تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175285 / ڈاؤنلوڈ: 4063
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

كہہ رہى تھيں كہ : عثمان بے گناہ مارا گيا ميں اس كے خون كا بدلہ لينے كے لئے سركشى كروں گى _ عبيد نے ان سے كہا كہ ان كے خون كا مطالبہ تم كيسے كرسكتى ہو كيونكہ وہ تم ہى تو ہو جس نے سب سے پہلے عثمان كے قتل كيئے جانے كى تجويز پيش كى اور تم ہى تو كہا كرتى تھيں كہ ''نعثل'' كو قتل كردو كيونكہ وہ كافر ہوگيا ہے اور آج تم ہى انہيں مظلوم و بے گناہ كہہ رہى ہو_

عائشہ نے كہا كہ ہاں عثمان ايسا ہى تھا ليكن اس نے توبہ كرلى تھى اور لوگوں نے ان كى توبہ كى طرف سے بے اعتنائي كى اور انہيں قتل كرديا اس كے علاوہ ميں نے كل جو كچھ كہا تھا تمہيں اس سے كيا سروكار؟ ميں آج جو كہہ رہى ہوں تم اسے مانو كيونكہ ميرى آج كى بات كل سے بہتر ہے_(۱۱)

مكہ پہنچنے كے بعد عائشہ مسجد الحرام كے سامنے محمل سے اتريں اور پورى سترپوشى كے ساتھ وہ حجر الاسود كے جانب روانہ ہوئيں ، لوگ ان كے چاروں طرف جمع ہوگئے ، عائشہ نے ان كے سامنے تقرير كى اور كہا كہ عثمان كا خون ناحق ہوا ہے ، انہوں نے اہل مدينہ اور دوسرے لوگوں كے جذبات كو ان كے خلاف جنہوں نے عثمان كے قتل ميں حصہ ليا تھا برافروختہ كيا اور حاضرين سے كہا كہ وہ عثمان كے خون كا بدلہ ليں اور قاتلوں كے خلاف شورش كرنے كى دعوت دى _(۱۲)

مكہ ميں مخالفين كا جمع ہونا

مكہ ميں عائشہ نے جيسے ہى حضرت عليعليه‌السلام كے خلاف پرچم لہرا ديا آپ كے مخالفين ہر طرف سے ان سے گرد جمع ہوگئے _

طلحہ و زبير بھى حضرت عليعليه‌السلام سے عہد شكنى كركے ان كے ہمنوا ہوگئے دوسرى طرف بنى اميہ حضرت علىعليه‌السلام كے ايك زمانے سے دشمن چلے آرہے تھے اور كسى مناسب موقع كى تلاش ميں تھے اور عثمان كے قتل كے بعد وہ مدينہ سے فرار كرے چونكہ مكہ پہنچ گئے تھے اس لئے وہ بھى عائشہ كے زير پرچم آگئے _ اس طرح عثمان كے زمانے كے وہ تمام والى و صوبہ دارجنہيں حضرت علىعليه‌السلام نے معزول

۱۲۱

كرديا تھا وہ سب عائشہ كے ساتھ ہوگئے مختصر يہ كہ وہ تمام مخالف گروہ جنہيں حضرت علىعليه‌السلام سے پرخاش تھى مكہ ميں جمع ہوگئے اور اس طرح ناكثين كى تحريك كا اصل بيج يہاں بويا گيا ، مخالف گروہوں كے سردار عائشہ كے گھر ميں جلسات كى تشكيل كركے شورش و سركشى كى طرح اندازى پر بحث وگفتگو كرتے_

عائشہ نے كہا كہ : اے لوگو يہ عظےم حادثہ ہے جو رونما ہوا ہے اور جو واقعہ رونما ہوا ہے وہ قطعى ناپسنديدہ ہے ، اٹھو اور اپنے مصرى بھائيو سے مدد طلب كرو شام كے لوگ بھى تمہارا ساتھ ديں گے ، شايد اس طرح خداوند تعالى عثمان اور ديگر مسلمانوں كا بدلہ دشمنوں سے لے_

طلحہ وزبير نے بھى اپنى تقارير كے دوران عائشہ كى حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف جنگ كرنے ميں حوصلہ افزائي كى اور كہا كہ وہ مدينہ سے رخصت ہو كر ان كے ساتھ چليں _

جب انہوں نے عائشہ كے جنگ ميں شريك ہونے كى رضامندى حاصل كرلى اور عائشہ نے بھى اس تحريك كى قيادت سنبھال لى تو يہ گروہ عمر كى دختر اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زوجہ حفصہ كى جانب گئے ، انہوں نے كہا كہ مجھے عائشہ سے اتفاق رائے ہے اور ميں ان كى تابع ہوں اگر چہ انہوں نے يہ فيصلہ كرليا تھا كہ عائشہ كے ہمراہ چليں مگر ان كے بھائي عبداللہ اس روانگى ميں مانع ہوئے_(۱۳)

سپاہ كے اخراجات

عثمان نے جو رقم اپنے رشتہ داروں ميں تقسيم كردى تھى اور وہ كثير دولت جو ان كے پردازوں كے ہاتھ آئي تھى وہ سب اسى مقصد كے لئے استعمال كى گئي چنانچہ بصرہ كے معزول گورنر عبداللہ بن عامر اور عثمان كے ماموں زاد بھائي نے سب سے پہلے عائشہ كى دعوت كو قبول كيا اور اپنا بہت سا مال انہيں دے ديا _ عثمان كا معزول كردہ يمن كا گورنر يعلى بن اميہ نے بھى اپنى كثير دولت جس ميں چھ ہزار درہم اور چھ سو اونٹ شامل تھے اس فتنہ پرور لشكر كے حوالے كرديئے _(۱۴) اور اس لشكر ناكثين كے اخراجات فراہم كئے_

۱۲۲

عراق كى جانب روانگي

''ناكثين'' كى سعى و كوشش سے مسلح لشكر فراہم ہوگيا، سرداران سپاہ نے اس بات پر غور كرنے كے لئے كہ جنگى كاروائي كہاں سے شروع كى جائے آپس ميں مشورہ كيا اور انہوں نے يہ فيصلہ كيا كہ عراق كى جانب روانہ ہوں اور كوفہ وبصرہ جيسے دو عظےم شہروں كے باشندوں سے مدد ليں كيونكہ طلحہ اور زبير كے بہت سے خير خواہ وہاں موجود تھے اور اس كے بعد وہاں سے اسلامى حكومت كے مركز پر حملہ كريں _

اس فيصلہ كے بعد عائشہ كے منادى نے مكہ ميں جگہ جگہ اعلان كيا كہ ام المومنين اور طلحہ اور زبير كا ارادہ بصرہ جانے كا ہے جس كسى كو اسلامى حريت كا پاس ہے اور عثمان كے خون كا بدلہ لينا چاہتا ہے وہ ان كے ساتھ شريك ہوجائے_

جب ہزار آدمى ضرورى سامان جنگ كے ساتھ جمع ہوگئے تو انہوں نے مكہ سے عراق كى جانب كوچ كيا راستے ميں ان كے ساتھ بہت سے لوگ شامل ہونے لگے يہاں تك كہ ان كى تعداد تين ہزار تك پہنچ گئي _(۱۵)

عائشہ اپنے مخصوص ''عسكر'' نامى شتر پرلشكر كے سپاہ كے پيش پيش تھى اور اُميہ ان كے اطراف ميں چل رہے تھے اور سب كا ارادہ بصرہ پہنچنا تھا_

راہ ميں جو حادثات رونما ہوئے ان ميں سے ہم يہاں ايك كے بيان پر ہى اكتفا كرتے ہيں _

راستے ميں انہيں جہاں پہلى جگہ پانى نظر آيا وہاں ان پر كتوں نے بھونكنا اوريھبكنا شروع كرديا ، عائشہ نے دريافت كيا كہ يہ كونسى جگہ ہے انہيں بتايا گيا كہ يہ ''حَوا ب''ہے _ يہ سن كر عائشہ كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وہ حديث ياد آگئي جس ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ پيشن گوئي كى تھى كہ حواب كے كتے ازواج مطہرات ميں سے ايك پر غرائيں گے اور انہيں اس سفر سے باز رہنے كے لئے فرمايا تھا(۱۶) _ عائشہ اس حادثے سے پريشان ہوگئيں اور فرمايا :''انالله و انا اليه راجعون''

۱۲۳

ميں وہى زوجہ ہوں جنہيں پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كے مستقبل كے بارے ميں آگاہ كرديا تھااور فوراً ہى واپس چلے جانے كا فيصلہ كيا _ ليكن طلحہ وزبير نے جب يہ ديكھا كہ عائشہ جنگ كے خيال كو ترك كيا چاہتى ہيں تو انہيں اپنى آرزوئيں خاك ميں ملتى ہوئي نظر آئيں چنانچہ انہوں نے يہ كوشش شروع كردى كہ عائشہ اپنے فيصلے سے باز رہيں بالآخر جب پچاس آدميوں نے يہ جعلى گواہى دى كہ يہ جگہ ''حَوا ب'' نہيں تو وہ مطمئن ہوگئيں _(۱۷)

ناكثين كى سپاہ بصرہ كے قريب آكر رك گئي ، عائشہ نے عبداللہ بن عامر كو بصرہ روانہ كيا اور بصرہ كے كچھ بڑے افراد كے نام خط لكھا اور ان كے جواب كا انتظار كرنے لگي_

سپاہ كى جانب عثمان بن حنيف كے نمايندوں كى روانگي

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے بصرہ ميں مقرر صوبہ دار عثمان بن حنيف كو جب يہ اطلاع ہوئي كہ عائشہ كا لشكرشہر ''ابوالاسود دوئلي'' كے گرد نواح ميں پہنچ گيا ہے تو انہوں نے ''عمران بن حصين'' كو سردار لشكر كے پاس بھيجاتاكہ وہ يہ جان سكيں كہ بصرہ كى جانب آنے كا كيا سبب و محرك ہے _ انہوں نے سب سے پہلے عائشہ سے ملاقات كى اور ان سے دريافت كيا كہ بصرہ كى جانب آپ كے آنے كا كيا مقصد ہے؟ انہوں نے فرمايا كہ عثمان كے خون كا بدلہ اور ان كے قاتلوں سے انتقام لينا_

طلحہ اور زبير سے بھى انہوں نے يہى سوال كيا انہوں نے بھى عائشہ كى بات دہرادى ، عثمان بن حنيف نے طلحہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ كيا تم نے حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت نہيں كي؟ انہوں نے كہاں ہاں مگر ميرى بيعت دباؤ كى وجہ سے تھى _(۱۸)

عثمان بن حنيف كے نمايندگان نے تمام واقعات كى انہيں اطلاع دى عائشہ بھى اپنے لشكر كے ہمراہ ''حفر ابوموسي'' نامى جگہ سے روانہ ہوكر بصرہ ميں داخل ہوگئيں اور ''مربد'' كو جو كبھى بہت وسيع و كشادہ ميدان تھا ''لشكر گاہ'' قرار ديا _

۱۲۴

عثمان بن حنيف نے اپنے نمايندگان سے گفتگو كرنے كے بعد فيصلہ كيا كہ جب تك اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام كى جانب سے كوئي حكم نامہ نہيں ملتا وہ سپاہ كو قلب شہر ميں آنے سے روكيں _چنانچہ انہوں نے حكم ديا كہ لوگ مسلح ہوجائيں اور جامع مسجد ميں جمع ہوں _

جب لوگ مسجد ميں جمع ہوگئے تو قيس نامى شخص نے صوبہ دار بصرہ كى جانب سے ان كے سامنے تقرير كى اور كہا كہ وہ عائشہ كے لشكر كا استقامت و پائيدارى سے مقابلہ كريں _(۲۰)

ابن قتيبہ كے قبول كے مطابق خود عثمان بن حنيف اور ان كے ساتھيوں نے بھى اس موقع پر تقريريں كى اور اسى دوران كہا ان دو اشخاص (طلحہ اور زبير) نے بھى حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كى تھى مگر يہ بيعت رضائے خداوندى كى خاطر نہ تھى اسى لئے انہوں نے عجلت كى اور چاہا كہ اس سے پہلے كہ بچہ اپنى ماں كا دودھ چھوڑ دے وہ بڑا اور جوان ہوجائے ان كا خيال ہے كہ انہوں نے دباؤ كى وجہ سے بيعت كى ہے درحاليكہ ان كا شمار قريش كے زورمند لوگوں ميں ہوتا ہے اگر چاہتے تو بيعت كرتے صحيح طريق وہى ہے جو عام لوگوں نے طے كيا ہے اور حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كى اب آپ لوگ بتائيں كيا رائے ہے ؟

يہ سن كر حكيم بن جبلہ عبدى اپنى جگہ سے اٹھے اور كہا كہ ہمارى رائے يہ ہے كہ اگر انہوں نے ہم پر حملہ كيا تو ہم بھى جنگ كريں گے اور اگر وہ حملہ كرنے سے باز رہے تو ہم اس كا استقبال كريں گے ، اگرچہ مجھے اپنى زندگى بہت عزيز ہے مگرراہ حق ميں جان دينے كا مجھے ذرا خوف نہيں _ دوسرے لوگوں نے بھى اس رائے كو پسند كيا _(۲۱)

پہلا تصادم

جب عائشہ كا لشكر ''مربد'' ميں داخل ہوگيا تو بصرہ كے بعض وہ لوگ جو ان كے طرفدار تھے ان كى سپاہ مےں شامل ہوگئے ان كے علاوہ بصرہ كے باشندے اور عثمان كے حامى بھى كثير تعداد ميں ان كے گرد جمع ہوگئے_

۱۲۵

سرداران لشكر كى تقارير اور عثمان كى تحريك ''بدلہ خون'' كے باعث عثمان كے حامى و طرفدار دو گروہوں ميں تقسيم ہوگئے ايك گروہ نے عائشہ ،طلحہ اور زبير كے بيانات كى تائيد كى اور انہوں نے كہا كہ آپ يہاں عمدہ مقصد كے لئے تشريف لائے ہيں _

ليكن دوسرے گروہ نے ان پر دروغگوئي كا الزام لگايا اور كہا كہ خدا كى قسم تم جو كچھ كہہ رہے ہو وہ سراسر فريب ہے اور جو كچھ تم اپنى زبان سے بيان كررہے ہو وہ ہمارے فہم سے باہر ہے_

اس باہمى اختلاف كا نتيجہ يہ ہوا كہ انہوں نے ايك دوسرے پر خاك اچھالنى شروع كردى اور حالات كشيدہ ہوگئے_(۲۲)

سرداران لشكر مروان ، عبداللہ بن زبير اور چند ديگر افراد كے ساتھ صوبہ دار بصرہ كى جانب روانہ ہوئے اور انہوں نے عثمان بن حنيف سے درخواست كى كہ وہ اس جگہ سے چلے جائيں _ ليكن انہوں نے ان كى اس درخواست كى پروا نہ كى _

عثمان بن حنيف كے لشكر اور جارحين كے درميان شديد تصادم ہوا جو غروب آفتاب تك جارى رہا _ مدافعين كے قتل اور جانبين ميں سے بہت سے لوگوں كے زخمى ہوجانے كے بعد بعض لوگوں كى مداخلت كے باعث يہ جنگ بند ہوئي اور طرفين كے درميان عارضى صلح كا عہد نامہ لكھا گيا اس عہد نامہ صلح كى شرايط يہ تھيں كہ :

۱_ بصرہ كى صوبہ دارى و مسجد اور بيت المال حسب سابق عثمان بن حنيف كے اختيار ميں رہے گا_

۲_ طلحہ اور زبير نيز ان كے آدميوں كو يہ آزادى ہے كہ وہ بصرہ ميں جہاں بھى چاہيں آجاسكتے ہيں _

۳_ طرفين ميں سے كس كو بھى يہ حق حاصل نہيں كہ وہ دوسرے كے لئے كوئي پريشانى پيدا كرے_

۴_ يہ عہد نامہ اس وقت تك معتبر ہے جب تك حضرت علىعليه‌السلام يہاں تشريف لے آئيں اس

۱۲۶

كے بعد لوگوں كو صلح يا جنگ كا اختيار ہوگا_

جب عہدنامے پر دستخط ہوگئے اور طرفين كے درميان صلح ہوگئي تو عثمان بن حنيف نے اپنے طرفداروں كو حكم ديا كہ وہ اپنا اسلحہ ايك طرف ركھ ديں اور اپنے گھروں كو واپس جائيں _( ۲۳)

دھوكہ وعہد شكني

لشكروں كے سرداروں نے بصرہ ميں قدم جمانے كے بعد يہاں كے قبائل كے سربرآوردہ اشخاص سے ملاقاتيں كرنا شروع كيں اور سبز باغ دكھا كر انہيں بہت سى چيزوں كا لالچ ديا جس كے باعث بہت سے دنيا اور جاہ طلب لوگوں نے ان كى دعوت كو قبول كرليا _

طلحہ اور زبير نے جب اپنا كام مستحكم كرليا تو وہ اپنے عہد كى پاسدارى سے رو گرداں ہوگئے_ چنانچہ صوبہ دار كے گھر پر شبخون ماركر عثمان بن حنيف كو گرفتار كرليا اور انہےں سخت ايذا پہنچائي ، پہلے تو انہيں سخت زدو كوب كيا اور پھر سر، داڑھى اور دونوں ابروں كے بال نوچے اس كے بعد بيت المال پر حملہ كيا وہاں كے چاليس پاسبانوں كو قتل كركے باقى كو منتشر كرديا اور خزانے ميں جو كچھ مال ومتاع موجود تھا اسے لوٹ ليا_

اس طرح شہر پر جارحين سپاہ كا قبضہ ہوگيا اور جو اہم و حساس مراكز تھے وہ ان كے تحت تصرف گئے _ جارحين نے مزيد رعب جمانے كے لئے ان لوگوں ميں سے پچاس افراد كو جنہيں انہوں نے گرفتار كيا تھا عوام كے سامنے انتہائي بے رحمى كے ساتھ وحشيانہ طور پر قتل كرديا_(۲۴)

عائشہ نے حكم ديا كہ عثمان بن حنيف كا بھى خاتمہ كردياجائے مگر ايك نيك دل خاتوں مانع ہوئيں اور انہوں نے كہا كہ عثمان بن حنيف اصحاب پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں سے ہيں _ رسول خدا كے احترام كا پاس كيجئے اس پر عائشہ نے حكم ديا كہ انہيں قيد كرليا جائے_(۲۵)

جمل اصغر

حكيم بن جبلہ كا شمار بصرہ كے سر برآوردہ اشخاص ميں ہوتا تھا انہيں جس وقت عثمان بن حنيف

۱۲۷

كى گرفتارى كے واقعے كا علم ہوا تو انہوں نے اپنے طائفہ ''عبدالقيس '' كے جنگجو جوانوں كو مسجد ميں بلايا اور پر ہيجان تقرير كے بعد تين آور بعض اقوال كے مطابق سات سو افراد كو لے كر حملہ كا اعلان كرديا اور جارحين سپاہ كے مقابل آگئے_

اس جنگ ميں جسے جنگ جمل اصغر سے تعبير كيا گيا ہے حكيم بن جبلہ اور انكے ساتھيوں نے سخت پائمردى سے دشمن كا مقابلہ كيا يہاں تك جس وقت بازار كارزار پورے طور پر گرم تھاجارحين لشكر كے ايك سپاہى نے حكيم بن جبلہ پر حملہ كركے ان كا ايك پير قطع كرديا انہوں نے اسى حالت ميں اس سپاہى پر وار كيا اور اسے مار گرايا وہ اسى طرح ايك پير سے دشمن سے نبرد آزما ہوتے رہے حملہ كرتے وقت يہ رزميہ اشعار ان كى زبان پر جارى تھے_

يا ساق لن تراعى

ان معى ذراعى

احمى بها كر اعي

اے پير تو غم مت كر كيونكہ ابھى ميرے ہاتھ ميرے ساتھ ہيں اور ان سے ہى ميں اپنا دفاع كروں گا_

وہ اسى حالت ميں مسلسل جنگ كرتے رہے يہاں تك كہ نقاہت وكمزورى ان پر غالب آگئي اور شہيد ہوگئے _ ان كے فرزند ، بھائي اور دوسرے ساتھى بھى اس جنگ ميں قتل ہوگئے_(۲۶)

حكيم بن جبلہ پر غلبہ پانے كے بعد جارحين لشكر كے سرداروں نے دوبارہ فيصلہ كيا كہ عثمان بن حنيف كو قتل كردياجائے مگر انہوں نے كہا كہ تمہيں معلوم ہے كہ ميرا بھائي ''سہل'' مدينہ كا صوبہ دار ہے اگر تم مجھے قتل كرو گے تو وہ تمہارے عزيز واقارب كو مدينہ ميں نيست ونابود كردے گا چنانچہ اس بنا پروہ ان كے قتل سے باز رہے اور انہيں آزاد كرديا_(۲۷)

سردارى پر اختلاف

''ناكثين'' كے لشكر سرداران كو جب ابتدائي جنگوں ميں فتح و كامرانى حاصل ہوئي اور انہوں نے شہر پر بھى قبضہ كرليا تو ان ميں يہ اختلاف پيدا ہوا كہ سربراہ كسے مقرر كياجائے ان ميں سے ہر

۱۲۸

شخص كى يہى كوشش تھى كہ فتح كے بعد اولين نماز جو مسجد ميں ادا كى جائے اس ميں وہى امام جماعت كے فرائض انجام دے يہ باہمى كشمكش اس قدر طولانى ہوئي كہ نزديك تھا كہ آفتاب طلوع ہوجائے چنانچہ لوگوں نے بلند آواز سے كہنا شروع كيا اے صحابہ پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''الصلوة الصلوة ''ليكن طلحہ و زبير نے اس كى جانب توجہ نہ كى ، عائشہ نے مداخلت كى اور حكم ديا كہ ايك روز طلحہ كے فرزند محمدا ور دوسرے روز زبير كے بيٹے عبداللہ امامت كريں گے _(۲۸)

خبر رساني

طلحہ اور زبير نے جب بصرہ پر قبضہ كرليا تو وہ كارنامے جو انہوں نے انجام ديئے تھے انكى خبر شام كے لوگوں كو بھيجى گئي _ عائشہ نے بھى ان خبروں كى تفاصيل اہل كوفہ كو لكھى اور ان سے كہا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت سے دستكش ہوجائيں اور عثمان كے خون كا بدلہ لينے كے ئے اٹھ كھڑے ہوں _ يمامہ اور مدينہ كے لوگوں كو بھى خط لكھے گئے اور انہيں فتح بصرہ كى اطلاع كے ساتھ يورش و شورش كا مشورہ ديا گيا _(۲۹)

۱۲۹

سوالات

۱_ جس وقت اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے زمام حكومت سنبھالى تو وہ كون سے گروہ تھے جو آپ كى مخالفت پر اتر آئے؟

۲_ وہ كون سے عوامل تھے جن كے باعث طلحہ اور زبير نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے بعد عہد شكنى كى اور مخالفين كى صف ميں شامل ہوگئے_

۳_ ناكثين كى تحريك كا اصل مركز كہاں واقع تھا اور اس كى كس طرح تشكيل ہوئي ؟

۴_ عثمان كے قتل سے قبل عائشہ كا كيا موقف تھاا ور انہوں نے اسے كيوں اختيار كيا تھا ؟

۵_ جب عثمان قتل ہوئے اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بر سر اقتدار آگئے تو عائشہ نے اپنا موقف كيوں تبديل كرديا تھا؟

۶_ جب عثمان بن حنيف كو يہ علم ہوا كہ ''ناكثين'' كا لشكر بصرہ كے نزديك پہنچ گيا ہے تو انہوں نے كيا اقدام كيا ؟

۷_ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے بصرہ پہنچنے سے قبل وہاں كيا كيفيت طارى تھى اس كا مختصر حال بيان كيجئے ؟

۱۳۰

حوالہ جات

۱_ نہج البلاغہ خطبہ سوم ملاحظہ ہو جس ميں آپعليه‌السلام فرماتے ہيں :''فلما نهضت بالامر نكثت طائفة ومرقت اخرى وقسط آخرون ''_ حضرت علىعليه‌السلام سے قبل پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى دشمنان اسلام كے بارے ميں پيشين گوئي كردى تھى _ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطاب كرتے ہوئے ان كے يہ نام بيان كئے تھے : ''يا على ستقاتل بعدى الناكثون والقاسطين والمارقين'' (شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۰۱)

۲_ ''طلقاء '' وہ لوگ تھے جو فتح مكہ كے دوران مسلمانوں كے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب كو آزاد كرديا تھا اور فرمايا تھا كہ''اذهبوا انتم الطلقائ''

۳_ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۰ _۱۷۹ _''انتما شريكاى فى القوة والاستقامة عوناى اى على العجز الا ود ''

۴_ شرح ابن ابى الحديد ج ۷/ ۴۲ _ ۴۰

۵_مالنا من هذالامر الاكحسة انف الكلب (تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۹)

۶_والله ما اراد العمرة ولكنهما اراد الغدرة (تاريخ يعقوبى ج ۲/۱۸۰)

۷_ عثمان كے خلاف عائشہ كے اقوال واقدامات كے لئے ملاحظہ ہو (الغدير ج ۹/۸۶ _۷۷)

۸_اَبعده الله بما قدمت يداه وما الله بظلام للعبيد'' _ الغدير ج ۹/ ۸۳

۹_ الغدير ج ۹/ ۸۲ ابومخنف ' لوط بن ےحيى الازدى سے منقول

۱۰_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۰۶ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۸ _ الغدير ج ۹ / ۸۲ / ۸۰ انساب الاشراف ج ۲/ ۲۱۷_

۱۱_ عبيد نے عائشہ كے جواب ميں يہ اشعار پڑھے:

فمنك البدء ومنك الضير

ومنك الرياح ومنك المطر

و انت امرت بقتل الامام

و قلت لنا انه قد كفر

فهبنا اطعناك فى قتله

و قاتله عندنا من امر

الامامة والسياسة ج ۱/ ۵۱_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۹_۴۵۸ يعنى ان اختلاف كا سرچشمہ اور تغيرات كا باعث تم ہى تو ہو تمہارى وجہ سے سخت طوفان اور فتنے بپا ہوئے تم نے ہى عثمان كے قتل كا حكم ديا اور كہا كہ وہ كافر ہوگيا

۱۳۱

ہے اب بالفرض ہم نے تمہارى اطاعت كى خاطر اس قتل ميں حصہ ليا اصل قاتل وہ ہے جس نے اس قتل كا حكم ديا _

۱۲_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۸ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۰۷ _ انساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۱۸

۱۳_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۲

۱۴_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۱ _ ابن اثير ج ۳/ ۲۰۸ _ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۱ ليكن طبرى كى تاريخ ج ۴/ ۴۵۰ و ۴۵۱ پر يعلى بن اميہ كے اونٹوں كى تعداد چھ ہزار چھ سو لكھى ہے _

كامل ابن اثير ۳/ ۲۰۸ تاريخ يعقوبى ۲/۱۸۱

۱۵_ تاريخ طبرى ۴/ ۴۵۲ _۴۵۱

۱۶_ اس حديث كے متن كو مختلف مورخےن نے بيان كيا ہے _ يعقوبى نے ج ۲/۱۸۱ پر نقل كيا ہے :''لا تكونى التى تنجحك كلاب الحواب'' (عائشہ تم ان ميں سے نہ ہونا جن پر حواب كے كتے بھونكيں ) ليكن ابن اثير تاريخ ج ۲/۲۱۰)كامل اور بلاذرى نے انساب الاشراف (ج ۲ / ۲۲۴)ميں اس طرح درج كيا ہے ''ليت شعرى ايتكن تبنہا كلاب الحواب '' اور ابن ابى الحديد نے ج ۱۰/ ۳۱۰ پر يہى حديث دوسرے الفاظ كے ساتھ پيش كى ہے_

۱۷_ مروج الذہب ج ۳/ ۳۵۷ _ انساب الاشراف ج ۲/ ۲۲۴ الامامة والسياسات ج ۱/۶۰ ليكن يعقوبى نے (ج ۲ /۱۸۱)شہادت دينے والوں كى تعداد چاليس لكھى ہے_

۱۸_ تاريخ طبرى ج ۴ ص ۴۶۱ كامل ابن ايثرج ۳/ ۲۱۱_

۱۹_ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۳۱۳ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۲ ، ۴۶۱ _ كامل ابن اثير ج ۳/۲۱۱ _الامامة والسياسة ج ۱/۶۱ يہ گفتگو اگرچہ بہت مفصل ہے مگر يہاں اس كا خلاصہ ديا گيا ہے_

۲۰ _ مربد شہر كے كنارہ پر ايك ميدان تھا جہاں منڈى لگتى تھي_

۲۱_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۲

۲۲_ الامامة والسياسةج ۱ / ۶۱_ ۶۰

۲۳_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۳ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۳ _ ۲۱۲

۱۳۲

۲۴_ الجمل للمفيد / ۱۵۱_ ۱۵۰ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۶ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۴ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۸ شرح ابن ابى الحديد ج ۹ /۳۲۰ الامامة والسياسة ۱/۶۵

۲۵_ مروج الذہب ج ۲ / ۳۵۸ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۳۲۱

۲۶_ تاريخ طبرى ج ۴ / ۲۶۸ كامل ابن اثير ۲۱۶ _ ۲۱۵

۲۷ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۶ _۲۱۷ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۱ _ ۴۷۰ الجمل للمفيد / ۲۵۲ _ ۱۵۱

۲۸_ الجمل للمفيد ۱۵۳ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۹ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۴ _ يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ عثمان حنيف كے اس قول كے علامہ مفيد نے بصرہ كى ايك خاتون سے نقل كيا ہے_

۲۹_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۸ _ الجمل للمفيد / ۱۵۲ _ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۱

۳۰_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۲۰ _۲۱۹ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۲_ عائشہ نے جو خط مدينہ اور يمامہ كے لوگوں كو لكھا تھا اس كا متن علامہ مفيد نے اپنى تاليف ''الجمل'' كے صفحہ ۱۶۰ پر درج كيا ہے_

۱۳۳

ساتواں سبق

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۳

حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ كى جانب روانگي

ربذہ ميں قيام

لشكر كا جاہ وجلال

صلح كى كوشش

لشكر كے لئے دستورالعمل

دشمن كو متفرق كرنے كى آخرى كوشش

فيصلہ كن جنگ

عام معافي

سوالات

حوالہ جات

۱۳۴

حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ كى جانب روانگي

اميرالمومنينعليه‌السلام كى حكومت كے مخالفوں كا وجود ميں آنا ان كے درميان اتحاد و الفت اور ان كے لشكر كا بصرہ كى جانب روانہ ہونا اور پھر اس پر قابض ہوجانے كوہم بيان كرچكے ہيں اب مدينہ چلتے ہيں تاكہ وہاں سے اميرالمومنينعليه‌السلام كے ساتھ بصرہ كى طرف روانہ ہوجائيں _

معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف سركارى سطح پر سركشى كى تھى اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے سے قطى انكار كرديا تھا اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام بھى ان سے نبرد آزما ہونے كے لئے ابتدائي تيارى ميں مشغول تھے ، اس ضمن ميں انہوں نے حضرت بن حنيف، قيس بعد سعد اور ابو موسى جيسے اپنے كارپردازوں كو خطوط كے ذريعہ مطلع كيا كہ معاويہ كے خلاف جنگ كرنے كى غرض سے لوگوں كو آمادہ كريں _

اس اثناء ميں حضرت علىعليه‌السلام كو عائشہ ، طلحہ اور زبير كى سركشى نيز ان كے لشكر كى عراق كى جانب روانگى كى اطلاع ملى _ حضرت علىعليه‌السلام جانتے تھے كہ موجودہ حالات ميں ان تينوں حضرات كى يورش معاويہ كى سركشى سے كہيں زيادہ سنگين ہے كيونكہ معاويہ اسلامى حكومت كے دو دراز علاقے ميں سرگرم عمل تھا ليكن يہ لوگ مركز خلافت ميں بھى يكجا جمع اور اس كے گرد و نواح ميں شورش كيئے ہوئے تھے اس كے علاوہ بصرہ اور كوفہ سياسى اور عسكرى اعتبار سے خاص اہميت كے حامل ہيں چنانچہ اس بناء پر اس سے پہلے كہ يورش وبغاوت كے شعلے ديگر مقامات تك پہنچيں آپعليه‌السلام نے

۱۳۵

مصلحت امر اس ميں سمجھى كہ انكے آتش فتنہ كو خاموش كرنے كے لئے خود ہى پيشقدمى كريں اگر چہ كچھ لوگوں نے يہ تجويز بھى پيش كى آپ طلحہ اور زبير كے تعاقب كو نظر انداز كرديں مگر آپ نے اس تجويز كو قبول كرنے سے قطعى انكار كرديا اور فرمايا كہ خدا كى قسم ميں بجو نہيں ہوں جس كو پكڑنے كے لئے لوگ اس كے بھٹ پر دھيمے سروں ميں گاتے بجاتے ہيں اور اچانك اس كو پكڑ ليتے ہيں _ اپنے مخالفين سے پورى طرح باخبر ہوں ميں حق پسند وں كى شمشير براں سے ان لوگوں كا كام تمام كردوں گا جنہوں نے حق كے نام پر سر كشى ويورش كا سہارا ليا ہے ميں اپنے مطيع و فرمانبردار ہمكاروں كى مدد سے ان تمام سركشوں كو جو راہ حق ميں رخنہ اندازى پر تلے ہوئے ہيں ، ہميشہ كے لئے راستے سے ہٹادوں گا اور اپنے اس عمل كو تا دم واپسين جارى ركھوں گا_

حضرت علىعليه‌السلام نے مسلمانوں كو مسجد ميں جمع ہونے كا حكم ديا جب لوگ جمع ہوگئے تو آپعليه‌السلام نے عام لوگوں پر يہ واضح كرنے كے لئے مخالفين كے اغراض و مقاصد كيا ہے اس موضوع سے متعلق درج ذيل تقرير فرمائي_

''لوگوں عائشہ بصرہ كى جانب چلى گئي ہيں _ طلحہ و زبير ان كے ہمراہ ہيں ان دونوں كا يہ خيال ہے كہ خلافت پر صرف انھى كا حق ہے كسى اور كا نہيں _ طلحہ ، عائشہ كا چچا زاد بھائي ہے اور زبير ان كے داماد ہيں (اور عائشہ كى سعى و كوشش انہى كے لئے ہے)خدا كى قسم اگر يہ دونوں اپنے مقاصد ميں بالفرض كامياب ہوبھى گئے تو پھر ان دونوں ميں وہ سخت تنازع ہوگا كہ ان ميں ايك دوسرے كى گردن ماردے گا _ خدا شاہد ہے كہ جو شخص سرخ اونٹ پر سوار ہوكر روانہ ہوتا ہے وہ زيادہ دور تك راستے طے نہيں كرتا اور اس سے كوئي عقدہ وا بھى نہيں ہوتا مگر يہ كہ وہ گناہ كے راستے پر چلے اور خدا كا غضب اس پر نازل ہوتا كہ وہ اور اس كے ساتھى ہلاكت كو پہنچيں _

خدا كى قسم انجام كار يہ ہوگا كہ ان ميں سے ايك تہائي افراد مارے جائيں گے ، ايك تہائي فرار كرجائيں گے اور ايك تہائي توبہ كرليں گے_

عائشہ وہى خاتون ہيں ''جسٌ پَر حَوْا َبْ ''كے كتے غرارہے ہيں ، طلحہ اور زبير بھى جانتے

۱۳۶

ہيں كہ وہ ٹھيك راستے پر نہيں چل رہے ہيں _ افسوس اس عالم كے حال پر جو اپنے جہل كے باعث ماراگيا اور وہ اپنے علم سے بہرہ مند نہ ہوسكا_

مجھے قريش سے كيا سرو كار خدا گواہ ہے جب وہ حالت كفر ميں تھے ميں نے انہيں قتل كيا اس وقت بھى وہ ہوا وہوس اور شيطانى وسواس كے دام فريب ميں ہيں (اسى لئے شورش بپا كئے ہوئے ہيں )يہ سب ميرے ہاتھوں مارے جائيں گے _(۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے افكار عامہ كو بيدار كرنے كى غرض سے دوسرے اور تيسرے روز پر ہيجان تقارير كيں اور بالآخر آپعليه‌السلام نے اعلان جنگ كرديا _ سہل بن حنيف كو مدينے ميں اپنا جانشين مقرر كيا(۲) اور خود مسلح و مجہز لشكر كے ساتھ جو سات سو سے زيادہ افراد پر مشتمل تھا مدينہ سے عراق كى جانب روانہ ہوئے_

''ناكثين'' پر قابو پانے كے لئے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كا لشكر پہلے مكہ كى جانب روانہ ہوا ليكن جب آپ ''ربذہ(۳) '' نامى مقام پر پہنچے تو معلوم ہوا كہ مخالفين وہاں سے كوچ كرچكے ہيں _ چنانچہ وہاں سے آپعليه‌السلام نے عراق كى جانب رخ كيا _

ربذہ ميں قيام

حضرت علىعليه‌السلام نے ربذہ ميں چند روز قيام فرمايا اس عرصے ميں مدينہ سے كچھ انصار جن ميں خزيمہ بن ثابت اور تقريباً چھ سو طائفہ طى كے منظم سوار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر سے متصل ہوگئے _(۴)

عثمان بن حنيف بھى دشمنوں كے چنگل سے نجات پانے كے بعد ربذہ ميں حضرت علىعليه‌السلام سے آن ملے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے ملاقات كرنے كے بعد كہا يا اميرالمومنينعليه‌السلام جس روز آپ نے مجھے روانہ كيا تھا اس وقت ميرى داڑھى بہت گھنى تھى ليكن آج ميں آپ كى خدمت ميں ايك بے ريش نوجوان كى صورت ميں حاضر ہوا ہو حضرت علىعليه‌السلام نے انہيں صبر كى تلقين كى اور ان كے لئے

۱۳۷

دعا فرمائي _ (۵)

اسى طرح اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ہاشم مرتال كو خط دے كر حاكم كوفہ كى جانب روانہ كيا تاكہ اس سے پہلے كہ طلحہ اور زبير وہاں پہنچيں وہاں كے گورنر كى عسكرى مدد حاصل كرلى جائے _ ليكن موسى اشعرى حاكم كوفہ نے صرف حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے سے سيدھے منہ بات نہ كى بلكہ حضرت علىعليه‌السلام كے خط كو بھى انہوں نے غايب كرديا اورہاشم مرتال كو يہ دھمكى دى كہ وہ انہيں قيدى بناليں گے انہوں نے كوفہ كے لوگوں كو بھى سختى سے منع كرديا اور كہا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مدد نہ كريں _ گورنر كى حيثيت سے اعلان كيا كہ اگر جنگ كى نوبت آئي تو پہلے وہ عثمان كے قاتلوں كے خلاف جنگ كريں گے اور اس كے بعد وہ دوسروں كى طرف متوجہ ہوں گے _(۶) حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے نے ان تمام واقعات كى اميرالمومنينعليه‌السلام كو خبر كى _

يہ خط حضرت علىعليه‌السلام كو ''ذى قار'' نامى مقام پر موصول ہوا _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے فرزند عزيز حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمار ياسر كو اپنے پاس بلايا اور ان دونوں حضرات كو اس كام پر مقرر كيا كہ اہل كوفہ كے لئے وہ خط لے كر روانہ ہوں اور وہاں پہنچ كر وہاں كے لوگوں كو مدد كيلئے آمادہ كريں _

حضرت علىعليه‌السلام نے خط ابوموسى كو بھى لكھا اور انہيں ان كے منصب سے معزول كرديا _ اميرالمومنينعليه‌السلام نے اس خط ميں لكھا تھا كہ انہوں نے اپنے موقف كا صحيح استعمال نہيں كيا اور اسى بنا پر انہيں سخت تنبيہہ بھى كى اس كے علاوہ حضرت علىعليه‌السلام نے مالك اشتر كو ان كے پيچھے روانہ كيا_

حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمارعليه‌السلام نے كوفہ پہنچنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كا خط وہاں كے لوگوں كو سنايا اور اس سلسلے ميں تقارير بھى كيں _ حضرت علىعليه‌السلام كى تحرير اور حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمارعليه‌السلام كى تقرير كا اثر يہ ہوا كہ اہل كوفہ ان كے گرويدہ ہوگئے اور انہوں نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خلوص نيت اور اظہار محبت كيا اور ان كے فرمان كے آگے سر تسليم خم كرديا_

حضرت امام حسنعليه‌السلام نے ابوموسى كى معزولى كا بھى اعلان كيا اور ان كى جگہ قرظة بن كعب'' كو گورنر

۱۳۸

مقرر كيا _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے كى سعى و كوشش اور بصيرت افروز تقارير كے باعث كچھ لوگوں نے اپنى رضامندى كا اعلان كرديا چنانچہ چند روز بعد تقريباً سات ہزار افراد ''ذى قار'' ميں حضرت علىعليه‌السلام سے جاملے _ حضرت امام حسنعليه‌السلام كى كاميابى پر حضرت علىعليه‌السلام بہت مسرور ہوئے اور انہوں نے اپنے فرزند دلبند سے اظہار تشكر كيا_(۷)

لشكر كا جاہ وجلال

اميرالمومنينعليه‌السلام حضرت علىعليه‌السلام كا وہ مسلح وعظےم لشكر جو مدينہ اور كوفہ ميں جمع ہوا تھا اور بصرہ كے نواح ميں قيام پذير تھا اس لشكر كے بارے ميں منذر بن جارود نے لكھا ہے كہ ميں شہر بصرہ سے باہر نكل كر آيا تاكہ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كا نظارہ كرسكوں _

اس وقت وہاں ہزار مسلح سوار موجود تھے اور ابو ايوب انصارى تنو مند گھوڑے پر سوا ران كے پيش پيش چل رہے تھے_ ان كے علاوہ بھى وہاں دوسرے عسكرى دستے تھے جن ميں ہر دستہ ہزار مسلح افراد پر مشتمل تھا اور دستوں كى كمانڈرى خزيمہ بن ثابت ، ابو قتادہ عمار ياسر، قيس بن سعد اور عبداللہ بن عباس جيسے جليل القدر صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كرتے تھے اور يہ تمام دستے ابو ايوب كى فوج كے پيچھے چل رہے تھے_

انہى جنگجو دستوں ميں ايك دستہ حضرت علىعليه‌السلام كى زير قيادت ديگر تمام دستوں سے آگے چل رہا تھا _ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دائيں بائيں حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت امام حسينعليه‌السلام چل رہے تھے اور ان كے آگے حضرت علىعليه‌السلام تا ديگر فرزند محمد بن حنفيہ پرچم ہاتھ ميں لئے چل رہے تھے_ عبداللہ ابن جعفر ،حضرت علىعليه‌السلام كے پيچھے تھے ان كے علاوہ عقيل كے فرزند اور بنى ہاشم كے نوجوانوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو انگشترى كے نگينہ كى طرح اپنے درميان لے ركھا تھا _ كچھ معمر بدرى بزرگ (مہاجر و انصار)بھى ان ہى دستوں ميں نظر آرہے تھے_(۸)

۱۳۹

بصرہ پہنچنے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے ''زاويہ'' نامى جگہ پر قيام فرمايا اور يہاں چار ركعت نماز ادا كى نماز سے فارغ ہونے كے بعد آپ نے دوبارہ سجدہ كيا اور اس قدر گريہ و زارى كى كہ آنكھوں سے آنسو جارى ہوگئے پھر دعا كے لئے ہاتھ آسمان كى طرف اٹھائے اور عرض كى خداوند تعالى اس جماعت نے ميرے حكم كى نافرمانى كركے مجھ پر ظلم كيا ہے يہ لوگ بيعت سے منحرف ہوگئے ہيں _ اے خدا اب تو ہى مسلمانوں كى حفاظت فرما _(۹)

صلح كى كوشش

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كا مقصد جنگ كرنا نہ تھا بلكہ آپ چاہتے تھے كہ ''ناكثين'' نے جو فتنہ كى آگ بھڑكائي ہے اسے خاموش كرديں اس مقصد كى برآورى كيلئے اور كشت وخون كو روكنے كى خاطر ، حضرت علىعليه‌السلام نے ہر ممكن كوشش كى اور جو بھى ممكن طريقہ ہوسكتا تھا آپعليه‌السلام اسے بروئے كار لائے اميرالمومنينعليه‌السلام نے جو صلح طلبانہ اقدامات كئے ان كے چند نمونے يہاں پيش كئے جاتے ہيں :

۱_ بصرہ پہنچنے سے قبل آپعليه‌السلام نے صعصعہ بن صوحان اور عبداللہ بن عباس كو جداگانہ طور پر خط دے كر عائشہ ، طلحہ اور زبير كے پاس بھيجا كہ شايد ان كو مذاكرہ اور پند ونصيحت كے ذريعے جنگ كرنے سے باز ركھاجاسكے _ ليكن ان لوگوں نے حصرت علىعليه‌السلام كے نمايندگان اور آپعليه‌السلام كے پند ونصايح كے آگے سر تسليم خم نہ كيا اور جنگ كے علاوہ كوئي دوسرا راستہ اختيار كرنے سے انكار كرديا_(۱۰)

۲_ حضرت علىعليه‌السلام نے جنگ كے دن فيصلہ كيا كہ كلام اللہ كو درميان لاكر اسے حكم قرار ديں _ چنانچہ آپعليه‌السلام نے حضرت مسلم نامى شخص كو قرآن پاك ديا اور فرمايا كہ ان لوگوں سے كہو كہ ہمارے اور تمہارے درميان قرآن ہى حاكم ومنصف ہے ، خدا سے ڈرو اور مسلمانوں كا خون بہانے سے گريز كرو _

اس جوان نے حضرت علىعليه‌السلام كے حكم پر عمل كيا ليكن انہوں نے مسلم كا وہ ہاتھ قلم كرديا جس ميں

۱۴۰

قرآن مجيد تھا انہوں نے قرآن دوسرے ہاتھ مےں لے ليا اور حسب سابق انہيں قرآنى حكومت كى دعوت دى مگر ان سنگدلوں نے ان كا دوسرا ہاتھ بھى قطع كرديا اور انہيں شہيد كرديا _ (۱۱)

۳_ حكومت قرآن كى دعوت دينے والے جوان مسلم كے قتل نے كشت وخون كا سد باب كرنے والے اقدامات سے حضرت علىعليه‌السلام كو مايوس كرديا _ آپعليه‌السلام نے آخرى مرتبہ عمار ياسر كو بھيجا يہ وہ بزرگ صحابى تھے جن كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ جو لوگ انہيں قتل كريں گے ان كا شمار ظالموں ميں ہوگا اور ان كے مقام و مرتبے نيز ايمان كے بارے ميں نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا: حق ہميشہ عمار كے ساتھ ہے اور عمار حق سے پيوستہ _''عمار'' نے بھى پند و نصيحت كے ذريعے سمجھانے كى كوشش كى انہوں نے دشمنوں كى سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا اے لوگو تم نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ انصاف كا رويہ اختيار نہ كيا تم نے اپنى عورتوں كو تو اپنے گھروں ميں محفوظ كرديا اور زوجہ مطہر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو گھر سے نكال كر نيزوں اور تلواروں كے روبرو لے آئے_

اس كے بعد وہ مزيد آگئے بڑھے اور عائشہ كے ہودج كے مقابل آكر ان سے گفتگو كى ان كى يہى كوشش تھى كہ وہ ان فتنہ انگيزوں كے ساتھ شريك نہ ہوں وہ ابھى گفتگو كرہى رہے تھے كہ دشمن كے تير ہر جانب سے ان كى طرف آنے لگے _ اگرچہ انہوں نے اپنے سر كو اس طرف يا اس طرف خميدہ كركے خود كو تيروں كى زد سے بچاليا اور قطع گفتگو كركے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور كہا كہ : جنگ كے علاوہ چارہ نہيں ہے_(۱۲)

۴_ ناكثين كى جانب سے شدت كے ساتھ مسلسل تير اندازى شروع ہوگئي ادھر سپاہ اسلام كا نعرہ بلند ہوا كہ : يا اميرالمومنينعليه‌السلام دشمن ہم پر تيروں كى بارش كر رہا ہے دفاع كا حكم صادر كيجئے_

اس وقت ايك مرد كا جنازہ اميرالمومنينعليه‌السلام كے روبرو لايا گيا جسے دشمن نے اپنے تيروں كا نشانہ بنايا تھا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے يہ حالت ديكھ كر رخ مبارك آسمان كى جانب كيا اور زبان حال سے فرمايا :خداوند تو عادل وداد گر ہے شاہد و گواہ رہنا _اس كے بعد اپنے ساتھيوں سے كہا كہ تم صبر

۱۴۱

كرو تاكہ دشمن پر حجت تمام ہوجائے اس كے بعد ايك جنازہ اور لايا گيا ، حضرت على عليه‌السلام نے اس مرتبہ بھى وہى بات دہرادى يہاں تك كہ صحابى بزرگ عبداللہ بن بديل اپنے فرزند كا جنازہ لے كر آئے اور اسے حضرت علىعليه‌السلام كے ربرو ركھ ديا اور عرض كيا كہ يا اميرالمومنينعليه‌السلام ہم كب تك صبر كريں دشمن ہمارے جوانوں كو يكے بعد ديگرے قتل كئے جارہا ہے _(۱۳)

حضرت علىعليه‌السلام مسلسل تين دن تك پورى كوشش كرتے رہے كہ جنگ وخون ريزى نہ ہو مگر افسوس انہيں اپنے اس ارادے ميں كاميابى نہ ہوئي چنانچہ آپ نے خود كو اس اقدام كے ربرو پايا جو پہلے كئي مرتبہ انجام پذير ہوا تھا اس كے بعد اميرالمومنينعليه‌السلام نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زرہ پہنى ، عمامہ سر مبارك پر ركھا _ ذوالفقار كمر ميں حمائل كى دلدل پر سوار ہوكر پرچم محمد بن حنفيہ كو ديا(۱۴) مجہز و مسلح ہوكر آپ نے لشكر كا معائنہ كيا جو كہ بيس ہزار پر مشتمل تھا_ طلحہ اور زبير نے بھى اپنے لشكر كا معائنہ كيا جس ميں تيس ہزار سے زيادہ نفوس شامل تھے اب دونوں لشكر پورى طرح جنگ كے لئے آمادہ و تيار تھے _

لشكر كے لئے دستورالعمل

دشمن پر حملہ كرنے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے اپنى سپاہ كے لئے چند نكات صادر كئے اور فرمايا كہ جب دشمن كو شكست ہوجائے تو مجروحين سے جنگ نہ كريں ، قيديوں كو قتل نہ كياجائے، فرار كرنے والوں كا تعاقب نہ كياجائے _ عورتوں كو برہنہ نہ كياجائے_ مقتولين كے ناك كان قطع نہ كئے جائيں كسى كى پردہ درى نہ ہو ، فاتح سپاہى مفتوحےن كے مال كے پاس سے بھى نہ گذريں البتہ ميدان جنگ ميں اگر ہتھيار' گھوڑے ' غلام يا كنيز ہاتھ آجائيں ' تو انہيں غنيمت ميں لے ليں _(۱۵)

۱۴۲

دشمن كو متفرق كرنے كى آخرى كوشش

دونوں لشكر ايك دوسرے كے مقابل صف آرا ہوئے اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو حضرت علىعليه‌السلام كو يہ موقع مل گيا كہ زبير ان كے سامنے آگئے _ اگر چہ حضرت علىعليه‌السلام نے ان سے چند ہى جملے كہے جن كا ان كے دل پر ايسا گہرا اثر ہوا كہ دشمن كے سرداروں ، فوج كى تشكيل كا شيرازہ منتشر ہوگيا جس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے گفتگو كے دوران زبير كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حديث سنائي اور كہا كہ اے زبير كيا وہ دن ياد ہے جب كہ تو نے ميرى گردن ميں اپنا ہاتھ حمايل كر ركھا تھا اور پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ ديكھ كر تجھ سے پوچھا تھا كہ كياتجھے على سے بہت پيا ر ہے؟ اور تو نے جواب ديا تھا آخر كيوں نہ پيار كروں يہ ميرا ماموں زاد بھائي ہى تو ہے اس كے بعد پيغمبرا كرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا تو مستقبل قريب ميں اس سے جنگ كرے گا درحاليكہ تو ستمگر ہوگا _(۱۶) زبير نے جب يہ حديث سنى تو كہا''انا لله وانا اليه راجعون'' مجھے پورا واقعہ ياد آگيا ميں آپعليه‌السلام سے ہرگز جنگ نہ كروں گا اس كے بعد انہوں نے ديگر سرداران كى پر ہيجان اور وسوسہ انگيز باتوں كى جانب توجہ كئے بغير ميدان جنگ سے كنارہ كشى اختيار كرلى اور ''وادى اسباع''نالى مقام پر ''عمروبن جرموز'' كے ہاتھوں قتل ہوئے _(۱۷)

حضرت علىعليه‌السلام نے اس خيال سے كہ شايد طلحہ بھى جنگ سے باز رہيں اور نوبت خون ريزى كى نہ آئے ان سے بھى ملاقات كى اور فرمايا كہ وہ كون سا عامل تھا جس كے باعث تو نے شورش و سركشى كى _ انہوں نے جواب ديا كہ عثمان كے خون كا بدلہ ، اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : خدا اس شخص كو پہلے قتل كرے جو اس گناہ ميں ملوث ہو _ پھر فرمايا : اچھا يہ بتا كہ عثمان كا قاتل كون ہے ميں يا تو ؟ كيا تو نے نہيں سنا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ميرے بارے ميں فرمايا تھا : خدايا تو اسے دوست ركھ جو علىعليه‌السلام كا دوست ہو اور اسے دشمن ركھ جو على سے دشمنى كرے كيا تو ان لوگوں ميں شامل نہ تھا جنہوں نے سب سے پہلے بيعت كي؟ طلحہ نے كہا ميں توبہ واستغفار كرتاہوں اس كے بعد وہ بھى كسى كى پند و نصيحت كے بغير ميدان جنگ سے چلے گئے _(۱۸)

ليكن ان كا بھى وہى انجام ہوا جس سے زبير دوچار ہوئے تھے_ مروان كيونكہ عائشہ كے لشكر

۱۴۳

ميں تھا اوراس نے ديكھ ليا تھا كہ حضرت على عليه‌السلام طلحہ كے ساتھ گفتگو ميں مشغول ہيں تو اسے يہ خوف لاحق ہوا كہ كہيں وہ بھى حضرت علىعليه‌السلام كى بصيرت افروز تقرير سے متاثر نہ ہوجائيں _ دوسرى طرف مروان كا يہ گمان تھا كہ عثمان كے قتل كى سازش ميں وہ بھى ملوث ہے چنانچہ اس نے اس موقع كو غنيمت جانا اور اس وقت جب كہ ہنگامہ كا ر زار گرم تھا مروان نے طلحہ كى پشت پر تير مارا اور انہيں زمين پر گراديا(۱۹)

فيصلہ كن جنگ

سرداران سپاہ كى اشتعال انگيز تقارير پر تيس ہزار سے زيادہ افراد پر مشتمل مسلح لشكر كى تيارى ' بعض سرداران قبائل كے نام تحرير و زبانى پيغام رساني، مختلف شہروں كے لوگوں كى شورش و سركشى ميں شركت ودعوت ، لشكر كشى كے ذريعے بصرہ پر قبضہ ، وہاں كے بعض مسلمانوں كا قتل اور ان كى شكنجہ كشى ايسے قرائن وشواہد ہيں جو اس پر دلالت كرتے ہيں كہ مخالف سرداروں ، گورنروں كا كشت وخون كا مقصد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كو سرنگوں كرنے كے علاوہ كچھ نہ تھا ان حالات ميں حضرت علىعليه‌السلام كے ہمدردانہ پند ونصايح اور صلح پسندانہ اقدامات كا ان كے دلوں پر اثر نہ ہونا فطرى تھا اسى لئے انہوں نے پہلے تو حضرت علىعليه‌السلام كى لشكر كى جانب تير اندازى كى اس كے بعد چند سپاہيوں كو قتل كركے دائيں اور بائيں جانب سے حملہ شروع كرديا_

اميرالمومنينعليه‌السلام حضرت علىعليه‌السلام نے پرچمدار لشكر محمد حنفيہ كو حكم ديا كہ دشمن كى فوج كے قلب پر حملہ آور ہوں ليكن مسلسل تير اندازى كے باعث انكى نظروں كے سامنے چونكہ اندھيرا سا چھاگيا تھا اسى لئے حملہ كرنے ميں انہيں تردد ہوا اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ پيشقدمى كيوں نہيں كرتے ؟ محمد حنفيہ نے اس كى وجہ بتائي_

اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے پرچم ان كے ہاتھ سے لے ليا اور خود ہى غرائے شير كى مانند دشمن پر حملہ كرديا، حملہ كرنا تھا كہ دشمن كا لشكر اس طرح منتشر ہوگيا گويا تند و تيز ہوا كے جھونكے نے گرد وخاك

۱۴۴

كو ادھر ادھر بكھير ديا ہو _ (۲۰)

اس موقع پر ''ازد بنى ناجيہ'' اور'' بنى ضبہ'' جيسے عرب قبائل اونٹ كے گرد جمع ہوگئے جس پر لشكر كا كمانڈر سوار تھا اور بھڑكى ہوئي جنگ ميں غير معمولى فداكارى كا مظاہر كيا _

خلاف معمول عائشہ كے لشكر كے ساتھ پرچم نہ تھا البتہ پرچم كى جگہ لشكر سے آگے آگے اونٹ (جمل) چل رہا تھا اور يہى گويا ان كا پرچم تھا(۲۱) _ اور اسى سے ان كے سپاہيوں كى حوصلہ افزائي ہو رہى تھى اور جب تك يہ اونٹ اپنى جگہ قائم رہا دشمن نے خود ميں كسى قسم كى كمزورى يا شكست محسوس نہ كى _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے مالك اشتر كو حكم ديا كہ وہ دشمن كے بائيں بازو پر حملہ آور ہوں اور انہوں نے جسے ہى ميسرہ پر حملہ كيا لشكر دشمن كى صفيں يك لخت منتشر ہوگئيں اور انہوں نے اپنى عافيت راہ فرار ميں سمجھي_

اب جو لشكر باقى رہ گيا تھا وہ حسب سابق ''اونٹ'' اوراس كے سوار كا دفاع وتحفظ كر رہا تھا _ فطرى طور پر اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ نے بھى اپنى پورى طاقت اسى حصہ پر لگادى تھى _ چنانچہ اس ''اونٹ'' كے گرد شديد خونى جنگ شروع ہوگئي _(۲۲)

سرگردنوں سے جدا ہو كر ، ہاتھ جسموں سے كٹ كٹ كر فضا ميں بكھر رہے تھے نوك شمشير مسلسل دشمن كے شكموں كو چاك كئے جارہى تھيں مگر اس كے باوجود عائشہ كے سپاہى اس اونٹ ''جمل'' كى حفاظت آہنى فصيل كى مانند كر رہے تھے انہوں نے اس اونٹ كو اپنے حلقہ مےں لے ركھا تھا اور اس كا سختى سے دفاع كيا جارہا تھا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے سمجھ ليا كہ جب تك يہ اونٹ اپنے پيروں پر كھڑا رہے گا جنگ كا خاتمہ نہ ہوگا اس پر آپعليه‌السلام نے اپنے لشكر كو مخاطب كرتے ہوئے فرمايا كہ اس اونٹ كى ٹانگيں كاٹ دو كيونكہ جيسے ہى يہ اونٹ زمين پر گرے گا دشمن كا لشكر منتشر ہوجائے گا_(۲۳)

حضرت علىعليه‌السلام كے فرمان كے مطابق تلواريں بلند ہوئيں او ہر طرف سے تيروں كى بارش جمل كى

۱۴۵

جانب ہوگئي يہاں تك كہ تيروں كے پھل اس اونٹ كے پورے بدن ميں اتر گئے_

جن لوگوں نے اونٹ كى مہار اپنے ہاتھوں ميں سنبھال ركھى تھى وہ يكے بعد ديگرے زمين پر گرنے لگے ان ميں سب سے پہلے گرنے والا بصرہ كا مشہور و معروف قاضى ''كعب بن سور'' تھا اس نے قرآن مجيد اپنى گردن ميں حمايل كر ركھا تھا اس كے ايك ہاتھ ميں عصا اور دوسرے ميں اونٹ كى مہار اس كے بعد قريش نے پيش قدمى كى اور انہوں نے بھى مہار كو اپنے ہاتھ ميں تھاما يہاں تك كہ ستر افراد نے يكے بعد ديگرے دفاع كى خاطر جان دے دى ، قريش كے بعد بنى ناجيہ، بنى ضبہ اور ازد قبائل كے لوگوں نے بالترتيب اس كے مہار كو سنبھالا ليكن وہ بھى قتل ہوئے مختصر يہ كہ بقول زبير جس نے بھى اس اونٹ كى مہار كو تھاما وہ فوراً ہى مارا گيا _(۲۴)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ان گروہوں كے ہمراہ نخعى اور ہمدانى قبائل كے حامى و طرفدار تھے مركزى نقطے كى جانب شدت سے حملہ كركے دشمن كو منتشر و متفرق كرديا اور بجير نخعى سے فرمايا كہ اس وقت يہ اونٹ تمہارے دست اختيار ميں ہے اس كى ٹانگوں كى رگيں كاٹ دو ، بجير نے شمشير سے اس پر حملہ كيا اونٹ زور سے چيخا اور زمين پر گر پڑا جب وہ زمين پر گر گيا تو باقى لشكر بھى فرار ہوگيا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں نے آپعليه‌السلام كے حكم سے عائشہ كے كجاوہ كو ايك طرف منتقل كيا پہلے تو اس اونٹ كو مار كر جلايا اور پھر اس كى راكھ كو فضا ميں منتشر كرديا_

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے اس حكم كے ثبوت نيز اس كى تائيد ميں كتاب خدا سے استشہاد پيش كرتے ہوئے فرمايا كہ اے لوگو يہ اونٹ بنى اسرائيل كے بچھڑے كى طرح منحوس و فتنہ انگيز حيوان تھا اس كے بعد آپ نے اس آيت كى تلاوت كى جو حضرت موسىعليه‌السلام نے سامرى سے خطاب كرتے ہوئے پڑھى تھى _

اپنے اس خدا كو ديكھو جس كى تم پرستش كرتے ہو كہ ہم اسے كس طرح جلاتے ہيں اور پھر اس كى راكھ كو دريا ميں بہاديں گے _(۲۵)

۱۴۶

اور اس طرح جنگ جمل تمام ہوئي ، حضرت على عليه‌السلام كى حكومت كو ابھى چھ ماہ كا عرصہ بھى نہيں گزر ا تھا كہ يہ جنگ آپ پر مسلط كردى گئي اور ماہ جمادى الاخر سنہ ۳۶ ھ ميں '' ناكثين'' كى مكمل شكست پر اس كا مكمل طور پر خاتمہ ہو گيا اور جانبين كا كثير جانى و مالى نقصان ہوا _

عام معافي

دشمن پر غلبہ حاصل كرنے كے بعد حضرت عليعليه‌السلام نے حكم ديا كہ جنگ سے قبل جو حكم ديا گيا تھا اسے سپاہيوں كے سامنے دوبارہ پڑھا جائے _

اس كے ساتھ ہى اعلان كيا گيا كہ كسى ايسى عورت سے جس كا شوہر جنگ ميں مارا گيا ہے فورا نكاح نہ كيا جائے بلكہ اسے موقع ديا جائے كہ عرصہ عدت كو پورا كرے _(۲۶)

عائشہ كے سلسلہ ميں بالخصوص محمد بن ابى بكر كو حكم ديا گيا كہ وہ اپنى بہن كے پاس جائيں اور ان كى دلجوئي كريں اگر ان كو تير لگا ہو يا جسم پر زخم آيا ہو تو اس كا علاج كر ديا جائے محمد كے جانے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام بذات خود عا يشہ كى خدمت ميں تشريف لے گئے اور عصا سے عا يشہ كے كجادہ كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا كہ اے حميرا كيا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمہيں يہى كرنے كا حكم ديا تھا ؟ كيا آنحضرت نے يہ نہيں فرمايا تھا كہ تم اپنے گھر مےں بيٹھنا خدا كى قسم جو تمہيں گھر سے نكال كر باہر لائے ہيں انہوں نے تمہارے ساتھ انصاف نہيں كيا انہوں نے اپنى خواتين كو پس پردہ بٹھا ديا اور تمہيں وہ ميدان جنگ ميں لے آئے _

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے ان كے بھائي كو حكم ديا كہ وہ عا يشہ كو حرث بن ابى طلحہ كى بيٹى صفيہّ كے پاس لے جائےں جہاں چند روز آرام كريں جب حالات معمول پر آگئے تو حضرت عليعليه‌السلام نے عبداللہ بن عباس كو اس كام پر مقرر كيا كہ وہ عا يشہ كے پاس جائيں اور انھيں مدينہ واپس چلنے كے لئے آمادہ كريں _

عائشہ نے اگرچہ شروع ميں تو چلنے سے انكار كيا مگر جب ابن عباس نے ان سے بار بار كہا اور

۱۴۷

انھيں يہ بتايا كہ حضرت علي عليه‌السلام نے فيصلہ كر ليا ہے كہ آپ كو مدينہ لے جايا جائے تو مجبورا وہ تيار ہو گئيں _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے عا يشہ كے سفر كى تيارى شروع كى اور انھيں انكے بھائي عبدالرحمن ' تيس سپاہيوں اور قبيلہ القيس و ہمدان كى بيس عورتوں كى نگرانى ميں مدينہ كى جانب روانہ كى ان سب نے عائشہ كى انتہائي خدمت كى اور ان كے ساتھ پورے اعزاز و احترام كا سلوك كيا(۲۷) يہاں يہ بات بھى قابل توجہ و ذكر ہے كہ حضرت عليعليه‌السلام نے عائشہ كى پورى حفاظت اس بنا پر كى كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ انھيں كہيں راستے مےں كوئي گزند پہنچے حضرت عليعليه‌السلام كى جانب سے عا يشہ كے تحفظ كا مقصد يہ بھى ہو سكتا ہے كہ زوجہ مطہرہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مرتبہ كا پاس كر كے ان كا مقصد مقام رسالت كا احترام كيا جائے اس كے علاوہ حضرت علىعليه‌السلام كو يہ خدشہ تھا كہ اگر عائشہ كا قتل ہو گيا تو كہيں ايسا فتنہ بپانہ ہو جائے جو عثمان كے قتل كى وجہ سے رونما ہوا تھا چنانچہ عمر و عاص نے جنگ كے بعد عائشہ سے كہا تھا كہ : اے كاش تم جنگ ميں قتل كر دى گئي ہوتيں عا يشہ نے اس كا مطلب دريافت كيا تو اس نے كہا كہ اگر تم مارى جاتيں تو جنت ميں جاتيں اور ہم اس مسئلے كو حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف حملہ كرنے كا اہم ترين بہانہ بناليتے(۲۸) _

۱۴۸

سوالات

۱ _ '' ناكثين'' كى شورش كے بارے مےں اطلاع حاصل كرنے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كس شخص سے جنگ كرنے كيلئے تيار تھے اور آپ نے اپنا ارادہ كيوں بدل ديا ؟

۲ _ حضرت عليعليه‌السلام نے كس منزل پر اور كن افراد كو كوفہ كى جانب روانہ كيا وہاں انھيں كيسے كاميبابى حاصل ہوئي؟

۳ _ كشت و خون روكنے كيلئے حضرت علىعليه‌السلام نے كيا اقدامات كئے ؟ انكى تين مثاليں بيان كيجئے _

۴ _ فيصلہ كن جنگ كس طرح شروع ہوئي عا يشہ كے تحفظ و دفاع ميں كون سے قبائل پيش پيش اور سرگرم عمل تھے ؟

۵ _ جنگ كے بعد جو افراد باقى رہ گئے تھے انكے ساتھ حضرت عليعليه‌السلام بالخصوص عا يشہ كے ساتھ كيا سلوك رہا ؟

۶ _ جنگ جمل ميں كس جگہ كو مركزيت حاصل تھى اور حضرت عليعليه‌السلام نے اس كى كس طرح سركوبى كى ؟

۷_ حضرت عليعليه‌السلام نے عا يشہ كى حفاظت كے لئے كيوں اس قدر اہتمام كيا ؟

۱۴۹

حوالہ جات

والله لا اكون كالضبع تنام على طول اللّارم حتى يصل اليها طالبها و يختلها راصدها ولكننى اضرب بالمقبل الى الحق المدبر عنه و باالسامع المطيع العاصى المريب ابدا حتى ياتى على يؤمى

۱_ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/۲۳۳ ، ارشاد مفيد ۱۳۱_

۲_ الجمل للمفيد /۱۲۹ الامامة السياسة ج ۱/ ۵۳ ميں سہل كى بجائے قسم بن عباس كا ذكر ملتا ہے_

۳_ يہ جگہ ذات عرق كے قريب حجاز ومدينہ كے درميان تين روزہ راہ كى دورى پر واقع ہے (معجم البلدان ج ۳/۲۴ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۹ _ ۳۵۸

۴_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۹_ ۳۵۸

۵_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۲۶ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۸۰ ،تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۲ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۳۲۱_

۶_ الجمل للمفيد /۱۳۰ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۴/ ۹

۷_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۸ ، ۴۷۷ ، كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۷۷ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۱۴/ ۹

۸_ ملاحظہ ہو مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۹ ، والجمل / ۱۳۸، طبرى ج ۴/ ۵۰۰ اور ابن ابى الحديد نے ج ۱۴ /۲۱ پر ابى الطفيل سے نقل كيا ہے كہ اس سے قبل كہ سپاہ كوفہ پہنچے حضرت علىعليه‌السلام نے پيشن گوئي كردى تھى كہ كوفہ سے ايك ہزار ايك سپاہى آئيں گے اور ايسا ہى ہوا _ راوى كا كہنا ہے كہ ميں نے انہيں گنا ان ميں سے نہ كم تھا نہ ايك زيادہ_

۹_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۱ _ ۳۵۹ كا خلاصہ

۱۰_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۱''اللهم ان هؤلاء القوم قد خلعوا طاعتى بغوا على ونكثوا بيعتى اللهم احقن دماء المسلمين ''_

۱۱_ الجمل للمفيد / ۱۶۷

۱۲_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۱ ، الجمل للمفيد /۱۸۱ تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۰۹ _۵۱۱

۱۵۰

۱۳_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۲

۱۴_ الجمل للمفيد / ۱۸۲ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۹/۱۱ ، تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۲ ، ليكن تاريخ يعقوبى اورشرح ابن ابى الحديد ميں مقتول كو عبداللہ كا بھائي تحرير كيا گيا ہے _

۱۵ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۹ /۱۱۱

۱۶_ مروج الذہب ج ۲/ ۲۶۲ _ الجمل للمفيد /۱۸۲

۱۷_ اماانك ستحاربہ و انت ظالم لہ

۱۸_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۳ زبير كے سلسلے ميں يہ روايت بھى ملتى ہے كہ وہ بھى دوسروں كى طرح حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ آخرى لمحہ تك جنگ كرتے رہے ليكن جب اصحاب جمل كو شكست و ہزيمت ہوئي تو انہوں نے بھى راہ فرار اختيار كى جس وقت وہ فرار كررہے تھے تو اچانك جرموزے نے انہيں غافل پاكر قتل كرديا (سيرة الائمہ اثنى عشر ج ۱/ ۴۵۵)ان اقوال كے علاوہ يہ قول بھى ہے كہ جب زبير نے كنارہ كشى كا فيصلہ كرليا تو ان كے فرزند عبداللہ نے ان پر يہ الزام لگايا كہ وہ جنگ سے خوف زدہ ہوگئے ہيں اور انہيں قسم ياد لائي اور كفارہ دينے كو كہا زبير نے اپنے غلام كو آزاد كركے كفارہ ادا كيا اور بيٹے نے جو الزام لگايا تھا اسے دور كرنے كے لئے انہوں نے تلوار اٹھائي اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى لشكر پر حملہ آور ہوگئے ملاحظہ ہو تاريخ الفداء ج ۱/ ۱۷۴ _ ۱۷۳

۲۰_ مروج الذہب ج ۲/۳۶۴ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۲ ، انساب الاشراف ج ۲/ ۲۴۸ ، الجمل للمفيد / ۲۰۴ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۱۱۳

۲۱_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۶ ، الجمل للمفيد / ۱۸۳ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۱۴ ، سيرة الائمہ اثنى عشر ج ۱/ ۴۵۷ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۵۷

۲۲_ تاريخ ابن اعثم / ۱۷۶ و شرح ابن ابى الحديد _

۲۳_ شرح ابن ابى الحديد ج / ۲۵۸

۲۴ _ اعقروا الجمل فانہ ان عقر تفرقوا (تاريخ طبرى ج۴ / ۵۱۹)_

۲۵ _ تاريخ طبرى ج / ۴/ ۵۱۹ ' اسد الغابہ ۳ / ۳۰۸ ' شرح ابن ابى الحديد ج۱ / ۲۶۵ _

۱۵۱

۲۶ _ سورہ طہ آيہ ۹۶ ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج۱ / ۲۶۶ _

۲۷ _ اس حكم كے جارى كرنے سے حضرت عليعليه‌السلام كا مقصد يہ تھا كہ دشمن كے افراد كے ساتھ وہى سلوك كيا جائے جو مسلمانوں كے ساتھ روا كھا جاتا ہے ان كے ساتھ كفار كا _ سا برتاؤ نہ كيا جائے _

۲۸ _ ملاحظہ ہو كامل ابن اثير ج۳ / ۲۵۸ ' خ ۲۵۵ ' تاريخ طبرى ج ۴ / ۴۴،۵ ۴،۵۳

۹ ۲ _ شرح ابن ابى الحديد ج۶ / ۳۲۲ _

۱۵۲

آٹھواں سبق

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۴

حضرت عليعليه‌السلام كى بصرہ ميں آمد

جنگ جمل كے ناخوشگوار نتائج

كوفہ ، دارالحكومت

كوفہ پہنچنے پر عليعليه‌السلام كے اقدامات

قاسطين

معاويہ كى تخريب كاري

امام عليعليه‌السلام كا نمايندہ معاويہ كى جانب

سركشى كے اسباب

مشہور و معروف اشخاص كو اپنانا

سوالات

حوالہ جات

۱۵۳

حضرت عليعليه‌السلام كى بصرہ كى آمد

جنگ جمل ختم ہونے كے بعد حضرت عليعليه‌السلام نے تين روز تك معركہ گاہ پر قيام فرمايا متقولين كى نماز جنازہ پڑھائي حكم ديا كہ دشمن كے مقتولين كو جمع كر كے انھيں دفن كيا جائے شہداء كو حضرت علىعليه‌السلام كے فرمان كے مطابق ان كے لباس ميں ہى دفن كيا گيا(۱) جسموں سے جو اعضاء الگ ہو گئے تھے انھيں يك جا ايك بڑى قبر مےں دفن كياگيا _

مال غنيمت كو (سوائے اس اسلحہ كے جس پر مہر خلافت ثبت تھى)سپاہ ميں مساوى تقسيم كيا خود بھى ايك حصہ اس مےں سے ليا باقى مال جو جنگ مےں ہاتھ آيا تھا اور اس كا شمار مال غنيمت مےں نہےں ہوتا تھا مسجد مےں لے جايا گيا تاكہ ان كے مالك يا وارثين كى تحويل ميں دے ديا جائے _(۲)

بصرہ پہنچنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام سيدھے مسجد مےں تشريف لے گئے جہاں آپ نے مفصل تقرير كى اہل بصرہ سے خطاب كرتے ہوئے آپ نے ان كى سرزنش كى اور فرمايا كہ اے كاہل لوگو اے وعدہ خلاف انسانوں تم نے تين مرتبہ اپنوں سے ہى خيانت كى اور چوتھى مرتبہ تم نے خدا پر اتہام لگايا تم نے پيروى بھى كى تو ايك عورت اور بے زبان جانور كى تم نے اس كى ايك آواز پر غوغا و فتنہ بپا كرديا اور جب اس حيوان كے پيروں كى رگيں كاٹ دى گئيں تو تم بھاگ نكلے اخلاقى اعتبار سے تم پست ہو تمہارے اعمال منافقانہ ہيں اور تمہارا دين و آئين باطل اور تفرقہ اندازى ہے_(۳)

اس كے بعد تمام افراد حتى مجروحين نے بھى آپ كے دست مبارك پر بيعت كي_ حضرت علىعليه‌السلام

۱۵۴

نے ابن عباس كو بصرہ كى صوبہ دارى اور زياد كو امور مالى وخراج كى وصول يابى كے عہدوں پر مقررومامور فرمايا _ (۴)

اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام خزانہ بيت المال تشريف لے گئے جس وقت آپ كى نظر مبارك سونے اور چاندى پڑى تو آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ :يا صفرا ء يا بيضا غريا غيري(اے زرد سونے اور سفيد چاندى كے سكو تم اپنى يہ دلربائي كسى اور كو دكھانا كسى اور كو تم اپنے دام فريب ميں لانا اس كے بعد آپ نے حكم ديا كہ جو مال موجود ہے اس كو پانچ سو اعداد ميں تقسيم كريں جس وقت سكوں كا شمار كيا گيا تو انكى تعداد كم و بيش ساٹھ لاكھہ درہم تھى چنانچہ آپ كے ساتھيوں ميں سے ہرشخص كے حصے ميں پانچ سو سكے آئے _ اسى وقت وہاں ايك شخص آپ كى خدمت ميں حاضر ہوا _ اس نے عرض كيا يا اميرالمومنينعليه‌السلام مجھے بھى كچھ عطا فرمايئے اگر چہ ميں كسى وجہ سے جنگ ميں شركت نہ كرسكا ليكن ميرى نيك خواہشات آپ كے ساتھ تھيں _ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنا حصہ اسے ديديا_(۵)

جنگ جمل كے ناخوشگوار نتائج

جنگ جمل كے جو اثرات و نتائج رونما ہوئے وہ نہايت ہى ناخواشگوار تھے ان ميں سے بعض كا ہم يہاں ذكر كرتے ہيں _

۱_ اس جنگ ميں دس ہزار سے زيادہ مسلمان قتل ہوئے _(۶) درحقيقت يہ افراد ''ناكثين'' كے حسد اور ان كے جذبہ جاہ طلبى پر قربان ہوئے _ مورخين نے لكھا ہے كہ دو لشكروں كے اتنے سپاہى زمين پر گرے كہ اگر ان كى لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جاتے تو گھوڑوں كے سم ان كى لاشوں كے علاوہ كسى اور چيز نہ پڑتے _ لاشوں كے يہ انبار اس عظےم جنگ كا حاصل و ثمرہ تھا جو جمل كے نام سے مشہور ہوئي اس سے قبل بھى بيان كياجاچكا ہے كہ بيشتر افراد ناكثين كے ہاتھوں ہى مارے گئے_

۱۵۵

مقتولين كى اس كثير تعداد نے بہت سى اقتصادى مشكلات نيز جسمانى و نفسياتى دشوارياں مسلمانوں كے لئے پيدا كرديں _

۲_ اس جنگ كے بعد مسلمانوں ميں سے جذبہ اخوت و برادرى قطعى مفقود ہوگيا اور امت مسلمہ پر فتنہ وفساد كے دروازے كھل گئے اور جنگ صفين بھڑك اٹھى در حقيقت يہ دو جنگيں اس مضبوط رسى سے بندھى ہوئي تھيں جس كا پہلا سرا بصرہ ميں تھا اور دوسرا صفين ميں اگرچہ عائشہ كى عثمان سے قرابت دارى نہ تھى ليكن جنگ جمل نے معاويہ كے لئے اس بناپر شورش وسركشى كا راستہ ہموار كرديا كہ وہ خاندان اميہ كے فرد اور عثمان كے رشتہ دار تھے چنانچہ اس جنگ كے باعث معاويہ كے لئے يہ بہانہ پيدا ہوگيا كہ اس نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف جنگ و جدل كرنے كے علاوہ خلافت كوا پنے خاندان ميں منتقل كرديا درحاليكہ يہ مقتول خليفہ كا ہى خاندان تھا اور يہيں سے خلافت نے موروثى شكل اختيار كرلى _

۳_جنگ جمل كے ضرر رسان نتائج جنگ صفين كے بعد بھى باقى رہے اور جنگ نہروان درحقيقت دو پہلى جنگوں (جنگ جمل و جنگ صفين)كا ہى نتيجہ تھى كيونكہ ان دو جنگوں كے باعث بعض تنگ نظر اور كوتاہ فكر لوگوں كے دلوں ميں بدگمانى كے جذبات ابھرنے لگے _ چنانچہ عملى طور پر وہ تشويش و اضطراب اور حالت تردد كا شكار ہو كر رہ گئے نيز معاشرے كى طرف سے وہ ايسے بدبين و بدظن ہوئے كہ ہر شخص دوسرے كو عداوت و دشمنى كى نگاہ سے ديكھنے لگے_

بعض وہ لوگ جو ''خوارج '' كہلائے اس رائے كے حامى و طرفدار تھے كہ چونكہ ''ناكثين'' كے سرداروں نے اپنے پيشوا يعنى حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف شورش و سركشى كى ہے اس لئے ان كا شمار كفار ميں ہے اس كے بعد ان كے دلوں ميں يہ گمان پيدا ہوگيا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے چونكہ اپنى حكومت كے استحكام كى خاطر يہ جنگ كى اس لئے وہ بھى آئين دين اسلام سے خارج ہوگئے_

بعض لوگوں كى يہ رائے تھى كہ جنگ جمل ميں اگر چہ حضرت علىعليه‌السلام حق بجانب تھے ليكن آپعليه‌السلام نے چونكہ اہل بصرہ كى تمام دولت كو بطور مال غنيمت جمع نہيں كيا اور ان كى عورتوں كو قيد نہيں كيا اسى

۱۵۶

لئے يہ آپ سے غلطى سرزد ہوئي چنانچہ اسى بناپر وہ آپ عليه‌السلام كو ناشايستہ الفاظ سے ياد كرنے لگے_

انہيں ميں سے تيسرا گروہ ايسا بھى تھا جو ان دونوں گروہوں كو كافر سمجھتا تھا اور اس كا يہ عقيدہ تھا كہ يہ لوگ ہميشہ جہنم ميں رہيں گے _(۷)

كوفہ دارالحكومت

جنگ جمل كے مسائل اور بصرہ كى حكومت كے معاملات حل و منظم كرنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے مدينہ اور بصرہ كے لوگوں كو خطوط لكھے جن ميں آپعليه‌السلام نے جنگ جمل كے واقعات مختصر طور پر بيان كئے وہ خط جو اہل كوفہ كو لكھا تھا اس ميں آپعليه‌السلام نے مزيد يہ بھى مرقوم فرمايا تھا كہ ميں جلدى ہى كوفہ كى جانب آؤں گا(۸) اس ارادہ كے تحت آپعليه‌السلام جنگ جمل كے ايك يا دو ماہ بعد بصرہ سے كوفہ كى جانب روانہ ہوئے_

بصرہ كے بعض سربرآوردہ لوگ بھى حضرت علىعليه‌السلام كے ہمركاب تھے كوفہ كے لوگ بالخصوص قاريان قرآن حضرت علىعليه‌السلام كے استقبال كے لئے شہر سے باہر نكل آئے او رآپعليه‌السلام كے حق ميں انہوں نے دعائے خير كى _

حضرت علىعليه‌السلام بتاريخ ۱۲ رجب سنہ ۳۶ ھ ميں اس مقام پر فروكش ہوئے جو ''رحبہ(۹) '' كے نام سے مشہور تھا وہاں سے آپ سيدھے جامع مسجد تشريف لے گئے اور وہاں آپ نے دو ركعت نماز ادا كى _(۱۰)

كوفہ كے واقعات بيان كرنے سے قبل يہاں لازم ہے كہ ہم ان اسباب و علل كا جائزہ ليں جن كے باعث كوفہ كو اسلامى حكومت كا مركز قرار ديا _

كوفہ كو اسلامى حكومت كا مركز قرار ديئے جانے كے سلسلے ميں مورخين نے بہت سے اسباب وعلل بيان كئے ہيں _ ان ميں ايك وجہ يہ تھى كہ مالك اشتر او كوفہ كے ديگر سربرآوردہ لوگوں كا يہ اصرار تھا كہ اس شہر كو اسلامى حكومت كا مركز بنايا جائے دوسرى وجہ يہ تھى كہ جنگ جمل كے بعد بعض

۱۵۷

لوگ فرار كركے كوفہ كى جانب چلے آئے تھے اور اس بناء پر حضرت على عليه‌السلام نے مجبوراً فيصلہ كيا كہ ان كے فتنے كى سركوبى كے لئے كوفہ كى جانب روانہ ہوں _(۱۱)

ليكن جب ہم ان حوادث اور مسائل كا جائزہ ليتے ہيں جو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے اس وقت موجود تھے جب آپعليه‌السلام نے زمام حكومت سنبھالى تو ہم اس نتيجہ پر پہنچتے ہيں كہ وہ ديگر مسائل تھے جو حضرت علىعليه‌السلام كے لئے مركز حكومت منتقل كرنے كے محرك ہوئے_

اس سے پہلے بتايا جا چكا ہے كہ ''فتنہ ناكثين'' سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كا خيال تھا كہ ايسى عسكرى طاقت منظم ہوجائے جس كے ذريعے معاويہ كا مقابلہ كياجاسكے مگر ناكثين كى شورش نے اس معاملے ميں تاخير پيدا كردى چنانچہ فطرى طور پر معاويہ نے اس معاملے كو غنيمت جانا اور اس نے حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف جنگ كرنے كى غرض سے كافى فوجى طاقت نيز اور ديگر وسائل فراہم كرليئے_ معاويہ نے شام كے لوگوں كو مطيع و فرمانبردار كرنے كے علاوہ اس نے عثمان كے خون كا بدلہ لينے كے بہانے سے لوگوں كے جذبات مشتعل كئے چنانچہ عراق كى جانب جو خطوط بھيجے اور جن صاحب اثر و رسوخ افراد كو روانہ كيا ان كا اصلى سبب يہ تھا كہ سرداران قبائل اور فرمانداران لشكر كو وہ اپنى جانب متوجہ كرلے_

معاويہ جانتا تھا كہ فتوحات اور اسلامى قلمرو كے وسعت پذير ہونے كے باعث شام كوفہ و بصرہ تين اہم مركز بن گئے ہيں اور حجاز فوجى طاقت كے اعتبار سے خاصا دور ہوگياہے_

يمن ميں بھى قابل توجہ و اعتنا عسكرى طاقت موجود نہ تھى چنانچہ جس وقت ''بسر بن ارطاة''نے اس منطقے ميں شورش و سركشى كى تو حضرت علىعليه‌السلام كا كارپرداز اس كے مقابل اپنا دفاع نہ كرسكا اور يا يہ كہ جنگ جمل ميں تقريبا سات سو افراد ہى حضرت علىعليه‌السلام كى مدد كےلئے ربذہ پہنچے اور اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام نے ''ذى قار'' ميں توقف فرمايا تاكہ لشكر كوفہ وہاں آجائے_

يہى وہ مسائل تھے جو حضرت علىعليه‌السلام كى تيز بين و دور انديش نظروں سے پنہاں نہ رہ سكے آپعليه‌السلام كو علم تھا معاويہ نے شام ميں اس موقع سے فايدہ اٹھايا ہے _ چنانچہ عسكرى طاقت كے علاوہ اس

۱۵۸

نے ديگر وسائل جنگ بھى فراہم كرلئے ہيں اس بنا پر حضرت على عليه‌السلام كے لئے ضرورى تھا كہ وہ بھى عظےم مسلح لشكر تيار كريں تاكہ معاويہ سے نبرد آزمائي كى جاسكے اس كے علاوہ يہ بھى ضرورى تھا كہ دشمن كى نگرانى نزديك سے كى جائے كيونكہ اس سے كسى وقت بھى زور آزمائي ہوسكتى ہے_

ان دو مقاصد كے پيش نظر بصرہ اور كوفہ ميں سے كسى ايك شہر منتخب كيا جاسكتا تھا_ اب بصرہ بھى ايسى جگہ نہيں تھى جہاں زيادہ دن تك قيام كياجاسكے كيونكہ فتنہ جمل كى آگ سرد كرنے كے لئے وہاں بہت زيادہ خون بہايا گيا تھا اور جنگ كے بعد جو لوگ زندہ رہ گئے تھے انكے دلوں ميں حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كيلئے جوش وخروش نہيں تھا_ بلكہ وہ ايك اعتبار سے پست ہمت و كم حوصلہ ہوچكے تھے اسى بناپر وہ حضرت علىعليه‌السلام كے لئے بھى قابل اعتماد نہ تھے _ چنانچہ ان وجوہات كى بناء پر بہترين اور مناسب ترين شہر كوفہ ہوسكتا تھا _

چنانچہ معاويہ كى طرف سے جب تك خطرے كا امكان ہوسكتا تھا اس وقت تك حكومت كى مصلحت كا تقاضا يہى تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كوفہ ميں ہى تشريف فرما رہيں _

كوفہ پہنچنے پر علىعليه‌السلام كے اقدامات

كوفہ پہنچنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام سہر كى مسجد ميں تشريف لے گئے جہاں آپ نے لوگوں سے خطاب كيا اس موقع پر آپ نے اہل كوفہ كى قدر كرتے ہوئے ان كى حوصلہ افزائي كى كہ انہوں نے آپعليه‌السلام كى دعوت كو قبول كيا _ اپنے خطبے ميں آپ نے ہوا وہوس نيز لمبى لمبى آرزوں سے گريز كرنے كى ہدايت فرمائي اور ان لوگوں كو تنبيہہ كى جو آپعليه‌السلام كى مدد كرنے سے روگردان ہوگئے تھے_

اس كے بعد آپ نے ''جعدہ بن غيبرہ '' مخزومى كے مكان پر قيام فرمايا _(۱۳) بتاريخ ۱۶ رجب بروز جمعہ آپ مسجد ميں تشريف لے گئے جہاں پہلى مرتبہ آپ نے نماز جمعہ كى امامت فرمائي _(۱۴)

۱۵۹

اس كے بعد آپ نے امور حكومت كى جانب توجہ فرمائي ، اپنے اقدامات ميں حاكم آذربائيجان ''اشعث بن قيس'' اور ہمدان كے عامل و كار پرداز ''جرير ابن عبداللہ'' كو انكے مناصب سے برطرف كيا جو كہ عثمان كے مقرر كردہ واليان حكومت تھے ان دونوں كو اپنے پاس(۱۵) بلايا ،ا پنے ديگر كار پردازوں كو مختلف مناطق كى جانب روانہ كيا چنانچہ ''يزيد ابن قيس '' كو حكومت مدائن ، ''مخنف بن سليم'' كو حكومت اصفہان و ہمدان اور مالك اشتر كو موصل كى منصب دارى عطا كى _(۱۶)

قاسطين

ناكثين كا فتنہ دب جانے كے بعد ايسے ناہنجار حالات پيدا ہونے لگے كہ جن ميں خالص نسلى اور قبائلى محركات كارفرماتھے _ اب اس اسلامى فكر كو پيش كرنے كى كوشش كى جانے لگى جس ميں سے روح تو مفقود ہوچكى تھى بس ظاہرى خول باقى رہ گيا تھا _ اب اسلام كى قدرت كو بچانے كيلئے خليفہ مسلمين كى روز افزوں طاقت مسئلہ تھى اس لئے حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے راستے ميں جو دوسرا خطرہ تھا وہ ''قاسطين'' كا وجودتھا قاسطين كا مجمع در حقيقت ان عاملين اور جماعتوں كى منظم شكل تھى جنہيں حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت سے كسى نہ كسى طرح گزند پہنچى تھى اور انہيں يہ خطرہ لاحق تھا كہ اگر حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت بر سر اقتدار رہى تو وہ اپنى نفسانى خواہشات كو پورا كرنے ميں كامياب نہ ہوسكيں گے_

ان تمام گروہوں اور جماعتوں كا سربراہ معاويہ تھا _ اس نے اپنے سياسى و اجتماعى موقف كى بناپر اپنے گرد بہت سے پيروكار جمع كرلئے تھے_

معاويہ ابن ابى سفيان نے فتح مكہ كے بعد دين اسلام قبول كيا تھا وہ ان افراد ميں شامل تھا جو جنگ كے دوران مسلمانوں كى حراست ميں آگئے تھے اور جنہيں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ فرمايا كر آزاد كرديا تھا جاؤ تم سب آزاد ہو _(۱۷) سنہ ۱۲ھ ميں جس وقت ابوبكر نے ''يزيد ابن ابى سفيان'' كى

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348