تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 11%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180240 / ڈاؤنلوڈ: 4272
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ہمت بلند دار کہ مردان روز گار         از ہمت بلند بہ جایی رسیدہ اند

یعنی بزرگ شخصیات بلند ہمت والے تہے اور وہ اپنی ہمت کے ذریعہ ایک مقام و منزلت تک پہنچ گئے ۔

حضرت امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' قدر الرجل علیٰ قدر همّته ''(1)

ہر شخص کی قدر وقیمت ، اس کی ہمت کے لحاظ سے ہے۔

کیو نکہ بلند ہمت و حو صلہ انسان کو بہت اہمیت  عطا کر تا ہے ہمارے بزرگ کہ جو صاحبان اسرار اہل بیت عصمت و طہارت تہے اور جنہوں نے ان کی رضا کی راہ میں جا نفشا نی سے کام لیا وہ کس طرح عالی مقامات پر فائز ہو ئے اور کس طرح اہل بیت علیہم السلام کے معنوی چشمہ سے سیراب ہوئے ؟

ان افراد کا ظرف ایسا تہا کہ اہل بیت  کے لطف نے جن میں کسی قسم کی خود پسندی اور تکبر ایجاد   نہ کیا ۔ وہ جس مقام کی جانب جائیں ، ان پر عنا یات بہی اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں ۔ لیکن جو ایک خواب دیکہنے یا کسی معنوی  سیر کے اتفاق یا امام سے کسی مادی حاجت کے پورا ہونے سے پہولے نہ سمائے ، کیا وہ بلند حوصلہ و ہمت رکہتا ہے ؟ یا جو کوئی خواب سننے یا معنوی سیر کے اتفاق یا مادی حاجت کے پورا ہونے پر تعجب کرے اور اس کا انکار کرے ، کیا یہ اعلیٰ و بلند ہمت سے بہرہ مند ہے ؟

حضرت امیرالمومنین (ع)  فر ماتے ہیں :

'' من صغرت همّته بطلت فضیلته ''(2)

جس کی ہمت کم ہو وہ اپنی فضیلت کہو دیتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ شرح غرر الحکم:ج 4ص  500 ، بحار الانوار:ج 78ص  14

[2] ۔ شرح غرر الحکم:ج 5 ص 210

۶۱

اپنے ارادہ پر عمل کریں

بہت سے موارد میں ممکن ہے کہ انسان کسی مناسب وقت و فرصت کو ضائع کر دے اور پہر اس پر افسوس کرے اور پشیمان ہو ، ایسی پشیمانیوں سے بچنے کے لئے تمام مناسب اور اچہے مکا نا ت و سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے ارادہ پر عمل کریں  ۔

امام صادق (ع)ایک روایت میں فر ما تے ہیں :

'' اذا همّ احدکم بخیرٍ فلا یؤخّره ''(1)

جب بہی تم میں سے کوئی کسی اچہے کام کو انجام دینے کا ارادہ کرے تو اس میں تاخیر نہ کرو۔

  اسی طرح امام صادق (ع) ایک دوسری روایت میں فرما تے ہیں :

'' اذا همّت بخیرٍ فبادر فانّک لا تدری ما یحدث ''(2)

جب بہی کسی اچہے کام کا ارادہ کرو تو اسے شروع کرو ، کیو نکہ تم نہیں جانتے کہ بعد میں کیا چیز در پیش آجا ئے ۔

مختلف حوادث کے پیش آنے سے انسان بہت سی سہولیات و امکا نا ت کو گنوا دیتا ہے جس کے نتیجہ میں ہم نے جس کام کو انجام دینے کا ارادہ کرتے ہیں اسے انجام دینے میں کامیاب نہیں ہو تے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحارالانوار:ج 71ص  17 2 ، مجالس شیخ مفید: 28 1

[2] ۔ بحا ر الا نوار:ج 71ص  2 2 2 ، اصول کا فی:ج 2ص  42 1

۶۲

قدرت در تصمیم گیری ، عامل پیروزی

وضعف در آن ، عامل شکست است

کامیابی کا عامل ارادہ کی قدرت ہے اور اس میں ضعف شکست کابا عث ہے ۔

جس طرح نیک کام کے لئے بلند حوصلہ و ہمت مقام انسان کی عظمت پر گوا ہ ہے ، اسی طرح   ارادہ  میں کمزور ی انسان کی ہار کی دلیل ہے ۔ پچیس ہزار افراد کے بارے میں تحقیق ومطالعہ سے یہ معلوم ہو اکہ ان کے ہدف تک نہ پہنچنے اور شکست کہانے کے اکتّیس اسباب میں سے اہم سبب عامل کمزورا رادہ تہا آج کے کام کو کل پر چہوڑ نا اور مسامحہ مضبوط ارادہ کے مخالف ہیں اس پر غلبہ پانا ضروری ہے ۔

اپنے ہدف تک پہنچنے والے ہزاروں افراد کے مطا لعہ سے یہ معلوم ہو گا کہ وہ پختہا رادہ  کے مالک تہے اور اپنے عزم و ارادہ پر ثابت قدم رہتے تہے  ۔

اپنے ہدف و مقصد تک نہ پہنچنے والے افراد ایسے ہو تے ہیں کہ جو ارادہ نہیں کر سکتے یا اپنے ارادہ کو بہت جلد بدل دیتے ہیں ۔

پس اپنی قدرت کے  مطابق قوت ارادہ کو مزید مضبوط کریں کیو نکہ ارادہ جس قدرپختہ ہوگا ، آپ کے لئے  بیشتر آثار فراہم کرے گا پہر آپ بلند حوصلہ و ہمت کے ساتہ منزل مقصود تک پہنچ سکیں گے ۔

حضرت امیر المومنین(ع)  فر ماتے ہیں :

'' من کبرت همّته عزّ مرامه ''(1)

جس کی ہمت بلند ہو وہ عزیز و محترم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ شر ح غرر الحکم:ج 5ص  88 2

۶۳

نہ ہر در خت تحمل کند  جفای خزاں            غلام ہمّت سروم کہ این قدم دار

ہردرخت میں خزاں کی سختی و جفا کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی۔  لیکن یہ میرا ہی سرو ہے جو خزاںکی سختیوں کو برداشت کررہا ہے۔

پس عالی ہمت و ایسے افراد احترام کے  لائق ہیں کہ جو اپنے مصمم ارادے کی بناء پر اپنے ہدف کو پانے میں کامیا ب ہوگئے ۔ لوگ ایسی شخصیات کو عزت کی نگاہ سے دیکہتے ہیں اور ان کی مدح و تعریف   کر تے ہیں لوگ ایسے افراد کی رفتار و روش کو احترام کی نگاہ سے دیکہتے ہیں اور دوسروں کی نظروں میں یہ شخصیات ممتاز و بے نظیر شمار ہوتی ہیں ۔

ایسے افراد اگر اپنی ہمت و ارادے کو معنوی  مسائل اور تقرب خدا کی راہ میں قرار دیں تو یہ خدا اور خاندان رسالت  کے نزدیک ارزش و تقرب حاصل کریں گے کہ جو دوسروں کے لئے مورد غبطہ ہو ۔

ہمت عالی ز فلک بگذرد        مرد بہ ہمت ز ملک بگذ رد

اگر عالی اور بلند ہمت آسمان سے بہی آگے بڑہ جائے تو مرد اپنی ہمت کے ذریعہ ملائکہ سے بہی آگے بڑہ سکتا ہے ۔

۶۴

قوت ارادہ کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آنا

انسان کی طبیعت ایسی ہے کہ وقت گزرنے کے سا تہ ساتہ اس کا کردار و رفتار اس کے خلق اور ذات کا حصہ بن جا تا ہے جب اس کی عادت ہو جائے تو پہر اس سے جدا ہو نا ممکن نہیں ہو تا ۔

امام صادق (ع) فر ماتے ہیں :

'' الخلق خلقان ، احدهما نیّة والآخرة سجیّة قیل فایّهما افضل ، قال : النیّة لانّ صاحب السجیّة مجبول علی امرٍ لا یستطیع غیره وصاحب النیّة یتصبّر علی الطاعة تَصَبّراً فهذا افضل ''

اخلاق  کی  دو قسمیں  ہیں :

۱۔نیت کے ذریعہ حاصل ہو نے والا اخلاق ۔

۲۔ انسان کا طبیعی و ذاتی اخلا ق ۔

امام صادق سے پو چہا گیا کہ ان میں سے کون سا اخلاق افضل ہے ؟ امام صادق نے فرما یا : نیت کے ذریعہ حاصل شدہ اخلاق افضل ہے کیو نکہ جس کا اخلاق اس کی طبیعت سے اخذ ہو ، تو اس کی خلقت ایسی ہے کہ جو اس کے علا وہ کسی اور کام کے انجام دینے پر قادر نہیں ہو تا لیکن جو اپنے  ارادہ  سے پسندیدہ

اخلاق کا مالک بنے وہ صابرانہ اپنے پرور دگار کی  اطاعت کر تا ہے پس یہ شخص افضل ہے ۔

۶۵

عظیم لوگ اپنے قوة  ارادہ  کے ذریعہ اخلاق حسنہ کو اپنی طبیعت کا  حصہ بنا لیتے  ہیں اور اپنی مضبوط نیت و پختہ ارادے کے ذریعہ اخلاق رذیلہ اور نا پسندید ہ عا دات کو اپنے سے دور کرتے ہیں ۔ ذو القر نین نے دنیا کے مشرق و مغرب کو طے کیا مختلف اقوام عالم کو نزدیک سے دیکہا اور ان کے رفتار و کردار کا مشا ہدہ کیا انہوںنے تمام لوگوں میں سے چند ایسے لوگوں کو بہی دیکہا کہ جن کی آسان زندگی ان کے لئے حیرت کا سبب تہی وہ اعلیٰ ترین اور خوبصور ت زندگی گزار رہے تہے ان میں قتل و خونریزی اور خیانت کے آثار دکہائی نہیں دیتے تہے صاحب ثروت ، نچلے طبقے کو کچہ نہیں دیتے تہے ۔

لہذا ذو القر نین بہت حیران ہوئے اور ان سے بہت سے سوالات پوچہے اور ان سے قانع کنندہ جوابات لیئے انہوں  نے ان سے پوچہا:'' فما لکم لا تسبّون ولا تقتلون ؟ قالو: من قبل انّا غلبنا طبائعنا با لعزم و سنّنا انفسنا بالحلم ''

ذو لقرنین نے ان سے پوچہا : تمہارے معاشرے میں فحش و دشنام اور قتل و غارت کیوں اور کس وجہ سے نہیں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : کیو نکہ ہم مصمم ارادے کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آچکے ہیں اور ہم نے قوی ارادہ سے بری عادات کو اپنے سے نکال دیا ہے اور بردبادی و حلم کو اپنی نفسانی روش قرار دیا ہے ۔

اس بناء پر اگر انسان طبیعتاً ظالم و جنایت کار ، جہوٹا یا ریا کار ، سست و کاہل ہو یا اس میں کوئی اور بری صفت ہو تو وہ مضبوط عزم  اور پختہ ارادہ سے انہیں بر طرف کر سکتا ہے اور اپنے کو صفات حسنہ سے مزین کرسکتا ہے ۔

کوہ نتوان شدن سدّ رہ مقصود مرد              ہمت مردان بر آرد از نہاد کوہ گرد

یعنی ایک بلند و با لا پہاڑ انسان کی منزل و مقصود میں رکاوٹ نہیں بن سکتا کیونکہ مردکی ہمت اس  پہاڑ کو بہی خاک کے ذرات میں تبدیل کر دیتی ہے ۔

پس اگر آپ خود  میں کسی پہاڑ کے  برابربری صفات و عا دات کو دیکہیں تو آپ قوت ارادہ اور مردا نہ ہمت کے ذریعہ انہیں نابود کر سکتے ہیں بلکہ آپ انہیں اچہی صفات میں تبدیل کر نے کی بہی قدرت رکہتے ہیں ۔

۶۶

ملّا صالح مازندرانی، ایک پختہ ارادہ کے مالک شخص

صالح مازندرانی ایسے صاحب تصمیم و پختہ ارادہ کے مالک تہے کہ جنہوں نے بہت کم وسائل کے باوجود اپنے مقصد کو پالیا وہ علا مہ مجلسی اول کے داماد اور نامور شیعہ علماء  میں سے تہے یہ ہر اس شخص کے لئے نمونہ ہیں کہ جو اعلیٰ مقاصد و اہداف رکہتے ہیں ۔

وہ کہتے ہیں کہ میں دینی علوم حاصل کرنے والوں کے لئے حجت ہوں کیو نکہ مجہ سے بڑہ کر    کوئی فقیر نہیں تہا اور میرا حا فظہ سب سے ضعیف و بد تر تہا کبہی میں اپنے گہر تو کبہی اپنے فرزند کا نام بہول جا تا میری عمر کے تیس سال گزر چکے تہے کہ میں نے ( الف ، با ) سیکہنی شروع کی اور اتنی سعی و کوشش کی کہ خدا نے فضل کیا ۔

وہ فقر ، کند ذہن اور ضعیف حافظہ کے با وجود پختہ ارادہ  رکہتے تہے جس کی بدولت انہوں نے باارزش کتب کی تالیف کا مصمم ارادہ کیا اور کامیاب ہوئے ، وہ کتب آج بہی شیعہ  علماء  کے لئے مورد استفادہ ہیں ۔

ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اس قدر کم حافظہ رکہتے تہے کہ اپنے استاد کے گہر کو بہول جاتے اور اتنے فقیر و غریب تہے اور اتنا پرا نا لباس پہنتے کہ شرم کے مارے مجلس درس میں وارد نہ ہوتے وہ محل درس سے با ہر بیٹہتے اور ہڈیوں اور چنار کے درخت کے پتوں پر درس لکہتے ایک  بار کوئی مسئلہ مورد اشکال قرار پایا اور وہ چند روز تک جاری رہا  مرحوم مجلسی کے ایک شاگرد نے دیکہا کہ ملا صالح مازندرانی نے اس اشکال کا جواب چنار کے پتوں پر لکہا ہے ، اس نے درس میں علامہ  مجلسی کا جوا ب دیا ۔

۶۷

علامہ مجلسی  سمجہ گئے کہ یہ اس  کا جواب نہیں  ہے  لہذا انہوں نے اس سے پوچہا کہ یہ کس کا جواب ہے اور اس بارے میں اصرار کیا تو اس شاگرد نے بتا یا کہ یہ اس کا جواب ہے کہ جو مجلس درس کے باہر بیٹہا ہوا ہے ۔ علامہ مجلسی نے دیکہا تو ملا محمد صالح دروازے کے باہر بیٹہے ہوئے تہے ، علامہ نے ملا ّ  محمد صالح کو لباس دیا اور درس میں حاضر ہونے کو کہا وہ علامہ مجلسی کے اتنے مورد تو جہ قرار پائے کہ وہ انہیں اپنے گہر لے گئے اور ان سے اپنی بیٹی کی شادی کی ! اور انہیں کو گہر کا کتابخانہ دیا ۔

بہ ہر کاری کہ ہمت بستہ گردد            اگر کاری بود ، گل دستہ گردد

یعنی جو کام بہی ہمت سے وابستہ ہو اور آپ اسے ہمت سے انجام دیں تو اگر وہ کام کانٹوں کی صورت میں بہی ہو تو وہ گل دستے میں تبدیل ہو جائے گا ۔

۶۸

اپنے ارادہ اور نیت کو تقویت دینا

علامہ صالح مازندرا نی نے بہت سی مشکلات کے با وجود پختہ ارادہ  کے ذریعہ علمی مراحل طے کرکے بلند مقام حاصل کیا اگر آپ چاہیں تو خدا آپ کو ب ھ ی یہ مقام عنایت فرمائے گا لیکن اس کے لئے اپنی نیت وارا دے میں کو تاہی نہ برتیں حضرت امیر المو منین  اپنے ایک خط میں لک ھ تے ہیں : '' فانّ اللّٰه یعطی العبد بقدر نیّته ''(1)

بے شک خدا ہر بندے کو اس کی نیت کے برابر عطا فرما تا ہے  ۔جس قدر انسان کی نیت کی اہمیت ہو ، خدا بہی اسی لحاظ سے اسے عطا کر تا ہے آپ کی نیت جس قدر بہتر اور خالص  ہو گی ، اسی لحاظ سے اجر و ثواب بہی زیاد ہو گا اس بناء پر اپنی نیت کو خالص کریں نہ کہ صرف اپنے اعمال کو زینت دیں ۔

خدا کے بزرگ بندے اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے خدا کی توفیقات و عنایات کا دامن پکڑتے ہیں ایک روایت میں امام صادق اس راز سے پردہ اٹہا تے ہوئے فرما تے ہیں :

'' انّما قدّر اللّٰه عون العباد علیٰ قدر نیّاتهم ، فمن صحّت نیّته تمّ عون اللّٰه له  ومن قصرت نیّته ، قصرعنه العون بقدر الّذی قصر ''(2) خداوند تعالی لوگوں کی نیت کے مطابق ان کی مدد کو مقدر کر تا ہے جو صحیح و کامل نیت رک ھ تا ہو تو خداب ھ ی کامل طور پر اس کی مدد کر تا ہے اور جس کی نیت کم ہو اسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحا ر الانوار:ج 33ص  88 5

 [2] ۔ بحار الانوار:ج 0 7ص 11 2

۶۹

لحاظ سے اس کی مدد میں بہی کمی آتی ہے۔

امام صادق (ع) اپنے اس قول میں کامیاب لوگوں کی کامیابی اور نا کام لوگوں کی ناکامی کے راز کو بیان فرماتے ہیں : کیو نکہ لوگوں کو خدا کی مدد ان کی نیت کے لحاظ سے پہنچتی ہے ۔

نیت و ارادہ اس قدر کا رساز اور پر قدرت ہے کہ اگر اپنے ارادہ کو تقویت دیں تو آپ کے جسم کا ضعف دور ہو جائے گا اور آپ جسمانی  لحاظ سے بہی ہر مشکل کام ا  نجام دینے کو تیار ہوں گے کیو نکہ نیت میں پختگی آپ کے  بدنی ضعف کو دور کرتی ہے حضرت امام صادق(ع) فرماتے ہیں :

'' ما ضعف بدن عمّا قویت علیه النیّة ''(1)

 نیت کے ذریعہ سے قوی ہونے والے بدن کو کوئی ضعف لا حق نہیں ہو سکتا۔

بہت سے ورزش کار اور کہلاڑی جسمی تمرینات سے زیادہ روح کو تقویت دینے سے استفادہ کرتے ہیں کیو نکہ نیت سے  فکر اور ارادہ کو تقویت دینا، صرف بدن کو طاقت ور بنا نے سے بہتر ہے بہت سے افراد معتقد ہیں کہ جوا نی و بڑہا پا اور قوت و ضعف کا سر چشمہ ایک غیر جسمی منشاء ہے اگر چہ اس موضوع کو تمام قبول نہیں کرتے لیکن اس فرض کی بناء پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ فکر و اندیشہ انسان کی صحت و مرض ،اور بندی  قدرت و ضعف  حتی کہ حیات وموت میں بہی مؤثر ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔   اما لی صدوق: 8 9 1 ، بحار الا نوار:ج 7 ص 5 0 2

۷۰

ارادہ کو تقویت دینے کے طریقے

1 ۔ ذوق و شوق آ پ کے ارادہ کو تقویت دیتا ہے

شیطان گناہ کار کو گمراہی کے راستے دکہا تا ہے اور گناہ اور وسوسہ کی طرف متحرک کر تا ہے تاکہ اس کے ذریعہ انسان کو راہ راست سے بہٹکا دے اور ابدی نقصان میں مبتلا کردے گمراہی کے راستوں میں سے ایک شہوت کا فراوان شوق ہے خدا وند متعال فرما تا ہے :

'' و یرید الّذین یتّبعون الشّهوات ان تمیلوا میلاً عظیماً ''(1)

شہوات کی پیرو ی کرنے والے چاہتے ہیں کہ تمہیں بالکل ہی راہ حق سے دور کردیں  ۔

ان میں شہوت کو پورا کرنے کا شوق اور نفس امارہ اور شیطان کی طرف تحرک کا اشتیاق ایجاد ہوجاتا ہے ۔ جنہیں انجام دینے سے وہ بدترین و زشت ترین گناہ میں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔

جس طرح شہوت کو پورا کرنے کا اشتیاق انسان کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اسی طرح اپنے عالی اہداف تک پہنچنے کا ذوق و شوق انسان کوا علیٰ علمی و معنوی مراتب پر فائز کر تاہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ سورہ نساء آیت: 7 2

۷۱

پس اگر آپ اعلیٰ اہداف کے حصول کی طرف مائل ہیں اور آپ آ سانی سے انہیں حاصل کر نا چاہتے ہیں تو اپنے میں شدید ذوق و شوق ایجاد کریں پہر سختیاں آسانی ، دشواریاں سہل اور ہدف سے دوری نزدیکی میں تبدیل ہو جائے گی ذوق و شوق سے ہر قسم کے مانع و دشواری کو بر طرف کر سکتے ہیں پہر آپ کا ارادہ ہدف تک پہنچنے کے لئے قوی ہو جائے گا کسی موضوع کے بارے میں ذوق و شوق ، بہت سے دیگر مسائل کو بہی بر طرف کر دیتا ہے لہذا آ پ شوق کی بنیاد پر  مختلف و پرا کندہ مسائل سے نجات پا کر عظیم ہدف تک پہنچنے کے لئے فعالیت کریں بہترین ہدف کا انتخاب کریں اور اس کے حصول کے لئے اپنے میں ذوق و شوق ایجاد کریں ۔

امام صادق(ع) سے منسوب ایک روایت میں ذکر ہواہے :

'' مثل المشتاق مثل الغریق ، لیس له همّة الاَّ خلاصه وقد نسی کلّ شیئیٍ دونه ''(1)

مشتاق شخص کی مثال کسی ڈوبنے والے شخص کی مانند ہے کہ جو اپنی نجات کے علاوہ کچہ اور نہیں سوچتا اور اس کے علاوہ ہر چیز کو فراموش کر دیتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ بحا ر الا نوار:ج 70  ص4 2

۷۲

2 ۔ امید و آرزو سے ہمت میں اضافہ ہو تا ہے

انسان کی جتنی زیادہ امید ہو ، اتنی ہی ہمت بیشتر ہو جاتی ہے جس انسان میں امید ہو ، اس میں شوق بہی بڑہ جا تا ہے لہذا جو نو جوان اپنے روشن مستقبل کی امید رکہتے ہیں ، ان کی آرزو معنویت اور روحانیت سے سرشار ہے انہیں بہتر مستقبل و مقام کی آرزو ہو تی ہے لہذا وہ زیادہ محنت اور کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن جن لوگوں کو نہ کوئی شوق ہو اور نہ امید وہ اپنے مستقبل کے بارے میں مأیوس وناامید ہو تے ہیں اسی مایوسی کے عالم میں وہ اچہے مستقبل کی تلاش و کوشش کو چہوڑ دیتے ہیں حا لا نکہ ہرروشن فکر انسان کا اولین و ظیفہ جستجو اور کوشش کرنا ہے اور ہر شیعہ اس امر سے آگاہ ہے مایوس و ناامید غم واندوہ کے عالم میں صرف شب و روز گزار رہا ہو تا ہے ، اس کے غموں میں مزید اضافہ ہو تا چلا جا تا ہے ۔  لیکن وہ ان سے نجات کی نہ  تو کوشش کر تا ہے اور نہ ہی ما یوسی کے عالم میں اسے امید کی  کوئی  کرن دکہائی دیتی ہے وہ نہ تو اپنی مشکلات کی گرہوں کو کہول سکتے ہیں اور نہ دوسروں کی ۔

جی ہاں ، یہ ان افراد کی زندگی گا نتیجہ ہے کہ جو خدا کی رحمت سے نا امید اور اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی حیات بخش عنایات سے مایوس ہو جاتے ہیں ۔

۷۳

3 ۔ خدا سے پختہ ارادہ و بلند ہمت کی دعا کریں  :

خاندان وحی و رسالت علیہم السلام  سے منقول دعا ئیں اور مناجات و توسلات انسان کی تربیت کی بہترین روش اور زندگی کا بہترین شیوہ ہیں عظیم اہداف ، بلند حوصلہ و ہمت اور پختہ و راسخ ترین ارادہ اہل بیت علیہم السلام کے انسان ساز مکتب سے سیکہیں ۔

ان مقدس ہستیوں نے  ہمیں نہ صرف اپنے اقوا ل و فرامین بلکہ دعاؤں اور مناجات میں بہی زندگی کا بہترین درس سکہا یا ۔ امام سجاد(ع) اپنی مناجات میں خدا کی در گاہ میں عرض کرتے ہیں :

'' اسألک من الهمم اعلا ها ''(1)

پرور دگار میں تجہ سے عالی ترین ہمت کا طالب ہوں ۔

امام سجاد (ع) اپنی مناجات کے اس جملہ سے اپنے تمام پیرو کاروں کے دلوں میں امید کی شمع روشن فرماتے ہیں اور بے ہمت انسانوں کو دعا و درخواست کے ذریعہ بلند ہمت کی امید دلا تے ہیں ۔

یہ گفتار تمام لوگوں کو بیدار کرتی ہے سب یہ جان لیں کہ عالی ہمت افراد کے کسی خاص گروہ سے مختص نہیں ہے بلکہ مکتب تشیع کے تمام پیروکار خدا وند متعال سے بلند ہمت کی دعا کریں اور اس کے حصول کی کوشش کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ بحار الانوار:ج 94ص  55 1

۷۴

نتیجہ ٔبحث

پختہ ارادہ اور بلند ہمت خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ہے ان کے ذریعہ آپ معنویت کے آسمان کی اوج پر پرواز کر سکتے ہیں خود میں یہ قدرت ایجاد کرو اور ضعف ، کاہلی و سستی سے پر ہیز کرو تاکہ آپ کی شرافت و عظمت میں اضافہ ہو قوةارادہ کا کمزور ہونا آپ کے توقف و ٹہہراؤ کا باعث ہے ، قوہ ارادة کو تقویت دینے سے آپ کامیابی کے نزدیک ہو سکتے ہیں امام صادق کے فرمان کی رو سے آپ مصمم ارادہ کے ذریعہ اپنے اندر پائی جانے والی بری عادات اور نا پسند ید ہ اخلاق کو ختم کر کے اچہے اور پسند یدہ اخلاق و عادات کو حاصل کر سکتے ہیں ہدف تک نہ پہنچنے میں نا کامی سے آپ کا ارادہ کمزور نہیں ہونا چاہئے  بلکہ ناکامی سے عبرت کا درس لیں اور اپنی قوہ ارادہ کو مزید مضبوط بنائیں ۔

پختہ ارادے اور مردانہ ہمت سے آپ صرف اعلیٰ انسانی مقامات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ملائکہ کے در جات بہی حا صل کر سکتے ہیں بلکہ اس سے بڑہ کر وہ مقام و مرتبہ بہی حاصل کر سکتے ہیں کہ جب ملائکہ آپ کی خدمت کر کے فخر و مباہات محسو س کریں پس فرصت سے استفادہ کریں اور پختہ ارادے کے ذریعہ اپنی خلقت کے ہدف و مقصد کو حا صل کرنے کی کوشش کریں ۔

بہ زندگانی اگر عزم آہنین داری          بہ زیر  پا شودت کوہ چون زمین ہموار

اگر آپ زندگی میں پختہ عز م و ارادہ رکہتے ہوں توآپ کے پاؤں تلے پہاڑ بہی ہموار زمین کی مانند ہو جائے گا ۔

۷۵

پانچواں باب

نظم  و  ضبط

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' اوصیکما و جمیع ولدی و اهلی و من بلغه کتابی بتقوی اللّه ونظم امرکم ''

تمہیں وصیت کر تا ہوں کہ  تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اپنے امور میں نظم و ضبط کی رعایت کرو ۔

    نظم وضبط کی اہمیت

    نظم و ضبط آشفتگی کو ختم کر تا ہے

    نو جوانوں کی صحیح نظم و ضبط میں مدد کریں

    نظم و ضبط : وقت سے استفادہ کرنے کا بہترین طریقہ

    مرحوم شیخ انصاری کا منظم پروگرام

    نتیجۂ بحث

۷۶

نظم  وضبط  کی  اہمیت

نظم و ضبط اہداف تک پہنچنے کے لئے ایک بہترین وسیلہ ہے اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے آپ منظم پروگرام تشکیل دے کر اپنی زندگی کے لمحات کو خوشگوار اور پر ثمر بنا سکتے ہیں۔ کو شش اور مصمم ارادے سے ایک صحیح اور منظمپروگرام تشکیل دے کر اس پر عمل کریں ، صحیحمنشور پر عمل انسان کو منظم ، متعہد اور انجام دیئے جا نے والی چیز کا معتقد بنا تا ہے کو شش کریں کہ زندگی کا ہر کام آپ کے منظم پروگرام کے مطابق ہوتا کہ اپنی زندگی کے لمحات سے بہتر طور پر استفادہ کر سکیں اور زندگی میں سر خرو ہوں۔ یہ وہ راستہ ہے کہ تاریخ کے عظیم ترین افراد نے جس کی پیروری کی اور اس کے پابند رہے آپ بہی ان کے راستے کو منتخب کریں اور کسی بہی لمحے خدا پسند ، منظم اور صحیح آئین کی تشکیل اور اس پر عمل پیرا ہو نے میں غفلت نہ کریں جس حد تک ممکن ہو ، کوشش کریں کہ آ پ کا آئین و منشور اور پروگرام خاندان وحی و عصمت  علیہم السلام کے حیات بخش مکتب کی ترویج کا باعث ہو س صورت میں آپ اپنے سر پر ان ہستیوں کاکریمانہ شفیقانہ ہاتہ محسوس کریں گے ۔

حضرت امیر المومنین (ع)  نے اپنے زندگی کے آخری لمحات میں اپنے تمام فرزندوں ، اہل خانہ اور ہر اس شخص کو یہ وصیت فرمائی ، کہ جو ان کی اس وصیت سے مطلع ہو جائے ، انہوں نے فرمایا کہ کاموں میں نظم و ضبط کی رعایت کریں اور منظم پروگرام بنا کر اپنی زندگی کو کامیاب بنائیں ۔ '' قال امیر المو منین : عند وفاته للحسن و الحسین علیهما السلام ، اوصیکما و جمیع ولدی و اهلی و من بلغه کتابی بتقوی اللّٰه ونظم امرکم ''(1)

حضرت امیر المومنین نے اپنی وفات کے وقت امام حسن اور حسین  سے فرمایا کہ : آپ ، میرے تمام فرزندوں اور اہل و عیال اور ہر اس شخص کو کہ جس تک میرا یہ فرمان پہنچے یہ وصیت کر تا ہوں کہ تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اپنے امور میں نظم و ضبط  رکہو    ۔یہ کا ئنات کے پہلے امام امیر المو منین علی  کا پیغام ہے کہ جس سے نظم و ضبط کی اہمیت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ نہج البلاغہ ، مکتو ب  7: 4 ، بحا ر الا نوار:ج 75ص  4 2

۷۷

نظم و ضبط  آشفتگی کو ختم کر تا ہے

جب آپ اپنی زندگی کے امور اور کاموں میں نظم و ضبط رکہتے ہوں اور پختہ ارادے سے اس پر عمل کریں تو آپ بہت سے باطنی تضاد اور بے حاصلسو چ  و فکر سے نجات پاجائیں گے ۔

نظم و ضبط عدم تضاد اور افراد کی آراء و افکار میں اختلاف کی بہترین دلیل ہے ۔ حکومتوں یا اداروں کے منشور میں اختلاف حکومتی یا اداری نظام میں نظم و ضبط کے نہ ہونے کی واضح دلیل ہے جہاں بڑے یا چہوٹے اجتماع میں اختلاف ہو وہاں نظم وضبط نہیں ہو تا ہر جگہ نظم ہونا چاہئے کیو نکہ یہ اس جگہ پر قدرت تدبیر کے موجود ہونے کا پتہ دیتا ہے کائنات کے نظام میں موجود نظم ، اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کا نظام ایک منظم تدبیر کے تحت چل رہا ہے ۔ اگر آپ نظام کائنات میں دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ جس طرح کائنات کے چہوٹے چہوٹے ذرات میں نظم ہے ۔اسی طرح کہکشانوں میں نظم ہے انیسو یں صدی کے وسط میں انسان کو ذرات کے بارے میں تحقیقات سے کچہ معلومات حاصل ہوئی کہ ذ رات کے اندر بہی ایک نظم و قا نون کا رفرما ہے کہ جس میں تعطل نہیں ہو تا ، ایٹم میں مو جود الیکٹرون ہر سکینڈ میں تین کاٹر یلیون مرتبہ ایٹم کے گرد گردش کر تا ہے کہ کوئی چیزبہی اس گردش کو نہیں روک سکتی ۔

لوہے کے ایک ذرّے میں موجود الیکٹرون بہی ہر سکینڈ میں تین کاٹریلیون مرتبہ اپنے مر کزکے گرد گردش کر تا ہے ۔

۷۸

جب لوہے کو اس قدر حرارت دیں کہ وہ گیس میں تبدیل ہو جائے تو پہر بہی الیکٹرون تین کاٹریلیون(۳۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰) مرتبہ ایٹم کے گرد گردش کرے گا ۔

فقط ایک صورت میں ممکن ہے کہ اس دائمی حرکت کو مختل کیا جا سکتا ہے کہ جب ایٹم کو توڑ دیا جائے اس صورت میں الیکٹرون اپنے مرکز سے دور ہو جائے گا ۔ لیکن یہ نہیں کہ وہ حرکت نہیں کر ے گا بلکہ اس صورت میں وہ ایک جدید مرکز و مدار کے گرد گردش شروع کرے گا ۔

جس قانون و نظام کے تحت الیکٹرون ، ایٹم کے گرد اتنی تیزی سے حرکت کر تاہے اسی طرح زمین ، سورج کے گرد اور سورج تمام ستاروں کے گرد اور یہ سب کہشاں اور کہشاں کسی دیگر چیز کے گرد گردش کر  تے ہیں کہ جس سے ہم آگاہ نہیں ہیں لیکن اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں کہ وہ بہی گردش کرتے ہیں ۔

کائنات کا یہ عجیب نظم اس بات کی دلیل ہے کہ امر خلقت میں کسی قسم کی آشفتگی نہیں ہے کیو نکہ اگر اس میں تضاد و آ شفتگی ہو تی تو کائنات کا نظم درہم برہم ہو جاتا ہے ۔

امام صادق (ع) مفضل سے فرماتے ہیں :

'' والتضاد لا یأتی بالنّظام '' (1)

تضاد سے نظم و جود میں نہیں آتا  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحا را لا نوار:ج 3 ص  3 6

۷۹

جس طرح خلقت کائنات میں نظم اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کی تدبیر میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اسی طرح چہوٹے ، بڑے اجتماعات میں نظم ، ان میں عدم اختلاف کی دلیل ہے پس نہ صرف خلقت کے مسئلہ میں بلکہ جس مورد میں  بہی نظم کی ضرورت ہو وہاں کسی صاحب تدبیر شخص کی بہی ضرورت ہو تی ہے ، پس تضاد و اختلاف اس امر کی دلیل ہے کہ وہاں کوئی تدبّر کے ذریعہ نظم قائم کرنے والا نہیں ہے ۔

اس بناء پر اختلاف و تضاد کو رفع کر نے کے لئے عملی پروگراموں  میں نظم بر قرار رکہیں اور فردی واجتماعی زندگی سے اختلافات کاقلع قمع کریں ۔

صرف اجتماعی و خانوادگی پروگراموں  میں ہی  نظم و ضبط افکار میں عدم تضاد کی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ شخصی پروگراموں  میں بہی نظم وضبط کے وجود پر دلالت کر تا ہے کہ انسان کی زندگی میں تضاد و آشفتگی نہیں ہے اور یہ ایک منظم آئین کی پیرو ی کر رہا ہے ۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ انسان کی زندگی تضاد سیبہری پڑی ہے ۔ مختلف نفسانی افکار خواہشات اور عقلی  دستورات انسان میں تضاد ایجاد کر تے ہیں بہت سے موارد میں افکار میں آشفتگی اور مشوش ہونا انہی تضاد کی وجہ سے ہے ایسے تضاد کبہی باعث بنتے ہیں کہ انسان کام کو چہوڑ دے اور اپنی زندگی حوادث کے سپرد کر دے ۔

نظم و برنامہ ایسے تضاد و اضطرا بات کو ختم کر تا ہے اور افکار و تخیلات کی تشویش کو ایک صحیح منشور  کی راہ دکہاتا ہے وقت گزرنے کے ساتہ مضطرب فکر کو ایک صحیحآئین و منشور کا سایہ فراہم ہو جا تا ہے ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

كہہ رہى تھيں كہ : عثمان بے گناہ مارا گيا ميں اس كے خون كا بدلہ لينے كے لئے سركشى كروں گى _ عبيد نے ان سے كہا كہ ان كے خون كا مطالبہ تم كيسے كرسكتى ہو كيونكہ وہ تم ہى تو ہو جس نے سب سے پہلے عثمان كے قتل كيئے جانے كى تجويز پيش كى اور تم ہى تو كہا كرتى تھيں كہ ''نعثل'' كو قتل كردو كيونكہ وہ كافر ہوگيا ہے اور آج تم ہى انہيں مظلوم و بے گناہ كہہ رہى ہو_

عائشہ نے كہا كہ ہاں عثمان ايسا ہى تھا ليكن اس نے توبہ كرلى تھى اور لوگوں نے ان كى توبہ كى طرف سے بے اعتنائي كى اور انہيں قتل كرديا اس كے علاوہ ميں نے كل جو كچھ كہا تھا تمہيں اس سے كيا سروكار؟ ميں آج جو كہہ رہى ہوں تم اسے مانو كيونكہ ميرى آج كى بات كل سے بہتر ہے_(۱۱)

مكہ پہنچنے كے بعد عائشہ مسجد الحرام كے سامنے محمل سے اتريں اور پورى سترپوشى كے ساتھ وہ حجر الاسود كے جانب روانہ ہوئيں ، لوگ ان كے چاروں طرف جمع ہوگئے ، عائشہ نے ان كے سامنے تقرير كى اور كہا كہ عثمان كا خون ناحق ہوا ہے ، انہوں نے اہل مدينہ اور دوسرے لوگوں كے جذبات كو ان كے خلاف جنہوں نے عثمان كے قتل ميں حصہ ليا تھا برافروختہ كيا اور حاضرين سے كہا كہ وہ عثمان كے خون كا بدلہ ليں اور قاتلوں كے خلاف شورش كرنے كى دعوت دى _(۱۲)

مكہ ميں مخالفين كا جمع ہونا

مكہ ميں عائشہ نے جيسے ہى حضرت عليعليه‌السلام كے خلاف پرچم لہرا ديا آپ كے مخالفين ہر طرف سے ان سے گرد جمع ہوگئے _

طلحہ و زبير بھى حضرت عليعليه‌السلام سے عہد شكنى كركے ان كے ہمنوا ہوگئے دوسرى طرف بنى اميہ حضرت علىعليه‌السلام كے ايك زمانے سے دشمن چلے آرہے تھے اور كسى مناسب موقع كى تلاش ميں تھے اور عثمان كے قتل كے بعد وہ مدينہ سے فرار كرے چونكہ مكہ پہنچ گئے تھے اس لئے وہ بھى عائشہ كے زير پرچم آگئے _ اس طرح عثمان كے زمانے كے وہ تمام والى و صوبہ دارجنہيں حضرت علىعليه‌السلام نے معزول

۱۲۱

كرديا تھا وہ سب عائشہ كے ساتھ ہوگئے مختصر يہ كہ وہ تمام مخالف گروہ جنہيں حضرت علىعليه‌السلام سے پرخاش تھى مكہ ميں جمع ہوگئے اور اس طرح ناكثين كى تحريك كا اصل بيج يہاں بويا گيا ، مخالف گروہوں كے سردار عائشہ كے گھر ميں جلسات كى تشكيل كركے شورش و سركشى كى طرح اندازى پر بحث وگفتگو كرتے_

عائشہ نے كہا كہ : اے لوگو يہ عظےم حادثہ ہے جو رونما ہوا ہے اور جو واقعہ رونما ہوا ہے وہ قطعى ناپسنديدہ ہے ، اٹھو اور اپنے مصرى بھائيو سے مدد طلب كرو شام كے لوگ بھى تمہارا ساتھ ديں گے ، شايد اس طرح خداوند تعالى عثمان اور ديگر مسلمانوں كا بدلہ دشمنوں سے لے_

طلحہ وزبير نے بھى اپنى تقارير كے دوران عائشہ كى حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف جنگ كرنے ميں حوصلہ افزائي كى اور كہا كہ وہ مدينہ سے رخصت ہو كر ان كے ساتھ چليں _

جب انہوں نے عائشہ كے جنگ ميں شريك ہونے كى رضامندى حاصل كرلى اور عائشہ نے بھى اس تحريك كى قيادت سنبھال لى تو يہ گروہ عمر كى دختر اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زوجہ حفصہ كى جانب گئے ، انہوں نے كہا كہ مجھے عائشہ سے اتفاق رائے ہے اور ميں ان كى تابع ہوں اگر چہ انہوں نے يہ فيصلہ كرليا تھا كہ عائشہ كے ہمراہ چليں مگر ان كے بھائي عبداللہ اس روانگى ميں مانع ہوئے_(۱۳)

سپاہ كے اخراجات

عثمان نے جو رقم اپنے رشتہ داروں ميں تقسيم كردى تھى اور وہ كثير دولت جو ان كے پردازوں كے ہاتھ آئي تھى وہ سب اسى مقصد كے لئے استعمال كى گئي چنانچہ بصرہ كے معزول گورنر عبداللہ بن عامر اور عثمان كے ماموں زاد بھائي نے سب سے پہلے عائشہ كى دعوت كو قبول كيا اور اپنا بہت سا مال انہيں دے ديا _ عثمان كا معزول كردہ يمن كا گورنر يعلى بن اميہ نے بھى اپنى كثير دولت جس ميں چھ ہزار درہم اور چھ سو اونٹ شامل تھے اس فتنہ پرور لشكر كے حوالے كرديئے _(۱۴) اور اس لشكر ناكثين كے اخراجات فراہم كئے_

۱۲۲

عراق كى جانب روانگي

''ناكثين'' كى سعى و كوشش سے مسلح لشكر فراہم ہوگيا، سرداران سپاہ نے اس بات پر غور كرنے كے لئے كہ جنگى كاروائي كہاں سے شروع كى جائے آپس ميں مشورہ كيا اور انہوں نے يہ فيصلہ كيا كہ عراق كى جانب روانہ ہوں اور كوفہ وبصرہ جيسے دو عظےم شہروں كے باشندوں سے مدد ليں كيونكہ طلحہ اور زبير كے بہت سے خير خواہ وہاں موجود تھے اور اس كے بعد وہاں سے اسلامى حكومت كے مركز پر حملہ كريں _

اس فيصلہ كے بعد عائشہ كے منادى نے مكہ ميں جگہ جگہ اعلان كيا كہ ام المومنين اور طلحہ اور زبير كا ارادہ بصرہ جانے كا ہے جس كسى كو اسلامى حريت كا پاس ہے اور عثمان كے خون كا بدلہ لينا چاہتا ہے وہ ان كے ساتھ شريك ہوجائے_

جب ہزار آدمى ضرورى سامان جنگ كے ساتھ جمع ہوگئے تو انہوں نے مكہ سے عراق كى جانب كوچ كيا راستے ميں ان كے ساتھ بہت سے لوگ شامل ہونے لگے يہاں تك كہ ان كى تعداد تين ہزار تك پہنچ گئي _(۱۵)

عائشہ اپنے مخصوص ''عسكر'' نامى شتر پرلشكر كے سپاہ كے پيش پيش تھى اور اُميہ ان كے اطراف ميں چل رہے تھے اور سب كا ارادہ بصرہ پہنچنا تھا_

راہ ميں جو حادثات رونما ہوئے ان ميں سے ہم يہاں ايك كے بيان پر ہى اكتفا كرتے ہيں _

راستے ميں انہيں جہاں پہلى جگہ پانى نظر آيا وہاں ان پر كتوں نے بھونكنا اوريھبكنا شروع كرديا ، عائشہ نے دريافت كيا كہ يہ كونسى جگہ ہے انہيں بتايا گيا كہ يہ ''حَوا ب''ہے _ يہ سن كر عائشہ كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وہ حديث ياد آگئي جس ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ پيشن گوئي كى تھى كہ حواب كے كتے ازواج مطہرات ميں سے ايك پر غرائيں گے اور انہيں اس سفر سے باز رہنے كے لئے فرمايا تھا(۱۶) _ عائشہ اس حادثے سے پريشان ہوگئيں اور فرمايا :''انالله و انا اليه راجعون''

۱۲۳

ميں وہى زوجہ ہوں جنہيں پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كے مستقبل كے بارے ميں آگاہ كرديا تھااور فوراً ہى واپس چلے جانے كا فيصلہ كيا _ ليكن طلحہ وزبير نے جب يہ ديكھا كہ عائشہ جنگ كے خيال كو ترك كيا چاہتى ہيں تو انہيں اپنى آرزوئيں خاك ميں ملتى ہوئي نظر آئيں چنانچہ انہوں نے يہ كوشش شروع كردى كہ عائشہ اپنے فيصلے سے باز رہيں بالآخر جب پچاس آدميوں نے يہ جعلى گواہى دى كہ يہ جگہ ''حَوا ب'' نہيں تو وہ مطمئن ہوگئيں _(۱۷)

ناكثين كى سپاہ بصرہ كے قريب آكر رك گئي ، عائشہ نے عبداللہ بن عامر كو بصرہ روانہ كيا اور بصرہ كے كچھ بڑے افراد كے نام خط لكھا اور ان كے جواب كا انتظار كرنے لگي_

سپاہ كى جانب عثمان بن حنيف كے نمايندوں كى روانگي

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے بصرہ ميں مقرر صوبہ دار عثمان بن حنيف كو جب يہ اطلاع ہوئي كہ عائشہ كا لشكرشہر ''ابوالاسود دوئلي'' كے گرد نواح ميں پہنچ گيا ہے تو انہوں نے ''عمران بن حصين'' كو سردار لشكر كے پاس بھيجاتاكہ وہ يہ جان سكيں كہ بصرہ كى جانب آنے كا كيا سبب و محرك ہے _ انہوں نے سب سے پہلے عائشہ سے ملاقات كى اور ان سے دريافت كيا كہ بصرہ كى جانب آپ كے آنے كا كيا مقصد ہے؟ انہوں نے فرمايا كہ عثمان كے خون كا بدلہ اور ان كے قاتلوں سے انتقام لينا_

طلحہ اور زبير سے بھى انہوں نے يہى سوال كيا انہوں نے بھى عائشہ كى بات دہرادى ، عثمان بن حنيف نے طلحہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ كيا تم نے حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت نہيں كي؟ انہوں نے كہاں ہاں مگر ميرى بيعت دباؤ كى وجہ سے تھى _(۱۸)

عثمان بن حنيف كے نمايندگان نے تمام واقعات كى انہيں اطلاع دى عائشہ بھى اپنے لشكر كے ہمراہ ''حفر ابوموسي'' نامى جگہ سے روانہ ہوكر بصرہ ميں داخل ہوگئيں اور ''مربد'' كو جو كبھى بہت وسيع و كشادہ ميدان تھا ''لشكر گاہ'' قرار ديا _

۱۲۴

عثمان بن حنيف نے اپنے نمايندگان سے گفتگو كرنے كے بعد فيصلہ كيا كہ جب تك اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام كى جانب سے كوئي حكم نامہ نہيں ملتا وہ سپاہ كو قلب شہر ميں آنے سے روكيں _چنانچہ انہوں نے حكم ديا كہ لوگ مسلح ہوجائيں اور جامع مسجد ميں جمع ہوں _

جب لوگ مسجد ميں جمع ہوگئے تو قيس نامى شخص نے صوبہ دار بصرہ كى جانب سے ان كے سامنے تقرير كى اور كہا كہ وہ عائشہ كے لشكر كا استقامت و پائيدارى سے مقابلہ كريں _(۲۰)

ابن قتيبہ كے قبول كے مطابق خود عثمان بن حنيف اور ان كے ساتھيوں نے بھى اس موقع پر تقريريں كى اور اسى دوران كہا ان دو اشخاص (طلحہ اور زبير) نے بھى حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كى تھى مگر يہ بيعت رضائے خداوندى كى خاطر نہ تھى اسى لئے انہوں نے عجلت كى اور چاہا كہ اس سے پہلے كہ بچہ اپنى ماں كا دودھ چھوڑ دے وہ بڑا اور جوان ہوجائے ان كا خيال ہے كہ انہوں نے دباؤ كى وجہ سے بيعت كى ہے درحاليكہ ان كا شمار قريش كے زورمند لوگوں ميں ہوتا ہے اگر چاہتے تو بيعت كرتے صحيح طريق وہى ہے جو عام لوگوں نے طے كيا ہے اور حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كى اب آپ لوگ بتائيں كيا رائے ہے ؟

يہ سن كر حكيم بن جبلہ عبدى اپنى جگہ سے اٹھے اور كہا كہ ہمارى رائے يہ ہے كہ اگر انہوں نے ہم پر حملہ كيا تو ہم بھى جنگ كريں گے اور اگر وہ حملہ كرنے سے باز رہے تو ہم اس كا استقبال كريں گے ، اگرچہ مجھے اپنى زندگى بہت عزيز ہے مگرراہ حق ميں جان دينے كا مجھے ذرا خوف نہيں _ دوسرے لوگوں نے بھى اس رائے كو پسند كيا _(۲۱)

پہلا تصادم

جب عائشہ كا لشكر ''مربد'' ميں داخل ہوگيا تو بصرہ كے بعض وہ لوگ جو ان كے طرفدار تھے ان كى سپاہ مےں شامل ہوگئے ان كے علاوہ بصرہ كے باشندے اور عثمان كے حامى بھى كثير تعداد ميں ان كے گرد جمع ہوگئے_

۱۲۵

سرداران لشكر كى تقارير اور عثمان كى تحريك ''بدلہ خون'' كے باعث عثمان كے حامى و طرفدار دو گروہوں ميں تقسيم ہوگئے ايك گروہ نے عائشہ ،طلحہ اور زبير كے بيانات كى تائيد كى اور انہوں نے كہا كہ آپ يہاں عمدہ مقصد كے لئے تشريف لائے ہيں _

ليكن دوسرے گروہ نے ان پر دروغگوئي كا الزام لگايا اور كہا كہ خدا كى قسم تم جو كچھ كہہ رہے ہو وہ سراسر فريب ہے اور جو كچھ تم اپنى زبان سے بيان كررہے ہو وہ ہمارے فہم سے باہر ہے_

اس باہمى اختلاف كا نتيجہ يہ ہوا كہ انہوں نے ايك دوسرے پر خاك اچھالنى شروع كردى اور حالات كشيدہ ہوگئے_(۲۲)

سرداران لشكر مروان ، عبداللہ بن زبير اور چند ديگر افراد كے ساتھ صوبہ دار بصرہ كى جانب روانہ ہوئے اور انہوں نے عثمان بن حنيف سے درخواست كى كہ وہ اس جگہ سے چلے جائيں _ ليكن انہوں نے ان كى اس درخواست كى پروا نہ كى _

عثمان بن حنيف كے لشكر اور جارحين كے درميان شديد تصادم ہوا جو غروب آفتاب تك جارى رہا _ مدافعين كے قتل اور جانبين ميں سے بہت سے لوگوں كے زخمى ہوجانے كے بعد بعض لوگوں كى مداخلت كے باعث يہ جنگ بند ہوئي اور طرفين كے درميان عارضى صلح كا عہد نامہ لكھا گيا اس عہد نامہ صلح كى شرايط يہ تھيں كہ :

۱_ بصرہ كى صوبہ دارى و مسجد اور بيت المال حسب سابق عثمان بن حنيف كے اختيار ميں رہے گا_

۲_ طلحہ اور زبير نيز ان كے آدميوں كو يہ آزادى ہے كہ وہ بصرہ ميں جہاں بھى چاہيں آجاسكتے ہيں _

۳_ طرفين ميں سے كس كو بھى يہ حق حاصل نہيں كہ وہ دوسرے كے لئے كوئي پريشانى پيدا كرے_

۴_ يہ عہد نامہ اس وقت تك معتبر ہے جب تك حضرت علىعليه‌السلام يہاں تشريف لے آئيں اس

۱۲۶

كے بعد لوگوں كو صلح يا جنگ كا اختيار ہوگا_

جب عہدنامے پر دستخط ہوگئے اور طرفين كے درميان صلح ہوگئي تو عثمان بن حنيف نے اپنے طرفداروں كو حكم ديا كہ وہ اپنا اسلحہ ايك طرف ركھ ديں اور اپنے گھروں كو واپس جائيں _( ۲۳)

دھوكہ وعہد شكني

لشكروں كے سرداروں نے بصرہ ميں قدم جمانے كے بعد يہاں كے قبائل كے سربرآوردہ اشخاص سے ملاقاتيں كرنا شروع كيں اور سبز باغ دكھا كر انہيں بہت سى چيزوں كا لالچ ديا جس كے باعث بہت سے دنيا اور جاہ طلب لوگوں نے ان كى دعوت كو قبول كرليا _

طلحہ اور زبير نے جب اپنا كام مستحكم كرليا تو وہ اپنے عہد كى پاسدارى سے رو گرداں ہوگئے_ چنانچہ صوبہ دار كے گھر پر شبخون ماركر عثمان بن حنيف كو گرفتار كرليا اور انہےں سخت ايذا پہنچائي ، پہلے تو انہيں سخت زدو كوب كيا اور پھر سر، داڑھى اور دونوں ابروں كے بال نوچے اس كے بعد بيت المال پر حملہ كيا وہاں كے چاليس پاسبانوں كو قتل كركے باقى كو منتشر كرديا اور خزانے ميں جو كچھ مال ومتاع موجود تھا اسے لوٹ ليا_

اس طرح شہر پر جارحين سپاہ كا قبضہ ہوگيا اور جو اہم و حساس مراكز تھے وہ ان كے تحت تصرف گئے _ جارحين نے مزيد رعب جمانے كے لئے ان لوگوں ميں سے پچاس افراد كو جنہيں انہوں نے گرفتار كيا تھا عوام كے سامنے انتہائي بے رحمى كے ساتھ وحشيانہ طور پر قتل كرديا_(۲۴)

عائشہ نے حكم ديا كہ عثمان بن حنيف كا بھى خاتمہ كردياجائے مگر ايك نيك دل خاتوں مانع ہوئيں اور انہوں نے كہا كہ عثمان بن حنيف اصحاب پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں سے ہيں _ رسول خدا كے احترام كا پاس كيجئے اس پر عائشہ نے حكم ديا كہ انہيں قيد كرليا جائے_(۲۵)

جمل اصغر

حكيم بن جبلہ كا شمار بصرہ كے سر برآوردہ اشخاص ميں ہوتا تھا انہيں جس وقت عثمان بن حنيف

۱۲۷

كى گرفتارى كے واقعے كا علم ہوا تو انہوں نے اپنے طائفہ ''عبدالقيس '' كے جنگجو جوانوں كو مسجد ميں بلايا اور پر ہيجان تقرير كے بعد تين آور بعض اقوال كے مطابق سات سو افراد كو لے كر حملہ كا اعلان كرديا اور جارحين سپاہ كے مقابل آگئے_

اس جنگ ميں جسے جنگ جمل اصغر سے تعبير كيا گيا ہے حكيم بن جبلہ اور انكے ساتھيوں نے سخت پائمردى سے دشمن كا مقابلہ كيا يہاں تك جس وقت بازار كارزار پورے طور پر گرم تھاجارحين لشكر كے ايك سپاہى نے حكيم بن جبلہ پر حملہ كركے ان كا ايك پير قطع كرديا انہوں نے اسى حالت ميں اس سپاہى پر وار كيا اور اسے مار گرايا وہ اسى طرح ايك پير سے دشمن سے نبرد آزما ہوتے رہے حملہ كرتے وقت يہ رزميہ اشعار ان كى زبان پر جارى تھے_

يا ساق لن تراعى

ان معى ذراعى

احمى بها كر اعي

اے پير تو غم مت كر كيونكہ ابھى ميرے ہاتھ ميرے ساتھ ہيں اور ان سے ہى ميں اپنا دفاع كروں گا_

وہ اسى حالت ميں مسلسل جنگ كرتے رہے يہاں تك كہ نقاہت وكمزورى ان پر غالب آگئي اور شہيد ہوگئے _ ان كے فرزند ، بھائي اور دوسرے ساتھى بھى اس جنگ ميں قتل ہوگئے_(۲۶)

حكيم بن جبلہ پر غلبہ پانے كے بعد جارحين لشكر كے سرداروں نے دوبارہ فيصلہ كيا كہ عثمان بن حنيف كو قتل كردياجائے مگر انہوں نے كہا كہ تمہيں معلوم ہے كہ ميرا بھائي ''سہل'' مدينہ كا صوبہ دار ہے اگر تم مجھے قتل كرو گے تو وہ تمہارے عزيز واقارب كو مدينہ ميں نيست ونابود كردے گا چنانچہ اس بنا پروہ ان كے قتل سے باز رہے اور انہيں آزاد كرديا_(۲۷)

سردارى پر اختلاف

''ناكثين'' كے لشكر سرداران كو جب ابتدائي جنگوں ميں فتح و كامرانى حاصل ہوئي اور انہوں نے شہر پر بھى قبضہ كرليا تو ان ميں يہ اختلاف پيدا ہوا كہ سربراہ كسے مقرر كياجائے ان ميں سے ہر

۱۲۸

شخص كى يہى كوشش تھى كہ فتح كے بعد اولين نماز جو مسجد ميں ادا كى جائے اس ميں وہى امام جماعت كے فرائض انجام دے يہ باہمى كشمكش اس قدر طولانى ہوئي كہ نزديك تھا كہ آفتاب طلوع ہوجائے چنانچہ لوگوں نے بلند آواز سے كہنا شروع كيا اے صحابہ پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''الصلوة الصلوة ''ليكن طلحہ و زبير نے اس كى جانب توجہ نہ كى ، عائشہ نے مداخلت كى اور حكم ديا كہ ايك روز طلحہ كے فرزند محمدا ور دوسرے روز زبير كے بيٹے عبداللہ امامت كريں گے _(۲۸)

خبر رساني

طلحہ اور زبير نے جب بصرہ پر قبضہ كرليا تو وہ كارنامے جو انہوں نے انجام ديئے تھے انكى خبر شام كے لوگوں كو بھيجى گئي _ عائشہ نے بھى ان خبروں كى تفاصيل اہل كوفہ كو لكھى اور ان سے كہا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت سے دستكش ہوجائيں اور عثمان كے خون كا بدلہ لينے كے ئے اٹھ كھڑے ہوں _ يمامہ اور مدينہ كے لوگوں كو بھى خط لكھے گئے اور انہيں فتح بصرہ كى اطلاع كے ساتھ يورش و شورش كا مشورہ ديا گيا _(۲۹)

۱۲۹

سوالات

۱_ جس وقت اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے زمام حكومت سنبھالى تو وہ كون سے گروہ تھے جو آپ كى مخالفت پر اتر آئے؟

۲_ وہ كون سے عوامل تھے جن كے باعث طلحہ اور زبير نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے بعد عہد شكنى كى اور مخالفين كى صف ميں شامل ہوگئے_

۳_ ناكثين كى تحريك كا اصل مركز كہاں واقع تھا اور اس كى كس طرح تشكيل ہوئي ؟

۴_ عثمان كے قتل سے قبل عائشہ كا كيا موقف تھاا ور انہوں نے اسے كيوں اختيار كيا تھا ؟

۵_ جب عثمان قتل ہوئے اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بر سر اقتدار آگئے تو عائشہ نے اپنا موقف كيوں تبديل كرديا تھا؟

۶_ جب عثمان بن حنيف كو يہ علم ہوا كہ ''ناكثين'' كا لشكر بصرہ كے نزديك پہنچ گيا ہے تو انہوں نے كيا اقدام كيا ؟

۷_ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے بصرہ پہنچنے سے قبل وہاں كيا كيفيت طارى تھى اس كا مختصر حال بيان كيجئے ؟

۱۳۰

حوالہ جات

۱_ نہج البلاغہ خطبہ سوم ملاحظہ ہو جس ميں آپعليه‌السلام فرماتے ہيں :''فلما نهضت بالامر نكثت طائفة ومرقت اخرى وقسط آخرون ''_ حضرت علىعليه‌السلام سے قبل پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى دشمنان اسلام كے بارے ميں پيشين گوئي كردى تھى _ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطاب كرتے ہوئے ان كے يہ نام بيان كئے تھے : ''يا على ستقاتل بعدى الناكثون والقاسطين والمارقين'' (شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۰۱)

۲_ ''طلقاء '' وہ لوگ تھے جو فتح مكہ كے دوران مسلمانوں كے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب كو آزاد كرديا تھا اور فرمايا تھا كہ''اذهبوا انتم الطلقائ''

۳_ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۰ _۱۷۹ _''انتما شريكاى فى القوة والاستقامة عوناى اى على العجز الا ود ''

۴_ شرح ابن ابى الحديد ج ۷/ ۴۲ _ ۴۰

۵_مالنا من هذالامر الاكحسة انف الكلب (تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۹)

۶_والله ما اراد العمرة ولكنهما اراد الغدرة (تاريخ يعقوبى ج ۲/۱۸۰)

۷_ عثمان كے خلاف عائشہ كے اقوال واقدامات كے لئے ملاحظہ ہو (الغدير ج ۹/۸۶ _۷۷)

۸_اَبعده الله بما قدمت يداه وما الله بظلام للعبيد'' _ الغدير ج ۹/ ۸۳

۹_ الغدير ج ۹/ ۸۲ ابومخنف ' لوط بن ےحيى الازدى سے منقول

۱۰_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۰۶ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۸ _ الغدير ج ۹ / ۸۲ / ۸۰ انساب الاشراف ج ۲/ ۲۱۷_

۱۱_ عبيد نے عائشہ كے جواب ميں يہ اشعار پڑھے:

فمنك البدء ومنك الضير

ومنك الرياح ومنك المطر

و انت امرت بقتل الامام

و قلت لنا انه قد كفر

فهبنا اطعناك فى قتله

و قاتله عندنا من امر

الامامة والسياسة ج ۱/ ۵۱_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۹_۴۵۸ يعنى ان اختلاف كا سرچشمہ اور تغيرات كا باعث تم ہى تو ہو تمہارى وجہ سے سخت طوفان اور فتنے بپا ہوئے تم نے ہى عثمان كے قتل كا حكم ديا اور كہا كہ وہ كافر ہوگيا

۱۳۱

ہے اب بالفرض ہم نے تمہارى اطاعت كى خاطر اس قتل ميں حصہ ليا اصل قاتل وہ ہے جس نے اس قتل كا حكم ديا _

۱۲_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۸ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۰۷ _ انساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۱۸

۱۳_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۲

۱۴_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۱ _ ابن اثير ج ۳/ ۲۰۸ _ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۱ ليكن طبرى كى تاريخ ج ۴/ ۴۵۰ و ۴۵۱ پر يعلى بن اميہ كے اونٹوں كى تعداد چھ ہزار چھ سو لكھى ہے _

كامل ابن اثير ۳/ ۲۰۸ تاريخ يعقوبى ۲/۱۸۱

۱۵_ تاريخ طبرى ۴/ ۴۵۲ _۴۵۱

۱۶_ اس حديث كے متن كو مختلف مورخےن نے بيان كيا ہے _ يعقوبى نے ج ۲/۱۸۱ پر نقل كيا ہے :''لا تكونى التى تنجحك كلاب الحواب'' (عائشہ تم ان ميں سے نہ ہونا جن پر حواب كے كتے بھونكيں ) ليكن ابن اثير تاريخ ج ۲/۲۱۰)كامل اور بلاذرى نے انساب الاشراف (ج ۲ / ۲۲۴)ميں اس طرح درج كيا ہے ''ليت شعرى ايتكن تبنہا كلاب الحواب '' اور ابن ابى الحديد نے ج ۱۰/ ۳۱۰ پر يہى حديث دوسرے الفاظ كے ساتھ پيش كى ہے_

۱۷_ مروج الذہب ج ۳/ ۳۵۷ _ انساب الاشراف ج ۲/ ۲۲۴ الامامة والسياسات ج ۱/۶۰ ليكن يعقوبى نے (ج ۲ /۱۸۱)شہادت دينے والوں كى تعداد چاليس لكھى ہے_

۱۸_ تاريخ طبرى ج ۴ ص ۴۶۱ كامل ابن ايثرج ۳/ ۲۱۱_

۱۹_ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۳۱۳ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۲ ، ۴۶۱ _ كامل ابن اثير ج ۳/۲۱۱ _الامامة والسياسة ج ۱/۶۱ يہ گفتگو اگرچہ بہت مفصل ہے مگر يہاں اس كا خلاصہ ديا گيا ہے_

۲۰ _ مربد شہر كے كنارہ پر ايك ميدان تھا جہاں منڈى لگتى تھي_

۲۱_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۲

۲۲_ الامامة والسياسةج ۱ / ۶۱_ ۶۰

۲۳_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۳ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۳ _ ۲۱۲

۱۳۲

۲۴_ الجمل للمفيد / ۱۵۱_ ۱۵۰ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۶ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۴ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۸ شرح ابن ابى الحديد ج ۹ /۳۲۰ الامامة والسياسة ۱/۶۵

۲۵_ مروج الذہب ج ۲ / ۳۵۸ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۳۲۱

۲۶_ تاريخ طبرى ج ۴ / ۲۶۸ كامل ابن اثير ۲۱۶ _ ۲۱۵

۲۷ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۶ _۲۱۷ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۱ _ ۴۷۰ الجمل للمفيد / ۲۵۲ _ ۱۵۱

۲۸_ الجمل للمفيد ۱۵۳ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۹ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۴ _ يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ عثمان حنيف كے اس قول كے علامہ مفيد نے بصرہ كى ايك خاتون سے نقل كيا ہے_

۲۹_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۸ _ الجمل للمفيد / ۱۵۲ _ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۱

۳۰_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۲۰ _۲۱۹ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۲_ عائشہ نے جو خط مدينہ اور يمامہ كے لوگوں كو لكھا تھا اس كا متن علامہ مفيد نے اپنى تاليف ''الجمل'' كے صفحہ ۱۶۰ پر درج كيا ہے_

۱۳۳

ساتواں سبق

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۳

حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ كى جانب روانگي

ربذہ ميں قيام

لشكر كا جاہ وجلال

صلح كى كوشش

لشكر كے لئے دستورالعمل

دشمن كو متفرق كرنے كى آخرى كوشش

فيصلہ كن جنگ

عام معافي

سوالات

حوالہ جات

۱۳۴

حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ كى جانب روانگي

اميرالمومنينعليه‌السلام كى حكومت كے مخالفوں كا وجود ميں آنا ان كے درميان اتحاد و الفت اور ان كے لشكر كا بصرہ كى جانب روانہ ہونا اور پھر اس پر قابض ہوجانے كوہم بيان كرچكے ہيں اب مدينہ چلتے ہيں تاكہ وہاں سے اميرالمومنينعليه‌السلام كے ساتھ بصرہ كى طرف روانہ ہوجائيں _

معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف سركارى سطح پر سركشى كى تھى اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے سے قطى انكار كرديا تھا اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام بھى ان سے نبرد آزما ہونے كے لئے ابتدائي تيارى ميں مشغول تھے ، اس ضمن ميں انہوں نے حضرت بن حنيف، قيس بعد سعد اور ابو موسى جيسے اپنے كارپردازوں كو خطوط كے ذريعہ مطلع كيا كہ معاويہ كے خلاف جنگ كرنے كى غرض سے لوگوں كو آمادہ كريں _

اس اثناء ميں حضرت علىعليه‌السلام كو عائشہ ، طلحہ اور زبير كى سركشى نيز ان كے لشكر كى عراق كى جانب روانگى كى اطلاع ملى _ حضرت علىعليه‌السلام جانتے تھے كہ موجودہ حالات ميں ان تينوں حضرات كى يورش معاويہ كى سركشى سے كہيں زيادہ سنگين ہے كيونكہ معاويہ اسلامى حكومت كے دو دراز علاقے ميں سرگرم عمل تھا ليكن يہ لوگ مركز خلافت ميں بھى يكجا جمع اور اس كے گرد و نواح ميں شورش كيئے ہوئے تھے اس كے علاوہ بصرہ اور كوفہ سياسى اور عسكرى اعتبار سے خاص اہميت كے حامل ہيں چنانچہ اس بناء پر اس سے پہلے كہ يورش وبغاوت كے شعلے ديگر مقامات تك پہنچيں آپعليه‌السلام نے

۱۳۵

مصلحت امر اس ميں سمجھى كہ انكے آتش فتنہ كو خاموش كرنے كے لئے خود ہى پيشقدمى كريں اگر چہ كچھ لوگوں نے يہ تجويز بھى پيش كى آپ طلحہ اور زبير كے تعاقب كو نظر انداز كرديں مگر آپ نے اس تجويز كو قبول كرنے سے قطعى انكار كرديا اور فرمايا كہ خدا كى قسم ميں بجو نہيں ہوں جس كو پكڑنے كے لئے لوگ اس كے بھٹ پر دھيمے سروں ميں گاتے بجاتے ہيں اور اچانك اس كو پكڑ ليتے ہيں _ اپنے مخالفين سے پورى طرح باخبر ہوں ميں حق پسند وں كى شمشير براں سے ان لوگوں كا كام تمام كردوں گا جنہوں نے حق كے نام پر سر كشى ويورش كا سہارا ليا ہے ميں اپنے مطيع و فرمانبردار ہمكاروں كى مدد سے ان تمام سركشوں كو جو راہ حق ميں رخنہ اندازى پر تلے ہوئے ہيں ، ہميشہ كے لئے راستے سے ہٹادوں گا اور اپنے اس عمل كو تا دم واپسين جارى ركھوں گا_

حضرت علىعليه‌السلام نے مسلمانوں كو مسجد ميں جمع ہونے كا حكم ديا جب لوگ جمع ہوگئے تو آپعليه‌السلام نے عام لوگوں پر يہ واضح كرنے كے لئے مخالفين كے اغراض و مقاصد كيا ہے اس موضوع سے متعلق درج ذيل تقرير فرمائي_

''لوگوں عائشہ بصرہ كى جانب چلى گئي ہيں _ طلحہ و زبير ان كے ہمراہ ہيں ان دونوں كا يہ خيال ہے كہ خلافت پر صرف انھى كا حق ہے كسى اور كا نہيں _ طلحہ ، عائشہ كا چچا زاد بھائي ہے اور زبير ان كے داماد ہيں (اور عائشہ كى سعى و كوشش انہى كے لئے ہے)خدا كى قسم اگر يہ دونوں اپنے مقاصد ميں بالفرض كامياب ہوبھى گئے تو پھر ان دونوں ميں وہ سخت تنازع ہوگا كہ ان ميں ايك دوسرے كى گردن ماردے گا _ خدا شاہد ہے كہ جو شخص سرخ اونٹ پر سوار ہوكر روانہ ہوتا ہے وہ زيادہ دور تك راستے طے نہيں كرتا اور اس سے كوئي عقدہ وا بھى نہيں ہوتا مگر يہ كہ وہ گناہ كے راستے پر چلے اور خدا كا غضب اس پر نازل ہوتا كہ وہ اور اس كے ساتھى ہلاكت كو پہنچيں _

خدا كى قسم انجام كار يہ ہوگا كہ ان ميں سے ايك تہائي افراد مارے جائيں گے ، ايك تہائي فرار كرجائيں گے اور ايك تہائي توبہ كرليں گے_

عائشہ وہى خاتون ہيں ''جسٌ پَر حَوْا َبْ ''كے كتے غرارہے ہيں ، طلحہ اور زبير بھى جانتے

۱۳۶

ہيں كہ وہ ٹھيك راستے پر نہيں چل رہے ہيں _ افسوس اس عالم كے حال پر جو اپنے جہل كے باعث ماراگيا اور وہ اپنے علم سے بہرہ مند نہ ہوسكا_

مجھے قريش سے كيا سرو كار خدا گواہ ہے جب وہ حالت كفر ميں تھے ميں نے انہيں قتل كيا اس وقت بھى وہ ہوا وہوس اور شيطانى وسواس كے دام فريب ميں ہيں (اسى لئے شورش بپا كئے ہوئے ہيں )يہ سب ميرے ہاتھوں مارے جائيں گے _(۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے افكار عامہ كو بيدار كرنے كى غرض سے دوسرے اور تيسرے روز پر ہيجان تقارير كيں اور بالآخر آپعليه‌السلام نے اعلان جنگ كرديا _ سہل بن حنيف كو مدينے ميں اپنا جانشين مقرر كيا(۲) اور خود مسلح و مجہز لشكر كے ساتھ جو سات سو سے زيادہ افراد پر مشتمل تھا مدينہ سے عراق كى جانب روانہ ہوئے_

''ناكثين'' پر قابو پانے كے لئے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كا لشكر پہلے مكہ كى جانب روانہ ہوا ليكن جب آپ ''ربذہ(۳) '' نامى مقام پر پہنچے تو معلوم ہوا كہ مخالفين وہاں سے كوچ كرچكے ہيں _ چنانچہ وہاں سے آپعليه‌السلام نے عراق كى جانب رخ كيا _

ربذہ ميں قيام

حضرت علىعليه‌السلام نے ربذہ ميں چند روز قيام فرمايا اس عرصے ميں مدينہ سے كچھ انصار جن ميں خزيمہ بن ثابت اور تقريباً چھ سو طائفہ طى كے منظم سوار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر سے متصل ہوگئے _(۴)

عثمان بن حنيف بھى دشمنوں كے چنگل سے نجات پانے كے بعد ربذہ ميں حضرت علىعليه‌السلام سے آن ملے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے ملاقات كرنے كے بعد كہا يا اميرالمومنينعليه‌السلام جس روز آپ نے مجھے روانہ كيا تھا اس وقت ميرى داڑھى بہت گھنى تھى ليكن آج ميں آپ كى خدمت ميں ايك بے ريش نوجوان كى صورت ميں حاضر ہوا ہو حضرت علىعليه‌السلام نے انہيں صبر كى تلقين كى اور ان كے لئے

۱۳۷

دعا فرمائي _ (۵)

اسى طرح اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ہاشم مرتال كو خط دے كر حاكم كوفہ كى جانب روانہ كيا تاكہ اس سے پہلے كہ طلحہ اور زبير وہاں پہنچيں وہاں كے گورنر كى عسكرى مدد حاصل كرلى جائے _ ليكن موسى اشعرى حاكم كوفہ نے صرف حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے سے سيدھے منہ بات نہ كى بلكہ حضرت علىعليه‌السلام كے خط كو بھى انہوں نے غايب كرديا اورہاشم مرتال كو يہ دھمكى دى كہ وہ انہيں قيدى بناليں گے انہوں نے كوفہ كے لوگوں كو بھى سختى سے منع كرديا اور كہا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مدد نہ كريں _ گورنر كى حيثيت سے اعلان كيا كہ اگر جنگ كى نوبت آئي تو پہلے وہ عثمان كے قاتلوں كے خلاف جنگ كريں گے اور اس كے بعد وہ دوسروں كى طرف متوجہ ہوں گے _(۶) حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے نے ان تمام واقعات كى اميرالمومنينعليه‌السلام كو خبر كى _

يہ خط حضرت علىعليه‌السلام كو ''ذى قار'' نامى مقام پر موصول ہوا _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے فرزند عزيز حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمار ياسر كو اپنے پاس بلايا اور ان دونوں حضرات كو اس كام پر مقرر كيا كہ اہل كوفہ كے لئے وہ خط لے كر روانہ ہوں اور وہاں پہنچ كر وہاں كے لوگوں كو مدد كيلئے آمادہ كريں _

حضرت علىعليه‌السلام نے خط ابوموسى كو بھى لكھا اور انہيں ان كے منصب سے معزول كرديا _ اميرالمومنينعليه‌السلام نے اس خط ميں لكھا تھا كہ انہوں نے اپنے موقف كا صحيح استعمال نہيں كيا اور اسى بنا پر انہيں سخت تنبيہہ بھى كى اس كے علاوہ حضرت علىعليه‌السلام نے مالك اشتر كو ان كے پيچھے روانہ كيا_

حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمارعليه‌السلام نے كوفہ پہنچنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كا خط وہاں كے لوگوں كو سنايا اور اس سلسلے ميں تقارير بھى كيں _ حضرت علىعليه‌السلام كى تحرير اور حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمارعليه‌السلام كى تقرير كا اثر يہ ہوا كہ اہل كوفہ ان كے گرويدہ ہوگئے اور انہوں نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خلوص نيت اور اظہار محبت كيا اور ان كے فرمان كے آگے سر تسليم خم كرديا_

حضرت امام حسنعليه‌السلام نے ابوموسى كى معزولى كا بھى اعلان كيا اور ان كى جگہ قرظة بن كعب'' كو گورنر

۱۳۸

مقرر كيا _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے كى سعى و كوشش اور بصيرت افروز تقارير كے باعث كچھ لوگوں نے اپنى رضامندى كا اعلان كرديا چنانچہ چند روز بعد تقريباً سات ہزار افراد ''ذى قار'' ميں حضرت علىعليه‌السلام سے جاملے _ حضرت امام حسنعليه‌السلام كى كاميابى پر حضرت علىعليه‌السلام بہت مسرور ہوئے اور انہوں نے اپنے فرزند دلبند سے اظہار تشكر كيا_(۷)

لشكر كا جاہ وجلال

اميرالمومنينعليه‌السلام حضرت علىعليه‌السلام كا وہ مسلح وعظےم لشكر جو مدينہ اور كوفہ ميں جمع ہوا تھا اور بصرہ كے نواح ميں قيام پذير تھا اس لشكر كے بارے ميں منذر بن جارود نے لكھا ہے كہ ميں شہر بصرہ سے باہر نكل كر آيا تاكہ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كا نظارہ كرسكوں _

اس وقت وہاں ہزار مسلح سوار موجود تھے اور ابو ايوب انصارى تنو مند گھوڑے پر سوا ران كے پيش پيش چل رہے تھے_ ان كے علاوہ بھى وہاں دوسرے عسكرى دستے تھے جن ميں ہر دستہ ہزار مسلح افراد پر مشتمل تھا اور دستوں كى كمانڈرى خزيمہ بن ثابت ، ابو قتادہ عمار ياسر، قيس بن سعد اور عبداللہ بن عباس جيسے جليل القدر صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كرتے تھے اور يہ تمام دستے ابو ايوب كى فوج كے پيچھے چل رہے تھے_

انہى جنگجو دستوں ميں ايك دستہ حضرت علىعليه‌السلام كى زير قيادت ديگر تمام دستوں سے آگے چل رہا تھا _ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دائيں بائيں حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت امام حسينعليه‌السلام چل رہے تھے اور ان كے آگے حضرت علىعليه‌السلام تا ديگر فرزند محمد بن حنفيہ پرچم ہاتھ ميں لئے چل رہے تھے_ عبداللہ ابن جعفر ،حضرت علىعليه‌السلام كے پيچھے تھے ان كے علاوہ عقيل كے فرزند اور بنى ہاشم كے نوجوانوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو انگشترى كے نگينہ كى طرح اپنے درميان لے ركھا تھا _ كچھ معمر بدرى بزرگ (مہاجر و انصار)بھى ان ہى دستوں ميں نظر آرہے تھے_(۸)

۱۳۹

بصرہ پہنچنے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے ''زاويہ'' نامى جگہ پر قيام فرمايا اور يہاں چار ركعت نماز ادا كى نماز سے فارغ ہونے كے بعد آپ نے دوبارہ سجدہ كيا اور اس قدر گريہ و زارى كى كہ آنكھوں سے آنسو جارى ہوگئے پھر دعا كے لئے ہاتھ آسمان كى طرف اٹھائے اور عرض كى خداوند تعالى اس جماعت نے ميرے حكم كى نافرمانى كركے مجھ پر ظلم كيا ہے يہ لوگ بيعت سے منحرف ہوگئے ہيں _ اے خدا اب تو ہى مسلمانوں كى حفاظت فرما _(۹)

صلح كى كوشش

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كا مقصد جنگ كرنا نہ تھا بلكہ آپ چاہتے تھے كہ ''ناكثين'' نے جو فتنہ كى آگ بھڑكائي ہے اسے خاموش كرديں اس مقصد كى برآورى كيلئے اور كشت وخون كو روكنے كى خاطر ، حضرت علىعليه‌السلام نے ہر ممكن كوشش كى اور جو بھى ممكن طريقہ ہوسكتا تھا آپعليه‌السلام اسے بروئے كار لائے اميرالمومنينعليه‌السلام نے جو صلح طلبانہ اقدامات كئے ان كے چند نمونے يہاں پيش كئے جاتے ہيں :

۱_ بصرہ پہنچنے سے قبل آپعليه‌السلام نے صعصعہ بن صوحان اور عبداللہ بن عباس كو جداگانہ طور پر خط دے كر عائشہ ، طلحہ اور زبير كے پاس بھيجا كہ شايد ان كو مذاكرہ اور پند ونصيحت كے ذريعے جنگ كرنے سے باز ركھاجاسكے _ ليكن ان لوگوں نے حصرت علىعليه‌السلام كے نمايندگان اور آپعليه‌السلام كے پند ونصايح كے آگے سر تسليم خم نہ كيا اور جنگ كے علاوہ كوئي دوسرا راستہ اختيار كرنے سے انكار كرديا_(۱۰)

۲_ حضرت علىعليه‌السلام نے جنگ كے دن فيصلہ كيا كہ كلام اللہ كو درميان لاكر اسے حكم قرار ديں _ چنانچہ آپعليه‌السلام نے حضرت مسلم نامى شخص كو قرآن پاك ديا اور فرمايا كہ ان لوگوں سے كہو كہ ہمارے اور تمہارے درميان قرآن ہى حاكم ومنصف ہے ، خدا سے ڈرو اور مسلمانوں كا خون بہانے سے گريز كرو _

اس جوان نے حضرت علىعليه‌السلام كے حكم پر عمل كيا ليكن انہوں نے مسلم كا وہ ہاتھ قلم كرديا جس ميں

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348