تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي26%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162610 / ڈاؤنلوڈ: 3887
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

سوالات

۱_ سريہ ابو سَلَمة كا كيا نتيجہ رہا؟

۲_ واقعہ رجيع كيوں كر واقع ہوا اور كتنے لوگ شہيد ہوئے؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمربن اميّہ كو مكّہ كيوں بھيجا؟

۴_ سريہ عبدُ اللہ بن اُنَيس كا كيا نتيجہ رہا؟

۵_ بنى نضير كے يہوديوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے قتل كا ارادہ كيوں كيا؟

۶_ غزوہ '' بدر الموعد'' ميں لشكر اسلام كا مقابلہ كرنے سے ابوسفيان كيوں ڈرگيا؟

۸۱

حوالہ جات

۱_ بعض لوگوں كى تحرير كے مطابق ۱۵ محرم، طبقات ابن سعد ج ۲، ص ۳۴۰_ واقدى كى تحرير كے مطابق يكم محرم مغازى ج ۱ ، ۲ ۲۴۰_

۲_طبقات ابن سعد ج۲ ص ۳۴۰_مغازى واقدى ج۱ ص ۳۴۰_

۳_طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۵۱_امتاع الاسماع ص ۲۵۴_

۴_ ابن ہشام نے سريہ رجيع كا تذكرہ جنگ احد كے بعد ہجرت كے تيسرے سال كے واقعات ميں كيا ہے ر_ك ''ج ۳ ص ۱۷۸''_

۵_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۳۰ سے ۵۴۲ تك سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۷_۱_

۶_ بقول ابو سعيد ۷۰ افراد_

۷_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۴۶_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۵۱/۵۳_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۱۹۳_

۸_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۴۲_مواہب اللدنّيہ ميں اس سر يہ كو ۶ ھ ميں ، صلح حديبيہ سے پہلے ذكر كيا گياہے _ ج ۱ ص ۱۲۵_

۹_ مخالف اسلام اور مفسد قبيلہ '' بنى نضير ''كے يہوديوں كے اخراج كے بعد صرف بنى قريظہ كے يہودى مدينہ ميں رہ گئے ،بنى نضير كے باقى اموال و املاك كى تقسيم كے بعد مہاجر مسلمانوں سے اقتصادى پريشانى ايك حد تك دور ہوئي_

۱۰_ مغازى واقدى ج ۱ _ ص ۳۶۳/ ۳۸۰ ، سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۱۹۶، طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۵۷، تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۵۱/۵۵۵، تاريخ دمشق ج ۱ ، ص ۴۱_

۱۱_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۰۳_

۱۲_ اس غزوہ كى تاريخ ابن ہشام شعبان ۴ ھ اور واقعدى ذى قعدہ ۴ ھ سمجھتے ہيں سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۲۰_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۳۸۴ ملاحظہ ہو_

۱۳_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۳۸۴سے ۳۸۹تك _ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۲۰_

۱۴_ مروج الذّھب ج ۲ ، ص ۲۸۹_

۸۲

پانچواں سبق

غزوہ ذات الرقاع

غزوہ دومةُ الجندَل

غزوہ خندق (احزاب)

لشكر احزاب كى مدينہ كى طرف روانگي

لشكر كى روانگى سے متعلق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا آگاہ ہونا

بجلى كى چمك ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كيا ديكھا؟

مدينہ لشكر كفار كے محاصرے ميں

بنى قريظہ كى عہد شكني

خطرناك صورتحال

ايمان و كفر كا آمنا سامنا

سوالات

۸۳

غَزوہ ذاتُ الرّقاع

تاريخ : دسويں محرم ۵ ہجرى قمرى(۱) بمطابق ۱۳ جون ۶۲۶ ء بروز بدھ

غزوہ بنى نضير كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ملى كہ قبيلہ غَطَفَان يعنى بنى ثعلبہ اور بنى مُحارب نے مسلمانوں سے جنگ كے لئے كچھ لشكر جمع كر ركھا ہے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سازش كو ناكام بنانے كے لئے مدينہ ميں جناب ابوذر كو اپنا جانشين بنايااور خود چار سو افراد كا لشكر لے كر نجد كى طرف روانہ ہوئے،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن كے عظيم لشكر كے روبرو ہوئے مگر دشمن كو خوف و دہشت نے گھير ليا اور كسى طرح كے ٹكراؤ سے پہلے ہى دشمن متفرق ہوگيا_

اس سفر ميں دشمن كے حملے كے پيش نظر ، خطرناك ماحول ميں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے لشكراسلام كے ساتھ نماز خوف ادا كى پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سفر كى كلُ مدّت ۱۵ روز تھي_(۲)

غزوہ دُومَةُ الجَندَل

روانگى بروز اتوار ۲۵ ربيع الاول ۵ ھ ق، مطابق ۲۶ اگست ۶۲۶ء

مدينہ واپسى ۲۰ ربيع الثانى ، بمطابق ۲۰ ستمبر ۶۲۶ ئ بروز جمعرات

مخبروں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر دى كہ دُومَةُ الجندل ميں بہت سے لوگ جمع ہوگئے ہيں اور مسافروں كا راستہ روكنے كے علاوہ ان پر ظلم و ستم بھى ڈھار ہے ہيں ان كا ارادہ ہے كہ مدينہ پر حملہ كريں_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سبَاعَ بن عرفُطَہ غَفاري كو مدينہ ميں اپنا جانشين معيّن

۸۴

فرمايا اور ہزار آدميوں كے لشكر كے ساتھ دُومَةُ الجندل كى طرف روانہ ہوگئے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سپاہى راتوں كو راستہ طے كرتے اور دن كو درّوں ميں چُھپ كر آرام كرتے تھے_ دشمن كو لشكر اسلام كى روانگى كا پتہ چلا تو ان پر ايسار عب طارى ہواجوپہلے كبھى نہيں ہوا تھا اور فوراً ہى اس علاقے سے فرار ہوگئے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چند دن علاقے ميں قيام پذير رہے اور مختلف دستوں كو اطراف و جوانب ميں بھيجا تا كہ معلومات اكٹھى كرنے كے لے ساتھ ساتھ دشمنوں كى ممكنہ سازشوں كو ناكام بنائيں_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۲۵ روز كے بعد مدينہ پلٹ آئے_ لوٹتے وقت فراز نامى شخص سے ، جس كا قبيلہ قحط سے متاثر ہوا تھا ، معاہدہ كيا اور اسے اجازت دى كہ مدينہ كے اطراف كى چراگاہوں سے استفادہ كرئے(۳) _

اس غزوہ كى اہميت كى وجہ يہ ہے كہ مدينہ سے دور دراز كے علاقوں تك جادہ پيمائي اور خشك و ہولناك صحراؤں سے عبور كرنے ميں مسلمانوں كى طاقت كا مظاہرہ ہوا اور دوسرى طرف اسلام مشرقى روم كى سرحدوں تك نفوذ كرگيا اور يہ فوجى تحريك روميوں كى تحقير كا موجب بنى _ مسعودى كى تحرير كے مطابق ، تاريخ اسلام ميں روم جيسى بڑى طاقت كى گماشتہ حكومت كے ساتھ فوجى مقابلہ كرنے كے لئے يہ پہلا قدم تھا _(۴)

غزوہ خَندَق ( اَحزاَب)

تقريباً ۲۳ شوال ۵ ھ ق(۵) بمطابق ۱۹ مارچ ۶۲۶ئ

غزوہ خندق كے اسباب

بنى نضير كے يہودى جنہوںنے بغض و كينہ اور انتقامى جذبات كے ساتھ مدينہ چھوڑا تھا

۸۵

خاموشى سے نہيں بيٹھے جب يہ لوگ خيبر پہنچے تو ان كے سردار حُيَّ بن اَخطَب اور كنَانَةبن اَبى الحُقيق ، ابُو عامر فاسق اور ايك جماعت كے ساتھ مكہ روانہ ہوئے قريش اور ان كے تابعين كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ كى دعوت دى ،انہوں نے قريش سے كہا كہ '' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے بہت بڑا خطرہ ہمارئے انتظار ميں ہے اگر فوراً پسپا كردينے والا لشكر تيار نہ كيا گيا تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہرجگہ اور ہر شخص پر غالب آجائيں گے''_

ايك طرف بدر مَوعد ميں قريش كى شكست و سرنگونى ، جنگ كى دھمكى دينے كے باوجود لشكر اسلام كے خوف سے حاضر نہ ہونا اور لشكر اسلام كى پے درپے كاميابى نے قريش كو اس حقيقت كى طرف متوجہ كيا كہ مسلمانوں كى بڑھتى ہوئي جنگى طاقت كے پيش نظر اسلامى تحريك كو كچلنے كے ليے كوئي بنيادى اقدام كرنا چاہيے _ اسى وجہ سے قريش خود اس فكر ميں تھے كہ ايك عظيم لشكر تيار كريں اور اب بہترين موقع آن پہنچا تھا_ اس لئے كہ يہوديوں نے اعلان كيا كہ ہم تمہارے ساتھ رہيں گے يہاں تك كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جڑسے اكھاڑ كرپھينك ديں لہذا وہ قريش كے سرداروں كے ساتھ كعبہ ميں گئے اور وہاں انہوں نے قسم كھائي كہ ايك دوسرے كو بے سہارا نہيں چھوڑيں گے اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مقابلے كے لئے آخرى فرد تك ايك دل اور ايك زبان ہوكر ڈٹے رہيں گے_(۶) قريش نے يہوديوں كے سربرآوردہ افراد سے پوچھا كہ تم قديم كتاب كے جاننے والے اور عالم دين ہو تم فيصلہ كرو كہ ہمارا دين بہتر ہے يا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا؟ يہوديوں كے چالاك و دھوكہ باز سرداروں نے جواب ديا كہ '' تمہارا دين بہتر ہے اور تم حق پر ہو''_

يہ يہودى توحيد پر ايمان كے باوجود ايسى بات كہہ كر سخت گناہ كے مرتكب ہوئے اور انہوں نے اپنى سياہ تاريخ ميں ننگ و عار والے ايك بڑے دھبے كا اضافہ كيا_ ايك يہودى

۸۶

مصنف ڈاكٹر اسرائيل اپنى كتاب '' تاريخ يہوديان عربستان'' ميں لكھتاہے كہ '' ہرگز يہ بات مناسب نہيں تھى كہ يہودى ايسى خطا كے مرتكب ہوتے اگرچہ قريش ان كى خواہش كو رد كرديتے ، اس كے علاوہ ہرگز يہ بات صحيح نہيں تھى كہ ملّت يہود، بُت پرستوں كے پاس پناہ ليتى اس لئے كہ يہ روش تورات كى تعليمات كے مطابق نہيں ہے_(۷)

قرآن اس اتحاد كى طرف اشارہ كرتے ہوئے كہتا ہے كہ '' كيا تم نے ان لوگوں كو نہيں ديكھا كہ جن كو كتاب سے كچھ حصّہ ديا گيا ہے وہ كس طرح بتوں اور طاغوت پر ايمان لاتے ہيں اور كافرين و مشركين سے كہتے ہيں كہ تمہارا راستہ مومنين كى بہ نسبت حقيقت سے زيادہ نزديك ہے''(۸) _

جب مشركين نے يہودى سرداروں سے مدد كا وعدہ اور روانگى كى تاريخ معيّن كى تو يہوديوں نے بھى ان سے وعدہ كيا كہ بنى قُريظَہ كے يہوديوں كو جو اس وقت ساكن مدينہ تھے ، مدد كے لئے بلائيں گے _ قريش كو پيمان شكنى اور جنگ پر آمادہ كرنے كے بعد يہودى وفد قبيلہ غَطفان كى طرف روانہ ہوا ، قبيلہ غَطفان كے افراد نے ان كى ہمراہى كے علاوہ اپنے ہم عہد قبيلہ بنى اسد كو مدد كى دعوت دى اور قريش نے اپنے حليف قبيلہ بنى سُلَيم كو مدد كيلئے بلايا(۹) _

يہوديوں كى شہ پر اسلام كے خلاف ايك بہت بڑا محاذ تيار ہو گيا ، جس ميں مشركين ، مستكبرين ، منافقين ، يہود ، مدينہ سے فرار كرنے والے ،قريش كے مختلف قبائل ، بنى سليم ، بنى غطفان ، بنى اسد اور ديگر احزاب و قبائل شامل تھے اور سب نے مل كر اسلام كے خلاف جنگ كى ٹھانى ہوئي تھى تا كہ نور خدا كوخاموش كرديں_جنگى اخراجات اور اسلحہ كى فراہمى يہود كى طرف سے انجام پائي_

۸۷

لشكر احزاب كى مدينہ كى طرف روانگي

مختلف قبيلوں اور گروہوں كى طرف سے اس جنگى معاہدے كے نتيجہ ميں اكٹھے ہونے والے افراد كى مجموعى تعداد دس ۱۰ ہزار سے زيادہ(۱۰) اور لشكر كى كمان ابوسفيان كے ہاتھوں ميں تھي_لشكر احزاب كے جنگجو افراد اسلحہ سے ليس روانگى كيلئے تيار تھے_ اس زمانہ ميں جنگى ايمونيشن اور سازوسامان سے ليس اتنا بڑا لشكر سرزمين حجاز نے كبھى نہيں ديكھا تھا_

ماہ شوال ۵ ہجرى ميں ابوسفيان نے احزاب كے سپاہيوں كو تين الگ الگ دستوں ميں يثرب كى جانب روانہ كيا_

لشكر كى روانگى سے متعلق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا آگاہ ہونا

جب يہ لشكر مكّہ سے مدينہ كى طرف روانہ ہوا تو قبيلہ خُزاعة كے چند سوار نہايت سرعت كے ساتھ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس پہنچے اور سپاہ احزاب كى روانگى كى خبر دي_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے لشكر كى جمع آورى اور آمادہ باش كے اعلان كے ساتھ جنگى ٹيكنيك اور دفاعى طريقہ كار كى تعيين كے لئے اصحاب سے مشورہ فرمايا اور مشاورتى كو نسل ميں يہ بات پيش ہوئي كہ مدينہ سے باہر نكل كر جنگ كى جائے يا مدينہ كے اندر موجود رہيں اور شہر كو ايك طرح سے قلعہ بناديں؟ سلمان فارسى نے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب ہم ايران ميں تھے تو اس وقت اگر دشمن كے شہ سواروں كے حملے كا خطرہ ہوتا تھا تو شہر كے چاروں طرف خندق كھود ديتے تھے'' دفاع كے لئے منعقدہ مجلس مشاورت نے سلمان كى رائے كو مان ليا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان كے نقشہ كے مطابق خندق كھودنے كا حكم ديا_(۱۱)

اس زمانہ ميں مدينہ ، تين طرف سے طبيعى ركاوٹوں جيسے پہاڑوں ، نخلستان كے جھنڈ اور

۸۸

نزديك نزديك بنے ہوئے گھروں ميں گھرا ہوا تھا صرف ايك طرف سے كھلا اور قابل نفوذ تھا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہردس ۱۰ آدميوں كو چاليس زراع كے ايك قطعہ ارض كو كھودنے پر مامور كيا _ جزيرة العرب كى گرم اور جھلسا دينے والى ہوا كے بر خلاف مدينہ سرديوں ميں صحرا كى طرح سرد اور تكليف دہ تھا ، جن دنوں خندق كى كھدائي ہو رہى تھى تين ہزار مسلمان صبح سويرے آفتاب طلوع ہونے سے پہلے جاڑے كى سخت سردى ميں لبوں پر ، پُر شور نعرہ اور دلوں ميں حرارت ايمانى كے جوش و ولولہ كے ساتھ كام ميں مشغول ہوتے اور غروب آفتاب تك كام كرتے رہتے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى تمام مسلمانوں كے ساتھ ساتھ كام ميں مشغول تھے_ پھاؤڑے چلاتے ، مٹّى كو زنبيل ميں ڈال كر كاندھوںپر ركھ كر باہر لاتے تھے_ سلمان نہايت تيزى سے چند آدميوں كے برابر كام كر رہے تھے _ مہاجر و انصار ہر ايك نے كہا كہ سلمان ہم ميں سے ہيں، ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' سلمان ہم اہل بيت(ع) ميں سے ہيں''(۱۲) _

بجلى كى چمك ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كيا ديكھا؟

خندق كھودتے كھودتے سلمان كے سامنے ايك بہت بڑا سفيد پتّھر آگيا_ انہوں نے اور دوسرے افراد نے كافى كوشش كى مگر پتّھر اپنى جگہ سے ہلا تك نہيں _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ہوئي تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشريف لائے اور ہتھوڑے سے پتّھر پر ايك ضرب لگائي، اس ضرب كى وجہ سے ايك بجلى چمكى اور پتّھر كا ايك حصّہ ٹوٹ كر بكھر گيا_ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صدائے تكبير بلند كى ، جب دوسرى اور تيسرى بار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرب لگائي تو ہر ضرب سے بجلى چمكى اور پتّھر كے ٹكڑے

۸۹

ہونے لگے، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر بار صدائے تكبير بلند كرتے رہے ، جناب سلمان نے سوال كيا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بجلى چمكتے وقت تكبير كيوں كہتے تھے؟

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''جب پہلى بار بجلى چمكى تو ميں نے يمن اور صَنعاء كے محل كھلتے ديكھے، دوسرى مرتبہ بجلى كے چمكنے ميں شام و مغرب كے سرخ محلوں كو فتح ہوتے ديكھا، اور جب تيسرى بار بجلى چمكى تو ميں نے كسرى كے محلات كو ديكھا كہ جو ميرى اُمت كے ہاتھوں مسخر ہوجائيں گے''_(۱۳)

مومنين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بشارت سے خوش ہوگئے اور '' بشارت، بشارت'' كى آواز بلند كرنے لگے_ ليكن منافقين نے مذاق اُڑايا اور كہا كہ ''حالت يہ ہے كہ دشمن ہر طرف سے ٹوٹ پڑ رہے ہيں اور اتنى جرا ت نہيں ہے كہ ہم قضائے حاجت كے لئے باہر نكل سكيں اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايران و روم كے محلوں كى فتح كى گفتگو كر رہے ہيں _ سچ تو يہ ہے كہ يہ باتيں فريب سے زيادہ نہيں ہيں( معاذ اللہ ) قرآن منافقين كے بارے ميں كہتا ہے '' منافقين او ر وہ لوگ جن كے دلوں ميں بيمارى ( نفاق) ہے وہ كہتے ہيں كہ يہ وعدے جو خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كر رہے ہيں يہ دھوكے سے زيادہ نہيں ہيں''(۱۴) _

منافقين خندق كھودنے ميں مسلمانوں كى مدد كر رہے تھے مگر ان كى كوشش تھى كہ كسى بہانے سے اپنے كاندھوں كو اس بوجھ سے خالى كريں اس طرح وہ اپنے نفاق كو آشكار كر رہے تھے_

خندق كى كھدائي تمام ہوئي جس كى لمبائي ۱۲۰۰۰ زراع تقريباً ۴/۵ كلوميٹر ،گہرائي ۵ ہاتھ اور اس كى چوڑائي اتنى تھى كہ ايك سوار گھوڑے كو جست ديگر پار نہيں كرسكتا تھا_ آخر ميں خندق كے بيچ ميں كچھ دروازے بناديئےئے اور ہر دروازے كى نگہبانى كے لئے ايك قبيلہ

۹۰

معيّن كرديا گيا اور زبير بن عوام كو دروازوںكے محافظين كى سربراہى پر معيّن كيا گيا(۱۵) _

مسلمانوں نے خندق كے پيچھے اپنے لئے مورچے بنالئے اور شہر كے دفاع كے لئے تيرانداز مكمل آمادگى كے ساتھ موجود تھے_

مدينہ لشكر كفار كے محاصرے ميں

كفر كا حملہ آور لشكر ابوسفيان كى سركردگى ميں خندق كھدجانے كے چھ دن بعد سيلاب كى طرح مدينہ پہنچ گيا _ انہوں نے شہر كے چاروں طرف اور اپنے آگے ايك بڑى خندق ديكھى اور مسلمانوں كى اس دفاعى حكمت عملى پر حيران رہ گئے_ جنگى ديدہ وروں نے كہا'' يہ فوجى حربہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايرانيوں سے سيكھا ہے اس لئے كہ عرب اس ڈھنگ سے واقف نہيںہيں_'' كفارنے مجبوراً اپنے خيمے خندق كے سامنے لگالئے_ دشمن كے لشكر كے خيموں سے سارا بيابان سياہ ہوگيا_ لشكر اسلام نے بھى خندق كے اس طرف خيمے لگالئے اور دشمن سے مقابلے اور اس كے حملے سے بچنے كے لئے تيار ہوگئے _

بَنى قُريَظہ كى عہد شكني

لشكر احزاب اور اس كے سپہ سالار ابوسفيان كے دماغ پرمسلمانوں پر برق رفتارى سے كاميابى حاصل كرنے كا بھوت سوار تھا، خندق جيسى بڑى ركاوٹ كے سامنے آجانے سے اب راستے كى تلاش ميں لگ گئے تا كہ لشكر كو خندق كے پار پہنچا سكيں _

مدينہ سے شہر بدر كيئے جانے والے يہودى قبيلے بنى نضير كا سردارحى ابن اخطب جنگ كى آگ بھڑكانے كا اصلى ذمّہ دار تھا _وہ خندق كى موجود گى كيوجہ سے سپاہ احزاب كے حملے كو

۹۱

ناكام ہوتے ہوئے ديكھ كرسب سے زيادہ خوف زدہ تھا، وہ كوشش كر رہا تھا كہ جلد سے جلد احزاب كى كاميابى كا كوئي راستہ مل جائے _ اس نے مدينہ كے اندر سے محاذ كھولنے كا ارادہ كيا _ اس پروگرام كو عملى جامہ پہنا نے كے لئے بَني قُريَظہ كے يہودى جو مدينہ ميں مقيم تھے، بہترين وسيلہ تھے _ اس نے رئيس قبيلہ سے گفتگو كرنے كا ارادہ كيا، قلعہ بَني قُريَظہ كى طرف گيا اور قلعہ كے بند دروازوں كے پيچھے سے گفتگو كى ، قبيلہ بَني قُريَظہ كے سردار كَعب بن اَسَد نے جواب ديا كہ ہم نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عہد و پيمان كيا ہے اور ہم يہ معاہدہ نہيں توڑ سكتے اس لئے كہ سوائے سچّائي اور وفادارى كے ان سے ہم نے اور كچھ نہيں ديكھا ہے_

حُيّ، كعب كو بھڑكانے ميں كامياب ہوگيا اور اس نے اپنے لئے قلعہ كا دروازہ كھلواليا_ قلعہ ميں داخل ہوا اور بَني قُريَظہ كے بزرگ افراد كو اس بات پر آمادہ كرليا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كئے ہوئے اپنے عہد و پيمان كو توڑديں اور اپنى فوجيں نيز دوسرا سامان حملہ آوروں كوديديں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جب بَني قُريَظہ كے يہوديوں كى پيمان شكنى كى خبر ملى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبيلہ اوس و خزرج كے دو بزرگ افراد سَعد بن مُعَاذ اور سَعد بن عُبادة كو مزيد تحقيقات كے لئے قلعہ بَني قُريَظہ روانہ كيا _ وہ لوگ اس بات پر مامور تھے كہ اگر يہ خبر صحيح ہو تو خفيہ طور پر اس كى اطلاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوديں_ انہوں نے واپسى پر خفيہ كوڈ'' عَضَل'' و ''قارّہ'' كے الفاظ كے ساتھ يہوديوں كى پيمان شكنى كى خبر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كودى _(۱۶)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كے ولولے كو باقى ركھنے كے لئے نعرہ تكبير بلند كيا اور فرمايااے مسلمانو ميں تمہيں كاميابى كى بشارت ديتا ہوں _(۱۷)

۹۲

خطرناك صورتحال

اسلامى تحريك ايك حساس موڑ پر تھى ايك طرف اسلحہ سے ليس دشمن كا دس ہزار افراد پر مشتمل لشكر شہر كے سامنے خيمہ زن تھا اور ہر لحظہ اس بات كا امكان تھا كہ خندق كو پار كر كے شہر ميں كشت وخون كا بازار گرم نہ كردے_ اور دوسرى طرف قبيلہ بَني قُريَظہ كے خائن يہودى پيمان شكنى كر كے مسلمانوں كى پيٹھ ميں خنجر گھونپنے كے لئے آمادہ تھے نہتے مسلمانوں بچّوں اور عورتوں پر يہوديوں كے حملے كا خطرہ ، كفار كے لشكر كا خندق عبور كرنے كے خطرہ سے زيادہ خطرناك تھا _

اس ہنگامے ميں منافقين، شيطانى قہقہوں ، طعنوں اور اشارے و كنائے سے مسلمانوں كے زخموں پر نمك پاشي، لوگوں كو دشمن كے سامنے ہتھيار ڈال دينے كى تشويق ،اپنے گھروں كے دفاع كا سامان نہ ہونے كا بہانہ بنا كر فرار كا قصد اور اپنى دفاع جگہوں كو چھوڑ دينے كا ارادہ كر رہے تھے _ قرآن اس سلسلہ ميں كہتا ہے كہ :

'' جب ايك گروہ ( منافقين اور سياہ قلب افراد) نے كہا كہ اے يثرب كے لوگو اب سرزمين يثرب تمہارے رہنے كى جگہ نہيں ہے_ لذا پلٹ جاؤاور ان ميں سے ايك گروہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت مانگ رہا ہے اور كہتا ہے كہ ہمارے گھر كھلے ہوئے ہيں ، دفاع كا كوئي انتظام نہيں ہے _ ايسى صورت ميں ان كا ارادہ و مقصد فرار كے سوااور كچھ نہيں ''(۱۸)

ليكن خدااور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ركھنے والے جاں باز نہ صرف ايسے طوفانوں سے لرزاں نہيں ہوئے بلكہ اور زيادہ مستحكم ہوگئے _ قرآن ان كے بارے ميں كہتا ہے :

'' جب مسلمانوں نے احزاب كے لشكر كو ديكھا تو كہا كہ يہ وہى ہے جس كا وعدہ اللہ اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كيا ہے اور اس واقعہ نے ان كے ايمان و تسليم كو بڑھانے كے علاوہ اور

۹۳

كچھ نہيں كيا''(۱۹)

اس حساس موقع پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلسل اپنى شعلہ بار تقريروں سے اسلام كے جاں بازوں كے حوصلے بڑھاتے رہے ،ان كے فرائض ياد لاتے رہے اور فرماتے '' اگر تم صبر سے كام لوگے اور خدا پر بھروسہ كروگے تو كامياب رہوگے_ '' اور ان لوگوں كو خدا اور اس كے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى فرماں بردارى كى طرف توجّہ دلاتے رہے _

ايسى حالت ميں جاں بازان اسلام اپنے محاذ كى نگہبانى اور تحفظ كے ساتھ ساتھ خندق كے اس طرف بَني قُريَظہ كے شب خون مارنے كے خطرے كو ناكام بنانے كے لئے ۵۰۰ جاں باروں كا ايك گشتى دستہ ليكر پورى تيارى كے ساتھ گشت لگاتے رہے اور راتوں كو اپنے نعرہ تكبير كى بلند آوازوںسے دشمن كے دلوں ميں خوف و ہراس ڈالتے رہے_ اس طرح غفلت كے عالم ميں دشمن كو حملے كرنے كا موقع نہيں مل سكا اور مدينہ پر حملے كا خطرہ ٹل گيا _

ايمان و كفر كا آمنا سامنا

خندق كے دوسرى طرف لشكر احزاب بہت دونوں تك يوں ہى پڑا رہا ليكن نہ پيادوں ميں سے كوئي خندق عبور كرسكا اور نہ سواروں ميں سے _آخر كار لشكر شرك ميں سے پانچ آدميوں عَمروبَن عَبدوَدّ، عكرمةَ بن اَبى جَہل ، ہُبَيرة بَن اَبى وَہب، نَوفل بَن عَبداللہ ، ضرار بن خَطّاب جنگى لباس پہننے كے بعد غرور و تكبّر كے ساتھ اتحادّيوں كى لشكر گاہ سے باہر آكر ان كو مخاطب كرتے ہوئے كہا كہ ''آج پتہ چل جائے گا كہ حقيقى بہادر كون ہے؟''

اس كے بعد انہوں نے ايڑلگا كر گھوڑوں كو اس حصّہ كى طرف سے اُڑايا جو خندق كا كم چوڑا حصّہ تھا _ جانبازوں كا دفاع ان كو نہ روك سكا عَمروبَن عَبدوَدّ نے بلند آواز سے

۹۴

مبارز طلبى كى اور مذاق اُڑانے والے لہجہ ميں بولا '' اے بہشت كے دعويدارو كہاں ہو؟ كيا كوئي ہے كہ جسے ميں بہشت روانہ كروں يا وہ مجھے جہنّم بھيج دے ؟'' وہ اپنى بات كا تكرار كرتا رہا يہاں تك كہ اس نے كہا '' ميں نے اتنى آوازيں دى كہ ميں تھك گيا اور ميرى آواز بيٹھ گئي ہے''

اس موقع پر پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كى طرف رخ كيا اور فرمايا كيا كوئي ہے جو اس كے شركو ہمارے سروں سے دور كرے؟'' حضرت على (ع) نے آمادگى كا اعلان كيا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو اجازت نہيں دى اور اپنى بات پھر دہرائي ،مجاہدين اسلام كے درميان سكوت كى حكمرانى تھى كسى ميں بھى قريش كے بڑے پہلوان سے مقابلہ كى جرا ت نہ تھى _ تيسرى بار آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر فرمايا اور اس موقع پر بھى حضرت على (ع) ہى تھے جنھوں نے آمادگى كا اعلان كيا _

نتيجہ ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على (ع) كو اجازت ديدى اور اپنا عمامہ ان كے سرپر ركھا، اپنى تلواران كو عطا كي_ جب علي(ع) قريش كے اس بہادر سے لڑنے كے لئے چلے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' اب كل ايمان كل شرك كے مقابل ہے''(۲۰)

اس زمانہ كے آئين رزم كے مطابق اسلام و شرك كے دونوں بہادروں نے رجز خوانى كى اور اس كے بعد تلوار نيام سے باہر نكال كر حملہ آور ہوگئے_ جنگ كے وقت ميدان ميں اتنى گرد اُڑ رہى تھى كہ دونوں ميں سے كوئي دكھائي نہيں ديتا تھا يہاں تك كہ على (ع) كے نعرہ تكبير كى آواز گونجي، پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدا كى قسم علي(ع) نے اس كو قتل كرديا _''

يہ واقعہ اس قدر برق آسا اور حيرت انگيز تھا كہ عمرو كے ساتھى اس كے قتل كوديكھنے كے بعد فوراً فرار كر گئے _ نوفل بن عبداللہ خندق پار كرنے كے لئے كو دتے وقت اس ميں

۹۵

گرگيااور جان بازان اسلام نے اس پر سنگ بارى كردي، وہ چلّانے لگا كہ عرب كا قتل جواں مردى كے ساتھ ہوتا ہے_ على عليہ السلام نہايت سرعت سے خندق ميں كود پڑے اور اس كو بھى قتل كر ڈالا_(۲۱)

خندق كے دن حضرت على (ع) كى ضربت آئين اسلام كے استقرار كا سبب بنى اس لئے كہ اگر حضرت على (ع) ، عَمرو بن عَبدودّ كو قتل نہ كرديتے تو لشكر احزاب كى مسلمانوں كے سلسلہ ميں جرا ت بڑھ جاتى اور ان ميں سے دوسرے افراد بھى خندق كو پار كر كے حيات اسلام كا خاتمہ كرديتے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس ضربت كى فضيلت ميں فرمايا_ '' روز خندق علي(ع) كى ضربت تمام جن و انس كى عبادت سے افضل ہے''(۲۲)

اس كے دوسرے دن خالدبن وليد نے شكست كے جبران كے لئے خندق كے كم چوڑے حصّہ كى طرف سے اپنے شہ سواروں كے دستہ كو خندق سے عبور كرانا چاہا ليكن مجاہدين اسلام كے مردانہ واردفاع نے، جو غروب تك جارى رہا ، دشمن كے ہر طرح كے ابتكار عمل كى قوّت كو سلب كرليا_

۹۶

سوالات :

۱_ غزوہ دومة الجندل كى اہميّت كس چيز ميں ہے؟

۲_ جنگ احزاب كے اصلى محرّك كون لوگ ہيں؟

۳_ خندق كھود نے كى تجويز كس نے پيش كي؟

۴_ بنى قُرَيظَہ كے يہوديوں نے كيوں پيمان شكنى كي؟

۵_ جنگ خندق ميں ضربت على (ع) كى اہميت كس وجہ سے ہے؟

۹۷

حوالہ جات

۱_ اس غزوہ كى تاريخ ميں اختلاف ہے، ابن ہشام اس كو جمادى الاولى ۴ھ كے واقعات ميں ذكر كرتے ہيں ليكن واقدى اور مسعودى نے اسے محرم ۵ ھ كے واقعات ميں ذكر كيا ہے_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۱۳_ تاريخ طبرى ج ۲ ، ص ۵۵۵_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۹۵ _ التنبہ و الاشراف مسعودى ملاحظہ ہو_

۲_ سيرة ابن ہشام ج۳ص ۲۱۳_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۵۷/۵۵۵_

۳ _ مغازى واقدى ج ۱ ص ۴۰۲ تا ۴۰۴_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۶۲_

۴_ التنبيہ و الاشراف ص ۲۱۵_

۵_ ليكن غزوہ احزاب كى صحيح تاريخ مورخين نے بيان نہيں كى ہے اور كہا ہے كہ شوال يا ذى قعدہ ۵ ہجرى ہے_ مذكورہ بالا فرض كى بنا سپاہ احزاب كے ذريعہ مدينہ كا محاصرہ ۲۳ شوال ۵ ہجرى ہوگا_

۶_ اكثر مورخين نے لكھا ہے كہ ايك مہينے تك مدينہ پر لشكر احزاب كا محاصرہ تھا_ اور پھر مورخين كى اكثريت نے لكھا ہے كہ دشمن كے فرار كے بعد بلافاصلہ اسلامى سپاہيوں نے اسى دن بنى قريظہ كے لشكر اور قلعہ كا محاصرہ كرليا جس كى تاريخ ۲۳ ذى قعدہ بيان كى گئي ہے ليكن غزوہ احزاب كى دقيق تاريخ مؤرخين نے بيان نہيں كى بلكہ لكھاہے كہ ۵ ھ ق ميں ماہ شوال يا ذى القعدہ ميں يہ غزوہ پيش آيا ليكن اگر بنى قريظہ كے قلعہ كى تاريخ كو دقيق فرض كريں تو پھر دشمن نے مدينہ كا محاصرہ ۲۳ شوال ۵ ھ ق كو كيا_

۷_ طبقات ابن سعد ج۲ ص ۶۶_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۶۵_

۸_حيات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ڈاكٹر ہيكل ص ۲۹۷_

۹_( اَلم تَرَ الى الّذين اُوتوا نَصَيباً من الكتب يُؤمنون بالجبت و الطّاغوت و يقولون للّذين كَفَرُوا هؤلاء اَهدى منَ الَّذينَ اَمنُو سبيلاً ) (نسائ/۵۱)_

۱۰_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۶۶_

۱۱_ التنبيہ و الاشراف ميں مسعودى كى نقل كے مطابق حملہ آواروں كى تعداد چوبيس ہزار تھي_

۹۸

۱۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۴۴_

۱۳_سيرة حلبيہ ج ۲ ص ۳۱۳_'' سلمانُ منّا اہلَ البيت''_

۱۴_ سيرة حلبيہ ج ۲ ص ۳۱۳_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۶۹ _ تاريخ بغداد ج ۱ ص۱۳۱ ، ۱۳۲ تھوڑے سے اختلاف كے ساتھ_

۱۵_( و اذ يقولُ المُنافقون و الّذين فى قلوبهم مَرَضٌ ما وعدنا اللهُ و رسُولُه الا عُزوراً ) (احزاب۱۲) تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۷۰_

۱۶_ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۵۰_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۵۴/۴۵۹ سے تلخيص كيساتھ_ عَضَل و قارّہ دو قبيلوں كے نام ہيں _ يہ وہ قبيلے ہيں جنہوں نے اصحاب رجيع والے واقعہ ميں بے وفائي كى ، اپنا پيمان توڑڈالا اور مسلمانوں كو شہيد كيا ان كلمات كے استعمال كا مطلب يہ تھا كہ بنى قريظہ نے بھى ان دوقبيلوں كى مانند پيمان شكنى كى ہے _

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۵۹_

۱۹_( وَ اذ قَالت طَائفةٌ منهُم يَا اَهلَ يَثربَ لا مُقامَ لَكم فَارجعُوا وَيَستَاذن فريقٌ مَنهُمُ البَّنيَّ يَقولُونَ انَّ بُيُو تَنَاعَورة وَ مَا هيَ بعَورَة: ان يُريدُونَ الّا فراراً ) ( احزاب/۱۳) _

۲۰_( وَ لمّارَا المؤمنُونَ الا حزاَبَ قَالوا هذا مَا وَعَدَنَا اللهُ و رَسُولُهُ و صَدَقَ الله و رَسُولُهُ و مَازَادَ هُم اَلّا ايماناً و تَسليماً ) (احزاب /۲۲) _

۲۱_ برزالايمانُ كُلَّہ، الى الشرك كُلہ_

۲۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۷۰_ ارشاد شيخ مفيد ص ۵۳_

۲۳_ ضَربة عَليّ يومَ الخَندَق اَفضَلُ من عبادة الثَقَلَين_ دلائل الصدق ج ۲ ص ۱۷۵، مستدرك ج ۳ ص ۳۲_

۹۹

چھٹاسبق

دشمن كى صفوں ميں تفرقہ پيدا كرنے كى كوشش

بنى قريظہ ور مشركين كے درميان پھوٹ

دشمن كى صفوں ميں لشكر اسلام كا سپاہي

شہداء اسلام اور كشتگان كفر

لشكر احزاب كى شكست كے اسباب

جنگ احزاب كے نتائج

غزوہ بنى قريظہ

ايك خيانت كا ر مسلمان اور اسكى توبہ كى قبوليت

بنى قريظہ كا اپنے آپ كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالے كرنا

سعد ابن معاذ كا فيصلہ

سعد كے فيصلے كى دليليں

پيمان شكنى كا انجام

اسارى اور مال غنيمت

سوالات

حوالہ جات

۱۰۰

جملہء شرطیہ میں ”فائے تفریع“

ایک اورنکتہ جو”اولوالامر“کے معنی کو ثابت کرنے کے لئے بہت مؤثرہے وہ جملہئ شرطیہ میں اطیعو اللّٰہ واطیعوالرّسول واولی الامر کے بعد”فائے تفریع“کا پایا جا نا ہے۔

یہ جملہء شرطیہ یوں ایاہے:( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه و رسول ) اختلافی مسائل کوخدائے متعال اوررسول (ص)کی طرف پلٹانے کاوجوب،خدا،رسولاوراولی الامرکی اطاعت کے وجوب پرمتفرع ہواہے،اوراس بیان سے بخوبی سمجھ میں آتاہے کہ اختلافی مسائل کوخدااوررسول (ص)ی طرف پلٹانے میں اولوالامرکی اطاعت دخالت رکھتی ہے۔یہ تفریع دوبنیادی مطلب کی حامل ہے:

۱ ۔اولوالامرکی عصمت :اس لحاظ سے کہ اگراولوالامرخطااورگناہ کامرتکب ہو گااور اختلافی مسائل میں غلط فیصلہ دے گا تواس کے اس فیصلہ کاکتاب وسنت سے کوئی ربط نہیں ہوگاجبکہ تفریع دلالت کرتی ہے کہ چونکہ اولی الامرکی اطاعت ضروری ہے لہذا چاہیئے کہ،اختلافی مسائل کوخدااوررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹا یا جائے۔

۲ ۔کتاب وسنت کے بارے میں کامل ووسیع معلو مات:اس لحاظ سے اگراولی الامر کتاب وسنت کے ایک حکم سے بھی جاہل ہواوراس سلسلہ میں غلط حکم جاری کرے تواس حکم میں اس کی طرف رجوع کرناگویاکتاب وسنت کی طرف رجوع نہ کرنے کے مترادف ہے۔جبکہ”فائے تفریع“سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ اولی الامرکی اطاعت مسلسل اختلافی مسائل کوکتاب وسنت کی طرف پلٹانے کاسبب ہے۔اس لئے آیہء شریفہ میں فائے تفریع، کاوجوداولی الامر کے تعین کے لئے کہ جس سے مرادائمہ معصومین (ع)واضح قرینہ ہے۔

۱۰۱

مذکورہ نکات سے استفادہ کی صورت میں اب تک درج ذیل چندمطالب واضح ہوگئے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں ”اولی الامر“سے مرادجوبھی ہیں ان کاامرونہی کر نے میں گناہ اورخطاسے معصوم ہونا ضروری ہے۔

۲ ۔اولی الامرکا انطباق اہل حل وعقدپر صحیح ودرست نہیں ہے۔)جیساکہ فخررازی کا نظریہ ہے)

۳ ۔اب تک جوکچھ ثابت ہوچکا ہے اس کے پیش نظراگر”اولی الامر“کے بارے میں ہمارے بیان کئے گئے گیارہ اقوال پرنظرڈالیں،توآیہء کریمہ کی روشنی میں ”اولی الامر“سے مراد تنہاشیعہ امامیہ کا نظریہ قابل قبول ہے اوریہ امران کے علاوہ دوسروں کے عدم عصمت پراجماع ہونے کی بھی تاکیدکرتاہے۔

ظالم حکام اولوالامرنہیں ہیں

اولوالامرکے مفہوم میں اشارہ کیاگیاکہ اولوالامرمیں صرف وہ لوگ شامل ہیں،جوامت کی سرپرستی ان کے امور کے مالک ہوں،اوریہ عنوان ان پر بھی صادق ہے کہ جنھیں ظلم اورناحق طریقہ سے امت کی سرپرستی سے علیحدہ کیاگیاہے۔اس کی مثال اس مالک مکان کی جیسی ہے،جس کے مکان پرغاصبانہ قبضہ کرکے اسے نکال باہرکر دیاگیاہو۔

دوسرانکتہ جو”اولوالامر“کے مقام کی عظمت اور اس کے بلند مر تبہ ہونے پر دلالت کرتا ہے وہ”اولوالامر“کاخداورسول (ص)کے او پرعطف ہوناہے۔مطلقاً وجوب اطاعت میں خدا ورسول کے ساتھ یہ اشتراک و مقا رنت ایک ایسا رتبہ ہے جوان کے قدرومنزلت کے لائق افراد کے علاوہ دوسروں کے لئے میسرنہیں ہے۔

۱۰۲

یہ دواہم نکتے)مفہوم”اولوالامر“اوروجوب اطاعت کے سلسلہ میں الوالامرکا خداورسولپرعطف ہونا) خود”اولوالامر“کے دائرے سے ظالم حکام کے خارج ہونے کوواضح کرتا ہے۔

زمخشری کاتفسیرالکشاف(۱) میں اس آیہء شریفہ کے ذیل میں کہناہے:

”خدااوررسول (ص)ظالم حکام سے بیزارہیں اوروہ خداورسول کی اطاعت کے واجب ہونے پرعطف کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ان کے لئے شائستہ ترین نام”اللصوص المتغلبہ“ہے۔یعنی ایسے راہزن کہ جو لو گوں کی سر نوشت پرزبردستی مسلط ہوگئے ہیں۔“

اس بیان سے معروف مفسرقرآن،طبری کے نظریہ کاقابل اعتراض ہوناواضح ہوجاتاہے،جس نے ظالم کام کو بھی اولوالامر کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔

اولوالامرکے بارے میں طبری کا قول

مناسب ہے کہ ہم اس سلسلہ میں طبری کے بیان اورا ستدلال کی طرف اشارہ کریں:

اٴولی الاٴقوال فی ذلک بالصواب قول من قال:”هم الاٴمراؤالو لاةلصحة الاٴخبارعن رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بالاٴمربطاعته الاٴئمّة والولاةفیماکان طاعة وللمسلمین مصلحة“

____________________

۱۔الکشاف،ج۱،ص۲۷۷۔۲۷۶،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۳

کالذی حدثنی علی بن مسلم الطوسی قال:ثنا ابن اٴبی فدیک قال:ثنی عبداللّٰه ابن محمدبن عروة،عن هشام بن عروة،عن اٴبی صالح السمان،عن اٴبی هریرة:اٴن النبیّ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وسلم-قال:سیلیکم بعدی ولاة،فیلیکم البرّببرّه،والفاجر بفجوره

فاسمعوالهم واٴطیعوافی کل ماوافق الحق وصلوّاوراء هم!فإن اٴ حسنوا فلکم ولهم،وإن اٴساؤوافلکم وعلیهم!

وحدثنا ابن المثنی قال:ثنا یحیی بن عبیداللّٰه قال:اٴخبرنی نافع،عن عبداللّٰه،عن النبیّ-( ص) -قال:علی المرء المسلم الطا عة فیما اٴحبّ وکره إلاّاٴن یؤمر بمعصیةٍ،فمن اٴمربمعصیة فلا طاعة حدثناابن المثنی قال:ثنی خالدبن عبیداللّٰه،عن نافع،عن اٴبی عمر،عن النبیّ-( ص) -نحوه(۱)

طبری نے تمام اقوال میں سے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ جس میں ”اولوالامر“سے مرادمطلق حکام)نیک وبد)لیا گیاہے۔اوراس سلسلہ میں ان دواحادیث سے استدلال کیا ہے،جن میں حکمران اور فرمانرواؤں کی اطاعت کو مطلق طور پر ضروری جا ناکیا گیا ہے۔

نہ صرف”اولی الامر“کا مفہوم اوراس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونااس نظریہ کو مسترد کرتا ہے،بلکہ ایسی صورت میں طبری کے نظریہ پر چند اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں:

پہلا اعتراض:یہ احادیث قابل اعتبار اورحجت نہیں ہیں،کیونکہ حدیث کی سند میں پہلے ابن ابی فدیک کا نام ہے کہ اہل سنّت کے رجال وحدیث کے ایک امام،ابن سعدکا اس کے بارے میں کہنا ہے:

__________________

۱۔تفسیرطبری،ج۵،ص۹۵،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۴

کان کثیرالحدیث ولیس بحجة(۱)

”اس سے کافی احادیث رو ایت ہوئی ہیں اور)اس کی بات) حجت نہیں ہے“

ابن حبان نے اسے خطا اوراشتباہ کرنے والا جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عروة ہے کہ جس کا علم رجال کی معروف کتابوں میں موثق ہونا ثابت نہیں ہے۔

دوسری حدیث کی سند میں بھی بعض ضعیف اور مجہول افراد پائے جاتے ہیں،جیسے یحییٰ بن عبیداللہ،کے متعلق اہل سنت کے ائمہء رجال جیسے ابوحاتم،ابن عیینہ، یحییٰ القطان،ابن معین ،ابن شیبہ،نسائی اوردار قطبنی نے اسے ضعیف اور قابل مذمت قراردیا ہے۔(۳)

دوسرااعتراض:ان احادیث کا آیہء ”اولی الامر“ سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ احادیث اس آیت کی تفسیر نہیں کرتی ہیں۔

تیسرااعترض:طبری کی یہ تفسیرقرآن مجید کی دوسری آیات سے تناقص رکھتی ہے،من جملہ یہ آیہء شریفہ:

( لاتطیعوااٴمرالمسرفین الذین یفسدون فی الاٴرض ولا یصلحون ) (شعراء/ ۱ ۵۲۔۱۵۱)

”اورزیادتی کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو،جوزمین میں فساد برپاکرتے ہیں اوراصلاح کے در پی نہیں ہیں“

علماء بھی اولوالامرنہیں ہیں

”اولوالامر“کا مفہوم سرپرستی اورولایت کو بیان کرتا ہے اورعلماء کا کردار لوگوں کووضاحت اور آگاہی دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ :

___________________

۱۔الطبقات الکبری،ج۵،ص۴۳۷،داربیروت للطباعةوالنشر

۲۔کتاب الثقات،ج۹،ص۴۲،مؤسسةالکتب الثقافیة

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۲۲۱،دارالفکر

۱۰۵

ایک تو،”اولوالامر“کے عنوان سے صاحبان علم وفقہ ذہن میں نہیں آتے ہیں مگریہ کہ خارج سے اس سلسلہ میں کوئی دلیل موجود ہو جس کے روسے علماء اوردانشوروں کو سر پرستی حاصل ہو جائے اوریہ دلالت آیت کے علاوہ ہے جنہوں نے اس قول کو پیش کیاہے،وہ اس لحاظ سے ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں علماء کی اطاعت کرکے ان کی راہنمائی سے استفادہ کریں۔

دوسرے یہ کہ:اس آیہء شریفہ سے قبل والی آیت میں خداوند متعال نے حکام کے فرائض بیان کئے ہیں:

( وإذا حکمتم بین الناس اٴن تحکموا بالعدل )

”جب کوئی فیصلہ کرو توانصاف کے ساتھ کرو“

زیر بحث آیت میں ”اولوالامر“ کی نسبت لوگوں کی ذمہ داریوں کوبیان کیا گیا ہے اوراس سے واضح ہوتا ہے کہ ”اولوالامر“سے مراد مذکورہ صفات کے حامل وہی حکام ہیں،نہ علمائ

تیسرے یہ کہ:اگراس سے مراد علماء ہیں توکیا یہ علماء بہ طور عام اور بہ حیثیت مجموعی مراد ہیں یا یہ کہ بہ حیثیت استغراقی،ان میں ہرفرد ولی امر ہے اوراس کی اطاعت واجب ہے؟

اگر پہلا فرض مراد ہے ،تواس پر اعتراض اہل حل وعقد والے قول اورفخررازی کے نظریہ کے سلسلہ میں بیان ہوچکا ہے،اوراگردوسری صورت مراد ہے توآیہء شریفہ میں مطلقا طور پر کس طرح ان کی اطاعت واجب ہو ئی ہے،جبکہ اگرایسا ہے تواس کے ضوابط اورشرائط قرآن وحدیث میں بیان ہونے چاہئے تھے۔

چوتھے یہ کہ: پچھلی آیت میں ”فائے تفریع “کی وضاحت میں آیہء شریفہ کے بعد والے جملہ میں آیاہے:( فإنّ تنازعتم فی شیئٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) یہ جملہ فائے تفریع کے ذریعہ پہلے والے جملہ سے مر بوط ہے کہ اس کے معنی اختلافی صورت میں خدا اوررسول کی طرف رجوع کر ناخدا ورسول نیز اولی الامر کی مطلقاً اطاعت کے وجوب پر متفرع ہے۔ اس جملہ سے واضح ہو جا تاہے کہ اختلافی مسائل میں خدااوررسول کی طرف رجوع کر نا ضروری ہے،یہ رجوع کر نا’اولوالامر“ کی اطاعت ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔اوربعد والے جملہ میں لفظ ”اولوالامر“کو نہ لانے کا مقصد بھی اسی مطلب کو واضح کرتا ہے یعنی تنہا”اولوالامر“ ہے جوکتاب وسنت کے معانی و مفاہیم نیز تمام پہلوؤں سے آگاہ ہے لہذا اختلافی مسائل میں اس کی طرف رجوع کر نا درحقیقت خدااوررسولکی طرف رجوع کر نا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مطلقاً یعنی بہ طور کلی علماء ایسے نہیں ہیں سواء ان لو گوں کے کہ جو منجانب اللہ گناہ وخطاء سے محفوظ ہیں۔

۱۰۶

آیہء کریمہ کے بارے میں چند دیگر نکات

اس قول کے بارے میں کہ”اولوالامر“سے مراد علماء ہیں ،مفسرین کے بیانات میں بعض قابل غور باتیں دیکھنے میں آتی ہیں ،شائستہ نکات کو ملحوظ رکھتے ہو ئے آیت میں غور وخوص ان اعتراضات کو واضح کر دیتا ہے پہلا نکتہ: فإنّ تنازعتم میں مخاطبین وہی ہیں جو( یاایّها الذین آمنوا ) میں مخاطبین ہیں۔”آیت میں مخاطب مو منین “کا اولوالامر کے درمیان تقابل کا قرینہ متقاضی ہے کہ”الذین آمنوا“”اولوالامر“ کے علاوہ ہوں کہ جس میں حاکم و فر مانروااولوالامر اور مطیع وفرمانبردارمومنین قرار دیئے جائیں ۔

دوسرانکتہ:اس نکتہ کے پیش نظر،مو منین کے اختلا فات ان کے آپسی ا ختلا فات ہیں نہ ان کے اور اولوالامر کے درمیان کے اختلافات۔

تیسرانکتہ: یہ کہ مو منین سے خطاب مورد توجہ واقع ہو اور اس کو اولی الامر کی طرف موڑ دیا جائے ،یہ سیاق آیت کے خلاف ہے اوراس تو جہ کے بارے میں آیہء شریفہ میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

۱۰۷

چند نظریات پرتنقید

قرطبی اورجصّاص نے جملہ( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) کواس پر دلیل قراردیا کہ”اولوالامر“ سے مرادعلماء ہیں،اورچونکہ جو علماء نہیں ہیں وہ خدا ورسولکی طرف پلٹانے کی کیفیت کو نہیں جانتے ہیں،اس لحاظ سے خدائے تعالیٰ نے علماء کوخطاب کیا ہے اورانھیں جھگڑے اوراختلاف کی صورت میں حکم دیاہے کہ اختلافی مسئلہ کو خدا اور رسول کی طرف پلٹادیں۔ ۱

ابوالسعود نے اپنی تفسیر میں اس قول کو پیش کیا ہے اورمذکورہ دومفسروں نے جو کچھ کہا ہے،اس کے خلاف ہے:جملہء”فإن تنازعتم“اس کی دلیل ہے کہ اولوالامر سے مراد علماء نہیں ہو سکتے ہیں،کیونکہ مقلد مجتہد کے حکم کے بارے میں اس سے اختلاف نہیں کرسکتا ہے!مگر یہ کہ ہم کہیں کہ جملہ”فإن تنازعتم“کا مقلدین سے کوئی ربط نہیں ہے اوریہ خطاب صرف علماء سے ہے اوراس سلسلہ میں کسی حد تک التفات ملا حظہ کیا گیا ہے لیکن ےہ بھی بعید ہے۔ ۲

قرطبی اورجصّاص کے لئے یہ اعتراض ہے کہ وہ التفات)توجہ) کے قائل ہوئے ہیں اور جملہ ”تنازعتم“ کو علماء سے خطاب جاناہے جبکہ بظاہر یہ ہے کہ’ ’تنازعتم“ کا خطاب تمام مومنین سے ہے اوراس التفات کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

ابوالسعودکا اشکال یہ ہے کہ اس نے آیہء شریفہ میں اختلاف کو ”اولوالامر“سے مراد علماء ہو نے کی صورت میں اختلاف بین علماء اور مقلدین سمجھا ہے ،جبکہ مؤ منین سے خطاب ہے،چونکہ مؤ منین آیہء شریفہ میں اولوالامر کے مقابلہ میں قراردئے گئے ہیں ،لہذاان کے اختلافات ان کے آپسی اختلافات ہوں گے،نہ کہ علماء کے فرض کر نے کی صورت میں اولوالامر

____________________

۱۔جامع احکام القرآن،ج۵،ص۲۶۰،دارالفکر۔احکام القرآن جصاص،ج۲،ص۲۱۰،دارالکناف العربی۔

۲۔ارشاد العقل السلیم ،تفسیر ابوالسعود،ج۲،ص۱۹۳،داراحیائ التراث العربی ،بیروت۔

۱۰۸

کے ساتھ یہاں تک واضح ہوا کہ مذکورہ نکات کے پیش نظر”اولوالامر“سے مرادعلمائنہیں ہوسکتے ہیں۔قرطبی اورجصاص کا نظریہ بھی صحیح نہیں ہے،جنھوں نے التفات کا سہارالے کر اس قول کوصحیح قراردینے کی کوشش کی ہے اورابوالسعود کا نظریہ بھی درست نہ ہونے کی وجہ سے اس کامستردہونا واضح ہے۔

اصحاب اور تابعین بھی اولوالامر نہیں ہیں۔

آیہء شریفہ میں چند دوسرے ایسے نکات بھی موجود ہیں کہ جن کی روشنی میں اصحاب یا اصحاب وتابعین یا مہا جرین وانصار کا اولوالامر نہ ہوناثابت کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں عموماً مؤ منین سے خطاب کیا گیا ہے اور ایسے افراد کہ جن کی اطاعت کرنا مؤمنین کے لئے بطور مطلق واجب ہے،ان کا ذکر ہے لہذا مؤمنین وہ لوگ ہیں کہ جن کی شان اطاعت وفرمانبرداری ہے اورخدا ورسول نیز اولوالامر کی شان مو منین کے اوپر مطلقاًاختیار اور فرمانروائی ہے ،ان دونوں کا)مفہوم)ایک دوسرے کے مد مقابل واقع ہو نا واضح قرینہ ہے کہ مؤ منین ”اولوالامر“کے علاوہ ہیں۔مؤمنین کی حیثیت صرف فرمانبرداری ہے،اوران کے مقابل یعنی خداورسول نیزاولوالامر کی حیثیت فرماں روائی ہے۔

یہ مغایرت جس چیزکی تاکید کرتی ہے ،وہ یہ ہے کہ اولوالامرکا تذکرہ خداورسول کے ساتھ ایک سیاق میں واقع ہے اورآیت میں خدا اورسولکی حیثیت سواء مطاع )جس کی اطاعت کی جائے )کے کچھ نہیں ہے،لہذا اولوالامرکی بھی و ہی حیثیت ہو نی چا ہئے۔

اس مطلب کا تقاضا یہ ہے کہ اولوالامر،اصحاب ،تابعین یا مہاجرین وانصارکے زمرے سے نہیں ہوں گے کیوں کہ ایسی صورت میں مذکورہ مغایرت موجود نہیںر ہے گی،حالانکہ جو مؤ منین آیہء شریفہ کے نزول کے وقت اس کے مخاطب واقع ہوئے ہیں وہ،وہی اصحاب ،مہاجرین اور انصا رہیں۔

۲ ۔دوسرانکتہ یہ ہے کہ اگر اولوالامر کے مصداق اصحاب ہوگے، تو کےا یہ تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی ہیں ےا بنحواستغراقی ؟

مزید واضح لفظوں مےں کیا اصحاب مےں سے ہر ایک فرد بہ طورمستقل اولوالامر ہے او ر قوم کی سرپرستی کا اختیاررکھتاہے، یا تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی اس عہدے کے مالک ہیں؟ فطری بات ہے کہ دوسری صورت کے اعتبار پر سب کا اجماع اور اتفاق ہوگا؟

۱۰۹

دوسرا فرض )یعنی عام بہ حیثیت مجموع) ظاہر کے خلاف ہے، جیسا کہ فخررازی کے بیان میں اس کی وضاحت ہو چکی ہے ، او ر پہلا فرض یعنی اصحاب میں سے ہر ایک بہ طور مستقل صاحب ولایت ہوگا، یہ بھی ظاہر اور اصحاب کی سیرت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اصحاب کے زمانہ میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ ہر ایک دوسرے کے لئے )وہ بھی مطلقاً) وجوب اطاعت کا مالک ہوا۔

اس کے علاوہ اصحاب علمی اور عملی لحاظ سے ایک دوسرے سے کافی مختلف تھے۔ان میں کافی تعداد میں ایسے افراد بھی تھے جن میں علمی اور اخلاقی صلاحیتوں کا فقدان تھا۔مثال کے طور پر ولیدبن عقبہ(۱) کے فاسق ہو نے کے بارے میں آیت نازلی ہوئی ہے کہ جس کی خبر کی تحقیق واجب وضروری ہے ان حالات کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ ” اولوالامر“کے مصداق بہ طور مطلق اصحاب یا مہاجرین و انصار ہوں؟

سریہ کے سردار بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

اسی طرح”اولوالامر“ کے مصداق سریہ(۲) کے کمانڈو بھی نہیں ہیں کیونکہ جو کچھ ہم نے بیان کیا، اس کے علاوہ ”اولوالامر“ کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونا، ”اولوالامر“کی مطلق اطاعت کے و اجب ہونے پر دلالت کر تا ہے اور جملہ ”فإن تنازعتم“ کامتفرع ہو نا، خدا و

____________________

۱۔ اصحاب کے بارے میں مصنف کی کتاب ” عدالت صحابہ در میزان کتاب و سنت “ ملاحظہ ہو

۲۔جن جنگوں میں پیغمبراکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے ذاتی طورپر شرکت نہیں کی ہے،انھیں سریہ کہتے ہیں۔

۱۱۰

پیغمبر اور اولوالامرکی مطلق اطاعت نیز”اولوالامر“ کی عصمت پر دلیل ہیں ۔سریہ کے کمانڈ معصوم نہیں ہیں،اس سلسلہ میں اصحاب اورتابعین کی طرف سے کچھ آثار نقل ہوئے ہیں جواس مطلب کی تائید کرتے ہیں۔ہم یہاں پر ان آثار میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

۱ ۔ابن عباس سے ایک حدیث میں روایت کی گئی ہے:آیہء”اولی الامر“ایک ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے،کہ جسے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک سریہ میں )سرپرست و سر براہ کے عنوان سے) بھیجا تھا۔(۱) اس حدیث کی سند میں حجاج بن محمد کا نام آیا ہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیّرفی آخر عمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔

اورابن حجر نے کہا ہے کہ اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے(۲) فطری بات ہے کہ اس کیفیت و حالت کے پیش نظر اس کی روایت معتبر نہیں ہوسکتی ہے۔

۲ ۔ایک دوسری حدیث میں میمون بن مہران سے روایت ہوئی ہے کہ”اولوالامر“ وہ لوگ ہیں جوسریہ)جنگوں) میں شرکت کرتے تھے۔(۳) اس حدیث کی سند میں عنبسة بن سعیدضریس کا نام ہے کہ ابن حبان نے اس کے بارے میں کہا ہے:

”کان یخطی(۴)

”یعنی :وہ مسلسل خطا کا مرتکب ہوتاتھا۔“

____________________

۱۔تفسیر طبری،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تفسیر طبری ،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۴۔تہذیب التہذیب،ج۸،ص۱۳۸

۱۱۱

طبری نے ایک حدیث میں سدی سے نقل کیا ہے(۱) کہ اس نے آیہء ”اولوالامر“ کو اس قضیہ سے مرتبط جانا ہے کہ ایک سریہ)جنگ) میں خالد بن ولیدکوکمانڈر مقرر کیا گیا تھااورس سریہ میں عماریاسر بھی موجود تھے اور انہوں نے ایک مسلمان کو دئے گئے امان کے سلسلہ میں خالد سے اختلاف رای کا اظہارکیا تھا۔(۲)

یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے،کیونکہ ایک تو یہ مرسل ہے اوردوسرے سدی کے بارے میں یحییٰ بن معین ا ورعقیلی سے نقل ہو ا ہے کہ وہ ضعیف ہے اورجوزجانے اسے کافی جھوٹا بتا یا ہے ۔(۳)

۳ ۔بخاری نے آیہء ”اولوالامر“ کی تفسیر میں جو حدیث ذکر کی ہے وہ یوں ہے:

حدثناصدقة بن الفضل،اٴخبرناحج ابن محمّد،عن ابن جریح،عن یعلی بن مسلم،عن سعید بن جبیرعن ابن عباس رضی اللّٰه عنهما:”اٴطیعوااللّٰه واٴطیعوالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی عبداللّٰه بن حذافة ابن قیس بن عدی اذبعثه النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی سریة ۔(۴)

اس حدیث میں سعیدبن جبیران نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آیہء( اٴطیعوااللّٰه واٴطیعواالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم ) عبداللہ بن حذافہ کے بارے میں نازل ہو ئی ہے،جب رسول خدا (ص)نے اس سے ایک سریہ کے لئے روانہ کیا۔

چونکہ یہ حدیث فتح الباری میں ابن حجر کے کلام سے اخذ کی گئی ہے اس لئے احتمال ہے کہ یہ روایت سنید بن داؤد مصیصی سے روایت ہوئی ہو جیسا کہ ابن سکن سے منقول ہے نہ کہ صدقہ بن

____________________

۱۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفة

۲۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفہ

۳۔تہذیب التہذیب،ج۱،ص۲۷۳

۴۔صحیح بخاری،ج۳،ص۳۷۶،کتاب التفسیر،باب قولہ اطیعواللّٰہ۔۔۔ ح۱۰۱۰،دارالقلم ،بیروت

۱۱۲

فضل سے جیسا کہ اکثر نے نقل کیا ہے اور موجودہ صحیح بخاری میں بھی اسی کے حوآلے سے آیا ہے اورسنید بن داؤد کو ابی حاتم ونسائی نے ضعیف جانا ہے۔(۱)

اس بناپر ایک تو یہ بات مسلّم ویقینی نہیں ہے کہ بخاری میں موجود روایت صدقہ بن فضل سے ہوگی،بلکہ ممکن ہے سنید سے ہو جبکہ وہ ضعیف شمار ہو تا ہے۔

دوسرے یہ کہ:اس کی سند میں حجاج بن محمدہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیرفی آخرعمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔“

اور ابن حجر نے کہاہے:اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے۔(۲)

ابوبکراورعمربھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں

مذکورہ وجوہ کے پیش نظر واضح ہوگیا کہ ابوبکر اور عمربھی ”اولوالامر“کے مصداق نہیں ہیں نیزان وجوہ کے علاوہ دین وشریعت سے متعلق سوالات کے جوابات میں ان کی لا علمی ناتوانی اوراحکام الٰہی کے خلاف ان کا اظہار نظر بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ جو تاریخ وحدیث کی کتابوں میں کثرت سے درج ہے۔اس سلسلہ میں کتاب الغدیر کی جلد ۶ اور ۷ کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے۔

اہل سنت کی بعض کتابوں میں درج یہ حدیث کہ جس میں ان کی اقتداء کرنے کااشارہ ہواہے:”إقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر “کئی جہات سے باعث نزاع ہے۔من جملہ یہ کہ اس کی سند میں عبدالملک بن عمیر ہے کہ تہذیب الکمال(۳) میں احمد بن حنبل

____________________

۱۔فتح الباری،ج۸،ص۲۵۳

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تہذیب الکمال،ج۱۸،ص۳۷۳،موسسہ الرسالة

۱۱۳

سے اس کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے:عبد الملک بن عمیر بہت زیادہ مضطرب البیان ہے اس سے منقول میں نے ۵۰۰ سو روایتیں دیکھی ہیں کہ جن میں اکثر غلط ہیںعبدالملک بن عمیر مضطرب الحدیث جداًمااٴری له خمساًئة حدیث، وقد غلط فی کثیرمنها “ اور احمد بن خلیل نے بھی اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ کیا ہے۔اور ابو حاتم سے نقل کیا ہے:)عبدالملک)لیس بحافظ۔۔۔تغیرحفظہ قبل موتہ“عبدالملک کا حافظ درست نہیں ہے اور موت سے پہلے اس کا حا فظ کھو گیا تھا۔

اورترمذی(۱) کی سند میں سالم بن علاء مرادی ہے کہ ابن معین اور نسائی نے اسے ضعیف جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ ترمذی کی سند میں سعید بن یحییٰ بن سعید الاموی ہے کہ ابن حجر نے صالح بن محمد سے نقل کیا ہے:”إنّه کان یغلط “یعنی:”وہ مسلسل غلطی کرتا تھا۔(۳)

اس کے علاوہ اگر اس قسم کی احادیث ثابت ہوتیں توابو بکر اورعمر سقیفہ میں ان سے استدلال کرتے اورخلافت کے لئے اپنی صلاحیت ثابت کرتے جبکہ اس قسم کی کوئی چیز قطعی طورپر نقل نہیں ہوئی ہے اور یہ قطعی طورپرثابت ہے کہ مذکورہ حدیث صاد ر نہیں ہوئی ہے اور جعلی ہے۔

او لیاء شرعی(باپ)بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

باپ،دادا و غیرہ کہ جو ولایت شرعی رکھتے ہیں وہ بھی بہ طور مطلق ”اولوالامر“ نہیں ہیں۔گزشتہ موارد میں ذکر شدہ مطالب سے بھی یہ مسئلہ واضح ہو جاتاہے۔

____________________

۱۔سنن ترمذی ،ج۵،ص۵۷۰،ح۳۶۶۳

۲۔میزان الاعتدال،ج۲،ص۱۱۲،دارالفکر

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۴،ص۸۶

۱۱۴

”اولوالامر“اورحدیث منزلت،حدیث اطاعت اورحدیث ثقلین

حدیث منزلت:

حا کم حسکانی(۱) نے”شواہد التنزیل(۲) “ میں آیہء اولوالامر کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی ہے اوراپنی سند سے مجاہد سے روایت کی ہے:

”واٴُلی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی اٴمیرالمؤمنین حین خلّفه رسول اللّٰه بالمدینة، فقال:اٴتخلفنی علی النساء والصبیان؟ فقال: اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی،حین قال له ”اٴخلفنی فی قومی واٴصلح“فقال اللّٰه: ”واٴُولی الاٴمر منکم“ فقال: هوعلی بن ابی طالب، ولاّه اللّٰه الامر بعد محمد فی حیاته حین خلّفه رسول اللّٰه بالمد ینة،فاٴمراللّٰه العباد بطاعته وترک خلافه

”(آیہء شریفہ کے بارے میں ) ۔۔۔( واٴولی الاٴمرمنکم ) ۔۔۔ مجاہد نے یوں کہا ہے:آیہء شریفہ امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہے،جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔اس وقت علی(علیہ السلام)نے کہا :کیامجھے عورتوں اور بچوں پر جانشین قرا ر د ے ر ہے ہیں؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ تمھاری نسبت میرے

____________________

۱۔حاکم حسکانی اہل سنّت کے بڑے محدثین میں سے ہے۔ذہبی اس کے بارے میں کہتاہے:

الحسکانی القاضی المحدث ابوالقاسم عبیداللّٰہ بن عبداللّٰہ ۔۔۔ محمد بن حساکان القرشی العامری اللنیسا بوری الحنفی الحاکم، و یعرف با بن الحذاء ، شیخ متقن ذو عنایة تامة بعلم الحدیث، حسکانی،قاضی محدث ابوالقاسم عبیداللہ بن عبداللہ محمد بن حسکانی قر شی عامری نیشابوری حنفی مذہب وحاکم ،ابن خداء کے نام سے معروف ہے۔ وہ علم حدیث کے بارے میں قوی اور متقن استاد)شیخ) ہے۔

۲۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۰،مؤسسہ الطبع والنشر

۱۱۵

ساتھ وہی ہے جو ہارون کی نسبت موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی جب موسیٰ(علیہ السلام)نے اپنی قوم سے کہا( اٴخلفنی فی قومی ) ”میری قوم میں میرے جانشین ہو اوراصلاح کرو“)اس آیہء شریفہ میں )خدا وند متعال نے فرمایا ہے:( واٴولی الاٴمر منکم ) ”اولوالامر“)کامصداق)علی بن ابیطالب(علیہ السلام)ہیں کہ خداوند متعال نے انھیں پیغمبر (ص)کی حیات میں اپ کے بعدامت کے لئے سرپرست قرار دیاہے،جب انھیں مدینہ میں اپناجانشین مقرر فرمایا۔لہذا خداوند متعال نے اپنے بندوں کوان کی اطاعت کرنے اوران کی مخالفت ترک کرنے کاحکم دیا ہے۔

اس حدیث میں ،اس مجاہد نامی تابعی دانشور اورمفسرنے آیہء شریفہ”اولی الامر“کی شان نزول کے لئے وہ وقت جانا ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین قراردیا تھا۔

اس حدیث میں ہارون کی وہ تمام منزلتین جو وہ موسیٰ کے حوالے سے رکھتے تھے،علی علیہ السلام کے لئے رسول خدا (ص)کے حوالے سے قراردی گئی ہیں۔من جملہ ان میں سے ایک موسیٰ(علیہ السلام)کی نسبت سے ہارون کی جانشینی ہے۔یہ جانشینی،جس کا لازمہ پوری امت کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کا واجب ہونا ہے،علی علیہ السلام کے لئے معین کی گئی ہے۔

یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس ان نزول سے قطع نظر،حدیث منزلت فریقین )شیعہ وسنی) کے درمیان ثابت اورمسلّم احادیث میں سے ہے،اس طرح کہ حدیث منزلت کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ شان نزول کے سلسلہ میں حاکم حسکانی کا کہنا ہے:

وهذاهوحدیث المنزلة الّذی کان شیخاًابوحازم الحافظ یقول: خرجته بخمسةآلاف إسناد

یہ وہی حدیث منزلت ہے کہ ہمارے شیخ)ہمارے استاد)ابوحازم حافظ)اس کے بارے میں )کہتے ہیں:میں نے اس)حدیث)کو پانچ ہزار اسنادسے استخراج کیا ہے۔“

۱۱۶

لہذا،اس حدیث کے معتبر ہونے کے سلسلے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے۔ ابن عسا کر جیسے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں اسے اصحاب کی ایک بڑی تعدادسے نقل کیا ہے۔(۱)

یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ علی علیہ السلام ،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل اور سب سے اعلم نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات اورآپ کی رحلت کے بعد آپ کے جانشین ہیں۔

حدیث اطاعت:

دوسری دلیل جو”اولوالامر“کو علی علیہ السلام پر منتطبق کرنے کی تاکید کرتی ہے،وہ”حدیث اطاعت“ ہے۔یہ حدیث گوناگوں طریقوں سے مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے:

حاکم نیشا پوری نے اپنی کتاب ”المستدرک علی الصحیحین(۲) میں اسے نقل کیا ہے اورذہبی نے ذیل صفحہ تلخیص کرتے ہوئے اس کے صحیح ہو نے کی تائیدکی ہے۔

حدیث کا متن یوں ہے:

قال رسول اللّٰه- ( ص ) من اٴطاعنی فقداطاع اللّٰه ومن عصانی فقد عصی اللّٰه ومن اٴطاع علیّاً فقد اٴطاعنی ومن عصی علیاًفقدعصانی

”پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے خداکی اطاعت کی اور جس نے میری نافرنی)معصیت)کی گویا اس نے خدا کی نافرمانی کی

____________________

۱۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۵،مؤسسة الطبع والنشر

۲۔المستدرک ،ج۳،ص۱۲۱،دارالمعرفة،بیروت

۱۱۷

ہے۔اور جس نے علی (علیہ السلام) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جو نے علی(علیہ السلام) سے نافرمانی کرے گا اس نے مجھ سے نافرمانی کی ہے۔

اس حدیث میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ نے علی علیہ السلام کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے متلازم قراردیا ہے اوراپنی اطاعت کوخدا کی اطاعت سے متلازم جا ناہے۔اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی سے تعبیر کیا ہے اوراپنی نافرمانی کو خدا کی نافرمانی قراردیا ہے۔

یہ حدیث واضح طور پر علی علیہ السلام کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانند واجب الاطاعت ہونے کی دلیل ہے۔اس کا مضمون آیہء شریفہ” اولوالامر“ کے مضمون کی طرح ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اولوالامر کی اطاعت گویا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت ہے۔حقیقت میں یہ حدیث آیہء شریفہء اولی الامر کے حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام پر انطباق کے لئے مفسر ہے۔

اسی طرح یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی عصمت پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اطاعت حکم اورامرپر متفرع ہے کیونکہ جب تک کوئی حکم و امر نہیں ہوگااطاعت موضوع ومعنی نہیں رکھتی ہے اور حکم وامر ارادہ پر مو قو ف ہے،اورارادہ شوق نیزدرک مصلحت در فعل کا معلول ہے۔جب حدیث کے تقاضے کے مطابق علی علیہ السلام کی اطاعت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کے ملازم ،بلکہ اس کا ایک حصہ ہے،تواس کا امر بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امر اور اس کا ارادہ بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ اوراس کا درک مصلحت بھی عین درک مصلحت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا اوریہ حضرت علی علیہ السلام کی عصمت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔

۱۱۸

حدیث ثقلین:

ایک اور دلیل جو آیہ شریفہ”اولوالامر“کو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام (ائمہء معصوم)پرانطباق کی تاکید کرتی ہے،وہ حدیث ثقلین ہے۔یہ حدیث شیعہ وسنی کے نزدیک مسلّم اور قطعی ہے اور بہت سے طریقوں اور اسناد سے احادیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اگر چہ یہ حدیث متعدد مواقع پر مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے ،لیکن اس میں دوجملے مر کزی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ دوجملے حسب ذیل ہیں:

إنی تارک فیکم الثقلین :کتاب اللّٰه وعترتی اهل بیتی ماإن تمسکتم بهما لن تضلّواابداًوإنّهمالن یفترقا حتی یرداعلی الحوض (۱)

”میں تم میں دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں:ایک کتاب خدااور دوسرے میری عترت کہ جواہل بیت (علیہم السلام)ہیں اگر تم انھیں اختیار کئے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثرپرمیرے پاس وارد ہوں گے ۔“

ابن حجر نے اپنی کتاب”الصواق المحر قة(۲) میں اس حدیث کے بارے میں کہاہے:

”ثقلین سے تمسک کرنے کی حدیث کے بارے میں بہت سے طریقے ہیں۔یہ حدیث بیس سے زیادہ اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔

ان طریقوں میں سے بعض میں آیاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے اس وقت مدینہ میں ارشاد فرمایا کہ جب آپبسترعلالت پرتھے اوراصحاب آپ کے حجرئہ مبارک میں اپ کے گرد جمع تھے۔بعض دوسرے طریقوں سے نقل ہواہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے غدیر خم میں بیان فرمایا ہے۔بعض دوسرے منابع میں ایاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے طائف سے واپسی

___________________

۱۔صحیح ترمذی، ج۵، ص۶۲۱۔۶۲۲دارالفکر۔ مسنداحمد، ج۳، ص۱۷و۵۹وج۵، ص۱۸۱و۸۹ ۱دارصادر، بیروت۔مستدرک حاکم ج۳،ص۱۰۹۔۱۱۰،دارالمعرفة،بیروت۔حضائص النسائی ، ص۹۳، مکتبةنینویٰ۔ اس کے علاوہ اس اسلسلہ میں دوسرے بہت سے منا بع کے لئے کتاب اللہ واھل البیت فی حدیث ثقلین“کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

۲۔الصواعق المحرقة،ص۱۵۰،مکتبة القاہرة

۱۱۹

کے موقع پر فرمایاہے۔ان سب روایتوں کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔کیونکہ ممکن ہے قرآن وعترت کی اہمیت کے پیش نظران تمام مواقع اور ان کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہوگا۔

شیعوں کے ایک بہت بڑے عالم،علامہ بحرانی نے اپنی کتاب ”غایةالمرام(۱) میں حدیث ثقلین کو اہل سنت کے ۳۹ طریقوں سے اور شیعوں کے ۸۲ طریقوں سے نقل کیا ہے۔

اس حدیث شریف میں پہلے،امت کوگمراہی سے بچنے کے لئے دوچیزوں)قرآن مجید اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علہیم السلام )سے تمسک اور پیروی کرنے کی تاکید کی گئی ہے، جو اس بات پردلالت ہے کہ اگر ان دونوں کی یاان میں سے کسی ایک کی پیروی نہیں کی گئی تو ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہو نا یقینی ہے اور یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت) علیہم السلام) اور قرآن مجید ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں اورہرگزایک دوسرے سے جد انہیں ہوں گے۔یہ دو جملے واضح طورپر دلالت کرتے ہیں کہ،اہل بیت علیہم السلام ،جن میں سر فہرست حضرت علی علیہ السلام ہیں ،لوگوں کوچاہیئے وہ قرآن مجید کے مانندان سے متمسک رہیں اوران کے اوامر کی اطاعت کر یں ۔اور یہ کہ وہ قرآن مجید سے کبھی جدا نہیں ہوں گے ،واضح طورپر ان کی عصمت کی دلیل ہے،کیونکہ اگروہ گناہ وخطا کے مرتکب ہو تے ہیں تو وہ قرآن مجید سے جدا ہوجائیں گے،جبکہ حدیث ثقلین کے مطابق وہ کبھی قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے۔

شیعہ وسنی منابع میں اولوالامر سے متعلق حدیثیں

آیہء شریفہ”اولوالامر“کے علی علیہ السلام اورآپ (ع)کے گیارہ معصوم فرزندوں )شیعوں کے بارہ اماموں)پرانطباق کی دلائل میں سے ایک اوردلیل،وہ حدیثیں ہیں،جو شیعہ و سنی کی حدیث کی کتابوں میں درج ہوئی ہیں اور اولوالامرکی تفسیر علی)علیہ السلام)،اورآپ(ع)کے بعدآپ(ع)کے گیارہ معصوم اماموں کی صورت میں

____________________

۱۔غا یةالمرام،ج۲،ص۳۶۷۔۳۰۴

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298