تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي26%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162512 / ڈاؤنلوڈ: 3886
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

ميں آگئيںاور پھر نئے سرے سے دو لشكروں كے درميان جنگ شروع ہوگئي_

مسلمان حواس باختہ ہوگئے اور نہ صرف دشمن كے ہاتھ سے مارے جانے لگے بلكہ ايك دوسرے كو بھى مار نے لگ گئے_

دوبارہ شروع ہونے والى غير مساوى جنگ كے شور و غوغہ كے دوران ''ابن قمئہ ''نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دفاع ميں مصروف اسلامى لشكر كے اہم سردار ''مصعب بن عُمير ''پر حملہ كرديا اور وہ خدا سے عہد و پيمان نبھاتے ہوئے اپنے خون ميں غلطان ہوگئے_

''مصعب ''نے لڑائي كے وقت چہرے كو چھپا ركھا تھا تا كہ پہچانے نہ جائيں_ ''ابن قمئہ ''نے سمجھا كہ اس نے پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قتل كرديا ہے_ اس وجہ سے چلّايا كہ '' اے لوگو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قتل ہوگئے ''_ اس خبر سے قريش كے سردار اس قدر خوش ہوئے كہ ہم آواز ہو كر چلّانے لگے ''محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قتل ہوگئے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قتل ہوگئے''_(۱۳)

اس بے بنياد خبر كا پھيلنا دشمن كى جرا ت كا باعث بنا اور لشكر قريش سيلاب كى طر ح اُمنڈ پڑا ، مشركين كى عورتوں نے مصعب كے پاك جسم اور شہدا ميں سے بہت سے افراد كے اجساد اطہار كو مثلہ كرديا_

دوسرى طرف اس خبر نے جنگ ميں مصروف مجاہدين اسلام كو بہت بڑا روحانى صدمہ پہنچايا، اكثر لوگوں نے ہاتھ روك ليا اور پہاڑ پر پناہ لينے كے لئے بھاگ گئے _بعض ايسے حواس باختہ ہوئے كہ انھوں نے يہ سوچا كہ كسى كو فوراً مدينہ ميں عبداللہ بن اُبّى كے پاس بھيجيں تا كہ وہ واسطہ بن جائے اور قريش سے ان كے لئے امان مانگے _

پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں كو اپنى طرف بُلا رہے تھے اور فرماتے تھے'' اے بندگان خدا ميرى طرف آؤ اے فلاںفلاں ميرى طرف آؤ'' ليكن جو لوگ ايمان سے بے بہرہ

۴۱

تھے اپنى جان بچانے كے ليے جيسے بھاگ رہے تھے ويسے ہى بھاگتے رہے_ ان ميں سے بعض پہاڑ كے دامن ميں بھاگتے ہوئے خدا كى جانب سے كئے گئے وعدہ فتح سے بد گمان ہوگئے زمانہ جاہليت كے افكار و خيالات نے ان كاپيچھا كرنا شروع كرديا بعض نے قرار پر فرار كو ترجيح دى اور مدينہ چلے گئے اور تين دن تك اپنے آپ كو چھپائے ركھا_(۱۴)

پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا دفاع كرنيوالوں كى شجاعت

درّے ميںچند افراد باقى رہ گئے اور ايسى شجاعت كے ساتھ دشمن كے پے درپے حملوں كو روك كر پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا دفاع كر رہے تھے جس كى تعريف نہيں كى جاسكتى _ علي(ع) نے ايك لمحہ كے لئے بھى ميدان نہيں چھوڑا_ آپ اپنى تلوار سے مسلسل دشمن كے سَر پر مَوت برسا رہے تھے اور بعض كو موت كے گھاٹ اتار كر دوسروں كو فرار پر مجبور كر رہے تھے_

حضرت على (ع) نے بہت زخم كھائے ليكن پھر بھى نہايت تيزى كے ساتھ شير كى طرح غُرا كر شكار پر حملہ كرتے اور پروانہ وار پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گرد چكّر لگاتے كہ مبادا كوئي نور خدا كى اس شمع كے وجود كو خاموش كردے ايسا منظر باربارآتا رہا كہ خدا اس بہادرى كا گواہ ہے _

جبرئيل (ع) نے آسمان سے آواز بلند كى _

لا فتى الا على لا سيف الا ذوالفقار(۱۵)

تاريخ بھى اس حقيقت كى گواہ ہے _ اہل سنت كے مورخ ابن ہشام لكھتے ہيںكہ '' احد كى جنگ ميں قريش كے زيادہ تر افراد حضرت علي(ع) كے ہاتھوں قتل ہوئے''(۱۶)

احد كے معركہ ميں بہادرى كا جوہر دكھانيوالوں ميں لشكر اسلام كے دلير سردار جناب حمزہ

۴۲

بن عبدالمطلب بھى تھے جنہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا دفاع كرتے ہوئے دلاورانہ جنگ ميں بہت سے مشركين كو واصل جہنم كيا _ ابوسفيان كى بيوى ہند نے جبير ابن مطعم كے ''وحشي'' نامى غلام سے وعدہ كيا تھا كہ اگر تم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حمزہ (ع) يا على (ع) كو قتل كردو تو آزاد ہوجاؤ گے_ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك تو نہ پہنچ سكا اور علي(ع) بھى ميدان جنگ ميں ہر طرف سے چوكّنے تھے_ اس نے جب جناب حمزہ كو ديكھا كہ وہ شدّت غيظ و غضب ميں ارد گرد سے بے خبر ہيں تو اپنے ذہن ميں ان كے قتل كا نقشہ ترتيب دينے لگا جناب حمزہ شير كى طرح قلب لشكر پر حملہ آور ہوتے اور جس شخص تك پہنچتے اس كو خاك و خون ميں غلطان كرديتے _

وحشى ايك پتّھر كى آڑ ميں چھپ گيا اور جب جناب حمزہ مصروف جنگ تھے اس وقت اُس نے اپنے نيزے كا نشانہ ان كى طرف لگا كر ان كو شہيد كرديا_ جبكہ ابوسفيان كى بيوى ہندنے جناب حمزہ (ع) كے جسمَ پاك كو مثلہ كيا_

پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا دفاع كرنے والوں ميں سے ايك ابو دجانہ بھى تھے مسلمانوں كے ميدان جنگ ميں واپس آجانے كے بعد جب آتش جنگ دوبارہ بھڑ كى تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك تلوار لى اور فرماياكہ'' كون ہے جو اس تلوار كو لے اور اس كا حق ادا كرے؟'' چند افراد اٹھے، ليكن ان ميں سے كسى كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تلوار نہيں دى اور پھر اپنى بات دُہرائي_اس دفعہ ابودجانہ اٹھے اور انہوں نے كہا يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں آمادہ ہوں_

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ اس شمشير كا حق يہ ہے كہ اسے دشمن كے سر پر اتنا مارو كہ يہ ٹيڑھى ہوجائے اور اس بات سے مكمل طور پر ہوشيار رہوكہ كہيں دھو كے ميں تم كسى مسلمان كو قتل نہ كردينا _ يہ كہہ كر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ تلوار ان كو عطا فرمائي _(۱۷)

ابودجانہ نے ايك سُرخ رنگ كا كپڑا اپنے سَر پر باندھا اور دشمن كى طرف مغرورانہ

۴۳

انداز ميں بڑھے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' اس طرح كى چال كو خدا پسند نہيں كرتا مگر يہ كہ جنگ كا ہنگام ہو، ابودجانہ نے راہ خدا ميں قلب دشمن پر حملہ كيا اور ان كے سروں پر تلوار كے اتنے واركئے كہ تلوار ٹيڑھى ہوگئي_

اُمّ عمارہ شير دل خاتون

اُمّ عمارہ وہ شير دل خاتون ہيں جو مدينہ سے سپاہ اسلام كے ساتھ آئي تھيں تا كہ محاذ كے پيچھے رہ كر ديگرخواتين كے ساتھ لشكر اسلام كيلئے امدادى كاموں ميں شركت كريں، ان كے زخموں كى مرہم پٹى كا انتظام كريں، زخميوں كے زخموں پر پٹى باندھيں اور مجاہدين كو پانى پہنچائيں _

اگرچہ جہاد عورتوں پر واجب نہ تھا مگر جب اُمّ عمارہ نے ديكھا كہ لوگ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس سے پراگندہ ہوگئے ہيں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو آگ و خون كے درميان تنہا اور بے يار و مدد گار چھوڑ ديا ہے اور ان كى جان خطرے ميں ہے تو ام عمارہ نے وجود اسلام خطر ے ميں گھرا ہوا ديكھ كر ايك بھاگنے والے كى تلوار اُچك لى اور مردانہ وار دشمن كے لشكر كى طرف بڑھيں اور ہر طرف لڑنے لگيں تا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جان محفوظ رہے_ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس شير دل خاتون كى شجاعت سے بہت خوش ہوئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ نُسَيبہ ( اُمّ عمارہ ) دختر كعب كى منزلت آج كے دن ميرے نزديك فلاں فلاں سے زيادہ بلند ہے_(۱۸)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے سپَر بنے ہوئے چند افراد كى بے مثال فداكارى كے باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شديد زخمى ہوئے_

''عتبہ'' نے چار پتّھر پھينك كر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چند دانت شہيد كر ديئے _ ''ابن قمئہ ''نے

۴۴

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چہرے پرايسا شديد زخم لگايا كہ آپ كے خود كى كڑياں آپ كے رخساروںميں پيوست ہوگئيںپيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زخموں كى بناپر كافى كمزور ہوگئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ظہر كى نماز بيٹھ كر اداكي_

ميدان چھوڑ دينے والوں ميں سے سب سے پہلے كعب بن مالك نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كو پہچانااور چلّا كر كہا '' پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ ہيں'' ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے خاموش رہنے كا حكم ديا_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو درّے كے دہانے تك لے جايا گيا جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں پہنچے تو بھاگ كر وہاں آئے ہوئے مسلمان بہت شرمندہ ہوئے_ ''ابوعبيدہ جراح ''نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چہرہ مبارك ميں در آنے والى زنجير كى كڑيوں كو باہر نكالا حضرت على (ع) اپنى سپر ميں پانى بھر ا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اپنا خون آلود سر اور چہرہ دھويا_

لشكر كى جمع آوري

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم درّے كے دہانے پر پہنچ گئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كو بلايا ،جب لشكر اسلام نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو زندہ ديكھا تو گروہ گروہ اور فرد فرد اكٹھے ہونے لگے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو راہ خدا ميں جنگ و جہاد اور پہلى جگہوں پر واپسى كى دعوت دى _

شكست كے بعد پھر سے اسلامى فوجيں منظم ہوگئيں، افراد اور سامان جنگ كى كمى كے باوجود دوبارہ حملہ شروع كرديا گيا اور جنگ كى آگ بھڑكانے والوں كو پھر سے اپنى لپيٹ ميں لے ليا_ مشركين كى فوج نے عقب نشينى شروع كى اور مسلمان دوبارہ اپنى اپنى جگہوں پر پہنچ گئے_

اسلامى لشكر كى شجاعت و بہادرى نے دوبارہ دشمن كے سياہ قلب كو خوف و وحشت ميں

۴۵

مبتلا كرديا، مشركين كے لشكر كے سردار ابوسفيان نے اس خطرے كے باعث كہ كہيں مجاہدين اسلام آغاز جنگ كى طرح دوبارہ ان پر جھپٹ پڑيں، جنگ بندى كے حكم كے ساتھ جنگ كے خاتمے كا اعلان كرديا_

۴۶

سوالات

۱_ منافقين نے جنگ ميں كيسے خيانت كي؟

۲_ لشكر اسلام اور شرك كا جنگى توازن بيان فرمائيں؟

۳_ كيا وجہ تھى كہ دشمن نے سپاہ اسلام كا محاصرہ كرليا تھا؟

۴_ كن لوگوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كا دفاع كرنے ميں جواں مردى كا ثبوت ديا؟

۴۷

حوالہ جات

۱_ الصحيح مين سيرة النبى ج ۴، ص ۱۹۳و مغازى واقدى ج۱ ، ص ۲۱۵_

۲_ مغازى واقدى ج ۱ ، ص ۲۱۶_

۳_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۲۱۹_

۴_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۲۶۴_

۵_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۱۷_

۶_( اذهَمَّت طائفَتَان منكُم اَن تفشَلا و الله وليُّهُما و على الله فَليَتَوكَّل المؤمنون ) _ (آل عمران۱۲۲) مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۱۹_ جوامع السيرة ص ۱۵۹_ تاريخ پيامبر دكتر آيتى ص ۲۸۶ طبع ششم اعيان الشيعہ ج ۱ ص ۲۵۴_

۷_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۲۲۰ سے ۲۲۴تك _

۹_ يہ نقشہ جزل طلاس كى كتاب'' پيامبر و آئين نبرد ''سے استفادہ كرتے ہوئے تھوڑى سى تبديلى كے ساتھ تيار كيا گيا ہے_

۱۰_ مغازى واقدى ج ۱_ ص ۲۲۳_

۱۱_ مغازى واقدى ج۱ ص ۲۲۳_

۱۲_ نحن بنات الطارق_ نمشى على النَّمَارق_ ان تقبلو _ او تُدبر والفارق _ مغازى واقدى ج ۱، ص ۲۲۳/ ۲۲۵_

۱۳_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۲۲۹،۲۳۲_

۱۴_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۲۳۷، الصحيح ج ۳،ص ۲۲۶_ كامل ج ۲،ص ۱۰۹_

۱۵_ على (ع) جيسا كوئي جواں مرد اور ذوالفقار جيسى كوئي تلوار نہيں ہے_

۱۶_ سيرة ابن ہشام ج ۲ ، ص ۱۰۰_ تفسير البرہان ج ۱ ، ص ۳۱۳_

۱۸_ سيرة ابن ہشام ج ۲، ص ۶۸_ مغازى واقدى ج ۲ ، ص ۲۵۹_

۱۹_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۲۶۹_ تفسير على ابن ابراہيم ج ۱ ، ص ۱۱۶_ اور شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۴ ، ص ۲۶۶_

۴۸

تيسرا سبق

شہيدوں كے پاكيزہ جسم كے ساتھ كيا سلوك ہوا؟

طرفين كے نقصانات

مفہوم شہادت

نفسياتى جنگ

كہاں جارہے ہيں؟

احد ميں مسلمانوں كى شكست كے اسباب كا جائزہ

شہداء كى لاشيں

ان كو يہيں دفن كروانيكى دعا مستجاب ہوگئي

مدينہ كى طرف

نماز مغرب كا وقت آن پہنچا

شہيدوں كى ايك جھلك

ايك عقلمند صاحب ثروت كى شہادت

بوڑھے عارف كى شہادت

حجلہ خون

مدينہ ميں منافقين كى ريشہ دوانياں

مدينے سے ۲۰ كيلوميٹر دور '' حمراء الاسد'' ميں جنگى مشق

ابو عزّہ شاعر كى گرفتاري

سوالات

حوالہ جات

۴۹

شہيدوں كے پاكيزہ جسم كے ساتھ كيا سلوك ہوا؟

جنگ كے خاتمہ اور ميدان جنگ كے خالى ہوجانے كے بعد قريش كى اوباش عورتيں اور مشركين كے سپاہي، شہيدوں كے پاكيزہ اجسام كى طرف بڑھے اور انتقام كى آگ بجھانے كے لئے انہوں نے لرزادينے والے مظالم ڈھائے اور شہيدوں كے پاكيزہ اجسام كو مثلہ كيا ، ابوسفيان كى بيوى ہند اس گروہ ميں شامل عورتوں ميں پيش پيش تھى اس نے جناب حمزہ اور تمام شہيدوں كے اعضا كاٹ كر گلوبند اور دست بند بنايا اور جب جناب حمزہ كے جسد اطہر كے پاس پہنچى اُن كے سينہ كو چاك كر كے جگر نكال كر دانت سے چبانا چاہا ليكن كوشش كے باوجود چبانہ سكى بالآخر زمين پر پھينك ديا_

اس بدترين جُرم كے ارتكاب كے بعد وہ '' ہند جگر خوار'' كے نام سے مشہور ہوگئي _

حنظلہ كے علاوہ كہ جن كا باپ(ابوعامر) سپاہ مشركين ميں تھا، تمام شہيدوں كے جسموں كو مثلہ كرديا گيا_(۱)

طرفين كے نقصانات

جنگ احد ميں مسلمانوں كى طرف سے ستّر (۷۰ )آدميوں نے جام شہادت نوش فرمايا

۵۰

ان ميں چار افراد مہاجرين اور بقيہ انصارميں سے تھے اور تقريباً ستر (۷۰ )افراد زخمى ہوئے_مشركين ميں سے بائيس(۲۲) سے ليكر چھبيس(۲۶) افراد تك ہلاك ہوئے جن ميں سے آدھے حضرت على (ع) كى تلوار كا نشانہ بنے_(۲)

مفہوم شہادت

منافقين مدينہ ميں سے'' قزمان'' نامى ايك شخص تھا _ جب بھى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے اس كا ذكر كيا جاتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے كہ '' وہ جہنمّى ہے''_

جب جنگ احد كا آغاز ہوا تو قزمان لشكر اسلام سے روگردانى كر كے عبداللہ بن ابّى اور ديگر منافقين سے جاملا_ جب وہ مدينہ پہنچا تو عورتوں نے اس كو لعنت و ملامت كى اسے غيرت محسوس ہوئي تو وہ اسلحہ سے ليس ہو كر احد كى طرف روانہ ہوا، مردانہ وار جنگ كى اور نہايت شجاعت اور دليرى كے ساتھ چند مشركين كو قتل اور زخمى كيا _ جنگ كے آخرى لمحات ميں بہت زيادہ زخمى ہوكر ميدان جنگ ميں گر پڑا مسلمان اس كى طرف دوڑے اور كہا'' خوش ہوجاؤ كہ جنت تمہارا ٹھكانہ ہے'' اس نے كہاكہ ميں كيوں خوش ہوں؟ ميں نے صرف اپنے قبيلے كى عزت كے لئے جنگ كى ہے اگر ميرا قبيلہ نہ ہوتا تو ميں جنگ نہ كرتا زخموں كے درد كو اس سے زيادہ برداشت نہ كرسكا اور تركش سے ايك تير نكال كے خودكشى كرلى _(۳)

نفسياتى جنگ

لوگوں كے افكار و عقائد ميں نفوذ كرنے كے لئے مناسب وقت كى ضرورت ہوتى ہے

۵۱

جبكہ افكا۷ر و عقائد كو خراب كرنے كے ليے شكست اور مصيبتوں ميں مبتلا ہونے والے زما۷نے جيسا مناسب اور كوئي زمانہ نہيںہوتا، موقع كى تلاش ميں رہنے والے دشمن نے اس اصول كے تحت شكست كے آخرى لمحات كو اپنے عقائد كى نشر و اشاعت كے لئے غنيمت سمجھا اور مخالف اسلام نعروں كے ذريعہ سادہ لوح افراد كو دھوكہ دينے اور انہيں متاثر كرنے كى كوشش كى _كيونكہ يہ ايسا موقع تھا جب غلط پروپيگنڈہ نہايت آسانى كے ساتھ شكست خوردہ قوم كے دلوں پراثر كر سكتا تھا_

ابوسفيان اور عكرمہ بن ابى جہل نے ''اُعلُ ھُبل '' (ھبل سرفرازرہے )كا نعرہ بلند كيا_ يعنى ہمارے بتوں نے ہميں كامياب كيا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ تم كہو''اَلله اَعلى وَ اَجَلّ'' خدا برتر اور بزرگ ہے_ مشكرين كا نعرہ تبديل ہوا اور ابوسفيان چلايا:''نَحنُ لَنَا العُزّى وَ لا عزّى لَكُم'' ہمارے پاس عُزّى نامى بُت ہے ليكن تمہارے پاس نہيں ہے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ تم بھى بلند آواز سے كہو''الله مَولانَا وَ لا مَولى لَكُم'' اللہ ہمارا مولا ہے اور تمہارا كوئي مولا نہيں ہے_

مشركين كا نعرہ دوبارہ بدل گيا ابوسفيان نے نعرہ بلند كيا كہ '' يہ دن روز بدر كا بدل ہے''_ مسلمانوں نے پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے كہا كہ '' يہ دونوں دن آپس ميں برابر نہيں ہيں'' ہمارے مقتولين بہشت ميں اور تمہارے مقتولين جہنم ميں ہيں_ ابوسفيان نے كہا كہ '' ہمارا اور تمہارا آئندہ سال مقام بدر ميں وعدہ رہا''_(۴)

كہاں جا رہے ہيں؟

جنگ كى آگ بُجھ گئي ، دونوں لشكر ايك دوسرے سے جُدا ہوگئے، مشركين كے لشكر نے

۵۲

كوچ كا ارادہ كيا پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سوچنے لگے ، ديكھيں يہ لوگ كہاں جاتے ہيں؟ كيا يہ لوگ موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مدينہ پر حملہ كرنا چاہتے ہيں يا مكّہ كا راستہ اختيار كرتے ہيں؟ حالات سے آگاہى كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على (ع) سے فرمايا '' اے على (ع) تم جاكر دشمن كى خبر لاؤ اگر تم نے ديكھا كہ يہ لوگ گھوڑوں پر سوار اونٹوں كو كھينچتے ہوئے لے جاتے ہيں تو سمجھنا كہ مدينہ پر حملہ كا ارادہ ہے_ اس صورت ميں خدا كى قسم ہم ان سے لڑيں گے_ اور اگر وہ اونٹوں پر سوار ہوكر گھوڑوں كو كھينچتے ہوئے لے چلے تو سمجھنا كہ مكّہ جانے كا ارادہ ركھتے ہيں''(۵) _

حضرت على (ع) دور سے دشمن پر نظر ركھے ہوئے ديكھ رہے تھے كہ وہ انٹوں پر سوار ہوكر اپنے ديار پلٹ جانے كا ارادہ ركھتے ہيں_

احد ميں مسلمانوں كى شكست كے اسباب كا جائزہ

جنگ كے پہلے مرحلے ميں سپاہ اسلام كى فتح اور بعد كے مرحلہ ميں ان كى شكست كى وجہ احد كے واقعات ديكھنے كے بعد بڑى آسانى سے واضح ہوجاتى ہے_ليكن وحى كى زبان سے مسلمانوں كى شكست كے اسباب مختصراً بيان كيئے جاتے ہيں_

۱_ جنگى نظم و ضبط كى كمى ، سردار كى نافرمانى اور جنگى اعتبار سے اہم جگہ كو چھوڑ دينا مسلمانوں كى شكست كى اہم وجوہات ہيں_ قرآن كہتا ہے كہ '' خدا نے ( احد ميں دشمنوں پر) فتحيابى كا تم سے سچّاوعدہ كيا _ اس موقع پر تم اس كے فرمان كے مطابق جنگ كر رہے تھے (اور يہ كاميابى جارى تھي)_ يہاں تك كہ تم سست ہوگئے اور اپنے كام ميں نزاع كرنے لگے _ جس چيز كو تم دوست ركھتے تھے ( دشمن پر غلبہ كو ) تمہيں دكھا ديا گيا پھر اس كے بعد تم نے نافرمانى كى _(۶)

۵۳

۲_ ايمان كى كمزورى اور دنيا پرستي، نئے نئے مسلمان ہونے والوں ميں ايك گروہ نے دشمن كا پيچھا كرنے كى بجائے مال غنيمت جمع كرنے كو ترجيح دى اور اسلحہ ركھ كرمال غنيمت جمع كرنے لگا_ قرآن مندرجہ بالا آيات كے آخر ميں كہتا ہے كہ ''تم ميں سے بعض دُنيا طلب تھے اور بعض آخرت كے خواہاں، اس كے بعد اللہ نے تم كو ان سے منصرف كرديا( اور تمہارى كاميابى شكست پر تمام ہوئي) تا كہ تم كو آزمائے_(۷)

دوران جنگ ايك بڑى تعداد كا اپنى جان بچانے كيلئے ميدان فرار اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تنہا دشمن كے نرغے ميں دشمن كے حوالے كرنا،ا ن افراد كے دنيا پرست اور ضعيف ايمان كا بہت بڑانمونہ ہے_

پيغمبر كے قتل كى افواہ ، اور وہ اس طرح كہ بعض مسلمان تو اسلام كى بنياد ہى سے نااميد ہوگئے تھے قرآن اس سلسلہ ميں كہتا ہے كہ '' محمد نہيں ہيں مگر فرستادہ خدا كہ اُن سے پہلے بہت سے پيامبر ہوچكے اور اس دنيا سے جاچكے ہيں_ اگر وہ بھى مرجائيں يا شہادت پاجائيں تو كيا تم اپنے جاہليت كے دين پر پلٹ جاؤگے؟(۸)

شہداء كى لاشيں

مشركين كے لشكر كے ميدان جنگ سے نكل جانے كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشكر اسلام كے مجاہدين كے ساتھ شہيدوں كى ميّت پر حاضر ہوئے تا كہ ان كو سُپرد خاك كريں_ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہيدوں كے مُثلہ شدہ اجسام ، خصوصاً سيّد الشہداء حضرت حمزہ كے پارہ پارہ بدن كو ديكھا تو دل غم سے پاش پاش ہوگيا اور مشركين كى طرف سے آپ كے دل ميں مزيد غصّہ اور نفرت كا طوفان اُٹھ كھڑا ہوا_وہاں مسلمانوں نے يہ عہد كيا كہ اگر دوسرى لڑائي ميں وہ مشركين پر فتح پائيں گے تو ايك آدمى كى تلافى ميں كافروں كے تيس اجسام كو

۵۴

مثلہ كريں گے ليكن مندرجہ ذيل آيت نازل ہوئي اور مسلمانوں نے اس خيال كو ترك كرديا_

''اگر تم چاہتے ہو كہ ان كو سزا دو تو اپنى سزا ميں ميانہ روى اختيار كرو اور حد اعتدال سے

خارج نہ ہوجاؤ اور اگر صبر كرو تو يہ صبر كرينوالوں كے لئے بہتر ہے_(۹)

پھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت حمزہ كے پاكيزہ جسم پر نماز پڑھى اور ان كے پہلو ميں ايك ايك شہيد كو لٹا كر ہر ايك پر الگ الگ نماز پڑھى اس طرح ستر نمازيں پڑھى گئيں_(۱۰)

حضرت حمزہ كى بہن ''صفيہ '' اپنے شہيد بھائي كا جنازہ ديكھنے آئيں تو ان كے بيٹے زبير نے روكنا چاہا ( تا كہ بہن اس حال ميں بھائي كونہ ديكھے) ليكن جناب صفيہ نے فرمايا كہ ''مجھے معلوم ہے ميرى بھائي كو مثلہ كيا گيا ہے _ بخدا اگر ميں ان كے سر ہانے پہنچوں گى تو اپنے غمگين ہونے كا اظہار نہيں كروں گى اور راہ خدا ميں اس مصيبت كو برداشت كروں گي'' لوگوں نے ان كو چھوڑ ديا وہ اپنے بھائي كے سرہانے آئيں اور ان كے لئے خدا سے دُعائے مغفرت كي_

رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے حكم ديا كہ قبريں كھودى جائيں اور ان اجسام كو دفن كرديا جائے شہدا اپنے لباس كے ساتھ دفن ہوئے اور جس شہيد كے تن پر مناسب لباس نہ تھا اس كے جسم كو ايك پارچے سے ڈھانپ ديا گيا_ اكثر شہدا كو اسى ميدان جنگ ميں سپرد خاك كيا گيا كچھ لوگ اپنے شہدا كو مدينہ لے گئے _ اس طرح سے شہيدوں كا پہلا قبرستان ''گلزار شہدائ'' مدينہ كے نزديك كوہ احد كے دامن(۱۱) ميں بنا_

ان كو يہيں دفن كر وانيكى دُعا مستجاب ہوگئي

عمر و بن حرام كى بيٹى ''ہند ''جس كے شوہر ''عمر و بن جموح ''بيٹے خلاد ''اور بھائي ''

۵۵

''عبداللہ عمرو ''اس مقدّس جہاد ميں شہيد ہوئے ، احد ميں آئي تا كہ اپنے عزيزوں كى ميتيںمدينہ لے جائے_ ہند نے ان تينوں كے جنازے اونٹ پر ركھے اور مدينہ كا راستہ ليا_ مدينہ جاتے وقت راستے ميں كچھ عورتيں مليں جو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صحيح خبر پانے كے لئے احد كى طرف آر ہى تھيں_ عورتوں نے ہند سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كا حال دريافت كيا تو اس نے نہايت خندہ پيشانى سے جواب ديا كہ ' ' الحمد للہ رسول خدا زندہ ہيں_ ( گويا اس نعمت كے مقابل تمام مصيبتيں ہيچ تھيں) دوسرا مدہ يہ ہے كہ خدا نے كافروں كے رُخ كو پھير ديا جبكہ وہ غيظ و غضب سے بھرے ہوئے تھے _عورتوں نے اس سے پوچھا '' يہ جنازے كس كے ہيں؟ '' اس نے كہا '' ايك ميرے شوہر ، دوسرا ميرے بيٹے اور تيسرا ميرے بھائي كا جنازہ ہے''_

وہ عورت اونٹ كى مہار كو مدينہ كى طرف كھينچ رہى تھى ليكن اونٹ بڑى مشكل سے راستہ طے كر رہا تھا_ ان عورتوں ميں سے ايك نے كہا كہ ''شايد اونٹ كا بار بہت گراں ہے'' ہند نے جواب ديا :'' نہيں يہ اونٹ بہت آسانى سے دو اونٹوں كا بار اٹھاتا ہے''_ ہند جب اونٹ كو احد كى طرف پلٹاتى تو اونٹ بڑى آسانى سے چلنے لگتا ، اس نے اپنے دل ميں كہا كہ '' يہ كيا بات ہے؟'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئي اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سارا ماجرا بيان كيا _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہند سے سوال كيا كہ '' جب تيرا شوہر گھر سے باہر نكلا تو اس نے خدا سے كيا مانگا تھا؟ '' ہند نے كہا ، اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ جب گھر سے باہر نكلے تھے تو اس وقت انكى دُعا تھى '' خدا يا مجھے ميرے گھر واپس نہ پلٹانا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمايا: '' تيرے شوہر كى دُعا مستجاب ہوئي'' خدا نہيں چاہتا كہ يہ جنازے گھر كى طرف واپس جائيں تم تينوں جنازوں كو احد ہى ميں دفن كرو اور يہ جان لو كہ يہ تينوں افراد دوسرى دُنيا ميں بھى ساتھ ہى رہيں گے''_

۵۶

ہند نے سسكتے ہوئے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ خدا سے دُعا كيجئے كہ ميں بھى (آخرت ميں) ان كى پاس رہوں_(۱۲)

مدينہ كى طرف

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے شہيد اصحاب كو دفن كرچكے تو انہوں نے مدينہ كى طرف روانہ ہونے كا حكم ديا_ بہت سے مسلمان زخمى تھے_ جناب فاطمہ زہرا (ع) كے ساتھ زخميوں كے ديكھ بھال كے لئے احد ميں جو چودہ عورتيں آئي تھيں وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ تھيں_

كچھ لوگ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ديدار اور استقبال كے لئے شہر سے باہر آئے تا كہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سلامتى كا اطمينان حاصل كريں_ قبيلہ بنى دينار كى ايك عورت نے جب اپنے باپ ، شوہر اور بھائي كے شہيد ہوجانے كى خبر سُنى تو اس نے كہا كہ '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى كيا خبر ہے؟'' لوگوں نے بتايا كہ ''رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ٹھيك ہيں''_ اس عورت نے كہا كہ '' ذرا مجھے راستہ ديد و تا كہ ميں خود ان كى زيارت كروں'' اور جب اس نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو زندہ وسلامت ديكھا تو كہا كہ '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ ہيں تو اب اسكے بعد ہر مصيبت آپكے وجود كى وجہ سے بے وقعت ہے_(۱۳)

''حمنہ بنت حجش ''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئيں تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمايا '' حمنہ ميں تجھے تعزيت پيش كرتا ہوں''_ انہوں نے پوچھا كہ كس كى تعزيت ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''تمھارے ماموں حمزہ كى '' حمنہ نے كہا: انا للہ و انا اليہ راجعون ،خدا ان كى مغفرت كرے اور ان پر اپنى رحمت نازل فرمائے انہيں شہادت مبارك ہو، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' ميں پھر تعزيت پيش كرتا ہوں'' حمنہ نے كہا '' كس كى تعزيت''؟ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' تمہارے

۵۷

بھائي عبداللہ بن حجش كى '' حمنہ نے كہا خدا ان كى مغفرت كرے اور ان پر اپنى رحمتيں نازل كرے اور ان كو بہشت مبارك ہو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر فرمايا كہ '' ميں پھر تم كو تعزيت پيش كرتا ہوں''حمنہ نے پوچھا '' كس كى تعزيت؟ آپ نے فرمايا كہ '' تمہارے شوہر مصعب بن عمير كى '' حمنہ نے ايك آہ سرد بھرى اور گريہ كرنا شروع كيا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' شوہر جو مقام عورت كے دل ميں ركھتا ہے وہ كسى كا نہيں ہوتا''_ اس كے بعد لوگوں نے حمنہ سے پوچھا كہ تم اس قدر كيوں غمزدہ ہوگئيں ؟ حمنہ نے كہا كہ '' ميں نے اپنے بچّوں كى يتيمى كو ياد كيا تو ميرا دل بھر آيا_(۱۴)

شہيد عمروبن معاذ كى ماں ''كبشہ '' آگے بڑھيں اور انہوں نے بڑے غور سے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا چہرہ مبارك ديكھا اور اس كے بعد كہا'' اب جب ميں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو صحيح و سالم ديكھ ليا تو مصيبت كا اثر ميرے دل سے زائل ہوگيا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كے بيٹے عمروبن معاذ كى شہادت پر ان كو تعزيت پيش كى ، دلاسہ ديا اور فرمايا '' اے عمرو كى ماں ميں تجھے مدہ سناتا ہوں اور تم شہيدوں كے اہل و عيال كو مدہ سنادو كہ ان كے شہدا بہشت ميں ايك دوسرے كے ساتھ ہيں اور ہر ايك اپنے عزيزوں اور خاندان والوں كى شفاعت كرے گا_'' عمرو كى ماں نے كہا '' اے پيغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اب ميں خوش ہوں'' اور اس كے بعد عرض كيا '' اے پيغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان كے پس ماندگان كے لئے دعا فرمايئےرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اس طرح دعا كى '' خدايا ا ن كے دلوں سے غم كو زائل كردے ، ان كے مصيبت زدہ دل كے زخموں پر مرہم ركھ اور ان كے پس ماندگان كے لئے بہترين سرپرست قرار دے_(۱۵)

۵۸

نماز مغرب كا وقت آن پہنچا

بلال نے اذان دي، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد ميں اس حالت ميں تشريف لائے كہ لوگ ان كے شانوں كو پكڑے ہوئے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز پڑھى واپسى پر ديكھا كہ نالہ و شيون كى آوازوںميں شہر مدينہ ڈوبا ہوا ہے ، لوگ اپنے شہيدوں كى عزادارى اور ان پر رونے ميں مصروف ہيں _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:

'' ليكن حمزہ كا كوئي نہيں ہے جو ان پر گريہ كرے'' مدينہ كى عورتيں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر آئيں اور مغرب سے لے كر رات تك نوحہ و عزادارى ميں مصروف رہيں _

شہيدوں كى ايك جھلك

صرف ايك سجدہ وہ بھى محراب عشق ميں خون بھرا سجدہ_

انصار ميں سے عمروبن ثابت نامى ايك شخص جن كى عرفيت'' اصيرام'' تھي_ ہجرت كے بعد جب انكے سامنے اسلام پيش كيا گيا_ انھوں نے اسے قبول كرنے سے انكار كرديا ليكن

جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا احد كے لئے نكلے تو ان كے دل ميں نور ايمان جگمگا اُٹھا_ انھوں نے تلوار اُٹھائي اور نہايت سرعت كے ساتھ لشكر اسلام سے جاملے ، مردانہ وار جنگ كى اور زخموں سے چور ہوكر گر پڑے_ جب مسلمانوں نے اپنے مقتول سپاہيوں كو ميدان جنگ ميں ڈھونڈھنا شروع كيا تو اس وقت ان كو بھى ديكھا كہ ابھى زندہ ہيں، لوگوں نے ان سے دريافت كيا كہ '' تم نے اپنے قبيلہ كى حمايت ميں جنگ كى ہے يا تم مسلمان ہوگئے ہو؟ '' انھوں نے جواب ديا كہ '' ميں مسلمان ہوگيا ہوں ميں نے ميدان جہاد ميں قدم ركھ ديا ہے اور اب اپنے خون ميں غلطاں ہوں_'' ابھى تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ وہ شہيد ہوگئے ، جب

۵۹

ان كا واقعہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے بيان كيا گيا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' كہ وہ جنّتى ہے'' ہاں قبل اس كے وہ نماز پڑھے اور خدا كے لئے سجدہ كرے، اس نے جنّت كى راہ لي، اس نے صرف ايك سجدہ كيا وہ بھى خون بھرا سجدہ محراب عشق ميں_(۱۶)

ايك عقلمند صاحب ثروت كى شہادت

''مخيرق ''ايك يہودى دانش مند اور مال دار آدمى تھا خرمے كے درخت اور بہت زيادہ مال و متاع كا مالك تھا جب احد كا دن آيا تو اس نے يہوديوں سے مخاطب ہوكر كہا '' خدا كى قسم تمہيں خوب معلوم ہے كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نصرت تم پر واجب ہے ''_ يہوديوں نے عذر پيش كيا كہ آج ہفتے كا دن ہے(۱۷) _اس نے كہا كہ '' تمھارے نزديك اب كوئي ہفتہ نہيں ہے''_ پھراس نے لباس جنگ زيب تن كيا اپنے جسم پر ہتھيار سجائے اور احد كى طرف روانہ ہونے كے لئے تيار ہوا نكلنے سے پہلے اس نے اپنے رشتہ داروں سے كہا '' اگر ميں آج قتل كرديا جاؤں تو ميرے سارے مال كا اختيار محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ہے، وہ جہاں چاہيں خرچ كريں''_ اس كے بعد وہ احد كى طرف چل پڑا اور مجاہدين راہ خدا سے جاملا ، جہاد كرتے ہوئے شہيد ہوا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى وصيّت كے مطابق ان كے مال كو اپنى تحويل ميں لے ليا اور ابن اسحاق كى تحرير كے مطابق مدينہ ميں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے بہت سے اوقاف اور امور خير انجام دينے والى چيزيں انہى كے مال سے تھيں_(۱۸)

بوڑھے عارف كى شہادت

''خيثمہ''بوڑھے مگر صاحب معرفت تھے ان كے بيٹے بدر كى لڑائي ميں شہادت كے

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298