تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي20%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167323 / ڈاؤنلوڈ: 4208
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اور جب یہود سے کہا گیا : جو کچھ خاتم الانبیا ء پر نازل کیا گیا ہے اس پرایمان لاؤ،تو انھوں نے کہا : جو کچھ ہم لوگوں پر نازل ہوا ہے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور جو ہم پر نازل نہیں ہوا ہے ہم اس کے منکر ہیں،جب کہ وہ جو کچھ خاتم الانبیاء پر نازل کیا گیا حق ہے اور انبیاء کی کتابوں میں موجود اخبار کی تصدیق اور اثبات کرتا ہے یعنی وہ اخبار جو بعثت خاتم الانبیاء سے متعلق ہیں اوران کے پاس ہیں،اے پیغمبر!ان سے کہہ دو! اگر تم لوگ خود کو مومن خیال کرتے ہو تو پھر کیوں اس سے پہلے آنے والے انبیاء کو قتل کر ڈالا ؟ کس طرح کہتے ہو کے جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اس پر ہم ایمان لائے ہیں جب کہ حضرت موسیٰ روشن علامتوںاور آیات کے ساتھ تمہارے پاس آئے اور تم لوگ خدا پر ایمان لانے کے بجائے گوسالہ پرست ہوگئے؟! اس وقت بھی خدا وندعالم نے جس طرح حضرت موسیٰ پر روشن آیات نازل کی تھیں اسی طرح خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی نازل کی ہیں اور بجز کافروں کے اس کا کوئی منکر نہیں ہوگا۔

اگر یہود ایمان لے آئیں اور خدا سے خوف کھائیں یقینا خدا انھیں جزا دے گا ،لیکن کیا فائدہ کہ اہل کتاب کے کفار اور مشرکین کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم مسلمانوںپر کسی قسم کی کوئی آسمانی خبر یا کتاب نازل ہو،جب کہ خدا وندعالم جسے چاہے اپنی رحمت سے مخصوص کر دے ۔

خدا وندعالم اگر کوئی حکم نسخ کرے یااسے تاخیر میں ڈالے تو اس سے بہتر یا اس کے مانند لے آتا ہے خدا ہر چیز پر قادر اور توانا ہے۔بہت سارے اہل کتاب اس وجہ سے کہ وحی الٰہی بنی اسرائیل کے علاوہ پر نازل ہوئی ہے حاسدانہ طور پر یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں خاتم الانبیاء پر ایمان لانے کے بجائے کفر کی طرف پھیر دیںاور ایسااس حال میں ہے کہ حق ان پر روشن اور آشکار ہو چکاہے!یہ تم لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں نہیں جائے گا یعنی تم لوگ اپنے اسلام کے باوجودبہشت سے محروم رہو گے؛کہو: اپنی دلیل پیش کرو !البتہ جو بھی اسلام لے آئے اور نیک اور اچھا عمل انجا م د ے اسکی جزا خدا کے یہاں محفوظ ہے اور یہود ونصاری تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے مگر یہ کہ تم ان کے دین کا اتباع کرو۔

اُس کے بعد یہود کومخاطب کر کے فرمایا :اے بنی اسرائیل ؛جن نعمتوں کو ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور تم لوگوں کو تمہارے زمانے کے لوگوں پر فضیلت وبرتری دی ہے اسے یاد کرو اور روز قیامت سے ڈرو۔

اس کے بعد یہود اور پیغمبر کے درمیان نزاع ودشمنی وعداوت کا سبب اور اس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ہم بیت المقدس سے تحویل قبلہ کے سلسلے میں آسمان کی طرف تمہاری انتظار آمیز نگاہوں سے باخبر ہیں ابھی اس قبلہ کی طرف تمھیں لوٹا دیں گے جس سے تم راضی وخوشنود ہوجاؤگے۔

۴۱

(اے رسول! )تم جہاں کہیں بھی ہو اور تمام مسلمان اپنے رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیں اہل کتاب،یہود جو تم سے دشمنی کرتے ہیں اور نصاریٰ یہ سب خوب اچھی طرح جانتے ہیں قبلہ کا کعبہ کی طرف موڑنا حق اور خدا وندکی جانب سے ہے اور تم جب بھی کوئی آیت یا دلیل پیش کرو تمہاری بات نہیں مانیں گے اور تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔

عنقریب بیوقوف کہیںگے : انھیں کونسی چیز نے سابق قبلہ بیت المقدس سے روک دیا ہے؟کہوحکم ،حکم خدا ہے مشرق و مغرب سب اسکا ہے جسے چاہتا ہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے، بیت المقدس کو اس کا قبلہ بنا نا اور پھر مکّہ کی طرف موڑنا لوگوں کے امتحان کی خاطر تھا مکّہ والوں کو کعبہ سے بیت المقدس کی طرف اور یہود کو مدینہ میں بیت المقدس سے کعبہ کی طرف موڑ کر امتحان کرتا ہے تا کہ ظاہر ہو جائے کہ آیایہ جاننے کے بعد بھی کہ یہ موضوع حق اور خدا وندعالم کی جانب سے ہے اپنے قومی وقبائلی اور اسرائیلی تعصب سے باز آتے ہیں یا نہیں اور بیت المقدس سے کعبہ کی طرف رخ کرتے ہیں یا نہیں اوراس گروہ کا امتحان اس وجہ سے ہوا تاکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والے ان لوگوں سے جو جاہلیت کی طرف پھرجائیں گے مشخص اور ممتاز ہوجائیں ،انکی نمازیں جو اس سے قبل بیت المقدس کی طرف پڑھی ہیں خدا کے نزدیک برباد نہیں ہوں گی۔

اس طرح واضح ہوجاتا ہے کہ تبدیلی آیت سے مراد ،جس کا ذکر سورۂ نحل کی مکی آیات میں قریش کی نزاع اور اختلاف کے ذکر کے تحت آیا ہے، خدا کی جانب سے ایک حکم کا دوسرے حکم سے تبدیل ہوناہے، اس نزاع کی تفصیل سورۂ انعام کی ۱۳۸تا۱۴۶ویں آیات میں آئی ہے۔

اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ (یہود مدینہ کی داستان میں ) نسخ آیت اور اس کی مدت کے خاتمہ سے مقصود و مراد موسیٰ کی شریعت میں نسخ حکم یا ایک خاص شریعت کی مدت کا ختم ہونا ہے ( اس حکمت کی بنا ء پر جسے خدا جانتا ہے)

راغب اصفہانی نے لفظ (آیت) کی تفسیر میں صحیح راستہ اختیار کیاہے وہ فرماتے ہیں :کوئی بھی جملہ جو کسی حکم پر دلالت کرتا ہے آیت ہے، چاہے وہ ایک کامل سورہ ہو یا ایک سورہ کا بعض حصّہ ( سورہ میں آیت کے معنی کے اعتبار سے)یااس کے چند حصّے ہوں ۔

لہٰذا مذکورہ دوآیتوں میں ایک آیت کودوسری آیت سے تبدیل کرنے اور آیت کے نسخ اور اس کے تاخیر میں ڈالنے سے مراد یہی ہے کہ جس کا تذ کرہ ہم نے کیا ہے ، اب آئندہ بحث میں حضرت موسیٰ کی شریعت میں نسخ کی حیثیت اور اس کی حکمت ( خدا کی اجازت اور توفیق سے ) تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

۴۲

۴

حضرت موسیٰ ـ کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص ہے

حضرت موسیٰ کی شریعت جس کا تذکرہ توریت میں آیا ہے بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،جیسا کہ سفرتثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں آیا ہے:

''موسیٰ نے ہم کو ایک ایسی سنت کا حکم دیا ہے جو کہ جما عت یعقوب کی میراث ہے''

یعنی موسیٰ نے ہمیں ایک ایسی شریعت کا حکم دیا ہے جو کہ جماعت یعقوب یعنی بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،گزشتہ آیات میں بھی اس خصوصیت کا ذکر ہوا ہے ،آئندہ بحث میں انشاء ﷲ امر نسخ کی بسط وتفصیل کے ساتھ تحقیق و بررسی کریں گے۔

حضرت موسیٰ ـکی شریعت میں نسخ کی حقیقت

اس بحث میں ہم سب سے پہلے قرآن سے( زمانے کے تسلسل کا لحاظ کر تے ہو ئے )بنی اسرائیل کی داستان کا آغا ز کر یں گے، پھر ان کی شریعت میں نسخ کے مسئلہ کو بیان کریں گے ۔

۴۳

اوّل:بنی اسرائیل کو نعمت خدا وندی کی یاد دہانی

۱۔خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:( یا بنی اسرائیل أذکر وانعمتی التی أنعمت علیکم و أنی فضّلتکم علی العالمین..و اِذ نجّینا کم من آل فرعون یسومو نکم سوء العذاب یذ بحون أبناء کم و یستحیون نساء کم و فی ذلکم بلاء من ربکم عظیم) (و أذفرقنا بکم البحر فانجیناکم وأغرقنا آل فرعون و ٔنتم تنظرون و أذ واعدناموسیٰ أربعین لیلة ثم ٔاتخذتم العجل من بعده و أنتم ظالمون ) ( ۱ )

اے بنی اسرائیل! جو نعمتیںہم نے تم پر نازل کی ہیں انھیں یاد کرو اور یہ کہ ہم نے تم کو عالمین پر برتری اور فضیلت دی ہے...اورجب ہم نے تم کو فرعونیوں کے خونخوارچنگل سے آزادی دلائی وہ لوگ تمہیں بری طرح شکنجہ میں ڈالے ہوئے تھے تمہارے فرزندوں کے سر اڑا دیتے اور تمہاری عورتوں کوزندہ رکھتے تھے اس میں تمہارے لئے تمہارے رب کی طرف سے عظیم امتحان تھا اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو شگاف کیا اور تمھیں نجات دی اور فرعونیوں کوغرق کر ڈالا ،درانحالیکہ یہ سب کچھ تم اپنی آنکھوںسے دیکھ رہے تھے اور جب موسیٰ کے ساتھ چالیس شب کا وعدہ کیا پھر تم لوگوں نے اس کے بعد گو سالہ کا انتخاب کیا جب کہ تم لوگ ظالم وستم گر تھے۔

۲۔سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:( وجاوزنا ببنی اسرائیل البحر فاتوا علی قوم یعکفون علیٰ أصنام لهم قالوا یا موسیٰ اجعل لنا اِلٰهاً کما لهم آلهة قال انکم قوم تجهلون ) ( ۲ )

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کرایا راستے میں ایسے گروہ سے ملاقات ہوئی جو خضوع خشوع کے ساتھ اپنے بتوں کے ارد گرد اکٹھا تھے، تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ !ہمارے لئے بھی ان کے خداؤں کے مانند کوئی خدا بنا دو ،انہوں نے فرمایا:سچ ہے تم لوگ ایک نادان اور جاہل قوم ہو۔

۳۔ سورۂ طہ میں ارشاد ہوتا ہے:( و اضلّهم السامری فکذٰلک القی السّامریفاخرج لهم عجلًا جسداً له خوار فقالو هذا اِلهکم واِلٰه موسیٰ و لقد قال لهم هارو ن من قبل یا قوم اِنّما فتنتم به و اِنَّ ربّکم الرحمن فا تبعونی وأَطیعوا أَمریقالو لن نبرح علیه عاکفین حتّیٰ یرجع اِلینا موسیٰ )

اورسامری نے انھیں گمراہ کر دیا ...اور سامری نے اس طرح ان کے اندر القاء کیا اور ان کے لئے گوسالہ کا ایسا مجسمہ جس میں سے گو سالہ کی آواز آتی تھی بنادیا تو ان سب نے کہا :یہ تمہارا اورموسیٰ کا خداہے... اور اس سے پہلے ہارون نے ان سے کہا : اے میری قوم والو! تم لوگ اس کی وجہ سے امتحان میں مبتلا ہو گئے ہو ، تمہارا رب خدا وند رحمان ہے میری پیروی کرو اور میرے حکم و فرمان کی اطاعت کرو ، کہنے لگے :

____________________

(۱)بقرہ۴۷،۴۹،۵۰،۵۱(۲) اعراف۱۳۸

۴۴

ہم اسی طرح اس کے پابند ہیں یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف لوٹ کر آ جائیں۔( ۱ )

۴۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا :

( واِذْ قال موسیٰ لقومه یا قوم أنّکم ظلمتم انفسکم باتّخاذکم العجل فتو بوا ألی بارئکم فاقتلوا أنفسکم ذلکم خیر لکم عند بارئکم فتاب علیکم أنّه هو التوّاب الرّحیم ) ( ۲ )

اُس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم !تم نے گوسا لہ کا انتخاب کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ہے لہٰذا تو بہ کرو اور اپنے خالق کی طرف لوٹ آؤ اور اپنے نفسوں کو قتل کر ڈالو کیونکہ یہ کام تمہارے ربّ کے نزدیک بہتر ہے پھر خدا وند عالم نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

دوم : توریت اور اس کے بعض احکام :

۱۔ خدا وند عالم سورہ ٔ بقرہ میں فرماتا ہے :

( واِذ أخذنا میثاقکم و رفعنا فوقکم الطّور خذوا ما آتینا کم بقوّة و اذ کروا ما فیه لعلّکم تتقون ) ( ۳ )

اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد و پیمان لیا اور کوہِ طور کو تمہارے او پر قرار دیا ( اور تم سے کہا) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے ا سے محکم طریقے سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔ سورۂ اسراء میں ارشاد ہوتا ہے:

( وآتینا موسیٰ الکتاب وجعلناه هُدیً لبنی اسرائیل.. ) .)( ۴ )

اورہم نے موسیٰ کو آسمانی کتاب عطا کی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا وسیلہ قرار دیا ۔

۳۔سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

( کلّ الطعام کان حلًا لبنی اسرائیل اِلّا ما حرم اسرائیل علیٰ نفسه من قبل أن تنزّل التوراة... ) ( ۵ )

کھانے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں جزان اشیاء کے جنہیںخوداسرائیل (یعقوب)

____________________

(۱)طہ ۸۵ ،۹۱ .(۲)بقرہ ۵۴ (۳)بقرہ ۶۳،اس مضمون سے ملتی جلتی آیتیں سورہ بقرہ کی ۹۳ ویں آیت اور سورئہ اعراف کی ۱۷۱ویں آیت میں بھی آئی ہیں )

(۴)اسرائ۲ (۵)آل عمران ۹۳

۴۵

نے توریت کے نزول سے پہلے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔

۴۔ سورۂ انعام میں فرمایا :

( و ماعلی الذین هادوا حرّمنا کلّ ذی ظفر من البقر و الغنم حرّمنا علیهم شحومهما الا ماحملت ظهور هما أو الحوایا أو ما اختلط بعظم ذلک جزیناهم ببغیهم و انّا لصاد قون ) ( ۱ )

یہودیوں پر ہم نے تمام ناخن دار حیو ا نوں کو حرام کیا ، گائے اورگوسفند سے ا ن کی چربی ان پر حرام کی جزاس چربی کے جو ان کی پشت پر ہو یا جو پہلو میں ہو یا جو ہڈیوں سے متصل اورمخلوط ہو یہ ان کی بغاوت و سرکشی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے انھیں اور سزا کا مستحق قرار دیا اور ہم سچ کہتے ہیں۔

۵۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و علٰی الذین هادوا حرّمنا ما قصصنا علیک من قبل و ما ظلمنا هم و لکن کانوا أنفسهم یظلمون ) ( ۲ )

اورہم نے جن چیزوں کی اس سے پہلے تمہارئے لئے تفصیل بیان کی ہے ،ان چیزوں کویہود پر حرام کیا؛ ہم نے ان پر ظلم و ستم نہیں کیا ،بلکہ ان لوگوں نے خود اپنے نفوس پر ظلم کیا ہے۔

۶۔سورۂ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَسَْلُکَ َهْلُ الْکِتَابِ َنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ کِتَابًا مِنْ السَّمَائِ فَقَدْ سََلُوا مُوسَی َکْبَرَ مِنْ ذَلِکَ فَقَالُوا َرِنَا ﷲ جَهْرَةً فَعَفَوْنَا عَنْ ذَلِکَ... (۱۵۳) وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمْ الطُّورَ بِمِیثَاقِهِم.... وَقُلْنَا لَهُمْ لاَتَعْدُوا فِی السَّبْتِ وََخَذْنَا مِنْهُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا (۱۵۴) فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُمْ وَکُفْرِهِمْ بِآیَاتِ ﷲ وَقَتْلِهِمْ الَْنْبِیَائَ (۱۵۵) وَبِکُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَی مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًا (۱۵۶) فَبِظُلْمٍ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبَاتٍ ُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیلِ ﷲ کَثِیرًا (۱۶۰) وََخْذِهِمْ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وََکْلِهِمْ َمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ.... ) ( ۳ )

اہل کتاب تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو ؛ انھوں نے توحضرت موسیٰ سے اس سے بھی بڑی چیز کی خواہش کی تھی اور کہا تھا : خدا کو واضح اور آشکار طور سے ہمیں دکھا ؤ لیکن ہم نے انھیں در گزر کر دیا ...اور ہم نے ان کے عہد کی خلاف ورزی کی بنا پر ان کے سروں پر کوہ طور کو بلند کردیا

____________________

(۱)انعام ۱۴۶(۲)نحل ۱۱۸

(۳)نسائ۱۵۴۱۵۳ ۱۵۶۱۵۵ ۱۶۱۱۶۰.

۴۶

اوران سے کہا :سنیچر کے دن تجاوز اور تعدی نہ کرو اوران سے محکم عہد و پیمان لیا ،ان کی پیمان شکنی ،آیات خداوندی کا انکار ،پیغمبروں کے قتل اور ان کے کفر کی وجہ سے نیزاس عظیم تہمت کی وجہ سے جو حضرت مریم پر لگائی، نیزاس ظلم کی وجہ سے جو یہود سے صادر ہوا اور بہت سارے لوگوں کو راہ راست سے روکنے کی وجہ سے بعض پاکیزہ چیزوں کو جو ان پرحلال تھیںان کے لئے ہم نے حرام کر دیا اور ربا اور سود خوری کی وجہ سے جب کہ اس سے ممانعت کی گئی تھی اور لوگوں کے اموال کو باطل انداز سے خرد برد کرنے کی بنا پر ۔

۷۔ سورۂ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:

( و سئلهم عن القرية التی کانت حاضرة البحراذ یعدون فی السبت اِذ تأ تیهم حیتانهم یوم سبتهم شُرّعاً ویوما لایسبتون لاتاتیهم کذٰلک نبلوهم بما کانوایفسقون ) ( ۱ )

دریا کے ساحل پر واقع ایک شہر کے بارے میں ان سے سوال کرو ؛ جب کہ سنیچر کے دن تجاوزکرتے تھے،اس وقت سنیچر کو دریا کی مچھلیاں ان پر ظاہر ہو جاتی تھیں اوراس کے علاوہ دوسرے دنوںمیں اس طرح ظاہر نہیں ہو تی تھیں ، اس طرح سے ہم نے ان کا اس چیز سے امتحان لیا جس کے نتیجہ میں وہ نافرمانی کرتے تھے ۔

۸۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہو تا ہے:

( انّما جعل السبت علی الذین اختلفو فیه ) ( ۲ )

سنیچر کا دن صرف اور صرف ان کے مجازات اور سزا کے عنوان سے تھاان لوگوں کے لئے جو اس میں اختلاف کرتے تھے۔

سوم:خدا وند عالم کی بنی اسرائیل پر نعمتیں اور ان کی سرکشی و نا فرمانی

۱۔خدا وند عالم سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَقَطَّعْنَاهُمْ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ َسْبَاطًا ُمَمًا وََوْحَیْنَا ِلَی مُوسَی ِذْ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ َنْ اضْرِب بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ ُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمْ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْهِمْ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ (۱۶۰) وَِذْ قِیلَ لَهُمْ اسْکُنُوا هَذِهِ الْقَرْیَةَ وَکُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّة

____________________

(۱)اعراف ۱۶۳۔بقرہ ۶۵۔ نساء ۴۸، ۱۵۴.(۲)نحل ۱۲۴

۴۷

وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَکُمْ خَطِیئَاتِکُمْ سَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ (۱۶۱) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِنْ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَظْلِمُونَ ) ( ۱ )

اورہم نے بنی اسرائیل کو ایک نسل کے بارہ قبیلوں میں تقسیم کر دیا اور جب موسیٰ کی قوم نے ان سے پانی طلب کیا تو ان کو ہم نے وحی کی : اپنے عصا کو پتھر پر مارو! اچا نک اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اس طرح سے کہ ہر گروہ اپنے گھاٹ کو پہچانتا تھا اور بادل کوان پر سائبان۔قرار دیا اوران کے لئے من وسلویٰ بھیجا( اور ہم نے کہا) جو تمھیں پاکیزہ رزق دیا ہے اسے کھاؤ انھوں نے ہم پر ستم نہیں کیا ہے بلکہ خود پر ستم کیاہے اور جس وقت ان سے کہا گیا : اس شہر (بیت المقدس ) میں سکونت اختیار کرو اور جہاں سے چاہو وہاں سے کھاؤ اور کہو: خدایا ہمارے گناہوں کو بخش دے! اوراس در سے تواضع و انکساری کے ساتھ داخل ہو جاؤتا کہ تمہارے گناہوں کو ہم بخش دیں اور نیکو کاروں کو اس سے بڑھ کر جزا دیں،لیکن ان ستمگروں نے جوان سے کہا گیا تھا اس کے علاوہ بات کہی یعنی اس میں تبدیلی کردی اور ہم نے اس وجہ سے کہ وہ مسلسل ظالم و ستمگر رہے ہیںان کے لئے آسمان سے بلا نازل کردی ہے۔

۱۔سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا:

( وَاِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ عَلَیْکُمْ ِذْ جَعَلَ فِیکُمْ َنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ َحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ (۲۰) یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الَْرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ ﷲ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی َدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِینَ (۲۱) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنَّا دَاخِلُونَ (۲۲) قَالَ رَجُلاَنِ مِنْ الَّذِینَ یَخَافُونَ َنْعَمَ ﷲ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمْ الْبَابَ فَِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی ﷲ فَتَوَکَّلُوا ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ (۲۳) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا َبَدًا مَا دَامُوا فِیهَا فَاذْهَبْ َنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (۲۴) قَالَ رَبِّ ِنِّی لاََمْلِکُ ِلاَّ نَفْسِی وََخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ (۲۵) قَالَ فَِنَّهَا مُحَرَّمَة عَلَیْهِمْ َرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیهُونَ فِی الْاَرْضِ فَلاَتَْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ )

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم! اپنے اوپرﷲ کی نعمتوں کو یاد کرو، جبکہ اس نے تمہارے درمیان پیغمبروں کو بھیجا اور تمھیں حاکم بنایا اور تمہیں ایسی چیزیں عطا کیں کہ دنیا والوں میں کسی کو

____________________

(۱)اعراف ۱۶۰، ۱۶۲

۴۸

ویسی نہیں دی ہیں، اے میری قوم! مقدس سر زمین میں جسے خدا وند عالم نے تمہارے لئے مقر ر کیا ہے داخل ہو جاؤ اور الٹے پاؤں واپس نہ ہونا ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے ،ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہاں ستمگر لوگ رہتے ہیں، ہم وہاں ہر گز نہیں جائیں گے جب تک کہ وہ وہاں سے نکل نہیں جاتے اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہو جائیں گے ، خدا ترس دومردوں نے جن پر خدا نے نعمت نازل کی تھی کہا:تم لوگ ان کے پاس شہر کے دروازہ سے داخل ہو جاؤ اگر تم دروازہ میں داخل ہوگئے تو یقیناً ان پر کامیاب ہو جاؤ گے اورا گرایمان رکھتے ہو تو خدا پر بھروسہ کرو ، ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہ لوگ جب تک وہاں ہیں ہم لوگ ہرگز داخل نہیں ہوں گے ! تم اور تمہارا رب جائے اوران سے جنگ کرے ہم یہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں، کہا: پروردگارا! میں صرف اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں، میرے اور اس گنا ہ گار جماعت کے درمیان جدائی کر دے،فرمایا :یہ سرزمین ان کے لئے چالیس سال تک کے لئے ممنوع ہے وہ لوگ ہمیشہ سرگرداںاور پریشان رہیں گے اور تم اس گناہ گار قوم پر غمگین مت ہو۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔''اسرائیل'': یعقوب،آپ ابراہیم خلیل ﷲ کے فرزند حضرت اسحق کے بیٹے ہیں،ان کا لقب اسرائیل ہے بنی اسرائیل ان ہی کی نسل ہے جوان کے بارہ بیٹوں سے ہے۔

۲۔'' یسومونکم'': تمکو عذاب دیتے تھے، رسوا کن عذاب ۔

۳۔''یستحیون'': زندہ رکھتے تھے۔

۴۔''یعکفون'': خاضعانہ طور پر عبادت کرتے تھے، پابندتھے ۔

۵۔''خوار'' : گائے اور بھیڑ کی آواز ۔

۶ ۔''لن نبرح'': ہم ہرگز جدا نہیں ہوں گے، آگے نہ بڑھیں گے ۔

۷۔''فتنتم'':تمھارا امتحان لیا گیا، آزمائش خدا وندی ، بندوں کے امتحان کے لئے ہے اور ابلیس اور لوگوں کا فتنہ ، گمراہی اور زحمت میں ڈالنے کے معنی میں ہے، خدا وند عالم نے لوگوں کو فتنہ ابلیس سے خبردار کیا ہے اور فرمایا ہے:

____________________

(۱) مائدہ۲۰، ۲۶

۴۹

( یا بنی آدم لا یفتنّنکم الشیطان )

اے آدم کے بیٹو!کہیں شیطان تمھیں فتنہ اور فریب میں مبتلا نہ کرے: اور لوگوں کے فتنہ کے بارے میں فرمایا:

( اِنّ الذّین فتنوا المومنین و المومنات ثّم لم یتوبوا فلهم عذاب جهنم و لهم عذاب الحریق )

بیشک جن لوگوں نے با ایمان مردوں اور عورتوں کو زحمتوں میں مبتلا کیا ہے پھر انھوں نے توبہ نہیں کی ان کیلئے جہنم کا عذاب اور جھلسا دینے والی آگ کا عذاب ہے۔

۸۔'' باری'': خالق اور ہستی عطا کرنے والا

۹۔ ''أسباطاً'' : اسباط یہاں پر قبیلہ اور خاندان کے معنی میں ہے۔

۱۰۔''فا نبجست'': ابلنے لگا ، پھوٹ پڑا ۔

۱۱۔''المن والسلوی''ٰ:المن؛جامد شہد کے مانند چپکنے والی اور شیریں ایک چیز ہے اور السلوی ؛ بٹیر،ایساپرندہ جس کا شمار بحر ابیض کے پرندوں میں ہوتا ہے ، جو موسم سرما میں مصر اور سوڈان کی طرف ہجرت اختیار کرتا ہے۔

۱۲۔''حِطّة'': ہمارے گناہ کو جھاڑ دے،دھو دے، ہمارے بوجھ کو ہلکا کردے۔

۱۳۔''رفعنا'': ہم نے بلند کیا ، رفعت عطا کی۔

۱۴۔''میثاقکم'': تمہارا عہد و پیمان ، میثاق : ایسا عہد وپیمان جس کی تاکید کی گئی ہو، عہد وپیمان کا پابند ہونا۔

۱۵۔''رجز'': عذاب ، رجز الشیطان... اس کا وسوسہ۔

۱۶۔''یتیھون'': حیران و پریشان ہوتے ہیں ،راستہ بھول جاتے ہیں۔

۱۷۔''لا تأس'': غمز دہ نہ ہو، افسوس نہ کرو۔

۱۸۔''لا تعدوا'': تجاوز نہ کرو ،ظلم وستم نہ کرو۔

۱۹۔''میثاقاً غلیظاً'': محکم و مظبوط عہد و پیمان ۔

۲۰۔''الحوایا'': آنتیں

۲۱۔''شرعًّا'': آشکار اور نزدیک۔

۲۲۔جعل لھم: ان کے لئیقانون گزاری کی، قانون مقرر و معین کیا۔

۵۰

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل سے فرما یا :اُن نعمتوںکو یاد کرو جو ہم نے تمہیں دی ہیں اور تمہارے درمیان پیغمبروں اور حکّام کو قرار دیا نیز من وسلویٰ جیسی نعمت جو کہ دنیا میں کسی کو نہیں د ی ہے تمہیںدی ، خدا وند سبحان نے انھیں فرعون کی غلامی، اولاد کے قتل اور عورتوں کو کنیزی میں زندہ رکھنے کی ذلت سے نجات دی،فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کر دیا اور انہیں دریا سے عبور کرا دیا، اس کے باوجود جب انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ بتوں کی عبادت اورپوجا میں مشغول ہیں ، تو موسیٰ سے کہا : ہمارے لئے بھی انہی کے مشابہ اور مانند خدا بنادو تاکہ ہم اس کی عبادت اور پرستش کریں ! اور جب حضرت موسیٰ کوہِ طور پر توریت لینے گئے تو یہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے اور جب موسیٰ نے انھیں حکم دیا کہ اس مقدس سر زمین میں داخل ہو جائیںجو خدا نے ان کے لئے مقرر کی ہے تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ ! وہاں ظالم اور قدرت مند گروہ (عمالقہ )ہے جب تک وہ لوگ وہاں سے خارج نہیں ہوں گے ہم وہاں داخل نہیں ہوسکتے''یشوع'' یا ''یسع'' اور ان کی دوسری فرد نے ان سے کہا : شہر میں داخل ہو جاؤ بہت جلدی کا میاب ہو جاؤ گے،تو انھوں نے سر کشی اور نا فرمانی کی اور بولے:اے موسیٰ تم اور تمہارا رب جائے اور عمالقہ سے جنگ کرے ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں! موسیٰ نے کہا : پروردگارا ! میں صرف اپنے اور اپنے بھا ئی کا مالک و مختار ہوں میرے اور اس گناہ گار قوم کے درمیان جدائی کردے! خداوند سبحان نے فرمایا : یہ مقدس اور پاکیزہ سر زمین ان لوگوں پرچالیس سال تک کے لئے حرام کر دی گئی ہے اتنی مدت یہ لوگ سینا نامی صحرا میں حیران و سرگرداں پھر تے رہیں گے تم ان گناہ گاروں کی خاطر غمگین نہ ہو۔

خدا وندعالم ان لوگوں کے بارے میں سورۂ اعراف میں فرماتا ہے : بنی اسرائیل کو بارہ خاندان اور قبیلوں میں تقسیم کیا اورانہوں نے جب موسیٰ سے پانی طلب کیا تو ہم نے موسی پر وحی کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، اُس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑ ے ہر قبیلہ کے لئے ایک چشمہ، نیزبادل کو ان کے سروں پر سایہ فگن کر دیا تاکہ خورشید کی حرارت وگرمی سے محفوظ رہیں ،شہد کے مانند شرینی اور پرندہ کا گوشت ان کے کھانے کے لئے فراہم کیا، پھر کچھ مسافت طے کرنے کے بعدان سے کہا گیا : اس شہر میں جو کہ تمہارے رو برو ہے سکونت اختیار کرو اور اس کے محصولات سے کھاؤ

۵۱

اور شہر کے دروازے سے داخل ہوتے وقت خدا کا شکر ادا کرو اور اس کا سجدہ ادا کرتے ہوئے کہو !''حطة'' یعنی خدا وندا ! ہمارے گناہوں کو بخش دے ستمگروں نے اس لفظ کو بدل ڈا لا اور ''حطة''کے بجائے''حنطة''کہنے لگے ،( ۱ ) یعنی ہم گندم ( گیہوں ) کے سراغ میں ہیں! خداوندعالم نے ان کے اس اعمال کے سبب آسمان سے عذاب نازل فرمایا۔

خدا وند عالم نے سورۂ نساء میں فرمایا: اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! تم سے اہل کتاب کی خوا ہش ہے کہ تم کوئی کتاب ان کے لئے آسمان سے نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھلادو تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گناہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کو ان کے اوپر جگہ دی۔

اسرائیل(یعقوب) کی پسندیدہ اور مرغو ب ترین غذا دودھ ا وراونٹ کا گوشت تھی ، یعقوب ایک طرح کی بیماری میں مبتلا ہوئے اورخدا نے انھیں شفا بخشی ،تو انھوں نے بھی خدا وند عالم کے شکرانے کے طور پر محبوب ترین کھانے اور پینے کی چیزوں کو جیسے دودھ اور اونٹ کا گوشت وغیرہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور اسی طرح انھوں نے جگر اور گردے کی مخصوص چربی نیز دیگر چربی کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیا کیونکہ اس چربی کو ماضی میں قر بانی کے لئے لے جاتے تھے اور آگ اسے کھا جاتی تھی ۔( ۲ )

قوم یہود کا خدا سے جو عہد وپیمان تھا منجملہ ان کے ایک یہ تھا کہ جن کے مبعوث ہونے کی موسیٰ ابن عمران نے بشارت دی ہے یعنی حضرت عیسیٰ اور حضرت خاتم الا نبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت،ان پر ایمان لائیں، اس بشارت کو اس سے پہلے ہم نے توریت کے سفر تثنیہ سے نقل کیا ہے۔

احکام کے بارے میں بھی انھوں نے عہد وپیمان کیا کہ شنبہ یعنی سنیچر کے دن تجاوز نہیں کریںگے ( کام کاج چھوڑ دیں گے ) خدا نے اس سلسلے میں محکم اور مضبوط عہد وپیمان لیا تھا،ان لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد وپیمان کو توڑ ڈالا اورآیات خدا وندی کا انکار کر گئے اور پاک وپاکیزہ خاتون مریم پر عظیم بہتان

____________________

(۱)آیت کی تفسیر کے ذیل میں بحارالا نوار اور مجمع البیان میں اسی طرح مذکور ہے

(۲ ) سیرئہ ابن ہشام ،طبع حجازی قاہرہ ، ج۲ ، ص ۱۶۸ ،۱۶۹ جو کچھ ہم نے متن میں ذکر کیا ہے تفسیر طبری اور سیوطی سے ماخوذ ہے میرے خیال میں جو کچھ سیرئہ ہشام میں ہے وہ متن میں مذکور عبارت سے زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے

۵۲

باندھا اور زبر دست الزام لگایا اسی لئے تو خدا وند عالم نے تادیب کے عنوان سے بہت سی پاکیزہ چیزوں کو جو ان پر حلال تھیں حرام کردیا اورجب وہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے تو انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں یعنی جس نے بھی گوسالہ پر ایمان نہیں رکھا گوسالہ پرستوں قتل کرے اسی طرح جب یہ لوگ خدا پر ایمان لانے سے مانع ہوئے اور سود کا معاملہ کرنے لگے اور سود کھانے لگے ، باوجود یکہ سود (ربا ) سے انھیں منع کیا گیا تھا تواُن پر حلال اورپاکیزہ چیزیں بھی حرام کردی گئیں۔

ان کی دوسری مخالفت اس پیمان کا توڑنا تھا جو انھوں نے خدا سے کیا تھا کہ شنبہ کے دن مچھلی کا شکار نہیں کریںگے اوراس کے لئے انھیں سخت تاکید کی گئی تھی ،سنیچر کے دن مچھلیاںساحل کے کنارے سطح آب پر آجاتی تھیں لیکن دیگر ایام میں ایسا نہیں کرتی تھیں اور یہ ان کا مخصوص امتحان تھا سنیچر کے دن چھٹی کرنا صرف اور صرف بنی اسرائیل سے مخصوص تھا ،وہی لوگ کہ جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا، اس امتحان میں گرفتار ہوئے۔

خدا وندعالم سورۂ نساء میں فرماتا ہے:

اہل کتاب یہودی تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے لئے آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کر چکے ہیںکہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھاؤ تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گنا ہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کوان کے سروں پر لٹکادیا اوران سے سخت اور محکم عہد و پیمان لیا کہ جو کچھ موسیٰ ابن عمران ان کے لئے لائے ہیںاس پر ایمان لاکر عمل کریں گے ، ہمارے پیمان کا بعض حصّہ خدا کے پیغمبر بالخصوص حضرت عیسیٰ ابن مریم اورمحمد ابن عبد ﷲ پر ایمان لانا تھا ، لیکن ان لوگوں نے مریم عذرا پر نا روا تہمت لگائی اور توریت کے احکام کو کذب پر محمول کیا ، خدا کے نبیوں کا انکار کیا اور بہت سوں کو قتل کر ڈالا اور راہ خدا سے روکا ، سود لیا، لوگوں کے اموال کو ناجائز طور پر خورد و برد کیا تو ہم نے بھی ان تمام ظلم و ستم کے باعث ان پاکیزہ چیزوں کو جو اس سے پہلے ان کے لئے حلال تھیں حرام کردیا، ان پر حرام ہونے والی اشیاء میں سنیچر کے دن ساحل پر رہنے والوں کے لئے مچھلی کا شکار کرنا بھی تھا جہاں اس دن مچھلیاں آشکار طور پران سے نزدیک ہو جاتی تھیں اور خود نمائی کرتی تھیں۔

۵۳

بحث کا نتیجہ

خدا وندعالم نے بنی اسرائیل کو مصر کے ''فرعونیوں '' اور شام کے''عمالقہ'' اور اس عصر کی تمام ملتوں پر فضیلت اور برتری دی تھی بہت سے انبیاء جیسے موسیٰ ، ہارون ،عیسیٰ اور ان کے اوصیاء کوان کے درمیان مبعوث کیا اوراس سے بھی اہم یہ کہ توریت ان پر نازل کی ، ان سے سخت اور محکم پیمان لیا تا کہ جو کچھ ان کی کتابوں میں مذکور ہے اس پر عمل کریں ،''من وسلویٰ'' جیسی نعمت کا نزول ، پتھر سے ان کے لئے پانی کا چشمہ جاری کرنا وغیرہ وغیرہ نعمتوںسے سرفرازفرمایا، لیکن ان لوگوں نے تمام نعمتوں کے باوجودآیات الٰہی کا انکار کیا اور گوسالہ کے پجاری ہو گئے، سود لیا ،لوگوں کے اموال ناجائز طورپر کھائے اور اس کے علاوہ ہر طرح کی نافرمانی اور طغیانی کی، ایسے لوگوں کے اپنے آلودہ نفوس کی تربیت کی سخت ضرورت تھی اس لئے خدا وند عالم نے ان پر خود کو قتل کرنا واجب قرار دیا نیز سنیچر کے دن دنیاوی امور کی انجام دہی ان پر حرام کردی ،لیکن ان لوگوں نے سنیچر کے دن ترک عمل پر اختلاف کیا ، جیسا کہ اس ساحلی شہر کے لوگوں نے بھی اس سلسلے میں حیلے( ۱ ) اور بہانے سے کام لیا !خدا وندسبحان نے ان چیزوں کو جو کچھ اسرائیل نے اپنے او پر حرام کیا تھا(چربی ،اونٹ کا گوشت اور اس جیسی چیزوں کا کھا نا) ان کی جان کی حفاظت کی غرض سے ان پر بھی حرام کردیا، اس کے علاوہ چونکہ بنی اسرئیل ہمیشہ قبائلی اتحاد و یکجہتی اور اٹوٹ رشتہ کے محتاج تھے تا کہ ا ن سرکش وطاغی عمالقہ اور قبطیوں کا مقابلہ کر سکیں جو ان کو چاروں طرف سے اپنے محاصرہ میں لئے ہوئے تھے، لہٰذا خداوندعالم نے بھی قبل اس کے کہ ہیکلِ سلیمان نامی معروف مسجد کی تعمیر کریں،ان پر واجب قرار دیا کہ سب ایک ساتھ عبادت کے لئے '' خیمہ اجتماع'' کے پاس جمع ہوں اور اپنی دینی رسومات کو ہارون کے فرزند وں کی سر پرستی میں بجا لائیں جس طرح عیسیٰ ابن مریم کواور ان کی مادر گرامی مریم کو جو کہ حضرت داؤد کی نسل (جوبنی اسرائیل کے یہودا کی نسل )سے تھیںان کی طرف روانہ کیااور بعض وہ چیزیں جوان پر حرام تھیں حلال کر دیا ،جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی زبانی سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

____________________

(۱) مادہ''سبت '' کے سلسلے میں کتاب قاموس کتاب مقدس ، تفسیر طبری ، ابن کثیر اور سیوطی ملاحظہ ہو ۔

۵۴

( اِنّی قد جئتکم بآية من ربّکم... و مصدقاً لما بین یدیّ من التوراة و لأحلّ لکم بعض الذی حرّم علیکم... ) ( ۱ )

میں تمہارے پر وردگار کی جانب سے تمہارے لئے ایک نشانی لایا ہوں اور جو کچھ مجھ سے پہلے توریت میں موجود تھااس کی تصدیق اور اثبات کرتا ہوں اورآیا ہوں تاکہ بعض وہ چیزیں جو تم پرحرا م کی گئی تھیں حلال کر دوں۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیااس سے واضح ہو گیاکہ انبیاء بنی اسرائیل موسیٰ ابن عمران سے لے کر عیسیٰ ابن مریم تک بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے ہیں ، نیز توریت میں بعض شرعی احکام بھی صرف بنی اسرائیل کی مصلحت کے لئے نازل ہوئے ہیں اس بنا پر ایسے احکام موقت یعنی وقتی ہوتے ہیںاور یہ ان چیزوں کے مانند ہیںجنہیں اسرائیل( یعقوب) نے خود اپنے اوپر حرا م کرلیا تھا لہٰذاان میں بعض کی مدت عیسیٰ ابن مریم کی بعثت سے تمام ہوگئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ا ُن محرمات میں سے کچھ کوان کے لئے حلال کر دیا اور کچھ باقی بچے ہوئے تھے جن کی مدت حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت تک تھی وہ بھی تمام ہو گئی لہٰذاایسے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئے اور ان سب کی مدت تمام ہونے کو بیان فرمایا۔

خدا وند عالم اس موضوع کو سورۂ اعراف میں اس طرح بیان کرتا ہے :

( الذین یتبعون الرسول النّبی الأمیّ الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوارة و الأنجیل یا مرهم با لمعروف و ینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبات و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم و الأغلال التی کانت علیهم ) ( ۲ )

جو لوگ اس رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیںجس کے صفات توریت اور انجیل میں جو خود ان کے پاس موجود ہے ،لکھا ہوا ہے وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی اور منکر سے روکتا ہے، پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اوران کے سنگین بار کو ان پر سے اٹھا دیا ہے اور جن زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے انھیں اس سے آزاد کردیتا ہے۔

'' اِصرھم'' :ان کے سنگین بوجھ یعنی وہ سخت تکالیف و احکام جوان کے ذمّہ تھے۔

نسخ کی یہ شان حضرت موسیٰ کی شریعت میں ان سے پہلے شرائع کی بنسبت تھی ، اسی طرح بعض وہ چیزیں

جو موسیٰ کی شریعت میں تھیں حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ ہو گئیں۔

''نسخ''کی دوسری قسم یہ ہے کہ یہ نسخ صرف ایک پیغمبر کی شریعت میں واقع ہو تاہے ،جیسا کہ آگے آئے گا۔

____________________

(۱)آل عمران ۴۹۔ ۵۰

(۲)اعراف ۱۵۷

۵۵

ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ کے معنی

ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی کی شناخت کے لئے ، اس کے کچھ نمونے جو حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت میں واقع ہوئے ہیں بیان کررہے ہیں:

یہ نمونہ وجوب صدقہ کے نسخ ان لوگوں کے لئے تھا جو چاہتے تھے کہ پیغمبر سے نجویٰ اورراز ونیاز کی باتیں کریں ،جیسا کہ سورۂ ''مجادلہ ''میں ذکر ہوا ہے:

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا نَاجَیْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَةً ذَلِکَ خَیْر لَکُمْ وََطْهَرُ فَِنْ لَمْ تَجِدُوا فَِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم (۱۲) ََشْفَقْتُمْ َنْ تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ ﷲ عَلَیْکُمْ فََقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وََطِیعُوا ﷲ وَرَسُولَهُ وَﷲ خَبِیر بِمَا تَعْمَلُونَ (۱۳ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! جب رسول ﷲ سے نجویٰ کرنا چاہو تواس سے پہلے صدقہ دو ، یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ ہے اور اگرصدقہ دینے کو تمھارے پاس کچھ نہ ہو تو خدا وندعالم بخشنے والا اور مہر بان ہے، کیا تم نجویٰ کرنے سے پہلے صدقہ دینے سے ڈرتے ہو ؟ اب جبکہ یہ کام تم نے انجام نہیں دیا اور خدا نے تمہاری توبہ قبول کر لی، تو نماز قائم کرو ، زکوة ادا کرو اور خدا و پیغمبر کی اطاعت کرو کیو نکہ تم جو کام انجام دیتے ہو اس سے خدا آگاہ اور باخبر ہے۔

اس داستان کی تفصیل تفاسیر میں اس طرح ہے:

بعض صحابہ حدسے زیا دہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرتے تھے اور اس کام سے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص الخاص اور نزدیک ترین افراد میں سے ہیں ،رسول اکرم کا کریمانہ اخلاق بھی ا یسا تھا کہ کسی ضرورتمند کی درخواست کو رد نہیں کرتے تھے ، یہ کام رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بسا اوقات دشواری کا باعث بن جاتا تھااس کے باوجود آپ اس پر صبر وتحمل کرتے تھے ۔

____________________

(۱)مجادلہ ۱۲، ۱۳،( اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں تفسیر طبری اور دیگر روائی تفاسیر دیکھئے )

۵۶

اس بنا پر جو لوگ پیغمبر سے نجوی کرنا چاہتے تھے ان کے لئے صدقہ دینے کا حکم نازل ہوا پھر اس گروہ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرنا چھوڑ دیا لیکن حضرت امام علی بن ابی طالب نے ایک دینار کو دس درہم میں تبدیل کر کے دس مرتبہ صدقہ دے کر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اہم چیزوں کے بارے میں نجویٰ و سر گوشی فرمائی. اس ہدف کی تکمیل اور اس حکم کے ذریعہ اس گروہ کی تربیت کے بعد اس کی مدت تمام ہو گئی اور صدقہ دینے کا حکم منسوخ ہو گیا ( اٹھا لیا گیا)۔

نسخ کی بحث کا خلاصہ اوراس کا نتیجہ

جمعہ کا دن حضرت آدم سے لیکر انبیاء بنی اسرائیل کے زمانے تک یعنی موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک بنی آدم کے لئے ایک مبارک اور آرام کا دن تھا۔

اسی طرح حضرت آدم اوران کے بعد حضرت ابراہیم کے زمانے تک سارے پیغمبروں نے منا سک حج انجام دئے ، میدان عرفات ،مشعر اور منیٰ گئے اور خانہ کعبہ کا سات بار طواف کیا ، اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اس کے بعد اپنے تا بعین اور ماننے والوں کے ہمراہ حج میں خانہ کعبہ کا طواف کیا۔

حضرت نوح نے بھی حضرت آدم کے بعدان کی شریعت کی تجدید کی اور حضرت خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کے مانند شریعت پیش کی اوران کے بعد تمام انبیاء نے ا ن کی پیروی کی کیو نکہ خدا وند متعال فرماتا ہے:

۱۔( شرع لکم من الد ین ما وصّیٰ به نوحاً ) ...)(۱ )

تمہارے لئے وہ دین مقرر کیا ہے جس کا نوح کو حکم دیا تھا ۔

۲۔( و ِأن من شیعة لأِبراهیم )

ابراہیم ان کے پیروکاروں اور شیعوں میں تھے۔( ۲ )

۳۔ خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی امت سے بھی فرماتا ہے:

الف۔( اتبع ملّة ابراهیم حنیفاً )

ابراہیم کے خالص اور محکم دین کا اتباع کرو۔

ب ۔( فاتّبعوا ملّة أِبراهیم حنیفاً )

____________________

(۱)شوری ۱۳(۲)،صافات ۸۳

۵۷

پھر ابراہیم کے خالص اور محکم و استوار دین کا اتباع کرو۔( ۱ )

اس لحاظ سے رسولوں کی شریعتیں حضرت آدم کے انتخاب سے لے کر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چناؤ اور انتخاب تک یکساں ہیں مگر جو کچھ انبیاء بنی اسرائیل کی ارسالی شریعت میں موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک وجود میں آیااس میں خاص کر اس قوم کی مصلحت کا لحاظ کیا گیا تھا، خدا وند عالم ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

۱۔( کلّ الطّعام کان حلاً لبنی أسرائیل اِلاّ حرّم اِسرائیل علیٰ نفسه ) ( ۲ )

کھا نے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں ، بجزاس کے جسے اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔

۲۔( و علیٰ الذین هادوا حر منا ما قصصنا علیک من قبل ) ( ۳ )

اور اس سے پہلے جس کی تم سے ہم نے شرح و تفصیل بیان کی وہ سب ہم نے قوم یہود پر حرام کردیا۔

۳۔( اِنّما جعل السبت علیٰ الذین اختلفوا فیه ) ( ۴ )

سنیچر کے دن کی تعطیل صر ف ان لوگوں کے لئے ہے جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔

توریت کے سفر تثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے:''موسیٰ نے ہمیں با لخصوص اولاد یعقوب کی شریعت کا حکم دیا ہے''

اس تغییر کی بھی حکمت یہ تھی کہ بنی اسرائیل ایک ہٹ دھرم ،ضدی ، جھگڑالواور کینہپرور قوم تھی اس قوم کے لوگ اپنے انبیاء سے عداوت و دشمنی کرتے اور نفس امارہ کی پیروی کرتے تھے اور دشمنوں کے مقابلہ میں سستی ،بے چار گی اور زبوں حالی کا مظاہرہ کرتے ، یہ لوگ اس کے بعد کہ خدا نے ان کے لئے دریا میں راستہ بنایا اور فرعون کی غلامی جیسی ذلت و رسوا ئی سے نجات دی ، گوسالہ پرست ہو گئے اور مقدس سر زمین جسے خدا نے ان کے لئے مہّیا کیا تھا ،عمالقہ کے ساتھ مقابلہ کی دہشت سے اس میں داخل ہو نے سے انکار کر گئے؛ اس طرح کی امت کے نفوس کی از سر نو تربیت اور تطہیرکے لئے شریعت میں ایک قسم کی سختی درکار تھی لہٰذا وہ مومنین جو خود گوسالہ پرست نہیں تھے انہیںگوسالہ پرست مرتدین کو قتل کر ڈالنے کا حکم دیا گیا ، نیزان پر سنیچر کے دن کام کرنا حرام کر دیا گیااور انھیںصحرائے سینا میں چالیس سال تک حیران و سر گرداں بھی رہنا ہڑا۔

____________________

(۱)آل عمران۹۵(۲)آل عمران ۹۳ (۳)نحل ۱۱۸ (۴)نحل ۱۲۴

۵۸

دوسری طرف ، اس لحاظ سے کہ وہ اپنے زمانہ کے تنہا مومن تھے اور ان کے گرد ونواح کا ،تجاوز گر کافروں اور طاقتور ملتوں نے احاطہ کر رکھا تھا لہٰذا انھیں آپس میں قوی و محکم ارتباط و اتحاد کی شدید ضرورت تھی تا کہ اپنے کمزوریوں کی تلافی کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کریں اور دوسروں سے خود کو جدا کرتے ہوئے اپنی مستقل شناخت بنا ئیں اور اپنے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رکھیں ، لہٰذا خداوند عالم نے ان ا ہداف تک پہنچنے کے لئے ان کے لئے ایک مخصوص قبلہ معین فرمایا ،جس میں وہ تابوت رکھا تھا کہ جس میں الواح توریت ، ان سے مخصوص کتاب شریعت اورآل موسیٰ اور ہارون کاتمام ترکہ تھا ۔( ۱ ) نیز بہت سے دیگر قوانین جو ان کے زمان ومکان کے حالات اور ان کی خاص ظرفیت کے مطابق تھے ان کے لئے نازل فرمائے ۔

حضرت عیسی بن مریم کے زمانہ میں بعض حالات کے نہ ہو نے کی وجہ سے ان میں سے بعض قوانین ختم ہوگئے اور عیسیٰ نے ان میں سے بعض محرمات کو خدا کے حکم سے حلال کر دیا ۔

حضرت خاتم الانبیاء کے زمانہ میں بنی اسرائیل شہروں میں پھیل گئے اور تمام لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے لگے ، وہ لوگ جن ملتوں کے درمیان زندگی گزار رہے تھے اس بات سے کہ ان کی حقیقت جدا ہے اور دوسرے لوگ یہ درک کر لیں کہ یہ لوگ ان لوگوں کی جنس سے نہیں ہیں اور ان کارہن و سہن پڑوسیوں اور دیگر ہم شہریوں سے الگ تھلگ ہے ، وہ لوگ آزردہ خاطر رہتے تھے خاص کر شہر والے اسرائیلیوں کو اپنوں میں شمار نہیں کرتے تھے اورانھیں ایک متحد سماج و معاشرہ کے لئے مشکل ساز اور بلوائی سمجھتے تھے، اسی لئے جو احکام انھیں دیگر امتوں سے جدا اور ممتاز کرتے تھے ا ن کے لئے وبال جان ہو گئے سنیچر کے دن کی تعطیل جیسے امور جو کہ تمام امتوں کے بر خلاف تھے ا ن کے لئے بار ہو گئے جیسا کہ سفر تثنیہ میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے ۔

حضرت خاتم الانبیاء محمد ابن عبد ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا وند عالم کے حکم سے ان کی مشکل بر طرف کر دی اور گزشتہ زمانوں میں جو چیزیںان پر حرام ہو گئی تھیںان سب کو حلال کر دیا ، خدا وندعالم نے سورۂ اعراف میں ارشاد فرمایا :

( الذین یتبعون الرسول النبّی الأمّی الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوراة و الأنجیل یأمرهم بالمعروف وینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبا ت و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم والأغلال الّتی کا نت علیهم ) ( ۲ )

____________________

(۱) سورئہ بقرہ ۲۸۴

(۲)اعراف۱۵۷

۵۹

وہ لوگ جو اس رسول نبی امی کی پیروی کرتے ہیںجس کے صفات اپنے پاس موجود توریت و انجیل میں لکھا ہواپاتے ہیں وہ پیغمبران لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہوئے منکر اور برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور گند گیوں اورنا پاک چیزوں کو حرام کرتاہے؛ اور ان کے سنگین باران سے اٹھا تے ہوئے ان کی گردن میں پڑی زنجیر کھول دیتا ہے ۔

خدا وندعالم نے اس طرح سے ان احکام کو جو گزشتہ زمانوں میں ان کے فائد ہ کیلئے تھے اور بعد کے زمانے میں جب یہ لوگ عالمی سطح پر دوسرے لوگوں سے مخلوط ہو تے تو یہی احکام ان کے لئے وبال جان بن گئے ، خدا نے ایسے احکام کوان کی گردن سے اٹھا لیا ، لیکن جو احکام حضرت موسیٰ ابن عمران کی شریعت میں تمام لوگوںکے لئے تھے اور بنی اسرائیل بھی انھیں میں سے تھے نہ وہ احکام اٹھا ئے گئے اور نہ ہی نسخ ہوئے جیسے کہ توریت میں قصاص کا حکم، خدا وندعالم سورۂ مائدہ میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّا انزلناالتوراة فیها هدیً و نور یحکم بها النبيّون الذین أسلموا للذین هادوا...) (و کتبنا علیهم فیها أنّ النفس با لنفس و العین با لعین والأنف بالأنف و الاذن بالاذن و السّن با لسّن و الجروح قصاص فمن تصدّق به فهو کفّارة له و من لم یحکم بما انزل ﷲ فأولائک هم الظالمون ) ( ۱ )

ہم نے توریت نازل کی کہ جس میں ہدایت اور نورہے ، خدا کے سامنے سراپا تسلیم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسی سے یہود کے درمیان حکم دیاکرتے تھے اوران پر ا س(توریت) میں ہم نے یہ معین کیا کہ جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے عوض کان ،دانت کے عوض دانت ہو اور ہر زخم قصاص رکھتا ہے اور جوقصاص نہ کرے یعنی معاف کردے تو یہ اس کے ( گناہوں )کے لئے کفارہ ہے اور جو کوئی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ کرے تو وہ ظالم و ستمگر ہے۔

جس حکم قصاص کا یہاں تذکرہ ہے توریت سے پہلے اور اس کے بعد آج تک اس کا سلسلہ جاری ہے،وہ تمام احکام جن کو خدانے انسان کے لئے اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہیں مقرر و معین فرمایا ہے وہ کسی بھی انبیاء کے زمانے اور شریعتوں میں تبدیل نہیں ہوئے ۔

____________________

(۱)مائدہ ۴۴ ،۴۵

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

سوالات

۱_ سريہ ابو سَلَمة كا كيا نتيجہ رہا؟

۲_ واقعہ رجيع كيوں كر واقع ہوا اور كتنے لوگ شہيد ہوئے؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمربن اميّہ كو مكّہ كيوں بھيجا؟

۴_ سريہ عبدُ اللہ بن اُنَيس كا كيا نتيجہ رہا؟

۵_ بنى نضير كے يہوديوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے قتل كا ارادہ كيوں كيا؟

۶_ غزوہ '' بدر الموعد'' ميں لشكر اسلام كا مقابلہ كرنے سے ابوسفيان كيوں ڈرگيا؟

۸۱

حوالہ جات

۱_ بعض لوگوں كى تحرير كے مطابق ۱۵ محرم، طبقات ابن سعد ج ۲، ص ۳۴۰_ واقدى كى تحرير كے مطابق يكم محرم مغازى ج ۱ ، ۲ ۲۴۰_

۲_طبقات ابن سعد ج۲ ص ۳۴۰_مغازى واقدى ج۱ ص ۳۴۰_

۳_طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۵۱_امتاع الاسماع ص ۲۵۴_

۴_ ابن ہشام نے سريہ رجيع كا تذكرہ جنگ احد كے بعد ہجرت كے تيسرے سال كے واقعات ميں كيا ہے ر_ك ''ج ۳ ص ۱۷۸''_

۵_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۳۰ سے ۵۴۲ تك سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۷_۱_

۶_ بقول ابو سعيد ۷۰ افراد_

۷_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۴۶_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۵۱/۵۳_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۱۹۳_

۸_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۴۲_مواہب اللدنّيہ ميں اس سر يہ كو ۶ ھ ميں ، صلح حديبيہ سے پہلے ذكر كيا گياہے _ ج ۱ ص ۱۲۵_

۹_ مخالف اسلام اور مفسد قبيلہ '' بنى نضير ''كے يہوديوں كے اخراج كے بعد صرف بنى قريظہ كے يہودى مدينہ ميں رہ گئے ،بنى نضير كے باقى اموال و املاك كى تقسيم كے بعد مہاجر مسلمانوں سے اقتصادى پريشانى ايك حد تك دور ہوئي_

۱۰_ مغازى واقدى ج ۱ _ ص ۳۶۳/ ۳۸۰ ، سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۱۹۶، طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۵۷، تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۵۱/۵۵۵، تاريخ دمشق ج ۱ ، ص ۴۱_

۱۱_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۰۳_

۱۲_ اس غزوہ كى تاريخ ابن ہشام شعبان ۴ ھ اور واقعدى ذى قعدہ ۴ ھ سمجھتے ہيں سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۲۰_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۳۸۴ ملاحظہ ہو_

۱۳_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۳۸۴سے ۳۸۹تك _ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۲۰_

۱۴_ مروج الذّھب ج ۲ ، ص ۲۸۹_

۸۲

پانچواں سبق

غزوہ ذات الرقاع

غزوہ دومةُ الجندَل

غزوہ خندق (احزاب)

لشكر احزاب كى مدينہ كى طرف روانگي

لشكر كى روانگى سے متعلق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا آگاہ ہونا

بجلى كى چمك ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كيا ديكھا؟

مدينہ لشكر كفار كے محاصرے ميں

بنى قريظہ كى عہد شكني

خطرناك صورتحال

ايمان و كفر كا آمنا سامنا

سوالات

۸۳

غَزوہ ذاتُ الرّقاع

تاريخ : دسويں محرم ۵ ہجرى قمرى(۱) بمطابق ۱۳ جون ۶۲۶ ء بروز بدھ

غزوہ بنى نضير كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ملى كہ قبيلہ غَطَفَان يعنى بنى ثعلبہ اور بنى مُحارب نے مسلمانوں سے جنگ كے لئے كچھ لشكر جمع كر ركھا ہے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سازش كو ناكام بنانے كے لئے مدينہ ميں جناب ابوذر كو اپنا جانشين بنايااور خود چار سو افراد كا لشكر لے كر نجد كى طرف روانہ ہوئے،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن كے عظيم لشكر كے روبرو ہوئے مگر دشمن كو خوف و دہشت نے گھير ليا اور كسى طرح كے ٹكراؤ سے پہلے ہى دشمن متفرق ہوگيا_

اس سفر ميں دشمن كے حملے كے پيش نظر ، خطرناك ماحول ميں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے لشكراسلام كے ساتھ نماز خوف ادا كى پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سفر كى كلُ مدّت ۱۵ روز تھي_(۲)

غزوہ دُومَةُ الجَندَل

روانگى بروز اتوار ۲۵ ربيع الاول ۵ ھ ق، مطابق ۲۶ اگست ۶۲۶ء

مدينہ واپسى ۲۰ ربيع الثانى ، بمطابق ۲۰ ستمبر ۶۲۶ ئ بروز جمعرات

مخبروں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر دى كہ دُومَةُ الجندل ميں بہت سے لوگ جمع ہوگئے ہيں اور مسافروں كا راستہ روكنے كے علاوہ ان پر ظلم و ستم بھى ڈھار ہے ہيں ان كا ارادہ ہے كہ مدينہ پر حملہ كريں_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سبَاعَ بن عرفُطَہ غَفاري كو مدينہ ميں اپنا جانشين معيّن

۸۴

فرمايا اور ہزار آدميوں كے لشكر كے ساتھ دُومَةُ الجندل كى طرف روانہ ہوگئے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سپاہى راتوں كو راستہ طے كرتے اور دن كو درّوں ميں چُھپ كر آرام كرتے تھے_ دشمن كو لشكر اسلام كى روانگى كا پتہ چلا تو ان پر ايسار عب طارى ہواجوپہلے كبھى نہيں ہوا تھا اور فوراً ہى اس علاقے سے فرار ہوگئے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چند دن علاقے ميں قيام پذير رہے اور مختلف دستوں كو اطراف و جوانب ميں بھيجا تا كہ معلومات اكٹھى كرنے كے لے ساتھ ساتھ دشمنوں كى ممكنہ سازشوں كو ناكام بنائيں_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۲۵ روز كے بعد مدينہ پلٹ آئے_ لوٹتے وقت فراز نامى شخص سے ، جس كا قبيلہ قحط سے متاثر ہوا تھا ، معاہدہ كيا اور اسے اجازت دى كہ مدينہ كے اطراف كى چراگاہوں سے استفادہ كرئے(۳) _

اس غزوہ كى اہميت كى وجہ يہ ہے كہ مدينہ سے دور دراز كے علاقوں تك جادہ پيمائي اور خشك و ہولناك صحراؤں سے عبور كرنے ميں مسلمانوں كى طاقت كا مظاہرہ ہوا اور دوسرى طرف اسلام مشرقى روم كى سرحدوں تك نفوذ كرگيا اور يہ فوجى تحريك روميوں كى تحقير كا موجب بنى _ مسعودى كى تحرير كے مطابق ، تاريخ اسلام ميں روم جيسى بڑى طاقت كى گماشتہ حكومت كے ساتھ فوجى مقابلہ كرنے كے لئے يہ پہلا قدم تھا _(۴)

غزوہ خَندَق ( اَحزاَب)

تقريباً ۲۳ شوال ۵ ھ ق(۵) بمطابق ۱۹ مارچ ۶۲۶ئ

غزوہ خندق كے اسباب

بنى نضير كے يہودى جنہوںنے بغض و كينہ اور انتقامى جذبات كے ساتھ مدينہ چھوڑا تھا

۸۵

خاموشى سے نہيں بيٹھے جب يہ لوگ خيبر پہنچے تو ان كے سردار حُيَّ بن اَخطَب اور كنَانَةبن اَبى الحُقيق ، ابُو عامر فاسق اور ايك جماعت كے ساتھ مكہ روانہ ہوئے قريش اور ان كے تابعين كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ كى دعوت دى ،انہوں نے قريش سے كہا كہ '' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے بہت بڑا خطرہ ہمارئے انتظار ميں ہے اگر فوراً پسپا كردينے والا لشكر تيار نہ كيا گيا تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہرجگہ اور ہر شخص پر غالب آجائيں گے''_

ايك طرف بدر مَوعد ميں قريش كى شكست و سرنگونى ، جنگ كى دھمكى دينے كے باوجود لشكر اسلام كے خوف سے حاضر نہ ہونا اور لشكر اسلام كى پے درپے كاميابى نے قريش كو اس حقيقت كى طرف متوجہ كيا كہ مسلمانوں كى بڑھتى ہوئي جنگى طاقت كے پيش نظر اسلامى تحريك كو كچلنے كے ليے كوئي بنيادى اقدام كرنا چاہيے _ اسى وجہ سے قريش خود اس فكر ميں تھے كہ ايك عظيم لشكر تيار كريں اور اب بہترين موقع آن پہنچا تھا_ اس لئے كہ يہوديوں نے اعلان كيا كہ ہم تمہارے ساتھ رہيں گے يہاں تك كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جڑسے اكھاڑ كرپھينك ديں لہذا وہ قريش كے سرداروں كے ساتھ كعبہ ميں گئے اور وہاں انہوں نے قسم كھائي كہ ايك دوسرے كو بے سہارا نہيں چھوڑيں گے اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مقابلے كے لئے آخرى فرد تك ايك دل اور ايك زبان ہوكر ڈٹے رہيں گے_(۶) قريش نے يہوديوں كے سربرآوردہ افراد سے پوچھا كہ تم قديم كتاب كے جاننے والے اور عالم دين ہو تم فيصلہ كرو كہ ہمارا دين بہتر ہے يا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا؟ يہوديوں كے چالاك و دھوكہ باز سرداروں نے جواب ديا كہ '' تمہارا دين بہتر ہے اور تم حق پر ہو''_

يہ يہودى توحيد پر ايمان كے باوجود ايسى بات كہہ كر سخت گناہ كے مرتكب ہوئے اور انہوں نے اپنى سياہ تاريخ ميں ننگ و عار والے ايك بڑے دھبے كا اضافہ كيا_ ايك يہودى

۸۶

مصنف ڈاكٹر اسرائيل اپنى كتاب '' تاريخ يہوديان عربستان'' ميں لكھتاہے كہ '' ہرگز يہ بات مناسب نہيں تھى كہ يہودى ايسى خطا كے مرتكب ہوتے اگرچہ قريش ان كى خواہش كو رد كرديتے ، اس كے علاوہ ہرگز يہ بات صحيح نہيں تھى كہ ملّت يہود، بُت پرستوں كے پاس پناہ ليتى اس لئے كہ يہ روش تورات كى تعليمات كے مطابق نہيں ہے_(۷)

قرآن اس اتحاد كى طرف اشارہ كرتے ہوئے كہتا ہے كہ '' كيا تم نے ان لوگوں كو نہيں ديكھا كہ جن كو كتاب سے كچھ حصّہ ديا گيا ہے وہ كس طرح بتوں اور طاغوت پر ايمان لاتے ہيں اور كافرين و مشركين سے كہتے ہيں كہ تمہارا راستہ مومنين كى بہ نسبت حقيقت سے زيادہ نزديك ہے''(۸) _

جب مشركين نے يہودى سرداروں سے مدد كا وعدہ اور روانگى كى تاريخ معيّن كى تو يہوديوں نے بھى ان سے وعدہ كيا كہ بنى قُريظَہ كے يہوديوں كو جو اس وقت ساكن مدينہ تھے ، مدد كے لئے بلائيں گے _ قريش كو پيمان شكنى اور جنگ پر آمادہ كرنے كے بعد يہودى وفد قبيلہ غَطفان كى طرف روانہ ہوا ، قبيلہ غَطفان كے افراد نے ان كى ہمراہى كے علاوہ اپنے ہم عہد قبيلہ بنى اسد كو مدد كى دعوت دى اور قريش نے اپنے حليف قبيلہ بنى سُلَيم كو مدد كيلئے بلايا(۹) _

يہوديوں كى شہ پر اسلام كے خلاف ايك بہت بڑا محاذ تيار ہو گيا ، جس ميں مشركين ، مستكبرين ، منافقين ، يہود ، مدينہ سے فرار كرنے والے ،قريش كے مختلف قبائل ، بنى سليم ، بنى غطفان ، بنى اسد اور ديگر احزاب و قبائل شامل تھے اور سب نے مل كر اسلام كے خلاف جنگ كى ٹھانى ہوئي تھى تا كہ نور خدا كوخاموش كرديں_جنگى اخراجات اور اسلحہ كى فراہمى يہود كى طرف سے انجام پائي_

۸۷

لشكر احزاب كى مدينہ كى طرف روانگي

مختلف قبيلوں اور گروہوں كى طرف سے اس جنگى معاہدے كے نتيجہ ميں اكٹھے ہونے والے افراد كى مجموعى تعداد دس ۱۰ ہزار سے زيادہ(۱۰) اور لشكر كى كمان ابوسفيان كے ہاتھوں ميں تھي_لشكر احزاب كے جنگجو افراد اسلحہ سے ليس روانگى كيلئے تيار تھے_ اس زمانہ ميں جنگى ايمونيشن اور سازوسامان سے ليس اتنا بڑا لشكر سرزمين حجاز نے كبھى نہيں ديكھا تھا_

ماہ شوال ۵ ہجرى ميں ابوسفيان نے احزاب كے سپاہيوں كو تين الگ الگ دستوں ميں يثرب كى جانب روانہ كيا_

لشكر كى روانگى سے متعلق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا آگاہ ہونا

جب يہ لشكر مكّہ سے مدينہ كى طرف روانہ ہوا تو قبيلہ خُزاعة كے چند سوار نہايت سرعت كے ساتھ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس پہنچے اور سپاہ احزاب كى روانگى كى خبر دي_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے لشكر كى جمع آورى اور آمادہ باش كے اعلان كے ساتھ جنگى ٹيكنيك اور دفاعى طريقہ كار كى تعيين كے لئے اصحاب سے مشورہ فرمايا اور مشاورتى كو نسل ميں يہ بات پيش ہوئي كہ مدينہ سے باہر نكل كر جنگ كى جائے يا مدينہ كے اندر موجود رہيں اور شہر كو ايك طرح سے قلعہ بناديں؟ سلمان فارسى نے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب ہم ايران ميں تھے تو اس وقت اگر دشمن كے شہ سواروں كے حملے كا خطرہ ہوتا تھا تو شہر كے چاروں طرف خندق كھود ديتے تھے'' دفاع كے لئے منعقدہ مجلس مشاورت نے سلمان كى رائے كو مان ليا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان كے نقشہ كے مطابق خندق كھودنے كا حكم ديا_(۱۱)

اس زمانہ ميں مدينہ ، تين طرف سے طبيعى ركاوٹوں جيسے پہاڑوں ، نخلستان كے جھنڈ اور

۸۸

نزديك نزديك بنے ہوئے گھروں ميں گھرا ہوا تھا صرف ايك طرف سے كھلا اور قابل نفوذ تھا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہردس ۱۰ آدميوں كو چاليس زراع كے ايك قطعہ ارض كو كھودنے پر مامور كيا _ جزيرة العرب كى گرم اور جھلسا دينے والى ہوا كے بر خلاف مدينہ سرديوں ميں صحرا كى طرح سرد اور تكليف دہ تھا ، جن دنوں خندق كى كھدائي ہو رہى تھى تين ہزار مسلمان صبح سويرے آفتاب طلوع ہونے سے پہلے جاڑے كى سخت سردى ميں لبوں پر ، پُر شور نعرہ اور دلوں ميں حرارت ايمانى كے جوش و ولولہ كے ساتھ كام ميں مشغول ہوتے اور غروب آفتاب تك كام كرتے رہتے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى تمام مسلمانوں كے ساتھ ساتھ كام ميں مشغول تھے_ پھاؤڑے چلاتے ، مٹّى كو زنبيل ميں ڈال كر كاندھوںپر ركھ كر باہر لاتے تھے_ سلمان نہايت تيزى سے چند آدميوں كے برابر كام كر رہے تھے _ مہاجر و انصار ہر ايك نے كہا كہ سلمان ہم ميں سے ہيں، ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' سلمان ہم اہل بيت(ع) ميں سے ہيں''(۱۲) _

بجلى كى چمك ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كيا ديكھا؟

خندق كھودتے كھودتے سلمان كے سامنے ايك بہت بڑا سفيد پتّھر آگيا_ انہوں نے اور دوسرے افراد نے كافى كوشش كى مگر پتّھر اپنى جگہ سے ہلا تك نہيں _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ہوئي تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشريف لائے اور ہتھوڑے سے پتّھر پر ايك ضرب لگائي، اس ضرب كى وجہ سے ايك بجلى چمكى اور پتّھر كا ايك حصّہ ٹوٹ كر بكھر گيا_ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صدائے تكبير بلند كى ، جب دوسرى اور تيسرى بار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرب لگائي تو ہر ضرب سے بجلى چمكى اور پتّھر كے ٹكڑے

۸۹

ہونے لگے، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر بار صدائے تكبير بلند كرتے رہے ، جناب سلمان نے سوال كيا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بجلى چمكتے وقت تكبير كيوں كہتے تھے؟

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''جب پہلى بار بجلى چمكى تو ميں نے يمن اور صَنعاء كے محل كھلتے ديكھے، دوسرى مرتبہ بجلى كے چمكنے ميں شام و مغرب كے سرخ محلوں كو فتح ہوتے ديكھا، اور جب تيسرى بار بجلى چمكى تو ميں نے كسرى كے محلات كو ديكھا كہ جو ميرى اُمت كے ہاتھوں مسخر ہوجائيں گے''_(۱۳)

مومنين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بشارت سے خوش ہوگئے اور '' بشارت، بشارت'' كى آواز بلند كرنے لگے_ ليكن منافقين نے مذاق اُڑايا اور كہا كہ ''حالت يہ ہے كہ دشمن ہر طرف سے ٹوٹ پڑ رہے ہيں اور اتنى جرا ت نہيں ہے كہ ہم قضائے حاجت كے لئے باہر نكل سكيں اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايران و روم كے محلوں كى فتح كى گفتگو كر رہے ہيں _ سچ تو يہ ہے كہ يہ باتيں فريب سے زيادہ نہيں ہيں( معاذ اللہ ) قرآن منافقين كے بارے ميں كہتا ہے '' منافقين او ر وہ لوگ جن كے دلوں ميں بيمارى ( نفاق) ہے وہ كہتے ہيں كہ يہ وعدے جو خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كر رہے ہيں يہ دھوكے سے زيادہ نہيں ہيں''(۱۴) _

منافقين خندق كھودنے ميں مسلمانوں كى مدد كر رہے تھے مگر ان كى كوشش تھى كہ كسى بہانے سے اپنے كاندھوں كو اس بوجھ سے خالى كريں اس طرح وہ اپنے نفاق كو آشكار كر رہے تھے_

خندق كى كھدائي تمام ہوئي جس كى لمبائي ۱۲۰۰۰ زراع تقريباً ۴/۵ كلوميٹر ،گہرائي ۵ ہاتھ اور اس كى چوڑائي اتنى تھى كہ ايك سوار گھوڑے كو جست ديگر پار نہيں كرسكتا تھا_ آخر ميں خندق كے بيچ ميں كچھ دروازے بناديئےئے اور ہر دروازے كى نگہبانى كے لئے ايك قبيلہ

۹۰

معيّن كرديا گيا اور زبير بن عوام كو دروازوںكے محافظين كى سربراہى پر معيّن كيا گيا(۱۵) _

مسلمانوں نے خندق كے پيچھے اپنے لئے مورچے بنالئے اور شہر كے دفاع كے لئے تيرانداز مكمل آمادگى كے ساتھ موجود تھے_

مدينہ لشكر كفار كے محاصرے ميں

كفر كا حملہ آور لشكر ابوسفيان كى سركردگى ميں خندق كھدجانے كے چھ دن بعد سيلاب كى طرح مدينہ پہنچ گيا _ انہوں نے شہر كے چاروں طرف اور اپنے آگے ايك بڑى خندق ديكھى اور مسلمانوں كى اس دفاعى حكمت عملى پر حيران رہ گئے_ جنگى ديدہ وروں نے كہا'' يہ فوجى حربہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايرانيوں سے سيكھا ہے اس لئے كہ عرب اس ڈھنگ سے واقف نہيںہيں_'' كفارنے مجبوراً اپنے خيمے خندق كے سامنے لگالئے_ دشمن كے لشكر كے خيموں سے سارا بيابان سياہ ہوگيا_ لشكر اسلام نے بھى خندق كے اس طرف خيمے لگالئے اور دشمن سے مقابلے اور اس كے حملے سے بچنے كے لئے تيار ہوگئے _

بَنى قُريَظہ كى عہد شكني

لشكر احزاب اور اس كے سپہ سالار ابوسفيان كے دماغ پرمسلمانوں پر برق رفتارى سے كاميابى حاصل كرنے كا بھوت سوار تھا، خندق جيسى بڑى ركاوٹ كے سامنے آجانے سے اب راستے كى تلاش ميں لگ گئے تا كہ لشكر كو خندق كے پار پہنچا سكيں _

مدينہ سے شہر بدر كيئے جانے والے يہودى قبيلے بنى نضير كا سردارحى ابن اخطب جنگ كى آگ بھڑكانے كا اصلى ذمّہ دار تھا _وہ خندق كى موجود گى كيوجہ سے سپاہ احزاب كے حملے كو

۹۱

ناكام ہوتے ہوئے ديكھ كرسب سے زيادہ خوف زدہ تھا، وہ كوشش كر رہا تھا كہ جلد سے جلد احزاب كى كاميابى كا كوئي راستہ مل جائے _ اس نے مدينہ كے اندر سے محاذ كھولنے كا ارادہ كيا _ اس پروگرام كو عملى جامہ پہنا نے كے لئے بَني قُريَظہ كے يہودى جو مدينہ ميں مقيم تھے، بہترين وسيلہ تھے _ اس نے رئيس قبيلہ سے گفتگو كرنے كا ارادہ كيا، قلعہ بَني قُريَظہ كى طرف گيا اور قلعہ كے بند دروازوں كے پيچھے سے گفتگو كى ، قبيلہ بَني قُريَظہ كے سردار كَعب بن اَسَد نے جواب ديا كہ ہم نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عہد و پيمان كيا ہے اور ہم يہ معاہدہ نہيں توڑ سكتے اس لئے كہ سوائے سچّائي اور وفادارى كے ان سے ہم نے اور كچھ نہيں ديكھا ہے_

حُيّ، كعب كو بھڑكانے ميں كامياب ہوگيا اور اس نے اپنے لئے قلعہ كا دروازہ كھلواليا_ قلعہ ميں داخل ہوا اور بَني قُريَظہ كے بزرگ افراد كو اس بات پر آمادہ كرليا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كئے ہوئے اپنے عہد و پيمان كو توڑديں اور اپنى فوجيں نيز دوسرا سامان حملہ آوروں كوديديں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جب بَني قُريَظہ كے يہوديوں كى پيمان شكنى كى خبر ملى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبيلہ اوس و خزرج كے دو بزرگ افراد سَعد بن مُعَاذ اور سَعد بن عُبادة كو مزيد تحقيقات كے لئے قلعہ بَني قُريَظہ روانہ كيا _ وہ لوگ اس بات پر مامور تھے كہ اگر يہ خبر صحيح ہو تو خفيہ طور پر اس كى اطلاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوديں_ انہوں نے واپسى پر خفيہ كوڈ'' عَضَل'' و ''قارّہ'' كے الفاظ كے ساتھ يہوديوں كى پيمان شكنى كى خبر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كودى _(۱۶)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كے ولولے كو باقى ركھنے كے لئے نعرہ تكبير بلند كيا اور فرمايااے مسلمانو ميں تمہيں كاميابى كى بشارت ديتا ہوں _(۱۷)

۹۲

خطرناك صورتحال

اسلامى تحريك ايك حساس موڑ پر تھى ايك طرف اسلحہ سے ليس دشمن كا دس ہزار افراد پر مشتمل لشكر شہر كے سامنے خيمہ زن تھا اور ہر لحظہ اس بات كا امكان تھا كہ خندق كو پار كر كے شہر ميں كشت وخون كا بازار گرم نہ كردے_ اور دوسرى طرف قبيلہ بَني قُريَظہ كے خائن يہودى پيمان شكنى كر كے مسلمانوں كى پيٹھ ميں خنجر گھونپنے كے لئے آمادہ تھے نہتے مسلمانوں بچّوں اور عورتوں پر يہوديوں كے حملے كا خطرہ ، كفار كے لشكر كا خندق عبور كرنے كے خطرہ سے زيادہ خطرناك تھا _

اس ہنگامے ميں منافقين، شيطانى قہقہوں ، طعنوں اور اشارے و كنائے سے مسلمانوں كے زخموں پر نمك پاشي، لوگوں كو دشمن كے سامنے ہتھيار ڈال دينے كى تشويق ،اپنے گھروں كے دفاع كا سامان نہ ہونے كا بہانہ بنا كر فرار كا قصد اور اپنى دفاع جگہوں كو چھوڑ دينے كا ارادہ كر رہے تھے _ قرآن اس سلسلہ ميں كہتا ہے كہ :

'' جب ايك گروہ ( منافقين اور سياہ قلب افراد) نے كہا كہ اے يثرب كے لوگو اب سرزمين يثرب تمہارے رہنے كى جگہ نہيں ہے_ لذا پلٹ جاؤاور ان ميں سے ايك گروہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت مانگ رہا ہے اور كہتا ہے كہ ہمارے گھر كھلے ہوئے ہيں ، دفاع كا كوئي انتظام نہيں ہے _ ايسى صورت ميں ان كا ارادہ و مقصد فرار كے سوااور كچھ نہيں ''(۱۸)

ليكن خدااور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ركھنے والے جاں باز نہ صرف ايسے طوفانوں سے لرزاں نہيں ہوئے بلكہ اور زيادہ مستحكم ہوگئے _ قرآن ان كے بارے ميں كہتا ہے :

'' جب مسلمانوں نے احزاب كے لشكر كو ديكھا تو كہا كہ يہ وہى ہے جس كا وعدہ اللہ اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كيا ہے اور اس واقعہ نے ان كے ايمان و تسليم كو بڑھانے كے علاوہ اور

۹۳

كچھ نہيں كيا''(۱۹)

اس حساس موقع پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلسل اپنى شعلہ بار تقريروں سے اسلام كے جاں بازوں كے حوصلے بڑھاتے رہے ،ان كے فرائض ياد لاتے رہے اور فرماتے '' اگر تم صبر سے كام لوگے اور خدا پر بھروسہ كروگے تو كامياب رہوگے_ '' اور ان لوگوں كو خدا اور اس كے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى فرماں بردارى كى طرف توجّہ دلاتے رہے _

ايسى حالت ميں جاں بازان اسلام اپنے محاذ كى نگہبانى اور تحفظ كے ساتھ ساتھ خندق كے اس طرف بَني قُريَظہ كے شب خون مارنے كے خطرے كو ناكام بنانے كے لئے ۵۰۰ جاں باروں كا ايك گشتى دستہ ليكر پورى تيارى كے ساتھ گشت لگاتے رہے اور راتوں كو اپنے نعرہ تكبير كى بلند آوازوںسے دشمن كے دلوں ميں خوف و ہراس ڈالتے رہے_ اس طرح غفلت كے عالم ميں دشمن كو حملے كرنے كا موقع نہيں مل سكا اور مدينہ پر حملے كا خطرہ ٹل گيا _

ايمان و كفر كا آمنا سامنا

خندق كے دوسرى طرف لشكر احزاب بہت دونوں تك يوں ہى پڑا رہا ليكن نہ پيادوں ميں سے كوئي خندق عبور كرسكا اور نہ سواروں ميں سے _آخر كار لشكر شرك ميں سے پانچ آدميوں عَمروبَن عَبدوَدّ، عكرمةَ بن اَبى جَہل ، ہُبَيرة بَن اَبى وَہب، نَوفل بَن عَبداللہ ، ضرار بن خَطّاب جنگى لباس پہننے كے بعد غرور و تكبّر كے ساتھ اتحادّيوں كى لشكر گاہ سے باہر آكر ان كو مخاطب كرتے ہوئے كہا كہ ''آج پتہ چل جائے گا كہ حقيقى بہادر كون ہے؟''

اس كے بعد انہوں نے ايڑلگا كر گھوڑوں كو اس حصّہ كى طرف سے اُڑايا جو خندق كا كم چوڑا حصّہ تھا _ جانبازوں كا دفاع ان كو نہ روك سكا عَمروبَن عَبدوَدّ نے بلند آواز سے

۹۴

مبارز طلبى كى اور مذاق اُڑانے والے لہجہ ميں بولا '' اے بہشت كے دعويدارو كہاں ہو؟ كيا كوئي ہے كہ جسے ميں بہشت روانہ كروں يا وہ مجھے جہنّم بھيج دے ؟'' وہ اپنى بات كا تكرار كرتا رہا يہاں تك كہ اس نے كہا '' ميں نے اتنى آوازيں دى كہ ميں تھك گيا اور ميرى آواز بيٹھ گئي ہے''

اس موقع پر پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كى طرف رخ كيا اور فرمايا كيا كوئي ہے جو اس كے شركو ہمارے سروں سے دور كرے؟'' حضرت على (ع) نے آمادگى كا اعلان كيا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو اجازت نہيں دى اور اپنى بات پھر دہرائي ،مجاہدين اسلام كے درميان سكوت كى حكمرانى تھى كسى ميں بھى قريش كے بڑے پہلوان سے مقابلہ كى جرا ت نہ تھى _ تيسرى بار آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر فرمايا اور اس موقع پر بھى حضرت على (ع) ہى تھے جنھوں نے آمادگى كا اعلان كيا _

نتيجہ ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على (ع) كو اجازت ديدى اور اپنا عمامہ ان كے سرپر ركھا، اپنى تلواران كو عطا كي_ جب علي(ع) قريش كے اس بہادر سے لڑنے كے لئے چلے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' اب كل ايمان كل شرك كے مقابل ہے''(۲۰)

اس زمانہ كے آئين رزم كے مطابق اسلام و شرك كے دونوں بہادروں نے رجز خوانى كى اور اس كے بعد تلوار نيام سے باہر نكال كر حملہ آور ہوگئے_ جنگ كے وقت ميدان ميں اتنى گرد اُڑ رہى تھى كہ دونوں ميں سے كوئي دكھائي نہيں ديتا تھا يہاں تك كہ على (ع) كے نعرہ تكبير كى آواز گونجي، پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدا كى قسم علي(ع) نے اس كو قتل كرديا _''

يہ واقعہ اس قدر برق آسا اور حيرت انگيز تھا كہ عمرو كے ساتھى اس كے قتل كوديكھنے كے بعد فوراً فرار كر گئے _ نوفل بن عبداللہ خندق پار كرنے كے لئے كو دتے وقت اس ميں

۹۵

گرگيااور جان بازان اسلام نے اس پر سنگ بارى كردي، وہ چلّانے لگا كہ عرب كا قتل جواں مردى كے ساتھ ہوتا ہے_ على عليہ السلام نہايت سرعت سے خندق ميں كود پڑے اور اس كو بھى قتل كر ڈالا_(۲۱)

خندق كے دن حضرت على (ع) كى ضربت آئين اسلام كے استقرار كا سبب بنى اس لئے كہ اگر حضرت على (ع) ، عَمرو بن عَبدودّ كو قتل نہ كرديتے تو لشكر احزاب كى مسلمانوں كے سلسلہ ميں جرا ت بڑھ جاتى اور ان ميں سے دوسرے افراد بھى خندق كو پار كر كے حيات اسلام كا خاتمہ كرديتے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس ضربت كى فضيلت ميں فرمايا_ '' روز خندق علي(ع) كى ضربت تمام جن و انس كى عبادت سے افضل ہے''(۲۲)

اس كے دوسرے دن خالدبن وليد نے شكست كے جبران كے لئے خندق كے كم چوڑے حصّہ كى طرف سے اپنے شہ سواروں كے دستہ كو خندق سے عبور كرانا چاہا ليكن مجاہدين اسلام كے مردانہ واردفاع نے، جو غروب تك جارى رہا ، دشمن كے ہر طرح كے ابتكار عمل كى قوّت كو سلب كرليا_

۹۶

سوالات :

۱_ غزوہ دومة الجندل كى اہميّت كس چيز ميں ہے؟

۲_ جنگ احزاب كے اصلى محرّك كون لوگ ہيں؟

۳_ خندق كھود نے كى تجويز كس نے پيش كي؟

۴_ بنى قُرَيظَہ كے يہوديوں نے كيوں پيمان شكنى كي؟

۵_ جنگ خندق ميں ضربت على (ع) كى اہميت كس وجہ سے ہے؟

۹۷

حوالہ جات

۱_ اس غزوہ كى تاريخ ميں اختلاف ہے، ابن ہشام اس كو جمادى الاولى ۴ھ كے واقعات ميں ذكر كرتے ہيں ليكن واقدى اور مسعودى نے اسے محرم ۵ ھ كے واقعات ميں ذكر كيا ہے_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۱۳_ تاريخ طبرى ج ۲ ، ص ۵۵۵_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۹۵ _ التنبہ و الاشراف مسعودى ملاحظہ ہو_

۲_ سيرة ابن ہشام ج۳ص ۲۱۳_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۵۷/۵۵۵_

۳ _ مغازى واقدى ج ۱ ص ۴۰۲ تا ۴۰۴_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۶۲_

۴_ التنبيہ و الاشراف ص ۲۱۵_

۵_ ليكن غزوہ احزاب كى صحيح تاريخ مورخين نے بيان نہيں كى ہے اور كہا ہے كہ شوال يا ذى قعدہ ۵ ہجرى ہے_ مذكورہ بالا فرض كى بنا سپاہ احزاب كے ذريعہ مدينہ كا محاصرہ ۲۳ شوال ۵ ہجرى ہوگا_

۶_ اكثر مورخين نے لكھا ہے كہ ايك مہينے تك مدينہ پر لشكر احزاب كا محاصرہ تھا_ اور پھر مورخين كى اكثريت نے لكھا ہے كہ دشمن كے فرار كے بعد بلافاصلہ اسلامى سپاہيوں نے اسى دن بنى قريظہ كے لشكر اور قلعہ كا محاصرہ كرليا جس كى تاريخ ۲۳ ذى قعدہ بيان كى گئي ہے ليكن غزوہ احزاب كى دقيق تاريخ مؤرخين نے بيان نہيں كى بلكہ لكھاہے كہ ۵ ھ ق ميں ماہ شوال يا ذى القعدہ ميں يہ غزوہ پيش آيا ليكن اگر بنى قريظہ كے قلعہ كى تاريخ كو دقيق فرض كريں تو پھر دشمن نے مدينہ كا محاصرہ ۲۳ شوال ۵ ھ ق كو كيا_

۷_ طبقات ابن سعد ج۲ ص ۶۶_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۶۵_

۸_حيات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ڈاكٹر ہيكل ص ۲۹۷_

۹_( اَلم تَرَ الى الّذين اُوتوا نَصَيباً من الكتب يُؤمنون بالجبت و الطّاغوت و يقولون للّذين كَفَرُوا هؤلاء اَهدى منَ الَّذينَ اَمنُو سبيلاً ) (نسائ/۵۱)_

۱۰_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۶۶_

۱۱_ التنبيہ و الاشراف ميں مسعودى كى نقل كے مطابق حملہ آواروں كى تعداد چوبيس ہزار تھي_

۹۸

۱۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۴۴_

۱۳_سيرة حلبيہ ج ۲ ص ۳۱۳_'' سلمانُ منّا اہلَ البيت''_

۱۴_ سيرة حلبيہ ج ۲ ص ۳۱۳_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۶۹ _ تاريخ بغداد ج ۱ ص۱۳۱ ، ۱۳۲ تھوڑے سے اختلاف كے ساتھ_

۱۵_( و اذ يقولُ المُنافقون و الّذين فى قلوبهم مَرَضٌ ما وعدنا اللهُ و رسُولُه الا عُزوراً ) (احزاب۱۲) تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۷۰_

۱۶_ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۵۰_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۵۴/۴۵۹ سے تلخيص كيساتھ_ عَضَل و قارّہ دو قبيلوں كے نام ہيں _ يہ وہ قبيلے ہيں جنہوں نے اصحاب رجيع والے واقعہ ميں بے وفائي كى ، اپنا پيمان توڑڈالا اور مسلمانوں كو شہيد كيا ان كلمات كے استعمال كا مطلب يہ تھا كہ بنى قريظہ نے بھى ان دوقبيلوں كى مانند پيمان شكنى كى ہے _

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۵۹_

۱۹_( وَ اذ قَالت طَائفةٌ منهُم يَا اَهلَ يَثربَ لا مُقامَ لَكم فَارجعُوا وَيَستَاذن فريقٌ مَنهُمُ البَّنيَّ يَقولُونَ انَّ بُيُو تَنَاعَورة وَ مَا هيَ بعَورَة: ان يُريدُونَ الّا فراراً ) ( احزاب/۱۳) _

۲۰_( وَ لمّارَا المؤمنُونَ الا حزاَبَ قَالوا هذا مَا وَعَدَنَا اللهُ و رَسُولُهُ و صَدَقَ الله و رَسُولُهُ و مَازَادَ هُم اَلّا ايماناً و تَسليماً ) (احزاب /۲۲) _

۲۱_ برزالايمانُ كُلَّہ، الى الشرك كُلہ_

۲۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۷۰_ ارشاد شيخ مفيد ص ۵۳_

۲۳_ ضَربة عَليّ يومَ الخَندَق اَفضَلُ من عبادة الثَقَلَين_ دلائل الصدق ج ۲ ص ۱۷۵، مستدرك ج ۳ ص ۳۲_

۹۹

چھٹاسبق

دشمن كى صفوں ميں تفرقہ پيدا كرنے كى كوشش

بنى قريظہ ور مشركين كے درميان پھوٹ

دشمن كى صفوں ميں لشكر اسلام كا سپاہي

شہداء اسلام اور كشتگان كفر

لشكر احزاب كى شكست كے اسباب

جنگ احزاب كے نتائج

غزوہ بنى قريظہ

ايك خيانت كا ر مسلمان اور اسكى توبہ كى قبوليت

بنى قريظہ كا اپنے آپ كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالے كرنا

سعد ابن معاذ كا فيصلہ

سعد كے فيصلے كى دليليں

پيمان شكنى كا انجام

اسارى اور مال غنيمت

سوالات

حوالہ جات

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298