تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي20%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162561 / ڈاؤنلوڈ: 3886
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

كيلئے سزا معين كى اور انہيں قتل كرديا يہ ايك سياسى حكم تھا اس وقت اس كا جارى كرنا حكومت كيلئے ان كے اسلام لانے سے بہتر تھا_

شورشوں كا دباجانا

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں اسامہ كے ہمراہ لشكر روانہ كرنے كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس خدمت كو ابوبكر نے انجام نہ ديا اس لشكر كے روانہ كئے جانے كے بعد خليفہ وقت اور ان كے ہمنوا افراد نے كوشش كى كہ جتنى بھى شورشيں اس وقت ابھرى تھيں يكے بعد ديگر ے دبادى جائيں _

طليحہ' سجاح' مسيلمہ اور اياس بن عبداللہ ان لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے يا كسى گوشے ميں پيغمبرى كا دعوا كيا يا سركشى كى ، قتل كرديئے گے يا انہوں نے فرار كى راہ اختيار كى _ جنوب اور مشرق ميں آبا د قبائل اور وہاں كے شہروں ميں آباد لوگ دوبارہ مدينہ كے مطيع و فرمانبردار ہوگئے كيونكہ انہوں نے اس بات كو سمجھ ليا تھا كہ خانہ جنگى سے كوئي فائدہ نہيں بلكہ مصلحت اس ميں ہے كہ مركزى حكومت كى اطاعت قبول كرليں _

حضرت فاطمہعليه‌السلام كى وفات

جس سال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انتقال ہوا اسى سال آپ كى اكلوتى بيٹى فاطمہ زہراعليه‌السلام نے بھى وفات پائي باپ كى موت اور مختصر مدت كے بعد جو سانحات پيش آئے انہوں نے فاطمہ زہراعليه‌السلام كے جسم و روح كو غمگين بناديا _

حضرت زہراعليه‌السلام كے دل ودماغ پر ان واقعات كا ايسا گہرا اثر ہوا كہ آپ كے فرمانے كے بموجب اگر يہ مصائب وآلام دنوں پر پڑتے تو رات كى تاريكى ميں تبديل ہوجاتے _(۲۵) ان

۶۱

صدمات كى تاب نہ لاكر صاحب فراش ہوگئيں ، وہ لوگ جو پيغمبرا كرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خاطر جان بكف رہا كرتے تھے اور ان كے پاس جو كچھ تھا وہ آپ كے والد محترمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وجود كى بركت سے ہى تھا اب ايسے پھرے كہ ان ميں سے چند ہى آپ كى عيادت كو آئے_

جناب صدوق اس ضمن ميں فرماتے ہيں : مہاجر وانصار كى كچھ خواتين آپ كى عيادت كے لئے گئيں آپ نے اس وقت كو غنيمت جانا اور اس موقعے پر جو خطبہ ارشاد فرمايا اس كے بعض اہم اقتباسات يہاں كئے جاتے ہيں :

افسوس تمہارے مردوں نے خلافت كو رسالت كى پائيگاہ، نبوت كى اقامت گاہ اور منزل وحى سے الگ كرديا اور دنيا ودين كے ماہروں سے زمام خلافت چھين ليں يقينا اس ميں انكا سراسر نقصان ہے انہيں ابوالحسنعليه‌السلام سے كيا عداوت تھي_

جى ہاں : انہےں علىعليه‌السلام كى راہ خدا ميں برہنہ شمشير، دليرى اور شجاعت كا خوف تھا_

قسم خدا كى اگر خلافت كو علىعليه‌السلام كے ہاتھ سے نہ ليا ہوتا تو ان كے امور و مسائل كو حل كرنے ميں وہعليه‌السلام خود حصہ ليتے اور انتہائي رضا و رغبت سے شادمانى وكامرانى كى جانب انہيں ہدايت كرتے، تشنگان عدل وانصاف آپ كے چشمہ داد و عدالت سے سيراب ہوتے محروم ولاچار لوگ ان كى پناہ صولت ميں دلير و شير دل ہوجاتے _(۲۶)

بنت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب تك علالت كے باعث صاحب فراش رہيں(۲۷) كسى شخص نے آپكے چہرے پر شادابى اور مسكراہٹ نہ ديكھى آپ ہفتے ميں دو مرتبہ (پير اور جمعرات) شہداء كے مزارات پر جاتيں اور ان كے لئے دعائے خير فرماتےں _(۲۸)

اور بالاخر ہجرت كے گيارہوےں سال ميں بتاريخ سوم جمادى الآخر اٹھارہ سال كى عمر ميں آپ نے اس جہان فانى سے كنارہ كرليا اور اپنے والد بزرگوار كے پاس پہنچ گئيں _(۲۹)

حضرت علىعليه‌السلام نے دختر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل ديا نيز آپ كى وصيت كے مطابق خواص كے علاوہ ديگر افراد كى غير موجودگى ميں نماز جنازہ ادا كى اور راتوں رات آپ كے جسد مطہر كو سپرد خاك كركے

۶۲

قبركے نشان كو محو كرديا اس كے بعد آنحضرتعليه‌السلام نے مزار پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب رخ كيا اور فرمايا:

يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرى اور اپنى دختر كى جانب سے جواب آپ كے جوار ميں پہنچ گئي ہيں اور بہت جلد آپ سے جاملى ہيں سلام قبول فرمايئے اور يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ كى برگزيدہ و پاك دختر كى جدائي كے باعث ميرا پيمانہ صبر لبريز ہوچكا ہے اور اب مجھ ميں غم برداشت كرنے كى تاب نہيں

آپ كے پيارى بيٹى جلد ہى آپ كو مطلع كرديں گى كہ آپ كى امت نے ان پر ستم رواركھنے كى غرض سے كيا كيا باہمى سازشيں نہ كيں ان پر جو كچھ گذرى انہى كى زبانى سنيئے اور يہ وقت كس طرح گذرا اس كى كيفيت انہى سے دريافت فرمايئے اگرچہ آپ كى رحلت و زمانہ حيات كے درميان كافى عرصہ نہيں گذرا ہے اور آپ كى ياد دلوں سے بھى محو نہيں ہوئي ہے_(۳۰)

-

۶۳

سوالات

۱ _ حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں كن لوگوں نے پناہ لى اور كيوں ؟

۲ _ واقعہ سقيفہ كے بعد حضرت عليعليه‌السلام كا كيا موقف رہا ؟ اس حساس كيفيت كى وضاحت كيجئے ؟

۳ _ حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال كى روشنى ميں كنارہ كشى كے اسباب بيان كيجئے ؟

۴ _ حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ وقت سے كس وقت مصالحت كى تھى ؟

۵ _ فدك كہاں واقع ہے يہ مسلمانوں كے ہاتھ كس طرح آيا اور رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے زمانہ حيات مےں كسے بخشا ؟

۶ _ فدك پر قابض ہونے كے محركات بيان كيجئے ؟

۷ _ ابوبكر كى حكومت كے مقابل اہل '' ردہ '' كا كيا ردعمل رہا كيا وہ سب مرتد ہو گئے تھے ؟

۸ _ مرتدين كے ساتھ جنگ كرنے ميں ابوبكر كے پيش نظر كيا محركات تھے اس بارے ميں خليفہ ثانى كا بھى نظريہ پيش كيجئے ؟

۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى وفات كس سنہ ميں واقع ہوئي رحلت كے وقت آپ كى كيا عمر تھى آپ كى تكفين و تدفين كى رسومات كس طرح ادا كى گئيں ؟

۶۴

حوالہ جات

۱ _ جن حضرات كے نام ديئے گئے ہيں ان مےں زبير ' عباس بن ابى لہب ' سلمان ' ابوذر ' مقداد عمار، براء ' ابى بن كعب'سعد بن ابى وقاص اور طلحہ شامل ہيں ليكن الفصول المہمة ميں ان افراد كے علاوہ ديگر حضرات كے نام بھى درج ہيں _

۲ _ الامامة والسيلة ج۱ / ۲۰ _

۳ _ الامامة والسيلمة ج۱ / ۱۹_

۴ _ الشيعة والى كمون / ۱۸ _

۵ _لو وجدت اربعين ذويى عذم منهم لنا هضت القوم شرح ابن ابى الحديد ج۲ / ۴۷ و ۲۲

۶ _ نہج البلاغہ (صبحى صالح)خلبہ ''فنظرت فاذا ليس معين الا اهل بيتيى فضنت بهم عن الموت _

۷ _ اس جماعت نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد اسلام كى مركزى حكومت كے خلاف بغاوت شروع كر دى اور ايك مدت اس كے حملے جارى رہے _

۸ _ نہج البلاغہ خطبہ ج'' شقوا امواج الفتن بسفن النجاة ، عرجوا عن طريق المناضرة وضعوا بتيجان المفاخرة اندمجت على مكنون علم لوبحت به لاضطربتم الاشية فى الطوى البيصره'' _

۹ _'' وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيہ فلن يضراللہ شيئا وسيجزى اللہ الشاكرين'' (محمد اس كے سوا كچھ نہيں كہ بس ايك رسول نہيں ان سے پہلے اور رسول بھى گذر چكے ہيں كيا اگر وہ مر جائيں يا قتل كر ديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤں گے ؟ ياد ركھو جو الٹا پھرے گا وہ اللہ كا كچھ نقصان نہ كرے گا البتہ جو اللہ كے شكر گزار بندے بن كر رہيں گے انھيں وہ اس كى جزادے گا)آل عمران آيہ ۱۴۴_

۱۰ _ نہج البلاغہ خط ۶۲ _

''فامسكت يديى حتى رايت راجعة الناس قد رجعت عن الاسلام يدعون الى محق دين محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فخشيت ان لم انصر الاسلام واهله ان ارى فيه ثلما اوهدما تكون المصيبة به على اعظم من فوت ولايتكم التى هيى متاع ايام قلائل يزول منها ماكان كما يزول السراب اوكما يتقشع السحاب '' _

۶۵

۱۱ _ تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو اسد الغابہ ج۳ / ۲۲۲ ' تاريخ يعقوبى ۲ / ۱۲۶ ' استيعاب ج۲ / ۲۴۴ ' التنبيہ والا شراف / ۲۵۰ اور الامامة والسيامة ج۱ / ۲۰ _

۱۲ _ نہج البلاغہ خطبہ ۳، يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مصالحت اور اجتماعا ميں شركت اسى حد تك تھى كہ جتنى اسلام و مسلمين كى حفاظت كا تقاضا تھا _

۱۳ _فدك خيبر كے نزديك مدينہ سے ۱۴۰ كلوميٹر كے فاصلے پر سرسبز و زرخيز زمين تھى فتح خيبر كے بعد رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك وفد ''فدك'' كے سرداروں كے پاس بھيجا اور بحث و گفتگو كے بعد وہاں كے رہنے والوں نے يہ عہد كيا كہ ہر سال خيبر كى جتنى پيداوار ہوگى اس كا نصف حصہ وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيج ديا كريں گے اور اس كے عوض حكومت كى جانب سے ان كى حفاظت كى جائے گي_اسلامى نظريے كے مطابق وہ زمين جو بغير جنگ كے مسلمانوں كو حاصل ہوتى ہے وہ خالص پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و امامعليه‌السلام كا حصہ ہے اس مسئلے كى رو سے ''فدك'' صرف رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حق تھا چنانچہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى شيعہ محدثين و مفسرين نيز بعض سنى مفكرين كے قول كے مطابق جس وقت آيت ذالقربى حقہ (سورہ اسراء آيت ۲۶) نازل ہوئي تو آپ نے اپنى دختر حضرت فاطمہعليه‌السلام كو بلايا اور ''فدك'' انہيں ديديا(كشف الغمہ ج ۱ / ۷۶ ۴) _

۱۴_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۳۱_

۱۵_ مروج الذہب ج ۳/ ۲۳۷_

۱۶_ فتوح البلدان ۴۴ شيعہ احاديث ميں مذكورہ بالا شواہد كے علاوہ اسماء بنت عميس كا نام بھى شاہد كى حيثيت سے آيا ہے_

۱۷_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۲۲_

۱۸_ اعيان الشيعہ (دس جلدي) ج۱/۳۱۸ منقول از سيرہ حلبي_

۱۹_ كامل ابن اثير ج ۲ / ۳۲۶ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۴۵ _

۲۰_ تاريخ طبرى ج۳/۲۰۲_

۲۱_ زيد بن ثابت كچھ رقم لے كر بنى عدى كى ايك خاتون كے پاس پہنچے اور كہا كہ يہ وہ رقم ہے جو خليفہ نے عورتوں كے درميان تقسيم كى ہے اور يہ تمہارا حصہ ہے اس نيك خاتون نے اپنى ذہانت كے باعث اس رقم كو قبول

۶۶

كرنے سے انكار كيا اور كہا كيا ميرا دين خريدنے كے لئے مجھے يہ رشوت دى جارہى ہے _ (شرح ابن ابى الحديدج۲/۵۳، طبقات ابن سعد ج ۳/۱۸۲)_

۲۲_البدايہ والنہايہ ج ۶ /۳۱۱ قال عمر ھو الاّ ان را يت اللہ قد شرح صدر ابى بكرللقتال فعرفت انہ الحق ''ليكن صحيح بخارى ج ۷/ ۱۷۱ ميں عمر كا جملہ اس طرح نقل كيا ہے فواللہ ما ہو الا ان قد شرح اللہ صدر ابى بكر فعرفت انہ الحق ''_

۲۳_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۱_

۲۴_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۲_

۲۵_ صبت على مصائب لوانہاصبت على الايام صرن لياليا

۲۶_احتجاج طبرسى ج ۱/ ۱۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج /۱۶ / ۲۳۳، بلاغات النساء /۱۹ اور دلائل الامامہ طبري/ ۳۹_

۲۷_ حضرت فاطمہعليه‌السلام كتنے عرصے تك عليل رہيں اس كے بارے ميں اختلاف ہے ابن شہر آشوب نے مناقب ميں بيان كيا ہے كہ آپ چاليس دن تك مريض رہيں اور اسى مرضى كے باعث آپ كى وفات واقع ہوئي حضرت امام باقرعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپ پندرہ تك عليل رہيں اور اس كے بعد آپ كى رحلت ہوئي_(اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹)_

۲۸_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹_

۲۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى تاريخ وفات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد آپ كى مدت عمر كے بارے ميں اختلاف ہے كتاب كے متن مےں جو بات درج كى گئي ہے وہ اقوال مشہور كے مطابق ہے مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت فاطمہ(س)رحلت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد كم از كم چاليس دن اور زيادہ سے زيادہ آٹھ ماہ اس جہان فانى ميں تشريف فرما رہيں مذكورہ بالا دونوں اقوال كے علاوہ مختلف روايات ميں دو ماہ سے پچھتر دن ' تين ماہ اور چھ ماہ عرصہ بھى نقل كيا گيا ہے _

۳۰ _ نہج البلاعہ (صبحى صالح)خ ۲۰۲ _

۶۷

چوتھا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳

سر زمين شام و عراق كى فتح

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

حضرت علىعليه‌السلام ، اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

جانشينى كا تعين

قلمر و اسلام كى وسعت

فتوحات كى خوشنجريوں كے اثرات

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى و علمى مشورے

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

بيت المال كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

خليفہ دوم كا قتل

كونسى شورى ؟

مذكورہ شورى كے بارے ميں عليعليه‌السلام كا رويہ

حضرت علىعليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ

۶۸

عثمان كى خلافت

مسلمانوں كا بيت المال

حضرت علىعليه‌السلام كے پند و نصايح

خليفہ سوم كا قتل

حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران علىعليه‌السلام كے كارنامے

سوالات

حوالہ جات

۶۹

سرزمين شام و عراق كى فتح

داخلى جنگوں كى آگ جب خاموش ہو گئي تو خليفہ وقت نے دو اہم لشكر تيار كيئے ان ميں سے ايك لشكر خالد كے زير فرمان عراق كى جانب روانہ كياجس پر اس وقت ساسانى حكومت كا اثر و غلبہ تھا اور دوسرا لشكر ابو عبيدہ كى سركردگى ميں شام كى سمت ' مشرقى روم كى جانب روانہ كيا _

خالد سب سے پہلے '' حيرہ '' كى طرف متوجہ ہوا ليكن وہاں كے حاكم نے صلح و امن كا طريقہ اختيار كيا اور نوے ہزار درہم ادا كر كے اپنے ملك كے تابع سرزمين كو مسلمين كى در ازدستى سے بچا ليا حيرہ كے بعد '' آبلہ '' '' عين التمر '' اور '' انبار '' جيسے شہر جنگ يا معاہدہ صلح كے ذريعے تابع و مطيع كئے گئے _

عراق كى جانب جب لشكر روانہ كيا گيا تھا تو وہ كاميابى سے ہمكنار ہوا مگر جو لشكر رومى شانہشاہيت كے متصرفات كو فتح كرنے كى غرض سے بھيجا گيا تھا اس كے بارے مےں احتمال تھا كہ كہيں شكست سے دو چار نہ ہو اس خدشے كے پيش نظر ابوبكر نے خالد كو عراق سے واپس بلا ليا اور مسلمانوں كى مدد كے لئے انھيں شام كى جانب جانے پر مقرر كيا خالد كے چلے جانے كے بعد قبيلہ بكر كے سردار مثنى نے لشكر عراق كے ماندارى كى ذمہ دارى قبول كى اور حيرہ سے بابل (يہ شہر موجودہ حلہ كے نزديك واقع تھا)كى جانب روانہ ہوئے خالد جب اپنا مختصر لشكر اسلام لے كر '' يرموك '' پہنچے تو لشكر اسلام كو اس سے بہت فرحت حاصل ہوئي اور بے مثال بہادرى و دليرى سے جنگ كر

۷۰

كے انہوں نے سپاہ روم كو شكست دى چنانچہ انھوں نے پسپا ہو كر دمشق ميں پناہ لى _

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

ابوبكر اگرچہ مسند خلافت پر متمكن ہو گئے ليكن مہاجر و انصار كى نظروں ميں ان كا شمار افضل و اعلى دانشور صحابہ رسول ميں نہيں ہوتا تھا مثلا تفسير قرآن مجيد كے وہ قابل اعتناء توجہ مطالب بيان نہےں كر سكتے تھے چنانچہ جلال الدين سيوطى جيسا تتبع مفسردس سے زيادہ تفسير و مطالب تفسير ان سے نقل نہےں كر سكا ہے جبكہ وہى مفسر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں لكھتا ہے كہ علم تفسير ميں آپ كى بہت سے روايات بيان كى گئي ہيں _(۵)

حنبلى مسلك كے پيشوا مام احمد بن حنبل كو دس لاكھ احاديث ياد تھيں ''(۶) مسند'' ميں انہوں نے پچاس ہزار سات سو احاديث نقل كى ہيں او جو احاديث انہوں نے ابوبكر كے واسطے سے نقل كى ہيں ان كى تعداد اسى (۸۰) سے كم ہى ہے(۷)

ابن كثير نے بہت زيادہ تلاش و جستجو كے بعد ابوبكر سے منقول بہتر (۷۲) احاديث جمع كى ہےں اور انھيں ''مجموعہ مسند صديق '' كا نام ديا ہے جلال الدين سيوطى كى علم تفسير و احاديث پر كافى دسترس تھى اس نے مجموعہ ابن كثير كا سند كے اعتبار سے جايزہ ليا ہے اور ان كى تعداد كو اس نے ايك سو چار تك پہنچا ديا ہے(۸)

حضرت علىعليه‌السلام ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

اوپر جو بيان كيا گيا ہے اس كے پيش نظر ابوبكر كے لئے علمى ہى نہيں بلكہ سياسى مشكلات ميں بھى اس كے سوا چارہ نہ تھا كہ ضرورت كے وقت حضرت علىعليه‌السلام سے رجوع كريں اور آپ سے مدد چاہيں اور يہ بات اس امر كى واضح دليل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كتاب خدا ،حديث رسولعليه‌السلام اور اسلام

۷۱

كے سياسى مصالح كے بارے ميں سب سے زيادہ باخبر ، ذى ہوش شخص تھے مثال كے طور پر ہم يہاں دو واقعے بيان كر رہے ہيں _

اہل روم سے جنگ كرنے كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خود فرمان تھا اسے نافذ كرنے مےں ابوبكر كو تردد تھا اس سلسلے ميں انہوں نے بعض صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشورہ بھى كيا چنانچہ ہر شخص نے اس سے متعلق اپنى رائے كا اظہار كيا بالاخر انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے مشورہ كيا اور رائے جاننا چاہى آپ نے پيغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كو نافذ كئے جانے كى ترغيب دلائي اور مزيد فرمايا '' ان فعلت ظفرت '' يعنى اگر آپ يہ اقدام كريں گے تو كامياب ہوں گے خليفہ نے بھى آپ كے كہنے پر عمل كيا _(۹)

۲ _ ايك شخص نے شراب پى ركھى تھى نشہ كى حالت ميں اسے خليفہ كے روبرو لايا گيا اس شخص نے كہا مجھے علم نہ تھا كہ شراب پينا حرام قرار ديا گيا ہے كيونكہ اب تك ميں نے اس ماحول ميں پرورش پائي ہے جہاں شراب كو حلال سمجھا جاتا ہے خليفہ كى سمجھ ميں نہيں آيا كہ كيا كريں چنانچہ انہوں نے ايك شخص كو حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں روانہ كيا اور كہا كہ اس مشكل كو حل فرمائيں _(۱۰)

جانشينى كا تعين

عمر نے ابوبكر كو خليفہ بنانے كے لئے بہت زيادہ سعى وكوشش كى جس كا مقصد يہ تھا كہ خليفہ اول كے بعد خلافت ان كو ملے ، ابوبكر نے بھى ان كى مرضى كے خلاف كوئي اقدام نہ كيا_ جس وقت بستر علالت پر وہ تھے تو انہوں نے عثمان كو بلايا اور كہا لكھو:

يہ عہد نامہ ابوبكر جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مسلمانوں كے لئے ہے بات يہيں تك پہنچى كہ ابوبكر پر غشى طارى ہوگئي عثمان كو يہ گمان گذرا كہ شايد خليفہ گذر گئے ہيں چنانچہ انہوں نے اس عہدنامے كى اس طرح تكميل كي_ ابوبكر نے اپنے بعد عمر بن خطاب كو اپنا جانشين مقرر كيا ہے _ اسى اثناء ميں ابوبكر كو ہوش آگيا اور جب انہيں يہ معلوم ہوا كہ عثمان نے كيا لكھا ہے تو انہوں نے كہا ''تم نے

۷۲

ٹھيك لكھا ہے اس معاملے ميں ميرى اور تمہارى ايك ہى رائے ہے_ (۱۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے نہج البلاغہ ميں ابوبكر كے اس اقدام پر سخت تنقيد كى ہے _ چنانچہ فرماتے ہيں ''عجيب بات ہے كہ وہ شخص جو زندگى ميں لوگوں سے كہا كرتا تھا كہ وہ ميرا عذر قبول كريں اور (علىعليه‌السلام كے ہوتے ہوئے) اس كو خلافت سے معذور ركھيں خود مرتے وقت خلافت (كى دلہن) كا پلا دوسرے سے باندھ گيا _(۱۲)

قلمرواسلام كى وسعت

عمر كے دور خلافت ميں مسلمانوں كو بہت سى فتوحات نصيب ہوئيں اور ايران و روم جيسى دو عظےم شہانشاہى حكومتوں كے دروازے ان پر كھل گئے_

عراق ميں مسلمانوں نے جس تيزى سے پيشرفت كى اس كے باعث انہيں يہ اميد نظر آنے لگى كہ ساسانى حكومت كے اصل سرزمين پر بھى وہ حملہ كرسكيں گے چنانچہ عمر نے ابوعبيدہ كو ايران كى فتح كے لئے فرماندار مقرر كيا اور مثنى چونكہ عراق ميں مقيم تھے انہيں حكم ديا كہ وہ اپنے لشكر كے ساتھ ابوعبيدہ كى اطاعت و پيروى كريں _

ايران كے بادشاہ ''يزدگرد سوم'' نے اپنے سرداروں كو كثير طاقت جمع كرنے كے بعد حكم ديا كہ وہ مسلمانوں كى پيشرفت كو روكيں اگرچہ اس كے سردار ہر چند لايق و جنگجو تھے مگر وہ سب ايك دوسرے كے بعد يا تو قتل ہوئے يا انہوں نے لشكر اسلام سے صلح كرلي_ ايرانى سرداروں ميں بہمن جادويہ ہى ايسا سردار تھا جو مطيع و فرمانبردار نہ ہوا چونكہ اس كى فوج ہاتھيوں كے لشكر سے آراستہ تھى جنہيں ديكھ كر عربوں كے گھوڑے بھڑك گئے چنانچہ ''جسر'' ميں ابوعبيدہ شہيد ہوئے اورباقى لشكر نے پسپا ہوكر فرات كے پار جاكر پناہ لي_

ليكن ايك سال بعد(۱۴ ھ) ميں سپاہ اسلام نے مثنى كے زير فرمان ''بويب(۱۲) '' ميں سپاہ ايران پر فتح پائي اور اس سے جنگ جسر كى شكست كى تلافى ہوگئي_

۷۳

اس كے بعد قادسيہ وقوع پذير ہوئي اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو ايرانى اور اسلامى افواج كے سپہ سالاروں (سعد وقاص اور رستم فرح زاد) كے درميان ايلچيوں كے ذريعے گفت وشنيد ہوتى رہى _ ايلچيوں كى اس ملاقات ميں سپاہ اسلام كے سپہ سلار نے بھى مطالبہ كيا كہ دو چيزوں ميں سے ايك چيز قبول كى جائے، اسلام يا جزيے كى ادائيگى _ ليكن رستم فرح زاد جو بڑا خود سر سردار تھا يہى كہتا رہا كہ جس وقت تك ہم تمہيں قتل نہ كرديں گے دم نہ ليں گے_

بالآخر چار دن كى جنگ كى بعد مسلمان فتح و كامرانى سے ہمكنار ہوئے اور اس طرح محرم سنہ ۱۴ ھ ميں ايران كے دروازے لشكر اسلام پر كھل گئے اور نور ايمان وتوحيد نے اس سرزمين كو اپنى آمد سے منور كيا_

دوسرى طرف شہنشاہ روم كى فوج نے يرموك ميں اپنى شكست كے بعد دمشق ميں پناہ لى اور اپنى اس شكست كے تلافى كرنے كى غرض سے اس نے عظےم فوجى طاقت جمع كى ليكن يہ لشكر بھى شكست سے دوچار ہوا اور مسلمانوں نے دمشق و اردن جيسے شہروں پر فتح پائي_ سنہ ۱۷ ميں مسلمانوں نے فلسطين كو بھى جو فوجى اور تاريخى لحاظ سے اہم شہر تھا ، تسخير كيا_ ۱۹ ھ ميں عمر وعاص نے بحر احمر كو عبور كركے مصر كى جانب رخ كيا_''بابليوں '' ميں باز نطينى سپاہ سے مقابلہ ہوا اس ميں بھى لشكر اسلام كو كاميابى نصيب ہوئي _ وہاں سے وہ عين الشمس اور روم كى جانب روانہ ہوا تاكہ شہنشاہ روم كى رضايت حاصل كركے اسكندريہ پہنچ جائے _ چنانچہ چند ماہ كے محاصرے كے بعد اسكندريہ كو بھى فتح كرليا اور اس طرح شمالى افريقہ كے لئے راستہ ہموار ہوگيا_

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات

مغايرت و مخالفت سے قطع نظر جو محركات خلفاء كے زمانے ميں ان فتوحات كے ذريعے مسلمانوں كو ہوئے اگر ان كا موازنہ ان جنگوں اور فتوحات سے كياجائے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ظہور پذير ہوئيں تو اس نكتے كو ملحوظ خاطر ركھنا ضرورى ہے ، ان فتوحات سے يہ ثابت نہيں ہوتا

۷۴

كہ ان كے باعث دربار خلافت كى شان وشوكت ميں اضافہ ہوا ، اس ميں شك نہيں كہ ايك طاقتور و فاتح فوج كو اعلى مقاصد ، حوصلہ مندانہ آمادگى ، فن حرب وضرب سے واقفيت اور فوجى تربيت جيسے عوامل و اوصاف كا مجموعہ ہوناچاہئے مگر اس كا چندان ربط و تعلق موجودہ سپہ سالاروں سے نہيں تھا _ مسلمانوں كى فتح وكامرانى ميں جو عوامل كار فرما تھے اور انہيں دو عظيم شہنشاہى حكومتوں سے قوت آزما ہونے كيلئے ترغيب دلاتے تھے، وہ پيغمبرا كرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ خوش خبرى تھى كہ مسلمان ايران اور وم جيسى سرزمينوں كو فتح كريں گے ان كے علاوہ بھى ديگر ايسے عوامل تھے جن سے مسلمانوں كى ميدان جنگ ميں حوصلہ افزائي ہوتى تھى مگر انكا تعلق كسى طرح بھى حكومت وقت سے نہ تھا بلكہ ان ميں وہ شہرت ونيك نامى كے عناصر كار فرماتھے جو رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شير خدا علىعليه‌السلام جيسے پيشوايان اسلام نے اپنے كردار كے ذريعے قائم كئے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے

حضرت علىعليه‌السلام خليفہ اول كى طرح خليفہ دوم كے بھى اہم مشكل كشا تھے اور ان كى بھى سياسى و علمى مشكلات كو حل فرماتے تھے يہاں ہم بطور مثال دو واقعات پيش كررہے ہيں _

جنگ قادسيہ ميں سپاہ ايران كى شكست كے بعد ايران كے بادشاہ يزدجرد نے فيروزان كے كمانڈرى ميں عظيم لشكر مرتب كيا تاكہ وہ آيندہ عربوں كے حملات كا سد باب كرسكے ، كوفہ كے حاكم نے خط كے ذريعے تمام واقعات كى اطلاع خليفہ كو دى ، عمر مسجد ميں آئے اور اصحاب سے مشورہ كيا كہ وہ مدينہ ميں ہى رہيں يا اس علاقے ميں پہنچ كر جو بصرہ وكوفہ كے درميان واقع ہے ، سپاہ اسلام كى كمان سنبھاليں _ عثمان اور طلحہ نے دوسرے نظريے كى تائيد كى اور اس ضمن ميں مزيد كہا كہ آپ سرداران سپاہ شام ويمن كو لكھيں كہ وہ آپ سے ملحق ہوں _ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے دونوں ہى نظريات كى مخالفت كى اور فرمايا كہ وہ شہر جو حال ہى ميں مسلمانوں كے تصرف ميں آئے ہيں انہيں فوج سے خالى نہيں رہنا چاہيئےيونكہ ايسى صورت ميں ممكن ہے كہ حبشہ كى فوج يمن پر اور روم كا لشكر

۷۵

شام پر قبضہ كرلے _ عمر كى پہلى تجويز كے بارے ميں بھى آپ نے مشورہ ديا اور فرمايا كہ اگر آپ مدينہ سے باہر چلے جائيں گے تو ممكن ہے كہ اطراف كے اعراب اس موقع كا فائدہ اٹھائيں اور يہاں كوئي فتنہ بپا كريں اس كے علاوہ اگر آپ محاذ جنگ پر پہنچيں گے تو دشمن جرى ہوجائے گا كيونكہ جب عجمى سپاہى آپ كو ديكھيں گے تو كہيں گے كہ عربوں كى جڑ بنياد يہى شخص ہے گر اس كو كاٹ ڈاليں تو سارا جھگڑا ہى پاك ہوجائے گا_

حضرت علىعليه‌السلام كى بات سننے كے بعد عمر نے روانگى كے خيال كو ترك كرديا اور كہا كہ قابل عمل رائے علىعليه‌السلام كى ہے مجھے انہى كى پيروى كرنى چاہيئے_(۱۳)

ايك شخص خليفہ كے پاس آيا اور شكايت كى كہ ميرى بيوى كے يہاں شادى كے چھ ماہ بعد ولادت ہوئي ہے عورت نے بھى اس بات كو قبول كيا اس پر خليفہ نے حكم ديا كہ اسے سنگسار كياجائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حد جارى كرنے سے منع كيا اور فرمايا كہ قرآن كى روسے عورت چھ ماہ پورے ہوجانے پر وضع حمل كرسكتى ہے كيونكہ مدت حمل اور شيرخوار تيس ماہ معين ہے_(۱۴)

اور دوسرى آيت ميں دودھ پلانے كى مدت دوسال بتائي گئي ہے _(۱۵) اور اگر تيس ماہ ميں سے دو سال كم كرديئے جائيں تو مدت حمل چھ ماہ رہ جاتى ہے _ حضرت علىعليه‌السلام كى منطقانہ گفتگو سننے كے بعد عمر نے كہا''لو لا على عليه‌السلام لهلك عمر'' _''اگر علىعليه‌السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاك ہوجاتا''_(۱۶)

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

ابوبكر و عمر كے زمانہ خلافت ميں بنى ہاشم اور حضرت علىعليه‌السلام كے ہوا خواہوں كو عملى طور پر حكومت كے اہم عہدوں سے دور ركھا گيا اور يہ كوشش كى گئي كہ اس زمانے كہ دل ودماغ سے اہل بيتعليه‌السلام كى اعلى اقتدار كو محو كردياجائے_

اس كے مقابل اموى گروہ بتدريج معاشرے كى رہبرى ميں اثر رسوخ پيدا كرتا رہا _ اس

۷۶

نظريے كے بہت سے تاريخى شواہد موجود ہيں جن ميں سے چند كا ذكر ذيل ميں كياجاتا ہے_

۱_ ابوبكر نے اس زمانے كى وسيع وعريض مملكت ميں سے چھوٹا سا حصہ بھى بنى ہاشم ميں سے كسى كو نہيں ديا كہ جبكہ شام كو سياسى اہميت حاصل ہونے كے باوجود ابوسفيان كے بيٹے يزيد كے اختيار ميں ديديا تھا _(۱۷)

۲_ عمر ''حميص'' كى حكومت حضرت ابن عباس كو دينے سے منصرف ہوگئے جبكہ معاويہ كو شام پر مسلط كرنے كے سلسلہ ميں كسى قسم كا دريغ نہيں كيا _

۳_ محض چند لوگوں كى اس شكايت پر كہ عمار ياسر ايك ضعيف انسان ہيں خليفہ دوم نے كوفہ كى گورنرى سے انہيں معزول كيا اور مغيرہ كو گورنر مقرر كيا چند روز بعد مغيرہ كى بھى شكايت پہنچى ليكن اس كا ذرہ برابر اثر نہ ہوا_(۱۸)

خليفہ اول و دوم اگرچہ ابوسفيان سے بہت زيادہ خوش نہ تھے اور اسى وجہ سے انہوں نے اموى خاندان كے افراد كو حد سے زيادہ سياسى امور ميں داخل ہونے نہيں ديا مگر اس كا ميدان انہوں نے عثمان كے زمانہ خلافت ميں ہموار كرديا تھا _ مثلاً عمر جانتے تھے كہ شورى جس كى انہوں نے تشكيل كى ہے اس كانتيجہ يہ برآمد ہوگا كہ عثمان كو خليفہ منتخب كرلياجائے گا چنانچہ اس نے خود بھى يہ بات كہہ دى تھى كہ اگر عثمان حاكم ہوئے تو وہ بنى اميہ كو لوگوں پر مسلط كرديں گے_(۱۹)

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

جيسا كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تاريخ حيات ميں بيان كياجاچكا ہے كہ آپ نے اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں چاہا تھا كہ امت كے لئے ايك نوشتہ لكھ ديں تاكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد وہ گمراہ نہ ہو مگر عمر نے منع كيا اور كہا كہ ہمارى لئے قرآن كافى ہے_

اس خيال كى پيروى كرتے ہوئے انہوں نے اپنے زمانہ خلافت ميں حكم ديا كہ احاديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قلم بند نہ كياجائے اور اگر انہيں كوئي حديث لكھى ہوئي مل جاتى تو اسے ضبط كركے جلوا ديتے_

۷۷

انہوں نے تمام شہروں ميں يہ منادى كرادى كہ اگر كسى كے پاس كوئي حديث ہے تو وہ اسے نيست ونابود كردے _(۲۰) چنانچہ قاسم بن محمد بن ابى بكر سے منقول ہے كہ عمر كے زمانے ميں احاديث بہت زيادہ جمع ہوگئيں جب ان كے پاس لائي گئيں تو حكم ديا كہ انہيں جلاديا جائے_(۲۱)

ابوبكر نے بھى اپنے زمانہ خلافت ميں پانچ سو احاديث جمع كيں _ عائشہ فرماتى ہيں : مجھ سے كہا كہ احاديث ميرے پاس لاؤ جب انہيں لايا گيا تو ان سب ميں آگ لگادى گئي _(۲۲) چنانچہ يہ روش عمر بن عبدالعزيز كے دور خلافت تك جار رہى _

اس رويے كو اختيار كرنے كى وجہ وہ يہ بتاتے تھے كہ اگر عوام كى توجہ احاديث كى جانب رہے تو وہ قرآن سے دور ہوجائيں گے درحاليكہ قرآن كا يہ ارشاد ہے كہ ''پيغمبر جو كچھ تمہارے لئے لائے ہيں ، اسے قبول كرلو اور جس چيز سے منع كيا ہے اس سے باز رہو ''_(۲۳) رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كا امكان پيدا ہونے كے لئے ضرورى ہے كہ وہ احاديث جن ميں بالخصوص اوامر و نواہى كے بارے ميں آپ نے فرمايا محفوظ رہنى چاہئے ورنہ كس طرح رسول كى اطاعت ہوسكے گى ؟

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عہد ميں سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ مقرر نہ تھى بلكہ اخراجات زندگى مال غنيمت كے ذريعے مہيا كئے جاتے تھے _ اس كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ زندگي' عربوں كى نسلى فضيلت يا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ قرابت دارى كو ملحوظ نہيں ركھا جاتا تھا_

خليفہ اول كے زمانے ميں بھى يہى طريقہ رائج رہا ليكن خليفہ دوم كے زمانے ميں اس طريقہ كار كو بدل ديا گيا انہوں نے سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ كے لئے عليحدہ رجسٹر بنايا اور اس كى تقسيم كے لئے نسل ونسبت كو معيار قرار ديا ان كے درميان عرب كو عجم پر ، قحطان كے عرب كو عدنان كے عرب پر ، مضر كو ربعيہ پر ، قريش كو غير قريش پر اور بنى ہاشم كو بنى اميہ پر برترى و

۷۸

فضيلت تھى اور انہيں بيشتر مراعات حاصل تھيں _(۲۴)

كچھ عرصہ گذرا تھا كہ ذخيرہ اندوزوں اور دنيا پرستوں نے اس طريقہ كار كى بدولت جس طرح بھى ممكن ہوسكتا تھا مال جمع كرنا شروع كرديا وہ غلاموں اور كنيزوں كو خريد ليتے اور انہيں مختلف كاموں پر زبردستى لگاديتے تاكہ ان كے لئے زندگى كى سہولتيں فراہم كرنے كے علاوہ ہر روز نقدرقم بھى اپنے آقائوں كو لاكر ديں _

خليفہ دوم كا قتل

فيرو زايرانى ابولو لو مغيرہ كا غلام تھا_ اپنى زندگى كے اخراجات پوركرنے كے علاوہ وہ مجبور تھا كہ ہر روز دو درہم مغيرہ كو ادا كرے اس نے ايك روز خليفہ كو بازار ميں ديكھا اس نے فرياد كى كہ اس كے آقانے اس سے ہرروز دو درہم وصول كرنے كا جو بار اس پر ڈالا ہے وہ اس كےلئے ناقابل برداشت ہے _ ليكن خليفہ نے بڑى بے اعتنائي سے جواب ديا كہ تجھ جيسے ہنرمند اور ماہر فن شخص كے لئے اتنى مقرر كردہ رقم كوئي زيادہ نہيں ميں نے تو يہ سنا ہے كہ تو ايسى چكى بناسكتا ہے جو ہوا كے رخ پر گردش كرتى ہے_ كيا ايسى چكى تو ميرے لئے بھى بناسكتا ہے ؟ فيروز كو چونكہ خليفہ كى بے اعتنائي سے بہت تكليف پہنچى تھى اس نے كہا كہ ميں آپ كيلئے ايسى چكى بنائوں گا جس كى مشرق و مغرب ميں كہيں مثال نہ ملے گى اور بالآخر ماہ ذى الحجہ ۲۳ ھ ميں اس نے خليفہ كو قتل كرديا_

كونسى شوري؟

عمر نے جب موت كے آثار ديكھے تو انہوں نے چھ ايسے افراد كو جن سے اس كے بقول پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں بہت خوش تھے ، بلوايا وہ يہ چھ افراد تھے:

حضرت علىعليه‌السلام _ عثمان _ طلحہ اور زبير _ عبدالرحمن بن عوف اور سعد وقاص_

۷۹

عمر نے ہر ايك كى معنوى خصوصيت بيان كرنے كے بعد كہا كہ : اگر ميرے بعد خليفہ مقرر كرنے كے سلسلے ميں تم نے اتفاق رائے سے كام ليا تو تمہيں نيز تمہارے فرزندان كو درخت خلافت كے ميوے سے فےض پہنچے گا ورنہ خلافت كى گيند كو معاويہ اچك ليگا _ اس كے بعد انہوں نے اباطلحہ كو كچھ ضرورى نصيحتيں كيں اور مزيد فرمايا اگر پانچ افراد نے اتفاق رائے كيا اور ايك نے مخالفت يا چار افراد ايك طرف ہوگئے اور دو شخص دوسرى جانب ، تو ايسى صورت ميں جو اقليت ميں ہوں ان كى گردن اڑا دينا اگر دونوں فريق برابر ہوئے تو حق اس طرف جائے گا جس طرف عبدالرحمن ہوں گے اگر تين دن گذر جائيں او ركسى بھى مرحلے پر اتفاق رائے نہ ہو تو سب كو قتل كردينا اور مسلمانوں كو ان كے حال پر چھوڑنا كہ اس كے بعد وہ جسے بھى چاہيں خليفہ مقرر كريں _(۲۵)

حضرت عمر كے انتقال كے بعد اس شورى ميں طلحہ نے اپنا حق حضرت عثمان كو دے ديا اور زبير حضرت علىعليه‌السلام كے حق ميں دستبردار اور سعد بن ابى وقاص نے اپنا ووٹ عبدالرحمن بن عوف كو دےديا ، يوں خلافت كے ليئے صرف تين اميدوار يعنى حضرت عثمان، حضرت علىعليه‌السلام اور عبدالرحمن باقى بچ گئے پھر عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب رخ كيا اور كہا كہ ميں اس شرط پر آپ كى بيعت كرتاہوں كہ آپ كتاب خدا ، سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شيخين كى روش پر عمل كريں گے اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں كتاب خدا اور سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اپنے اجتہاد كى بنياد پر عمل كروں گا_ عبدالرحمن نے يہى بات عثمان كى جانب رخ كركے كہى عثمان نے ان كى اس شرط كو فوراً قبول كرليا ،ا س كے بعد انہوں نے عثمان كے ہاتھ پر ہاتھ ركھديا اور انہےں ''اميرالمؤمنين'' ہونے كى حيثيت سے سلام كيا _(۲۶)

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كى نظر

جس وقت شورى كے اراكين كا تعين ہوا تو حضرت علىعليه‌السلام نے ابتدا ہى ميں اس كے فيصلے سے باخبر كرديا تھا اور عباس سے كہا تھا ''عدلت عنا'' يعنى ہمارے خاندان سے خلافت كا رخ موڑ ديا گيا ہے انہوں نے دريافت كيا كہ آپ نے كيسے جانا تو آپ نے فرمايا كيونكہ عثمان كو ميرے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۹_ روميوں نے جنگ موتہ ميں لشكر اسلام كے بلند حوصلوں كو ديكھا تھا اور سپاہ اسلام كى فتوحات پر مشتمل خبريں سننے كے بعد انہوں نے يہ سمجھ ليا تھا كہ مسلمانوں سے روبرو ہوكر مقابلہ كى ان ميں طاقت نہيں ہے _

۱۰_ پيامبرو آئين نبرد جنرل مصطفى طلاس ص ۴۸۳ _

۱۱_پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كامتن مغازى واقدى ج ۳ ص۱۰۱۵و ۱۰۱۶ پر موجود ہے _

۱۲_ ابن اسحاق كے قول كے مطابق ۱۰ سے ۱۵ دن تك _سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷۰_

۱۳_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۹_مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۲۵_

۱۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۹_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۴۲_

۱۵_سيرت حلبى ج ۳ص ۱۴۳ _ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۴۳_

۱۶_( وَالَّذينَ اتَّخَذوُا مَسْجداً ضرَارَاً وَ كُفْرَاً وَ تَفْريقَاً بَيْنَ الْمُؤْمنيْنَ وَ ارْصَاداً لمَنْ حَارَبَ اللّهَ وَ رَسوُلَهُ منْ قَبْلُ و لَيَحْلفنَّ انْ اَرَدْنَا الاَ الْحُسْنى وَاللّه يَشْهَدُ اَنَّهُمْ لَكَاذبُونَ لاَ تَقُمْ فيه اَبَداً لَمَسْجدٌ اُسّسَ عَلَى الَّتَقْوى منْ اَوَّل يَوْم: اَحَقُّ اَنْ تَقُومَ فيه ، فيه رجَالٌ يُحبُّونَ اَنْ يَتَطَهرُوا وَ اللّهُ يُحبُّ الْمُطّهّريْنَ ) _(توبہ /۱۰۶و۱۰۷)_

۱۷_ سيرت حلبى ج ۳ ص ۱۴۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷۴_ مغاز واقدى ج ۳ ص ۱۰۴۶_ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۸۰_ تفسير التاويل و حقائق التنزيل نسخہ خطي، واقعہ مسجد ضرار از ص ۴۷۳ تا ۴۷۵_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۵۷،۱۰۵۶_

۱۹_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۵۶ _ ۱۰۵۷_

۲۰_ عبداللہ بن ابّى اور ديگر ۸۳ منافقين كے علاوہ _

۲۴۱

چودھواں سبق

منافقين كے سربراہ كى موت

مدينہ ميں مختلف قبائل كے نمائندہ و فود كى آمد

وہ دين جس ميں نماز نہيں اس كا كوئي فائدہ نہيں

ابراہيم كا سوگ

خرافات سے جنگ

مشركين سے بيزاري

حضرت على (ع) اہم مشن پر

مباہلہ

حضرت على (ع) كى يمن ميں ماموريت

سوالات

۲۴۲

منافقين كے سربراہ كى موت

واقعہ تبوك كے بعد مسلمانوں كى كاميابيوں ميں سے ايك كاميابى منافقين كے فتنہ پرور سربراہ عبداللہ ابن ابى كى موت ہے وہ تھوڑ ے عرصہ تك بيمار رہ كر مر گيا اور اس طرح تحريك اسلامى كے ايك سخت ترين داخلى دشمن كا شر برطرف ہو گيا_(۱)

مدينہ ميں مختلف قبائل كے نمائندہ وفود كى آمد

فتح مكہ اور تبوك پر لشكر كشى كے بعد، ہر طرف سے مختلف قبائل كى نمائندگى كرنے والے وفود مدينہ ميں آئے _ چنانچہ اسى لئے سنہ ۹ ھ كو'' عام الوفود'' ( وفود كا سال) كہا جاتا ہے _ اعراب اس بات كے منتظر تھے كہ اسلام اور قبيلہ قريش كى باہمى چپقلش كا كيا نتيجہ نكلتا ہے ؟ اس لئے كہ قريش عرب كے پيشوا اور خانہ كعبہ كے متولى تھے_ جب مكہ فتح ہو گيا اور قريش مغلوب ہوگئے تو دوسرے عرب قبائل يہ سمجھ گئے كہ ان ميں اسلام سے مقابلہ كى طاقت نہيں ہے _ غزوہ تبوك سے يہ حقيقت اور زيادہ روشن ہوگئي تھى _ لہذا ناچار گروہ در گروہ دين خدا ميں داخل ہونے لگے_

۲۴۳

وہ دين جس ميں نماز نہيں اس كا كوئي فائدہ نہيں

عرب كے سخت ترين قبيلہ ، ثقيف كى جانب سے چھ سركردہ افراد پر مشتمل ايك وفداسلام قبول كرنے كے بارے ميں مذاكرہ كرنے كے لئے مدينہ آيا اور مغيرہ ابن شعبة ثقفى كے گھر ٹھہرا ، پذيرائي كا سامان رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر سے مغيرہ كے گھر بھيجا گيا انہوں نے اسلام قبول كرنے كے سلسلے ميں كچھ تجويزيں ركھيں منجملہ ان كے ايك يہ تھى كہ ''لات'' كے بتخانہ كو تين سال تك ويران نہ كريں_ دوسرے يہ كہ ان سے نماز معاف ہوجائے ، جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى تجويزوں كو قبول نہيں كيا تو وہ ترك نماز پر اصرار كرنے لگے _ آنحضرت(ع) نے فرمايا '' جس دين ميں نماز نہيں اس كا كوئي فائدہ نہيں''_ آخر كار انہوں نے اسلام قبول كيا اور نماز پڑھنے اور شرعى احكام پر عمل كرنے كے لئے آمادہ ہوگئے_(۲)

ابراہيم كا سوگ

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيوى ماريہ قبطيہ(۳) سے ايك بيٹا پيدا ہوا _ ولادت كى صبح پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب كو يہ خوش خبرى سنائي كہ كل رات خدا نے مجھے بيٹا عطا كيا ہے جس كا نام ميں نے اپنے جد ا،براہيم (ع) كے نام پر ابراہيم (ع) ہى ركھاہے _ ولادت كے ساتويں دن آپ(ع) نے عقيقہ ميں ايك گوسفند ذبح كيا اورمولود كے سر كے بال تراش كر اس كے برابر چاندى مسكينوں ميں صدقہ كے طور پر تقسيم كي_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دوسرى بيويوں نے جب يہ ديكھا كہ ماريہ كے ذريعہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صاحب اولاد ہوگئے ہيں تو ان كو ماريہ پررشك ہوا_(۴)

۱۸/ مہينہ كے بعد پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اكلوتا بيٹا بيمار پڑا اور انتقال كر گيا _پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے انتقال سے غم و اندوہ ميںمبتلا ہوئے_

۲۴۴

خرافات سے جنگ

جس دن ابراہيم كا انتقال ہوا اس دن آفتاب كو گہن لگا _ لوگوںنے يہ سوچا كہ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بيٹے كے غم ميں آفتاب كو گہن لگا ہے _ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہيں چاہتے تھے كہ لوگ خرافات كى طر ف مائل ہوں اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا '' آفتاب و ماہتاب قدرت كى نشانى ہيں وہ سنت الہى كے مطابق خاص راستے پر گردش كرتے ہيں اور انہيں ہرگز كسى كى ولادت ياموت پر گہن نہيں لگتا ، سورج گہن كے موقع پر تمہارا فريضہ يہ ہے كہ تم نماز پڑھو_(۵)

مشركين سے بيزاري

۱۰/ذى الحجہ ۹ ھ بمطابق ۲۲ مارچ ۶۳۱ ئ

حج كا زمانہ آگيا _ ابھى تك مشركين حج كے مراسم ميں گذشتہ لوگوں كے طريقہ كے مطابق شركت كرتے تھے_اس سال مشركين سے بيزارى ( سورہ برائت)(۶) والى آيتيں نازل ہوئيں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابتدا ميں ابوبكر كو امير الحاج كے عنوان سے مكہ روانہ كيا اور حكم ديا كہ ان آيات كو لوگوں كے مجمع ميں پڑھيں_ابوبكر اور ديگر مسلمان حج كے لئے مكہ كى طرف جادہ پيما ہوئے _

حضرت على (ع) اہم مشن پر

ابھى تھوڑى دير نہ گزرى تھى كہ جبرئيل نازل ہوئے اور خدا كى طرف سے پيغام لے كر آئے كہ '' مشركين سے بيزارى والے پيغام كو يا آپ خود پہنچا ئيں يا وہ شخص پہنچائے جو

۲۴۵

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہل بيت (ع) سے ہو'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى اونٹنى ''' ناقہ عضبائ'' كو على (ع) كے حوالہ كيا اور فرمايا ابوبكر سے جا كر وہ آيتيں لے لو جو مشركين سے بيزارى و برائت كے سلسلہ ميں نازل ہوئي ہيں اور زائرين خانہ خدا كے مجمع ميں خود پڑھو_ بروايت شيخ مفيد ،ابوبكر نے آيا ت كو على (ع) كے حوالہ كيا اور مدينہ لوٹ آئے _(۷) اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بارگاہ ميں پہنچ كر كہا '' كيا ميرے بارے ميں وحى نازل ہوئي ہے ؟'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہايت اطمينان سے فرمايا'' جبرئيل (ع) تشريف لائے اور خدا كا پيغام پہنچايا كہ اس كام كو ميرے يا ميرے اہل بيت كے فرد كے علاوہ كوئي دوسرا انجام نہيں دے سكتا _(۸)

حضرت على (ع) حج كے دوران مجمع كے درميان كھڑے ہوئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق اعلان كيا كہ '' اے لوگو كوئي كافربہشت ميں نہيں جائے گا اور اس سال كے بعد كسى مشرك كو حج نہيں كرنے ديا جائے گا اور نہ ہى كعبہ كا برہنہ طواف كرنے كى اجازت ہوگى _ جس كى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كوئي قرار داديا معاہدہ ہے تو وہ معاہدہ اپنى مدت تك باقى ہے اور دوسروں كو بھى آج سے چارمہينے كى مہلت ہے كہ ہر گروہ اپنے مسكن اور اپنى سرزمين كو پلٹ جائے _ چار مہينے كے بعد كسى بھى مشرك كے لئے كوئي عہد و پيمان نہيں رہ جائے گا مگر ان لوگوں كے لئے جنہوں نے خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ايك مدت تك كے لئے عہد و پيمان كيا ہے _ اس سال كے بعد مشركين نہ حج بجالائيں گے اور نہ كعبہ كے گرد برہنہ طواف كريں گے _(۹)

۲۴۶

مباہلہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دنيا كے سر كردہ افراد كو خط لكھنے كے بعد ايك خط اسقف ''نجران'' (مكہ كے جنوب مشرق ميں ۹۱۰ كيلوميٹر كے فاصلہ پر ايك شہر ہے )كو لكھا اور اس ديار كے عيسائيوں كو اسلام كى دعوت دى _

خط ميں كہا گيا تھا كہ اگر اسلام قبول نہيں كرتے تو جزيہ دو تا كہ تمہيں اسلامى حكومت كى حمايت حاصل ہوجائے يا پھر جنگ كے لئے تيار ہوجاؤ_اسقف نے حضرت عيسى (ع) كے بعد ايك پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ظہور كى بشارت آسمانى كتابوں ميں پڑھ ركھى تھى اس لئے اس نے اپنے نمائندوں كو مدينہ بھيجنے كا ارادہ كيا _عيسائيوں كا ايك عالى مرتبہ وفد مذاكرہ اور اسلام كے مسائل كے بارے ميں تحقيق كے لئے مدينہ پہنچا اور يہاں پہنچنے كے بعد انہوں نے مكمل آزادى كے ساتھ اپنے مذہبى مراسم مسجد مدينہ ميں انجام ديئے_ اس كے بعد حضرت عيسى (ع) كے بارے ميں ايك تفصيلى بحث شروع ہوئي _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عيسى (ع) كے بارے ميں فرمايا'' وہ خدا كى مخلوق اور اس كے بندے ہيں جن كو خدا نے مريم كے رحم ميں ركھا_(۱۰)

عيسائي نمائندے كہہ رہے تھے كہ '' عيسى (ع) خدا كے بيٹے ہيں اس لئے كہ مريم نے بغير كسى مرد كى قربت كے ان كو جنا ہے _ جواب ميں آيت نازل ہوئي اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كو پيش كيا كہ عيسى (ع) كى خلقت آدم (ع) كى تخليق كى طرح ہے خدا نے ان كو خاك سے پيدا كيا _(۱۱) يعنى اگر باپ كا نہ ہونا خدا كا بيٹا ہونے كى دليل ہے تو آدم كا نہ باپ تھا اور نہ ماں لہذا وہ خدا كا بيٹا ہونے كے زيادہ سزاوار ہيں_

مذاكرات اور بحثيں جارى رہيں ، عيسائي مذہبى نمائندے پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى منطق كے سامنے خاموش ہوگئے ، ليكن ان كا بے جا تعصب حقيقت و ايمان كو ماننے سے ركاوٹ بنا رہا_

۲۴۷

فرشتہ وحى نازل ہوا اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ملا كہ ان لوگوں كو مباہلہ كے لئے بلائيں_

يعنى دونوں گروہ صحرا ميں جائيں اور ايك معين وقت پر خدا كى بارگاہ ميں دعا كريں اور جھوٹے پر لعنت بھيجيں_(۱۲)

مباہلہ كے بارے ميں علامہ طباطبائي مرحوم فرماتے ہيں كہ '' مباہلہ''، اسلام كے زندہ معجزات ميں سے ہے ، ہر با ايمان شخص اسلام كے پہلے پيشوا كى پيروى ميں حقائق اسلام ميں سے كسى حقيقت كے اثبات كے لئے مخالف سے مباہلہ كر سكتا ہے اور خداوند عالم سے درخواست كر سكتا ہے كہ مخالف كو كيفر كردار تك پہنچائے اور شكست دے ''(۱۳)

مباہلہ كا وقت قريب آيا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں اور اپنے وابستگان كے درميان سے صرف چار افراد كا انتخاب كيا جو اس تاريخى واقعہ ميں شريك ہوئے اور وہ ہيں حضرت على (ع) پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى باعظمت بيٹى فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا اور حسن و حسين (ع) اس لئے كہ تمام مسلمانوں كے درميان ان چار افراد سے زيادہ پاكيزہ اور با ايمان انسان موجود نہ تھے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ساتھ جانے والوں سے كہا كہ جب ہم وہاں پہنچيں تو ہمارى دعا پر آمين كہنا_

پھر بے مثال معنوى شان و شوكت كے ساتھ ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حسين(ع) كو گود ميں لئے حسن (ع) كا ہاتھ پكڑے اور فاطمہ (ع) و على (ع) ان كے پيچھے اس مقام كى طرف چلے جہاں مباہلہ ہونا قرار پايا تھا_ جب عيسائيوں كى منتظر نگاہيں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان كے ساتھ آنے والے نورانى اور ملكوتى چہروں پر پڑيں تواسقف اعظم نے كہا _'' ميں ايسے ديكھ رہاہوں كہ اگر يہ شخصيات بارگاہ الہى ميں دعاكريں تو بيابان ديكھتے ديكھتے جہنم ميں بدل جائے اور عذاب كى چادر سرزمين نجران كو اپنے دامن ميں لپيٹ لے_اس بات كا خطرہ ہے كہ تمام عيسائي ختم

۲۴۸

ہوجائيں''(۱۴)

آخر كا وہ جزيہ دينے پر تيار ہوگئے اور طے پايا كہ ہر سال دو ہزار حلے اور تيس آہنى زرہيں بطور جزيہ ديا كريں گے _(۱۵)

حضرت على (ع) كى يمن ميں ماموريت

جب يمن كے فرماں روا اور كچھ لوگ اسلام كے گرويدہ ہوگئے تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك دانش مند صحابى معاذبن جبل كو قرآن كى تعليم اور تبليغ اسلام كے لئے اس علاقہ ميں بھيجا _وہ كچھ دنوں كے بعد لوٹ آئے_ پھر چند دنوں كے بعد پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خالد ابن وليد كو روانہ كيا _ خالد اپنى خشونت اور سلوك كى بنا پر لوگوں كے دلوں ميں ايمان كى لونہ بڑھا سكے_

اس وجہ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على عليہ السلام كو حكم ديا كہ يمن جا كر اس علاقہ كے لوگوں كو اسلام كى دعوت ديں ،احكام دين سكھائيں اور واپسى پر نجران كے لوگوں سے جزيہ وصول كرتے ہوئے آئيں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق حضرت على عليہ السلام چند مسلمانوں كے ساتھ يمن كى طرف روانہ ہو گئے _وہاں آپ(ع) نے حيرت انگيز فيصلوں اور پر زور تقريروںسے شيفتگان حق كو اسلام كى طرف مائل كيا _قبيلہ ہمدان كے درميان آپ كى صرف ايك تقرير اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كے پڑھنے سے اس قبيلہ كے لئے وہ مثل ثابت ہو گئي كہ '' دل سے جو بات نكلتى ہے اثر كرتى ہے'' اور اس طرح ايك دن سے بھى كم مدت ميں يہ عظيم قبيلہ حلقہ بگوش اسلام ہو گيا _(۱۶) قبيلہ ہمدان كے مسلمان ہو جانے سے پورے يمن ميں اسلام كى اشاعت پر بہت اچھا اثر پڑا_

۲۴۹

سوالات

۱_مشركين سے بيزارى والى آيات كو كس نے لوگوں كے سامنے پڑھا؟

۲_ مباہلہ كيا ہے؟

۳_ مباہلہ ميں شركت كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے على (ع) ، فاطمہ (ع) ، اور حسن (ع) و حسين (ع) ہى كو كيوں منتخب فرمايا؟

۴_ نجران كے عيسائيوں نے آخر ميں كيا كيا؟

۵_ حضرت علي(ع) نے يمن ميں اپنى ذمہ دارى كو كيسے ادا كيا؟

۲۵۰

حوالہ جات

۱_مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۵۷_

۲_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۶۵_سيرت النبويہ ابن كثير ج ۴ ص ۵۶_

۳_ماريہ قبطيہ ايك كنيز تھيں جنكو '' مقوقس'' بادشاہ مصر نے پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ہديہ ديا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے نكاح كرليا تھا_

۴_طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۱۳۴، ۱۳۵_

۵_ فروغ ابديت ج ۲ ص ۸۰۳_محاسن ص ۳۱۳ _ سيرت حلبى ج ۳ ص ۳۱۰_۳۱۱_

۶_ سورہ توبہ كى آيت اسے ۵ تك _البتہ بعض افراد بعد كى آيا ت كو بھى اس كا جزء سمجھتے ہيں _

۷_ چونكہ اہل سنت نے انكے پلٹ آنے كو اہانت سمجھا اس لئے انكى كتابوں ميں يہ نقل بہت عام ہے كہ ابوبكر اپنى امارت پر باقى رہے اور مكہ چلے گئے ليكن على (ع) نے آيات برائت كو مشركين كے سامنے پڑھا _ملاحظہ فرمائيں تفسير ابن كثير ج ۲ ص ۳۳۳ _ مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۳۳۲ _ مجمع الزوائد ج ۷ ص ۲۹ _ الدر المنثور ج ۳ ص ۲۰۹ _ ليكن نسائي و طبرى لكھتے ہيں كہ ابوبكر پريشانى كے ساتھ مدينہ پلٹے _رجوع كريں خصائص ص ۲۰ تفسير طبرى ج ۱۰ ص ۴۶_

۸_ بحار الانوار ج ۲۱ ص ۲۷۵_

۹_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۹۰ _ امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۹۸ _ مجمع البيان ج ۵ ص ۳ _تفسير تبيان ج ۵ ص۱۹۸_

۱۰_( انَّمَا الْمَسيْحُ عيْسَى بْنَ مَرْيَمَ رَسُولُ اللّه وَ كَلمَتُهُ اَلْقى ها مَرْيَمَ وَ روُحٌ منْهُ ) (نسائ/۱۷۱)_

۱۱_( انَّ مَثَلَ عيسَى عنَْدَ اللّه كَمَثَل آدَمَ خَلَقَهُ منْ تُرَاب: ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُون ) (آل عمران/۵۹)_

۱۲_( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَائَنَا وَ اَبْنَائَكُمْ وَ نسَائَنَا وَ نسَائَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهلْ فَنَجْعَلْ )

۲۵۱

( لَعْنَةَ اللّه عَلَى الْكَاذبينَ ) (آل عمران/۶۱) بحار الانوار ج ۲۱/ص ۳۴۰ و۳۵۳_تفسير الميزان ج ۳ ص ۲۲۸_

۱۳_فروغ ابديت ج ۲ ص ۸۲۱ _

۱۴_سيرت نبويہ بر حاشيہ سيرت حلبى ج ۳ ص ۴_

۱۵_ آيت مباہلہ، اہل بيت (ع) كى شان ميں نازل ہونے كے سلسلہ ميں اہل سنت كى كتابوں ميں بہت سى اسناد موجود ہيں _ ملاحظہ ہو _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۰_ سنن ترمذى ج ۴ ص ۲۹۳ _ مسند احمد ج ۱ ص ۱۸۵ _ تفسير طبرى آيہ مباہلہ كے ذيل ميں _ احكام القران جصاص ج ۲ ص ۱۴_مستدرك حاكم ج ۳ ص ۱۵۰_معرفتہ علوم الحديث حاكم ص ۵۰_ دلائل النبوة ابى نعيم ص ۲۹۷ _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۳۰۴_معالم التنزيل ج ۱ ص ۳۰۲بر حاشيہ المخازن _اسباب النزول واحدى ص ۷۵_ الكشاف زمخشرى ج ۱ ص ۳۶۸ _عمدہ بطريق ص ۹۵_تفسير كبير فخر رازى ج ۸ص ۸۵_جامع الاصول ابن اثير ج ۹ ص ۴۷۰_الشفا قاضى عياض ج ۲ ص ۳۶_مناقب خوارزمى ص ۹۶_كامل ابن اثير ج ۲ ص ۲۰۰_ذخائر العقبى محب الدين طبرى ص ۲۵ _ انوار التنزيل بيضاوى ص ۷۴_ كفاية الطالب ص ۵۵_مطالب السئول ص ۷_ تذكرة الخواص سبط ابن جوزى ص ۸_تفسير قرطبى ج ۴ ص ۱۰۴_سيرت احمد زينى دحلان سيرت الحلبيہ كے حاشيہ پر ج ۳ ص ۵ _ تفسير كشف الاسرار و عدة الابرار ج ۲ ص ۱۴۷_

۱۶_بحار الانوار ج ۲۱ ص ۳۶۰ _ ۳۶۳كامل ابن اثير ج ۲ ص ۳۰۵_

۲۵۲

پندرھواں سبق

حجة الوداع

جہان عدالت باعث عداوت ہے

حجة الوداع كے موقعہ پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پرجوش تقرير

غدير خم

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كا ترجمہ

سوالات

۲۵۳

حجة الوداع

روانگى كى تاريخ : ۲۵ ذى القعدہ ۱۰ ھ بمطابق ۲۶ فرورى ۶۳۱ ء بروز ہفتہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے اعلان كيا گيا كہ اس سال رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حج بيت اللہ كيلئے مكہ تشريف لے جائيں گے _ اس خبر نے لوگوں كے اشتياق كو بھڑ كا ديا اور ہزاروں مسلمان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ چلنے كے لئے تيار ہوگئے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابودجانہ كو مدينہ ميں اپنا جانشين معين فرمايا اور ساٹھ قربانى كے جانور لے كر ۲۵/ ذى القعدہ كو حج ادا كرنے كے لئے تمام ہمراہيوں كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہوگئے_(۱)

اس سفر ميں پيغمبر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيوياں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ تھيں جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدينہ سے ۹ كيلوميٹر جنوب ميں مقام ذوالحليفہ پر پہنچے تو آپ نے لباس احرام پہنا اور '' لَبَّيْكَ اَللَّہُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَريْكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، انَّ الْحَمْدَ وَ الْنّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ ، لاَ شَريكَ لَكَ '' كى آواز بلند كى _ روانگى كے دس دن بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مكہ پہنچ گئے مسجد الحرام ميں وارد ہوئے، كعبہ كا طواف كيا ، حجر اسود كو بوسہ ديا اور مقام ابراہيم (ع) پر دو ركعت نماز پڑھى ، پھر صفا و مروہ كے درميان سعى فرمائي _

۲۵۴

جہان عدالت باعث عداوت ہے

علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يمن ميں تبليغ اسلام ميں مشغول تھے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سفر حج سے آگاہ ہوئے تو اپنے ماتحت افراد كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہو گئے آدھے راستہ ميں ہمراہيوں كى كمان ايك افسر كے سپرد كى اور تيزى سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس مكہ پہنچے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں اپنى كارگزارى كى رپورٹ پيش كى _جب يمن كى طرف سے آنيوالاكاروان مكّہ سے نزديك ہوا تو على (ع) ان كے استقبال كے لئے بڑھے ليكن اميد كے برخلاف آپ نے ديكھا كہ انہوں نے بيت المال كے كپڑوں اور چادروں كو جو نجرانيوں نے جزيہ كے طور پر ديئے تھے، اپنے درميان تقسيم اور لباس احرام بنا كر پہن ليا ہے _ حضرت علي(ع) اس ناشائستہ حركت پر اپنے ماتحت افسر پر سخت ناراض ہوئے اور اس سے كہا '' تم نے كپڑوں كو كيوں تقسم كيا؟

اس نے جواب ميں كہا كہ '' جانبازوں نے اس بات پر اصرار كيا كہ ميں كپڑوں كو امانت كے طور پر انہيں ديدوں اور حج كے مراسم ادا كرنے كے بعد ان سے واپس لے لوں''_ عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' تم كو يہ اختيار نہيں تھا'' پھر آپ(ع) نے تمام كپڑے واپس لے لئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تحويل ميں دينے كے لئے تہہ كر كے ركھ دئے_ايك گروہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچا اور عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سخت گيرى كى شكايت كى ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ناراض ہونے والوں سے كہا كہ ''على (ع) پر تنقيد نہ كرو وہ خدا كا حكم جارى كرنے ميں قاطع اور سخت گير ہيں_(۲)

حجة الوداع كے موقعہ پررسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پر جوش تقرير

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حج كے دوران عرفہ كے دن نماز سے پہلے خطبہ پڑھا اور اس كے دوسرے دن منى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كچھ اس طرح كى تھي(۳)

۲۵۵

خداوند عالم اس بندہ كے چہرہ كو منور اور شاداب ركھے جو مير ى بات كو سنے ، ياد ركھے، محفوظ كرے اور پھر ان لوگوں تك پہنچائے جنہوں نے نہيں سنى ، بہت سے فقہ كے حامل ايسے ہيں جو خود فقيہ نہيں ہيں اور بہت سے فقہ كے پہنچانے والے ايسے ہيں كہ جو ايسے شخص تك پہنچا تے ہيں جو ان سے زيادہ عقلمند ہيں _ تين چيزيں ايسى ہيں كہ جن سے مرد مسلمان كا دل خيانت نہيں كرتا ، عمل كو خالص خدا كے لئے انجام دينا ، رہبروں كے لئے بھلائي چاہنا ، يك رنگى اختياركرنا اور مومنين كى جماعت سے جدا نہ ہونا اس لئے كہ ان كى دعا ہر ايك كو گھيرے رہتى ہے ''_

پھر فرمايا_'' اے لوگوں تم شايد اب اس كے بعد مجھے نہ ديكھو آيا تم جانتے ہو كہ يہ كون سا شہر ، كو ن سا مہينہ اور كون سا دن ہے؟''

لوگوں نے كہا '' ہاں يہ حرمت كا شہر ، حرمت كا مہينہ اور حرمت كا دن ہے ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدا نے تمہارے خون تمہارے مال كى حرمت كو اس شہر ، اس مہينہ اور اس دن كى حرمت كى طرح قرار ديا ہے _ كيا ميں نے (پيغام) پہنچا ديا ''_ مجمع نے كہا ''ہاں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدا يا تو گواہ رہنا''_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمايا'' خدا سے ڈرتے رہو اور كم نہ تولو ، زمين ميںتباہى نہ پھيلاو اور ہر وہ شخص جس كے پاس كوئي امانت ہو وہ اسے (اس كے مالك تك) پہنچائے، اسلام ميں سب لوگ برابر ہيں اس لئے كہ سب آدم (ع) و حوا كى اولاد ہيں _ عربى كو عجمى پر اور عجمى كو عربى پرسوائے پرہيزگارى كے اور كوئي برترى حاصل نہيں'' كيا ميں نے (پيغام) پہنچا ديا؟ لوگوں نے كہا'' ہاں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدايا گواہ رہنا''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اپنے نسب كو ميرے پاس نہ لانا بلكہ اپنے عمل كو ميرے پاس لانا

۲۵۶

، جو ميں لوگوں سے كہتا ہوں تم بھى يہى كہو ، كيا ميں نے (پيغام)پہنچا ديا ؟ لوگوں نے كہا ''ہاں'' فرمايا '' خدايا تو گواہ رہنا''_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا وہ خون جو جاہليت ميں بہايا گيا ہے ميرے پير كے نيچے ہے (يعنى اس كى كوئي حيثيت نہيں) اور پہلا خون جس كو ميں اپنے پير كے نيچے قرار ديتا ہوں وہ آدم ابن ربيعہ ابن حارث(۴) (رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وابستگان ميں سے ايك شير خوار بچہ جسے بنى سعد بن بكر نے مارڈالا تھا) كا خون ہے_كيا ميں نے (پيغام)پہنچا ديا؟ لوگوں نے كہا'' جى ہاں'' فرمايا'' خدايا گواہ رہنا''_

پھر فرمانے لگے'' ہر وہ سودجو جاہليت كے زمانہ ميں تھا ميرے پيروں كے نيچے ہے پہلاسود جو ميں اپنے پيروں كے نيچے ركھتا ہوں وہ عباس ابن عبدالمطلب كا رہا ہے '' كيا ميں نے (پيغام) پہنچا ديا؟ '' مجمع نے كہا'' ہاں'' فرمايا خدا يا تو گواہ رہنا _ پھر فرمايا بے شك ماہ حرام ميں تاخير، كفر ميں زيادتى كا باعث ہے اور كافرين اس سے گمراہ ہوں گے (كيونكہ وہ ) ايك سال كو حلال اور ايك سال كو(اپنے فائدہ كيلئے) حرام شمار كرتے ہيں تا كہ جس مہينہ كو خدا نے حرام كيا ہے اپنے مفاد كے موافق بناليں_ آگاہ ہو جاؤ كہ زمانہ ،گزشتہ صورتحال كى طرف پلٹ گيا ہے كہ جس دن خدا نے آسمان اور زمينوں كو پيدا كيا ، بيشك خداوند عالم كے نزديك اس كى كتاب ميں بارہ مہينے ہيں ان ميں سے چار مہينے حرمت كے ہيں _'' رجب ''جو كہ جمادى او ر شعبان كے درميان ہے اوراس كو '' رجب مضر'' كہتے ہيں اور پھر پے در پے تين مہينے ذى القعدہ ، ذى الحجة اور محرم ہيں''بتاؤ ميں نے تمہيں خبردار كرديا؟ لوگوں نے جواب ديا؟ '' ہاں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدايا توگواہ رہنا''_ پھر فرمايا ميں تم كو عورتوں كے ساتھ نيكى كرنے كيلئے كہتا ہوں اس لئے كہ ان كو تمہارے سپر د كيا گيا ہے وہ

۲۵۷

اپنے امر ميں سے كوئي چيز اپنے ہاتھ ميں نہيں ركھتيں تم نے انہيں خدا سے بطور امانت ليا ہے_ خدا كے حكم كے مطابق تم نے ان سے قربت كى ہے تمھارا ان پر كچھ حق ہے ، ان كى معمول و رائج غذا اور لباس تم پر لازم ہے اور تمھارا حق ان پر يہ ہے كہ كسى كا پير تمہارے بستر تك نہ پہنچنے ديں _تمہارى اطلاع اور اجازت كے بغير تمہارے گھروں ميںكسى كو داخل نہ ہونے ديں _ پس اگر ان ميں سے كوئي چيز انجام نہ ديں تو ان كى خواب گاہ سے دورى اختيار كرواور نہايت نرمى سے تنبيہ كرو_

كيا ميں نے تبليغ كردي؟ ''لوگوں نے كہا ''ہاں'' حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''خدا يا گوہ رہنا''_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گويا ہوئے '' اب ميں تم سے غلاموں كے بارے ميں كچھ كہتا ہوں جو كھانا تم كھاتے ہو وہى ان كو بھى كھلاؤ، جو تم پيتے ہو وہى ان كو بھى پلاؤ ،اگر يہ خطا كريں تو سزا كو معاف كردينا _ كيا ميں نے تبليغ كردي؟ '' سب لوگ بولے ''ہاں'' حضرت نے فرمايا'' خدايا تو گواہ رہنا'' پھر فرمانے لگے _'' مسلمان، مسلمان كا بھائي ہے ، ان كے ساتھ حيلہ اور خيانت نہ كرو، ان كى پيٹھ پيچھے بد گوئي نہ كرو نہ ان كا خون حلال ہے اور نہ مال، مگر ان كى رضايت سے ، كيا ميں نے تبليغ كردي؟ '' لوگوں نے كہا ہاں_ فرمايا ''خدا يا تو گواہ رہنا''_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كہا '' شيطان آج كے بعد اس بات سے نا اميد ہو گيا كہ ا س كى پرستش ہوگى _ليكن پرستش كے علاوہ جن كاموں كو تم چھوٹا سمجھتے ہو ان پر عمل ہوگا اور وہ (شيطان) اسى پر راضى اور خوش ہے _ كيا ميں نے بتاديا؟ لوگوں نے كہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدا يا گواہ رہنا'' پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''دشمن خدا ميں سب سے زيادہ گستاخ وہ ہے جو اپنے قتل كرنے والے كے علاوہ كسى كو قتل كرے اور اپنے مارنے والے كے علاوہ كسى كو مارے _ جو اپنے آقا كى نافرمانى كرے اس نے اس چيز كا انكار كرديا جو خدا نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل كى ہے اور جو

۲۵۸

كوئي اپنے باپ كے علاوہ كسى اور كى طرف اپنى نسبت دے اس پر خدا ، فرشتوں اور تمام لوگوں كى لعنت ہے _ كيا ميں نے بتاديا ؟ مجمع بولا '' ہاں'' فرمايا'' خدايا گواہ رہنا'' _پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمايا '' ميں مامور ہوں كہ جہاد كروں تا كہ لوگ خدا كى يكتائي اور ميرى رسالت كے معتقد ہوجائيں _ جب اس كا اقرار كرليں گے توگوياانہوںنے ا پنے مال اور خون كو محفوظ كرليا سوائے ان حقوق كے جو انكى گردنوں پر ثابت ہيں اور ان كا حساب خدا پر ہے ''كيا ميں نے بتاديا؟ '' لوگوں كے كہا '' ہاں'' فرمايا '' خدايا گواہ رہنا'' _پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہيں ايسا نہ ہو كہ ميرے بعد تم گمراہ كرنے والے كافر ہو جاؤ كہ تم ميں سے بعض ، بعض كى گردنوں كے مالك (مالك الرقاب) ہو جائيں_ ميں تمہارے درميان ايسى چيز چھوڑے جارہاہوں كہ اگر تم اس سے متمسك رہے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے _

كتاب خدا اور ميرى عترت و خاندان _(۵) كيا ميں نے تبليغ كردى لوگوں نے كہا _ ''بے شك'' فرمايا'' خدايا گواہ رہنا''_ اس كے بعد فرمايا _ البتہ تم سے سوال ہو گا لہذا تم ميں جو حاضر ہے وہ غائب تك ( يہ پيغامات) پہنچادے_(۶)

غدير خم

۱۸ /ذى الحجہ ۱۰ ھ بمطابق ۱۹ مار چ ۶۳۱ء بروز اتوار

اتوار ۱۸ ذى الحجہ كو جب پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجفہ سے غدير خم كے پاس پہنچے تو امين وحى حضرت جبرئيل ،خدا كى جانب سے يہ پيغام لائے كہ '' اے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى طرف سے جو پيغام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل كيا گيا ہے وہ لوگوں تك پہنچاديں ، اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہيں پہنچا يا تو رسالت كومكمل نہيں كيا _ خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو لوگوں سے بچائے گابے شك خدا كافروں كو ہدايت نہيں كرتا_(۷)

۲۵۹

اس طرح خدا كى جانب سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ديا گيا كہ لوگوں كے درمياں كھلم كھلا حضرت على (ع) كا تعارف كروائيں اور انكى ولايت و اطاعت (جو مسلمانوں پر فرض ہے) كا اعلان كرديں _ حجاج كا كاروان جحفہ(۸) پہنچا _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ وہ لوگ جو آگے بڑھ گئے ہيں لوٹ آئيں اور باقى ٹھہر جائيں تمام مسلمان جمع ہوگئے ان كى تعداد ايك لاكھ بيس ہزار سے زيادہ تھى _ اس روز سخت گرمى كے عالم ميں لوگ پيروں كے نيچے عبا بچھائے ، دامن كو سائبان بنا كر سروں پر ركھ رہے تھے _ نماز جماعت ادا گئي ،پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز كے بعد اس بلند منبر پر جلوہ افروز ہوئے جو اونٹوں كے پالانوں سے بنا يا گيا تھا اور ايك تقرير فرمائي_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كا ترجمہ ملاحظہ ہو

حمد و ثنا خداسے مخصوص ہے ہم اس سے مدد چاہتے اور اس پر ايمان ركھتے ہيں اس پر توكل كرتے اور نامناسب عمل سے اس كى پناہ چاہتے ہيں وہ خدا جس كے سوا كوئي ہادى اور رہنما نہيں ، جس كى وہ ہدايت كرے اس كو كوئي گمراہ كرنے والا نہيں ، ميں گواہى ديتا ہوں كہ اس كے سوا كوئي معبود نہيں ہے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے بندہ اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں _ اے لوگو عنقريب ميں دعوت حق كو لبيك كہنے والا اور تمہارے درميان سے جانے والا ہوں _ ميں بھى جوابدہ ہوں اور تم بھى جواب دہ ہو تم ميرے بارے ميں كيا كہتے ہو ؟ لوگوں نے بہ آواز بلند كہا _

'' ہم گواہى ديتے ہيں كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى رسالت كو پہنچا ديا، نصيحت اور كوشش كى ،خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو نيك جزا دے ''_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' كيا تم اس بات كى گواہى ديتے ہو كہ اللہ كے سوا اوركوئي خدا نہيں ہے _اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے بندہ اور فرستادہ ہيں اور يہ كہ بہشت ، دوزخ ، موت حق ہے اور قيامت كے دن ميں كوئي شك و شبہ نہيں ہے اور خدا قبروں سے تمام سونے

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298