تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي20%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162530 / ڈاؤنلوڈ: 3886
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

سوالات

۱_ سريہ ابو سَلَمة كا كيا نتيجہ رہا؟

۲_ واقعہ رجيع كيوں كر واقع ہوا اور كتنے لوگ شہيد ہوئے؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمربن اميّہ كو مكّہ كيوں بھيجا؟

۴_ سريہ عبدُ اللہ بن اُنَيس كا كيا نتيجہ رہا؟

۵_ بنى نضير كے يہوديوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے قتل كا ارادہ كيوں كيا؟

۶_ غزوہ '' بدر الموعد'' ميں لشكر اسلام كا مقابلہ كرنے سے ابوسفيان كيوں ڈرگيا؟

۸۱

حوالہ جات

۱_ بعض لوگوں كى تحرير كے مطابق ۱۵ محرم، طبقات ابن سعد ج ۲، ص ۳۴۰_ واقدى كى تحرير كے مطابق يكم محرم مغازى ج ۱ ، ۲ ۲۴۰_

۲_طبقات ابن سعد ج۲ ص ۳۴۰_مغازى واقدى ج۱ ص ۳۴۰_

۳_طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۵۱_امتاع الاسماع ص ۲۵۴_

۴_ ابن ہشام نے سريہ رجيع كا تذكرہ جنگ احد كے بعد ہجرت كے تيسرے سال كے واقعات ميں كيا ہے ر_ك ''ج ۳ ص ۱۷۸''_

۵_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۳۰ سے ۵۴۲ تك سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۷_۱_

۶_ بقول ابو سعيد ۷۰ افراد_

۷_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۴۶_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۵۱/۵۳_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۱۹۳_

۸_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۴۲_مواہب اللدنّيہ ميں اس سر يہ كو ۶ ھ ميں ، صلح حديبيہ سے پہلے ذكر كيا گياہے _ ج ۱ ص ۱۲۵_

۹_ مخالف اسلام اور مفسد قبيلہ '' بنى نضير ''كے يہوديوں كے اخراج كے بعد صرف بنى قريظہ كے يہودى مدينہ ميں رہ گئے ،بنى نضير كے باقى اموال و املاك كى تقسيم كے بعد مہاجر مسلمانوں سے اقتصادى پريشانى ايك حد تك دور ہوئي_

۱۰_ مغازى واقدى ج ۱ _ ص ۳۶۳/ ۳۸۰ ، سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۱۹۶، طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۵۷، تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۵۱/۵۵۵، تاريخ دمشق ج ۱ ، ص ۴۱_

۱۱_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۰۳_

۱۲_ اس غزوہ كى تاريخ ابن ہشام شعبان ۴ ھ اور واقعدى ذى قعدہ ۴ ھ سمجھتے ہيں سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۲۰_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۳۸۴ ملاحظہ ہو_

۱۳_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۳۸۴سے ۳۸۹تك _ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۲۰_

۱۴_ مروج الذّھب ج ۲ ، ص ۲۸۹_

۸۲

پانچواں سبق

غزوہ ذات الرقاع

غزوہ دومةُ الجندَل

غزوہ خندق (احزاب)

لشكر احزاب كى مدينہ كى طرف روانگي

لشكر كى روانگى سے متعلق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا آگاہ ہونا

بجلى كى چمك ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كيا ديكھا؟

مدينہ لشكر كفار كے محاصرے ميں

بنى قريظہ كى عہد شكني

خطرناك صورتحال

ايمان و كفر كا آمنا سامنا

سوالات

۸۳

غَزوہ ذاتُ الرّقاع

تاريخ : دسويں محرم ۵ ہجرى قمرى(۱) بمطابق ۱۳ جون ۶۲۶ ء بروز بدھ

غزوہ بنى نضير كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ملى كہ قبيلہ غَطَفَان يعنى بنى ثعلبہ اور بنى مُحارب نے مسلمانوں سے جنگ كے لئے كچھ لشكر جمع كر ركھا ہے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سازش كو ناكام بنانے كے لئے مدينہ ميں جناب ابوذر كو اپنا جانشين بنايااور خود چار سو افراد كا لشكر لے كر نجد كى طرف روانہ ہوئے،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن كے عظيم لشكر كے روبرو ہوئے مگر دشمن كو خوف و دہشت نے گھير ليا اور كسى طرح كے ٹكراؤ سے پہلے ہى دشمن متفرق ہوگيا_

اس سفر ميں دشمن كے حملے كے پيش نظر ، خطرناك ماحول ميں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے لشكراسلام كے ساتھ نماز خوف ادا كى پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سفر كى كلُ مدّت ۱۵ روز تھي_(۲)

غزوہ دُومَةُ الجَندَل

روانگى بروز اتوار ۲۵ ربيع الاول ۵ ھ ق، مطابق ۲۶ اگست ۶۲۶ء

مدينہ واپسى ۲۰ ربيع الثانى ، بمطابق ۲۰ ستمبر ۶۲۶ ئ بروز جمعرات

مخبروں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر دى كہ دُومَةُ الجندل ميں بہت سے لوگ جمع ہوگئے ہيں اور مسافروں كا راستہ روكنے كے علاوہ ان پر ظلم و ستم بھى ڈھار ہے ہيں ان كا ارادہ ہے كہ مدينہ پر حملہ كريں_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سبَاعَ بن عرفُطَہ غَفاري كو مدينہ ميں اپنا جانشين معيّن

۸۴

فرمايا اور ہزار آدميوں كے لشكر كے ساتھ دُومَةُ الجندل كى طرف روانہ ہوگئے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سپاہى راتوں كو راستہ طے كرتے اور دن كو درّوں ميں چُھپ كر آرام كرتے تھے_ دشمن كو لشكر اسلام كى روانگى كا پتہ چلا تو ان پر ايسار عب طارى ہواجوپہلے كبھى نہيں ہوا تھا اور فوراً ہى اس علاقے سے فرار ہوگئے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چند دن علاقے ميں قيام پذير رہے اور مختلف دستوں كو اطراف و جوانب ميں بھيجا تا كہ معلومات اكٹھى كرنے كے لے ساتھ ساتھ دشمنوں كى ممكنہ سازشوں كو ناكام بنائيں_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۲۵ روز كے بعد مدينہ پلٹ آئے_ لوٹتے وقت فراز نامى شخص سے ، جس كا قبيلہ قحط سے متاثر ہوا تھا ، معاہدہ كيا اور اسے اجازت دى كہ مدينہ كے اطراف كى چراگاہوں سے استفادہ كرئے(۳) _

اس غزوہ كى اہميت كى وجہ يہ ہے كہ مدينہ سے دور دراز كے علاقوں تك جادہ پيمائي اور خشك و ہولناك صحراؤں سے عبور كرنے ميں مسلمانوں كى طاقت كا مظاہرہ ہوا اور دوسرى طرف اسلام مشرقى روم كى سرحدوں تك نفوذ كرگيا اور يہ فوجى تحريك روميوں كى تحقير كا موجب بنى _ مسعودى كى تحرير كے مطابق ، تاريخ اسلام ميں روم جيسى بڑى طاقت كى گماشتہ حكومت كے ساتھ فوجى مقابلہ كرنے كے لئے يہ پہلا قدم تھا _(۴)

غزوہ خَندَق ( اَحزاَب)

تقريباً ۲۳ شوال ۵ ھ ق(۵) بمطابق ۱۹ مارچ ۶۲۶ئ

غزوہ خندق كے اسباب

بنى نضير كے يہودى جنہوںنے بغض و كينہ اور انتقامى جذبات كے ساتھ مدينہ چھوڑا تھا

۸۵

خاموشى سے نہيں بيٹھے جب يہ لوگ خيبر پہنچے تو ان كے سردار حُيَّ بن اَخطَب اور كنَانَةبن اَبى الحُقيق ، ابُو عامر فاسق اور ايك جماعت كے ساتھ مكہ روانہ ہوئے قريش اور ان كے تابعين كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ كى دعوت دى ،انہوں نے قريش سے كہا كہ '' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے بہت بڑا خطرہ ہمارئے انتظار ميں ہے اگر فوراً پسپا كردينے والا لشكر تيار نہ كيا گيا تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہرجگہ اور ہر شخص پر غالب آجائيں گے''_

ايك طرف بدر مَوعد ميں قريش كى شكست و سرنگونى ، جنگ كى دھمكى دينے كے باوجود لشكر اسلام كے خوف سے حاضر نہ ہونا اور لشكر اسلام كى پے درپے كاميابى نے قريش كو اس حقيقت كى طرف متوجہ كيا كہ مسلمانوں كى بڑھتى ہوئي جنگى طاقت كے پيش نظر اسلامى تحريك كو كچلنے كے ليے كوئي بنيادى اقدام كرنا چاہيے _ اسى وجہ سے قريش خود اس فكر ميں تھے كہ ايك عظيم لشكر تيار كريں اور اب بہترين موقع آن پہنچا تھا_ اس لئے كہ يہوديوں نے اعلان كيا كہ ہم تمہارے ساتھ رہيں گے يہاں تك كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جڑسے اكھاڑ كرپھينك ديں لہذا وہ قريش كے سرداروں كے ساتھ كعبہ ميں گئے اور وہاں انہوں نے قسم كھائي كہ ايك دوسرے كو بے سہارا نہيں چھوڑيں گے اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مقابلے كے لئے آخرى فرد تك ايك دل اور ايك زبان ہوكر ڈٹے رہيں گے_(۶) قريش نے يہوديوں كے سربرآوردہ افراد سے پوچھا كہ تم قديم كتاب كے جاننے والے اور عالم دين ہو تم فيصلہ كرو كہ ہمارا دين بہتر ہے يا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا؟ يہوديوں كے چالاك و دھوكہ باز سرداروں نے جواب ديا كہ '' تمہارا دين بہتر ہے اور تم حق پر ہو''_

يہ يہودى توحيد پر ايمان كے باوجود ايسى بات كہہ كر سخت گناہ كے مرتكب ہوئے اور انہوں نے اپنى سياہ تاريخ ميں ننگ و عار والے ايك بڑے دھبے كا اضافہ كيا_ ايك يہودى

۸۶

مصنف ڈاكٹر اسرائيل اپنى كتاب '' تاريخ يہوديان عربستان'' ميں لكھتاہے كہ '' ہرگز يہ بات مناسب نہيں تھى كہ يہودى ايسى خطا كے مرتكب ہوتے اگرچہ قريش ان كى خواہش كو رد كرديتے ، اس كے علاوہ ہرگز يہ بات صحيح نہيں تھى كہ ملّت يہود، بُت پرستوں كے پاس پناہ ليتى اس لئے كہ يہ روش تورات كى تعليمات كے مطابق نہيں ہے_(۷)

قرآن اس اتحاد كى طرف اشارہ كرتے ہوئے كہتا ہے كہ '' كيا تم نے ان لوگوں كو نہيں ديكھا كہ جن كو كتاب سے كچھ حصّہ ديا گيا ہے وہ كس طرح بتوں اور طاغوت پر ايمان لاتے ہيں اور كافرين و مشركين سے كہتے ہيں كہ تمہارا راستہ مومنين كى بہ نسبت حقيقت سے زيادہ نزديك ہے''(۸) _

جب مشركين نے يہودى سرداروں سے مدد كا وعدہ اور روانگى كى تاريخ معيّن كى تو يہوديوں نے بھى ان سے وعدہ كيا كہ بنى قُريظَہ كے يہوديوں كو جو اس وقت ساكن مدينہ تھے ، مدد كے لئے بلائيں گے _ قريش كو پيمان شكنى اور جنگ پر آمادہ كرنے كے بعد يہودى وفد قبيلہ غَطفان كى طرف روانہ ہوا ، قبيلہ غَطفان كے افراد نے ان كى ہمراہى كے علاوہ اپنے ہم عہد قبيلہ بنى اسد كو مدد كى دعوت دى اور قريش نے اپنے حليف قبيلہ بنى سُلَيم كو مدد كيلئے بلايا(۹) _

يہوديوں كى شہ پر اسلام كے خلاف ايك بہت بڑا محاذ تيار ہو گيا ، جس ميں مشركين ، مستكبرين ، منافقين ، يہود ، مدينہ سے فرار كرنے والے ،قريش كے مختلف قبائل ، بنى سليم ، بنى غطفان ، بنى اسد اور ديگر احزاب و قبائل شامل تھے اور سب نے مل كر اسلام كے خلاف جنگ كى ٹھانى ہوئي تھى تا كہ نور خدا كوخاموش كرديں_جنگى اخراجات اور اسلحہ كى فراہمى يہود كى طرف سے انجام پائي_

۸۷

لشكر احزاب كى مدينہ كى طرف روانگي

مختلف قبيلوں اور گروہوں كى طرف سے اس جنگى معاہدے كے نتيجہ ميں اكٹھے ہونے والے افراد كى مجموعى تعداد دس ۱۰ ہزار سے زيادہ(۱۰) اور لشكر كى كمان ابوسفيان كے ہاتھوں ميں تھي_لشكر احزاب كے جنگجو افراد اسلحہ سے ليس روانگى كيلئے تيار تھے_ اس زمانہ ميں جنگى ايمونيشن اور سازوسامان سے ليس اتنا بڑا لشكر سرزمين حجاز نے كبھى نہيں ديكھا تھا_

ماہ شوال ۵ ہجرى ميں ابوسفيان نے احزاب كے سپاہيوں كو تين الگ الگ دستوں ميں يثرب كى جانب روانہ كيا_

لشكر كى روانگى سے متعلق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا آگاہ ہونا

جب يہ لشكر مكّہ سے مدينہ كى طرف روانہ ہوا تو قبيلہ خُزاعة كے چند سوار نہايت سرعت كے ساتھ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس پہنچے اور سپاہ احزاب كى روانگى كى خبر دي_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے لشكر كى جمع آورى اور آمادہ باش كے اعلان كے ساتھ جنگى ٹيكنيك اور دفاعى طريقہ كار كى تعيين كے لئے اصحاب سے مشورہ فرمايا اور مشاورتى كو نسل ميں يہ بات پيش ہوئي كہ مدينہ سے باہر نكل كر جنگ كى جائے يا مدينہ كے اندر موجود رہيں اور شہر كو ايك طرح سے قلعہ بناديں؟ سلمان فارسى نے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب ہم ايران ميں تھے تو اس وقت اگر دشمن كے شہ سواروں كے حملے كا خطرہ ہوتا تھا تو شہر كے چاروں طرف خندق كھود ديتے تھے'' دفاع كے لئے منعقدہ مجلس مشاورت نے سلمان كى رائے كو مان ليا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان كے نقشہ كے مطابق خندق كھودنے كا حكم ديا_(۱۱)

اس زمانہ ميں مدينہ ، تين طرف سے طبيعى ركاوٹوں جيسے پہاڑوں ، نخلستان كے جھنڈ اور

۸۸

نزديك نزديك بنے ہوئے گھروں ميں گھرا ہوا تھا صرف ايك طرف سے كھلا اور قابل نفوذ تھا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہردس ۱۰ آدميوں كو چاليس زراع كے ايك قطعہ ارض كو كھودنے پر مامور كيا _ جزيرة العرب كى گرم اور جھلسا دينے والى ہوا كے بر خلاف مدينہ سرديوں ميں صحرا كى طرح سرد اور تكليف دہ تھا ، جن دنوں خندق كى كھدائي ہو رہى تھى تين ہزار مسلمان صبح سويرے آفتاب طلوع ہونے سے پہلے جاڑے كى سخت سردى ميں لبوں پر ، پُر شور نعرہ اور دلوں ميں حرارت ايمانى كے جوش و ولولہ كے ساتھ كام ميں مشغول ہوتے اور غروب آفتاب تك كام كرتے رہتے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى تمام مسلمانوں كے ساتھ ساتھ كام ميں مشغول تھے_ پھاؤڑے چلاتے ، مٹّى كو زنبيل ميں ڈال كر كاندھوںپر ركھ كر باہر لاتے تھے_ سلمان نہايت تيزى سے چند آدميوں كے برابر كام كر رہے تھے _ مہاجر و انصار ہر ايك نے كہا كہ سلمان ہم ميں سے ہيں، ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' سلمان ہم اہل بيت(ع) ميں سے ہيں''(۱۲) _

بجلى كى چمك ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كيا ديكھا؟

خندق كھودتے كھودتے سلمان كے سامنے ايك بہت بڑا سفيد پتّھر آگيا_ انہوں نے اور دوسرے افراد نے كافى كوشش كى مگر پتّھر اپنى جگہ سے ہلا تك نہيں _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ہوئي تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشريف لائے اور ہتھوڑے سے پتّھر پر ايك ضرب لگائي، اس ضرب كى وجہ سے ايك بجلى چمكى اور پتّھر كا ايك حصّہ ٹوٹ كر بكھر گيا_ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صدائے تكبير بلند كى ، جب دوسرى اور تيسرى بار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرب لگائي تو ہر ضرب سے بجلى چمكى اور پتّھر كے ٹكڑے

۸۹

ہونے لگے، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر بار صدائے تكبير بلند كرتے رہے ، جناب سلمان نے سوال كيا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بجلى چمكتے وقت تكبير كيوں كہتے تھے؟

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''جب پہلى بار بجلى چمكى تو ميں نے يمن اور صَنعاء كے محل كھلتے ديكھے، دوسرى مرتبہ بجلى كے چمكنے ميں شام و مغرب كے سرخ محلوں كو فتح ہوتے ديكھا، اور جب تيسرى بار بجلى چمكى تو ميں نے كسرى كے محلات كو ديكھا كہ جو ميرى اُمت كے ہاتھوں مسخر ہوجائيں گے''_(۱۳)

مومنين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بشارت سے خوش ہوگئے اور '' بشارت، بشارت'' كى آواز بلند كرنے لگے_ ليكن منافقين نے مذاق اُڑايا اور كہا كہ ''حالت يہ ہے كہ دشمن ہر طرف سے ٹوٹ پڑ رہے ہيں اور اتنى جرا ت نہيں ہے كہ ہم قضائے حاجت كے لئے باہر نكل سكيں اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايران و روم كے محلوں كى فتح كى گفتگو كر رہے ہيں _ سچ تو يہ ہے كہ يہ باتيں فريب سے زيادہ نہيں ہيں( معاذ اللہ ) قرآن منافقين كے بارے ميں كہتا ہے '' منافقين او ر وہ لوگ جن كے دلوں ميں بيمارى ( نفاق) ہے وہ كہتے ہيں كہ يہ وعدے جو خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كر رہے ہيں يہ دھوكے سے زيادہ نہيں ہيں''(۱۴) _

منافقين خندق كھودنے ميں مسلمانوں كى مدد كر رہے تھے مگر ان كى كوشش تھى كہ كسى بہانے سے اپنے كاندھوں كو اس بوجھ سے خالى كريں اس طرح وہ اپنے نفاق كو آشكار كر رہے تھے_

خندق كى كھدائي تمام ہوئي جس كى لمبائي ۱۲۰۰۰ زراع تقريباً ۴/۵ كلوميٹر ،گہرائي ۵ ہاتھ اور اس كى چوڑائي اتنى تھى كہ ايك سوار گھوڑے كو جست ديگر پار نہيں كرسكتا تھا_ آخر ميں خندق كے بيچ ميں كچھ دروازے بناديئےئے اور ہر دروازے كى نگہبانى كے لئے ايك قبيلہ

۹۰

معيّن كرديا گيا اور زبير بن عوام كو دروازوںكے محافظين كى سربراہى پر معيّن كيا گيا(۱۵) _

مسلمانوں نے خندق كے پيچھے اپنے لئے مورچے بنالئے اور شہر كے دفاع كے لئے تيرانداز مكمل آمادگى كے ساتھ موجود تھے_

مدينہ لشكر كفار كے محاصرے ميں

كفر كا حملہ آور لشكر ابوسفيان كى سركردگى ميں خندق كھدجانے كے چھ دن بعد سيلاب كى طرح مدينہ پہنچ گيا _ انہوں نے شہر كے چاروں طرف اور اپنے آگے ايك بڑى خندق ديكھى اور مسلمانوں كى اس دفاعى حكمت عملى پر حيران رہ گئے_ جنگى ديدہ وروں نے كہا'' يہ فوجى حربہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايرانيوں سے سيكھا ہے اس لئے كہ عرب اس ڈھنگ سے واقف نہيںہيں_'' كفارنے مجبوراً اپنے خيمے خندق كے سامنے لگالئے_ دشمن كے لشكر كے خيموں سے سارا بيابان سياہ ہوگيا_ لشكر اسلام نے بھى خندق كے اس طرف خيمے لگالئے اور دشمن سے مقابلے اور اس كے حملے سے بچنے كے لئے تيار ہوگئے _

بَنى قُريَظہ كى عہد شكني

لشكر احزاب اور اس كے سپہ سالار ابوسفيان كے دماغ پرمسلمانوں پر برق رفتارى سے كاميابى حاصل كرنے كا بھوت سوار تھا، خندق جيسى بڑى ركاوٹ كے سامنے آجانے سے اب راستے كى تلاش ميں لگ گئے تا كہ لشكر كو خندق كے پار پہنچا سكيں _

مدينہ سے شہر بدر كيئے جانے والے يہودى قبيلے بنى نضير كا سردارحى ابن اخطب جنگ كى آگ بھڑكانے كا اصلى ذمّہ دار تھا _وہ خندق كى موجود گى كيوجہ سے سپاہ احزاب كے حملے كو

۹۱

ناكام ہوتے ہوئے ديكھ كرسب سے زيادہ خوف زدہ تھا، وہ كوشش كر رہا تھا كہ جلد سے جلد احزاب كى كاميابى كا كوئي راستہ مل جائے _ اس نے مدينہ كے اندر سے محاذ كھولنے كا ارادہ كيا _ اس پروگرام كو عملى جامہ پہنا نے كے لئے بَني قُريَظہ كے يہودى جو مدينہ ميں مقيم تھے، بہترين وسيلہ تھے _ اس نے رئيس قبيلہ سے گفتگو كرنے كا ارادہ كيا، قلعہ بَني قُريَظہ كى طرف گيا اور قلعہ كے بند دروازوں كے پيچھے سے گفتگو كى ، قبيلہ بَني قُريَظہ كے سردار كَعب بن اَسَد نے جواب ديا كہ ہم نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عہد و پيمان كيا ہے اور ہم يہ معاہدہ نہيں توڑ سكتے اس لئے كہ سوائے سچّائي اور وفادارى كے ان سے ہم نے اور كچھ نہيں ديكھا ہے_

حُيّ، كعب كو بھڑكانے ميں كامياب ہوگيا اور اس نے اپنے لئے قلعہ كا دروازہ كھلواليا_ قلعہ ميں داخل ہوا اور بَني قُريَظہ كے بزرگ افراد كو اس بات پر آمادہ كرليا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كئے ہوئے اپنے عہد و پيمان كو توڑديں اور اپنى فوجيں نيز دوسرا سامان حملہ آوروں كوديديں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جب بَني قُريَظہ كے يہوديوں كى پيمان شكنى كى خبر ملى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبيلہ اوس و خزرج كے دو بزرگ افراد سَعد بن مُعَاذ اور سَعد بن عُبادة كو مزيد تحقيقات كے لئے قلعہ بَني قُريَظہ روانہ كيا _ وہ لوگ اس بات پر مامور تھے كہ اگر يہ خبر صحيح ہو تو خفيہ طور پر اس كى اطلاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوديں_ انہوں نے واپسى پر خفيہ كوڈ'' عَضَل'' و ''قارّہ'' كے الفاظ كے ساتھ يہوديوں كى پيمان شكنى كى خبر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كودى _(۱۶)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كے ولولے كو باقى ركھنے كے لئے نعرہ تكبير بلند كيا اور فرمايااے مسلمانو ميں تمہيں كاميابى كى بشارت ديتا ہوں _(۱۷)

۹۲

خطرناك صورتحال

اسلامى تحريك ايك حساس موڑ پر تھى ايك طرف اسلحہ سے ليس دشمن كا دس ہزار افراد پر مشتمل لشكر شہر كے سامنے خيمہ زن تھا اور ہر لحظہ اس بات كا امكان تھا كہ خندق كو پار كر كے شہر ميں كشت وخون كا بازار گرم نہ كردے_ اور دوسرى طرف قبيلہ بَني قُريَظہ كے خائن يہودى پيمان شكنى كر كے مسلمانوں كى پيٹھ ميں خنجر گھونپنے كے لئے آمادہ تھے نہتے مسلمانوں بچّوں اور عورتوں پر يہوديوں كے حملے كا خطرہ ، كفار كے لشكر كا خندق عبور كرنے كے خطرہ سے زيادہ خطرناك تھا _

اس ہنگامے ميں منافقين، شيطانى قہقہوں ، طعنوں اور اشارے و كنائے سے مسلمانوں كے زخموں پر نمك پاشي، لوگوں كو دشمن كے سامنے ہتھيار ڈال دينے كى تشويق ،اپنے گھروں كے دفاع كا سامان نہ ہونے كا بہانہ بنا كر فرار كا قصد اور اپنى دفاع جگہوں كو چھوڑ دينے كا ارادہ كر رہے تھے _ قرآن اس سلسلہ ميں كہتا ہے كہ :

'' جب ايك گروہ ( منافقين اور سياہ قلب افراد) نے كہا كہ اے يثرب كے لوگو اب سرزمين يثرب تمہارے رہنے كى جگہ نہيں ہے_ لذا پلٹ جاؤاور ان ميں سے ايك گروہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت مانگ رہا ہے اور كہتا ہے كہ ہمارے گھر كھلے ہوئے ہيں ، دفاع كا كوئي انتظام نہيں ہے _ ايسى صورت ميں ان كا ارادہ و مقصد فرار كے سوااور كچھ نہيں ''(۱۸)

ليكن خدااور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ركھنے والے جاں باز نہ صرف ايسے طوفانوں سے لرزاں نہيں ہوئے بلكہ اور زيادہ مستحكم ہوگئے _ قرآن ان كے بارے ميں كہتا ہے :

'' جب مسلمانوں نے احزاب كے لشكر كو ديكھا تو كہا كہ يہ وہى ہے جس كا وعدہ اللہ اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كيا ہے اور اس واقعہ نے ان كے ايمان و تسليم كو بڑھانے كے علاوہ اور

۹۳

كچھ نہيں كيا''(۱۹)

اس حساس موقع پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلسل اپنى شعلہ بار تقريروں سے اسلام كے جاں بازوں كے حوصلے بڑھاتے رہے ،ان كے فرائض ياد لاتے رہے اور فرماتے '' اگر تم صبر سے كام لوگے اور خدا پر بھروسہ كروگے تو كامياب رہوگے_ '' اور ان لوگوں كو خدا اور اس كے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى فرماں بردارى كى طرف توجّہ دلاتے رہے _

ايسى حالت ميں جاں بازان اسلام اپنے محاذ كى نگہبانى اور تحفظ كے ساتھ ساتھ خندق كے اس طرف بَني قُريَظہ كے شب خون مارنے كے خطرے كو ناكام بنانے كے لئے ۵۰۰ جاں باروں كا ايك گشتى دستہ ليكر پورى تيارى كے ساتھ گشت لگاتے رہے اور راتوں كو اپنے نعرہ تكبير كى بلند آوازوںسے دشمن كے دلوں ميں خوف و ہراس ڈالتے رہے_ اس طرح غفلت كے عالم ميں دشمن كو حملے كرنے كا موقع نہيں مل سكا اور مدينہ پر حملے كا خطرہ ٹل گيا _

ايمان و كفر كا آمنا سامنا

خندق كے دوسرى طرف لشكر احزاب بہت دونوں تك يوں ہى پڑا رہا ليكن نہ پيادوں ميں سے كوئي خندق عبور كرسكا اور نہ سواروں ميں سے _آخر كار لشكر شرك ميں سے پانچ آدميوں عَمروبَن عَبدوَدّ، عكرمةَ بن اَبى جَہل ، ہُبَيرة بَن اَبى وَہب، نَوفل بَن عَبداللہ ، ضرار بن خَطّاب جنگى لباس پہننے كے بعد غرور و تكبّر كے ساتھ اتحادّيوں كى لشكر گاہ سے باہر آكر ان كو مخاطب كرتے ہوئے كہا كہ ''آج پتہ چل جائے گا كہ حقيقى بہادر كون ہے؟''

اس كے بعد انہوں نے ايڑلگا كر گھوڑوں كو اس حصّہ كى طرف سے اُڑايا جو خندق كا كم چوڑا حصّہ تھا _ جانبازوں كا دفاع ان كو نہ روك سكا عَمروبَن عَبدوَدّ نے بلند آواز سے

۹۴

مبارز طلبى كى اور مذاق اُڑانے والے لہجہ ميں بولا '' اے بہشت كے دعويدارو كہاں ہو؟ كيا كوئي ہے كہ جسے ميں بہشت روانہ كروں يا وہ مجھے جہنّم بھيج دے ؟'' وہ اپنى بات كا تكرار كرتا رہا يہاں تك كہ اس نے كہا '' ميں نے اتنى آوازيں دى كہ ميں تھك گيا اور ميرى آواز بيٹھ گئي ہے''

اس موقع پر پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كى طرف رخ كيا اور فرمايا كيا كوئي ہے جو اس كے شركو ہمارے سروں سے دور كرے؟'' حضرت على (ع) نے آمادگى كا اعلان كيا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو اجازت نہيں دى اور اپنى بات پھر دہرائي ،مجاہدين اسلام كے درميان سكوت كى حكمرانى تھى كسى ميں بھى قريش كے بڑے پہلوان سے مقابلہ كى جرا ت نہ تھى _ تيسرى بار آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر فرمايا اور اس موقع پر بھى حضرت على (ع) ہى تھے جنھوں نے آمادگى كا اعلان كيا _

نتيجہ ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على (ع) كو اجازت ديدى اور اپنا عمامہ ان كے سرپر ركھا، اپنى تلواران كو عطا كي_ جب علي(ع) قريش كے اس بہادر سے لڑنے كے لئے چلے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' اب كل ايمان كل شرك كے مقابل ہے''(۲۰)

اس زمانہ كے آئين رزم كے مطابق اسلام و شرك كے دونوں بہادروں نے رجز خوانى كى اور اس كے بعد تلوار نيام سے باہر نكال كر حملہ آور ہوگئے_ جنگ كے وقت ميدان ميں اتنى گرد اُڑ رہى تھى كہ دونوں ميں سے كوئي دكھائي نہيں ديتا تھا يہاں تك كہ على (ع) كے نعرہ تكبير كى آواز گونجي، پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدا كى قسم علي(ع) نے اس كو قتل كرديا _''

يہ واقعہ اس قدر برق آسا اور حيرت انگيز تھا كہ عمرو كے ساتھى اس كے قتل كوديكھنے كے بعد فوراً فرار كر گئے _ نوفل بن عبداللہ خندق پار كرنے كے لئے كو دتے وقت اس ميں

۹۵

گرگيااور جان بازان اسلام نے اس پر سنگ بارى كردي، وہ چلّانے لگا كہ عرب كا قتل جواں مردى كے ساتھ ہوتا ہے_ على عليہ السلام نہايت سرعت سے خندق ميں كود پڑے اور اس كو بھى قتل كر ڈالا_(۲۱)

خندق كے دن حضرت على (ع) كى ضربت آئين اسلام كے استقرار كا سبب بنى اس لئے كہ اگر حضرت على (ع) ، عَمرو بن عَبدودّ كو قتل نہ كرديتے تو لشكر احزاب كى مسلمانوں كے سلسلہ ميں جرا ت بڑھ جاتى اور ان ميں سے دوسرے افراد بھى خندق كو پار كر كے حيات اسلام كا خاتمہ كرديتے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس ضربت كى فضيلت ميں فرمايا_ '' روز خندق علي(ع) كى ضربت تمام جن و انس كى عبادت سے افضل ہے''(۲۲)

اس كے دوسرے دن خالدبن وليد نے شكست كے جبران كے لئے خندق كے كم چوڑے حصّہ كى طرف سے اپنے شہ سواروں كے دستہ كو خندق سے عبور كرانا چاہا ليكن مجاہدين اسلام كے مردانہ واردفاع نے، جو غروب تك جارى رہا ، دشمن كے ہر طرح كے ابتكار عمل كى قوّت كو سلب كرليا_

۹۶

سوالات :

۱_ غزوہ دومة الجندل كى اہميّت كس چيز ميں ہے؟

۲_ جنگ احزاب كے اصلى محرّك كون لوگ ہيں؟

۳_ خندق كھود نے كى تجويز كس نے پيش كي؟

۴_ بنى قُرَيظَہ كے يہوديوں نے كيوں پيمان شكنى كي؟

۵_ جنگ خندق ميں ضربت على (ع) كى اہميت كس وجہ سے ہے؟

۹۷

حوالہ جات

۱_ اس غزوہ كى تاريخ ميں اختلاف ہے، ابن ہشام اس كو جمادى الاولى ۴ھ كے واقعات ميں ذكر كرتے ہيں ليكن واقدى اور مسعودى نے اسے محرم ۵ ھ كے واقعات ميں ذكر كيا ہے_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۱۳_ تاريخ طبرى ج ۲ ، ص ۵۵۵_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۹۵ _ التنبہ و الاشراف مسعودى ملاحظہ ہو_

۲_ سيرة ابن ہشام ج۳ص ۲۱۳_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۵۷/۵۵۵_

۳ _ مغازى واقدى ج ۱ ص ۴۰۲ تا ۴۰۴_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۶۲_

۴_ التنبيہ و الاشراف ص ۲۱۵_

۵_ ليكن غزوہ احزاب كى صحيح تاريخ مورخين نے بيان نہيں كى ہے اور كہا ہے كہ شوال يا ذى قعدہ ۵ ہجرى ہے_ مذكورہ بالا فرض كى بنا سپاہ احزاب كے ذريعہ مدينہ كا محاصرہ ۲۳ شوال ۵ ہجرى ہوگا_

۶_ اكثر مورخين نے لكھا ہے كہ ايك مہينے تك مدينہ پر لشكر احزاب كا محاصرہ تھا_ اور پھر مورخين كى اكثريت نے لكھا ہے كہ دشمن كے فرار كے بعد بلافاصلہ اسلامى سپاہيوں نے اسى دن بنى قريظہ كے لشكر اور قلعہ كا محاصرہ كرليا جس كى تاريخ ۲۳ ذى قعدہ بيان كى گئي ہے ليكن غزوہ احزاب كى دقيق تاريخ مؤرخين نے بيان نہيں كى بلكہ لكھاہے كہ ۵ ھ ق ميں ماہ شوال يا ذى القعدہ ميں يہ غزوہ پيش آيا ليكن اگر بنى قريظہ كے قلعہ كى تاريخ كو دقيق فرض كريں تو پھر دشمن نے مدينہ كا محاصرہ ۲۳ شوال ۵ ھ ق كو كيا_

۷_ طبقات ابن سعد ج۲ ص ۶۶_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۶۵_

۸_حيات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ڈاكٹر ہيكل ص ۲۹۷_

۹_( اَلم تَرَ الى الّذين اُوتوا نَصَيباً من الكتب يُؤمنون بالجبت و الطّاغوت و يقولون للّذين كَفَرُوا هؤلاء اَهدى منَ الَّذينَ اَمنُو سبيلاً ) (نسائ/۵۱)_

۱۰_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۶۶_

۱۱_ التنبيہ و الاشراف ميں مسعودى كى نقل كے مطابق حملہ آواروں كى تعداد چوبيس ہزار تھي_

۹۸

۱۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۴۴_

۱۳_سيرة حلبيہ ج ۲ ص ۳۱۳_'' سلمانُ منّا اہلَ البيت''_

۱۴_ سيرة حلبيہ ج ۲ ص ۳۱۳_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۶۹ _ تاريخ بغداد ج ۱ ص۱۳۱ ، ۱۳۲ تھوڑے سے اختلاف كے ساتھ_

۱۵_( و اذ يقولُ المُنافقون و الّذين فى قلوبهم مَرَضٌ ما وعدنا اللهُ و رسُولُه الا عُزوراً ) (احزاب۱۲) تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۷۰_

۱۶_ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۵۰_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۵۴/۴۵۹ سے تلخيص كيساتھ_ عَضَل و قارّہ دو قبيلوں كے نام ہيں _ يہ وہ قبيلے ہيں جنہوں نے اصحاب رجيع والے واقعہ ميں بے وفائي كى ، اپنا پيمان توڑڈالا اور مسلمانوں كو شہيد كيا ان كلمات كے استعمال كا مطلب يہ تھا كہ بنى قريظہ نے بھى ان دوقبيلوں كى مانند پيمان شكنى كى ہے _

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۵۹_

۱۹_( وَ اذ قَالت طَائفةٌ منهُم يَا اَهلَ يَثربَ لا مُقامَ لَكم فَارجعُوا وَيَستَاذن فريقٌ مَنهُمُ البَّنيَّ يَقولُونَ انَّ بُيُو تَنَاعَورة وَ مَا هيَ بعَورَة: ان يُريدُونَ الّا فراراً ) ( احزاب/۱۳) _

۲۰_( وَ لمّارَا المؤمنُونَ الا حزاَبَ قَالوا هذا مَا وَعَدَنَا اللهُ و رَسُولُهُ و صَدَقَ الله و رَسُولُهُ و مَازَادَ هُم اَلّا ايماناً و تَسليماً ) (احزاب /۲۲) _

۲۱_ برزالايمانُ كُلَّہ، الى الشرك كُلہ_

۲۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۷۰_ ارشاد شيخ مفيد ص ۵۳_

۲۳_ ضَربة عَليّ يومَ الخَندَق اَفضَلُ من عبادة الثَقَلَين_ دلائل الصدق ج ۲ ص ۱۷۵، مستدرك ج ۳ ص ۳۲_

۹۹

چھٹاسبق

دشمن كى صفوں ميں تفرقہ پيدا كرنے كى كوشش

بنى قريظہ ور مشركين كے درميان پھوٹ

دشمن كى صفوں ميں لشكر اسلام كا سپاہي

شہداء اسلام اور كشتگان كفر

لشكر احزاب كى شكست كے اسباب

جنگ احزاب كے نتائج

غزوہ بنى قريظہ

ايك خيانت كا ر مسلمان اور اسكى توبہ كى قبوليت

بنى قريظہ كا اپنے آپ كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالے كرنا

سعد ابن معاذ كا فيصلہ

سعد كے فيصلے كى دليليں

پيمان شكنى كا انجام

اسارى اور مال غنيمت

سوالات

حوالہ جات

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

صلح حديبيہ كے سياسي، مذہبى اور معاشرتى نتائج

بعض مسلمانوں كى رائے كے برعكس(۳۴) صلح حديبيہ اسلام كى عظيم الشان فتح وكامرانى تھى چنانچہ قرآن نے اسے ''فتح مبين'' كے عنوان(۳۵) سے ياد كرتے ہوئے فرمايا ہے :

( إنَّا فَتَحنَا لَكَ فَتحًا مُبينًا )

''اے نبى (ص) ہم نے تم كو كھلى فتح عطا كردي''_

اور رسول خدا (ص) نے اسے ''اعظم الفتوح'' يعنى عظیم ترين فتح سے تعبير فرمايا ہے(۳۶)

اس دوركے اسلامى معاشرے كيلئے اس فتح ونصرت كے بہت سے عمدہ اورسود مند نتائج برآمد ہوئے جن ميں سے ہم بعض كا ذكر ذيل ميں كريں گے_

۱_رسول خد ا(ص) كى پيش قدمى كے باعث ايك طرف تو صلح وامن كے امكانات روشن ہوگئے اور دوسرى طرف مكہ كے فريب خوردہ لوگوں پر يہ حقيقت عياں ہوگئي كہ رسول خدا (ص) كے دل ميں حرمت كے مہينوں ' شہر مكہ اور خانہ خدا كے لئے بہت زيادہ عقيدت و احترام پايا جاتا ہے_

۲_ صلح حديبيہ كى وجہ سے اسلام كوباقاعدہ طور پر تسليم كرليا گيا اور قريش كے دلوں پر اس كى طاقت و عظمت بيٹھ گئي، اس صلح كے باعث ہى جزيرہ نما ئے عرب ميں اسلام كے وقار كو بلندى حاصل ہوئي اور مسلمانوں كے اثر و رسوخ كے امكانات وسيع ہوگئے _

۳_مسلمانوں پر اس وقت تك جو پابندياں عائد تھيں وہ ختم ہوگئيں اور وہ ہر جگہ رفت و آمد كرسكتے تھے چنانچہ اس باہمى ربط و ضبط كا ہى نتيجہ تھا كہ لوگوں نے اسلام كے بارے ميں پہلے سے كہيں زيادہ واقفيت حاصل كى _

۲۲۱

۴_جزيرہ نمائے عرب ميں دين اسلام كى اشاعت كيلئے مناسب ميدان فراہم ہوگيا اب تك مختلف قبائل كے دلوں ميں اسلام كے بارے ميں غلط فہمى اور بدگمانى تھى ان افراد كو جب رسول خدا (ص) نے صلح پسندى كى دعوت عام دى تو وہ لوگ اسلام كے بارے ميں از سر نو غور وفكر كرنے مجبور ہوگئے اور اس كى وجہ سے وہ رسول خدا (ص) نيز مسلمانوں كے زيادہ نزديك آگئے_ صلح حديبيہ اور فتح مكہ كے درميان تقريباً دو سال كا ہى فاصلہ ہے اور يہ فتح اس حقيقت پردلالت كرتى ہے كہ اس كے باعث مسلمانوں كے اثر و رسوخ ميں روز بروز اضافہ ہوا_

۵_ اس فتح كے باعث ہى مسلمانوں پر ''فتح خيبر'' كى راہيں كھليں''خيبر'' درحقيقت يہود يوں كى وہ سرطانى غدود تھى جو اسلامى حكومت كيلئے بہت بڑا خطرہ بنى ہوئي تھى اسى طرح مركز شرك ، مكہ كى فتح كا باعث بنى اور سب سے اہم بات يہ تھى كہ عرب معاشرے ميں جو انقلاب رونما ہوا تھا اب وہ حجاز كى باہر پہنچنے لگا چنانچہ يہ صلح حديبيہ كا ہى فيض تھا كہ رسول خدا (ص) كو يہ موقع مل گيا كہ آنحضرت (ص) ايران ، روم اور حبشہ جيسے ممالك كے حكمرانوں كو متعدد خط روانہ كريں اور انہيں دعوت اسلام ديں_

۲۲۲

سوالات

۱_ سپاہ احزاب كى شكست كے كيا اسباب تھے ؟ مختصر طور پر بيان كيجئے_

۲_ رسول خدا (ص) نے كونسى جنگ كے بعد :''اَلْيَوْمَ نَغْزُوْهُمْ وَ لَا يَغْزُونَا'' كا جملہ ارشاد فرمايا؟_ مختصر الفاظ ميں اس كا جواب ديجئے_

۳_ رسول خدا (ص) نے ''بنى قريظہ'' كے عہد شكن لوگوں كے ساتھ كيا سلوك كيا ؟

۴_ '' بنى قريظہ'' پر جو مسلمانوں كو فتح ونصرت حاصل ہوئي اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۵_ غزوہ ''بنى مصطلق'' كا واقعہ كب اور كس وجہ سے پيش آيا اور اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۶_ قبيلہ ''بنى مصطلق'' كے لوگ كس وجہ سے دين اسلام كى جانب مائل ہوئے ؟

۷_ رسول خدا (ص) كب اور كتنے مسلمانوں كے ہمراہ عمرہ كرنے كى خاطر مكہ كى جانب روانہ ہوئے ؟

۸_ وہ كون لوگ تھے جنہوں نے غزوہ حديبيہ ميں رسول خدا (ص) كے ساتھ شركت كرنے سے روگردانى كى ؟ اس سفر كے بارے ميں ان كى كيا رائے تھي؟

۹_ ''بيعت رضوان'' كس طرح اور كس مقصد كے تحت كى گئي تھى ؟

۱۰_ صلح حديبيہ كے كيا سودمند اور مفيد نتائج برآمد ہوئے؟

۲۲۳

حوالہ جات

۱_سورہ احزاب آيت ۹_

۲_اس كے سلسلے ميں رسول خدا (ص) نے فرمايا تھا :لَمْ يَبْقَ بَيْتٌ منْ بُيُوْت الْمُشْركيْنَ الَّا وَقَدْ دَخَلَهُ وَهْنٌ بقَتْل عَمْرو: _ وَ لَمْ يَبْقَ بَيْتٌ منَ الْمُسْلميْنَ الَّا وَقَدْ دَخَلَهُ عزُّ بقَتْل عَمْرو :_بحارالانوار ج ۲۰ _ ص ۲۰۵(مشركين كے گھروں ميں كوئي گھرايسا نہ بچا جس نے عمرو ابن عبدود كے قتل پر سوگ اور ذلت محسوس نہ كى ہو اور مسلمانوں كے گھروں ميں كوئي گھر ايسا نہ تھا جس نے عمركے قتل پر اظہار خوشى اور اس ميں اپنى عزت محسوس نہ كى ہو''_

۳_اس واقعہ كى تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۲۴_ ۳۲۶_

۴_الارشاد ص ۵۶ و بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲۰۹_

۵_المغازى ج ۲ ص ۴۹۶_

۶_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۳۳_

۷_المغازى ج ۲ ص ۴۹۶_

۸_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۳۳_

۹_''سعد '' كے حاكم مقرر كئے جانے كى ممكن ہے يہ وجہ ہو كہ چونكہ قبيلہ اوس اور يہود بنى قريظہ ايك دوسرے كے حليف تھے اور جب مسلمانوں كے ہاتھوں يہودى گرفتار ہو كر آرہے تھے تو اوس قبيلہ كى ايك جماعت رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئي تھى اور آنحضرت (ص) سے اصرار كے ساتھ درخواست كى تھى كہ ان كى خاطر ''بنى قريظہ'' كو بالكل اسى طرح آزاد كرديا جائے جيسے كہ ''بنى قينقاع'' كو عبداللہ ابن ابى خزرجى كى درخواست پر رہا كيا گيا تھا _ رسول خدا (ص) نے اس خےال كے پيش نظر كہ وہ يہ محسوس نہ كريں كہ ان كے ساتھ امتيازى سلوك روا ركھاجارہا ہے ان كے سردار كو حاكم مقرر فرمايا _

۱۰_''ابوعزہ'' وہ مشرك تھا جو اشعار ميں رسول خدا (ص) اور دين اسلام كى ہجو كيا كرتا تھا جنگ بدر ميں وہ اسير ہوا _ اور اس قدر گريہ وزارى كى كہ رسول خدا (ص) نے اسے فديہ لئے بغير ہى اس شرط پر آزاد كرديا كہ وہ اسلام كے خلاف آئندہ كوئي اقدام نہ كرے گا ليكن اس نے اپنے عہد كا پاس نہ كيا اور جنگ احد ميں بھى شريك ہوا

۲۲۴

اور اشعار ميں رسول خدا(ص) (ص) كى ہجو بھى كى چنانچہ غزوہ ''حمراء الاسد '' ميں جب دوبارہ گرفتار ہو كر آيا اور رسول خدا (ص) سے معافى كى درخواست كى تو آنحضرت (ص) نے فرمايا كہ : ''لَايُلْدَغُ الْمُوْمنُ منْ حُجْر: وَاحد: مَرَّتَيْن '' (مومن ايك سوراخ سے دوبار نہيں ڈساجاتا) اور اس كے قتل كئے جانے كا حكم صادر فرمايا_

۱۱_السيرة النبويہ ج ۳ ص ۲۵۲ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۴۰_

۱۲_اعلام الورى ص ۷۹_

۱۳_تاريخ اسلام تاليف ڈاكٹر سيد جعفر شہيدى ص ۷۳ _ ۷۵_

۱۴_قرآن مجيد نے جنگ احزاب ميں ''بنى قريظہ '' كے كردار كو اس طرح بيان فرمايا ہے :( وَأَنزَلَ الَّذينَ ظَاهَرُوهُم من أَهل الكتَاب من صَيَاصيهم وَقَذَفَ فى قُلُوبهم الرُّعبَ فَريقًا تَقتُلُونَ وَتَأسرُونَ فَريقًا _وَأَورَثَكُم أَرضَهُم وَديَارَهُم وَأَموَالَهُم وَأَرضًا لَم تَطَئُوهَا وَكَانَ الله ُ عَلى كُلّ شَيئ: قَديرًا ) _ ''(احزاب ۲۶_ ۲۷) _''پھر اہل كتاب ميں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں كا ساتھ ديا تھا اللہ ان كے قلعوں سے انہيں اتار لايا اور ان كے دلوں ميں ايسارعب ڈال ديا كہ آج ان ميں سے ايك گروہ كو تم قتل كر رہے ہو اور دوسرے گروہ كو قيد كررہے ہو اور ان كے اموال كا وارث بنا ديا اور وہ علاقہ تمہيں ديا جس پر تم نے كبھى قدم بھى نہيں ركھا تھا اوراللہ ہر چيز پر قادر ہے''_

۱۵_الارشاد ص ۵۸_

۱۶_مناقب آل ابى طالب ج ۱ ص ۱۹ _۲۰_

۱۷_تفسير القمى ج ۲ ص ۱۸۹_ ۱۹۲_

۱۸_اعلام الورى ص ۱۰۲ ومجمع البيان ج ۷ ص ۳۵۲ _ ۳۵۳_

۱۹_بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲۱۰_ ۲۱۲_

۲۰_الميزان ج ۱۶ ص ۳۰۲_

۲۱_التنبيہ و الاشراف مسعودى ص ۲۱۸_

۲۲_اس كى وجہ تسميہ شايد يہ تھى كہ اس سال صلح حديبيہ كے فيض سے مسلمين اور غير مسلمين كے درميان ديگر برسوں كى نسبت تعلقات زيادہ خوشگوار رہے اور مختلف افراد ايك دوسرے كے ساتھ بالخصوص اسلام اور رسول

۲۲۵

خدا (ص) سے زيادہ مانوس ہوئے_مترجم_

۲۳_ان غزوات اور سرايا سے متعلق مزيد اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو : تاريخ پيامبر(ص) تاليف آيتى مرحوم ص ۳۹۰ _۴۲۵_

۲۴_واقدى اور ابن سعد نے لكھا ہے كہ يہ غزوہ ماہ شعبان سنہ ۵ ہجرى ميں پيش آيا ملاحظہ ہو المغازى ج ۱ ص ۴۰۴ واطبقات الكبرى ج ۲ ص ۶۳_

۲۵_فريد'' نامى مقام كے نواح ميں ساحل كى جانب ايك علاقہ ہے معجم البلدان ج ۵ ص ۱۱۸_

۲۶_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۳ ص ۳۰۷_ ۳۰۸_

۲۷_المغازى ج ۲ ص ۵۷۲ _ ۵۷۴ ، الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۹۵_

۲۸_المغازى ج ۲ ص ۵۷۴_ ۵۷۵_

۲۹_سورہ فتح آيت ۱۲_

۳۰_يہ جگہ مكہ سے تقريباً ۲۰ كيلومٹر دور واقع ہے اور چونكہ يہاں اس نام كا پانى كا كنواں تھايا اس نام كے درخت كثرت سے تھے اس لئے يہ جگہ اس نام سے مشہور ہوئي (ملاحظہ ہو : معجم البلدان ج ۲ ص ۲۲۹) آج يہ مقام مكہ كے بالكل كنارے پر واقع ہے_

۳۱_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۳ ص ۳۲۵ _۳۲۹_

۳۲_ سورہ فتح آيت ۱۸_

۳۳_السيرة النبويہ ج ۳ ص ۳۳۰ _ ۳۳۴_

۳۴_ان لوگوں كا كہنا تھا كہ يہ كيسى فتح ہے ہميں نہ تو زيارت خانہ كعبہ ميسر آئي اور نہ ہى ہم منا ميں قربانى كرسكے : نور الثقلين ج ۵ ص ۴۸ بلكہ بعض تو آپ(ص) كى نبوت كے متعلق بھى شكوك و شبہات كا شكار ہوگئے_

۳۵_سورہ فتح آيت ۱_

۳۶_تفسير نور الثقلين ج ۵ ص ۴۸_

۲۲۶

سبق ۱۳:

جنگ موتہ

۲۲۷

دنيا كے بڑے بڑے حكمرانوں كو دعوت اسلام

صلح ''حديبيہ '' كے بعد رسول خد ا(ص) كو قريش كى جانب سے اطمينان خاطر ہوگيا _ اب وقت آگيا تھا كہ آنحضرت (ص) تبليغ دينكے محدودے كو سرزمين حجاز سے باہر تك پھيلائيں چنانچہ آپ (ص) نے دنيا كے ارباب اقتدار كو دين اسلام كى دعوت دينے كا عزم كرليا اور ماہ محرم سنہ ۷ ہجرى ميں چھ سفير رسول خدا (ص) كے چھ خط لے كر ايران، روم ، حبشہ ، مصر ، اسكندريہ اوريمامہ كى جانب روانہ ہوئے_(۱)

رسول خد ا(ص) كے خطوط جب مذكورہ بالا ممالك كے بادشاہوں تك پہنچے تو ہر ايك سے مختلف رد عمل ظاہر ہوا ، حبشہ كے بادشاہ نجاشى اور روم كے فرمانروا ''ہرقل'' نے آنحضرت (ص) كے رسول خدا (ص) ہونے كى گواہى دى اور كہا كہ انجيل ميں ہميں آپ (ص) كى آمد كے بارے ميں خوشخبرى دى جا چكى ہے اوريہ آرزو كى كہ آپ (ص) كى ركاب ميں رہنے كا شرف حاصل كريں_(۲)

مصر اور اسكندريہ كا فرمانروا ''مقوقس''اگرچہ دين اسلام سے تو مشرف نہ ہوسكا ليكن رسول خد ا(ص) كے خط كا جواب اس نے بہت نرم لہجے ميں ديا اور ساتھ ہى چند تحائف بھى روانہ كئے انہى ميں حضرت ''ماريہ قبطيہ'' بھى شامل تھيں جن كے بطن سے رسول خدا (ص) كے فرزند حضرت ابراہيم (ع) كى ولادت ہوئي_(۳)

''تخوم شام'' كے حاكم ''حارث بن ابى شَمر'' ،يمامہ كے فرمانروا ''سليط بن عمرو'' اور

۲۲۸

بادشاہ ايران ''خسرو پرويز'' نے اس بنا پر كہ ان كے دلوں ميں حكومت كى چاہ تھى رسول خدا (ص) كے خط كا جواب نفى ميں ديا_

بادشاہ ايران نے رسول خد ا(ص) كے نامہ مبارك كو چاك كرنے كے علاوہ يمن كے فرمانروا كو جو اس كے تابع تھا ،اس كام پرمامور كيا كہ وہ افراد كو حجاز بھيجے تاكہ رسول خدا (ص) كے بارے ميں تحقيقات كريں _(۴)

حجاز سے يہوديوں كے نفوذ كا خاتمہ

رسول خد ا(ص) جب صلح ''حديبيہ'' كے فيض و بركت سے جنوبى علاقے (مكہ) كى طرف سے مطمئن ہوگئے تو آپ (ص) نے فيصلہ كيا كہ وہ يہودى جو مدينہ كے شمال ميں آباد ہيں ان كا معاملہ بھى بنٹا ديں كيونكہ ان كا وجود اسلامى حكومت كيلئے خطرہ ہونے كے علاوہ شمالى حدود ميں اسلام كى توسيع و تبليغ ميں بھى مانع تھا اس لئے كہ جب رسول خدا (ص) كے قطعى لہجے اور عزم راسخ كى بنياد پر بڑى طاقتوں نے يا تو دين اسلام قبول كيا تھا ياپھر انہيں حكومت كى چاہ نے شديد رد عمل كيلئے مجبوركيا تھا صورت ضرورى تھا كہ اسلامى حكومت كا اندرونى حلقہ ان خيانت كار عوامل اور ان غدار اقليتوں سے پاك و صاف رہے جو دشمن كے ساتھ سازباز كرنے والى تھيںاور ان كے لئے پانچويں ستوں كا كام دے رہى تھيں تاكہ جنگ ''احد'' اور ''احزاب'' جيسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں اور ايسا ميدان ہموار ہوجائے كہ بالفرض باہر سے كسى عسكرى و اقتصادى خطرے كا احتمال ہو تو اس كا اطمينان سے سد باب كياجاسكے_

۲۲۹

غزوہ خيبر

خيبر(۵) يہوديوں كا مضبوط ترين عسكرى مركز تھا كہ جس ميں دس ہزار سے زيادہ جنگجو(۶) سپاہى مقيم تھے ، رسول خد ا(ص) نے فيصلہ كيا كہ سب سے پہلے اس جگہ كو ان كے وجود سے پاك كياجائے(۷) چنانچہ ماہ محرم سنہ ۷ ہجرى ميں سولہ سو (۱۶۰۰)جنگ آزما سپاہيوں كو ساتھ لے كر آپ (ص) مدينہ سے خيبر كى جانب روانہ ہوئے اور راتوں رات ان كے قلعوں كا محاصرہ كرليا ، اس لشكر كے علمدار حضرت على (ع) تھے_

قلعہ والوں نے يہ فيصلہ كيا كہ عورتوں اور بچوں كو ايك اور ساز وسامان و خوراك كو دوسرے مطمئن قلعے ميں محفوظ كرديں ،اس اقدام كے بعد انہوں نے ہر قلعے كے تير اندازوں كو حكم ديا كہ مسلم سپاہ كو اندر داخل ہونے سے روكيں اور ضرورت پڑنے پر قلعے كے باہر موجود دشمن سے بھى جنگ كريں _

سپاہ اسلام نے دشمن كے سات ميں سے پانچ قلعے فتح كرلئے اس جنگ ميں تقريباً پچاس(۵۰) مجاہدين اسلام زخمى ہوئے اور ايك كو شہادت نصيب ہوئي_

باقى دو قلعوں كو فتح كرنے كيلئے رسول خدا (ص) نے پہلے پرچم جناب ابوبكر كو ديا مگر انہيں اس مقصد ميں كاميابى نصيب نہ ہوئي اگلے دن حضرت عمر كو سپاہ كى قيادت دى گئي ليكن وہ بھى كامياب نہ ہوسكے_

تيسرے روز حضرت على (ع) كو يہ قلعہ فتح كرنے پر ماموركيا گيا، آپ (ع) نے پرچم سنبھالا اور دشمن پر حملہ كرنے كيلئے روانہ ہوئے _

ادھر سے يہوديوں كے معروف دلير شہ زور '' مرحب '' بھى زرہ و فولاد ميں غرق قلعے سے نكل كر باہر آيا اور پھردونوں شہ زوروں كے درميان نبرد آزمائي شروع ہوئي دونوں ايك دوسرے پر وار كرتے رہے كہاچانك حضرت (ع) كى شمشير براں مرحب كے فرق پر پڑى جس

۲۳۰

كے باعث اس كے خود اور سر كى ہڈى كے دو ٹكڑے ہوگئے ، مرحب كے ساتھيوں نے جب يہ منظر ديكھا تو ان كے حوصلے پست ہو گئے اور وہ فرار كركے قلعوں ميں پناہ گزيں ہوئے جہاں انہوں نے اپنے اوپر اس كا دروازہ بھى بند كرليا ليكن حضرت على (ع) نے اپنى روحانى طاقت اور قدرت خدا كى مدد سے قلعے كے اس دروازے كو جسے كھولنے اور بند كرنے پر بيس(۸) آدمى مقرر تھے اكھاڑليا اور قلعہ كے باہر بنى ہوئي خندق پر ركھ ديا تاكہ سپاہى اس پر سے گزر كر قلعے ميںداخل ہوسكيں _(۹)

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے دشمن كے سب سے زيادہ محكم ومضبوط قلعہ كو فتح كركے فتنہ خيبر كا خاتمہ كرديا اور يہوديوں نے اپنى شكست تسليم كرلي، اس جنگ ميں پندرہ مسلمان شہيد اور ترانوے(۹۳) يہودى تہ تيغ ہوئے _(۱۰)

يہوديوں پر فتح پانے كے بعد اگر رسول خد ا(ص) چاہتے تو تمام خيانت كاروں كو سزائے موت دے سكتے تھے ، انہيں شہر بدر اور ان كے تمام مال كو ضبط كيا جاسكتا تھا مگر آنحضرت (ص) نے ان كے حق ميں نہايت درگذراور فراخ دلى سے كام ليا چنانچہ انہى كى تجويز پر انہيں يہ اجازت دے دى گئي كہ اگر چاہيں تو اپنے ہى وطن ميں رہيں اور اپنے دينى احكام كو پورى آزادى كے ساتھ انجام ديں بشرطيكہ ہر سال اپنى آمدنى كا نصف حصہ بطور جزيہ اسلامى حكومت كو ادا كريں اور رسول خدا(ص) جب بھى مصلحت سمجھيں گے انہيں خيبر سے نكال ديں گے_(۱۱)

غزوہ خيبر ميں ''حُيَّى بن اخطب'' كى بيٹى ''صفيہ'' دوران جنگ مسلمانوں كى قيد ميں آئي تھيں رسول خدا(ص) نے''غزوہ خيبر'' سے فراغت پانے كے بعد پہلے تو انہيں آزاد كيا اورپھر اس سے نكاح كرليا _(۱۲) اسى عرصے ميں يہ اطلاع بھى ملى كہ حضرت''جعفر بن ابى

۲۳۱

طالب'' حبشہ سے واپس آگئے ہيں جسے سن كر آنحضرت (ص) نے فرمايا كہ :''ان دو خبروں ميں سے كس پر اپنى مسرت كا اظہار كروں ، جعفر كى آمد پر يا خيبر كے فتح ہونے پر _(۱۳)

فدك

خيبر كے يہوديوں پر فتح پانے كے بعد مسلمانوں كا سياسى ، اقتصادى اور عسكرى مقام ومرتبہ بہت بلند ہوگيا اس علاقے ميں آباد يہوديوں پر كارى ضرب لگى اور ان پر مسلمانوں كا رعب بيٹھ گيا _

رسول خد ا(ص) كو جب خيبر كے يہوديوں كى طرف سے يكسوئي ہوئي تو آنحضرت (ص) نے حضرت على (ع) كو وفد كے ہمراہ ''فَدَك''(۱۴) كے يہوديوں كے پاس روانہ كيا اور فرمايا كہ يا تو وہ دين اسلام قبول كريں يا جزيہ ديں يا پھر جنگ كےلئے تيار ہوجائيں_

فدك كے يہودى اپنى آنكھوں سے خيبر كے يہوديوں كى شكست ديكھ چكے تھے اور انہيں يہ بھى معلوم تھا كہ انہوں نے رسول خد ا(ص) كے ساتھ مصالحت كرلى ہے اسى لئے انہوں نے صلح كو قتل اور قيد و بند پر ترجيح دى اور اس بات كيلئے آمادہ ہوگئے كہ ان كے ساتھ بھى وہى سلوك كيا جائے جو خيبر كے يہوديوں كے ساتھ روا ركھا گيا ہے ، رسول خدا (ص) نے ان كى درخواست كو قبول كرليا(۱۵) چونكہ فدك كسى جنگ و خون ريزى كے بغير فتح ہوگيا تھا اسى لئے اسے خالص رسول خدا(ص) كى ذاتى ملكيت ميںشامل كرليا گيا اس جگہ كے متعلق ايسى بہت سى روايات موجود ہيں جن سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ خداوند تعالى كے حكم سے رسول خدا(ص) نے فدك اپنى دختر نيك اختر حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كو عطا كرديا_(۱۶)

۲۳۲

غزوہ وادى القري

رسول خدا (ص) نے يہود كى ''خيبر'' اور ''فدك'' جيسى پناہ گاہوں كو نيست ونابود كرنے كے بعد ''وادى القري'' كى تسخير كا ارادہ كيا اور يہوديوں كے قلعے كا محاصرہ كرليا ، انہوںنے جب يہ ديكھا كہ قلعہ بند رہنے سے كوئي فائدہ نہيں تو انہوں نے بھى اپنى شكست تسليم كرلى ، رسول خدا (ص) نے ان كے ساتھ بھى وہى معاہدہ كيا جو اس سے قبل خيبر كے يہوديوں كے ساتھ كيا جاچكاتھا(۱۷) _

''تيماء يہود'' كے نام سے مشہور(۱۸) علاقہ '' تيمائ''(۱۹) كے يہودى باشندوں نے جو رسول خدا (ص) كے سخت دشمن تھے ، جب دوسرے بھائيوں كى يہ حالت ديكھى تو ان سے درس عبرت حاصل كيا اور اس سے قبل كہ رسول خدا(ص) انكى گوشمالى كے لئے ان كى جانب رخ كريں وہ خود ہى آنحضرت (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور يہ وعدہ كركے كہ ''جزيہ'' ادا كريںگے رسول خدا (ص) سے معاہدہ صلح كرليا(۲۰) اور اس طرح حجاز ميں جتنے بھى يہودى آباد تھے انہوں نے اپنى شكست قبول كرلى اور يہ تسليم كرليا كہ اس علاقے كى اصل طاقت اسلام ہى ہے_

مكہ كى جانب روانگي

جب حجاز ميں اندرونى طور پر امن بحال ہوگيا اور دشمنوں كو غير مسلح كركے شورشوں اور سازشوں كا قلع قمع كرديا گيا نيز صلح ''حديبيہ'' كو ايك سال گزر گياتو رسول خد ا(ص) نے فيصلہ كيا كہ اصحاب كے ہمراہ مكہ تشريف لے جائيں اور زيارت كعبہ سے مشرف ہوں چنانچہ يكم ذى القعدہ سنہ ۷ ہجرى كو آنحضرت (ص) دو ہزار (۲۰۰۰) مسلم افراد كے ہمراہ عمرہ كرنے كى نيت

۲۳۳

سے مكہ كى جانب روانہ ہوئے_

وہ قافلہ جو عمرہ كرنے كى نيت سے روانہ ہوا تھا اس كے آگے آگے (۱۰۰) مسلح گھڑ سوار چل رہے تھے تاكہ دشمن كى طرف سے كوئي خطرہ ہو تو وہ ان مسافرين كا دفاع كرسكيں جن كے پاس اتنا ہى اسلحہ تھا جسے عام مسافر وقت سفر ان دنوں ركھا كرتے تھے _

جس وقت سپاہ اسلام كا مسلح ہر اول دستہ ''مرالظہران''(۲۱) نامى مقام پر پہنچا تو قريش كے سرداروں كو مسافرين كى آمد كا علم ہو اچنانچہ انہوں نے يہ اعتراض كيا كہ اسلحہ كے ساتھ مكہ ميں داخل ہونا ''صلح حديبيہ'' كے معاہدے كى خلاف ورزى ہے_

اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ ہم اسلحہ ساتھ لے كر حرم ميں نہيںجائيں گے، مشركين نے مكہ خالى كرديا اور اطراف كے پہاڑوں پر چڑھ گئے تاكہ رسول خدا(ص) اور اصحاب رسول(ص) كى تبليغ سے محفوظ رہتے ہوئے اوران كى حركات نيز افعال كا مشاہدہ كرسكيں_

رسول اكرم (ص) اپنے دو ہزار صحابيوں سميت خاص جاہ وجلال كے ساتھ مكہ ميں تشريف فرماہوئے ، جس وقت آپ (ص) خانہ كعبہ كى جانب تشريف لے جارہے تھے تو فضا''لبَبَّيكَ اللَّهُمَّ لَبَّيكَ'' كے نعروں سے ايسى گونج رہى تھى كہ مشركين كے دلوں پرغير معمولى رعب وخوف طارى تھا _

ناقہ رسول اكرم(ص) كى مہار حضرت'' عبداللہ ابن رواحہ'' پكڑكرچل رہے تھے وہ نہايت ہى فخريہ انداز ميں رجزيہ بيت پڑھ رہے تھے_

خَلُّوا بَني الكُفَّارَ عَن سَبيله

خَلُّوا فَكُلُّ الخَير في رَسُوله(۲۲)

''اے كفار كى اولاد رسول خد ا(ص) كےلئے راستہ صاف كردو انہيں آگے آنے كيلئے راستہ دو كيونكہ آنحضرت (ص) ہر خير كا منبع اور ہر نيكى كا سرچشمہ ہيں ''_

۲۳۴

رسول خدا (ص) پر اصحاب رسول (ص) پروانہ وار نثار تھے چنانچہ آپ(ص) ان كے حلقے ميں خاص رعب ودبدبے كے ساتھ داخل مكہ ہوئے اور طواف كرنے كيلئے ''مسجدالحرام'' ميں تشريف لے گئے_

اس سياسى عبادى سفر سے ممكن فائدہ اٹھانے كى خاطر رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ زائرين زيادہ سے زيادہ اپنى دينى قوت كا مظاہرہ كريں(۲۳) نيز جس وقت طواف كريں تو حركت تيزى كے ساتھ كى جائے ، احرام كے كپڑے كو اپنے جسم كے ساتھ اس طرح لپيٹيں كہ قوى و تند مند بازو لوگوں كو نظر آئيں تاكہ ديكھنے والوں پر ان كى ہيبت طارى ہو _(۲۴)

ظہر كے وقت حضرت ''بلال'' كو حكم ديا گيا كہ وہ خانہ كعبہ كى چھت پر جائيں اور وہاں سے اذان ديں تاكہ خداوند تعالى كى وحدانيت اور رسول خد ا(ص) كى عظمت مجسم كا اہل مكہ عينى مشاہدہ كرسكيں اور جو لوگ فرار كركے پہاڑوں پر چلے گئے ہيں وہ يہ بات اچھى طرح جان ليں كہ اب وقت فرار گزر چكا ہے واپس آجائو ، نماز اور فلاح كى جانب آنے ميں جلدى كرو_

''حَيَّ عَلَى الصَّلوة ، حَيَّ عَلَى الفَلَاَح''

حضرت بلال كى آواز نے قريش كے سرداروں پر ہر كچل دينے والى ضرب اور ہر شمشير براں سے زيادہ اثر كيا اور انتہائي طيش وغضب ميں آكر ايك دوسرے سے كہنے لگے كہ ''خدا كا شكر ہے كہ ہمارے باپ دادا اس غلام كى آواز سننے سے پہلے ہى اس دنيا سے كو چ كرگئے اور انہيں يہ دن ديكھنا نصيب نہ ہوا''_

اس طرح ''عمرہ القضا'' كاميابى اور كامرانى كے ساتھ ادا ہوا ، جس كے ذريعے خانہ كعبہ كى زيارت بھى ہوگئي اور عبادت بھى اس كے ساتھ ہى كفر كو اسلام كى طاقت كا اندازہ

۲۳۵

ہوا اور آئندہ سال فتح مكہ كا ميدان بھى ہموار ہوگيا چنانچہ اس كے بہت سے سياسى ، عسكرى اورثقافتى اثرات نہ صرف اہل مكہ و قبائل اطراف بلكہ خود مسلمانوں كے قلوب پر نقش ہوئے_

يہ سياسى عبادى تحريك قريش كے سرداروں كے دلوں پر ايسى شقاق و گراں گزرى كہ انہوں نے تين دن بعد ہى رسول خد ا(ص) كى خدمت ميں اپنا نمائندہ روانہ كيا اور كہا كہ جس قدر جلد ممكن ہوسكے مكہ سے چلے جائيں_

اس سفر ميں رسول خدا (ص) نے مكہ كى ''ميمونہ'' نامى خاتون سے رشتہ ازدواج قائم كيا تاكہ قرش كا تعلق آپ (ص) كے ساتھ مستحكم اور دشمنى وعداوت كا جذبہ كم ہوجائے كيونكہ اس كى قريش كے سرداروں سے قرابت دارى تھى(۲۵) يہى نہيں بلكہ رسول خدا (ص) نے يہ بھى چاہاكہ شادى كى رسومات مكہ ميں ادا كردى جائيں اور آپ (ص) قريش كو دعوت وليمہ ميں مدعو فرمائيں اگريہ كام انجام پذير ہوجاتا تو اہل مكہ كو اپنى طرف مائل كرنے ميںمؤثر ہوتا مگر افسوس اہل مكہ نے اس تجويز كوقبول نہ كيا چنانچہ رسول خدا (ص) نے يہ رسم مكہ سے واپس آتے وقت ''سرف''(۲۶) نامى مقام پر پورى كي_(۲۷)

جنگ ''موتہ''

مدينہ كے شمال ميں اور مدينہ سے شام كى طرف پرنے والے تجارتى رستے ميں آبادخيبر' فدك ' وادى القرى اور تيماء جيسے يہود يوں كے مراكز اور اہم مقامات كا قلع قمع ہونے كے ساتھ ہى اسلام كے سياسى اورمعنوى نفوذكا ميدان شمالى سرحدوں كى جانب مزيد ہموار ہوگيا_

۲۳۶

اس علاقے كى اولاً اہميت اس وجہ سے تھى كہ وہ عظیم ترين تمدن جو اس زمانے ميں سياسى 'عسكرى ' اجتماعى اور ثقافتى اعتبار سے انسانى معاشرے كا اعلى و نماياں ترين تمدن شمار كيا جاتا تھا يہيں پرورش پارہا تھا دوسرى وجہ اس كا سرچشمہ آسمانى آئين و قانون تھا يعنى وہ آئين و قانون جس كى دين اسلام سے بيشتر واقفيت و ہم آہنگى ہونے كے علاوہ اس كے اور اسلام كے درميان بہت سى مشترك اقدار تھيں او ريہ مقام ديگر مقامات كى نسبت بہتر طور پر اور زيادہ جلدى حالات كو درك كرسكتا تھا اس كے علاوہ جغرافيائي اعتبار سے بھى يہ جگہ مدينہ سے نزديك تر تھى اور شايد يہى وجہ تھى كہ رسول خدا (ص) نے فتح مكہ سے قبل روم كى جانب توجہ فرمائي_

رسول خدا (ص) نے حضرت ''حارث بن عمير'' كے ہاتھ اپنا خط ''بصرہ'' كے بادشاہ كے نام جو ''قيصر'' كا دست پروردہ تھا روانہ كيا جس وقت رسول خدا (ص) كا يہ ايلچى ''موتہ''(۲۸) نامى گائوں پہنچا تو شرحبيل غسانى نے اسے قتل كرديا يہ واقعہ رسول خدا (ص) پر انتہائي شاق گزرا اور آنحضرت (ص) نے فوراً يہ فيصلہ كرليا كہ اس كا سد باب كياجائے چنانچہ آپ (ص) نے ماہ جمادى الاول سنہ ۸ ہجرى ميں تين ہزار سپاہيوں پر مشتمل لشكر ''موتہ'' كى جانب روانہ كرديا_

اس وقت تك مدينہ سے باہر جتنے بھى لشكر روانہ كئے گئے ان ميں سے سب سے بڑا لشكر تھا ،رسول خدا (ص) اسے رخصت كرنے كيلئے مسلمانوں اور سپاہيوں كے قرابت داروں كے ہمراہ مدينہ كے باہر تك تشريف لائے حضرت'' زيد بن حارثہ'' كوسپہ سالار نيز حضرت ''جعفر ابن ابى طالب '' و حضرت ''عبداللہ بن رواحہ'' كو حضرت زيد كا پہلا اور دوسرا نائب مقرر كرنے(۲۹) كے بعد آپ (ص) نے اس كى وضاحت فرمائي كہ جس معركہ كو سر كرنے كيلئے جارہے ہيں اس كى كيا اہميت ہے اس كے ساتھ ہى آنحضرت (ص) نے ان كے حق ميں دعائے

۲۳۷

خير فرمائي_

لشكر اسلام شام كى جانب روانہ ہوا ،''معان''(۳۰) نامى جگہ پر اطلاع ملى كہ قيصر كے دو لاكھ عرب اور رومى سپاہى ''مآب'' نامى مقام پر جمع ہوگئے ہيں_

يہ خبر سننے كے بعد مسلمانوں ميں تردد پيدا ہوگيا اور يہ فيصلہ نہ كرسكے كہ واپس چلے جائيں يا وہيں مقيم رہيں اور پورے واقعے كى اطلاع رسول خدا (ص) كو پہنچائيں يا پھر اسى مختصر سپاہ كے ساتھ اس فرض كو انجام ديں جس پر انہيں مامور كيا گيا ہے اور سپاہ روم كے ساتھ جنگ كريں_

اس اثناء ميں حضرت ''عبداللہ بن رواحہ'' اپنى جگہ سے اٹھے اور لشكر كے سامنے تقرير كرتے ہوئے انہيں يہ ترغيب دلائي كہ اپنے فرض كو ادا كريں اور سپاہ روم كے ساتھ نبردآزماہوں ان كى تقرير نے سپاہ كے اندر ايسا جوش و ولولہ پيدا كيا كہ سب نے متفقہ طور پر فيصلہ كيا كہ سپاہ روم كے ساتھ جنگ كى جائے چنانچہ اس كے بعد وہ لشكر موتہ ميں ايك دوسرے كے مقابل تھے_

حضرت زيد نے پرچم سنبھالا اور جان پر كھيل كر وہ دوسرے مجاہدين كے ساتھ شہادت كے شوق ميں بجلى كى طرح كوندتے ہوئے سپاہ دشمن پر ٹوٹ پڑے دشمن تجربہ كا راور جنگ آموزدہ تھا اس كا لشكر نيزوں 'تلواروں اور تيز دھار تيروں سے آراستہ تھا اور اس طرف كلمہ توحيد ' جسے بلند وبالا كرنے كيلئے سپاہ اسلام نے ہر خطرہ اپنى جان پر مول ليا تھا اورسپاہ روم پر يہ ثابت كرديا كہ وہ اپنے دين و آئين اور مقدس مقصد كو فروغ دينے كى خاطر جان تك دينے كيلئے دريغ نہيں كرتے_

دشمن كى توجہ سپاہ اسلام كے عملدار كى جانب مبذول ہوئي اس نے اسے اپنے نيزوں

۲۳۸

كے حلقے ميں لے كر اسے زمين پر گراديا، حضرت ''جعفر(ع) ابن ابى طالب(ع) '' نے فوراً ہى پرچم كو اپنے ہاتھ ميں لے كرلہر ايا اور دشمن پر حملہ كرديا ، جس وقت انہوں نے خود كو دشمن كے نرغے ميں پايا اور يہ يقين ہوگيا كہ شہادت قطعى ہے تو اس خيال سے كہ ان كا گھوڑا دشمن كے ہاتھ نہ لگے اس سے اتر گئے اور پيدل جنگ كرنے لگے يہاں تك كہ ان كے دونوں ہاتھ قطع ہوگئے آخر كار تقريباً اسى(۸۰) كارى زخم كھا كر شہادت سے سرفراز ہوئے_

حضرت جعفر (ع) كى شہادت كے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ نے پرچم اسلام سنبھالا اور سپاہ روم كے قلب پر حملہ كرديا وہ بھى دليرانہ جنگ كرتے كرتے شہادت سے ہمكنار ہوئے_

''خالد بن وليد حال ہى میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے وہ بڑے ہى چالاك اور جنگجو انسان تھے ، مجاہدوں كى تجويز اور رائے پر اسے سپہ سالار مقرر كرديا گيا جب انہيں جنگ كرنے ميں كوئي فائدہ نظر نہ آيا تو انہوں نے اب جنگى حربہ تبديل كيا(۳۱) جس كى وجہ سے روميوں ميں تردد پيدا ہوگيا اور اس نے اپنى فوج كو يہ سوچ كر پيچھے ہٹا ديا كہ آيا جنگ كى جائے يا نہيں ؟ _ اپنى اس حكمت عملى سے انہوں نے دشمن كے دولاكھ سپاہيوں سے سپاہ اسلام كو نجات دلائي اور واپس مدينہ آگئے_(۳۲)

ابن ہشام نے جنگ ميں شہداء كى تعدادبارہ(۳۳) اور واقدى نے آٹھ آدمى بيان كى ہے(۳۴) _

جنگ موتہ كے نتائج

جنگ موتہ گرچہ بظاہر مسلمانوں كى شكست اور سپہ سالاروں كى شہادت پر تمام ہوئي اور

۲۳۹

قريش نے اسے اپنى دانست ميں مسلمانوں كى ناتوانى سے تعبير كى _اس لئے اس جنگ كے بعد وہ ايسے دلير ہوگئے كہ انہوں نے قبيلہ ''بنى بكر'' كو اس وجہ سے مدد دينى شروع كردى كہ اس كى ان لوگوں كے ساتھ سازو باز ہوچكى تھى جس كے پس پردہ يہ سازش تھيكہ وہ ان كے اور قبيلہ ''خزاعہ'' كے درميان اس بناپر كشت وكشتار كا بازار گرم كردايں كہ اس قبيلے كا رسول خد ا(ص) كے ساتھ دوستى كا عہد وپيمان ہے چنانچہ انہوں نے قبيلہ ''خزاعہ'' كے چند افراد كو قتل كرديا اور صلحنامہ حديبيہ سے بھى روگردان ہوگئے نيز رسول خدا(ص) كے خلاف اعلان جنگ كرديا(۳۵) ليكن جب ہم اس جنگ كى اہميت كے بارے ميں غورو فكر كريں گے تو اس نتيجے پر پہنچيں گے يہ جنگ سياسى طور پر اور دين اسلام كى اشاعت كيلئے نہايت سودمند ثابت ہوئي كيونكہ اس وقت ايران وروم جيسى دو بڑى طاقتوں كا اس عہد كى دنيا پر غلبہ تھا ان كے علاوہ جو بھى دوسرى حكومتيں تھيں وہ سب كسى نہ كسى طرح سے انہى كى دست پروردہ تھيں اور ان ميں اتنى تاب ومجال تك نہ تھى كہ يہ سوچ سكيں كہ ايسا دن بھى آسكتا ہے كہ وہ ان كے مقابلے پرآ سكيں گے ان دونوں حكومتوں ميں بھى روميوں كو ايرانيوں پر اس وجہ سے برترى حاصل تھى كہ انہوں نے ايران سے جنگ ميں مسلسل كئي فتوحات حاصل كى تھيں_

جزيرہ نمائے عرب كو ايران نے مشرقى جانب سے اورروم نے مغربى طرف سے اس طرح اپنے حلقے اور نرغے ميں لے ركھا تھا جيسے انگوٹھى كے درميان نگينہ اور ان دونوں ہى بڑى طاقتوں كے اس خطہ ارض سے مفادات وابستہ تھے اورانہوںنے يہاں اپنى نو آباديات بھى قائم كر ركھى تھيں(۳۶) _

جنگ موتہ نے ان دونوں بڑى طاقتوں بالخصوص روم كو يہ بات سمجھادى كہ اس كے اقتدار كا زمانہ اب ختم ہوا چاہتاہے اور دنيا ميں تيسرى طاقت ''اسلام'' كے نام سے پورے

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298