ٹھہرا ، پذيرائي كا سامان رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر سے مغيرہ كے گھر بھيجا گيا انہوں نے اسلام قبول كرنے كے سلسلے ميں كچھ تجويزيں ركھيں منجملہ ان كے ايك يہ تھى كہ ''لات'' كے بتخانہ كو تين سال تك ويران نہ كريں_ دوسرے يہ كہ ان سے نماز معاف ہوجائے ، جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى تجويزوں كو قبول نہيں كيا تو وہ ترك نماز پر اصرار كرنے لگے _ آنحضرت(ع) نے فرمايا '' جس دين ميں نماز نہيں اس كا كوئي فائدہ نہيں''_ آخر كار انہوں نے اسلام قبول كيا اور نماز پڑھنے اور شرعى احكام پر عمل كرنے كے لئے آمادہ ہوگئے_(۲)

ابراہيم كا سوگ

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيوى ماريہ قبطيہ(۳) سے ايك بيٹا پيدا ہوا _ ولادت كى صبح پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب كو يہ خوش خبرى سنائي كہ كل رات خدا نے مجھے بيٹا عطا كيا ہے جس كا نام ميں نے اپنے جد ا،براہيم (ع) كے نام پر ابراہيم (ع) ہى ركھاہے _ ولادت كے ساتويں دن آپ(ع) نے عقيقہ ميں ايك گوسفند ذبح كيا اورمولود كے سر كے بال تراش كر اس كے برابر چاندى مسكينوں ميں صدقہ كے طور پر تقسيم كي_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دوسرى بيويوں نے جب يہ ديكھا كہ ماريہ كے ذريعہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صاحب اولاد ہوگئے ہيں تو ان كو ماريہ پررشك ہوا_(۴)

۱۸/ مہينہ كے بعد پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اكلوتا بيٹا بيمار پڑا اور انتقال كر گيا _پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے انتقال سے غم و اندوہ ميںمبتلا ہوئے_

۲۴۴

خرافات سے جنگ

جس دن ابراہيم كا انتقال ہوا اس دن آفتاب كو گہن لگا _ لوگوںنے يہ سوچا كہ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بيٹے كے غم ميں آفتاب كو گہن لگا ہے _ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہيں چاہتے تھے كہ لوگ خرافات كى طر ف مائل ہوں اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا '' آفتاب و ماہتاب قدرت كى نشانى ہيں وہ سنت الہى كے مطابق خاص راستے پر گردش كرتے ہيں اور انہيں ہرگز كسى كى ولادت ياموت پر گہن نہيں لگتا ، سورج گہن كے موقع پر تمہارا فريضہ يہ ہے كہ تم نماز پڑھو_(۵)

مشركين سے بيزاري

۱۰/ذى الحجہ ۹ ھ بمطابق ۲۲ مارچ ۶۳۱ ئ

حج كا زمانہ آگيا _ ابھى تك مشركين حج كے مراسم ميں گذشتہ لوگوں كے طريقہ كے مطابق شركت كرتے تھے_اس سال مشركين سے بيزارى ( سورہ برائت)(۶) والى آيتيں نازل ہوئيں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابتدا ميں ابوبكر كو امير الحاج كے عنوان سے مكہ روانہ كيا اور حكم ديا كہ ان آيات كو لوگوں كے مجمع ميں پڑھيں_ابوبكر اور ديگر مسلمان حج كے لئے مكہ كى طرف جادہ پيما ہوئے _

حضرت على (ع) اہم مشن پر

ابھى تھوڑى دير نہ گزرى تھى كہ جبرئيل نازل ہوئے اور خدا كى طرف سے پيغام لے كر آئے كہ '' مشركين سے بيزارى والے پيغام كو يا آپ خود پہنچا ئيں يا وہ شخص پہنچائے جو

۲۴۵

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہل بيت (ع) سے ہو'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى اونٹنى ''' ناقہ عضبائ'' كو على (ع) كے حوالہ كيا اور فرمايا ابوبكر سے جا كر وہ آيتيں لے لو جو مشركين سے بيزارى و برائت كے سلسلہ ميں نازل ہوئي ہيں اور زائرين خانہ خدا كے مجمع ميں خود پڑھو_ بروايت شيخ مفيد ،ابوبكر نے آيا ت كو على (ع) كے حوالہ كيا اور مدينہ لوٹ آئے _(۷) اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بارگاہ ميں پہنچ كر كہا '' كيا ميرے بارے ميں وحى نازل ہوئي ہے ؟'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہايت اطمينان سے فرمايا'' جبرئيل (ع) تشريف لائے اور خدا كا پيغام پہنچايا كہ اس كام كو ميرے يا ميرے اہل بيت كے فرد كے علاوہ كوئي دوسرا انجام نہيں دے سكتا _(۸)

حضرت على (ع) حج كے دوران مجمع كے درميان كھڑے ہوئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق اعلان كيا كہ '' اے لوگو كوئي كافربہشت ميں نہيں جائے گا اور اس سال كے بعد كسى مشرك كو حج نہيں كرنے ديا جائے گا اور نہ ہى كعبہ كا برہنہ طواف كرنے كى اجازت ہوگى _ جس كى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كوئي قرار داديا معاہدہ ہے تو وہ معاہدہ اپنى مدت تك باقى ہے اور دوسروں كو بھى آج سے چارمہينے كى مہلت ہے كہ ہر گروہ اپنے مسكن اور اپنى سرزمين كو پلٹ جائے _ چار مہينے كے بعد كسى بھى مشرك كے لئے كوئي عہد و پيمان نہيں رہ جائے گا مگر ان لوگوں كے لئے جنہوں نے خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ايك مدت تك كے لئے عہد و پيمان كيا ہے _ اس سال كے بعد مشركين نہ حج بجالائيں گے اور نہ كعبہ كے گرد برہنہ طواف كريں گے _(۹)

۲۴۶

مباہلہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دنيا كے سر كردہ افراد كو خط لكھنے كے بعد ايك خط اسقف ''نجران'' (مكہ كے جنوب مشرق ميں ۹۱۰ كيلوميٹر كے فاصلہ پر ايك شہر ہے )كو لكھا اور اس ديار كے عيسائيوں كو اسلام كى دعوت دى _

خط ميں كہا گيا تھا كہ اگر اسلام قبول نہيں كرتے تو جزيہ دو تا كہ تمہيں اسلامى حكومت كى حمايت حاصل ہوجائے يا پھر جنگ كے لئے تيار ہوجاؤ_اسقف نے حضرت عيسى (ع) كے بعد ايك پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ظہور كى بشارت آسمانى كتابوں ميں پڑھ ركھى تھى اس لئے اس نے اپنے نمائندوں كو مدينہ بھيجنے كا ارادہ كيا _عيسائيوں كا ايك عالى مرتبہ وفد مذاكرہ اور اسلام كے مسائل كے بارے ميں تحقيق كے لئے مدينہ پہنچا اور يہاں پہنچنے كے بعد انہوں نے مكمل آزادى كے ساتھ اپنے مذہبى مراسم مسجد مدينہ ميں انجام ديئے_ اس كے بعد حضرت عيسى (ع) كے بارے ميں ايك تفصيلى بحث شروع ہوئي _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عيسى (ع) كے بارے ميں فرمايا'' وہ خدا كى مخلوق اور اس كے بندے ہيں جن كو خدا نے مريم كے رحم ميں ركھا_(۱۰)

عيسائي نمائندے كہہ رہے تھے كہ '' عيسى (ع) خدا كے بيٹے ہيں اس لئے كہ مريم نے بغير كسى مرد كى قربت كے ان كو جنا ہے _ جواب ميں آيت نازل ہوئي اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كو پيش كيا كہ عيسى (ع) كى خلقت آدم (ع) كى تخليق كى طرح ہے خدا نے ان كو خاك سے پيدا كيا _(۱۱) يعنى اگر باپ كا نہ ہونا خدا كا بيٹا ہونے كى دليل ہے تو آدم كا نہ باپ تھا اور نہ ماں لہذا وہ خدا كا بيٹا ہونے كے زيادہ سزاوار ہيں_

مذاكرات اور بحثيں جارى رہيں ، عيسائي مذہبى نمائندے پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى منطق كے سامنے خاموش ہوگئے ، ليكن ان كا بے جا تعصب حقيقت و ايمان كو ماننے سے ركاوٹ بنا رہا_

۲۴۷

فرشتہ وحى نازل ہوا اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ملا كہ ان لوگوں كو مباہلہ كے لئے بلائيں_

يعنى دونوں گروہ صحرا ميں جائيں اور ايك معين وقت پر خدا كى بارگاہ ميں دعا كريں اور جھوٹے پر لعنت بھيجيں_(۱۲)

مباہلہ كے بارے ميں علامہ طباطبائي مرحوم فرماتے ہيں كہ '' مباہلہ''، اسلام كے زندہ معجزات ميں سے ہے ، ہر با ايمان شخص اسلام كے پہلے پيشوا كى پيروى ميں حقائق اسلام ميں سے كسى حقيقت كے اثبات كے لئے مخالف سے مباہلہ كر سكتا ہے اور خداوند عالم سے درخواست كر سكتا ہے كہ مخالف كو كيفر كردار تك پہنچائے اور شكست دے ''(۱۳)

مباہلہ كا وقت قريب آيا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں اور اپنے وابستگان كے درميان سے صرف چار افراد كا انتخاب كيا جو اس تاريخى واقعہ ميں شريك ہوئے اور وہ ہيں حضرت على (ع) پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى باعظمت بيٹى فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا اور حسن و حسين (ع) اس لئے كہ تمام مسلمانوں كے درميان ان چار افراد سے زيادہ پاكيزہ اور با ايمان انسان موجود نہ تھے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ساتھ جانے والوں سے كہا كہ جب ہم وہاں پہنچيں تو ہمارى دعا پر آمين كہنا_

پھر بے مثال معنوى شان و شوكت كے ساتھ ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حسين(ع) كو گود ميں لئے حسن (ع) كا ہاتھ پكڑے اور فاطمہ (ع) و على (ع) ان كے پيچھے اس مقام كى طرف چلے جہاں مباہلہ ہونا قرار پايا تھا_ جب عيسائيوں كى منتظر نگاہيں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان كے ساتھ آنے والے نورانى اور ملكوتى چہروں پر پڑيں تواسقف اعظم نے كہا _'' ميں ايسے ديكھ رہاہوں كہ اگر يہ شخصيات بارگاہ الہى ميں دعاكريں تو بيابان ديكھتے ديكھتے جہنم ميں بدل جائے اور عذاب كى چادر سرزمين نجران كو اپنے دامن ميں لپيٹ لے_اس بات كا خطرہ ہے كہ تمام عيسائي ختم

۲۴۸

ہوجائيں''(۱۴)

آخر كا وہ جزيہ دينے پر تيار ہوگئے اور طے پايا كہ ہر سال دو ہزار حلے اور تيس آہنى زرہيں بطور جزيہ ديا كريں گے _(۱۵)

حضرت على (ع) كى يمن ميں ماموريت

جب يمن كے فرماں روا اور كچھ لوگ اسلام كے گرويدہ ہوگئے تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك دانش مند صحابى معاذبن جبل كو قرآن كى تعليم اور تبليغ اسلام كے لئے اس علاقہ ميں بھيجا _وہ كچھ دنوں كے بعد لوٹ آئے_ پھر چند دنوں كے بعد پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خالد ابن وليد كو روانہ كيا _ خالد اپنى خشونت اور سلوك كى بنا پر لوگوں كے دلوں ميں ايمان كى لونہ بڑھا سكے_

اس وجہ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على عليہ السلام كو حكم ديا كہ يمن جا كر اس علاقہ كے لوگوں كو اسلام كى دعوت ديں ،احكام دين سكھائيں اور واپسى پر نجران كے لوگوں سے جزيہ وصول كرتے ہوئے آئيں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق حضرت على عليہ السلام چند مسلمانوں كے ساتھ يمن كى طرف روانہ ہو گئے _وہاں آپ(ع) نے حيرت انگيز فيصلوں اور پر زور تقريروںسے شيفتگان حق كو اسلام كى طرف مائل كيا _قبيلہ ہمدان كے درميان آپ كى صرف ايك تقرير اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كے پڑھنے سے اس قبيلہ كے لئے وہ مثل ثابت ہو گئي كہ '' دل سے جو بات نكلتى ہے اثر كرتى ہے'' اور اس طرح ايك دن سے بھى كم مدت ميں يہ عظيم قبيلہ حلقہ بگوش اسلام ہو گيا _(۱۶) قبيلہ ہمدان كے مسلمان ہو جانے سے پورے يمن ميں اسلام كى اشاعت پر بہت اچھا اثر پڑا_

۲۴۹

سوالات

۱_مشركين سے بيزارى والى آيات كو كس نے لوگوں كے سامنے پڑھا؟

۲_ مباہلہ كيا ہے؟

۳_ مباہلہ ميں شركت كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے على (ع) ، فاطمہ (ع) ، اور حسن (ع) و حسين (ع) ہى كو كيوں منتخب فرمايا؟

۴_ نجران كے عيسائيوں نے آخر ميں كيا كيا؟

۵_ حضرت علي(ع) نے يمن ميں اپنى ذمہ دارى كو كيسے ادا كيا؟

۲۵۰

حوالہ جات

۱_مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۵۷_

۲_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۶۵_سيرت النبويہ ابن كثير ج ۴ ص ۵۶_

۳_ماريہ قبطيہ ايك كنيز تھيں جنكو '' مقوقس'' بادشاہ مصر نے پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ہديہ ديا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے نكاح كرليا تھا_

۴_طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۱۳۴، ۱۳۵_

۵_ فروغ ابديت ج ۲ ص ۸۰۳_محاسن ص ۳۱۳ _ سيرت حلبى ج ۳ ص ۳۱۰_۳۱۱_

۶_ سورہ توبہ كى آيت اسے ۵ تك _البتہ بعض افراد بعد كى آيا ت كو بھى اس كا جزء سمجھتے ہيں _

۷_ چونكہ اہل سنت نے انكے پلٹ آنے كو اہانت سمجھا اس لئے انكى كتابوں ميں يہ نقل بہت عام ہے كہ ابوبكر اپنى امارت پر باقى رہے اور مكہ چلے گئے ليكن على (ع) نے آيات برائت كو مشركين كے سامنے پڑھا _ملاحظہ فرمائيں تفسير ابن كثير ج ۲ ص ۳۳۳ _ مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۳۳۲ _ مجمع الزوائد ج ۷ ص ۲۹ _ الدر المنثور ج ۳ ص ۲۰۹ _ ليكن نسائي و طبرى لكھتے ہيں كہ ابوبكر پريشانى كے ساتھ مدينہ پلٹے _رجوع كريں خصائص ص ۲۰ تفسير طبرى ج ۱۰ ص ۴۶_

۸_ بحار الانوار ج ۲۱ ص ۲۷۵_

۹_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۹۰ _ امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۹۸ _ مجمع البيان ج ۵ ص ۳ _تفسير تبيان ج ۵ ص۱۹۸_

۱۰_( انَّمَا الْمَسيْحُ عيْسَى بْنَ مَرْيَمَ رَسُولُ اللّه وَ كَلمَتُهُ اَلْقى ها مَرْيَمَ وَ روُحٌ منْهُ ) (نسائ/۱۷۱)_

۱۱_( انَّ مَثَلَ عيسَى عنَْدَ اللّه كَمَثَل آدَمَ خَلَقَهُ منْ تُرَاب: ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُون ) (آل عمران/۵۹)_

۱۲_( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَائَنَا وَ اَبْنَائَكُمْ وَ نسَائَنَا وَ نسَائَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهلْ فَنَجْعَلْ )

۲۵۱

( لَعْنَةَ اللّه عَلَى الْكَاذبينَ ) (آل عمران/۶۱) بحار الانوار ج ۲۱/ص ۳۴۰ و۳۵۳_تفسير الميزان ج ۳ ص ۲۲۸_

۱۳_فروغ ابديت ج ۲ ص ۸۲۱ _

۱۴_سيرت نبويہ بر حاشيہ سيرت حلبى ج ۳ ص ۴_

۱۵_ آيت مباہلہ، اہل بيت (ع) كى شان ميں نازل ہونے كے سلسلہ ميں اہل سنت كى كتابوں ميں بہت سى اسناد موجود ہيں _ ملاحظہ ہو _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۰_ سنن ترمذى ج ۴ ص ۲۹۳ _ مسند احمد ج ۱ ص ۱۸۵ _ تفسير طبرى آيہ مباہلہ كے ذيل ميں _ احكام القران جصاص ج ۲ ص ۱۴_مستدرك حاكم ج ۳ ص ۱۵۰_معرفتہ علوم الحديث حاكم ص ۵۰_ دلائل النبوة ابى نعيم ص ۲۹۷ _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۳۰۴_معالم التنزيل ج ۱ ص ۳۰۲بر حاشيہ المخازن _اسباب النزول واحدى ص ۷۵_ الكشاف زمخشرى ج ۱ ص ۳۶۸ _عمدہ بطريق ص ۹۵_تفسير كبير فخر رازى ج ۸ص ۸۵_جامع الاصول ابن اثير ج ۹ ص ۴۷۰_الشفا قاضى عياض ج ۲ ص ۳۶_مناقب خوارزمى ص ۹۶_كامل ابن اثير ج ۲ ص ۲۰۰_ذخائر العقبى محب الدين طبرى ص ۲۵ _ انوار التنزيل بيضاوى ص ۷۴_ كفاية الطالب ص ۵۵_مطالب السئول ص ۷_ تذكرة الخواص سبط ابن جوزى ص ۸_تفسير قرطبى ج ۴ ص ۱۰۴_سيرت احمد زينى دحلان سيرت الحلبيہ كے حاشيہ پر ج ۳ ص ۵ _ تفسير كشف الاسرار و عدة الابرار ج ۲ ص ۱۴۷_

۱۶_بحار الانوار ج ۲۱ ص ۳۶۰ _ ۳۶۳كامل ابن اثير ج ۲ ص ۳۰۵_

۲۵۲

پندرھواں سبق

حجة الوداع

جہان عدالت باعث عداوت ہے

حجة الوداع كے موقعہ پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پرجوش تقرير

غدير خم

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كا ترجمہ

سوالات

۲۵۳

حجة الوداع

روانگى كى تاريخ : ۲۵ ذى القعدہ ۱۰ ھ بمطابق ۲۶ فرورى ۶۳۱ ء بروز ہفتہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے اعلان كيا گيا كہ اس سال رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حج بيت اللہ كيلئے مكہ تشريف لے جائيں گے _ اس خبر نے لوگوں كے اشتياق كو بھڑ كا ديا اور ہزاروں مسلمان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ چلنے كے لئے تيار ہوگئے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابودجانہ كو مدينہ ميں اپنا جانشين معين فرمايا اور ساٹھ قربانى كے جانور لے كر ۲۵/ ذى القعدہ كو حج ادا كرنے كے لئے تمام ہمراہيوں كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہوگئے_(۱)

اس سفر ميں پيغمبر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيوياں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ تھيں جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدينہ سے ۹ كيلوميٹر جنوب ميں مقام ذوالحليفہ پر پہنچے تو آپ نے لباس احرام پہنا اور '' لَبَّيْكَ اَللَّہُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَريْكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، انَّ الْحَمْدَ وَ الْنّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ ، لاَ شَريكَ لَكَ '' كى آواز بلند كى _ روانگى كے دس دن بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مكہ پہنچ گئے مسجد الحرام ميں وارد ہوئے، كعبہ كا طواف كيا ، حجر اسود كو بوسہ ديا اور مقام ابراہيم (ع) پر دو ركعت نماز پڑھى ، پھر صفا و مروہ كے درميان سعى فرمائي _

۲۵۴

جہان عدالت باعث عداوت ہے

علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يمن ميں تبليغ اسلام ميں مشغول تھے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سفر حج سے آگاہ ہوئے تو اپنے ماتحت افراد كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہو گئے آدھے راستہ ميں ہمراہيوں كى كمان ايك افسر كے سپرد كى اور تيزى سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس مكہ پہنچے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں اپنى كارگزارى كى رپورٹ پيش كى _جب يمن كى طرف سے آنيوالاكاروان مكّہ سے نزديك ہوا تو على (ع) ان كے استقبال كے لئے بڑھے ليكن اميد كے برخلاف آپ نے ديكھا كہ انہوں نے بيت المال كے كپڑوں اور چادروں كو جو نجرانيوں نے جزيہ كے طور پر ديئے تھے، اپنے درميان تقسيم اور لباس احرام بنا كر پہن ليا ہے _ حضرت علي(ع) اس ناشائستہ حركت پر اپنے ماتحت افسر پر سخت ناراض ہوئے اور اس سے كہا '' تم نے كپڑوں كو كيوں تقسم كيا؟

اس نے جواب ميں كہا كہ '' جانبازوں نے اس بات پر اصرار كيا كہ ميں كپڑوں كو امانت كے طور پر انہيں ديدوں اور حج كے مراسم ادا كرنے كے بعد ان سے واپس لے لوں''_ عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' تم كو يہ اختيار نہيں تھا'' پھر آپ(ع) نے تمام كپڑے واپس لے لئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تحويل ميں دينے كے لئے تہہ كر كے ركھ دئے_ايك گروہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچا اور عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سخت گيرى كى شكايت كى ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ناراض ہونے والوں سے كہا كہ ''على (ع) پر تنقيد نہ كرو وہ خدا كا حكم جارى كرنے ميں قاطع اور سخت گير ہيں_(۲)

حجة الوداع كے موقعہ پررسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پر جوش تقرير

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حج كے دوران عرفہ كے دن نماز سے پہلے خطبہ پڑھا اور اس كے دوسرے دن منى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كچھ اس طرح كى تھي(۳)

۲۵۵

خداوند عالم اس بندہ كے چہرہ كو منور اور شاداب ركھے جو مير ى بات كو سنے ، ياد ركھے، محفوظ كرے اور پھر ان لوگوں تك پہنچائے جنہوں نے نہيں سنى ، بہت سے فقہ كے حامل ايسے ہيں جو خود فقيہ نہيں ہيں اور بہت سے فقہ كے پہنچانے والے ايسے ہيں كہ جو ايسے شخص تك پہنچا تے ہيں جو ان سے زيادہ عقلمند ہيں _ تين چيزيں ايسى ہيں كہ جن سے مرد مسلمان كا دل خيانت نہيں كرتا ، عمل كو خالص خدا كے لئے انجام دينا ، رہبروں كے لئے بھلائي چاہنا ، يك رنگى اختياركرنا اور مومنين كى جماعت سے جدا نہ ہونا اس لئے كہ ان كى دعا ہر ايك كو گھيرے رہتى ہے ''_

پھر فرمايا_'' اے لوگوں تم شايد اب اس كے بعد مجھے نہ ديكھو آيا تم جانتے ہو كہ يہ كون سا شہر ، كو ن سا مہينہ اور كون سا دن ہے؟''

لوگوں نے كہا '' ہاں يہ حرمت كا شہر ، حرمت كا مہينہ اور حرمت كا دن ہے ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدا نے تمہارے خون تمہارے مال كى حرمت كو اس شہر ، اس مہينہ اور اس دن كى حرمت كى طرح قرار ديا ہے _ كيا ميں نے (پيغام) پہنچا ديا ''_ مجمع نے كہا ''ہاں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدا يا تو گواہ رہنا''_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمايا'' خدا سے ڈرتے رہو اور كم نہ تولو ، زمين ميںتباہى نہ پھيلاو اور ہر وہ شخص جس كے پاس كوئي امانت ہو وہ اسے (اس كے مالك تك) پہنچائے، اسلام ميں سب لوگ برابر ہيں اس لئے كہ سب آدم (ع) و حوا كى اولاد ہيں _ عربى كو عجمى پر اور عجمى كو عربى پرسوائے پرہيزگارى كے اور كوئي برترى حاصل نہيں'' كيا ميں نے (پيغام) پہنچا ديا؟ لوگوں نے كہا'' ہاں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدايا گواہ رہنا''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اپنے نسب كو ميرے پاس نہ لانا بلكہ اپنے عمل كو ميرے پاس لانا

۲۵۶

، جو ميں لوگوں سے كہتا ہوں تم بھى يہى كہو ، كيا ميں نے (پيغام)پہنچا ديا ؟ لوگوں نے كہا ''ہاں'' فرمايا '' خدايا تو گواہ رہنا''_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا وہ خون جو جاہليت ميں بہايا گيا ہے ميرے پير كے نيچے ہے (يعنى اس كى كوئي حيثيت نہيں) اور پہلا خون جس كو ميں اپنے پير كے نيچے قرار ديتا ہوں وہ آدم ابن ربيعہ ابن حارث(۴) (رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وابستگان ميں سے ايك شير خوار بچہ جسے بنى سعد بن بكر نے مارڈالا تھا) كا خون ہے_كيا ميں نے (پيغام)پہنچا ديا؟ لوگوں نے كہا'' جى ہاں'' فرمايا'' خدايا گواہ رہنا''_

پھر فرمانے لگے'' ہر وہ سودجو جاہليت كے زمانہ ميں تھا ميرے پيروں كے نيچے ہے پہلاسود جو ميں اپنے پيروں كے نيچے ركھتا ہوں وہ عباس ابن عبدالمطلب كا رہا ہے '' كيا ميں نے (پيغام) پہنچا ديا؟ '' مجمع نے كہا'' ہاں'' فرمايا خدا يا تو گواہ رہنا _ پھر فرمايا بے شك ماہ حرام ميں تاخير، كفر ميں زيادتى كا باعث ہے اور كافرين اس سے گمراہ ہوں گے (كيونكہ وہ ) ايك سال كو حلال اور ايك سال كو(اپنے فائدہ كيلئے) حرام شمار كرتے ہيں تا كہ جس مہينہ كو خدا نے حرام كيا ہے اپنے مفاد كے موافق بناليں_ آگاہ ہو جاؤ كہ زمانہ ،گزشتہ صورتحال كى طرف پلٹ گيا ہے كہ جس دن خدا نے آسمان اور زمينوں كو پيدا كيا ، بيشك خداوند عالم كے نزديك اس كى كتاب ميں بارہ مہينے ہيں ان ميں سے چار مہينے حرمت كے ہيں _'' رجب ''جو كہ جمادى او ر شعبان كے درميان ہے اوراس كو '' رجب مضر'' كہتے ہيں اور پھر پے در پے تين مہينے ذى القعدہ ، ذى الحجة اور محرم ہيں''بتاؤ ميں نے تمہيں خبردار كرديا؟ لوگوں نے جواب ديا؟ '' ہاں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدايا توگواہ رہنا''_ پھر فرمايا ميں تم كو عورتوں كے ساتھ نيكى كرنے كيلئے كہتا ہوں اس لئے كہ ان كو تمہارے سپر د كيا گيا ہے وہ

۲۵۷

اپنے امر ميں سے كوئي چيز اپنے ہاتھ ميں نہيں ركھتيں تم نے انہيں خدا سے بطور امانت ليا ہے_ خدا كے حكم كے مطابق تم نے ان سے قربت كى ہے تمھارا ان پر كچھ حق ہے ، ان كى معمول و رائج غذا اور لباس تم پر لازم ہے اور تمھارا حق ان پر يہ ہے كہ كسى كا پير تمہارے بستر تك نہ پہنچنے ديں _تمہارى اطلاع اور اجازت كے بغير تمہارے گھروں ميںكسى كو داخل نہ ہونے ديں _ پس اگر ان ميں سے كوئي چيز انجام نہ ديں تو ان كى خواب گاہ سے دورى اختيار كرواور نہايت نرمى سے تنبيہ كرو_

كيا ميں نے تبليغ كردي؟ ''لوگوں نے كہا ''ہاں'' حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''خدا يا گوہ رہنا''_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گويا ہوئے '' اب ميں تم سے غلاموں كے بارے ميں كچھ كہتا ہوں جو كھانا تم كھاتے ہو وہى ان كو بھى كھلاؤ، جو تم پيتے ہو وہى ان كو بھى پلاؤ ،اگر يہ خطا كريں تو سزا كو معاف كردينا _ كيا ميں نے تبليغ كردي؟ '' سب لوگ بولے ''ہاں'' حضرت نے فرمايا'' خدايا تو گواہ رہنا'' پھر فرمانے لگے _'' مسلمان، مسلمان كا بھائي ہے ، ان كے ساتھ حيلہ اور خيانت نہ كرو، ان كى پيٹھ پيچھے بد گوئي نہ كرو نہ ان كا خون حلال ہے اور نہ مال، مگر ان كى رضايت سے ، كيا ميں نے تبليغ كردي؟ '' لوگوں نے كہا ہاں_ فرمايا ''خدا يا تو گواہ رہنا''_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كہا '' شيطان آج كے بعد اس بات سے نا اميد ہو گيا كہ ا س كى پرستش ہوگى _ليكن پرستش كے علاوہ جن كاموں كو تم چھوٹا سمجھتے ہو ان پر عمل ہوگا اور وہ (شيطان) اسى پر راضى اور خوش ہے _ كيا ميں نے بتاديا؟ لوگوں نے كہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدا يا گواہ رہنا'' پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''دشمن خدا ميں سب سے زيادہ گستاخ وہ ہے جو اپنے قتل كرنے والے كے علاوہ كسى كو قتل كرے اور اپنے مارنے والے كے علاوہ كسى كو مارے _ جو اپنے آقا كى نافرمانى كرے اس نے اس چيز كا انكار كرديا جو خدا نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل كى ہے اور جو

۲۵۸

كوئي اپنے باپ كے علاوہ كسى اور كى طرف اپنى نسبت دے اس پر خدا ، فرشتوں اور تمام لوگوں كى لعنت ہے _ كيا ميں نے بتاديا ؟ مجمع بولا '' ہاں'' فرمايا'' خدايا گواہ رہنا'' _پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمايا '' ميں مامور ہوں كہ جہاد كروں تا كہ لوگ خدا كى يكتائي اور ميرى رسالت كے معتقد ہوجائيں _ جب اس كا اقرار كرليں گے توگوياانہوںنے ا پنے مال اور خون كو محفوظ كرليا سوائے ان حقوق كے جو انكى گردنوں پر ثابت ہيں اور ان كا حساب خدا پر ہے ''كيا ميں نے بتاديا؟ '' لوگوں كے كہا '' ہاں'' فرمايا '' خدايا گواہ رہنا'' _پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہيں ايسا نہ ہو كہ ميرے بعد تم گمراہ كرنے والے كافر ہو جاؤ كہ تم ميں سے بعض ، بعض كى گردنوں كے مالك (مالك الرقاب) ہو جائيں_ ميں تمہارے درميان ايسى چيز چھوڑے جارہاہوں كہ اگر تم اس سے متمسك رہے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے _

كتاب خدا اور ميرى عترت و خاندان _(۵) كيا ميں نے تبليغ كردى لوگوں نے كہا _ ''بے شك'' فرمايا'' خدايا گواہ رہنا''_ اس كے بعد فرمايا _ البتہ تم سے سوال ہو گا لہذا تم ميں جو حاضر ہے وہ غائب تك ( يہ پيغامات) پہنچادے_(۶)

غدير خم

۱۸ /ذى الحجہ ۱۰ ھ بمطابق ۱۹ مار چ ۶۳۱ء بروز اتوار

اتوار ۱۸ ذى الحجہ كو جب پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجفہ سے غدير خم كے پاس پہنچے تو امين وحى حضرت جبرئيل ،خدا كى جانب سے يہ پيغام لائے كہ '' اے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى طرف سے جو پيغام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل كيا گيا ہے وہ لوگوں تك پہنچاديں ، اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہيں پہنچا يا تو رسالت كومكمل نہيں كيا _ خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو لوگوں سے بچائے گابے شك خدا كافروں كو ہدايت نہيں كرتا_(۷)

۲۵۹

اس طرح خدا كى جانب سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ديا گيا كہ لوگوں كے درمياں كھلم كھلا حضرت على (ع) كا تعارف كروائيں اور انكى ولايت و اطاعت (جو مسلمانوں پر فرض ہے) كا اعلان كرديں _ حجاج كا كاروان جحفہ(۸) پہنچا _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ وہ لوگ جو آگے بڑھ گئے ہيں لوٹ آئيں اور باقى ٹھہر جائيں تمام مسلمان جمع ہوگئے ان كى تعداد ايك لاكھ بيس ہزار سے زيادہ تھى _ اس روز سخت گرمى كے عالم ميں لوگ پيروں كے نيچے عبا بچھائے ، دامن كو سائبان بنا كر سروں پر ركھ رہے تھے _ نماز جماعت ادا گئي ،پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز كے بعد اس بلند منبر پر جلوہ افروز ہوئے جو اونٹوں كے پالانوں سے بنا يا گيا تھا اور ايك تقرير فرمائي_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كا ترجمہ ملاحظہ ہو

حمد و ثنا خداسے مخصوص ہے ہم اس سے مدد چاہتے اور اس پر ايمان ركھتے ہيں اس پر توكل كرتے اور نامناسب عمل سے اس كى پناہ چاہتے ہيں وہ خدا جس كے سوا كوئي ہادى اور رہنما نہيں ، جس كى وہ ہدايت كرے اس كو كوئي گمراہ كرنے والا نہيں ، ميں گواہى ديتا ہوں كہ اس كے سوا كوئي معبود نہيں ہے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے بندہ اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں _ اے لوگو عنقريب ميں دعوت حق كو لبيك كہنے والا اور تمہارے درميان سے جانے والا ہوں _ ميں بھى جوابدہ ہوں اور تم بھى جواب دہ ہو تم ميرے بارے ميں كيا كہتے ہو ؟ لوگوں نے بہ آواز بلند كہا _

'' ہم گواہى ديتے ہيں كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى رسالت كو پہنچا ديا، نصيحت اور كوشش كى ،خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو نيك جزا دے ''_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' كيا تم اس بات كى گواہى ديتے ہو كہ اللہ كے سوا اوركوئي خدا نہيں ہے _اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے بندہ اور فرستادہ ہيں اور يہ كہ بہشت ، دوزخ ، موت حق ہے اور قيامت كے دن ميں كوئي شك و شبہ نہيں ہے اور خدا قبروں سے تمام سونے

۲۶۰

والوں كو اٹھائے گا؟

لوگوں نے كہا '' جى ہاں'' ہم شہادت ديتے ہے''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدايا گواہ رہنا'' بيشك ميں دوسرے جہان ميں جانے اور حوض كوثر كے كنارے پہنچنے ميں تم پر سبقت لے جاؤں گا _ اور تم حوض پر ميرے پاس حاضر ہوگے _ وہاں ستاروں كى تعداد ميں چاندى كے جام اور پيالے ہوں گے _ ديكھنا يہ ہے كہ تم ميرے بعد ان دو گراں بہا چيزوں سے كيا سلوك كرتے ہو جو ميں تمہارے درميان چھوڑے جارہا ہوں؟

مجمع ميں سے ايك شخص نے بلند آواز سے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ دو گراں قدر چيزيں كيا ہيں؟ فرمايا جو بزرگ ہے وہ كتاب خدا ہے جو تمہارے درميان اللہ كى مضبوط رسى ہے اور دوسرے ميرے اہل بيتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عترت ہيں _ خدائے مہربان اور عالم نے مجھے بتايا ہے كہ يہ دونوں ہر گز ايك دوسرے سے الگ نہيں ہوں گے يہاں تك كہ حوض (كوثر) پر ميرے پا س پہنچيں گے قرآن و عترت سے آگے نہ بڑھنا اور ان دونوں كى پيروى سے منہ نہ موڑنا ورنہ ہلا ك ہوجاؤ گے_

اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علي(ع) كے ہاتھ كو پكڑا اور اتنا بلند كيا كہ دونوں كى بغل كى سفيدى نماياں ہوگئي اور لوگوں نے ان كو ديكھا اور پہچانا_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اے لوگو اہل ايمان پر خود ان سے زيادہ حقدار كون ہے؟'' لوگوں نے كہا '' خدا اور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہتر جانتا ہے _'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:

''بيشك خدا ہمارا مولا ہے اور ميں مومنين كا مولا ہوں اور مومنين كے نفسوں سے اولى اور زيادہ حقدار ہوں _ لہذا جس كا ميں مولا ہوں على (ع) اس كے مولا ہيں _(۹) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۲۶۱

نے اس بات كو تين بار اور حنبلى حضرات كے پيشوا ، احمد بن حنبل كے قول كے مطابق چار بار تكرار فرمايا اس كے بعددعا كے لئے ہاتھ بلند كركے فرمايا

'' بارالہا تو اس كو دوست ركھ جو اسے (علي) دوست ركھے اور اس كو دشمن ركھ جو اس سے دشمنى كرے اس سے محبت فرما جو اس (على (ع) ) سے محبت كرئے اور اس كو مبغوض قرار دے جو اس (على (ع) ) سے بغض كرئے، اس كے دوستوں كى مدد فرما او رجو اس كو رسوا كرے اسے ذليل فرما اور اسے حق كا مدار و محور قرار دے ''(۱۰)

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرماياكہ'' حاضرين غائبين تك يہ پيغام پہنچاديں'' ابھى مجمع پراگندہ بھى نہيں ہوا تھا كہ جبرئيل امين ، وحى الہى لے كر آپہنچے اور آيہ كريمہ '( اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا ً ) (۱۱) نازل ہوئي_

'' آج ميں نے تمہارے دين كو كامل كرديا ، تم پر اپنى نعمتيں تمام كرديں اور تمہارے لئے دين اسلام كو پسند كر ليا ہے ''_اس موقعہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: دين كے كمال ، نعمت كے اتمام اور ميرى رسالت و على كى ولايت پر خداوند متعال ك-ے راضى ہوجانے كے پر مسرت موقعہ پر ، '' اللہ اكبر'' (اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلند آواز سے تكبير كہي) اس كے بعد مسلمانوں نے على ابن ابيطالب(ع) كو امير المومنين كے عنوان سے مبار ك باد دى اور سب سے پہلے ابوبكر و عمر ، حضرت على (ع) كى پاس آئے اور كہا '' مبارك ہو مبارك ہو ، اے ابوطالب (ع) كے بيٹے آج سے آپ(ع) ہمارے اور تمام مومنين كے مولا ہوگئے ''_

پھر شاعر انقلاب اسلام ، حسان بن ثابت نے كہا يارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر جازت ہو تو ميں اس سلسلہ ميں كچھ اشعار پڑھوں _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا خدا كى بركت سے پڑھو_ اور حسان نے فى البديہہ واقعہ غدير خم كو

۲۶۲

اشعار ميں بيان كيا _ ہم يہاں ان كے اشعار ميںسے تين شعر نقل كررہے ہيں _

يناديهم يوم الغدير نبيّهُم

بخُم فَاسْمَع بالرّسول مناديا

فقال لهم: قم يا على فَانَّني

رضيتك من بعدى اماما ً ''و هاديا''

فمن كنت مولاه فهذا وليّه

فكونوا له اتباعَ صدْق مواليّا

يعنى غدير كے دن پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں كو آواز دى ، كيا آواز رسا تھى على (ع) سے فرمايا كہ اٹھو ميںنے تمہيں اپنے بعد لوگوں كى ہدايت اور امامت كے لئے منتخب كيا _

ميں جس كا مولا ہوں على اس كے ولى ہيں ، لہذا از روئے صدق و راستى ان كے پيرو اور دوست بن كر رہو _(۱۲)

۲۶۳

سوالات

۱_ كو ن سى تاريخ كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع كے لئے تشريف لے گئے؟

۲_ غدير كے دن مسلمانوں كا كتنا مجمع تھا؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قافلہ روكنے كا حكم كيوں ديا؟

۴_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدير كے دن حضرت على (ع) كے بارے ميں كيا فرمايا؟

۵_ غدير كے واقعہ كے بعد كون سى آيت نازل ہوئي؟

۲۶۴

حوالہ جات

۱_مغازى واقدى ج ۳ص ۱۰۸۹ _سيرت ابن ہشام ج ۴ص۲۴۸_

۲_اہل سنت كى چند دوسرى كتابوں ميں اس طرح لكھا ہے كہ ''نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تم علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كيا چاہتے ہو؟علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے ہيں اور ميں ان سے ہوں اور وہ ميرے بعد ہر مومن كے ولى وسرپرست و صاحب اختيار ہيں _ ترمذى ج ۵ ص ۶۳۲_ مستدرك حاكم ج ۳ص ۱۱۰_۱۱۱_البداية والنہاية ج ۷ ص ۳۴۵_اسد الغابہ ج ۴ ص ۱۰۷_۱۰۸ _ مسند احمد ابن حنبل ج ۵ ص ۳۵۶_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۵۰ ، تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۴۹

۳_ يہ تقرير سيرت كى مختلف كتابوں ميں دو طريقوں سے نقل كى گئي ہے ايك '' عرفہ ميں تقرير'' كے عنوان سے اور دوسرى '' منى ميں تقرير'' كے عنوان سے تفصيلات كيلئے رجوع كريں: مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۱۰۳_سيرت ابن ہشام ج۴ _ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۱۰ طبرى ج ۳ ص ۱۵۰_

۴_ مغازى واقدى ميں '' اياس بن ربيعة بن حارث '' ذكر ہوا ہے_

۵_انّى تَاركٌ فيْكُمُ الثَّقَلَيْن كتَاب اللَّه وَ عتْرَتى انْ تَمَسَّكْتُمَْ بهما لَنْ تَضّلُوا _ يہ عبارت اہل سنت كى جن معتبر كتابوں ميں مختصر انداز سے ذكر كى گئي ہے ان ميں سے چند كے نام مندرجہ ذيل ہيں _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۲ _ سنن ترمذى ج ۲ ص ۳۰۷_ سنن دارمى ج ۲ ص ۱۴و۱۷و۲۶و۵۹_ خصائص نسائي ص ۳۰_مستدرك حاكم ج ۳ ص ۱۰۹_ كفاية الطالب ج ۱ ص ۱۱_ طبقات ابن سعد ج ۴ ص ۸ _ عقد الفريد ج ۲ ص ۳۲۶و ۱۵۸_ اسد الغا بة ج ۲ ص ۱۲_ حلية الاوليا ج ۱ ص ۳۵۵_ تذكرة الخواص ص ۳۳۲_ منتہى الارب _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۲۰۵_۲۰۶

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۳،۴، ص ۶۰۳ _تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۱۰ _ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۱۰۳_ طبرى ج ۳ ص ۱۵۰ _

۷_( يَا اَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغْ مَا اُنْزلَ الَيْكَ منْ رَّبّكَ وَ انْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رسَالَتَهُ وَ اللّهُ يَعْصمُكَ منَ النّاس انَّ اللّهَ لاَ يَهْدى الْقَوْمَ الْكَافريَْن ) (مائدہ/۶۸)

۲۶۵

۸_مكہ اور مدينہ كے راستہ ميں جحفہ ايك بيابان ہے جہاں غدير خم واقع ہے يہاں سے ہر كارواں جدا ہو كر اپنے ديار كى طرف چلا جاتا ہے_

۹_من كنت مولاه فهذا على مولاه

۱۰_اللّهُمَّ وَالَ مَنْ وَالاهُ وَ عَاد مَنْ عَادَاهُ وَاَحَبّ مَنْ اَحَبَّهُ وَ اَبْغض مَنْ اَبْغَضَهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهْ وَ اْخْذُلْ مَنْ خَذََلَه وَ اَدْر الْحَقَ مَعَهُ حَيْثُ دَار _

۱۱_ سورہ مائدہ آيت ۳

۱۲_ الغدير ج ۱ ص ۹تا ۱۲_ تفسير الميزان ج ۶ ص ۵۳ تا ۵۹ _ علامہ امينى مرحوم نے گيارہويں جلدپر مشتمل اپنى عظيم اور تحقيقى كتاب الغدير ميں حديث غدير كو ايك سو دس اصحاب كى زبانى نقل كيا ہے نيز آپ نے غدير كے بارے ميں اہل سنت كے محدثين ومورخين كے اقوال كو ذكر فرمايا ہے_ يہ بھى ياد دلانا ضرورى ہے كہ يہ كتاب فارسى زبان ميں ترجمہ ہو گئي ہے _

۲۶۶

سولہواں سبق

شورشيں

اسود عنسى كا واقعہ

يمن ميں انقلابى بغاوت

مسيلمہ كذاب كا واقعہ

جھوٹے پيغمبر كى طرف ميلان كا سبب ''قومى تعصب''

جھوٹوں كا انجام

رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت كے حالات كا تجزيہ

لشكر اسامہ كى روانگي

اہل بقيع كے مزار پر

واقعہ قرطاس يا نامكمل تحرير

ناتمام نماز

وداع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

يہ نور ہرگز نہيں بجھے گا

سوالات

۲۶۷

شورشيں

حجة الوداع سے واپسى كے بعد تھكن كى شدت كى بناپر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چند دنوں تك بيمار رہے اس دوران آپ كى تھكاوٹ اور طبيعت كى ناسازى كى خبر چاروں طرف پھيل گئي اور موقعہ كى تلاش اور فائدہ كے چكر ميں رہنے والے افراد نے پيغمبرى كا دعوى كرديا_'' مسيلمہ كذاب'' نے يمامہ اور نجد ميں خود كو پيغمبر اور'' رحمان اليمامة ''كہا _ ''اسود عنسي'' نے يمن ميں خود كو پيغمبر كہا اور شورش كا آغاز كرديا_ اس كے علاوہ'' سجاح ''نامى عورت اور'' طليحہ'' نامى ايك شخص نے بھى اس طرح كے دعوى سے لوگوں كو دھوكہ دينا شروع كرديا _ اس فتنہ كى جڑيں بہت پھيلى ہوئي تھيں ان دھوكہ بازوں نے قومى اور قبائلى تعصب سے فائدہ اٹھا يا اور ايك جماعت كو اپنے گرد جمع كرليا اور جب ان كو قدرت حاصل ہوگئي تو اپنى حكومت و سلطنت كو وسعت دينے لگے_

اسود عنْسيّ كا واقعہ

نمونہ كے طور پر اَسوَد عنسى كا واقعہ پيش ہے جس كو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ناسازگارى طبع كى خبر نے نبوت كے لالچ ميں ڈال ديا اس نے يمن ميں زمانہ جاہليت كے طور طريقوں اور رسوم

۲۶۸

كو كتب عتيق كے قوانين كے ساتھ ملاكر ايك نئے نقطہ خيال كى بنياد ركھى وہ ايك كاہن اور شعبدہ باز تھا جو الٹى سيدھى باتوں كو مسجعّ اور مقفّى بنا كر اس طرح پيش كرتا كہ جو بھى سنتا بد دل ہو جا تا _ جنگجوئي ميں بڑا سنگدل اور چالاك تھا_ظلم و ستم ميں لوگوں كى جان و مال كى پروا نہيں كرتا تھا_

اَسوَدعنسيّ نے اپنے سپاہيوں كے ساتھ چند دنوں ميں نجران پر قبضہ كرليا اور بلافاصلہ يمن كے دار السلطنت صنعا ء پر حملہ كرديا_'' شہر ابن باذام''(۱) ايرانى جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى طرف سے آزادہ شدہ اور اس علاقہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے حكومت كرتے تھے ، انہوں نے لشكر تيار كيا تا كہ اسود كے راستہ كو روك ليں ليكن شورشيوں كے فورى حملہ كى بنا پر شہر ابن باذام كا لشكر ، اسود كے لشكر كا كچھ نہ كر سكا اور شہر ابن باذام اس حملہ ميں شہيد ہو گئے_

اسود عنسيّ كامياب اور كاميابى سے مغرور ہو كر صنعاء ميں داخل ہوا _ اعرابى جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھى دوبارہ اسود كے ہاتھوں اسلام سے خارج ہونے لگے گروہ در گروہ قبائل نے اس كى بيعت كرلى اور خود كو اس كے حوالہ كرديا _ تھوڑى ہى مدت ميں اسود نے تمام يمن ، طائف، بحرين اور حدود عدن پر تسلط جماليا _ان علاقوں ميں باقى ماندہ مسلمانوں نے بھى خوف سے سكوت اختيار كر ليا _اسود نے شہر ابن باذام كى بيوى ''آزاد '' كو زبردستى اپنى بيوى بناليا_(۲)

يمن ميں انقلابى بغاوت

بستر علالت ہى سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدعيان نبوت كے ساتھ جنگ كے لئے نمائندے بھيجنا اورخط لكھنا شروع كيئے_(۳)

۲۶۹

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك خط ميں يمن كے ايرانى ، سركردہ افراد كو حكم ديا كہ دين مقدس اسلام كے دفاع كےلئے قيام كريں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيغام كو دينداورں ، با حميت و غيرت مند افراد تك پہنچائيں اور كوشش كريں كہ فساد كى جڑ اَسود عنسى كو خفيہ يا آشكار ا طور پر ختم كيا جا سكے_(۴)

يمن كے آزاد ايرانيوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق اسلام پر باقى رہ جانے والے قبائل كو اپنے ساتھ تعاون كے لئے بلايا اورجب يہ معلوم ہواكہ اسود اور سپہ سالار لشكر قيس ميں اختلاف ہے تو انہوں نے قيس كے سامنے نہايت خاموشى سے اس موضوع كو پيش كيا اور اس طرح سپہ سالار لشكر كو اپنے ساتھ ملاليا_(۵)

اسود كے قصركے اندرونى معلومات حاصل كرنے كے لئے ''آزاد'' سے رابطہ قائم كيا گيا جو شہر ابن باذام كى بيوى اور اسود كے تصرف ميں تھي_

'' آزاد'' ايك آزادى پسند، شير دل، مؤمنہ اور باعزت خاتون تھيں ان لوگوں كى مدد كى لئے اٹھ كھڑى ہوئيں اور مفيد و قيمتى راہنمائيوں كے ذريعہ انھوں نے مومنين كو اسود كے قتل پر آمادہ كيا _ قصر مكمل طور پر نگہبانوں كى نگرانى ميں تھا_ '' آزاد'' كى راہنمائي ميں ايك سرنگ كے ذريعہ جو اَسوَد عنسى كے كمرہ ميں پہنچتى تھى رات كو جب وہ نيم خوابيدگى كے عالم ميں تھا ، انقلابى مومنين نے حملہ كرديا _ فيروز نے اس كا سر زور سے ديوار سے ٹكرا ديا اور اس كى گردن مروڑدى _اسود كى آواز وحشى گائے كى طرح بلند ہوئي آزاد نے فوراً ايك كپڑا اس كے منہ ميں ٹھونس ديا _ پہرہ دارمحل كے اندر ہونے والى چيخ پكار سے مشكوك ہوگئے اور كمرہ كى پشت سے انہوں نے پوچھا كہ خيريت تو ہے؟ '' آزاد'' نے نہايت اطمينان سے جواب ديا _'' كوئي بات نہيں ہے پيغمبر پر وحى آرہى ہے'' اس طرح انقلابى مومنين اپنى مہم ميں كامياب ہوئے اور پيغمبرى كے جھوٹے دعويدار كو دوزخ ميں پہنچا ديا_دوسرے دن صبح

۲۷۰

مسلمانوں نے اسلامى نعرے لگائے اور كلمہ شہادتين زبان پر جارى كيا _ اَشْہَدُ اَنْ لاَ الہَ الاَّ اللّہ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمّدا رَسُولُ اللّہ _ اور اعلان كيا كہ لوگو اَسوَ د ايك جھوٹے شخص سے زيادہ كچھ نہ تھا اس كے بعد اس كا سر لوگوں كى طرف پھينك ديا _

شہر ميں ايك ہنگامہ شروع ہوگيا اور قصر كے نگہبانوں نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محل كو لوٹ ليا اور جو كچھ اس ميں تھالے كر فرار ہوگئے _ اس وقت مسلمانوں نے آواز دى كہ نماز كے لئے لوگ صف بستہ ہوجائيں اور پھر نماز كے لئے لوگ كھڑے ہوگئے_(۶)

جس رات اَسوَد مارا گيا اسى رات وحى كے ذريعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو معلوم ہوگيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' كل رات ايك مبارك خاندان سے ايك مبارك شخص نے عنسى كو قتل كرديا'' لوگوں نے پوچھا ''وہ كون تھا''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _ فيروز تھا _فيروز كامياب رہے_(۷)

مسيلمہ كذاب كا واقعہ

يمامہ ميں مسيلمہ كذاب نے بھى پيغمبرى كا دعوى كركے اپنا ايك گروہ بناليا اورفتنہ پردازى ميں مشغول ہوگيا _ وہ كوشش كرتا تھا كہ بے معنى سخن گوئي كے ذريعہ قرآن سے معارضہ كرے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابھى سفر حج سے لوٹے تھے كہ دو افراد مسيلمہ كذاب كا خط آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس لے كر پہنچے _ اس ميں لكھا تھا '' مسيلمہ خدا كے رسول كى طرف سے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے رسول كے نام '' ميں پيغمبرى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا شريك ہوں آدھى زمين قريش سے متعلق ہے اور آدھى مجھ سے، ليكن قريش عدالت سے كام نہيں ليتے _(۸)

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت ناراض ہوئے اور مسيلمہ كے نامہ بروں سے فرمايا '' اگر تم سفير اور قاصد

۲۷۱

نہ ہو تے تو ميں تمہارے قتل كا حكم ديديتا_ تم لوگ كس طرح اسلام سے جدا ہو كر ايك تہى مغز آدمى كے پيرو ہوگئے_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ مسيلمہ كو بہت سخت جواب لكھا جائے _ ''خدائے رحمن و رحيم كے نام سے محمد رسول اللہ كى طرف سے دروغ گو مسيلمہ كى طرف_ سلام ہو ہدايت كى پيروى كرنے والوں پر ، زمين ،خدا كى ملكيت ہے اور وہ اپنے صالح بندوں ميں سے جس كو چاہتا ہے زمين كا وارث قرار ديتا ہے اور نيك انجام پرہيزگاروں كے لئے ہے_(۹)

جھوٹے پيغمبر كى طرف ميلان كا سبب ''قومى تعصب''

طبرى كا بيان ہے كہ ايك شخص يمامہ گيا اور پوچھا مسيلمہ كہاں ہے؟

لوگوں نے كہا كہ '' پيغمبر خدا كہو''

اس شخص نے كہا '' نہيں ميں پہلے اس كو ديكھوں گا''

جب اس نے مسيلمہ كو ديكھا تو كہا كہ '' تو مسيلمہ ہے''؟

'' ہاں''

كيا تمہارے اوپر فرشتہ نازل ہوتا ہے؟

ہاں ،اور اس كا نام رحمن ہے_

نور ميں آتا ہے يا ظلمت ميں؟

مسيلمہ نے كہا '' ظلمت ميں''

اس شخص نے كہا كہ ميں گواہى ديتا ہوں كہ تو جھوٹا ہے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سچے ہيں ليكن ميں رَبيعہ كے جھوٹے كو مُضر (حجاز) كے سچّے سے زيادہ دوست ركھتا ہوں_(۱۰)

۲۷۲

جھوٹوں كا انجام

نبوت كى جھوٹى دعويدار سجاح كے ساتھ مسيلمہ نے شادى كرلى _(۱۱) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد لشكر اسلام نے اس كى سركوبى كى اور اس كے قتل كے بعد اس كى جھوٹى نبوت كى بساط اُلٹ گئي_(۱۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ ميں مدعيان نوبت ميں طُلَيحہ نامى ايك شخص تھا جو قبيلہ طيّ، اَسد اور قبيلہ غطفان ميں ظاہر ہوا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبيلہ بنى اسد ميں اپنے نمائندوں كو پيغام بھيجا كہ اس كے خلاف قيام كريں _ وہ لوگ اس پر حملہ آور ہوئے اور وہ فرار كر گيا_(۱۳) اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تدبير سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے آخرى دنوں ميں يا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد جھوٹے پيغمبروں كى بساط الٹ دى گئي_

رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت كے حالات كا تجزيہ

بيمارى سے نسبتاً افاقہ كے كچھ ہى دنوں بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوبارہ عليل ہوئے _ ہر چند كہ تمام جزيرة العرب، حكومت اسلامى كے زير اثر تھا ليكن ايك طرف پيغمبرى كے جھوٹے دعويداروں نے سر اٹھا ركھا تھا اور بہت سے قبائل كے رؤساء كہ جن كے دلوں ميں ابھى تك اسلام كى جڑيں مضبوط نہيں ہوئيں تھيں_ اپنے سابقہ امتيازات سے ہاتھ دھو بيٹھے تھے جو كہ ان پر دشوار تھا_ وہ پيغمبرى كے جھوٹے دعويداروں سے مل كر شورش پر آمادہ ہوگئے_ دوسرى طرف موقعہ كى تلاش ميں رہنے والے منافقين كا مكمل پلا ننگ كے ساتھ يہ ارادہ تھا كہ اسلام كے عظيم رہبر كى آنكھ بند ہوتے ہى حكومت اسلامى پر قبضہ كرليں اور اس كو امامت وولايت كے صحيح راستہ سے منحرف كرديں_

۲۷۳

بہر حال ، رہبر اسلام كى رحلت ،شورشيوں اور مرتدين كے حوصلوں كى تقويت كاموجب ہوتى ، دوسرا اہم موضوع يہ كہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كے سلسلہ ميں كھينچا تانى كے نتيجہ ميں امت اسلامى كے درميان بہت بڑا شگاف پيدا ہوجاتاجوايك بہت بڑا خطرہ ثابت ہوتا _روم ايسى بڑى طاقت بھى انتظار ميں تھى كہ جزيرة العرب پر حملہ كركے اسلام كى جڑكو كاٹ دے _ فتنے اٹھ چكے تھے اندرونى و بيرونى تحريكيں اور سازشيں اسلام كى بنيادوں كو چيلنج كررہى تھى _

لشكر اسامہ كى روانگي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اندرونى سازشوں كے خاتمہ اور خارجى تحريكوں كى سركوبى كے لئے لشكر اسامہ كى تشكيل اور روانگى كا حكم صادر فرمايا _ سپاہيوں كى حوصلہ افزائي كے لئے اپنے ہاتھوں سے پرچم بنا كر ۱۷ يا۱۸ سالہ جوان اسامہ كے سپرد كيا اور سپہ سالار معين فرمايا_(۱۴) اس بہادر نوجوان نے اس لشكر كى كمان سنبھالى جو عالمى استكبار سے جنگ كے لئے آمادہ تھا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسامہ كو حكم ديا كہ اپنے باپ كى شہادت گاہ كى طرف روانہ ہو جاؤ اور جانے ميں جلدى كرو _ صبح كو نہايت تيزى سے ناگہانى طور پر دشمن پر حملہ كردو_(۱۵) پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں سے كہا كہ لشكر اسامہ ميں شركت كريں اور جتنى جلد ى ہو سكے روانگى كے لئے تيار ہو جائيں_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے مقاصد ميں سے ايك مقصد يہ تھا كہ سازشوں كا تانابانا بننے والے ، لشكر كے ساتھ مدينہ سے خارج ہوجائيں تا كہ شہر سازشيوں كے وجود سے خالى ہوجائے اور امير المومنين على (ع) كى خلافت كے راستہ ميں ركاوٹ نہ بنيں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جوان سال اسامہ كا

۲۷۴

انتخاب بھى اس لئے فرمايا تھا كہ اولاً: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہ بتانا چاہتے تھے كہ ذمہ دارياں شخصيت اور لياقت كى بناپر ہوتى ہيں نہ كہ سن و سال اور موہوم شرافتوں كى بناپر، تا كہ آئندہ لوگ حضرت على (ع) كو يہ كہہ كر خلافت سے الگ نہ كر سكيں كہ وہ جوان ہيں _ثانياً: اسامہ كے والد زيدابن حارثہ روميوں كے ساتھ جنگ كرتے ہوئے شہيد ہوئے تھے اس لئے ان ميں روميوں كے خلاف جنگ كرنے كا زيادہ جذبہ تھا اور سپہ سالارى كا عہدہ سونپ دينے كے بعد عملى طور پر ان كى دلجوئي بھى ہو جاتى _

اسامہ نے مدينہ كے قريب مقام '' جرُف'' ميں پڑاؤ ڈال ديا_ بزرگ صحابہ اور مہاجرين سب كے سب اسامہ كے لشكر كے سپاہى اور ان كى ماتحتى ميں تھے _ يہ بات ان ميں سے بعض كےلئے بڑى سخت تھى انہوں نے اعلانيہ طور پر اسامہ كى سپہ سالارى پر اعتراض كيا كہ بزرگوں كى سپہ سالارى كے لئے نوجوان كو كيوں منصوب كيا گيا؟ لشكر كى روانگى ميں عملى طور پر خلاف ورزياں ہوئيں چند دنوں تك لشكر ركا رہا _ مخالفت كر نيوالوں نے لشكر كى روانگى ميں كوتاہى كى اوراپنے بے ہودہ مقاصد كو انجام دينے كے لئے روانگى ميں تاخير كرائي_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بستر علالت پر سمجھ ليا كہ لشكر گاہ سے لشكر كى روانگى كو روكنے كےلئے لوگ كيا كررہے ہيں ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بستر سے اٹھے اور بخار نيز غيظ و غضب كے عالم ميں مسجد ميں تشريف لائے خدا كى حمد كے بعد فرمايا '' اے لوگو ميں لشكر كى روانگى ميں دير ہونے سے بہت ناراض ہوں گويا اسامہ كى سپہ سالارى تم ميں سے ايك گروہ كے اوپر گراں گذرى اور تم نے اعتراضات شروع كرديئےم اس سے پہلے بھى ان كے باپ كى سپہ سالارى پراعتراض كررہے تھے ، خدا كى قسم اس كا باپ سپہ سالارى كے لئے مناسب تھا اور وہ خود بھى

۲۷۵

مناسب ہے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر واپس آگئے اور ہر اس صحابى سے جو آپ كو ديكھنے كے لئے آتا تھا فرماتے: '' لشكر اسامہ كو روانہ كرو''(۱۶)

ليكن سازشيں اس سے بالاتر تھيں يہاںتك كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _'' جو لشكر اسامہ سے روگردانى كرے اس پر خدا كى لعنت ہو''(۱۷)

اہل بقيع كے مزار پر

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شديد بيمارى كے عالم ميں حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (۱۸) كا سہارا لئے قبرستان بقيع كى طرف چلے، اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيچھے پيچھے روانہ ہوئے جب بقيع كے قبرستان ميں پہنچے تو فرمايا:'' ميں مامور ہوں كہ خداوند عالم سے اہل بقيع كے لئے طلب مغفرت كروں ''_پھر فرمايا'' اے زير خاك آرام كرنے والو تم پر ميرا سلام ہو، تم اطمينان و مسرت سے آرام كرو كہ تمھارا زمانہ ان لوگوں كے زمانہ سے زيادہ آسودہ ہے _ فتنے اندھيرى رات كے ٹكٹروں كى طرح بڑھ آئے ہيں '' پھر فرمايا '' على (ع) ہر سال جبرئيل (ع) ميرے پاس قرآن كو ايك مرتبہ پيش كرتے تھے اور اس سال دو بار انہوں نے پيش كيا اس لئے كہ ميرا وقت قريب آگيا ہے''(۱۹)

واقعہ قرطاس يا نا مكمل تحرير

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے آخرى دن تھے ، جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آنكھيں كھوليں تو اپنے بستر كے ارد گرد چند اصحاب كو ديكھا جن كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق اس وقت لشكر اسامہ كے

۲۷۶

ساتھ ہونا چاہيئے تھا_ امت ميں اختلاف كى روك تھام كے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _'' كاغذ اور دوات لاؤ تا كہ ميں تمہارے لئے ايك چيز لكھ دوں كہ اس كے بعد گمراہ نہ ہوگے ''_ ان ميں سے ايك صاحب نے چاہا كہ اٹھ كر قلم دوات لے آئيں ليكن جناب عمر نے اظہار خيال فرمايا '' يہ ( پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب اشارہ)ہذيان بك رہے ہيں ، قرآن تمہارے پاس ہے اور كتاب آسمانى ہمارے لئے كافى ہے '' ايك گروہ نے عمر كا ساتھ ديا اور كچھ لوگوں نے ان كى مخالفت كى ، شور و غل بر پا ہوا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اٹھو اور ميرے گھر سے نكل جاؤ''_(۲۰)

ناتمام نماز

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى علالت كے دوران ايك دن حضرت بلال نے اذان دى اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر و دروازہ پر آكر آواز دى '' نماز خدا تمہارے اوپر رحمت نازل كرے'' _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت زيادہ بيمارتھے اس وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' لوگوں كو كوئي نماز پڑھا دے اس لئے كہ ميں بيمار ہوں''_ عائشےہ نے كہا كہ ابوبكر كو تلاش كرو اور حفصہ نے كہا عمر كو لاؤ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دونوں كى باتيں سنيں اور دونوں بيويوں سے كہا '' ان باتوں سے خود كو روكو كہيں تم ان عورتوں كى طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے يوسف كو گمراہ كرنا چا ہا تھا''_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شديد بيمارى كے عالم ميں اٹھے ، علي(ع) اور فضل بن عباس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دونوں شانوں كو سہارا دے ركھا تھا ، مسجد ميں تشريف لائے ، ابوبكر كو محراب ميں ديكھا كہ نماز كے لئے كھڑے ہوگئے ہيں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہاتھ سے اشارہ كيا كہ ہٹ جاؤ_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ان كى نماز كومكمل نہ ہونے ديا اور دوبارہ نہايت مختصر نماز كا اعادہ كيا _ جب آپ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر تشريف لے گئے تو ابوبكر ،

۲۷۷

عمر اور دوسرے افراد كو بلوا بھيجا جب يہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے پوچھا كہ '' لشكر اسامہ كے ساتھ كيوں نہيں گئے؟ انہوں نے جواب ديا '' ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تجديد بيعت كے لئے لوٹ آئے اور ہم نے يہ نہيں چاہا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيمارى كى خبر دوسروں سے پوچھيں''(۲۱) _

وداع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيمارى نے شدت اختيار كرلى ، فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بستر كے پاس بيٹھى ہوئي باپ كے نورانى اور ملكوتى چہرہ كو ديكھ رہى تھيں _جس پر بخار كى شدت كى بنا پر پسينہ كے قطرے جھلملار ہے تھے، جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوطالب عليہ السلام كا شعر جو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے ميں تھا پڑھا _

وَاْبيَضُ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بوجهه

ثمال اليتامى عصمة للارامل

يعنى : روشن چہرہ اس چہرہ كى آبرومندى كے وسيلہ سے بارش طلب كى جاتى ہے جو يتيموں كى پناہ گاہ اور بيوہ عورتوں كى نگہدار ى كرنے والا ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آنكھيں كھوليں اور فرمايا، بيٹى ، شعر نہ پڑھو ، قرآن پڑھو :

( وَ مَا مُحَمّد الاَ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مَنْ قَبْله الرُّسُل اَفانْ مَاتَ اَوقُتل انْقَلَبْتُمْ عَلَى اَعْقابكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلبْ عَلَى عَقبَيْه فَلَنْ يَضُرَّ اللّهَ شَيْئاً وَ سَيَجْزى اللّهُ الشَّاكريْنَ ) (۲۲)

'' محمد نہيں ہيں مگر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ، ان سے پہلے بھى بہت سے پيغمبر گزر چكے ہيں تو كيا اگر

۲۷۸

انكا انتقال ہوجائے يا قتل كرديئےائيں توكيا تم اپنے گزشتہ لوگوں كے عقائد كى طرف پلٹ جاؤ گے ؟ اور جو اپنے گزشتگان كے آئين كى طرف پلٹ جائے گا وہ خدا كو كوئي نقصان نہيں پہنچائے گا _ خدا شكر كرنے والوں كو نيك جزاء دے گا''_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آہستہ سے حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كے كان ميں كوئي بات كہى آپ(ع) نے گريہ شروع كيا _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى بيٹى كى تكليف برداشت نہ كر سكے اور دوبارہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان(ع) كے كان ميں كوئي بات كہى تو جناب فاطمہ چپ ہوگئيں اور مسكرانے لگيں _

بعد ميں جب لوگوں نے جناب فاطمہ (ع) سے سوال كيا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ(ع) سے كيا كہا تھا كہ پہلى بار آپ(ع) روئيں اور دوسرى بار مسكرائيں ؟ آپ(ع) نے جواب ديا '' پہلى بار آنحضرت سے رحلت كى خبر سنى تو مغموم ہوگئي دوسرى بار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بشارت دى كہ اے فاطمہ ميرے اہل بيت (ع) ميں سے تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگى اس پر ميں بشاش ہوگئي_(۲۳)

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى حيات كے آخرى لمحوں ميں على عليہ السلام كو بلايا اور فرمايا '' علي(ع) ميرا سر اپنى آغوش ميں لے لو كہ امر خدا آن پہنچا ہے''_

اے على (ع) جب ميں اس دنيا ميں نہ رہوں تو مجھے غسل دينا اور پہلى بار مجھ پر نماز پڑھنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا سر علي(ع) كى گود ہى ميں تھا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحمت بارى سے جا ملے _

يہ عظيم حادثہ ۲۸/صفر ۱۱ ہجرى بروز پير بمطابق ۲۸ مئي ۶۳۲ ء كورونما ہوا(۲۴) _ ليكن مورخين اہل سنت كے مطابق پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت ۱۲ ربيع الاول سنہ ۱۱ ھ ق(۲۵) بمطابق ۱۰ جون سنہ ۶۳۲كو ہوئي_

حضرت على (ع) نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے پاكيزہ جسم كو غسل ديا، كفن پہنا يا اور نماز پڑھى اس عالم

۲۷۹

ميں كہ آنسو آپ(ع) كى آنكھوں سے رواں تھے اور فرمايا _

'' ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بيشك آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مرنے سے وحى كا سلسلہ منقطع ہو گيا ''_

وہ چيز جو دوسرے پيغمبروں كى موت كے بعد منقطع نہيں ہوئي ( يعنى نبوت و احكام الہى اور آسمانى خبريں) اگر آپ صبر كا حكم نہ ديتے اور نالہ و فغاں سے منع نہ فرماتے تو ميں آپ (ع) كے فراق ميں اتنا روتا كہ ميرے اشكوں كا سرچشمہ خشك ہو جاتا _(۲۶)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كى خبر نہايت تيزى سے مدينہ ميں پھيل گئي ، علي(ع) جب غسل و كفن ميں مشغول تھے اس وقت ايك گروہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جانشين كا مسئلہ حل كرنے كے لئے سقيفہ(۲۷) ميں الجھ رہا تھا _غسل دينے كے بعد پہلے علي(ع) نے نمازپڑھى پھر مسلمان دستہ دستہ آتے گئے اور نماز پڑھتے گئے ، پھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كو مسجد كے پہلو ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں دفن كرديا گيا_(۲۸)

يہ نور ہرگز نہيں بجھے گا

پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دار بقاء كى طرف روانہ ہوگئے ، ليكن يہ نور نہ تو گل ہوا ہے اور نہ ہوگا_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا آئين مشعل ہدايت كى طرح بشر كے لئے تاريك راستوں ميں راہنما ہے اور كروڑوں ، اربوں انسان صديوں سے اسے آئين كے پيرو ہيں_

آج بھى روزانہ ايك ارب سے زيادہ مسلمان سارى دنيا ميں كروڑوں بار '' اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمدرسول اللہ '' كى آواز گلدستہ اذان سے سن رہے ہيں اور بے پناہ محبت كے ساتھ اس آواز كے دلبر با ترنم كو اپنى زبان پر جارى كرتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) پر درود بھيجتے

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298