تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 11%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180470 / ڈاؤنلوڈ: 4273
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

حضرت عليعليه‌السلام كى بيعت كے امتيازات

حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت روز جمعہ بتاريخ پچيس ذى الحجہ ۳۵ ھ انجام پذير ہوئي اس كے بعض امتيازات ہم يہاں بيان كر رہے ہيں : _

۱ _ حضرت علىعليه‌السلام نے مستقبل كى حكومت كے استحكام كى خاطر لوگوں كو يہ موقعہ ديا كہ وہ آزاد انہ طور پر اپنا رہبر انتخاب كريں اور انہيں اتنى مہلت دى كہ وہ اس كے بارے ميں مكمل طور پر غور و فكر كرليں تاكہ پورے شعور كے ساتھ آيندہ كيلئے اپنے رہبر كا انتخاب كريں _

۲_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت عمومى تھى اور ايك عوامى تجويز كے طور پر پيش كى گئي تھى اس كے برعكس گذشتہ خلفاء كے ہاتھ پر بيعت كا معاملہ عوامى تحريك پر مبنى نہ تھا بلكہ بقول عمر : ابوبكر كى بيعت كا اتفاقى واقعہ تھا جو ''اچانك'' كسى پيش بندى كے بغير حادثى طور پر رونما ہوا اور صرف دو افراد (عمر اور ابوعبيدہ) كى تجويز پر اس مسئلے كو پيش كيا گيا _

عمر كو بھى عوام كى تجويز پر خليفہ مقرر نہيں كيا گيا تھا بلكہ انہيں ابوبكر نے اس منصب پر مامور كيا تھا_ عثمان كو بھى عوام كى تجويز پر خليفہ منتخب نہيں كيا گيا تھا بلكہ چھ افراد پر مشتمل شورى ميں سے صرف دو افراد كى موافقت سے جسے خليفہ ثانى نے منتخب كيا يہ كام انجام پذير ہوا_(۱۹)

۳_ حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت كو لوگوں نے خود قبول كيا اور يہ كام اس وقت عمل پذير ہوا جب لوگوں نے پہلے سے اس مسئلے پر غور كرليا تھا جبكہ سابقہ خلفاء نے عوام كو غور و فكر كرنے كا موقع ہى نہيں ديا بلكہ ان كى سعى وكوشش يہ تھى كہ جس قدر جلد ممكن ہوسكے يہ كام ختم ہوتاكہ تاكہ خير كے باعث اس ميں موانع پيدا نہ ہوں _

۴_ بيعت كے لئے جس جگہ كو مركز بنايا وہ مسجد تھى تاكہ تمام مسلمين اس ميں شركت كرسكيں اور اگر كسى كو كوئي اعتراض ہو تو اسے پيش كرے در حاليكہ گذشتہ خلفاء كى بيعت ميں اس خصوصيت كو مد نظر نہيں ركھا گيا_

۵_ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے كسى كو مجبور نہيں كيا گيا چنانچہ جس

۱۰۱

وقت عبداللہ بن عمر كى بيعت كا مسئلہ سامنے آيا اور انہوں نے بيعت كرنے سے انكار كرديا تو مالك اشتر نے اميرالمومنين عليه‌السلام حضرت علىعليه‌السلام سے كہا تھا كہ اگر آپ اجازت ديں تو ان كى گردن تن سے جدا كردى جائے ، تو حضرت علىعليه‌السلام نے ان كى اس تجويز كو صرف قبول ہى نہيں كيا بلكہ اپنى طرف سے يہ ضمانت بھى دى كہ عبداللہ بن عمر كو كوئي شخص تكليف و آزار نہ پہنچائے_(۲۰)

سوالات كے جوابات

جيسا كہ پہلے ذكر كيا جاچكا ہے اور نہج البلاغہ ميں مندرج اميرالمؤمنين حضرت علىعليه‌السلام كے خطبات سے بھى اس حقيقت كى وضاحت ہوتى ہے اگرچہ لوگ آپ كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے مصر تھے مگر آپ نے اس كام كے آغاز سے ہى خود كو كسى بھى پيشقدمى سے باز ركھا _(۲۱)

ممكن ہے يہ سوال پيش آئے كہ : حضرت علىعليه‌السلام اس كے باوجود كہ خلافت كو اپنا حق سمجھتے تھے اور بر سرا قتدار آنے كے لئے شايستہ ترين انسان بھى تھے ، نيز عوام آپ كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے ہر طرف سے جمع ہوگئے تھے پھر عوام كے اصرار كے باوجود اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے شروع ہى سے منصب خلافت كو قبول كرنے سے كيوں منع فرمايا ؟

حضرت علىعليه‌السلام كے لئے منصب خلافت قبول نہ كرنے كى وجہ يہ نہ تھى كہ وہ حكومت كى ذمہ داريوں نيز ان سے پيدا ہونے والى مشكلات كا مقابلہ كرنے كے لئے خود كو عاجز وناتوان سمجھتے تھے بلكہ اس كا اصل سبب يہ تھا كہ آپعليه‌السلام اسلامى معاشرہ كى اجتماعى و معنوى كيفيت پر گہرى نظر ركھتے تھے اور اس كى بہت سى مشكلات آپ كے پيش نظر تھيں اس لئے آپ چاہتے تھے كہ لوگوں كا امتحان ليں تاكہ يہ اعلان ہوجائے كہ عوام آپ كى انقلابى روش كو برداشت كرنے كے لئے كس حد تك تيار ہيں اور ان كا جب مشكلات سے سامنا ہو تو وہ يہ نہ كہيں كہ اميرالمومنين علىعليه‌السلام نے انہيں صحيح حالات سے بے خبر ركھا اور ان كے انقلابى جذبات نيز جوش و خروش سے فائدہ اٹھاليا_

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ نے عوام سے كہا تھا كہ : آپ لوگ مجھے معاف ركھيں يہ ذمہ دارى

۱۰۲

كسى دوسرے شخص كے سپرد كرديں كيونكہ جو مقصد ميرے پيش نظر ہے اس ميں اتنى زيادہ مشكلات ہيں كہ لوگوں ميں انہيں برداشت كرنے كى طاقت اور انسانى عقول ميں انہيں قبول كرنے كى تاب ہى نہيں _ عالم اسلام كے افق پر ظلم وبدعت كے سياہ بادل چھائے ہوئے ہيں اور اسلامى راہ و روش ميں تبديلى واقع ہوگئي ہے_ (۲۲)

حضرت علىعليه‌السلام نے كن مقاصد كے تحت حكومت قبول فرمائي_

اس ميں كوئي شك نہيں كہ وہ شخص جسے حضرت علىعليه‌السلام عليه‌السلام كے كردار و اخلاق اور طرز زندگى كے بارے ميں ادنى سى واقفيت ہے اتنا تو جانتا ہى ہے كہ آپ جيسے بزرگوار شخص كى قطعى يہ آرزو تمنا نہ تھى كہ لوگوں پر حكومت كريں اور منصب خلافت قبول كرنے ميں ہرگز يہ مقصد كار فرما نہ تھا كہ مال ودولت ، جاہ و ثروت اور حكومت و اقتدار حاصل ہو_

آپعليه‌السلام نے بھى گفتگو كے دوران كئي مرتبہ يہ بات لوگوں كے گوش گزار كردى تھى _ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام اور ابن عباس كے درميان جو گفتگو ہوئي اس كا اقتباس يہاں پيش كياجارہا ہے:

ابن عباس كہتے ہيں بصرہ كے راستے ميں واقع ''ذى قار'' نامى منزل پر حضرت علىعليه‌السلام سے ميرى ملاقات ہوئي آپ اپنا نعلين سى رہے تھے انہيں سيتے ہوئے آپ نے فرمايا كہ ان جوتيوں كى كيا قيمت ہوگي؟ ميں نے عرض كيا كہ : اب ان كى كيا قيمت رہ گئي اس پر آپ نے فرمايا :

والله لهى احب الى من امر بكم الا ان اقيم حقا او ادفع باطلا (۲۳)

خدا كى قسم مجھے يہ نعلين تم پر حكومت كرنے سے كہيں زيادہ عزيز ہيں مگر يہ كہ حق كو قائم كروں اور باطل كا قلع قمع كردوں _

اور ايك جملے ميں تو آپ نے زمامدارى كو گندے پانى اور ايسے لقمے سے تشبيہ دى ہے جو گلے ميں پھنسا ہو _ چنانچہ فرماتے ہيں : ''هذا ماء آجن ولقمه يَفضَّ بها اكلها'' (۲۴)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے خطبہ شقشقيہ كے آخر ميں اس مقصد كى وضاحت فرمائي ہے كہ

۱۰۳

آپ نے زمامدارى كو كيوں قبول فرمايا: قسم ہے اس خدا ئے پاك كى جس نے دانے كو چاك كيا اور انسان كى تخليق كى اگر لوگ كثير تعداد ميں ميرے گرد جمع نہ ہوگئے ہوتے' ہم كاروں كى مدد سے حجت قائم نہ ہوگئي ہوتى اور اگر خداوند تعالى نے علماء سے يہ عہد و پيمان نہ ليا ہوتا كہ ظالموں كى شكم پرى اور مظلومين كى فاقہ كشى پر وہ خاموش نہ رہيں تو ميں خلافت كے شتر كى مہار كو اس كى كمر پر پھينك ديتا اور پہلے ہى جام ميں اسے آخرى جام كى طرح سيراب كرديتا_(۲۵)

حضرت علىعليه‌السلام كے ان اقوال سے واضح ہے كہ آپ نے دو اہم بنيادوں پر زمام حكومت سنبھالى _ پہلى تو يہى كہ لوگ خود چل كر آپعليه‌السلام كے پاس آئے اور يہ اعلان كيا كہ حكومت كى حمايت كريں گے اور دوسرى بنياد يہ تھى كہ آپعليه‌السلام عدل وانصاف بر قرار كركے ظلم وستم كا سد باب كرنا چاہتے تھے_

ابتدائي اقدامات

جب آپ كو بيعت سے فرصت ملى تو آپ نے اعلان فرمايا كہ جن مقاصد كے تحت آپ نے حكومت كو قبول فرمايا ہے انہيں حقيقت كى شكل ديں گے_ حضرت علىعليه‌السلام نے جو سياسى مسلك اور طريق كار اختيار كيا وہ كوئي ايسا اتفاقى امر نہ تھا جس كى تخليق اسى روز كى گئي ہو بلكہ يہ ايسے دستور العمل كا مجموعہ تھا جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى راہ و روش سے حاصل كيا گيا تھا اور اس كا سرچشمہ وحى و قرآن تھے_

وہ كام جنہيں حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں اولويت حاصل تھى اور جنہيں فورا ہى انجام دينا چاہتے تھے وہ ان تين حصوں پر مشتمل تھے_

۱)نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر

۲)برترى وامتيازى سلوك كى برطرفى اور سب كے لئے مساوى حقوق كى ضمانت

۳)تاخت وتاراج كئے ہوئے مال كو واپس كرنا او ربيت المال كى عادلانہ تقسيم

۱۰۴

نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنى حكومت كے ابتدائي دنوں ميں عثمان كے حكام اور كارندوں كو برطرف كرديا كيونكہ ظلم و ستم اور اسلامى قوانين نيز مردم سالارى كى سياست سے ان كى نا آشنائي ، عثمان كے خلاف قيام كرنے كے اہم اسباب ميں ايك سبب تھا_

مغيرہ بن شعبہ نے حضرت علىعليه‌السلام سے گفتگو كرتے ہوئے يہ تجويز پيش كى پہلے حكام كو ان كے مناصب پر بحال و برقرار ركھاجائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے انكى اس تجويز كو منظور نہ كيا اور فرمايا كہ خدا كى قسم ميں اپنے دينى فرائض كى انجام دہى ميں سستى نہ كروں گا_(۲۶)

جن محركات كے تحت حضرت علىعليه‌السلام نے يہ اقدامات كئے ان كے بارے ميں آپ دوسرى جگہ فرماتے ہيں : ميں اس بات سے غمگين واندوہناك ہوں كہ اس امت كى حكومت كے سرپرست بے خبر اور ناكارہ لوگ ہوں وہ بيت المال كو تباہ كريں ، بندگان خدا كو آزادى سے محروم كركے انہيں اپنا غلام بناليں ، نيك و صالح لوگوں سے جنگ كريں اور فاسق و فاجر لوگوں كو اپنا يار ومددگار بنائيں _

اس جماعت ميں كچھ لوگ ايسے ہيں جو شراب پيتے ہيں اور ان پر حد جارى كى جاچكى ہے ، انہيں ميں ايسے لوگ بھى ہيں جنہوں نے اسلام اس وقت تك قبول نہيں كيا جب تك ان كے لئے كوئي عطيہ مقرر نہيں كيا گيا _(۲۷) حضرت علىعليه‌السلام نے عثمان كے مقرر كردہ حكام كو برطرف كركے ان كى جگہ نيك وصالح اور دور انديش لوگوں كو مختلف صوبوں كى حكومتوں پر مقرر كيا اس زمانے ميں بصرہ ، مصر اور شام كاشمار اسلامى قلمرو كے عظيم صوبوں ميں ہوتا تھا _ چنانچہ آپ نے عثمان بن حنيف كو بصرہ كا ،سہل بن حنيف كو شام كا اور قيس بن سعد كو مصر كا صوبہ دار مقرر فرماكر ان مناصب سے سرفراز فرمايا_ والى كوفہ ابوموسى اشعرى كو مالك اشتر كے اصرار پر انكے عہدے پر بحال ركھا_(۲۸)

۱۰۵

معاويہ كى برطرفي

جيسا كہ اوپر بيان كياجاچكا ہے كہ عثمان كے حكام و عمّال كو برطرف كرنے كا مقصد يہ تھا كہ حضرت علىعليه‌السلام چاہتے تھے كہ تباہى و فساد كارى كے خلاف محاذ قائم كركے اجتماعى عدل و انصاف كى بنيادوں كو محكم واستوار كريں اور آپعليه‌السلام چونكہ معاويہ كے نظر و فكر وكاركردگى سے بخوبى واقف تھے اسى لئے انہوں نے اس بات كى مخالفت كى كہ وہ حكومت كے كسى منصب پر برقرار رہے اگر چہ انعليه‌السلام كے چچا زاد بھائي ابن عباس نے معاويہ كى سفارش بھى كى كہ انہيں مختصر عرصے كے لئے ہى سہى اس كے عہدے پر بحال ركھا جائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے اس سفارش كو بھى قبول نہيں فرمايا_

جب مغيرہ كى يہ كار گرنہ ہوئي كہ سابقہ حكام كو ان كے عہدوں پر بحال ركھا جائے تو انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے كہا كہ معاويہ كو شام كى صوبہ دارى سے معزول نہ كيجئے كيونكہ وہ گستاخ ہے اور شام كے لوگوں اسى كے مطيع و فرمانبردار ہيں عمر نے اسے چونكہ شام كا گورنر مقرر كيا تھا لہذا آپ كے پاس بہانہ ہے _ اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : خدا كى قسم ميں اسے دو روز بھى كسى عہدے پر بحال نہ ركھوں گا(۲۹) جس وقت عباس كو مغيرہ كى تجويز كے بارے مےں اطلاع ہوئي تو انہوں نے بھى اميرلمومنين علىعليه‌السلام كى خدمت ميں يہى عرض كى كہ مجھے اس بات سے اتفاق نہيں كہ فى الحال آپ معاويہ كو اس كے منصب سے معزول كريں جس وقت وہ آپ كے دست مبارك پر بيعت كريں گے اور آپ كاكام استحكام پذير ہو جائے اس كے بعد آپ اسے برطرف كيجئے اس پر حضرت عليعليه‌السلام نے فرمايا : خدا كى قسم ' تلوار كے علاوہ ميں اسے كوئي اور چيز نہ دوں گا _(۳۰)

حضرت علىعليه‌السلام نے جو يہ روش اختيار كى اس كے بارے ميں ان چند نكات كا بيان كردينا ضرورى ہے _

اميرالمومنين حضرت عليعليه‌السلام بخوبى واقف تھے كہ معاويہ كسى بھى صورت ميں ان كے دست مبارك پر ہرگز بيعت نہ كرے گا اور آپ كا حكم نہ مانے گا كيونكہ جذبہ اقتدار پسندى و زراندوزى كے علاوہ قبائلى تعصب اور وہ ديرينہ دشمنى جو اس كے دل ميں حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف تھى اس راہ ميں

۱۰۶

مانع و حائل تھى كہ وہ حضرت علي عليه‌السلام كى حكومت كے نمايندے كى حيثيت سے كوئي خدمت انجام دے اور امر واقعى يہ ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ كے جذبہ كار گردگى و مقاصد كے درميان متضاد تطبيق كا فاصلہ تھا اور اسى كے باعث دونوں كے مابين باہمى تعاون كا امكان نہ تھا _

اگر حضرت علىعليه‌السلام نے كوئي ايسا فرمان جارى كر ديا ہوتا جس سے اس بات كى تائيد ہوتى كہ وہ شام كى صوبہ دارى پر بحال رہے تو اس بات كا امكان تھا كہ معاويہ اس فرمان كا فائدہ اٹھا كر اسے اپنى فرمانروائي كا پروانہ تصور كرتا ہے اور اس طرح اسے شام ميں پہلے سے كہيں زيادہ قدم جمانے كا موقع مل جاتا _

معاويہ جيسے استبداد پسند عمال اور ديگر مفسد كارندوں كى عملہ خلافت مےں موجودگى ايسے عوامل تھے جن كے باعث مسلمين كے درميان رنجش پيدا ہوئي اور انہوں نے عثمان كے خلاف بغاوت كر دى اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت چونكہ حقوق سے محروم و ستمديدہ طبقات كى پناہگاہ تھى اسى لئے اگر اس ميں معاويہ جيسے لوگ بر سر اقتدار رہتے تو اس بات كا امكان تھا كہ عوام ميں دربارہ غم و غصہ پيدا ہو جائے اور وہ اكثريت جو حضرت عليعليه‌السلام كى طرفدار تھى اسے اميرالمومنينعليه‌السلام كى ذات اور اس حكومت سے جس كى آيندہ تشكيل كرتے مايوسى ہوتى چنانچہ ان كے اور اس اقليت كى درميان جو حضرت عليعليه‌السلام كى شخصيت كو بہر حال حجت تسليم كرتے تھى اختلاف پيدا ہو جاتا _

مذكورہ بالا دلائل نيز پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول يہ روايت كہ فرزندان اميہ پر حكومت حرام ہے ايسے عوامل تھے جن كے باعث حضرت عليعليه‌السلام نے معاويہ كو خط لكھ كر مطلع كيا كہ اسے اس عہدے سے برطرف كر كے اس كى جگہ سہل بن حنيف كو شام كا صوبہ دار مقرر كيا جاتا ہے _(۳۱)

مساوى حقوق كى ضمانت

جيسا كہ ہم جانتے ہيں كہ اسلام نے دور جاہليت كے امتيازى سلوك كو قطعى طور پر باطل قرار ديا ہے مگر پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد عہد جاہليت كى اس رسم كا بتدريج رواج ہونے لگا اور عثمان

۱۰۷

كے زمانہ خلافت ميں اسے مزيد فروغ ملا _

حضرت علىعليه‌السلام نے زمام حكومت اپنے اختيار ميں لينے كے بعد عہد جاہليت كے تمام امتيازى سلوك كو يكسرہ ختم كر ديا اور اس بات كى ضمانت دى كہ تمام مسلمانوں كے حقوق مساوى و يكساں ہيں چنانچہ اس بارے مےں خود فرماتے ہےں ذليل (مظلوم و ستمديدہ) اس وقت تك ميرے نزديك عزيز وار جمند ہے جب تك اس كے حق كو ظالم سے نہ لے لوں اور زور مند (ظالم و ستمگر) اس وقت تك ميرے نزديك برا اور ناتواں ہے جب تك مظلوم كا حق اس سے حاصل نہ كر لوں(۳۲) _

لوٹے ہوئے مال كى واپسي

حضرت عليعليه‌السلام نے مالى امور ميں بھى واضح و روشن راستہ اختيار كيا اس سلسلے مےں آپعليه‌السلام كے سامنے دو اہم مسئلے تھے پہلا تو يہى كہ عثمان كى خلافت كى زمانہ ميں ايك مخصوص گروہ نے بہت دولت جمع كى تھى دوسرا مسئلہ بيت المال كى تقسيم تھا _

حضرت علىعليه‌السلام نے آغاز خلافت ميں جو خطبات ديئے ان مےں اپنى آيندہ كى راہ و روش كو واضح و روشن كر ديا ہے چنانچہ ايك خطبے ميں فرماتے ہيں وہ اراضى جو عثمان نے مخصوص افراد كو ديدى ہے اور وہ ثروت جو اس (عثمان) نے اپنے قرابت داروں ميں تقسيم كر دى ہے اسے بيت المال ميں واپس لا كر جمع كريں گے _ اس كے ساتھ ہى آپ نے عوام كو يہ يقين دلايا كہ بيت المال كى تقسيم ميں مساوات سے كام لينگے _

اميرالمومنين حضرت عليعليه‌السلام نے اپنے خطبے كے ايك حصے ميں يہ بھى فرمايا تھا كہ :

ميں بھى تم ميں سے ايك فرد ہوں اور اور سود و زياں ميں تمہارے ساتھ شريك ہوں ميں تمہارى رہبرى سيرت محمديصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مطابق كرنا چاھتا ہوں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے احكامات كو تم لوگوں كے درميان نافذ و جارى كروں گا ياد ركھو ہر وہ جاگير جو عثمان نے كسى كو دى اور جو بھى مال عوامى ملكيت

۱۰۸

ميں سے كسى كو بخشا تھا وہ واپس بيت المال ميں لايا جائے گا اس مےں خواہ وہ رقم شامل ہو جس سے خواتين كو مہر ادا كيا گيا ہو اور خواہ اس سے كنيزيں خريديں گئيں ہوں كيونكہ عدالت كا دروازہ وسيع ہے اور جس پر عدل و انصاف تنگ ہو گيا ہو اس پر جور و ستم كا ميدان اس سے كہيں زيادہ تنگ كر ديا جائے گا _(۳۳)

اپنے دوسرے خطبے ميں آپعليه‌السلام نے فرمايا تھا كہ '' لوگو ياد ركھو تم مےں سے جس كو دنيا نے نگل ليا ہے اور جنہوں نے املاك و كاشت كى زمين جمع كر لى ہے جن ميں انہوں نے نہريں جارى كر دى ہيں ' سوارى كيلئے تيز رفتار گھوڑے حاصل كر لئے ہيں اور اپنے لئے خوبصورت كنيزيں خريد كر ليں ہيں انہوں نے اپنے اس رنگ و ڈھنگ سے رسوائي و بدنامى مول لى ہے انھيں ميں اس لہو لعب سے جس ميں وہ غوطہ زن ہيں اگر نجات دلانا چاہوں اور تسليم شدہ حق كے كنارے پر انھيں لانا چاہتا ہوں تو وہ ميرے اس عمل پر غضبناك نہ ہوں اور يہ نہ كہيں كہ ابى طالب كے فرزند نے ہميں ہمارے حقوق سے محروم كر ديا ہے ...''

تم سب ہى بندگان خدا ہو اور بيت المال بھى خدا كا ہى مال ہے يہ تم ميں مساوى طور پر تقسيم كيا جائے گا

اس كے بعد آپ نے فرمايا كہ ميرے پاس بيت المال كا كچھ حصہ موجود ہے تم سب ميرے پاس آكر اپنا حصہ لے لو چاہے عرب ہو يا عجم ' وظيفہ دار ہو يا غير وظيفہ دار_(۳۴)

اس طرح حضرت علىعليه‌السلام نے نہايت تيزى كے ساتھ قطعى طور پر ناروا عصبيت اور امتيازات كا خاتمہ كر ديا _

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے ايك اقدام سے اس جماعت كے اثر و رسوخ كا قلع قمع كر ديا جو عثمان كى خلافت كے دوران ابھرى تھى عثمان نے انھيں كثير مال و دولت اور جاگير سے نواز تھا حضرت عليعليه‌السلام نے اس مال و جاگير كو بيت المال ميں جمع كر ديا _(۳۵)

۱۰۹

بدعنوانيوں ميں ملوث دولتمندوں كى رخنہ اندازي

بيت المال كى مساويانہ تقسيم كے باعث محرومين اور مستضعفين كو جس قدر خوشى و مسرت ہوئي اتنا ہى صدمہ ان چند مغرور افراد كو پہنچا جنہيں جاہ طلبى كى ہوا و ہوس تھى _ انہيں چند سال ميں چونكہ جو رو ستم كركے كئي گنا زيادہ تنخواہيں نيز وظائف لينے كى عادت ہوگئي تھى اس لئے حضرت علىعليه‌السلام كى مساويانہ روش تقسيم مال سے جب وہ دچار ہوئے تو انہيں سخت پريشانى ہوئي_

ايك روز وليد بن عقبہ اس جماعت كے نمايندے كى حيثيت سے حضرت علىعليه‌السلام كے پاس آيا اور كہنے لگا كہ اے ابوالحسن اگر چہ ہم (بنى عبد مناف) بھى آپ كے بھائيوں ميں سے اور آپ جيسے ہى ہيں ليكن آپ نے تو ہم پر ظلم وستم ہى بپا كرديا ہم اس شرط پر آپ كى بيعت كرنے كو تيار ہيں كہ وہ مال و متاع جو ہم نے عثمان كے عہد خلافت ميں جمع كيا ہے وہ آپ ہم سے واپس نہ ليں اور ان كے قاتلوں كو ہلاك كرديں ليكن ہمارے مفادات كو كوئي خطرہ ہوا اور آپ كے رويے سے ہم خوفزدہ ہوئے تو ہم آپ سے عليحدہ ہو كر شام كى جانب كوچ كرجائيں گے_

يہ سن كر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : تم جو يہ كہہ رہے ہو كہ ميں نے ظلم وستم كيا ہے (اور ميرے اس اقدام كو ظلم وستم سے تعبير كياجاسكتا ہے)تو يہ ظلم حق و انصاف كى جانب سے ہوا ہے اور يہ كہ وہ مال جو تمہارے پاس ہے اسے ميں نظر انداز كردوں تو ميں ايسا نہيں كرسكتا كيونكہ حق خدا كو پائمال ہوتے ہوئے ديكھ كر ميں چشم پوشى نہيں كرسكتا اب يہ مال خواہ تمہارے چنگل ميں ہو يا كسى اور شخص كے_(۳۶)

جب اس جماعت كے سردار كو يقين ہوگيا كہ وہ گفتگو يا دھمكى كے ذريعے اپنا مدعى حاصل نہيں كرسكتے تو انہوں نے اپنى پورى قوت سے حضرت علىعليه‌السلام كى قائم كردہ نو بنياد حكومت كى بيخ كنى شروع كردى اور اس كے خلاف بر سر پيكار ہوگئے_

اس بارے ميں عمرو بن عاص نے معاويہ كو لكھا تھا كہ جو بھى فيصلہ كيا ہے اس پر جلد ہى عمل كيجئے كيونكہ جس طرح لكڑى كے اوپر سے چھال اتارلى جاتى ہے ابى طالب كا فرزند اسى طرح اس مال و دولت كو جوتمہارے پاس ہے ، تمہارے تن سے اتروائے گا_

۱۱۰

سوالات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر عوام نے كس طرح بيعت كى مختصر طور پر وضاحت كيجئے؟

۲_ كيا كچھ لوگوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے سے كنارہ كشى كي؟ اگر ايسا كيا تو كيوں ؟

۳_ جب عوام نے حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كى تو قريش كيوں مضطرب وپريشان ہوئے؟

۴_ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كى خصوصيات بيان كيجئے؟

۵_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ابتداء ميں لوگوں كے اصرار كے باوجود كيوں خلافت كى زمامدارى قبول كرنے سے مثبت جواب نہيں ديا؟

۶_ جب حضرت علىعليه‌السلام نے خلافت كى زمامدارى قبول فرمائي تو آپ كى نظر ميں كون سے كام مقدم اور فورى انجام دينے كے تھے؟

۷_ عثمان كے عہد سے وابستہ حكام كو معزول يا بحال ركھے جانے كے كيا اسباب تھے ، اس كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كے نظريات بيان كيجئے؟

۸_ حضرت علىعليه‌السلام كى مالى روش سے مال اندوز لوگ كيوں غضبناك ہوئے اس كا سدباب كرنے كےلئے انہوں نے كيا اقدام كيا ؟

۱۱۱

حوالہ جات

۱_ لا حاجة لى فى امركم فمن اخترتم رضيت بہ

۲_ كامل ابن اثير ج /۱۹۰۳ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۷ تاريخ ابى الفداء ج ۱ /۱۷

۳_ لا تفعلوا فانى اكون وزيراً خيرا من ان اكون اميراً

۴_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۰، انساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۰۹ ، تاريخ ابى الفداء ج ۱/ ۱۷۱

۵_ نہج البلاغہ خ شقشقيہ (خ ۳)

۶_فما راعنى الا والناس كعرف الضبع الى ينشا لون علَّى من كل جانب حتى لقد وطى الحسنان و شق عطفاى مجتمعين حولى كربيضة الغنم

۷_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۸ كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۳

۸_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۸ كامل ابن اثير ج ۳/۱۹۳

۹_ نہج البلاغہ خ ۲۲۹

وبلغ سرور الناس ببيعتهم اياى ان ابتهج بها الصغير و هدج اليها الكبير وكامل نحوها العليل وحسرت اليها الكعاب

۱۰_ تاريخ يعقوبى ج۲/ ۱۷۹

۱۱_ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۷۹

۱۲_ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۷۹

۱۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۱/ ۱۱۴

۱۴_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۳

۱۵_ تاريخ ابى الفداء ج ۱/ ۱۷۱

۱۶ _ استيعاب ج ۳/ ۵۵ ''اولئك قوم قعدوا عن الحق ولم يقوموا مع الباطل''

۱۷_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۳

۱۸_ تاريخ ابى الفداء ج۱/۱۷۱ ، الانساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۰۷

۱۱۲

۱۹_ عثمان خود بھى مذكورہ شورى كے ركن تھے اور انہوں نے خود بھى اپنى خلافت كے حق ميں رائے دى _

۲۰_انساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۰۷، تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۸

۲۱_ ملاحظہ ہو خطبات ۲۲۹، ۱۳۷

۲۲_ نہج البلاغہ خ ۹۲

دعونى والتمسوا غيرى فانا مستقبلون امراً له وجوه والوان لا تقوم له القلوب ولا تثبت عليه العقول وان الافاق قداغاقت والمحجة تنكرت

۲۳_ نہج البلاغہ خ ۳۳

۲۴_ نہج البلاغہ خ ۵

۲۵_ نہج البلاغہ خ ۳

اما والذى فلق الحبة وبرى النسمة لولا حضور الحاضر وقيام الحجة بوجود الناصر وما اخذ الله على العلماء ان يقاروا على كظة ظالم و لا سغب المظلوم لا لقيت حبلها على غاربها و لسقيت آخرها بكا س اولها _

۲۶_ واللہ لا اداہن فى دينى _ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۵_ ۳۵۴، كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۷ _ تاريخ طبرى ج ۴ / ۴۴۰

۲۷_ نہج البلاغہ مكتوب ۶۲

۲۸_ تاريخ يعقوبى ج ۲ / ۱۷۹

۲۹_لا والله لا استعمل معاوية يومين ابداً كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۷ ، مروج الذہب ج ۲/ ۲۵۶ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۱

۳۰_لا والله لا اعطيه الا السيف ، كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۷ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۴

۳۱_ مذكورہ خط كا متن ان كتابوں ميں ملاحظہ ہو : شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۳۰ تاريخ التواريخ ج ۱/ ۳۸ ، انساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۱۱ درسيرہ ائمہ اثنى عشرى ج ۱/ ۴۴۲

۳۲_الذليل عندى عزيز حتى آخذ الحق له ، والقوى عندى ضعيف حتى آخذ الحق منه _

۱۱۳

نہج البلاغہ خ ۳۷

۳۳_ ثورة الحسينعليه‌السلام للمہدى شمس الدين ۵۷، شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۶۹ ، نہج البلاغہ خ ۱۵ (يہ قول مختصر ترميم كے ساتھ نقل كيا گيا ہے)

۳۴_ شرح ابن ابى الحديد ج ۷/ ۳۷

۳۵_ اس واقعے كى تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو مروج الذہب ج ۲/ ۲۵۳ ، شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۳ / ۲۱۵

شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۷۰ فى ظلال نہج البلاغہ ج ۱/ ۱۳۰ ، شرح نہج البلاغہ بحرانى ج ۱/ ۲۹ اور سيرہ الائمہ مصنفہ علامہ سيد محسن امين ج ۱/ جزء دوم /۱۱

۳۶_ شرح ابن ابى الحديد ج ۷/ ۳۹_ ۳۸

۳۷_ ''ماكنت صانعاً فاصنع اذ قشرك ابن ابى طالب من كل مال تملكہ كما تقشر عن العصا لحاہا '' شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۷۰ ، شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۳/ ۲۱۵ ، الغدير ج ۷/ ۲۸۸

۱۱۴

چھٹا سبق

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۲

ناكثين (حكومت علىعليه‌السلام كى مخالفت)

موقف ميں تبديلي

مكہ ميں مخالفين كا جمع ہونا

سپاہ كے اخراجات

عراق كى جانب روانگي

سپاہ كى جانب عثمان بن حنيف كے نمايندوں كى روانگي

پہلا تصادم

دھوكہ و عہد شكني

جمل اصغر

سردارى پر اختلاف

خبر رساني

سوالات

حوالہ جات

۱۱۵

ناكثين(حكومت علىعليه‌السلام كى مخالفت)

حضرت علىعليه‌السلام نے ايك خطبے ميں حكومت كے مخالفين كو تين گروہوں ميں تقسيم كيا ہے _

(۱) _ وہ يہ ہيں :

اصحاب جمل : جنہيں آپعليه‌السلام نے ناكثين كے نام سے ياد كيا ہے_

اصحاب صفين : انہيں آپعليه‌السلام نے قاسطين كہا ہے اور

اصحاب نہروان : (خوارج_ جو مارقين كہلائے ہيں )

ناكثين كى ذہنى كيفيت يہ تھى كہ وہ انتہائي لالچى ' زرپرست اور امتيازى سلوك روا ركھنے كے طرفدار تھے _ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام نے جہاں كہيں عدل و مساوات كا ذكر كيا ہے وہاں آپعليه‌السلام كى توجہ بيشتر اسى گروہ كى جانب رہى ہے_

''قاسطين'' كا تعلق ''طلقائ(۲) '' كے فرقہ سے تھا اس گروہ كى تشكيل ميں بعض فراري، بعض حكومت سے ناراض اورعثمان كے كارندے شامل تھے _ يہ لوگ ذہنى طور پر حيلہ گر اور نفاق پسند تھے_ وہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كا زوال چاہتے تھے تاكہ حكومت ان كے دست اختيار ميں آجائے_

تيسرے گروہ كى اخلاقى حالت يہ تھى كہ وہ ناروا عصبيت كے قائل تھے ، ذہنى خشكى كو تقدس تصور كرتے تھے اور ان كى جہالت خطرناك حد تك پہنچ گئي تھي_

يہاں ہم اختصار كو مد نظر ركھتے ہوئے ان گروہوں كا تعارف كراتے ہوئے انكى حيثيت كا

۱۱۶

جائزہ ليں گے اور يہ بتائيں گے كہ ان ميں سے ہر گروہ نے حضرت على عليه‌السلام كى حكومت كے خلاف كيا كيا كارگزارياں كيں _

ناكثين

طلحہ وزبير كى عرصہ دارز سے يہ آرزو تھى كہ وہ اس مقام پر پہنچيں جہاں سے عالم اسلام پر حكمرانى كرسكيں _ عثمان كے قتل كے بعد رائے عامہ حضرت علىعليه‌السلام كى جانب اس بناپر متوجہ ہوگئي كہ انہوں نے آپعليه‌السلام كو ہى عہدہ خلافت كے لئے شايستہ ترين انسان سمجھا_ چنانچہ جب وہ لوگ اقتدار سے نااميد ہوگئے تو حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے پيش پيش رہے اور بظاہر سب پر سبقت لے گئے_

حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت ميں سبقت لے جانے كى وجہ يہ تھى كہ وہ چاہتے تھے كہ اپنے اس اقدام سے خليفہ وقت كو اپنى جانب متوجہ كريں تاكہ اس طريقے سے وہ اپنے مقاصد تك پہنچ سكيں _ ليكن ان كى توقع كے خلاف اميرالمومنينعليه‌السلام نے انكے ساتھ ديگر تمام مسلمين كى طرح يكساں سلوك روا ركھا اور اس طرح ان كى تمام حسرتوں پر پانى پھرگيا_

يعقوبى نے لكھا ہے كہ طلحہ اور زبير اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے پاس آئے اور كہا كہ پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد ہم سے بہت زيادہ ناانصافى كى گئي ہے ، اب آپ ہميں خلافت كى مشينرى ميں شريك كرليجئے_

اس پر اميرالمومنين علىعليه‌السلام نے فرمايا : قوت و پايدارى ميں تو تم ميرے ساتھ شريك ہوہى شدائد اورسختيوں ميں بھى تم ميرے ساتھ رہو(۳) _ حضرت علىعليه‌السلام كے اس اقدام سے يہ دونوں حضرات ايسے برگشتہ ہوئے كہ انہوں نے دستگاہ خلافت سے عہد شكنى كا فيصلہ كرليا اور آخر كا اس كا انجام جنگ ''جمل'' كى صورت ميں رونما ہوا_

برگشتگى كا دوسرا عامل يہ تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے بيت المال كو تمام مسلمانوں كے

۱۱۷

درميان مساوى تقسيم كيا _ اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام كا يہ رويہ طلحہ اور زبير كے لئے ناقابل برداشت تھا _ انہوں نے زبان اعتراض دراز كى اور بيت المال ميں سے اپنا حصہ بھى نہيں ليا_

حضرت علىعليه‌السلام نے انہيں اپنے پاس بلايا اور فرمايا : كيا تم ميرے پاس اس مقصد كے لئے نہيں آئے تھے كہ زمام خلافت كو ميں اپنے دست اختيار ميں لے لوں درحاليكہ مجھے اس كا قبول كرنا ناپسند تھا ؟ كيا تم نے اپنى مرضى سے ميرے ہاتھ پر بيعت نہيں كى ؟ اس پر انہوں نے جواب ديا كہ : ہاں اس ميں ہمارى مرضى شامل تھى _ يہ سن كر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا تو تم نے مجھ ميں كون سى بات ديكھى جو اعتراض شروع كرديا اور ميرى مخالفت پر اتر آئے ؟ انہوں نے جواب ديا كہ ہم نے اس اميد پر بيعت كى تھى كہ خلافت كے اہم امور ميں آپ كے مشير رہيں گے_ اب ديكھتے ہيں كہ آپ نے ہمارے مشورے كے بغير بيت المال كو مساوى تقسيم كرديا جو چيز ہمارى رنجيدگى كا سبب ہوئي ہے وہ يہ ہے كہ آپ عمر كى روش كے خلاف جارہے ہيں وہ بيت المال كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ كارناموں كو ملحوظ خاطر ركھتے تھے _ ليكن آپ نے اس امتياز سے چشم پوشى كى جو ہميں حاصل ہے آپ نے ہميں ديگر مسلمانوں كے برابر سمجھا ہے جب كہ يہ مال ہمارى جانبازى كے ذريعے شمشير كے بل پر حاصل ہواہے_

يہ سن كر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : امور خلافت ميں جہاں تك مسئلہ مشورت كى بات ہے تو مجھے خلافت كى كب چاہ تھى اس كى جانب آنے كى تم نے ہى مجھے دعوت دى تھى مجھے چونكہ مسلمانوں كے باہمى اختلافات اور ان كے منتشر ہوجانے كا خوف تھا اسى لئے اس ذمہ دارى كو قبول كرليا جب بھى كوئي مسئلہ ميرے سامنے آيا تو ميں نے حكم خدا كو اور سنت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب رجوع كيا اور اس كا حل تلاش كرليا _ اسى لئے اس معاملے ميں مجھے تمہارے مشورے كى ضرورت پيش نہ آئي _ البتہ اگر كسى روز ايسا معاملہ پيش آيا جس كا حل قرآن اور سنت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ذريعے نہ نكل سكے تو مجھے تمہارے مشورے كى ضرورت محسوس ہوگى ، تو تم سے ضرور مشورہ كروں گا_

رہا بيت المال كا مسئلہ تو يہ بھى ميرى اپنى خصوصى روش نہيں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ميں

۱۱۸

نے ديكھا ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بيت المال كو مساوى تقسيم كيا كرتے تھے_

اس كے علاوہ اس مسئلے كے بارے ميں بھى قرآن نے حكم ديا ہے كہ يہ كتاب اللہ آپ كے سامنے ہے اس ميں كوئي غلط بات درج نہيں ہے يہ كتاب ہميں مساوات و برابرى كى دعوت ديتى ہے اور اس نے ہر قسم كے امتيازى سلوك كو باطل قرار ديا ہے_

يہ كہنا كہ بيت المال آپ كى شمشير كے زور پر ہاتھ آيا ہے تو اس سے پہلے بھى ايسے لوگ گذرے ہيں جنہوں نے جان ومال سے اسلام كى مدد كى ہے_ ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بيت المال كى تقسيم ميں كسى كے ساتھ امتيازى سولك روانہ ركھا_(۴)

طبرى لكھتا ہے كہ : جب طلحہ ہر قسم كے امتيازى سلوك سے مايوس و نااميد ہوگيا تو اس نے يہ مثل كہى : ہميں اس عمل سے اتنا ہى ملا ہے جتنا كتے كو سونگھنے سے ملتا ہے_ ۵)

ايك طرف تو طلحہ اور زبير اس بات سے مايوس ونااميد ہوگئے كہ انہيں كوئي مقام و مرتبہ ملے گا اور ان كے ساتھ امتيازى سلوك روا ركھا جائے گا اور دوسرى طرف انہيں يہ اطلاع ملى كہ عائشہ نے حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف مكہ ميں پرچم لہراديا ہے _ چنانچہ انہوں نے فيصلہ كيا كہ مكہ كى جانب روانہ ہوں اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام كے پاس آئے اور كہا كہ ہم عمرہ كى غرض سے آپ كى اجازت كے خواہاں ہيں _

ان كے جانے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے دوستوں سے فرمايا كہ : خدا كى قسم ان كا ارادہ ہرگز عمرہ كا نہيں بلكہ ان كا مقصد عہد شكنى اور خيانت ہے_(۶)

موقف ميں تبديلي

عائشہ كو پہلے دو خلفاء كے دور ميں جو مراعات حاصل تھيں ان سے وہ عثمان كے عہد آخر خلافت ميں محروم كردى گئيں چونكہ وہ ان كى حكومت سے عاجز و پريشان تھيں اسى لئے انہوں نے عثمان كے خلاف پرچم شورش لہراديا نيز زور بيان اور اپنى رفتار كے ذريعے اس نے مسلمانوں كو

۱۱۹

خليفہ وقت كے خلاف شورش و سركشى كى دعوت دي_ (۷)

شعلہ شورش كو ہوا دينے كے باعث وہ خود كو اپنے مقصد ميں كامياب محسوس كر رہى تھى اس لئے وہ مكہ كى جانب روانہ ہوگئيں اور ہر لمحہ عثمان كے قتل نيز مسلمين كا طلحہ كے ہاتھ پر بيعت كرنے كا انتظار كرنے لگيں _

جس وقت عثمان كے قتل كى خبر انہيں ملى تو انہوں نے كہا كہ : خدا اس كو غارت كرے اپنے ان كرتوتوں سے ہى تو مارا گيا ، خداوند تعالى اپنے بندوں پر ظلم نہيں كيا كرتا _(۸) عثمان كے قتل كے بعدانہوں نے مسلمانوں سے كہا كہ وہ عثمان كے مارے جانے كے باعث پريشان خاطر نہ ہوں اگر وہ مارے گئے تو كيا ہوا مقام خلافت كے لئے بہترين اور لائق ترين شخص طلحہ تو تمہارے درميان موجود ہيں ان كے ہاتھ پر بيعت كرو اور تفرقہ سے دور رہو_

اپنے اس بيان كے بعد وہ بڑى تيزى سے مدينہ كى جانب روانہ ہوئيں انہيں اطمينان تھا كہ عثمان كے بعد منصب خلافت طلحہ كے ہاتھ آجائے گا ، اسى لئے راستے ميں خود ہى گنگنارہى تھى كہ : ميں گويا اپنى آنكھوں سے ديكھ رہى ہوں كہ لوگ طلحہ كے ہاتھ پر بيعت كر رہے ہيں ميرى سوارى كو تيز ہانكو تاكہ ميں ان تك پہنچ جائوں _(۹)

عبيد بن ام كلاب مدينہ سے واپس آرہے تھے راستے ميں ان سے ملاقات ہوگئي ، انہوں نے مدينہ كى حالت ان سے دريافت كى عبيد نے ان سے كہا كہ عوام نے عثمان كو قتل كرديا ، آٹھ روز تك وہ يہ فيصلہ نہ كرسكے كہ كيا كريں _ عائشہ نے دريافت كيا كہ اس كے بعد كيا ہوا؟ انہوں نے كہا كہ : الحمدللہ كام بحسن و خوبى تمام ہوا اور مسلمانوں نے ايك دل اور ايك زبان ہوكر علىعليه‌السلام بن ابى طالبعليه‌السلام كو منتخب كرليا _

عائشہ نے يہ خبر سننے كے بعد كہا خدا كى قسم اگر خلافت كا فيصلہ علىعليه‌السلام كے حق ميں ہوا ہے تو اب آسمان زير و زبر ہوجائيں گے مجھے يہاں سے واپس لے چلو فوراًمجھے يہاں سے لے چلو(۱۰)

چنانچہ وہ وہيں سے مكہ كى جانب روانہ ہوگئيں ليكن اب انہوں نے اپنا نظريہ بدل ديا تھا اور يہ

۱۲۰

كہہ رہى تھيں كہ : عثمان بے گناہ مارا گيا ميں اس كے خون كا بدلہ لينے كے لئے سركشى كروں گى _ عبيد نے ان سے كہا كہ ان كے خون كا مطالبہ تم كيسے كرسكتى ہو كيونكہ وہ تم ہى تو ہو جس نے سب سے پہلے عثمان كے قتل كيئے جانے كى تجويز پيش كى اور تم ہى تو كہا كرتى تھيں كہ ''نعثل'' كو قتل كردو كيونكہ وہ كافر ہوگيا ہے اور آج تم ہى انہيں مظلوم و بے گناہ كہہ رہى ہو_

عائشہ نے كہا كہ ہاں عثمان ايسا ہى تھا ليكن اس نے توبہ كرلى تھى اور لوگوں نے ان كى توبہ كى طرف سے بے اعتنائي كى اور انہيں قتل كرديا اس كے علاوہ ميں نے كل جو كچھ كہا تھا تمہيں اس سے كيا سروكار؟ ميں آج جو كہہ رہى ہوں تم اسے مانو كيونكہ ميرى آج كى بات كل سے بہتر ہے_(۱۱)

مكہ پہنچنے كے بعد عائشہ مسجد الحرام كے سامنے محمل سے اتريں اور پورى سترپوشى كے ساتھ وہ حجر الاسود كے جانب روانہ ہوئيں ، لوگ ان كے چاروں طرف جمع ہوگئے ، عائشہ نے ان كے سامنے تقرير كى اور كہا كہ عثمان كا خون ناحق ہوا ہے ، انہوں نے اہل مدينہ اور دوسرے لوگوں كے جذبات كو ان كے خلاف جنہوں نے عثمان كے قتل ميں حصہ ليا تھا برافروختہ كيا اور حاضرين سے كہا كہ وہ عثمان كے خون كا بدلہ ليں اور قاتلوں كے خلاف شورش كرنے كى دعوت دى _(۱۲)

مكہ ميں مخالفين كا جمع ہونا

مكہ ميں عائشہ نے جيسے ہى حضرت عليعليه‌السلام كے خلاف پرچم لہرا ديا آپ كے مخالفين ہر طرف سے ان سے گرد جمع ہوگئے _

طلحہ و زبير بھى حضرت عليعليه‌السلام سے عہد شكنى كركے ان كے ہمنوا ہوگئے دوسرى طرف بنى اميہ حضرت علىعليه‌السلام كے ايك زمانے سے دشمن چلے آرہے تھے اور كسى مناسب موقع كى تلاش ميں تھے اور عثمان كے قتل كے بعد وہ مدينہ سے فرار كرے چونكہ مكہ پہنچ گئے تھے اس لئے وہ بھى عائشہ كے زير پرچم آگئے _ اس طرح عثمان كے زمانے كے وہ تمام والى و صوبہ دارجنہيں حضرت علىعليه‌السلام نے معزول

۱۲۱

كرديا تھا وہ سب عائشہ كے ساتھ ہوگئے مختصر يہ كہ وہ تمام مخالف گروہ جنہيں حضرت علىعليه‌السلام سے پرخاش تھى مكہ ميں جمع ہوگئے اور اس طرح ناكثين كى تحريك كا اصل بيج يہاں بويا گيا ، مخالف گروہوں كے سردار عائشہ كے گھر ميں جلسات كى تشكيل كركے شورش و سركشى كى طرح اندازى پر بحث وگفتگو كرتے_

عائشہ نے كہا كہ : اے لوگو يہ عظےم حادثہ ہے جو رونما ہوا ہے اور جو واقعہ رونما ہوا ہے وہ قطعى ناپسنديدہ ہے ، اٹھو اور اپنے مصرى بھائيو سے مدد طلب كرو شام كے لوگ بھى تمہارا ساتھ ديں گے ، شايد اس طرح خداوند تعالى عثمان اور ديگر مسلمانوں كا بدلہ دشمنوں سے لے_

طلحہ وزبير نے بھى اپنى تقارير كے دوران عائشہ كى حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف جنگ كرنے ميں حوصلہ افزائي كى اور كہا كہ وہ مدينہ سے رخصت ہو كر ان كے ساتھ چليں _

جب انہوں نے عائشہ كے جنگ ميں شريك ہونے كى رضامندى حاصل كرلى اور عائشہ نے بھى اس تحريك كى قيادت سنبھال لى تو يہ گروہ عمر كى دختر اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زوجہ حفصہ كى جانب گئے ، انہوں نے كہا كہ مجھے عائشہ سے اتفاق رائے ہے اور ميں ان كى تابع ہوں اگر چہ انہوں نے يہ فيصلہ كرليا تھا كہ عائشہ كے ہمراہ چليں مگر ان كے بھائي عبداللہ اس روانگى ميں مانع ہوئے_(۱۳)

سپاہ كے اخراجات

عثمان نے جو رقم اپنے رشتہ داروں ميں تقسيم كردى تھى اور وہ كثير دولت جو ان كے پردازوں كے ہاتھ آئي تھى وہ سب اسى مقصد كے لئے استعمال كى گئي چنانچہ بصرہ كے معزول گورنر عبداللہ بن عامر اور عثمان كے ماموں زاد بھائي نے سب سے پہلے عائشہ كى دعوت كو قبول كيا اور اپنا بہت سا مال انہيں دے ديا _ عثمان كا معزول كردہ يمن كا گورنر يعلى بن اميہ نے بھى اپنى كثير دولت جس ميں چھ ہزار درہم اور چھ سو اونٹ شامل تھے اس فتنہ پرور لشكر كے حوالے كرديئے _(۱۴) اور اس لشكر ناكثين كے اخراجات فراہم كئے_

۱۲۲

عراق كى جانب روانگي

''ناكثين'' كى سعى و كوشش سے مسلح لشكر فراہم ہوگيا، سرداران سپاہ نے اس بات پر غور كرنے كے لئے كہ جنگى كاروائي كہاں سے شروع كى جائے آپس ميں مشورہ كيا اور انہوں نے يہ فيصلہ كيا كہ عراق كى جانب روانہ ہوں اور كوفہ وبصرہ جيسے دو عظےم شہروں كے باشندوں سے مدد ليں كيونكہ طلحہ اور زبير كے بہت سے خير خواہ وہاں موجود تھے اور اس كے بعد وہاں سے اسلامى حكومت كے مركز پر حملہ كريں _

اس فيصلہ كے بعد عائشہ كے منادى نے مكہ ميں جگہ جگہ اعلان كيا كہ ام المومنين اور طلحہ اور زبير كا ارادہ بصرہ جانے كا ہے جس كسى كو اسلامى حريت كا پاس ہے اور عثمان كے خون كا بدلہ لينا چاہتا ہے وہ ان كے ساتھ شريك ہوجائے_

جب ہزار آدمى ضرورى سامان جنگ كے ساتھ جمع ہوگئے تو انہوں نے مكہ سے عراق كى جانب كوچ كيا راستے ميں ان كے ساتھ بہت سے لوگ شامل ہونے لگے يہاں تك كہ ان كى تعداد تين ہزار تك پہنچ گئي _(۱۵)

عائشہ اپنے مخصوص ''عسكر'' نامى شتر پرلشكر كے سپاہ كے پيش پيش تھى اور اُميہ ان كے اطراف ميں چل رہے تھے اور سب كا ارادہ بصرہ پہنچنا تھا_

راہ ميں جو حادثات رونما ہوئے ان ميں سے ہم يہاں ايك كے بيان پر ہى اكتفا كرتے ہيں _

راستے ميں انہيں جہاں پہلى جگہ پانى نظر آيا وہاں ان پر كتوں نے بھونكنا اوريھبكنا شروع كرديا ، عائشہ نے دريافت كيا كہ يہ كونسى جگہ ہے انہيں بتايا گيا كہ يہ ''حَوا ب''ہے _ يہ سن كر عائشہ كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وہ حديث ياد آگئي جس ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ پيشن گوئي كى تھى كہ حواب كے كتے ازواج مطہرات ميں سے ايك پر غرائيں گے اور انہيں اس سفر سے باز رہنے كے لئے فرمايا تھا(۱۶) _ عائشہ اس حادثے سے پريشان ہوگئيں اور فرمايا :''انالله و انا اليه راجعون''

۱۲۳

ميں وہى زوجہ ہوں جنہيں پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كے مستقبل كے بارے ميں آگاہ كرديا تھااور فوراً ہى واپس چلے جانے كا فيصلہ كيا _ ليكن طلحہ وزبير نے جب يہ ديكھا كہ عائشہ جنگ كے خيال كو ترك كيا چاہتى ہيں تو انہيں اپنى آرزوئيں خاك ميں ملتى ہوئي نظر آئيں چنانچہ انہوں نے يہ كوشش شروع كردى كہ عائشہ اپنے فيصلے سے باز رہيں بالآخر جب پچاس آدميوں نے يہ جعلى گواہى دى كہ يہ جگہ ''حَوا ب'' نہيں تو وہ مطمئن ہوگئيں _(۱۷)

ناكثين كى سپاہ بصرہ كے قريب آكر رك گئي ، عائشہ نے عبداللہ بن عامر كو بصرہ روانہ كيا اور بصرہ كے كچھ بڑے افراد كے نام خط لكھا اور ان كے جواب كا انتظار كرنے لگي_

سپاہ كى جانب عثمان بن حنيف كے نمايندوں كى روانگي

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے بصرہ ميں مقرر صوبہ دار عثمان بن حنيف كو جب يہ اطلاع ہوئي كہ عائشہ كا لشكرشہر ''ابوالاسود دوئلي'' كے گرد نواح ميں پہنچ گيا ہے تو انہوں نے ''عمران بن حصين'' كو سردار لشكر كے پاس بھيجاتاكہ وہ يہ جان سكيں كہ بصرہ كى جانب آنے كا كيا سبب و محرك ہے _ انہوں نے سب سے پہلے عائشہ سے ملاقات كى اور ان سے دريافت كيا كہ بصرہ كى جانب آپ كے آنے كا كيا مقصد ہے؟ انہوں نے فرمايا كہ عثمان كے خون كا بدلہ اور ان كے قاتلوں سے انتقام لينا_

طلحہ اور زبير سے بھى انہوں نے يہى سوال كيا انہوں نے بھى عائشہ كى بات دہرادى ، عثمان بن حنيف نے طلحہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ كيا تم نے حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت نہيں كي؟ انہوں نے كہاں ہاں مگر ميرى بيعت دباؤ كى وجہ سے تھى _(۱۸)

عثمان بن حنيف كے نمايندگان نے تمام واقعات كى انہيں اطلاع دى عائشہ بھى اپنے لشكر كے ہمراہ ''حفر ابوموسي'' نامى جگہ سے روانہ ہوكر بصرہ ميں داخل ہوگئيں اور ''مربد'' كو جو كبھى بہت وسيع و كشادہ ميدان تھا ''لشكر گاہ'' قرار ديا _

۱۲۴

عثمان بن حنيف نے اپنے نمايندگان سے گفتگو كرنے كے بعد فيصلہ كيا كہ جب تك اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام كى جانب سے كوئي حكم نامہ نہيں ملتا وہ سپاہ كو قلب شہر ميں آنے سے روكيں _چنانچہ انہوں نے حكم ديا كہ لوگ مسلح ہوجائيں اور جامع مسجد ميں جمع ہوں _

جب لوگ مسجد ميں جمع ہوگئے تو قيس نامى شخص نے صوبہ دار بصرہ كى جانب سے ان كے سامنے تقرير كى اور كہا كہ وہ عائشہ كے لشكر كا استقامت و پائيدارى سے مقابلہ كريں _(۲۰)

ابن قتيبہ كے قبول كے مطابق خود عثمان بن حنيف اور ان كے ساتھيوں نے بھى اس موقع پر تقريريں كى اور اسى دوران كہا ان دو اشخاص (طلحہ اور زبير) نے بھى حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كى تھى مگر يہ بيعت رضائے خداوندى كى خاطر نہ تھى اسى لئے انہوں نے عجلت كى اور چاہا كہ اس سے پہلے كہ بچہ اپنى ماں كا دودھ چھوڑ دے وہ بڑا اور جوان ہوجائے ان كا خيال ہے كہ انہوں نے دباؤ كى وجہ سے بيعت كى ہے درحاليكہ ان كا شمار قريش كے زورمند لوگوں ميں ہوتا ہے اگر چاہتے تو بيعت كرتے صحيح طريق وہى ہے جو عام لوگوں نے طے كيا ہے اور حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كى اب آپ لوگ بتائيں كيا رائے ہے ؟

يہ سن كر حكيم بن جبلہ عبدى اپنى جگہ سے اٹھے اور كہا كہ ہمارى رائے يہ ہے كہ اگر انہوں نے ہم پر حملہ كيا تو ہم بھى جنگ كريں گے اور اگر وہ حملہ كرنے سے باز رہے تو ہم اس كا استقبال كريں گے ، اگرچہ مجھے اپنى زندگى بہت عزيز ہے مگرراہ حق ميں جان دينے كا مجھے ذرا خوف نہيں _ دوسرے لوگوں نے بھى اس رائے كو پسند كيا _(۲۱)

پہلا تصادم

جب عائشہ كا لشكر ''مربد'' ميں داخل ہوگيا تو بصرہ كے بعض وہ لوگ جو ان كے طرفدار تھے ان كى سپاہ مےں شامل ہوگئے ان كے علاوہ بصرہ كے باشندے اور عثمان كے حامى بھى كثير تعداد ميں ان كے گرد جمع ہوگئے_

۱۲۵

سرداران لشكر كى تقارير اور عثمان كى تحريك ''بدلہ خون'' كے باعث عثمان كے حامى و طرفدار دو گروہوں ميں تقسيم ہوگئے ايك گروہ نے عائشہ ،طلحہ اور زبير كے بيانات كى تائيد كى اور انہوں نے كہا كہ آپ يہاں عمدہ مقصد كے لئے تشريف لائے ہيں _

ليكن دوسرے گروہ نے ان پر دروغگوئي كا الزام لگايا اور كہا كہ خدا كى قسم تم جو كچھ كہہ رہے ہو وہ سراسر فريب ہے اور جو كچھ تم اپنى زبان سے بيان كررہے ہو وہ ہمارے فہم سے باہر ہے_

اس باہمى اختلاف كا نتيجہ يہ ہوا كہ انہوں نے ايك دوسرے پر خاك اچھالنى شروع كردى اور حالات كشيدہ ہوگئے_(۲۲)

سرداران لشكر مروان ، عبداللہ بن زبير اور چند ديگر افراد كے ساتھ صوبہ دار بصرہ كى جانب روانہ ہوئے اور انہوں نے عثمان بن حنيف سے درخواست كى كہ وہ اس جگہ سے چلے جائيں _ ليكن انہوں نے ان كى اس درخواست كى پروا نہ كى _

عثمان بن حنيف كے لشكر اور جارحين كے درميان شديد تصادم ہوا جو غروب آفتاب تك جارى رہا _ مدافعين كے قتل اور جانبين ميں سے بہت سے لوگوں كے زخمى ہوجانے كے بعد بعض لوگوں كى مداخلت كے باعث يہ جنگ بند ہوئي اور طرفين كے درميان عارضى صلح كا عہد نامہ لكھا گيا اس عہد نامہ صلح كى شرايط يہ تھيں كہ :

۱_ بصرہ كى صوبہ دارى و مسجد اور بيت المال حسب سابق عثمان بن حنيف كے اختيار ميں رہے گا_

۲_ طلحہ اور زبير نيز ان كے آدميوں كو يہ آزادى ہے كہ وہ بصرہ ميں جہاں بھى چاہيں آجاسكتے ہيں _

۳_ طرفين ميں سے كس كو بھى يہ حق حاصل نہيں كہ وہ دوسرے كے لئے كوئي پريشانى پيدا كرے_

۴_ يہ عہد نامہ اس وقت تك معتبر ہے جب تك حضرت علىعليه‌السلام يہاں تشريف لے آئيں اس

۱۲۶

كے بعد لوگوں كو صلح يا جنگ كا اختيار ہوگا_

جب عہدنامے پر دستخط ہوگئے اور طرفين كے درميان صلح ہوگئي تو عثمان بن حنيف نے اپنے طرفداروں كو حكم ديا كہ وہ اپنا اسلحہ ايك طرف ركھ ديں اور اپنے گھروں كو واپس جائيں _( ۲۳)

دھوكہ وعہد شكني

لشكروں كے سرداروں نے بصرہ ميں قدم جمانے كے بعد يہاں كے قبائل كے سربرآوردہ اشخاص سے ملاقاتيں كرنا شروع كيں اور سبز باغ دكھا كر انہيں بہت سى چيزوں كا لالچ ديا جس كے باعث بہت سے دنيا اور جاہ طلب لوگوں نے ان كى دعوت كو قبول كرليا _

طلحہ اور زبير نے جب اپنا كام مستحكم كرليا تو وہ اپنے عہد كى پاسدارى سے رو گرداں ہوگئے_ چنانچہ صوبہ دار كے گھر پر شبخون ماركر عثمان بن حنيف كو گرفتار كرليا اور انہےں سخت ايذا پہنچائي ، پہلے تو انہيں سخت زدو كوب كيا اور پھر سر، داڑھى اور دونوں ابروں كے بال نوچے اس كے بعد بيت المال پر حملہ كيا وہاں كے چاليس پاسبانوں كو قتل كركے باقى كو منتشر كرديا اور خزانے ميں جو كچھ مال ومتاع موجود تھا اسے لوٹ ليا_

اس طرح شہر پر جارحين سپاہ كا قبضہ ہوگيا اور جو اہم و حساس مراكز تھے وہ ان كے تحت تصرف گئے _ جارحين نے مزيد رعب جمانے كے لئے ان لوگوں ميں سے پچاس افراد كو جنہيں انہوں نے گرفتار كيا تھا عوام كے سامنے انتہائي بے رحمى كے ساتھ وحشيانہ طور پر قتل كرديا_(۲۴)

عائشہ نے حكم ديا كہ عثمان بن حنيف كا بھى خاتمہ كردياجائے مگر ايك نيك دل خاتوں مانع ہوئيں اور انہوں نے كہا كہ عثمان بن حنيف اصحاب پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں سے ہيں _ رسول خدا كے احترام كا پاس كيجئے اس پر عائشہ نے حكم ديا كہ انہيں قيد كرليا جائے_(۲۵)

جمل اصغر

حكيم بن جبلہ كا شمار بصرہ كے سر برآوردہ اشخاص ميں ہوتا تھا انہيں جس وقت عثمان بن حنيف

۱۲۷

كى گرفتارى كے واقعے كا علم ہوا تو انہوں نے اپنے طائفہ ''عبدالقيس '' كے جنگجو جوانوں كو مسجد ميں بلايا اور پر ہيجان تقرير كے بعد تين آور بعض اقوال كے مطابق سات سو افراد كو لے كر حملہ كا اعلان كرديا اور جارحين سپاہ كے مقابل آگئے_

اس جنگ ميں جسے جنگ جمل اصغر سے تعبير كيا گيا ہے حكيم بن جبلہ اور انكے ساتھيوں نے سخت پائمردى سے دشمن كا مقابلہ كيا يہاں تك جس وقت بازار كارزار پورے طور پر گرم تھاجارحين لشكر كے ايك سپاہى نے حكيم بن جبلہ پر حملہ كركے ان كا ايك پير قطع كرديا انہوں نے اسى حالت ميں اس سپاہى پر وار كيا اور اسے مار گرايا وہ اسى طرح ايك پير سے دشمن سے نبرد آزما ہوتے رہے حملہ كرتے وقت يہ رزميہ اشعار ان كى زبان پر جارى تھے_

يا ساق لن تراعى

ان معى ذراعى

احمى بها كر اعي

اے پير تو غم مت كر كيونكہ ابھى ميرے ہاتھ ميرے ساتھ ہيں اور ان سے ہى ميں اپنا دفاع كروں گا_

وہ اسى حالت ميں مسلسل جنگ كرتے رہے يہاں تك كہ نقاہت وكمزورى ان پر غالب آگئي اور شہيد ہوگئے _ ان كے فرزند ، بھائي اور دوسرے ساتھى بھى اس جنگ ميں قتل ہوگئے_(۲۶)

حكيم بن جبلہ پر غلبہ پانے كے بعد جارحين لشكر كے سرداروں نے دوبارہ فيصلہ كيا كہ عثمان بن حنيف كو قتل كردياجائے مگر انہوں نے كہا كہ تمہيں معلوم ہے كہ ميرا بھائي ''سہل'' مدينہ كا صوبہ دار ہے اگر تم مجھے قتل كرو گے تو وہ تمہارے عزيز واقارب كو مدينہ ميں نيست ونابود كردے گا چنانچہ اس بنا پروہ ان كے قتل سے باز رہے اور انہيں آزاد كرديا_(۲۷)

سردارى پر اختلاف

''ناكثين'' كے لشكر سرداران كو جب ابتدائي جنگوں ميں فتح و كامرانى حاصل ہوئي اور انہوں نے شہر پر بھى قبضہ كرليا تو ان ميں يہ اختلاف پيدا ہوا كہ سربراہ كسے مقرر كياجائے ان ميں سے ہر

۱۲۸

شخص كى يہى كوشش تھى كہ فتح كے بعد اولين نماز جو مسجد ميں ادا كى جائے اس ميں وہى امام جماعت كے فرائض انجام دے يہ باہمى كشمكش اس قدر طولانى ہوئي كہ نزديك تھا كہ آفتاب طلوع ہوجائے چنانچہ لوگوں نے بلند آواز سے كہنا شروع كيا اے صحابہ پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''الصلوة الصلوة ''ليكن طلحہ و زبير نے اس كى جانب توجہ نہ كى ، عائشہ نے مداخلت كى اور حكم ديا كہ ايك روز طلحہ كے فرزند محمدا ور دوسرے روز زبير كے بيٹے عبداللہ امامت كريں گے _(۲۸)

خبر رساني

طلحہ اور زبير نے جب بصرہ پر قبضہ كرليا تو وہ كارنامے جو انہوں نے انجام ديئے تھے انكى خبر شام كے لوگوں كو بھيجى گئي _ عائشہ نے بھى ان خبروں كى تفاصيل اہل كوفہ كو لكھى اور ان سے كہا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت سے دستكش ہوجائيں اور عثمان كے خون كا بدلہ لينے كے ئے اٹھ كھڑے ہوں _ يمامہ اور مدينہ كے لوگوں كو بھى خط لكھے گئے اور انہيں فتح بصرہ كى اطلاع كے ساتھ يورش و شورش كا مشورہ ديا گيا _(۲۹)

۱۲۹

سوالات

۱_ جس وقت اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے زمام حكومت سنبھالى تو وہ كون سے گروہ تھے جو آپ كى مخالفت پر اتر آئے؟

۲_ وہ كون سے عوامل تھے جن كے باعث طلحہ اور زبير نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے بعد عہد شكنى كى اور مخالفين كى صف ميں شامل ہوگئے_

۳_ ناكثين كى تحريك كا اصل مركز كہاں واقع تھا اور اس كى كس طرح تشكيل ہوئي ؟

۴_ عثمان كے قتل سے قبل عائشہ كا كيا موقف تھاا ور انہوں نے اسے كيوں اختيار كيا تھا ؟

۵_ جب عثمان قتل ہوئے اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بر سر اقتدار آگئے تو عائشہ نے اپنا موقف كيوں تبديل كرديا تھا؟

۶_ جب عثمان بن حنيف كو يہ علم ہوا كہ ''ناكثين'' كا لشكر بصرہ كے نزديك پہنچ گيا ہے تو انہوں نے كيا اقدام كيا ؟

۷_ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے بصرہ پہنچنے سے قبل وہاں كيا كيفيت طارى تھى اس كا مختصر حال بيان كيجئے ؟

۱۳۰

حوالہ جات

۱_ نہج البلاغہ خطبہ سوم ملاحظہ ہو جس ميں آپعليه‌السلام فرماتے ہيں :''فلما نهضت بالامر نكثت طائفة ومرقت اخرى وقسط آخرون ''_ حضرت علىعليه‌السلام سے قبل پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى دشمنان اسلام كے بارے ميں پيشين گوئي كردى تھى _ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطاب كرتے ہوئے ان كے يہ نام بيان كئے تھے : ''يا على ستقاتل بعدى الناكثون والقاسطين والمارقين'' (شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۰۱)

۲_ ''طلقاء '' وہ لوگ تھے جو فتح مكہ كے دوران مسلمانوں كے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب كو آزاد كرديا تھا اور فرمايا تھا كہ''اذهبوا انتم الطلقائ''

۳_ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۰ _۱۷۹ _''انتما شريكاى فى القوة والاستقامة عوناى اى على العجز الا ود ''

۴_ شرح ابن ابى الحديد ج ۷/ ۴۲ _ ۴۰

۵_مالنا من هذالامر الاكحسة انف الكلب (تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۹)

۶_والله ما اراد العمرة ولكنهما اراد الغدرة (تاريخ يعقوبى ج ۲/۱۸۰)

۷_ عثمان كے خلاف عائشہ كے اقوال واقدامات كے لئے ملاحظہ ہو (الغدير ج ۹/۸۶ _۷۷)

۸_اَبعده الله بما قدمت يداه وما الله بظلام للعبيد'' _ الغدير ج ۹/ ۸۳

۹_ الغدير ج ۹/ ۸۲ ابومخنف ' لوط بن ےحيى الازدى سے منقول

۱۰_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۰۶ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۸ _ الغدير ج ۹ / ۸۲ / ۸۰ انساب الاشراف ج ۲/ ۲۱۷_

۱۱_ عبيد نے عائشہ كے جواب ميں يہ اشعار پڑھے:

فمنك البدء ومنك الضير

ومنك الرياح ومنك المطر

و انت امرت بقتل الامام

و قلت لنا انه قد كفر

فهبنا اطعناك فى قتله

و قاتله عندنا من امر

الامامة والسياسة ج ۱/ ۵۱_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۹_۴۵۸ يعنى ان اختلاف كا سرچشمہ اور تغيرات كا باعث تم ہى تو ہو تمہارى وجہ سے سخت طوفان اور فتنے بپا ہوئے تم نے ہى عثمان كے قتل كا حكم ديا اور كہا كہ وہ كافر ہوگيا

۱۳۱

ہے اب بالفرض ہم نے تمہارى اطاعت كى خاطر اس قتل ميں حصہ ليا اصل قاتل وہ ہے جس نے اس قتل كا حكم ديا _

۱۲_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۸ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۰۷ _ انساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۱۸

۱۳_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۲

۱۴_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۱ _ ابن اثير ج ۳/ ۲۰۸ _ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۱ ليكن طبرى كى تاريخ ج ۴/ ۴۵۰ و ۴۵۱ پر يعلى بن اميہ كے اونٹوں كى تعداد چھ ہزار چھ سو لكھى ہے _

كامل ابن اثير ۳/ ۲۰۸ تاريخ يعقوبى ۲/۱۸۱

۱۵_ تاريخ طبرى ۴/ ۴۵۲ _۴۵۱

۱۶_ اس حديث كے متن كو مختلف مورخےن نے بيان كيا ہے _ يعقوبى نے ج ۲/۱۸۱ پر نقل كيا ہے :''لا تكونى التى تنجحك كلاب الحواب'' (عائشہ تم ان ميں سے نہ ہونا جن پر حواب كے كتے بھونكيں ) ليكن ابن اثير تاريخ ج ۲/۲۱۰)كامل اور بلاذرى نے انساب الاشراف (ج ۲ / ۲۲۴)ميں اس طرح درج كيا ہے ''ليت شعرى ايتكن تبنہا كلاب الحواب '' اور ابن ابى الحديد نے ج ۱۰/ ۳۱۰ پر يہى حديث دوسرے الفاظ كے ساتھ پيش كى ہے_

۱۷_ مروج الذہب ج ۳/ ۳۵۷ _ انساب الاشراف ج ۲/ ۲۲۴ الامامة والسياسات ج ۱/۶۰ ليكن يعقوبى نے (ج ۲ /۱۸۱)شہادت دينے والوں كى تعداد چاليس لكھى ہے_

۱۸_ تاريخ طبرى ج ۴ ص ۴۶۱ كامل ابن ايثرج ۳/ ۲۱۱_

۱۹_ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۳۱۳ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۲ ، ۴۶۱ _ كامل ابن اثير ج ۳/۲۱۱ _الامامة والسياسة ج ۱/۶۱ يہ گفتگو اگرچہ بہت مفصل ہے مگر يہاں اس كا خلاصہ ديا گيا ہے_

۲۰ _ مربد شہر كے كنارہ پر ايك ميدان تھا جہاں منڈى لگتى تھي_

۲۱_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۲

۲۲_ الامامة والسياسةج ۱ / ۶۱_ ۶۰

۲۳_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۳ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۳ _ ۲۱۲

۱۳۲

۲۴_ الجمل للمفيد / ۱۵۱_ ۱۵۰ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۶ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۴ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۸ شرح ابن ابى الحديد ج ۹ /۳۲۰ الامامة والسياسة ۱/۶۵

۲۵_ مروج الذہب ج ۲ / ۳۵۸ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۳۲۱

۲۶_ تاريخ طبرى ج ۴ / ۲۶۸ كامل ابن اثير ۲۱۶ _ ۲۱۵

۲۷ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۶ _۲۱۷ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۱ _ ۴۷۰ الجمل للمفيد / ۲۵۲ _ ۱۵۱

۲۸_ الجمل للمفيد ۱۵۳ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۹ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۴ _ يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ عثمان حنيف كے اس قول كے علامہ مفيد نے بصرہ كى ايك خاتون سے نقل كيا ہے_

۲۹_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۸ _ الجمل للمفيد / ۱۵۲ _ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۱

۳۰_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۲۰ _۲۱۹ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۲_ عائشہ نے جو خط مدينہ اور يمامہ كے لوگوں كو لكھا تھا اس كا متن علامہ مفيد نے اپنى تاليف ''الجمل'' كے صفحہ ۱۶۰ پر درج كيا ہے_

۱۳۳

ساتواں سبق

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۳

حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ كى جانب روانگي

ربذہ ميں قيام

لشكر كا جاہ وجلال

صلح كى كوشش

لشكر كے لئے دستورالعمل

دشمن كو متفرق كرنے كى آخرى كوشش

فيصلہ كن جنگ

عام معافي

سوالات

حوالہ جات

۱۳۴

حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ كى جانب روانگي

اميرالمومنينعليه‌السلام كى حكومت كے مخالفوں كا وجود ميں آنا ان كے درميان اتحاد و الفت اور ان كے لشكر كا بصرہ كى جانب روانہ ہونا اور پھر اس پر قابض ہوجانے كوہم بيان كرچكے ہيں اب مدينہ چلتے ہيں تاكہ وہاں سے اميرالمومنينعليه‌السلام كے ساتھ بصرہ كى طرف روانہ ہوجائيں _

معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف سركارى سطح پر سركشى كى تھى اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے سے قطى انكار كرديا تھا اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام بھى ان سے نبرد آزما ہونے كے لئے ابتدائي تيارى ميں مشغول تھے ، اس ضمن ميں انہوں نے حضرت بن حنيف، قيس بعد سعد اور ابو موسى جيسے اپنے كارپردازوں كو خطوط كے ذريعہ مطلع كيا كہ معاويہ كے خلاف جنگ كرنے كى غرض سے لوگوں كو آمادہ كريں _

اس اثناء ميں حضرت علىعليه‌السلام كو عائشہ ، طلحہ اور زبير كى سركشى نيز ان كے لشكر كى عراق كى جانب روانگى كى اطلاع ملى _ حضرت علىعليه‌السلام جانتے تھے كہ موجودہ حالات ميں ان تينوں حضرات كى يورش معاويہ كى سركشى سے كہيں زيادہ سنگين ہے كيونكہ معاويہ اسلامى حكومت كے دو دراز علاقے ميں سرگرم عمل تھا ليكن يہ لوگ مركز خلافت ميں بھى يكجا جمع اور اس كے گرد و نواح ميں شورش كيئے ہوئے تھے اس كے علاوہ بصرہ اور كوفہ سياسى اور عسكرى اعتبار سے خاص اہميت كے حامل ہيں چنانچہ اس بناء پر اس سے پہلے كہ يورش وبغاوت كے شعلے ديگر مقامات تك پہنچيں آپعليه‌السلام نے

۱۳۵

مصلحت امر اس ميں سمجھى كہ انكے آتش فتنہ كو خاموش كرنے كے لئے خود ہى پيشقدمى كريں اگر چہ كچھ لوگوں نے يہ تجويز بھى پيش كى آپ طلحہ اور زبير كے تعاقب كو نظر انداز كرديں مگر آپ نے اس تجويز كو قبول كرنے سے قطعى انكار كرديا اور فرمايا كہ خدا كى قسم ميں بجو نہيں ہوں جس كو پكڑنے كے لئے لوگ اس كے بھٹ پر دھيمے سروں ميں گاتے بجاتے ہيں اور اچانك اس كو پكڑ ليتے ہيں _ اپنے مخالفين سے پورى طرح باخبر ہوں ميں حق پسند وں كى شمشير براں سے ان لوگوں كا كام تمام كردوں گا جنہوں نے حق كے نام پر سر كشى ويورش كا سہارا ليا ہے ميں اپنے مطيع و فرمانبردار ہمكاروں كى مدد سے ان تمام سركشوں كو جو راہ حق ميں رخنہ اندازى پر تلے ہوئے ہيں ، ہميشہ كے لئے راستے سے ہٹادوں گا اور اپنے اس عمل كو تا دم واپسين جارى ركھوں گا_

حضرت علىعليه‌السلام نے مسلمانوں كو مسجد ميں جمع ہونے كا حكم ديا جب لوگ جمع ہوگئے تو آپعليه‌السلام نے عام لوگوں پر يہ واضح كرنے كے لئے مخالفين كے اغراض و مقاصد كيا ہے اس موضوع سے متعلق درج ذيل تقرير فرمائي_

''لوگوں عائشہ بصرہ كى جانب چلى گئي ہيں _ طلحہ و زبير ان كے ہمراہ ہيں ان دونوں كا يہ خيال ہے كہ خلافت پر صرف انھى كا حق ہے كسى اور كا نہيں _ طلحہ ، عائشہ كا چچا زاد بھائي ہے اور زبير ان كے داماد ہيں (اور عائشہ كى سعى و كوشش انہى كے لئے ہے)خدا كى قسم اگر يہ دونوں اپنے مقاصد ميں بالفرض كامياب ہوبھى گئے تو پھر ان دونوں ميں وہ سخت تنازع ہوگا كہ ان ميں ايك دوسرے كى گردن ماردے گا _ خدا شاہد ہے كہ جو شخص سرخ اونٹ پر سوار ہوكر روانہ ہوتا ہے وہ زيادہ دور تك راستے طے نہيں كرتا اور اس سے كوئي عقدہ وا بھى نہيں ہوتا مگر يہ كہ وہ گناہ كے راستے پر چلے اور خدا كا غضب اس پر نازل ہوتا كہ وہ اور اس كے ساتھى ہلاكت كو پہنچيں _

خدا كى قسم انجام كار يہ ہوگا كہ ان ميں سے ايك تہائي افراد مارے جائيں گے ، ايك تہائي فرار كرجائيں گے اور ايك تہائي توبہ كرليں گے_

عائشہ وہى خاتون ہيں ''جسٌ پَر حَوْا َبْ ''كے كتے غرارہے ہيں ، طلحہ اور زبير بھى جانتے

۱۳۶

ہيں كہ وہ ٹھيك راستے پر نہيں چل رہے ہيں _ افسوس اس عالم كے حال پر جو اپنے جہل كے باعث ماراگيا اور وہ اپنے علم سے بہرہ مند نہ ہوسكا_

مجھے قريش سے كيا سرو كار خدا گواہ ہے جب وہ حالت كفر ميں تھے ميں نے انہيں قتل كيا اس وقت بھى وہ ہوا وہوس اور شيطانى وسواس كے دام فريب ميں ہيں (اسى لئے شورش بپا كئے ہوئے ہيں )يہ سب ميرے ہاتھوں مارے جائيں گے _(۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے افكار عامہ كو بيدار كرنے كى غرض سے دوسرے اور تيسرے روز پر ہيجان تقارير كيں اور بالآخر آپعليه‌السلام نے اعلان جنگ كرديا _ سہل بن حنيف كو مدينے ميں اپنا جانشين مقرر كيا(۲) اور خود مسلح و مجہز لشكر كے ساتھ جو سات سو سے زيادہ افراد پر مشتمل تھا مدينہ سے عراق كى جانب روانہ ہوئے_

''ناكثين'' پر قابو پانے كے لئے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كا لشكر پہلے مكہ كى جانب روانہ ہوا ليكن جب آپ ''ربذہ(۳) '' نامى مقام پر پہنچے تو معلوم ہوا كہ مخالفين وہاں سے كوچ كرچكے ہيں _ چنانچہ وہاں سے آپعليه‌السلام نے عراق كى جانب رخ كيا _

ربذہ ميں قيام

حضرت علىعليه‌السلام نے ربذہ ميں چند روز قيام فرمايا اس عرصے ميں مدينہ سے كچھ انصار جن ميں خزيمہ بن ثابت اور تقريباً چھ سو طائفہ طى كے منظم سوار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر سے متصل ہوگئے _(۴)

عثمان بن حنيف بھى دشمنوں كے چنگل سے نجات پانے كے بعد ربذہ ميں حضرت علىعليه‌السلام سے آن ملے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے ملاقات كرنے كے بعد كہا يا اميرالمومنينعليه‌السلام جس روز آپ نے مجھے روانہ كيا تھا اس وقت ميرى داڑھى بہت گھنى تھى ليكن آج ميں آپ كى خدمت ميں ايك بے ريش نوجوان كى صورت ميں حاضر ہوا ہو حضرت علىعليه‌السلام نے انہيں صبر كى تلقين كى اور ان كے لئے

۱۳۷

دعا فرمائي _ (۵)

اسى طرح اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ہاشم مرتال كو خط دے كر حاكم كوفہ كى جانب روانہ كيا تاكہ اس سے پہلے كہ طلحہ اور زبير وہاں پہنچيں وہاں كے گورنر كى عسكرى مدد حاصل كرلى جائے _ ليكن موسى اشعرى حاكم كوفہ نے صرف حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے سے سيدھے منہ بات نہ كى بلكہ حضرت علىعليه‌السلام كے خط كو بھى انہوں نے غايب كرديا اورہاشم مرتال كو يہ دھمكى دى كہ وہ انہيں قيدى بناليں گے انہوں نے كوفہ كے لوگوں كو بھى سختى سے منع كرديا اور كہا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مدد نہ كريں _ گورنر كى حيثيت سے اعلان كيا كہ اگر جنگ كى نوبت آئي تو پہلے وہ عثمان كے قاتلوں كے خلاف جنگ كريں گے اور اس كے بعد وہ دوسروں كى طرف متوجہ ہوں گے _(۶) حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے نے ان تمام واقعات كى اميرالمومنينعليه‌السلام كو خبر كى _

يہ خط حضرت علىعليه‌السلام كو ''ذى قار'' نامى مقام پر موصول ہوا _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے فرزند عزيز حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمار ياسر كو اپنے پاس بلايا اور ان دونوں حضرات كو اس كام پر مقرر كيا كہ اہل كوفہ كے لئے وہ خط لے كر روانہ ہوں اور وہاں پہنچ كر وہاں كے لوگوں كو مدد كيلئے آمادہ كريں _

حضرت علىعليه‌السلام نے خط ابوموسى كو بھى لكھا اور انہيں ان كے منصب سے معزول كرديا _ اميرالمومنينعليه‌السلام نے اس خط ميں لكھا تھا كہ انہوں نے اپنے موقف كا صحيح استعمال نہيں كيا اور اسى بنا پر انہيں سخت تنبيہہ بھى كى اس كے علاوہ حضرت علىعليه‌السلام نے مالك اشتر كو ان كے پيچھے روانہ كيا_

حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمارعليه‌السلام نے كوفہ پہنچنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كا خط وہاں كے لوگوں كو سنايا اور اس سلسلے ميں تقارير بھى كيں _ حضرت علىعليه‌السلام كى تحرير اور حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمارعليه‌السلام كى تقرير كا اثر يہ ہوا كہ اہل كوفہ ان كے گرويدہ ہوگئے اور انہوں نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خلوص نيت اور اظہار محبت كيا اور ان كے فرمان كے آگے سر تسليم خم كرديا_

حضرت امام حسنعليه‌السلام نے ابوموسى كى معزولى كا بھى اعلان كيا اور ان كى جگہ قرظة بن كعب'' كو گورنر

۱۳۸

مقرر كيا _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے كى سعى و كوشش اور بصيرت افروز تقارير كے باعث كچھ لوگوں نے اپنى رضامندى كا اعلان كرديا چنانچہ چند روز بعد تقريباً سات ہزار افراد ''ذى قار'' ميں حضرت علىعليه‌السلام سے جاملے _ حضرت امام حسنعليه‌السلام كى كاميابى پر حضرت علىعليه‌السلام بہت مسرور ہوئے اور انہوں نے اپنے فرزند دلبند سے اظہار تشكر كيا_(۷)

لشكر كا جاہ وجلال

اميرالمومنينعليه‌السلام حضرت علىعليه‌السلام كا وہ مسلح وعظےم لشكر جو مدينہ اور كوفہ ميں جمع ہوا تھا اور بصرہ كے نواح ميں قيام پذير تھا اس لشكر كے بارے ميں منذر بن جارود نے لكھا ہے كہ ميں شہر بصرہ سے باہر نكل كر آيا تاكہ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كا نظارہ كرسكوں _

اس وقت وہاں ہزار مسلح سوار موجود تھے اور ابو ايوب انصارى تنو مند گھوڑے پر سوا ران كے پيش پيش چل رہے تھے_ ان كے علاوہ بھى وہاں دوسرے عسكرى دستے تھے جن ميں ہر دستہ ہزار مسلح افراد پر مشتمل تھا اور دستوں كى كمانڈرى خزيمہ بن ثابت ، ابو قتادہ عمار ياسر، قيس بن سعد اور عبداللہ بن عباس جيسے جليل القدر صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كرتے تھے اور يہ تمام دستے ابو ايوب كى فوج كے پيچھے چل رہے تھے_

انہى جنگجو دستوں ميں ايك دستہ حضرت علىعليه‌السلام كى زير قيادت ديگر تمام دستوں سے آگے چل رہا تھا _ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دائيں بائيں حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت امام حسينعليه‌السلام چل رہے تھے اور ان كے آگے حضرت علىعليه‌السلام تا ديگر فرزند محمد بن حنفيہ پرچم ہاتھ ميں لئے چل رہے تھے_ عبداللہ ابن جعفر ،حضرت علىعليه‌السلام كے پيچھے تھے ان كے علاوہ عقيل كے فرزند اور بنى ہاشم كے نوجوانوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو انگشترى كے نگينہ كى طرح اپنے درميان لے ركھا تھا _ كچھ معمر بدرى بزرگ (مہاجر و انصار)بھى ان ہى دستوں ميں نظر آرہے تھے_(۸)

۱۳۹

بصرہ پہنچنے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے ''زاويہ'' نامى جگہ پر قيام فرمايا اور يہاں چار ركعت نماز ادا كى نماز سے فارغ ہونے كے بعد آپ نے دوبارہ سجدہ كيا اور اس قدر گريہ و زارى كى كہ آنكھوں سے آنسو جارى ہوگئے پھر دعا كے لئے ہاتھ آسمان كى طرف اٹھائے اور عرض كى خداوند تعالى اس جماعت نے ميرے حكم كى نافرمانى كركے مجھ پر ظلم كيا ہے يہ لوگ بيعت سے منحرف ہوگئے ہيں _ اے خدا اب تو ہى مسلمانوں كى حفاظت فرما _(۹)

صلح كى كوشش

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كا مقصد جنگ كرنا نہ تھا بلكہ آپ چاہتے تھے كہ ''ناكثين'' نے جو فتنہ كى آگ بھڑكائي ہے اسے خاموش كرديں اس مقصد كى برآورى كيلئے اور كشت وخون كو روكنے كى خاطر ، حضرت علىعليه‌السلام نے ہر ممكن كوشش كى اور جو بھى ممكن طريقہ ہوسكتا تھا آپعليه‌السلام اسے بروئے كار لائے اميرالمومنينعليه‌السلام نے جو صلح طلبانہ اقدامات كئے ان كے چند نمونے يہاں پيش كئے جاتے ہيں :

۱_ بصرہ پہنچنے سے قبل آپعليه‌السلام نے صعصعہ بن صوحان اور عبداللہ بن عباس كو جداگانہ طور پر خط دے كر عائشہ ، طلحہ اور زبير كے پاس بھيجا كہ شايد ان كو مذاكرہ اور پند ونصيحت كے ذريعے جنگ كرنے سے باز ركھاجاسكے _ ليكن ان لوگوں نے حصرت علىعليه‌السلام كے نمايندگان اور آپعليه‌السلام كے پند ونصايح كے آگے سر تسليم خم نہ كيا اور جنگ كے علاوہ كوئي دوسرا راستہ اختيار كرنے سے انكار كرديا_(۱۰)

۲_ حضرت علىعليه‌السلام نے جنگ كے دن فيصلہ كيا كہ كلام اللہ كو درميان لاكر اسے حكم قرار ديں _ چنانچہ آپعليه‌السلام نے حضرت مسلم نامى شخص كو قرآن پاك ديا اور فرمايا كہ ان لوگوں سے كہو كہ ہمارے اور تمہارے درميان قرآن ہى حاكم ومنصف ہے ، خدا سے ڈرو اور مسلمانوں كا خون بہانے سے گريز كرو _

اس جوان نے حضرت علىعليه‌السلام كے حكم پر عمل كيا ليكن انہوں نے مسلم كا وہ ہاتھ قلم كرديا جس ميں

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348