تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 348
مشاہدے: 142121
ڈاؤنلوڈ: 2677


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 142121 / ڈاؤنلوڈ: 2677
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 3

مؤلف:
اردو

قرآن مجيد تھا انہوں نے قرآن دوسرے ہاتھ مےں لے ليا اور حسب سابق انہيں قرآنى حكومت كى دعوت دى مگر ان سنگدلوں نے ان كا دوسرا ہاتھ بھى قطع كرديا اور انہيں شہيد كرديا _ (۱۱)

۳_ حكومت قرآن كى دعوت دينے والے جوان مسلم كے قتل نے كشت وخون كا سد باب كرنے والے اقدامات سے حضرت علىعليه‌السلام كو مايوس كرديا _ آپعليه‌السلام نے آخرى مرتبہ عمار ياسر كو بھيجا يہ وہ بزرگ صحابى تھے جن كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ جو لوگ انہيں قتل كريں گے ان كا شمار ظالموں ميں ہوگا اور ان كے مقام و مرتبے نيز ايمان كے بارے ميں نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا: حق ہميشہ عمار كے ساتھ ہے اور عمار حق سے پيوستہ _''عمار'' نے بھى پند و نصيحت كے ذريعے سمجھانے كى كوشش كى انہوں نے دشمنوں كى سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا اے لوگو تم نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ انصاف كا رويہ اختيار نہ كيا تم نے اپنى عورتوں كو تو اپنے گھروں ميں محفوظ كرديا اور زوجہ مطہر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو گھر سے نكال كر نيزوں اور تلواروں كے روبرو لے آئے_

اس كے بعد وہ مزيد آگئے بڑھے اور عائشہ كے ہودج كے مقابل آكر ان سے گفتگو كى ان كى يہى كوشش تھى كہ وہ ان فتنہ انگيزوں كے ساتھ شريك نہ ہوں وہ ابھى گفتگو كرہى رہے تھے كہ دشمن كے تير ہر جانب سے ان كى طرف آنے لگے _ اگرچہ انہوں نے اپنے سر كو اس طرف يا اس طرف خميدہ كركے خود كو تيروں كى زد سے بچاليا اور قطع گفتگو كركے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور كہا كہ : جنگ كے علاوہ چارہ نہيں ہے_(۱۲)

۴_ ناكثين كى جانب سے شدت كے ساتھ مسلسل تير اندازى شروع ہوگئي ادھر سپاہ اسلام كا نعرہ بلند ہوا كہ : يا اميرالمومنينعليه‌السلام دشمن ہم پر تيروں كى بارش كر رہا ہے دفاع كا حكم صادر كيجئے_

اس وقت ايك مرد كا جنازہ اميرالمومنينعليه‌السلام كے روبرو لايا گيا جسے دشمن نے اپنے تيروں كا نشانہ بنايا تھا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے يہ حالت ديكھ كر رخ مبارك آسمان كى جانب كيا اور زبان حال سے فرمايا :خداوند تو عادل وداد گر ہے شاہد و گواہ رہنا _اس كے بعد اپنے ساتھيوں سے كہا كہ تم صبر

۱۴۱

كرو تاكہ دشمن پر حجت تمام ہوجائے اس كے بعد ايك جنازہ اور لايا گيا ، حضرت على عليه‌السلام نے اس مرتبہ بھى وہى بات دہرادى يہاں تك كہ صحابى بزرگ عبداللہ بن بديل اپنے فرزند كا جنازہ لے كر آئے اور اسے حضرت علىعليه‌السلام كے ربرو ركھ ديا اور عرض كيا كہ يا اميرالمومنينعليه‌السلام ہم كب تك صبر كريں دشمن ہمارے جوانوں كو يكے بعد ديگرے قتل كئے جارہا ہے _(۱۳)

حضرت علىعليه‌السلام مسلسل تين دن تك پورى كوشش كرتے رہے كہ جنگ وخون ريزى نہ ہو مگر افسوس انہيں اپنے اس ارادے ميں كاميابى نہ ہوئي چنانچہ آپ نے خود كو اس اقدام كے ربرو پايا جو پہلے كئي مرتبہ انجام پذير ہوا تھا اس كے بعد اميرالمومنينعليه‌السلام نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زرہ پہنى ، عمامہ سر مبارك پر ركھا _ ذوالفقار كمر ميں حمائل كى دلدل پر سوار ہوكر پرچم محمد بن حنفيہ كو ديا(۱۴) مجہز و مسلح ہوكر آپ نے لشكر كا معائنہ كيا جو كہ بيس ہزار پر مشتمل تھا_ طلحہ اور زبير نے بھى اپنے لشكر كا معائنہ كيا جس ميں تيس ہزار سے زيادہ نفوس شامل تھے اب دونوں لشكر پورى طرح جنگ كے لئے آمادہ و تيار تھے _

لشكر كے لئے دستورالعمل

دشمن پر حملہ كرنے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے اپنى سپاہ كے لئے چند نكات صادر كئے اور فرمايا كہ جب دشمن كو شكست ہوجائے تو مجروحين سے جنگ نہ كريں ، قيديوں كو قتل نہ كياجائے، فرار كرنے والوں كا تعاقب نہ كياجائے _ عورتوں كو برہنہ نہ كياجائے_ مقتولين كے ناك كان قطع نہ كئے جائيں كسى كى پردہ درى نہ ہو ، فاتح سپاہى مفتوحےن كے مال كے پاس سے بھى نہ گذريں البتہ ميدان جنگ ميں اگر ہتھيار' گھوڑے ' غلام يا كنيز ہاتھ آجائيں ' تو انہيں غنيمت ميں لے ليں _(۱۵)

۱۴۲

دشمن كو متفرق كرنے كى آخرى كوشش

دونوں لشكر ايك دوسرے كے مقابل صف آرا ہوئے اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو حضرت علىعليه‌السلام كو يہ موقع مل گيا كہ زبير ان كے سامنے آگئے _ اگر چہ حضرت علىعليه‌السلام نے ان سے چند ہى جملے كہے جن كا ان كے دل پر ايسا گہرا اثر ہوا كہ دشمن كے سرداروں ، فوج كى تشكيل كا شيرازہ منتشر ہوگيا جس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے گفتگو كے دوران زبير كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حديث سنائي اور كہا كہ اے زبير كيا وہ دن ياد ہے جب كہ تو نے ميرى گردن ميں اپنا ہاتھ حمايل كر ركھا تھا اور پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ ديكھ كر تجھ سے پوچھا تھا كہ كياتجھے على سے بہت پيا ر ہے؟ اور تو نے جواب ديا تھا آخر كيوں نہ پيار كروں يہ ميرا ماموں زاد بھائي ہى تو ہے اس كے بعد پيغمبرا كرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا تو مستقبل قريب ميں اس سے جنگ كرے گا درحاليكہ تو ستمگر ہوگا _(۱۶) زبير نے جب يہ حديث سنى تو كہا''انا لله وانا اليه راجعون'' مجھے پورا واقعہ ياد آگيا ميں آپعليه‌السلام سے ہرگز جنگ نہ كروں گا اس كے بعد انہوں نے ديگر سرداران كى پر ہيجان اور وسوسہ انگيز باتوں كى جانب توجہ كئے بغير ميدان جنگ سے كنارہ كشى اختيار كرلى اور ''وادى اسباع''نالى مقام پر ''عمروبن جرموز'' كے ہاتھوں قتل ہوئے _(۱۷)

حضرت علىعليه‌السلام نے اس خيال سے كہ شايد طلحہ بھى جنگ سے باز رہيں اور نوبت خون ريزى كى نہ آئے ان سے بھى ملاقات كى اور فرمايا كہ وہ كون سا عامل تھا جس كے باعث تو نے شورش و سركشى كى _ انہوں نے جواب ديا كہ عثمان كے خون كا بدلہ ، اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : خدا اس شخص كو پہلے قتل كرے جو اس گناہ ميں ملوث ہو _ پھر فرمايا : اچھا يہ بتا كہ عثمان كا قاتل كون ہے ميں يا تو ؟ كيا تو نے نہيں سنا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ميرے بارے ميں فرمايا تھا : خدايا تو اسے دوست ركھ جو علىعليه‌السلام كا دوست ہو اور اسے دشمن ركھ جو على سے دشمنى كرے كيا تو ان لوگوں ميں شامل نہ تھا جنہوں نے سب سے پہلے بيعت كي؟ طلحہ نے كہا ميں توبہ واستغفار كرتاہوں اس كے بعد وہ بھى كسى كى پند و نصيحت كے بغير ميدان جنگ سے چلے گئے _(۱۸)

ليكن ان كا بھى وہى انجام ہوا جس سے زبير دوچار ہوئے تھے_ مروان كيونكہ عائشہ كے لشكر

۱۴۳

ميں تھا اوراس نے ديكھ ليا تھا كہ حضرت على عليه‌السلام طلحہ كے ساتھ گفتگو ميں مشغول ہيں تو اسے يہ خوف لاحق ہوا كہ كہيں وہ بھى حضرت علىعليه‌السلام كى بصيرت افروز تقرير سے متاثر نہ ہوجائيں _ دوسرى طرف مروان كا يہ گمان تھا كہ عثمان كے قتل كى سازش ميں وہ بھى ملوث ہے چنانچہ اس نے اس موقع كو غنيمت جانا اور اس وقت جب كہ ہنگامہ كا ر زار گرم تھا مروان نے طلحہ كى پشت پر تير مارا اور انہيں زمين پر گراديا(۱۹)

فيصلہ كن جنگ

سرداران سپاہ كى اشتعال انگيز تقارير پر تيس ہزار سے زيادہ افراد پر مشتمل مسلح لشكر كى تيارى ' بعض سرداران قبائل كے نام تحرير و زبانى پيغام رساني، مختلف شہروں كے لوگوں كى شورش و سركشى ميں شركت ودعوت ، لشكر كشى كے ذريعے بصرہ پر قبضہ ، وہاں كے بعض مسلمانوں كا قتل اور ان كى شكنجہ كشى ايسے قرائن وشواہد ہيں جو اس پر دلالت كرتے ہيں كہ مخالف سرداروں ، گورنروں كا كشت وخون كا مقصد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كو سرنگوں كرنے كے علاوہ كچھ نہ تھا ان حالات ميں حضرت علىعليه‌السلام كے ہمدردانہ پند ونصايح اور صلح پسندانہ اقدامات كا ان كے دلوں پر اثر نہ ہونا فطرى تھا اسى لئے انہوں نے پہلے تو حضرت علىعليه‌السلام كى لشكر كى جانب تير اندازى كى اس كے بعد چند سپاہيوں كو قتل كركے دائيں اور بائيں جانب سے حملہ شروع كرديا_

اميرالمومنينعليه‌السلام حضرت علىعليه‌السلام نے پرچمدار لشكر محمد حنفيہ كو حكم ديا كہ دشمن كى فوج كے قلب پر حملہ آور ہوں ليكن مسلسل تير اندازى كے باعث انكى نظروں كے سامنے چونكہ اندھيرا سا چھاگيا تھا اسى لئے حملہ كرنے ميں انہيں تردد ہوا اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ پيشقدمى كيوں نہيں كرتے ؟ محمد حنفيہ نے اس كى وجہ بتائي_

اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے پرچم ان كے ہاتھ سے لے ليا اور خود ہى غرائے شير كى مانند دشمن پر حملہ كرديا، حملہ كرنا تھا كہ دشمن كا لشكر اس طرح منتشر ہوگيا گويا تند و تيز ہوا كے جھونكے نے گرد وخاك

۱۴۴

كو ادھر ادھر بكھير ديا ہو _ (۲۰)

اس موقع پر ''ازد بنى ناجيہ'' اور'' بنى ضبہ'' جيسے عرب قبائل اونٹ كے گرد جمع ہوگئے جس پر لشكر كا كمانڈر سوار تھا اور بھڑكى ہوئي جنگ ميں غير معمولى فداكارى كا مظاہر كيا _

خلاف معمول عائشہ كے لشكر كے ساتھ پرچم نہ تھا البتہ پرچم كى جگہ لشكر سے آگے آگے اونٹ (جمل) چل رہا تھا اور يہى گويا ان كا پرچم تھا(۲۱) _ اور اسى سے ان كے سپاہيوں كى حوصلہ افزائي ہو رہى تھى اور جب تك يہ اونٹ اپنى جگہ قائم رہا دشمن نے خود ميں كسى قسم كى كمزورى يا شكست محسوس نہ كى _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے مالك اشتر كو حكم ديا كہ وہ دشمن كے بائيں بازو پر حملہ آور ہوں اور انہوں نے جسے ہى ميسرہ پر حملہ كيا لشكر دشمن كى صفيں يك لخت منتشر ہوگئيں اور انہوں نے اپنى عافيت راہ فرار ميں سمجھي_

اب جو لشكر باقى رہ گيا تھا وہ حسب سابق ''اونٹ'' اوراس كے سوار كا دفاع وتحفظ كر رہا تھا _ فطرى طور پر اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ نے بھى اپنى پورى طاقت اسى حصہ پر لگادى تھى _ چنانچہ اس ''اونٹ'' كے گرد شديد خونى جنگ شروع ہوگئي _(۲۲)

سرگردنوں سے جدا ہو كر ، ہاتھ جسموں سے كٹ كٹ كر فضا ميں بكھر رہے تھے نوك شمشير مسلسل دشمن كے شكموں كو چاك كئے جارہى تھيں مگر اس كے باوجود عائشہ كے سپاہى اس اونٹ ''جمل'' كى حفاظت آہنى فصيل كى مانند كر رہے تھے انہوں نے اس اونٹ كو اپنے حلقہ مےں لے ركھا تھا اور اس كا سختى سے دفاع كيا جارہا تھا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے سمجھ ليا كہ جب تك يہ اونٹ اپنے پيروں پر كھڑا رہے گا جنگ كا خاتمہ نہ ہوگا اس پر آپعليه‌السلام نے اپنے لشكر كو مخاطب كرتے ہوئے فرمايا كہ اس اونٹ كى ٹانگيں كاٹ دو كيونكہ جيسے ہى يہ اونٹ زمين پر گرے گا دشمن كا لشكر منتشر ہوجائے گا_(۲۳)

حضرت علىعليه‌السلام كے فرمان كے مطابق تلواريں بلند ہوئيں او ہر طرف سے تيروں كى بارش جمل كى

۱۴۵

جانب ہوگئي يہاں تك كہ تيروں كے پھل اس اونٹ كے پورے بدن ميں اتر گئے_

جن لوگوں نے اونٹ كى مہار اپنے ہاتھوں ميں سنبھال ركھى تھى وہ يكے بعد ديگرے زمين پر گرنے لگے ان ميں سب سے پہلے گرنے والا بصرہ كا مشہور و معروف قاضى ''كعب بن سور'' تھا اس نے قرآن مجيد اپنى گردن ميں حمايل كر ركھا تھا اس كے ايك ہاتھ ميں عصا اور دوسرے ميں اونٹ كى مہار اس كے بعد قريش نے پيش قدمى كى اور انہوں نے بھى مہار كو اپنے ہاتھ ميں تھاما يہاں تك كہ ستر افراد نے يكے بعد ديگرے دفاع كى خاطر جان دے دى ، قريش كے بعد بنى ناجيہ، بنى ضبہ اور ازد قبائل كے لوگوں نے بالترتيب اس كے مہار كو سنبھالا ليكن وہ بھى قتل ہوئے مختصر يہ كہ بقول زبير جس نے بھى اس اونٹ كى مہار كو تھاما وہ فوراً ہى مارا گيا _(۲۴)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ان گروہوں كے ہمراہ نخعى اور ہمدانى قبائل كے حامى و طرفدار تھے مركزى نقطے كى جانب شدت سے حملہ كركے دشمن كو منتشر و متفرق كرديا اور بجير نخعى سے فرمايا كہ اس وقت يہ اونٹ تمہارے دست اختيار ميں ہے اس كى ٹانگوں كى رگيں كاٹ دو ، بجير نے شمشير سے اس پر حملہ كيا اونٹ زور سے چيخا اور زمين پر گر پڑا جب وہ زمين پر گر گيا تو باقى لشكر بھى فرار ہوگيا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں نے آپعليه‌السلام كے حكم سے عائشہ كے كجاوہ كو ايك طرف منتقل كيا پہلے تو اس اونٹ كو مار كر جلايا اور پھر اس كى راكھ كو فضا ميں منتشر كرديا_

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے اس حكم كے ثبوت نيز اس كى تائيد ميں كتاب خدا سے استشہاد پيش كرتے ہوئے فرمايا كہ اے لوگو يہ اونٹ بنى اسرائيل كے بچھڑے كى طرح منحوس و فتنہ انگيز حيوان تھا اس كے بعد آپ نے اس آيت كى تلاوت كى جو حضرت موسىعليه‌السلام نے سامرى سے خطاب كرتے ہوئے پڑھى تھى _

اپنے اس خدا كو ديكھو جس كى تم پرستش كرتے ہو كہ ہم اسے كس طرح جلاتے ہيں اور پھر اس كى راكھ كو دريا ميں بہاديں گے _(۲۵)

۱۴۶

اور اس طرح جنگ جمل تمام ہوئي ، حضرت على عليه‌السلام كى حكومت كو ابھى چھ ماہ كا عرصہ بھى نہيں گزر ا تھا كہ يہ جنگ آپ پر مسلط كردى گئي اور ماہ جمادى الاخر سنہ ۳۶ ھ ميں '' ناكثين'' كى مكمل شكست پر اس كا مكمل طور پر خاتمہ ہو گيا اور جانبين كا كثير جانى و مالى نقصان ہوا _

عام معافي

دشمن پر غلبہ حاصل كرنے كے بعد حضرت عليعليه‌السلام نے حكم ديا كہ جنگ سے قبل جو حكم ديا گيا تھا اسے سپاہيوں كے سامنے دوبارہ پڑھا جائے _

اس كے ساتھ ہى اعلان كيا گيا كہ كسى ايسى عورت سے جس كا شوہر جنگ ميں مارا گيا ہے فورا نكاح نہ كيا جائے بلكہ اسے موقع ديا جائے كہ عرصہ عدت كو پورا كرے _(۲۶)

عائشہ كے سلسلہ ميں بالخصوص محمد بن ابى بكر كو حكم ديا گيا كہ وہ اپنى بہن كے پاس جائيں اور ان كى دلجوئي كريں اگر ان كو تير لگا ہو يا جسم پر زخم آيا ہو تو اس كا علاج كر ديا جائے محمد كے جانے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام بذات خود عا يشہ كى خدمت ميں تشريف لے گئے اور عصا سے عا يشہ كے كجادہ كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا كہ اے حميرا كيا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمہيں يہى كرنے كا حكم ديا تھا ؟ كيا آنحضرت نے يہ نہيں فرمايا تھا كہ تم اپنے گھر مےں بيٹھنا خدا كى قسم جو تمہيں گھر سے نكال كر باہر لائے ہيں انہوں نے تمہارے ساتھ انصاف نہيں كيا انہوں نے اپنى خواتين كو پس پردہ بٹھا ديا اور تمہيں وہ ميدان جنگ ميں لے آئے _

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے ان كے بھائي كو حكم ديا كہ وہ عا يشہ كو حرث بن ابى طلحہ كى بيٹى صفيہّ كے پاس لے جائےں جہاں چند روز آرام كريں جب حالات معمول پر آگئے تو حضرت عليعليه‌السلام نے عبداللہ بن عباس كو اس كام پر مقرر كيا كہ وہ عا يشہ كے پاس جائيں اور انھيں مدينہ واپس چلنے كے لئے آمادہ كريں _

عائشہ نے اگرچہ شروع ميں تو چلنے سے انكار كيا مگر جب ابن عباس نے ان سے بار بار كہا اور

۱۴۷

انھيں يہ بتايا كہ حضرت علي عليه‌السلام نے فيصلہ كر ليا ہے كہ آپ كو مدينہ لے جايا جائے تو مجبورا وہ تيار ہو گئيں _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے عا يشہ كے سفر كى تيارى شروع كى اور انھيں انكے بھائي عبدالرحمن ' تيس سپاہيوں اور قبيلہ القيس و ہمدان كى بيس عورتوں كى نگرانى ميں مدينہ كى جانب روانہ كى ان سب نے عائشہ كى انتہائي خدمت كى اور ان كے ساتھ پورے اعزاز و احترام كا سلوك كيا(۲۷) يہاں يہ بات بھى قابل توجہ و ذكر ہے كہ حضرت عليعليه‌السلام نے عائشہ كى پورى حفاظت اس بنا پر كى كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ انھيں كہيں راستے مےں كوئي گزند پہنچے حضرت عليعليه‌السلام كى جانب سے عا يشہ كے تحفظ كا مقصد يہ بھى ہو سكتا ہے كہ زوجہ مطہرہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مرتبہ كا پاس كر كے ان كا مقصد مقام رسالت كا احترام كيا جائے اس كے علاوہ حضرت علىعليه‌السلام كو يہ خدشہ تھا كہ اگر عائشہ كا قتل ہو گيا تو كہيں ايسا فتنہ بپانہ ہو جائے جو عثمان كے قتل كى وجہ سے رونما ہوا تھا چنانچہ عمر و عاص نے جنگ كے بعد عائشہ سے كہا تھا كہ : اے كاش تم جنگ ميں قتل كر دى گئي ہوتيں عا يشہ نے اس كا مطلب دريافت كيا تو اس نے كہا كہ اگر تم مارى جاتيں تو جنت ميں جاتيں اور ہم اس مسئلے كو حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف حملہ كرنے كا اہم ترين بہانہ بناليتے(۲۸) _

۱۴۸

سوالات

۱ _ '' ناكثين'' كى شورش كے بارے مےں اطلاع حاصل كرنے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كس شخص سے جنگ كرنے كيلئے تيار تھے اور آپ نے اپنا ارادہ كيوں بدل ديا ؟

۲ _ حضرت عليعليه‌السلام نے كس منزل پر اور كن افراد كو كوفہ كى جانب روانہ كيا وہاں انھيں كيسے كاميبابى حاصل ہوئي؟

۳ _ كشت و خون روكنے كيلئے حضرت علىعليه‌السلام نے كيا اقدامات كئے ؟ انكى تين مثاليں بيان كيجئے _

۴ _ فيصلہ كن جنگ كس طرح شروع ہوئي عا يشہ كے تحفظ و دفاع ميں كون سے قبائل پيش پيش اور سرگرم عمل تھے ؟

۵ _ جنگ كے بعد جو افراد باقى رہ گئے تھے انكے ساتھ حضرت عليعليه‌السلام بالخصوص عا يشہ كے ساتھ كيا سلوك رہا ؟

۶ _ جنگ جمل ميں كس جگہ كو مركزيت حاصل تھى اور حضرت عليعليه‌السلام نے اس كى كس طرح سركوبى كى ؟

۷_ حضرت عليعليه‌السلام نے عا يشہ كى حفاظت كے لئے كيوں اس قدر اہتمام كيا ؟

۱۴۹

حوالہ جات

والله لا اكون كالضبع تنام على طول اللّارم حتى يصل اليها طالبها و يختلها راصدها ولكننى اضرب بالمقبل الى الحق المدبر عنه و باالسامع المطيع العاصى المريب ابدا حتى ياتى على يؤمى

۱_ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/۲۳۳ ، ارشاد مفيد ۱۳۱_

۲_ الجمل للمفيد /۱۲۹ الامامة السياسة ج ۱/ ۵۳ ميں سہل كى بجائے قسم بن عباس كا ذكر ملتا ہے_

۳_ يہ جگہ ذات عرق كے قريب حجاز ومدينہ كے درميان تين روزہ راہ كى دورى پر واقع ہے (معجم البلدان ج ۳/۲۴ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۹ _ ۳۵۸

۴_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۹_ ۳۵۸

۵_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۲۶ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۸۰ ،تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۲ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۳۲۱_

۶_ الجمل للمفيد /۱۳۰ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۴/ ۹

۷_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۸ ، ۴۷۷ ، كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۷۷ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۱۴/ ۹

۸_ ملاحظہ ہو مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۹ ، والجمل / ۱۳۸، طبرى ج ۴/ ۵۰۰ اور ابن ابى الحديد نے ج ۱۴ /۲۱ پر ابى الطفيل سے نقل كيا ہے كہ اس سے قبل كہ سپاہ كوفہ پہنچے حضرت علىعليه‌السلام نے پيشن گوئي كردى تھى كہ كوفہ سے ايك ہزار ايك سپاہى آئيں گے اور ايسا ہى ہوا _ راوى كا كہنا ہے كہ ميں نے انہيں گنا ان ميں سے نہ كم تھا نہ ايك زيادہ_

۹_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۱ _ ۳۵۹ كا خلاصہ

۱۰_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۱''اللهم ان هؤلاء القوم قد خلعوا طاعتى بغوا على ونكثوا بيعتى اللهم احقن دماء المسلمين ''_

۱۱_ الجمل للمفيد / ۱۶۷

۱۲_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۱ ، الجمل للمفيد /۱۸۱ تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۰۹ _۵۱۱

۱۵۰

۱۳_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۲

۱۴_ الجمل للمفيد / ۱۸۲ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۹/۱۱ ، تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۲ ، ليكن تاريخ يعقوبى اورشرح ابن ابى الحديد ميں مقتول كو عبداللہ كا بھائي تحرير كيا گيا ہے _

۱۵ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۹ /۱۱۱

۱۶_ مروج الذہب ج ۲/ ۲۶۲ _ الجمل للمفيد /۱۸۲

۱۷_ اماانك ستحاربہ و انت ظالم لہ

۱۸_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۳ زبير كے سلسلے ميں يہ روايت بھى ملتى ہے كہ وہ بھى دوسروں كى طرح حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ آخرى لمحہ تك جنگ كرتے رہے ليكن جب اصحاب جمل كو شكست و ہزيمت ہوئي تو انہوں نے بھى راہ فرار اختيار كى جس وقت وہ فرار كررہے تھے تو اچانك جرموزے نے انہيں غافل پاكر قتل كرديا (سيرة الائمہ اثنى عشر ج ۱/ ۴۵۵)ان اقوال كے علاوہ يہ قول بھى ہے كہ جب زبير نے كنارہ كشى كا فيصلہ كرليا تو ان كے فرزند عبداللہ نے ان پر يہ الزام لگايا كہ وہ جنگ سے خوف زدہ ہوگئے ہيں اور انہيں قسم ياد لائي اور كفارہ دينے كو كہا زبير نے اپنے غلام كو آزاد كركے كفارہ ادا كيا اور بيٹے نے جو الزام لگايا تھا اسے دور كرنے كے لئے انہوں نے تلوار اٹھائي اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى لشكر پر حملہ آور ہوگئے ملاحظہ ہو تاريخ الفداء ج ۱/ ۱۷۴ _ ۱۷۳

۲۰_ مروج الذہب ج ۲/۳۶۴ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۲ ، انساب الاشراف ج ۲/ ۲۴۸ ، الجمل للمفيد / ۲۰۴ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۱۱۳

۲۱_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۶ ، الجمل للمفيد / ۱۸۳ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۱۴ ، سيرة الائمہ اثنى عشر ج ۱/ ۴۵۷ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۵۷

۲۲_ تاريخ ابن اعثم / ۱۷۶ و شرح ابن ابى الحديد _

۲۳_ شرح ابن ابى الحديد ج / ۲۵۸

۲۴ _ اعقروا الجمل فانہ ان عقر تفرقوا (تاريخ طبرى ج۴ / ۵۱۹)_

۲۵ _ تاريخ طبرى ج / ۴/ ۵۱۹ ' اسد الغابہ ۳ / ۳۰۸ ' شرح ابن ابى الحديد ج۱ / ۲۶۵ _

۱۵۱

۲۶ _ سورہ طہ آيہ ۹۶ ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج۱ / ۲۶۶ _

۲۷ _ اس حكم كے جارى كرنے سے حضرت عليعليه‌السلام كا مقصد يہ تھا كہ دشمن كے افراد كے ساتھ وہى سلوك كيا جائے جو مسلمانوں كے ساتھ روا كھا جاتا ہے ان كے ساتھ كفار كا _ سا برتاؤ نہ كيا جائے _

۲۸ _ ملاحظہ ہو كامل ابن اثير ج۳ / ۲۵۸ ' خ ۲۵۵ ' تاريخ طبرى ج ۴ / ۴۴،۵ ۴،۵۳

۹ ۲ _ شرح ابن ابى الحديد ج۶ / ۳۲۲ _

۱۵۲

آٹھواں سبق

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۴

حضرت عليعليه‌السلام كى بصرہ ميں آمد

جنگ جمل كے ناخوشگوار نتائج

كوفہ ، دارالحكومت

كوفہ پہنچنے پر عليعليه‌السلام كے اقدامات

قاسطين

معاويہ كى تخريب كاري

امام عليعليه‌السلام كا نمايندہ معاويہ كى جانب

سركشى كے اسباب

مشہور و معروف اشخاص كو اپنانا

سوالات

حوالہ جات

۱۵۳

حضرت عليعليه‌السلام كى بصرہ كى آمد

جنگ جمل ختم ہونے كے بعد حضرت عليعليه‌السلام نے تين روز تك معركہ گاہ پر قيام فرمايا متقولين كى نماز جنازہ پڑھائي حكم ديا كہ دشمن كے مقتولين كو جمع كر كے انھيں دفن كيا جائے شہداء كو حضرت علىعليه‌السلام كے فرمان كے مطابق ان كے لباس ميں ہى دفن كيا گيا(۱) جسموں سے جو اعضاء الگ ہو گئے تھے انھيں يك جا ايك بڑى قبر مےں دفن كياگيا _

مال غنيمت كو (سوائے اس اسلحہ كے جس پر مہر خلافت ثبت تھى)سپاہ ميں مساوى تقسيم كيا خود بھى ايك حصہ اس مےں سے ليا باقى مال جو جنگ مےں ہاتھ آيا تھا اور اس كا شمار مال غنيمت مےں نہےں ہوتا تھا مسجد مےں لے جايا گيا تاكہ ان كے مالك يا وارثين كى تحويل ميں دے ديا جائے _(۲)

بصرہ پہنچنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام سيدھے مسجد مےں تشريف لے گئے جہاں آپ نے مفصل تقرير كى اہل بصرہ سے خطاب كرتے ہوئے آپ نے ان كى سرزنش كى اور فرمايا كہ اے كاہل لوگو اے وعدہ خلاف انسانوں تم نے تين مرتبہ اپنوں سے ہى خيانت كى اور چوتھى مرتبہ تم نے خدا پر اتہام لگايا تم نے پيروى بھى كى تو ايك عورت اور بے زبان جانور كى تم نے اس كى ايك آواز پر غوغا و فتنہ بپا كرديا اور جب اس حيوان كے پيروں كى رگيں كاٹ دى گئيں تو تم بھاگ نكلے اخلاقى اعتبار سے تم پست ہو تمہارے اعمال منافقانہ ہيں اور تمہارا دين و آئين باطل اور تفرقہ اندازى ہے_(۳)

اس كے بعد تمام افراد حتى مجروحين نے بھى آپ كے دست مبارك پر بيعت كي_ حضرت علىعليه‌السلام

۱۵۴

نے ابن عباس كو بصرہ كى صوبہ دارى اور زياد كو امور مالى وخراج كى وصول يابى كے عہدوں پر مقررومامور فرمايا _ (۴)

اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام خزانہ بيت المال تشريف لے گئے جس وقت آپ كى نظر مبارك سونے اور چاندى پڑى تو آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ :يا صفرا ء يا بيضا غريا غيري(اے زرد سونے اور سفيد چاندى كے سكو تم اپنى يہ دلربائي كسى اور كو دكھانا كسى اور كو تم اپنے دام فريب ميں لانا اس كے بعد آپ نے حكم ديا كہ جو مال موجود ہے اس كو پانچ سو اعداد ميں تقسيم كريں جس وقت سكوں كا شمار كيا گيا تو انكى تعداد كم و بيش ساٹھ لاكھہ درہم تھى چنانچہ آپ كے ساتھيوں ميں سے ہرشخص كے حصے ميں پانچ سو سكے آئے _ اسى وقت وہاں ايك شخص آپ كى خدمت ميں حاضر ہوا _ اس نے عرض كيا يا اميرالمومنينعليه‌السلام مجھے بھى كچھ عطا فرمايئے اگر چہ ميں كسى وجہ سے جنگ ميں شركت نہ كرسكا ليكن ميرى نيك خواہشات آپ كے ساتھ تھيں _ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنا حصہ اسے ديديا_(۵)

جنگ جمل كے ناخوشگوار نتائج

جنگ جمل كے جو اثرات و نتائج رونما ہوئے وہ نہايت ہى ناخواشگوار تھے ان ميں سے بعض كا ہم يہاں ذكر كرتے ہيں _

۱_ اس جنگ ميں دس ہزار سے زيادہ مسلمان قتل ہوئے _(۶) درحقيقت يہ افراد ''ناكثين'' كے حسد اور ان كے جذبہ جاہ طلبى پر قربان ہوئے _ مورخين نے لكھا ہے كہ دو لشكروں كے اتنے سپاہى زمين پر گرے كہ اگر ان كى لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جاتے تو گھوڑوں كے سم ان كى لاشوں كے علاوہ كسى اور چيز نہ پڑتے _ لاشوں كے يہ انبار اس عظےم جنگ كا حاصل و ثمرہ تھا جو جمل كے نام سے مشہور ہوئي اس سے قبل بھى بيان كياجاچكا ہے كہ بيشتر افراد ناكثين كے ہاتھوں ہى مارے گئے_

۱۵۵

مقتولين كى اس كثير تعداد نے بہت سى اقتصادى مشكلات نيز جسمانى و نفسياتى دشوارياں مسلمانوں كے لئے پيدا كرديں _

۲_ اس جنگ كے بعد مسلمانوں ميں سے جذبہ اخوت و برادرى قطعى مفقود ہوگيا اور امت مسلمہ پر فتنہ وفساد كے دروازے كھل گئے اور جنگ صفين بھڑك اٹھى در حقيقت يہ دو جنگيں اس مضبوط رسى سے بندھى ہوئي تھيں جس كا پہلا سرا بصرہ ميں تھا اور دوسرا صفين ميں اگرچہ عائشہ كى عثمان سے قرابت دارى نہ تھى ليكن جنگ جمل نے معاويہ كے لئے اس بناپر شورش وسركشى كا راستہ ہموار كرديا كہ وہ خاندان اميہ كے فرد اور عثمان كے رشتہ دار تھے چنانچہ اس جنگ كے باعث معاويہ كے لئے يہ بہانہ پيدا ہوگيا كہ اس نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف جنگ و جدل كرنے كے علاوہ خلافت كوا پنے خاندان ميں منتقل كرديا درحاليكہ يہ مقتول خليفہ كا ہى خاندان تھا اور يہيں سے خلافت نے موروثى شكل اختيار كرلى _

۳_جنگ جمل كے ضرر رسان نتائج جنگ صفين كے بعد بھى باقى رہے اور جنگ نہروان درحقيقت دو پہلى جنگوں (جنگ جمل و جنگ صفين)كا ہى نتيجہ تھى كيونكہ ان دو جنگوں كے باعث بعض تنگ نظر اور كوتاہ فكر لوگوں كے دلوں ميں بدگمانى كے جذبات ابھرنے لگے _ چنانچہ عملى طور پر وہ تشويش و اضطراب اور حالت تردد كا شكار ہو كر رہ گئے نيز معاشرے كى طرف سے وہ ايسے بدبين و بدظن ہوئے كہ ہر شخص دوسرے كو عداوت و دشمنى كى نگاہ سے ديكھنے لگے_

بعض وہ لوگ جو ''خوارج '' كہلائے اس رائے كے حامى و طرفدار تھے كہ چونكہ ''ناكثين'' كے سرداروں نے اپنے پيشوا يعنى حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف شورش و سركشى كى ہے اس لئے ان كا شمار كفار ميں ہے اس كے بعد ان كے دلوں ميں يہ گمان پيدا ہوگيا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے چونكہ اپنى حكومت كے استحكام كى خاطر يہ جنگ كى اس لئے وہ بھى آئين دين اسلام سے خارج ہوگئے_

بعض لوگوں كى يہ رائے تھى كہ جنگ جمل ميں اگر چہ حضرت علىعليه‌السلام حق بجانب تھے ليكن آپعليه‌السلام نے چونكہ اہل بصرہ كى تمام دولت كو بطور مال غنيمت جمع نہيں كيا اور ان كى عورتوں كو قيد نہيں كيا اسى

۱۵۶

لئے يہ آپ سے غلطى سرزد ہوئي چنانچہ اسى بناپر وہ آپ عليه‌السلام كو ناشايستہ الفاظ سے ياد كرنے لگے_

انہيں ميں سے تيسرا گروہ ايسا بھى تھا جو ان دونوں گروہوں كو كافر سمجھتا تھا اور اس كا يہ عقيدہ تھا كہ يہ لوگ ہميشہ جہنم ميں رہيں گے _(۷)

كوفہ دارالحكومت

جنگ جمل كے مسائل اور بصرہ كى حكومت كے معاملات حل و منظم كرنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے مدينہ اور بصرہ كے لوگوں كو خطوط لكھے جن ميں آپعليه‌السلام نے جنگ جمل كے واقعات مختصر طور پر بيان كئے وہ خط جو اہل كوفہ كو لكھا تھا اس ميں آپعليه‌السلام نے مزيد يہ بھى مرقوم فرمايا تھا كہ ميں جلدى ہى كوفہ كى جانب آؤں گا(۸) اس ارادہ كے تحت آپعليه‌السلام جنگ جمل كے ايك يا دو ماہ بعد بصرہ سے كوفہ كى جانب روانہ ہوئے_

بصرہ كے بعض سربرآوردہ لوگ بھى حضرت علىعليه‌السلام كے ہمركاب تھے كوفہ كے لوگ بالخصوص قاريان قرآن حضرت علىعليه‌السلام كے استقبال كے لئے شہر سے باہر نكل آئے او رآپعليه‌السلام كے حق ميں انہوں نے دعائے خير كى _

حضرت علىعليه‌السلام بتاريخ ۱۲ رجب سنہ ۳۶ ھ ميں اس مقام پر فروكش ہوئے جو ''رحبہ(۹) '' كے نام سے مشہور تھا وہاں سے آپ سيدھے جامع مسجد تشريف لے گئے اور وہاں آپ نے دو ركعت نماز ادا كى _(۱۰)

كوفہ كے واقعات بيان كرنے سے قبل يہاں لازم ہے كہ ہم ان اسباب و علل كا جائزہ ليں جن كے باعث كوفہ كو اسلامى حكومت كا مركز قرار ديا _

كوفہ كو اسلامى حكومت كا مركز قرار ديئے جانے كے سلسلے ميں مورخين نے بہت سے اسباب وعلل بيان كئے ہيں _ ان ميں ايك وجہ يہ تھى كہ مالك اشتر او كوفہ كے ديگر سربرآوردہ لوگوں كا يہ اصرار تھا كہ اس شہر كو اسلامى حكومت كا مركز بنايا جائے دوسرى وجہ يہ تھى كہ جنگ جمل كے بعد بعض

۱۵۷

لوگ فرار كركے كوفہ كى جانب چلے آئے تھے اور اس بناء پر حضرت على عليه‌السلام نے مجبوراً فيصلہ كيا كہ ان كے فتنے كى سركوبى كے لئے كوفہ كى جانب روانہ ہوں _(۱۱)

ليكن جب ہم ان حوادث اور مسائل كا جائزہ ليتے ہيں جو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے اس وقت موجود تھے جب آپعليه‌السلام نے زمام حكومت سنبھالى تو ہم اس نتيجہ پر پہنچتے ہيں كہ وہ ديگر مسائل تھے جو حضرت علىعليه‌السلام كے لئے مركز حكومت منتقل كرنے كے محرك ہوئے_

اس سے پہلے بتايا جا چكا ہے كہ ''فتنہ ناكثين'' سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كا خيال تھا كہ ايسى عسكرى طاقت منظم ہوجائے جس كے ذريعے معاويہ كا مقابلہ كياجاسكے مگر ناكثين كى شورش نے اس معاملے ميں تاخير پيدا كردى چنانچہ فطرى طور پر معاويہ نے اس معاملے كو غنيمت جانا اور اس نے حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف جنگ كرنے كى غرض سے كافى فوجى طاقت نيز اور ديگر وسائل فراہم كرليئے_ معاويہ نے شام كے لوگوں كو مطيع و فرمانبردار كرنے كے علاوہ اس نے عثمان كے خون كا بدلہ لينے كے بہانے سے لوگوں كے جذبات مشتعل كئے چنانچہ عراق كى جانب جو خطوط بھيجے اور جن صاحب اثر و رسوخ افراد كو روانہ كيا ان كا اصلى سبب يہ تھا كہ سرداران قبائل اور فرمانداران لشكر كو وہ اپنى جانب متوجہ كرلے_

معاويہ جانتا تھا كہ فتوحات اور اسلامى قلمرو كے وسعت پذير ہونے كے باعث شام كوفہ و بصرہ تين اہم مركز بن گئے ہيں اور حجاز فوجى طاقت كے اعتبار سے خاصا دور ہوگياہے_

يمن ميں بھى قابل توجہ و اعتنا عسكرى طاقت موجود نہ تھى چنانچہ جس وقت ''بسر بن ارطاة''نے اس منطقے ميں شورش و سركشى كى تو حضرت علىعليه‌السلام كا كارپرداز اس كے مقابل اپنا دفاع نہ كرسكا اور يا يہ كہ جنگ جمل ميں تقريبا سات سو افراد ہى حضرت علىعليه‌السلام كى مدد كےلئے ربذہ پہنچے اور اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام نے ''ذى قار'' ميں توقف فرمايا تاكہ لشكر كوفہ وہاں آجائے_

يہى وہ مسائل تھے جو حضرت علىعليه‌السلام كى تيز بين و دور انديش نظروں سے پنہاں نہ رہ سكے آپعليه‌السلام كو علم تھا معاويہ نے شام ميں اس موقع سے فايدہ اٹھايا ہے _ چنانچہ عسكرى طاقت كے علاوہ اس

۱۵۸

نے ديگر وسائل جنگ بھى فراہم كرلئے ہيں اس بنا پر حضرت على عليه‌السلام كے لئے ضرورى تھا كہ وہ بھى عظےم مسلح لشكر تيار كريں تاكہ معاويہ سے نبرد آزمائي كى جاسكے اس كے علاوہ يہ بھى ضرورى تھا كہ دشمن كى نگرانى نزديك سے كى جائے كيونكہ اس سے كسى وقت بھى زور آزمائي ہوسكتى ہے_

ان دو مقاصد كے پيش نظر بصرہ اور كوفہ ميں سے كسى ايك شہر منتخب كيا جاسكتا تھا_ اب بصرہ بھى ايسى جگہ نہيں تھى جہاں زيادہ دن تك قيام كياجاسكے كيونكہ فتنہ جمل كى آگ سرد كرنے كے لئے وہاں بہت زيادہ خون بہايا گيا تھا اور جنگ كے بعد جو لوگ زندہ رہ گئے تھے انكے دلوں ميں حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كيلئے جوش وخروش نہيں تھا_ بلكہ وہ ايك اعتبار سے پست ہمت و كم حوصلہ ہوچكے تھے اسى بناپر وہ حضرت علىعليه‌السلام كے لئے بھى قابل اعتماد نہ تھے _ چنانچہ ان وجوہات كى بناء پر بہترين اور مناسب ترين شہر كوفہ ہوسكتا تھا _

چنانچہ معاويہ كى طرف سے جب تك خطرے كا امكان ہوسكتا تھا اس وقت تك حكومت كى مصلحت كا تقاضا يہى تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كوفہ ميں ہى تشريف فرما رہيں _

كوفہ پہنچنے پر علىعليه‌السلام كے اقدامات

كوفہ پہنچنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام سہر كى مسجد ميں تشريف لے گئے جہاں آپ نے لوگوں سے خطاب كيا اس موقع پر آپ نے اہل كوفہ كى قدر كرتے ہوئے ان كى حوصلہ افزائي كى كہ انہوں نے آپعليه‌السلام كى دعوت كو قبول كيا _ اپنے خطبے ميں آپ نے ہوا وہوس نيز لمبى لمبى آرزوں سے گريز كرنے كى ہدايت فرمائي اور ان لوگوں كو تنبيہہ كى جو آپعليه‌السلام كى مدد كرنے سے روگردان ہوگئے تھے_

اس كے بعد آپ نے ''جعدہ بن غيبرہ '' مخزومى كے مكان پر قيام فرمايا _(۱۳) بتاريخ ۱۶ رجب بروز جمعہ آپ مسجد ميں تشريف لے گئے جہاں پہلى مرتبہ آپ نے نماز جمعہ كى امامت فرمائي _(۱۴)

۱۵۹

اس كے بعد آپ نے امور حكومت كى جانب توجہ فرمائي ، اپنے اقدامات ميں حاكم آذربائيجان ''اشعث بن قيس'' اور ہمدان كے عامل و كار پرداز ''جرير ابن عبداللہ'' كو انكے مناصب سے برطرف كيا جو كہ عثمان كے مقرر كردہ واليان حكومت تھے ان دونوں كو اپنے پاس(۱۵) بلايا ،ا پنے ديگر كار پردازوں كو مختلف مناطق كى جانب روانہ كيا چنانچہ ''يزيد ابن قيس '' كو حكومت مدائن ، ''مخنف بن سليم'' كو حكومت اصفہان و ہمدان اور مالك اشتر كو موصل كى منصب دارى عطا كى _(۱۶)

قاسطين

ناكثين كا فتنہ دب جانے كے بعد ايسے ناہنجار حالات پيدا ہونے لگے كہ جن ميں خالص نسلى اور قبائلى محركات كارفرماتھے _ اب اس اسلامى فكر كو پيش كرنے كى كوشش كى جانے لگى جس ميں سے روح تو مفقود ہوچكى تھى بس ظاہرى خول باقى رہ گيا تھا _ اب اسلام كى قدرت كو بچانے كيلئے خليفہ مسلمين كى روز افزوں طاقت مسئلہ تھى اس لئے حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے راستے ميں جو دوسرا خطرہ تھا وہ ''قاسطين'' كا وجودتھا قاسطين كا مجمع در حقيقت ان عاملين اور جماعتوں كى منظم شكل تھى جنہيں حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت سے كسى نہ كسى طرح گزند پہنچى تھى اور انہيں يہ خطرہ لاحق تھا كہ اگر حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت بر سر اقتدار رہى تو وہ اپنى نفسانى خواہشات كو پورا كرنے ميں كامياب نہ ہوسكيں گے_

ان تمام گروہوں اور جماعتوں كا سربراہ معاويہ تھا _ اس نے اپنے سياسى و اجتماعى موقف كى بناپر اپنے گرد بہت سے پيروكار جمع كرلئے تھے_

معاويہ ابن ابى سفيان نے فتح مكہ كے بعد دين اسلام قبول كيا تھا وہ ان افراد ميں شامل تھا جو جنگ كے دوران مسلمانوں كى حراست ميں آگئے تھے اور جنہيں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ فرمايا كر آزاد كرديا تھا جاؤ تم سب آزاد ہو _(۱۷) سنہ ۱۲ھ ميں جس وقت ابوبكر نے ''يزيد ابن ابى سفيان'' كى

۱۶۰