تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 179973 / ڈاؤنلوڈ: 4264
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

حضرت عليعليه‌السلام كى بيعت كے امتيازات

حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت روز جمعہ بتاريخ پچيس ذى الحجہ ۳۵ ھ انجام پذير ہوئي اس كے بعض امتيازات ہم يہاں بيان كر رہے ہيں : _

۱ _ حضرت علىعليه‌السلام نے مستقبل كى حكومت كے استحكام كى خاطر لوگوں كو يہ موقعہ ديا كہ وہ آزاد انہ طور پر اپنا رہبر انتخاب كريں اور انہيں اتنى مہلت دى كہ وہ اس كے بارے ميں مكمل طور پر غور و فكر كرليں تاكہ پورے شعور كے ساتھ آيندہ كيلئے اپنے رہبر كا انتخاب كريں _

۲_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت عمومى تھى اور ايك عوامى تجويز كے طور پر پيش كى گئي تھى اس كے برعكس گذشتہ خلفاء كے ہاتھ پر بيعت كا معاملہ عوامى تحريك پر مبنى نہ تھا بلكہ بقول عمر : ابوبكر كى بيعت كا اتفاقى واقعہ تھا جو ''اچانك'' كسى پيش بندى كے بغير حادثى طور پر رونما ہوا اور صرف دو افراد (عمر اور ابوعبيدہ) كى تجويز پر اس مسئلے كو پيش كيا گيا _

عمر كو بھى عوام كى تجويز پر خليفہ مقرر نہيں كيا گيا تھا بلكہ انہيں ابوبكر نے اس منصب پر مامور كيا تھا_ عثمان كو بھى عوام كى تجويز پر خليفہ منتخب نہيں كيا گيا تھا بلكہ چھ افراد پر مشتمل شورى ميں سے صرف دو افراد كى موافقت سے جسے خليفہ ثانى نے منتخب كيا يہ كام انجام پذير ہوا_(۱۹)

۳_ حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت كو لوگوں نے خود قبول كيا اور يہ كام اس وقت عمل پذير ہوا جب لوگوں نے پہلے سے اس مسئلے پر غور كرليا تھا جبكہ سابقہ خلفاء نے عوام كو غور و فكر كرنے كا موقع ہى نہيں ديا بلكہ ان كى سعى وكوشش يہ تھى كہ جس قدر جلد ممكن ہوسكے يہ كام ختم ہوتاكہ تاكہ خير كے باعث اس ميں موانع پيدا نہ ہوں _

۴_ بيعت كے لئے جس جگہ كو مركز بنايا وہ مسجد تھى تاكہ تمام مسلمين اس ميں شركت كرسكيں اور اگر كسى كو كوئي اعتراض ہو تو اسے پيش كرے در حاليكہ گذشتہ خلفاء كى بيعت ميں اس خصوصيت كو مد نظر نہيں ركھا گيا_

۵_ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے كسى كو مجبور نہيں كيا گيا چنانچہ جس

۱۰۱

وقت عبداللہ بن عمر كى بيعت كا مسئلہ سامنے آيا اور انہوں نے بيعت كرنے سے انكار كرديا تو مالك اشتر نے اميرالمومنين عليه‌السلام حضرت علىعليه‌السلام سے كہا تھا كہ اگر آپ اجازت ديں تو ان كى گردن تن سے جدا كردى جائے ، تو حضرت علىعليه‌السلام نے ان كى اس تجويز كو صرف قبول ہى نہيں كيا بلكہ اپنى طرف سے يہ ضمانت بھى دى كہ عبداللہ بن عمر كو كوئي شخص تكليف و آزار نہ پہنچائے_(۲۰)

سوالات كے جوابات

جيسا كہ پہلے ذكر كيا جاچكا ہے اور نہج البلاغہ ميں مندرج اميرالمؤمنين حضرت علىعليه‌السلام كے خطبات سے بھى اس حقيقت كى وضاحت ہوتى ہے اگرچہ لوگ آپ كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے مصر تھے مگر آپ نے اس كام كے آغاز سے ہى خود كو كسى بھى پيشقدمى سے باز ركھا _(۲۱)

ممكن ہے يہ سوال پيش آئے كہ : حضرت علىعليه‌السلام اس كے باوجود كہ خلافت كو اپنا حق سمجھتے تھے اور بر سرا قتدار آنے كے لئے شايستہ ترين انسان بھى تھے ، نيز عوام آپ كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے ہر طرف سے جمع ہوگئے تھے پھر عوام كے اصرار كے باوجود اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے شروع ہى سے منصب خلافت كو قبول كرنے سے كيوں منع فرمايا ؟

حضرت علىعليه‌السلام كے لئے منصب خلافت قبول نہ كرنے كى وجہ يہ نہ تھى كہ وہ حكومت كى ذمہ داريوں نيز ان سے پيدا ہونے والى مشكلات كا مقابلہ كرنے كے لئے خود كو عاجز وناتوان سمجھتے تھے بلكہ اس كا اصل سبب يہ تھا كہ آپعليه‌السلام اسلامى معاشرہ كى اجتماعى و معنوى كيفيت پر گہرى نظر ركھتے تھے اور اس كى بہت سى مشكلات آپ كے پيش نظر تھيں اس لئے آپ چاہتے تھے كہ لوگوں كا امتحان ليں تاكہ يہ اعلان ہوجائے كہ عوام آپ كى انقلابى روش كو برداشت كرنے كے لئے كس حد تك تيار ہيں اور ان كا جب مشكلات سے سامنا ہو تو وہ يہ نہ كہيں كہ اميرالمومنين علىعليه‌السلام نے انہيں صحيح حالات سے بے خبر ركھا اور ان كے انقلابى جذبات نيز جوش و خروش سے فائدہ اٹھاليا_

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ نے عوام سے كہا تھا كہ : آپ لوگ مجھے معاف ركھيں يہ ذمہ دارى

۱۰۲

كسى دوسرے شخص كے سپرد كرديں كيونكہ جو مقصد ميرے پيش نظر ہے اس ميں اتنى زيادہ مشكلات ہيں كہ لوگوں ميں انہيں برداشت كرنے كى طاقت اور انسانى عقول ميں انہيں قبول كرنے كى تاب ہى نہيں _ عالم اسلام كے افق پر ظلم وبدعت كے سياہ بادل چھائے ہوئے ہيں اور اسلامى راہ و روش ميں تبديلى واقع ہوگئي ہے_ (۲۲)

حضرت علىعليه‌السلام نے كن مقاصد كے تحت حكومت قبول فرمائي_

اس ميں كوئي شك نہيں كہ وہ شخص جسے حضرت علىعليه‌السلام عليه‌السلام كے كردار و اخلاق اور طرز زندگى كے بارے ميں ادنى سى واقفيت ہے اتنا تو جانتا ہى ہے كہ آپ جيسے بزرگوار شخص كى قطعى يہ آرزو تمنا نہ تھى كہ لوگوں پر حكومت كريں اور منصب خلافت قبول كرنے ميں ہرگز يہ مقصد كار فرما نہ تھا كہ مال ودولت ، جاہ و ثروت اور حكومت و اقتدار حاصل ہو_

آپعليه‌السلام نے بھى گفتگو كے دوران كئي مرتبہ يہ بات لوگوں كے گوش گزار كردى تھى _ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام اور ابن عباس كے درميان جو گفتگو ہوئي اس كا اقتباس يہاں پيش كياجارہا ہے:

ابن عباس كہتے ہيں بصرہ كے راستے ميں واقع ''ذى قار'' نامى منزل پر حضرت علىعليه‌السلام سے ميرى ملاقات ہوئي آپ اپنا نعلين سى رہے تھے انہيں سيتے ہوئے آپ نے فرمايا كہ ان جوتيوں كى كيا قيمت ہوگي؟ ميں نے عرض كيا كہ : اب ان كى كيا قيمت رہ گئي اس پر آپ نے فرمايا :

والله لهى احب الى من امر بكم الا ان اقيم حقا او ادفع باطلا (۲۳)

خدا كى قسم مجھے يہ نعلين تم پر حكومت كرنے سے كہيں زيادہ عزيز ہيں مگر يہ كہ حق كو قائم كروں اور باطل كا قلع قمع كردوں _

اور ايك جملے ميں تو آپ نے زمامدارى كو گندے پانى اور ايسے لقمے سے تشبيہ دى ہے جو گلے ميں پھنسا ہو _ چنانچہ فرماتے ہيں : ''هذا ماء آجن ولقمه يَفضَّ بها اكلها'' (۲۴)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے خطبہ شقشقيہ كے آخر ميں اس مقصد كى وضاحت فرمائي ہے كہ

۱۰۳

آپ نے زمامدارى كو كيوں قبول فرمايا: قسم ہے اس خدا ئے پاك كى جس نے دانے كو چاك كيا اور انسان كى تخليق كى اگر لوگ كثير تعداد ميں ميرے گرد جمع نہ ہوگئے ہوتے' ہم كاروں كى مدد سے حجت قائم نہ ہوگئي ہوتى اور اگر خداوند تعالى نے علماء سے يہ عہد و پيمان نہ ليا ہوتا كہ ظالموں كى شكم پرى اور مظلومين كى فاقہ كشى پر وہ خاموش نہ رہيں تو ميں خلافت كے شتر كى مہار كو اس كى كمر پر پھينك ديتا اور پہلے ہى جام ميں اسے آخرى جام كى طرح سيراب كرديتا_(۲۵)

حضرت علىعليه‌السلام كے ان اقوال سے واضح ہے كہ آپ نے دو اہم بنيادوں پر زمام حكومت سنبھالى _ پہلى تو يہى كہ لوگ خود چل كر آپعليه‌السلام كے پاس آئے اور يہ اعلان كيا كہ حكومت كى حمايت كريں گے اور دوسرى بنياد يہ تھى كہ آپعليه‌السلام عدل وانصاف بر قرار كركے ظلم وستم كا سد باب كرنا چاہتے تھے_

ابتدائي اقدامات

جب آپ كو بيعت سے فرصت ملى تو آپ نے اعلان فرمايا كہ جن مقاصد كے تحت آپ نے حكومت كو قبول فرمايا ہے انہيں حقيقت كى شكل ديں گے_ حضرت علىعليه‌السلام نے جو سياسى مسلك اور طريق كار اختيار كيا وہ كوئي ايسا اتفاقى امر نہ تھا جس كى تخليق اسى روز كى گئي ہو بلكہ يہ ايسے دستور العمل كا مجموعہ تھا جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى راہ و روش سے حاصل كيا گيا تھا اور اس كا سرچشمہ وحى و قرآن تھے_

وہ كام جنہيں حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں اولويت حاصل تھى اور جنہيں فورا ہى انجام دينا چاہتے تھے وہ ان تين حصوں پر مشتمل تھے_

۱)نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر

۲)برترى وامتيازى سلوك كى برطرفى اور سب كے لئے مساوى حقوق كى ضمانت

۳)تاخت وتاراج كئے ہوئے مال كو واپس كرنا او ربيت المال كى عادلانہ تقسيم

۱۰۴

نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنى حكومت كے ابتدائي دنوں ميں عثمان كے حكام اور كارندوں كو برطرف كرديا كيونكہ ظلم و ستم اور اسلامى قوانين نيز مردم سالارى كى سياست سے ان كى نا آشنائي ، عثمان كے خلاف قيام كرنے كے اہم اسباب ميں ايك سبب تھا_

مغيرہ بن شعبہ نے حضرت علىعليه‌السلام سے گفتگو كرتے ہوئے يہ تجويز پيش كى پہلے حكام كو ان كے مناصب پر بحال و برقرار ركھاجائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے انكى اس تجويز كو منظور نہ كيا اور فرمايا كہ خدا كى قسم ميں اپنے دينى فرائض كى انجام دہى ميں سستى نہ كروں گا_(۲۶)

جن محركات كے تحت حضرت علىعليه‌السلام نے يہ اقدامات كئے ان كے بارے ميں آپ دوسرى جگہ فرماتے ہيں : ميں اس بات سے غمگين واندوہناك ہوں كہ اس امت كى حكومت كے سرپرست بے خبر اور ناكارہ لوگ ہوں وہ بيت المال كو تباہ كريں ، بندگان خدا كو آزادى سے محروم كركے انہيں اپنا غلام بناليں ، نيك و صالح لوگوں سے جنگ كريں اور فاسق و فاجر لوگوں كو اپنا يار ومددگار بنائيں _

اس جماعت ميں كچھ لوگ ايسے ہيں جو شراب پيتے ہيں اور ان پر حد جارى كى جاچكى ہے ، انہيں ميں ايسے لوگ بھى ہيں جنہوں نے اسلام اس وقت تك قبول نہيں كيا جب تك ان كے لئے كوئي عطيہ مقرر نہيں كيا گيا _(۲۷) حضرت علىعليه‌السلام نے عثمان كے مقرر كردہ حكام كو برطرف كركے ان كى جگہ نيك وصالح اور دور انديش لوگوں كو مختلف صوبوں كى حكومتوں پر مقرر كيا اس زمانے ميں بصرہ ، مصر اور شام كاشمار اسلامى قلمرو كے عظيم صوبوں ميں ہوتا تھا _ چنانچہ آپ نے عثمان بن حنيف كو بصرہ كا ،سہل بن حنيف كو شام كا اور قيس بن سعد كو مصر كا صوبہ دار مقرر فرماكر ان مناصب سے سرفراز فرمايا_ والى كوفہ ابوموسى اشعرى كو مالك اشتر كے اصرار پر انكے عہدے پر بحال ركھا_(۲۸)

۱۰۵

معاويہ كى برطرفي

جيسا كہ اوپر بيان كياجاچكا ہے كہ عثمان كے حكام و عمّال كو برطرف كرنے كا مقصد يہ تھا كہ حضرت علىعليه‌السلام چاہتے تھے كہ تباہى و فساد كارى كے خلاف محاذ قائم كركے اجتماعى عدل و انصاف كى بنيادوں كو محكم واستوار كريں اور آپعليه‌السلام چونكہ معاويہ كے نظر و فكر وكاركردگى سے بخوبى واقف تھے اسى لئے انہوں نے اس بات كى مخالفت كى كہ وہ حكومت كے كسى منصب پر برقرار رہے اگر چہ انعليه‌السلام كے چچا زاد بھائي ابن عباس نے معاويہ كى سفارش بھى كى كہ انہيں مختصر عرصے كے لئے ہى سہى اس كے عہدے پر بحال ركھا جائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے اس سفارش كو بھى قبول نہيں فرمايا_

جب مغيرہ كى يہ كار گرنہ ہوئي كہ سابقہ حكام كو ان كے عہدوں پر بحال ركھا جائے تو انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے كہا كہ معاويہ كو شام كى صوبہ دارى سے معزول نہ كيجئے كيونكہ وہ گستاخ ہے اور شام كے لوگوں اسى كے مطيع و فرمانبردار ہيں عمر نے اسے چونكہ شام كا گورنر مقرر كيا تھا لہذا آپ كے پاس بہانہ ہے _ اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : خدا كى قسم ميں اسے دو روز بھى كسى عہدے پر بحال نہ ركھوں گا(۲۹) جس وقت عباس كو مغيرہ كى تجويز كے بارے مےں اطلاع ہوئي تو انہوں نے بھى اميرلمومنين علىعليه‌السلام كى خدمت ميں يہى عرض كى كہ مجھے اس بات سے اتفاق نہيں كہ فى الحال آپ معاويہ كو اس كے منصب سے معزول كريں جس وقت وہ آپ كے دست مبارك پر بيعت كريں گے اور آپ كاكام استحكام پذير ہو جائے اس كے بعد آپ اسے برطرف كيجئے اس پر حضرت عليعليه‌السلام نے فرمايا : خدا كى قسم ' تلوار كے علاوہ ميں اسے كوئي اور چيز نہ دوں گا _(۳۰)

حضرت علىعليه‌السلام نے جو يہ روش اختيار كى اس كے بارے ميں ان چند نكات كا بيان كردينا ضرورى ہے _

اميرالمومنين حضرت عليعليه‌السلام بخوبى واقف تھے كہ معاويہ كسى بھى صورت ميں ان كے دست مبارك پر ہرگز بيعت نہ كرے گا اور آپ كا حكم نہ مانے گا كيونكہ جذبہ اقتدار پسندى و زراندوزى كے علاوہ قبائلى تعصب اور وہ ديرينہ دشمنى جو اس كے دل ميں حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف تھى اس راہ ميں

۱۰۶

مانع و حائل تھى كہ وہ حضرت علي عليه‌السلام كى حكومت كے نمايندے كى حيثيت سے كوئي خدمت انجام دے اور امر واقعى يہ ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ كے جذبہ كار گردگى و مقاصد كے درميان متضاد تطبيق كا فاصلہ تھا اور اسى كے باعث دونوں كے مابين باہمى تعاون كا امكان نہ تھا _

اگر حضرت علىعليه‌السلام نے كوئي ايسا فرمان جارى كر ديا ہوتا جس سے اس بات كى تائيد ہوتى كہ وہ شام كى صوبہ دارى پر بحال رہے تو اس بات كا امكان تھا كہ معاويہ اس فرمان كا فائدہ اٹھا كر اسے اپنى فرمانروائي كا پروانہ تصور كرتا ہے اور اس طرح اسے شام ميں پہلے سے كہيں زيادہ قدم جمانے كا موقع مل جاتا _

معاويہ جيسے استبداد پسند عمال اور ديگر مفسد كارندوں كى عملہ خلافت مےں موجودگى ايسے عوامل تھے جن كے باعث مسلمين كے درميان رنجش پيدا ہوئي اور انہوں نے عثمان كے خلاف بغاوت كر دى اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت چونكہ حقوق سے محروم و ستمديدہ طبقات كى پناہگاہ تھى اسى لئے اگر اس ميں معاويہ جيسے لوگ بر سر اقتدار رہتے تو اس بات كا امكان تھا كہ عوام ميں دربارہ غم و غصہ پيدا ہو جائے اور وہ اكثريت جو حضرت عليعليه‌السلام كى طرفدار تھى اسے اميرالمومنينعليه‌السلام كى ذات اور اس حكومت سے جس كى آيندہ تشكيل كرتے مايوسى ہوتى چنانچہ ان كے اور اس اقليت كى درميان جو حضرت عليعليه‌السلام كى شخصيت كو بہر حال حجت تسليم كرتے تھى اختلاف پيدا ہو جاتا _

مذكورہ بالا دلائل نيز پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول يہ روايت كہ فرزندان اميہ پر حكومت حرام ہے ايسے عوامل تھے جن كے باعث حضرت عليعليه‌السلام نے معاويہ كو خط لكھ كر مطلع كيا كہ اسے اس عہدے سے برطرف كر كے اس كى جگہ سہل بن حنيف كو شام كا صوبہ دار مقرر كيا جاتا ہے _(۳۱)

مساوى حقوق كى ضمانت

جيسا كہ ہم جانتے ہيں كہ اسلام نے دور جاہليت كے امتيازى سلوك كو قطعى طور پر باطل قرار ديا ہے مگر پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد عہد جاہليت كى اس رسم كا بتدريج رواج ہونے لگا اور عثمان

۱۰۷

كے زمانہ خلافت ميں اسے مزيد فروغ ملا _

حضرت علىعليه‌السلام نے زمام حكومت اپنے اختيار ميں لينے كے بعد عہد جاہليت كے تمام امتيازى سلوك كو يكسرہ ختم كر ديا اور اس بات كى ضمانت دى كہ تمام مسلمانوں كے حقوق مساوى و يكساں ہيں چنانچہ اس بارے مےں خود فرماتے ہےں ذليل (مظلوم و ستمديدہ) اس وقت تك ميرے نزديك عزيز وار جمند ہے جب تك اس كے حق كو ظالم سے نہ لے لوں اور زور مند (ظالم و ستمگر) اس وقت تك ميرے نزديك برا اور ناتواں ہے جب تك مظلوم كا حق اس سے حاصل نہ كر لوں(۳۲) _

لوٹے ہوئے مال كى واپسي

حضرت عليعليه‌السلام نے مالى امور ميں بھى واضح و روشن راستہ اختيار كيا اس سلسلے مےں آپعليه‌السلام كے سامنے دو اہم مسئلے تھے پہلا تو يہى كہ عثمان كى خلافت كى زمانہ ميں ايك مخصوص گروہ نے بہت دولت جمع كى تھى دوسرا مسئلہ بيت المال كى تقسيم تھا _

حضرت علىعليه‌السلام نے آغاز خلافت ميں جو خطبات ديئے ان مےں اپنى آيندہ كى راہ و روش كو واضح و روشن كر ديا ہے چنانچہ ايك خطبے ميں فرماتے ہيں وہ اراضى جو عثمان نے مخصوص افراد كو ديدى ہے اور وہ ثروت جو اس (عثمان) نے اپنے قرابت داروں ميں تقسيم كر دى ہے اسے بيت المال ميں واپس لا كر جمع كريں گے _ اس كے ساتھ ہى آپ نے عوام كو يہ يقين دلايا كہ بيت المال كى تقسيم ميں مساوات سے كام لينگے _

اميرالمومنين حضرت عليعليه‌السلام نے اپنے خطبے كے ايك حصے ميں يہ بھى فرمايا تھا كہ :

ميں بھى تم ميں سے ايك فرد ہوں اور اور سود و زياں ميں تمہارے ساتھ شريك ہوں ميں تمہارى رہبرى سيرت محمديصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مطابق كرنا چاھتا ہوں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے احكامات كو تم لوگوں كے درميان نافذ و جارى كروں گا ياد ركھو ہر وہ جاگير جو عثمان نے كسى كو دى اور جو بھى مال عوامى ملكيت

۱۰۸

ميں سے كسى كو بخشا تھا وہ واپس بيت المال ميں لايا جائے گا اس مےں خواہ وہ رقم شامل ہو جس سے خواتين كو مہر ادا كيا گيا ہو اور خواہ اس سے كنيزيں خريديں گئيں ہوں كيونكہ عدالت كا دروازہ وسيع ہے اور جس پر عدل و انصاف تنگ ہو گيا ہو اس پر جور و ستم كا ميدان اس سے كہيں زيادہ تنگ كر ديا جائے گا _(۳۳)

اپنے دوسرے خطبے ميں آپعليه‌السلام نے فرمايا تھا كہ '' لوگو ياد ركھو تم مےں سے جس كو دنيا نے نگل ليا ہے اور جنہوں نے املاك و كاشت كى زمين جمع كر لى ہے جن ميں انہوں نے نہريں جارى كر دى ہيں ' سوارى كيلئے تيز رفتار گھوڑے حاصل كر لئے ہيں اور اپنے لئے خوبصورت كنيزيں خريد كر ليں ہيں انہوں نے اپنے اس رنگ و ڈھنگ سے رسوائي و بدنامى مول لى ہے انھيں ميں اس لہو لعب سے جس ميں وہ غوطہ زن ہيں اگر نجات دلانا چاہوں اور تسليم شدہ حق كے كنارے پر انھيں لانا چاہتا ہوں تو وہ ميرے اس عمل پر غضبناك نہ ہوں اور يہ نہ كہيں كہ ابى طالب كے فرزند نے ہميں ہمارے حقوق سے محروم كر ديا ہے ...''

تم سب ہى بندگان خدا ہو اور بيت المال بھى خدا كا ہى مال ہے يہ تم ميں مساوى طور پر تقسيم كيا جائے گا

اس كے بعد آپ نے فرمايا كہ ميرے پاس بيت المال كا كچھ حصہ موجود ہے تم سب ميرے پاس آكر اپنا حصہ لے لو چاہے عرب ہو يا عجم ' وظيفہ دار ہو يا غير وظيفہ دار_(۳۴)

اس طرح حضرت علىعليه‌السلام نے نہايت تيزى كے ساتھ قطعى طور پر ناروا عصبيت اور امتيازات كا خاتمہ كر ديا _

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے ايك اقدام سے اس جماعت كے اثر و رسوخ كا قلع قمع كر ديا جو عثمان كى خلافت كے دوران ابھرى تھى عثمان نے انھيں كثير مال و دولت اور جاگير سے نواز تھا حضرت عليعليه‌السلام نے اس مال و جاگير كو بيت المال ميں جمع كر ديا _(۳۵)

۱۰۹

بدعنوانيوں ميں ملوث دولتمندوں كى رخنہ اندازي

بيت المال كى مساويانہ تقسيم كے باعث محرومين اور مستضعفين كو جس قدر خوشى و مسرت ہوئي اتنا ہى صدمہ ان چند مغرور افراد كو پہنچا جنہيں جاہ طلبى كى ہوا و ہوس تھى _ انہيں چند سال ميں چونكہ جو رو ستم كركے كئي گنا زيادہ تنخواہيں نيز وظائف لينے كى عادت ہوگئي تھى اس لئے حضرت علىعليه‌السلام كى مساويانہ روش تقسيم مال سے جب وہ دچار ہوئے تو انہيں سخت پريشانى ہوئي_

ايك روز وليد بن عقبہ اس جماعت كے نمايندے كى حيثيت سے حضرت علىعليه‌السلام كے پاس آيا اور كہنے لگا كہ اے ابوالحسن اگر چہ ہم (بنى عبد مناف) بھى آپ كے بھائيوں ميں سے اور آپ جيسے ہى ہيں ليكن آپ نے تو ہم پر ظلم وستم ہى بپا كرديا ہم اس شرط پر آپ كى بيعت كرنے كو تيار ہيں كہ وہ مال و متاع جو ہم نے عثمان كے عہد خلافت ميں جمع كيا ہے وہ آپ ہم سے واپس نہ ليں اور ان كے قاتلوں كو ہلاك كرديں ليكن ہمارے مفادات كو كوئي خطرہ ہوا اور آپ كے رويے سے ہم خوفزدہ ہوئے تو ہم آپ سے عليحدہ ہو كر شام كى جانب كوچ كرجائيں گے_

يہ سن كر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : تم جو يہ كہہ رہے ہو كہ ميں نے ظلم وستم كيا ہے (اور ميرے اس اقدام كو ظلم وستم سے تعبير كياجاسكتا ہے)تو يہ ظلم حق و انصاف كى جانب سے ہوا ہے اور يہ كہ وہ مال جو تمہارے پاس ہے اسے ميں نظر انداز كردوں تو ميں ايسا نہيں كرسكتا كيونكہ حق خدا كو پائمال ہوتے ہوئے ديكھ كر ميں چشم پوشى نہيں كرسكتا اب يہ مال خواہ تمہارے چنگل ميں ہو يا كسى اور شخص كے_(۳۶)

جب اس جماعت كے سردار كو يقين ہوگيا كہ وہ گفتگو يا دھمكى كے ذريعے اپنا مدعى حاصل نہيں كرسكتے تو انہوں نے اپنى پورى قوت سے حضرت علىعليه‌السلام كى قائم كردہ نو بنياد حكومت كى بيخ كنى شروع كردى اور اس كے خلاف بر سر پيكار ہوگئے_

اس بارے ميں عمرو بن عاص نے معاويہ كو لكھا تھا كہ جو بھى فيصلہ كيا ہے اس پر جلد ہى عمل كيجئے كيونكہ جس طرح لكڑى كے اوپر سے چھال اتارلى جاتى ہے ابى طالب كا فرزند اسى طرح اس مال و دولت كو جوتمہارے پاس ہے ، تمہارے تن سے اتروائے گا_

۱۱۰

سوالات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر عوام نے كس طرح بيعت كى مختصر طور پر وضاحت كيجئے؟

۲_ كيا كچھ لوگوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے سے كنارہ كشى كي؟ اگر ايسا كيا تو كيوں ؟

۳_ جب عوام نے حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كى تو قريش كيوں مضطرب وپريشان ہوئے؟

۴_ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كى خصوصيات بيان كيجئے؟

۵_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ابتداء ميں لوگوں كے اصرار كے باوجود كيوں خلافت كى زمامدارى قبول كرنے سے مثبت جواب نہيں ديا؟

۶_ جب حضرت علىعليه‌السلام نے خلافت كى زمامدارى قبول فرمائي تو آپ كى نظر ميں كون سے كام مقدم اور فورى انجام دينے كے تھے؟

۷_ عثمان كے عہد سے وابستہ حكام كو معزول يا بحال ركھے جانے كے كيا اسباب تھے ، اس كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كے نظريات بيان كيجئے؟

۸_ حضرت علىعليه‌السلام كى مالى روش سے مال اندوز لوگ كيوں غضبناك ہوئے اس كا سدباب كرنے كےلئے انہوں نے كيا اقدام كيا ؟

۱۱۱

حوالہ جات

۱_ لا حاجة لى فى امركم فمن اخترتم رضيت بہ

۲_ كامل ابن اثير ج /۱۹۰۳ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۷ تاريخ ابى الفداء ج ۱ /۱۷

۳_ لا تفعلوا فانى اكون وزيراً خيرا من ان اكون اميراً

۴_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۰، انساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۰۹ ، تاريخ ابى الفداء ج ۱/ ۱۷۱

۵_ نہج البلاغہ خ شقشقيہ (خ ۳)

۶_فما راعنى الا والناس كعرف الضبع الى ينشا لون علَّى من كل جانب حتى لقد وطى الحسنان و شق عطفاى مجتمعين حولى كربيضة الغنم

۷_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۸ كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۳

۸_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۸ كامل ابن اثير ج ۳/۱۹۳

۹_ نہج البلاغہ خ ۲۲۹

وبلغ سرور الناس ببيعتهم اياى ان ابتهج بها الصغير و هدج اليها الكبير وكامل نحوها العليل وحسرت اليها الكعاب

۱۰_ تاريخ يعقوبى ج۲/ ۱۷۹

۱۱_ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۷۹

۱۲_ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۷۹

۱۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۱/ ۱۱۴

۱۴_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۳

۱۵_ تاريخ ابى الفداء ج ۱/ ۱۷۱

۱۶ _ استيعاب ج ۳/ ۵۵ ''اولئك قوم قعدوا عن الحق ولم يقوموا مع الباطل''

۱۷_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۳

۱۸_ تاريخ ابى الفداء ج۱/۱۷۱ ، الانساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۰۷

۱۱۲

۱۹_ عثمان خود بھى مذكورہ شورى كے ركن تھے اور انہوں نے خود بھى اپنى خلافت كے حق ميں رائے دى _

۲۰_انساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۰۷، تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۸

۲۱_ ملاحظہ ہو خطبات ۲۲۹، ۱۳۷

۲۲_ نہج البلاغہ خ ۹۲

دعونى والتمسوا غيرى فانا مستقبلون امراً له وجوه والوان لا تقوم له القلوب ولا تثبت عليه العقول وان الافاق قداغاقت والمحجة تنكرت

۲۳_ نہج البلاغہ خ ۳۳

۲۴_ نہج البلاغہ خ ۵

۲۵_ نہج البلاغہ خ ۳

اما والذى فلق الحبة وبرى النسمة لولا حضور الحاضر وقيام الحجة بوجود الناصر وما اخذ الله على العلماء ان يقاروا على كظة ظالم و لا سغب المظلوم لا لقيت حبلها على غاربها و لسقيت آخرها بكا س اولها _

۲۶_ واللہ لا اداہن فى دينى _ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۵_ ۳۵۴، كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۷ _ تاريخ طبرى ج ۴ / ۴۴۰

۲۷_ نہج البلاغہ مكتوب ۶۲

۲۸_ تاريخ يعقوبى ج ۲ / ۱۷۹

۲۹_لا والله لا استعمل معاوية يومين ابداً كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۷ ، مروج الذہب ج ۲/ ۲۵۶ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۱

۳۰_لا والله لا اعطيه الا السيف ، كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۷ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۴

۳۱_ مذكورہ خط كا متن ان كتابوں ميں ملاحظہ ہو : شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۳۰ تاريخ التواريخ ج ۱/ ۳۸ ، انساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۱۱ درسيرہ ائمہ اثنى عشرى ج ۱/ ۴۴۲

۳۲_الذليل عندى عزيز حتى آخذ الحق له ، والقوى عندى ضعيف حتى آخذ الحق منه _

۱۱۳

نہج البلاغہ خ ۳۷

۳۳_ ثورة الحسينعليه‌السلام للمہدى شمس الدين ۵۷، شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۶۹ ، نہج البلاغہ خ ۱۵ (يہ قول مختصر ترميم كے ساتھ نقل كيا گيا ہے)

۳۴_ شرح ابن ابى الحديد ج ۷/ ۳۷

۳۵_ اس واقعے كى تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو مروج الذہب ج ۲/ ۲۵۳ ، شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۳ / ۲۱۵

شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۷۰ فى ظلال نہج البلاغہ ج ۱/ ۱۳۰ ، شرح نہج البلاغہ بحرانى ج ۱/ ۲۹ اور سيرہ الائمہ مصنفہ علامہ سيد محسن امين ج ۱/ جزء دوم /۱۱

۳۶_ شرح ابن ابى الحديد ج ۷/ ۳۹_ ۳۸

۳۷_ ''ماكنت صانعاً فاصنع اذ قشرك ابن ابى طالب من كل مال تملكہ كما تقشر عن العصا لحاہا '' شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۷۰ ، شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۳/ ۲۱۵ ، الغدير ج ۷/ ۲۸۸

۱۱۴

چھٹا سبق

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۲

ناكثين (حكومت علىعليه‌السلام كى مخالفت)

موقف ميں تبديلي

مكہ ميں مخالفين كا جمع ہونا

سپاہ كے اخراجات

عراق كى جانب روانگي

سپاہ كى جانب عثمان بن حنيف كے نمايندوں كى روانگي

پہلا تصادم

دھوكہ و عہد شكني

جمل اصغر

سردارى پر اختلاف

خبر رساني

سوالات

حوالہ جات

۱۱۵

ناكثين(حكومت علىعليه‌السلام كى مخالفت)

حضرت علىعليه‌السلام نے ايك خطبے ميں حكومت كے مخالفين كو تين گروہوں ميں تقسيم كيا ہے _

(۱) _ وہ يہ ہيں :

اصحاب جمل : جنہيں آپعليه‌السلام نے ناكثين كے نام سے ياد كيا ہے_

اصحاب صفين : انہيں آپعليه‌السلام نے قاسطين كہا ہے اور

اصحاب نہروان : (خوارج_ جو مارقين كہلائے ہيں )

ناكثين كى ذہنى كيفيت يہ تھى كہ وہ انتہائي لالچى ' زرپرست اور امتيازى سلوك روا ركھنے كے طرفدار تھے _ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام نے جہاں كہيں عدل و مساوات كا ذكر كيا ہے وہاں آپعليه‌السلام كى توجہ بيشتر اسى گروہ كى جانب رہى ہے_

''قاسطين'' كا تعلق ''طلقائ(۲) '' كے فرقہ سے تھا اس گروہ كى تشكيل ميں بعض فراري، بعض حكومت سے ناراض اورعثمان كے كارندے شامل تھے _ يہ لوگ ذہنى طور پر حيلہ گر اور نفاق پسند تھے_ وہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كا زوال چاہتے تھے تاكہ حكومت ان كے دست اختيار ميں آجائے_

تيسرے گروہ كى اخلاقى حالت يہ تھى كہ وہ ناروا عصبيت كے قائل تھے ، ذہنى خشكى كو تقدس تصور كرتے تھے اور ان كى جہالت خطرناك حد تك پہنچ گئي تھي_

يہاں ہم اختصار كو مد نظر ركھتے ہوئے ان گروہوں كا تعارف كراتے ہوئے انكى حيثيت كا

۱۱۶

جائزہ ليں گے اور يہ بتائيں گے كہ ان ميں سے ہر گروہ نے حضرت على عليه‌السلام كى حكومت كے خلاف كيا كيا كارگزارياں كيں _

ناكثين

طلحہ وزبير كى عرصہ دارز سے يہ آرزو تھى كہ وہ اس مقام پر پہنچيں جہاں سے عالم اسلام پر حكمرانى كرسكيں _ عثمان كے قتل كے بعد رائے عامہ حضرت علىعليه‌السلام كى جانب اس بناپر متوجہ ہوگئي كہ انہوں نے آپعليه‌السلام كو ہى عہدہ خلافت كے لئے شايستہ ترين انسان سمجھا_ چنانچہ جب وہ لوگ اقتدار سے نااميد ہوگئے تو حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے پيش پيش رہے اور بظاہر سب پر سبقت لے گئے_

حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت ميں سبقت لے جانے كى وجہ يہ تھى كہ وہ چاہتے تھے كہ اپنے اس اقدام سے خليفہ وقت كو اپنى جانب متوجہ كريں تاكہ اس طريقے سے وہ اپنے مقاصد تك پہنچ سكيں _ ليكن ان كى توقع كے خلاف اميرالمومنينعليه‌السلام نے انكے ساتھ ديگر تمام مسلمين كى طرح يكساں سلوك روا ركھا اور اس طرح ان كى تمام حسرتوں پر پانى پھرگيا_

يعقوبى نے لكھا ہے كہ طلحہ اور زبير اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے پاس آئے اور كہا كہ پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد ہم سے بہت زيادہ ناانصافى كى گئي ہے ، اب آپ ہميں خلافت كى مشينرى ميں شريك كرليجئے_

اس پر اميرالمومنين علىعليه‌السلام نے فرمايا : قوت و پايدارى ميں تو تم ميرے ساتھ شريك ہوہى شدائد اورسختيوں ميں بھى تم ميرے ساتھ رہو(۳) _ حضرت علىعليه‌السلام كے اس اقدام سے يہ دونوں حضرات ايسے برگشتہ ہوئے كہ انہوں نے دستگاہ خلافت سے عہد شكنى كا فيصلہ كرليا اور آخر كا اس كا انجام جنگ ''جمل'' كى صورت ميں رونما ہوا_

برگشتگى كا دوسرا عامل يہ تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے بيت المال كو تمام مسلمانوں كے

۱۱۷

درميان مساوى تقسيم كيا _ اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام كا يہ رويہ طلحہ اور زبير كے لئے ناقابل برداشت تھا _ انہوں نے زبان اعتراض دراز كى اور بيت المال ميں سے اپنا حصہ بھى نہيں ليا_

حضرت علىعليه‌السلام نے انہيں اپنے پاس بلايا اور فرمايا : كيا تم ميرے پاس اس مقصد كے لئے نہيں آئے تھے كہ زمام خلافت كو ميں اپنے دست اختيار ميں لے لوں درحاليكہ مجھے اس كا قبول كرنا ناپسند تھا ؟ كيا تم نے اپنى مرضى سے ميرے ہاتھ پر بيعت نہيں كى ؟ اس پر انہوں نے جواب ديا كہ : ہاں اس ميں ہمارى مرضى شامل تھى _ يہ سن كر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا تو تم نے مجھ ميں كون سى بات ديكھى جو اعتراض شروع كرديا اور ميرى مخالفت پر اتر آئے ؟ انہوں نے جواب ديا كہ ہم نے اس اميد پر بيعت كى تھى كہ خلافت كے اہم امور ميں آپ كے مشير رہيں گے_ اب ديكھتے ہيں كہ آپ نے ہمارے مشورے كے بغير بيت المال كو مساوى تقسيم كرديا جو چيز ہمارى رنجيدگى كا سبب ہوئي ہے وہ يہ ہے كہ آپ عمر كى روش كے خلاف جارہے ہيں وہ بيت المال كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ كارناموں كو ملحوظ خاطر ركھتے تھے _ ليكن آپ نے اس امتياز سے چشم پوشى كى جو ہميں حاصل ہے آپ نے ہميں ديگر مسلمانوں كے برابر سمجھا ہے جب كہ يہ مال ہمارى جانبازى كے ذريعے شمشير كے بل پر حاصل ہواہے_

يہ سن كر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : امور خلافت ميں جہاں تك مسئلہ مشورت كى بات ہے تو مجھے خلافت كى كب چاہ تھى اس كى جانب آنے كى تم نے ہى مجھے دعوت دى تھى مجھے چونكہ مسلمانوں كے باہمى اختلافات اور ان كے منتشر ہوجانے كا خوف تھا اسى لئے اس ذمہ دارى كو قبول كرليا جب بھى كوئي مسئلہ ميرے سامنے آيا تو ميں نے حكم خدا كو اور سنت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب رجوع كيا اور اس كا حل تلاش كرليا _ اسى لئے اس معاملے ميں مجھے تمہارے مشورے كى ضرورت پيش نہ آئي _ البتہ اگر كسى روز ايسا معاملہ پيش آيا جس كا حل قرآن اور سنت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ذريعے نہ نكل سكے تو مجھے تمہارے مشورے كى ضرورت محسوس ہوگى ، تو تم سے ضرور مشورہ كروں گا_

رہا بيت المال كا مسئلہ تو يہ بھى ميرى اپنى خصوصى روش نہيں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ميں

۱۱۸

نے ديكھا ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بيت المال كو مساوى تقسيم كيا كرتے تھے_

اس كے علاوہ اس مسئلے كے بارے ميں بھى قرآن نے حكم ديا ہے كہ يہ كتاب اللہ آپ كے سامنے ہے اس ميں كوئي غلط بات درج نہيں ہے يہ كتاب ہميں مساوات و برابرى كى دعوت ديتى ہے اور اس نے ہر قسم كے امتيازى سلوك كو باطل قرار ديا ہے_

يہ كہنا كہ بيت المال آپ كى شمشير كے زور پر ہاتھ آيا ہے تو اس سے پہلے بھى ايسے لوگ گذرے ہيں جنہوں نے جان ومال سے اسلام كى مدد كى ہے_ ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بيت المال كى تقسيم ميں كسى كے ساتھ امتيازى سولك روانہ ركھا_(۴)

طبرى لكھتا ہے كہ : جب طلحہ ہر قسم كے امتيازى سلوك سے مايوس و نااميد ہوگيا تو اس نے يہ مثل كہى : ہميں اس عمل سے اتنا ہى ملا ہے جتنا كتے كو سونگھنے سے ملتا ہے_ ۵)

ايك طرف تو طلحہ اور زبير اس بات سے مايوس ونااميد ہوگئے كہ انہيں كوئي مقام و مرتبہ ملے گا اور ان كے ساتھ امتيازى سلوك روا ركھا جائے گا اور دوسرى طرف انہيں يہ اطلاع ملى كہ عائشہ نے حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف مكہ ميں پرچم لہراديا ہے _ چنانچہ انہوں نے فيصلہ كيا كہ مكہ كى جانب روانہ ہوں اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام كے پاس آئے اور كہا كہ ہم عمرہ كى غرض سے آپ كى اجازت كے خواہاں ہيں _

ان كے جانے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے دوستوں سے فرمايا كہ : خدا كى قسم ان كا ارادہ ہرگز عمرہ كا نہيں بلكہ ان كا مقصد عہد شكنى اور خيانت ہے_(۶)

موقف ميں تبديلي

عائشہ كو پہلے دو خلفاء كے دور ميں جو مراعات حاصل تھيں ان سے وہ عثمان كے عہد آخر خلافت ميں محروم كردى گئيں چونكہ وہ ان كى حكومت سے عاجز و پريشان تھيں اسى لئے انہوں نے عثمان كے خلاف پرچم شورش لہراديا نيز زور بيان اور اپنى رفتار كے ذريعے اس نے مسلمانوں كو

۱۱۹

خليفہ وقت كے خلاف شورش و سركشى كى دعوت دي_ (۷)

شعلہ شورش كو ہوا دينے كے باعث وہ خود كو اپنے مقصد ميں كامياب محسوس كر رہى تھى اس لئے وہ مكہ كى جانب روانہ ہوگئيں اور ہر لمحہ عثمان كے قتل نيز مسلمين كا طلحہ كے ہاتھ پر بيعت كرنے كا انتظار كرنے لگيں _

جس وقت عثمان كے قتل كى خبر انہيں ملى تو انہوں نے كہا كہ : خدا اس كو غارت كرے اپنے ان كرتوتوں سے ہى تو مارا گيا ، خداوند تعالى اپنے بندوں پر ظلم نہيں كيا كرتا _(۸) عثمان كے قتل كے بعدانہوں نے مسلمانوں سے كہا كہ وہ عثمان كے مارے جانے كے باعث پريشان خاطر نہ ہوں اگر وہ مارے گئے تو كيا ہوا مقام خلافت كے لئے بہترين اور لائق ترين شخص طلحہ تو تمہارے درميان موجود ہيں ان كے ہاتھ پر بيعت كرو اور تفرقہ سے دور رہو_

اپنے اس بيان كے بعد وہ بڑى تيزى سے مدينہ كى جانب روانہ ہوئيں انہيں اطمينان تھا كہ عثمان كے بعد منصب خلافت طلحہ كے ہاتھ آجائے گا ، اسى لئے راستے ميں خود ہى گنگنارہى تھى كہ : ميں گويا اپنى آنكھوں سے ديكھ رہى ہوں كہ لوگ طلحہ كے ہاتھ پر بيعت كر رہے ہيں ميرى سوارى كو تيز ہانكو تاكہ ميں ان تك پہنچ جائوں _(۹)

عبيد بن ام كلاب مدينہ سے واپس آرہے تھے راستے ميں ان سے ملاقات ہوگئي ، انہوں نے مدينہ كى حالت ان سے دريافت كى عبيد نے ان سے كہا كہ عوام نے عثمان كو قتل كرديا ، آٹھ روز تك وہ يہ فيصلہ نہ كرسكے كہ كيا كريں _ عائشہ نے دريافت كيا كہ اس كے بعد كيا ہوا؟ انہوں نے كہا كہ : الحمدللہ كام بحسن و خوبى تمام ہوا اور مسلمانوں نے ايك دل اور ايك زبان ہوكر علىعليه‌السلام بن ابى طالبعليه‌السلام كو منتخب كرليا _

عائشہ نے يہ خبر سننے كے بعد كہا خدا كى قسم اگر خلافت كا فيصلہ علىعليه‌السلام كے حق ميں ہوا ہے تو اب آسمان زير و زبر ہوجائيں گے مجھے يہاں سے واپس لے چلو فوراًمجھے يہاں سے لے چلو(۱۰)

چنانچہ وہ وہيں سے مكہ كى جانب روانہ ہوگئيں ليكن اب انہوں نے اپنا نظريہ بدل ديا تھا اور يہ

۱۲۰

۸۔تعمیر قبور

وہابیوں کا نظریہ اور ان کے فتاوٰی کے نمونے

قبور کی تعمیر کے شریعت میں جائز ہونے پر بہترین دلیل بیت المقدس کے اطراف میں انبیائے الہی کی قبور کا موجود ہونا ہے اور مسلمانوں کے تمام فرقے بھی ہر زمانے میں اسی پر عمل پیرا رہے ہیں۔ لیکن وہابی قبور پر عمارت ، گنبد، ان کے تعمیر اور چونا کرنے کو شرک وکفر اور ان کے ویران کرنے کو واجب سمھتے ہیں ۔

۱۔ صنعانی کہتا ہے :

مقبرہ بت کے مانندہے اس لئے کہ جو کام زمانہ جاہلیت میں لوگ بتوں کے لئے انجام دیتے تھے وہی کام (قبوریون یعنی قبروں کے پجاری) اولیائے خدا کی قبروں اور مقبروں کے لئے انجام دیتے ہیں( ۱ )

۲۔ ابن تیمیہ کاشاگرد ابن قیم کہتا ہے :

قبور کے اوپر بنائی گئی عمارات کا نابود کرنا واجب ہے جو بتوں اور طاغوتوں کے عنوان سے پرستش کی جاتی ہیں ۔ ان کو خراب کرنے کی طاقت رکھنے کے بعد ایک دن کے لئے بھی تاخیر جائز نہیں ہے ۔ چونکہ یہ عمارات دوبتوں لات وعزی کی طرح ہیں۔ اور وہاں پر بد ترین شرک آلودہ اعمال انجام دیئے جاتے ہیں۔( ۲ )

۳۔ علمائے مدینہ سے منسوب جواب میں یوں بیان ہواہے:

قبور کے اوپر عمارت بنانے کا ممنوع ہونا اجماعی ہے جس کی ممنوعیت پر صحیح احادیث دلالت کررہی ہیں ۔ اسی وجہ سے بہت سے علماء نے ان کے خراب اور ویران کرنے کا فتوی دیا ہے ۔ وہ اس فتوی میں (ابو

____________________

۱۔کشف الارتیاب :۲۸۶، بہ نقل از تطھیر الاعتقاد صنعانی

۲۔زاد المعاد ۳:س۵۰۶.

۱۲۱

الھیاج ) کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جو اس نے حضرت علی سے نقل کی کہ علی بن ابیطالب

علیہ السلام نے اس سے فرمایا:الا ان ابعثک علی ما بعثنی علیه رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ان لا تدع تمثالا الا طمسته ولا قربا مشرفا الا سویته

آگاہ رہو ! میں تمہیں ایسے کام پر مامور کررہا ہو جس پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے مامور کیا تھا کسی تصویر کو نہ چھوڑنا مگر یہ کہ اسے محو کردینا اورجو قبر بلند نظر آئے اسے زمین کے برابر کردینا۔( ۱ )

اس فتوی کا رد

ہم اس فتوی کے جواب میں کہتے ہیں۔

وہ اجماع جسے وہابی بیان کرتے ہیں مردود ہے بلکہ اس فتوی کے خلاف ایسے عمل کے جائز ہونے پر اجماع موجود ہے ۔ وہابی فرقہ کی پیدائش سے پہلے تمام مذاہب کے مسلمانوں کی ہر زمانہ میں یہی سیرت رہی ہے ۔

اس بارے میں صنعانی کا سیرت کا اعتراف کرنا ہمارے نظریہ کی تایید کررہا ہے ۔ا س نے اپنی کتاب (تطھیر الاعتقاد ) میں ایک سوال کی صورت میں اس بارے میں لکھا ہے ۔

اس سیرت نے شرق وغرب عالم کے تمام شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہاں تک کہ اسلامی ممالک کا کوئی ایسا نقطہ نہیں ہے کہ وہاں پہ قبر یا مقبرہ نہ ہو یہاں تک کہ مسلمانوں کی مساجد بھی قبروں سے خالی نہیں ہیں۔ او رکوئی عقل مندیہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے کہ یہ عمل حرام ہے ۔ علمائے اسلام بھی اس بارے میں ساکت ہیں۔

اس کے بعد صنعانی کہتا ہے ۔ اگر انصاف سے کام لیں او رسلف کی پیروی سے کنارہ کش ہوجائیں تو

____________________

۱۔کشف الارتیاب :۲۸۸.

۱۲۲

جان لیں گے کہ حق وہی ہے جو دلیل کے ساتھ ثابت ہوچکا ہے نہ کہ ہر نسل کا اتفاق واجماع ۔ لہذا یہ امور جو عوام انجام دیتے ہیں ۔ یہ اپنے آباء واجداد کی تقلید او ربدون دلیل ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ اپنے آپ کو اہل علم کہلواتے ہیں یا منصب قضاوت ، فتوی اور تدریس پر فائز ہیں۔ یا حکومت میں امیر ورئیس ہیں لیکن عمل عوام کی طرح انجام دیتے ہیں۔

البتہ کسی مجہول چیز کے رواج میں علماء یا عالم کا سکوت کرنا اس کے جواز کی دلیل نہیں ہے ۔

صنعانی نے اپنے اس کلام میں اس سیرت کے عوام وعلماء کے تمام طبقوں میں پائے جانے کا اعتراف کیا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف یہ کہہ رہا کہ حق وہی ہے جو دلیل سے ثابت ہوچکا ہے ۔ ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ کیا ہر نسل میں امت کے اتفاق سے بڑھ کر کوئی دلیل ہوسکتی ہے ؟

اس حدیث پر اعتراض

قابل ذکر ہے کہ جس حدیث سے وہابی استناد کرتے ہیں چند اعتبار سے قابل اعتراض ہے:

۱۔ کسی حدیث کا وہابیوں کے نزدیک صحیح ہونا یا اس کی مخالفت میں کسی حدیث کا نہ پایا جانا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ وہ حدیث دوسروں کے نزدیک بھی صحیح ہو لہذااس موضوع پر اجماع کے پائے جانے کادعوٰی کرناممکن نہیں ہے

۲۔علمائے مدینہ سے منسوب جواب میں تناقض پایا جاتاہے اس لئے کہ ایک بار یہ کہا جارہا کہ بہت سے علماء نے تخریب قبور کے وجوب کافتوٰی دیاہے تودوسری بار یہ کہاجارہا:حرمت پر دلالت کرنے والی احادیث کے صحیح ہونے پر اجماع موجود ہے

۱۲۳

اگرواقعا اجماع موجود ہے تو پھر تمام علماء نے قبورکی تخریب کے وجوب کافتوٰی کیوں نہ دیا؟

۳۔اس حدیث میں سنداور دلالت دونوں اعتبار سے اشکال موجود ہے.

اس حدیث کی سند میں ایسے افراد موجود ہیں جنہیں علمائے رجال نے ضعیف قرار دیا ہے جن میں سے ایک وکیع بن جرّاح ہے.

عبداللہ بن احمد بن حنبل شیبانی اس کے متعلق کہتے ہیں: میں نے اپنے باپ سے سناوہ کہا کرتے تھے: ابن مہدی کی تصحیف( ۱ ) وکیع کی نسبت زیادہ اور وکیع کے اشتباہات ابن مہدی سے زیادہ ہیں.

وہی دوسرے مقام پر کہتے ہیں : ابن مہدی نے پانچ سو احادیث میں خطا کی ہے.( ۲ )

ابن المدینی کہتے ہیں : وکیع عربی زبان میں مہارت نہیں رکھتا تھا اور اگر اپنے الفاظ میں بیان کرتا تو انسان کو تعجب میں ڈال دیتا.وہ ہمیشہ کہا کرتا: حدّثناالشعبی عن عائشہ( ۳ )

اس حدیث کے راویوں میں سے ایک ابو سفیان ثوری ہے

ذہبی اس کے متعلق کہتے ہیں: سفیان ثوری دھوکے اور فریب کاری سے ضعیف راویوں کو ثقہ اور قابل اعتماد بیان کیا کرتا.( ۴ )

یحیٰی بن معین اس کے بارے میں اظہار نظر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ابو اسحاق کی احادیث میں سفیان سے بڑھ کر کوئی دانا تر نہیں لیکن وہ احادیث میں تدلیس (حدیث میں ایک طرح کا جھوٹ اور اس میں ملاوٹ کرنا ہے )کیا کرتا( ۵ )

اسی حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی حبیب بن ابو ثابت ہے .ابن حبّان حبیب کے

____________________

۱۔لکھنے یا پڑھنے میں کسی بھی قسم کی غلطی کو تصحیف کہاجاتا ہے.

۲۔تہذیب الکمال ۳۰: ۴۷۱.

۳۔میزان الاعتدال ۷:۱۲۷.

۴۔حوالہ سابق.

۵۔الجرح والتعدیل۴: ۲۲۵.

۱۲۴

متعلق کہتے ہیں: وہ حدیث میں تدلیس اور دھوکے سے کام لیا کرتا( ۱ )

ابن خزیمہ ا س کے بارے میں کہتے ہیں: حبیب بن ابو ثابت احادیث میں تدلیس کیا کرتا.( ۲ )

اس حدیث کے راویوں میں سے ایک ابووائل بھی ہے جو دل میں بغض علی علیہ السلام رکھتا تھا ( ۳)جبکہ حدیث معتبر میں رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

یا علی لایحبّک الاّ مؤمن ولا یبغضک الاّ منافق

اے علی ! تجھ سے محبت وہی کرے گا جو مومن ہو گا اور تجھ سے بغض وہی رکھے گا جو منافق ہو( ۴ )

دوسری جانب حدیث کے متن کی بھی تحقیق کی ضرورت ہے چونکہ اس کا راوی تنہا ابو الہیاج ہے لہذا یہ حدیث شاذ کہلائے گی.

جلال الدین سیوطی نے نسائی کی شرح میں لکھا ہے : کتب روایات میں ابوالہیاج سے فقط یہی ایک روایت نقل ہوئی ہے

اورپھر یہ حدیث ان کے مدّعا پر دلالت بھی نہیں کر رہی چونکہ ایک طرف قبر کے زمین کے برابر کرنے کی حکم دے رہی ہے تو دوسری جانب اس کے اوپر والے حصے کے ناہموار ہونے سے منع کر رہی ہے .اس لئے کہ شرف کا معنٰی بلندی ہے. اور لغت میں اونٹ کی کوہان کی بلندی کو کہا جاتا ہے.( ۵ )

____________________

۱۔ تہذیب التہذیب ۲: ۱۵۶.

۲۔حوالہ سابق.

۳۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۴: ۹۹.

۴۔مجمع الزوائد ۹: ۱۳۳.

۵۔القاموس ۳: ۱۶۲.

۱۲۵

اس بنا پر لفظ شرف ہر طرح کی بلندی کو شامل ہو گا جبکہ سوّیتہ کا معنٰی برابر کرنا اس بات پر قرینہ ہے کہ یہاں پر شرف سے مراد اونٹ کی کوہان یا مچھلی کی پشت پرموجود ابھار ہے.

دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اس حدیث میں تین احتمال موجود ہیں:

۱۔ قبروںکے اوپر موجود بلند عمارتوں کو ویران کیا جائے

۲۔ قبروں کو زمین کے برابر کیا جائے

۳۔ جس قبر کے اوپر اونٹ کی کوہان کے مانندابھار موجود ہو اسے برابر کیا جائے

پہلا احتمال مردود ہے اس لئے کہ صحابہ کرام کا عمل اور سیرت مسلمین اس کے خلاف ہے جس کے نمونوں کی طرف اشارہ کر چکے.

نیز دوسرا احتمال بھی باطل ہے چونکہ سنت قطعی قبر کے زمین سے ایک بالشت بلند ہونے پر دلالت کر رہی ہے ۔

تیسر ا احتمال یہ کہ قبر کے اوپر موجود ہر طرح کی ناہمواری اور کجی جواونٹ کی کوہان کی مانند ہو اسے برابر کیا جائے .بعض اہل سنت علماء جیسے عسقلانی اور نووی وغیرہ نے بھی اس روایت کی یہی شرح بیان کی ہے.

نووی کہتے ہیں: قبر کو زیادہ بلند نہیں ہونا چاہئے اور اوپر سے مسنّم( اونٹ کی کوہان کی طرح )نہ ہوبلکہ زمین سے ایک بالشت بلند اور اوپر سے ہموار ہو ۔( ۱ )

قسطلانی قبروں کے ہموار ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ابو الہیاج کی حدیث

____________________

۱۔ المجموع ۵: ۲۹۵اور ۱:۲۲۹.

۱۲۶

سے مراد یہ نہیں ہے کہ قبر زمین کے برابر ہوبلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ قبر کو اوپر سے ہموار ہونا چاہئے( ۱ )

سیرت صحابہ کرام ومسلمین

بیت المقدس کے اطراف میں بہت سے انبیائے الہی کی قبور موجود ہیں جیسے قدس میں حضرت داؤد علیہ السلام کی قبر ، الخلیل میں حضرت ابراہیم ،حضرت اسحا ق، حضرت یعقوب ، حضرت یوسف علیہم السلام کی قبور جن پر بلند عمارات پائی جاتی ہیں.اسلام سے پہلے ان پر پتھر موجود تھے اور جب اسلام نے اس علاقے کو فتح کیا تویہ قبور اسی صورت میں تھیں.( ۲ )

ابن تیمیہ اسی مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے:

شہر الخلیل کی فتح کے دوران صحابہ کرام کی موجودگی میں حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کی قبر پر عمارت موجود تھی مگر یہ کہ اس کا دروازہ ۴۰۰ہجری تک بند رہا۔( ۳ )

بے شک جب حضرت عمر نے بیت المقدس کو فتح کیا تو اس وقت بھی یہ عمارت موجود تھی لیکن اس کے ویران کرنے کا حکم نہیں دیا جبکہ ابن بلہید یہ دعوٰی کررہا کہ مقبروں کا بنانا پانچویں صدی کے بعد رائج ہوا۔

یہ دعوٰی یقینا درست نہیں ہے چونکہ بہت سے مقبروں کا تعلق پہلی ،دوسری یا تیسری صدی سے ہے( ۴ ) جن کے چندایک نمونوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :

____________________

۱۔ ارشادالساری ۲: ۴۶۸.

۲۔کشف الارتیاب :۳۰۶.

۳۔مجموع الفتاوٰی ابن تیمیہ ۲۷: ۱۴۱.

۴۔اخبار المدینة۱: ۸۱.

۱۲۷

۱۔ اس حجرہ شریفہ کی عمارت جس میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدفن ہیں۔

۲۔ حضرت حمزہ علیہ السلام کی قبر پر موجود مسجد کی عمارت۔

۳۔محمد بن زید بن علی علیہ السلام کے گھر میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند ابراہیم کی قبر

۴۔ امیرالمؤمنین حضرت علیہ السلام کا روضہ مبارک جو ۳۷۲ ہجری میں تعمیر ہوا۔( ۱)

۵۔زبیر کا مقبرہ جو ۳۸۶ ہجری میں تعمیر کروایا گیا.( ۲ )

۶۔حضرت سعد بن معاذ کا مقبر ہ جو دوسری صدی ہجری میں بنا.( ۳ )

۷۔ ۲۵۶ ہجری میں امام بخاری کی قبر پر ضریح کا بنا کر رکھا جانا.( ۴ )

صحابہ کرام اور تابعین کے زمانہ میں مقبروں کی تعمیر نو

ہم اس موضوع کا آغاز اس سوال سے کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اگر واقعا مقبروں اور روضوںکابنانا حرام ہے تو پھر صحابہ کرام نے روضہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کیوں نہ گرایا جس کی عمارت اب بھی موجودہے؟

اور پھر جس گھر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دفن کیا گیا تھا اس میں دیوار نہیں تھی اور سب سے پہلے جس نے دیوار بنوائی وہ حضرت عمر بن خطاب تھے ۔( ۵ )

ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ حضرت عائشہ نے اس گھر میں اپنے اور قبور کے درمیان دیوار

____________________

۱۔سیر اعلام النبلاء ۱: ۲۵۱.

۲۔المنتظم ۱۴:۳۷۷.

۳۔ سیر اعلام النبلاء ۱۳: ۲۸۵.

۴۔ الطبقات الشافعیة الکبرٰی۲: ۲۳۴.

۵۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۲: ۵۴۱.

۱۲۸

بنوائی اور پھر وہیں پہ نماز بھی پڑھا کرتی تھیں۔

عبداللہ بن زبیر نے اپنے دور حکومت میں قبر مبارک پر عمارت بنوائی جو کچھ عرصہ بعد خراب ہو گئی اور پھر متوکل عباسی کے زمانے میں اس عمارت پر سنگ مرمر لگائی گئی۔

صحابہ کرام اور دیگر افراد کی قبور

۱۔ دوسر ی صد ی ہجری میں ہارون الرشید نے امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہما السلام کی قبر مبار ک پر گنبد بنوایا۔( ۱)

۲۔ ۲۳۰ ہجری میں نہشل بن حمید طوسی نے معروف شاعر ابو تمام حبیب بن اوس طائی کا مقرہ بنوایا( ۲ )

۳۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ۳۶ ہجری میں وفات پائی .خطیب بغد ادی لکھتے ہیں: ان کی قبر اب بھی ایوان کسرٰی کے قریب موجود ہے اس پر مقبرہ بنا ہوا ہے( ۳ )

۴۔ ابن بطوطہ ، طلحہ بن عبید اللہ ( جو اپنے زمانہ کے امام حضرت علی علیہ السلام کے خلاف جنگ کرتے ہوئے مار اگیا تھا ) کے مقبرہ کے متعلق کہتے ہیں:

اس کی قبر شہر کے اندر موجود ہے اور اس پر گنبد بنا ہوا ہے ۔( ۴ )

۵ ۔ ۲۰۴ ھ میں امام شافعی کی وفات ہوئی ،ذہبی نے لکھا ہے:ملک کامل نے شافعی کی قبر پر گنبد بنوایا (

۶۔ ذہبی کہتے ہیں: ۲۳۶ ھ میں متوکل عباسی نے یہ حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام کی قبر اور اس کے

____________________

۱۔سیر اعلام النبلاء ۱۶: ۲۵۱.

۲۔شذرارت الذہب ۲:۷۴.

۳۔ تاریخ بغداد ۱: ۱۶۳.

۴۔ سفر نامہ ابن بطوطہ ۱: ۲۰۸.۔

۵۔ دول الاسلام : ۳۴۴.

۱۲۹

اطراف میں موجود عمارتوں کو ویران کیا جائے ۔جب اس کے حکم پر عمل درآمد ہو گیا تو مسلمان غمگین ہوئے اور اہل بغداد نے مساجد اور شہر کی دیواروں پر اس کے خلاف نعرے لکھے اور شعراء نے اپنے اشعار میں اس کی مذمت کی ...۔( ۱ )

البتہ طول تاریخ اور تاریخی وقائع میں اس کے بہت زیادہ نمونے واضح طور پر پائے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کی زندگی میں ان کی یہی سیرت رہی ہے کہ قبروں کے اوپر عمارات تعمیر کرواتے اور یہ سیرت وہابیوں کے افکار سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ لیکن اس کے باوجود اکرم البوشی جیسا شخص ذہبی کی کتاب سیر اعلام النبلائ) کے حاشیہ پر ان تاریخی حقائق کے ذیل میں لکھتاہے :

یہ سب مسلمان عوام کے خود ساختہ امور ہیں جو اس بارے میں کسی قسم کی آگاہی نہیں رکھتے اور یہ اعمال بدعت ہیں جن سے نہی کی گیٔ ہے۔

خدا وند متعال کا شکر ہے کہ اکرم البوشی نے یہ نہیں کہا : کہ یہ شیعوں کا کام ہے بلکہ کہا : (مسلمان عوام کا کام ہے ۔ ہاں ! گویا خود کو خواص میں سے سمجھتاہے اور باقی مسلمانوں کوعوام !

ابو زبیر کی حدیث سے استناد

وہابیوں نے اپنے مدعاکے اثبات کے لیٔے ابو زبیر کی روایت سے استناد کیا ہے ابوزبیر کہتاہے :

نهی رسول الله ان یجصص القبر وأن یقعد علیه وأن یبنی علیه

رسولخدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے قبروں کو چونا کرنے، ان کے پاس بیٹھنے یا ان پر مقبرہ تعمیر کرنے

سے نھی فرمائی ہے ۔

____________________

۱۔مآثر الانافة فی معالم الخلافة ،قلقشندی ۱: ۱۲۰.

۱۳۰

البتہ یہ حدیث چند واسطوں سے نقل ہوئی ہے ۔ مسلم ، ترمذی ، ابن ماجہ ، نسائی ، ابوداؤد اور احمدبن حنبل نے عبارت میں تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ اسے نقل کیا ہے ۔( ۱ )

اس حدیث پر اعتراضات

اس حدیث میں بھی سند اور دلالت کے اعتبار سے اشکال موجود ہے ۔

۱۔اس حدیث کی سند میں ابن جریج ، ابوزبیر ، حفص بن غیاث اور محمد بن ربیعہ جیسے راوی موجود ہیں جن کے بارے میں اہل سنت علمائے رجال نے شک وتردید کا اظہار کای ہے ۔ انہی راویوں میں سے ایک ابن جریج ہے ۔ احمد بن حنبل اس کے بارے میں کہتے ہیں : اگر ابن جریج کہے کہ فلاں وفلاں نے یوں کہا ہے تو وہ منکر ومجھول احادیث کو نقل کررہاہے ابن حبان نے بھی اسے اہل تدلیس قرار دیا ہے ۔( ۲ )

اس کا دوسرا راوی ابوزبیر ہے جس کے بارے میں نعیم بن حماد کا کہنا ہے : میں نے ابن عیینہ سے سنا ہے کہ وہ ابوزبیر کو حدیث کے نقل کرنے میں ضعیف قرار دیا کرتے ۔

عبدالرحمان بن ابوحاتم نے اس کے بارے میں اپنے والد سے سوال کیا تو ابوحاتم نے کہا : ابو زبیر کی احادیث لکھی جائیں گی لیکن ان سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔( ۳ )

اس حدیث کا ایک اور راوی حفص بن غیاث ہے ۔ یعقوب بن شعبہ حفص کی نقل کردہ روایات کے بارے میں کہتے ہیں : اس کے بعض محفوظات کے بارے میں احتیاط سے کام لیاجائے۔

داؤد بن رشید نے اس کے بارے میں یوں اظہار نظر کیاہے وہ کہتے ہیں : حفص بہت زیادہ

____________________

۱۔صحیح مسلم ۲:۶۶؛سنن ترمذی ۳:۳۶۸؛سنن ابن ماجہ۱:۴۹۸؛سنن نسائی ۴:۸۸؛سنن ابی داؤد۳:۲۱۶؛ مسند احمد ۳:۲۹۵.

۲۔تہذیب الکمال ۱۸:۳۴۸؛ تہذیب التہذیب ۶: ۳۵۷.

۳۔تہذیب الکمال ۲۶:۴۰۷.

۱۳۱

اشتباہ کیا کرتا۔( ۱ )

وہابی کسطرح ان احادیث پر بھروسہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی تکفیر اور ان کا خون مباح قرار دیتے ہیں جن کی سند میں اس قدر فراوان اشکالات پائے جاتے ہیں ۔

۲۔ دلالت کے اعتبار سے بھی اس حدیث میں مشکل پائی جاتی ہے ۔

اولا: یہ حدیث یہ کہہ رہی ہے : (رسولخدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے قبروں کوچونا کرنے ، ان کے پاس بیٹھنے اور ان پر عمارت تعمیر کرنے سے نہی فرمائی ہے جب کہ نہی ہمیشہ حرمت پر دلالت نہیں کرتی بلکہ بسا اوقات کراہت پر دلالت بھی کرتی ہے جس کے نمونے بکثرت موجود ہیں اور یہی کثرت باعث بنتی ہے کہ اس حدیث میں نہی کا ظہور کراہت پر دلالت کرے ۔

اسی بناء پر اہل سنت علماء نے اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے یوں فتوی دیا ہے۔ شافعی اس حدیث کے مطابق کہتے ہیں : مستحب یہ ہے کہ قبر زمین سے زیادہ بلند نہ ہو۔

نووی کہتے ہیں : صاحب قبر کی اپنی ملکیت میں قبر پر عمارت بنانامکروہ اور و قف شدہ زمین میں حرام ہے.( ۲ )

سندی نے نیشاپوری سے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھاہے : یہ حدیث صحیح ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا اس لیے کہ شرق وغرب تک اسلام کے پیشوا قبروں پر عبارات لکھا کرتے اور یہ و ہی چیز ہے جسے آنے والی نسلوں نے سلف سے لیا ہے( ۳ )

ثانیا : ایسی احادیث تعمیر قبور اور ان پر عمارت کے حکم کو بیان نہیں کررہی ہیں اسلئے کہ یہ کام شعائر اللہ اور

____________________

۱۔تاریخ بغداد ۸:۱۹۹.

۲۔شرح صحیح مسلم ۷: ۲۷.

۳۔حاشیہ نسائی ۴:۸۷.

۱۳۲

خدا کی نشانیوں میں سے ہے جن کی تعظیم ضروری ہے اور ان کا شعائر الہی ہونا اس اعتبار سے ہے کہ ان قبروں میں مدفون یا تو انبیائے الہی ہیں یا اولیائے خدا ، یا یہ کہ ان قبور کی تعمیر اور ان پر عمارات کا بنانا مصلحت یا دین میں ان کی اہمیت کی بناء پر ہے ۔ مندرجہ ذیل شواہد ہمارے مدعی کوثابت کررہے ہیں :

۱۔ ابن ماجہ کہتے ہیں : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عثمان بن مظعون کی قبر پر ایک پتھر رکھ کر اسے مشخص کیا ۔( ۱ ) ہیثمی ابن ماجہ کے کلام کونقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اس حدیث کی سند حسن اور معتبر ہے ۔

۲۔اصبغ ابن نباتہ کہتے ہیں: دختر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت فاطمہ ، حضرت حمزہ کی قبر پر تشریف لاتیں تو اس پر نشانی رکھ کر جاتیں تاکہ اسے پہچان سکیں ۔

اسی طرح کہتے ہیں : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابوبکر او رعمر کی قبور پر چھوٹے چھوٹے پتھر موجود تھے۔( ۲ )

مقبروں کے آثار

واضح ہے کہ قبروں کے اوپر عمارات بنانے میں فوائد و آثارپائے جاتے ہیں مثال کے طور پر :

۱۔ یہ کام شعائر الہی میں سے او ردشمنوںومنکروں کی ناک کو خاک پر ملنا ہے ۔

۲۔ان مقامات میں عبادات کا انجام دینا ان کی شرافت وعظمت کی وجہ سے رجحان رکھتاہے ۔ لہذا زائرین کو گرمی وسردی سے بچانے ، زیارت میں آسانی ، نماز ، تلاوت قرآن اور مجالس وعظ میں شرکت کرنے والوں کیلئے سائبان قرار دینا ایک نیک عمل ہے ۔

۳۔دین کے نمونوں کو ہمیشہ کیلئے محفوظ رکھنا ۔

شاید مقبروں کا مہم ترین اثر یہی ہے کہ اس طرح دین کے بنیادی نمونوں کی حفاظت کی جاسکے اور اگرایسی

____________________

۱۔سنن ابن ماجہ ۱:۴۹۸.

۲۔المصنف ۳: ۵۷۴.

۱۳۳

تعظیم نہ ہو تویہ نمونے فراموشی کی نذر ہوجائیں گے ۔

درحقیقت وہابیوں کا اصلی ہدف مقبروں کی تعمیر کی مخالفت کرکے ایک دینی دستور پر عمل پیرا ہونا نہیں ہے بلکہ وہ دین کے ان نمونوں کی نابودی چاہتے ہیں جبکہ انسان تربیت میں نمونے کا محتاج ونیازمند ہے ۔

۱۳۴

۹۔قبور پر چراغ روشن کرنا

قبور پر چراغ روشن کرنا

وہابی عوام کو قبروں پر چراغ روشن کرنے سے منع کرتے ہیں اور اس بارے میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے روایت نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔

لعن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زائرات القبور والمتخذین علیهاالمساجد والسرج

رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں ، قبور کو مساجد قرار دینے والوں اوران پر چراغ جلانے والوں پر لعنت کی ہے ۔( ۱ )

اس نظریہ کارد

وہابیوں کے اس نظریہ کی چند جھات سے تحقیق اور اسے رد کیا جاسکتاہے :

۱۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے ۔

حاکم نیشاپوری نے (المستدرک علی الصحیحین ) میں اس روایت کو دو واسطوں کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیاہے جبکہ اس روایت کے دونوں سلسلوں میں ایک راوی ابوصالح باذام ہے جسے علمائے رجال نے ضعیف قرار دیاہے ۔

ابوحاتم اس کے بارے میں کہتے ہیں : باذام کی روایت کو نقل تو کیاجائے گالیکن اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔

نسائی باذام کے بارے میں کہتے ہیں: ابو صالح باذام حدیث کے نقل کرنے میں قابل اعتماد نہیں ہے۲۔

____________________

۱۔ سنن نسائی ۴: ۹۴ ، المستدرک علی الصحیحین ۱: ۵۳۰، ح ۱۳۸۴.

۲۔الکامل فی الضعفاء ۲: ۷۱.

۱۳۵

۲۔ اس حدیث میں بیان شدہ لعنت ان افراد کو شامل ہے جو عام افراد کی قبور پر ایسے اعمال انجام دیتے ہیں نہ کہ انبیاء واولیائے الہی کی قبور پر جن کے احترام کا حکم دیاگیاہے ۔ لہذا اس بناء پر انبیاء واولیاء کی قبور کی زیارت اوران پر چراغ روشن کرنا نہ تنہا مذموم نہیں ہے بلکہ ایساعمل ان کی تعظیم اور رجحان شرعی بھی رکھتاہے

۳۔ لعنت کا تعلق اس صورت سے ہے کہ جب چراغ روشن کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہو اورایک لغو کام شمار ہو لیکن اگر قرآن ودعااورنماز پڑھنے کیلئے یا وہاں پہ شب بیداری کرنے والوں کیلئے روشن کیاجائے تاکہ وہ اس کی روشنی سے بہرہ مند ہوسکیں توایسا عمل حرام تو دور کی بات مکروہ بھی نہیں ہوگااور نیکی وتقوی میں تعاون کا مصداق قرار پائے گا۔ جیسا کہ بعض علمائے اہل سنت نے اسی جواب کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

عزیزی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان کی شرح میں کہتے ہیں؛ کہ لعنتِ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تنہا ان افراد کو شامل ہوگی جو قبور پرچراغ روشن کریں جبکہ زندہ افراد اس کی روشنی سے فائدہ حاصل نہ کریں ۔ اور اگر لوگ اس سے بہرہ مند ہوں تو اس میں کوئی عیب نہیں ہے ۔( ۱ )

سندی نے سنن نسائی کے حاشیہ پر لکھا ہے : لعنت اس وقت ہوگی جب مال بغیر استفادہ کے ضائع ہوجائے ،اس معنی میں کہ اگر لوگ اس چراغ کی روشنی سے استفادہ کرتے ہیں تو اس میں کوئی عیب نہیں ہے ۔( ۲ )

شیخ حنفی (جامع صغیر ) کے حاشیہ پر لکھتے ہیں : ولی خدا کی قبر پر چراغ روشن کرنا حرام ہے جب کوئی شخص اس سے استفادہ نہ کرے( ۳ )

____________________

۱۔شرح الجامع الصغیر ۳: ۱۹۸.

۲۔حاشیہ سننن نسائی ۴: ۹۵.

۳۔کشف الارتیاب ؛ ۳۳۸.

۱۳۶

قبروں پر چراغ روشن کرنے کے جواز کی دلیل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عمل ہے ، ترمذی لکھتے ہیں :

ابن عباس کہتے ہیں: پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رات کے وقت قبرستان میں داخل ہوئے اور ایک قبر پر چراغ روشن کیا ۔( ۱ )

۴۔ سیر ت مسلمین :

وہابیوں کے نظریہ کے باطل ہونے پر چوتھی دلیل سیرت مسلمین ہے جس پر وہ ابن تیمیہ کی پیدائش سے پہلے اور بعد میں بھی عمل پیرا رہے اور یہ سیرت وہابیوں کے نظریہ کے مخالف ہے ۔ علماء نے اس بارے میں بہت سے شواہد بیان کئے ہیں ۔

خطیب بغدادی لکھتے ہیں : ولید کہتاہے : ابوایوب انصاری کی قبر پر شمعدان موجود تھے( ۲ )

ابن جوزی کہتے ہیں : ۶۸۳ ھ کے حوادث میں سے ایک یہ ہے کہ بصرہ کے لوگوں نے یہ دعوی کیاکہ انہوں نے زبیر بن عوام کی قبر تلاش کرلی ہے لہذا اس قبر کیلئے شمعدان اور چٹائیاں لے گئے ۔( ۳ )

خطیب بغدادی لکھتے ہیں : امام موسی کاظم کی قبر ایک مشہور زیارتگاہ ہے ۔جس پر عظیم بارگاہ بنی ہوئی ہے اور یہاں پہ سونے اور چاندی کے شمعدان ، مختلف وسائل اور بے شمار فرش موجود ہیں ۔( ۴ )

____________________

۱۔جامع الصحیح ۳:۳۷۲

۲۔تاریخ بغداد ۱:۱۵۴.

۳۔المنتظم ۱۴:۳۸۷.

۴۔وفیات الاعیان ۵: ۳۱۰.

۱۳۷

۱۰۔ نذر

غیر خدا کیلئے نذر

اسلام کے فرعی احکام میں سے ایک نذر ہے ۔ انسان نذر کرتے وقت یہ ارادہ کرتاہے کہ اگر میری فلاں حاجت پوری ہوگئی تو خداکیلئے فلاں کام انجام دوں گا۔ یہ حکم مسلمانوں کے درمیان رائج رہا اور اب بھی ہے ۔

جبکہ وہابیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ غیر خدا کیلئے نذر کرنا حرام ہے چونکہ یہ نذر مشرکوں کی بتوں کیلئے نذر کرنے کے مانندہے اور معمولا غیر خدا کیلئے نذرکی وجہ سے یہ ہوتی ہے کہ اس کے بارے میں غلو او رخاص قسم کا اعتقاد پایا جاتاہے ۔

قصیمی کہتاہے : غیر خدا کیلئے نذر کرنا شیعوں کے شعائر میں سے ہے چونکہ وہ علی اور ان کی اولاد کے بارے میں الوہیت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔( ۱ )

ابن تیمیہ نے اس بارے میں یوں اظہار خیال کیاہے :

ہمارے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ قبر اورا س کے مجاوروں کیلئے درہم ، روغن ، شمع اور حیوان کی نذر کرنا جائز نہیں ہے چونکہ ایسی نذریں گناہ ہیں او ر صحیح روایت میں بیان ہوا ہے :جوبھی خدا کی اطاعت کی نذر کرے تو اس پر ضروری ہے کہ وہ خدا کی اطاعت کرے اور جو بھی خدا کی معصیت کی نذر کرے تو اسے چاہیے کہ معصیت نہ کرے( ۲ )

وہ کہتاہے :

شرک میں مبتلا ہونے کے خوف سے مردہ شخص سے درخواست کرنے سے منع کیا گیاہے اگرچہ وہ نبی ہی

____________________

۱۔الصراع بین الاسلام والوثنیہ ۱: ۵۴.

۲۔رسالة زیارة القبور ۲۷ ؛ کشف الارتیاب : ۲۸۳.

۱۳۸

کیوں نہ ہو،پس قبور یا انکی عمارات کیلئے نذر کرنا حرام اورباطل ہے ۔ اس اس طرح کی نذر مشرکوں کی اس نذر کے مانند ہے جو وہ اپنے بتوں کیلئے کیا کرتے اور جوبھی یہ عقیدہ رکھے کہ قبور کیلئے نذر نفع یا ثواب رکھتی ہے تو وہ ناداں گمراہ ہے ۔( ۱ )

اس نظریے کا ردّ

ہم ان کے اس عقیدہ کاجواب چند جہات سے دے سکتے ہیں :

اول : یہ کہ نذر کرنے والے کا مقصد یہ ہوتاہے کہ اس صدقہ اور ہدیہ کا ثواب نبی خدا یا ولی خدا کو ایصال اور یوں خداوند متعال سے تقرب پیدا کرسکے ۔ پس کیسے ممکن ہے کہ اس کا مقصد نبی یا ولی ہو جبکہ وہ تو مردہ ہیں نہ کھا سکتے ہیں اور نہ ہی پہن سکتے ہیں ؟

دوم: یہ نذر بالکل اس شخص کے عمل کی طرح ہے جو اپنے والدین کیلئے نذر کرے یا قسم کھائے یا اپنے آپ سے عہد کرے کہ وہ ان کیلئے صدقہ دے گا۔

روایت میں بیان ہوا ہے کہ میمونہ کہتی ہیں :پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں میرے باپ نے یہ منت مانی تھی کہ ایک خاص جگہ پر پچاس گوسفند ذبح کریں گے ۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا: کیا وہاں پر بتوں کیلئے قربانی کی جاتی ہے ؟

عرض کیا : نہیں ، رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اوف بنذرک ۔ اپنی نذر پر عمل کرو۔( ۲ )

شاید پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلئے سوال کیا ہوکہ وہاں پر بتوں کی پرستش کی جاتی ہو یا مشرک لوگ وہاںپر اپنی رسومات بجالاتے ہوں چونکہ مسلمان زمانہ جاہلیت سے نزدیک تھے اور اس چیز کا ا حتمال موجود تھا۔

____________________

۱۔الملل والنحل : ۲۹۱.

۲۔معجم البلدان ۱:۵۰۵.

۱۳۹

ہم اس تائید میں کہتے ہیں کہ ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ثابت بن ضحاک کہتے ہیں : ایک شخص نے نذر کی کہ (بوانہ ) نامی منطقہ میں ایک اونٹ ذبح کرے ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ سے آگاہ کیا ۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: کیا وہاں پر زمانہ جاہلیت میں کوئی بت موجود تھا جس کی پرستش کیا کرتے ؟

عرض کی : نہیں ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

اوف نذرک ، فانه لا وفاء لنذر فی معصیة الله ولا فیما لا یملک ابن آدم

تم اپنی نذر پر عمل کرو اس لئے کہ فقط دومقام پر نذر درست نہیں ہے ۔

۱۔ گناہ ونافرمانی میں ۲۔ جس چیز کا انسان مالک نہیں ہے ۔( ۱ )

دوسری جانب ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ انسان نذر کرتے وقت یہ کہتاہے :

اگر میری فلاں مراد پوری ہوگئی تو خدا کیلئے نذر کرتاہوں کہ فلاں کام انجام دوں گا۔پس جب وہ یہ کہے گا : کہ فلاں کیلئے نذر کرتاہوں تویہ ایک مجازی تعبیر ہے اور اختصار کی بناء پر یوں کہا جاتاہے ورنہ درحقیقت اس کا مقصد یہ ہوتاہے کہ خدا کے لئے انجام دوں گا تاکہ اس کا ثواب فلاں کو پہنچے ۔

سوم: کیا کسی مسلمان کے عمل کا کسی کافر کے عمل سے مشابہ ہونا باعث بنتاہے کہ اس مسلمان کو کافر قرار دینا جائز ہو؟ ابن تیمیہ نے اسی دلیل کی بناء پر مسلمانوں کی تکفیر کی ہے لہذا ہم یہ کہیں گے کہ اگر صرف شباہت کفر کے جواز کا باعث بنتی ہے تو پھر حج کے اعمال بھی اسی طرح ہیں چونکہ مشرک اپنے بتوں کے اردگرد طواف کرتے تھے اور ان کی پرستش بھی کرتے ۔ علاوہ ازیں قربانی کے دن اپنے بتوں کے لئے قربانی بھی کیا کرتے اور ہم بھی قربانی کرتے ہیں کیا یہ درست ہے کہ ان دو مشابہ اعمال کو ایک جیسا

____________________

۱۔سنن ابوداؤد ۳: ۲۳۸، ح ۳۳۱۳

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348