تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180694 / ڈاؤنلوڈ: 4273
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی ایک کی موت کا وقت آجاتا ہے تو کہتا ہے : میرے رب مجھے واپس کر دے شاید جو میں نے ترک کیا ہے اس کے بدلے عمل صالح انجام دے لوں، ایسا نہیں ہے ! یہ ایک بات ہے جو وہ اپنی زبان پر جاری کرتاہے ! اوران کے پیچھے قیامت تک کے لئے برزخ ہے۔

کلمات کی تشریح:

۱۔''یتوفّی'': مکمل اور تمام دریافت کرتا ہے، یعنی خدا وند عالم یا ملک الموت اس کی جان مکمل طور پرلے لیتے ہیں ،سوتے وقت بھی ایسا ہوتا ہے جب آدمی کی قوت ادراک اور بعض حواس کام نہیں کرتے جیسے کہ اس کی روح قبض کرلی گئی ہو۔

۲۔ ''حمیم'': کھولتا ہو اپانی ۔

۳۔''تصلےة جحیم'': جہنم میں کھولتے ہوئے پانی سے جلانا۔

۴۔'' برزخ'': دوچیز کے درمیان حد اور مانع ۔

انسان اس مرحلہ میں دنیاوی زند گی کی تمامیت اور اپنے تمام اعضاء کی موت کا احساس کرتا ہے لیکن اس کے بعد کی شناخت کے لئے بجزاخبار انبیاء کوئی وسیلہ نہیں رکھتا ، لہٰذا اگر انبیاء کی تصدیق کی ہے اوران پر اور وہ جو کچھ خدائی صفات اور شریعت الٰہی بیان کئے ہیںان سب پر ایمان رکھتاہے تو و ہ عا لم ا خرت اور اس کے مختلف مراحل پر بھی ایمان لے آئے گا ، عالم آخرت کے بار ے میں جو کہا گیا ہے اس کا، عالم دنیا میں جو دیکھا اور پہچانا ہے اس سے مقائسہ ممکن نہیں ہے ، کیونکہ ہمارے وسائل محدود اور اس دنیاوی زندگی سے مخصوص ہیں لیکن آخرت کے بارے میں انبیاء کی خبروں کی بررسی و تحقیق کا،جیسا کہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کوئی عملی راستہ نہیں ہے۔

منجملہ وہ روایات جو آخرت اور زندگی کے آخری لحظات کے بارے میں ہمیں ملی ہیں ان میں سے ایک روایت وہ ہے جو امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

''من مات ولم یحجّ حجّة الاِسلام دُونما مانع یمنعهُ فلیمُت ان شاء یهودیاً أو نصرانیا ً''( ۱ )

جس کسی کو موت آجائے اور وہ بغیر کسی قابل قبول عذر کے اپنا واجب حج ترک کردے تو اسے اختیار ہے چاہے تو یہودی مرے چاہے تو نصرانی۔

____________________

(۱)ثواب الاعمال ، باب '' حج ترک کرنے والے کی سزا '' حدیث ۲.

۸۱

۴۔

قبر میں انسان کی جزا

جن چیزوں سے ميت کو قبر میں سامنا ہوگاان سے روائی کتابیں بھری پڑی ہیں: دو مامور فرشتوں کے عقائد سے متعلق سوال( ۱ ) سے لے کر حسن سلوک اور بد سلو کی نیز اپنی زندگی کی ہر حرکت و سکون کے آثار دیکھنے تک او ر یہ کہ قبر ميت کے لئے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا آگ کے گڈھوں میں سے ایک گڈھا ہے۔( ۲ ) اورجو کوئی چغل خوری کرے یا پیشاب کرتے وقت نجاست کی پرواہ نہ کرے قبر میں عذاب سے دوچار ہوگا( ۳ ) اور جس کا اخلاق اچھا ہو گا قبر میں داخل ہونے کے وقت سے لیکر قیامت میں حساب وکتاب کے آخری مرحلہ تک اچھی جزا پاتا رہے گا۔( ۴ ) اور جو کوئی اپنا رکوع صحیح انجام دے قبر میں اس پر کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔( ۵ )

____________________

(۱)سفینة البحار میں مادئہ '' نکر'' ملاحظہ ہو

(۲) سفینة البحار میں مادئہ '' قبر'' ملاحظہ ہو۔

(۳) ثواب الاعمال ،صدوق ، ص ۲۹۵ ، ح ۱ ؛صحیح مسلم ، کتاب الطہارة ، باب'' الدلیل علی نجاسة البول'' ص ۲۴۰۔ ۲۴۱ ؛ سنن دارمی ، کتاب الطہارة ، سنن ابی داؤد ، کتاب الطھارة ، باب'' الاستبراء من البول'' ج ۱ ، ص ۳۴ ، ۳۵ ؛ سنن ابن ماجہ ، کتاب الطہارة ، باب''ا التشدید فی البول'' ج۱ ، ص ۱۲۴ ، ۱۲۵ ؛ مسند احمد ، ج۱ ، ص ۲۲۵ ، ج۵ ،ص۴۶۶اور ۴۱۷ اور ۴۱۹ ؛صحیح بخاری ، کتاب الوضو، باب ''من الکبائران لا یستر من بولہ'' ج۱، ص۶۴، کتاب الادب ، باب الغیبة ج۸ ، ص ۲۰ اورباب ''النمیمة من الکبائر''ج۸ ، ص۲۱ ۔

(۴)ثواب الاعمال ، ص۱۸۰،باب'' برادر مومن کو خوش کرنے کا ثواب''

(۵)سفینة البحار ، مادئہ ''رکع''

۸۲

۵۔

انسان اور محشر میں اس کی جزا

الف: صور پھونکنے کے وقت

محشر کے دن کاآغازحساب وکتاب کے لئے صور پھونکتے ہی ہو جائے گا ،''صور''عربی لغت میں شاخ کے مانند ایک چیز ہے، اسمیں پھونک مارتے ہیں تو اس سے آواز نکلتی ہے خداوند سبحان فرماتا ہے:

( و نفخ فی الصور فصعق مَن فی السماوات و مَن فی اِلٔاّرض الّا مَن شاء ﷲ ُ ثُّم نُفخَ فیه أخریٰ فا ذا هم قِیام ینظُرُون ) ( ۱ )

اورصور پھونکا جائے گا پس زمین وآسمان کے درمیان جتنے لوگ ہیں سب مر جائیں گے جزان لوگوں کے جنھیں خدا چاہے ،پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا اچانک سب یک بارگی اٹھ کھڑے ہوں گے جیسے کہ انتظار میں ہوں۔

''صعق'': یہاں پر ایک ایسی آواز ہے جس کااثر موت ہے حدیث میں ''نفخ'' کے لئے ایک تفسیر بیان ہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: صوردو مرتبہ پھونکا جائے گا:

پہلی مرتبہ:

پہلی مرتبہ جب اسرافیل صور پھونکیں گے اور تمام زمین وآسمان کے موجودات مر جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جنھیں خدا چاہے حاملان عرش ، جبرائیل ، میکائیل اورعزرائیل اِس کے بعد خدا وند عالم ملک الموت سے کہے گا: کون باقی بچا ہے؟ کہیں گے: خدایا !ملک الموت ،جبرائیل ، میکائیل اور حاملان عرش کے علاوہ اور

____________________

(۱)زمر ۶۸

۸۳

کوئی باقی نہیں بچا، خداوند عالم فرمائے گا : جبرائیل اور میکا ئیل سے کہو: مر جائیں اوران کی روح قبض کرلی جائے ، اس کے بعد ملک الموت سے کہے گا :کون بچا ہے ؟ ملک الموت جواب دیں گے: خدا یا ! ملک الموت اور حاملان عرش کے علاوہ کوئی باقی نہیں ہے! کہے گا : حاملان عرش سے کہو مر جائیں اوران کی روح قبض کر لی جائے اسکے بعد فرمائے گا :اے ملک الموت اب کون بچا ہے؟عرض کریں گے: ملک الموت کے علاوہ کوئی نہیں بچا ہے، ارشاد قدرت ہوگا : تم بھی مر جاؤ، ملک الموت بھی مر جائے گا،اب خدا وند ذوالجلال آواز دے گا :

( ''لمن الملک الیوم ) ٫٫آج کس کی حکومت ہے''؟

جب کوئی جواب نہیں دے گا،تواُس وقت خدا وند ذوالجلال خود ہی اپنا جواب دیتے ہوئے فرمائے گا:

( ''ﷲ الواحدِ القهار٫٫ ) خدا وندیکتاو قہار کی حکومت ہے''۔( ۱ )

اُس کے بعد جب چاہے گا دوبارہ صور پھونکے گا جیسا کہ خود ہی فرماتا ہے: پھر دوبارہ صور پھو نکے گا اچانک سب کے سب ا ٹھ کھڑے ہوں گے جیسے کہ انتظار میں ہوں۔( ۲ )

دوسری مرتبہ:

خداوند عالم ا س کے بارے میں ارشاد فرماتاہے:

۱۔( ونفخ فی الصور فجمعنا هم جمعاً )

صورپھونکا جائے گاتوہم سب کو اکٹھا کریں گے۔( ۳ )

۲۔( و یوم ینفخُ فی الصور ففزعَ مَن فی السمواتِ و مَن فی الٔرض الّا من شاء ﷲ و کلّ أتوهُ ٰاخرین ) ( ۴ )

جس دن صور پھونکا جائے گا آسمان و زمین کے رہنے والے سب کے سب وحشت کے دریا میں غرق ہوںگے، جز ان کے جنھیں خد ا چاہے گا اور سب کے سب خضو ع کے ساتھ سرجھکائے اس کے حضور میں حاضر ہوں گے۔

۳۔( ونفخ فی الصورفاِذا هم من الأجداث الیٰ ربهم ینسلون)(قالوا یاویلنا مَن بعثنا من )

____________________

(۱) مومن ۱۶ (۲)الدر المنثور سیوطی ،۵ ۳۳۶، ۳۳۷؛ و بحار بہ نقل از کافی وغیرہ ۶ ۳۲۶، ۳۲۷ ۔(۳)کہف ۹۹ (۴)نمل ۸۷

۸۴

( مرقد نا هذاماوعد الرحمن وصدق المرسلون)( ان کانت الّا صیحة ًواحدةً فاذاهم جمیع لدینا محضرون)(فالیومَ لا تُظلم نفس شیئاًً ولا تُجزونَ اِلّاما کُنتم تعملون ) ( ۱ )

صور پھونکا جائے گا ، نا گاہ وہ لوگ اپنی قبروں سے ا ٹھ کرتیزی کے ساتھ اپنے ربّ کی طرف دوڑ یں گے اور کہیں گے ہم پر وائے ہو! کس نے ہمیں ہماری آرام گاہ سے اٹھاد یا ؟ یہ وہی ہے جس کا خدا وند رحمن نے وعدہ کیا تھا اورا س کے فرستادہ افراد نے سچ کہا تھا ،یہ روداد ایک چیخ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کہ ناگہاں سب کے سب ہمارے پاس حاضر ہوں گے،آج کے دن کسی پر ذرہ برابربھی ستم نہیں ہو گا اور تم نے جو عمل کیا ہے اس کے علاوہ تمہیںکوئی پاداش اور جزا نہیں دی جائے گی۔

اور نیز اس سلسلہ میں کہ تمام انسانوں کو اکٹھا کریگا، فرمایا:

۱۔( وحشرناهم فلم نُغا درمنهم أحداً ) ( ۲ )

اورہم ان سب کواٹھا ئیں گے اوران میں سے کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔

۲۔( یوم ینفخ فی الصورونحشرالمجرمین یومئذٍ زرقاً ) ( ۳ )

جس دن صور پھو نکاجائے گا اور مجرموں کو نیلے جسم کے سا تھ ( بدرنگ صورت میں ) اس دن جمع کریں گے۔

۳۔( یوم نحشر المتقین الیٰ الرحمن وفداً ) ( ۴ )

جس دن پرہیز گاروں کو ایک ساتھ خدا وند رحمن کے حضور میں محشور کریں گے۔

کلمات کی تشریح

ا ۔''داخرین'': ذلت اور رسوائی کے ساتھ۔

۲۔''أجداث'': قبریں۔

۳۔''ینسلون'': جدا ہوں گے ، قبروں سے تیزی کے ساتھ باہر آئیں گے

۴۔''زرقاً'': زَرَق یا اَزْرَق کی جمع ہے، نیلے پن کے معنی میں

۵۔ ''وفداً: وفد ھیئت'' اور اس گروہ کا نام ہے جو پاداش اور جزا حاصل کرنے یا کسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر حاکم کے پاس جاتے ہیں۔

____________________

(۱)یس ۵۱، ۵۴(۲) کہف ۴۷ (۳) طہ ۱۰۲(۴)مریم ۸۵

۸۵

ب:روز قیامت کے مناظر کے بارے میں

خدا وندعالم روز قیامت کا اس طرح تعارف کراتا ہے:

۱۔(( أنّهم مبعوثون، لیومٍ عظیمٍ، یومَ یقومُ الناسُ لربِّ العالمینَ ) ( ۱ )

وہ لوگ مبعوث ہو ں گے ،عظیم دین میں ، جس دن لوگ خدا وند عالم کے حضور میں کھڑے ہوں گے۔

۲۔( یوم یقومُ الرّ وُحُ و الملا ئکة ُ صفّاً لا یتکلمون الا منَ اذنَ لهُ الرحمنُ وقال صواباً ) ۔( ۲ )

جس دن روح اور فرشتے ایک صف میں کھڑے ہوں گے اور کوئی بھی سوائے اس کے جسے خدا وند رحمن اجازت دے اور درست کہے نہیں بولے گا۔

۳۔( وخلق ﷲ السمٰوات والأرض با لحق ولتجزیٰ کُلّ نفسٍ بما کسبت وهم لا یظلمون ) ( ۳ )

اور خدا وند عالم نے آسمان اور زمین کو بر حق خلق کیا ہے تا کہ ہر شخص کو اس کے کاموں کی جزا دی جائے اوران پر ظلم وستم نہیں ہو گا ۔

۴۔( وکل انسانٍ الزمناه طائره فی عنقه ونخرج له یوم القیامةِ کتاباً یلقاه منشوراًاقراکتابک کفیٰ بنفسک الیوم علیک حسیباً ) ( ۴ )

اورہم نے انسان کے نامۂ اعمال کوا س کی گردن میں آویزاں کر دیا ہے اور قیامت کے دن اس کے لئے ایک کتاب باہر نکا لیں گے کہ وہ اسے اپنے سامنے کھلا ہوا دیکھے گا!اس سے کہا جائے گا اپنی کتاب (نامہ اعمال) پڑھو! اتنا ہی کافی ہے کہ آج کے دن خود اپنا محاسبہ کر نے والے رہو۔

۵۔(( کل امة تدعیٰ الی کتا بها الیوم تجزون ما کنتم تعملون)( هذا کتابُنا ینطقُ علیکم بالحق انا کُنا نستنسخ ما کنتم تعملون)( وبدٰالهم سیئاتُ ماعملوا و حاق بهم ما کانوا به یستهزون)( وقیل الیوم ننسا کم کما نسیتم لقائَ یومکم هذا ومأوا کم النارُومالکم من ناصرین)(ذلکم بانکم اتخذ تم آیاتِ ﷲ هزواًوغر تکم الحیاة الدنیا فا لیوم )

____________________

(۱)مطففین ۴،۶(۲)نباء ۳۸(۳)جاثیہ ۲۲ (۴) اسراء ۱۳، ۱۴

۸۶

( لایخرجون منها ولاهم يُستعتبونَ ) ( ۱ )

ہر امت کواس کی کتاب کی طرف دعوت دی جائے گی ،آج جو تم نے اعمال انجام دئیے ہیں ہم اس کی جزا دیں گے ، یہ ہماری کتاب ہے جو تم سے حق کے ساتھ گفتگو کرتی ہے، تم جو کچھ انجام دیتے ہو ہم لکھ لیتے اور جو انھوں نے برائیاں انجام دی ہیں آشکار ہو جائیں گی اور جس چیز کا مذاق اڑایا ہے وہی انھیں اپنے احاطہ میں لے لیگا اوران سے کہا جائے گا آج ہم تم کو فراموش کر دیں گے جس طرح تم نے اس دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا ، تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہے اور کوئی تمہارا مدد گار نہیں ہے، یہ اس وجہ سے ہے کہ تم نے آیات الٰہی کا مذاق اڑایا اور دنیاوی زندگی نے تمھیں فریب دیا ! آج وہ لوگ نہ دوزخ سے باہر آئیں گے اور نہ ان کا عذر قبول ہوگا ۔

۶( ( فا ما من اوتی کتابه بیمینه فیقول هاوم اقرء وا کتابیه)(وأما من أوتی کتابه بشماله فیقول یا لیتنی لم أوت کتا بیهولم أدرما حسا بیه ) ( ۲ )

پس جس کواس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا آؤ ہمارا نامہ اعمال پڑھو اور جسے ا س کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جا ئے گا وہ کہے گا : اے کاش! میرا نامہ اعمال کبھی میرے ہاتھ میں نہ دیا جاتا اور میں اپنے حساب کو نہ جانتا ۔

۷۔( فأما من أوتی کتابه بیمینه ) ( فسوف یحا سب حساباً یسیراً)( وأما من اوتی کتا به و راء ظهره)(فسوف ید عوا ثبو راً ) ( ۳ )

پس جس کوا س کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا عنقر یب اس کا حساب آسانی سے ہو جائے گا ، لیکن جسکا نامہ اعمال اس کے پیچھے سے دیا جائے گا عنقر یب وہ ہلا کت کی فر یاد اور واویلا کرے گا۔

۸۔( و لایحسبن الذین یبخلو ن بما آتاهم ﷲ من فضله هوخیراً لهم بل هو شر لهم سیطوّ قون ما بخلوا به یوم القیا مة ) ( ۴ )

جو لوگ بخل اور کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور جو خدا وند عالم نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے اسے خرچ نہیں کرتے ، وہ خیال نہ کریں کہ یہ کام ان کے نفع میں ہے ، بلکہ ان کے لئے بُرا ہے ،عنقریب قیامت کے دن جس چیز کے بارے میں بخل کیا ہے وہ ان کی گردن کا طوق بن جائے گا ۔

____________________

(۱)جاثیہ۲۸ ، ۲۹ ،۳۳، ۳۵(۲)حاقہ ۱۹، ۲۶ (۳) انشقاق۷ ، ۱۱(۴)آل عمران ۱۸۰

۸۷

۹۔( و یوم یقوم الا شهاد)( یوم لا ینفع الظا لمین معذ ر تهم ) ( ۱ )

جس دن گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے ، اس دن ظالموں کوان کی معذرت فائدہ نہیں دے گی۔

۱۰۔( و یوم نبعث فی کلّ اُمّة شهیداً علیهم من أنفسهم وجئنا بک شهیداً علیٰ هٰولائِ ) ( ۲ )

جس دن ہم ہر امت میں انھیں میں سے ان پر ایک گواہ لا ئیں گے اور تم کو (اے پیغمبر!)ان پر گواہ قرار دیں گے۔

۱۱۔( حتّیٰ اِذا ماجاؤها شهد علیهم سمعهم و ابصار هم وجلو دهم بما کانوا یعملون)( و قالوا لجلود هم لم شهد تم علینا قالوا أنطقنا ﷲ الذی أنطق کلّ شییئٍ ) ( ۳ )

جب اس تک پہنچیں گے توان کے کان ،ان کی آنکھیں اور ان کی جلدیںان کے کرتوت کی گواہی دیں گی ، وہ لوگ اپنی جلدوں سے کہیں گے : کیوںہمارے برخلاف گواہی دی ؟ جواب دیں گی : جس خدا نے ہرموجود کو قوت گویائی عطا کی اسی نے ہمیں بھی گویائی دی ہے ۔

کلمات کی تشریح

۱۔''طائرہ'':اس کے اچھے اور بُرے عمل سے کنایہ ہے۔

۲۔''ثبور'': ہلاکت، ید عو ثبوراً، یعنی ہلاکت کی فریادکرتاہے۔

۳۔''سیطوّ فون'': ان کی گردن میں طوق ڈال دیں گے، یعنی واجب حقوق کے ادا نہ کرنے پر سانپ کی صورت میں بخل ان کی گردن میں مجسم ہو جائے گا۔

۴۔''الشھید والا شھاد'':شہید یعنی وہ قاطع گواہ جو بدل نہ سکے اور''اشھاد'''' شاہد'' کی جمع ہے اس سے مراد انبیاء اوران کے ہمراہی ہیں جو اپنی امت پر گواہی دیں گے اور جو بھی انسان سے صادر ہونے والے اعمال پر گواہ ہو۔

قیامت کے دن اعمال کے آثار کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے:

۱۔''أطوَ لُکم قنوتاً فی دار الدنیا أطوَلُکم راحةً یوم القیا مة فی الموقف ''( ۴ )

جو لوگ دار دنیا میں قنوت (نماز)کے اعتبار سے جتنا طولانی ہوں گے وہ آخرت میں حساب کے وقت

____________________

(۱)غافر۵۱(۲)نحل ۸۹(۳)فصلت ۲۰،۲۱ (۴)ثواب الاعمال،ص۵۵

۸۸

اتنا ہی ز یادہ مطمئن ہوں گے ۔

۲۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اِذا سجد أحد کم فلیباشر بکفیه الأرض لعلّ یصرف عنه الغل یوم القیامة'' ( ۱ )

جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تواسے چاہئیے کہ اپنی ہتھیلیوں کو زمین سے چسپاں کرے تاکہ روز قیامت کی تشنگی کا اس کو سامنا نہ ہو ۔

۳۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کے آپ نے فرمایا:

(مَن بغی علیٰ فقیرٍ أو تطاول علیه و استحقره حشره ﷲ یوم القیامة مثل الذرة علیٰ صورة رجل ید خُلُ النار )( ۲ )

جو کوئی کسی فقیر پر ظلم کرے یااس پر فخر ومباہات کرے اوراُسے حقیر و معمولی سمجھے خدا وند عالم اسے قیامت کے دن انسانی شکل میں چیونٹی کے مانند جہنم میں داخل کرے گا۔

۴۔حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''ان المتکبر ین یجعلون فی صورة الذر یتوطأ بهم الناس حتیٰ یفرغ ﷲ منالحساب'' ( ۳ )

متکبرین قیامت کے دن چیونٹی کی شکل میں ہوں گے اور لوگ ان کے او پر سے راستہ طے کریں گے یہاں تک کہ خدا وند عالم حساب و کتاب سے فارغ ہو جائے۔

____________________

(۱)ثواب الاعمال،ص۵۵۔۵۷.

(۲) ثواب الاعمال،ص ۳۳۵، باب ''اعمال کی سزائیں''

(۳)ثواب الاعمال،ص۲۶۵

۸۹

۶۔

انسان اور جنت و جہنم میں اس کی جزا

خدا وندعالم انسان کو عالم آخرت میں اس کے اعمال کے مطابق جو اس نے اس دنیاوی زندگی میں انجام دئیے ہیں اوراس عا لم میں اس کے سامنے مجسم ہوں گے بہشتی نعمتوں کے ذریعہ جزا اور عذاب جہنم کے ذریعہ سزا دے گا ، جیسا کہ اس کے بارے میں خود ہی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

۱۔( اِنّ ﷲ ید خل الذین آمنو ا وعملو االصالحات جنّٰاتٍ تجری من تحتها الأنهار ) ( ۱ )

خداوندعالم ایمان لانے والوںاورعمل صالح انجام دینے والوں کو بہشت کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی داخل کرے گا۔

۲۔( ومَن عمل صالحاً من ذکر أو أنثیٰ وهو مؤمن فأولئک یدخلون الجنة یرزقون فیها بغیرِ حساب ) ( ۲ )

جو کوئی بھی عمل صالح انجام دے خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو، وہی لوگ بہشت میں جائیں گے اوراس میں بے حساب رزق پائیں گے۔

۳( من یعمل سوء اً یجز به و لا یجد له من دونِ ﷲ وليّا و لا نصیراً و من یعمل من الصّا لحات من ذکرٍ أو أنثیٰ و هو مؤمن فأولئک ید خلونَ الجنة و لا يُظلمونَ نقیراً )

جو شخص بُرے کام کریگا اسے اس کی سزا ملے گی اور خدا کے علاوہ کسی کو ولی اور یاور نہیں پائے گا اور اگر کوئی اعمال صالحہ انجام دے گا ، خواہ عورت ہو یامرد ، جب کہ وہ مومن بھی ہو وہ جنت میں جائے گا اوراس پر ادنیٰ ظلم بھی نہیں ہوگا۔( ۳ )

۴۔( و یوم القیا مة تری الذین کذبوا علیٰ ﷲ وجوههم مسو دّة الیس فی جهنم مثویً للمتکبرین

____________________

(۱)حج۲۳

(۲)مومن۴۰

(۳)نسائ۱۲۳،۱۲۴

۹۰

ووفّیت کلّ نفسٍ ما عملت)(...وسیق الذین اِتّقواربّهم اِلی الجنةِ زمراً ) ( ۱ )

جن لوگوں نے خدا کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے انھیں دیکھو گے کہ ان کے چہرے قیامت کے دن سیاہ ہوں گے،آیا متکبر ین کے لئے جہنم میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے؟ اور جس نے جو بھی عمل انجام دیا ہے بغیر کسی کم وکاست کے اسے دیا جائے گا اور جن لوگوں نے تقوائے الٰہی اختیار کیا ہے وہ جوق در جوق بہشت میں لے جائے جائیںگے۔

۵۔( الذین آمنوا بآ یا تنا و کانوا مسلمین أدخلوا الجنة انتم وأزواجکم تحبرون ) ( ۲ )

جو لوگ ہماری آیات پر ایمان لائے اور مسلمان بھی ہیں(اُن سے کہا جائے گا)تم اور تمہاری بیویاں جنت میں خوش وخرم داخل ہو جاؤ۔

۶۔( وتلک الجنة التی أورثتموها بما کنتم تعملون ِأن المجر مین فی عذاب جهنم خا لدون وما ظلمنا هم و لکن کانوا هم الظّا لمین ) ( ۳ )

اوریہ وہ بہشت ہے جس کے تم اپنے اعمال کی جزا کے طور پر وارث ہو گے،(لیکن) گناہ کاروں کے لئے جہنم کا عذاب ابدی ٹھکانہ ہے... ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا ہے بلکہ وہ خود ظالم تھے ۔

۷۔( و الذین یکنزون الذهب والفضّة ولا يُنفقونها فی سبیل ﷲ فبشّرهم بعذابٍ ألیمٍ یوم یحمیٰ علیها فی نارجهنم فتکویٰ بها جبا ههم و جنو بُهُم و ظهو رُ هم هذا ما کنزتم لأنفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون ) ( ۴ )

جو لوگ سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں لیکن اسے راہ خدا میں انفاق نہیں کرتے انھیں درد ناک عذاب کی بشارت دیدو! جس دن انھیں جہنم کی آگ میں گرم کرکے ان کے چہروں ، پہلووں اور پشتوں کو داغا جائے گا (اورا ن سے کہیں گے )یہ وہی چیز ہے جس کا تم نے اپنے لئے خود ہی ذخیرہ کیا ہے ! لہٰذا جو تم نے جمع کیا ہے اسکا مزہ چکھو۔

شیخ صدوق نے اپنی سند کے ساتھ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :

''اربعة یؤذون أهل النار علی ما بهم من الأ ذی ینادون بالویل و الثبور: رجل علیه تا بوت من حجر فِانه مات وفی عنقه أموال الناس لم یجد لها فی نفسه ادائً ولا مخلصاً ورجل یجرأ معاء ه ،فأ نه کان لا یبالی أین أصاب البول جسده ورجل یسیل فوه قیحاً و دماً، فأنه

____________________

(۱) زمر۶۰ ،۷۰ ،۷۳(۲) زخرف ۶۹، ۷۰(۳)زخرف۷۲، ۷۴، ۷۶.(۴)توبہ۳۴، ۳۵

۹۱

کان یحاکی فینظر کل کلمةٍخبیثةٍ فیفسدُ بها و یحاکی بها و رجل یأکل لحمه،فأنه کان یأ کل لحوم الناس بالغیبة و یمشی بالنمیمة'' ( ۱ )

چار گروہ ایسے ہیں کہ جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو آہ وواویلا اور دہائی کا شور مچائیں گے جس سے اہل جہنم کو اذیت ہوگی۔

۱۔ایک وہ شخص جس پر پتھر کا تابوت ہو گا کیونکہ وہ ایسی حالت میں دنیا سے گیا ہے کہ لوگوں کے اموال و مال حقوق اس کی گردن پر تھے جن کے نیز ادا کرنے اور ان سے چھٹکارا پانے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا تھا ۔

۲۔وہ شخص جو اپنی آنتیں خود گھسیٹتا پھرے گا وہ ایسا آدمی ہے جو بدن کے کسی حصّہ پر پیشاب کے لگ جانے کی پرواہ نہیں کرتا ۔

۳۔ وہ شخص جس کے منھ سے پیپ اور خون جاری ہوگا ، اس لئے کہ وہ ان کے اوران کے منھ سے بُری باتیںلیکر دوسروں کے سامنے بیان کرتا تھا اور فتنہ وفساد برپا کرتا تھا۔

۴۔وہ شخص جواپنا گوشت کھائے گا ،وہ ایسا شخص ہے جو لوگوں کا گوشت غیبت اور چغلی کر کے کھاتا تھا۔

خدا وند متعال جنت اور جہنم کے متعدد دروازوں کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( واِنّ للمتقین لحسن مآبٍجناتِ عدنٍ مفتحةً لهم الأبواب ) ( ۲ )

پرہیز گاروں کا انجام بخیر ہے، جاوداںبہشتی باغات جس کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔

ابلیس سے خطاب کرتے ہوئے (اس پر خدا کی لعنت ہو) فرمایا:

( اِنّ عبادی لیس لک علیهم سلطان اِلاّمن أتبعک من الغاوین و اِنّ جهنم لموعدهم أجمعین،لهاسبعةُ ابوابٍ لکل بابٍ منهم جزء مقسوم ) ( ۳ )

تو کبھی ہمارے بندوں پر مسلط نہیں ہوپائے گا، سوائے ان گمراہوں کے جو تیری پیر وی کریں اور جہنم ان سب کا ٹھکانہ اور وعدہ گاہ ہے،جس کے سات دروازے ہیں اور ہر دروازے کے لئے ان میں سے ایک معین گروہ تقسیم ہوا ہے۔

کلمات کی تشریح:

۱۔''نقیر'': خرمے کی گٹھلی کی پشت پر معمولی نشیب اور نقطہ کو کہتے ہیں کہ ہلکی اور بے ارزش چیزوں

____________________

(۱)عقاب الاعمال ص ۲۹۵ ،۲۹۶(۲)ص۴۹،۵۰. (۳)حجر ۴۲، ۴۴.

۹۲

کی اس سے مثال دیتے ہیں۔

۲۔''مثوی'' : استقرارو اقامت کی جگہ، ٹھکانہ وغیرہ۔

۳۔'' زمرا ً '': گروہ گروہ، زُمَر ، زُمْرہ کی جمع ہے فوج اور گروہ کے معنی ہے۔

۴۔'' مآب'' : باز گشت، عاقبت ، انجام ۔

۵۔''جنات عدن'' : سکون و اطمینان کی جنتیں.

روایات میں آیات کی تفسیر

مذکورہ آیات کی تفسیر سے متعلق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور جہنم کے سات ، بعض در، دوسرے در سے بہتر ہیں۔( ۱ )

حضرت امام علی سے ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

کیا تمھیں معلوم ہے کہ جہنم کے دروزے کیسے ہیں ؟ راوی کہتا ہے کہ ہم نے کہا : انھیں دروازوں کے مانندہیں، فرما یا نہیں ، بلکہ اس طرح ہیں: اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھا اوراُسے کھول دیا ،یعنی جہنم کے دروازے خود جہنم کے مانند ایک دوسرے پر سوار ہیں اور تفسیر قر طبی میں آیا ہے،اس کے بعض دروازے بعض دروازوں پر ہیں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ! ہر طبقے والے اپنے اسی طبقے میں ہیں۔( ۲ )

نیز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے '' جزء مقسوم''کی تفسیر میں فرمایا:جہنم کے در وزوںمیں سے ہر در وازے کے لئے اہل جہنم کا ایک معین گروہ تقسیم ہو ا ہے کہ ہر گروہ جواپنے کرتوت کے مطابق عذاب میں مبتلاہو گا۔( ۳ )

آخر میں ہم بعض احادیث کا ذکر کر کے بحث کو تمام کریں گے جو گزشتہ آیات کی تشریح کر رہی ہیں اور اعمال کے نتائج اجمال واختصار اور بسط و تفصیل سے بیان کر رہی ہیں اس ۔

۱۔اصو ل کافی میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو کسی مومن کو راضی و خوشنود کرے خدا وند عزوجل اس خوشنودگی سے ایسی مخلوق پیدا کرے گا جو اس کے

____________________

(۱) تفسیر سیوطی ،الدرالمنثور ج۴ ،ص ۹۹، ۱۰۰، (۲)اس آیت کی تفسیر کے لئے تفسیر مجمع البیان ، تفسیر قرطبی و سیوطی کی جانب مراجعہ کیجئے.(۳) تفسیر سیوطی ،الدرالمنثور ج۴ ،ص ۹۹.

۹۳

مرنے کے وقت اس سے ملاقات کرے گی ا وراس سے کہے گی: اے خدا کے ولی! تجھے مبارک ہو کہ تو خداوندعالم کی کرامت اور اس کی رضاوخو شنودگی کے ساتھ ہے، پھر وہ اس کے ساتھ ہمیشہ رہے گی یہا ں تک کے قبر میں جاتے وقت اسے یہی خوشخبری دے گی اور جب محشور ہوگا تب بھی اس کے دیدار کو جائے گی ،اس کے پاس رہے گی یہاں تک کہ سخت اور ہولناک میں ہمیشہ اسے نوید دے گی اوراس کا دل شاد کرتی رہے گی، پھر وہ شخص اس سے

کہے گا : تجھ پر خدا کی رحمت ہو تو کون ہے ؟ کہے گی:''میں وہی خوشی ہوں جو تو نے فلاں شخص کو عطاکی تھی''( ۱ )

۲۔بحار میں جناب صدوق کی ''معانی الاخبار'' سے حضرت امام جعفر صادق سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

جو کسی مومن کا غم غلط کرے اوراس کے رنج کو دور کرے خداوند عالم آخرت میں اس کے رنج و غم کو دور کرے گا اور وہ ٹھنڈے دل کے ساتھ خوش حال قبر سے باہر آئے گا اور جو کسی مومن کو گرسنگی اور بھوک سے نجات دے خدا وند عالم اسے بہشت میں میوے کھلائے گا اور جو کوئی اسے پانی پلائے خدا وند عالم اسے جنت کے مہر شدہ جام پانی سے سیراب کرے گا۔( ۲ )

۳۔ حضرت امام ابو الحسن سے اصول کافی میں روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

روئے زمین پر خدا کے کچھ ایسے بندے ہیں جو ہمیشہ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتے رہتے ہیں ،وہ لوگ روز قیامت آسودہ خاطر اور خوشحال افراد میں سے ہوںگے ، ہاں اگر کوئی کسی مومن کو خوش کرے تو خدا وندعالم قیامت کے دن اس کا دل شاد کرے گا۔( ۳ )

۴۔اصول کافی میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

کوئی مسلمان کسی مسلمان کی ضرورت پوری نہیں کر تا مگر یہ کہ خدا وندعالم اسے آواز دیتا ہے تیری جزا مجھ پر ہے اور بہشت کے علاوہ کسی چیز پر تیرے لئے راضی نہیںہوں۔( ۴ )

۵ ۔جناب صدوق نے ثواب الاعمال میں معروف بن خر ّبوذ کا قول نقل کیا ہے کہ اس نے کہا، میں نے امام باقر ـ کو فرماتے ہوے سناہے:

''جو مومن بھی دنیا میں پریشانی اور مشکلات میں گرفتار ہو اور بوقت مشکل '' انا للہ و انا الیہ راجعون'' کہے ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جا ئیں گے! خدا وند عالم اس کے تمام گزشتہ گناہ بخش دے گا ،

____________________

(۱)اصول الکافی ج۲ص۱۹۱،ح۱۲ (۲)بحار ج۶ ،ص ۳۵۵(۳)اصول کافی ج۶ ، ص ۱۹۷ ،ح۶ (۴)اصول کافی ج۱ ، ص۱۹۴ ،ح۷

۹۴

سوائے ان گناہان کبیرہ کے جو جہنم کا باعث ہوں اور فرمایا: جب بھی کوئی اپنی آئندہ عمر میں کسی مصیبت کویاد کرے اور کلمہ استر جاع ''انا للہ و انا الیہ راجعون''کہے اور خدا کی حمد کرے خدا وندعالم اس کے وہ تمام گناہ جو کلمہ استر جاع اوّل اورکلمئہ استرجاع دوم کے فاصلہ میں انجام د یئے ہیں بخش دے گا سوائے گناہان کبیرہ کے''۔( ۱ )

۶۔ بحارالانوار میں امام جعفر صادق سے اور انھوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ذکر کیا ہے کہ خدا وند عالم فرماتا ہے:

'' کسی بندہ کو بہشت میں ا س وقت تک داخل نہیں کروں گا جب تک کہ ا سے جسمانی تکالیف میں مبتلا نہ کردوں، اگر یہ بلا اور مصیبت اس کے گناہوں کے کفارہ کی حد میں ہے تو ٹھیک ہے ، ورنہ کسی جابر و ظالم کواس پر مسلط کر دوںگا اگراس سے اس کے گناہ دھل گئے تو اسی پر اکتفاء کروں گا ورنہ اس کی روزی کو تنگی میں میں قراردوں گا تاکہ اس کے گناہ دھل جائیں اگراگراس سے دھل گئے تو ٹھیک ورنہ موت کے وقت اس پر اتنی سختی کروں گا کہ میرے پاس بے گناہ اورپاک و صاف ا ئے پھراسے اسوقت بہشت میں داخل کروں گا...۔( ۲ )

۷۔صیح بخاری میں ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:

''کوئی مسلمان ایسا نہیںہے جو مصیبت میں مبتلا ہو اور خدااُس کے گناہوں کو ختم نہ کر دے جیسے کہ درخت سے پتے جھڑتے ہیں''( ۳ )

۸۔ایک دوسری روایت میں ہے : کسی مسلمان پر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر یہ کہ خدا وند عا لم اسکے گناہوں کا کفارہ قرار دیتاہے خواہ وہ ایک خراش ہی کیوں نہ ہو۔( ۴ )

۹۔صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں مذکور ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''کوئی مسلمان ایسا نہیںہے جس کوکانٹے کی خراش یااس سے سخت تر کوئی چیز پہنچے مگر یہ کہ خدا وند عالم

اس کے گناہوں کو اسی طرح جھاڑ دے گا جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں''۔( ۵ )

۱۰۔صحیح بخاری اور مسنداحمدمیں ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''کسی مسلمان کو کوئی رنج و غم، دشواری، دردو مرض ، مصیبت و اندوہ، یااذیت و آزار،آسیب و گزند حتی کا خراش تک نہیں پہنچتی مگر یہ کہ خداوند عالم ا سے ا سکے گناہوں کا کفّارہ قراردیتا ہے''( ۶ )

____________________

(۱)بحارجلد۸۲ ، ص۱۲۷، ۱۲۸ بہ نقل از ثواب ا لاعمال ص۲۳۴ (۲)بحار ج۶ ، ص ۱۷۲ ۔ بہ نقل ازکتاب التمحیص.(۳)صحیح بخاری کتاب المرضی، باب :'' شدة المرض'' (۴)صحیح بخاری ج۳ ، ص ۳، کتاب المرضی، باب : ''ماجاء فی کفا رة المرض''(۵)صحیح بخاری ج۳، ص۳، کتاب المرضی، باب:''شدة المرض''صحیح مسلم،کتاب البر و الصلة والادب، باب'' ثواب المو من فیما یصیبہ ''(۶)صحیح بخاری ج۳، ص۲، کتاب المرضی باب:''ما جاء فی کفارة المرض'' .مسند احمد ج۳، ص ۱۸۰.

۹۵

۷۔

صبر وتحمل کی جزا

جس طرح خدا وندعالم نے انسان کے ہر عمل کے لئے دنیوی جزا اور اخروی پاداش رکھی ہے اسی طرح مصائب و آلام پر انسان کے صبر و تحمل کیلئے دنیاوی جزا اور اخروی پاداش مقرر کی ہے، امام علی ـنے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''الصبر ثلاثة صبر عند المصیبة، و صبر علی الطاعة و صبر عند المعصیة'' ( ۱ )

صبر و شکیبائی کی تین قسمیں ہیں:

۱۔مصیبت کے وقت صبر کرنا ۔

۲۔ اطاعت میں استقامت و پائیداری۔

۳۔ معصیت کے مقابل صبر کا مظاہرہ کرنا۔

خدا وند عالم سورہ ٔاعراف میں فرماتا ہے:

''بنی اسرائیل کو اس وجہ سے جزا دی ہے کہ انھوں نے دنیاوی زندگی میں صبر وشکیبائی کا مظاہرہ کیا''۔

( واورثنا القوم الذین کانوا یستضعفون مشارق الأرض و مغاربها التی بارکنا فیها و تمت کلمت ربّک الحسنی علی بنی اِسرائیل بما صبروا ودمّرنا ما کان یصنع فرعون و قومه و ما کانوا یعر شون ) ( ۲ )

مشرق ومغرب کی سر زمینوں کو جس میں ہم نے برکت دی ہے مستضعف قوم (بنی اسرائیل) کومیراث میں دیدیا اور تمہارے رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل سے ان کے صبر و استقامت کے مظاہرے کے نتیجہ میں

____________________

(۱)بحار ، ج ۸۲ ،ص ۱۳۹، مسکن الفؤاد کے حوالے سے.

(۲)اعراف ۱۳۷.

۹۶

پورا ہوا اور فرعون اور فرعون کی قوم والے جو کچھ بنا رہے تھے ان کو اور ان کی اونچی اونچی عمارتوں کو مسمار کر دیا ۔

نیز صبر کی سہ گانہ اقسام کی پاداش کے بارے میں فرماتا ہے۔

۱۔( ولنبلو نّکم بشیئٍ من الخوف والجوع و نقصٍ من الأموال و الأ نفس و الثمرات و بشّرالصا برین الذین اذا أصابتهم مصیبة قالوا اِنّا لله و اِنّا اِلیه را جعون اولآء ک علیهم صلوات من ربّهم و رحمة و اولاء ک هم المهتدون ) ( ۱ )

یقینا ہم تمھیں خوف، بھوک، جان ومال اور پھلوں کی کمی کے ذریعہ آزمائیں گے اور بشارت دیدو ان صبرکرنے والوں کو کہ جب کوئی مصیبت ان پر پڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اوراسی کی طرف ہماری بازگشت ہے، ان ہی لوگوں پرپروردگار کا درودو رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

۲( لیس البرّ ان تولّوا وجوهکم قبل المشرق و المغرب و لکنّ البر من آمن بﷲ و الیوم الآ خر و الملا ئکة و الکتاب والنبیيّن و أتی المال علیٰ حبه ذوی القربیٰ و المساکین و ابن السبیل و السائلین و فی الرّقاب وأقام الصّلاة وآتی الزکاة و الموفون بعهد هم اذا عاهدوا والصابرین فی البأ ساء و الضرّاء و حین البأس اولئک الذین صدقوا و أولآء ک هم المتقون ) ( ۲ )

نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہروں کومغرب اور مشرق کی طرف کرلو،بلکہ نیکی اور نیک کردار وہ ہے جو خدا ،روز قیامت ، فرشتوں ، کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے ہو اور باوجود اس کے کہ اسے خود مال کی سخت ضرورت ہے، اپنے رشتہ داروں ، یتیموں، مسکینوں،ابن سبیل، سائلوں اور غلاموں پر انفاق کرے،نماز قائم کرتا ہو اور زکوة دیتا ہو، نیز وہ لوگ جو عہد وپیمان کرتے ہیں اور اپنے عہد کو وفا کرتے ہیںاور محرومیوں، بیماریوںاور جنگ کے موقع پر ثبات قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ لوگ ایسے ہیں جو سچ کہتے ہیں اور یہی لوگ متقی اور پرہیز گار ہیں!

سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیات کا خلاصہ یہ ہوا کہ پرہیز گار، نیک وصالح اور ہدایت یافتہ یہ وہ لوگ ہیںجو اچھے اور شائستہ عمل انجام دیتے ہیںاور صبر کے تینوں اقسام سے آراستہ اور مالامال ہیں۔

طاعت و مصیبت پر صبرکرنے کے منجملہ نمونے اور مصادیق میں سے اذیت وآزار اورتمسخر واستہزا پر مؤمنین کا خدا پر ایمان لانے کی وجہ سے صبر و شکیبائی اختیار کرنا جیسا کہ خدا وند عالم اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

____________________

(۱)بقرہ ۱۵۵، ۱۵۷

(۲)بقرہ ۱۷۷.

۹۷

۱۔( اِنّه کان فریق من عبادی یقولون ربنا آمنّا فاغفرلنا وأرحمنا وأنت خیر الرّاحمین فأ تخذ تموهم سخريّا حتیٰ أنسوکم ذکری وکنتم منهم تضحکون انی جزیتهم الیوم بها صبروا أنّهم هم الفائزون ) ( ۱ )

بتحقیق ہمارے بندوں کا ایک گروہ کہتا ہے: خداوند ا! ہم ایمان لائے پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر کیونکہ تو سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے،تم نے ان کا مسخرہ کیااور مذاق اڑایا یہاں تک کہ انھوں نے تمھیں میرے ذکر سے غافل کر دیا اور تم لوگ اسی طرح مذاق اڑاتے رہے ، ہم نے آج ان کے صبرو استقامت کی وجہ سے انھیں جزا دی ہے،یقینا وہ لوگ کامیاب ہیں ۔

۲۔( الذین اتینا هم الکتاب من قبله هم به یؤمنون و اذا یتلیٰ علیهم قالوا آمنّا به اِنّه الحق من ربّنا اِنّا کنا من قبله مسلمین أولائک یؤتون اَجرهم مر تین بما صبروا و یدرأون با لحسنة السّيّئة و مِمّا رزقنا هم ینفقون واِذا سمعوا اللّغو اعرضوا عنه و قالوا لنا أعمالنا ولکم أعمالکم سلام علیکم لانبتغی الجاهلین ) ( ۲ )

وہ لوگ جنھیں ہم نے قرآن سے پہلے آسمانی کتاب دی اس پر ایمان لاتے ہیں اور جب ان پر تلاوت ہوتی ہے تو کہتے ہیں ہم یہ اس پر ایمان لائے، یہ سب کا سب حق ہے اور ہمارے رب کی طرف سے ہے اور ہم اس سے پہلے بھی مسلمان تھے ، ایسے لوگ اپنے صبر و استقامت کی بنا پردومرتبہ جزا دریافت کرتے ہیں اور نیکیوں سے بُرائیوں کو دور کرتے ہیں، جوکچھ ہم نے انھیں روزی دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں اور جب کبھی بیہودہ اور لغو بات سنتے ہیںتواس سے روگردانی کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے، تم پر سلام کہ ہم جاہلوں کو دوست نہیں رکھتے۔

۳۔خدا وند عالم نے سورۂ رعد میں نماز قائم کرنے والوں اور صابروں کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا:

( و الذین صبروا ابتغاء وجه ربهم ؤقامو االصلاة و أنفقوامِمّارزقنا هم سراً و علا نيةً و یدرء ون بالحسنة السیئة أولآئک لهم عقبیٰ الدار)(جنات عدنٍ ید خلونها و من صلح من آبائهم وأزواجهم وذر يّا تهم و الملا ئکة یدخلون علیهم من کل بابٍ سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار ) ( ۳ )

____________________

(۱)مومنون ۱۰۹، ۱۱۱

(۲)قصص ۵۲، ۵۵.

(۳)رعد ۲۲۔۲۴

۹۸

اور جو خدا کی مرضی حاصل کرنے کے لئے صبر وشکیبائی کا مظاہرہ کرتے ہیںاور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ انھیں ہم نے روزی دی ہے اس میں سے آشکارا اور پوشیدہ طور پر انفاق کرتے ہیں اور نیکیوں کے ذریعہ بُرائیوں کودور کرتے ہیں ، اس دنیا یعنی عقبیٰ کا نیک انجام صرف ان سے مخصوص ہے دائمی اور جاوید بہشتوں میں اپنے نیک اور صالح آباء و اجداد،بیویوں اور فرزند وں کے ساتھ رہیں گے اور فرشتے ہر در سے ان پر داخل ہو کر کہیں گے:تم پر سلام ہو کہ تم نے صبر کا مظاہرہ کیا!اور کتنا اچھا ہے اس دنیا کاانجام!

کلمات کی تشریح:

۱۔''یعرشون'': اوپرلے جاتے ہیں،یہاں پر اس سے مراد وہ محکم اور مضبوط عمارتیں ہیں جنھیں فرعونیوں نے اپنی املاک میں بنائی تھیں۔

۲۔''البأ س و الباسآئ'': سختی اور ناخوشی اور جنگ یہاں پر باساء سے مراد سختی اورناخوشی ہے اور (بأس) سے مراد جنگ کا موقع ہے۔

۳۔''یدرؤن، ید فعون'': دور کرتے ہیں اور اپنے سے ہٹاتے ہیں۔

روایات میں صابروں کی جزا

بحار میں اپنی سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق ـسے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

جب نامۂ اعمال کھو لا جائے گا اور اعمال تولنے کے لئے میزان قائم ہوگی تو مصیبتوں کا سامنا کرنے والے صابروں کے لئے نہ اعمال تولنے کا ترازو ہوگا اور نہ ہی ان کے اعمال نامے کھولے جائیںگے ! اور اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( اِنّما یوفیّٰ الصابرون ٔاجر هم بغیرحساب )

صابروں کو ان کے صبر کی بے حساب جزا ملے گی۔( ۱ )

نیز بحار میں اپنی سند سے امام زین العابدین سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) بحارج ۸۲ ، ص ۱۴۵ا ور زمر ۱۰.

۹۹

''جب خدا وند عالم تمام اولین وآخرین کوجمع کرے گا ،تو ایک منادی ندا کرے گا : کہاں ہیں صبر کرنے والے تاکہ بے حساب بہشت میں داخل ہوں ؟کچھ سرفراز اور ممتاز لوگ اٹھیں گے ، فرشتے ان کے پاس جاکر کہیں گے : اے اولاد آدم کہاں جارہے ہو ؟ کہیں گے : بہشت کی طرف : کہیں گے: حساب سے پہلے ہی؟کہیں گے ہاں، پھر وہ لوگ سوال کریں گے تم لوگ کون ہو؟کہیں گے صابرین! پھر وہ کہیں گے : تمہارا صبر کس طرح کا تھا ؟ جواب دیں گے :اطاعت الٰہی میں ثابت قدم اوراس کی معصیت سے ہم نے خود کو اس وقت تک بچایا جب تک کہ خدا نے ہمیں موت نہ دیدی اور روح نہ قبض کر لی ، فرشتے کہیں گے:تم ویسے ہی ہو جیسا کہ تم نے کہا، جنت میں داخل ہو جاؤ کیو نکہ اچھا کام کر نے والوں کی جزا بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔( ۱ )

اور شیخ صدوق ثواب الاعمال میں اپنی سند کے ساتھ امام محمد باقر ـسے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص دنیا سے اندھا جا ئے ، جبکہ اس نے خدا کے لئے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ہو اور محمد و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چاہنے والا ہو تو وہ خدا سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس پر کوئی حساب نہ ہوگا''۔( ۲ )

یہ سب اس جزا کے نمونے ہیں جسے انسان غم واندوہ پر صبر کر نے یا عمل کی بنیاد پر دریافت کر ے گاآیندہ بحث میں خدا کی مدداو رتوفیق سے اس بات کی تحقیق و بر رسی کر یں گے کہ اعمال کے نتیجے کس طرح سے میراث بن جاتے ہیں۔

____________________

(۱)بحار : ج،۲۸، ص ۱۳۸.

(۲)ثواب الاعمال،ص ۶۱ اور ۲۳۴.

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

كہہ رہى تھيں كہ : عثمان بے گناہ مارا گيا ميں اس كے خون كا بدلہ لينے كے لئے سركشى كروں گى _ عبيد نے ان سے كہا كہ ان كے خون كا مطالبہ تم كيسے كرسكتى ہو كيونكہ وہ تم ہى تو ہو جس نے سب سے پہلے عثمان كے قتل كيئے جانے كى تجويز پيش كى اور تم ہى تو كہا كرتى تھيں كہ ''نعثل'' كو قتل كردو كيونكہ وہ كافر ہوگيا ہے اور آج تم ہى انہيں مظلوم و بے گناہ كہہ رہى ہو_

عائشہ نے كہا كہ ہاں عثمان ايسا ہى تھا ليكن اس نے توبہ كرلى تھى اور لوگوں نے ان كى توبہ كى طرف سے بے اعتنائي كى اور انہيں قتل كرديا اس كے علاوہ ميں نے كل جو كچھ كہا تھا تمہيں اس سے كيا سروكار؟ ميں آج جو كہہ رہى ہوں تم اسے مانو كيونكہ ميرى آج كى بات كل سے بہتر ہے_(۱۱)

مكہ پہنچنے كے بعد عائشہ مسجد الحرام كے سامنے محمل سے اتريں اور پورى سترپوشى كے ساتھ وہ حجر الاسود كے جانب روانہ ہوئيں ، لوگ ان كے چاروں طرف جمع ہوگئے ، عائشہ نے ان كے سامنے تقرير كى اور كہا كہ عثمان كا خون ناحق ہوا ہے ، انہوں نے اہل مدينہ اور دوسرے لوگوں كے جذبات كو ان كے خلاف جنہوں نے عثمان كے قتل ميں حصہ ليا تھا برافروختہ كيا اور حاضرين سے كہا كہ وہ عثمان كے خون كا بدلہ ليں اور قاتلوں كے خلاف شورش كرنے كى دعوت دى _(۱۲)

مكہ ميں مخالفين كا جمع ہونا

مكہ ميں عائشہ نے جيسے ہى حضرت عليعليه‌السلام كے خلاف پرچم لہرا ديا آپ كے مخالفين ہر طرف سے ان سے گرد جمع ہوگئے _

طلحہ و زبير بھى حضرت عليعليه‌السلام سے عہد شكنى كركے ان كے ہمنوا ہوگئے دوسرى طرف بنى اميہ حضرت علىعليه‌السلام كے ايك زمانے سے دشمن چلے آرہے تھے اور كسى مناسب موقع كى تلاش ميں تھے اور عثمان كے قتل كے بعد وہ مدينہ سے فرار كرے چونكہ مكہ پہنچ گئے تھے اس لئے وہ بھى عائشہ كے زير پرچم آگئے _ اس طرح عثمان كے زمانے كے وہ تمام والى و صوبہ دارجنہيں حضرت علىعليه‌السلام نے معزول

۱۲۱

كرديا تھا وہ سب عائشہ كے ساتھ ہوگئے مختصر يہ كہ وہ تمام مخالف گروہ جنہيں حضرت علىعليه‌السلام سے پرخاش تھى مكہ ميں جمع ہوگئے اور اس طرح ناكثين كى تحريك كا اصل بيج يہاں بويا گيا ، مخالف گروہوں كے سردار عائشہ كے گھر ميں جلسات كى تشكيل كركے شورش و سركشى كى طرح اندازى پر بحث وگفتگو كرتے_

عائشہ نے كہا كہ : اے لوگو يہ عظےم حادثہ ہے جو رونما ہوا ہے اور جو واقعہ رونما ہوا ہے وہ قطعى ناپسنديدہ ہے ، اٹھو اور اپنے مصرى بھائيو سے مدد طلب كرو شام كے لوگ بھى تمہارا ساتھ ديں گے ، شايد اس طرح خداوند تعالى عثمان اور ديگر مسلمانوں كا بدلہ دشمنوں سے لے_

طلحہ وزبير نے بھى اپنى تقارير كے دوران عائشہ كى حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف جنگ كرنے ميں حوصلہ افزائي كى اور كہا كہ وہ مدينہ سے رخصت ہو كر ان كے ساتھ چليں _

جب انہوں نے عائشہ كے جنگ ميں شريك ہونے كى رضامندى حاصل كرلى اور عائشہ نے بھى اس تحريك كى قيادت سنبھال لى تو يہ گروہ عمر كى دختر اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زوجہ حفصہ كى جانب گئے ، انہوں نے كہا كہ مجھے عائشہ سے اتفاق رائے ہے اور ميں ان كى تابع ہوں اگر چہ انہوں نے يہ فيصلہ كرليا تھا كہ عائشہ كے ہمراہ چليں مگر ان كے بھائي عبداللہ اس روانگى ميں مانع ہوئے_(۱۳)

سپاہ كے اخراجات

عثمان نے جو رقم اپنے رشتہ داروں ميں تقسيم كردى تھى اور وہ كثير دولت جو ان كے پردازوں كے ہاتھ آئي تھى وہ سب اسى مقصد كے لئے استعمال كى گئي چنانچہ بصرہ كے معزول گورنر عبداللہ بن عامر اور عثمان كے ماموں زاد بھائي نے سب سے پہلے عائشہ كى دعوت كو قبول كيا اور اپنا بہت سا مال انہيں دے ديا _ عثمان كا معزول كردہ يمن كا گورنر يعلى بن اميہ نے بھى اپنى كثير دولت جس ميں چھ ہزار درہم اور چھ سو اونٹ شامل تھے اس فتنہ پرور لشكر كے حوالے كرديئے _(۱۴) اور اس لشكر ناكثين كے اخراجات فراہم كئے_

۱۲۲

عراق كى جانب روانگي

''ناكثين'' كى سعى و كوشش سے مسلح لشكر فراہم ہوگيا، سرداران سپاہ نے اس بات پر غور كرنے كے لئے كہ جنگى كاروائي كہاں سے شروع كى جائے آپس ميں مشورہ كيا اور انہوں نے يہ فيصلہ كيا كہ عراق كى جانب روانہ ہوں اور كوفہ وبصرہ جيسے دو عظےم شہروں كے باشندوں سے مدد ليں كيونكہ طلحہ اور زبير كے بہت سے خير خواہ وہاں موجود تھے اور اس كے بعد وہاں سے اسلامى حكومت كے مركز پر حملہ كريں _

اس فيصلہ كے بعد عائشہ كے منادى نے مكہ ميں جگہ جگہ اعلان كيا كہ ام المومنين اور طلحہ اور زبير كا ارادہ بصرہ جانے كا ہے جس كسى كو اسلامى حريت كا پاس ہے اور عثمان كے خون كا بدلہ لينا چاہتا ہے وہ ان كے ساتھ شريك ہوجائے_

جب ہزار آدمى ضرورى سامان جنگ كے ساتھ جمع ہوگئے تو انہوں نے مكہ سے عراق كى جانب كوچ كيا راستے ميں ان كے ساتھ بہت سے لوگ شامل ہونے لگے يہاں تك كہ ان كى تعداد تين ہزار تك پہنچ گئي _(۱۵)

عائشہ اپنے مخصوص ''عسكر'' نامى شتر پرلشكر كے سپاہ كے پيش پيش تھى اور اُميہ ان كے اطراف ميں چل رہے تھے اور سب كا ارادہ بصرہ پہنچنا تھا_

راہ ميں جو حادثات رونما ہوئے ان ميں سے ہم يہاں ايك كے بيان پر ہى اكتفا كرتے ہيں _

راستے ميں انہيں جہاں پہلى جگہ پانى نظر آيا وہاں ان پر كتوں نے بھونكنا اوريھبكنا شروع كرديا ، عائشہ نے دريافت كيا كہ يہ كونسى جگہ ہے انہيں بتايا گيا كہ يہ ''حَوا ب''ہے _ يہ سن كر عائشہ كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وہ حديث ياد آگئي جس ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ پيشن گوئي كى تھى كہ حواب كے كتے ازواج مطہرات ميں سے ايك پر غرائيں گے اور انہيں اس سفر سے باز رہنے كے لئے فرمايا تھا(۱۶) _ عائشہ اس حادثے سے پريشان ہوگئيں اور فرمايا :''انالله و انا اليه راجعون''

۱۲۳

ميں وہى زوجہ ہوں جنہيں پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كے مستقبل كے بارے ميں آگاہ كرديا تھااور فوراً ہى واپس چلے جانے كا فيصلہ كيا _ ليكن طلحہ وزبير نے جب يہ ديكھا كہ عائشہ جنگ كے خيال كو ترك كيا چاہتى ہيں تو انہيں اپنى آرزوئيں خاك ميں ملتى ہوئي نظر آئيں چنانچہ انہوں نے يہ كوشش شروع كردى كہ عائشہ اپنے فيصلے سے باز رہيں بالآخر جب پچاس آدميوں نے يہ جعلى گواہى دى كہ يہ جگہ ''حَوا ب'' نہيں تو وہ مطمئن ہوگئيں _(۱۷)

ناكثين كى سپاہ بصرہ كے قريب آكر رك گئي ، عائشہ نے عبداللہ بن عامر كو بصرہ روانہ كيا اور بصرہ كے كچھ بڑے افراد كے نام خط لكھا اور ان كے جواب كا انتظار كرنے لگي_

سپاہ كى جانب عثمان بن حنيف كے نمايندوں كى روانگي

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے بصرہ ميں مقرر صوبہ دار عثمان بن حنيف كو جب يہ اطلاع ہوئي كہ عائشہ كا لشكرشہر ''ابوالاسود دوئلي'' كے گرد نواح ميں پہنچ گيا ہے تو انہوں نے ''عمران بن حصين'' كو سردار لشكر كے پاس بھيجاتاكہ وہ يہ جان سكيں كہ بصرہ كى جانب آنے كا كيا سبب و محرك ہے _ انہوں نے سب سے پہلے عائشہ سے ملاقات كى اور ان سے دريافت كيا كہ بصرہ كى جانب آپ كے آنے كا كيا مقصد ہے؟ انہوں نے فرمايا كہ عثمان كے خون كا بدلہ اور ان كے قاتلوں سے انتقام لينا_

طلحہ اور زبير سے بھى انہوں نے يہى سوال كيا انہوں نے بھى عائشہ كى بات دہرادى ، عثمان بن حنيف نے طلحہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ كيا تم نے حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت نہيں كي؟ انہوں نے كہاں ہاں مگر ميرى بيعت دباؤ كى وجہ سے تھى _(۱۸)

عثمان بن حنيف كے نمايندگان نے تمام واقعات كى انہيں اطلاع دى عائشہ بھى اپنے لشكر كے ہمراہ ''حفر ابوموسي'' نامى جگہ سے روانہ ہوكر بصرہ ميں داخل ہوگئيں اور ''مربد'' كو جو كبھى بہت وسيع و كشادہ ميدان تھا ''لشكر گاہ'' قرار ديا _

۱۲۴

عثمان بن حنيف نے اپنے نمايندگان سے گفتگو كرنے كے بعد فيصلہ كيا كہ جب تك اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام كى جانب سے كوئي حكم نامہ نہيں ملتا وہ سپاہ كو قلب شہر ميں آنے سے روكيں _چنانچہ انہوں نے حكم ديا كہ لوگ مسلح ہوجائيں اور جامع مسجد ميں جمع ہوں _

جب لوگ مسجد ميں جمع ہوگئے تو قيس نامى شخص نے صوبہ دار بصرہ كى جانب سے ان كے سامنے تقرير كى اور كہا كہ وہ عائشہ كے لشكر كا استقامت و پائيدارى سے مقابلہ كريں _(۲۰)

ابن قتيبہ كے قبول كے مطابق خود عثمان بن حنيف اور ان كے ساتھيوں نے بھى اس موقع پر تقريريں كى اور اسى دوران كہا ان دو اشخاص (طلحہ اور زبير) نے بھى حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كى تھى مگر يہ بيعت رضائے خداوندى كى خاطر نہ تھى اسى لئے انہوں نے عجلت كى اور چاہا كہ اس سے پہلے كہ بچہ اپنى ماں كا دودھ چھوڑ دے وہ بڑا اور جوان ہوجائے ان كا خيال ہے كہ انہوں نے دباؤ كى وجہ سے بيعت كى ہے درحاليكہ ان كا شمار قريش كے زورمند لوگوں ميں ہوتا ہے اگر چاہتے تو بيعت كرتے صحيح طريق وہى ہے جو عام لوگوں نے طے كيا ہے اور حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كى اب آپ لوگ بتائيں كيا رائے ہے ؟

يہ سن كر حكيم بن جبلہ عبدى اپنى جگہ سے اٹھے اور كہا كہ ہمارى رائے يہ ہے كہ اگر انہوں نے ہم پر حملہ كيا تو ہم بھى جنگ كريں گے اور اگر وہ حملہ كرنے سے باز رہے تو ہم اس كا استقبال كريں گے ، اگرچہ مجھے اپنى زندگى بہت عزيز ہے مگرراہ حق ميں جان دينے كا مجھے ذرا خوف نہيں _ دوسرے لوگوں نے بھى اس رائے كو پسند كيا _(۲۱)

پہلا تصادم

جب عائشہ كا لشكر ''مربد'' ميں داخل ہوگيا تو بصرہ كے بعض وہ لوگ جو ان كے طرفدار تھے ان كى سپاہ مےں شامل ہوگئے ان كے علاوہ بصرہ كے باشندے اور عثمان كے حامى بھى كثير تعداد ميں ان كے گرد جمع ہوگئے_

۱۲۵

سرداران لشكر كى تقارير اور عثمان كى تحريك ''بدلہ خون'' كے باعث عثمان كے حامى و طرفدار دو گروہوں ميں تقسيم ہوگئے ايك گروہ نے عائشہ ،طلحہ اور زبير كے بيانات كى تائيد كى اور انہوں نے كہا كہ آپ يہاں عمدہ مقصد كے لئے تشريف لائے ہيں _

ليكن دوسرے گروہ نے ان پر دروغگوئي كا الزام لگايا اور كہا كہ خدا كى قسم تم جو كچھ كہہ رہے ہو وہ سراسر فريب ہے اور جو كچھ تم اپنى زبان سے بيان كررہے ہو وہ ہمارے فہم سے باہر ہے_

اس باہمى اختلاف كا نتيجہ يہ ہوا كہ انہوں نے ايك دوسرے پر خاك اچھالنى شروع كردى اور حالات كشيدہ ہوگئے_(۲۲)

سرداران لشكر مروان ، عبداللہ بن زبير اور چند ديگر افراد كے ساتھ صوبہ دار بصرہ كى جانب روانہ ہوئے اور انہوں نے عثمان بن حنيف سے درخواست كى كہ وہ اس جگہ سے چلے جائيں _ ليكن انہوں نے ان كى اس درخواست كى پروا نہ كى _

عثمان بن حنيف كے لشكر اور جارحين كے درميان شديد تصادم ہوا جو غروب آفتاب تك جارى رہا _ مدافعين كے قتل اور جانبين ميں سے بہت سے لوگوں كے زخمى ہوجانے كے بعد بعض لوگوں كى مداخلت كے باعث يہ جنگ بند ہوئي اور طرفين كے درميان عارضى صلح كا عہد نامہ لكھا گيا اس عہد نامہ صلح كى شرايط يہ تھيں كہ :

۱_ بصرہ كى صوبہ دارى و مسجد اور بيت المال حسب سابق عثمان بن حنيف كے اختيار ميں رہے گا_

۲_ طلحہ اور زبير نيز ان كے آدميوں كو يہ آزادى ہے كہ وہ بصرہ ميں جہاں بھى چاہيں آجاسكتے ہيں _

۳_ طرفين ميں سے كس كو بھى يہ حق حاصل نہيں كہ وہ دوسرے كے لئے كوئي پريشانى پيدا كرے_

۴_ يہ عہد نامہ اس وقت تك معتبر ہے جب تك حضرت علىعليه‌السلام يہاں تشريف لے آئيں اس

۱۲۶

كے بعد لوگوں كو صلح يا جنگ كا اختيار ہوگا_

جب عہدنامے پر دستخط ہوگئے اور طرفين كے درميان صلح ہوگئي تو عثمان بن حنيف نے اپنے طرفداروں كو حكم ديا كہ وہ اپنا اسلحہ ايك طرف ركھ ديں اور اپنے گھروں كو واپس جائيں _( ۲۳)

دھوكہ وعہد شكني

لشكروں كے سرداروں نے بصرہ ميں قدم جمانے كے بعد يہاں كے قبائل كے سربرآوردہ اشخاص سے ملاقاتيں كرنا شروع كيں اور سبز باغ دكھا كر انہيں بہت سى چيزوں كا لالچ ديا جس كے باعث بہت سے دنيا اور جاہ طلب لوگوں نے ان كى دعوت كو قبول كرليا _

طلحہ اور زبير نے جب اپنا كام مستحكم كرليا تو وہ اپنے عہد كى پاسدارى سے رو گرداں ہوگئے_ چنانچہ صوبہ دار كے گھر پر شبخون ماركر عثمان بن حنيف كو گرفتار كرليا اور انہےں سخت ايذا پہنچائي ، پہلے تو انہيں سخت زدو كوب كيا اور پھر سر، داڑھى اور دونوں ابروں كے بال نوچے اس كے بعد بيت المال پر حملہ كيا وہاں كے چاليس پاسبانوں كو قتل كركے باقى كو منتشر كرديا اور خزانے ميں جو كچھ مال ومتاع موجود تھا اسے لوٹ ليا_

اس طرح شہر پر جارحين سپاہ كا قبضہ ہوگيا اور جو اہم و حساس مراكز تھے وہ ان كے تحت تصرف گئے _ جارحين نے مزيد رعب جمانے كے لئے ان لوگوں ميں سے پچاس افراد كو جنہيں انہوں نے گرفتار كيا تھا عوام كے سامنے انتہائي بے رحمى كے ساتھ وحشيانہ طور پر قتل كرديا_(۲۴)

عائشہ نے حكم ديا كہ عثمان بن حنيف كا بھى خاتمہ كردياجائے مگر ايك نيك دل خاتوں مانع ہوئيں اور انہوں نے كہا كہ عثمان بن حنيف اصحاب پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں سے ہيں _ رسول خدا كے احترام كا پاس كيجئے اس پر عائشہ نے حكم ديا كہ انہيں قيد كرليا جائے_(۲۵)

جمل اصغر

حكيم بن جبلہ كا شمار بصرہ كے سر برآوردہ اشخاص ميں ہوتا تھا انہيں جس وقت عثمان بن حنيف

۱۲۷

كى گرفتارى كے واقعے كا علم ہوا تو انہوں نے اپنے طائفہ ''عبدالقيس '' كے جنگجو جوانوں كو مسجد ميں بلايا اور پر ہيجان تقرير كے بعد تين آور بعض اقوال كے مطابق سات سو افراد كو لے كر حملہ كا اعلان كرديا اور جارحين سپاہ كے مقابل آگئے_

اس جنگ ميں جسے جنگ جمل اصغر سے تعبير كيا گيا ہے حكيم بن جبلہ اور انكے ساتھيوں نے سخت پائمردى سے دشمن كا مقابلہ كيا يہاں تك جس وقت بازار كارزار پورے طور پر گرم تھاجارحين لشكر كے ايك سپاہى نے حكيم بن جبلہ پر حملہ كركے ان كا ايك پير قطع كرديا انہوں نے اسى حالت ميں اس سپاہى پر وار كيا اور اسے مار گرايا وہ اسى طرح ايك پير سے دشمن سے نبرد آزما ہوتے رہے حملہ كرتے وقت يہ رزميہ اشعار ان كى زبان پر جارى تھے_

يا ساق لن تراعى

ان معى ذراعى

احمى بها كر اعي

اے پير تو غم مت كر كيونكہ ابھى ميرے ہاتھ ميرے ساتھ ہيں اور ان سے ہى ميں اپنا دفاع كروں گا_

وہ اسى حالت ميں مسلسل جنگ كرتے رہے يہاں تك كہ نقاہت وكمزورى ان پر غالب آگئي اور شہيد ہوگئے _ ان كے فرزند ، بھائي اور دوسرے ساتھى بھى اس جنگ ميں قتل ہوگئے_(۲۶)

حكيم بن جبلہ پر غلبہ پانے كے بعد جارحين لشكر كے سرداروں نے دوبارہ فيصلہ كيا كہ عثمان بن حنيف كو قتل كردياجائے مگر انہوں نے كہا كہ تمہيں معلوم ہے كہ ميرا بھائي ''سہل'' مدينہ كا صوبہ دار ہے اگر تم مجھے قتل كرو گے تو وہ تمہارے عزيز واقارب كو مدينہ ميں نيست ونابود كردے گا چنانچہ اس بنا پروہ ان كے قتل سے باز رہے اور انہيں آزاد كرديا_(۲۷)

سردارى پر اختلاف

''ناكثين'' كے لشكر سرداران كو جب ابتدائي جنگوں ميں فتح و كامرانى حاصل ہوئي اور انہوں نے شہر پر بھى قبضہ كرليا تو ان ميں يہ اختلاف پيدا ہوا كہ سربراہ كسے مقرر كياجائے ان ميں سے ہر

۱۲۸

شخص كى يہى كوشش تھى كہ فتح كے بعد اولين نماز جو مسجد ميں ادا كى جائے اس ميں وہى امام جماعت كے فرائض انجام دے يہ باہمى كشمكش اس قدر طولانى ہوئي كہ نزديك تھا كہ آفتاب طلوع ہوجائے چنانچہ لوگوں نے بلند آواز سے كہنا شروع كيا اے صحابہ پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''الصلوة الصلوة ''ليكن طلحہ و زبير نے اس كى جانب توجہ نہ كى ، عائشہ نے مداخلت كى اور حكم ديا كہ ايك روز طلحہ كے فرزند محمدا ور دوسرے روز زبير كے بيٹے عبداللہ امامت كريں گے _(۲۸)

خبر رساني

طلحہ اور زبير نے جب بصرہ پر قبضہ كرليا تو وہ كارنامے جو انہوں نے انجام ديئے تھے انكى خبر شام كے لوگوں كو بھيجى گئي _ عائشہ نے بھى ان خبروں كى تفاصيل اہل كوفہ كو لكھى اور ان سے كہا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت سے دستكش ہوجائيں اور عثمان كے خون كا بدلہ لينے كے ئے اٹھ كھڑے ہوں _ يمامہ اور مدينہ كے لوگوں كو بھى خط لكھے گئے اور انہيں فتح بصرہ كى اطلاع كے ساتھ يورش و شورش كا مشورہ ديا گيا _(۲۹)

۱۲۹

سوالات

۱_ جس وقت اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے زمام حكومت سنبھالى تو وہ كون سے گروہ تھے جو آپ كى مخالفت پر اتر آئے؟

۲_ وہ كون سے عوامل تھے جن كے باعث طلحہ اور زبير نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے بعد عہد شكنى كى اور مخالفين كى صف ميں شامل ہوگئے_

۳_ ناكثين كى تحريك كا اصل مركز كہاں واقع تھا اور اس كى كس طرح تشكيل ہوئي ؟

۴_ عثمان كے قتل سے قبل عائشہ كا كيا موقف تھاا ور انہوں نے اسے كيوں اختيار كيا تھا ؟

۵_ جب عثمان قتل ہوئے اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بر سر اقتدار آگئے تو عائشہ نے اپنا موقف كيوں تبديل كرديا تھا؟

۶_ جب عثمان بن حنيف كو يہ علم ہوا كہ ''ناكثين'' كا لشكر بصرہ كے نزديك پہنچ گيا ہے تو انہوں نے كيا اقدام كيا ؟

۷_ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے بصرہ پہنچنے سے قبل وہاں كيا كيفيت طارى تھى اس كا مختصر حال بيان كيجئے ؟

۱۳۰

حوالہ جات

۱_ نہج البلاغہ خطبہ سوم ملاحظہ ہو جس ميں آپعليه‌السلام فرماتے ہيں :''فلما نهضت بالامر نكثت طائفة ومرقت اخرى وقسط آخرون ''_ حضرت علىعليه‌السلام سے قبل پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى دشمنان اسلام كے بارے ميں پيشين گوئي كردى تھى _ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطاب كرتے ہوئے ان كے يہ نام بيان كئے تھے : ''يا على ستقاتل بعدى الناكثون والقاسطين والمارقين'' (شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۰۱)

۲_ ''طلقاء '' وہ لوگ تھے جو فتح مكہ كے دوران مسلمانوں كے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب كو آزاد كرديا تھا اور فرمايا تھا كہ''اذهبوا انتم الطلقائ''

۳_ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۰ _۱۷۹ _''انتما شريكاى فى القوة والاستقامة عوناى اى على العجز الا ود ''

۴_ شرح ابن ابى الحديد ج ۷/ ۴۲ _ ۴۰

۵_مالنا من هذالامر الاكحسة انف الكلب (تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۹)

۶_والله ما اراد العمرة ولكنهما اراد الغدرة (تاريخ يعقوبى ج ۲/۱۸۰)

۷_ عثمان كے خلاف عائشہ كے اقوال واقدامات كے لئے ملاحظہ ہو (الغدير ج ۹/۸۶ _۷۷)

۸_اَبعده الله بما قدمت يداه وما الله بظلام للعبيد'' _ الغدير ج ۹/ ۸۳

۹_ الغدير ج ۹/ ۸۲ ابومخنف ' لوط بن ےحيى الازدى سے منقول

۱۰_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۰۶ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۸ _ الغدير ج ۹ / ۸۲ / ۸۰ انساب الاشراف ج ۲/ ۲۱۷_

۱۱_ عبيد نے عائشہ كے جواب ميں يہ اشعار پڑھے:

فمنك البدء ومنك الضير

ومنك الرياح ومنك المطر

و انت امرت بقتل الامام

و قلت لنا انه قد كفر

فهبنا اطعناك فى قتله

و قاتله عندنا من امر

الامامة والسياسة ج ۱/ ۵۱_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۹_۴۵۸ يعنى ان اختلاف كا سرچشمہ اور تغيرات كا باعث تم ہى تو ہو تمہارى وجہ سے سخت طوفان اور فتنے بپا ہوئے تم نے ہى عثمان كے قتل كا حكم ديا اور كہا كہ وہ كافر ہوگيا

۱۳۱

ہے اب بالفرض ہم نے تمہارى اطاعت كى خاطر اس قتل ميں حصہ ليا اصل قاتل وہ ہے جس نے اس قتل كا حكم ديا _

۱۲_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۸ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۰۷ _ انساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۱۸

۱۳_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۲

۱۴_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۱ _ ابن اثير ج ۳/ ۲۰۸ _ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۱ ليكن طبرى كى تاريخ ج ۴/ ۴۵۰ و ۴۵۱ پر يعلى بن اميہ كے اونٹوں كى تعداد چھ ہزار چھ سو لكھى ہے _

كامل ابن اثير ۳/ ۲۰۸ تاريخ يعقوبى ۲/۱۸۱

۱۵_ تاريخ طبرى ۴/ ۴۵۲ _۴۵۱

۱۶_ اس حديث كے متن كو مختلف مورخےن نے بيان كيا ہے _ يعقوبى نے ج ۲/۱۸۱ پر نقل كيا ہے :''لا تكونى التى تنجحك كلاب الحواب'' (عائشہ تم ان ميں سے نہ ہونا جن پر حواب كے كتے بھونكيں ) ليكن ابن اثير تاريخ ج ۲/۲۱۰)كامل اور بلاذرى نے انساب الاشراف (ج ۲ / ۲۲۴)ميں اس طرح درج كيا ہے ''ليت شعرى ايتكن تبنہا كلاب الحواب '' اور ابن ابى الحديد نے ج ۱۰/ ۳۱۰ پر يہى حديث دوسرے الفاظ كے ساتھ پيش كى ہے_

۱۷_ مروج الذہب ج ۳/ ۳۵۷ _ انساب الاشراف ج ۲/ ۲۲۴ الامامة والسياسات ج ۱/۶۰ ليكن يعقوبى نے (ج ۲ /۱۸۱)شہادت دينے والوں كى تعداد چاليس لكھى ہے_

۱۸_ تاريخ طبرى ج ۴ ص ۴۶۱ كامل ابن ايثرج ۳/ ۲۱۱_

۱۹_ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۳۱۳ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۲ ، ۴۶۱ _ كامل ابن اثير ج ۳/۲۱۱ _الامامة والسياسة ج ۱/۶۱ يہ گفتگو اگرچہ بہت مفصل ہے مگر يہاں اس كا خلاصہ ديا گيا ہے_

۲۰ _ مربد شہر كے كنارہ پر ايك ميدان تھا جہاں منڈى لگتى تھي_

۲۱_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۲

۲۲_ الامامة والسياسةج ۱ / ۶۱_ ۶۰

۲۳_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۳ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۳ _ ۲۱۲

۱۳۲

۲۴_ الجمل للمفيد / ۱۵۱_ ۱۵۰ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۶ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۴ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۸ شرح ابن ابى الحديد ج ۹ /۳۲۰ الامامة والسياسة ۱/۶۵

۲۵_ مروج الذہب ج ۲ / ۳۵۸ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۳۲۱

۲۶_ تاريخ طبرى ج ۴ / ۲۶۸ كامل ابن اثير ۲۱۶ _ ۲۱۵

۲۷ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۶ _۲۱۷ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۱ _ ۴۷۰ الجمل للمفيد / ۲۵۲ _ ۱۵۱

۲۸_ الجمل للمفيد ۱۵۳ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۹ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۴ _ يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ عثمان حنيف كے اس قول كے علامہ مفيد نے بصرہ كى ايك خاتون سے نقل كيا ہے_

۲۹_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۸ _ الجمل للمفيد / ۱۵۲ _ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۱

۳۰_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۲۰ _۲۱۹ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۲_ عائشہ نے جو خط مدينہ اور يمامہ كے لوگوں كو لكھا تھا اس كا متن علامہ مفيد نے اپنى تاليف ''الجمل'' كے صفحہ ۱۶۰ پر درج كيا ہے_

۱۳۳

ساتواں سبق

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۳

حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ كى جانب روانگي

ربذہ ميں قيام

لشكر كا جاہ وجلال

صلح كى كوشش

لشكر كے لئے دستورالعمل

دشمن كو متفرق كرنے كى آخرى كوشش

فيصلہ كن جنگ

عام معافي

سوالات

حوالہ جات

۱۳۴

حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ كى جانب روانگي

اميرالمومنينعليه‌السلام كى حكومت كے مخالفوں كا وجود ميں آنا ان كے درميان اتحاد و الفت اور ان كے لشكر كا بصرہ كى جانب روانہ ہونا اور پھر اس پر قابض ہوجانے كوہم بيان كرچكے ہيں اب مدينہ چلتے ہيں تاكہ وہاں سے اميرالمومنينعليه‌السلام كے ساتھ بصرہ كى طرف روانہ ہوجائيں _

معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف سركارى سطح پر سركشى كى تھى اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے سے قطى انكار كرديا تھا اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام بھى ان سے نبرد آزما ہونے كے لئے ابتدائي تيارى ميں مشغول تھے ، اس ضمن ميں انہوں نے حضرت بن حنيف، قيس بعد سعد اور ابو موسى جيسے اپنے كارپردازوں كو خطوط كے ذريعہ مطلع كيا كہ معاويہ كے خلاف جنگ كرنے كى غرض سے لوگوں كو آمادہ كريں _

اس اثناء ميں حضرت علىعليه‌السلام كو عائشہ ، طلحہ اور زبير كى سركشى نيز ان كے لشكر كى عراق كى جانب روانگى كى اطلاع ملى _ حضرت علىعليه‌السلام جانتے تھے كہ موجودہ حالات ميں ان تينوں حضرات كى يورش معاويہ كى سركشى سے كہيں زيادہ سنگين ہے كيونكہ معاويہ اسلامى حكومت كے دو دراز علاقے ميں سرگرم عمل تھا ليكن يہ لوگ مركز خلافت ميں بھى يكجا جمع اور اس كے گرد و نواح ميں شورش كيئے ہوئے تھے اس كے علاوہ بصرہ اور كوفہ سياسى اور عسكرى اعتبار سے خاص اہميت كے حامل ہيں چنانچہ اس بناء پر اس سے پہلے كہ يورش وبغاوت كے شعلے ديگر مقامات تك پہنچيں آپعليه‌السلام نے

۱۳۵

مصلحت امر اس ميں سمجھى كہ انكے آتش فتنہ كو خاموش كرنے كے لئے خود ہى پيشقدمى كريں اگر چہ كچھ لوگوں نے يہ تجويز بھى پيش كى آپ طلحہ اور زبير كے تعاقب كو نظر انداز كرديں مگر آپ نے اس تجويز كو قبول كرنے سے قطعى انكار كرديا اور فرمايا كہ خدا كى قسم ميں بجو نہيں ہوں جس كو پكڑنے كے لئے لوگ اس كے بھٹ پر دھيمے سروں ميں گاتے بجاتے ہيں اور اچانك اس كو پكڑ ليتے ہيں _ اپنے مخالفين سے پورى طرح باخبر ہوں ميں حق پسند وں كى شمشير براں سے ان لوگوں كا كام تمام كردوں گا جنہوں نے حق كے نام پر سر كشى ويورش كا سہارا ليا ہے ميں اپنے مطيع و فرمانبردار ہمكاروں كى مدد سے ان تمام سركشوں كو جو راہ حق ميں رخنہ اندازى پر تلے ہوئے ہيں ، ہميشہ كے لئے راستے سے ہٹادوں گا اور اپنے اس عمل كو تا دم واپسين جارى ركھوں گا_

حضرت علىعليه‌السلام نے مسلمانوں كو مسجد ميں جمع ہونے كا حكم ديا جب لوگ جمع ہوگئے تو آپعليه‌السلام نے عام لوگوں پر يہ واضح كرنے كے لئے مخالفين كے اغراض و مقاصد كيا ہے اس موضوع سے متعلق درج ذيل تقرير فرمائي_

''لوگوں عائشہ بصرہ كى جانب چلى گئي ہيں _ طلحہ و زبير ان كے ہمراہ ہيں ان دونوں كا يہ خيال ہے كہ خلافت پر صرف انھى كا حق ہے كسى اور كا نہيں _ طلحہ ، عائشہ كا چچا زاد بھائي ہے اور زبير ان كے داماد ہيں (اور عائشہ كى سعى و كوشش انہى كے لئے ہے)خدا كى قسم اگر يہ دونوں اپنے مقاصد ميں بالفرض كامياب ہوبھى گئے تو پھر ان دونوں ميں وہ سخت تنازع ہوگا كہ ان ميں ايك دوسرے كى گردن ماردے گا _ خدا شاہد ہے كہ جو شخص سرخ اونٹ پر سوار ہوكر روانہ ہوتا ہے وہ زيادہ دور تك راستے طے نہيں كرتا اور اس سے كوئي عقدہ وا بھى نہيں ہوتا مگر يہ كہ وہ گناہ كے راستے پر چلے اور خدا كا غضب اس پر نازل ہوتا كہ وہ اور اس كے ساتھى ہلاكت كو پہنچيں _

خدا كى قسم انجام كار يہ ہوگا كہ ان ميں سے ايك تہائي افراد مارے جائيں گے ، ايك تہائي فرار كرجائيں گے اور ايك تہائي توبہ كرليں گے_

عائشہ وہى خاتون ہيں ''جسٌ پَر حَوْا َبْ ''كے كتے غرارہے ہيں ، طلحہ اور زبير بھى جانتے

۱۳۶

ہيں كہ وہ ٹھيك راستے پر نہيں چل رہے ہيں _ افسوس اس عالم كے حال پر جو اپنے جہل كے باعث ماراگيا اور وہ اپنے علم سے بہرہ مند نہ ہوسكا_

مجھے قريش سے كيا سرو كار خدا گواہ ہے جب وہ حالت كفر ميں تھے ميں نے انہيں قتل كيا اس وقت بھى وہ ہوا وہوس اور شيطانى وسواس كے دام فريب ميں ہيں (اسى لئے شورش بپا كئے ہوئے ہيں )يہ سب ميرے ہاتھوں مارے جائيں گے _(۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے افكار عامہ كو بيدار كرنے كى غرض سے دوسرے اور تيسرے روز پر ہيجان تقارير كيں اور بالآخر آپعليه‌السلام نے اعلان جنگ كرديا _ سہل بن حنيف كو مدينے ميں اپنا جانشين مقرر كيا(۲) اور خود مسلح و مجہز لشكر كے ساتھ جو سات سو سے زيادہ افراد پر مشتمل تھا مدينہ سے عراق كى جانب روانہ ہوئے_

''ناكثين'' پر قابو پانے كے لئے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كا لشكر پہلے مكہ كى جانب روانہ ہوا ليكن جب آپ ''ربذہ(۳) '' نامى مقام پر پہنچے تو معلوم ہوا كہ مخالفين وہاں سے كوچ كرچكے ہيں _ چنانچہ وہاں سے آپعليه‌السلام نے عراق كى جانب رخ كيا _

ربذہ ميں قيام

حضرت علىعليه‌السلام نے ربذہ ميں چند روز قيام فرمايا اس عرصے ميں مدينہ سے كچھ انصار جن ميں خزيمہ بن ثابت اور تقريباً چھ سو طائفہ طى كے منظم سوار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر سے متصل ہوگئے _(۴)

عثمان بن حنيف بھى دشمنوں كے چنگل سے نجات پانے كے بعد ربذہ ميں حضرت علىعليه‌السلام سے آن ملے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے ملاقات كرنے كے بعد كہا يا اميرالمومنينعليه‌السلام جس روز آپ نے مجھے روانہ كيا تھا اس وقت ميرى داڑھى بہت گھنى تھى ليكن آج ميں آپ كى خدمت ميں ايك بے ريش نوجوان كى صورت ميں حاضر ہوا ہو حضرت علىعليه‌السلام نے انہيں صبر كى تلقين كى اور ان كے لئے

۱۳۷

دعا فرمائي _ (۵)

اسى طرح اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ہاشم مرتال كو خط دے كر حاكم كوفہ كى جانب روانہ كيا تاكہ اس سے پہلے كہ طلحہ اور زبير وہاں پہنچيں وہاں كے گورنر كى عسكرى مدد حاصل كرلى جائے _ ليكن موسى اشعرى حاكم كوفہ نے صرف حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے سے سيدھے منہ بات نہ كى بلكہ حضرت علىعليه‌السلام كے خط كو بھى انہوں نے غايب كرديا اورہاشم مرتال كو يہ دھمكى دى كہ وہ انہيں قيدى بناليں گے انہوں نے كوفہ كے لوگوں كو بھى سختى سے منع كرديا اور كہا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مدد نہ كريں _ گورنر كى حيثيت سے اعلان كيا كہ اگر جنگ كى نوبت آئي تو پہلے وہ عثمان كے قاتلوں كے خلاف جنگ كريں گے اور اس كے بعد وہ دوسروں كى طرف متوجہ ہوں گے _(۶) حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے نے ان تمام واقعات كى اميرالمومنينعليه‌السلام كو خبر كى _

يہ خط حضرت علىعليه‌السلام كو ''ذى قار'' نامى مقام پر موصول ہوا _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے فرزند عزيز حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمار ياسر كو اپنے پاس بلايا اور ان دونوں حضرات كو اس كام پر مقرر كيا كہ اہل كوفہ كے لئے وہ خط لے كر روانہ ہوں اور وہاں پہنچ كر وہاں كے لوگوں كو مدد كيلئے آمادہ كريں _

حضرت علىعليه‌السلام نے خط ابوموسى كو بھى لكھا اور انہيں ان كے منصب سے معزول كرديا _ اميرالمومنينعليه‌السلام نے اس خط ميں لكھا تھا كہ انہوں نے اپنے موقف كا صحيح استعمال نہيں كيا اور اسى بنا پر انہيں سخت تنبيہہ بھى كى اس كے علاوہ حضرت علىعليه‌السلام نے مالك اشتر كو ان كے پيچھے روانہ كيا_

حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمارعليه‌السلام نے كوفہ پہنچنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كا خط وہاں كے لوگوں كو سنايا اور اس سلسلے ميں تقارير بھى كيں _ حضرت علىعليه‌السلام كى تحرير اور حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمارعليه‌السلام كى تقرير كا اثر يہ ہوا كہ اہل كوفہ ان كے گرويدہ ہوگئے اور انہوں نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خلوص نيت اور اظہار محبت كيا اور ان كے فرمان كے آگے سر تسليم خم كرديا_

حضرت امام حسنعليه‌السلام نے ابوموسى كى معزولى كا بھى اعلان كيا اور ان كى جگہ قرظة بن كعب'' كو گورنر

۱۳۸

مقرر كيا _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے كى سعى و كوشش اور بصيرت افروز تقارير كے باعث كچھ لوگوں نے اپنى رضامندى كا اعلان كرديا چنانچہ چند روز بعد تقريباً سات ہزار افراد ''ذى قار'' ميں حضرت علىعليه‌السلام سے جاملے _ حضرت امام حسنعليه‌السلام كى كاميابى پر حضرت علىعليه‌السلام بہت مسرور ہوئے اور انہوں نے اپنے فرزند دلبند سے اظہار تشكر كيا_(۷)

لشكر كا جاہ وجلال

اميرالمومنينعليه‌السلام حضرت علىعليه‌السلام كا وہ مسلح وعظےم لشكر جو مدينہ اور كوفہ ميں جمع ہوا تھا اور بصرہ كے نواح ميں قيام پذير تھا اس لشكر كے بارے ميں منذر بن جارود نے لكھا ہے كہ ميں شہر بصرہ سے باہر نكل كر آيا تاكہ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كا نظارہ كرسكوں _

اس وقت وہاں ہزار مسلح سوار موجود تھے اور ابو ايوب انصارى تنو مند گھوڑے پر سوا ران كے پيش پيش چل رہے تھے_ ان كے علاوہ بھى وہاں دوسرے عسكرى دستے تھے جن ميں ہر دستہ ہزار مسلح افراد پر مشتمل تھا اور دستوں كى كمانڈرى خزيمہ بن ثابت ، ابو قتادہ عمار ياسر، قيس بن سعد اور عبداللہ بن عباس جيسے جليل القدر صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كرتے تھے اور يہ تمام دستے ابو ايوب كى فوج كے پيچھے چل رہے تھے_

انہى جنگجو دستوں ميں ايك دستہ حضرت علىعليه‌السلام كى زير قيادت ديگر تمام دستوں سے آگے چل رہا تھا _ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دائيں بائيں حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت امام حسينعليه‌السلام چل رہے تھے اور ان كے آگے حضرت علىعليه‌السلام تا ديگر فرزند محمد بن حنفيہ پرچم ہاتھ ميں لئے چل رہے تھے_ عبداللہ ابن جعفر ،حضرت علىعليه‌السلام كے پيچھے تھے ان كے علاوہ عقيل كے فرزند اور بنى ہاشم كے نوجوانوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو انگشترى كے نگينہ كى طرح اپنے درميان لے ركھا تھا _ كچھ معمر بدرى بزرگ (مہاجر و انصار)بھى ان ہى دستوں ميں نظر آرہے تھے_(۸)

۱۳۹

بصرہ پہنچنے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے ''زاويہ'' نامى جگہ پر قيام فرمايا اور يہاں چار ركعت نماز ادا كى نماز سے فارغ ہونے كے بعد آپ نے دوبارہ سجدہ كيا اور اس قدر گريہ و زارى كى كہ آنكھوں سے آنسو جارى ہوگئے پھر دعا كے لئے ہاتھ آسمان كى طرف اٹھائے اور عرض كى خداوند تعالى اس جماعت نے ميرے حكم كى نافرمانى كركے مجھ پر ظلم كيا ہے يہ لوگ بيعت سے منحرف ہوگئے ہيں _ اے خدا اب تو ہى مسلمانوں كى حفاظت فرما _(۹)

صلح كى كوشش

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كا مقصد جنگ كرنا نہ تھا بلكہ آپ چاہتے تھے كہ ''ناكثين'' نے جو فتنہ كى آگ بھڑكائي ہے اسے خاموش كرديں اس مقصد كى برآورى كيلئے اور كشت وخون كو روكنے كى خاطر ، حضرت علىعليه‌السلام نے ہر ممكن كوشش كى اور جو بھى ممكن طريقہ ہوسكتا تھا آپعليه‌السلام اسے بروئے كار لائے اميرالمومنينعليه‌السلام نے جو صلح طلبانہ اقدامات كئے ان كے چند نمونے يہاں پيش كئے جاتے ہيں :

۱_ بصرہ پہنچنے سے قبل آپعليه‌السلام نے صعصعہ بن صوحان اور عبداللہ بن عباس كو جداگانہ طور پر خط دے كر عائشہ ، طلحہ اور زبير كے پاس بھيجا كہ شايد ان كو مذاكرہ اور پند ونصيحت كے ذريعے جنگ كرنے سے باز ركھاجاسكے _ ليكن ان لوگوں نے حصرت علىعليه‌السلام كے نمايندگان اور آپعليه‌السلام كے پند ونصايح كے آگے سر تسليم خم نہ كيا اور جنگ كے علاوہ كوئي دوسرا راستہ اختيار كرنے سے انكار كرديا_(۱۰)

۲_ حضرت علىعليه‌السلام نے جنگ كے دن فيصلہ كيا كہ كلام اللہ كو درميان لاكر اسے حكم قرار ديں _ چنانچہ آپعليه‌السلام نے حضرت مسلم نامى شخص كو قرآن پاك ديا اور فرمايا كہ ان لوگوں سے كہو كہ ہمارے اور تمہارے درميان قرآن ہى حاكم ومنصف ہے ، خدا سے ڈرو اور مسلمانوں كا خون بہانے سے گريز كرو _

اس جوان نے حضرت علىعليه‌السلام كے حكم پر عمل كيا ليكن انہوں نے مسلم كا وہ ہاتھ قلم كرديا جس ميں

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348