تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180334 / ڈاؤنلوڈ: 4272
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

مقابل لايا گيا ہے_ (۲۷)

جب شورى كے نتيجے كا اعلان كيا گيا تو اس وقت بھى آپ نے فرمايا تھا عمر نے اپنى موت كے بعد خلافت كو ايك جماعت ميں محدود كرديا اور مجھے بھى اس جماعت كا ايك ركن قرار ديا ہے بھلا ميرا اس شورى سے كيا تعلق ہے ان ميں سے سب سے پہلے ہى كے مقابلہ ميں ميرے استحقاق ميں كب شك تھا كہ جواب اس قسم كے لوگوں ميں شامل كرليا گيا ہوں ؟ وہ پرندہ كى طرح كبھى زمين پر چلتے تھے اور كبھى اڑنے لگتے تھے مجبوراً ميں نے بھى نشيب وفراز ميں ان سے ہم آہنگى كى ان ميں سے ايك (سعد بن ابى وقاص) تو كينہ توزى كى وجہ سے حضرت عثمان كى طرف چلاگيا اور دوسرا (عبدالرحمن بن عوف) دامادى اور بعض ناگفتہ باتوں كى وجہ سے ادھر جھك گيا_(۲۸)

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے اس بيان كے ذريعے اس مجلس مشاورت كے حقيقى چہرے كو بے نقاب كرديا اور يہ بات واضح كردى كہ آپ كا شمار كسى طرح بھى اس شورى كے اراكين ميں نہےں ہے اس كے علاوہ عثمان كے حق ميں رائے دہى ان كے رائے غير جانبدار نہ تھى بلكہ اس ميں كينہ توزى اور قرابت دارى جيسى ذاتى اغراض شامل تھيں اور جس وقت خلافت كيلئے فيصلہ كيا جارہا تھا اس وقت يہ عوامل كار فرما تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ

جيسا كہ اس سے قبل اشارہ كياجاچكا ہے كہ عمر نے جس شورى كى تشكيل كى تھى اس كى ہيئت شروع سے ہى يہ بتا رہى تھى كہ اس كے ذريعے حضرت عليعليه‌السلام كو اميرالمومنينعليه‌السلام منتخب نہيں كياجائے گا اب يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ جب حضرت علىعليه‌السلام نے جب پہلے ہى يہ انداز لگاليا تھا تو آپ نے اس شورى ميں شركت ہى كيوں فرمائي؟

اس سوال كا جواب دينے كے لئے ضرورى ہے كہ ان نكات كى جانب توجہ دلائي جائے جن ميں بعض آپ ہى كے اقوال ہيں _

۸۱

۱_ ابن عباس نے آپ سے كہا تھا كہ اس شورى ميں شركت نہ كيجئے تواس پر آپ نے يہ فرمايا كہ مجھے اختلاف پسند نہيں _ (۲۹)

۲_ قطب راوندى كے قول كے مطابق ابن عباس كے سوال كے جواب ميں ہى آپ نے يہ فرمايا تھا كہ ميں جانتا تھا كہ شورى كى تشكيل كس نہج پر ہوئي ہے اس كے باعث خلافت ہمارى خاندان سے چلى جائے گى ليكن ميں نے ان كى اس شورى ميں شركت كى جس كى وجہ يہ تھى كہ عمر نے مجھے خلافت كا اہل و شايستہ جانا ليكن اس سے قبل انہوں نے ہى كہا تھاكہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ہے كہ نبوت اور امامت ايك گھر ميں جمع نہ ہوں اب ميں اس شورى ميں شامل كرليا گياہوں تو چاہتاہوں لوگوں كے سامنے كہ ان (عمر)كے فعل كى ان كى بيان كردہ روايت كى مخالفت كو واضح كردوں _(۳۰)

مذكورہ شورى ميں حضرت علىعليه‌السلام كى عدم شركت كے باعث فيصلہ كرنے كا اختيار عبدالرحمن كو ہوتا ايسى صورت ميں اگر حضرت علىعليه‌السلام مخالفت كرتے تو اس ہدايت كے مطابق جو عمر نے كى تھى تو آپ كو قتل كروايا جاتا اس اعتبار سے صحيح اور منطقى راہ وہى تھى جسے آپ نے پيش نظر ركھا_

عثمان كى خلافت

خليفہ دوم كى وفات كے بعد عثمان نے زمام امور اپنے ہاتھوں ميں سنبھالى ، انہوں نے روز اول سے وہى راہ اختيار كى جس كا عمر كو خدشہ تھا_ چنانچہ بتدريج اپنے قرابت داروں (بنى اميہ) كو اہم مناصب پرمقرر كرنا شروع كيا_

اپنے ماموں زاد بھائي عبداللہ ابن عامر كو جس كى عمر ابھى پچيس سال ہى كى تھى بصرے كا والى مقرر كرديا اور اپنے ماموں وليد ابن عقبہ جيسے بدكار شخض كو كوفہ كا گورنر مقرر كيا يہ شخص بحالت مستى مسجد ميں داخل ہوا اور فجر كى نماز ميں چار ركعت پڑھادى نماز پڑھانے كے بعد اس نے اپنے مقتديوں سے كہا كہ اگر آپ چاہيں تو ميں مزيد چند ركعت پڑھاسكتاہوں _

۸۲

معاويہ كو عمر نے دمشق اور اردن كا گورنر مقرر كيا تھا ليكن عثمان نے ان ميں حمص ، فلسطين اور جزيرہ كے علاقوں كا بھى اضافہ كرديا اور اس كے لئے ايسے مواقع فراہم كرديئے جس سے اس كے تسلط واقتدار ميں اضافہ ہوسكے_

اسى طرح انہوں نے اپنے رضاعى بھائي عبداللہ بن سعد كو مصر كا گورنر مقرر كيا_ مروان بن حكم كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہر بدر كرديا تھا مگر عثمان نے اسے اپنے حواريوں ميں شامل كركے اسے اپنا مشير مقرر كرديا_

مختصر يہ كہ ان كى خلافت كے دوران قليل عرصے ميں ہى بصرہ، كوفہ ، شام اور مصر جيسے چار عظےم صوبے جنہيں فوجى اجتماعى اور اقتصادى اعتبار سے خاص اہميت حاصل تھى ، بنى اميہ كے زير تسلط آگئے اور وہ عرب خاندان جو صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نسلوں سے تھے نيز ديگر افراد قبائل حكومت كے عہدوں سے محروم كرديئے گئے_

اموى دستے نے بھى اس موقع كو غنيمت جانا اور شروع سے ہى اپنى وضع وحالت كو استحكام دينے سے كوئي دقيقہ فرو گذاشت نہ كيا_

ابوسفيان نے عثمان كے دور خلافت كى ابتدا ميں ہى اپنے قبيلے كے لوگوں سے كہنا شروع كرديا تھا كہ اے بنى اميہ حكومت كو گيند كى مانند ايك ہاتھ سے دوسرے ہاتھ كى جانب اچھالتے رہو ميرى ہميشہ يہى آرزو رہى ہے كہ حكومت تمہارے ہى ہاتھوں ميں رہے اور تمہارے بچوں كو ورثے ميں ملے_(۳۱) ابوسفيان كى نصےحت كے مطابق بنى اميہ اس پر كاربند ہوگئے كہ امور حكومت ميں داخل ہوكر اپنے ان رسوخ كو وسيع كريں اور خلافت كو سلطنت ميں تبديل كرديں تاكہ اسے اموى خاندان كى ميراث بنانے ميں كامياب ہوسكيں _

مسلمانوں كا بيت المال

وہ كثير دولت جو تازہ مفتوحہ علاقوں سے بطور خراج اور مال غنيمت خلافت اسلاميہ كے مركز كى

۸۳

جانب كشاں كشاں چلى آرہى تھى ، ايسا طرہ امتياز بن گئي تھى جس نے خليفہ سوم كى حيثيت كو ديگر خلفاء سے عليحدہ كرديا تھا_ چنانچہ خليفہ نے خود ہى يہ امتياز حاصل كرليا تھا كہ اگر چاہيں تو وہ اس مال و دولت ميں تصرف كرسكتے ہيں _

قرابت دار،ہم قوم افراد ،قريش كے امرا اور بعض اراكين مجلس ومشاورت اس مال و دولت سے بخشش و بخشايش كے ذريعے فيضياب ہورہے تھے_ اسلامى خلافت كى وسيع و عريض سرزمين پر صوبہ دار اور حكام بھى اسى راہ و روش پر عمل كر رہے تھے_( ۳۳) چنانچہ مسعودى لكھتا ہے كہ : جس وقت عثمان كا قتل ہوا اس وقت ان كے پاس ايك لاكھ پچاس ہزار سونے كے دينار تھے اور دس لاكھ درہم تھے_ ''وادى القري'' ، ''حنين '' اور ديگر مقامات پر جو باغات تھے ان كى قيمت كا تخمينہ ايك لاكھ سونے كے دينار لگايا گيا تھا _ اونٹوں كے گلے اور گھوڑوں كے غول ان سے عليحدہ تھے _(۳۴) حاكم بصرہ بيت المال سے جو سونے اور چاندى كے سكے نكال كر عثمان كے پاس لايا تھا انہوں نے انہيں كيل سے ناپ ناپ كر پيمانے سے خاندان بنى اميہ كى خواتين اور ان كے بچوں كے درميان تقسيم كئے تھے_(۳۵)

عبداللہ بن شرح كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہر بدر كرديا تھا _ فتح افريقہ كے بعد جب وہ واپس آيا اور وہاں سے مال غنيمت اپنے ساتھ لايا تو اس كى قيمت پچيس لاكھ بيس ہزار دينار تھى _ عثمان نے يہ سارا مال اسے ہى بخش ديا_(۳۶)

ايك روز اس نے حكم ديا كہ بيت المال سے دو لاكھ درہم سفيان اور ايك لاكھ درہم مروان كو عطا كرديئے جائيں _(۳۷) اس كے علاوہ ديگر ايسے بہت سے مواقع پر جن كے ذكر كى يہاں گنجائشے نہيں ، موصوف نے دل كھول كر داد و دہش سے كام ليا_

حضرت علىعليه‌السلام كے پندو نصايح

جس وقت لوگ اور بزرگ صحابى عثمان كى راہ و روش اور ان كے كارندوں كى زيادتيوں سے

۸۴

تنگ آگئے تو وہ حضرت علىعليه‌السلام كے پاس پہنچے اور شكايات كے ضمن ميں يہ درخواست كى كہ وہ ان كے نمايندے كى حيثيت سے عثمان كے پاس جائيں اور كہيں كہ وہ لوگوں كو اپنے كارندوں كے شر سے نجات دلائيں _اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام عثمان كے پاس تشريف لے گئے اور آپ نے نصيحت فرمائي _ دوران گفتگو ان سے كہاكہ : عثمان خدا سے ڈرو اور اپنے اوپر رحم كرو خدا كے بہترين بندوں ميں وہ عادل پيشوا ہے جو خود ہدايت يافتہ ہو اور دوسروں كو بھى ہدايت كرے مروان سے تم اتنے نہ دبو كہ وہ تمہيں اس پختہ عمر اور پيرانہ سالى ميں جہاں چاہے ليئے پھرے_(۳۸) بعض صحابہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب عثمان كى كاركردگى اور ان كے كارندوں كى زيادتيوں پر اعتراض كيا تو عثمان كا عتاب نازل ہوا _ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جن بزرگ صحابہ سے انہوں نے ناروا سلوك كيا ان ميں سے تين قابل ذكرہيں _

حضرت ابوذرعليه‌السلام نيك صالح بزرگ تھے ان كا شمار پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عظےم الشان صحابہ ميں ہوتا تھا _ عثمان نے انہيں شہر بدر كركے ''ربذہ''(۳۹) چلے جانے كا حكم ديا يہى نہيں بلكہ يہ حكم جارى كرديا كہ رخصت كرنے كى غرض سے ان كے ساتھ كوئي شخص نہ جائے_ چنانچہ جس وقت وہ روانہ ہوئے تو انہيں رخصت كرنے كے لئے حضرت علىعليه‌السلام آپ كے دو فرزند اور حضرت عقيل و حضرت عمار ياسر كے علاوہ اور كوئي شخص نہ تھا _(۴۰)

عمار ياسر اور عبداللہ بن مسعود بزرگ صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھى وہى حالت گذر گئي جس سے حضرت ابوذرعليه‌السلام دوچار ہوئے تھے_ عبداللہ كے بارے ميں ان كے غلاموں كو حكم ديا گيا كہ وہ انہيں خوب زدو كوب كريں _چنانچہ انہوں نے موصوف كو اس برى طرح زمين پر پٹخا اور اتنا مارا كہ ان كى پسلياں ٹوٹ گئيں _ بيت المال سے جو انہيں وظيفہ دياجاتا تھا وہ بھى منقطع كرديا گيا اور لوگوں كو منع كرديا گيا كہ كوئي ان كى عيادت كو نہ جائے_(۴۱)

حضرت عمار نے جب يہ اعتراض كيا كہ بيت المال كو پانى كى طرح بہايا جارہا ہے اور حكومت كے عہدے نالايق افراد كو ديئے جارہے ہيں تو ان پر بھى خليفہ اور انكے خدمتگاروں كا عتاب نازل ہوا جن كے باعث وہ مرض فتق ميں مبتلا ہوگئے _(۴۲)

۸۵

خليفہ سوم كا قتل

بنى اميہ كو كارگاہ خلافت اور ولايت كے صدر ومقامات پر بروئے كار اور بر سر اقتدار لانا ، ان كا موقع سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور ان بزرگ ہستيوں كى جانب نكتہ چينى كيا جانا جن كا شمار بزرگ صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں ہوتاتھا ايسے عوامل تھے جن كے باعث لوگ عثمان كے خلاف طيش وغضب ميں آگئے اور انفرادى اعتراضات، عوامى غم وغصہ كا سبب بن گئے_

عوامى غم وغصہ كا مقابلہ كرنے كى غرض سے عثمان نے حاكم شام معاويہ اور بصرہ كے گورنر عبداللہ بن سعد كو خط لكھا اور مخالفين كى سركوبى كے لئے ان سے مدد چاہي_(۴۳)

مسلمين كو جب اس بات كى اطلاع ہوئي كہ خليفہ نے اپنى راہ و روش پر تجديد نظر كى بجائے ان كى سركوبى كے اقدامات شروع كرديئے ہيں تو انہوں نے فيصلہ كيا كہ اس قضيے كا فيصلہ ہى كرديں _ چنانچہ اس غرض سے كثير تعداد ميں لوگ مصر سے اور كچھ لوگ كوفہ سے مدينہ پہنچے ، مزيد مہاجرين و انصار بھى ان كے ساتھ شامل ہوگئے اور سب نے دل بناكر عثمان كے گھر كا محاصرہ كرليا_

اگرچہ عوام كے نمايندگان اور خليفہ كے درميان بہت زيادہ كشمكش نيز كئي مرتبہ طولانى گفتگو ہوئي اس موقع پر حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ كو پند ونصائح بھى كئے اور عثمان نے ان پر كاربند رہنے كا وعدہ كيا مگر انہوں نے نہ صرف انہيں عملى جامہ نہ پہنايا بلكہ جنگ و مقابلے پر اتر آئے اور اس بات پر اصرار كركے كہہ ''وہ پيراہن جو خداوند متعال نے مجھے پہنايا ہے ميں اسے ہرگز نہ اتاروں گا''(۴۴) خلافت سے برطرف ہونے كے احتمال كو مسترد كرديا_

عثمان كے گھر كا محاصرہ چاليس دن تك جارى رہا اس دوران گھر كے اندر سے تير چلتے رہے جس ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ايك ضعيف العمر صحابى بھى شہيد ہوگئے _ عوام نے مطالبہ كيا كہ قاتل كو ان كے حوالے كياجائے مگر انہوں نے يہ بات نہ مانى چنانچہ لوگوں نے ان كے گھر پر ہجوم بپا كرديا جس كے باعث عثمان قتل ہوگئے_(۴۵)

۸۶

حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل(۴۶)

نہج البلاغہ ميں مجموعى طور پر سولہ مقامات پر عثمان كے بارے ميں بحث ہوئي ہے جن ميں سے زيادہ كا تعلق قتل عثمان سے ہے _ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے خطبات ميں ايك طرف تو خود كو اس حادثہ قتل سے برى الذمہ قرار ديا ہے اور دوسرى طرف انہوں نے خود كو عثمان كے مددگار ميں شامل نہيں كيا ہے بلكہ جن لوگوں نے ان كے خلاف شورش كى تھى انہيں عثمان كے مددگاروں پر ترجيح دى ہے اس كے ساتھ ہى يہ سانحہ قتل آپ كى نظر ميں مجموعى طور پر اسلامى مصالح و منافع كے مواقع و سازگار نہ تھا_

بظاہر يہ اقوال اور موضوعات مختلف و متضاد نظر آتے ہيں مگر ان ميں اس طرح ہم آہنگى و مطابقت پيدا كى جاسكتى ہے كہ : حضرت علىعليه‌السلام چاہتے تھے كہ عثمان اپنے طريقہ كار سے دست بردار ہوجائيں اور اسلامى عدل كى صحيح راہ اختيار كرديں اورضرورت پيش آجائے تو انہيں گرفتار بھى كرليں تاكہ ان كى جگہ اہل خليفہ بر سر اقتدار آئے اور وہ ان كے دو ركے بدعنوانيوں كى تفتيش كرے اور اس سے متعلق جو حكم خداوندى ہواسے جارى كرے_

اس طرح حضرت علىعليه‌السلام نے نہ تو عثمان كے قتل سے اپنى رضا مندى كا اظہار كيا ہے اور نہ ہى ان كى شورش كرنے والوں كے ساتھ رويے كى تائيد كى ہے _ حضرت علىعليه‌السلام كى يہى كوشش تھى كہ خون نہ بہاياجائے اور شورش كرنے والوں كے جو جائز مطالبات ہيں انہيں تسليم كياجائے اور اس طرح عثمان يا تو اپنى راہ و روش پر تجديد نظر كريں يا خلافت سے برطرف ہوجائيں تاكہ يہ كام كسى ايسے شخص كے سپرد كياجاسكے جو اس كا اہل ومستحق ہو_

عثمان اور انقلابيوں كے درميان جو تنازع ہوا ا س كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كا فيصلہ يہ تھا كہ عثمان نے ہر چيز كو اپنے اور اپنے عزيز واقارب كے لئے مخصوص كرديا تھا اور جو شيوہ انہوں نے اختيار كيا تھا وہ پسنديدہ نہ تھا اور تم شورش كرنے والوں نے بھى عجلت و بے تابى سے كام ليا جو برى چيز ہے_(۴۷)

۸۷

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام فرد ثالث كى حيثيت سے انقلابيوں كے مطالبات عثمان كو بتا رہے تھے تو آپ نے اس تشويش كا اظہار فرمايا تھا كہ ہوسكتا ہے كہ انہيں مسند خلافت پر قتل كردياجائے اور اگر ايسا ہوا تو مسلمانوں پرعظےم مصيبتوں كے دروازے كھل جائيں گے _ چنانچہ اس ضمن ميں آپ نے عثمان سے كہا كہ ميں تمہيں قسم دلا كر كہتا ہوں كہ ايسا كوئي كام نہ كرنا جس كے باعث تمہارا شمار امت كے مقتول پيشواؤں ميں ہو كيونكہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اكثر فرياد كرتے تھے كہ اس امت كے ايك پيشوا كا قتل ہوگا اور اس كے بعد كشت وكشتار كے دروازے كھل جائيں گے''_(۴۸)

عثمان كے قتل كو بہانہ بناكر طلحہ وزبير نے لوگوں كو حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف مشتعل كرنا چاہا تھا اسى لئے ايك موقعے پر آپعليه‌السلام نے انہيں عثمان كے قتل ميں ملوث قرار ديا تھا اور فرمايا تھا:

عثمان كے خون كا بدلہ لينے كى اس لئے جلدى تھى كہيں ايسا نہ ہو كہ انہيں اس خون كا ذمہ دار قرار دياجائے كيونكہ ان پر الزام آرہا تھا كہ انہيں سب سے زيادہ عثمان كے قتل كئے جانے پر اصرار تھا _(۴۹)

حضرت علىعليه‌السلام نے دو موقعوں پر معاويہ كو سخت قصور وارقرار ديا كيونكہ عثمان كے قتل كو اس نے سازش نيز حضرت عليعليه‌السلام كى اسلامى حكومت ميں رخنہ اندازى كى غرض سے بطور آلہ كار استعمال كرنا چاہاتھا _ اس لئے اس قتل پر وہ بہت زيادہ رنج و افسوس ظاہر كر رہا تھا اور اپنے مفاد كى خاطر وہ مظلوم خليفہ كے خون كا قصاص لينے كيلئے لوگوں ميں اشتعال پيدا كر رہا تھا_(۵۰)

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران علىعليه‌السلام كے كارنامے

عثمان كا قتل ''۳۵ھ'' كے اواخر ميں ہوا اور يہيں پر حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے چوتھے مرحلے كى تكميل ہوئي وہ خلافت كو چونكہ اپنا حق سمجھتے تھے اسى لئے اس پچيس سالہ دور ميں انہيں خلفائے ثلاثہ كى حكومت سے اختلاف بھى رہا اس كے باوجود انہوں نے خلفائے وقت كى مدد، ہدايت اور تعليم احكام سے كوئي دريغ نہ كيا اور اسى طرح آپ نے عالم اسلام كى قابل قدر خدمات انجام

۸۸

ديں _

اگرچہ گذشتہ اسباق ميں ہم حضرت علىعليه‌السلام كى بعض كارگزاريوں كے بارے ميں واقفيت حاصل كرچكے ہيں ، ليكن يہاں ہم محض بطور ياد دہانى ترتيب وار آپ كے اہم ترين كارناموں كا ذكر كريں گے:

۱_ قرآن كى تفسير ،ا س كى جمع آورى اور علم تفسير ميں بعض شاگردوں كى تربيت_

۲_ دانشوران علم بالخصوص يہود ونصارى كے سوالات كے جواب اور ان كے شبہات كا ازالہ_

۳_ ايسے واقعات كے احكامات بيان كرنا جو اس وقت تازہ اسلام ميں رونما ہوچكے تھے اور ان كے بارے ميں بالخصوص نص قرآن و سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موجود نہيں تھي_

۴_ خلفاء كے سياسى وعلمى مسائل حل كرنا اور ان كى جانب سے مشورہ كئے جانے پر ايسے نظريات پيش كرنا جو ان كے مشكلات كو دور كرسكيں چنانچہ ان كى بعض مشكلات كو گذشتہ صفحات ميں بطور نمونہ پيش كياجاچكاہے_

۵_ اپنے پاك ضمير اور روشن ذہن شاگردوں كى تربيت وپرورش كرنا جو سير وسلوك كيلئے آمادہ رہيں _

۶_ بعض لاچار و مجبور انسانوں كى زندگى كے مخارج پورا كرنے كى سعى وكوشش كرنا_

۷_ ان لوگوں كى دل جوئي و پاسبانى جن پر حكام وقت كى جانب سے ستم روا ركھے جاچكے تھے_

۸۹

سوالات

۱_ ابوبكر نے داخلى مسائل حل كرنے كے بعد كيا اقدامات كيئے؟

۲_ حضرت علىعليه‌السلام نے دو مرتبہ ابوبكر كے سياسى وعلمى مسائل حل كئے ان كے بارے ميں بھى لكھيئے؟

۳_ عمر كس طرح بر سر اقتدار آئے كيا انہيں عہدہ خلافت پر منصوب كيا گيا يا منتخب كيا گيا _ ان كے بارے ميں شورى كى تشكيل ہوئي اس كے بارے ميں وضاحت كرتے ہوئے ابوبكر كے اقدام سے متعلق حضرت علىعليه‌السلام كے نظريے كى صراحت كيجئے؟

۴_ مسلمانوں نے ايران كو كب فتح كيا؟ مختصر طور پر وضاحت كيجئے ؟

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد احاديث كو نقل وجمع كرنا كيوں ممنوع قرار ديا گيا اس كے اسباب كيا تھے؟

۶_ عمر نے جانشين مقرر كرنے كے سلسلے ميں كيا راہ اختيار كي؟

۷_ عثمان كى مالى حكمت عملى كس بنياد پر قائم تھي؟

۸_ عثمان كے عہد خلافت ميں اموى گروہ كو كيا مراعات حاصل تھي؟

۹_ عثمان كے قتل كے كيا اسباب تھے؟

۱۰_ حضرت علىعليه‌السلام نے پچيس سال تك سكوت وخاموشى كى زندگى بسر كى اس دوران آپ نے كون سے نماياں كارنامے انجام ديئے پانچ واقعات كا ذكر كيجئے_

۹۰

حوالہ جات

۱_ يہ شہر كوفہ اورموجودہ نجف كے درميان واقع تھا_

۲_ بعقوبى (ج۲/۱۳۱) نے يہ رقم ستر ہزار اور ايك لاكھ كے درميان ترديد كے ساتھ نقل كى ہے_

۳_ نہراردن اور جھيل طبريہ كے نزديك صحرائي علاقہ جہاں لشكر اسلام اور سپاہ روم كا مقابلہ ہوا_

۴_ بلاذرى لكھتا ہے كہ لشكر اسلام نے پہلے دمشق فتح كيا اور اس كے بعد اسے يرموك پر كاميابى حاصل ہوئي(فتوح البلدان /۱۴۰)

۵_ اتقان ج ۲ / ۳۲۸

۶_ تذكرة الحفاظ ذہبى ج ۲ /۴۳۱

۷_ مسند حنبل ج ۱/ ۱۴_۲

۸_ تاريخ خلفاء ۹۴_۸۶

۹_ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۳۲

۱۰_ كافى ج ۲/ حديث ۱۶ / ارشاد مفيد /۱۰۷ حضرت علىعليه‌السلام نے اس مسئلے كو اس طرح حل كيا كہ وہ شخص اسے عام لوگوں كے درميان لےجائيں اور ان سے پوچھيں كيا تم نے اس شخص كے سامنے اس آيت كى تلاوت كى ہے جس كى رو سے شراب كو حرام قرار ديا گيا ہے اگر ان كا جواب مثبت ہو تو اس شخص پر حد جارى كى جائے_ وگرنہ اس سے كہاجائے كہ وہ اپنے اس فعل سے توبہ كرے خليفہ نے ايسا ہى كيا اور اس شخص نے نجات پائي_

۱۱_ كامل ابن اثير ج ۲/ ۴۲۵ ' تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۹ ' شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۱۶۳_

نہج البلاغہ خطبہ سوم''فواعجباً بينا هو يستقبلها فى حياته اذ عقدر لاخر بعد وفاية''

۱۲_ يہ عراق ميں كوفہ كے نزديك نہر ہے جو فرات سے نكلى ہے_

۱۳_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۴۹_ نہج البلاغہ خ ۱۴۶_ بحار مطبوعہ كمپانى ج ۹/۵۰۱

۱۴_وحملہ وفصالہ ثلاثون شہرا (احقاف آيہ ۱۵)

۱۵_ والوالدات يرضعن اولادہن حولين كاملين (بقرہ ۲۳۲)

۱۶_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۲۱ _

۹۱

۱۷_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۳۱

۱۸ _ تاريخ يعقوبى ج۲ / ۱۵۵ ' كامل ابن اثير ج۳ / ۳۳ ۳۱ _

۱۹ _ تاريخ يعقوبى ج۲ / ۱۵۸ ' شرح ابن ابى الحديد ج' / ۱۸۶ ''ان ولى حمَّل بن ابى معيط وبنى امية على رقاب الناس

۲۰ _ شيعہ در اسلام / ۱۱ منقول از '' كنزالعمال ' مقدمہ مراہ العقول ج۱ / ۳۰ _

۲۱ _ طبقات ابن سعد ج۵ / ۱۸۸ ' مقدمہ مراة العقول ج۱ / ۲۹ _

۲۲ _ شيعہ در اسلام ۱۱ _

۲۳ _ سورہ حشر آيہ( ماآتا كم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا )

۲۴ _ مورخين نے سپاہيوں اور كاركنان حكومت كى تنخواہوں كے جو اعداد و شمار درج كيے ہيں ان كى رقوم ميں نماياں فرق ہے مثلا عباس بن عبدالمطلب كى سالانہ تنخواہ بارہ ہزار درہم تھى جب كہ ايك مصرى سپاہى كو سالانہ تنخواہ صرف تين سو درہم دى جاتى تھى معاويہ اور ان كے باپ كى سالانہ تنخواہ پانج ہزار درہم مقرر تھى جب كہ مكہ كے ايك عام باشندے كى تنخواہ جس نے مہاجرت نہيں كى تھى صرف چھ سو درہم ہى تھى ازدواج پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو سالانہ تنخواہ چار سو درہم ملتے تھے جبكہ ايك يمنى سپاہى كى تنخواہ ۴۰۰ درہم تھى (تاريخ يعقوبى ج۲ / ۱۵۳ ' كامل ابن اثير ج۲ / ۵۰۲ _

۲۵ _ (خلاصہ)شرح ابن ابى الحديد ج۱ / ۱۸۶ _

۲۶ _ طبرى كے قول كے مطابق (ج۴ / ۲۲۷)جس وقت مجلس مشاورت (شورى)كى تشكيل ہوئي طلحہ مدينہ ميں نہ تھے اور اس مجلس كى تشكيل باقى پانج فرادنے كى _

۲۷_ شرح نہج البلاغہ جلد ۳_

۲۸_ كامل ابن اثير جلد ۳ ص ۶۷ ، شرح نہج البلاغہ ج ۱ ص ۱۹۱ ، تاريخ طبرى ج ۴ ص ۲۲۶_

۲۹ _ نہج البلاغہ خ ۳ _

۳۰ _حتى اذا مضى لمبيله جعلها فيى جماعة زعم انيى احدهم فيالله وللشورى متى اعترض الريب فيى مع الاول منهم حتى صرت آقرن الى هده النظائر لكنيى اسففت اذاسفوا

۹۲

وطرت اذ طاروا فصغى رجل منھم لضغنہ ومال الاخر لصہرہ مع ھن وھن

۳۱_ كامل ابن اثير ج۳ / ۶۶ ' ' انيى اكرہ الخلاف '' _

۳۲ _ شرح ابن ابى الحديد ج۱ / ۱۸۹ _

۳۳ _ تاريخ يعقوبى ج۲ / ۱۶۵ ' شرح ابن ابى الحديد ج ۳ / ۱۹ ' مروج الذھب ج۲ / ۳۳۵ ' كامل ابن اثير ج۳ / ۱۰۷ _

۳۴ _ مروج الذھب ج۲ / ۳۴۳ الاغانى ۶/ ۳۵۶ الفاظ كے معمولى اختلاف كى ساتھ يہ عبارت نقل كى ہے '' :

يا بنيى امية تلقفوها تلقف الكرة فوالذيى يحلف به ابو سفيان مازلت ارجوها لكم لتصيد ن الى صبيانكم وراثة

۳۵ _مروج الذہب ج ۲/ ۳۴۳_ ۳۴۱

۳۶_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۳۲

۳۷_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۱۹۹ ، الغدير ج ۸/۲۵۸

۳۸ _ ايضاَ

۳۹_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱/۱۹۹

۴۰_ نہج البلاغہ خ ۱۶۴_ ''... فلا تكون لمروان سيقة بسوقك حيث شاء بعد جلال السن و تقضى العمر'' _

۴۱_ ربذہ كا انتخاب اس لئے كيا گيا تھا كہ يہ جگہ بہت خشك اور سخت مقامات پر واقع تھى اور حضرت ابوذر نے اپنے كفر كا بشيرر زمانہ اسى جگہ گذارا تھا اس لئے انہيں اس سے سخت نفرت تھي_

۴۲_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۳۹_ ۳۴۲ كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۱۳ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۲۸۳

۴۳ _ الغدير ج ۹/ ۳، ۶، ۱۱۰ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۳/ ۴۰

۴۴_ الغدير ج ۹/۱۱۳ _ ۱۱۰ شرح ابن ابى الحديد ج ۳/ ۴۷ ، الامامة والسياسة ج ۱ / ۳۶ _ ۳۵

۴۵_ ان خطوط كے متوب كتاب الغدير كى جلد ۹ ميں مشاہدہ كريں _

۴۶_ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۱۵۲ _۱۵۱ _ لا انزع قميصاً البسنية اللہ _

۹۳

۴۷_ عثمان كے سانحہ قتل كے بارے ميں يہ كتابيں ملاحظہ ہوں :''الامامة والسياسة ج ۱_ الغدير ج ۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۲ اور كامل ابن اثير ج ۳

۴۸_ يہاں اس سانحہ كا محض جائزہ ليا گيا ہے_

۴۹_استا ثر فاساء الاثرة وجزعتم فسا تم الجزع (نہج البلاغہ خ ۳۰)

۵۰_ نہج البلاغہ خ ۱۶۴''انى انشدك الله الا تكون امام هذه الامة المقتول فانه كان يقال يقتل فى هذه الامة امام يفتح عليها القتل والقتال الى يوم القيامة ''

۵۱_نہج البلاغہ خ ۱۷۴''والله ما استعجل متجردا الطلب بدم عثمان الاخوفاً من ان يطالب بدمه لانه مظنه ولم يكن فى القوم احرص عليه منه'' _

۵۲ _ اس واقعے كى تفصيلات آيندہ صفحات ميں آئے گى _

۵۳ _ اس سلسلہ ميں نہج البلاغہ كا تيسرا حصہ ملاحظہ ہو (سيرى در نہج البلاغہ نامى كتاب تاليف شہيد استاد مطہرى (رح)كے صفحات ۱۷۵ ' ۱۶۵ سے بطور خلاصہ ماخوذ)_

۵۴ _ يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى ولادت سے خلافت ظاہرى تك كى زندگى كے حالات محقق گرانقدر استاد جعفر سبحانى كى كتاب '' پوھشى عميق از زندگى عليعليه‌السلام (و ديگر معتبر كتب سے اخذ كئے گئے ہيں )_

۹۴

پانچواں سبق

خلافت ظاہرى سے شہادت تك

حضرت عليعليه‌السلام كى بيعت

بيعت كے بعد لوگوں ميں سرور و شادمانى

قريش كى وحشت و پريشانى

گوشہ نشين لوگ

حضرت عليعليه‌السلام كى بيعت كے امتيازات

سوالات كے جوابات

حضرت عليعليه‌السلام نے كن مقاصد كے تحت حكومت قبول فرمائي

ابتدائي اقدامات

نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر

معاويہ كى برطرفي

مساوى حقوق كى ضمانت

لوٹے ہوئے مال كى واپسي

بدعنوانيوں ميں ملوث دولتمندوں كى رخنہ اندازي

سوالات

حوالہ جات

۹۵

حضرت عليعليه‌السلام كى بيعت

عثمان كے قتل كے بعد اپنے آيندہ كے ہادى و راہنما كا انتخاب كرنے كى غرض سے مہاجرين و انصار حضرت علىعليه‌السلام كے گرد جمع ہو گئے جو لوگ اس مقصد كے تحت حضرت علىعليه‌السلام كے پاس آئے ان مےں عمار ياسر ' ابوالھيشم ' ابو ايوب انصارى ، طلحہ اور زبير جيسے جليل القدر صحابہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پيش پيش تھے _

حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كى خاطر آپ كے گھر كى طرف ايك جم غفير روانہ ہوا ان ميں سب كا يہى اصرار تھا كہ امور خلافت كى لگام آپ سنبھاليں انہوں نے ايك زبان ہو كر كہا : اے ابوالحسن عثمان قتل كر ديئے گئے اور ہميں اپنے ہادى و راہنما كى ضرورت ہے اور ہم آج آپ سے زيادہ كسى كو شايستہ و قابل نہيں سمجھتے جن لوگوں نے دين اسلام قبول كيا آپ ان مےں سب پر سبقت لے گئے اور دوسروں كے مقابل پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آپ ہى سب سے زيادہ نزديك تھے _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : مجھے تمہارى حكومت كى ضرورت نہيں تم جسے بھى اپنا رہنما اختيار كرو گے ميں بھى اس سے اتفاق كروں گا _(۱)

سب نے ايك زبان ہو كر كہا : آپ كے علاوہ ہم كسى كو بھى نہےں چاہتے(۲) لوگوں كا اصرار جارى رہا مگر حضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے انھيں جواب نفى كى صورت ميں ہى ملتا رہا بالآخر وہ اپنے مقصد ميں كامياب ہوئے بغير حضرت كے گھر سے باہر نكل آئے _

اگرچہ لوگوں كى آمد و رفت كا سلسلہ جارى رہا مگر حضرت عليعليه‌السلام كسى طرح بھى خلافت قبول

۹۶

كرنے كے لئے راضى ہى نہےں ہوتے تھے اور ہر بار يہى جواب ديتے كہ اس امر كے لئے تم لوگ مجھے مجبور مت كرو امير بننے سے ميرے لئے بہتر يہى ہے كہ وزير (۳) رہوں ليكن انہوں نے يہى كہا كہ ہم اپنے اس فيصلے سے ہرگز رو گرداں نہ ہوں گے اور آپ كے دست مبارك پر بيعت كريں گے(۴) اور ہر طرف سے بيعت كى خاطر آپ كے گرد ہجوم ہونے لگا _

آپ كے گرد لوگ كس طرح جمع ہوئے اس كى كيفيت خود ہى بيان فرماتے ہيں :

اچانك ميرے گرد لوگوں كا ہجوم اس طرح ہو گيا كہ لگتا تھا گويا يہ انسان نہ ہوں بلكہ چرغ بجو كى گردن پر گھنے بال ہوں اس ازدحام ميں ميرے بچے حسن و حسين بھى روندے گئے اور لوگوں كے اس ہجوم كے باعث ميرا لباس بھى دو جانب چاك ہو گيا لوگوں كى يہ حالت تھى گويا اوہ انسان نہےں بلكہ ايسے مويشى ہيں جن كے سر پر گلے بان نہ ہو ان مےں سے ہر ايك ميرى طرف ہى چلا آرہا تھا _(۵)

ليكن اس كے بعد بھى حضرت عليعليه‌السلام نے بلا قيد و شرط حكومت قبول كرنے سے انكار كر ديا اور فرمايا كہ : ميں تمہيں كل صبح تك كى مہلت ديتا ہوں اپنے اپنے گھر جاؤ اور اپنے فيصلے پر غور كر لو اگر اس كے بعد بھى تم لوگ اپنے فيصلے پر قائم رہے تو تمہيں ميرى حكومت كے سامنے سر تسليم خم كرنا ہو گا اور تم مجھ سے يہ نہ چاھو گے كہ ميں سابق خلفاء كى روش كا پيرو كار رہوں اگر يہ شرط منظور ہے تو كل صبح مسجد ميں جمع ہو جانا ورنہ تمہيں اختيار ہے جسے چاہو اپنا خليفہ مقرر كر لو _

اگلے روز لوگ مسجد ميں جمع ہوئے امير المومنين حضرت عليعليه‌السلام منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا : لوگو كل جب ہم آپس ميں جدا ہوئے تو اس وقت ميرى يہ كيفيت تھى كہ مجھے تمہارى حكومت سے بيزارى تھى جب كہ تمہارا يہ اصرار تھا كہ ميرے علاوہ كوئي دوسرا شخص تمہارے امور كى زمام نہ سنبھالے يہ جان لو اگرچہ تمہارے مال (بيت المال مسلمين)ميرے دست اختيار ميں ہے مگر مجھے يہ حق نہيں كہ تمہارے بغير اس ميں سے ايك درہم بھى نكالوں ميں اسى صورت ميں تم پر حكومت كر سكتا ہوں ورنہ تم ميں سے كسى كى ذمہ دارى قبول كرنے كو ميں تيار نہيں(۶) جس وقت حضرت

۹۷

على عليه‌السلام كى تقرير ختم ہوئي تو لوگوں نے بلند آواز كہا ہم نے جو عہد كيا تھا آج بھى اسى پر قائم ہيں اور خدا كو گواہ كر كے كہتے ہيں كہ ہم آپ كے دست مبارك پر بيعت كرنے كيلئے تيار ہيں اس كے بعد موجوں كى مانند لوگوں ميں جوش و خروش پيدا ہو گيا اور بيعت كے لئے لوگوں كا اد حام ہو گيا _

سب سے پہلے طلحہ اور زبير نے آپ كے دست مبارك پر بيعت كى اس كے بعد ان لوگوں نے بيعت كى جو مصر ' بصرہ اور كوفہ سے آئے ہوئے تھے اس كے بعد عام لوگ اس سعادت سے سرفراز ہوئے _(۷)

بيعت كے بعد لوگوں ميں سرور و شادماني

حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے بعد لوگ انتہائي خوش و خرم تھے كيونكہ انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھ پر بيعت كى تھى _

بيعت كے بعد لوگوں ميں جو باطنى خوشى و مسرت تھى اسے حضرت علىعليه‌السلام نے اس طرح بيان فرمايا ہے : ميرے ہاتھ پر بيعت كرنے كے بعد لوگوں كى مسرت و شادمانى كا يہ حال تھا كہ بچے تك وجد و سرور ميں آگئے تھے _ ضعيف العمر لرزتے ہوئے پيروں سے چل كر ' بيمار دوسروں كے كاندھوں پر سوار ہو كر ميرے پاس آئے اور جو لوگ معذور تھے ان كى دلوں ميں مجھ تك پہنچنے كى حسرت ہى رہ گئي _(۸)

عام لوگوں كى خوشى و مسرت كے علاوہ بعض بزرگ صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايك دوسرے كے بعد عوام ميں تشريف لائے اور انہوں نے بھى تقارير كے ذريعے اپنى دلى مسرت كا اظہار كيا اس ضمن ميں انہوں نے عوام كو دعوت دى كہ وہ عہد و پيمان پر مضبوطى سے قائم رہيں اور نئي حكومت كو تقويت بخشيں جن لوگوں نے اس موقعے پر تقارير كيں ان مےں سے بعض كے نام درج ذيل ہيں _

۱ _ انصار كے نمائندہ ثابت بن قيس نے كہا : يا اميرالمو منين خدا كى قسم اگرچہ دوسرے لوگوں كو خلافت كے لحاظ سے آپ پر سبقت حاصل ہے ليكن دين ميں وہ آپ پر برترى حاصل نہ كر

۹۸

سكے انھيں آپ كى ضرورت تھى ليكن آپ ان سب سے بے نياز رہے '' ۲ _ (۹) خزيمہ بن ثابت نے اس موقعے پر كہا : يا اميرالمومنين ہمارى نظر ميں آپ كے علاوہ كوئي ايسا نہيں جس كے ہاتھوں ميں اپنے معاملات كى لگام دے سكيں

ايمان ميں آپ كو سب پر برترى حاصل ہے خدا شناسى مےں آپ عارف كامل ہيں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مقامات و مراتب كے سب سے زيادہ حق دار آپ ہى ہيں دوسروں ميں جو خصوصيات پائي جاتى ہيں وہ آپ ميں بھى موجود ہيں ليكن جو فضائل و كمالات آپ كى ذات ميں ہيں ان سے وہ محروم ہيں(۱۰)

۳ _ صعصعہ بن صوحان نے كہا : يا اميرالمو منين مقام خلافت نے آپ كى ذات كے ذريعے بنت و رونق پائي ،خلافت كو آپ كى ضرورت ہے اور آپكو اس كى ضرورت قطعى نہيں _(۱۱)

قريش كى وحشت و پريشاني

قريش اور حق سے روگرداں وہ تمام لوگ جنہوں نے عثمان كے عہد ميں حكومت مےں خاص مراعات حاصل كر لى تھيں حضرت علىعليه‌السلام كے دورخلافت ميں بہت مضطرب و پريشان ہوئے چنانچہ ان كے لئے اس كے سوا كوئي چارہ كار نہ تھا كہ سرتسليم خم كرديں كيونكہ اب رائے عامہ اميرالمومنين حضرت عليعليه‌السلام كے ساتھ تھى اور وہ لوگ كسى ايسى راہ پر گامزن نہيں رہ سكتے تھے جو اسلامى معاشرے كے منافى ہو اسى لئے انہوں نے حضرت عليعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كر لى ليكن ان كے دلوں ميں كدورت ابھى تك باقى تھى جس كى وجہ يہ تھى كہ حضرت عليعليه‌السلام كى تلوار نے بہت سے مشركين قريش اور كفار كے سرتن سے جدا كئے تھے _

اس كے علاوہ وہ يہ بھى جانتے تھے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى حكمت علمى اس بات كو ہرگز برداشت نہيں كر سكتى كہ بيت المال كو غارت كيا جائے _

قريش كے دلوں ميں حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف جو كينہ و دشمنى كے جذبات تھے ان كے بارے

۹۹

ميں ابن ابى الحديد لكھتا ہے : اگرچہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے اس وقت تك كافى عرصہ گذر چكا تھا مگر قريش كے دلوں ميں انعليه‌السلام كے خلاف اس قدر بغض و كينہ تھا كہ كسى طرح كم نہيں ہوتا تھا يہى نہيں بلكہ اس كينہ و عداوت كو انہوں نے اپنے بچوں تك كے ذھنوں پر نقش كر ديا _(۱۲)

گوشہ نشين لوگ

بعض لوگوں نے حضرت عليعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے سے كنارہ كشى بھى كى _مسعودى نے انھيں قعاد (زمين گير)(۱۳) اور ابوالفداء نے انھيں معتزلہ (گوشہ نشين(۱۴) )كے عنوان سے ياد كيا ہے جب حضرت علىعليه‌السلام سے ان كے بارے مےں سوال كيا گيا تو آپ نے فرمايا : يہ وہ لوگ ہيں جنھوں نے نہ حق كا ساتھ ديا اور نہ ہى باطل كى مدد كيلئے كھڑے ہوئے(۱۵) ان لوگوں ميں سعد بن و قاص ' عبداللہ بن عمر ' حسان بن ثابت ' كعب بن مالك ' قدامہ بن فطعون ' مغيرہ بن شعبہ اور ديگر چند افراد شامل تھے _(۱۶)

يہ لوگ اپنے اس فعل كى توجيہ كے لئے بيجا عذر بہانے تراشتے تھے مثلا جب سعد قاص سے بيعت كے لئے كہا گيا تو انہوں نے جواب ديا كہ جب تك سب لوگ بيعت نہ كر ليں گے ميں بيعت نہيں كروں گا _(۱۷)

يہ لوگ تو اچھى طرح جانتے تھے كہ اميرالمومنين علىعليه‌السلام حق پر ہيں اور حق بھى ان كے ساتھ ہے آپ كوہر اعتبار سے دوسروں پر فضيلت و برترى حاصل تھى ليكن ان كى نخوت اور جسمانى ہوا و ہوس نے انھيں حق سے دور كر ديا تھا چنانچہ اميرالمو منين حضرت عليعليه‌السلام نے ان كو ان كے حال پر چھوڑ ديا اور بيعت كيلئے مجبور نہ كيا البتہ ان ميں سے چند لوگ بالخصوص سعد بن و قاص اور عبداللہ بن عمر بعد ميں بہت پشيمان ہوئے _

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

والوں كو اٹھائے گا؟

لوگوں نے كہا '' جى ہاں'' ہم شہادت ديتے ہے''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدايا گواہ رہنا'' بيشك ميں دوسرے جہان ميں جانے اور حوض كوثر كے كنارے پہنچنے ميں تم پر سبقت لے جاؤں گا _ اور تم حوض پر ميرے پاس حاضر ہوگے _ وہاں ستاروں كى تعداد ميں چاندى كے جام اور پيالے ہوں گے _ ديكھنا يہ ہے كہ تم ميرے بعد ان دو گراں بہا چيزوں سے كيا سلوك كرتے ہو جو ميں تمہارے درميان چھوڑے جارہا ہوں؟

مجمع ميں سے ايك شخص نے بلند آواز سے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ دو گراں قدر چيزيں كيا ہيں؟ فرمايا جو بزرگ ہے وہ كتاب خدا ہے جو تمہارے درميان اللہ كى مضبوط رسى ہے اور دوسرے ميرے اہل بيتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عترت ہيں _ خدائے مہربان اور عالم نے مجھے بتايا ہے كہ يہ دونوں ہر گز ايك دوسرے سے الگ نہيں ہوں گے يہاں تك كہ حوض (كوثر) پر ميرے پا س پہنچيں گے قرآن و عترت سے آگے نہ بڑھنا اور ان دونوں كى پيروى سے منہ نہ موڑنا ورنہ ہلا ك ہوجاؤ گے_

اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علي(ع) كے ہاتھ كو پكڑا اور اتنا بلند كيا كہ دونوں كى بغل كى سفيدى نماياں ہوگئي اور لوگوں نے ان كو ديكھا اور پہچانا_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اے لوگو اہل ايمان پر خود ان سے زيادہ حقدار كون ہے؟'' لوگوں نے كہا '' خدا اور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہتر جانتا ہے _'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:

''بيشك خدا ہمارا مولا ہے اور ميں مومنين كا مولا ہوں اور مومنين كے نفسوں سے اولى اور زيادہ حقدار ہوں _ لہذا جس كا ميں مولا ہوں على (ع) اس كے مولا ہيں _(۹) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۲۶۱

نے اس بات كو تين بار اور حنبلى حضرات كے پيشوا ، احمد بن حنبل كے قول كے مطابق چار بار تكرار فرمايا اس كے بعددعا كے لئے ہاتھ بلند كركے فرمايا

'' بارالہا تو اس كو دوست ركھ جو اسے (علي) دوست ركھے اور اس كو دشمن ركھ جو اس سے دشمنى كرے اس سے محبت فرما جو اس (على (ع) ) سے محبت كرئے اور اس كو مبغوض قرار دے جو اس (على (ع) ) سے بغض كرئے، اس كے دوستوں كى مدد فرما او رجو اس كو رسوا كرے اسے ذليل فرما اور اسے حق كا مدار و محور قرار دے ''(۱۰)

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرماياكہ'' حاضرين غائبين تك يہ پيغام پہنچاديں'' ابھى مجمع پراگندہ بھى نہيں ہوا تھا كہ جبرئيل امين ، وحى الہى لے كر آپہنچے اور آيہ كريمہ '( اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا ً ) (۱۱) نازل ہوئي_

'' آج ميں نے تمہارے دين كو كامل كرديا ، تم پر اپنى نعمتيں تمام كرديں اور تمہارے لئے دين اسلام كو پسند كر ليا ہے ''_اس موقعہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: دين كے كمال ، نعمت كے اتمام اور ميرى رسالت و على كى ولايت پر خداوند متعال ك-ے راضى ہوجانے كے پر مسرت موقعہ پر ، '' اللہ اكبر'' (اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلند آواز سے تكبير كہي) اس كے بعد مسلمانوں نے على ابن ابيطالب(ع) كو امير المومنين كے عنوان سے مبار ك باد دى اور سب سے پہلے ابوبكر و عمر ، حضرت على (ع) كى پاس آئے اور كہا '' مبارك ہو مبارك ہو ، اے ابوطالب (ع) كے بيٹے آج سے آپ(ع) ہمارے اور تمام مومنين كے مولا ہوگئے ''_

پھر شاعر انقلاب اسلام ، حسان بن ثابت نے كہا يارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر جازت ہو تو ميں اس سلسلہ ميں كچھ اشعار پڑھوں _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا خدا كى بركت سے پڑھو_ اور حسان نے فى البديہہ واقعہ غدير خم كو

۲۶۲

اشعار ميں بيان كيا _ ہم يہاں ان كے اشعار ميںسے تين شعر نقل كررہے ہيں _

يناديهم يوم الغدير نبيّهُم

بخُم فَاسْمَع بالرّسول مناديا

فقال لهم: قم يا على فَانَّني

رضيتك من بعدى اماما ً ''و هاديا''

فمن كنت مولاه فهذا وليّه

فكونوا له اتباعَ صدْق مواليّا

يعنى غدير كے دن پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں كو آواز دى ، كيا آواز رسا تھى على (ع) سے فرمايا كہ اٹھو ميںنے تمہيں اپنے بعد لوگوں كى ہدايت اور امامت كے لئے منتخب كيا _

ميں جس كا مولا ہوں على اس كے ولى ہيں ، لہذا از روئے صدق و راستى ان كے پيرو اور دوست بن كر رہو _(۱۲)

۲۶۳

سوالات

۱_ كو ن سى تاريخ كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع كے لئے تشريف لے گئے؟

۲_ غدير كے دن مسلمانوں كا كتنا مجمع تھا؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قافلہ روكنے كا حكم كيوں ديا؟

۴_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدير كے دن حضرت على (ع) كے بارے ميں كيا فرمايا؟

۵_ غدير كے واقعہ كے بعد كون سى آيت نازل ہوئي؟

۲۶۴

حوالہ جات

۱_مغازى واقدى ج ۳ص ۱۰۸۹ _سيرت ابن ہشام ج ۴ص۲۴۸_

۲_اہل سنت كى چند دوسرى كتابوں ميں اس طرح لكھا ہے كہ ''نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تم علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كيا چاہتے ہو؟علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے ہيں اور ميں ان سے ہوں اور وہ ميرے بعد ہر مومن كے ولى وسرپرست و صاحب اختيار ہيں _ ترمذى ج ۵ ص ۶۳۲_ مستدرك حاكم ج ۳ص ۱۱۰_۱۱۱_البداية والنہاية ج ۷ ص ۳۴۵_اسد الغابہ ج ۴ ص ۱۰۷_۱۰۸ _ مسند احمد ابن حنبل ج ۵ ص ۳۵۶_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۵۰ ، تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۴۹

۳_ يہ تقرير سيرت كى مختلف كتابوں ميں دو طريقوں سے نقل كى گئي ہے ايك '' عرفہ ميں تقرير'' كے عنوان سے اور دوسرى '' منى ميں تقرير'' كے عنوان سے تفصيلات كيلئے رجوع كريں: مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۱۰۳_سيرت ابن ہشام ج۴ _ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۱۰ طبرى ج ۳ ص ۱۵۰_

۴_ مغازى واقدى ميں '' اياس بن ربيعة بن حارث '' ذكر ہوا ہے_

۵_انّى تَاركٌ فيْكُمُ الثَّقَلَيْن كتَاب اللَّه وَ عتْرَتى انْ تَمَسَّكْتُمَْ بهما لَنْ تَضّلُوا _ يہ عبارت اہل سنت كى جن معتبر كتابوں ميں مختصر انداز سے ذكر كى گئي ہے ان ميں سے چند كے نام مندرجہ ذيل ہيں _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۲ _ سنن ترمذى ج ۲ ص ۳۰۷_ سنن دارمى ج ۲ ص ۱۴و۱۷و۲۶و۵۹_ خصائص نسائي ص ۳۰_مستدرك حاكم ج ۳ ص ۱۰۹_ كفاية الطالب ج ۱ ص ۱۱_ طبقات ابن سعد ج ۴ ص ۸ _ عقد الفريد ج ۲ ص ۳۲۶و ۱۵۸_ اسد الغا بة ج ۲ ص ۱۲_ حلية الاوليا ج ۱ ص ۳۵۵_ تذكرة الخواص ص ۳۳۲_ منتہى الارب _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۲۰۵_۲۰۶

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۳،۴، ص ۶۰۳ _تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۱۰ _ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۱۰۳_ طبرى ج ۳ ص ۱۵۰ _

۷_( يَا اَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغْ مَا اُنْزلَ الَيْكَ منْ رَّبّكَ وَ انْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رسَالَتَهُ وَ اللّهُ يَعْصمُكَ منَ النّاس انَّ اللّهَ لاَ يَهْدى الْقَوْمَ الْكَافريَْن ) (مائدہ/۶۸)

۲۶۵

۸_مكہ اور مدينہ كے راستہ ميں جحفہ ايك بيابان ہے جہاں غدير خم واقع ہے يہاں سے ہر كارواں جدا ہو كر اپنے ديار كى طرف چلا جاتا ہے_

۹_من كنت مولاه فهذا على مولاه

۱۰_اللّهُمَّ وَالَ مَنْ وَالاهُ وَ عَاد مَنْ عَادَاهُ وَاَحَبّ مَنْ اَحَبَّهُ وَ اَبْغض مَنْ اَبْغَضَهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهْ وَ اْخْذُلْ مَنْ خَذََلَه وَ اَدْر الْحَقَ مَعَهُ حَيْثُ دَار _

۱۱_ سورہ مائدہ آيت ۳

۱۲_ الغدير ج ۱ ص ۹تا ۱۲_ تفسير الميزان ج ۶ ص ۵۳ تا ۵۹ _ علامہ امينى مرحوم نے گيارہويں جلدپر مشتمل اپنى عظيم اور تحقيقى كتاب الغدير ميں حديث غدير كو ايك سو دس اصحاب كى زبانى نقل كيا ہے نيز آپ نے غدير كے بارے ميں اہل سنت كے محدثين ومورخين كے اقوال كو ذكر فرمايا ہے_ يہ بھى ياد دلانا ضرورى ہے كہ يہ كتاب فارسى زبان ميں ترجمہ ہو گئي ہے _

۲۶۶

سولہواں سبق

شورشيں

اسود عنسى كا واقعہ

يمن ميں انقلابى بغاوت

مسيلمہ كذاب كا واقعہ

جھوٹے پيغمبر كى طرف ميلان كا سبب ''قومى تعصب''

جھوٹوں كا انجام

رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت كے حالات كا تجزيہ

لشكر اسامہ كى روانگي

اہل بقيع كے مزار پر

واقعہ قرطاس يا نامكمل تحرير

ناتمام نماز

وداع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

يہ نور ہرگز نہيں بجھے گا

سوالات

۲۶۷

شورشيں

حجة الوداع سے واپسى كے بعد تھكن كى شدت كى بناپر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چند دنوں تك بيمار رہے اس دوران آپ كى تھكاوٹ اور طبيعت كى ناسازى كى خبر چاروں طرف پھيل گئي اور موقعہ كى تلاش اور فائدہ كے چكر ميں رہنے والے افراد نے پيغمبرى كا دعوى كرديا_'' مسيلمہ كذاب'' نے يمامہ اور نجد ميں خود كو پيغمبر اور'' رحمان اليمامة ''كہا _ ''اسود عنسي'' نے يمن ميں خود كو پيغمبر كہا اور شورش كا آغاز كرديا_ اس كے علاوہ'' سجاح ''نامى عورت اور'' طليحہ'' نامى ايك شخص نے بھى اس طرح كے دعوى سے لوگوں كو دھوكہ دينا شروع كرديا _ اس فتنہ كى جڑيں بہت پھيلى ہوئي تھيں ان دھوكہ بازوں نے قومى اور قبائلى تعصب سے فائدہ اٹھا يا اور ايك جماعت كو اپنے گرد جمع كرليا اور جب ان كو قدرت حاصل ہوگئي تو اپنى حكومت و سلطنت كو وسعت دينے لگے_

اسود عنْسيّ كا واقعہ

نمونہ كے طور پر اَسوَد عنسى كا واقعہ پيش ہے جس كو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ناسازگارى طبع كى خبر نے نبوت كے لالچ ميں ڈال ديا اس نے يمن ميں زمانہ جاہليت كے طور طريقوں اور رسوم

۲۶۸

كو كتب عتيق كے قوانين كے ساتھ ملاكر ايك نئے نقطہ خيال كى بنياد ركھى وہ ايك كاہن اور شعبدہ باز تھا جو الٹى سيدھى باتوں كو مسجعّ اور مقفّى بنا كر اس طرح پيش كرتا كہ جو بھى سنتا بد دل ہو جا تا _ جنگجوئي ميں بڑا سنگدل اور چالاك تھا_ظلم و ستم ميں لوگوں كى جان و مال كى پروا نہيں كرتا تھا_

اَسوَدعنسيّ نے اپنے سپاہيوں كے ساتھ چند دنوں ميں نجران پر قبضہ كرليا اور بلافاصلہ يمن كے دار السلطنت صنعا ء پر حملہ كرديا_'' شہر ابن باذام''(۱) ايرانى جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى طرف سے آزادہ شدہ اور اس علاقہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے حكومت كرتے تھے ، انہوں نے لشكر تيار كيا تا كہ اسود كے راستہ كو روك ليں ليكن شورشيوں كے فورى حملہ كى بنا پر شہر ابن باذام كا لشكر ، اسود كے لشكر كا كچھ نہ كر سكا اور شہر ابن باذام اس حملہ ميں شہيد ہو گئے_

اسود عنسيّ كامياب اور كاميابى سے مغرور ہو كر صنعاء ميں داخل ہوا _ اعرابى جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھى دوبارہ اسود كے ہاتھوں اسلام سے خارج ہونے لگے گروہ در گروہ قبائل نے اس كى بيعت كرلى اور خود كو اس كے حوالہ كرديا _ تھوڑى ہى مدت ميں اسود نے تمام يمن ، طائف، بحرين اور حدود عدن پر تسلط جماليا _ان علاقوں ميں باقى ماندہ مسلمانوں نے بھى خوف سے سكوت اختيار كر ليا _اسود نے شہر ابن باذام كى بيوى ''آزاد '' كو زبردستى اپنى بيوى بناليا_(۲)

يمن ميں انقلابى بغاوت

بستر علالت ہى سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدعيان نبوت كے ساتھ جنگ كے لئے نمائندے بھيجنا اورخط لكھنا شروع كيئے_(۳)

۲۶۹

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك خط ميں يمن كے ايرانى ، سركردہ افراد كو حكم ديا كہ دين مقدس اسلام كے دفاع كےلئے قيام كريں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيغام كو دينداورں ، با حميت و غيرت مند افراد تك پہنچائيں اور كوشش كريں كہ فساد كى جڑ اَسود عنسى كو خفيہ يا آشكار ا طور پر ختم كيا جا سكے_(۴)

يمن كے آزاد ايرانيوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق اسلام پر باقى رہ جانے والے قبائل كو اپنے ساتھ تعاون كے لئے بلايا اورجب يہ معلوم ہواكہ اسود اور سپہ سالار لشكر قيس ميں اختلاف ہے تو انہوں نے قيس كے سامنے نہايت خاموشى سے اس موضوع كو پيش كيا اور اس طرح سپہ سالار لشكر كو اپنے ساتھ ملاليا_(۵)

اسود كے قصركے اندرونى معلومات حاصل كرنے كے لئے ''آزاد'' سے رابطہ قائم كيا گيا جو شہر ابن باذام كى بيوى اور اسود كے تصرف ميں تھي_

'' آزاد'' ايك آزادى پسند، شير دل، مؤمنہ اور باعزت خاتون تھيں ان لوگوں كى مدد كى لئے اٹھ كھڑى ہوئيں اور مفيد و قيمتى راہنمائيوں كے ذريعہ انھوں نے مومنين كو اسود كے قتل پر آمادہ كيا _ قصر مكمل طور پر نگہبانوں كى نگرانى ميں تھا_ '' آزاد'' كى راہنمائي ميں ايك سرنگ كے ذريعہ جو اَسوَد عنسى كے كمرہ ميں پہنچتى تھى رات كو جب وہ نيم خوابيدگى كے عالم ميں تھا ، انقلابى مومنين نے حملہ كرديا _ فيروز نے اس كا سر زور سے ديوار سے ٹكرا ديا اور اس كى گردن مروڑدى _اسود كى آواز وحشى گائے كى طرح بلند ہوئي آزاد نے فوراً ايك كپڑا اس كے منہ ميں ٹھونس ديا _ پہرہ دارمحل كے اندر ہونے والى چيخ پكار سے مشكوك ہوگئے اور كمرہ كى پشت سے انہوں نے پوچھا كہ خيريت تو ہے؟ '' آزاد'' نے نہايت اطمينان سے جواب ديا _'' كوئي بات نہيں ہے پيغمبر پر وحى آرہى ہے'' اس طرح انقلابى مومنين اپنى مہم ميں كامياب ہوئے اور پيغمبرى كے جھوٹے دعويدار كو دوزخ ميں پہنچا ديا_دوسرے دن صبح

۲۷۰

مسلمانوں نے اسلامى نعرے لگائے اور كلمہ شہادتين زبان پر جارى كيا _ اَشْہَدُ اَنْ لاَ الہَ الاَّ اللّہ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمّدا رَسُولُ اللّہ _ اور اعلان كيا كہ لوگو اَسوَ د ايك جھوٹے شخص سے زيادہ كچھ نہ تھا اس كے بعد اس كا سر لوگوں كى طرف پھينك ديا _

شہر ميں ايك ہنگامہ شروع ہوگيا اور قصر كے نگہبانوں نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محل كو لوٹ ليا اور جو كچھ اس ميں تھالے كر فرار ہوگئے _ اس وقت مسلمانوں نے آواز دى كہ نماز كے لئے لوگ صف بستہ ہوجائيں اور پھر نماز كے لئے لوگ كھڑے ہوگئے_(۶)

جس رات اَسوَد مارا گيا اسى رات وحى كے ذريعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو معلوم ہوگيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' كل رات ايك مبارك خاندان سے ايك مبارك شخص نے عنسى كو قتل كرديا'' لوگوں نے پوچھا ''وہ كون تھا''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _ فيروز تھا _فيروز كامياب رہے_(۷)

مسيلمہ كذاب كا واقعہ

يمامہ ميں مسيلمہ كذاب نے بھى پيغمبرى كا دعوى كركے اپنا ايك گروہ بناليا اورفتنہ پردازى ميں مشغول ہوگيا _ وہ كوشش كرتا تھا كہ بے معنى سخن گوئي كے ذريعہ قرآن سے معارضہ كرے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابھى سفر حج سے لوٹے تھے كہ دو افراد مسيلمہ كذاب كا خط آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس لے كر پہنچے _ اس ميں لكھا تھا '' مسيلمہ خدا كے رسول كى طرف سے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے رسول كے نام '' ميں پيغمبرى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا شريك ہوں آدھى زمين قريش سے متعلق ہے اور آدھى مجھ سے، ليكن قريش عدالت سے كام نہيں ليتے _(۸)

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت ناراض ہوئے اور مسيلمہ كے نامہ بروں سے فرمايا '' اگر تم سفير اور قاصد

۲۷۱

نہ ہو تے تو ميں تمہارے قتل كا حكم ديديتا_ تم لوگ كس طرح اسلام سے جدا ہو كر ايك تہى مغز آدمى كے پيرو ہوگئے_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ مسيلمہ كو بہت سخت جواب لكھا جائے _ ''خدائے رحمن و رحيم كے نام سے محمد رسول اللہ كى طرف سے دروغ گو مسيلمہ كى طرف_ سلام ہو ہدايت كى پيروى كرنے والوں پر ، زمين ،خدا كى ملكيت ہے اور وہ اپنے صالح بندوں ميں سے جس كو چاہتا ہے زمين كا وارث قرار ديتا ہے اور نيك انجام پرہيزگاروں كے لئے ہے_(۹)

جھوٹے پيغمبر كى طرف ميلان كا سبب ''قومى تعصب''

طبرى كا بيان ہے كہ ايك شخص يمامہ گيا اور پوچھا مسيلمہ كہاں ہے؟

لوگوں نے كہا كہ '' پيغمبر خدا كہو''

اس شخص نے كہا '' نہيں ميں پہلے اس كو ديكھوں گا''

جب اس نے مسيلمہ كو ديكھا تو كہا كہ '' تو مسيلمہ ہے''؟

'' ہاں''

كيا تمہارے اوپر فرشتہ نازل ہوتا ہے؟

ہاں ،اور اس كا نام رحمن ہے_

نور ميں آتا ہے يا ظلمت ميں؟

مسيلمہ نے كہا '' ظلمت ميں''

اس شخص نے كہا كہ ميں گواہى ديتا ہوں كہ تو جھوٹا ہے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سچے ہيں ليكن ميں رَبيعہ كے جھوٹے كو مُضر (حجاز) كے سچّے سے زيادہ دوست ركھتا ہوں_(۱۰)

۲۷۲

جھوٹوں كا انجام

نبوت كى جھوٹى دعويدار سجاح كے ساتھ مسيلمہ نے شادى كرلى _(۱۱) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد لشكر اسلام نے اس كى سركوبى كى اور اس كے قتل كے بعد اس كى جھوٹى نبوت كى بساط اُلٹ گئي_(۱۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ ميں مدعيان نوبت ميں طُلَيحہ نامى ايك شخص تھا جو قبيلہ طيّ، اَسد اور قبيلہ غطفان ميں ظاہر ہوا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبيلہ بنى اسد ميں اپنے نمائندوں كو پيغام بھيجا كہ اس كے خلاف قيام كريں _ وہ لوگ اس پر حملہ آور ہوئے اور وہ فرار كر گيا_(۱۳) اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تدبير سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے آخرى دنوں ميں يا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد جھوٹے پيغمبروں كى بساط الٹ دى گئي_

رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت كے حالات كا تجزيہ

بيمارى سے نسبتاً افاقہ كے كچھ ہى دنوں بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوبارہ عليل ہوئے _ ہر چند كہ تمام جزيرة العرب، حكومت اسلامى كے زير اثر تھا ليكن ايك طرف پيغمبرى كے جھوٹے دعويداروں نے سر اٹھا ركھا تھا اور بہت سے قبائل كے رؤساء كہ جن كے دلوں ميں ابھى تك اسلام كى جڑيں مضبوط نہيں ہوئيں تھيں_ اپنے سابقہ امتيازات سے ہاتھ دھو بيٹھے تھے جو كہ ان پر دشوار تھا_ وہ پيغمبرى كے جھوٹے دعويداروں سے مل كر شورش پر آمادہ ہوگئے_ دوسرى طرف موقعہ كى تلاش ميں رہنے والے منافقين كا مكمل پلا ننگ كے ساتھ يہ ارادہ تھا كہ اسلام كے عظيم رہبر كى آنكھ بند ہوتے ہى حكومت اسلامى پر قبضہ كرليں اور اس كو امامت وولايت كے صحيح راستہ سے منحرف كرديں_

۲۷۳

بہر حال ، رہبر اسلام كى رحلت ،شورشيوں اور مرتدين كے حوصلوں كى تقويت كاموجب ہوتى ، دوسرا اہم موضوع يہ كہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كے سلسلہ ميں كھينچا تانى كے نتيجہ ميں امت اسلامى كے درميان بہت بڑا شگاف پيدا ہوجاتاجوايك بہت بڑا خطرہ ثابت ہوتا _روم ايسى بڑى طاقت بھى انتظار ميں تھى كہ جزيرة العرب پر حملہ كركے اسلام كى جڑكو كاٹ دے _ فتنے اٹھ چكے تھے اندرونى و بيرونى تحريكيں اور سازشيں اسلام كى بنيادوں كو چيلنج كررہى تھى _

لشكر اسامہ كى روانگي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اندرونى سازشوں كے خاتمہ اور خارجى تحريكوں كى سركوبى كے لئے لشكر اسامہ كى تشكيل اور روانگى كا حكم صادر فرمايا _ سپاہيوں كى حوصلہ افزائي كے لئے اپنے ہاتھوں سے پرچم بنا كر ۱۷ يا۱۸ سالہ جوان اسامہ كے سپرد كيا اور سپہ سالار معين فرمايا_(۱۴) اس بہادر نوجوان نے اس لشكر كى كمان سنبھالى جو عالمى استكبار سے جنگ كے لئے آمادہ تھا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسامہ كو حكم ديا كہ اپنے باپ كى شہادت گاہ كى طرف روانہ ہو جاؤ اور جانے ميں جلدى كرو _ صبح كو نہايت تيزى سے ناگہانى طور پر دشمن پر حملہ كردو_(۱۵) پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں سے كہا كہ لشكر اسامہ ميں شركت كريں اور جتنى جلد ى ہو سكے روانگى كے لئے تيار ہو جائيں_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے مقاصد ميں سے ايك مقصد يہ تھا كہ سازشوں كا تانابانا بننے والے ، لشكر كے ساتھ مدينہ سے خارج ہوجائيں تا كہ شہر سازشيوں كے وجود سے خالى ہوجائے اور امير المومنين على (ع) كى خلافت كے راستہ ميں ركاوٹ نہ بنيں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جوان سال اسامہ كا

۲۷۴

انتخاب بھى اس لئے فرمايا تھا كہ اولاً: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہ بتانا چاہتے تھے كہ ذمہ دارياں شخصيت اور لياقت كى بناپر ہوتى ہيں نہ كہ سن و سال اور موہوم شرافتوں كى بناپر، تا كہ آئندہ لوگ حضرت على (ع) كو يہ كہہ كر خلافت سے الگ نہ كر سكيں كہ وہ جوان ہيں _ثانياً: اسامہ كے والد زيدابن حارثہ روميوں كے ساتھ جنگ كرتے ہوئے شہيد ہوئے تھے اس لئے ان ميں روميوں كے خلاف جنگ كرنے كا زيادہ جذبہ تھا اور سپہ سالارى كا عہدہ سونپ دينے كے بعد عملى طور پر ان كى دلجوئي بھى ہو جاتى _

اسامہ نے مدينہ كے قريب مقام '' جرُف'' ميں پڑاؤ ڈال ديا_ بزرگ صحابہ اور مہاجرين سب كے سب اسامہ كے لشكر كے سپاہى اور ان كى ماتحتى ميں تھے _ يہ بات ان ميں سے بعض كےلئے بڑى سخت تھى انہوں نے اعلانيہ طور پر اسامہ كى سپہ سالارى پر اعتراض كيا كہ بزرگوں كى سپہ سالارى كے لئے نوجوان كو كيوں منصوب كيا گيا؟ لشكر كى روانگى ميں عملى طور پر خلاف ورزياں ہوئيں چند دنوں تك لشكر ركا رہا _ مخالفت كر نيوالوں نے لشكر كى روانگى ميں كوتاہى كى اوراپنے بے ہودہ مقاصد كو انجام دينے كے لئے روانگى ميں تاخير كرائي_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بستر علالت پر سمجھ ليا كہ لشكر گاہ سے لشكر كى روانگى كو روكنے كےلئے لوگ كيا كررہے ہيں ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بستر سے اٹھے اور بخار نيز غيظ و غضب كے عالم ميں مسجد ميں تشريف لائے خدا كى حمد كے بعد فرمايا '' اے لوگو ميں لشكر كى روانگى ميں دير ہونے سے بہت ناراض ہوں گويا اسامہ كى سپہ سالارى تم ميں سے ايك گروہ كے اوپر گراں گذرى اور تم نے اعتراضات شروع كرديئےم اس سے پہلے بھى ان كے باپ كى سپہ سالارى پراعتراض كررہے تھے ، خدا كى قسم اس كا باپ سپہ سالارى كے لئے مناسب تھا اور وہ خود بھى

۲۷۵

مناسب ہے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر واپس آگئے اور ہر اس صحابى سے جو آپ كو ديكھنے كے لئے آتا تھا فرماتے: '' لشكر اسامہ كو روانہ كرو''(۱۶)

ليكن سازشيں اس سے بالاتر تھيں يہاںتك كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _'' جو لشكر اسامہ سے روگردانى كرے اس پر خدا كى لعنت ہو''(۱۷)

اہل بقيع كے مزار پر

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شديد بيمارى كے عالم ميں حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (۱۸) كا سہارا لئے قبرستان بقيع كى طرف چلے، اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيچھے پيچھے روانہ ہوئے جب بقيع كے قبرستان ميں پہنچے تو فرمايا:'' ميں مامور ہوں كہ خداوند عالم سے اہل بقيع كے لئے طلب مغفرت كروں ''_پھر فرمايا'' اے زير خاك آرام كرنے والو تم پر ميرا سلام ہو، تم اطمينان و مسرت سے آرام كرو كہ تمھارا زمانہ ان لوگوں كے زمانہ سے زيادہ آسودہ ہے _ فتنے اندھيرى رات كے ٹكٹروں كى طرح بڑھ آئے ہيں '' پھر فرمايا '' على (ع) ہر سال جبرئيل (ع) ميرے پاس قرآن كو ايك مرتبہ پيش كرتے تھے اور اس سال دو بار انہوں نے پيش كيا اس لئے كہ ميرا وقت قريب آگيا ہے''(۱۹)

واقعہ قرطاس يا نا مكمل تحرير

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے آخرى دن تھے ، جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آنكھيں كھوليں تو اپنے بستر كے ارد گرد چند اصحاب كو ديكھا جن كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق اس وقت لشكر اسامہ كے

۲۷۶

ساتھ ہونا چاہيئے تھا_ امت ميں اختلاف كى روك تھام كے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _'' كاغذ اور دوات لاؤ تا كہ ميں تمہارے لئے ايك چيز لكھ دوں كہ اس كے بعد گمراہ نہ ہوگے ''_ ان ميں سے ايك صاحب نے چاہا كہ اٹھ كر قلم دوات لے آئيں ليكن جناب عمر نے اظہار خيال فرمايا '' يہ ( پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب اشارہ)ہذيان بك رہے ہيں ، قرآن تمہارے پاس ہے اور كتاب آسمانى ہمارے لئے كافى ہے '' ايك گروہ نے عمر كا ساتھ ديا اور كچھ لوگوں نے ان كى مخالفت كى ، شور و غل بر پا ہوا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اٹھو اور ميرے گھر سے نكل جاؤ''_(۲۰)

ناتمام نماز

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى علالت كے دوران ايك دن حضرت بلال نے اذان دى اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر و دروازہ پر آكر آواز دى '' نماز خدا تمہارے اوپر رحمت نازل كرے'' _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت زيادہ بيمارتھے اس وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' لوگوں كو كوئي نماز پڑھا دے اس لئے كہ ميں بيمار ہوں''_ عائشےہ نے كہا كہ ابوبكر كو تلاش كرو اور حفصہ نے كہا عمر كو لاؤ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دونوں كى باتيں سنيں اور دونوں بيويوں سے كہا '' ان باتوں سے خود كو روكو كہيں تم ان عورتوں كى طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے يوسف كو گمراہ كرنا چا ہا تھا''_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شديد بيمارى كے عالم ميں اٹھے ، علي(ع) اور فضل بن عباس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دونوں شانوں كو سہارا دے ركھا تھا ، مسجد ميں تشريف لائے ، ابوبكر كو محراب ميں ديكھا كہ نماز كے لئے كھڑے ہوگئے ہيں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہاتھ سے اشارہ كيا كہ ہٹ جاؤ_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ان كى نماز كومكمل نہ ہونے ديا اور دوبارہ نہايت مختصر نماز كا اعادہ كيا _ جب آپ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر تشريف لے گئے تو ابوبكر ،

۲۷۷

عمر اور دوسرے افراد كو بلوا بھيجا جب يہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے پوچھا كہ '' لشكر اسامہ كے ساتھ كيوں نہيں گئے؟ انہوں نے جواب ديا '' ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تجديد بيعت كے لئے لوٹ آئے اور ہم نے يہ نہيں چاہا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيمارى كى خبر دوسروں سے پوچھيں''(۲۱) _

وداع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيمارى نے شدت اختيار كرلى ، فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بستر كے پاس بيٹھى ہوئي باپ كے نورانى اور ملكوتى چہرہ كو ديكھ رہى تھيں _جس پر بخار كى شدت كى بنا پر پسينہ كے قطرے جھلملار ہے تھے، جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوطالب عليہ السلام كا شعر جو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے ميں تھا پڑھا _

وَاْبيَضُ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بوجهه

ثمال اليتامى عصمة للارامل

يعنى : روشن چہرہ اس چہرہ كى آبرومندى كے وسيلہ سے بارش طلب كى جاتى ہے جو يتيموں كى پناہ گاہ اور بيوہ عورتوں كى نگہدار ى كرنے والا ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آنكھيں كھوليں اور فرمايا، بيٹى ، شعر نہ پڑھو ، قرآن پڑھو :

( وَ مَا مُحَمّد الاَ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مَنْ قَبْله الرُّسُل اَفانْ مَاتَ اَوقُتل انْقَلَبْتُمْ عَلَى اَعْقابكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلبْ عَلَى عَقبَيْه فَلَنْ يَضُرَّ اللّهَ شَيْئاً وَ سَيَجْزى اللّهُ الشَّاكريْنَ ) (۲۲)

'' محمد نہيں ہيں مگر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ، ان سے پہلے بھى بہت سے پيغمبر گزر چكے ہيں تو كيا اگر

۲۷۸

انكا انتقال ہوجائے يا قتل كرديئےائيں توكيا تم اپنے گزشتہ لوگوں كے عقائد كى طرف پلٹ جاؤ گے ؟ اور جو اپنے گزشتگان كے آئين كى طرف پلٹ جائے گا وہ خدا كو كوئي نقصان نہيں پہنچائے گا _ خدا شكر كرنے والوں كو نيك جزاء دے گا''_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آہستہ سے حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كے كان ميں كوئي بات كہى آپ(ع) نے گريہ شروع كيا _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى بيٹى كى تكليف برداشت نہ كر سكے اور دوبارہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان(ع) كے كان ميں كوئي بات كہى تو جناب فاطمہ چپ ہوگئيں اور مسكرانے لگيں _

بعد ميں جب لوگوں نے جناب فاطمہ (ع) سے سوال كيا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ(ع) سے كيا كہا تھا كہ پہلى بار آپ(ع) روئيں اور دوسرى بار مسكرائيں ؟ آپ(ع) نے جواب ديا '' پہلى بار آنحضرت سے رحلت كى خبر سنى تو مغموم ہوگئي دوسرى بار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بشارت دى كہ اے فاطمہ ميرے اہل بيت (ع) ميں سے تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگى اس پر ميں بشاش ہوگئي_(۲۳)

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى حيات كے آخرى لمحوں ميں على عليہ السلام كو بلايا اور فرمايا '' علي(ع) ميرا سر اپنى آغوش ميں لے لو كہ امر خدا آن پہنچا ہے''_

اے على (ع) جب ميں اس دنيا ميں نہ رہوں تو مجھے غسل دينا اور پہلى بار مجھ پر نماز پڑھنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا سر علي(ع) كى گود ہى ميں تھا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحمت بارى سے جا ملے _

يہ عظيم حادثہ ۲۸/صفر ۱۱ ہجرى بروز پير بمطابق ۲۸ مئي ۶۳۲ ء كورونما ہوا(۲۴) _ ليكن مورخين اہل سنت كے مطابق پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت ۱۲ ربيع الاول سنہ ۱۱ ھ ق(۲۵) بمطابق ۱۰ جون سنہ ۶۳۲كو ہوئي_

حضرت على (ع) نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے پاكيزہ جسم كو غسل ديا، كفن پہنا يا اور نماز پڑھى اس عالم

۲۷۹

ميں كہ آنسو آپ(ع) كى آنكھوں سے رواں تھے اور فرمايا _

'' ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بيشك آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مرنے سے وحى كا سلسلہ منقطع ہو گيا ''_

وہ چيز جو دوسرے پيغمبروں كى موت كے بعد منقطع نہيں ہوئي ( يعنى نبوت و احكام الہى اور آسمانى خبريں) اگر آپ صبر كا حكم نہ ديتے اور نالہ و فغاں سے منع نہ فرماتے تو ميں آپ (ع) كے فراق ميں اتنا روتا كہ ميرے اشكوں كا سرچشمہ خشك ہو جاتا _(۲۶)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كى خبر نہايت تيزى سے مدينہ ميں پھيل گئي ، علي(ع) جب غسل و كفن ميں مشغول تھے اس وقت ايك گروہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جانشين كا مسئلہ حل كرنے كے لئے سقيفہ(۲۷) ميں الجھ رہا تھا _غسل دينے كے بعد پہلے علي(ع) نے نمازپڑھى پھر مسلمان دستہ دستہ آتے گئے اور نماز پڑھتے گئے ، پھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كو مسجد كے پہلو ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں دفن كرديا گيا_(۲۸)

يہ نور ہرگز نہيں بجھے گا

پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دار بقاء كى طرف روانہ ہوگئے ، ليكن يہ نور نہ تو گل ہوا ہے اور نہ ہوگا_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا آئين مشعل ہدايت كى طرح بشر كے لئے تاريك راستوں ميں راہنما ہے اور كروڑوں ، اربوں انسان صديوں سے اسے آئين كے پيرو ہيں_

آج بھى روزانہ ايك ارب سے زيادہ مسلمان سارى دنيا ميں كروڑوں بار '' اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمدرسول اللہ '' كى آواز گلدستہ اذان سے سن رہے ہيں اور بے پناہ محبت كے ساتھ اس آواز كے دلبر با ترنم كو اپنى زبان پر جارى كرتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) پر درود بھيجتے

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348