تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي20%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162430 / ڈاؤنلوڈ: 3884
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

کی اس شاہی نسل سے تھا جس کا مورث اعلی منوچہر ہے لیکن حضرت سلمان نے اس بات کو اپنے لئے باعث فخر نہ سمجھا ۔نسبی کرید کو پسند نہ فرماتے تھے ۔ایک مرتبہ کسی نے ان کے نسب سے متعلق سوال کیا تو جواب دیا کہ میں مسلمان فرزند اسلام ہوں ۔میں ایک غلام تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ آزاد کرایا میں بے حیثییت شخص تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ عزت بخشی۔میں ایک فقیر تھا خدا نے مجھے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ غنی کردیا اور یہی میرا حسب نسب ہے ۔صاحب طبقات کے بیان کے مطابق ابن عباس کی روایت ہے کہ حضرت سلمان نے خود پتہ دیا کہ وہ اصفہان کے گاؤں "حئ " کے رہنے والے تھے ۔آپ کے والد ایک زمیندار تھے اور اپنے فرزند سے بہت محبت رکھتے تھے اور ان کو جدا نہ کرتے تھے ان کو گھر میں اس طرح قید رکھا تھا جس طرح لڑکی کو قید کیا جاتا ہے ۔آپ کے والدین مجوس پر تھے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ سلمان بالغ ہونے سے قبل اپنے دین کی معرفت حاصل کرے لیکن سلمان کی طبیعت فطرتا مشاہدات قدرت پر غور وفکر کرنے پر مائل تھی اور دین مجوس کے نقائص اکثر ان کے دماغ میں تجسس پیدا کرتے تھے گھر اپنے والد کے احترام میں زبان بند رکھتے تھے ایک دن بوذ خشان اپنے ایک مکان کی بنیاد مرمت کرنے کی غرض سے گھر سے باہر گئے اور سلمان کو اپنی جگہ کھیتوں کے کا م پر روانہ کیا ۔راستے میں آپ کو ایک گرجا دکھائی دیا جہاں لوگ عبادت کررہے تھے اور توحید خداوندی اور رسالت عیسی علیہ السلام علیہ السلام کا ورد کررہے تھے ۔عیسا ئیوں کی یہ عبادت ان کو پسند آئی تحقیق

۱۴۱

کاشوق ہوا عیسائیوں سے مذہبی معلومات کی ۔روایت میں ہے کہ وہ عیسا ئی صحیح دین پر تھے ۔ وہ توحید خداوندی رسالت عیسی علیہ السلام کے اقرار کے ساتھ یہ بھی شہادت دیتے تھے کہ تحقیق محمد اللہ کے حبیب ہیں ۔ مسلمان کے خدا ،عیسی علیہ السلام او رمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا ۔ انھوں نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی سارے جہاں کا خالق وپروردگار ہے ۔اور عیسی بن مریم علیھما السلام اللہ کے برگزیدہ رسول ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ رسول مبشر ہے جو رسالت ونبوت کو ختم کرے گا ۔حضرت سلمان پر ان باتوں کا اثر ہوا اور تین دن متواتر معلومات میں اضافہ کیا ادھر ان کے والد ان کو تلاش کرتے تھے ۔سلمان پر جو نظر پڑی تو پکڑ لیا اور پوچھا کہ کہاں تھے ؟ آپ نے صاف صاف بتا دیا ۔ باپ نے بھانپ لیا کہ لڑکا اپنے آبائی دین سے باغی ہے ۔لہذا تھوڑا تشدد کیا اور انھیں بیڑیاں پہنا کر قید کرلیا ۔مگر تلاش حق کا جذبہ مضبوط ہوگیا ۔بود خشان کا خیال تھا یہ سختی بیٹے کو نئے عقیدے سے دستبردار کردے گی لیکن انھوں نے آزمایا کہ اذیت کی زیادتی ان کے عقیدے کو مزید سخت کررہی ہے لہذا آپ پر اور تشدد کیاجانے لگا ۔حتی کہ کوڑے تک لگائے گئے اپنے والد کے اس ظالمانہ رویہ سے عاجز آگئے ۔آدھی رات کو انھوں نے اپنے خدا واحد کی بارگاہ میں م اپنی حالت زار خضوع وخشوع سے عرض کی اور دعا مانگی کہ "اے خداوند! میرے دل کو شرک وبت پرستی کی کدورت سے پاک رکھ ۔میں تجھے تیرے حبیب کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اس حبس سے رہا کر ۔ اپنے حبیب تک پہنچادے " خلوص دل سے دعا فرمائی تھی مستجاب ہوئی ۔ایک غیبی ندا آئی کہ روزبہ اٹھ

۱۴۲

اور قید خانہ سے نکل جا۔ آپ نے تعمیل کی اور اسی گرجا میں آئے ۔ایک عمر رسیدہ راہب چرچ سے باہر آیا اور اس نے خود ہی پوچھا کہ کیا تم ہی روزبہ ہو ؟آپ نے اثبات میں جواب دیا اور وہ بزرگ ان کو گرجا کے اندر لےگئے ۔اگر چہ سلمان دین مجوس کو شروع ہی سے ناقص سمجھتے تھے مگر ڈانوا ڈول تھے ۔اب عیسائیت کی پناہ میں انھیں کچھ قرار محسوس ہوا۔ آپ دن رات عیسائی علماء کی خدمت کرتے اور زہد وتقوی کی تعلیم دل لگا کرحاصل کرتے ۔آپ نے جس بزرگ کو روحانی سرپرست پسند کیا تھا وہ بھی ان کو بہت قریب رکھتے تھے ۔ان کی ذہانت وخدمت کے باعث جب اس کاآخری وقت آیا تو اس نے اپنے شاگرد رشید حضرت سلمان کو بلاکر کہا کہ موت برحق ہے اب میرا انتقال قریب ہے ۔حضرت سلمان نے عاجزانہ عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا لائحہ عمل کی تعلیم فرما جائیں جو مستقبل میں میری رہبری کے لئے مشعل راہ ہو ۔اس بزرگ نے نصیحت کی کہ تم میری ایک لوح لے کر انطاکیہ چلے جاؤ وہاں ایک راہب ہے وہ عموما شہر سے باہر رہتا ہے اس کو تلاش کرو اسے یہ لوح دے دینا اور اس کی خدمت میں میرا سلام پہنچا کر اس کے حلقہ ارادت میں شامل ہوجانا ۔اور جو وہ تمھیں حکم دیے اس کی تعمیل کرنا ۔اس نصیحت کے بعد راہب کی روح پرواز کرگئی اور سلمان انطاکیہ روانہ ہوگئے ۔

جب سلمان انطاکیہ پہنچے تو انھوں نے تلاش کیا کہ شہر کے باہر ایک "دیر" ہے اس کے دروازے پر ایک بوڑھا بیٹھا ہے شکل ولباس سے راہب دکھائی دیتا ہے ۔سلمان نے قریب ہو کر باآواز بلند فرمایا "لا الہ الا اللہ عیسی روح اللہ ومحمد حبیب اللہ"یا یہ کہا

۱۴۳

"اشهد ان لا اله الا الله و ان عیسی روح الله و ان محمد حبیب الله " جب راہب نے سنا تو چونک کر دریافت کیا کہ تم کون ہو ۔سلمان نے نزدیک جک کر لوح اس راہب کے سپرد کردی۔لوح لینے پر راہب نے ان کو اپنے پاس ٹھہرالیا ۔ یہ بزرگ راہب تارک الدنیا اور عبادت گزار بندہ خدا تھا ۔دن رات عبادت الہی یمں مشغول رہتا تھا لہذا سلمان کو اس سے محبت ہوگئی ۔اور وہ ان کی خدمت کرنے لگے ۔ اور ساتھ ساتھ علمی و روحانی پیاس بھی بجھاتے رہے ۔سلمان اس بزرگ سے علمی اور عملی استفادہ حاصل کرنے کا کوئی موقعہ بھی ضائع نہ جانے دیتے تھے یہاں تک کہ اس راہب کا وقت آخر قریب ہوا۔اور اس نے سلمان کو نصیحت کی اب اس جگہ عیسائی کوئی نہیں رہا ہے تم یہ لوح لیکر سکندریہ کے راہب کے پاچلے جانا اور اس کی خدمت میں مشغول ہوجانا ۔چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان سکندریہ آئے اور اس راہب کی خدمت میں کافی عرصہ گزارا ۔مورخین کے بیان کے مطابق اسی طرح راہب در راہب حضرت سلمان جاتے رہے اور لوح منتقل ہوتی رہی ۔یہاں تک کہ آخری راہب تک پہنچے ۔اوراس کے آخری وقت پر اس سے التجا کی میں بہت دروازوں پر جاچکا ہوں اب تو آپ مجھے کسی ایسے کے ہاں روانہ کریں جس کے بعد کسی او رکی حاجت نہ ہو ۔راہیب نے کہا بس اب میری نظر میں کوئی ایسا شخص باقی نہیں ہے جس کے پاس تمھیں روانہ کروں ۔لہذا تمھیں مشورہ دیتا ہوں کہ محمد بن عبد اللہ بن

۱۴۴

عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور کا وقت قریب ہے وہ ریگستان میں ظہور کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی ہجرت کرےگا یہ وہ ہی آخری رسول ہے جس کی خبر وبشارت بنی اسرائیل کے نبیوں نے دی ہے ۔اور اس کاذکر کتابوں میں موجود ہے اس کی علامتیں یہ ہیں کہ جو ہدیہ کو قبول کرے گا اور صدقہ کو رد کردے گا ۔ اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی تم اس کی خدمت میں حاضر ہوکریہ لوح اسے پیش کردینا ۔

چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان اس نبی مبشر کی تلاش میں ریگستانوں کی خاک چھانتے رہے ۔یہاں تک کہ فقر وفاقے کی نوبت آگئی کہ تنگ آکر کچھ آدمیوں کے ایک مجمع میں اعلان کیا کہ جو شخص بھی میرے اخراجات کو برداشت کرے گا میں اس کی غلامی قبول کرلوں گا ۔ مدینہ میں ایک متمول زمیندار اس بات پر آمادہ ہوگیا مگر اس نے شرط عائد کی میں تمھیں مدینہ لے جاؤں گا اور تم وہاں میرے غلام بنکر میری خدمت کروگے عشق رسول کے سامنے یہ سود ا سلمان کوسستا نظر آیا ۔فورا آمادہ ہوگئے ۔جب دوران سفر لوگوں کو سلمان کے عقیدے اور مقصد سفر کی معلومات ہوئیں تو انھوں نے ان کا تمسخر اڑایا اور تکالیف پہنچا ئیں ۔مگر آتش عشق بجھنے کی بجائے بھڑکتی رہی ۔

سلمان مدینہ پہنچ گئے لیکن انھیں اپنے آقا کی خدمت سے اتنی فرصت وفراغت میسر نہ آسکی وہ خود اس رسول کا پتہ چلا تے ۔ایک دن وہ باغ میں کوئی خدمت انجام دے رہے تھے کہ

۱۴۵

کچھ لوگ باغ کے چشمے کے قریب آکر بیٹھ گئے چونکہ سلمان طبعا مہمان نواز اور تواضع کش تھے لہذا ایک تھا ل میں کچھ کھجوریں لیکر ان کے پاس پہنچے اور عیسائی طریقہ پر سلام کیا اور دعوت طعام کی خواہش فرمائی ۔ انھوں نے سلمان کی دعوت کو قبول کیا اور کھانا شروع کیا مگر ان میں سے ایک صاحب نے ان خرموں کو ہاتھ نہ لگایا ۔سلمان نے وجہ دریافت کی تو جواب پایا کہ "صدقہ مجھ پر اور میرے اہلبیت پر حرام ہے " سلمان نے پوچھا تم کون ہو " جواب دیا میں اللہ کا رسول ہوں " یہ سنکر سلمان واپس ہوئے اور خرمہ کا ایک دوسرا طبق لے کرآئے اور رسول کی خدمت میں ہدیہ کیا ۔آپ نے اس میں تناول فرمایا ۔سلمان کی دلی مراد پوری ہوئی۔پروانہ وار شمع رسالت کا طواف کرتے رہے ۔اور پشت مبارک پر ثبت مہر نبوت کی زیارت کاشرف پاتے ہی قدموں میں گرگئے اور فرمایا " اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد انک رسول اللہ " میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اس کے بعد حضرت سلمان نے راہب کی دی ہوئی لوح رسول خدا کے سپرد کردی ۔حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلمان کے آقا کے پاس تشریف لےگئے ۔اور سلمان کو خرید کر آزاد کردیا ۔اور ارشاد فرمایا کہ تم "سلمان الخیر "ہو۔

حضرت سلمان کے ابتدا ئی حالات کو کئی طریقوں اور اختلافات سےبیان کیا گیا ہے تاہم ہمارے لئے سرکار خاتم النبین صادق وامین رسول کی زبان وحی بیان کا یہ ارشاد کافی ہے کہ حضور نے فرمایا ۔

"سلمان مجوسی نہیں تھے بلکہ وہ شرک کا اظہار کرتے تھے اور ایمان کو دل میں پوشیدہ کھے ہوئے تھے "

۱۴۶

حضور کی یہ شہادت سلمان کے ابتدائی حالات ایمان کی بحث کو ختم کردینے کے لئے کافی ہے ۔

روایات امامیہ سےیہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت سلمان فارسی کو حضرت عیسی علیہ السلام کے "وصی" ہونے کا روحانی اعزاز حاصل تھا ۔شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت سلمان نے اپنے گھر کی چھت میں ایک تحریر لٹکی ہوئی دیکھی اپنی والدہ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم بھی جب گھر واپس آئے تو اسے ایسے ہی لٹکا پایا ہے ۔تم اس کو مت چھونا ورنہ تمھارے والد تمھیں سزادیں گے ۔حضرت سلمان اس وقت خاموش ہورہے مگر رات کو جب تمام گھر والے سوگئے تو آپ نے اٹھ کر اس کامطالعہ فرمالیا لکھاتھا کہ ۔

"بسم اللہ الرحمان الرحیم ۔

یہ اللہ کاعہد ہے ۔آدم سے کہ وہ ان کے صلب سے ایک نبی خلق کرے گا جس کا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا وہ اخلاقی بلندیوں کو حاصل کرنے کا حکم دےگا ۔ اور اصنام کی پر ستش سے منع کرے گا ۔ اے روزبہ ! تم عیسی ابن مریم کے وصی ہو اس لئے ایمان لاؤ اور مجوسیت سے دور رہو ۔اور اس سے بے زاری کا اعلان کرو۔"

اما م جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ عیسی او محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان پانچسو سال کا عرصہ ہے جس میں ڈھائی سو سال ایسے ہیں جن میں نہ تو کوئی نبی تھا اور نہ ظاہری عالم ۔راوی نے عرض کیا پھر لوگ کس دین پر تھے ؟ فرمایا وہ دین عیسوی پر تھے ۔ پوچھا وہ لوگ کیا تھے ؟ فرمایا وہ مومن تھے پھر ارشاد کیا کہ زمین اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک اس میں عالم موجود نہ ہو ۔ شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ جو لوگ حجت خدا کی تلاش میں جگہ بجگہ منتقل ہوتے رہے ان میں سلمان بھی ہیں ۔وہ ایک عالم سے دوسرے عالم اور ایک فقیہ سے دوسرے فقیہ تک پہنچے

۱۴۷

رہے اور اسرار واخبار میں تدبر کرتے رہے اور حضور کے ظہور کے منتظر رہے ۔ پھر لکھا ہے کہ جناب سلمان حضرت عیسی کے وصی کے وصی تھے اسی طرح ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ سلمان حضرت عیسی کے آخری چند اوصیاء میں سے تھے ۔ اس کے ثبوت میں ملا حسین نوری طبرسی نے ایک دلیل پیش کی ہے جو قابل غور ہے ، سلمان کی وفات کے بعد سید الاوصیاء امیر المومنین علیہ السلام نے انھیں غسل دیا حالانکہ بظاہر سلمان مدائن میں تھے اور جناب امیر مدینہ میں تھے کرامت کے ذریعہ اتنی دور تشریف لے جانے کی غالبا وجہ یہی تھی کہ وصی کو نبی یا وصی غسل دے سکتا ہے ۔پھر لوح کا مختلف وسائل کے ذریعے آنحضرت تک پہنچا نا بھی اس بات کا امکانی ثبوت ہے ۔

بہر حال قبل از اسلام کے حالات سے سلمان کو ایک مسلم دینی حیثیت ضرور حاصل تھی اور اس منزل تک پہنچنے کے لئے ان کو ایک طرف شدائد ومصائب کا مقابلہ کرنا پڑا تو دوسری طرف سنگین دشوار یوں سے دوچار ہوئے ۔یہ تمام آلام اور ناگواریاں انتہائی صبر وتحمل سے برداشت کرنا حضرت سلمان کے جذبہ حب دین ومعرفت الہی کے ذوق اور شوق زیارت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاآئنہ دار ہے ۔حقیقی دین عیسوی سے وابستہ علماء کی صحبت او رفیض ربّانی نے یوں تو حضرت سلمان کو سونا بنا دیا تھا مگر جب آپ کو کائنات کے سب سے بڑے ہادی رحمۃ العالمین کا سایہ رحمت وشفقت نصیب ہوا تو آپ پارس ہوگئے ۔سرور کائنات کی صحبت کا رنگ ایسا پکڑا کہ صحابی سے "منّا اهلبیت " قرار پائے ۔آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر قول وعمل کو اپنی زندگی کا جزو لا ینفک بنائے رکھا ۔سلمان کا منشور زندگی صرف سنت رسول کی پیروی ۔آل رسول (ع) کی محبت واتباع اور کتاب الہی کی مطابقت تھی ۔ اسی وجہ سے

۱۴۸

جو فضائل ان کو نصیب ہوئے کسی دوسرے صحابی کو حاصل نہ ہوسکے ۔حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا کہ میں سلمان کے بارے میں کیا کہوں وہ ہماری طینت سے خلق ہوئے ہیں جس کی روح ہماری روح سے ہم آہنگ ہے ۔خداوند تعالی نے سلمان کو علوم اول وآخر اور ظاہر وباطن سے سرفراز کیا ہے ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سلمان مجلس رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حاضر تھے کہ اچانک ایک عربی آیا ۔ اس نے حضرت سلمان کا ہاتھے پکڑا اور انھیں اٹھا کر ان کی جگہ پر بیٹھ گیا آنحضرت یہ منظر دیکھکر اتنے آزردہ خاطر ہوئے کہ چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا اور پیشانی اقدس پر قطرات عرق نمودار ہوئے اور اس حالت میں ارشاد فرمایا کہ" تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے خدا دوست رکھتا ہے تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے میں دوست رکھتا ہوں تو اس شخص کو مجھ سے دور کر رہے ہو جس کی منزلت یہ کہ جب بھی جبرئیل مجھ پر نازل ہوتا ہے تو خدا کا سلام اس کے لئے لاتا ہے ۔یقینا سلمان مجھ سے ہے ۔خبردار! تم سلمان کے بارے میں غلط خیال نہ قائم کرو ۔خدا نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں سلمان کو لوگوں کی اموات اور بلاوؤں اور ان کے نسب ناموں کا علم دے دوں ۔اور انھیں ان چیزوں سے آگاہ کردوں جو حق وباطل کو جدا کرنے والی ہیں "۔

وہ عرب (ممکن ہے کہ وہ صحابی حضرت عمر ہو) صحابی جس نے حضرت سلمان کو اپنے زعم میں سمجھ کر اٹھایا تھا ۔ارشاد ات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سنکر گھبراگیا اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )میں یہ گمان بھی نہ کرسکتا تھا کہ سلمان ان مراتب جلیلہ پر فائز ہے ۔

۱۴۹

کیا وہ مجوسی نہیں جو بعد میں مسلمان ہوا ۔ حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " میں تو خدا کی نظر میں سلمان کے درجے کوبیان کررہا ہوں اور تم خیال کررہے ہوکہ وہ مجوسی تھا ۔وہ (ہرگز ) مجوسی نہ تھا ۔ صرف اس کا اظہار کرتا تھا (تقیہ میں تھا)اور ایمان اس کے دل میں پوشیدہ تھا "

علمی مقام:-

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک دن حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا میں نے ایک روز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سلمان کے بارے میں سوال کیا حضور نے فرمایا ۔

"سلمان دریائے علم میں کوئی اس کی تھاہ تک نہیں پہنچ سکتا اس کو اول وآخر کے علم سے مخصوص کیا گیا ہے خدا اسے دشمن رکھے جو سلمان کو دشمن رکھتا ہے اور خدا اس کو دوست رکھے جو سلمان کو دوست رکھتا ہے "

اما م محمد باقر علیہ السلام نے فضیل بن یسار سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ سلمان اوّل وآخر علم کو جانتے تھے اس سے کیا مطلب ہے ؟۔فضیل نے جواب دیا یعنی وہ علم بنی اسرائیل اور علم رسالت مآب سے آگاہ ہوگئۓ تھے ۔ امام معصوم نے فرمایا نہیں یہ مطلب نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ علم پیغمبر اور امیر المومنین اور آنحضرت اور امیر المومینین کے عجیب وغریب امور سے آگاہ تھے ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام س ے مروی ہے سلمان نے علم اوّل اور علم آخر معلوم کیا اور وہ دریا علم تھے کہ جن کا علم ختم ہونے والا نہ تھا اور وہ ہم اہل بیت سے ہیں ۔ان کا علم اس درجہ پر پہنچا ہوا تھا کہ ایک روز ان کا گزر ایک شخص کی طرف ہوا جو ایک مجمع میں کھڑا تھا ۔سلمان نے اس شخص سے کہا اے بندہ خدا !پروردگار

۱۵۰

عالم سے توبہ کر اس فعل سے جو کل رات تو نے اپنے مکان میں کیا ہے یہ کہکر سلمان چلے گئے ۔لوگوں نے اس شخص کو ابھارنا چاہا کہ سلمان نے تم پر ایک بدی کی تہمت باندھی ہے اور تونے بھی اس کی تردید نہ کی اس نے جواب دیا کہ سلمان نے مجھے اس امر سے آگاہ کیا ہے جس کو میرے اور خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا ۔(علمائے کے نزدیک یہ شخص اول خلیفہ اہلسنت حضرت ابو صدیق تھے )۔

روایت ہے کہ جب سلمان ایک اونٹ کو دیکھتے (جس کو لوگ عسکر کہتے تھے اور حضرت عائشہ جمل کے دن اس پر سوار ہوکر تازیانہ مارتی تھیں )تو اس اونٹ سے اظہار نفرت کرتے تھے لوگوں نے "سلمان " سے کہا کہ اس جانور سے آپ کو کیا پرخاش ہے ۔آپ نے جواب دیا یہ جانور نہیں بلکہ عسکر پسر کنعان جنی ہے ۔ جس نے یہ صورت اختیار کی ہے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے ۔پھر اس اورنٹ کے مالک اعرابی س کہا کہ تیرا یہ اونٹ یہاں بے قدر ہے ۔اس جو "حواب" کی سرحد پر لے جا ۔اگر وہاں لے جائے گا تو جو قیمت چاہے گا مل جائے گی ۔امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ لشکر عائشہ نے اس اونٹ کو سات سو درہم میں خرید کیا ۔جبکہ وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کے لئے جارہے تھے ۔یہ واقعہ بھی حضرت سلمان کے علمی کی تائید کرتا ہے کہ جنگ جمل سے برسوں قبل اس کی اطلاع کردی ۔

امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ سلمان فارسی حکیم لقمان کے مانند ہیں ۔

ابن بابویہ نے بسند معتبر امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک روز جناب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں کون ہے جو تمام سال روزہ رکھتا ہے ۔سلمان

۱۵۱

نے کہا میں ہوں ۔حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھرمایا تم میں کون ہے جو ہمیشہ شب بیدار رہے ؟۔ سلمان نے عرض کی میں ہوں ۔پھر حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا تم میں کون ہے جوہر روز ایک قرآن ختم کرتا ہے ۔سلمان نے کہا میں ہوں ۔یہ سنکر حضرت عمر بن خطاب کو غصہ آیا اور بولے یہ شخص فارس کا رہنے والا یہ چاہتا ہے کہ ہم قریشیوں پر فخر کرے ۔ یہ جھوٹ بولتاہے اکثر دنوں کو روزہ سے نہیں تھا ۔اکثر راتوں کو سویا کرتا ہے ۔اور اکثر دن اس نے تلاوت نہیں کی ۔ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا وہ لقمان حکیم کے مانند ومثل ہے ۔تم اس سے پوچھو وہ جواب دیں گے ۔ حضرت عمر نے پوچھا تو حضرت سلمان نے جواب دیک کہ تمام سال روزہ کے بارے میں یہ ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھتا ہوں ۔اور خدا فرماتا ہے کہ جو شخص ایک نیکی کرتا ہے تو اس کو دس گنا ثواب دیتا ہوں ۔اس لئے یہ تمام سال کے روزوں کے برابر ہوا ۔باوجود اس کے ماہ شعبان میں بھی روزے رکھتا ہوں ۔اور ماہ مبارک رمضان سے ملا دیتا ہوں ۔اور ہر رات شب بیداری کے یہ معنی ہیں کہ ہر رات با وضو سوتا ہوں ۔اور میں نے حضور سے سنا ہے کہ جو شخص باوضو سوتا ہے ایسا ہے کہ تمام رات عبادت میں بسر کی اور ہر روز ختم قرآن کے بارے میں یہ ہے کہ ہرروز میں تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لیتا ہوں اور میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا کہ اے علی تمھاری مثال میری امت میں "قل ھو اللہ احد " کی مثال ہے جس نے سورہ قل ھو اللہ ایک مرتبہ پڑھا ایسا ہے کہ اس نے ثلث (ایک تہائی )قرآن کی تلاوت کی جس نے دومر تبہ پڑھا تو اس نے دوتہائی کی تلاوت کی اور جس نے تین مرتبہ پڑھا تو ایسا ہے کہ اس نے قرآن ختم کرلیا ہے اور اے علی (ع) جو شخص تم کو زبان سے دوست رکھتا ہے اس کو

۱۵۲

ثلث(ایک تہائی)ایمان حاصل ہوتا ہے ۔اورجو شخص زبان اور دل سے تمھیں دوست رکھتا ہے اس کو دو ثلث ایمان مل گیا ۔اور جو شخص زبان ودل سے تم کو دوست رکھتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے تمھاری مدد کرتا ہے تو تمام ایمان اس کو حاصل ہوگیا ۔اے علی اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ۔اگر تم اہل زمین بھی اسی طرح دوست رکھتے جس طرح اہل اسمان دوست رکھتے ہیں تو خدا کسی قسم جہنم میں عذاب نہ کرتا ۔یہ سنکر حضرت عمر خاموش ہوگئے جیسے ان کے منہ میں خاک بھر گئی ہو۔

حضرت یعقوب کلینی نے امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان اور ابوذر کے درمیان صیغہ اخوت پڑھا تھا اور ابوذر پر یہ شرط عائد کی تھی وہ کبھی سلمان کی مخالفت نہ کریں گے اس لئے کہ سلمان کو ان علوم میں دسترس حاصل ہے جن کا ابوذر کو علم نہیں ۔

روایت ہے کہا ایک روز حضرت ابوذر اپنے بھائی حضرت سلمان کےگھر آئے ۔سلمان کا پیالہ شوربہ اور چربی سے بھر ہوا تھا دوران گفتگو یہ پیالہ الٹا ہوگیا مگر اس میں سے کچھ نہ گرا ۔سلمان نے اسے سیدھا کیا اور پھر مصروف گفتگو ہوئے ۔ابوذر کو یہ دیکھکر حیرت ہوئی اچانک پیالہ پھر اوندھا ہوا ۔لیکن پھر شوربا وغیرہ نہ گرا۔ اس سے ابوذر کا تعجب دہشت میں تبدیل ہوگیا ۔وہان سے اٹھے اور غور کرنے لگے کہ اچانک وہاں امیر المومنین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ جناب امیر (علیہ السلام ) نے ابوذر سے پوچھا کہ تم سلمان کے ہاں سے واپس کیوں آگئے اور گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟ ابوذر نے ماجرا بیان کیا حضرت امیر (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا "اے ابوذر ! اگر سلمان تم کو وہ امور

۱۵۳

بتادیں جو وہ جانتے ہیں تو یقینا تم کہوگے کہ سلمان کےقاتل پر خدا رحمت نہ کرے ۔اے ابوذر بے شک سلمان زمین میں خدا کی درگاہ ہیں جو ان کو پہچانے وہ مومن ہے ۔جو ان سے انکار کرے وہ کافر ہے بے شک سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں ۔

شیخ مفید لکھتے ہیں کہ جناب امیر حضرت سلمان کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا کہ اے سلمان اپنے مصاحب کے ساتھ مدارات کرو اور ان کے سامنے وہ امور ظاہر نہ کرو جس کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے "

حضرت امام باقر سے روایت ہے کہ علی علیہ السلام محدث تھے اور سلمان محدث یعنی ملائکہ دونوں حضرات سے باتیں کرتے تھے ۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ سلمان کا محدث ہونا یہ کہ ان کے امام ان سے حدیث بیان کرتے اور اپنے اسرار ان کو تعلیم کرتے تھے نہ یہ کہ براہ راست خدا کی جانب سے ان کو کلام پہنچتا تھا ۔ کیوں کہ حجت خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو خدا کی جانب سے کوئی بات نہیں پہنچتی ۔علامہ مجلسی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ یہاں جس امر سے نفی کی گئی ہے ممکن ہے وہ خداکا بے واسطہ ملک کلام کرنا ہو اور فرشتے جناب سلمان سے گفتگو کرتے تھے ۔

چنانچہ ایک مقام پر حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت سلمان کے محدث ہونے کا مطلب یہ کہ ایک فرشتہ ان کے کان میں باتیں کرتا تھا دوسری جگہ ہے کہ ایک بڑا فرشتہ ان سے باتیں کرتا تھا ۔ ایک شخص نے تعجب سے دریافت کیا کہ جب سلمان ایسے تھے تو پھر امیر المومنین علیہ السلام کیسے رہے ہونگے ۔حضرت نے جواب دیا اپنے کام سے سروکار رکھو اور ایسی باتوں سے غرض مت رکھو (یعنی کرید نہ کرو)ایک موقعہ

۱۵۴

پر فرمایا کہ ایک فرشتہ ان کے دل میں ایسا اور ویسا نقش کرتا تھا ۔ایک حدیث میں ہے ک سلمان متمو سمین میں سے تھے کہ لوگوں کے احوال فراست سے معلوم کرلیا کرتے تھے ۔ایک حدیث معتبر میں ہے کہ امام صادق نے ارشاد فرمایا کہ سلمان اسم اعظم جانتے تھے ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی علیہ السلام کے سامنے تقیہ کا ذکر آیا ۔جناب امیر نےفرمایا اگر ابوذر سلمان کے دل میں جوکچھ جان لیتے تو یقینا ان کو قتل کردیتے ۔حالانکہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا تھا ۔پھر دیگر تمام لوگوں کے بارے میں کیا گمان کرتے ہو۔

یہ حدیث بھی جناب سلمان کے بلند مرتبہ عملی کی تائید میں ہے کہ جناب ابوذر پر جناب سلمان کی علمی فوقیت ثابت کرتی ہے کہ حضرت ابوذر ان علوم واسرار الہی کے متحمل نہیں ہوسکتے جو کہ سلمان پر منکشف تھے ۔

شیخ طوسی نے معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت سلمان کے اصحاب میں سے ایک صاحب بیمار ہوئے چند روز تک اس سے ملا قات نہ ہوئی تو اس کا حال دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے ۔لوگوں نے بتایاوہ بیمار ہے ۔سلمان نے فرمایا چلو اس کی عیادت کریں ۔غرض لوگ ان کے ہمراہ چلے اور اس شخص کے گھر پر پہنچے ۔اس وقت وہ عالم جان کنی میں تھا ۔جناب سلمان رحمۃ اللہ علیہ نے ملک الموت سے خطاب کیا کہ خدا کے دوست کے ساتھ نرمی اور مہربانی کرو ملک الموت نے جواب دیا جسے تمام حاضرین نے سنا کہ اے ابو عبداللہ

۱۵۵

میں تمام مومنین کے ساتھ نرمی کرتا ہوں اور اگر کسی کے سامنے اس طرح آؤں گا کہ وہ مجھے دیکھے تو بے شک وہ تم ہوگے ۔

ایک روز سلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں داخل ہوئے ۔صحابہ نے ان کی تعظیم فرمائی اور ان کو اپنے اوپر مقدم کرکے صدر مجلس میں ان کے حق کو بلند کیا او ران کی پیروی وتعظیم کی ۔برائے اختصاص جو ان کو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آل سے تھا ۔ جگہ دی پھر حضرت عمر آئے اور دیکھا کہ وہ صدر مجلس میں بٹھائے گئے ہیں ۔یہ دیکھ کر وہ بولے یہ عجمی کون ہے ؟ جو عربوں کے درمیان صدر مجلس میں بیٹھاہے یہ سنکر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشریف لے گۓ ۔اور خطبہ ارشاد فرمایا کہ حضرت آدم کے زمانہ سے اس وقت تک کہ تما آدمی کنگھی کے دندانوں کف مثل برابر ہیں کوئی فضلیت نہیں ہے عربی کو عجمی پر ،نہ کسی سرخ وسفید کو کسی سیاہ پر مگر تقوی او رپرہیزگاری کے سبب سے ۔

سلمان ایک دریا ہے جو ختم نہیں ہوتا اور ایک خزانہ ہے جو تما م نہیں ہوتا ۔سلمان ہم اہلبیت سے ہیں سلمان حکمت عطاکرتے ہیں اور حق کی دلیلیں ظاہر کرتے ہیں ۔

استیعاب میں معرفۃ الاصحاب میں ہے کہ حضور نے فرمایا " اگر دین ثریا میں ہوتا تو سلمان یقینا وہاں تک پہنچ کر اسے حاصل کرلیتا"

جہاد:-

حضرت سلمان فارسی رحمۃ اللہ علیہ کی قبل از اسلام زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی طبیعت روحانیت ۔زہد عبادت اور معرفت کی طرف مائل رہی ۔ اور جنگ وجدل یا سپاہ گری سے ان کا کسی طرح سےبھی کوئی تعلق نہ رہا انھوں نے کسی جنگ یا

۱۵۶

لڑائی میں شرکت نہ کی بلکہ گھر س ے نکل کر عبادت خانوں میں گوشہ نشین یا تارک الدنیا بنکر اپنی روح کو مفرح ومنور کرنے کی کوشش میں مصروف رہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے پر چم تلے آتے ہی وہ ایک ممتاز مجاہد اور کہنہ مشق سپاہی ثابت ہوتے ہیں ۔ آپ کی اسلامی زندگی میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمان نے نہ صرف جہادوں میں شرکت ہی کی بلکہ بعض موقعوں پر ان کو سپہ سالار مقرر کیا گیا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو خاص علم وتفضل کی بدولت فنون حرب اور علم معرکہ آرائی سے بخوبی واقفیت اور کامل دسترس حاصل تھی بدر واحد کی لڑائیوں میں سلمان شریک نہ ہوئے ۔مگر سنہ ۵ ھجری میں جنگ خندق میں آپ کو بڑی نمایاں حیثیت حاصل ہوئی ۔ حضرت سلمان پہلی مرتبہ جنگ میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے ۔اس جنگ میں پورا عرب مسلمانوں کے مقابلہ میں آیا تھا اور شہر مدینہ کا محاصرہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہا تھا ۔ شہر کی نہ ہی کوئی شہرپناہ تھی اور نہ ہی فصیل ۔لشکر کی تعداد بھی قلیل تھی جبکہ دشمن کی فوج کے غول سرپر منڈلا رہے تھے مسلمانوں کی نبض ڈوبی ہوئی تھیں اور کافر متکبر انہ آواز یں کس رہے تھے حضور کو حضرت سلمان نے مشورہ دیا کہ ایرانی طرز کی ایک خندق کھودلی جائے اسے قبول کر لیاگیا اور بمطابق وحی حضور نے خندق کھودنے کا حکم زیر نگرانی حضرت سلمان صادر فرمایا ۔اس خندق کا کھودنا کفار کے ارادوں کو دفن کرنے کی تعبیر ثابت ہوا ۔جب انھوں نے یہ نئی چیز دیکھی تو ششدر رہ گئے ۔عمرہ بن عبدود جیسے بہادر جس کا نام سنکر حضرت عمر جیسے بہادر کا دل ڈوب جاتا تھا ۔خندق کے کنارے ڈھاریں

۱۵۷

مارتا اور دیگر پہلوان باتیں بنارہے تھے کہ مسلمانوں نس یہ ایسا حیلہ کیا ہے کہ ہم عرب اس سے قطعی ناواقف ہیں انھوں نے بائیس روز سرتوڑ کوشش کی کہ کسی طرح مدینہ تک پہنچ سیکیں لیکن ایک نہ چلی آخر تنگ آکرطعن وتشیع پر اتر آئے حضور کو گستاخانہ طریقوں سے مبارزہ طلبی کی ۔آخر حضرت علی علیہ السلام نے عمروبن عبدود کو واصل جہنم کیا اور یہ فوج کثیر دم دبا کر طائف کی طرف بھگ گئی ۔جنگ فتح ہوئی ‏غزوہ خندق کے بعد کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ شریک نہ ہوئے ۔پیران سالی کے باوجود آپ نس ہرلڑائی یمں داد شجاعت دی ۔

جب جنگ احزاب کے موقعہ پر خندق کھودی جارہی تھی تو مسلمان مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر کام کر رہے تھے ۔خود سرورکائینات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دست مبارک سے کھدائی کا کام کررہے تھے آپ کا جسم مبارک مٹی سےاٹا ہوا تھا اور آپ کی زبان وحی بیان پر رجز جاری تھا سلمان ضعیف العمری کے باوجود تنومند اور قوی الجثہ تھے ۔ انصارو مہاجرین دونوں ان کے ساتھ کام کرنے کے خواہشمند تھے مہاجر کہتے تھے کہ سلمان ہم میں سے ہے ۔جب اس بات کا چرچا حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہونچا تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان کا ہاتھ تھام کر فرمایا "سلمان منا اھل البیت " سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ اس موقعہ کے بعد متعدد بار یہ جملہ ارشاد فرمایا ۔

اہل سنۃ کے جلیل القدر امام محی الدین ابن عربی نے اس حدیث سے حضرت سلمان کی عصمت وطہارت پر استلال کیا ہے اور کہتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک بندہ خاص ومخلص تھے اس لئے اللہ نے ان کے اہل بیت کی ایسی تطہیر کی جو تطہیر کا حق تھا ۔ اور ان سے رجس

۱۵۸

اور ہرعیب کودوررکھا اور رجس عربی زبان میں گندگی کو کہا جاتا ہے پھر آیت تطہیر "انما یرید اللہ لیذھب ۔۔الخ" کے بعد کہا کہ جس شخص کو بھی اہلبیت کی طرف نسبت دی جائے گی ۔اس کا مظہر ہونا ضروری ہے اس کے بعد تحریر کیا کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سلمان کو اہلبیت میں شامل کرنا انکی طہارت ۔خدائی حفاظت اور عصمت کی گواہی دیتا ہے ۔"

علامہ مجلسی نے بصائر الدرجات سے فضل بن عیسی کی ایک روایت حیات القلوب میں نقل کیا ہے کہ فضل کہتے ہیں ایک مرتبہ میں اور میرے والد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔میرے والد بزرگوار نے عرض کی کیا ہے صحیح ہے جناب رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہر کہ سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ امام نے فرمایا ہاں ۔میرے والد نے پوچھا کیا وہ عبد المطلب کی اولاد میں سے ہیں ؟ حضرت نے جواب دیا وہ اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے والد نے عرض کیا کہ کیا وہ ابوطالب (علیہ السلام )کی اولاد میں ہیں ؟ حضرت نے فرمایا کہ وہ ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے پدر بزرگوار نے کہا کہ میں سرکار کا مطلب نہیں سمجھ سکا ۔ حضرت صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ایسا نہیں ہے ۔جیسا کہ تم نے سمجھا ہے ۔بے شک خدا نے ہماری طینت علیین سے خلق فرمائی اور ہمارے شیعوں کی طینت اس سے ایک درجہ پست خلق فرمائی لہذا وہ ہم میں سے ہیں اور ہمارے دشمنوں کی طینت سجین سے خلق فرمائی اور ان کے دوستوں کی طینت ان سے ایک درجہ پست خلق کی لہذا وہ لوگ ان سے ہیں اور سلمان حضرت لقمان سے بہتر ہیں ۔

اسلامی نقطہ نظر سے جب قتال ناگزیر ہوتو اہل کتاب سے لڑائی کرنے سے قبل دعوت اسلام دی جاتی ہے اگر وہ مسلمان ہونا

۱۵۹

پسند نہ کریں تو ان سے جزیہ طلب کیا جاتا ہے اور اگر وہ انکار کرکے آمادہ جنگ ہوجائیں تو تلوار ہاتھ میں لینا پڑتا ہے ۔چنانچہ چنگ خیبر کے موقعہ پر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو یہی ہدایت کی تھی کہ ہم پہلے انھیں خدا کی توحید اور اور میری رسالت کی دعوت دینا بصورت انکار مطالبہ جزیہ کرنا اور اگر وہ پھر بھی لڑائی پر مصر رہیں تو ان سے جنگ کرنا ۔چنانچہ حضرت سلمان ان جنگی اخلاق سے بخوبی واقف تھے ۔ لہذا ہمیشہ اس پرعامل رہے ۔ چنانچہ ایک موقعہ پر وہ ایک لشکر کے امیر مقرر کئے گئے اور ان کو فارس کے ایک قلعہ کو فتح کرنے کی مہم پر مامور کیا گیا ۔جب آپ اپنی سپاہ کے ساتھ قلعہ کے نزدیک گئے تو تامل فرمایا ۔لوگوں نے پوچھا کیا آپ اس قلعہ پر حملہ نہیں کریں گے فرمایا نہیں جس طرح رسول خدا پہلے دعوت اسلام دیتے تھے اسی طرح میں بھی ان کو دعوت دوں گا پھر سلمان ان کے پاس تشریف لےگئے اور کہا کہ میں بھی تمھاری طرح فارس کا باشندہ ہوں تم دیکھ سکتے ہو کہ عرب میری اطاعت کر رہے ہیں اگر تم دل سے اسلام لےآؤ گے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو ہم تم پر کوئی زبردستی نہیں کریں گے صرف تم سے جزطلب کریں گے ۔اور اگر پھر بھی تم بر سر جنگ نظر آؤگے تو پھر میرے لئۓ جنگ ضروری ہوگی ۔اہل قلعہ نے جواب دیا کہ نہ ہی ہم تمھارا دین قبو ل کریں گے اور نہ ہی کوئی جزیہ دینا منظور کریں گے بلکہ تمھارا مقابلہ کریں گے ۔ اس پر لشکر سلمان نے حملہ کرنے کا اذن طلب کیا مگر آپ نے جواب دیا نہیں ابھی رک جاؤ ۔ان کو غور کرنے کا موقعہ دو ۔ آپ نے تین روز انتظار کیا اور پھرچوتھے دن حملے کا حکم دیا ۔اور قلعہ فتح کیا ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۹_ روميوں نے جنگ موتہ ميں لشكر اسلام كے بلند حوصلوں كو ديكھا تھا اور سپاہ اسلام كى فتوحات پر مشتمل خبريں سننے كے بعد انہوں نے يہ سمجھ ليا تھا كہ مسلمانوں سے روبرو ہوكر مقابلہ كى ان ميں طاقت نہيں ہے _

۱۰_ پيامبرو آئين نبرد جنرل مصطفى طلاس ص ۴۸۳ _

۱۱_پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كامتن مغازى واقدى ج ۳ ص۱۰۱۵و ۱۰۱۶ پر موجود ہے _

۱۲_ ابن اسحاق كے قول كے مطابق ۱۰ سے ۱۵ دن تك _سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷۰_

۱۳_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۹_مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۲۵_

۱۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۶۹_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۴۲_

۱۵_سيرت حلبى ج ۳ص ۱۴۳ _ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۴۳_

۱۶_( وَالَّذينَ اتَّخَذوُا مَسْجداً ضرَارَاً وَ كُفْرَاً وَ تَفْريقَاً بَيْنَ الْمُؤْمنيْنَ وَ ارْصَاداً لمَنْ حَارَبَ اللّهَ وَ رَسوُلَهُ منْ قَبْلُ و لَيَحْلفنَّ انْ اَرَدْنَا الاَ الْحُسْنى وَاللّه يَشْهَدُ اَنَّهُمْ لَكَاذبُونَ لاَ تَقُمْ فيه اَبَداً لَمَسْجدٌ اُسّسَ عَلَى الَّتَقْوى منْ اَوَّل يَوْم: اَحَقُّ اَنْ تَقُومَ فيه ، فيه رجَالٌ يُحبُّونَ اَنْ يَتَطَهرُوا وَ اللّهُ يُحبُّ الْمُطّهّريْنَ ) _(توبہ /۱۰۶و۱۰۷)_

۱۷_ سيرت حلبى ج ۳ ص ۱۴۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷۴_ مغاز واقدى ج ۳ ص ۱۰۴۶_ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۸۰_ تفسير التاويل و حقائق التنزيل نسخہ خطي، واقعہ مسجد ضرار از ص ۴۷۳ تا ۴۷۵_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۵۷،۱۰۵۶_

۱۹_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۵۶ _ ۱۰۵۷_

۲۰_ عبداللہ بن ابّى اور ديگر ۸۳ منافقين كے علاوہ _

۲۴۱

چودھواں سبق

منافقين كے سربراہ كى موت

مدينہ ميں مختلف قبائل كے نمائندہ و فود كى آمد

وہ دين جس ميں نماز نہيں اس كا كوئي فائدہ نہيں

ابراہيم كا سوگ

خرافات سے جنگ

مشركين سے بيزاري

حضرت على (ع) اہم مشن پر

مباہلہ

حضرت على (ع) كى يمن ميں ماموريت

سوالات

۲۴۲

منافقين كے سربراہ كى موت

واقعہ تبوك كے بعد مسلمانوں كى كاميابيوں ميں سے ايك كاميابى منافقين كے فتنہ پرور سربراہ عبداللہ ابن ابى كى موت ہے وہ تھوڑ ے عرصہ تك بيمار رہ كر مر گيا اور اس طرح تحريك اسلامى كے ايك سخت ترين داخلى دشمن كا شر برطرف ہو گيا_(۱)

مدينہ ميں مختلف قبائل كے نمائندہ وفود كى آمد

فتح مكہ اور تبوك پر لشكر كشى كے بعد، ہر طرف سے مختلف قبائل كى نمائندگى كرنے والے وفود مدينہ ميں آئے _ چنانچہ اسى لئے سنہ ۹ ھ كو'' عام الوفود'' ( وفود كا سال) كہا جاتا ہے _ اعراب اس بات كے منتظر تھے كہ اسلام اور قبيلہ قريش كى باہمى چپقلش كا كيا نتيجہ نكلتا ہے ؟ اس لئے كہ قريش عرب كے پيشوا اور خانہ كعبہ كے متولى تھے_ جب مكہ فتح ہو گيا اور قريش مغلوب ہوگئے تو دوسرے عرب قبائل يہ سمجھ گئے كہ ان ميں اسلام سے مقابلہ كى طاقت نہيں ہے _ غزوہ تبوك سے يہ حقيقت اور زيادہ روشن ہوگئي تھى _ لہذا ناچار گروہ در گروہ دين خدا ميں داخل ہونے لگے_

۲۴۳

وہ دين جس ميں نماز نہيں اس كا كوئي فائدہ نہيں

عرب كے سخت ترين قبيلہ ، ثقيف كى جانب سے چھ سركردہ افراد پر مشتمل ايك وفداسلام قبول كرنے كے بارے ميں مذاكرہ كرنے كے لئے مدينہ آيا اور مغيرہ ابن شعبة ثقفى كے گھر ٹھہرا ، پذيرائي كا سامان رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر سے مغيرہ كے گھر بھيجا گيا انہوں نے اسلام قبول كرنے كے سلسلے ميں كچھ تجويزيں ركھيں منجملہ ان كے ايك يہ تھى كہ ''لات'' كے بتخانہ كو تين سال تك ويران نہ كريں_ دوسرے يہ كہ ان سے نماز معاف ہوجائے ، جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى تجويزوں كو قبول نہيں كيا تو وہ ترك نماز پر اصرار كرنے لگے _ آنحضرت(ع) نے فرمايا '' جس دين ميں نماز نہيں اس كا كوئي فائدہ نہيں''_ آخر كار انہوں نے اسلام قبول كيا اور نماز پڑھنے اور شرعى احكام پر عمل كرنے كے لئے آمادہ ہوگئے_(۲)

ابراہيم كا سوگ

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيوى ماريہ قبطيہ(۳) سے ايك بيٹا پيدا ہوا _ ولادت كى صبح پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب كو يہ خوش خبرى سنائي كہ كل رات خدا نے مجھے بيٹا عطا كيا ہے جس كا نام ميں نے اپنے جد ا،براہيم (ع) كے نام پر ابراہيم (ع) ہى ركھاہے _ ولادت كے ساتويں دن آپ(ع) نے عقيقہ ميں ايك گوسفند ذبح كيا اورمولود كے سر كے بال تراش كر اس كے برابر چاندى مسكينوں ميں صدقہ كے طور پر تقسيم كي_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دوسرى بيويوں نے جب يہ ديكھا كہ ماريہ كے ذريعہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صاحب اولاد ہوگئے ہيں تو ان كو ماريہ پررشك ہوا_(۴)

۱۸/ مہينہ كے بعد پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اكلوتا بيٹا بيمار پڑا اور انتقال كر گيا _پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے انتقال سے غم و اندوہ ميںمبتلا ہوئے_

۲۴۴

خرافات سے جنگ

جس دن ابراہيم كا انتقال ہوا اس دن آفتاب كو گہن لگا _ لوگوںنے يہ سوچا كہ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بيٹے كے غم ميں آفتاب كو گہن لگا ہے _ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہيں چاہتے تھے كہ لوگ خرافات كى طر ف مائل ہوں اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا '' آفتاب و ماہتاب قدرت كى نشانى ہيں وہ سنت الہى كے مطابق خاص راستے پر گردش كرتے ہيں اور انہيں ہرگز كسى كى ولادت ياموت پر گہن نہيں لگتا ، سورج گہن كے موقع پر تمہارا فريضہ يہ ہے كہ تم نماز پڑھو_(۵)

مشركين سے بيزاري

۱۰/ذى الحجہ ۹ ھ بمطابق ۲۲ مارچ ۶۳۱ ئ

حج كا زمانہ آگيا _ ابھى تك مشركين حج كے مراسم ميں گذشتہ لوگوں كے طريقہ كے مطابق شركت كرتے تھے_اس سال مشركين سے بيزارى ( سورہ برائت)(۶) والى آيتيں نازل ہوئيں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابتدا ميں ابوبكر كو امير الحاج كے عنوان سے مكہ روانہ كيا اور حكم ديا كہ ان آيات كو لوگوں كے مجمع ميں پڑھيں_ابوبكر اور ديگر مسلمان حج كے لئے مكہ كى طرف جادہ پيما ہوئے _

حضرت على (ع) اہم مشن پر

ابھى تھوڑى دير نہ گزرى تھى كہ جبرئيل نازل ہوئے اور خدا كى طرف سے پيغام لے كر آئے كہ '' مشركين سے بيزارى والے پيغام كو يا آپ خود پہنچا ئيں يا وہ شخص پہنچائے جو

۲۴۵

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہل بيت (ع) سے ہو'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى اونٹنى ''' ناقہ عضبائ'' كو على (ع) كے حوالہ كيا اور فرمايا ابوبكر سے جا كر وہ آيتيں لے لو جو مشركين سے بيزارى و برائت كے سلسلہ ميں نازل ہوئي ہيں اور زائرين خانہ خدا كے مجمع ميں خود پڑھو_ بروايت شيخ مفيد ،ابوبكر نے آيا ت كو على (ع) كے حوالہ كيا اور مدينہ لوٹ آئے _(۷) اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بارگاہ ميں پہنچ كر كہا '' كيا ميرے بارے ميں وحى نازل ہوئي ہے ؟'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہايت اطمينان سے فرمايا'' جبرئيل (ع) تشريف لائے اور خدا كا پيغام پہنچايا كہ اس كام كو ميرے يا ميرے اہل بيت كے فرد كے علاوہ كوئي دوسرا انجام نہيں دے سكتا _(۸)

حضرت على (ع) حج كے دوران مجمع كے درميان كھڑے ہوئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق اعلان كيا كہ '' اے لوگو كوئي كافربہشت ميں نہيں جائے گا اور اس سال كے بعد كسى مشرك كو حج نہيں كرنے ديا جائے گا اور نہ ہى كعبہ كا برہنہ طواف كرنے كى اجازت ہوگى _ جس كى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كوئي قرار داديا معاہدہ ہے تو وہ معاہدہ اپنى مدت تك باقى ہے اور دوسروں كو بھى آج سے چارمہينے كى مہلت ہے كہ ہر گروہ اپنے مسكن اور اپنى سرزمين كو پلٹ جائے _ چار مہينے كے بعد كسى بھى مشرك كے لئے كوئي عہد و پيمان نہيں رہ جائے گا مگر ان لوگوں كے لئے جنہوں نے خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ايك مدت تك كے لئے عہد و پيمان كيا ہے _ اس سال كے بعد مشركين نہ حج بجالائيں گے اور نہ كعبہ كے گرد برہنہ طواف كريں گے _(۹)

۲۴۶

مباہلہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دنيا كے سر كردہ افراد كو خط لكھنے كے بعد ايك خط اسقف ''نجران'' (مكہ كے جنوب مشرق ميں ۹۱۰ كيلوميٹر كے فاصلہ پر ايك شہر ہے )كو لكھا اور اس ديار كے عيسائيوں كو اسلام كى دعوت دى _

خط ميں كہا گيا تھا كہ اگر اسلام قبول نہيں كرتے تو جزيہ دو تا كہ تمہيں اسلامى حكومت كى حمايت حاصل ہوجائے يا پھر جنگ كے لئے تيار ہوجاؤ_اسقف نے حضرت عيسى (ع) كے بعد ايك پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ظہور كى بشارت آسمانى كتابوں ميں پڑھ ركھى تھى اس لئے اس نے اپنے نمائندوں كو مدينہ بھيجنے كا ارادہ كيا _عيسائيوں كا ايك عالى مرتبہ وفد مذاكرہ اور اسلام كے مسائل كے بارے ميں تحقيق كے لئے مدينہ پہنچا اور يہاں پہنچنے كے بعد انہوں نے مكمل آزادى كے ساتھ اپنے مذہبى مراسم مسجد مدينہ ميں انجام ديئے_ اس كے بعد حضرت عيسى (ع) كے بارے ميں ايك تفصيلى بحث شروع ہوئي _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عيسى (ع) كے بارے ميں فرمايا'' وہ خدا كى مخلوق اور اس كے بندے ہيں جن كو خدا نے مريم كے رحم ميں ركھا_(۱۰)

عيسائي نمائندے كہہ رہے تھے كہ '' عيسى (ع) خدا كے بيٹے ہيں اس لئے كہ مريم نے بغير كسى مرد كى قربت كے ان كو جنا ہے _ جواب ميں آيت نازل ہوئي اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كو پيش كيا كہ عيسى (ع) كى خلقت آدم (ع) كى تخليق كى طرح ہے خدا نے ان كو خاك سے پيدا كيا _(۱۱) يعنى اگر باپ كا نہ ہونا خدا كا بيٹا ہونے كى دليل ہے تو آدم كا نہ باپ تھا اور نہ ماں لہذا وہ خدا كا بيٹا ہونے كے زيادہ سزاوار ہيں_

مذاكرات اور بحثيں جارى رہيں ، عيسائي مذہبى نمائندے پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى منطق كے سامنے خاموش ہوگئے ، ليكن ان كا بے جا تعصب حقيقت و ايمان كو ماننے سے ركاوٹ بنا رہا_

۲۴۷

فرشتہ وحى نازل ہوا اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ملا كہ ان لوگوں كو مباہلہ كے لئے بلائيں_

يعنى دونوں گروہ صحرا ميں جائيں اور ايك معين وقت پر خدا كى بارگاہ ميں دعا كريں اور جھوٹے پر لعنت بھيجيں_(۱۲)

مباہلہ كے بارے ميں علامہ طباطبائي مرحوم فرماتے ہيں كہ '' مباہلہ''، اسلام كے زندہ معجزات ميں سے ہے ، ہر با ايمان شخص اسلام كے پہلے پيشوا كى پيروى ميں حقائق اسلام ميں سے كسى حقيقت كے اثبات كے لئے مخالف سے مباہلہ كر سكتا ہے اور خداوند عالم سے درخواست كر سكتا ہے كہ مخالف كو كيفر كردار تك پہنچائے اور شكست دے ''(۱۳)

مباہلہ كا وقت قريب آيا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں اور اپنے وابستگان كے درميان سے صرف چار افراد كا انتخاب كيا جو اس تاريخى واقعہ ميں شريك ہوئے اور وہ ہيں حضرت على (ع) پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى باعظمت بيٹى فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا اور حسن و حسين (ع) اس لئے كہ تمام مسلمانوں كے درميان ان چار افراد سے زيادہ پاكيزہ اور با ايمان انسان موجود نہ تھے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ساتھ جانے والوں سے كہا كہ جب ہم وہاں پہنچيں تو ہمارى دعا پر آمين كہنا_

پھر بے مثال معنوى شان و شوكت كے ساتھ ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حسين(ع) كو گود ميں لئے حسن (ع) كا ہاتھ پكڑے اور فاطمہ (ع) و على (ع) ان كے پيچھے اس مقام كى طرف چلے جہاں مباہلہ ہونا قرار پايا تھا_ جب عيسائيوں كى منتظر نگاہيں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان كے ساتھ آنے والے نورانى اور ملكوتى چہروں پر پڑيں تواسقف اعظم نے كہا _'' ميں ايسے ديكھ رہاہوں كہ اگر يہ شخصيات بارگاہ الہى ميں دعاكريں تو بيابان ديكھتے ديكھتے جہنم ميں بدل جائے اور عذاب كى چادر سرزمين نجران كو اپنے دامن ميں لپيٹ لے_اس بات كا خطرہ ہے كہ تمام عيسائي ختم

۲۴۸

ہوجائيں''(۱۴)

آخر كا وہ جزيہ دينے پر تيار ہوگئے اور طے پايا كہ ہر سال دو ہزار حلے اور تيس آہنى زرہيں بطور جزيہ ديا كريں گے _(۱۵)

حضرت على (ع) كى يمن ميں ماموريت

جب يمن كے فرماں روا اور كچھ لوگ اسلام كے گرويدہ ہوگئے تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك دانش مند صحابى معاذبن جبل كو قرآن كى تعليم اور تبليغ اسلام كے لئے اس علاقہ ميں بھيجا _وہ كچھ دنوں كے بعد لوٹ آئے_ پھر چند دنوں كے بعد پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خالد ابن وليد كو روانہ كيا _ خالد اپنى خشونت اور سلوك كى بنا پر لوگوں كے دلوں ميں ايمان كى لونہ بڑھا سكے_

اس وجہ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على عليہ السلام كو حكم ديا كہ يمن جا كر اس علاقہ كے لوگوں كو اسلام كى دعوت ديں ،احكام دين سكھائيں اور واپسى پر نجران كے لوگوں سے جزيہ وصول كرتے ہوئے آئيں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق حضرت على عليہ السلام چند مسلمانوں كے ساتھ يمن كى طرف روانہ ہو گئے _وہاں آپ(ع) نے حيرت انگيز فيصلوں اور پر زور تقريروںسے شيفتگان حق كو اسلام كى طرف مائل كيا _قبيلہ ہمدان كے درميان آپ كى صرف ايك تقرير اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كے پڑھنے سے اس قبيلہ كے لئے وہ مثل ثابت ہو گئي كہ '' دل سے جو بات نكلتى ہے اثر كرتى ہے'' اور اس طرح ايك دن سے بھى كم مدت ميں يہ عظيم قبيلہ حلقہ بگوش اسلام ہو گيا _(۱۶) قبيلہ ہمدان كے مسلمان ہو جانے سے پورے يمن ميں اسلام كى اشاعت پر بہت اچھا اثر پڑا_

۲۴۹

سوالات

۱_مشركين سے بيزارى والى آيات كو كس نے لوگوں كے سامنے پڑھا؟

۲_ مباہلہ كيا ہے؟

۳_ مباہلہ ميں شركت كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے على (ع) ، فاطمہ (ع) ، اور حسن (ع) و حسين (ع) ہى كو كيوں منتخب فرمايا؟

۴_ نجران كے عيسائيوں نے آخر ميں كيا كيا؟

۵_ حضرت علي(ع) نے يمن ميں اپنى ذمہ دارى كو كيسے ادا كيا؟

۲۵۰

حوالہ جات

۱_مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۰۵۷_

۲_ مغازى واقدى ج ۳ ص ۹۶۵_سيرت النبويہ ابن كثير ج ۴ ص ۵۶_

۳_ماريہ قبطيہ ايك كنيز تھيں جنكو '' مقوقس'' بادشاہ مصر نے پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ہديہ ديا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے نكاح كرليا تھا_

۴_طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۱۳۴، ۱۳۵_

۵_ فروغ ابديت ج ۲ ص ۸۰۳_محاسن ص ۳۱۳ _ سيرت حلبى ج ۳ ص ۳۱۰_۳۱۱_

۶_ سورہ توبہ كى آيت اسے ۵ تك _البتہ بعض افراد بعد كى آيا ت كو بھى اس كا جزء سمجھتے ہيں _

۷_ چونكہ اہل سنت نے انكے پلٹ آنے كو اہانت سمجھا اس لئے انكى كتابوں ميں يہ نقل بہت عام ہے كہ ابوبكر اپنى امارت پر باقى رہے اور مكہ چلے گئے ليكن على (ع) نے آيات برائت كو مشركين كے سامنے پڑھا _ملاحظہ فرمائيں تفسير ابن كثير ج ۲ ص ۳۳۳ _ مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۳۳۲ _ مجمع الزوائد ج ۷ ص ۲۹ _ الدر المنثور ج ۳ ص ۲۰۹ _ ليكن نسائي و طبرى لكھتے ہيں كہ ابوبكر پريشانى كے ساتھ مدينہ پلٹے _رجوع كريں خصائص ص ۲۰ تفسير طبرى ج ۱۰ ص ۴۶_

۸_ بحار الانوار ج ۲۱ ص ۲۷۵_

۹_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۹۰ _ امتاع الاسماع ج ۱ ص ۴۹۸ _ مجمع البيان ج ۵ ص ۳ _تفسير تبيان ج ۵ ص۱۹۸_

۱۰_( انَّمَا الْمَسيْحُ عيْسَى بْنَ مَرْيَمَ رَسُولُ اللّه وَ كَلمَتُهُ اَلْقى ها مَرْيَمَ وَ روُحٌ منْهُ ) (نسائ/۱۷۱)_

۱۱_( انَّ مَثَلَ عيسَى عنَْدَ اللّه كَمَثَل آدَمَ خَلَقَهُ منْ تُرَاب: ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُون ) (آل عمران/۵۹)_

۱۲_( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَائَنَا وَ اَبْنَائَكُمْ وَ نسَائَنَا وَ نسَائَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهلْ فَنَجْعَلْ )

۲۵۱

( لَعْنَةَ اللّه عَلَى الْكَاذبينَ ) (آل عمران/۶۱) بحار الانوار ج ۲۱/ص ۳۴۰ و۳۵۳_تفسير الميزان ج ۳ ص ۲۲۸_

۱۳_فروغ ابديت ج ۲ ص ۸۲۱ _

۱۴_سيرت نبويہ بر حاشيہ سيرت حلبى ج ۳ ص ۴_

۱۵_ آيت مباہلہ، اہل بيت (ع) كى شان ميں نازل ہونے كے سلسلہ ميں اہل سنت كى كتابوں ميں بہت سى اسناد موجود ہيں _ ملاحظہ ہو _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۰_ سنن ترمذى ج ۴ ص ۲۹۳ _ مسند احمد ج ۱ ص ۱۸۵ _ تفسير طبرى آيہ مباہلہ كے ذيل ميں _ احكام القران جصاص ج ۲ ص ۱۴_مستدرك حاكم ج ۳ ص ۱۵۰_معرفتہ علوم الحديث حاكم ص ۵۰_ دلائل النبوة ابى نعيم ص ۲۹۷ _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۳۰۴_معالم التنزيل ج ۱ ص ۳۰۲بر حاشيہ المخازن _اسباب النزول واحدى ص ۷۵_ الكشاف زمخشرى ج ۱ ص ۳۶۸ _عمدہ بطريق ص ۹۵_تفسير كبير فخر رازى ج ۸ص ۸۵_جامع الاصول ابن اثير ج ۹ ص ۴۷۰_الشفا قاضى عياض ج ۲ ص ۳۶_مناقب خوارزمى ص ۹۶_كامل ابن اثير ج ۲ ص ۲۰۰_ذخائر العقبى محب الدين طبرى ص ۲۵ _ انوار التنزيل بيضاوى ص ۷۴_ كفاية الطالب ص ۵۵_مطالب السئول ص ۷_ تذكرة الخواص سبط ابن جوزى ص ۸_تفسير قرطبى ج ۴ ص ۱۰۴_سيرت احمد زينى دحلان سيرت الحلبيہ كے حاشيہ پر ج ۳ ص ۵ _ تفسير كشف الاسرار و عدة الابرار ج ۲ ص ۱۴۷_

۱۶_بحار الانوار ج ۲۱ ص ۳۶۰ _ ۳۶۳كامل ابن اثير ج ۲ ص ۳۰۵_

۲۵۲

پندرھواں سبق

حجة الوداع

جہان عدالت باعث عداوت ہے

حجة الوداع كے موقعہ پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پرجوش تقرير

غدير خم

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كا ترجمہ

سوالات

۲۵۳

حجة الوداع

روانگى كى تاريخ : ۲۵ ذى القعدہ ۱۰ ھ بمطابق ۲۶ فرورى ۶۳۱ ء بروز ہفتہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے اعلان كيا گيا كہ اس سال رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حج بيت اللہ كيلئے مكہ تشريف لے جائيں گے _ اس خبر نے لوگوں كے اشتياق كو بھڑ كا ديا اور ہزاروں مسلمان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ چلنے كے لئے تيار ہوگئے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابودجانہ كو مدينہ ميں اپنا جانشين معين فرمايا اور ساٹھ قربانى كے جانور لے كر ۲۵/ ذى القعدہ كو حج ادا كرنے كے لئے تمام ہمراہيوں كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہوگئے_(۱)

اس سفر ميں پيغمبر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيوياں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ تھيں جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدينہ سے ۹ كيلوميٹر جنوب ميں مقام ذوالحليفہ پر پہنچے تو آپ نے لباس احرام پہنا اور '' لَبَّيْكَ اَللَّہُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَريْكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، انَّ الْحَمْدَ وَ الْنّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ ، لاَ شَريكَ لَكَ '' كى آواز بلند كى _ روانگى كے دس دن بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مكہ پہنچ گئے مسجد الحرام ميں وارد ہوئے، كعبہ كا طواف كيا ، حجر اسود كو بوسہ ديا اور مقام ابراہيم (ع) پر دو ركعت نماز پڑھى ، پھر صفا و مروہ كے درميان سعى فرمائي _

۲۵۴

جہان عدالت باعث عداوت ہے

علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يمن ميں تبليغ اسلام ميں مشغول تھے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سفر حج سے آگاہ ہوئے تو اپنے ماتحت افراد كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہو گئے آدھے راستہ ميں ہمراہيوں كى كمان ايك افسر كے سپرد كى اور تيزى سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس مكہ پہنچے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں اپنى كارگزارى كى رپورٹ پيش كى _جب يمن كى طرف سے آنيوالاكاروان مكّہ سے نزديك ہوا تو على (ع) ان كے استقبال كے لئے بڑھے ليكن اميد كے برخلاف آپ نے ديكھا كہ انہوں نے بيت المال كے كپڑوں اور چادروں كو جو نجرانيوں نے جزيہ كے طور پر ديئے تھے، اپنے درميان تقسيم اور لباس احرام بنا كر پہن ليا ہے _ حضرت علي(ع) اس ناشائستہ حركت پر اپنے ماتحت افسر پر سخت ناراض ہوئے اور اس سے كہا '' تم نے كپڑوں كو كيوں تقسم كيا؟

اس نے جواب ميں كہا كہ '' جانبازوں نے اس بات پر اصرار كيا كہ ميں كپڑوں كو امانت كے طور پر انہيں ديدوں اور حج كے مراسم ادا كرنے كے بعد ان سے واپس لے لوں''_ عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' تم كو يہ اختيار نہيں تھا'' پھر آپ(ع) نے تمام كپڑے واپس لے لئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تحويل ميں دينے كے لئے تہہ كر كے ركھ دئے_ايك گروہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچا اور عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سخت گيرى كى شكايت كى ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ناراض ہونے والوں سے كہا كہ ''على (ع) پر تنقيد نہ كرو وہ خدا كا حكم جارى كرنے ميں قاطع اور سخت گير ہيں_(۲)

حجة الوداع كے موقعہ پررسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پر جوش تقرير

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حج كے دوران عرفہ كے دن نماز سے پہلے خطبہ پڑھا اور اس كے دوسرے دن منى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كچھ اس طرح كى تھي(۳)

۲۵۵

خداوند عالم اس بندہ كے چہرہ كو منور اور شاداب ركھے جو مير ى بات كو سنے ، ياد ركھے، محفوظ كرے اور پھر ان لوگوں تك پہنچائے جنہوں نے نہيں سنى ، بہت سے فقہ كے حامل ايسے ہيں جو خود فقيہ نہيں ہيں اور بہت سے فقہ كے پہنچانے والے ايسے ہيں كہ جو ايسے شخص تك پہنچا تے ہيں جو ان سے زيادہ عقلمند ہيں _ تين چيزيں ايسى ہيں كہ جن سے مرد مسلمان كا دل خيانت نہيں كرتا ، عمل كو خالص خدا كے لئے انجام دينا ، رہبروں كے لئے بھلائي چاہنا ، يك رنگى اختياركرنا اور مومنين كى جماعت سے جدا نہ ہونا اس لئے كہ ان كى دعا ہر ايك كو گھيرے رہتى ہے ''_

پھر فرمايا_'' اے لوگوں تم شايد اب اس كے بعد مجھے نہ ديكھو آيا تم جانتے ہو كہ يہ كون سا شہر ، كو ن سا مہينہ اور كون سا دن ہے؟''

لوگوں نے كہا '' ہاں يہ حرمت كا شہر ، حرمت كا مہينہ اور حرمت كا دن ہے ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدا نے تمہارے خون تمہارے مال كى حرمت كو اس شہر ، اس مہينہ اور اس دن كى حرمت كى طرح قرار ديا ہے _ كيا ميں نے (پيغام) پہنچا ديا ''_ مجمع نے كہا ''ہاں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدا يا تو گواہ رہنا''_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمايا'' خدا سے ڈرتے رہو اور كم نہ تولو ، زمين ميںتباہى نہ پھيلاو اور ہر وہ شخص جس كے پاس كوئي امانت ہو وہ اسے (اس كے مالك تك) پہنچائے، اسلام ميں سب لوگ برابر ہيں اس لئے كہ سب آدم (ع) و حوا كى اولاد ہيں _ عربى كو عجمى پر اور عجمى كو عربى پرسوائے پرہيزگارى كے اور كوئي برترى حاصل نہيں'' كيا ميں نے (پيغام) پہنچا ديا؟ لوگوں نے كہا'' ہاں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدايا گواہ رہنا''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اپنے نسب كو ميرے پاس نہ لانا بلكہ اپنے عمل كو ميرے پاس لانا

۲۵۶

، جو ميں لوگوں سے كہتا ہوں تم بھى يہى كہو ، كيا ميں نے (پيغام)پہنچا ديا ؟ لوگوں نے كہا ''ہاں'' فرمايا '' خدايا تو گواہ رہنا''_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا وہ خون جو جاہليت ميں بہايا گيا ہے ميرے پير كے نيچے ہے (يعنى اس كى كوئي حيثيت نہيں) اور پہلا خون جس كو ميں اپنے پير كے نيچے قرار ديتا ہوں وہ آدم ابن ربيعہ ابن حارث(۴) (رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وابستگان ميں سے ايك شير خوار بچہ جسے بنى سعد بن بكر نے مارڈالا تھا) كا خون ہے_كيا ميں نے (پيغام)پہنچا ديا؟ لوگوں نے كہا'' جى ہاں'' فرمايا'' خدايا گواہ رہنا''_

پھر فرمانے لگے'' ہر وہ سودجو جاہليت كے زمانہ ميں تھا ميرے پيروں كے نيچے ہے پہلاسود جو ميں اپنے پيروں كے نيچے ركھتا ہوں وہ عباس ابن عبدالمطلب كا رہا ہے '' كيا ميں نے (پيغام) پہنچا ديا؟ '' مجمع نے كہا'' ہاں'' فرمايا خدا يا تو گواہ رہنا _ پھر فرمايا بے شك ماہ حرام ميں تاخير، كفر ميں زيادتى كا باعث ہے اور كافرين اس سے گمراہ ہوں گے (كيونكہ وہ ) ايك سال كو حلال اور ايك سال كو(اپنے فائدہ كيلئے) حرام شمار كرتے ہيں تا كہ جس مہينہ كو خدا نے حرام كيا ہے اپنے مفاد كے موافق بناليں_ آگاہ ہو جاؤ كہ زمانہ ،گزشتہ صورتحال كى طرف پلٹ گيا ہے كہ جس دن خدا نے آسمان اور زمينوں كو پيدا كيا ، بيشك خداوند عالم كے نزديك اس كى كتاب ميں بارہ مہينے ہيں ان ميں سے چار مہينے حرمت كے ہيں _'' رجب ''جو كہ جمادى او ر شعبان كے درميان ہے اوراس كو '' رجب مضر'' كہتے ہيں اور پھر پے در پے تين مہينے ذى القعدہ ، ذى الحجة اور محرم ہيں''بتاؤ ميں نے تمہيں خبردار كرديا؟ لوگوں نے جواب ديا؟ '' ہاں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدايا توگواہ رہنا''_ پھر فرمايا ميں تم كو عورتوں كے ساتھ نيكى كرنے كيلئے كہتا ہوں اس لئے كہ ان كو تمہارے سپر د كيا گيا ہے وہ

۲۵۷

اپنے امر ميں سے كوئي چيز اپنے ہاتھ ميں نہيں ركھتيں تم نے انہيں خدا سے بطور امانت ليا ہے_ خدا كے حكم كے مطابق تم نے ان سے قربت كى ہے تمھارا ان پر كچھ حق ہے ، ان كى معمول و رائج غذا اور لباس تم پر لازم ہے اور تمھارا حق ان پر يہ ہے كہ كسى كا پير تمہارے بستر تك نہ پہنچنے ديں _تمہارى اطلاع اور اجازت كے بغير تمہارے گھروں ميںكسى كو داخل نہ ہونے ديں _ پس اگر ان ميں سے كوئي چيز انجام نہ ديں تو ان كى خواب گاہ سے دورى اختيار كرواور نہايت نرمى سے تنبيہ كرو_

كيا ميں نے تبليغ كردي؟ ''لوگوں نے كہا ''ہاں'' حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''خدا يا گوہ رہنا''_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گويا ہوئے '' اب ميں تم سے غلاموں كے بارے ميں كچھ كہتا ہوں جو كھانا تم كھاتے ہو وہى ان كو بھى كھلاؤ، جو تم پيتے ہو وہى ان كو بھى پلاؤ ،اگر يہ خطا كريں تو سزا كو معاف كردينا _ كيا ميں نے تبليغ كردي؟ '' سب لوگ بولے ''ہاں'' حضرت نے فرمايا'' خدايا تو گواہ رہنا'' پھر فرمانے لگے _'' مسلمان، مسلمان كا بھائي ہے ، ان كے ساتھ حيلہ اور خيانت نہ كرو، ان كى پيٹھ پيچھے بد گوئي نہ كرو نہ ان كا خون حلال ہے اور نہ مال، مگر ان كى رضايت سے ، كيا ميں نے تبليغ كردي؟ '' لوگوں نے كہا ہاں_ فرمايا ''خدا يا تو گواہ رہنا''_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كہا '' شيطان آج كے بعد اس بات سے نا اميد ہو گيا كہ ا س كى پرستش ہوگى _ليكن پرستش كے علاوہ جن كاموں كو تم چھوٹا سمجھتے ہو ان پر عمل ہوگا اور وہ (شيطان) اسى پر راضى اور خوش ہے _ كيا ميں نے بتاديا؟ لوگوں نے كہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدا يا گواہ رہنا'' پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''دشمن خدا ميں سب سے زيادہ گستاخ وہ ہے جو اپنے قتل كرنے والے كے علاوہ كسى كو قتل كرے اور اپنے مارنے والے كے علاوہ كسى كو مارے _ جو اپنے آقا كى نافرمانى كرے اس نے اس چيز كا انكار كرديا جو خدا نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل كى ہے اور جو

۲۵۸

كوئي اپنے باپ كے علاوہ كسى اور كى طرف اپنى نسبت دے اس پر خدا ، فرشتوں اور تمام لوگوں كى لعنت ہے _ كيا ميں نے بتاديا ؟ مجمع بولا '' ہاں'' فرمايا'' خدايا گواہ رہنا'' _پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمايا '' ميں مامور ہوں كہ جہاد كروں تا كہ لوگ خدا كى يكتائي اور ميرى رسالت كے معتقد ہوجائيں _ جب اس كا اقرار كرليں گے توگوياانہوںنے ا پنے مال اور خون كو محفوظ كرليا سوائے ان حقوق كے جو انكى گردنوں پر ثابت ہيں اور ان كا حساب خدا پر ہے ''كيا ميں نے بتاديا؟ '' لوگوں كے كہا '' ہاں'' فرمايا '' خدايا گواہ رہنا'' _پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہيں ايسا نہ ہو كہ ميرے بعد تم گمراہ كرنے والے كافر ہو جاؤ كہ تم ميں سے بعض ، بعض كى گردنوں كے مالك (مالك الرقاب) ہو جائيں_ ميں تمہارے درميان ايسى چيز چھوڑے جارہاہوں كہ اگر تم اس سے متمسك رہے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے _

كتاب خدا اور ميرى عترت و خاندان _(۵) كيا ميں نے تبليغ كردى لوگوں نے كہا _ ''بے شك'' فرمايا'' خدايا گواہ رہنا''_ اس كے بعد فرمايا _ البتہ تم سے سوال ہو گا لہذا تم ميں جو حاضر ہے وہ غائب تك ( يہ پيغامات) پہنچادے_(۶)

غدير خم

۱۸ /ذى الحجہ ۱۰ ھ بمطابق ۱۹ مار چ ۶۳۱ء بروز اتوار

اتوار ۱۸ ذى الحجہ كو جب پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجفہ سے غدير خم كے پاس پہنچے تو امين وحى حضرت جبرئيل ،خدا كى جانب سے يہ پيغام لائے كہ '' اے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى طرف سے جو پيغام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل كيا گيا ہے وہ لوگوں تك پہنچاديں ، اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہيں پہنچا يا تو رسالت كومكمل نہيں كيا _ خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو لوگوں سے بچائے گابے شك خدا كافروں كو ہدايت نہيں كرتا_(۷)

۲۵۹

اس طرح خدا كى جانب سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ديا گيا كہ لوگوں كے درمياں كھلم كھلا حضرت على (ع) كا تعارف كروائيں اور انكى ولايت و اطاعت (جو مسلمانوں پر فرض ہے) كا اعلان كرديں _ حجاج كا كاروان جحفہ(۸) پہنچا _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ وہ لوگ جو آگے بڑھ گئے ہيں لوٹ آئيں اور باقى ٹھہر جائيں تمام مسلمان جمع ہوگئے ان كى تعداد ايك لاكھ بيس ہزار سے زيادہ تھى _ اس روز سخت گرمى كے عالم ميں لوگ پيروں كے نيچے عبا بچھائے ، دامن كو سائبان بنا كر سروں پر ركھ رہے تھے _ نماز جماعت ادا گئي ،پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز كے بعد اس بلند منبر پر جلوہ افروز ہوئے جو اونٹوں كے پالانوں سے بنا يا گيا تھا اور ايك تقرير فرمائي_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تقرير كا ترجمہ ملاحظہ ہو

حمد و ثنا خداسے مخصوص ہے ہم اس سے مدد چاہتے اور اس پر ايمان ركھتے ہيں اس پر توكل كرتے اور نامناسب عمل سے اس كى پناہ چاہتے ہيں وہ خدا جس كے سوا كوئي ہادى اور رہنما نہيں ، جس كى وہ ہدايت كرے اس كو كوئي گمراہ كرنے والا نہيں ، ميں گواہى ديتا ہوں كہ اس كے سوا كوئي معبود نہيں ہے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے بندہ اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں _ اے لوگو عنقريب ميں دعوت حق كو لبيك كہنے والا اور تمہارے درميان سے جانے والا ہوں _ ميں بھى جوابدہ ہوں اور تم بھى جواب دہ ہو تم ميرے بارے ميں كيا كہتے ہو ؟ لوگوں نے بہ آواز بلند كہا _

'' ہم گواہى ديتے ہيں كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى رسالت كو پہنچا ديا، نصيحت اور كوشش كى ،خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو نيك جزا دے ''_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' كيا تم اس بات كى گواہى ديتے ہو كہ اللہ كے سوا اوركوئي خدا نہيں ہے _اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے بندہ اور فرستادہ ہيں اور يہ كہ بہشت ، دوزخ ، موت حق ہے اور قيامت كے دن ميں كوئي شك و شبہ نہيں ہے اور خدا قبروں سے تمام سونے

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298