تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 11%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175286 / ڈاؤنلوڈ: 4063
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تاريخاسلام (۳)

امير المؤمنينعليه‌السلام كى حيات طيبہ

مؤلف : مركز تحقيقات اسلامي

مترجم : معارف اسلام پبلشرز

۳

نام كتاب: تاريخ اسلام ۳ (امير المؤمنينعليه‌السلام كى حيات طيبہ)

مؤلف: مركز تحقيقات اسلامي

مترجم: معارف اسلام پبلشرز

ناشر: نور مطاف

جلد: سوم

اشاعت: سوم

تاريخ اشاعت: ربيع الثاني۱۴۲۸ھ _ق

تعداد: ۲۰۰۰

Web : www.maaref-foundation.com

E-mail: info@maaref-foundation.com

جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہيں _

۴

عرض ناشر:

ادارہ معارف اسلام پبلشرز اپنى اصلى ذمہ دارى كو انجام ديتے ہوئے مختلف اسلامى علوم و معارف جيسے تفسير، فقہ، عقائد، اخلاق اور سيرت معصومين(عليہم السلام) كے بارے ميں جانے پہچانے محققين كى قيمتى اور اہم تاليفات كے ترجمے اور طباعت كے كام كو انجام دے رہاہے_

يہ كتاب تاريخ اسلام ۳ (امير المؤمنينعليه‌السلام كى حيات طيبہ) جو قارئين كے سامنے ہے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہل بيت اطہار كى سيرت اور تاريخ پر لكھى جانے والى كتابوں كے سلسلے كى ايك كڑى ہے جسے گذشتہ سالوں ميں ترجمہ كرواكر طبع كيا گيا تھا_ اس ترجمہ كے دستياب نہ ہونے اور معزز قارئين كے مسلسل اصرار كے باوجود اس پر نظر ثانى اور اسے دوبارہ چھپوانے كا موقع نہ مل سكا_

خداوند عالم كے لطف و كرم سے اس سال كہ جسے رہبر معظم (دام ظلہ) كى جانب سے رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا سال قرار ديا گيا ہے، اس نفيس سلسلے كى تيسرى جلد كو ، نظر ثانى اور تصحيح كے بعد دوبارہ زيور طبع سے آراستہ كيا جارہاہے_ ہم اميد كرتے ہيں كہ خداوند متعال كے فضل و كرم، امام زمان (عجل اللہ تعالى فرجہ الشريف) كى خاص عنايت اور ادارے كے ساتھ تعاون كرنے والے محترم فضلاء كے مزيد اہتمام و توجہ سے اس سلسلے كى بعد والى جلدكہ جو حضرت زہرا اور ائمہ معصومين كى حيات طيبہ كے بارے ميں ہے كوبھى جلد از جلدچھپوا كر مطالعہ كے شائقين كى خدمت ميں پيش كرسكيں گے_

ان شاء اللہ تعالى

معارف اسلام پبلشرز

۵

حضرت على _ كى زندگي مختلف ادوار

حضرت علىعليه‌السلام كى تريسٹھ سالہ زندگى كو پانچ ادوار ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے :

۱_ ولادت سے حضرت محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مبعوث ہونے تك _

۲_ بعثت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت تك

۳_ ہجرت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت تك

۴_ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك

۵_ خلافت ظاہرى سے شہادت تك

۶

پہلا سبق

ولادت سے حضرت محمد مصطفيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مبعوث بہ رسالت ہونے تك

ولادت

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زير دامن آپ كى پرورش

بعثت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت تك

حضر ت علىعليه‌السلام وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے دين اسلام قبول كيا

بے نظير قربانى

ہجرت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت تك

علىعليه‌السلام رسول خدا كے امين

علىعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بھائي

علىعليه‌السلام اور راہ خدا ميں جنگ

علىعليه‌السلام جنگ بدر كے بے نظير جانباز

حضرت علىعليه‌السلام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تنہا محافظ

جنگ خندق ميں علىعليه‌السلام كا كردار

۷

علىعليه‌السلام فاتح خيبر

امير المومنينعليه‌السلام كى سياسى زندگى ميں جنگجوئي كے اثرات

حضرت علىعليه‌السلام اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى

حديث يوم الدار

حديث منزلت

قرآن مجيد ميں حضرت ہارونعليه‌السلام كے مقامات و مناصب

حديث غدير

سوالات

حوالہ جات

۸

ولادت

حضرت علىعليه‌السلام نے ۱۳ رجب بروز جمعہ ' عام الفيل(۱) كے تيسويں سال ميں (بعثت سے دس سال قبل) خانہ كعبہ ميں ولادت پائي اس نومولود بچے كے والد كا نام عمران(۲) تھا وہ قبيلہ بنى ہاشم كے سردار تھے اور مكہ كے بااثر لوگوں ميں شمار كئے جاتے تھے آپكى والدہ فاطمہ بن اسد ابن ہاشم ابن عبد مناف تھيں _ آپعليه‌السلام كو خانہ كعبہ كے طواف كے درميان درد زہ محسوس ہوا چنانچہ آپ معجزے كے زير اثر خانہ كعبہ كى عمارت ميں داخل ہو گئيں جہاں حضرت علىعليه‌السلام كى ولادت ہوئي_

خانہ كعبہ ميں امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كى ولادت كو عام شيعہ مورخين و محدثين اور علم انساب كے دانشوروں نے اپنى كتابوں ميں تحرير كيا ہے اور اب تك كسى دوسرے شخص كو يہ فضيلت حاصل نہيں ہوئي ہے(۳)

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زير دامن آپ كى پرورش

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جب پہلى مرتبہ وحى نازل ہوئي تو اس وقت حضرت عليعليه‌السلام كى عمر دس سال

۹

سے زيادہ نہ تھي_ حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كا وہ حساس ترين دور تھا جس ميں حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زير سايہ عاطفت آپ كى شخصيت كى تشكيل ہوئي آيندہ جو واقعات رونما ہونے والے تھے ان كا چونكہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مكمل علم تھا اور بخوبى يہ جانتے تھے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد حضرت علىعليه‌السلام ہى امت مسلمہ كے امور كى زمام سنبھاليں گے اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منظم دستورالعمل كے تحت اپنے زير دامن تربيت كى غرض سے اس وقت جب كہ حضرت علىعليه‌السلام كى عمر چھ ہى سال تھى ان كے والد كے مكان سے اپنے گھر منتقل كر ليا تاكہ براہ راست اپنى زير نگرانى تربيت و پرورش كرسكيں _(۴)

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حضرت علىعليه‌السلام سے اس قدر محبت تھى كہ آپ كو معمولى دير كى جدائي بھى گوارانہ تھى چنانچہ جب كبھى عبادت كى غرض سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مكہ سے باہر تشريف لے جاتے(۵) تو حضرت علىعليه‌السلام كو بھى ہمراہ لے جاتے_

حضرت علىعليه‌السلام نے اس دور كى كيفيت اس طرح بيان فرمائي ہے : يہ تو آپ سب ہى جانتے ہيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مجھ سے كس قدر انسيت تھى اور مجھے جو خاص قربت حاصل تھى اس كا بھى آپ كو علم ہے ميں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پر شفقت آغوش ميں پرورش پائي ہے جب ميں بچہ تھا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھے گود ميں لے ليا كرتے تھے مجھے آپ گلے سے لگاتے تھے اور اپنے ساتھ سلاتے تھے ميں اُن كے بدن كو اپنے بدن سے چمٹا ليتا تھا اور آپ كے بدن كى خوشبو سونگھتا تھا ، آپ نوالے چباتے اور ميرے منھ ميں ديتے تھے '' _

جس طرح ايك بچہ اپنى ماں كے پيچھے چلتا ہے اسى طرح ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيچھے پيچھے چلتا تھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر روز اپنے اخلاقى فضائل كا پرچم ميرے سامنے لہراتے اور فرماتے كہ ميں بھى آپ كى پيروى كروں _(۶)

اس دوران حضرت علىعليه‌السلام نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اخلاق گرامى اور فضائل انسانى سے بہت زيادہ كسب فيض كيا اور آپ كى زير ہدايت و نگرانى روحانيت كے درجہ كمال پر پہنچ گئے_

۱۰

بعثت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت تك

حضرت علىعليه‌السلام وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے دين اسلام قبول كيا _

حضرت علىعليه‌السلام كا اولين افتخار يہ ہے كہ آپ نے سب سے پہلے دين اسلام قبول كيا بلكہ صحيح معنوں ميں يوں كہيئے كہ آپ نے اپنے قديم دين كو آشكار كيا _

دين اسلام قبول كرنے ميں پيشقدمى وہ اہم موضوع ہے جس كو قرآن نے بھى بيان كيا ہے(۷) يہى نہيں بلكہ جن لوگوں نے فتح مكہ سے قبل دين اسلام قبول كيا اور راہ خدا ميں اپنے جان و مال كو نثار كيا انھيں ان لوگوں پر فوقيت دى ہے جو فتح مكہ كے بعد ايمان لائے اور جہاد كيا(۸) اس پس منظر ميں اس شخص كى عظمت كا اندازہ لگايا جاسكتا ہے جو سب سے پہلے دين اسلام سے مشرف ہوا اور اس وقت ايمان لايا جب كہ ہر طرف دشمنان اسلام كى طاقت كا ہى دور دورہ تھا يہ ايك عظيم افتخار تھے كہ ديگر تمام فضائل اس كى برابرى نہيں كر سكتے _

بہت سے مورخين كا اس بات پر اتفاق ہے كہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر پہلى مرتبہ وحى پير كے دن نازل ہوئي اور اس كے اگلے دن حضرت علىعليه‌السلام ايمان لائے _(۹)

حضرتعليه‌السلام نے دين اسلام قبول كرنے ميں جو دوسروں پر سبقت حاصل كى سب سے پہلے خود پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كى صراحت كرتے ہوئے صحابہ كے مجمع عام ميں فرمايا تھا '' روز قيامت مجھ سے حوض كوثر پر وہ شخص سب سے پہلے ملاقات كرے گا جس نے دين اسلام قبول كرنے مےں تم سب پر سبقت كى اور وہ ہے على بن ابى طالبعليه‌السلام (۱۰)

خود حضرت علىعليه‌السلام نے بھى مختلف مواقع پر اس حقيقت كى صراحت فرمائي ہے _ايك جگہ آپ فرماتے ہيں '' اس روز جب كہ اسلام كسى كے گھر تك نہيں پہنچا تھا اور صرف پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و حضرت خديجہعليه‌السلام اس دين سے مشرف ہوئي تھيں ميں تيسرا مسلمان تھا _ ميں نور وحى و رسالت كو ديكھتا تھا اور نبوت كى خوشبو سونگھتا تھا _(۱۱)

۱۱

دوسرى جگہ آپ فرماتے ہے : '' خدا وندا ميں وہ پہلا شخص ہوں جس نے تيرى طرف رجوع كيا ، تيرے پيغام كو سنا امور تيرے پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دعوت پر لبيك كہا ''(۱۲)

بے نظيرقربانى

آپ كے ديگر افتخار ميں سے ايك افتخار يہ بھى ہے جب آپعليه‌السلام شب ہجرت (جوكے ليلة المبيت كے نام سے مشہور ہے)پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بستر پر سو گئے اور اس دوران آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مكہ سے مدينے ہجرت فرمائي اور تمام مورخين نے اس واقعہ كو بيان كيا ہے اہل قريش ميں سے چاليس بہادروں نے يہ فيصلہ كر ليا تھا كہ اس رات رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قتل كر ديں اس غرض سے انہوں نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر كو نرغے مےں لے ليا _ اس رات حضرت علىعليه‌السلام نے اپنى جان كى بازى لگا كر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حفاظت فرمائي اور جو خطرات رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو پيش آنے والے تھے ان كو اپنے مول لے ليا _

يہ قربانى اس قدر اہم اور قابل قدر تھى جيسا كہ متعدد روايات(۱۳) سے معلوم ہوتا ہے كہ اللہ تعالى نے اس موقع پر يہ آيت نازل فرمائي (ومن الناس من يشرى نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رء وف بالعباد)(۱۴) يعنى انسانوں ميں سے كوئي ايسا بھى ہے جو رضائے الہى كى طلب ميں اپنى جان كھپا ديتا ہے اور ايسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے _

ہجرت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت تك

عليعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے امين

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جب يہ حكم ملاكہ مكہ سے مدينہ تشريف لے جائيں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اپنے قبيلے كے افراد ميں كوئي بھى ايسا شخص نظر نہ آيا جو حضرت علىعليه‌السلام سے زيادہ امين و صادق ہو چناچہ اس بناء پر رسول خدا

۱۲

نے على عليه‌السلام كو اپنا جانشين مقرر كيا اور فرمايا كہ لوگوں كو ان كى امانتيں جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس تھيں واپس كر ديں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جو قرض واجب ہيں انھيں بھى ادا كر ديں اس كے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دختر فاطمہعليه‌السلام اور بعض ديگر خواتين كو ساتھ لے كر مدينہ آجائيں _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت كے بعد حضرت علىعليه‌السلام ان امور كو انجام دينے كے لئے جن كے بارے ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا تين دن تك مكہ ميں تشريف فرما رہے اس كے بعد آپ اپنى والدہ فاطمہ ' دختر رسول خدا حضرت فاطمہعليه‌السلام فاطمہ بن زبير اور ديگر بعض عورتوں كے ہمراہ پيدل مدينہ كى جانب روانہ ہوئے اور قبا ميں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جاملے(۱۵)

جس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظر حضرت علىعليه‌السلام پر پڑى تو ديكھا كہ حضرت علىعليه‌السلام كے پيروں ميں پيدل چلنے سے چھاليں پڑ گئي ہيں اور ان سے خوں ٹپكنے لگا ہے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى انكھوں ميں آنسو بھر آئے اور آپ نے فرط محبت سے گلے لگا ليا اور آپ كے حق مےں دعا كى اس كے بعد آپ نے لعاب دہن حضرت عليعليه‌السلام كے پيروں پر لگايا جس كى وجہ سے زخم بھر گئے _(۱۶)

عليعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بھائي

ہجرت كر كے مدينہ تشريف لے جانے كے بعد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو اہم و سودمند اقدامات كئے ان ميں ايك يہ تھا كہ مہاجرين و انصار كے درميان رشتہ اخوت و برادرى بر قرار كيا چنانچہ اس وقت مسجد ميں جتنے بھى لوگ موجود تھے ان كے درميان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كے علاوہ رشتہ برادرى قائم كر ديا _ حضرت علىعليه‌السلام تنہا رہ گئے تھے آپ نے پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں عرض كيا : يا رسول اللہ آپ نے ميرے علاوہ ہر ايك كو رشتہ برادرى ميں منسلك كر ديا ؟ اس موقع پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ تاريخى جملہ اپنى زبان مبارك سے ادا كيا جس سے يہ اندازہ ہوتا ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظر ميں حضرت عليعليه‌السلام كا كيا مقام تھا اور آپ كى نظروں ميں انكى كتنى وقعت و اہميت تھى _

آپ نے فرمايا '' قسم ہے اس خدا كى جس نے مجھے حق كے ساتھ مبعوث كيا ميں نے تمہارے

۱۳

رشتہ برادرى ميں تاخير نہيں كى بلكہ تمہيں اپنے رشتہ اخوت و برادرى كے ليے منتخب كيا ہے تم ہى دين و دنيا ميں ميرے بھائي ہو ''( ۱۷ ) _

علىعليه‌السلام اور راہ خدا ميں جنگ

حضرت على كى شخصيت اپنى قربانيوں اور راہ حق ميں جانبازيوں كے باعث صحابہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے درميان لاثانى و بے مثال ہے(۱۸) غزوہ تبوك كے علاوہ آپ نے تمام غزوات ميں شركت كى اور غزوہ تبوك ميں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہدايت كے مطابق آپ مدينہ ميں مقيم رہے يہ آپ كى قربانى اور جانبازى كا ہى نتيجہ تھا كہ سپاہ اسلام نے سپاہ شرك پر غلبہ حاصل كيا اگر اسلام كے اس جيالے كى جانبازياں نہ ہوتيں تو ممكن تھا كہ وہ مشرك و كافر جو مختلف جنگوں ميں اسلام كے خلاف بر سرپيكار رہے چراغ رسالت كو آسانى سے خاموش اور پرچم حق كو سرنگوں كر ديتے _

يہاں ہم حضرت علىعليه‌السلام كى ان قربانيوں كا سر سرى جائزہ ليں گے جو آپ نے جنگ كے ميدانوں (بدر ' احد ' خندق اور خيبر)ميں پيش كيں _

عليعليه‌السلام جنگ بدر كے بے نظير جانباز

جنگ بدر ميں حضرت علىعليه‌السلام كى شخصيت دو وجہ سے نماياں رہى _

۱ _ جنگ فرد بفرد : جس وقت مشركين كے لشكر سے عتبہ ' شيبہ اور وليد جيسے تين نامور دليروں نے ميدان جنگ ميں اتر كر سپاہ اسلام كو للكارا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم پر حضرت عبيدہ بن حارث ' حمزہ بن عبدالمطلب اور على بن ابى طالبعليه‌السلام ان سے جنگ كرنے كے لئے ميدان جنگ مےں اتر آئے _ چنانچہ حضرت عبيدہ عتبہ سے ' حضرت حمزہ ، شيبہ سے اور حضرت علىعليه‌السلام وليد سے برسر پيكار ہو گئے _

۱۴

مورخين كا بيان ہے : حضرت على عليه‌السلام نے پہلے ہى وار ميں دشمن كو قتل كر ڈالا ' اس كے بعد آپعليه‌السلام حضرت حمزہ كى مدد كے لئے پہنچے اور ان كے حريف كے بھى دم شمشير سے دو ٹكڑے كرديئے اس كے بعد يہ دونوں بزرگ حضرت عبيدہ كى جانب مدد كى غرض سے بڑھے اور ان كے حريف كو بھى ہلاك كر ڈالا(۱۹) _

اس طرح آپعليه‌السلام لشكر مشركين كے تينوں نامور پہلوانوں كے قتل ميں شريك رہے _ چنانچہ آپ نے معاويہ كو جو خط لكھا تھا اس ميں تحرير فرمايا كہ وہ تلوار جس سے ميں نے ايك ہى دن ميں تيرے دادا (عتبہ)' تيرے ماموں (وليد)' تيرے بھائي (حنظلہ)اور تيرے چچا (شيبہ)كو قتل كيا تھا اب بھى ميرے پاس ہے(۲۰) _

۲ _ اجتماعى و عمومى جنگ_ مورخين نے لكھا ہے كہ جنگ بدر ميں لشكر مشركين كے ستر(۷۰)

سپاہى مارے گئے جن ميں ابوجہل ' اميہ بن خلف ' نصر بن حارث و اور ديگر سر برآوردہ سرداران كفار شامل تھے ' ان ميں سے ستائيس سے پينتيس كے درميان حضرت علىعليه‌السلام كى شمشير كے ذريعہ لقمہ اجل ہوئے ، اس كے علاوہ بھى دوسروں كے قتل ميں بھى آپ كى شمشير نے جو ہر دكھائے _ چنانچہ اس وجہ سے قريش آپ كو '' سرخ موت ''كہنے لگے كيونكہ اس جنگ ميں انھيں ذلت و خوارى اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے ہاتھوں نصيب ہوئي تھى(۲۱) _

حضرت علىعليه‌السلام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تنہا محافظ

جنگ احد ميں بھى حضرت علىعليه‌السلام كے كردار كا جائزہ دو مراحل ' يعنى مسلمانوں كى فتح و شكست ' كے پس منظر ميں ليا جاسكتا ہے _

مرحلہ فتح و كاميابى :

اس مرحلے ميں لشكر اسلام كو كاميابى اور مشركين كو پسپائي آپ ہى كے دست مبارك سے ہوئي_ لشكر قريش كا اولين پر چمدار طلحہ بن ابى طلحہ جب حضرت علىعليه‌السلام كے حملوں كى تاب نہ لاتے

۱۵

ہوئے زمين پر گر گيا تو اس كے بعد دوسرے نو افراد نے يكے بعد ديگر پرچم لشكر اپنے ہاتھوں ميں ليا ليكن جب وہ بھى حضرت علىعليه‌السلام كى شمشير سے مارے گئے تو لشكر قريش كے لئے راہ فرار كے علاوہ كوئي چارہ نہ تھا(۲۲) _

مرحلہ شكست :

جب آبناے '' عينين'' كے بيشتر كمانداروں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے سرتابى كى اور اپنى جگہ سے ہٹ گئے تو اس وقت خالد بن وليد اپنے گھڑ سوار لشكر كے ساتھ اس پہاڑ كا چكر كاٹ كر اس آبنائے كى راہ سے مسلمانوں پر ايك دم حملہ آور ہوا چونكہ يہ حملہ اچانك اور انتہائي كمر شكن تھا اسى لئے جنگ كے اس مرحلے ميں ستر مسلمانوں كو شہادت نصيب ہوئي اور باقى جو چند بچ گئے تھے انھوں نے راہ فرار اختيار كى _

اس مرحلے ميں حضرت علىعليه‌السلام كا اہم ترين كردار يہ تھا كہ آپ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وجود مقدس كى پاسبانى و حفاظت كے فرائض انجام دے رہے تھے _

ان حالات مےں جبكہ چند مسلمانوں كے علاوہ سب اپنى جان بچانے كى خاطر ميدان جنگ سے فرار كر گئے اور لشكر قريش نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ہر طرف سے اپنے حملوں كا نشانہ بناليا تو اس وقت حضرت علىعليه‌السلام ہى تھے جنہوں نے اپنے حملوں سے دشمن كو آگے بڑھنے سے روكا چنانچہ دشمنان اسلام كا وہ گروہ جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نزديك آكر حملہ كرنا چاہتا تھا آپ ہى كى تيغ سے ہلاكت كو پہنچا_

اميرالمومنين علىعليه‌السلام كى يہ قربانى اتنى اہم و قابل قدر تھى كہ حضرت جبرئيلعليه‌السلام نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اس كى مبارك بادى دى چنانچہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى يہ فرمايا كہ :''على منى و انا من على '' (يعنى على مجھ سے ہيں اور ميں على سے ہوں ) اس قربانى كو قدر ومنزلت كى نگاہ سے ديكھا اور جب غيب سے يہ ندا آئي :''لا سيف الا ذوالفقار و لا فتى الا علي'' تو دوسروں كو بھى حضرت علىعليه‌السلام كى اس قربانى كا انداز ہ ہوا(۲۳)

خود حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے اصحاب كے ساتھ اپنى گفتگو كے درميان اس قربانى كا ذكر كرتے

۱۶

ہوئے فرمايا : جس وقت لشكر قريش نے ہم پر حملہ كيا تو انصار ومہاجرين نے اپنے گھروں كى راہ اختيار كى مگر ميں ستر سے زيادہ زخم كھانے كے باوجود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مدافعت و پاسبانى كرتا رہا_(۲۴ )

حضرت علىعليه‌السلام نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پاسبانى و مدافعت كى خاطر دشمن كا جم كر مقابلہ كيا كہ آپ كى تلوار ٹوٹ گئي اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى وہ شمشير جس كا نام ''ذوالفقار'' تھا آپ كو عطا فرمائي چنانچہ آپ نے اسى سے راہ خدا ميں اپنے جہاد كو جارى ركھا _(۲۵)

جنگ خندق ميں علىعليه‌السلام كا كردار

مختلف لشكروں (احزاب) كے دس ہزار سپاہيوں نے تقريباً ايك ماہ تك مدينہ كا محاصرہ جارى ركھا _ اتنى مدت گذرجانے كے بعد بالآخر دشمن كو اس كے علاوہ كوئي چارہ نظر نہ آيا كہ وہ اپنے مضبوط وطاقتور لشكر كو جس طرح بھى ممكن ہو سكے خندق پار كرائے_ اس فيصلے كے بعد عربوں كے ''نامور پہلوان عمر بن عبدود'' نے اپنے ساتھ پانچ سپاہى ليے اور اس جگہ سے جہاں خندق كم چوڑى تھى پار كرآيا اور جنگ كے لئے للكارا _ حضرت علىعليه‌السلام نے اس كى اس دعوت جنگ كو قبول كيا اور اس كے نعروں كا جواب دينے كيلئے آگے بڑھے چنانچہ سخت مقابلے كے بعد عربوں كاوہ دلاور ترين جنگجو پہلوان جسے ايك ہزار جنگى سپاہيوں كے برابر سمجھا جاتا تھا ، حضرت علىعليه‌السلام كى شمشير سے زمين پر گر پڑا عمرو كے ساتھيوں نے جب اس كى يہ حالت ديكھى تو وہ فرار كرگئے اور ان ميں سے جو شخص فرار نہ كرسكا وہ ''نوفل' تھا _ چنانچہ وہ بھى حضرت علىعليه‌السلام كے ايك ہى وار سے عمرو سے جاملا_ عمروبن عبدود كى موت (نيز بعض ديگر عوامل) اس امر كا باعث ہوئے كہ جنگ كا غلغلہ دب گيا او رمختلف لشكروں ميں سے ہر ايك كو اپنے گھر واپس جانے كى فكر دامنگير ہوئي_

اس جنگ ميں حضرت علىعليه‌السلام نے ميدان جنگ كى جانب رخ كيا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: خدايا جنگ بدر كے دن عبيدہ اور احد ميں حمزہ كو تو نے مجھ سے جدا كرديا اب علىعليه‌السلام كو تو ہرگزند سے محفوظ فرما_ اس

۱۷

كے بعد آپ نے يہ آيت پڑھى( رب لا تذرنى فردا و انت خيرالوارثين ) _(۲۶)

جب عمرو كے ساتھ ميدان جنگ ميں مقابلہ ہوا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا :

''برزالايمان كله الى الشرك كله'' (*) يعنى ايمان وشرك كے دو مظہر كامل ايك دوسرے كے مقابل ہيں )

ا ور جب آپ ميدان جنگ سے فاتح و كامران واپس آئے تو پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا : ''لو وزن اليوم عملك بعمل امة محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لرجح عملك بعلمہم''_(يعنى اگر آج تمہارے عمل كا امت محمد كے تمام اعمال (پسنديدہ) سے مقابلہ كياجائے تو (بے شك) اس عمل كو ان پر برترى ہوگي_(۲۷)

علىعليه‌السلام فاتح خيبر

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہوديوں كے مركز ''خيبر'' كا محاصرہ كيا تو اس غزوہ كے ابتدائي دنوں ميں حضرت علىعليه‌السلام آشوب چشم كے باعث اس ميں شريك نہيں ہوسكتے تھے چنانچہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پرچم اسلام دو مسلمانوں كو ديا ليكن وہ دونوں ہى يكے بعد ديگرے كامياب ہوئے بغير واپس آگئے_

يہ ديكھ كر پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا يہ پرچم ان كا حق نہ تھا علىعليه‌السلام كو بلاؤ عرض كيا گيا كہ ان كى آنكھ ميں درد ہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ : علىعليه‌السلام كو بلاؤ وہى ايسا مرد ہے جو خدا اور اس كے رسول كو عزيز ہے وہ بھى خدا اور اس كے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو عزيز ركھتا ہے _(۲۸)

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حضور تشريف لائے تو آپ نے دعا فرماتے ہوئے اپنے دہان مبارك سے لعاب ان كى آنكھوں پر لگايا جس كے باعث درد چشم زائل ہوگيا اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے پرچم اٹھايا اور ميدان جنگ كى جانب روانہ ہوگئے_

يہودى دلاور اپنے قلعے سے نكل كر باہر آئے _ مرحب كابھائي حارث نعرا لگاتا ہوا حضرت علىعليه‌السلام كى جانب بڑھا مگر چند ہى لمحے بعد اس كا مجروح بدن خاك پر تڑپنے لگا _ مرحب اپنے بھائي كى

۱۸

موت سے سخت رنجيدہ خاطر ہوا چنانچہ اس كا انتقام لينے كى غرض سے وہ ہتھياروں سے ليس حضرت علىعليه‌السلام سے لڑنے كے لئے ميدان جنگ ميں اتر آيا _ پہلے تو دونوں كے درميان كچھ دير گفت و شنيد ہوئي مگر پلك جھپكتے ہى جانباز اسلام كى شمشير بران مرحب كے سر پر پڑى اوآن كى آن ميں اسے خاك پر ڈھير كرديا_ دوسرے يہودى دلاوروں نے جب يہ ماجرا ديكھا تو وہ بھاگ گئے اور اپنے قلعے ميں چھپ گئے اور دروازہ بند كرليا _ حضرت علىعليه‌السلام نے ان بھاگنے والوں كا تعاقب كيااور جب دروازہ بند پايا تو قدرت حق سے اسى دروازے كو جسے بيس آدمى مل كر بند كيا كرتے تھے تن تنہا ديوار قلعہ سے اكھاڑ ليا اور يہوديوں كى قلعہ خندق پر گرايا تاكہ سرباز اسلام اس كے اوپر سے گذر كر فساد اور خطرہ كے آخرى سرچشمہ كو كچل ديں _(۲۹)

عزوہ خيبر ميں چونكہ مسلمانوں كو حضرت علىعليه‌السلام كى قربانى و دلاورى سے فتح و كامرانى حاصل ہوئي تھى اسى وجہ سے آپ كو ''فاتح خيبر '' كے لقب سے ياد كيا جاتا ہے_

اميرالمومنينعليه‌السلام كى سياسى زندگى ميں جنگجوئي كے اثرات

حضرت علىعليه‌السلام كى شجاعت و دلاورى اور جرائتيں جوكہ مختلف غزوات، بالخصوص غزوہ بدر ميں ابھر كر سامنے آئيں ہم نے انكو مختصر طور پر يہاں بيان كيا ہے '' جس كى وجہ يہ ہے كہ ا سى جنگى پہلو كا اسلام كى آيندہ تاريخ اور آپعليه‌السلام كى سياسى زندگى كے حالات قلمبند كرنے ميں اہم ونماياں كردار تھے_ چنانچہ اس كے اثرات و نتائج كى تلاش و جستجو ہميں تاريخ اسلام ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد سے كرنى چاہيئے

راہ خدا ميں علىعليه‌السلام كى جانبازيوں او رآپ كے ہاتھوں مشركين كى ہلاكت (تمام غزوات، بالخصوص غزوہ بدر ميں )كى وجہ سے آپ كے خلاف كفار قريش كے دلوں ميں وہ دشمنى و عداوت پيدا ہوگئي جس كے اثرات بعد ميں منظر عام پر آئے_

عثمان اور حضرت علىعليه‌السلام كے درميان خليفہ وقت مقرر كئے جانے سے متعلق چھ ركنى كميٹى ميں جو

۱۹

گفتگو ہوئي اس سے اندازہ ہوتا ہے كہ كفار و قريش كے دلوں ميں آپ كے خلاف كس قدر دشمنى وعداوت تھى اس گفتگو كے اقتباس ہم يہاں پيش كرتے ہيں :

''مسئلہ خلافت كے سلسلہ ميں عثمان نے حضرت علىعليه‌السلام سے خطاب كرتے ہوئے كہا تھا ميں كيا كروں ، قريش آپ كو پسند نہيں كرتے كيونكہ آپ نے ان كے ايسے ستر(۷۰) آدميوں كو (جنگ بدر و احد اور ديگر غزوات ميں )تہ تيغ كيا ہے جن كا شمار قبيلے كے سرداروں اور سربرآوردہ اشخاص ميں ہوتا تھا (چنانچہ ان كے دلوں ميں بھى كينہ و عداوت ہے ''_(۳۰)

اس كى دوسرى مثال يزيد كے وہ اشعار ہےں جو اس نے حضرت سيد الشہداءعليه‌السلام اور آپ كے بہتّر عزيز و اقرباء اور ياران باوفا كى شہادت پر كہے تھے_ وہ لعين جب كہ نشہ فتح وكامرانى ميں مست و سرشار تھا اور حسين بن علىعليه‌السلام كا سر مبارك اس كے پاس لايا گيا تو اس ملعون نے اس موقعے پر جو اشعار كہے ان كا مفہوم يہ ہے: احمد (پيشوائے اسلام) نے جو كام انجام ديئے ہيں ان كے مقابل اگر ميں ان كى آل سے انتقام نہ لوں تو خندف كى نسل سے نہيں _

ہاشم نے دين كے نام پر حكومت حاصل كى تھى ورنہ اس پر نہ غيب سے خبر آئي تھى نہ وحى نازل ہوئي تھي_ ہم نے علىعليه‌السلام سے اپنا بدلہ ليا اور سوار شجاع اور سورما (حسين بن على (ع))كو قتل كرديا _(۳۱)

حضرت علىعليه‌السلام اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشيني

بلا شك و ترديد اسلام كے جو عظےم و اہم ترين مسائل ہيں ان ميں امت كى ولايت وقيادت نيز امور مسلمين كى راہبرى و سرپرستى بھى شامل ہے _ چنانچہ اس اہميت كو مد نظر ركھتے ہوئے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ كوشش تھى كہ آئندہ جس اسلامى معاشرے كى تشكيل ہوگئي اس كے مسئلہ رہبرى كو اپنے زمانہ حيات ميں ہى طے كرديں _ چنانچہ ''دعوت حق كے اولين روز سے ہى آپ نے توحيد كے ساتھ مسئلہ خلافت كو واضح كرنا شروع كردياتھا_ چونكہ حضرت علىعليه‌السلام ہى كى وہ شخصيت تھى جو تمام فضائل وكمالات كى مالك تھى اسلئے خداوند متعال كى طرف سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ملا كہ مسلمانوں كے دينى و

۲۰

دنيوى امور كى سرپرستى كےلئے اپنے بعد ان كى جانشينى كا اعلام فرماديں _

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس الہى پيغام كا اعلان مختلف مواقع پر فرمايا يہاں ہم اختصار كے پيش نظر ان تين احاديث كا ہى ذكر كريں گے جو آپ نے مختلف اوقات ميں بيان فرمائي ہيں :

۱_ حديث يوم الدار

۲_ حديث منزلت

۳_ حديث غدير

حديث يوم الدار

بعثت كى تين سال كے بعد جب يہ آيت نازل ہوئي ''وانذر عشيرتك الاقربين''(۳۲) يعنى رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كام پر مامور كئے گئے كہ وہ سب سے پہلے اپنے عزيز واقرباء كو دعوت اسلام ديں _ اس مقصد كے تحت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم پر حضرت علىعليه‌السلام نے بنى ہاشم كے چاليس سرداروں كو جن ميں ابوطالب، ابولہب ، حمزہ ، وغيرہ شامل تھے مدعو كيا جب سب لوگ كھانے سے فارغ ہوئے تو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا اے فرزندان عبدالمطلب عرب كے جوانوں ميں مجھے كوئي بھى ايسا نظر نہيں آتا جو تمہارے لئے مجھ سے بہتر پيغام لايا ہو _ ميں تمہارے لئے ايسا پيغام لے كر آياہوں جس ميں دونوں جہان كى خير وسعادت ہے_ خداوند تعالى نے مجھے حكم ديا ہے كہ ميں تمہيں اس كى طرف دعوت دوں _ تم ميں سے ايسا كون ہے جو اس راہ ميں ميرى مدد كرے تاكہ وہ ميرا بھائي ، وصى اور جانشين قرار پائے _ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس سوال كو تين مرتبہ دہرايا اور ہر مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام ہى اپنى جگہ سے اٹھے اور انہوں نے اپنى آمادگى كا اعلان كيا_

اس وقت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا : تو گويا علىعليه‌السلام ہى ميرے بھائي ، وصى اور جانشين ہيں لہذا تم ان كى بات سنو اور ان كى اطاعت كرو _(۳۳)

۲۱

حديث منزلت

صرف وہ غزوہ جس ميں حضرت علىعليه‌السلام نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حكم كے پيروى كرتے ہوئے شركت نہيں كى غزوہ تبوك تھا _ چنانچہ اس مرتبہ آپ جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حيثيت سے اور ان واقعات كا سد باب كرنے كى غرض سے جن كے رونما ہونے كا احتمال تھا مدينہ ميں ہى قيام پذير رہے_

جس وقت منافقوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ارادے كى خبر ہوئي تو انہوں نے ايسى افواہيں پھيلائيں جن سے حضرت علىعليه‌السلام اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تعلقات ميں كشيدگى پيدا ہوجائے اور حضرت علىعليه‌السلام كو يہ بات باور كراديں كہ اب آپ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو پہلى سى محبت نہيں _ چنانچہ جب آپ كو منافقين كى ان شرپسندانہ سازشوں كا علم ہوا تو ان كى باتوں كو غلط ثابت كرنے كى غرض سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں تشريف لے گئے اور صحيح واقعات كى اطلاع دي_ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علىعليه‌السلام كو مدينہ واپس جانے كا حكم ديتے ہوئے اس تاريخى جملے سے حضرت علىعليه‌السلام كے اس مقام و مرتبہ كو جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نزديك تھا اس طرح بيان فرمايا : ''كيا تم اس بات سے خوش نہيں ہو كہ ميرے اور تمہارے درميان وہى نسبت ہے جو كہ موسىعليه‌السلام اور ہارونعليه‌السلام كے درميان تھي_ مگر يہ كہ ميرے بعد كوئي نبى نہيں ہوگا_(۳۴)

قرآن مجيد ميں حضرت ہارون كے مقامات ومناصب:

اب ديكھنا يہ ہے كہ قرآن پاك كى نظر ميں حضرت ہارون كے وہ كون سے مناصب و مقامات تھے جو حضرت علىعليه‌السلام ميں بھى نبوت كے علاوہ (چنانچہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود ہى مذكورہ حديث ميں آپ كو اس سے مستثنى قرار ديا ہے) بدرجہ اتم موجود تھے_

چنانچہ جب ہم قرآن كى جانب رجوع كرتے ہيں تو ديكھتے ہيں كہ حضرت موسىعليه‌السلام نے حضرت ہارونعليه‌السلام كے لئے مندرجہ ذيل مناصب چاہے تھے_ مقام وزارت :( واجعل لى وزيرا من اهلى هارون اخي' ) _(۳۵) _ ''ميرے كنبے سے ہارون كو وزير مقرر كردے جوكہ ميرے بھائي ہيں ''_

۲۲

تقويت و تائيد''واشد به ازري'' _ اس كے ذريعے ميرا ہاتھ مضبوط كر

مقام نبوت:''واشركه فى امري''اور اس كو ميرے كام ميں شريك كردے''_

حضرت موسىعليه‌السلام نے جو چيزيں خداوند تعالے سے مانگيں اس نے ان كا مثبت جواب ديا اور مذكورہ تمام مقامات حضرت ہارون كو عطا كرديئے_ چنانچہ اس سلسلے ميں قرآن مجيد فرماتاہے:''قد اوتيت سوالك يا موسي_ ''اے موسى جو تم نے مانگا ہم نے عطا كيا''_

اس كے علاوہ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى غير موجودگى ميں حضرت ہارونعليه‌السلام كو اپنا جانشين مقرر كيا _ (وقال موسى لاخيہ ہارون اخلفنى فى قومي)موسى نے حضرت ہارون سے كہا تم ميرى قوم ميں ميرے خليفہ اور جانشين ہو ''_

حديث منزلت كے مطابق وہ تمام مناصب و مقامات جو ہارون كےلئے بيان كئے گئے ہيں ، صرف ايك منصب كے علاوہ كہ جسے آيت سے مستثنى قرار ديا ہے، حضرت علىعليه‌السلام كےلئے ثابت ہيں _

اس لحاظ سے حضرت عليعليه‌السلام ہى امت مسلمہ ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ياور و مددگار اور خليفہ ہيں _(۴۰)

حديث غدير

ہجرت كے دسويں سال پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس وقت ''حجة الوداع''(۴۱) سے واپس تشريف لا رہے تھے تو ماہ ذى الحجہ كى اٹھارہ تاريخ كو آپ نے ''غدير خم '' كے مقام پر فرمان خداوندى كے مطابق حكم ديا كہ سارے مسلمان يہاں توقف كريں اس كے بعد ايك لاكھ سے زيادہ افراد كى موجودگى ميں حمد وستائشے بارى تعالى كے بعد جو خطبہ ديا اسے جارى ركھتے ہوئے آپ نے دريافت فرمايا : اے لوگو تم ميں ايسا كون ہے جسے تمام مومنين پر برترى حاصل ہو ؟

سب نے كہا يہ تو خدااور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى بہتر جانتاہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا خداوند تعالى نے مجھے ولايت سے سرفراز فرمايا ہے اور مجھے تمام مومنين پر ان كے نفسوں سے زيادہ تصرف كا حق حاصل ہے_

۲۳

اس كے بعد آپ نے حضرت على عليه‌السلام كا ہاتھ اونچا كيا چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس وقت وہاں جمع تھے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دوش بدوش ديكھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا : جس كا مولا و سرپرست ميں ہوں علىعليه‌السلام اس كا مولا و سرپرست ہے _(۴۲) چنانچہ يہ جملہ آپ نے تين مرتبہ دہرايا_

اس كے بعد مزيد فرمايا : ''اے پروردگار تو اسے دوست ركھ جو علىعليه‌السلام كو دوست ركھے اور اسے دشمن ركھ جو علىعليه‌السلام كو دشمن ركھے _ خداوندا ياران علىعليه‌السلام كى مدد فرما اور اس كے دشمنوں كو ذليل و خواركر_(۴۳)

يہ تھيں وہ سرافرازياں جو حضرت علىعليه‌السلام نے زندگى كے اس اولين مرحلے ميں حاصل كيں كہ جس كى مدت دس سال سے زيادہ نہ تھى _ اگرچہ ديگر كتب ميں آپ كى سوانح حيات مفصل طور پر بيان كى گئي ہے مگر يہاں اختصار سے كام ليتے ہوئے انہى پر اكتفا كرتے ہيں _

۲۴

سوالات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے مختلف ادوار كے بارے ميں لكھيئے؟

۲_ بعثت سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى ميں كون سا اہم ترين واقعہ پيش آيا؟آپ كے اقوال كے روشنى ميں اس كى مختصر اً وضاحت كيجئے؟

۳_ حضرت علىعليه‌السلام كے امتيازات وافتخارات ميں سے ان دو كى كيفيت بيان كيجئے جو بعثت كے بعد اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت سے قبل رونما ہوئے_

۴_ جنگ بدر ميں حضرت علىعليه‌السلام كا كيا كردار رہا اختصار سے لكھ يے_

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غزوہ احزاب كے موقع پر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں كيا فرمايا تھا؟

۶_ حضرت علىعليه‌السلام نے مختلف جنگوں (بالخصوص جنگ بدر)ميں دلاورى كے جو جوہر دكھائے اورمشركين كو قتل كيا وہ آپ كى سياسى زندگى پر كس طرح اثر انداز ہوئے اور كب منظر عام پر آئے ان كى كوئي مثال لكھيئے

۷_ حديث ''يوم الدار'' كى مختصر وضاحت كيجئے اور بتايئے مذكورہ حديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد امامعليه‌السلام كى جانشينى پر كس طرح دلالت كرتى ہے؟

۲۵

حوالہ جات

۱_ عام الفيل وہ سال كہلاتا ہے جس ميں ابرہہ ہاتھيوں پر سوار لشكر كے ساتھ كعبہ كو نيست و نابود كرنے كى غرض سے آيا تھا_

۲_ حضرت عمران كے چار فرزند تھے جن كے نام طالب ، عقيل ، جعفر اور على تھے وہ ابوطالب كى كنيت سے مشہور تھے_ بعض مورخين نے حضرت علىعليه‌السلام كے والد كا نام عبدمناف بھى بيان كيا ہے (تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج۱ ص ۱۱)

۳_حضرت علىعليه‌السلام كى ولادت كو اہل سنت كے محدثين و مورخين نے بھى اپنى كتابوں ميں خانہ كعبہ ميں تحرير كيا ہے منجملہ ان كے مسعودى نے مروج الذہب (ج ۲ ص ۳۴۹)حاكم نے مستدرك (ج ۳ ص ۴۸۳) اور آلوسى نے شرح قصيدہ _ عبدالباقى افندى ص ۱۵ مزيد تفصيل كيلئے اہل سنت كے دانشوروں كے نظريات كو جاننے كيلئے ملاحظہ ہو كتاب ''الغدير'' ج ۴ ص ۲۳_ ۲۱

۴_ سيرت ابن ہشام ج ۱ /۲۶۲ ، كامل ابن اثير ج ۲/ ۵۸ كشف الغمہ ج ۱ / ۷۹ ، تاريخ طبرى ج ۲ / ۳۱۲ البتہ مورخين كى رائے ميں حضرت علىعليه‌السلام كے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر منتقل ہونے كا سبب وہ قحط سالى تھى جس سے شہر مكہ دوچار ہواتھا اور ابوطالب كى زندگى چونكہ تنگ دستى ميں گزر رہى تھى اس لئے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تجويز پر آپ كے قبيلے كے لوگ ان كے ہر فرزند كو اپنے ساتھ لے گئے اور حضرت علىعليه‌السلام كو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ساتھ لے آئے ليكن شہيد مطہرى نے نقل مكانى كى اس وجہ كو مسترد كيا ہے اور اسے مورخين كے ذہن كى اختراع قرار ديا ہے_ جس كا سبب رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اس اقدام كى اہميت اور قدر وقيمت كو كم كرنا مقصود ہے اس سلسلے ميں موصوف كا مطمع نظر متن كتاب ميں ملاحظہ ہو _

۵_ تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۱۳ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۳/۱۹۹ _ كشف الغمہ ج ۱ / ۱۱۷ كامل ابن اثير ج ۲ /۵۸ وسيرة ابن ہشام ج ۱ / ۲۶۳

۶_ نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ (۱۹۲)ولقد كنت اتبعه اتباع الفصيل اثر امه يرفع لى كل يوم من اخلاقه علماً يا مرنى بالاقتداء به

۷_ سورہ واقعہ آيہ( السابقون السابقون اولئك المقربون ) _ جنہوں نے اسلام قبول كرنے ميں سبقت

۲۶

كى وہى افراد خدا كى رضا ورحمت كے حصول ميں سبقت ركھتے ہيں _

۸_ سورہ حديد آيہ ۱۰( لاَيَستَوى منكُم مَن أَنفَقَ من قَبل الفَتح وَقَاتَلَ أُولَئكَ أَعظَمُ دَرَجَةً من الَّذينَ أَنفَقُوا من بَعدُ وَقَاتَلُوا ) ''تم ميں سے جو لوگ خرچ اور جہاد كريں گے وہ كبھى ان لوگوں كے برابر نہيں ہوسكتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد كيا ان كا درجہ بعد ميں خرچ اور جہاد كرنے والوں سے بڑھ كر ہے''_

۹_ سيرت ابن ہشام ج ۱ / ۲۴۶ ، كشف الغمہ ج ۱/۱۱۳ ، تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۱۰ _ سنن ابن ماجہ ج ۱/ ۵۷

۱۰ _''اولكم ورداً على الحوض اولكم اسلاماً على بن ابى طالب _ مستدرك حاكم ج ۳/ ۱۳۶ ، كشف الغمہ ج ۱ / ۱۰۵ _ تاريخ بغداد ج ۲/ ۸۱ شرح ابن ابى الحديد ج ۳ / ۳۸۵ وغيرہ مزيد اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو الغدير ج ۳/ ۲۲۰

۱۱_ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲ _''ولم يجمع بيت واحد يومئذ فى الاسلام غير رسول اللہ وخديجة انا ثالثہما ا رى نورالوحى والرسالة واشم ريح النبوة''_

۱۲_ نہج البلاغہ خ ۱۳۱ _اللهم انى اول من اناب وسمع واجاب

۱۳_ روايات سے مزيد آگہى كے لئے ملاحظہ ہو تفسير برہان ج ۱ / ۲۰۶ ، تفسير الميزان ج ۲/ ۹۹، مطبوعہ جامعہ مدرسين بحار ج ۱۹ صفحات (۵۶_ ۷۸_ ۸۷)

۱۴_ بقرہ آيہ ۲۰۷

۱۵_ قبا مدينہ سے دو فرسخ كے فاصلے پر واقع ہے يہاں قبيلہ بنى عمروبن عوف آباد تھا(معجم البلدان) ج ۴ / ۳۰۱

۱۶_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۷۷ (دس جلدي) منقول از سيرت حلبى واسد الغابہ

۱۷_والذى بعثنى بالحق الخ انت اخى فى الدنيا و الاخرة _ مستدرك حاكم ج ۳/ ۱۴

۱۸_ ''غزوہ'' اصطلاح ميں اس جنگ كو كہتے ہيں جس ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بذات خود موجود رہتے تھے _ ايسى جنگوں كى تعداد چھبيس يا ستائيس ہيں اورجن جنگوں ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موجود نہ تھے انہيں اصطلاحاً ''سريہ'' كہاجاتا ہے جن كى تعداد پينتيس سے چھياسٹھ تك كے درميان بتائي گئي ہے_

۱۹_ الصحيح من سيرة النبى ج ۳/۱۹۲ ، بحار ج ۱۹/ ۲۲۵ _ ۲۵۴ _۲۹۰

۲۷

۲۱_ الصحيح من سيرة النبى ج ۳ / ۲۰۳ _۲۰۲_ مناقب ج ۲/ ۶۸ نيز ملاحظہ ہو بحار ج ۱۹/ ۲۷۹_ ۲۷۶_ ۲۹۱

۲۲_ بحار ج ۲۰/۵۰ _ ۵۱ ،الصحيح من سيرة النبىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ج ۴ / ۲۱۸_ ۲۱۳_

۲۳_ ملاحظہ ہو تاريخ طبرى ج ۲/ ۵۱۴ كامل ابن اثير ج ۲/ ۱۵۴ وشرح ابن ابى الحديد ج ۱۴/ ۲۵۰ اس واقعے كا ذكر تمام مذكورہ كتب ميں مختصر سے فرق كے ساتھ موجود ہے _

۲۴_ بحار ج ۲۰ / ۷۰ خصال صدوق (مترجم) ج ۲ / ۱۲۷_

۲۵_ بحار ج ۲۰/ ۵۴ تفسير على ابن ابراہيم سے منقول_

۲۶_ ۱۲۷ _ بحارج ۲۰ / ۲۱۶_ ۲۱۵ _

۲۷_ بحار ج ۲۰ / ۲۰۵_

۲۸_''ا رونيه ترونى رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله (ارشاد مفيد / ۶۶)_

۲۹_ ارشاد مفيد / ۶۷ / ۶۵ بحار ج ۲۱ / ۱۶_ ۱۴_

۳۰ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۲۳_ الصحيح ج ۳/ ۲۲۰_

۳۱_ مقتل خوارزمى ۲ /۵۹ _

لستُ من خندف ان لم انتقم من بنى احمد ما كان فعل

لعبت هاشم بالملك فلا خبر جاء و لا وحى نزل

قد اخذنا من على ثارناوقتلنا الفارس الليث البطل

۳۲_ سورہ شعرا ء ۲۱۴ _

۳۳_ تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۲۱ و ۳۲۰ كامل ابن اثير ج ۲/ ۶۳ _ ۶۲ مجمع البيان ج ۸/ ۷ الغدير ج ۲ / ۲۷۸ ''فا يكم يؤازرنى على هذاالامر على ان يكون اخى ووصى وخليفتى فيكم ...؟ ان هذا اخى و وصيى وخليفتى فيكم فاسمعوا له واطيعوه'' _

۳۴_اما ترضى ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الا انه لا نبى بعدى _ غاية المرام كے صفحہ ۱۵۲ سے ۱۰۷پر ايك سو ستر (۱۷۰)محدثين كے طريق سے ''حديث منزلت'' كو نقل كيا گيا ہے ان ميں سے سو طريق اہل سنت والجماعت كے ہيں _ صاحب المراجعات نے بھى (۱۳۹_ ۱۴۱) پر مذكورہ حديث كو صحيح

۲۸

مسلم ، بخارى ، سنن ابن ماجہ ومستدرك حاكم اور اہل سنت كے ديگر مصادر سے نقل كيا ہے_

۳۵_ سورہ طہ ۲۹_ ۳۰_

۳۶_ _۳۷_ ۳۸ _ سورہ طہ آيات ۳۱_۳۲_ ۳۶_

۳۹_سورہ احزاب آيت ۱۴۲_

۴۰_ رہبرى امت مصنفہ جعفر سبحانى سے ماخوذ صفحات ۱۶۸ _ ۱۶۷_

۴۱_ فرمان خداوندى سورہ مائدہ آيت ۶۷ ''( ياأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغ مَا أُنزلَ إلَيكَ من رَبّكَ وَإن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رسَالَتَهُ وَالله ُ يَعصمُكَ من النَّاس ) '_

۴۲_من كنت مولاه فهذا على مولاه _اللهم وال من والاه و عاد من عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله _ ملاحظہ ہو الغدير ج ۱/ ۱۱_۹

۲۹

دوسر ا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك

وفات پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا

غير متوقع حادثہ

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں

لاتعلقي

امت كى پريشانى كا خطرہ

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ

منافقين كا خطرہ

شورى

وصى اور جانشين كا تقرر

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات

اس خطبے كے اہم نكات

انصار كا رد عمل

علىعليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز

سقيفہ كے واقعات كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كا رد عمل

علىعليه‌السلام نے كيوں عجلت نہيں كي؟

سوالات

حوالہ جات

۳۰

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك(۱)

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے تعميرى اور كردار ساز بعض حادثات وواقعات كا جائزہ ترتيب وار گذشتہ فصل ميں ليا جاچكا ہے _ چونكہ ہمارا مطمع نظر تاريخ اسلام كا تجزيہ وتحليل ہے نہ كہ ان بزرگوار شخصيات كے احوال زندگى كو بيان كرنا اسيلئے بہت سے ايسے واقعات جن كا امامعليه‌السلام نے ان مراحل ميں سامنا كيا ، ان كا ذكر نہيں كياجاسكا_اب ہم يہاں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد تاريخ اسلام كے واقعات كا جائزہ ليں گے_

وفات پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد سب سے پہلا واقعہ جو مسلمانوں كے سامنے آيا وہ عمر كى جانب سے رونما ہوا چنانچہ انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر كے سامنے بآواز بلند كہا كہ جو شخص يہ كہے گا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت ہوگئي ميں اسى تلوار سے اس كا سر قلم كردوں گا اگر چہ حضرت ابن عباس و ديگر صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ آيت بھى سنائي جس كا مفہوم يہ ہے كہ موت سے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بھى مفر نہيں(۲) مگر اس كا ان پر اثر نہ ہوا بوقت رحلت ابوبكر مدينہ سے باہر تھے _ چند لحظے گذرنے كے بعد وہ بھى آن پہنچے اور عمر كى داد و فرياد كى جانب توجہ كي ے بغير وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں داخل ہوگئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چہرہ مبارك سے چادر ايك طرف كركے بوسہ ديا اور مسجد ميں واپس آگئے اور يہ اعلان كيا كہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحلت فرماگئے ہيں _ اس كے بعد انہوں نے بھى اسى آيت كى تلاوت كى اس پر عمر نے كہا ايسا لگتا ہے كہ ميں نے آج تك گويا يہ آيت سنى ہى نہيں تھى(۳)

۳۱

غير متوقع حادثہ

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل دينے ميں مشغول اور مسلمان تكميل غسل و كفن كا انتظار كر رہے تھے تاكہ نماز جنازہ ميں شركت كرسكيں خبر آئي كہ كچھ لوگ ''سقفيہ بنى ساعدہ'' ميں جمع ہيں او رخليفہ منتخب كئے جانے كے بارے ميں بحث كر رہے ہيں اور قبيلہ خزرج كے سردار سعد بن عبادہ كا نام خلافت كےلئے پيش كيا گيا ہے_

عمر اور ابوبكر نے جيسے ہى يہ خبر سنى فوراً سقيفہ كى طرف روانہ ہوئے_ راستے ميں ابوعبيدہ بن جراح كو بھى مطلع كيا اور تينوں افراد نے سقيفہ(۴) كى جانب رخ كيا _

اس وقت تك معاملہ انصار كے ہاتھ ميں تھا ليكن جيسے ہى يہ تينوں مہاجر وہاں پہنچے تو تنازع شروع ہوگيا اور ہر شخص اپنى اہليت وشايستگى كى تعريف كرنے لگا _ بالآخر ابوبكر كو پانچ رائے كے ذريعے سقيفہ ميں خليفہ چن ليا گيا _

برادران اہل سنت نے اس واقعہ كو حقيقت سمجھ ليا اور خليفہ كے انتخاب كو مشاورت اور اجماع مسلمين كا نام دے كر اسے تسليم كرليا_

اس حقيقت كو آشكار كرنے كے لئے ضرورى ہے كہ مندرجہ ذيل عنوانات كا تجزيہ كياجائے تاكہ اصل واقعے كى وضاحت ہوسكے_

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں

شيعوں كا عقيدہ ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں ہى فرمان خدا كے ذريعے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طے اور واضح كرديا تھا اور جو كچھ سقيفہ بنى ساعدہ ميں پيش آيا وہ فرمان خدا اور حكم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف محض ايك تحريك تھي_

گذشتہ فصل ميں ہم نے چند ايسى دليليں اور حديثيں بيان كى تھےں جو مذكورہ دعوے كو ثابت كرتى ہيں _ يہاں اس مسئلے كا تاريخى واقعات كى روشنى ميں جائزہ لياجائے گا_

۳۲

پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دوش مبارك پر ايك عالمى تحريك كى قيادت تھى يہ بات بھى واضح و روشن ہے كہ اس تحريك كے پروان چڑھنے اور سياسى ، ثقافتى نيز اجتماعى سطح پر گہرى تبديلى لانے كيلئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا زمانہ رسالت (بعثت سے رحلت تك) كافى نہ تھا اگرچہ اسلام كے اس عظےم رہبر و پيشوا نے اس مختصر و محدود عرصے ميں ہى انسان كى تكميل اور اسلامى معاشرے كى تشكيل كے لئے بہت عظيم واساسى اقدامات كئے ليكن اس عالمى تحريك كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد بھى جارى و سارى رہناتھا_

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت اچانك واقع نہيں ہوئي بلكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كے وقوع پذير ہونے سے كچھ عرصہ قبل محسوس كرليا تھا كہ جلد ہى اس دنيا سے كوچ كر جائيں گے _ چنانچہ آپ نے ''حجةالوداع'' كے موقع پر كھلے لفظوں ميں اس كا اعلان بھى كرديا تھا اس كے بعد آپ كے پاس اسلام كے مستقبل سے متعلق سوچنے كے لئے وقت كافى تھا اور آپ كوئي اصولى روش وتدبير اختيار كركے ان عوامل كى پيش بندى كرسكتے تھے جن سے انقلاب خداوندى كى راہ ميں آئندہ كسى خطرے كے آنے كا امكان ہوسكتا تھا_ان حالات و واقعات كے بارے ميں غيبى عوامل كى مدداور سرچشمہ وحى سے ارتباط كو عليحدہ كركے بھى غور كياجاسكتا ہے ايسى صورت اور ان واقعات كى روشنى ميں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے اسلام كے مستقبل سے متعلق تين ہى ممكن راہيں ہوسكتى تھيں :

لا تعلقي

شوري

اپنے وصى اور جانشين كے بارے ميں وصيت

اب ہم تاريخى حقائق اور ان سياسى واجتماعى حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے جو اس وقت اسلامى معاشرہ پر حكم فرما تھے مذكورہ بالا تينوں راہوں كا اجمالى جائزہ ليں گے_

۳۳

لاتعلقي

لاتعلقى سے مراد يہ ہے كہ ہم اس بات كے قائل ہوجائيں كہ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اسلام كے مستقبل سے كوئي سرو كار نہ تھا بلكہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے نوشتہ تقدير اور آئندہ حالات كے رحم وكرم پر چھوڑ ديا تھا_

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جيسى شخصيت كے بارے ميں ايسى بے سرو پا باتوں كا فرض كرلينا كسى طرح بھى حقائق وواقعات كے موافق نہيں ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اسلامى رسالت كا مقصد يہ تھا كہ دور جاہليت كے جتنے بھى رگ وريشے اس دور كے انسان ميں ہوسكتے تھے انہيں اس كے دل وجان كے اندر ہى خشك كردياجائے اور اس كے بجائے ايك جديد اسلامى انسان كى تعمير كى جائے _ جب بھى كوئي ہادى و راہنما نہ ہو تو معاشرہ بے سرپرست رہ جائے اور انقلاب ميں ايك ايسا خلاء پيدا ہوجائے گا جس كى وجہ سے اس كو مختلف قسم كے خطرات لاحق ہوجائيں گے _ مثال كے طور پر :

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ روح رسالت اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تحريك كے مقاصد كو وہى شخص پايہ تكميل تك پہنچاسكتا تھا كہ جس كو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہچنواياتھا اور امت كے كسى فرد ميں اسكى صلاحيت نہ تھى كہ وہ رسول كے بعد زمام دارى اور رسالت كے مقصد كے درميان كوئي متين تناسب قائم كرسكے اور اسلامى معاشرہ سے ان جاہلى تعصبات كو دور كرسكے جو ابھى تك معاشرہ كى رگ و پے ميں موجود تھے كہ جس نے انہيں مہاجر، انصار ، قريش و غير قريش اور مكى و مدنى وغيرہ ميں تقسيم كر ركھا تھا_

۳۴

تھے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ كاغذ و دوات لے آؤ تاكہ ميں تمہارے لئے ايسا نوشتہ لكھ دوں كہ جس سے تم (ميرے بعد)ہرگز گمراہ نہ ہو(۵)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا يہ فرمانا ہى اس بات كى واضح و روشن دليل ہے كہ آيندہ رونما ہونے والے خطرات كے بارے ميں آپ كو تشويش تھى اور ان كا سد باب كرنے كے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوشاں تھے _

شورى

شورى سے مراد يہ ہے كہ گويا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد مسلمانوں كى رہبرى كو انہى كے وست اختيار ميں دے ديا تھا كہ جسكو چاہيں منتخب كر ليں _

اگرچہ اسلام نے قانون اور اصول شورى (مشاورت)كا احترام كيا ہے اور قرآن ميں اس كا شمار اوصاف مومنين ميں ہوتا ہے(۶) ليكن اس كا تعلق ان واقعات سے ہے جو مسلم معاشرے كے درميان رونما ہوتے ہيں اور ان كى بارے ميں كوئي نص صريح موجود نہ ہو كيونكہ اسلام كے قوانين و احكام مشوروں سے طے نہيں ہوتے يہى وجہ تھى كہ وہ ذمہ دارياں (تكاليف) جو وحى كى ذريعے معين كى گئيں تھيں ان كے بارے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كسى سے مشورہ نہ كيا چنانچہ مسئلہ ولايت و امامت كا شمار بھى ايسے ہى مسائل ميں ہوتاہے جو امور مشاورت كى حدود سے خارج ہيں يہى نہيں بلكہ اس كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى اپنى رائے كا اظہار نہيں فرما سكتے تھے _

يہى وجہ ہے كہ جس وقت قبيلہ بنى عامر كى ايك جماعت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات كرنے كے لئے آئي اور اس نے يہ تجويز پيش كى كہ ہم اس شرط پر ايمان لانے كو تيار ہيں كہ آپ اپنے بعد خلافت ہمارى تحويل ميں دے ديں اگرچہ اس وقت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انتہائي پر آشوب حالات سے دو چار تھے نيز قريش(۷) كى جانب سے آپ پر سخت دباؤ بھى تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوخوفزدہ كرنے كى كوشش بھى كى جا رہى تھى مگر اس كے باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا يہ كام خداند تعالى كا ہے (اور اس ميں مجھے كوئي اختيار نہيں )وہ جسے بھى مناسب سمجھے گا اسے ہى ميرے بعد ميرا جانشين مقرر كرے گا(۸) _

۳۵

اس كى علاوہ اسلام كى فلاح و بہبود كى خاطر پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نظام شورى كو سودمند اقدام خيال فرماتے تو آپ يقينا اپنے زمانہ حيات كے دوران ايسے دستورات عمل كا سلسلہ مرتب فرماتے جس كے ذريعے امت مسلمہ خود كو اس اقدام كے لئے تيار كر ليتى كہ شورى كے ذريعے نظام حكومت جارى ركھ سكے كيونكہ دور جاہليت كے نظام حكومت ميں كوئي ايسا ادارہ كار فرمانہ تھا جو شورى كى ذريعے نظام حكومت چلاسكے اگرچہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كسى وقت بھى نظام شورى اور راس كے دائرہ عمل نيز مشخصات كو منفى قرار نہيں ديا اور نہ ہى مسلمانوں كو يہ ہدايت فرمائي كہ وہ اس سے گريز كريں _

اس سے قطع نظر ابو بكر نے جب عمر كو اپنا جانشين مقرر كيا تو يہ اس امر كى واضح دليل تھى كہ اس اقدام كے ذريعے نظام شورى كى نفى كى گئي اور يہ ثابت ہو گيا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نظام شورى كے حامى نہ تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے اپنا حق سمجھتے تھے كہ زمانہ حيات ميں كسى ايسے شخص كو مقرر فرما ديں جو رحلت كے بعد آپ كا جانشين ہو سكے يہى نہيں بلكہ عمر بھى خليفہ مقرر كرنا اپنا حق سمجھتے تھے اور اسے انہوں نے چھ افراد كے درميان محدود كر ديا تھا تاكہ وہ اپنے درميان ميں سے كسى ايك شخص كو خليفہ مقرر كر ليں اور ان افراد كے علاوہ انہوں نے تمام امت مسلمہ كو اس حق سے محروم كر ديا تھا_

وصى اور جانشين كا تقرر

وصايت (عملى جانشينى)سے ہمارى مراد يہ ہے كہ تنہا ايك يہى ايسى راہ ہے جو حقائق اور فطرت اور خلافت كى واقعيت سے عين سازگار ہے اور ہم كہہ سكتے ہيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلام كى آيندہ فلاح و بہبود كى خاطر يہ مثبت اقدام فرمايا تھا اور خدا عالم كے حكم سے ايك شخص كو جانشين كى حيثيت سے مقرر كر ديا تھا چنانچہ صرف يہى ايك ايسا مثبت اقدام تھا جو مستقبل ميں اسلام كى خير و صلاح اور رسالت كو خطرات سے محفوظ ركھنے كا ضامن ہو سكتا تھا _ اسلام ميں سبقت ، اور دوسرے مسلمانوں كى نسبت عليعليه‌السلام كى واضح و امتيازى خصوصيات كى بناء پر كسى دوسرے شخص كو ان كے علاوہ

۳۶

پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا حق حاصل نہ تھا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علىعليه‌السلام كى باہمى زندگى كے ايسے بہت سے شواہد موجود ہيں جو اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حيثيت سے حضرت علىعليه‌السلام كى تربيت فرمارہے تھے كہ آيندہ اسلامى معاشرے كے آپعليه‌السلام ہى قائد و رہبر ہيں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپعليه‌السلام كو حقائق رسالت كى بہت سے خصوصيات سے نوازا تھا حضرت علىعليه‌السلام جب كبھى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كوئي بات دريافت فرماتے تو آپكا سوال ختم ہونے كے بعد رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كلام كى ابتدا فرماتے اور تہذيب و افكار كے ہدايا و تحائف كى دولت سے آپعليه‌السلام كو معزز و مفتخر فرماتے چنانچہ روز و شب كا زيادہ وقت باہمى گفتگو اور خلوت مےں گذرتا _

اس كے علاوہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانشينى كا مختلف مواقع پر اعلان بھى فرما ديا تھا چنانچہ اس ضمن ميں بكثرت احاديث نبوى موجود ہيں جس ميں سے حديث يوم الدرار ' حديث الثقلين ' حديث منزلت اور سب سے اہم غدير (حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر مسلمانوں كا بيعت كرنا)قابل ذكر اور اس دعوے كى شاہد و گواہ ہيں(۹) _

مزيد بر آں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد بہت سے حوادث رونما ہوئے اور آپ نے پورى زندگى جہاد و ذمہ دارى ميں گذارى جس سے يہ بات ثابت ہوتى ہے كہ آپعليه‌السلام ہى رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جانشين ہيں آپ كى لياقت كا ايك نمونہ يہ ہے كہ جن مسائل كو حل كرنا خلفاء كے لئے ناممكن تھا انھيں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى سے حل كرتے تھے ليكن اس كے برعكس ہميں خلفاء كے زمانہ ميں ايك موقعہ بھى ايسا نظر نہيں آتا كہ جس ميں امامعليه‌السلام نے كسى مشكل كے حل كيلئے يا اسلام كے نظريہ سے مزيد آگہى كے لئے كسى سے رجوع كيا ہو(۱۰)

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات

معن بن عدى اور عويم بن ساعدہ نامى دو افراد كے دلوں ميں '' سعد بن عبادہ خزرجى '' كے

۳۷

خلاف كدورت تھى ان كے ذريعے عمر اور ابوبكر كو خبر ملى كہ انصار سقيفہ بنى ساعدہ ميں جمع ہو رہے ہيں چنانچہ يہ دونوں حضرات نہايت عجلت كے ساتھ اضطراب و پريشانى كے عالم ميں ابو عبيدہ كے ہمراہ سقيفہ ميں داخل ہوئے عمر گفتگو كا آغاز كر كے ابوبكر كى خلافت كيلئے ميدان ہموار كرنا چاہتے تھے ليكن ابو بكر نے منع كر ديا اور كہا كہ اگر مجھ سے كوئي فرو گذاشت ہو جائے تو تم اس كى تلافى كرو چنانچہ اس كے بعد انھوں نے تقرير شروع كى اور خداوند عالم كى وحدنيت اور رسالت رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شہادت كے بعد كہا كہ مہاجرين ميں ہم وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے دين اسلام قبول كيا اور اس لحاظ سے تمام لوگ ہمارے پيروكار ہيں ہم طائفہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مركز قبائل عرب ميں سے ہيں نيز ان كے درميان نقطئہ ربط و تعلق ہيں آپ انصار بھى خدا و رسول كے ياور و مددگار ہيں پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پشتيبان اور ہمارے سردار ہيں دين اور اس كے فائدے ميں آپ ہمارے شريك ہيں _ خداوند تعالى كى رضا ميں راضى رہے اور اس پاك پروردگار نے تم سے مہاجر بھائيوں كے لئے جو كچھ چاہا اسے قبول كرنے ميں لائق و شائستہ ترين افراد ثابت ہوئے ليكن تمہيں اس پر حسد نہيں كرنا چاہيے اسلام كى ترقى كى خاطر تم نے مشكلات ميں اپنى طاقت كے جوہر دكھائے اس بنا پر تمہارے لئے يہ زيبا نہيں كہ اپنے ہى ہاتھوں سے اس دين كى بيخ كُنى كرو_ ميں تمہيں ابو عبيدہ اور عمر كى بيعت كى دعوت ديتا ہوں ميں دونوں ہى كو قابل و اہل سمجھتا ہوں(۱۱) اس موقعے پر ان دونوں نے كہا : لوگوں ميں سے كسى كو تم پر برترى حاصل نہيں ہے _ تم پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے يار غار ہو

اس خطبے كے اہم نكات

ابو بكر نے جو تقرير كى اس كے بعض نكات كا ذكر كرنا يہاں ضرورى ہے _(۱۲)

ابوبكر نے پہلے مہاجرين كى تعريف كى تاكہ ان كى عظمت انصار كے ذہنوں پر نقش ہو جائے اس كے بعد جس حد تك ممكن تھا اُس نے انصار كى بھى تعريف و توصيف بيان كى اور خود كو منصف كى حيثيت سے ظاہر كيا جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ انصار كو اپنى طرف متوجہ كر ليا اس تردو كے بر خلاف جو

۳۸

خلافت كے سلسلہ مےں انصار كے ذہنوں ميں تھا ابوبكر نے يقين كے ساتھ كہا مہاجرين كى خلافت جو خدا كى مرضى كے مطابق ہے اور يہى خدا كا حتمى فيصلہ ہے چنانچہ ہر قسم كا تذبذب ختم ہو گيا ابوبكر نے خلافت كو مہاجرين كا مسلم حق ثابت كرنے كے بعد اس سلسلہ ميں انصار كى كسى بھى فعاليت كو خدا سے عہد شكنى اور دين كو برباد كرنے كے مترادف قرار دے ديا اپنى تقرير كے آخر ميں ابوبكر نے حاضرين كو عُمر و ابوعبيدہ كى بيعت كى دعوت دى وہ طبيعى طور پر ابوبكر كو مقدم سمجھتے تھے گويا وہ پہلے ہى خليفہ كى تعيين كے سلسلہ ميں منصوبہ بنا چكے تھے _(۱۳)

انصار كا ردّعمل

پروگرام كے تحت ابوبكر كى ہونے والى تقرير سن كر انصار اپنے گذشتہ موقف سے ہٹ گئے اور انہوں نے مہاجرين كے سامنے اپنے سرخم كر ديئے ان ميں '' حباب بن منذر '' ہى ايك ايسے انصار تھے جنہوں نے كھڑے ہو كر يہ دھمكى دى كہ اگر مہاجرين انصار سے مصالحت نہيں كرتے تو ہم عليحدہ مستقل حكومت قائم كر ليں گے ليكن عمر نے فورا ہى اس كى گفتگو كى كمزورى سے فائدہ اٹھاتے ہوئے كہا كہ افسوس دو تلواريں ايك ميان ميں نہےں سماسكتيں خدا كى قسم عرب اس بات پر ہرگز راضى نہےں ہوں گے كہ حكومت تمہارے حوالے كر دى جائے اس كى وجہ يہ تھے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم ميں سے نہےں تھے _(۱۴) مہاجرين اور انصار كے درميان حصول اقتدار كى خاطر بہت سخت كشمكش ہونے لگى چنانچہ انصار كے دو قبيلوں اوس اور خزرج كے درميان شديد اختلاف پيدا ہو گيا قبيلہ اوس كے سردار ''اسيد بن حضير'' كا ميلان مہاجرين كى طرف تھا ، اس نے اظہار رغبت كيا انكى پيروى كرتے ہوئے '' بشير بن سعد خزرجى '' نے لوگوں كو مہاجرين كى بيعت كى جانب رغبت دلانا شروع كى بالاخر اس كشمكش كا نتيجہ يہ ہوا كہ خلافت كا فيصلہ ابوبكر كے حق ميں ہوگيا اور انھيں پانچ رائے كے ذريعے خليفہ منتخب كر ليا گيا _(۱۵)

اس واقعے كا اگر اجمالى طور پر جايزہ ليں تو اس نتيجے پر پہنچيں گے كہ سقيفہ ميں جو كچھ پيش آيا

۳۹

اور اس ميں ابوبكر كو خليفہ منتخب كيا گيا وہ انتخاب كے اصول و ضوابط كے منافى تھا _

اس معاملے مےں فيصلہ اتنى عجلت و جلدى سے كيا گيا كہ كسى صاحب فكر شخص كو اتنا موقعہ ہى نہےں ديا گيا كہ وہ اس مسئلے كے بارے ميں غور و فكر كر سكے اور كسى مخالف كوبھى اتنى مہلت نہ ملى كہ وہ اپنے دعوے كے حق ميں دليل پيش كر سكے اس عجلت و تندى كے باعث روح انتخابات كى اچھى طرح پائمالى كى گئي كہ حتى كہ ان لوگوں سے بھى جو سقيفہ ميں موجود تھے حق رائے دہى سلب كر ليا گيا شروع سے آخر تك ذاتى ميلانات و احساسات كار فرما رہے اس كے علاوہ انتخاب اس طرح كيا گياكہ بيشتر مسلمان قطعى لاعلم و بے خبر رہے اور جنہيں اطلاع بھى ہوئي تو وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مراسم تجہيز و تكفين ميں منہمك و مشغول تھے وہ سقيفہ والے انتخابات ميں شريك نہيں ہو سكتے تھے _

جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے انتخاب كے لئے جس مجلس كى تشكيل كى گئي تھى اس ميں كم از كم كوئي ايسا شخص تو اپنے افراد خاندان كے ہمراہ وہاں پيش پيش رہتا جس كى قدر و منزلت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظروں ميں وہى تھى جو حضرت ہارون كى حضرت موسيعليه‌السلام كے نزديك تھى اس واقعے پر جب ہم شروع سے آخر تك نظر ڈالتے ہيں تو ديكھتے ہيں يہ سب اس طرح پيش آيا كہ قبيلہ بنى ہاشم بالخصوص اس كے سردار يعنى اميرالمومنين علىعليه‌السلام ان واقعات سے قطعى بے خبر اور لاعلم ركھا گيا _

علىعليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز

حضرت علىعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جسد مبارك كى تجہيز و تدفين ميں منہمك و مشغول تھے كہ ابو سفيان ' جس مےں حس تدبر و سياست فہمى بہت تيز تھى ' پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر پہنچا تاكہ مسلمانوں كے درميان اختلاف پيدا كرے اور حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے يہ تجويز پيش كى كہ آپعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرے ليكن حضرت علىعليه‌السلام اسكى نيت كو جانتے تھے لہذا اسكى باتوں كو قطعى اہميت نہ دى اور فرمايا تمہارا مقصد مسلمانوں كے درميان فتنہ پھيلانا ہے_(۱۶)

جس وقت ابوسفيان نے يہ تجويز پيش كى توعين اس وقت حضرت عباس نے بھى چاہا كہ اپنے

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348