تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي13%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162516 / ڈاؤنلوڈ: 3886
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

قدر چستى و دليرى تھى اور ايسا جوش و خروش پايا جاتا تھا كہ اس سے جوانوں كو تقويت ہوتى تھي_

عمار جس وقت ميدان كارزار كى جانب روانہ ہوئے تھے اس وقت وہ دست بدعا تھے اور خداوند تعالى سے فرياد كر رہے تھے اے پروردگار اے خدايا تو ناظر و شاہد ہے اگر ميں يہ جان لوں كہ تيرى رضا اسى ميں تھے كہ ميں خود كو سمندر ميں گرادوں تو ميں ايسا ہى كرونگا اگر مجھے يہ معلوم ہوجائے كہ تيرى خوشنودى اس ميں ہے كہ ميں اپنے سينہ و دل كو نوك شمشير پر اس طرح ركھ دوں كہ وہ ميرى كمر سے نكل آئے تو يقينا ميں ايسا ہى كروں گا ليكن اس علم كے مطابق جو تو نے مجھے ديا ہے كہ ميں يہ جانتا ہوں كہ تجھے آج كوئي عمل اس سے زيادہ راضى و خوشنود نہيں كر سكتا كہ تباہ كاروں كے خلاف جہاد كروں _(۱۹)

عمار وہ مخلص دلاور اور ايسے جنگجو سپاہى تھے جو ميدان كارزار ميں تھكنا نہيں جانتے وہ عاشق جانبازى كى مانند جنگ كرتے حق كے دشمنوں كے لئے انكى تلوار موت كا پيغام تھى اور جس كے سرپر پڑجاتى اسے واصل جہنم كرتى مگر حاميان حق كے دلوں كو اس سے تقويت ملتى در حقيقت وہ ميزان حق تھے چنانچہ نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہى كى شان ميں تو فرمايا تھا كہ : عمار حق كے ساتھ زندہ ہے اور حق عمار كے ساتھ ہے(۲۰) جو شخص بھى ان كے محاذ پر جنگ كرتا اسے يہ يقين ہوتا كہ وہ حق كى مدافعت كريں گے اور اسى راہ ميں اگر انھيں قتل بھى كرديا گيا تو انھيں بہشت بريں ميں جگہ ملے گي_

مسلمانوں كے درميان يہ بات مشہور تھى كہ عمار ميزان حق ہيں چنانچہ جب كبھى حق و باطل كے درميان تشخيص كرنا مقصود ہوتا تو عمار كے عمل اور موجودگى كو بطور سند پيش كيا جاتا اس كى ايك مثال يہ ہے كہ : ان كے چچازاد بھائي'' ذى الكلاع حميرى '' شامى سپاہ عراق ميں شامل تھا عمار نے اسے بلايااور كہا ميں نے اس لئے بلايا ہے كہ تمہيں وہ حديث سناؤں جو عمروعاص نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل كى ہے اس كى بعد انہوں نے وہ حديث بيان كى جس ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ : شام اور عراق كے لشكر ايك دوسرے كے مقابل ہوں گے ان ميں سے ايك حق و ہدايت كا پيشوا ہوگا اور عمار اسى كے ساتھ ہوں گے(۲۱) اس پر ابونوح نے كہا تھا كہ : خدا كى قسم عمار ہمارے ساتھ ہيں

۲۲۱

اور ہم سب سے زيادہ انھيں تم سے جنگ كرنے پر اصرار ہے كتنا اچھا ہوتا كہ تم سب ايك تن ہوتے اور ميں اسے ذبح كرتا اور سب سے پہلے تجھ چچازاد بھائي كو ہى قتل كرتا كيونكہ ہم حق پر ہيں اور تم باطل پر ہو_

اس كے بعد ذوالكلاع كى درخواست پر وہ عمروعاص كے پاس گئے تا كہ اس تك بھى يہ اطلاع پہنچائي جاسكے كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں عمار بھى موجود ہيں اور شاميوں سے جہاد كرنے كيلئے واقعى وہ سنجيدہ ہيں تا كہ ان كے ضمير كو بيدار كيا جاسكے_

عمروعاص نے بھى گفتگو كے درميان اس حقيقت كا اعتراف كيا كہ : اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سن ركھا ہے كہ عمار كو جفاكار اور باغى قتل كريں گے اس كے بعد عمروعاص كى تجويز پر اس كے اور عمار كے درميان ملاقات كا پروگرام مرتب كيا گيا گفتگو عمروعاص كى جانب سے شروع ہوئي اس نے عمار كو پند و نصيحت كرتے ہوئے كہا كہ : وہ جنگ و خونريزى سے باز رہيں اس ضمن ميں يہ بھى كہا كہ : ہمارے اور تمہارے درميان خدا كا فيصلہ قرآن اور رسول مشترك ہيں عمار نے كہا كہ : خدا كا شكر جس نے يہ توفيق دى كہ تم نے وہ سب باتيں اپنى زبان سے كہيں جو مجھے اور ميرے دوستوں كو كہنى چاہيے تھيں نہ كہ تمہيں _ اب ميں تمہيں بتاتا ہوں كہ ميں تم سے كيوں جنگ كر رہاہوں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ : ميں ''ناكثين'' سے جنگ كروں چنانچہ ميں نے ايساہى كيا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہى يہ حكم ديا تھا كہ ميں '' قاسطين'' سے جنگ كروں اور تم وہى ہو اسى لئے تم سے بر سر پيكار ہوں(۲۲)

بالاخر گفتگو كسى فيصلہ كن نتيجے تك نہيں پہنچى اور اب عمار دشمن كى اس فوج كے مقابلے ميں گئے جس كى فرماندارى عمروعاص كے ہاتھ ميں تھى جس وقت ان كى نگاہ عمروعاص كے پرچم پر گئي تو انہوں نے كہا كہ : خدا كى قسم اس پرچم كے خلاف تو ميں تين مرتبہ جنگ كرچكا ہوں اس راہ پر چل كر آدمى كہيں نہيں پہنچے گا اور دوسرے راستوں سے يہ كسى طرح بھى بہتر نہيں _(۲۳)

عمار نے اپنے ساتھيوں كے درميان بآواز بلند كہا كہ : كہاں ہيں وہ لوگ جو رضا خدا كے متمنى ہيں اور جنہيں مال و اولاد سے علاقہ نہيں(۲۴) اس كے بعد انہوں نے ان لوگوں سے خطاب

۲۲۲

كرتے ہوئے جنہوں نے راہ خدا ميں پيشقدمى كى تھى كہا كہ اے لوگو ہمارے ہمراہ ان لوگوں سے جنگ وجدل كيلئے جلد جلد آگئے آؤ جو اپنى دانست ميں عثمان كے خون كا بدلہ لينا چاہتے ہيں _(۲۵)

عمار جس لشكر ميں شامل تھے اس كے پرچمدار ہاشم مرقال تھے وہ اپنے پرچمدار كى حوصلہ افزائي كرتے رہتے كہ دشمن پر حملہ آور ہوں ہاشم مرقال بھى اپنى بے مثال دلاورى كے باعث جنگجو سپاہى كيلئے راستہ ہموار كرتے رہتے جب كبھى ان كا نيزہ ٹوٹ جاتا تو حضرت عمار انھيں دوسرا نيزہ دے ديتے ان دو جانبازوں كى بے پناہ و دليرانہ نبرد آزمائي نے عمروعاص كو ايسا مرعوب كيا اور اس كے دل پر ايسى وحشت طارى ہوئي كہ اس نے بآواز بلند كہا كہ جس شخص نے يہ سياہ پرچم اپنے ہاتھ ميں سنبھال ركھا ہے اگر اسى طرح آگے بڑھتا رہا تو آج يہ تمام عربوں ك ہلاك كر ڈالے گا_(۲۶)

جب يہ پيشوائے حريت يعنى عمار بہت سے شاميوں كو ہلاك كرچكے تو ان پر معاويہ كى فوج كے دو دلاور حملہ آور ہوئے اور ان ميں سے ايك نے اپنے نيزے سے ايسى كارى ضرب لگائي كہ وہ زمين پر آرہے اور دوسرے نے ان كے سرمبارك كو تن سے جدا كرديا(۲۷) اور اس طرح اس جرى و دلير سپاہى نے اپنے اس سركو جس سے وہ اپنے معبود حقيقى كے سامنے جبين سائي كيا كرتا تھا ميدان جہاد ميں اسى كى خاطر قربان كرديا_

اس جنگ كے دوسرے دلير و جانباز ہاشم بن عتبہ تھے جو دو زرہ پہنے ہوئے تھے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جس وقت پرچم ان كے سپرد كيا تو بطور مزاح ان سے كہا كہ : اس كا لے بزدل كا تو ڈر كہيں تمہارے دل ميں نہيں ؟(۲۸) اس پر انہوں نے عرض كيا كہ : يہ تو اميرالمومنينعليه‌السلام كو جلد ہى معلوم ہوجائے گا قسم خدا كى ميں ان كے سروں كو اس طرح اڑاوں گا كہ جس طرح كوئي اس دنيا سے دوسرى دنيا ميں جانے كا قصد ركھتا ہو_ اس كے بعد انہوں نے نيزہ اپنے ہاتھ ميں لے ليا اور اس زور سے اسے جھٹكا ديا كہ وہ ٹوٹ گيا دوسرا نيزہ لايا گيا وہ چونكہ سوكھ چكا تھا اسى لئے انہوں

۲۲۳

نے اسے دور پھينك ديا بآلاخر انھيں ايك نرم نيزہ ديا گيا جس پر انہوں نے پرچم كا پھريرا باندھا اور اپنے حملے كو اس خيمے پر مركوز كرديا جس ميں عمروعاص ، معاويہ اور ان كے دوست و احباب جمع تھے اس روز كشت كشتار كا ايسا بازار گرم ہوا كہ كسى نے اس سے پہلے ايسى قتل و غارتگرى نہ ديكھى تھى اور نہ ہى كسى كو موت كى ايسى گرم بازارى ياد تھي_ (۲۹)

آخرى مرتبہ جب سياہ پرچم امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ہاشم كو ديا تو چاہا كہ اب يہ جنگ ايك طرف ہو چنانچہ آپ نے فرمايا كہ : ہاشم معلوم نہيں اب تمہارا آب و دانہ كب تك كا باقى ہے؟ اس پر انہوں نے عرض كيا كہ اس مرتبہ راہ جہاد ميں ايسا نكلوں گا كہ پھر كبھى واپس نہ آؤں گا آپ نے فرمايا كہ '' تمہارے مقابل ذى الكلاع ہے اور اس كے گرد موت منڈھلا رہى ، سرخ موت''

ہاشم ميدان كارزار كى طرف روانہ ہوئے جب وہ معاويہ كے نزديك پہنچے تو اس نے پوچھا كہ كون شخص ہے جو آگے بڑھا چلا آرہا ہے اسے بتايا گيا كہ ہاشم مرقال ہيں(۳۰) يہ سن كر اس نے كہا كہ وہى بنى زہرہ كا كانا، خدا اسے غارت كرے(۳۱) ہاشم نے اپنے ان ساتھيوں كے ہمراہ جو قارى قرآن اور خدا كے عاشق تھا كتنى مرتبہ دشمن كى صف كو درہم برہم كيا چنانچہ جس وقت وہ طائفہ '' تنوح'' كے پرچم تك پہنچے تقريبا دشمن كے دس دلاوروں(۳۲) كو ہلاك كرچكے تھے انہوں نے معاويہ كے پرچمدار كو جو طائفہ '' عذرہ'' كا فرد تھا قتل كرديا اس كے بعد ذوالكلاع ان سے جنگ كرنے كيلئے ميدان ميں آيا ان كے درميان ايسى زبردست جنگ ہوئي اور ايسى كارى ضربيں ايك دوسرے كو لگائي كہ دونوں ہى قتل ہوگئے(۳۳) اس كے بعد ان كے فرزند عبداللہ نے فورا ہى اپنے والد كا پرچم اٹھاليا اور جہاد كيلئے آمادہ ہوگئے_(۳۴)

حضرت عمار كى شہادت كارد عمل

عمار ياسر اور ہاشم مرقال كى شہادت نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام كے اصحاب كو بہت زيادہ غمگين و رنجيدہ خاطر كيا چنانچہ ان كى جدائي كا ايسا قلق و صدمہ ہوا كہ آپ نے ان كے سوگ

۲۲۴

ميں گريہ و زارى كرتے ہوئے چند اشعار بھى كہے جن كا مفہوم يہ ہے كہ : اے موت مجھے تجھ سے رہائي تو نصيب نہ ہوگى اور مجھے بھى اس زندگى سے نجات دے كيونكہ تونے تمام دوستوں كو مجھ سے چھين ليا ہے مجھے ايسا محسوس ہوتا ہے كہ تو ميرے دوستوں كو خوب پہچانتى ہے اور ايسا معلوم ہوتا ہے كہ تو كسى راہنما كى مدد سے ان كى تلاش ميں نكلتى ہے_ (۳۵) ليكن اس كے ساتھ ہى اس شہادت نے باطل كے چہرے كو بے نقاب كرديا اور لشكر شام كے بہت سے سپاہيوں كا رادہ متزلزل ہوگيا چنانچہ ان ميں سے بعض افراد كو جن ميں عبداللہ بن سويد بھى شامل تھے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وہ حديث ياد آگئي جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمار كى شان ميں فرمائي تھى اور ان پر يہ ظاہر ہوگيا كہ معاويہ ناحق اور باطل پر ہے اور اس كى يہ جنگ در اصل بغاوت تھى چنانچہ انہوں نے معاويہ كا ساتھ چھوڑ كر امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كى ہمراہى اختيار كرلي_

عمار كى شہادت نے سپاہ دشمن كو بھى اتنا متاثر كيا كہ اس كا حوصلہ بھى متزلزل ہوگيا چنانچہ عمروعاص نے اس كے اثر كو زائل كرنے كے خيا ل سے ايك بہانہ نكل ہى ليا اور يہ اعلان كرديا كہ '' عمار كے قاتل ہم نہيں بلكہ علىعليه‌السلام ہيں كيونك انہوںعليه‌السلام نے انھيں محاذ جنگ پر بھيجا تھا_(۳۶)

معاويہ نے بھى اس جرم كى پاداش ميں كہ عمروعاص نے وہ حديث نقل كى تھى جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمار كى شان ميں بيان كى تھى اس كى بہت زيادہ سرزنش كى اور كہا كہ تم نے شام كے لوگوں كو ميرے خلاف شورش پر آمادہ كيا ہے كيا ضرورى تھا كہ تم نے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا تھا اسے يہاں بيان كرتے انہوں نے جواب ديا كہ مجھے كيا معلوم تھا كہ وہ وقت بھى آئے گا جب جنگ صفين بپا ہوگى جس روز ميں نے يہ حديث بيان كى تھى اس وقت عمار ہمارے اور تمہارے ہم خيال تھے اس كے علاوہ جو كچھ ميں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سن كر بيان كيا تھا تم نے بھى اسے نقل كيا ہے اور اگر اس بات سے تمہيں انكار ہے تو خود ہى شام كے لوگوں سے دريافت كرلو معاويہ كو پہلے سے بھى زيادہ طيش آيا اور اس نے عمروعاص كو بہت زيادہ سخت و سست كہا_(۳۷)

۲۲۵

سوالات

۱_ جب بعض سپاہى محاذ جنگ سے فرار كر گئے تو حضرت علىعليه‌السلام نے كيا اقدام كيا اور انہيںعليه‌السلام كس حد تك اپنے مقصد ميں كاميابى ہوئي؟

۲_ مالك اشتر كا جنگ صفين ميں كيا كردار رہا مختصر طور پر بيان كيجئے؟

۳_ معاويہ كا غلام حريث كس طرح فريفتہ ہوا اور وہ كس كے ہاتھوں ماراگيا؟

۴_ جنگ ختم كرنے كے لئے حضرت علىعليه‌السلام نے معاويہ كے سامنے كونسى تجويز ركھي؟

۵_ معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں تزلزل پيدا كرنے كيلئے محاذ جنگ پر حضرت امام حسنعليه‌السلام كے سامنے كيا تجويز پيش كى اس پر حضرت حسنعليه‌السلام كا كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

۶_ سپاہ اسلام كے فرمانداروں پر عمار كو كيا خصوصيت و برترى حاصل تھي؟

۷_ شام كى سپاہ پر عمار كى شہادت كا كيا اثر ہوا اس كے بارے ميں ايك تاريخى مثال پيش كيجئے؟

۸_ عمار كى شہادت كا اثر زائل كرنے كے لئے عمروعاص نے كيا تركيب نكالي؟

۲۲۶

حوالہ جات

۱_ وقعہ صفين ص ۲۵۳و ۲۵۰

۲_ شايد اس آيت كى جانب اشارہ ہے) يا ايها الذى آمنوا اذا لقيتم الذين كفرو ازحفا فلا تولوا هم الادبار و من يولهم يومئذ دبره الا متحرفا لقتال او منحيزا الى فئة فَقَد باء بغضب من الله و ماواه جهنم و بئس المصير ( (الے لوگو جو ايمان لائے ہو، جب تم ايك لشكر كى صورت ميں كفار سے دوچار ہو تو ان كے مقابلے ميں پيٹھ نہ پھيرو جس نے ايسے موقعے پر پيٹھ پھيرى مگر يہ كہ جنگى چال كے طور پر ايسا كرے يا كسى دوسرے فوجى دستہ سے جا ملنے كے لئے تو وہ اللہ كے غضب ميں گھر جائے گا اور اس كا ٹھكانہ جہنم ہوگا اور وہ بہت برا ٹھكانہ ہے سورہ انفال آيہ ۱۴_ ۱۵

۳_ وقعہ صفين ص ۲۵۶، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۰۴ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۲۵ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۰۴

۴ و ۵_ وقعہ صفين ۲۵۵_ ۲۵۴

۶_ وقعہ صفين ۲۵۵_ ۲۵۴

۷_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۰۲ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۲۴

۸_ وقعہ صفين ص ۲۵۴ _ ۲۵۳ '' الا ليستحيى الرجل ان ينصرف لم يقتل و لم يقتل؟

۹_ وقعہ صفين ۲۴۳ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۵(۱۰) وقعہ صفين ص ۲۷۲ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۵

۱۱_و الله ما بارز ابن ابى طالب رجلا قط الا سقى الارض من دمه

۱۲_ وقعہ صفين ص ۲۷۴_ ۲۷۵_۳۱۶ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۸_ ۲۱۷ ، يہاں يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ تاريخ كے اس حصے ميں حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ كا اپنى سپاہ كے ساتھ جو رويہ رہا اسے مورخين نے مختلف طوار سے بيان كيا ہے انہوں نے لكھا ہے حضرت علىعليه‌السلام كتنى ہى مرتبہ محاذ جنگ پر تشريف لے گئے اور آپعليه‌السلام نے اپنے ساتھيوں كى مدد بھى كى مگر اس كے برعكس معاويہ كى يہ پورى توجہ اپنى جان كى حفاظت كى جانب رہى اس واقعے كے ضمن ميں جو اوپر گذرا ہے معاويہ نے عمروعاص سے كہا تھا كہ : كيسى نادانى كى باتيں كرتے ہو قبائل عَكّ اشعريان اور جذام كے ہوتے ہوئے ميں علىعليه‌السلام سے نبرد آزمائي كروں ، وقعہ صفين ۲۷۵

۱۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۶ ص ۳۱۴_۳۱۳ ، وقعہ صفين ۴۲۴_۴۲۳ ، وقعہ صفين ميں نقل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے

۲۲۷

جب عمروعاص پر ضرب كارى لگائي اور وہ اس كى تاب نہ لاسكا تو اس نے يہ بدترين راہ اختيار كي_

۱۴_ وقعہ صفين ۴۱۸_ ۴۱۷

۱۵_ وقعہ صفين ص ۲۹۷

۱۶_ وقعہ صفين ۴۷۸_۴۷۷

۱۷_ وقعہ صفين ص ۴۷۵ ، ليكن اسى كتاب كے صفحہ ۳۹۲ پر اور شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۴۹ ميں درج ہے كہ اس وقت اكثر سپاہ نے نماز اشاروں سے پڑھي_

۱۸_ نہج البلاغہ خ ۱۹۸ ، (فيض)

۱۹_ لغت ميں ہرير كے معنى اس آواز كے ہيں جو سردى پڑنے كى وجہ سے كتے سے نكلتى ہے چونكہ اس شب شديد جنگ جارى تھى اور فريقين كے گھڑ سوار ايك دوسرے كے سرپر چيختے تھے اس لئے اس رات كو ليلة الہرير كہتے ہيں (معجم البلدان ج ۵ ص ۴۰۳ ، مجمع البحرين ج ۳ ص ۵۱۸ مادہ ہرر

۲۰_ نصر بن مزاحم نے وقعہ صفين ص ۴۷۵ ميں اس دن اور رات كے دوران قتل ہونے والوں كى تعداد ستر ہزار افراد بيان كى ہے_

۲۱_ وقعہ صفين ص ۳۲۰ ، شرح ابن ابى الحديدج ۵ ص ۲۵۳

۲۲_ حضرت عمار سے متعلق احاديث نبوى كے بارے ميں مزيد معلومات كے لئے ملاحظہ ہوں معجم رجال الحديث ج ۱۲ ص ۲۶۷ ، طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۸۷، استيعاب ج ۲ ص ۴۳۶ ،اور وقعہ صفين ص ۳۴۳_۳۴۲

۲۳_ ''يلتقى اهل الشام و اهل العراق و فى احد الكتيبيتين الحق و امام لهدى و معه عمار بن ياسر

۲۴_ وقعہ صفين ص ۳۴۰_۳۳۳

۲۵_و الله ان هذه الراية قاتلها ثلاث عركات و ما هذه بار شدهَّن (وقعہ صفين ص ۳۴۰)

۲۶_ اين من يبتغى رضوان ربہ و لا يؤب الى مال و لا ولد

۲۷_ وقعہ صفين ص ۳۲۶

۲۸_ وقعہ صفين ص ۳۲۸

۲۲۸

۲۹_ وقعہ صفين ص ۳۴۱_۳۴۰

۳۰_ يہاں حضرت اميرالمومنينعليه‌السلام كا اشارہ حضرت مرقال كى جانب تھا كيونكہ وہ ايك آنكھ سے محروم تھے_

۳۱_ وقعہ صفين ص ۳۲۸

۳۲_ انھيں مرقال اس بنا پر كہا جاتا تھا كہ وہ بہت چست و چالاك اور تيز رفتار تھے چونكہ ان كى آنكھ جاتى رہى تھى اسے لئے انھيں اعور بھى كہا جاتا تھا_

۳۳_ وقعہ صفين ۳۴۷_ ۳۴۶

۳۴_ وقعہ صفين ۳۵۵

۳۵_الا ايها الموت الذى لست تاركى ارحنى فقد افنيت كل خليل

اراك بصيرا بالذين احبهمكانك تنحو محوه بدليل

۳۶_ تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۱

۳۷_ وقعہ صفين ۳۴۵

۲۲۹

بارھواں سبق

قاسطين (جنگ صفين)۴

نجات كيلئے كوشش

آخرى فريب

سپاہ عراق كا رد عمل

سپاہ عراق ميں نظرياتى اختلاف

مالك كا واپس آنا

سركشوں كى سرزنش

نفاق و حماقت كے خلاف جد و جہد

حكميت و ثالثى كى دعوت

معاويہ كى جانب

حكمين كا انتخاب

سوالات

حوالہ جات

۲۳۰

نجات كے لئے كوشش

سپاہ اسلام كى جانب سے معاويہ اور عمروعاص كو جب پے در پے شكستيں ہوئيں تو وہ اس نتيجے پر پہنچے كہ اميرالمومنين حضرت عليعليه‌السلام كے لشكر كى تاب نہيں لاسكتے اور ان كى شكست فاش ہونے ميں زيادہ دير نہيں _ اسى لئے انہوں نے جنگ سے نجات پانے اور اپنے مقام و حيثيت كے تحفظ كى خاطر كوشش شروع كردي_ سب سے پہلے انہوں نے عراق كے لشكر كے بعض سرداروں كو پيغامات بھيجے اور ان سے جنگ ترك كرنے كى درخواست كى معاويہ نے اپنے بھائي عتبہ كو جو نہايت ہى فصيح بيان اور چرب زبان آدمى تھا حكم ديا كہ وہ علىعليه‌السلام كے سردار لشكر اشعث بن قيس سے ملاقات كرے اور جنگ و جدل ختم كرنے كيلئے اسے آمادہ كرے_

عتبہ نے اشعث سے ملاقات كى اور خوب مدح سرائي كرنے كے بعد كہا كہ : آپ عراق اور يمن كے لوگوں كے سردار ہيں _ آپ كى عثمان سے نہ صرف قرابت دارى تھى بلكہ آپ ان كى فوج كے فرماندار بھى تھے حضرت علىعليه‌السلام كے ديگر اصحاب كے برخلاف آپ طائفہ شام كے لوگوں كى حميت و غيرت اور ان كے جذبہ ناموس كى خاطر جنگ و جدل ميں حصہ لے رہے ہيں _

آخر ميں اس نے اپنى آمد كا مدعا بيان كيا اور كہا: جنگ انتہائي پر خطر صورت اختيار كرچكى ہے ہم آپ سے يہ تونہ كہيں گے كہ آپ حضرت علىعليه‌السلام سے كنارہ كشى اختيار كر ليجئے البتہ اس بات كے متمنى ہيں كہ اس جنگ كا اب كسى طرح خاتمہ ہوجائے تا كہ سپاہ مزيد ہلاك نہ ہو_

اشعث نے عتبہ كى تعريف و ستائشے كا جواب ديتے ہوئے اس كے اس بيان كى تائيد كى كہ اس كى جنگ شام كے لوگوں سے ايمان و عقيدے كى بنياد پر نہيں بلكہ ميں اہل عراق كى حمايت اس بنا

۲۳۱

پر كر رہا ہوں كہ ہر شخص كو چاہيئے كہ وہ اپنے گھر كى خود حفاظت كرے اس نے جنگ ختم كرنے كے سلسلے ميں بھى انھيں منفى جواب نہ ديا اور كہا كہ : ميرے نظريئے كا اعلان جلد ہى كرديا جائے گا_ (۱)

اس ملاقات كے ذريعے عتبہ كو اتنى كاميابى تو ہوگئي كہ اس نے اشعث كے ذہن ميں صلح كا ميلان پيدا كرديا اور جو تجاويز و پيشنہادات بعد ميں وقوع پذير ہوں گى ان كے اجراء نيز سپاہ عراق ميں س كى تشہير و ترويج كيلئے ايك موثر عامل كے طور پر اسے آمادہ كرليا گيا ہے_

معاويہ نے يہ بھى حكم ديا كہ عتبہ اور اشعث كے درميان جو ملاقات ہوئي ہے نہ صرف اسے بلكہ جو گفتگو ان دونوں نے كى ہے اسے حرف بحرف سپاہ عراق كے درميان منتشر كرديا جائے_ عمرو سے كہا كہ وہ ابن عباس كو بھى خط لكھے عمروعاص نے خط اس طرح لكھا علي(ع)كے بعد چونكہ آپ ہى اس جماعت كے سرور و سردار ہيں اسى لئے جو گذر گيا اسے فراموش اور آيندہ كے بارے ميں غور و فكر كيجئے_ خدا كى قسم اس جنگ نے ہم پر اور تم پر زندگى حرام اور صبر و تحمل كى تاب تمام كردى ہے يہ جان ليجئے كہ عراق اور شام كو بيك وقت جب ہى قابو ميں لايا جاسكتا ہے جب كہ ان ميں سے ايك نيست و نابود ہوجائے طرفين كيلئے صلاح اس امر ميں ہرگز نہيں كہ حريف مقابل ہلاك ہوجائے ہمارے اور تمہارے درميان ايسے لوگ بھى موجود ہيں جنہيں جنگ و جدل پسند نہيں _ آپ مشير و امين ہيں ليكن اشتر سنگدل انسان ہيں اور يہ مناسب نہيں كہ انھيں مشورے ميں شريك كيا جائے_

ابن عباس نے يہ خط حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں پيش كرديا جسے ديكھ كر آپعليه‌السلام كو ہنسى آگئي اور فرمايا كہ : اس ''عمر و عاص'' كو خدا غارت كرے معلوم نہيں كہ اسے كس چيز نے اس بات كيلئے مجبور كيا كہ وہ تم سے اس قسم كى توقع ركھے؟ اور اس كا جواب دينے كيلئے حكم ديا ابن عباس نے عمروعاص كو واضح و مدلل جواب ديا اور اس كى اميدوں پر قطعى پانى پھيرديا_(۲)

۲۳۲

آخرى فريب

معاويہ كو اتنى كاميابى تو ہو ہى گئي تھى كہ وہ ايسا ميدان ہموار كرلے جس كے ذريعے وہ سپاہ عراق كے درميان اپنے آخرى جنگى حربے كو بروئے كار لاسكے_ اس نے چونكہ سن ليا تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے تمام اہل لشكر كے درميان يہ فرمايا ہے كہ: كل جنگ كو يك طرفہ كرديا جائے گا اسى لے اس نے عمروعاص سے كہا كہ بس يہى ايك رات ہے جس ميں ہم كچھ كر سكتے ہيں كل جنگ يك طرفہ ہوجائے گى اس بارے ميں تمہارى كيا رائے ہے؟ اس نے جواب ديا كہ: آپ كے جوانوں ميں نہ تو ان جوانوں كا مقابلہ كرنے كى تاب و طاقت ہے اور نہ ہى آپ علىعليه‌السلام كے مثل و مانند ہيں وہ دين كى خاطر جنگ كر رہے ہيں اور آپ دنيا كے لئے_ آپ زندگى و بقاء كے متمنى ہيں اور وہ شہادت كے خواہشمند_ عراق كے لوگوں كو آپ كے غالب آنے كا خوف و ہراس ہے مگر شام كے عوام حضرت علىعليه‌السلام كى فتح و كامرانى سے خوش و خرم ہيں ليكن ميں ايك مشورہ ديتا ہوں اور وہ يہ كہ ان كے سامنے ايسى تجويز پيش كردى جائے كہ جس كو وہ قبول كرليں يا اسے رد كرديں ان كے درميان اختلاف راہ پاسكے_ انہيں يہ دعوت ديجئے كہ قرآن ہمارے درميان ثالث و حكم ہے_ اور يہى ايسى راہ ہے جس كے ذريعے آپ كامياب ہوسكتے ہيں ميں نے اس حربے كو ہميشہ اس خيال كے پيش نظر التواء ميں ركھا تا كہ اسے بوقت ضرورت بروئے كار لايا جاسكے معاويہ نے اس كے اس نظريے كو پسند كيا_(۳)

اشعث بن قيس نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے اس بيان كى پيروى كرتے ہوئے كہ دشمن آخرى چند سانس لے رہا ہے كہا ميں كل ان پر حملہ كروں گا تا كہ بارگاہ خداوندى ميں ان كا محاكمہ كيا جائے(۴) اس نے اپنے طائفہ ''كندا'' كے لوگوں سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : اے مسلمانو: تم ديكھ رہے ہو كہ تم پر كيا گزر گئي ہے كتنے عرب ہلاك ہوچكے ہيں خدا كى قسم ميں نے اپنى پورى زندگى ميں ايسا منحوس دن نہيں ديكھا جو حاضر ہيں وہ غائب لوگوں كو يہ پيغام پہنچا ديں كہ اگر كل كا دن بھى اسے طرح گذرا تو عربوں كى نسل نيست و نابود ہوجائے گى عورتوں اور بچوں كے

۲۳۳

سرپر كوئي وارث نہ رہے گا_

معاويہ كے جاسوسوں نے اشعث كے اس بيان كو اس تك پہنچا ديا معاويہ نے اس كے اس بيان كو اپنى جنگى سازش كى بنياد اور نيرنگى فكر كا محور بنا ليا اس نے اشعث كے بيان كى تائيد كرتے ہوئے حكم ديا كہ آدھى رات كے وقت عراقيوں كے درميان بلند آواز سے كہيں كہ '' اے عراقيو اگر ہم ميں سے ہر ايك دوسرے كو قتل كرے گا تو ہمارى عورتوں اور اولاد كا كون ولى و وارث ہوگا اب جو كچھ باقى رہ گيا ہے كم از كم اس كى حفاظت كى جائے_(۵)

بروز جمعہ (يوم الہرير) مالك اشتر كے حملے دشمس پر مسلسل جارى تھے يہاں تك كہ ان كے سپاہى تھك گئے چنانچہ انہوں نے اپنى سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : ميں تمہارے لئے خدا سے پناہ مانگتا ہوں اس لئے كہ (اگر زندہ بچ گئے) تو باقى دنوں ميں اپنے گلے كا دودھ دوہيا كروگے(۶) اس كے بعد انہوں نے اپنا گھوڑا طلب كيا اور پرچم كو ''حيان بن ہوذہ'' سے لے كر زمين ميں گاڑديا_ اور بآواز بلند يہ كہتے ہوئے سپاہ كے درميان پہنچ گئے كہ : تم ميں سے كون حاضر ہے كہ اپنى جان كا خدا سے معاملہ كرے اور اشتر كے شانہ بشانہ جنگ كرے تا كہ اسے يا تو فتح و نصرت نصيب ہو يا شہادت اس تقرير كے بعد بہت سے سپاہى ان كے گرد جمع ہوگئے اور ان كے ہمراہ دشمن پر حملہ آور ہوئے يہاں تك كہ انہوں نے سپاہ شام كو دھكيل كر ان كى قرار گاہ لشكر تك پہنچا ديا ليكن يہاں پہنچ كر انھيں دشمن كا سخت مقابلہ كنا پڑا چنانچہ اس مقابلے ميں مالك كے پرچمدار شہيدبھى ہوگئے_

حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ ديكھا كہ فتح و كاميابى مالك كے قدم چومنا چاھتى ہے تو آپعليه‌السلام نے ان كى مدد كيلئے سپاہ كى ايك جماعت روانہ كي_(۷)

مالك كى سرشكن ضربات اور دشمن كے ٹھكانہ پر مسلسل يورش سے يہ خوشخبرى مل رہى تھى كہ فتح و نصرت جلد ہى نصيب ہونے والى ہے شام كے ضعيف و عمر رسيدہ لوگوں كے لبوں پر يہ صدا بلند تى اللہ اللہ فى الحرمات من النساء و البنات(۸) (خدا كيلئے اپنے عورتوں اور بيٹيوں كا

۲۳۴

توكچھ تو خيال و پاس كرو)

معاويہ نے اپنے لشكر كى جب يہ زبوں حالى ديكھى اور يہ يقين ہوگيا كہ شكست ميں قطعا شك نہيں تو اس نے عمروعاص سے كہا كہ : ہم تو اب فنا ہوا چاھتے ہيں كہاں ہے وہ تمہارا آخرى حربہ(۱۹) يہ سن كر عمروعاص نے بآواز بلند كہا كہ : اے لوگو تم ميں سے جس كے پاس بھى قرآن مجيد ہے اسے نيزے كى نوك پر حمائل كردو_ تقريبا پانچ سو قرآن نيزوں پر آگئے اس كے ساتھ لوگوں كو چيخ و پكار بھى شروع ہوگئي كہ: ہمارے اور تمہارے درميان قرآن حاكم و ثالث ہے اگر ہميں قتل كردو گے تو شام كى سرحدوں كى كون نگرانى و حفاظت كرے گا(۱۰)

سپاہ عراق كا رد عمل

عراق كے بعض سپاہيوں پر دشمن كے حيلہ و نيرنگ اور اس كے پر فريب ،ہيجان انگيز نعروں كا جادو چل گيا (بالخصوص اشعث جيسے سرداروں پر چونكہ ان كے دل معاويہ كى جانب مايل تھے اسى لئے ان كا شمار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے منافقين ميں ہوتا تھا) چنانچہ انہوں نے لوگوں كو مشتعل كرنا شروع كرديا تا كہ وہ دشمن كے دام فريب ميں آجائيں اور اسى لئے انہوں نے بآواز بلند يہ كہنا شروع كرديا كہ ''تمہارى دعوت كتاب خدا ہم نے قبول كر ليا ہے آؤ ہم اسى طرف چليں ''(۱۱)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ كيفيت ديكھى تو اپنى سپاہ كے افكار روشن كرنے اور دشمن كے حيلہ و نيرنگ سے باخبر كرنے كى خاطر فرمايا كہ '' اے بندگان خدا اسى طرف چلتے رہو دشمن سے جہاد كرتے ہوئے حقيقت و حقانيت كو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دو معاويہ، عمروعاص اور ابن ابى معيط كو دين و قرآن سے كوئي سروكار نہيں ميں ان لوگوں كو تم سے بہتر جانتا ہوں ان كے بچپن سے سن رسيدہ ہونے تك ميرا سابقہ رہا ہے يہ اپنے وقت كے بدترين بچے اور بدترين مرد رہے ہيں اگر يہ لوگ قرآن كى عظمت سے واقف ہوتے اور اس كے احكام پر عمل كرتے تو ان كو نيزوں

۲۳۵

پر نہ چڑھاتے_ وہ جو كچھ كر رہے ہيں سب نيرنگ و نفاق ہے_(۱۲)

اس سے قبل يہ واقعہ رونما ہوا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے اس خط ميں جو معاويہ كو لكھا تھا يہ پيشين گوئي كردى تھى گويا ميں ديكھ رہا ہوں كہ حوصلہ شكن ضربات، بے حد و اندازہ كشت و خون اور يقينى شكست و ريخت كے بعد تم اپنے ساتھيوں كے ہمراہ كتاب اللہ كى جانب آنے كى دعوت دوگے چنانچہ جو لوگ اس دعوت كى دہائي ديں گے وہ كافر ہوں گے يا منافق يا حق سے روگرداں(۱۳) دشمن كى اس سازش كو ناكام كرنے اور سپاہ فريقين كے افكار بيدار كرنے كى خاطر حضرت علىعليه‌السلام نے حضرت سعيد كو قرآن كے ساتھ شاميوں كى جانب روانہ كيا اور انھيں حكومت قرآن كى دعوت دي_

سپاہ عراق ميں نظرياتى اختلاف

حضرت علىعليه‌السلام كى تقارير و تنبيہات كا اثر چند ہى لوگوں پر ہوا ان ميں اكثريت ايسے لوگوں كى تھى جنہوں نے ضد اختيار كر لى تھى اور ان كا اس بات پر اصرار تھا كہ جنگ ترك كردى جائے چنانچہ انہوں نے پكارپكار كر كہنا شروع كيا: اس جنگ نے ہميں نگل ليا اس ميں ہمارے تمام مرد مارے گئے ان كى دعوت كو قبول كر لو ورنہ سب مارے جاؤ گے_

جو لوگ اس حق ميں تھے كہ جنگ جارى رہے ان ميں مالك اشتر پيش پيش تھے_

ان كى دليل يہ تھى كہ معاويہ كے پاس اب اپنى فوجى طاقت كا دم خم نہيں جب كہ ہمارى فوجى طاقت بہت زيادہ ہے اور ہم ميں حوصلہ مندى ہے اگر اس كے پاس تمہارى جيسى فوجى طاقت ہوتى تو وہ ہرگز جنگ سے روگرداں نہ ہوتا(۱۴)

جنگ كو جارى ركھنے كے حاميوں ميں دوسرے شخص'' عدى بن حاتم'' تھے انہوں نے كہا كہ ہرچند ہمارى سپاہ كا كشت و خون ہوا ہے اور ان ميں سے بہت سے مجروح بھى ہوئے ہيں مگر حق كى پاسدارى كر رہے ہيں اس لئے ہم اہل شام زيادہ ثابت قدم وپائيدار ہيں اب وہ لوگ زبوں و ناتواں ہوچكے ہيں ضرورى ہے كہ اس موقع سے فائدہ اٹھايا جائے اور ہم ان سے جنگ

۲۳۶

كريں _ (۱۵)

انہى افراد ميں سے ''عمرو بن حمق'' اپنى جگہ سے اٹھے اور كہنے لگے: اے اميرالمومنينعليه‌السلام ہم نے آپ كا ساتھ باطل كى خاطر نہيں ديا ہے بلكہ ہم راہ خدا ميں اور حق قائم كرنے كى غرض سے آپ كے دوش بدوش رہے ہيں اب كام اپنے انجام كو پہنچ چكا ہے اور ہم بھى آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں(۱۶)

اس جماعت كے مقابل اشعث كھڑا تھا اور كہنے لگا اے اميرالمومنينعليه‌السلام ہم آپ كے آج بھى وہى جاں نثار دوست ہيں جو كل تھے ليكن كام كا انجام آغاز سے مختلف ہے مجھ سے بڑھ كر كوئي اہل عراق كا دوست او مجھ سے بدتر كوئي شاميوں كا دشمن نہيں انہوں نے جب كلام اللہ كى دعوت دى ہے تو قبول كر ليجئے كيونكہ اس كيلئے آپ ان سے كہيں زيادہ اہل و لائق ہيں لوگ اپنى زندگى و بقاء كے متمنى ہيں ہلاكت و تباہى انھيں پسند نہيں _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اس خيال كے پيش نظر كہ لشكر كے درميان ہم آہنگى برقرار رہے اور ان كے درميان كوئي اختلاف و اشتعال پيدا نہ ہو پہلے تو خود سے ہى كہا كہ اس مسئلہ كے بارے ميں غور كيا جانا چاہيئے(۱۷) ليكن جيسے ہى ہر گوشہ و كنار سے صلح كے بارے ميں دبى دبى آوازيں آنے لگيں تو آپ نے فرمايا كہ : اے بندگان خدا اس ميں كوئي شك نہيں كہ كلام اللہ كى دعوت قبول كرنے كيلئے ميں آپ سے زيادہ لائق و اہل ہوں مگر دين و قرآن كے معاملے ميں معاويہ اور عمروعاص كى بات الگ ہے ان كا قول اگرچہ كلمہ حق ہے مگر اس كے پس پردہ جو ارادہ كار فرما نظر آتا ہے وہ باطل ہے قرآن كو نيزے پر چڑھانا معرفت اور ايفائے عہد كى بنياد پر نہيں بلكہ يہ بھى حيلہ و نيرنگ اور ايك بہانہ ہے تم صرف ايك گھنٹے كے لئے اپنے دست و بازو اور سر ميرے حوالے كردو تو جلد ہى يہ ديكھو گے كہ حق اپنے آشكارہ نتيجے پر پہنچ چكا ہے اور ستمگروں كى بيخ كنى ہونے ميں ذرا بھى دير نہيں _

ليكن اشعث نے جب يہ ديكھا كہ اس كى بات كو نظر انداز كيا جا رہا ہے اور يا اس پر عمل ہونا

۲۳۷

مشكل و محال نظر آتا ہے تو يہ بات اس كيلئے ناقابل برداشت ہوگئي چنانچہ و ہ سپاہ كى جانب روانہ ہوا تا كہ اپنے اس نظريے كا ان كے درميان پر چار كر سكے چنانچہ اس نے اس بات پر سب سے زيادہ زور ديا كہ جنگ بند كردى جائے اور يہ بات اس نے ان حساس لمحات ميں كہى جب كہ جنگ كى چكى مالك اشتر كے ہاتھ ميں گھوم رہى تھى اور دشمن گيہوں كے دانوں كى مانند ان كى سرشكن ضربات كے باعث پس رہے تھے وہ ميدان كارزار ميں حق كو روشن اور فتح و نصرت كو آشكار كرنا چاہتے تھے دشمن كے آخرى محاذ كو زير و زبر كرنے ميں بھى اب چند قدم كا ہى فاصلہ رہ گيا تھا_

شاميوں كى زندگى اب معاويہ اور عمروعاص كے باريك تار اميد سے وابستہ تھى وہ سراسيمہ و پريشان معاويہ كے سرپر كھڑے چلا رہے تھے اور كہہ رہے تھے معاويہ ايسا لگتا ہے كہ اہل عراق ہمارى دعوت قبول كرنے كو تيار نہيں اپنى اس تجويز كو ان كے سامنے دوبارہ ركھيے تم نے يہ دعوت دے كر دشمن كو جرات مند و گستاخ كرديا ہے اور لالچ و حرص نے تم كو گھير ليا ہے(۱۸) _

دوسرى طرف اشعث كى كوشش كے باعث تقريبا دو ہزار آہن پوش افراد سلاح بدست اور شمشير بدوش ان قاريان قرآن كى جماعت كے ہمراہ جن كو بعد ميں جزو خوارج كہا گيا'' مسطر بن فدكي'' اور '' زيد بن حصين'' كى قيادت ميں حضرت علىعليه‌السلام پر حملہ آور ہوئے وہ آپ كو بار بار ضدى و خود سر كہے جا رہے تھے_

انہوں نے پہلى مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام كو اميرالمومنينعليه‌السلام خطاب كرنے كے بجائے يہ كہ كہا اے على انہوں نے كلام اللہ كى دعوت دى ہے تم اسے قبول كر لو ورنہ ہم تمہيں بھى عثمان كى طرح قتل كروائيں گے اور ہم خدا كو شاہد بنا كر كہتے ہيں كہ ہم يہ كام كر گزريں گے_

حضرت علىعليه‌السلام نے فرماياكہ : افسوس تمہارى حالت پر ميں وہ پہلا شخص ہوں جس نے قرآن كى دعوت دى اور ميں ہى پہلا فرد ہوں جس نے اس كى دعوت كو قبول كيا ميرے لئے يہ كسى طرح بھى شائستہ و سزاوار نہيں كہ حكميت قرآن كى دعوت دى جائے اور ميں اسے قبول نہ كروں ميں ان سے اس لئے جنگ كر رہا ہوں كہ وہ حكم قرآن كے آگے اپنى گرد نيں خم كرديں كيونكہ انہوں نے حكم

۲۳۸

خداوندى سے روگردانى كى اور اس كے احكام سے عہد شكنى كر كے اس كى كتاب سے منحرف ہوگئے ہيں ميں بار بار تمہارے سامنے يہ اعلان كر چكا ہوں كہ ان كا ہرگز يہ ارادہ نہيں كہ احكام الہى پر عمل پيرا ہوں بلكہ اپنے اس اقدام سے وہ تمہيں فريب دے رہے ہيں ميں نے جو كچھ كہا اور وہ بات جو تم كہہ رہے ہو اس پر غور كرو اگر ميرى اطاعت مقصود ہے تو جنگ كرو اور اگر ميرے حكم كى خلاف ورزى منظور ہے تو تمہيں اختيار ہے جو چاھو كرو_ (۱۹)

انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے بيان كى جانب توجہ كئے بغير كہا كہ اشتر كو حكم د يجئے كہ وہ جنگ سے دست بردار ہوكر واپس آجائيں _(۲۰)

مالك كا واپس آنا

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ناگزير يزيد بن ہانى كے ذريعے مالك كو پيغام بھجوايا كہ واپس آجائيں _ مالك اس وقت دشمن كى استقامت و پايدارى كو كارى ضرب لگا چكے تھے اور فتح و نصرت ان كے قدم چوم لينا چاہتى تھى انہوں نے جواب ديا كہ : يہ وقت مجھے اپنے موقف سے دوركرنے كيلئے مناسب نہيں مجھے خداوند تعالى كى ذات سے اميد ہے كہ فتح و كاميابى حاصل ہوگى ميرے بارے ميں آپ جلدى نہ كيجئے انہوں نے مالك كا پيغام حضرت علىعليه‌السلام كو پہنچا ديا انہى لمحات كے دوران ميدان كار زار ميں گرد و غبار بلند ہوا اور نبرد آزما سپاہ كى پر جوش و خروش صدائيں سنائي ديں اب مالك اشتر كى فتح و نصرت اور شاميوں كى شكست فاش نماياں ہوچكى تھي_

ليكن فتح و نصرت كى ان علامتوں سے كوئي بھى علامت ان سركشوں كو جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو اپنے حصار ميں لے ركھا تھا ضد پر سے نہ روك سكى وہ غضبناك ہو كر چيخے اور كہنے لگے كہ يقينا آپ نے مالك كو يہ حكم ديا ہے كہ آتش جنگ كو مزيد بر افروختہ كريں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : افسوس تمہارى حالت پر كيا ميں نے تمہارے سامنے قاصد مالك كى جانب روانہ نہيں كيا جو بات روشن و آشكارا ميں نے كہى تھى كيا وہ تمہارے كانوں تك نہيں پہنچي؟ انہوں نے كہا : دوبارہ يہ

۲۳۹

پيغام بھجوائے كہ وہ واپس آجائيں اور اگر آپ نے ايسا نہ كيا تو ہم آپ سے قطع تعلق كرليں گے حضرت على عليه‌السلام نے دوبارہ يہ پيغام بھيجا كہ يہاں فتنہ بپا ہے تم واپس آجاؤ اشتر نے قاصد سے پوچھا كيا يہ شور و غوغا قرآن كو نيزوں پر بلند كرنے كے باعث بپا ہوا ہے؟ قاصد نے جواب ديا ہاں اس كى وجہ يہى ہے اس پر مالك نے كہا كہ خدا كى قسم جس وقت قرآن كو نيزوں پر لايا گيا تھا مجھے اسى وقت يہ گمان گذرا تھا كہ اختلاف و تفرقہ پيدا ہوگا يہ طرح ريزى و نقشہ كشى اس غير معمولى ذہنى كى پيدا وار ہے جس كا نام عمروعاص ہے_

اس كے بعد انہوں نے يزيد بن ہانى سے كہا كہ:كيا تم ديكھ نہيں رہے ہو كہ خداوند تعالى نے ہميں فتح و كاميابى عطا فرمائي ہے كيا اس وقت يہ مناسب ہے كہ اس موقع كو ہاتھ سے جانے دوں اور واپس چلا آجاؤں ؟ يزيد بن ہانى نے كہا كہ : كيا آپ يہ چاھتے ہيں كہ اس محاذ جنگ پر تو آپ كامياب ہوجائيں اور ادھر آپ اميرالمومنينعليه‌السلام كو دشمن كے حوالے كرديں ؟ انہوں نے جواب ديا كہ '' سبحان اللہ آپ نے يہ كيا بات كہى خدا كى قسم ميں ايسا ہرگز چاھوں گيا يہ كہہ كر وہ ميدان كارزار سے واپس آگئے_(۲۱)

سركشوں كى سرزنش

مالك جب ميدان كارزار سے واپس آگئے تو وہ ان لوگوں پر غضبناك ہوے جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو گھير ركھا تھا اور كہا: اے مذلت پذير سست عنصر لوگو تمہيں غالب و فاتح ديكھ كر دشمن نے حكميت قرآن كى دعوت دى ہے كيا دعوت دينے كيلے يہى وقت رہ گيا تھا خدا كى قسم انہوں نے احكام الہى و قرآن اور سنت كو پامال كيا ہے اس لئے تم ان كى دعوت قبول نہ كرو مجھے اتنى مہلت دے دو كہ ميں يہاں سے جاؤں اور واپس چلا آؤں ميں فتح و كاميابى كو اپنے سامنے ديكھ رہا ہوں انہوں نے كہا كہ : ايسا نہيں ہوسكتا مالك نے كہا كہ '' كم از كم مجھے اتنا ہى وقت دے ديا جائے جتنى دير گھوڑے كو دوڑنے ميں لگتى ہے انہوں نے جواب ديا كہ ايسے وقت ميں ہم تمہارے ساتھ

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

والوں كو اٹھائے گا؟

لوگوں نے كہا '' جى ہاں'' ہم شہادت ديتے ہے''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدايا گواہ رہنا'' بيشك ميں دوسرے جہان ميں جانے اور حوض كوثر كے كنارے پہنچنے ميں تم پر سبقت لے جاؤں گا _ اور تم حوض پر ميرے پاس حاضر ہوگے _ وہاں ستاروں كى تعداد ميں چاندى كے جام اور پيالے ہوں گے _ ديكھنا يہ ہے كہ تم ميرے بعد ان دو گراں بہا چيزوں سے كيا سلوك كرتے ہو جو ميں تمہارے درميان چھوڑے جارہا ہوں؟

مجمع ميں سے ايك شخص نے بلند آواز سے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ دو گراں قدر چيزيں كيا ہيں؟ فرمايا جو بزرگ ہے وہ كتاب خدا ہے جو تمہارے درميان اللہ كى مضبوط رسى ہے اور دوسرے ميرے اہل بيتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عترت ہيں _ خدائے مہربان اور عالم نے مجھے بتايا ہے كہ يہ دونوں ہر گز ايك دوسرے سے الگ نہيں ہوں گے يہاں تك كہ حوض (كوثر) پر ميرے پا س پہنچيں گے قرآن و عترت سے آگے نہ بڑھنا اور ان دونوں كى پيروى سے منہ نہ موڑنا ورنہ ہلا ك ہوجاؤ گے_

اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علي(ع) كے ہاتھ كو پكڑا اور اتنا بلند كيا كہ دونوں كى بغل كى سفيدى نماياں ہوگئي اور لوگوں نے ان كو ديكھا اور پہچانا_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اے لوگو اہل ايمان پر خود ان سے زيادہ حقدار كون ہے؟'' لوگوں نے كہا '' خدا اور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہتر جانتا ہے _'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:

''بيشك خدا ہمارا مولا ہے اور ميں مومنين كا مولا ہوں اور مومنين كے نفسوں سے اولى اور زيادہ حقدار ہوں _ لہذا جس كا ميں مولا ہوں على (ع) اس كے مولا ہيں _(۹) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۲۶۱

نے اس بات كو تين بار اور حنبلى حضرات كے پيشوا ، احمد بن حنبل كے قول كے مطابق چار بار تكرار فرمايا اس كے بعددعا كے لئے ہاتھ بلند كركے فرمايا

'' بارالہا تو اس كو دوست ركھ جو اسے (علي) دوست ركھے اور اس كو دشمن ركھ جو اس سے دشمنى كرے اس سے محبت فرما جو اس (على (ع) ) سے محبت كرئے اور اس كو مبغوض قرار دے جو اس (على (ع) ) سے بغض كرئے، اس كے دوستوں كى مدد فرما او رجو اس كو رسوا كرے اسے ذليل فرما اور اسے حق كا مدار و محور قرار دے ''(۱۰)

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرماياكہ'' حاضرين غائبين تك يہ پيغام پہنچاديں'' ابھى مجمع پراگندہ بھى نہيں ہوا تھا كہ جبرئيل امين ، وحى الہى لے كر آپہنچے اور آيہ كريمہ '( اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا ً ) (۱۱) نازل ہوئي_

'' آج ميں نے تمہارے دين كو كامل كرديا ، تم پر اپنى نعمتيں تمام كرديں اور تمہارے لئے دين اسلام كو پسند كر ليا ہے ''_اس موقعہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: دين كے كمال ، نعمت كے اتمام اور ميرى رسالت و على كى ولايت پر خداوند متعال ك-ے راضى ہوجانے كے پر مسرت موقعہ پر ، '' اللہ اكبر'' (اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلند آواز سے تكبير كہي) اس كے بعد مسلمانوں نے على ابن ابيطالب(ع) كو امير المومنين كے عنوان سے مبار ك باد دى اور سب سے پہلے ابوبكر و عمر ، حضرت على (ع) كى پاس آئے اور كہا '' مبارك ہو مبارك ہو ، اے ابوطالب (ع) كے بيٹے آج سے آپ(ع) ہمارے اور تمام مومنين كے مولا ہوگئے ''_

پھر شاعر انقلاب اسلام ، حسان بن ثابت نے كہا يارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر جازت ہو تو ميں اس سلسلہ ميں كچھ اشعار پڑھوں _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا خدا كى بركت سے پڑھو_ اور حسان نے فى البديہہ واقعہ غدير خم كو

۲۶۲

اشعار ميں بيان كيا _ ہم يہاں ان كے اشعار ميںسے تين شعر نقل كررہے ہيں _

يناديهم يوم الغدير نبيّهُم

بخُم فَاسْمَع بالرّسول مناديا

فقال لهم: قم يا على فَانَّني

رضيتك من بعدى اماما ً ''و هاديا''

فمن كنت مولاه فهذا وليّه

فكونوا له اتباعَ صدْق مواليّا

يعنى غدير كے دن پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں كو آواز دى ، كيا آواز رسا تھى على (ع) سے فرمايا كہ اٹھو ميںنے تمہيں اپنے بعد لوگوں كى ہدايت اور امامت كے لئے منتخب كيا _

ميں جس كا مولا ہوں على اس كے ولى ہيں ، لہذا از روئے صدق و راستى ان كے پيرو اور دوست بن كر رہو _(۱۲)

۲۶۳

سوالات

۱_ كو ن سى تاريخ كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع كے لئے تشريف لے گئے؟

۲_ غدير كے دن مسلمانوں كا كتنا مجمع تھا؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قافلہ روكنے كا حكم كيوں ديا؟

۴_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدير كے دن حضرت على (ع) كے بارے ميں كيا فرمايا؟

۵_ غدير كے واقعہ كے بعد كون سى آيت نازل ہوئي؟

۲۶۴

حوالہ جات

۱_مغازى واقدى ج ۳ص ۱۰۸۹ _سيرت ابن ہشام ج ۴ص۲۴۸_

۲_اہل سنت كى چند دوسرى كتابوں ميں اس طرح لكھا ہے كہ ''نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تم علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كيا چاہتے ہو؟علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے ہيں اور ميں ان سے ہوں اور وہ ميرے بعد ہر مومن كے ولى وسرپرست و صاحب اختيار ہيں _ ترمذى ج ۵ ص ۶۳۲_ مستدرك حاكم ج ۳ص ۱۱۰_۱۱۱_البداية والنہاية ج ۷ ص ۳۴۵_اسد الغابہ ج ۴ ص ۱۰۷_۱۰۸ _ مسند احمد ابن حنبل ج ۵ ص ۳۵۶_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۵۰ ، تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۴۹

۳_ يہ تقرير سيرت كى مختلف كتابوں ميں دو طريقوں سے نقل كى گئي ہے ايك '' عرفہ ميں تقرير'' كے عنوان سے اور دوسرى '' منى ميں تقرير'' كے عنوان سے تفصيلات كيلئے رجوع كريں: مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۱۰۳_سيرت ابن ہشام ج۴ _ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۱۰ طبرى ج ۳ ص ۱۵۰_

۴_ مغازى واقدى ميں '' اياس بن ربيعة بن حارث '' ذكر ہوا ہے_

۵_انّى تَاركٌ فيْكُمُ الثَّقَلَيْن كتَاب اللَّه وَ عتْرَتى انْ تَمَسَّكْتُمَْ بهما لَنْ تَضّلُوا _ يہ عبارت اہل سنت كى جن معتبر كتابوں ميں مختصر انداز سے ذكر كى گئي ہے ان ميں سے چند كے نام مندرجہ ذيل ہيں _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۲ _ سنن ترمذى ج ۲ ص ۳۰۷_ سنن دارمى ج ۲ ص ۱۴و۱۷و۲۶و۵۹_ خصائص نسائي ص ۳۰_مستدرك حاكم ج ۳ ص ۱۰۹_ كفاية الطالب ج ۱ ص ۱۱_ طبقات ابن سعد ج ۴ ص ۸ _ عقد الفريد ج ۲ ص ۳۲۶و ۱۵۸_ اسد الغا بة ج ۲ ص ۱۲_ حلية الاوليا ج ۱ ص ۳۵۵_ تذكرة الخواص ص ۳۳۲_ منتہى الارب _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۲۰۵_۲۰۶

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۳،۴، ص ۶۰۳ _تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۱۰ _ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۱۰۳_ طبرى ج ۳ ص ۱۵۰ _

۷_( يَا اَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغْ مَا اُنْزلَ الَيْكَ منْ رَّبّكَ وَ انْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رسَالَتَهُ وَ اللّهُ يَعْصمُكَ منَ النّاس انَّ اللّهَ لاَ يَهْدى الْقَوْمَ الْكَافريَْن ) (مائدہ/۶۸)

۲۶۵

۸_مكہ اور مدينہ كے راستہ ميں جحفہ ايك بيابان ہے جہاں غدير خم واقع ہے يہاں سے ہر كارواں جدا ہو كر اپنے ديار كى طرف چلا جاتا ہے_

۹_من كنت مولاه فهذا على مولاه

۱۰_اللّهُمَّ وَالَ مَنْ وَالاهُ وَ عَاد مَنْ عَادَاهُ وَاَحَبّ مَنْ اَحَبَّهُ وَ اَبْغض مَنْ اَبْغَضَهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهْ وَ اْخْذُلْ مَنْ خَذََلَه وَ اَدْر الْحَقَ مَعَهُ حَيْثُ دَار _

۱۱_ سورہ مائدہ آيت ۳

۱۲_ الغدير ج ۱ ص ۹تا ۱۲_ تفسير الميزان ج ۶ ص ۵۳ تا ۵۹ _ علامہ امينى مرحوم نے گيارہويں جلدپر مشتمل اپنى عظيم اور تحقيقى كتاب الغدير ميں حديث غدير كو ايك سو دس اصحاب كى زبانى نقل كيا ہے نيز آپ نے غدير كے بارے ميں اہل سنت كے محدثين ومورخين كے اقوال كو ذكر فرمايا ہے_ يہ بھى ياد دلانا ضرورى ہے كہ يہ كتاب فارسى زبان ميں ترجمہ ہو گئي ہے _

۲۶۶

سولہواں سبق

شورشيں

اسود عنسى كا واقعہ

يمن ميں انقلابى بغاوت

مسيلمہ كذاب كا واقعہ

جھوٹے پيغمبر كى طرف ميلان كا سبب ''قومى تعصب''

جھوٹوں كا انجام

رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت كے حالات كا تجزيہ

لشكر اسامہ كى روانگي

اہل بقيع كے مزار پر

واقعہ قرطاس يا نامكمل تحرير

ناتمام نماز

وداع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

يہ نور ہرگز نہيں بجھے گا

سوالات

۲۶۷

شورشيں

حجة الوداع سے واپسى كے بعد تھكن كى شدت كى بناپر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چند دنوں تك بيمار رہے اس دوران آپ كى تھكاوٹ اور طبيعت كى ناسازى كى خبر چاروں طرف پھيل گئي اور موقعہ كى تلاش اور فائدہ كے چكر ميں رہنے والے افراد نے پيغمبرى كا دعوى كرديا_'' مسيلمہ كذاب'' نے يمامہ اور نجد ميں خود كو پيغمبر اور'' رحمان اليمامة ''كہا _ ''اسود عنسي'' نے يمن ميں خود كو پيغمبر كہا اور شورش كا آغاز كرديا_ اس كے علاوہ'' سجاح ''نامى عورت اور'' طليحہ'' نامى ايك شخص نے بھى اس طرح كے دعوى سے لوگوں كو دھوكہ دينا شروع كرديا _ اس فتنہ كى جڑيں بہت پھيلى ہوئي تھيں ان دھوكہ بازوں نے قومى اور قبائلى تعصب سے فائدہ اٹھا يا اور ايك جماعت كو اپنے گرد جمع كرليا اور جب ان كو قدرت حاصل ہوگئي تو اپنى حكومت و سلطنت كو وسعت دينے لگے_

اسود عنْسيّ كا واقعہ

نمونہ كے طور پر اَسوَد عنسى كا واقعہ پيش ہے جس كو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ناسازگارى طبع كى خبر نے نبوت كے لالچ ميں ڈال ديا اس نے يمن ميں زمانہ جاہليت كے طور طريقوں اور رسوم

۲۶۸

كو كتب عتيق كے قوانين كے ساتھ ملاكر ايك نئے نقطہ خيال كى بنياد ركھى وہ ايك كاہن اور شعبدہ باز تھا جو الٹى سيدھى باتوں كو مسجعّ اور مقفّى بنا كر اس طرح پيش كرتا كہ جو بھى سنتا بد دل ہو جا تا _ جنگجوئي ميں بڑا سنگدل اور چالاك تھا_ظلم و ستم ميں لوگوں كى جان و مال كى پروا نہيں كرتا تھا_

اَسوَدعنسيّ نے اپنے سپاہيوں كے ساتھ چند دنوں ميں نجران پر قبضہ كرليا اور بلافاصلہ يمن كے دار السلطنت صنعا ء پر حملہ كرديا_'' شہر ابن باذام''(۱) ايرانى جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى طرف سے آزادہ شدہ اور اس علاقہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے حكومت كرتے تھے ، انہوں نے لشكر تيار كيا تا كہ اسود كے راستہ كو روك ليں ليكن شورشيوں كے فورى حملہ كى بنا پر شہر ابن باذام كا لشكر ، اسود كے لشكر كا كچھ نہ كر سكا اور شہر ابن باذام اس حملہ ميں شہيد ہو گئے_

اسود عنسيّ كامياب اور كاميابى سے مغرور ہو كر صنعاء ميں داخل ہوا _ اعرابى جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھى دوبارہ اسود كے ہاتھوں اسلام سے خارج ہونے لگے گروہ در گروہ قبائل نے اس كى بيعت كرلى اور خود كو اس كے حوالہ كرديا _ تھوڑى ہى مدت ميں اسود نے تمام يمن ، طائف، بحرين اور حدود عدن پر تسلط جماليا _ان علاقوں ميں باقى ماندہ مسلمانوں نے بھى خوف سے سكوت اختيار كر ليا _اسود نے شہر ابن باذام كى بيوى ''آزاد '' كو زبردستى اپنى بيوى بناليا_(۲)

يمن ميں انقلابى بغاوت

بستر علالت ہى سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدعيان نبوت كے ساتھ جنگ كے لئے نمائندے بھيجنا اورخط لكھنا شروع كيئے_(۳)

۲۶۹

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك خط ميں يمن كے ايرانى ، سركردہ افراد كو حكم ديا كہ دين مقدس اسلام كے دفاع كےلئے قيام كريں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيغام كو دينداورں ، با حميت و غيرت مند افراد تك پہنچائيں اور كوشش كريں كہ فساد كى جڑ اَسود عنسى كو خفيہ يا آشكار ا طور پر ختم كيا جا سكے_(۴)

يمن كے آزاد ايرانيوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق اسلام پر باقى رہ جانے والے قبائل كو اپنے ساتھ تعاون كے لئے بلايا اورجب يہ معلوم ہواكہ اسود اور سپہ سالار لشكر قيس ميں اختلاف ہے تو انہوں نے قيس كے سامنے نہايت خاموشى سے اس موضوع كو پيش كيا اور اس طرح سپہ سالار لشكر كو اپنے ساتھ ملاليا_(۵)

اسود كے قصركے اندرونى معلومات حاصل كرنے كے لئے ''آزاد'' سے رابطہ قائم كيا گيا جو شہر ابن باذام كى بيوى اور اسود كے تصرف ميں تھي_

'' آزاد'' ايك آزادى پسند، شير دل، مؤمنہ اور باعزت خاتون تھيں ان لوگوں كى مدد كى لئے اٹھ كھڑى ہوئيں اور مفيد و قيمتى راہنمائيوں كے ذريعہ انھوں نے مومنين كو اسود كے قتل پر آمادہ كيا _ قصر مكمل طور پر نگہبانوں كى نگرانى ميں تھا_ '' آزاد'' كى راہنمائي ميں ايك سرنگ كے ذريعہ جو اَسوَد عنسى كے كمرہ ميں پہنچتى تھى رات كو جب وہ نيم خوابيدگى كے عالم ميں تھا ، انقلابى مومنين نے حملہ كرديا _ فيروز نے اس كا سر زور سے ديوار سے ٹكرا ديا اور اس كى گردن مروڑدى _اسود كى آواز وحشى گائے كى طرح بلند ہوئي آزاد نے فوراً ايك كپڑا اس كے منہ ميں ٹھونس ديا _ پہرہ دارمحل كے اندر ہونے والى چيخ پكار سے مشكوك ہوگئے اور كمرہ كى پشت سے انہوں نے پوچھا كہ خيريت تو ہے؟ '' آزاد'' نے نہايت اطمينان سے جواب ديا _'' كوئي بات نہيں ہے پيغمبر پر وحى آرہى ہے'' اس طرح انقلابى مومنين اپنى مہم ميں كامياب ہوئے اور پيغمبرى كے جھوٹے دعويدار كو دوزخ ميں پہنچا ديا_دوسرے دن صبح

۲۷۰

مسلمانوں نے اسلامى نعرے لگائے اور كلمہ شہادتين زبان پر جارى كيا _ اَشْہَدُ اَنْ لاَ الہَ الاَّ اللّہ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمّدا رَسُولُ اللّہ _ اور اعلان كيا كہ لوگو اَسوَ د ايك جھوٹے شخص سے زيادہ كچھ نہ تھا اس كے بعد اس كا سر لوگوں كى طرف پھينك ديا _

شہر ميں ايك ہنگامہ شروع ہوگيا اور قصر كے نگہبانوں نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محل كو لوٹ ليا اور جو كچھ اس ميں تھالے كر فرار ہوگئے _ اس وقت مسلمانوں نے آواز دى كہ نماز كے لئے لوگ صف بستہ ہوجائيں اور پھر نماز كے لئے لوگ كھڑے ہوگئے_(۶)

جس رات اَسوَد مارا گيا اسى رات وحى كے ذريعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو معلوم ہوگيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' كل رات ايك مبارك خاندان سے ايك مبارك شخص نے عنسى كو قتل كرديا'' لوگوں نے پوچھا ''وہ كون تھا''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _ فيروز تھا _فيروز كامياب رہے_(۷)

مسيلمہ كذاب كا واقعہ

يمامہ ميں مسيلمہ كذاب نے بھى پيغمبرى كا دعوى كركے اپنا ايك گروہ بناليا اورفتنہ پردازى ميں مشغول ہوگيا _ وہ كوشش كرتا تھا كہ بے معنى سخن گوئي كے ذريعہ قرآن سے معارضہ كرے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابھى سفر حج سے لوٹے تھے كہ دو افراد مسيلمہ كذاب كا خط آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس لے كر پہنچے _ اس ميں لكھا تھا '' مسيلمہ خدا كے رسول كى طرف سے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے رسول كے نام '' ميں پيغمبرى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا شريك ہوں آدھى زمين قريش سے متعلق ہے اور آدھى مجھ سے، ليكن قريش عدالت سے كام نہيں ليتے _(۸)

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت ناراض ہوئے اور مسيلمہ كے نامہ بروں سے فرمايا '' اگر تم سفير اور قاصد

۲۷۱

نہ ہو تے تو ميں تمہارے قتل كا حكم ديديتا_ تم لوگ كس طرح اسلام سے جدا ہو كر ايك تہى مغز آدمى كے پيرو ہوگئے_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ مسيلمہ كو بہت سخت جواب لكھا جائے _ ''خدائے رحمن و رحيم كے نام سے محمد رسول اللہ كى طرف سے دروغ گو مسيلمہ كى طرف_ سلام ہو ہدايت كى پيروى كرنے والوں پر ، زمين ،خدا كى ملكيت ہے اور وہ اپنے صالح بندوں ميں سے جس كو چاہتا ہے زمين كا وارث قرار ديتا ہے اور نيك انجام پرہيزگاروں كے لئے ہے_(۹)

جھوٹے پيغمبر كى طرف ميلان كا سبب ''قومى تعصب''

طبرى كا بيان ہے كہ ايك شخص يمامہ گيا اور پوچھا مسيلمہ كہاں ہے؟

لوگوں نے كہا كہ '' پيغمبر خدا كہو''

اس شخص نے كہا '' نہيں ميں پہلے اس كو ديكھوں گا''

جب اس نے مسيلمہ كو ديكھا تو كہا كہ '' تو مسيلمہ ہے''؟

'' ہاں''

كيا تمہارے اوپر فرشتہ نازل ہوتا ہے؟

ہاں ،اور اس كا نام رحمن ہے_

نور ميں آتا ہے يا ظلمت ميں؟

مسيلمہ نے كہا '' ظلمت ميں''

اس شخص نے كہا كہ ميں گواہى ديتا ہوں كہ تو جھوٹا ہے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سچے ہيں ليكن ميں رَبيعہ كے جھوٹے كو مُضر (حجاز) كے سچّے سے زيادہ دوست ركھتا ہوں_(۱۰)

۲۷۲

جھوٹوں كا انجام

نبوت كى جھوٹى دعويدار سجاح كے ساتھ مسيلمہ نے شادى كرلى _(۱۱) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد لشكر اسلام نے اس كى سركوبى كى اور اس كے قتل كے بعد اس كى جھوٹى نبوت كى بساط اُلٹ گئي_(۱۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ ميں مدعيان نوبت ميں طُلَيحہ نامى ايك شخص تھا جو قبيلہ طيّ، اَسد اور قبيلہ غطفان ميں ظاہر ہوا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبيلہ بنى اسد ميں اپنے نمائندوں كو پيغام بھيجا كہ اس كے خلاف قيام كريں _ وہ لوگ اس پر حملہ آور ہوئے اور وہ فرار كر گيا_(۱۳) اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تدبير سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے آخرى دنوں ميں يا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد جھوٹے پيغمبروں كى بساط الٹ دى گئي_

رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت كے حالات كا تجزيہ

بيمارى سے نسبتاً افاقہ كے كچھ ہى دنوں بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوبارہ عليل ہوئے _ ہر چند كہ تمام جزيرة العرب، حكومت اسلامى كے زير اثر تھا ليكن ايك طرف پيغمبرى كے جھوٹے دعويداروں نے سر اٹھا ركھا تھا اور بہت سے قبائل كے رؤساء كہ جن كے دلوں ميں ابھى تك اسلام كى جڑيں مضبوط نہيں ہوئيں تھيں_ اپنے سابقہ امتيازات سے ہاتھ دھو بيٹھے تھے جو كہ ان پر دشوار تھا_ وہ پيغمبرى كے جھوٹے دعويداروں سے مل كر شورش پر آمادہ ہوگئے_ دوسرى طرف موقعہ كى تلاش ميں رہنے والے منافقين كا مكمل پلا ننگ كے ساتھ يہ ارادہ تھا كہ اسلام كے عظيم رہبر كى آنكھ بند ہوتے ہى حكومت اسلامى پر قبضہ كرليں اور اس كو امامت وولايت كے صحيح راستہ سے منحرف كرديں_

۲۷۳

بہر حال ، رہبر اسلام كى رحلت ،شورشيوں اور مرتدين كے حوصلوں كى تقويت كاموجب ہوتى ، دوسرا اہم موضوع يہ كہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كے سلسلہ ميں كھينچا تانى كے نتيجہ ميں امت اسلامى كے درميان بہت بڑا شگاف پيدا ہوجاتاجوايك بہت بڑا خطرہ ثابت ہوتا _روم ايسى بڑى طاقت بھى انتظار ميں تھى كہ جزيرة العرب پر حملہ كركے اسلام كى جڑكو كاٹ دے _ فتنے اٹھ چكے تھے اندرونى و بيرونى تحريكيں اور سازشيں اسلام كى بنيادوں كو چيلنج كررہى تھى _

لشكر اسامہ كى روانگي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اندرونى سازشوں كے خاتمہ اور خارجى تحريكوں كى سركوبى كے لئے لشكر اسامہ كى تشكيل اور روانگى كا حكم صادر فرمايا _ سپاہيوں كى حوصلہ افزائي كے لئے اپنے ہاتھوں سے پرچم بنا كر ۱۷ يا۱۸ سالہ جوان اسامہ كے سپرد كيا اور سپہ سالار معين فرمايا_(۱۴) اس بہادر نوجوان نے اس لشكر كى كمان سنبھالى جو عالمى استكبار سے جنگ كے لئے آمادہ تھا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسامہ كو حكم ديا كہ اپنے باپ كى شہادت گاہ كى طرف روانہ ہو جاؤ اور جانے ميں جلدى كرو _ صبح كو نہايت تيزى سے ناگہانى طور پر دشمن پر حملہ كردو_(۱۵) پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں سے كہا كہ لشكر اسامہ ميں شركت كريں اور جتنى جلد ى ہو سكے روانگى كے لئے تيار ہو جائيں_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے مقاصد ميں سے ايك مقصد يہ تھا كہ سازشوں كا تانابانا بننے والے ، لشكر كے ساتھ مدينہ سے خارج ہوجائيں تا كہ شہر سازشيوں كے وجود سے خالى ہوجائے اور امير المومنين على (ع) كى خلافت كے راستہ ميں ركاوٹ نہ بنيں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جوان سال اسامہ كا

۲۷۴

انتخاب بھى اس لئے فرمايا تھا كہ اولاً: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہ بتانا چاہتے تھے كہ ذمہ دارياں شخصيت اور لياقت كى بناپر ہوتى ہيں نہ كہ سن و سال اور موہوم شرافتوں كى بناپر، تا كہ آئندہ لوگ حضرت على (ع) كو يہ كہہ كر خلافت سے الگ نہ كر سكيں كہ وہ جوان ہيں _ثانياً: اسامہ كے والد زيدابن حارثہ روميوں كے ساتھ جنگ كرتے ہوئے شہيد ہوئے تھے اس لئے ان ميں روميوں كے خلاف جنگ كرنے كا زيادہ جذبہ تھا اور سپہ سالارى كا عہدہ سونپ دينے كے بعد عملى طور پر ان كى دلجوئي بھى ہو جاتى _

اسامہ نے مدينہ كے قريب مقام '' جرُف'' ميں پڑاؤ ڈال ديا_ بزرگ صحابہ اور مہاجرين سب كے سب اسامہ كے لشكر كے سپاہى اور ان كى ماتحتى ميں تھے _ يہ بات ان ميں سے بعض كےلئے بڑى سخت تھى انہوں نے اعلانيہ طور پر اسامہ كى سپہ سالارى پر اعتراض كيا كہ بزرگوں كى سپہ سالارى كے لئے نوجوان كو كيوں منصوب كيا گيا؟ لشكر كى روانگى ميں عملى طور پر خلاف ورزياں ہوئيں چند دنوں تك لشكر ركا رہا _ مخالفت كر نيوالوں نے لشكر كى روانگى ميں كوتاہى كى اوراپنے بے ہودہ مقاصد كو انجام دينے كے لئے روانگى ميں تاخير كرائي_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بستر علالت پر سمجھ ليا كہ لشكر گاہ سے لشكر كى روانگى كو روكنے كےلئے لوگ كيا كررہے ہيں ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بستر سے اٹھے اور بخار نيز غيظ و غضب كے عالم ميں مسجد ميں تشريف لائے خدا كى حمد كے بعد فرمايا '' اے لوگو ميں لشكر كى روانگى ميں دير ہونے سے بہت ناراض ہوں گويا اسامہ كى سپہ سالارى تم ميں سے ايك گروہ كے اوپر گراں گذرى اور تم نے اعتراضات شروع كرديئےم اس سے پہلے بھى ان كے باپ كى سپہ سالارى پراعتراض كررہے تھے ، خدا كى قسم اس كا باپ سپہ سالارى كے لئے مناسب تھا اور وہ خود بھى

۲۷۵

مناسب ہے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر واپس آگئے اور ہر اس صحابى سے جو آپ كو ديكھنے كے لئے آتا تھا فرماتے: '' لشكر اسامہ كو روانہ كرو''(۱۶)

ليكن سازشيں اس سے بالاتر تھيں يہاںتك كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _'' جو لشكر اسامہ سے روگردانى كرے اس پر خدا كى لعنت ہو''(۱۷)

اہل بقيع كے مزار پر

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شديد بيمارى كے عالم ميں حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (۱۸) كا سہارا لئے قبرستان بقيع كى طرف چلے، اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيچھے پيچھے روانہ ہوئے جب بقيع كے قبرستان ميں پہنچے تو فرمايا:'' ميں مامور ہوں كہ خداوند عالم سے اہل بقيع كے لئے طلب مغفرت كروں ''_پھر فرمايا'' اے زير خاك آرام كرنے والو تم پر ميرا سلام ہو، تم اطمينان و مسرت سے آرام كرو كہ تمھارا زمانہ ان لوگوں كے زمانہ سے زيادہ آسودہ ہے _ فتنے اندھيرى رات كے ٹكٹروں كى طرح بڑھ آئے ہيں '' پھر فرمايا '' على (ع) ہر سال جبرئيل (ع) ميرے پاس قرآن كو ايك مرتبہ پيش كرتے تھے اور اس سال دو بار انہوں نے پيش كيا اس لئے كہ ميرا وقت قريب آگيا ہے''(۱۹)

واقعہ قرطاس يا نا مكمل تحرير

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے آخرى دن تھے ، جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آنكھيں كھوليں تو اپنے بستر كے ارد گرد چند اصحاب كو ديكھا جن كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق اس وقت لشكر اسامہ كے

۲۷۶

ساتھ ہونا چاہيئے تھا_ امت ميں اختلاف كى روك تھام كے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _'' كاغذ اور دوات لاؤ تا كہ ميں تمہارے لئے ايك چيز لكھ دوں كہ اس كے بعد گمراہ نہ ہوگے ''_ ان ميں سے ايك صاحب نے چاہا كہ اٹھ كر قلم دوات لے آئيں ليكن جناب عمر نے اظہار خيال فرمايا '' يہ ( پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب اشارہ)ہذيان بك رہے ہيں ، قرآن تمہارے پاس ہے اور كتاب آسمانى ہمارے لئے كافى ہے '' ايك گروہ نے عمر كا ساتھ ديا اور كچھ لوگوں نے ان كى مخالفت كى ، شور و غل بر پا ہوا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اٹھو اور ميرے گھر سے نكل جاؤ''_(۲۰)

ناتمام نماز

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى علالت كے دوران ايك دن حضرت بلال نے اذان دى اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر و دروازہ پر آكر آواز دى '' نماز خدا تمہارے اوپر رحمت نازل كرے'' _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت زيادہ بيمارتھے اس وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' لوگوں كو كوئي نماز پڑھا دے اس لئے كہ ميں بيمار ہوں''_ عائشےہ نے كہا كہ ابوبكر كو تلاش كرو اور حفصہ نے كہا عمر كو لاؤ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دونوں كى باتيں سنيں اور دونوں بيويوں سے كہا '' ان باتوں سے خود كو روكو كہيں تم ان عورتوں كى طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے يوسف كو گمراہ كرنا چا ہا تھا''_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شديد بيمارى كے عالم ميں اٹھے ، علي(ع) اور فضل بن عباس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دونوں شانوں كو سہارا دے ركھا تھا ، مسجد ميں تشريف لائے ، ابوبكر كو محراب ميں ديكھا كہ نماز كے لئے كھڑے ہوگئے ہيں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہاتھ سے اشارہ كيا كہ ہٹ جاؤ_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ان كى نماز كومكمل نہ ہونے ديا اور دوبارہ نہايت مختصر نماز كا اعادہ كيا _ جب آپ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر تشريف لے گئے تو ابوبكر ،

۲۷۷

عمر اور دوسرے افراد كو بلوا بھيجا جب يہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے پوچھا كہ '' لشكر اسامہ كے ساتھ كيوں نہيں گئے؟ انہوں نے جواب ديا '' ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تجديد بيعت كے لئے لوٹ آئے اور ہم نے يہ نہيں چاہا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيمارى كى خبر دوسروں سے پوچھيں''(۲۱) _

وداع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيمارى نے شدت اختيار كرلى ، فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بستر كے پاس بيٹھى ہوئي باپ كے نورانى اور ملكوتى چہرہ كو ديكھ رہى تھيں _جس پر بخار كى شدت كى بنا پر پسينہ كے قطرے جھلملار ہے تھے، جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوطالب عليہ السلام كا شعر جو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے ميں تھا پڑھا _

وَاْبيَضُ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بوجهه

ثمال اليتامى عصمة للارامل

يعنى : روشن چہرہ اس چہرہ كى آبرومندى كے وسيلہ سے بارش طلب كى جاتى ہے جو يتيموں كى پناہ گاہ اور بيوہ عورتوں كى نگہدار ى كرنے والا ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آنكھيں كھوليں اور فرمايا، بيٹى ، شعر نہ پڑھو ، قرآن پڑھو :

( وَ مَا مُحَمّد الاَ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مَنْ قَبْله الرُّسُل اَفانْ مَاتَ اَوقُتل انْقَلَبْتُمْ عَلَى اَعْقابكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلبْ عَلَى عَقبَيْه فَلَنْ يَضُرَّ اللّهَ شَيْئاً وَ سَيَجْزى اللّهُ الشَّاكريْنَ ) (۲۲)

'' محمد نہيں ہيں مگر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ، ان سے پہلے بھى بہت سے پيغمبر گزر چكے ہيں تو كيا اگر

۲۷۸

انكا انتقال ہوجائے يا قتل كرديئےائيں توكيا تم اپنے گزشتہ لوگوں كے عقائد كى طرف پلٹ جاؤ گے ؟ اور جو اپنے گزشتگان كے آئين كى طرف پلٹ جائے گا وہ خدا كو كوئي نقصان نہيں پہنچائے گا _ خدا شكر كرنے والوں كو نيك جزاء دے گا''_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آہستہ سے حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كے كان ميں كوئي بات كہى آپ(ع) نے گريہ شروع كيا _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى بيٹى كى تكليف برداشت نہ كر سكے اور دوبارہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان(ع) كے كان ميں كوئي بات كہى تو جناب فاطمہ چپ ہوگئيں اور مسكرانے لگيں _

بعد ميں جب لوگوں نے جناب فاطمہ (ع) سے سوال كيا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ(ع) سے كيا كہا تھا كہ پہلى بار آپ(ع) روئيں اور دوسرى بار مسكرائيں ؟ آپ(ع) نے جواب ديا '' پہلى بار آنحضرت سے رحلت كى خبر سنى تو مغموم ہوگئي دوسرى بار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بشارت دى كہ اے فاطمہ ميرے اہل بيت (ع) ميں سے تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگى اس پر ميں بشاش ہوگئي_(۲۳)

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى حيات كے آخرى لمحوں ميں على عليہ السلام كو بلايا اور فرمايا '' علي(ع) ميرا سر اپنى آغوش ميں لے لو كہ امر خدا آن پہنچا ہے''_

اے على (ع) جب ميں اس دنيا ميں نہ رہوں تو مجھے غسل دينا اور پہلى بار مجھ پر نماز پڑھنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا سر علي(ع) كى گود ہى ميں تھا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحمت بارى سے جا ملے _

يہ عظيم حادثہ ۲۸/صفر ۱۱ ہجرى بروز پير بمطابق ۲۸ مئي ۶۳۲ ء كورونما ہوا(۲۴) _ ليكن مورخين اہل سنت كے مطابق پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت ۱۲ ربيع الاول سنہ ۱۱ ھ ق(۲۵) بمطابق ۱۰ جون سنہ ۶۳۲كو ہوئي_

حضرت على (ع) نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے پاكيزہ جسم كو غسل ديا، كفن پہنا يا اور نماز پڑھى اس عالم

۲۷۹

ميں كہ آنسو آپ(ع) كى آنكھوں سے رواں تھے اور فرمايا _

'' ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بيشك آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مرنے سے وحى كا سلسلہ منقطع ہو گيا ''_

وہ چيز جو دوسرے پيغمبروں كى موت كے بعد منقطع نہيں ہوئي ( يعنى نبوت و احكام الہى اور آسمانى خبريں) اگر آپ صبر كا حكم نہ ديتے اور نالہ و فغاں سے منع نہ فرماتے تو ميں آپ (ع) كے فراق ميں اتنا روتا كہ ميرے اشكوں كا سرچشمہ خشك ہو جاتا _(۲۶)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كى خبر نہايت تيزى سے مدينہ ميں پھيل گئي ، علي(ع) جب غسل و كفن ميں مشغول تھے اس وقت ايك گروہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جانشين كا مسئلہ حل كرنے كے لئے سقيفہ(۲۷) ميں الجھ رہا تھا _غسل دينے كے بعد پہلے علي(ع) نے نمازپڑھى پھر مسلمان دستہ دستہ آتے گئے اور نماز پڑھتے گئے ، پھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كو مسجد كے پہلو ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں دفن كرديا گيا_(۲۸)

يہ نور ہرگز نہيں بجھے گا

پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دار بقاء كى طرف روانہ ہوگئے ، ليكن يہ نور نہ تو گل ہوا ہے اور نہ ہوگا_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا آئين مشعل ہدايت كى طرح بشر كے لئے تاريك راستوں ميں راہنما ہے اور كروڑوں ، اربوں انسان صديوں سے اسے آئين كے پيرو ہيں_

آج بھى روزانہ ايك ارب سے زيادہ مسلمان سارى دنيا ميں كروڑوں بار '' اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمدرسول اللہ '' كى آواز گلدستہ اذان سے سن رہے ہيں اور بے پناہ محبت كے ساتھ اس آواز كے دلبر با ترنم كو اپنى زبان پر جارى كرتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) پر درود بھيجتے

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298