تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175325 / ڈاؤنلوڈ: 4064
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

حضرت عليعليه‌السلام كى بيعت كے امتيازات

حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت روز جمعہ بتاريخ پچيس ذى الحجہ ۳۵ ھ انجام پذير ہوئي اس كے بعض امتيازات ہم يہاں بيان كر رہے ہيں : _

۱ _ حضرت علىعليه‌السلام نے مستقبل كى حكومت كے استحكام كى خاطر لوگوں كو يہ موقعہ ديا كہ وہ آزاد انہ طور پر اپنا رہبر انتخاب كريں اور انہيں اتنى مہلت دى كہ وہ اس كے بارے ميں مكمل طور پر غور و فكر كرليں تاكہ پورے شعور كے ساتھ آيندہ كيلئے اپنے رہبر كا انتخاب كريں _

۲_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت عمومى تھى اور ايك عوامى تجويز كے طور پر پيش كى گئي تھى اس كے برعكس گذشتہ خلفاء كے ہاتھ پر بيعت كا معاملہ عوامى تحريك پر مبنى نہ تھا بلكہ بقول عمر : ابوبكر كى بيعت كا اتفاقى واقعہ تھا جو ''اچانك'' كسى پيش بندى كے بغير حادثى طور پر رونما ہوا اور صرف دو افراد (عمر اور ابوعبيدہ) كى تجويز پر اس مسئلے كو پيش كيا گيا _

عمر كو بھى عوام كى تجويز پر خليفہ مقرر نہيں كيا گيا تھا بلكہ انہيں ابوبكر نے اس منصب پر مامور كيا تھا_ عثمان كو بھى عوام كى تجويز پر خليفہ منتخب نہيں كيا گيا تھا بلكہ چھ افراد پر مشتمل شورى ميں سے صرف دو افراد كى موافقت سے جسے خليفہ ثانى نے منتخب كيا يہ كام انجام پذير ہوا_(۱۹)

۳_ حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت كو لوگوں نے خود قبول كيا اور يہ كام اس وقت عمل پذير ہوا جب لوگوں نے پہلے سے اس مسئلے پر غور كرليا تھا جبكہ سابقہ خلفاء نے عوام كو غور و فكر كرنے كا موقع ہى نہيں ديا بلكہ ان كى سعى وكوشش يہ تھى كہ جس قدر جلد ممكن ہوسكے يہ كام ختم ہوتاكہ تاكہ خير كے باعث اس ميں موانع پيدا نہ ہوں _

۴_ بيعت كے لئے جس جگہ كو مركز بنايا وہ مسجد تھى تاكہ تمام مسلمين اس ميں شركت كرسكيں اور اگر كسى كو كوئي اعتراض ہو تو اسے پيش كرے در حاليكہ گذشتہ خلفاء كى بيعت ميں اس خصوصيت كو مد نظر نہيں ركھا گيا_

۵_ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے كسى كو مجبور نہيں كيا گيا چنانچہ جس

۱۰۱

وقت عبداللہ بن عمر كى بيعت كا مسئلہ سامنے آيا اور انہوں نے بيعت كرنے سے انكار كرديا تو مالك اشتر نے اميرالمومنين عليه‌السلام حضرت علىعليه‌السلام سے كہا تھا كہ اگر آپ اجازت ديں تو ان كى گردن تن سے جدا كردى جائے ، تو حضرت علىعليه‌السلام نے ان كى اس تجويز كو صرف قبول ہى نہيں كيا بلكہ اپنى طرف سے يہ ضمانت بھى دى كہ عبداللہ بن عمر كو كوئي شخص تكليف و آزار نہ پہنچائے_(۲۰)

سوالات كے جوابات

جيسا كہ پہلے ذكر كيا جاچكا ہے اور نہج البلاغہ ميں مندرج اميرالمؤمنين حضرت علىعليه‌السلام كے خطبات سے بھى اس حقيقت كى وضاحت ہوتى ہے اگرچہ لوگ آپ كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے مصر تھے مگر آپ نے اس كام كے آغاز سے ہى خود كو كسى بھى پيشقدمى سے باز ركھا _(۲۱)

ممكن ہے يہ سوال پيش آئے كہ : حضرت علىعليه‌السلام اس كے باوجود كہ خلافت كو اپنا حق سمجھتے تھے اور بر سرا قتدار آنے كے لئے شايستہ ترين انسان بھى تھے ، نيز عوام آپ كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے ہر طرف سے جمع ہوگئے تھے پھر عوام كے اصرار كے باوجود اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے شروع ہى سے منصب خلافت كو قبول كرنے سے كيوں منع فرمايا ؟

حضرت علىعليه‌السلام كے لئے منصب خلافت قبول نہ كرنے كى وجہ يہ نہ تھى كہ وہ حكومت كى ذمہ داريوں نيز ان سے پيدا ہونے والى مشكلات كا مقابلہ كرنے كے لئے خود كو عاجز وناتوان سمجھتے تھے بلكہ اس كا اصل سبب يہ تھا كہ آپعليه‌السلام اسلامى معاشرہ كى اجتماعى و معنوى كيفيت پر گہرى نظر ركھتے تھے اور اس كى بہت سى مشكلات آپ كے پيش نظر تھيں اس لئے آپ چاہتے تھے كہ لوگوں كا امتحان ليں تاكہ يہ اعلان ہوجائے كہ عوام آپ كى انقلابى روش كو برداشت كرنے كے لئے كس حد تك تيار ہيں اور ان كا جب مشكلات سے سامنا ہو تو وہ يہ نہ كہيں كہ اميرالمومنين علىعليه‌السلام نے انہيں صحيح حالات سے بے خبر ركھا اور ان كے انقلابى جذبات نيز جوش و خروش سے فائدہ اٹھاليا_

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ نے عوام سے كہا تھا كہ : آپ لوگ مجھے معاف ركھيں يہ ذمہ دارى

۱۰۲

كسى دوسرے شخص كے سپرد كرديں كيونكہ جو مقصد ميرے پيش نظر ہے اس ميں اتنى زيادہ مشكلات ہيں كہ لوگوں ميں انہيں برداشت كرنے كى طاقت اور انسانى عقول ميں انہيں قبول كرنے كى تاب ہى نہيں _ عالم اسلام كے افق پر ظلم وبدعت كے سياہ بادل چھائے ہوئے ہيں اور اسلامى راہ و روش ميں تبديلى واقع ہوگئي ہے_ (۲۲)

حضرت علىعليه‌السلام نے كن مقاصد كے تحت حكومت قبول فرمائي_

اس ميں كوئي شك نہيں كہ وہ شخص جسے حضرت علىعليه‌السلام عليه‌السلام كے كردار و اخلاق اور طرز زندگى كے بارے ميں ادنى سى واقفيت ہے اتنا تو جانتا ہى ہے كہ آپ جيسے بزرگوار شخص كى قطعى يہ آرزو تمنا نہ تھى كہ لوگوں پر حكومت كريں اور منصب خلافت قبول كرنے ميں ہرگز يہ مقصد كار فرما نہ تھا كہ مال ودولت ، جاہ و ثروت اور حكومت و اقتدار حاصل ہو_

آپعليه‌السلام نے بھى گفتگو كے دوران كئي مرتبہ يہ بات لوگوں كے گوش گزار كردى تھى _ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام اور ابن عباس كے درميان جو گفتگو ہوئي اس كا اقتباس يہاں پيش كياجارہا ہے:

ابن عباس كہتے ہيں بصرہ كے راستے ميں واقع ''ذى قار'' نامى منزل پر حضرت علىعليه‌السلام سے ميرى ملاقات ہوئي آپ اپنا نعلين سى رہے تھے انہيں سيتے ہوئے آپ نے فرمايا كہ ان جوتيوں كى كيا قيمت ہوگي؟ ميں نے عرض كيا كہ : اب ان كى كيا قيمت رہ گئي اس پر آپ نے فرمايا :

والله لهى احب الى من امر بكم الا ان اقيم حقا او ادفع باطلا (۲۳)

خدا كى قسم مجھے يہ نعلين تم پر حكومت كرنے سے كہيں زيادہ عزيز ہيں مگر يہ كہ حق كو قائم كروں اور باطل كا قلع قمع كردوں _

اور ايك جملے ميں تو آپ نے زمامدارى كو گندے پانى اور ايسے لقمے سے تشبيہ دى ہے جو گلے ميں پھنسا ہو _ چنانچہ فرماتے ہيں : ''هذا ماء آجن ولقمه يَفضَّ بها اكلها'' (۲۴)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے خطبہ شقشقيہ كے آخر ميں اس مقصد كى وضاحت فرمائي ہے كہ

۱۰۳

آپ نے زمامدارى كو كيوں قبول فرمايا: قسم ہے اس خدا ئے پاك كى جس نے دانے كو چاك كيا اور انسان كى تخليق كى اگر لوگ كثير تعداد ميں ميرے گرد جمع نہ ہوگئے ہوتے' ہم كاروں كى مدد سے حجت قائم نہ ہوگئي ہوتى اور اگر خداوند تعالى نے علماء سے يہ عہد و پيمان نہ ليا ہوتا كہ ظالموں كى شكم پرى اور مظلومين كى فاقہ كشى پر وہ خاموش نہ رہيں تو ميں خلافت كے شتر كى مہار كو اس كى كمر پر پھينك ديتا اور پہلے ہى جام ميں اسے آخرى جام كى طرح سيراب كرديتا_(۲۵)

حضرت علىعليه‌السلام كے ان اقوال سے واضح ہے كہ آپ نے دو اہم بنيادوں پر زمام حكومت سنبھالى _ پہلى تو يہى كہ لوگ خود چل كر آپعليه‌السلام كے پاس آئے اور يہ اعلان كيا كہ حكومت كى حمايت كريں گے اور دوسرى بنياد يہ تھى كہ آپعليه‌السلام عدل وانصاف بر قرار كركے ظلم وستم كا سد باب كرنا چاہتے تھے_

ابتدائي اقدامات

جب آپ كو بيعت سے فرصت ملى تو آپ نے اعلان فرمايا كہ جن مقاصد كے تحت آپ نے حكومت كو قبول فرمايا ہے انہيں حقيقت كى شكل ديں گے_ حضرت علىعليه‌السلام نے جو سياسى مسلك اور طريق كار اختيار كيا وہ كوئي ايسا اتفاقى امر نہ تھا جس كى تخليق اسى روز كى گئي ہو بلكہ يہ ايسے دستور العمل كا مجموعہ تھا جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى راہ و روش سے حاصل كيا گيا تھا اور اس كا سرچشمہ وحى و قرآن تھے_

وہ كام جنہيں حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں اولويت حاصل تھى اور جنہيں فورا ہى انجام دينا چاہتے تھے وہ ان تين حصوں پر مشتمل تھے_

۱)نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر

۲)برترى وامتيازى سلوك كى برطرفى اور سب كے لئے مساوى حقوق كى ضمانت

۳)تاخت وتاراج كئے ہوئے مال كو واپس كرنا او ربيت المال كى عادلانہ تقسيم

۱۰۴

نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنى حكومت كے ابتدائي دنوں ميں عثمان كے حكام اور كارندوں كو برطرف كرديا كيونكہ ظلم و ستم اور اسلامى قوانين نيز مردم سالارى كى سياست سے ان كى نا آشنائي ، عثمان كے خلاف قيام كرنے كے اہم اسباب ميں ايك سبب تھا_

مغيرہ بن شعبہ نے حضرت علىعليه‌السلام سے گفتگو كرتے ہوئے يہ تجويز پيش كى پہلے حكام كو ان كے مناصب پر بحال و برقرار ركھاجائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے انكى اس تجويز كو منظور نہ كيا اور فرمايا كہ خدا كى قسم ميں اپنے دينى فرائض كى انجام دہى ميں سستى نہ كروں گا_(۲۶)

جن محركات كے تحت حضرت علىعليه‌السلام نے يہ اقدامات كئے ان كے بارے ميں آپ دوسرى جگہ فرماتے ہيں : ميں اس بات سے غمگين واندوہناك ہوں كہ اس امت كى حكومت كے سرپرست بے خبر اور ناكارہ لوگ ہوں وہ بيت المال كو تباہ كريں ، بندگان خدا كو آزادى سے محروم كركے انہيں اپنا غلام بناليں ، نيك و صالح لوگوں سے جنگ كريں اور فاسق و فاجر لوگوں كو اپنا يار ومددگار بنائيں _

اس جماعت ميں كچھ لوگ ايسے ہيں جو شراب پيتے ہيں اور ان پر حد جارى كى جاچكى ہے ، انہيں ميں ايسے لوگ بھى ہيں جنہوں نے اسلام اس وقت تك قبول نہيں كيا جب تك ان كے لئے كوئي عطيہ مقرر نہيں كيا گيا _(۲۷) حضرت علىعليه‌السلام نے عثمان كے مقرر كردہ حكام كو برطرف كركے ان كى جگہ نيك وصالح اور دور انديش لوگوں كو مختلف صوبوں كى حكومتوں پر مقرر كيا اس زمانے ميں بصرہ ، مصر اور شام كاشمار اسلامى قلمرو كے عظيم صوبوں ميں ہوتا تھا _ چنانچہ آپ نے عثمان بن حنيف كو بصرہ كا ،سہل بن حنيف كو شام كا اور قيس بن سعد كو مصر كا صوبہ دار مقرر فرماكر ان مناصب سے سرفراز فرمايا_ والى كوفہ ابوموسى اشعرى كو مالك اشتر كے اصرار پر انكے عہدے پر بحال ركھا_(۲۸)

۱۰۵

معاويہ كى برطرفي

جيسا كہ اوپر بيان كياجاچكا ہے كہ عثمان كے حكام و عمّال كو برطرف كرنے كا مقصد يہ تھا كہ حضرت علىعليه‌السلام چاہتے تھے كہ تباہى و فساد كارى كے خلاف محاذ قائم كركے اجتماعى عدل و انصاف كى بنيادوں كو محكم واستوار كريں اور آپعليه‌السلام چونكہ معاويہ كے نظر و فكر وكاركردگى سے بخوبى واقف تھے اسى لئے انہوں نے اس بات كى مخالفت كى كہ وہ حكومت كے كسى منصب پر برقرار رہے اگر چہ انعليه‌السلام كے چچا زاد بھائي ابن عباس نے معاويہ كى سفارش بھى كى كہ انہيں مختصر عرصے كے لئے ہى سہى اس كے عہدے پر بحال ركھا جائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے اس سفارش كو بھى قبول نہيں فرمايا_

جب مغيرہ كى يہ كار گرنہ ہوئي كہ سابقہ حكام كو ان كے عہدوں پر بحال ركھا جائے تو انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے كہا كہ معاويہ كو شام كى صوبہ دارى سے معزول نہ كيجئے كيونكہ وہ گستاخ ہے اور شام كے لوگوں اسى كے مطيع و فرمانبردار ہيں عمر نے اسے چونكہ شام كا گورنر مقرر كيا تھا لہذا آپ كے پاس بہانہ ہے _ اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : خدا كى قسم ميں اسے دو روز بھى كسى عہدے پر بحال نہ ركھوں گا(۲۹) جس وقت عباس كو مغيرہ كى تجويز كے بارے مےں اطلاع ہوئي تو انہوں نے بھى اميرلمومنين علىعليه‌السلام كى خدمت ميں يہى عرض كى كہ مجھے اس بات سے اتفاق نہيں كہ فى الحال آپ معاويہ كو اس كے منصب سے معزول كريں جس وقت وہ آپ كے دست مبارك پر بيعت كريں گے اور آپ كاكام استحكام پذير ہو جائے اس كے بعد آپ اسے برطرف كيجئے اس پر حضرت عليعليه‌السلام نے فرمايا : خدا كى قسم ' تلوار كے علاوہ ميں اسے كوئي اور چيز نہ دوں گا _(۳۰)

حضرت علىعليه‌السلام نے جو يہ روش اختيار كى اس كے بارے ميں ان چند نكات كا بيان كردينا ضرورى ہے _

اميرالمومنين حضرت عليعليه‌السلام بخوبى واقف تھے كہ معاويہ كسى بھى صورت ميں ان كے دست مبارك پر ہرگز بيعت نہ كرے گا اور آپ كا حكم نہ مانے گا كيونكہ جذبہ اقتدار پسندى و زراندوزى كے علاوہ قبائلى تعصب اور وہ ديرينہ دشمنى جو اس كے دل ميں حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف تھى اس راہ ميں

۱۰۶

مانع و حائل تھى كہ وہ حضرت علي عليه‌السلام كى حكومت كے نمايندے كى حيثيت سے كوئي خدمت انجام دے اور امر واقعى يہ ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ كے جذبہ كار گردگى و مقاصد كے درميان متضاد تطبيق كا فاصلہ تھا اور اسى كے باعث دونوں كے مابين باہمى تعاون كا امكان نہ تھا _

اگر حضرت علىعليه‌السلام نے كوئي ايسا فرمان جارى كر ديا ہوتا جس سے اس بات كى تائيد ہوتى كہ وہ شام كى صوبہ دارى پر بحال رہے تو اس بات كا امكان تھا كہ معاويہ اس فرمان كا فائدہ اٹھا كر اسے اپنى فرمانروائي كا پروانہ تصور كرتا ہے اور اس طرح اسے شام ميں پہلے سے كہيں زيادہ قدم جمانے كا موقع مل جاتا _

معاويہ جيسے استبداد پسند عمال اور ديگر مفسد كارندوں كى عملہ خلافت مےں موجودگى ايسے عوامل تھے جن كے باعث مسلمين كے درميان رنجش پيدا ہوئي اور انہوں نے عثمان كے خلاف بغاوت كر دى اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت چونكہ حقوق سے محروم و ستمديدہ طبقات كى پناہگاہ تھى اسى لئے اگر اس ميں معاويہ جيسے لوگ بر سر اقتدار رہتے تو اس بات كا امكان تھا كہ عوام ميں دربارہ غم و غصہ پيدا ہو جائے اور وہ اكثريت جو حضرت عليعليه‌السلام كى طرفدار تھى اسے اميرالمومنينعليه‌السلام كى ذات اور اس حكومت سے جس كى آيندہ تشكيل كرتے مايوسى ہوتى چنانچہ ان كے اور اس اقليت كى درميان جو حضرت عليعليه‌السلام كى شخصيت كو بہر حال حجت تسليم كرتے تھى اختلاف پيدا ہو جاتا _

مذكورہ بالا دلائل نيز پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول يہ روايت كہ فرزندان اميہ پر حكومت حرام ہے ايسے عوامل تھے جن كے باعث حضرت عليعليه‌السلام نے معاويہ كو خط لكھ كر مطلع كيا كہ اسے اس عہدے سے برطرف كر كے اس كى جگہ سہل بن حنيف كو شام كا صوبہ دار مقرر كيا جاتا ہے _(۳۱)

مساوى حقوق كى ضمانت

جيسا كہ ہم جانتے ہيں كہ اسلام نے دور جاہليت كے امتيازى سلوك كو قطعى طور پر باطل قرار ديا ہے مگر پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد عہد جاہليت كى اس رسم كا بتدريج رواج ہونے لگا اور عثمان

۱۰۷

كے زمانہ خلافت ميں اسے مزيد فروغ ملا _

حضرت علىعليه‌السلام نے زمام حكومت اپنے اختيار ميں لينے كے بعد عہد جاہليت كے تمام امتيازى سلوك كو يكسرہ ختم كر ديا اور اس بات كى ضمانت دى كہ تمام مسلمانوں كے حقوق مساوى و يكساں ہيں چنانچہ اس بارے مےں خود فرماتے ہےں ذليل (مظلوم و ستمديدہ) اس وقت تك ميرے نزديك عزيز وار جمند ہے جب تك اس كے حق كو ظالم سے نہ لے لوں اور زور مند (ظالم و ستمگر) اس وقت تك ميرے نزديك برا اور ناتواں ہے جب تك مظلوم كا حق اس سے حاصل نہ كر لوں(۳۲) _

لوٹے ہوئے مال كى واپسي

حضرت عليعليه‌السلام نے مالى امور ميں بھى واضح و روشن راستہ اختيار كيا اس سلسلے مےں آپعليه‌السلام كے سامنے دو اہم مسئلے تھے پہلا تو يہى كہ عثمان كى خلافت كى زمانہ ميں ايك مخصوص گروہ نے بہت دولت جمع كى تھى دوسرا مسئلہ بيت المال كى تقسيم تھا _

حضرت علىعليه‌السلام نے آغاز خلافت ميں جو خطبات ديئے ان مےں اپنى آيندہ كى راہ و روش كو واضح و روشن كر ديا ہے چنانچہ ايك خطبے ميں فرماتے ہيں وہ اراضى جو عثمان نے مخصوص افراد كو ديدى ہے اور وہ ثروت جو اس (عثمان) نے اپنے قرابت داروں ميں تقسيم كر دى ہے اسے بيت المال ميں واپس لا كر جمع كريں گے _ اس كے ساتھ ہى آپ نے عوام كو يہ يقين دلايا كہ بيت المال كى تقسيم ميں مساوات سے كام لينگے _

اميرالمومنين حضرت عليعليه‌السلام نے اپنے خطبے كے ايك حصے ميں يہ بھى فرمايا تھا كہ :

ميں بھى تم ميں سے ايك فرد ہوں اور اور سود و زياں ميں تمہارے ساتھ شريك ہوں ميں تمہارى رہبرى سيرت محمديصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مطابق كرنا چاھتا ہوں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے احكامات كو تم لوگوں كے درميان نافذ و جارى كروں گا ياد ركھو ہر وہ جاگير جو عثمان نے كسى كو دى اور جو بھى مال عوامى ملكيت

۱۰۸

ميں سے كسى كو بخشا تھا وہ واپس بيت المال ميں لايا جائے گا اس مےں خواہ وہ رقم شامل ہو جس سے خواتين كو مہر ادا كيا گيا ہو اور خواہ اس سے كنيزيں خريديں گئيں ہوں كيونكہ عدالت كا دروازہ وسيع ہے اور جس پر عدل و انصاف تنگ ہو گيا ہو اس پر جور و ستم كا ميدان اس سے كہيں زيادہ تنگ كر ديا جائے گا _(۳۳)

اپنے دوسرے خطبے ميں آپعليه‌السلام نے فرمايا تھا كہ '' لوگو ياد ركھو تم مےں سے جس كو دنيا نے نگل ليا ہے اور جنہوں نے املاك و كاشت كى زمين جمع كر لى ہے جن ميں انہوں نے نہريں جارى كر دى ہيں ' سوارى كيلئے تيز رفتار گھوڑے حاصل كر لئے ہيں اور اپنے لئے خوبصورت كنيزيں خريد كر ليں ہيں انہوں نے اپنے اس رنگ و ڈھنگ سے رسوائي و بدنامى مول لى ہے انھيں ميں اس لہو لعب سے جس ميں وہ غوطہ زن ہيں اگر نجات دلانا چاہوں اور تسليم شدہ حق كے كنارے پر انھيں لانا چاہتا ہوں تو وہ ميرے اس عمل پر غضبناك نہ ہوں اور يہ نہ كہيں كہ ابى طالب كے فرزند نے ہميں ہمارے حقوق سے محروم كر ديا ہے ...''

تم سب ہى بندگان خدا ہو اور بيت المال بھى خدا كا ہى مال ہے يہ تم ميں مساوى طور پر تقسيم كيا جائے گا

اس كے بعد آپ نے فرمايا كہ ميرے پاس بيت المال كا كچھ حصہ موجود ہے تم سب ميرے پاس آكر اپنا حصہ لے لو چاہے عرب ہو يا عجم ' وظيفہ دار ہو يا غير وظيفہ دار_(۳۴)

اس طرح حضرت علىعليه‌السلام نے نہايت تيزى كے ساتھ قطعى طور پر ناروا عصبيت اور امتيازات كا خاتمہ كر ديا _

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے ايك اقدام سے اس جماعت كے اثر و رسوخ كا قلع قمع كر ديا جو عثمان كى خلافت كے دوران ابھرى تھى عثمان نے انھيں كثير مال و دولت اور جاگير سے نواز تھا حضرت عليعليه‌السلام نے اس مال و جاگير كو بيت المال ميں جمع كر ديا _(۳۵)

۱۰۹

بدعنوانيوں ميں ملوث دولتمندوں كى رخنہ اندازي

بيت المال كى مساويانہ تقسيم كے باعث محرومين اور مستضعفين كو جس قدر خوشى و مسرت ہوئي اتنا ہى صدمہ ان چند مغرور افراد كو پہنچا جنہيں جاہ طلبى كى ہوا و ہوس تھى _ انہيں چند سال ميں چونكہ جو رو ستم كركے كئي گنا زيادہ تنخواہيں نيز وظائف لينے كى عادت ہوگئي تھى اس لئے حضرت علىعليه‌السلام كى مساويانہ روش تقسيم مال سے جب وہ دچار ہوئے تو انہيں سخت پريشانى ہوئي_

ايك روز وليد بن عقبہ اس جماعت كے نمايندے كى حيثيت سے حضرت علىعليه‌السلام كے پاس آيا اور كہنے لگا كہ اے ابوالحسن اگر چہ ہم (بنى عبد مناف) بھى آپ كے بھائيوں ميں سے اور آپ جيسے ہى ہيں ليكن آپ نے تو ہم پر ظلم وستم ہى بپا كرديا ہم اس شرط پر آپ كى بيعت كرنے كو تيار ہيں كہ وہ مال و متاع جو ہم نے عثمان كے عہد خلافت ميں جمع كيا ہے وہ آپ ہم سے واپس نہ ليں اور ان كے قاتلوں كو ہلاك كرديں ليكن ہمارے مفادات كو كوئي خطرہ ہوا اور آپ كے رويے سے ہم خوفزدہ ہوئے تو ہم آپ سے عليحدہ ہو كر شام كى جانب كوچ كرجائيں گے_

يہ سن كر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : تم جو يہ كہہ رہے ہو كہ ميں نے ظلم وستم كيا ہے (اور ميرے اس اقدام كو ظلم وستم سے تعبير كياجاسكتا ہے)تو يہ ظلم حق و انصاف كى جانب سے ہوا ہے اور يہ كہ وہ مال جو تمہارے پاس ہے اسے ميں نظر انداز كردوں تو ميں ايسا نہيں كرسكتا كيونكہ حق خدا كو پائمال ہوتے ہوئے ديكھ كر ميں چشم پوشى نہيں كرسكتا اب يہ مال خواہ تمہارے چنگل ميں ہو يا كسى اور شخص كے_(۳۶)

جب اس جماعت كے سردار كو يقين ہوگيا كہ وہ گفتگو يا دھمكى كے ذريعے اپنا مدعى حاصل نہيں كرسكتے تو انہوں نے اپنى پورى قوت سے حضرت علىعليه‌السلام كى قائم كردہ نو بنياد حكومت كى بيخ كنى شروع كردى اور اس كے خلاف بر سر پيكار ہوگئے_

اس بارے ميں عمرو بن عاص نے معاويہ كو لكھا تھا كہ جو بھى فيصلہ كيا ہے اس پر جلد ہى عمل كيجئے كيونكہ جس طرح لكڑى كے اوپر سے چھال اتارلى جاتى ہے ابى طالب كا فرزند اسى طرح اس مال و دولت كو جوتمہارے پاس ہے ، تمہارے تن سے اتروائے گا_

۱۱۰

سوالات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر عوام نے كس طرح بيعت كى مختصر طور پر وضاحت كيجئے؟

۲_ كيا كچھ لوگوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے سے كنارہ كشى كي؟ اگر ايسا كيا تو كيوں ؟

۳_ جب عوام نے حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كى تو قريش كيوں مضطرب وپريشان ہوئے؟

۴_ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كى خصوصيات بيان كيجئے؟

۵_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ابتداء ميں لوگوں كے اصرار كے باوجود كيوں خلافت كى زمامدارى قبول كرنے سے مثبت جواب نہيں ديا؟

۶_ جب حضرت علىعليه‌السلام نے خلافت كى زمامدارى قبول فرمائي تو آپ كى نظر ميں كون سے كام مقدم اور فورى انجام دينے كے تھے؟

۷_ عثمان كے عہد سے وابستہ حكام كو معزول يا بحال ركھے جانے كے كيا اسباب تھے ، اس كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كے نظريات بيان كيجئے؟

۸_ حضرت علىعليه‌السلام كى مالى روش سے مال اندوز لوگ كيوں غضبناك ہوئے اس كا سدباب كرنے كےلئے انہوں نے كيا اقدام كيا ؟

۱۱۱

حوالہ جات

۱_ لا حاجة لى فى امركم فمن اخترتم رضيت بہ

۲_ كامل ابن اثير ج /۱۹۰۳ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۷ تاريخ ابى الفداء ج ۱ /۱۷

۳_ لا تفعلوا فانى اكون وزيراً خيرا من ان اكون اميراً

۴_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۰، انساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۰۹ ، تاريخ ابى الفداء ج ۱/ ۱۷۱

۵_ نہج البلاغہ خ شقشقيہ (خ ۳)

۶_فما راعنى الا والناس كعرف الضبع الى ينشا لون علَّى من كل جانب حتى لقد وطى الحسنان و شق عطفاى مجتمعين حولى كربيضة الغنم

۷_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۸ كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۳

۸_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۸ كامل ابن اثير ج ۳/۱۹۳

۹_ نہج البلاغہ خ ۲۲۹

وبلغ سرور الناس ببيعتهم اياى ان ابتهج بها الصغير و هدج اليها الكبير وكامل نحوها العليل وحسرت اليها الكعاب

۱۰_ تاريخ يعقوبى ج۲/ ۱۷۹

۱۱_ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۷۹

۱۲_ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۷۹

۱۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۱/ ۱۱۴

۱۴_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۳

۱۵_ تاريخ ابى الفداء ج ۱/ ۱۷۱

۱۶ _ استيعاب ج ۳/ ۵۵ ''اولئك قوم قعدوا عن الحق ولم يقوموا مع الباطل''

۱۷_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۳

۱۸_ تاريخ ابى الفداء ج۱/۱۷۱ ، الانساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۰۷

۱۱۲

۱۹_ عثمان خود بھى مذكورہ شورى كے ركن تھے اور انہوں نے خود بھى اپنى خلافت كے حق ميں رائے دى _

۲۰_انساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۰۷، تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۸

۲۱_ ملاحظہ ہو خطبات ۲۲۹، ۱۳۷

۲۲_ نہج البلاغہ خ ۹۲

دعونى والتمسوا غيرى فانا مستقبلون امراً له وجوه والوان لا تقوم له القلوب ولا تثبت عليه العقول وان الافاق قداغاقت والمحجة تنكرت

۲۳_ نہج البلاغہ خ ۳۳

۲۴_ نہج البلاغہ خ ۵

۲۵_ نہج البلاغہ خ ۳

اما والذى فلق الحبة وبرى النسمة لولا حضور الحاضر وقيام الحجة بوجود الناصر وما اخذ الله على العلماء ان يقاروا على كظة ظالم و لا سغب المظلوم لا لقيت حبلها على غاربها و لسقيت آخرها بكا س اولها _

۲۶_ واللہ لا اداہن فى دينى _ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۵_ ۳۵۴، كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۷ _ تاريخ طبرى ج ۴ / ۴۴۰

۲۷_ نہج البلاغہ مكتوب ۶۲

۲۸_ تاريخ يعقوبى ج ۲ / ۱۷۹

۲۹_لا والله لا استعمل معاوية يومين ابداً كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۷ ، مروج الذہب ج ۲/ ۲۵۶ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۱

۳۰_لا والله لا اعطيه الا السيف ، كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۷ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۴

۳۱_ مذكورہ خط كا متن ان كتابوں ميں ملاحظہ ہو : شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۳۰ تاريخ التواريخ ج ۱/ ۳۸ ، انساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۱۱ درسيرہ ائمہ اثنى عشرى ج ۱/ ۴۴۲

۳۲_الذليل عندى عزيز حتى آخذ الحق له ، والقوى عندى ضعيف حتى آخذ الحق منه _

۱۱۳

نہج البلاغہ خ ۳۷

۳۳_ ثورة الحسينعليه‌السلام للمہدى شمس الدين ۵۷، شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۶۹ ، نہج البلاغہ خ ۱۵ (يہ قول مختصر ترميم كے ساتھ نقل كيا گيا ہے)

۳۴_ شرح ابن ابى الحديد ج ۷/ ۳۷

۳۵_ اس واقعے كى تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو مروج الذہب ج ۲/ ۲۵۳ ، شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۳ / ۲۱۵

شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۷۰ فى ظلال نہج البلاغہ ج ۱/ ۱۳۰ ، شرح نہج البلاغہ بحرانى ج ۱/ ۲۹ اور سيرہ الائمہ مصنفہ علامہ سيد محسن امين ج ۱/ جزء دوم /۱۱

۳۶_ شرح ابن ابى الحديد ج ۷/ ۳۹_ ۳۸

۳۷_ ''ماكنت صانعاً فاصنع اذ قشرك ابن ابى طالب من كل مال تملكہ كما تقشر عن العصا لحاہا '' شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۷۰ ، شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۳/ ۲۱۵ ، الغدير ج ۷/ ۲۸۸

۱۱۴

چھٹا سبق

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۲

ناكثين (حكومت علىعليه‌السلام كى مخالفت)

موقف ميں تبديلي

مكہ ميں مخالفين كا جمع ہونا

سپاہ كے اخراجات

عراق كى جانب روانگي

سپاہ كى جانب عثمان بن حنيف كے نمايندوں كى روانگي

پہلا تصادم

دھوكہ و عہد شكني

جمل اصغر

سردارى پر اختلاف

خبر رساني

سوالات

حوالہ جات

۱۱۵

ناكثين(حكومت علىعليه‌السلام كى مخالفت)

حضرت علىعليه‌السلام نے ايك خطبے ميں حكومت كے مخالفين كو تين گروہوں ميں تقسيم كيا ہے _

(۱) _ وہ يہ ہيں :

اصحاب جمل : جنہيں آپعليه‌السلام نے ناكثين كے نام سے ياد كيا ہے_

اصحاب صفين : انہيں آپعليه‌السلام نے قاسطين كہا ہے اور

اصحاب نہروان : (خوارج_ جو مارقين كہلائے ہيں )

ناكثين كى ذہنى كيفيت يہ تھى كہ وہ انتہائي لالچى ' زرپرست اور امتيازى سلوك روا ركھنے كے طرفدار تھے _ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام نے جہاں كہيں عدل و مساوات كا ذكر كيا ہے وہاں آپعليه‌السلام كى توجہ بيشتر اسى گروہ كى جانب رہى ہے_

''قاسطين'' كا تعلق ''طلقائ(۲) '' كے فرقہ سے تھا اس گروہ كى تشكيل ميں بعض فراري، بعض حكومت سے ناراض اورعثمان كے كارندے شامل تھے _ يہ لوگ ذہنى طور پر حيلہ گر اور نفاق پسند تھے_ وہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كا زوال چاہتے تھے تاكہ حكومت ان كے دست اختيار ميں آجائے_

تيسرے گروہ كى اخلاقى حالت يہ تھى كہ وہ ناروا عصبيت كے قائل تھے ، ذہنى خشكى كو تقدس تصور كرتے تھے اور ان كى جہالت خطرناك حد تك پہنچ گئي تھي_

يہاں ہم اختصار كو مد نظر ركھتے ہوئے ان گروہوں كا تعارف كراتے ہوئے انكى حيثيت كا

۱۱۶

جائزہ ليں گے اور يہ بتائيں گے كہ ان ميں سے ہر گروہ نے حضرت على عليه‌السلام كى حكومت كے خلاف كيا كيا كارگزارياں كيں _

ناكثين

طلحہ وزبير كى عرصہ دارز سے يہ آرزو تھى كہ وہ اس مقام پر پہنچيں جہاں سے عالم اسلام پر حكمرانى كرسكيں _ عثمان كے قتل كے بعد رائے عامہ حضرت علىعليه‌السلام كى جانب اس بناپر متوجہ ہوگئي كہ انہوں نے آپعليه‌السلام كو ہى عہدہ خلافت كے لئے شايستہ ترين انسان سمجھا_ چنانچہ جب وہ لوگ اقتدار سے نااميد ہوگئے تو حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے پيش پيش رہے اور بظاہر سب پر سبقت لے گئے_

حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت ميں سبقت لے جانے كى وجہ يہ تھى كہ وہ چاہتے تھے كہ اپنے اس اقدام سے خليفہ وقت كو اپنى جانب متوجہ كريں تاكہ اس طريقے سے وہ اپنے مقاصد تك پہنچ سكيں _ ليكن ان كى توقع كے خلاف اميرالمومنينعليه‌السلام نے انكے ساتھ ديگر تمام مسلمين كى طرح يكساں سلوك روا ركھا اور اس طرح ان كى تمام حسرتوں پر پانى پھرگيا_

يعقوبى نے لكھا ہے كہ طلحہ اور زبير اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے پاس آئے اور كہا كہ پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد ہم سے بہت زيادہ ناانصافى كى گئي ہے ، اب آپ ہميں خلافت كى مشينرى ميں شريك كرليجئے_

اس پر اميرالمومنين علىعليه‌السلام نے فرمايا : قوت و پايدارى ميں تو تم ميرے ساتھ شريك ہوہى شدائد اورسختيوں ميں بھى تم ميرے ساتھ رہو(۳) _ حضرت علىعليه‌السلام كے اس اقدام سے يہ دونوں حضرات ايسے برگشتہ ہوئے كہ انہوں نے دستگاہ خلافت سے عہد شكنى كا فيصلہ كرليا اور آخر كا اس كا انجام جنگ ''جمل'' كى صورت ميں رونما ہوا_

برگشتگى كا دوسرا عامل يہ تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے بيت المال كو تمام مسلمانوں كے

۱۱۷

درميان مساوى تقسيم كيا _ اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام كا يہ رويہ طلحہ اور زبير كے لئے ناقابل برداشت تھا _ انہوں نے زبان اعتراض دراز كى اور بيت المال ميں سے اپنا حصہ بھى نہيں ليا_

حضرت علىعليه‌السلام نے انہيں اپنے پاس بلايا اور فرمايا : كيا تم ميرے پاس اس مقصد كے لئے نہيں آئے تھے كہ زمام خلافت كو ميں اپنے دست اختيار ميں لے لوں درحاليكہ مجھے اس كا قبول كرنا ناپسند تھا ؟ كيا تم نے اپنى مرضى سے ميرے ہاتھ پر بيعت نہيں كى ؟ اس پر انہوں نے جواب ديا كہ : ہاں اس ميں ہمارى مرضى شامل تھى _ يہ سن كر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا تو تم نے مجھ ميں كون سى بات ديكھى جو اعتراض شروع كرديا اور ميرى مخالفت پر اتر آئے ؟ انہوں نے جواب ديا كہ ہم نے اس اميد پر بيعت كى تھى كہ خلافت كے اہم امور ميں آپ كے مشير رہيں گے_ اب ديكھتے ہيں كہ آپ نے ہمارے مشورے كے بغير بيت المال كو مساوى تقسيم كرديا جو چيز ہمارى رنجيدگى كا سبب ہوئي ہے وہ يہ ہے كہ آپ عمر كى روش كے خلاف جارہے ہيں وہ بيت المال كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ كارناموں كو ملحوظ خاطر ركھتے تھے _ ليكن آپ نے اس امتياز سے چشم پوشى كى جو ہميں حاصل ہے آپ نے ہميں ديگر مسلمانوں كے برابر سمجھا ہے جب كہ يہ مال ہمارى جانبازى كے ذريعے شمشير كے بل پر حاصل ہواہے_

يہ سن كر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : امور خلافت ميں جہاں تك مسئلہ مشورت كى بات ہے تو مجھے خلافت كى كب چاہ تھى اس كى جانب آنے كى تم نے ہى مجھے دعوت دى تھى مجھے چونكہ مسلمانوں كے باہمى اختلافات اور ان كے منتشر ہوجانے كا خوف تھا اسى لئے اس ذمہ دارى كو قبول كرليا جب بھى كوئي مسئلہ ميرے سامنے آيا تو ميں نے حكم خدا كو اور سنت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب رجوع كيا اور اس كا حل تلاش كرليا _ اسى لئے اس معاملے ميں مجھے تمہارے مشورے كى ضرورت پيش نہ آئي _ البتہ اگر كسى روز ايسا معاملہ پيش آيا جس كا حل قرآن اور سنت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ذريعے نہ نكل سكے تو مجھے تمہارے مشورے كى ضرورت محسوس ہوگى ، تو تم سے ضرور مشورہ كروں گا_

رہا بيت المال كا مسئلہ تو يہ بھى ميرى اپنى خصوصى روش نہيں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ميں

۱۱۸

نے ديكھا ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بيت المال كو مساوى تقسيم كيا كرتے تھے_

اس كے علاوہ اس مسئلے كے بارے ميں بھى قرآن نے حكم ديا ہے كہ يہ كتاب اللہ آپ كے سامنے ہے اس ميں كوئي غلط بات درج نہيں ہے يہ كتاب ہميں مساوات و برابرى كى دعوت ديتى ہے اور اس نے ہر قسم كے امتيازى سلوك كو باطل قرار ديا ہے_

يہ كہنا كہ بيت المال آپ كى شمشير كے زور پر ہاتھ آيا ہے تو اس سے پہلے بھى ايسے لوگ گذرے ہيں جنہوں نے جان ومال سے اسلام كى مدد كى ہے_ ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بيت المال كى تقسيم ميں كسى كے ساتھ امتيازى سولك روانہ ركھا_(۴)

طبرى لكھتا ہے كہ : جب طلحہ ہر قسم كے امتيازى سلوك سے مايوس و نااميد ہوگيا تو اس نے يہ مثل كہى : ہميں اس عمل سے اتنا ہى ملا ہے جتنا كتے كو سونگھنے سے ملتا ہے_ ۵)

ايك طرف تو طلحہ اور زبير اس بات سے مايوس ونااميد ہوگئے كہ انہيں كوئي مقام و مرتبہ ملے گا اور ان كے ساتھ امتيازى سلوك روا ركھا جائے گا اور دوسرى طرف انہيں يہ اطلاع ملى كہ عائشہ نے حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف مكہ ميں پرچم لہراديا ہے _ چنانچہ انہوں نے فيصلہ كيا كہ مكہ كى جانب روانہ ہوں اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام كے پاس آئے اور كہا كہ ہم عمرہ كى غرض سے آپ كى اجازت كے خواہاں ہيں _

ان كے جانے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے دوستوں سے فرمايا كہ : خدا كى قسم ان كا ارادہ ہرگز عمرہ كا نہيں بلكہ ان كا مقصد عہد شكنى اور خيانت ہے_(۶)

موقف ميں تبديلي

عائشہ كو پہلے دو خلفاء كے دور ميں جو مراعات حاصل تھيں ان سے وہ عثمان كے عہد آخر خلافت ميں محروم كردى گئيں چونكہ وہ ان كى حكومت سے عاجز و پريشان تھيں اسى لئے انہوں نے عثمان كے خلاف پرچم شورش لہراديا نيز زور بيان اور اپنى رفتار كے ذريعے اس نے مسلمانوں كو

۱۱۹

خليفہ وقت كے خلاف شورش و سركشى كى دعوت دي_ (۷)

شعلہ شورش كو ہوا دينے كے باعث وہ خود كو اپنے مقصد ميں كامياب محسوس كر رہى تھى اس لئے وہ مكہ كى جانب روانہ ہوگئيں اور ہر لمحہ عثمان كے قتل نيز مسلمين كا طلحہ كے ہاتھ پر بيعت كرنے كا انتظار كرنے لگيں _

جس وقت عثمان كے قتل كى خبر انہيں ملى تو انہوں نے كہا كہ : خدا اس كو غارت كرے اپنے ان كرتوتوں سے ہى تو مارا گيا ، خداوند تعالى اپنے بندوں پر ظلم نہيں كيا كرتا _(۸) عثمان كے قتل كے بعدانہوں نے مسلمانوں سے كہا كہ وہ عثمان كے مارے جانے كے باعث پريشان خاطر نہ ہوں اگر وہ مارے گئے تو كيا ہوا مقام خلافت كے لئے بہترين اور لائق ترين شخص طلحہ تو تمہارے درميان موجود ہيں ان كے ہاتھ پر بيعت كرو اور تفرقہ سے دور رہو_

اپنے اس بيان كے بعد وہ بڑى تيزى سے مدينہ كى جانب روانہ ہوئيں انہيں اطمينان تھا كہ عثمان كے بعد منصب خلافت طلحہ كے ہاتھ آجائے گا ، اسى لئے راستے ميں خود ہى گنگنارہى تھى كہ : ميں گويا اپنى آنكھوں سے ديكھ رہى ہوں كہ لوگ طلحہ كے ہاتھ پر بيعت كر رہے ہيں ميرى سوارى كو تيز ہانكو تاكہ ميں ان تك پہنچ جائوں _(۹)

عبيد بن ام كلاب مدينہ سے واپس آرہے تھے راستے ميں ان سے ملاقات ہوگئي ، انہوں نے مدينہ كى حالت ان سے دريافت كى عبيد نے ان سے كہا كہ عوام نے عثمان كو قتل كرديا ، آٹھ روز تك وہ يہ فيصلہ نہ كرسكے كہ كيا كريں _ عائشہ نے دريافت كيا كہ اس كے بعد كيا ہوا؟ انہوں نے كہا كہ : الحمدللہ كام بحسن و خوبى تمام ہوا اور مسلمانوں نے ايك دل اور ايك زبان ہوكر علىعليه‌السلام بن ابى طالبعليه‌السلام كو منتخب كرليا _

عائشہ نے يہ خبر سننے كے بعد كہا خدا كى قسم اگر خلافت كا فيصلہ علىعليه‌السلام كے حق ميں ہوا ہے تو اب آسمان زير و زبر ہوجائيں گے مجھے يہاں سے واپس لے چلو فوراًمجھے يہاں سے لے چلو(۱۰)

چنانچہ وہ وہيں سے مكہ كى جانب روانہ ہوگئيں ليكن اب انہوں نے اپنا نظريہ بدل ديا تھا اور يہ

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348