تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 22%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175235 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تاريخاسلام (۳)

امير المؤمنينعليه‌السلام كى حيات طيبہ

مؤلف : مركز تحقيقات اسلامي

مترجم : معارف اسلام پبلشرز

۳

نام كتاب: تاريخ اسلام ۳ (امير المؤمنينعليه‌السلام كى حيات طيبہ)

مؤلف: مركز تحقيقات اسلامي

مترجم: معارف اسلام پبلشرز

ناشر: نور مطاف

جلد: سوم

اشاعت: سوم

تاريخ اشاعت: ربيع الثاني۱۴۲۸ھ _ق

تعداد: ۲۰۰۰

Web : www.maaref-foundation.com

E-mail: info@maaref-foundation.com

جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہيں _

۴

عرض ناشر:

ادارہ معارف اسلام پبلشرز اپنى اصلى ذمہ دارى كو انجام ديتے ہوئے مختلف اسلامى علوم و معارف جيسے تفسير، فقہ، عقائد، اخلاق اور سيرت معصومين(عليہم السلام) كے بارے ميں جانے پہچانے محققين كى قيمتى اور اہم تاليفات كے ترجمے اور طباعت كے كام كو انجام دے رہاہے_

يہ كتاب تاريخ اسلام ۳ (امير المؤمنينعليه‌السلام كى حيات طيبہ) جو قارئين كے سامنے ہے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہل بيت اطہار كى سيرت اور تاريخ پر لكھى جانے والى كتابوں كے سلسلے كى ايك كڑى ہے جسے گذشتہ سالوں ميں ترجمہ كرواكر طبع كيا گيا تھا_ اس ترجمہ كے دستياب نہ ہونے اور معزز قارئين كے مسلسل اصرار كے باوجود اس پر نظر ثانى اور اسے دوبارہ چھپوانے كا موقع نہ مل سكا_

خداوند عالم كے لطف و كرم سے اس سال كہ جسے رہبر معظم (دام ظلہ) كى جانب سے رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا سال قرار ديا گيا ہے، اس نفيس سلسلے كى تيسرى جلد كو ، نظر ثانى اور تصحيح كے بعد دوبارہ زيور طبع سے آراستہ كيا جارہاہے_ ہم اميد كرتے ہيں كہ خداوند متعال كے فضل و كرم، امام زمان (عجل اللہ تعالى فرجہ الشريف) كى خاص عنايت اور ادارے كے ساتھ تعاون كرنے والے محترم فضلاء كے مزيد اہتمام و توجہ سے اس سلسلے كى بعد والى جلدكہ جو حضرت زہرا اور ائمہ معصومين كى حيات طيبہ كے بارے ميں ہے كوبھى جلد از جلدچھپوا كر مطالعہ كے شائقين كى خدمت ميں پيش كرسكيں گے_

ان شاء اللہ تعالى

معارف اسلام پبلشرز

۵

حضرت على _ كى زندگي مختلف ادوار

حضرت علىعليه‌السلام كى تريسٹھ سالہ زندگى كو پانچ ادوار ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے :

۱_ ولادت سے حضرت محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مبعوث ہونے تك _

۲_ بعثت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت تك

۳_ ہجرت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت تك

۴_ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك

۵_ خلافت ظاہرى سے شہادت تك

۶

پہلا سبق

ولادت سے حضرت محمد مصطفيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مبعوث بہ رسالت ہونے تك

ولادت

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زير دامن آپ كى پرورش

بعثت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت تك

حضر ت علىعليه‌السلام وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے دين اسلام قبول كيا

بے نظير قربانى

ہجرت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت تك

علىعليه‌السلام رسول خدا كے امين

علىعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بھائي

علىعليه‌السلام اور راہ خدا ميں جنگ

علىعليه‌السلام جنگ بدر كے بے نظير جانباز

حضرت علىعليه‌السلام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تنہا محافظ

جنگ خندق ميں علىعليه‌السلام كا كردار

۷

علىعليه‌السلام فاتح خيبر

امير المومنينعليه‌السلام كى سياسى زندگى ميں جنگجوئي كے اثرات

حضرت علىعليه‌السلام اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى

حديث يوم الدار

حديث منزلت

قرآن مجيد ميں حضرت ہارونعليه‌السلام كے مقامات و مناصب

حديث غدير

سوالات

حوالہ جات

۸

ولادت

حضرت علىعليه‌السلام نے ۱۳ رجب بروز جمعہ ' عام الفيل(۱) كے تيسويں سال ميں (بعثت سے دس سال قبل) خانہ كعبہ ميں ولادت پائي اس نومولود بچے كے والد كا نام عمران(۲) تھا وہ قبيلہ بنى ہاشم كے سردار تھے اور مكہ كے بااثر لوگوں ميں شمار كئے جاتے تھے آپكى والدہ فاطمہ بن اسد ابن ہاشم ابن عبد مناف تھيں _ آپعليه‌السلام كو خانہ كعبہ كے طواف كے درميان درد زہ محسوس ہوا چنانچہ آپ معجزے كے زير اثر خانہ كعبہ كى عمارت ميں داخل ہو گئيں جہاں حضرت علىعليه‌السلام كى ولادت ہوئي_

خانہ كعبہ ميں امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كى ولادت كو عام شيعہ مورخين و محدثين اور علم انساب كے دانشوروں نے اپنى كتابوں ميں تحرير كيا ہے اور اب تك كسى دوسرے شخص كو يہ فضيلت حاصل نہيں ہوئي ہے(۳)

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زير دامن آپ كى پرورش

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جب پہلى مرتبہ وحى نازل ہوئي تو اس وقت حضرت عليعليه‌السلام كى عمر دس سال

۹

سے زيادہ نہ تھي_ حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كا وہ حساس ترين دور تھا جس ميں حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زير سايہ عاطفت آپ كى شخصيت كى تشكيل ہوئي آيندہ جو واقعات رونما ہونے والے تھے ان كا چونكہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مكمل علم تھا اور بخوبى يہ جانتے تھے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد حضرت علىعليه‌السلام ہى امت مسلمہ كے امور كى زمام سنبھاليں گے اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منظم دستورالعمل كے تحت اپنے زير دامن تربيت كى غرض سے اس وقت جب كہ حضرت علىعليه‌السلام كى عمر چھ ہى سال تھى ان كے والد كے مكان سے اپنے گھر منتقل كر ليا تاكہ براہ راست اپنى زير نگرانى تربيت و پرورش كرسكيں _(۴)

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حضرت علىعليه‌السلام سے اس قدر محبت تھى كہ آپ كو معمولى دير كى جدائي بھى گوارانہ تھى چنانچہ جب كبھى عبادت كى غرض سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مكہ سے باہر تشريف لے جاتے(۵) تو حضرت علىعليه‌السلام كو بھى ہمراہ لے جاتے_

حضرت علىعليه‌السلام نے اس دور كى كيفيت اس طرح بيان فرمائي ہے : يہ تو آپ سب ہى جانتے ہيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مجھ سے كس قدر انسيت تھى اور مجھے جو خاص قربت حاصل تھى اس كا بھى آپ كو علم ہے ميں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پر شفقت آغوش ميں پرورش پائي ہے جب ميں بچہ تھا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھے گود ميں لے ليا كرتے تھے مجھے آپ گلے سے لگاتے تھے اور اپنے ساتھ سلاتے تھے ميں اُن كے بدن كو اپنے بدن سے چمٹا ليتا تھا اور آپ كے بدن كى خوشبو سونگھتا تھا ، آپ نوالے چباتے اور ميرے منھ ميں ديتے تھے '' _

جس طرح ايك بچہ اپنى ماں كے پيچھے چلتا ہے اسى طرح ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيچھے پيچھے چلتا تھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر روز اپنے اخلاقى فضائل كا پرچم ميرے سامنے لہراتے اور فرماتے كہ ميں بھى آپ كى پيروى كروں _(۶)

اس دوران حضرت علىعليه‌السلام نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اخلاق گرامى اور فضائل انسانى سے بہت زيادہ كسب فيض كيا اور آپ كى زير ہدايت و نگرانى روحانيت كے درجہ كمال پر پہنچ گئے_

۱۰

بعثت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت تك

حضرت علىعليه‌السلام وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے دين اسلام قبول كيا _

حضرت علىعليه‌السلام كا اولين افتخار يہ ہے كہ آپ نے سب سے پہلے دين اسلام قبول كيا بلكہ صحيح معنوں ميں يوں كہيئے كہ آپ نے اپنے قديم دين كو آشكار كيا _

دين اسلام قبول كرنے ميں پيشقدمى وہ اہم موضوع ہے جس كو قرآن نے بھى بيان كيا ہے(۷) يہى نہيں بلكہ جن لوگوں نے فتح مكہ سے قبل دين اسلام قبول كيا اور راہ خدا ميں اپنے جان و مال كو نثار كيا انھيں ان لوگوں پر فوقيت دى ہے جو فتح مكہ كے بعد ايمان لائے اور جہاد كيا(۸) اس پس منظر ميں اس شخص كى عظمت كا اندازہ لگايا جاسكتا ہے جو سب سے پہلے دين اسلام سے مشرف ہوا اور اس وقت ايمان لايا جب كہ ہر طرف دشمنان اسلام كى طاقت كا ہى دور دورہ تھا يہ ايك عظيم افتخار تھے كہ ديگر تمام فضائل اس كى برابرى نہيں كر سكتے _

بہت سے مورخين كا اس بات پر اتفاق ہے كہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر پہلى مرتبہ وحى پير كے دن نازل ہوئي اور اس كے اگلے دن حضرت علىعليه‌السلام ايمان لائے _(۹)

حضرتعليه‌السلام نے دين اسلام قبول كرنے ميں جو دوسروں پر سبقت حاصل كى سب سے پہلے خود پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كى صراحت كرتے ہوئے صحابہ كے مجمع عام ميں فرمايا تھا '' روز قيامت مجھ سے حوض كوثر پر وہ شخص سب سے پہلے ملاقات كرے گا جس نے دين اسلام قبول كرنے مےں تم سب پر سبقت كى اور وہ ہے على بن ابى طالبعليه‌السلام (۱۰)

خود حضرت علىعليه‌السلام نے بھى مختلف مواقع پر اس حقيقت كى صراحت فرمائي ہے _ايك جگہ آپ فرماتے ہيں '' اس روز جب كہ اسلام كسى كے گھر تك نہيں پہنچا تھا اور صرف پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و حضرت خديجہعليه‌السلام اس دين سے مشرف ہوئي تھيں ميں تيسرا مسلمان تھا _ ميں نور وحى و رسالت كو ديكھتا تھا اور نبوت كى خوشبو سونگھتا تھا _(۱۱)

۱۱

دوسرى جگہ آپ فرماتے ہے : '' خدا وندا ميں وہ پہلا شخص ہوں جس نے تيرى طرف رجوع كيا ، تيرے پيغام كو سنا امور تيرے پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دعوت پر لبيك كہا ''(۱۲)

بے نظيرقربانى

آپ كے ديگر افتخار ميں سے ايك افتخار يہ بھى ہے جب آپعليه‌السلام شب ہجرت (جوكے ليلة المبيت كے نام سے مشہور ہے)پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بستر پر سو گئے اور اس دوران آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مكہ سے مدينے ہجرت فرمائي اور تمام مورخين نے اس واقعہ كو بيان كيا ہے اہل قريش ميں سے چاليس بہادروں نے يہ فيصلہ كر ليا تھا كہ اس رات رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قتل كر ديں اس غرض سے انہوں نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر كو نرغے مےں لے ليا _ اس رات حضرت علىعليه‌السلام نے اپنى جان كى بازى لگا كر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حفاظت فرمائي اور جو خطرات رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو پيش آنے والے تھے ان كو اپنے مول لے ليا _

يہ قربانى اس قدر اہم اور قابل قدر تھى جيسا كہ متعدد روايات(۱۳) سے معلوم ہوتا ہے كہ اللہ تعالى نے اس موقع پر يہ آيت نازل فرمائي (ومن الناس من يشرى نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رء وف بالعباد)(۱۴) يعنى انسانوں ميں سے كوئي ايسا بھى ہے جو رضائے الہى كى طلب ميں اپنى جان كھپا ديتا ہے اور ايسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے _

ہجرت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت تك

عليعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے امين

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جب يہ حكم ملاكہ مكہ سے مدينہ تشريف لے جائيں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اپنے قبيلے كے افراد ميں كوئي بھى ايسا شخص نظر نہ آيا جو حضرت علىعليه‌السلام سے زيادہ امين و صادق ہو چناچہ اس بناء پر رسول خدا

۱۲

نے على عليه‌السلام كو اپنا جانشين مقرر كيا اور فرمايا كہ لوگوں كو ان كى امانتيں جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس تھيں واپس كر ديں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جو قرض واجب ہيں انھيں بھى ادا كر ديں اس كے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دختر فاطمہعليه‌السلام اور بعض ديگر خواتين كو ساتھ لے كر مدينہ آجائيں _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت كے بعد حضرت علىعليه‌السلام ان امور كو انجام دينے كے لئے جن كے بارے ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا تين دن تك مكہ ميں تشريف فرما رہے اس كے بعد آپ اپنى والدہ فاطمہ ' دختر رسول خدا حضرت فاطمہعليه‌السلام فاطمہ بن زبير اور ديگر بعض عورتوں كے ہمراہ پيدل مدينہ كى جانب روانہ ہوئے اور قبا ميں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جاملے(۱۵)

جس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظر حضرت علىعليه‌السلام پر پڑى تو ديكھا كہ حضرت علىعليه‌السلام كے پيروں ميں پيدل چلنے سے چھاليں پڑ گئي ہيں اور ان سے خوں ٹپكنے لگا ہے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى انكھوں ميں آنسو بھر آئے اور آپ نے فرط محبت سے گلے لگا ليا اور آپ كے حق مےں دعا كى اس كے بعد آپ نے لعاب دہن حضرت عليعليه‌السلام كے پيروں پر لگايا جس كى وجہ سے زخم بھر گئے _(۱۶)

عليعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بھائي

ہجرت كر كے مدينہ تشريف لے جانے كے بعد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو اہم و سودمند اقدامات كئے ان ميں ايك يہ تھا كہ مہاجرين و انصار كے درميان رشتہ اخوت و برادرى بر قرار كيا چنانچہ اس وقت مسجد ميں جتنے بھى لوگ موجود تھے ان كے درميان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كے علاوہ رشتہ برادرى قائم كر ديا _ حضرت علىعليه‌السلام تنہا رہ گئے تھے آپ نے پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں عرض كيا : يا رسول اللہ آپ نے ميرے علاوہ ہر ايك كو رشتہ برادرى ميں منسلك كر ديا ؟ اس موقع پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ تاريخى جملہ اپنى زبان مبارك سے ادا كيا جس سے يہ اندازہ ہوتا ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظر ميں حضرت عليعليه‌السلام كا كيا مقام تھا اور آپ كى نظروں ميں انكى كتنى وقعت و اہميت تھى _

آپ نے فرمايا '' قسم ہے اس خدا كى جس نے مجھے حق كے ساتھ مبعوث كيا ميں نے تمہارے

۱۳

رشتہ برادرى ميں تاخير نہيں كى بلكہ تمہيں اپنے رشتہ اخوت و برادرى كے ليے منتخب كيا ہے تم ہى دين و دنيا ميں ميرے بھائي ہو ''( ۱۷ ) _

علىعليه‌السلام اور راہ خدا ميں جنگ

حضرت على كى شخصيت اپنى قربانيوں اور راہ حق ميں جانبازيوں كے باعث صحابہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے درميان لاثانى و بے مثال ہے(۱۸) غزوہ تبوك كے علاوہ آپ نے تمام غزوات ميں شركت كى اور غزوہ تبوك ميں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہدايت كے مطابق آپ مدينہ ميں مقيم رہے يہ آپ كى قربانى اور جانبازى كا ہى نتيجہ تھا كہ سپاہ اسلام نے سپاہ شرك پر غلبہ حاصل كيا اگر اسلام كے اس جيالے كى جانبازياں نہ ہوتيں تو ممكن تھا كہ وہ مشرك و كافر جو مختلف جنگوں ميں اسلام كے خلاف بر سرپيكار رہے چراغ رسالت كو آسانى سے خاموش اور پرچم حق كو سرنگوں كر ديتے _

يہاں ہم حضرت علىعليه‌السلام كى ان قربانيوں كا سر سرى جائزہ ليں گے جو آپ نے جنگ كے ميدانوں (بدر ' احد ' خندق اور خيبر)ميں پيش كيں _

عليعليه‌السلام جنگ بدر كے بے نظير جانباز

جنگ بدر ميں حضرت علىعليه‌السلام كى شخصيت دو وجہ سے نماياں رہى _

۱ _ جنگ فرد بفرد : جس وقت مشركين كے لشكر سے عتبہ ' شيبہ اور وليد جيسے تين نامور دليروں نے ميدان جنگ ميں اتر كر سپاہ اسلام كو للكارا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم پر حضرت عبيدہ بن حارث ' حمزہ بن عبدالمطلب اور على بن ابى طالبعليه‌السلام ان سے جنگ كرنے كے لئے ميدان جنگ مےں اتر آئے _ چنانچہ حضرت عبيدہ عتبہ سے ' حضرت حمزہ ، شيبہ سے اور حضرت علىعليه‌السلام وليد سے برسر پيكار ہو گئے _

۱۴

مورخين كا بيان ہے : حضرت على عليه‌السلام نے پہلے ہى وار ميں دشمن كو قتل كر ڈالا ' اس كے بعد آپعليه‌السلام حضرت حمزہ كى مدد كے لئے پہنچے اور ان كے حريف كے بھى دم شمشير سے دو ٹكڑے كرديئے اس كے بعد يہ دونوں بزرگ حضرت عبيدہ كى جانب مدد كى غرض سے بڑھے اور ان كے حريف كو بھى ہلاك كر ڈالا(۱۹) _

اس طرح آپعليه‌السلام لشكر مشركين كے تينوں نامور پہلوانوں كے قتل ميں شريك رہے _ چنانچہ آپ نے معاويہ كو جو خط لكھا تھا اس ميں تحرير فرمايا كہ وہ تلوار جس سے ميں نے ايك ہى دن ميں تيرے دادا (عتبہ)' تيرے ماموں (وليد)' تيرے بھائي (حنظلہ)اور تيرے چچا (شيبہ)كو قتل كيا تھا اب بھى ميرے پاس ہے(۲۰) _

۲ _ اجتماعى و عمومى جنگ_ مورخين نے لكھا ہے كہ جنگ بدر ميں لشكر مشركين كے ستر(۷۰)

سپاہى مارے گئے جن ميں ابوجہل ' اميہ بن خلف ' نصر بن حارث و اور ديگر سر برآوردہ سرداران كفار شامل تھے ' ان ميں سے ستائيس سے پينتيس كے درميان حضرت علىعليه‌السلام كى شمشير كے ذريعہ لقمہ اجل ہوئے ، اس كے علاوہ بھى دوسروں كے قتل ميں بھى آپ كى شمشير نے جو ہر دكھائے _ چنانچہ اس وجہ سے قريش آپ كو '' سرخ موت ''كہنے لگے كيونكہ اس جنگ ميں انھيں ذلت و خوارى اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے ہاتھوں نصيب ہوئي تھى(۲۱) _

حضرت علىعليه‌السلام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تنہا محافظ

جنگ احد ميں بھى حضرت علىعليه‌السلام كے كردار كا جائزہ دو مراحل ' يعنى مسلمانوں كى فتح و شكست ' كے پس منظر ميں ليا جاسكتا ہے _

مرحلہ فتح و كاميابى :

اس مرحلے ميں لشكر اسلام كو كاميابى اور مشركين كو پسپائي آپ ہى كے دست مبارك سے ہوئي_ لشكر قريش كا اولين پر چمدار طلحہ بن ابى طلحہ جب حضرت علىعليه‌السلام كے حملوں كى تاب نہ لاتے

۱۵

ہوئے زمين پر گر گيا تو اس كے بعد دوسرے نو افراد نے يكے بعد ديگر پرچم لشكر اپنے ہاتھوں ميں ليا ليكن جب وہ بھى حضرت علىعليه‌السلام كى شمشير سے مارے گئے تو لشكر قريش كے لئے راہ فرار كے علاوہ كوئي چارہ نہ تھا(۲۲) _

مرحلہ شكست :

جب آبناے '' عينين'' كے بيشتر كمانداروں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے سرتابى كى اور اپنى جگہ سے ہٹ گئے تو اس وقت خالد بن وليد اپنے گھڑ سوار لشكر كے ساتھ اس پہاڑ كا چكر كاٹ كر اس آبنائے كى راہ سے مسلمانوں پر ايك دم حملہ آور ہوا چونكہ يہ حملہ اچانك اور انتہائي كمر شكن تھا اسى لئے جنگ كے اس مرحلے ميں ستر مسلمانوں كو شہادت نصيب ہوئي اور باقى جو چند بچ گئے تھے انھوں نے راہ فرار اختيار كى _

اس مرحلے ميں حضرت علىعليه‌السلام كا اہم ترين كردار يہ تھا كہ آپ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وجود مقدس كى پاسبانى و حفاظت كے فرائض انجام دے رہے تھے _

ان حالات مےں جبكہ چند مسلمانوں كے علاوہ سب اپنى جان بچانے كى خاطر ميدان جنگ سے فرار كر گئے اور لشكر قريش نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ہر طرف سے اپنے حملوں كا نشانہ بناليا تو اس وقت حضرت علىعليه‌السلام ہى تھے جنہوں نے اپنے حملوں سے دشمن كو آگے بڑھنے سے روكا چنانچہ دشمنان اسلام كا وہ گروہ جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نزديك آكر حملہ كرنا چاہتا تھا آپ ہى كى تيغ سے ہلاكت كو پہنچا_

اميرالمومنين علىعليه‌السلام كى يہ قربانى اتنى اہم و قابل قدر تھى كہ حضرت جبرئيلعليه‌السلام نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اس كى مبارك بادى دى چنانچہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى يہ فرمايا كہ :''على منى و انا من على '' (يعنى على مجھ سے ہيں اور ميں على سے ہوں ) اس قربانى كو قدر ومنزلت كى نگاہ سے ديكھا اور جب غيب سے يہ ندا آئي :''لا سيف الا ذوالفقار و لا فتى الا علي'' تو دوسروں كو بھى حضرت علىعليه‌السلام كى اس قربانى كا انداز ہ ہوا(۲۳)

خود حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے اصحاب كے ساتھ اپنى گفتگو كے درميان اس قربانى كا ذكر كرتے

۱۶

ہوئے فرمايا : جس وقت لشكر قريش نے ہم پر حملہ كيا تو انصار ومہاجرين نے اپنے گھروں كى راہ اختيار كى مگر ميں ستر سے زيادہ زخم كھانے كے باوجود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مدافعت و پاسبانى كرتا رہا_(۲۴ )

حضرت علىعليه‌السلام نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پاسبانى و مدافعت كى خاطر دشمن كا جم كر مقابلہ كيا كہ آپ كى تلوار ٹوٹ گئي اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى وہ شمشير جس كا نام ''ذوالفقار'' تھا آپ كو عطا فرمائي چنانچہ آپ نے اسى سے راہ خدا ميں اپنے جہاد كو جارى ركھا _(۲۵)

جنگ خندق ميں علىعليه‌السلام كا كردار

مختلف لشكروں (احزاب) كے دس ہزار سپاہيوں نے تقريباً ايك ماہ تك مدينہ كا محاصرہ جارى ركھا _ اتنى مدت گذرجانے كے بعد بالآخر دشمن كو اس كے علاوہ كوئي چارہ نظر نہ آيا كہ وہ اپنے مضبوط وطاقتور لشكر كو جس طرح بھى ممكن ہو سكے خندق پار كرائے_ اس فيصلے كے بعد عربوں كے ''نامور پہلوان عمر بن عبدود'' نے اپنے ساتھ پانچ سپاہى ليے اور اس جگہ سے جہاں خندق كم چوڑى تھى پار كرآيا اور جنگ كے لئے للكارا _ حضرت علىعليه‌السلام نے اس كى اس دعوت جنگ كو قبول كيا اور اس كے نعروں كا جواب دينے كيلئے آگے بڑھے چنانچہ سخت مقابلے كے بعد عربوں كاوہ دلاور ترين جنگجو پہلوان جسے ايك ہزار جنگى سپاہيوں كے برابر سمجھا جاتا تھا ، حضرت علىعليه‌السلام كى شمشير سے زمين پر گر پڑا عمرو كے ساتھيوں نے جب اس كى يہ حالت ديكھى تو وہ فرار كرگئے اور ان ميں سے جو شخص فرار نہ كرسكا وہ ''نوفل' تھا _ چنانچہ وہ بھى حضرت علىعليه‌السلام كے ايك ہى وار سے عمرو سے جاملا_ عمروبن عبدود كى موت (نيز بعض ديگر عوامل) اس امر كا باعث ہوئے كہ جنگ كا غلغلہ دب گيا او رمختلف لشكروں ميں سے ہر ايك كو اپنے گھر واپس جانے كى فكر دامنگير ہوئي_

اس جنگ ميں حضرت علىعليه‌السلام نے ميدان جنگ كى جانب رخ كيا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: خدايا جنگ بدر كے دن عبيدہ اور احد ميں حمزہ كو تو نے مجھ سے جدا كرديا اب علىعليه‌السلام كو تو ہرگزند سے محفوظ فرما_ اس

۱۷

كے بعد آپ نے يہ آيت پڑھى( رب لا تذرنى فردا و انت خيرالوارثين ) _(۲۶)

جب عمرو كے ساتھ ميدان جنگ ميں مقابلہ ہوا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا :

''برزالايمان كله الى الشرك كله'' (*) يعنى ايمان وشرك كے دو مظہر كامل ايك دوسرے كے مقابل ہيں )

ا ور جب آپ ميدان جنگ سے فاتح و كامران واپس آئے تو پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا : ''لو وزن اليوم عملك بعمل امة محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لرجح عملك بعلمہم''_(يعنى اگر آج تمہارے عمل كا امت محمد كے تمام اعمال (پسنديدہ) سے مقابلہ كياجائے تو (بے شك) اس عمل كو ان پر برترى ہوگي_(۲۷)

علىعليه‌السلام فاتح خيبر

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہوديوں كے مركز ''خيبر'' كا محاصرہ كيا تو اس غزوہ كے ابتدائي دنوں ميں حضرت علىعليه‌السلام آشوب چشم كے باعث اس ميں شريك نہيں ہوسكتے تھے چنانچہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پرچم اسلام دو مسلمانوں كو ديا ليكن وہ دونوں ہى يكے بعد ديگرے كامياب ہوئے بغير واپس آگئے_

يہ ديكھ كر پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا يہ پرچم ان كا حق نہ تھا علىعليه‌السلام كو بلاؤ عرض كيا گيا كہ ان كى آنكھ ميں درد ہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ : علىعليه‌السلام كو بلاؤ وہى ايسا مرد ہے جو خدا اور اس كے رسول كو عزيز ہے وہ بھى خدا اور اس كے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو عزيز ركھتا ہے _(۲۸)

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حضور تشريف لائے تو آپ نے دعا فرماتے ہوئے اپنے دہان مبارك سے لعاب ان كى آنكھوں پر لگايا جس كے باعث درد چشم زائل ہوگيا اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے پرچم اٹھايا اور ميدان جنگ كى جانب روانہ ہوگئے_

يہودى دلاور اپنے قلعے سے نكل كر باہر آئے _ مرحب كابھائي حارث نعرا لگاتا ہوا حضرت علىعليه‌السلام كى جانب بڑھا مگر چند ہى لمحے بعد اس كا مجروح بدن خاك پر تڑپنے لگا _ مرحب اپنے بھائي كى

۱۸

موت سے سخت رنجيدہ خاطر ہوا چنانچہ اس كا انتقام لينے كى غرض سے وہ ہتھياروں سے ليس حضرت علىعليه‌السلام سے لڑنے كے لئے ميدان جنگ ميں اتر آيا _ پہلے تو دونوں كے درميان كچھ دير گفت و شنيد ہوئي مگر پلك جھپكتے ہى جانباز اسلام كى شمشير بران مرحب كے سر پر پڑى اوآن كى آن ميں اسے خاك پر ڈھير كرديا_ دوسرے يہودى دلاوروں نے جب يہ ماجرا ديكھا تو وہ بھاگ گئے اور اپنے قلعے ميں چھپ گئے اور دروازہ بند كرليا _ حضرت علىعليه‌السلام نے ان بھاگنے والوں كا تعاقب كيااور جب دروازہ بند پايا تو قدرت حق سے اسى دروازے كو جسے بيس آدمى مل كر بند كيا كرتے تھے تن تنہا ديوار قلعہ سے اكھاڑ ليا اور يہوديوں كى قلعہ خندق پر گرايا تاكہ سرباز اسلام اس كے اوپر سے گذر كر فساد اور خطرہ كے آخرى سرچشمہ كو كچل ديں _(۲۹)

عزوہ خيبر ميں چونكہ مسلمانوں كو حضرت علىعليه‌السلام كى قربانى و دلاورى سے فتح و كامرانى حاصل ہوئي تھى اسى وجہ سے آپ كو ''فاتح خيبر '' كے لقب سے ياد كيا جاتا ہے_

اميرالمومنينعليه‌السلام كى سياسى زندگى ميں جنگجوئي كے اثرات

حضرت علىعليه‌السلام كى شجاعت و دلاورى اور جرائتيں جوكہ مختلف غزوات، بالخصوص غزوہ بدر ميں ابھر كر سامنے آئيں ہم نے انكو مختصر طور پر يہاں بيان كيا ہے '' جس كى وجہ يہ ہے كہ ا سى جنگى پہلو كا اسلام كى آيندہ تاريخ اور آپعليه‌السلام كى سياسى زندگى كے حالات قلمبند كرنے ميں اہم ونماياں كردار تھے_ چنانچہ اس كے اثرات و نتائج كى تلاش و جستجو ہميں تاريخ اسلام ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد سے كرنى چاہيئے

راہ خدا ميں علىعليه‌السلام كى جانبازيوں او رآپ كے ہاتھوں مشركين كى ہلاكت (تمام غزوات، بالخصوص غزوہ بدر ميں )كى وجہ سے آپ كے خلاف كفار قريش كے دلوں ميں وہ دشمنى و عداوت پيدا ہوگئي جس كے اثرات بعد ميں منظر عام پر آئے_

عثمان اور حضرت علىعليه‌السلام كے درميان خليفہ وقت مقرر كئے جانے سے متعلق چھ ركنى كميٹى ميں جو

۱۹

گفتگو ہوئي اس سے اندازہ ہوتا ہے كہ كفار و قريش كے دلوں ميں آپ كے خلاف كس قدر دشمنى وعداوت تھى اس گفتگو كے اقتباس ہم يہاں پيش كرتے ہيں :

''مسئلہ خلافت كے سلسلہ ميں عثمان نے حضرت علىعليه‌السلام سے خطاب كرتے ہوئے كہا تھا ميں كيا كروں ، قريش آپ كو پسند نہيں كرتے كيونكہ آپ نے ان كے ايسے ستر(۷۰) آدميوں كو (جنگ بدر و احد اور ديگر غزوات ميں )تہ تيغ كيا ہے جن كا شمار قبيلے كے سرداروں اور سربرآوردہ اشخاص ميں ہوتا تھا (چنانچہ ان كے دلوں ميں بھى كينہ و عداوت ہے ''_(۳۰)

اس كى دوسرى مثال يزيد كے وہ اشعار ہےں جو اس نے حضرت سيد الشہداءعليه‌السلام اور آپ كے بہتّر عزيز و اقرباء اور ياران باوفا كى شہادت پر كہے تھے_ وہ لعين جب كہ نشہ فتح وكامرانى ميں مست و سرشار تھا اور حسين بن علىعليه‌السلام كا سر مبارك اس كے پاس لايا گيا تو اس ملعون نے اس موقعے پر جو اشعار كہے ان كا مفہوم يہ ہے: احمد (پيشوائے اسلام) نے جو كام انجام ديئے ہيں ان كے مقابل اگر ميں ان كى آل سے انتقام نہ لوں تو خندف كى نسل سے نہيں _

ہاشم نے دين كے نام پر حكومت حاصل كى تھى ورنہ اس پر نہ غيب سے خبر آئي تھى نہ وحى نازل ہوئي تھي_ ہم نے علىعليه‌السلام سے اپنا بدلہ ليا اور سوار شجاع اور سورما (حسين بن على (ع))كو قتل كرديا _(۳۱)

حضرت علىعليه‌السلام اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشيني

بلا شك و ترديد اسلام كے جو عظےم و اہم ترين مسائل ہيں ان ميں امت كى ولايت وقيادت نيز امور مسلمين كى راہبرى و سرپرستى بھى شامل ہے _ چنانچہ اس اہميت كو مد نظر ركھتے ہوئے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ كوشش تھى كہ آئندہ جس اسلامى معاشرے كى تشكيل ہوگئي اس كے مسئلہ رہبرى كو اپنے زمانہ حيات ميں ہى طے كرديں _ چنانچہ ''دعوت حق كے اولين روز سے ہى آپ نے توحيد كے ساتھ مسئلہ خلافت كو واضح كرنا شروع كردياتھا_ چونكہ حضرت علىعليه‌السلام ہى كى وہ شخصيت تھى جو تمام فضائل وكمالات كى مالك تھى اسلئے خداوند متعال كى طرف سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ملا كہ مسلمانوں كے دينى و

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

[۱]جنگ و غارت گری کے وقت انکی بیٹیاں نہ جنگ کی طاقت رکھتی تھیں ،نہ حملہ کی قوت اور نہ جنگجو و غارت گر دشمن کے مقابل دفاع کی صلاحیت رکھتی تھیں جسکی وجہ سے دشمن کے ہتھے چڑھ جاتی تھیں جو کہ عرب کیلئے ننگ و عار کا سبب تھا اسی وجہ سے وہ  بیٹیوں کو ختم اور نابود کرنے میں اپنی قوت و طاقت لگاتے تھے۔

[۲] معاشی عوامل :فقر و تنگدستی بھی سبب ہوئی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو شروع ہی سے قتل کر دیں یا زندہ در گور کر دیں ۔یہ بد ترین اور ظالمانہ روایت کی پیروی کی وجہ سے جب کسی عورت کو درد زہ کا احساس ہوتا ،تو اپنے خیمہ سےد ور صحرا یا کسی دوسری جگہ چلی جاتی تھی اور اس گڈھے میں کہ جو انکے لئے آمادہ کیا گیاتھا نو مولو د دنیا میں آتا تھا ۔

   اور اگر مولود بیٹا ہوتا تھا تو قبیلہ اور اطر اف کی عورتیں نوزاد  اوراسکی ماں کو شوق و امنگاور خوشی کے ساتھ مردوں کےپاس لاتیں تھیں اور اگر لڑکی ہوتی تھی تو مایوسی کے مرجھائے ہوئے  چھرہ کے ساتھ سبھی  بیٹھ جاتی تھی اور بے گناہ نوزاد کو اسی گڑھے میں دفن کرکے واپس آجاتی تھیں ۔

قرآن مجید کم سے کم  تین مقامات پر اولاد کے قتل ہونے کے موضوع کو بیان کرتا ہے ۔ اور اس سے جم کرقابلہ کے لئے ابھارتا ہے ایک مقام پر اس طرح ارشادفرماتا ہے ۔

(وَ إِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ (8)بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ) (9)(1)

اور جب زندہ در گور لڑکیوں کے بارے میں سوال کیا جائیگا کہ  انہیں کس گناہ میں مارا گیا ہے ۔ 

اوردوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے ۔

(وَ لا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ إِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبيراً) (2)

--------------

(1):- سورہ تکویر ،آیۃ ۸،۷

(2):- سورہ اسراء ،آیۃ ۳۱

۴۱

اور خبر دار اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرناکہ ہم انہیں بھی  رزق  دیتے ہیں ۔اور تمہیں بھی رزق دیتے ہیں۔بیشک انکاقتل کردینا بہت بڑا گناہ ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ بظاہر یہ بد ترین عمل ایک خاص گروہ یا کچھ مخصوص گروہ کی عادت تھی وگرنہ لڑکیوں کا فقدان قظع نسل کا سبب بنتا ۔کیونکہ توالد ،تناسل اور انسانی نسلکی افزائش لڑکیوں کے وجود  کی مرہون منت ہے جسطرح سے مردوں اور لڑکیوں کے وجود سے بھی اسکا تعلق ہے۔

        ممکن ہے کہ یہ کہا جائے بعض لڑکیوں کےساتھ ایساکرتے تھے اور بعض کو بقائے نسل کیلئے باقی رکھتے تھے۔یا یہ کہ بعض لوگ کلی طور پر ایسا کرتے تھے اور انکے درمیان قطعی اور اجتماعی حکم  نہیں تھا قرآن مجید کی بعض  آیات سے اس نتیجہ کو اخذ کیا جا سکتا ہے اور وہ آیت یہ ہے۔

(وَ إِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى‏ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظيمٌ) (58)(يَتَوارى‏ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ ما بُشِّرَ بِهِ أَ يُمْسِكُهُ عَلى‏ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ أَلا ساءَ ما يَحْكُمُونَ) (59)(1)

اور جب خود ان میں کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے قوم سے منھ چھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے ۔ اب اسکو ذلت سمیت زندہ رکھے یا خاک میں ملا دے یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کر رہے ہیں۔

--------------

(1):- سورہ نحل ،آیۃ ۵۹،۵۸

۴۲

دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اقتصادی و معاشی مشکلات اور فقر و تنگدستی کے عامل سے ہٹ کر کہ اس میں بیٹے  اور بیٹی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔

کیونکہ دونوں خرچےزندگی کے ضرورت مند ہیں تو پھر کس دلیل کی بنیاد پر اپنی بیٹیوں کو قتل کر دیتے تھے؟جو چیز ہم تک پہونچی ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ کلی طور پر لڑکی کے وجود سے نفرترکھتے تھے۔اس وجہ سے اسکو قتل کرنے اور زندہ درگور کرنے میں لڑکیوں کو لڑکوں پر مقدم کرتے اور ترجیح دیتے تھے ۔

مفسر بزرگ علامہ طبا طبائی رضوان اللہ علیہ سورہ اسراء کی آیت کے ضمن میں کہتے ہیں :

(ولا تقتلوا اولادکم خشية املاق جریان وادنبات)

وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کے واقعہ کو اولاد کے قتل کرنے سے الگ جانتے ہیں اور فرماتےہیں:

لڑکیوں کو زندہ درگور کر نے کی آیات خاص ہیں کہ جو ا س موضوع سے مخصوص اوراسکی حرمت کی تصریح کرتی ہیں :

مثلا یہ آیت :

(وَ إِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ (8)بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ)(9)(1)

اور یہ آیت(وَ إِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى‏ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظيمٌ (58)يَتَوارى‏ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ ما بُشِّرَ بِهِ أَ يُمْسِكُهُ عَلى‏ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ أَلا ساءَ ما يَحْكُمُونَ) (59) (2)

لیکن مورد بحث آیت اور اس کے مشابہ دوسری آیات اپنی اولاد کو فقر و تنگدستی کی  وجہ سے قتل کرنے کو منع کرتی ہیں ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی دلیل بھی نہیں ہے کہ ان آیات میں اولاد کو لڑکوں کے معنی میں لیا جائے ۔

--------------

(1):- سورہ تکویر ،آیۃ ۹،۸

(2):- سورہ نحل ،آیۃ ۵۹،۵۸

۴۳

درحالانکہ اولاد لڑکا ،لڑکی دونوں کے لیے عام ہے اور یہ دوسری سنت لڑکیو ں کو زندہ درگور کرنے کے علاوہ کہ جو ننگ وعارکی بنیاد پرہے او ر اولاد کو قتل کرنے کی عادت اعم ہے کہ جو لڑکا اور لڑکی دونو ں کو فقر و فاقہ کی بنیاد پر قتل کرنے سے منع کیا گیا  ہے ۔(1)

راغب نے مفردات میں کہا ہے کہ اولا د  سے مراد لڑکا ،لڑکی دونوں ہوتے ہیں اس بیان کے مطابق یہ شبہ ختم ہوجاتا ہے کیونکہ فقرو تنگدستی کا خوف انکو اس بات کی جانب ابھارتا ہے کہ اپنی اولاد کو چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی قتل کریں اور اس مقام پر ان دونوں کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں تھے ۔بیشک ان کی ایک بد ترین سنت یہ تھی کہ وہ اپنی لڑکیوں کو ننگ و عار کی خاطر زندہ دفن کردیتے تھے کہ اگر ایسا نہ کرتے تو جنگوں میں دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہوجائیں گی ۔

 دوسراقابل بیان نکتہ یہ ہے فقرو تنگدستی کاخوف دو جگہ ظاہر ہوتا ہے ۔اور برے نتائج کاسبب بنتا ہے ،خدا وند عالم نے ان دونوں مقامات  پر انسانیت کی حمایت کی ہے یعنی اسکے حالات کی اصلاح کی ضمانت لی ہے اور اسکی روزی کا وعدہ کیا ہے ۔

۱ : بسا اوقات جوان شادی اور انتخاب ہمسر کیلئے مضطرو پریشان ہوتے ہیں کہ کس طرح اپنے علاوہ اپنی بیوی کی ضرورت کو پورا کرے گا ۔اور یہی اضطراب و مایوسی اور شادی میں تاخیرکا سبب بنتا ہے۔خداوند عالم اسکے متعلق ارشاد فرماتاہے۔

(وَ أَنْكِحُوا الْأَيامى‏ مِنْكُمْ وَ الصَّالِحينَ مِنْ عِبادِكُمْ وَ إِمائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ) (32)(2)

اور اپنے  غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے با صلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر فقیر بھی ہونگے تو خدا اپنےفضل و کرم سے انہیں مالدار بنا دیگا ۔

--------------

(1):- المیزان ،ج ۱۳ ،ص ۸۹

(2):- سورہ نور ،آیۃ ۳۲

۴۴

۲: صاحب اولاد ہو جانے کی صورت میں یہ پریشانی اس دور کےماں باپ کیلئے تھی چنانچہ آج بھی یہ پریشانی بطور کلی ختم نہیں ہوئی ہے خصوصا  جزیرۃ العرب میں کہ جہاں قحط سالی ،بارش کی کمی اور رزق کا کم ہونا انکو غمگین کئے ہوئے تھا ۔   اور کسی فرزند کا پیدا ہوجانا انکے لئے ذہنی پریشانی کا سبب تھا ۔خدا وند عالم اس پریشانی کو دور کرنے کیلئے ارشاد فرماتا ہے۔

(وَ لا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ مِنْ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ إِيَّاهُمْ)(1)

سعدی شیرازی کہتے ہیں ۔

یکی طفل دندان بر آودہ بود 

پدر سر بہ فکرت فرو بردہ بود      

کہ من نان برگ از کجا آرمش     

                                مروت نباشد کہ بگزارمش  

چو بیچارہ گفت این سخن نزدجفت                           

        نگر تا زن او را چہ مردانہ گفت

مخور ھول ابلیس تا جان دھد                

                        ھر آن کس کہ دندان دھد نان دھد

ایک بچے کے دانت نکل آئے تو باپ پریشان ہو گیا کہ اب اس کے کھانے وغیرہ کا انتظام کیسے کرے گا  ۔اور یونہی چھوڑ دینا بھی مروت کے خلاف ہے ۔جب اس نے یہ بات اپنی بیوی سے کہی ۔تو اس عورت نے ایک مردانہ اور حکیمانہ جواب دیا :کہ جب تک یہ بچہ زندہ ہے تم شیطان کے ان وسوسوں کا خوف نہ کھائو کیونکہ جس نے اس بچہ کو دانت دئے ہیں  وہی روزی بھی دیگا ۔

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ ۱۵۱

۴۵

۴: عفت کے منافی اعمال سے دوری

دوسرانکتہ کہ جو صراط مستقیم سے مربوط ہے وہ ہے فواحش سے اجتناب کرنا اور عفت کے منافی اعمال کو انجام نہ دینا ۔آیت کی تعبیر یہ ہے کہ :

(وَ لا تَقْرَبُوا الْفَواحِشَ ما ظَهَرَ مِنْها وَ ما بَطَن‏ ) (۱۵۱)(1)

اور بدکاریوں کے قریب مت جانا وہ ظاہری ہوں یا چھپی ہوئی ۔

اسلام نے جن کاموں کی انجام دہی سے روکا ہے ان کا صرف انجام نہ دینا کافی نہیں ہے ۔بلکہ ان کے قریب جانے کی مذمت  اور ممانعت  بھی کی گئی ہے لہذا اسکے قریب جانے سے بھی اجتناب ہونا چاہئے ۔

        بیشک اس طرح کے کاموں کے قریب ہو نا خطرناک بھی ہے ۔کیونکہ جس وقت  انسان ان سے نزدیک ہوتا ہے تو دھیرے دھیرے عمل کی جانب قدم بڑھاتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی انکو انجام دیتا ہے ۔

کسی بھی کام سے قریب ہونا اس کام میں ملوث ہونے کا مقدمہ ہوتا ہے ۔اگرچہ اس میں ملوث ہونے کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔بہر حال اس با ت کا خطرہ اور خوف پایا جایا ہے۔کہ انسان اس میں ملوث ہو جائے ۔اس لئے اسلام تمام فواحش اور برے کاموں سے چاہے وہ ظاہری ہوں یا مخفی ۔منع  کرتا ہے اور اس کی دو طرح سے توجیہ کی جاتی ہے ۔

        ۱: ان اعمال کو نہ صرف دوسروں کی آنکھوں کے سامنے انجام دیا جائے بلکہ تنہا ئی میں بھی ان سے اجتناب کیا جائے۔اور کوئی یہ تصور بھی نہ کرے کہ فواحش اور برائیوں کو کھلے عام انجام نہیں دینا چاہئے ۔کیونکہ عمومی عفت داغدار ہو جائے گی ۔لیکن مخفیانہ طور پر کوئی مشکل نہیں ہے۔

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ۱۵۱

۴۶

جیسا کہ تفسیر مجمع البیان میں کہا گیا ہے کہ عصر جاہلیت کے لوگ مخفیانہ زنا کو برا تصور نہیں کیا کرتے تھے ۔اور تنہا کھلے عام زنا سے منع کرتےتھے لہذا خدا وند عالم نے ان کو ہر حال میں زنا سے منع فرمایا ۔

اس بنا پر گویا آیت یہ کہنا چاہتی ہے ظاہرا برے اعمال سے پرہیز آسان ہے اور انکی خود اپنی ایک جگہ ہے ۔حتی ان اعمال کو مخفیانہ انجام دینے سے بھی پرہیز کرو۔

۲:برے اور غلط کاموں سے اجتناب کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان کے بدن کے اعضاء و جوارح سے انجام پاتا ہے کہ یہ ہر حال میں  ظاہری قسم ہے ۔ چاہے اسکو مخفی طور پر ہی کیوں نہ انجام دیا جائے ۔اور وہ برا عمل کہ جو انسان کے دل و دماغ میں ابھرتا ہے ۔گویا فرمایا ہے کہ اپنے اعضاء و جوارح کے ذریعہ برے اور عفت کے منافی اعمال سے اجتناب کرو ۔اس طرح سے کہ تمہارے ذہن و فکر میں بھی اسکا تصور نہ آنے پائے ۔اور تمہارے باطن میں بھی منافی عفت  عمل نہ آئے ۔

بیشک قلبی تصورات اور گناہ کی فکر اور سوچ بھی گنا ہ کیلئے راہ ہموار کرتا ہے ۔ اور بالخصوص  اسکی تکرار اور ہمیشہ سوچنے میں ایک  عظیم خطرہ پایا جاتا ہے ۔ جو دھیرے دھیرے انسان کیلئے نا فرمانی کی راہ کو کھول دیتا ہے ،اسکو گناہ کے انجام دینے پر ابھارتا ہے ۔اور خانئہ دل کو سیاہ وتاریک بنا دیتا ہے۔

اسی بنیاد پر آدمی کے تصورات و خیالات اسکے دل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اسکے دل اور قساوت قلب میں یا اسکی نرمی اور آسانی میں واضح اور نا قابل انکار اثر رکھتا ہے۔

۴۷

قرآن کریم کے اسی جملہ کی جانب  اشارہ کرتے ہوئے حضرت علی ابن الحسین  ؑدعائے ابو ہمزہ ثمالی کے آخر میں :اپنی عارفانہ اور پر درد مناجات میں فرماتے ہیں۔

اللهم انی اعوذبک من الکسل والفشل----والفواحش ما ظهر منها وما بطن -----

پروردگار میں تیری باگاہ میں سستی و کاہلی سے پناہ چاہتا ہوں اور فواحش و برے اعمال سے وہ ظاہر ہوں یا چھپے ہوئے۔

یاد رہے اگرچہ قرآن کریم میں فاحشہ اور فواحش کو عام طور سے بد ترین گنا ہوں من جملہ زنا ،لواط یا پاکدامن عورتوں کی جانب بری نسبت دینے وغیرہ میں استعمال کیا گیا ہے ۔

لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بعض ایسے اعمال ہیں جن میں ان گناہوں کی تھوڑی سی برائیاں پائی جاتی ہے ۔اور کبھی کبھی ان اعمال یا بعض اعمال کیلئے مقدمہ بن جاتے ہیں جیسے :

۱:نامحرم کے ساتھ خلوت :

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک مرد اورعورت

یا ایک لڑکے یا لڑکی کا خلوت مثلا کسی بند کمرہ میں ہونا ،بدکاری اور خلاف عفت اعمال کے لیے ایک راستہ ہوتا ہے اس اعتبار سے اسلام میں اس کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔

    ۲:لڑکے اور لڑکیوں کی  دوستی:

اگرلڑکے کی کوئی لڑکی دوست ہو یا لڑکی کا کوئی لڑکا دوست ہو ،تو یہ آلودگی انکی بدکاری وفساد میںپڑنے کا مقدمہ اور سبب ہے کبھی کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے درمیان اچھے اور دوستانہ روابط ہیں یہ تمام باتیں  دھوکاہیں بلکہ شیطان نے ان کے سامنے گناہوں کو مزین کرکے پیش کیا ہے ۔

۴۸

اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک سکہ کے دورخ ہیں اس کا ایک رخ دوستی ،تفریح اور ایک ساتھ باتیں کرناہے اور اس کا دوسرا رخ زنا،فواحش ،اخلاقی فساد اور اسی کے ساتھ ساتھ قتل ،خود کشی اور حدو تعزیر ہے۔خدا کرے کہتمام مسلمان خصوصا  ایرانی مسلمان جوان اس بحث کا مطالعہ کرتے وقت خود کو ہوا و ہوس سے دور رکھ کر منصفانہ مطالعہ کریں اور محکم ارادہ کریں ۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے بے غیرت باپ یا ناپاک مائیں بھی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے اخلاقی فساد اور نا مشروع تعلقات کے بارے میں جانتے ہیں اور کسی بھی طرح کا خطرہ محسوس نہیں کرتے ہیں۔

    ۳ :  نا محرم کو دیکھنا :

  یہ خودبدکاری کے زمینہ کو فراہم کرتا ہے  اور دھیرے دھیرے اتنا آگے تک لے جا تا ہے کہ وہ اپنا دا من گنا ہ کبیرہ سے آلو دہ کر لیتا ہے  ۔  

ایک عرب شا عر کہتا ہے کہ

نظرة فابتسانة وسلام                        

فکلام فموعد فلقاء

ابتدا میں ایک نگا ہ اس کے بعد مسکرا ہٹ اور مسکرا ہٹ کے بعد سلام، اس کے بعد گفتگو، پھر وعدہ اور آخر میں ملا قا ت اور پھر خلا ف عفت اور مخالف تقوی عمل کو انجام دینا ۔اور اس کی حقیقت وہی ہے کہ جو فارسی زبان شاعر نے کہا ہے ۔

                برِ پنبہ آتش نباید فروخت                 

                کہ تا چشم بر ہم زنی خانہ سوخت

روئی پر آگ نہ ڈالو کہ ایک لمحہ میں گھر کو جلا کر خاک کر دے گی ۔

۴۹

۴: لڑکے اور لڑکیوں کے لئے بعض کپڑوں کا پہننا :

خود انسان یا طرف مقابل کے لئے ایسے مساعد حالات فرا ہم کرتا ہے جو فسادا ور گناہ کا سبب بنتے ہیں ۔وہ لباس جس سے ان کے بدن کے خد وخال ظاہر ہو تے ہیں  بغیرکسی شک و شبہ کے جو انو ں اور جنس مخا لف میں برا اثر چھو ڑتا ہے ۔تنگ اور چھو ٹے لبا س افکا ر شیطا نی کے ایجا د کر نے کے لئے موثر ہو تے ہیں۔ بلکہ ظا ہر و آشکا ر اور سریع و قطعی اثر رکھتے ہیں ۔کبھی کبھی ان میں سے کسی ایک منظر کو دیکھنے سے لڑکی کو بد ترین عمل کی طرف کھینچتا ہے یا لڑکے کو شرارت اور نا پا کی و بے عفتی کے کام کے لئے آمادہ کر تا ہے ۔

با ر الہا:آخر کیا ہو جائے گا کہ اگر لوگ اس طرح ہو جا ئیں کہ ضروری ،بدیہی اور مسلم امو ر کا انکار نہ کریں اور فساد وبدی اور بے عفتی و ناپا کی کی تو جیہ کرنے وا لے نہ بنیں؟

    ۵:جسمانی اتصال مثلا ہا تھ ملانا :

 اسی بنیا د پر اسلامی شریعت میں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ جب بچے چھ سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کر دئے جائیں ۔یہ ایک درس ہے جوہم کو ایک راز سکھا تا ہے ۔یہ احکام بتا تے ہیں کہ ان کے جسموں کا ملنا موثر ہے ۔

ممکن ہے کہ یہ باطل خیالات اورشیطانی اوہام کو ان کے  اندر بیدار کرے اور ان کی فساد وناپاکی کا سبب بنے ۔جبکہ یہ اس صو رت میں ہے کہ جب بچوں کے درمیان جسموں کا ملاپ بہن اور بھائی کے درمیان انجام پا تا ہے۔

اس اجمال کی تفصیل تک آپ خو د پہو نچ سکتے ہیں ۔

۵۰

آدم کشی سے اجتناب

        دعوت الھی کے امو ر میں سے پا نچواں امر آدم کشی اور محترم نفوس کو قتل کرنے سےاجتناب کرنا ہے ۔خدا وند عالم نے انسانوں کی جان کو محترم شما ر کیا ہے اور ان کے لئے غیر معمولی عظمت کا قائل ہے اسلام کی نظر میں کسی بھی چیز کا احترا م لو گو ں کے خون کے برا بر نہیں ہے ۔اور کو ئی بھی گناہ کسی انسا ن کے قتل سے بڑھ کر نہیں ہو تا ہے ۔اس اعتبا ر سے ہر انسان کو دوسروں کی جان کا محا فظ ہو نا چا ہئے اور یہ بات خود اپنے آپ کو سمجھا ئے کہ جس طرح ہم اپنی جان کو عزیز رکھتے ہیں اور اس کی حفا ظت کی کو شش کر تے ہیں۔تو دوسروں کی جان کو بھی اپنی جان کی طرح عزیز  رکھیں ۔لہذا ہم کو ان کی حفا ظت و  نگہداشت کا بھی اہتمام کرنا چا ہئے کہ خدا وند عا لم نے ان کو بہت زیادہ محترم شما ر کیا ہے ۔

قرآن مجید کی آیت میں اسے :حرم اللہ :کے عنوان سے پیش  کیا گیا ہے ۔در حا لیکہ اس کو :حرم الاسلام :یا :حرم اللہ فی الاسلام :کے نا م سے یا د کرنا چا ہئے تھا۔شاید اس تعبیر کا را ز یہ ہو کہ :خو ن انسا ن کی حر مت فقط شریعت اسلام میں  منحصر نہیں ہے بلکہ تما م ادیا ن میں اس اعتبا ر سے کہ لو گو ں کے خو ن کی حفا ظت کرنا چا ہئے اور کو ئی خدشہ مسلما نو ں کی جا ن میں ایحا د نہ کرے :متفق ہیں اور تمام انبیا ء ،پیمبرا ن الہی اور تمام آسمانی  مذا ہب اور شریعتیں اس اعتبا ر سے متفق ہیں ۔

        قر آن کریم   میں موضوع قتل بہت ہی شدت کےساتھ بیان کیا گیا ہے اور اسکی تعبیرات کی سختی اور عظمت میں دوسرے گناہوں کی بنسبت واضح اور آشکار ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے ،

(وَ مَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فيها وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهُ وَ أَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظيماً) (93)(1)

--------------

(1):- سورہ نساء ،آیۃ ۹۳

۵۱

 اورجو بھی کسی مومن کو قتل کرے گا اسکی جزا جہنم ہے ۔اور اسی میں ہمیشہ رہنا ہے اور اس پر خدا کا غضب ہے  اور خدا لعنت بھی کرتا ہے اور اس نے اسکے لئے عذاب عظیم بھی مہیہ کر رکھا ہے ۔اس آیئہ کریمہ میں قاتل کیلئے پانچ انجام بتائے گئے ہیں ۔

۱:اسکی سزا دوزخ ہے ۔

۲: ہمیشہ دوزخ میں رہے گا ۔

۳: خدا اس پر غصب کریگا ۔

۴: اس پر خدا کی لعنت ہے ۔

۵: خدا وند عالم نے اسکے لئے عذاب عظیم مہیاکر رکھا ہے ۔

اور یہ بھی فرماتا ہے ۔

(مِنْ أَجْلِ ذلِكَ كَتَبْنا عَلى‏ بَني‏ إِسْرائيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النَّاسَ جَميعاً وَ مَنْ أَحْياها فَكَأَنَّما أَحْيَا النَّاسَ جَميعا ) (۳۲)(1)

اسی بنیاد پر ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کے علاوہ قتل کر ڈالے گا ۔اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دیدی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دیدی۔

اس آیئہ کریمہ میں ایک انسان کو قتل کرنا تمام انسانیت کو قتل کرنے کے برابر قرار دیا گیا ہے اور  ایک انسان کو نجات دینا تمام انسانوں کو نجات دینے کے برابر ہے۔

--------------

(1):- سورہ مائدہ،آیۃ ۳۲

۵۲

محل بحث آئیہ کریمہ دو حصوں پر مشمل ہیں ۔ جملہ مستثنی اور جملہ مستثنی منہ ۔اور جو کچھ کہا گیا ہے وہ مستثنی منہ کے مورد میں ہے ۔لیکن مستثنی یعنی مخصوص مواردمیں قتل کا جائز ہونامحل بحث آیت میں بطور کلی ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ارشاد ہوتا ہے۔:الابالحق:اور اسکا فائدہ یہ ہے کہ ان موارد میں افراد کا قتل کرنا حق ہے ۔اسطرح کہ اسمیں کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور یہ موارد تین عناوین میں خلاصہ ہوتے ہیں ۔  

    ۱: باب قصاص:

  اگر کسی نے دوسرے کے قتل کا اقدام کیا لیکن مقتول یہ حق رکھتا ہے کہ قاتل کو اس کے جرم میں کہ جسکا وہ مرتکب ہوا ہے ۔اور محترم جان کو مار ڈالا ہے ۔قتل کر دیا جائے ۔البتہ خودیہ کام معاشرہ سے قتل کو ختم کرنے  اور نفسوں کی حفاظت کیلئے ایک وسیلہ ہے ۔ اور یہ حکم صراحت کے ساتھقرآنمجیدمیںآیاہے ۔اسطرحسےکہجوقابل تصرف وتاویل نہیں ہے ۔

ایک مصری دانشمند فرید وجدی   کہتا ہے کہ : اکثر یورپی قوانین قاتل پر قتل کا حکم لگاتی ہیں کہ اسکو قتل کر دیا جائے ۔لیکن ایک نیا نظریہ وجود میں آیا ہے جو یہ کہتا ہے کہ قاتل کو قتل نہیں کرنا چاہئے ۔بلکہ قید و بند ہی اسکے لئے کافی ہے بعض ممالک جیسے سوئزر اوراٹلی نے اس نظریہ کو قبول کیا ہے ۔ قاتل کو ان ممالک کی شریعتوں اور قوانین کے تحت قتل نہیں کیا جاتا ہے بلکہ انفرادی قید خانہ میں قید کر دیا جاتا ہے ۔کہ جہاں کوئی آواز اسکے کانوں تک نہ پہونچے اور اسکو چند سال تک اسی طرح چھوڑ دیتے ہیں۔ اسکے بعد اسکو عمومی زندان کی طرف منتقل کر دیا جاتا ہے ۔اور اس سے سخت سے سخت کام لئے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ مر جائے۔

۵۳

ان اسلامی قوانین کےاحکام کی حکمت (کہ جن کے قتل کی سزا بعض یوروپی ممالک میں ایک دوسری صورت میں لاگو ہوتی ہے )سے موازنہ کرنے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔کیونکہ اس طرح کی زندگی کا کیا فائدہ ہے ۔؟ اسکے علاوہ قتل کے ذریعہ قصاص ،خود اس عمل کی قسم میں سے ہے ۔قید کے برخلاف کہ یہ ایک سزا کی الگ قسم ہے اور  اسکا قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے  ۔جرم اور اسکی سزا کے درمیان کا تناسب اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ولی قاتل کو قتل کرے ۔اوروہ روک تھام کہ جو قتل کے قصاص میں ہے حبس اور اسی کے مثل دوسری سزائوں میں نہیں ہے ۔                        

۲ : باب حدود:۔

 زنا کےبعض  اقسام میں صرف قتل کا حکم یا پھرخاص اندازمیں مار ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

الف: اپنے نسبی محرم کے ساتھ زنا کرنا ۔   

ب: کافر ،مسلمان عورت کے ساتھ زنا کرے ۔

ج: وہ مرد کہ جو کسی عورت کو زنا پر مجبور کرے ۔  

د:شادی شدہ مرد یا عورت لذت جنسی کے امکان کے باوجود زنا کریں  ۔

جیسا کہ لواط کی حد میں قضیہ کے طرفین کی بنسبت اپنے خاص شرائط کے ساتھ قتل کا حکم ہے ۔البتہ دوسرے موارد  بھی ہیں کہ جو مفصل کتابوں میں بیان ہوئے ہیں  ۔(1)

--------------

(1):- ہم نے اسکو اپنی کتاب الدر المنضود فی احکام الحدود[ جو تین جلدوں میں لکھی گئی ہے ] مفصل طور پر بیان کیا ہے

۵۴

۳:باب ارتداد:

مسلمان کا اسلام سے پھر جانا ۔اور توحید اور اسلام کے بعدراہ کفر وشرک کو اختیار کرنا  وہ بھی خاص شرائط کے ساتھ اسکا یقینی اثبات قتل کا سبب ہوتا ہے ۔ اور اسکے تمام احکام و شرائط فقہ کی تفصیلی کتابوں میں بیان ہوئے ہیں کہ خواہشمند حضرات ان کی جانب رجوع کر سکتے ہیں  ۔(1)

لیکن اس مقام پر اس نکتہ کی جانب متوجہ کرنا ضروری ہے کہ قتل کا حکم ابتدائی مورد میں یعنی باب قصاص میں مقتول کے ولی سے مربوط ہے اور اسکے اختیار میں ہے کہ قاتل سےقصاص لے یا اسے معاف کر دے ۔

       لیکن دوسرے اور تیسرے مورد میں یہ حکم  خود حاکم شرع سے مربوط ہے  کہ پہلے قضیہ  واضح ہو جائے اور اسکے بعد قتل کا حکم اور اسی کی مانند حاکم اور قاضی کی قضاوت سے وابستہہوتا ہے ۔

اس بحث کے اختتام میں مسلمان جوانوں :ہم لڑکے اور لڑکیوں کو خیر خواہی کے ساتھ یہ وصیت کرتے ہیں کہ اپنے نفوس کی کڑی حفاظت کریں ،۔تاکہ ان تین ہلاکتوں میں گرفتار نہ ہو جائیں ۔اور بے گناہ انسان کے خون کے بہنے کا سبب نہ بنیں ۔قتل کی حد کے مستحق نہ بنیں ۔اور کسی ایسے گناہ سے اپنے دامن کو داغدار نہ کریں کہ خدا نہ خواستہ دین الہی سے بدبین ہو کر کافر ہو جائیں کہ نتیجہ میں ارتدای قتل کے مستحق قرار پائیں ۔

۶ :یتیم کے مال کی رعایت  کرنا

        آئیہ کریمہ میں چھٹا  امر یتیموں {یعنی وہ بچے جنکے باپ اور سرپرست نہ ہوں } کے مال کی رعایت کرنا ہے ۔اس مقام کو بھی اس امرکو قرب {لاتقربوا } کے ذریعہ بیان کیا ہے۔یہاں تک کے یتیم کے مال سے قریب تک ہونے  کو منع کیا گیا ہے اس لئے کہ اس سے نزدیک ہونا خطرہ میں پڑنا ہے ۔

--------------

(1):- ر،ک بہ نتائج افکار ،مئولف کی کتاب

۵۵

یہ بات واضح ہے کہ تمام لوگوں کے مال کو محترم شمار کرنا اور اسکو ضایع کرنے اور بغیر اجازت کے خرچ کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔لیکن یتیم کے مال کا خاص طور سے ذکر کرنا اس اہمیت کی وجہ سے ہے کہ جو یتیم کے متعلق ہے اور اسکی علت یہ ہے کہ وہ بچپنے اور کمسنی کی وجہ سے عدم ورود اور خود  اسکے لئے اپنا دفاع ممکن نہیں ہے ۔ اور وہ اپنے مال و دلت کے متعلق بہتر تدبیر اور اسکی حفاظت نہیں کر سکتا ہے ۔اس بنیاد پر مخصوص توجہ اور خاص شفارش کی گئی ہے ۔اور حکیم علی الاطلاق خدا وند عالم نے اس آیت میں یتیم کے مال کو خاص طور پر موضوع بحث بنایا ہے ۔اور اسکے مال میں تصرف سے بھی منع کیا گیا ہے۔

حقیقت میں کس قدر عظیم گناہ ہے کہ انسان اس شخص کے مال کو ہاتھ لگائے کہ جو نہ اپنی اور نہ اپنے مال کے دفاع کی قدرت نہیں رکھتا ۔اور یہ کھلا اور واضح ضعیف پر ظلم کا مصداق ہوتا ہے ۔

اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جملئہ مبارک اور قرآن مجید کا محل بحث فقرہ اسی لفظ اور خاص عبارت کے ساتھ قرآن میں دو مقام پر ذکر کیا گیا ہے۔

سورہ انعام کی وہ آیت کہ جو ہماری موضوع بحث ہے ۔

اور دوسری آیت سو رہ اسراء یا بنی اسرا ئیل کی ۳۴ ویں میں فر ما تا ہے ۔

(وَ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتيمِ إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّه‏ )(1)

اور یہ آیت  اس مو ضو ع کی اہمیت کو بیا ن کر سکتی ہے ۔قا بل تو جہ با ت یہ ہے کہ سو رہ انعا م میں اس مو ضوع کو صرا ط مستقیم کے عنا صر اور احکام کے عنوا ن سے ذکر کیا گیا ہے ۔اور سو رہ اسرا ء میں اس دلیل کے سا تھ کہ یہ حکمت الہی کے حکم کا جز ہے بیا ن کیا گیا ہے ۔جیسا کہ مندر جہ ذیل آیت میں ارشا د ہو تا ہے کہ

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ ۱۵۲

۵۶

(ذلِكَ مِمَّا أَوْحى‏ إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَة )(1)

یہ وہ حکمت ہے جس کی وحی تمہا رے پر ور دگا ر نے تمہا ری طرف کی ہے۔

حا کم اور یتیم بچہ اور آیا ت قر آنی کی تا ثیر

        ایک انسا ن دنیا سے چل بسا اور کچھ یتیم بچو ں کو چھو ڑ گیا اور ایک با ایمان شخص کو اپنا وصی اور اپنے چھوٹے بچو ں کا محا فظ قرار دیا ۔اس زمانے کے ظا لم اور طا قتور حاکم نے ایک شخص کو وصی کے پا س بھیجا اور کہا میں نے سنا ہے کہ فلا ں شخص مر گیا ہے اور اتنی مقدار نقد چھو ڑ گیا ہے اس میں سے اتنی مقدا ر مجھ کوقرض دو  ۔وصی نے دو تھیلی پیسے اس یتیم بچے کے دا من میں رکھےاور اس کو حاکم کے پا س بھیج دیا ۔

اور حا کم کو ایک خط لکھا کہ پیسہ اس بچے کا ہے ۔خود اس سے لے لو اور قیامت کے دن خو د اس کو پلٹا  دینا۔اور اس کا مجھ سے  کو ئی تعلق نہیں ہے ۔حاکم نے جیسے ہی یہ خط پڑھا تو آئیہ شریفہ کا مضمو ن اس کی نظروں میں گھو م گیا کہ جس میں خدا ارشا د فر ما تا ہے ۔

(انَّ الَّذينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامى‏ ظُلْماً إِنَّما يَأْكُلُونَ في‏ بُطُونِهِمْ ناراً وَ سَيَصْلَوْنَ سَعيراً) (10)(2)

جو لوگ ظا لمانہ اندا ز سے یتیمو ں کا مال کھا جا تے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر ر ہے ہیں اور عنقریب وا صل جہنم ہو ں گے ۔

--------------

(1):- سورہ اسراء ،آیۃ ۳۹

(2):- سورہ نساء، آیۃ ۱۰

۵۷

حا کم خدا وند عا لم کے عذاب سے خوفزدہ ہوا او ر گریہ کرنے لگا اور بچے سے پوچھا:کیا تم مکتب جا تے ہو؟ بچے نے جو اب دیا :ہا ں۔پو چھا کیا پڑھتے ہو ؟اس نے جو ا ب دیا :قر آن ۔

اس نے پو چھا ۔کیا قرآن حفظ کر تے ہو ؟اس نے جو اب دیا :ہا ں

اس نے کہا پڑھو ۔دیکھو ں کس طرح حفظ کیا ہے ؟بچے نےیہ آیت پڑھنا شرو ع کیا ۔

(اعوذ بالل من الشیطان الرجیم ، وَ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتيمِ إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّه‏ )

حا کم نے دو با رہ گر یہ کیا ااور کہا :میں خدا وند عا لم کے حکم کے خلا ف کوئی کام نہیں کرو ں گا ۔اور پھرتھیلیو ں کو ہا تھ  نہیں لگا یا ۔بلکہ ایک خلعت بچے کو اپنی طرف سے دیا اور ایک خلعت وصی کے لئے بھی دے کر اس کو وا پس کر دیا  ۔(1)

سا ت سالہ یتیم بچہاورحجا ج

        عظیم الشا ن محدثمر حو م دیلمی رضوا ن اللہ علیہ لکھتے ہیں :ایک سات سالہ بچہ حجا ج کے سا منے آیا اور کہا اے امیر :یہ با ت جا ن لو کہ میرا با پ اس وقت اس دنیا سے گذرگیا جب میں اپنی ما ں کے شکم میں تھا اور میری ماں بھی اس وقت دنیا سے گذر گئی جب میں شیر خوا ر تھا ۔          

اور دو سرے لو گ میرے امو ر کی کفا لت کر تے تھے ۔اور میرے باپ نے ایک باغ میرے لئے چھو ڑا کہ جو میرا معین و مددگا ر تھا اور میری زندگی کے لوا زما ت اسی سے پورے ہو تے تھے ۔لیکن فی الحا ل تمہا رے عمّال میں سے ایک نے اس کو غصب کر لیا ہے۔جو شخص خدا سے نہیں ڈرتا ہے تو وہ امیر کی شا ن وشو کت اور قدرت و منزلت سے کیا ڈرے گا ۔یہ تمہا ری ذمہ دا ری ہے کہ ظا لم کو منع کرو اور لو گو ں کے حقوق ان کو پلٹا دو تاکہ اس کا نتیجہ حا صل کرسکو ۔

--------------

(1):- عدد السنۃ،سبزواری ، ص ۱۲۴

۵۸

(يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَ ما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَها وَ بَيْنَهُ أَمَداً بَعيدا) (۳۰)(1)

اس دن کو یاد کرو جب ہر نفس اپنے نیک اعمال کو بھی حاضر پائے گا اوربد اعمال کوبھی ۔کہ جن کو دیکھ کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہمارے اور ان برے اعمال کے درمیان طویل فاصلہ ہوجاتا  ۔

حجاج نے حکم دیا کہ اسکا باغ اسکو پلٹا دیا جائے ۔اور یہ بھی حکم دیا کہ ادیبوں کو بھی اسکے گھر سے دور کر دو اسلئے کہ وہ ان سب سے بڑا ادیب ہے  ۔(2)

ہم کومتوجہ رہنا چاہئے کہ مورد بحث آیہ کریمہ اور اس سے مشابہ آیات مورد استثناء پر مشتمل ہیں ۔{إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ } یعنی یتیموں کے مال کے نزدیک نہ جانا مگر اس طریقہ سے کہ جو بہترین طریقہ ہے اور اسکے مال کی حفاظت وسعت کا سبب ہو۔ البتہ وہ تصرف کہ جسکا نتیجہ یتیم کے مال کی حفاظت یا فائدہ ہو تو کوئی مشکل نہیں ہے بلکہ بسا اوقات مطلوب اور پسندیدہ ہوتا ہے ۔

مندرجہ بالا آیئہ کریمہ دونوں مقام  یعنی محل بحث آیئہ کریمہ  اور اس سے مشابہ سورہ اسراء کی  آیئہ کریمہ سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے ۔ کہ  یتیم کے مال کے نزدیک ہونے کی حرمت کے  معنی اسکے مال میں تصرف حاصل کرنا  ہے ۔ کہ جو اقتصادی امور کی تدبیر کی قدرت اور اپنے مال کی حفاظت اور اس سے فایدہ حاصل کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔لیکن جس وقت وہ حد بلوغ تک پہونچ جائے اورتم کویہ  احساس ہو کہ اب وہ خوداپنے مال کی حفاظت اور اسکو صحیح جگہ پر تصرف اور فائدہ حاصل کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا  ہے ۔تو اس وقت اسکے مال میں تصرف سے منع کیا گیا ہے ۔مگر یہ کہ وہ شرعی ضوابط کی بنیاد پر ہو ۔

--------------

(1):- سورہ آل عمران ،آیۃ ۳۰

(2):- ارشاد القلوب ،ص ۲۳۰

۵۹

۷:ناپ اور تول میں عدل اور انصاف سے کام لینا

        ساتواں محل بحث موضوع ناپ تول میں عدل اور انصاف سے کام لیناہے ۔

        خریدار کواسکی چیز صحیح و سالم اور مکمل حوالہ کرنا خود ایک اہم موضوع  ہے ۔ کہ جو  عوام الناس کے اعتماد کوبحال کرتا ہے ۔اور معاشرہ کے مختلف افراد کو زندگی میں متحرک کر دیتا ہے ۔اور ایک راہ پر لگا دیتا ہے ۔ جیسا کہ خود قوانین کی رعایت دولت کی عادلانہ تقسیم کا ایک  وسیلہ ہے  ۔  اور ان قوانین کی رعایت کرکے جھوٹی اور نا مشروع دولت غلط لوگوں کے پاس جمع نہیں ہو سکتی ۔ اور ہر ایک اپنا شرعی اور واقعی حق کو حاصل کر سکتا ہے ۔

اور انہیں کے مقابل میں جو شخص  اشیاء کے تولنے کا ذمہ دار ہو ۔لیکن اگر وہ امانت دار اور قابل اعتماد نہ ہو اور خریدار کے  حق میں کٹوتی  اور ناپ اور تول میں خیانت کرے  گا۔تومعاشرہ میں ایک دوسرے کے اوپر سے اعتماد کی روح ختم ہو جائیگی اور ایک دوسرے کے تئیں اعتماد کی جگہ بدگمانی پیدا ہو جائے گی ۔اور اسی کے ساتھ معاشرہ میں دشمنی ، عداوت ،بغض و حسد اور کینہ  رائج ہو جائیگا  ۔

اور نتیجہ میں طرف مقابل کم تولنے  پر مجبور ہوگا کہ جسکی وجہ سے معاشرہ میں ایک دوسرے کے تئیں خیانت کا دروازہ کھل جائیگا۔اور پھر یہی چیز رواج پیدا کر لے گی ۔اور صحیح و سالم اجتماعی روابط باقی نہیں رہیں گے  بلکہ نظام اجتماعی درہم برہم ہو جائیگا  ۔اور ایک بدگمان اور خیانت کار معاشرہ کی داغ بیل پڑ جائیگی  اسطرح کہ لوگوں کے اجتماعی اور اخلاقی حقوق ضایع ہونے لگے گیں ۔

اور خریدارنے جو قیمت ادا کی ہے اس کے مقابل اسے جنس نہیں ملسکے گی۔جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں حق کشی اور ایک دوسرے کےحق کو ضایع کرنا بھی مکمل طور پر رائج ہو جائیگا  اور پھر غلط اور نا جائز طریقے سے دولت اکھٹا کرنے کا راستہ ہر ایک کے لئے کھل جائیگا ۔ اور ایک سالم اور الہی معاشرہ کی جگہ مادی اور شیطانی معاشرہ وجود میں آجائیگا۔اس سلسلے میں ہم کو خدا سے پناہ ماگنا چاہئے ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348