تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175256 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

قيادت و فرماندارى ميں روميوں سے جنگ كرنے كے لئے لشكر روانہ كيا تھا ، تو معاويہ پرچمدار كى حيثيت سے لشكر شام كے ہمراہ تھا جب اس كے بھائي كا انتقال ہوگيا تو خليفہ وقت نے اسے سپاہ كا فرماندار مقرر كرديا_ عثمان كے دور خلافت ميں بہت سے نئے علاقے اسلامى حكومت كى قلمرو ميں شامل ہوئے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ معاويہ انيس سال تك خاطر جمعى كے ساتھ شام پر حكومت كرتا رہا_

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے زمام حكومت سنبھالى تو معاويہ نے آپعليه‌السلام كا فرمان قبول كرنے سے روگردانى كى اور عثمان كے خون كا بدلہ لينے كو بہانہ بناكر حضرت علىعليه‌السلام سے برسر پيكار ہوگيا اورجنگ صفين كيلئے راہ ہموار كى ، آخرى لمحات ميں جب كہ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كى فتح و پيروزى يقينى تھى ، اس نے عمرو عاص كى نيرنگى سے قرآن مجيد كو نيزوں كى نوك پر اٹھاليا اور حضرت علىعليه‌السلام كو حكميت قرآن كى جانب آنے كى دعوت دى اور اس طرح اس نے كوفہ كے سادہ لوح سپاہيوں كو تقدس نمائي سے اپنا گرويدہ كرليا _ يہاں تك كہ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو مجبور كيا كہ وہ جنگ كرنے سے باز رہيں _

قرآن مجيد كى ''حكميت'' كا فائدہ بھى معاويہ كو ہى ہوا (اس كى تفصيل بعد ميں بيان كى جائے گى)چنانچہ پہلى مرتبہ اس كا نام لوگوں كى زبانوں پر خليفہ كى حيثيت سے آنے لگا اور سنہ ۴۰ ھ ميں جب حضرت علىعليه‌السلام كو شہيد كرديا گيا تو خليفہ بن كر ہى مسند خلافت پر آيا اور اس نے انيس سال سے زيادہ مسلمانوں پر حكومت كى اور بالآخر ماہ رجب ميں اس كا انتقال ہوا_

معاويہ كى تخريب كاري

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف معاويہ نے جس قدر مخالفت و تخريب كارى كى اس كى طرح اندازى عمرو عاص كرتا تھا جيسے ہى يہ اطلاع ملى كہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كر رہے ہيں تو اس نے درج ذيل مضمون پر مشتمل خط زبير كو لكھا:

۱۶۱

''معاويہ كى جانب سے بندہ خدا زبير كى خدمت ميں عرض ہے كہ اے اميرالمومنين ميں نے شام كے لوگوں سے كہا كہ وہ آپ كے لئے ميرے ہاتھ پر بيعت كريں انہوں نے ميرے ہاتھ پر بيعت كرلى ہے وہ سب متفقہ طور پر آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں انہوں نے ہى مجھ پر دباؤ ڈالا كہ آپ كے حق ميں ، ميں ان سے بيعت لوں ، آپ كوفہ و بصرہ كى حفاظت كيجئے كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ دو شہر على بن ابى طالبعليه‌السلام كے ہاتھ لگ جائيں كيونكہ ان دو شہروں پر قبضہ ديگر سرزمينوں كو حاصل كرنے كے لئے خاص اہميت كا حامل ہے _ آپ كے بعد ميں نے طلحہ كے حق ميں بھى لوگوں سے بيعت لے لى ہے اب آپ يہ كہہ كر شورش و سركشى كريں كہ عثمان كے خون كا بدلہ لينا ہے اور لوگوں كو بھى اسى عنوان سے دعوت ديجئے اس مقصد كى برآورى كے لئے پورى متانت و سنجيدگى اور سرعت عمل سے كام ليجئے _(۱۸)

معاويہ نے اپنى جدو جہد كا آغاز اسى روش سے كيا اگر چہ كسى بھى تاريخ كى كتاب ميں يہ واقعہ نہيں ملتا كہ انہوں نے شام ميں زبير كى حق ميں بيعت لى ہو _

امام علىعليه‌السلام كا نمايندہ معاويہ كى جانب

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے معاويہ كيساتھ جنگ كرنے سے قبل اتمام حجت كى غرض سے ''جرير ابن عبداللہ'' كو خط ديكر روانہ كيا(۱۹) اور اس سے بيعت كا مطالبہ كرتے ہوئے طلحہ اور زبير كى عہد شكنى كا بھى ذكركيا ، خط كے آخر ميں آپعليه‌السلام نے مزيد تحرير فرمايا كہ اگر تمہارا خودكو بلاؤں ميں گرفتار كرنا مقصد ہے تم سے جنگ كروں گا تم ان آزاد شدہ لوگوں ميں سے ہو جن ميں نہ تو خلافت كى اہليت وشايستگى ہے او رنہ ہى امور خلافت ميں انكو مشير بنايا جاسكتا ہے _(۲۰) جب جرير نے خط معاويہ كو ديا وہ اس خط كو پڑھ كر حيرت زدہ رہ گيا اور جرير سے كہا كہ ميرے جواب كا انتظار كرو اس مسئلہ كا حل تلاش كرنے كى غرض سے عمرو عاص كو اپنے پاس بلايا اور كہا كہ اگر اس مشكل كا حل نكال لو تو مصر كى حكومت ميں تمہارے حوالے كردوں گا _ معاويہ نے ان كى تجويز پر

۱۶۲

شام كے سربرآوردہ لوگوں كو مسجد ميں جمع كيا اور ان كے سامنے مفصل تقرير كى اس نے اہل شام كى تحسين و قدر دانى كرتے ہوئے ان كے جذبات كو عثمان كے خون كا بدلہ لينے كيلئے مشتعل كيا اور حاضرين جلسہ كى اس بارے ميں رائے جاننا چاہي، اس بات پر حاضرين اٹھ كھڑے ہوئے اور انہوں نے عثمان كے خون كا بدلہ لينے كے لئے اپنى آمادگى و رضامندى كا اظہار كيا چنانچہ اس غرض كے تحت انہوں نے معاويہ كے ہاتھ پر بيعت كى اور يہ وعدہ كيا كہ جب تك دم ميں دم ہے ، وہ اس عہد پر قائم رہيں گے اور اپنا مال تك اس راہ ميں قربان كرديں گے _

جرير نے جب يہ منظر اپنى آنكھوں سے ديكھا تو وہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے پاس واپس آگئے اور تمام واقعات آپ كے سامنے بيان كئے اور كہا كہ شام كے لوگوں نے معاويہ كے ساتھ گريہ و زارى بھى كى اور آپ سے جنگ كرنے كيلئے سب متفق الرائے ہيں كيونكہ ان كا گمان ہے كہ حضرت على بن ابى طالبعليه‌السلام نے انہيں قتل كرايا ہے اور ان كے قاتلوں كو پناہ دى ہے_(۲۱)

سركشى كے اسباب

معاويہ نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف كيوں سركشى كى نيز اس كے پس پشت كيا اسباب و علل اور محركات كار فرماتھے ان كا مختصر طور پر ہى سہى مگر ذكر كردينابہت ضرورى ہے_

۱_ دشمنى اور كينہ

خاندان بنى اميہ كو جس كا سردار معاويہ تھا ، ہاشمى خاندان بالخصوص پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام سے سخت عداوت ودشمنى تھى ، اس دشمنى و كينہ توزى كا آغاز نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عہد رسالت اور اس كے بعد پيش آنے والے غزوات كے باعث ہوا_ عداوت اور دشمنى اس حدتك پہنچ چكى تھى كہ جہاں كہيں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عظمت كا ذكر ہوتا معاويہ اپنے دل ميں ملول ہوتا ذيل كى حكايت اس كى شاہد و گواہ ہے ''مطرف ابن مغيرہ '' سے منقول ہے كہ ميرے والد كى معاويہ كے پاس آمد

۱۶۳

ورفت تھى وہ جب بھى اس كے پاس سے واپس گھر آتے تو اسكى ذہانت و ذكاوت كى بہت تعريف كرتے ايك رات معاويہ كے پاس سے آئے تو ميں نے انہيں اتنا مضطرب وپراكندہ خاطر پايا كہ انہوں نے كھانا تك نہيں كھايا_ ميں نے اپنے والد سے دريافت كيا كہ وہ اس قدر كيوں مضطرب و پريشان خاطر ہيں ، انہوں نے جواب ديا كہ آج ميں انتہائي كافر اور خبيث ترين شخص كے پاس سے واپس آرہا ہوں _ ميں نے پوچھا آخر ہوا كيا؟ انہوں نے كہا كہ معاويہ كے پاس بيٹھا ہوا تھا جب خلوت ہوئي تو ميں نے كہا اے اميرالمومنين آپ كافى عمر رسيدہ ہوچكے ہيں اور عہد پيرى كى منزل تك پہنچ گئے يہاں اچھا ہوگا كہ آپ اب عدل وانصاف سے كام ليں اور اپنے بھائي بنى ہاشم سے صلہ رحمى كے ساتھ پيش آئيں كيونكہ انكے پاس ايسى كوئي چيز نہيں جس كے باعث آپ كو ان سے خطرہ ہو ، اس كے علاوہ اگر آپ حسن سلوك كريں گے تو لوگ آپ كو ياد ركھيں گے اور اس كا آپ كو اجر بھى ملے گا_

اس پر معاويہ نے كہا كہ ہرگز اپنے كام كى بقا كى خاطر كس اميد پر نيك كام كروں ''يتم'' كے بھائي ابوبكر كو خلافت ملى عدل وانصاف كو اپنا شيوہ بنايا اور جو كچھ كرنا تھا انہوں نے كيا ليكن جب ان كى وفات ہوگئي تو لوگ انہيں بھول گئے بس لوگوں كو اتنا ہى ياد رہ گيا ہے كہ ابوبكر كے بعد عدى كے بھائي عمر نے حكومت كى _ دس سال تك وہ خدمت خلق كرتے رہے مگر مرنے كے بعد انكا نام بھى صفحہ ہستى سے محو ہوگيا صرف چند ہى لوگوں كو يہ نام (عمر)ياد رہ گيا ہے ليكن اس كے برعكس ''ابى كبشہ'' كے فرزند محمد ابن عبداللہ'' كا نام ہر روز پانچ مرتبہ بآواز بلند ليا جاتا ہے اور''اشهد ان محمد رسول الله'' كہا جاتا ہے اس كے بعد ميرى كون سى كاركردگى اور ياد باقى رہ جائے گى خدا كى قسم جيسے ہى ميں خاك كے نيچے جاؤں گا ميرا نام بھى اس كے ساتھ دفن ہوجائے گا_(۲۲)

۲_ حكومت كى آرزو

معاويہ جانتا تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اسے اس كے منصب پر قائم رہنے نہيں دےں گے كيونكہ اسے اس بات كا علم تھا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے ظلم واستبداد كى ہميشہ مخالفت كى ہے اور حكومت اسى

۱۶۴

لئے قبول كى كہ اسے عدالت وانصاف سے چلائيں گے_

حضرت علىعليه‌السلام كے كردار سے وہ چونكہ بخوبى واقف تھا اس لئے اسے يہ بھى علم تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نہ صرف يہ كہ حكومت شام كى جانب سے چشم پوشى نہ كريں گے بلكہ وہاں جو مال انہوں نے عثمان كے دور خلافت ميں جمع كيا تھ اس سے لے كر بيت المال ميں داخل كرديں گے _ اس كے بعد وہ ايك معمولى فرد كى طرح اپنى باقى عمر كسى گوشہ تنہائي ميں گذارلے گا يہ بات اس كے لئے كسى بھى طرح قابل برداشت نہ تھى _

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ وہ جب تك شام پر حكم فرما رہا ، اس نے كبھى مركزى حكومت كے كارپردازو و نمايندے كى حيثيت سے عمل نہيں كيا بلكہ وہاں اپنے لئے ايك مستقل سلطنت كى بنياد قائم كردى تھى _ تاكہ اپنى مرضى كے مطابق وہ لوگوں پر حكمرانى كرسكے اور ايسى حكومت كى بنياد ركھ دى جو اس كے خاندان ميں آنے والى نسلوں كى ميراث بن گئي _

۳_ ناكثين كى شورش

ناكثين كى شورش نے عثمان كے خون كا بدلہ لينے كى تحريك كے لئے راستہ ہموار كرديا اگر ايسا نہ ہوتا تو معاويہ كے لئے مشكل تھا كہ اس اتحاد كو جو مسلمانوں كے درميان پيدا ہوگيا تھا اور جس كى سرزمين اسلام كے بيشتر علاقوں پر حكم و فرمانروائي تھى اس كو درہم برہم كرسكے اور مسلمانوں ميں ايك دوسرے كے خلاف مقابلے كى ہمت و جرا ت پيدا ہوسكے ليكن جنگ جمل كے جو ناخوشگوار نتائج رونما ہوئے انہوں نے اس سد عظيم كو گراديا اور معاويہ كے واسطے شورش و سركشى كا ميدان صاف كرديا_

۴_ گزشتہ خلفاء كى دليل ومثال

اس كے علاوہ معاويہ اپنے اس رويے كى يہ توجيہ پيش كرتا اور كہتا كہ گذشتہ خلفاء نے حضرت علىعليه‌السلام پر سبقت حاصل كرلى اور مسلمانوں نے بھى ان كى حكومت كو تسليم كرليا اس لئے ميں بھى انہى كے رويے كى پيروى كر رہا ہوں _

۱۶۵

چنانچہ جب اس نے محمد ابن ابى بكر كو خط لكھا تو اس ميں انہوں نے اسى امر كى جانب اشارہ كيا كہ تمہارے والد اورعمرآن اولين افراد ميں سے تھے جنہوں نے خلافت ميں علىعليه‌السلام كى مخالفت كى اور ان كا حق خود لے ليا وہ خود تو مسئلہ خلافت پر متمكن رہے مگر علىعليه‌السلام كو انہوں نے امر خلافت ميں شريك تك نہ كيا اگر وہ راہ راست پر چل رہے ہيں تو تمہارے والد وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے يہ راہ اختيار كى اگر ہم ظلم و ستم كے رستے پر گامزن ہيں تو اس راستے كو بھى تمہارے والد نے سب سے پہلے ہموار كيا تھا اس مقصد ميں ہم ان كے شريك كار اور انہى كى پيروى كر رہے ہيں اگر تمہارے والد اس راہ ميں ہم پر سبقت نہ لے جاتے تو ہم على بن ابى طالبعليه‌السلام كى ہرگز مخالفت نہ كرتے ليكن ہم نے ديكھا كہ تمہارے والد نے يہ كام انجام ديا ہے چنانچہ ہم ان كى راہ و روش پر گامزن ہيں _(۲۳)

۵_ پروپيگنڈہ

عثمان كے قتل كے بعد طلحہ و زبير نے جو شورش و سركشى كى راہ اختيار كى اس كے باعث معاويہ كو يہ موقع مل گيا كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف پروپيگنڈہ كرسكے اور اس ميں بھى جو چيز كار فرما تھى وہ عثمان كے خون كا بدلہ تھا_

معاويہ نے اہل شام كے جذبات بر افروختہ كرنے كے لئے عثمان كے خون آلود كرتے اور ان كى اہليہ نائلہ كى قطع شدہ انگلى كو جنہيں ''نعمان بن بشير'' اپنے ساتھ صوبہ شام سے لے آيا تھا ، مسجد كى ديوار پر نصب كرديا اور انہوں نے چند عمر رسيدہ لوگوں سے كہا كہ وہ ان چيزوں كے نزديك بيٹھ كر گريہ وزارى كريں ، اس پروپيگنڈہ نے لوگوں كے دلوں پر ايسا گہرا اثر كيا كہ جيسے ہى معاويہ كى ولولہ انگيز تقرير ختم ہوگئي تو لوگ اپنى جگہ سے اٹھ كھڑے ہوئے اور سب نے ايك آواز ہوكر كہا كہ ہم عثمان كے خون كا بدلہ ليں گے اورمعاويہ كے ہاتھ پر يہ كہہ كر بيعت كى كہ جب تك ہمارے دم ميں دم ہے تمہارا ساتھ ديں گے_

۱۶۶

مشہور و معروف اشخاص كواپنانا

معاويہ كا مقصد چونكہ زمام حكومت كو اپنے اختيار ميں لينا تھا سى لئے اسكى مسلسل يہ سعى وكوشش تھى كہ جس طرح بھى ممكن ہوسكے ان لوگوں كى توجہ كو اپنى طرف مائل كريں جو اس كام كے لئے مناسب ہوسكتے ہيں اور ان كے ساتھ يہ عہد وپيمان كريں كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف سرگرم عمل رہيں گے اس كام ميں جو لوگ اس كے ہم خيال رہے ان كے نام درج ذيل ہيں :

۱_ عمروعاص : معاويہ نے اس سے كہا كہ تم ميرے ہاتھ پر بيعت كرو اور ميرى مدد كرو اس پر عمرو عاص نے كہا كہ خدا كى قسم دين كى خاطر تو ميں يہ كام نہيں كرسكتا البتہ دنيوى مفاد كى خاطر ميں تيار ہوں معاويہ نے دريافت كيا كہ كيا مانگنا چاہتے ہو اس نے كہا كہ مصر كى حكومت معاويہ نے اس كے اس مطالبے كو منظور كرليا اور لكھ كر دستاويز بھى دى _(۲۴)

۲_ طلحہ و زبير جيسا كہ پہلے ذكر كيا جاچكاہے كہ معاويہ نے زبير كو خط لكھا تو اس ميں زبير كو اميرالمومنين كے لقب سے ياد كيا تھا اور ان كى نيز طلحہ كى توجہ كو اپنى جانب مائل كرنے كى غرض سے ايسا ظاہر كياكہ ميں نے تمہارے حق ميں شام كے لوگوں سے بيعت لى ہے اور طلحہ كو وليعہد مقرر كرديا ہے_

۳_ شرحبيل _ اس كا شمار شام كے بااثر و رسوخ افراد ميں ہوتا تھا معاويہ نے خاص حكمت عملى كے ذريعے اسے اپنى جانب مائل كيا اور وہ بھى اس كا ايسا گرويدہ ہوا كہ معاويہ كا دم بھرنے كے علاوہ عثمان كے خون كا مطالبہ شروع كرديا _ معاويہ نے ضمناً عمرو عاص كا ذكر كرتے ہوئے اسے خط ميں لكھا كہ علىعليه‌السلام كا جرير نامى نمايندہ ميرے پاس آيا ہے اور اس نے بہت اہم تجويز ميرے سامنے ركھى ہے يہ خط ملتے ہيں آپ فوراً ميرے پاس چلے آئيں _ معاويہ نے شرحبيل كے آنے سے قبل بعض ايسے لوگوں كو جو اس كے نزديك قابل اعتماد تھے اور اس كے ساتھ ہى وہ شرجيل كے قرابت دار بھى يہ ہدايت كہ جب شرحبيل مجھ سے ملاقات كرچكے تو وہ اس سے ملاقات كريں اور اسے اطلاع ديں كہ عثمان كا قتل حضرت علىعليه‌السلام كے ايماء پر ہى ہوا ہے _(۲۵)

۱۶۷

شرحبيل كو جيسے ہى معاويہ كا خط ملا تو عبدالرحمن ابن غنم اور عياض جيسے خير خواہ دوستوں كى مرضى و منشاء كے خلاف اس نے معاويہ كى دعوت كو قبول كرليا اگرچہ انہوں نے بہت منع كيا مگر اس كے باوجودوہ حمص سے دمشق كى جانب روانہ ہوگيا _(۲۶)

شرحبيل جيسے ہى شہر ميں داخل ہوا تو معاويہ كے ہواخواہ اس كے ساتھ بہت عزت واحترام سے پيش آئے اس كے بعد معاويہ نے جرير كے خط كا ذكر كيا اورمزيد يہ كہا كہ اگر علىعليه‌السلام نے عثمان كو قتل نہ كرايا ہو تا تو وہ بہترين انسان شمار كئے جاتے جب معاويہ كى گفتگو ختم ہوگئي تو شرحبيل نے كہا كہ مجھے اس مسئلے پر سوچنے كا موقع ديجئے تا كہ اس كے بارے ميں غور وفكر كرسكوں _

معاويہ سے رخصت ہوكر جب وہ واپس ہو اتو اس كى كچھ لوگوں سے ملاقات ہوگئي يہ لوگ تو پہلے سے ہى ان سے ملنے كے متمنى و مشتاق تھے _ شرحبيل نے عثمان كے قتل كے بارے ميں ان سے دريافت كيا تو سب نے يہى كہا كہ علىعليه‌السلام ہى عثمان كے قاتل ہيں _

يہ سننے كے بعد شرحبيل غضبناك حالت ميں معاويہ كے پاس واپس آيا اور كہا كہ لوگوں كا يہ خيال واضح ہے كہ عثمان كو علىعليه‌السلام نے قتل كيا ہے _ خدا كى قسم اگر تم نے ان كے ہاتھ پر بيعت كى تو ہم لوگ يا تو تمہيں شام سے باہر نكال ديں گے يا يہيں قتل كرڈاليں گے _ معاويہ نے محسوس كرليا كہ اس كا منصوبہ كارگر ثابت ہوا ہے كہا كہ ميں بھى شام كے افراد ميں سے ايك ہوں ميں نے آج تك تمہارى مخالفت نہيں كى ہے اور آيندہ بھى ايسا نہ كروں گا مگر تم كو يہ جاننا چاہئے كہ يہ كام شام كے عوام كى مرضى كے بغير صورت پذير نہيں ہوسكتا تم كو اس منطقے ميں شہرت و نام آورى حاصل ہے اب تم شام كے مختلف شہروں كا دورہ كرو اور لوگوں كو بتاؤ كہ عثمان كو علىعليه‌السلام نے قتل كياہے اور اب مسلمانوں پر واجب ہے كہ اس خون كا بدلہ لينے كى خاطر شورش وسركشى كريں _ شرحبيل نے ايسا ہى كيا چنانچہ چند زاہد و پارسا و گوشہ نشين افراد كے علاوہ شام كے عام لوگوں نے اس دعوت كو قبول كرليا _(۲۷)

۱۶۸

سوالات

۱_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے بصرہ پہنچنے كے بعد كيا اقدامات كئے ؟

۲_ جنگ جمل كے كيا نتائج واثرات رونما ہوئے ؟مختصر طور پر وضاحت كيجئے_

۳_ جنگ جمل كے بعد كوفہ كو مركز حكومت كيوں قرار ديا ؟

۴_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف معاويہ كا كيا موقف تھا ؟ معاويہ كے عدم تعاون كى ايك مثال پيش كيجئے _

۵_ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف معاويہ نے كيوں شورش و سركشى اختيار كى ؟ مختصر طور پر بيان كيجئے_

۶_ معاويہ نے صاحب اثر ورسوخ اور سياستمدار افراد كى توجہ كو اپنى طرف كيسے مبذول كيا اس كى ايك مثال پيش كيجئے ؟

۱۶۹

حوالہ جات

۱_ الجمل ۲۱۱

۲_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۵۵ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۳۸

۳_ مروج الذہب ج ۲ہ ۳۶۸

۴_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۴۱، كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۵۶

۵_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۱ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۴۹

۶_ جنگ جمل ميں جو جانى نقصان ہوا اس كے بارے ميں مورخين كے درميان اختلاف رائے ہے _ ابن اثير ج ۳/ ۲۵۵_ اور طبرى ج ۴/ ۵۳۹ نے مقتولين كى تعداد دس ہزار افراد لكھى ہے يعنى ہرطرف سے تقريباً پانچ ہزار افرادقتل ہوئے _ مسعودى ج ۲/ ۵۳۹نے مروج الذہب ميں مقتولين كى تعداد بيان كرتے ہوئے لكھا ہے كہ اصحاب جمل كے تيرہ ہزار افراد مارے گئے اور حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ ميں سے پانچ ہزار افراد شہيد ہوئے _ بلاذرى نے انساب الاشراف ج ۲/ ۲۶۵ ميں درج كيا ہے كہ صرف اہل بصرہ ميں سے بيس ہزار افراد قتل ہوئے مگر يعقوبى نے اپنى تاريخ كے ج۲ /۱۸۳ پر جانبين كے مقتولين كى تعداد تيس ہزار افراد سے زيادہ بيان كى ہے _

۷_ ملاحظہ ہو الملل و النحل شہرستانى ج ۱/ ۱۲۱ ، والتبصير ۴۲_

۸_ علامہ مفيد نے حضرت علىعليه‌السلام كے خطوط اپنى تاليف و تاليف الجمل ميں صفحات ۲۱۵ ، ۲۱۱ پر درج كئے ہيں _

۹_ رحبہ كوفہ كے محلوں ميں سے ايك محلے كا نام تھا (معجم البلدان ج ۳/ ۳۳)

۱۰_ وقعہ صفين ۳_

۱۱_ ملاحظہ ہو كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۶۰ و تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۴۴ ، ۵۴۳_

۱۲_ ''جعدہ'' اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بھانجے تھے آپ كى والدہ ام بانى دخترابى طالب تھيں (شرح ابن ابى الحديد ج ۱۰ /۷۷)_

۱۳_ وقعہ صفين / ۳_۱۰_

۱۴_ مروج الذہب ج ۲/ ۲۷۲ ، كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۷۶_

۱۷۰

۱۵_ وقعہ صفين ۱۲_۱۱_

۱۶_اذهبو انتم الطلقاء (اسى وجہ سے معاويہ كا شمار طلقاء ميں ہوتا ہے _

۱۷_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۳۱ _ تاريخ التواريخ ج ۱/ ۳۸_

۱۸_ بعض مورخين نے لكھا ہے كہ جرير كو انہى كى درخواست پر روانہ كيا گيا تھا اگر چہ مالك اشتر نے انہيں روانہ كئے جانے كى مخالفت كى تھى اور يہ كہا تھا كہ جرير كا دل سے جھكاؤ معاويہ كى جانب ہے ليكن اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا تھا كہ ان كا امتحان كئے ليتے ہيں پھر ديكھيں گے كہ وہ ہمارى طرف كيسے آتے ہيں _ ملاحظہ ہو مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۲ ، وقعہ صفين ۲۷_

۱۹_ وقعہ صفين /۱۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۳ ۷۵ ، كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۷۶ اور مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۲_

۲۰ _ مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۲ ، وقعہ صفين ۳۴ ، ۳۱_

۲۱_ شرح ابن ابى الحديد ج ۵/ ۱۲۹_

۲۲_ وقعہ صفين ۱۲۰_۱۱۹ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۳/ ۱۸۹_

۲۳_ تاريخ ابوالفداء ج ۱/ ۱۷۱ كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۲_ ۲۷۷_

۲۴_ وقعہ صفين ۳۲ شرح ابن ابى الحديد ج ۳/ ۷۸_

۲۵_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۴ _ وقعہ صفين ۴۰/ ۳۸_

۲۶_ وقعہ صفين ۴۴ يہاں اس بات كا ذكر بھى ضرورى ہے كہ شرحبيل اور جرير كے درميان سخت عداوت تھي_

۲۷_ ان كى قرابت دارى ميں يزيد بن اسد بُسر اور ارطاء اور عمر بن سفيان بھى شامل تھے_

۲۸_ وقعہ صفين ۴۵_

۲۹_ وقعہ صفين ۵۰_ ۴۶ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۷۱_

۱۷۱

نواں سبق

قاسطين (جنگ صفين)۱

حضرت علىعليه‌السلام كا معاويہ كے ساتھ مراسلت ميں محرك

حجاز كى جانب درازدستي

نمايندے كى روانگي

مہاجرين و انصار كے ساتھ مشورہ

عمومى فوج

كمانڈروں كاتقرر

صفين كى جانب روانگي

شام ميں بحرانى حالات كا اعلان

پہلا مقابلہ

پانى پر بندشي

سوالات

حوالہ جات

۱۷۲

حضرت علىعليه‌السلام كا معاويہ كے ساتھ مراسلت ميں محرك

حضرت علىعليه‌السلام جب تك كوفہ ميں قيام پذير رہے اور صفين كى جانب روانہ ہونے سے پہلے تك آپ نے معاويہ كى جانب خطوط بھيجنے اور اپنے نمايندگان كو روانہ كرنے ميں ہميشہ پيشقدمى كى تا كہ اسے اس راہ و روش سے روكا جا سكے جو اس نے اختيار كر ركھى تھى جس كى پہلى وجہ يہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام دل سے يہ نہيں چاھتے تھے كہ شام كے لوگوں سے جنگ كى جائے كيونكہ وہ بھى مسلمان تھے_

دوسرى وجہ يہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام چاھتے تھے كہ معاويہ ،شام كے عوام اور ان لوگوں كے لئے جو آئندہ آپ كے ہمركاب رہ كر معاويہ سے جنگ كريں گے اتمام حجت ہوجائے_

تيسرى وجہ يہ تھى كہ اگر امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام معاويہ كے خطوط كا جواب نہ ديتے اور اس كے عدم تعاون كے خلاف صريح و قطعى موقف اختيار نہ كرتے تو ممكن تھا كہ عوام اس رائے كے حامى ہوجاتے كہ معاويہ حق بجانب ہے_

ابن ابى الحديد نے ان بعض خطوط كونقل كرتے ہوئے جن كا مبادلہ حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ كے درميان ہوا لكھا ہے كہ اگر چہ زمانے ميں نيرنگياں تو بہت ہيں مگر اس سے زيادہ كيا عجيب بات ہو سكتى ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كے لئے نوبت يہاں تك آن پہنچى كہ ان كا اور معاويہ كا شمار ايك ہى صف كيا جانے لگا اور وہ ايك دوسرے كے ساتھ مراسلت كريں _(۱)

اس كے بعد ابن ابى الحديدنے لكھا ہے كہ اس مراسلت و مكاتبت كے پس پشت كون سا محرك كار فرما تھا وہ لكھتا ہے كہ '' شايد حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں اس كى وہ مصلحت آشكار و روشن تھى جو ہم پر

۱۷۳

پوشيدہ و پنہاں ہے '' اوپر جو وجوہ بيان كے گئے ہيں ان كے علاوہ خطوط لكھنے كى وجہ يہ بھى ہو سكتى ہے كہ :

۱-_ زور آور و تنومند سياسى افراد نے مختلف احاديث جعل كركے معاويہ كو اس بلند مقام پر پہنچا ديا اور اس كے لئے ايسے فضائل اختراع كئے كہ معاويہ امامعليه‌السلام كے مقابلہ ميں آگيا يہى نہيں بلكہ معاويہ خود كو افضل تصور كرتا اور اس پر فخر كرتا تھا يہ تحريك عمر كے عہد خلافت ميں شروع ہوئي(۲) اور بالاخرہ امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كے زمان خلافت ميں شدت اختيار كر گئي_

۲_ معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كو جو خطوط لكھے ہيں ان ميں اس نے حضرت علىعليه‌السلام سے بہت سى ناروا باتيں منسوب كى ہيں اور اپنى طرف ايسے افتخارات كى نسبت دى ہے جن كى كوئي اساس نہيں ہے اگر حضرت علىعليه‌السلام نے ان حقائق كوآشكار نہ كيا ہوتا اور اس ضمن ميں ضرورى باتيں نہ بتائي ہوتيں تو بہت سے حقيقى واقعات نظروں سے او جھل ہو كر رہ جاتے اور وہ افترا پردازياں جو آپعليه‌السلام كے ساتھ روا ركھى گئيں ان كا جواب نہ ديا گيا ہوتا تو سادہ لوح انسان ان كو حقيقت سمجھ كر قبول كر ليتے_

حضرت علىعليه‌السلام سے جو اتہامات منسوب كئے گئے ان ميں سے ايك يہ بھى تھا كہ آپعليه‌السلام كو اپنے سے پہلے كے خلفاء سے حسد و بغض تھا اور ان كے خلاف شورش كرنا چاہتے تھے اگر اس كا جواب نہ ديا گيا ہوتا تو عين ممكن تھا كہ سپاہ عراق ميں تفرقہ پيدا ہوجاتا چنانچہ يہى جہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام نے اس سازش كو روكنے كى غرض سے اپنے منطقى و مستدل بيان سے معاويہ كو جواب ديا(۳) _

حجاز كى جانب دراز دستي

حضرت علىعليه‌السلام كى يہى كوشش تھى كہ معاويہ كے ساتھ جو اختلافات ہے وہ مسالمت آميز طريقے سے حل ہوجائيں اور وہ قتل و خون ريزى كے بغير حق و انصاف كے سامنے سر تسليم خم كردے ليكن اس كے بر عكس معاويہ پورى سنجيدگى سے حالات كى برہمى و آشفتگى اور مسلمانوں ميں باہمى اختلاف و گروہ بندى كى كوشش كرتا رہا چنانچہ اس نے اپنے سياسى اقتدار كو تقويت دينے كے لئے

۱۷۴

سر برآوردہ افراد اور سرداران قبائل كو خط لكھنے شروع كئے تا كہ اس طريقے سے حجاز اس كى دسترس ميں آجائے_

اس سلسلے ميں اس نے عمروعاص سے مشورہ كيا اور كہا كہ اس اقدام كے ذريعے ہميں دو نتائج ميں سے ايك حاصل ہوگا يا تو ہم اپنے مقصد ميں كامياب ہوجائيں گے اور انھيں اپنا ہم خيال بناليں گے يا تو كم از كم ان كے درميان شك و ترديد تو پيدا كرديں گے تا كہ وہ علىعليه‌السلام كو مدد دينے سے باز رہيں _

ليكن عمروعاص كى رائے ميں يہ اقدام موثر نہ تھا كيونكہ اس كا خيال تھا كہ جن افراد كو خط لكھا جا رہا ہے وہ يا تو حضرت علىعليه‌السلام كے طرفدار ہيں ظاہر صورت ميں انھيں خط لكھنے سے ان كى نظر و بصيرت ميں اضافہ ہوگا اور وہ بيشتر علىعليه‌السلام كى حامى و طرفدار ہوجائيں گے يا پھر وہ لوگ ہى جو عثمان كے جانبدار ہيں انھيں خط لكھنے سے كوئي فائدہ نہيں كيونكہ وہ جو كچھ بھى ہيں خط سے ان پر مزيد كوئي اثر ہونے والا نہيں ،رہے وہ لوگ جو ہر طرف سے لاتعلق ہيں انھيں بھى تم سے زيادہ علىعليه‌السلام پر اعتماد ہے_

ليكن معاويہ اپنے فيصلے پر پورى سنجيدگى سے قائم رہا بالاخر دونوں نے مشتركہ طور پر اہل مدينہ كو لكھا اور اس ميں انہوں نے يہ اتہام لگايا كہ عثمان كے قاتل علىعليه‌السلام ہيں چنانچہ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے درخواست كى كہ عثمان كے قاتل ان كے حوالے كئے جائيں اور اس سلسلے ميں اہل مدينہ سے مدد چاہي_(۴)

مذكورہ بالا خط كے علاوہ انہوں نے سعد بن ابى وقاص ،عبداللہ بن عمر اور محمد بن مسلمہ جيسے سر برآوردہ لوگوں كو بھى خطوط لكھے كہ جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے كنارہ كشى اختيار كر لى تھي_

اس اقدام سے معاويہ كا مقصد و مدعا يہ تھا كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كو داخلى مشكلات و كشمكش سے دوچار كردے كيونكہ وہ جانتا تھا كہ اگر اپنے مقصد ميں كامياب ہوگيا تو اسے دو جانبہ فتح و كامرانى حاصل ہوگى اول تو يہ كہ وہ سربرآوردہ اشخاص كى حمايت حاصل كرلے گا اور دوسرى طرف اس كے اس اقدام سے مركزى حكومت كو كارى ضرب لگے گي_

۱۷۵

ليكن معاويہ كو جيسا كہ عمروعاص نے پيشين گوئي كى تھى كاميابى حاصل نہ ہوئي كيونكہ جن اشخاص كو خطوط لكھے گئے تھے انہوں نے منطقى و مدلل جواب كے ساتھ ان كى درخواست كو رد كرديا_(۵)

نمايندے كى روانگي

اس سے پہلے كہ جنگ و جدال كى نوبت آئے حضرت علىعليه‌السلام ہر اس طريقے كو بروئے كار لائے جس كے ذريعے اہل شام بيدار ہو سكيں اور معاويہ كو شورش و سركشى سے باز ركھا جاسكے اسى مقصد كے تحت انہوں نے ''خفاف بن عبداللہ '' كو معاويہ كے پاس بھيجا كيونكہ خفاف ميں شاعرانہ مزاح جاتا پايا تھا اور فطرتا بولنے والے واقع ہوئے تھے شام پہنچنے كے بعد انہوں نے اپنے چچا زاد بھائي '' حابس بن سعد'' كو جو قبيلہ طيى ّ كے سردار تھے اپنے ساتھ ليا اور دونوں مل كر معاويہ كى طرف روانہ ہوئے اور عثمان كے واقعہ قتل كى پورى تفصيل اس كے سامنے بيان كى اس كے بعد انہوں نے يہ بھى بتايا كہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے كس طرح متمنى و خواہش مند تھے ساتھ ہى انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ و كوفہ كى جانب روانگى كى مفصل كيفيت بيان كى اور مزيد كہا كہ اس وقت بھى بصرہ ان كى ہاتھ ميں ہے اور كوفہ ميں تمام طبقات كے لوگ جن ميں بچے، سن رسيدہ خواتين ، نئي دلہينں و غيرہ شامل ہيں پورے جوش و خروش سے آپ كا استقبال كرنے كے لئے شاداں و خندان آئے اور ميں جس وقت ان كے پاس روانہ ہوا تھا ان كے سامنے شام كى جانب آنے كے علاوہ كوئي مقصد نہ تھا(۶) _معاويہ نے جب يہ كيفيت سنى تو اس پر خوف طارى ہوگيا اور ان لوگوں كى موجودگى ميں جو ان كے گرد جمع تھے اسے اپنى شكست كا احساس ہوا ناچار اس نے حابس سے كہا كہ لگتا ہے كہ يہ شخص علىعليه‌السلام كا جاسوس ہے اسے اپنے پاس سے آگے چلتا كر كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ شام كے لوگوں كو گمراہ كردے _(۷)

۱۷۶

مہاجرين و انصار سے مشورہ

جب حضرت علىعليه‌السلام كو يہ يقين ہوگيا كہ اب يہ طوفان دبنے والا نہيں اور معاويہ اپنے ارادے سے بازنہ آئے گا تو ناچار انہوں نے فيصلہ كيا كہ مقابلے كيلئے اقدام كريں چنانچہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے طريق كا ر پر عمل كرتے ہوئے آپعليه‌السلام نے جنگ سے قبل اپنے مہاجرين اور انصار اصحاب سے مشورہ كيا حضرت علىعليه‌السلام كے پيروكاروں نے مختلف افكار و خيالات كا اظہار كيا جن ميں بيشتر افراد كى رائے يہى تھى كہ جس قدر جلد ہوسكے اقدام كيا جائے كچھ لوگوں نے كہا كہ جتنا جلدى ہوسكے اس بارے ميں فيصلہ كر ليا جائے مگر ان ميں ايسے لوگ بھى تھے جو چاھتے تھے كہ پہلے مسالمت آميز طريقہ اختيار كيا جائے اور اگر حريف اپنى عناد پسندى اور سركشى پر قائم رہا تو جنگ شروع كى جانى چاھيئے_(۸)

سب سے آخر ميں سہل بن حنيف اپنى جگہ سے اٹھے اور انہوں نے حاضرين كى نمايندگى كرتے ہوئے كہا كہ '' اے امير المومنين آپ جس كے ساتھ صلح و آشتى چاہيں گے ہم اس كے ساتھ صلح و آشتى كريں گے ہمارى رائے اور مرضى وہى ہے جو آپ كى ہے ہم سب دست راست كى مانند آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں _(۹)

اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے عام لوگوں كو آمادہ كرنے كى خاطر خطبہ ديا اور لوگوں ميں جہاد كرنے اور صفين كى جانب روانہ ہونے كيلئے جوش دلايا آپ نے فرمايا : سيرو الى اعداء اللہ سيروا الى اعداء السنن و القران سيروا الى بقية الاحزاب قتلة المہاجرين و الانصار(۱۰) چلو دشمنان خدا كى طرف ،چلو سنت و قرآن كے دشمنوں كى جانب ان لوگوں كى طرف جو باطل كے گروہ ميں سے بچ گئے ہيں جو مہاجرين و انصار كے قاتل ہيں _

اس اثناء '' بنى فزارہ '' قبيلے كا '' اربد'' نامى شخص اٹھا جو بظاہر معاويہ كا ہمنوا اور اس كا جاسوس تھا اس نے كہا كہ كيا آپ يہ چاھتے ہيں كہ ہميں اپنے شامى بھائيوں كے خلاف جنگ كرنے كے ليئے لے جائيں ؟ بالكل اسى طرح جيسے آپ برادران بصرہ كے خلاف ہميں لے گئے تھے خدا كى

۱۷۷

قسم ہم ہرگز ايسا كوئي اقدام نہيں كريں گے_

حضرت مالك اشتر نے جب يہ ديكھا كہ يہ شخص مسلمانوں كى صفوں كو درہم برہم كرنا چاہتا ہے تو انہوں نے بلند آواز ميں كہا_ ہے كوئي جو ہميں اس كے شر سے نجات دلائے؟ اربدى فزارى نے جيسے ہى مالك اشتر كى آواز سنى تو خوف كے مارے بھاگ نكلا لوگوں نے اس كا تعاقب كيا اور بالاخر بيچ بازار ميں اسے پكڑليا اور گھونسوں لاتوں ،اور شمشير كى نيام سے اسے اتنا مارا كہ اس كى جان ہى تن سے نكل گئي _(۱۱)

عمومى فوج

جب حضرت علىعليه‌السلام نے سركشوں اور شورش پسندوں كے خلاف جہاد كرنے كے لئے رائے عامہ كو ہموار كر ليا تو آپعليه‌السلام نے مختلف مناطق ميں اپنے كارپردازوں كو فوجى فرمانداروں اور عاملين محصول كو خطوط لكھے جن ميں انھيں ہدايت كى گئي كہ اپنے اپنے علاقوں ميں وہ لوگوں كو اس جہاد مقدس ميں شركت كى دعوت ديں اور جو لوگ متمنى ہيں انھيں مركز كى جانب روانہ كيا جائے_(۱۲)

لوگوں كے دلوں ميں جذبہ خلوص و قربانى كو تقويت دينے كى خاطر منبر مسجد پر تشريف لے گئے اور وہاں خطبہ صادر فرمايا_ خطبہ كے دوران بعض مقامات پر آپ نے يہ بھى فرمايا كہ معاويہ اور اس كے سپاہى باغى و سركش ہوگئے ہيں كيونكہ شيطان نے ان كى زمام اپنے دست اختيار ميں لے لى ہے اور پر فريب و عدوں سے انھيں گمراہ كرديا ہے تم خداوند تعالى كى داناترين مخلوق ہو اور اسنے جن چيزوں كو حلال و حرام قرار ديا ہے ان كے درميان تم خوب تميز كرسكتے ہو چنانچہ جو تم جانتے ہو اس پر اكتفاء كرو اور خدا نے جن چيزوں سے گريز كرنے كے لئے كہا تم ان سے اجتناب كرو_(۱۳)

حضرت علىعليه‌السلام كے خطبے كے بعد آپ كے دونوں فرزند دلبند حضرت امام حسن اور حضرت امام حسين (عليہما السلام) نے بھى اس مسئلے كى اہميت كو واضح و روشن كرنے كے غرض سے بصيرت افروز تقارير كيں _

۱۷۸

حضرت امام حسنعليه‌السلام كے بعض ارشادات عاليہ ميں آيا ہے كہ معاويہ اور ان كے سپاہى تيار ہوچكے ہيں خيال رہے تم ہرگز كنارہ كشى نہ كرنا كيونكہ كنارہ كشى اور احساس كمترى دلوں كو ايك دوسرے سے جدا كرديتے ہيں نوك نيزہ كے سامنے سينہ سپر ہونا عزت شجاعت اور پاكدامنى كى علامات ہيں _(۱۴)

امام مجتبىعليه‌السلام نے عام خطبہ صادر كرنے كے علاوہ ان لوگوں سے بھى شخصاً ملاقات كى جن كا ارادہ جنگ سے كنارہ كشى اختيار كرنے كا تھا چنانچہ انھيں سمجھا كر صف مجاہدين ميں لے آئے_(۱۵)

حضرت امام حسينعليه‌السلام نے تقرير كرنے كے علاوہ لوگوں كوراہ خدا ميں جہاد كرنے كى ترغيب دلائي اور انھيں بعض آداب فن حرب و جنگ بھى سكھائے اور سب كو اتحاد و يگانگى كى دعوت دي_(۱۶)

جب حضرت علىعليه‌السلام اور ان كے دونوں فرزند ارجمند كى تقارير اختتام پذير ہوئيں تو اكثر و بيشتر لوگ نبرد آزمائي كيلئے آمادہ ہوچكے تھے ليكن عبداللہ بن مسعود كے ساتھى عليحدہ رہے چنانچہ وہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كے پاس آئے اور كہنے لگے كہ ہم جنگ ميں آپ سے لا تعلق رہيں گے ليكن جب ہميں جداگانہ طور پر جگہ مل جائے گى تو قريب آكر آپ اور شام كے لشكر كو ديكھيں گے اور دونوں ميں سے جو بھى غير مشروع مقصد كى جانب جائے گا يا جس كا ظلم و ستم ہميں نظر آئے گا ہم اس كے خلاف جنگ كريں گے_

حضرت علىعليه‌السلام نے ان كے افكار و خيالات كى ستائشے كى اور فرمايا كہ دين ميں اسى كا نام فہم و فراست ہے اور يہى سنت سے آگاہى و واقفيت ہے_

عبداللہ كے دوسرے ساتھيوں نے جو چار سو افراد پر مشتمل تھے حضرت علىعليه‌السلام سے كہا كہ ہم آپ كى فضيلت و برترى سے بخوبى واقف ہيں اور يہ بھى جانتے ہيں كہ ہم سب كو دشمن سے نبرد آزما ہونے كى آرزو ہے مگر اس كے ساتھ ہى ہميں اس جنگ كے بارے ميں شك و تردد ہے ہمارى

۱۷۹

مرضى تو يہ ہے كہ آپ عليه‌السلام ہميں اسلامى مملكت كى سرحدوں پر بھيجديں تا كہ وہاں پہنچ كر ہم اسلام كا دفاع كرسكيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں ربيع بن خيثم كى فرماندارى ميں علاقہ رى كى سرحد پر بھيجديا_(۱۷)

قبيلہ '' باہلہ'' ميں بھى ايسا گروہ موجود تھا جس كا حضرت علىعليه‌السلام كے مكتب فكر كى جانب كوئي خاص ميلان نہ تھا چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام كے فرمان كے بموجب وہ جنگ سے كنارہ كش ہوگيا كيونكہ ايسے لوگوں كى جہاد ميں شركت جن كا كوئي مقصد و ارادہ نہ ہو اور عقيدہ بھى ان كا سُست ہو تو وہ نہ صرف محاذ حق كو تقويت نہيں پہنچاتے بلكہ بسا اوقات دوسرے سپاہيوں كا حوصلہ پست كرنے كا سبب ہوتے ہيں اور ايسى صورت ميں كہ وہ قيد كرلئے جائيں تو بہت سے فوجى راز دشمن تك پہنچاديتے ہيں يا خود دشمن ہى انھيں يہ موقع فراہم كرديتا ہے كہ وہ اس كے ليئے اپنے وطن ميں خدمات انجام ديں _

شايد ان دلائل كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں اپنے پاس بلايا اور ان كى جو مزدورى يا تنخواہ ہوسكتى تھى وہ ادا كرنے كے بعد انھيں حكم ديا كہ '' ديلم'' كى جانب مہاجرت كرجائيں _(۱۸)

كمانڈروں كا تقرر

حضرت علىعليه‌السلام نے تمام بنيادى كام انجام دينے كے بعد لشكر كى روانگى كا فيصلہ كيا چنانچہ آپ كى فرمايش كے مطابق '' حارث بن اعور'' نے كوفہ ميں اعلان كيا كہ تمام لشكر'' نُخَيلة''كى جانب روانہ ہوجائے اور شہر سے باہر خيمے بپا كرلے كوفہ كے حاكم شہر '' مالك بن حبيب'' كو اس كام پر مقرر كيا گيا كہ وہ سپاہ عسكر كے درميان ہم آہنگى پيدا كريں اور انھيں لشكرگاہ كى جانب روانہ كرنے ميں مدد كريں عقبہ بن عمرو انصارى حضرت علىعليه‌السلام كے جانشين كى حيثيت سے كوفہ ميں ہى مقيم رہے_

ان اقدامات كى تكميل كے بعد امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام اپنے لشكر كے ہمراہ لشكرگاہ كى جانب

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

قدر چستى و دليرى تھى اور ايسا جوش و خروش پايا جاتا تھا كہ اس سے جوانوں كو تقويت ہوتى تھي_

عمار جس وقت ميدان كارزار كى جانب روانہ ہوئے تھے اس وقت وہ دست بدعا تھے اور خداوند تعالى سے فرياد كر رہے تھے اے پروردگار اے خدايا تو ناظر و شاہد ہے اگر ميں يہ جان لوں كہ تيرى رضا اسى ميں تھے كہ ميں خود كو سمندر ميں گرادوں تو ميں ايسا ہى كرونگا اگر مجھے يہ معلوم ہوجائے كہ تيرى خوشنودى اس ميں ہے كہ ميں اپنے سينہ و دل كو نوك شمشير پر اس طرح ركھ دوں كہ وہ ميرى كمر سے نكل آئے تو يقينا ميں ايسا ہى كروں گا ليكن اس علم كے مطابق جو تو نے مجھے ديا ہے كہ ميں يہ جانتا ہوں كہ تجھے آج كوئي عمل اس سے زيادہ راضى و خوشنود نہيں كر سكتا كہ تباہ كاروں كے خلاف جہاد كروں _(۱۹)

عمار وہ مخلص دلاور اور ايسے جنگجو سپاہى تھے جو ميدان كارزار ميں تھكنا نہيں جانتے وہ عاشق جانبازى كى مانند جنگ كرتے حق كے دشمنوں كے لئے انكى تلوار موت كا پيغام تھى اور جس كے سرپر پڑجاتى اسے واصل جہنم كرتى مگر حاميان حق كے دلوں كو اس سے تقويت ملتى در حقيقت وہ ميزان حق تھے چنانچہ نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہى كى شان ميں تو فرمايا تھا كہ : عمار حق كے ساتھ زندہ ہے اور حق عمار كے ساتھ ہے(۲۰) جو شخص بھى ان كے محاذ پر جنگ كرتا اسے يہ يقين ہوتا كہ وہ حق كى مدافعت كريں گے اور اسى راہ ميں اگر انھيں قتل بھى كرديا گيا تو انھيں بہشت بريں ميں جگہ ملے گي_

مسلمانوں كے درميان يہ بات مشہور تھى كہ عمار ميزان حق ہيں چنانچہ جب كبھى حق و باطل كے درميان تشخيص كرنا مقصود ہوتا تو عمار كے عمل اور موجودگى كو بطور سند پيش كيا جاتا اس كى ايك مثال يہ ہے كہ : ان كے چچازاد بھائي'' ذى الكلاع حميرى '' شامى سپاہ عراق ميں شامل تھا عمار نے اسے بلايااور كہا ميں نے اس لئے بلايا ہے كہ تمہيں وہ حديث سناؤں جو عمروعاص نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل كى ہے اس كى بعد انہوں نے وہ حديث بيان كى جس ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ : شام اور عراق كے لشكر ايك دوسرے كے مقابل ہوں گے ان ميں سے ايك حق و ہدايت كا پيشوا ہوگا اور عمار اسى كے ساتھ ہوں گے(۲۱) اس پر ابونوح نے كہا تھا كہ : خدا كى قسم عمار ہمارے ساتھ ہيں

۲۲۱

اور ہم سب سے زيادہ انھيں تم سے جنگ كرنے پر اصرار ہے كتنا اچھا ہوتا كہ تم سب ايك تن ہوتے اور ميں اسے ذبح كرتا اور سب سے پہلے تجھ چچازاد بھائي كو ہى قتل كرتا كيونكہ ہم حق پر ہيں اور تم باطل پر ہو_

اس كے بعد ذوالكلاع كى درخواست پر وہ عمروعاص كے پاس گئے تا كہ اس تك بھى يہ اطلاع پہنچائي جاسكے كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں عمار بھى موجود ہيں اور شاميوں سے جہاد كرنے كيلئے واقعى وہ سنجيدہ ہيں تا كہ ان كے ضمير كو بيدار كيا جاسكے_

عمروعاص نے بھى گفتگو كے درميان اس حقيقت كا اعتراف كيا كہ : اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سن ركھا ہے كہ عمار كو جفاكار اور باغى قتل كريں گے اس كے بعد عمروعاص كى تجويز پر اس كے اور عمار كے درميان ملاقات كا پروگرام مرتب كيا گيا گفتگو عمروعاص كى جانب سے شروع ہوئي اس نے عمار كو پند و نصيحت كرتے ہوئے كہا كہ : وہ جنگ و خونريزى سے باز رہيں اس ضمن ميں يہ بھى كہا كہ : ہمارے اور تمہارے درميان خدا كا فيصلہ قرآن اور رسول مشترك ہيں عمار نے كہا كہ : خدا كا شكر جس نے يہ توفيق دى كہ تم نے وہ سب باتيں اپنى زبان سے كہيں جو مجھے اور ميرے دوستوں كو كہنى چاہيے تھيں نہ كہ تمہيں _ اب ميں تمہيں بتاتا ہوں كہ ميں تم سے كيوں جنگ كر رہاہوں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ : ميں ''ناكثين'' سے جنگ كروں چنانچہ ميں نے ايساہى كيا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہى يہ حكم ديا تھا كہ ميں '' قاسطين'' سے جنگ كروں اور تم وہى ہو اسى لئے تم سے بر سر پيكار ہوں(۲۲)

بالاخر گفتگو كسى فيصلہ كن نتيجے تك نہيں پہنچى اور اب عمار دشمن كى اس فوج كے مقابلے ميں گئے جس كى فرماندارى عمروعاص كے ہاتھ ميں تھى جس وقت ان كى نگاہ عمروعاص كے پرچم پر گئي تو انہوں نے كہا كہ : خدا كى قسم اس پرچم كے خلاف تو ميں تين مرتبہ جنگ كرچكا ہوں اس راہ پر چل كر آدمى كہيں نہيں پہنچے گا اور دوسرے راستوں سے يہ كسى طرح بھى بہتر نہيں _(۲۳)

عمار نے اپنے ساتھيوں كے درميان بآواز بلند كہا كہ : كہاں ہيں وہ لوگ جو رضا خدا كے متمنى ہيں اور جنہيں مال و اولاد سے علاقہ نہيں(۲۴) اس كے بعد انہوں نے ان لوگوں سے خطاب

۲۲۲

كرتے ہوئے جنہوں نے راہ خدا ميں پيشقدمى كى تھى كہا كہ اے لوگو ہمارے ہمراہ ان لوگوں سے جنگ وجدل كيلئے جلد جلد آگئے آؤ جو اپنى دانست ميں عثمان كے خون كا بدلہ لينا چاہتے ہيں _(۲۵)

عمار جس لشكر ميں شامل تھے اس كے پرچمدار ہاشم مرقال تھے وہ اپنے پرچمدار كى حوصلہ افزائي كرتے رہتے كہ دشمن پر حملہ آور ہوں ہاشم مرقال بھى اپنى بے مثال دلاورى كے باعث جنگجو سپاہى كيلئے راستہ ہموار كرتے رہتے جب كبھى ان كا نيزہ ٹوٹ جاتا تو حضرت عمار انھيں دوسرا نيزہ دے ديتے ان دو جانبازوں كى بے پناہ و دليرانہ نبرد آزمائي نے عمروعاص كو ايسا مرعوب كيا اور اس كے دل پر ايسى وحشت طارى ہوئي كہ اس نے بآواز بلند كہا كہ جس شخص نے يہ سياہ پرچم اپنے ہاتھ ميں سنبھال ركھا ہے اگر اسى طرح آگے بڑھتا رہا تو آج يہ تمام عربوں ك ہلاك كر ڈالے گا_(۲۶)

جب يہ پيشوائے حريت يعنى عمار بہت سے شاميوں كو ہلاك كرچكے تو ان پر معاويہ كى فوج كے دو دلاور حملہ آور ہوئے اور ان ميں سے ايك نے اپنے نيزے سے ايسى كارى ضرب لگائي كہ وہ زمين پر آرہے اور دوسرے نے ان كے سرمبارك كو تن سے جدا كرديا(۲۷) اور اس طرح اس جرى و دلير سپاہى نے اپنے اس سركو جس سے وہ اپنے معبود حقيقى كے سامنے جبين سائي كيا كرتا تھا ميدان جہاد ميں اسى كى خاطر قربان كرديا_

اس جنگ كے دوسرے دلير و جانباز ہاشم بن عتبہ تھے جو دو زرہ پہنے ہوئے تھے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جس وقت پرچم ان كے سپرد كيا تو بطور مزاح ان سے كہا كہ : اس كا لے بزدل كا تو ڈر كہيں تمہارے دل ميں نہيں ؟(۲۸) اس پر انہوں نے عرض كيا كہ : يہ تو اميرالمومنينعليه‌السلام كو جلد ہى معلوم ہوجائے گا قسم خدا كى ميں ان كے سروں كو اس طرح اڑاوں گا كہ جس طرح كوئي اس دنيا سے دوسرى دنيا ميں جانے كا قصد ركھتا ہو_ اس كے بعد انہوں نے نيزہ اپنے ہاتھ ميں لے ليا اور اس زور سے اسے جھٹكا ديا كہ وہ ٹوٹ گيا دوسرا نيزہ لايا گيا وہ چونكہ سوكھ چكا تھا اسى لئے انہوں

۲۲۳

نے اسے دور پھينك ديا بآلاخر انھيں ايك نرم نيزہ ديا گيا جس پر انہوں نے پرچم كا پھريرا باندھا اور اپنے حملے كو اس خيمے پر مركوز كرديا جس ميں عمروعاص ، معاويہ اور ان كے دوست و احباب جمع تھے اس روز كشت كشتار كا ايسا بازار گرم ہوا كہ كسى نے اس سے پہلے ايسى قتل و غارتگرى نہ ديكھى تھى اور نہ ہى كسى كو موت كى ايسى گرم بازارى ياد تھي_ (۲۹)

آخرى مرتبہ جب سياہ پرچم امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ہاشم كو ديا تو چاہا كہ اب يہ جنگ ايك طرف ہو چنانچہ آپ نے فرمايا كہ : ہاشم معلوم نہيں اب تمہارا آب و دانہ كب تك كا باقى ہے؟ اس پر انہوں نے عرض كيا كہ اس مرتبہ راہ جہاد ميں ايسا نكلوں گا كہ پھر كبھى واپس نہ آؤں گا آپ نے فرمايا كہ '' تمہارے مقابل ذى الكلاع ہے اور اس كے گرد موت منڈھلا رہى ، سرخ موت''

ہاشم ميدان كارزار كى طرف روانہ ہوئے جب وہ معاويہ كے نزديك پہنچے تو اس نے پوچھا كہ كون شخص ہے جو آگے بڑھا چلا آرہا ہے اسے بتايا گيا كہ ہاشم مرقال ہيں(۳۰) يہ سن كر اس نے كہا كہ وہى بنى زہرہ كا كانا، خدا اسے غارت كرے(۳۱) ہاشم نے اپنے ان ساتھيوں كے ہمراہ جو قارى قرآن اور خدا كے عاشق تھا كتنى مرتبہ دشمن كى صف كو درہم برہم كيا چنانچہ جس وقت وہ طائفہ '' تنوح'' كے پرچم تك پہنچے تقريبا دشمن كے دس دلاوروں(۳۲) كو ہلاك كرچكے تھے انہوں نے معاويہ كے پرچمدار كو جو طائفہ '' عذرہ'' كا فرد تھا قتل كرديا اس كے بعد ذوالكلاع ان سے جنگ كرنے كيلئے ميدان ميں آيا ان كے درميان ايسى زبردست جنگ ہوئي اور ايسى كارى ضربيں ايك دوسرے كو لگائي كہ دونوں ہى قتل ہوگئے(۳۳) اس كے بعد ان كے فرزند عبداللہ نے فورا ہى اپنے والد كا پرچم اٹھاليا اور جہاد كيلئے آمادہ ہوگئے_(۳۴)

حضرت عمار كى شہادت كارد عمل

عمار ياسر اور ہاشم مرقال كى شہادت نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام كے اصحاب كو بہت زيادہ غمگين و رنجيدہ خاطر كيا چنانچہ ان كى جدائي كا ايسا قلق و صدمہ ہوا كہ آپ نے ان كے سوگ

۲۲۴

ميں گريہ و زارى كرتے ہوئے چند اشعار بھى كہے جن كا مفہوم يہ ہے كہ : اے موت مجھے تجھ سے رہائي تو نصيب نہ ہوگى اور مجھے بھى اس زندگى سے نجات دے كيونكہ تونے تمام دوستوں كو مجھ سے چھين ليا ہے مجھے ايسا محسوس ہوتا ہے كہ تو ميرے دوستوں كو خوب پہچانتى ہے اور ايسا معلوم ہوتا ہے كہ تو كسى راہنما كى مدد سے ان كى تلاش ميں نكلتى ہے_ (۳۵) ليكن اس كے ساتھ ہى اس شہادت نے باطل كے چہرے كو بے نقاب كرديا اور لشكر شام كے بہت سے سپاہيوں كا رادہ متزلزل ہوگيا چنانچہ ان ميں سے بعض افراد كو جن ميں عبداللہ بن سويد بھى شامل تھے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وہ حديث ياد آگئي جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمار كى شان ميں فرمائي تھى اور ان پر يہ ظاہر ہوگيا كہ معاويہ ناحق اور باطل پر ہے اور اس كى يہ جنگ در اصل بغاوت تھى چنانچہ انہوں نے معاويہ كا ساتھ چھوڑ كر امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كى ہمراہى اختيار كرلي_

عمار كى شہادت نے سپاہ دشمن كو بھى اتنا متاثر كيا كہ اس كا حوصلہ بھى متزلزل ہوگيا چنانچہ عمروعاص نے اس كے اثر كو زائل كرنے كے خيا ل سے ايك بہانہ نكل ہى ليا اور يہ اعلان كرديا كہ '' عمار كے قاتل ہم نہيں بلكہ علىعليه‌السلام ہيں كيونك انہوںعليه‌السلام نے انھيں محاذ جنگ پر بھيجا تھا_(۳۶)

معاويہ نے بھى اس جرم كى پاداش ميں كہ عمروعاص نے وہ حديث نقل كى تھى جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمار كى شان ميں بيان كى تھى اس كى بہت زيادہ سرزنش كى اور كہا كہ تم نے شام كے لوگوں كو ميرے خلاف شورش پر آمادہ كيا ہے كيا ضرورى تھا كہ تم نے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا تھا اسے يہاں بيان كرتے انہوں نے جواب ديا كہ مجھے كيا معلوم تھا كہ وہ وقت بھى آئے گا جب جنگ صفين بپا ہوگى جس روز ميں نے يہ حديث بيان كى تھى اس وقت عمار ہمارے اور تمہارے ہم خيال تھے اس كے علاوہ جو كچھ ميں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سن كر بيان كيا تھا تم نے بھى اسے نقل كيا ہے اور اگر اس بات سے تمہيں انكار ہے تو خود ہى شام كے لوگوں سے دريافت كرلو معاويہ كو پہلے سے بھى زيادہ طيش آيا اور اس نے عمروعاص كو بہت زيادہ سخت و سست كہا_(۳۷)

۲۲۵

سوالات

۱_ جب بعض سپاہى محاذ جنگ سے فرار كر گئے تو حضرت علىعليه‌السلام نے كيا اقدام كيا اور انہيںعليه‌السلام كس حد تك اپنے مقصد ميں كاميابى ہوئي؟

۲_ مالك اشتر كا جنگ صفين ميں كيا كردار رہا مختصر طور پر بيان كيجئے؟

۳_ معاويہ كا غلام حريث كس طرح فريفتہ ہوا اور وہ كس كے ہاتھوں ماراگيا؟

۴_ جنگ ختم كرنے كے لئے حضرت علىعليه‌السلام نے معاويہ كے سامنے كونسى تجويز ركھي؟

۵_ معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں تزلزل پيدا كرنے كيلئے محاذ جنگ پر حضرت امام حسنعليه‌السلام كے سامنے كيا تجويز پيش كى اس پر حضرت حسنعليه‌السلام كا كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

۶_ سپاہ اسلام كے فرمانداروں پر عمار كو كيا خصوصيت و برترى حاصل تھي؟

۷_ شام كى سپاہ پر عمار كى شہادت كا كيا اثر ہوا اس كے بارے ميں ايك تاريخى مثال پيش كيجئے؟

۸_ عمار كى شہادت كا اثر زائل كرنے كے لئے عمروعاص نے كيا تركيب نكالي؟

۲۲۶

حوالہ جات

۱_ وقعہ صفين ص ۲۵۳و ۲۵۰

۲_ شايد اس آيت كى جانب اشارہ ہے) يا ايها الذى آمنوا اذا لقيتم الذين كفرو ازحفا فلا تولوا هم الادبار و من يولهم يومئذ دبره الا متحرفا لقتال او منحيزا الى فئة فَقَد باء بغضب من الله و ماواه جهنم و بئس المصير ( (الے لوگو جو ايمان لائے ہو، جب تم ايك لشكر كى صورت ميں كفار سے دوچار ہو تو ان كے مقابلے ميں پيٹھ نہ پھيرو جس نے ايسے موقعے پر پيٹھ پھيرى مگر يہ كہ جنگى چال كے طور پر ايسا كرے يا كسى دوسرے فوجى دستہ سے جا ملنے كے لئے تو وہ اللہ كے غضب ميں گھر جائے گا اور اس كا ٹھكانہ جہنم ہوگا اور وہ بہت برا ٹھكانہ ہے سورہ انفال آيہ ۱۴_ ۱۵

۳_ وقعہ صفين ص ۲۵۶، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۰۴ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۲۵ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۰۴

۴ و ۵_ وقعہ صفين ۲۵۵_ ۲۵۴

۶_ وقعہ صفين ۲۵۵_ ۲۵۴

۷_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۰۲ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۲۴

۸_ وقعہ صفين ص ۲۵۴ _ ۲۵۳ '' الا ليستحيى الرجل ان ينصرف لم يقتل و لم يقتل؟

۹_ وقعہ صفين ۲۴۳ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۵(۱۰) وقعہ صفين ص ۲۷۲ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۵

۱۱_و الله ما بارز ابن ابى طالب رجلا قط الا سقى الارض من دمه

۱۲_ وقعہ صفين ص ۲۷۴_ ۲۷۵_۳۱۶ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۸_ ۲۱۷ ، يہاں يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ تاريخ كے اس حصے ميں حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ كا اپنى سپاہ كے ساتھ جو رويہ رہا اسے مورخين نے مختلف طوار سے بيان كيا ہے انہوں نے لكھا ہے حضرت علىعليه‌السلام كتنى ہى مرتبہ محاذ جنگ پر تشريف لے گئے اور آپعليه‌السلام نے اپنے ساتھيوں كى مدد بھى كى مگر اس كے برعكس معاويہ كى يہ پورى توجہ اپنى جان كى حفاظت كى جانب رہى اس واقعے كے ضمن ميں جو اوپر گذرا ہے معاويہ نے عمروعاص سے كہا تھا كہ : كيسى نادانى كى باتيں كرتے ہو قبائل عَكّ اشعريان اور جذام كے ہوتے ہوئے ميں علىعليه‌السلام سے نبرد آزمائي كروں ، وقعہ صفين ۲۷۵

۱۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۶ ص ۳۱۴_۳۱۳ ، وقعہ صفين ۴۲۴_۴۲۳ ، وقعہ صفين ميں نقل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے

۲۲۷

جب عمروعاص پر ضرب كارى لگائي اور وہ اس كى تاب نہ لاسكا تو اس نے يہ بدترين راہ اختيار كي_

۱۴_ وقعہ صفين ۴۱۸_ ۴۱۷

۱۵_ وقعہ صفين ص ۲۹۷

۱۶_ وقعہ صفين ۴۷۸_۴۷۷

۱۷_ وقعہ صفين ص ۴۷۵ ، ليكن اسى كتاب كے صفحہ ۳۹۲ پر اور شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۴۹ ميں درج ہے كہ اس وقت اكثر سپاہ نے نماز اشاروں سے پڑھي_

۱۸_ نہج البلاغہ خ ۱۹۸ ، (فيض)

۱۹_ لغت ميں ہرير كے معنى اس آواز كے ہيں جو سردى پڑنے كى وجہ سے كتے سے نكلتى ہے چونكہ اس شب شديد جنگ جارى تھى اور فريقين كے گھڑ سوار ايك دوسرے كے سرپر چيختے تھے اس لئے اس رات كو ليلة الہرير كہتے ہيں (معجم البلدان ج ۵ ص ۴۰۳ ، مجمع البحرين ج ۳ ص ۵۱۸ مادہ ہرر

۲۰_ نصر بن مزاحم نے وقعہ صفين ص ۴۷۵ ميں اس دن اور رات كے دوران قتل ہونے والوں كى تعداد ستر ہزار افراد بيان كى ہے_

۲۱_ وقعہ صفين ص ۳۲۰ ، شرح ابن ابى الحديدج ۵ ص ۲۵۳

۲۲_ حضرت عمار سے متعلق احاديث نبوى كے بارے ميں مزيد معلومات كے لئے ملاحظہ ہوں معجم رجال الحديث ج ۱۲ ص ۲۶۷ ، طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۸۷، استيعاب ج ۲ ص ۴۳۶ ،اور وقعہ صفين ص ۳۴۳_۳۴۲

۲۳_ ''يلتقى اهل الشام و اهل العراق و فى احد الكتيبيتين الحق و امام لهدى و معه عمار بن ياسر

۲۴_ وقعہ صفين ص ۳۴۰_۳۳۳

۲۵_و الله ان هذه الراية قاتلها ثلاث عركات و ما هذه بار شدهَّن (وقعہ صفين ص ۳۴۰)

۲۶_ اين من يبتغى رضوان ربہ و لا يؤب الى مال و لا ولد

۲۷_ وقعہ صفين ص ۳۲۶

۲۸_ وقعہ صفين ص ۳۲۸

۲۲۸

۲۹_ وقعہ صفين ص ۳۴۱_۳۴۰

۳۰_ يہاں حضرت اميرالمومنينعليه‌السلام كا اشارہ حضرت مرقال كى جانب تھا كيونكہ وہ ايك آنكھ سے محروم تھے_

۳۱_ وقعہ صفين ص ۳۲۸

۳۲_ انھيں مرقال اس بنا پر كہا جاتا تھا كہ وہ بہت چست و چالاك اور تيز رفتار تھے چونكہ ان كى آنكھ جاتى رہى تھى اسے لئے انھيں اعور بھى كہا جاتا تھا_

۳۳_ وقعہ صفين ۳۴۷_ ۳۴۶

۳۴_ وقعہ صفين ۳۵۵

۳۵_الا ايها الموت الذى لست تاركى ارحنى فقد افنيت كل خليل

اراك بصيرا بالذين احبهمكانك تنحو محوه بدليل

۳۶_ تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۱

۳۷_ وقعہ صفين ۳۴۵

۲۲۹

بارھواں سبق

قاسطين (جنگ صفين)۴

نجات كيلئے كوشش

آخرى فريب

سپاہ عراق كا رد عمل

سپاہ عراق ميں نظرياتى اختلاف

مالك كا واپس آنا

سركشوں كى سرزنش

نفاق و حماقت كے خلاف جد و جہد

حكميت و ثالثى كى دعوت

معاويہ كى جانب

حكمين كا انتخاب

سوالات

حوالہ جات

۲۳۰

نجات كے لئے كوشش

سپاہ اسلام كى جانب سے معاويہ اور عمروعاص كو جب پے در پے شكستيں ہوئيں تو وہ اس نتيجے پر پہنچے كہ اميرالمومنين حضرت عليعليه‌السلام كے لشكر كى تاب نہيں لاسكتے اور ان كى شكست فاش ہونے ميں زيادہ دير نہيں _ اسى لئے انہوں نے جنگ سے نجات پانے اور اپنے مقام و حيثيت كے تحفظ كى خاطر كوشش شروع كردي_ سب سے پہلے انہوں نے عراق كے لشكر كے بعض سرداروں كو پيغامات بھيجے اور ان سے جنگ ترك كرنے كى درخواست كى معاويہ نے اپنے بھائي عتبہ كو جو نہايت ہى فصيح بيان اور چرب زبان آدمى تھا حكم ديا كہ وہ علىعليه‌السلام كے سردار لشكر اشعث بن قيس سے ملاقات كرے اور جنگ و جدل ختم كرنے كيلئے اسے آمادہ كرے_

عتبہ نے اشعث سے ملاقات كى اور خوب مدح سرائي كرنے كے بعد كہا كہ : آپ عراق اور يمن كے لوگوں كے سردار ہيں _ آپ كى عثمان سے نہ صرف قرابت دارى تھى بلكہ آپ ان كى فوج كے فرماندار بھى تھے حضرت علىعليه‌السلام كے ديگر اصحاب كے برخلاف آپ طائفہ شام كے لوگوں كى حميت و غيرت اور ان كے جذبہ ناموس كى خاطر جنگ و جدل ميں حصہ لے رہے ہيں _

آخر ميں اس نے اپنى آمد كا مدعا بيان كيا اور كہا: جنگ انتہائي پر خطر صورت اختيار كرچكى ہے ہم آپ سے يہ تونہ كہيں گے كہ آپ حضرت علىعليه‌السلام سے كنارہ كشى اختيار كر ليجئے البتہ اس بات كے متمنى ہيں كہ اس جنگ كا اب كسى طرح خاتمہ ہوجائے تا كہ سپاہ مزيد ہلاك نہ ہو_

اشعث نے عتبہ كى تعريف و ستائشے كا جواب ديتے ہوئے اس كے اس بيان كى تائيد كى كہ اس كى جنگ شام كے لوگوں سے ايمان و عقيدے كى بنياد پر نہيں بلكہ ميں اہل عراق كى حمايت اس بنا

۲۳۱

پر كر رہا ہوں كہ ہر شخص كو چاہيئے كہ وہ اپنے گھر كى خود حفاظت كرے اس نے جنگ ختم كرنے كے سلسلے ميں بھى انھيں منفى جواب نہ ديا اور كہا كہ : ميرے نظريئے كا اعلان جلد ہى كرديا جائے گا_ (۱)

اس ملاقات كے ذريعے عتبہ كو اتنى كاميابى تو ہوگئي كہ اس نے اشعث كے ذہن ميں صلح كا ميلان پيدا كرديا اور جو تجاويز و پيشنہادات بعد ميں وقوع پذير ہوں گى ان كے اجراء نيز سپاہ عراق ميں س كى تشہير و ترويج كيلئے ايك موثر عامل كے طور پر اسے آمادہ كرليا گيا ہے_

معاويہ نے يہ بھى حكم ديا كہ عتبہ اور اشعث كے درميان جو ملاقات ہوئي ہے نہ صرف اسے بلكہ جو گفتگو ان دونوں نے كى ہے اسے حرف بحرف سپاہ عراق كے درميان منتشر كرديا جائے_ عمرو سے كہا كہ وہ ابن عباس كو بھى خط لكھے عمروعاص نے خط اس طرح لكھا علي(ع)كے بعد چونكہ آپ ہى اس جماعت كے سرور و سردار ہيں اسى لئے جو گذر گيا اسے فراموش اور آيندہ كے بارے ميں غور و فكر كيجئے_ خدا كى قسم اس جنگ نے ہم پر اور تم پر زندگى حرام اور صبر و تحمل كى تاب تمام كردى ہے يہ جان ليجئے كہ عراق اور شام كو بيك وقت جب ہى قابو ميں لايا جاسكتا ہے جب كہ ان ميں سے ايك نيست و نابود ہوجائے طرفين كيلئے صلاح اس امر ميں ہرگز نہيں كہ حريف مقابل ہلاك ہوجائے ہمارے اور تمہارے درميان ايسے لوگ بھى موجود ہيں جنہيں جنگ و جدل پسند نہيں _ آپ مشير و امين ہيں ليكن اشتر سنگدل انسان ہيں اور يہ مناسب نہيں كہ انھيں مشورے ميں شريك كيا جائے_

ابن عباس نے يہ خط حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں پيش كرديا جسے ديكھ كر آپعليه‌السلام كو ہنسى آگئي اور فرمايا كہ : اس ''عمر و عاص'' كو خدا غارت كرے معلوم نہيں كہ اسے كس چيز نے اس بات كيلئے مجبور كيا كہ وہ تم سے اس قسم كى توقع ركھے؟ اور اس كا جواب دينے كيلئے حكم ديا ابن عباس نے عمروعاص كو واضح و مدلل جواب ديا اور اس كى اميدوں پر قطعى پانى پھيرديا_(۲)

۲۳۲

آخرى فريب

معاويہ كو اتنى كاميابى تو ہو ہى گئي تھى كہ وہ ايسا ميدان ہموار كرلے جس كے ذريعے وہ سپاہ عراق كے درميان اپنے آخرى جنگى حربے كو بروئے كار لاسكے_ اس نے چونكہ سن ليا تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے تمام اہل لشكر كے درميان يہ فرمايا ہے كہ: كل جنگ كو يك طرفہ كرديا جائے گا اسى لے اس نے عمروعاص سے كہا كہ بس يہى ايك رات ہے جس ميں ہم كچھ كر سكتے ہيں كل جنگ يك طرفہ ہوجائے گى اس بارے ميں تمہارى كيا رائے ہے؟ اس نے جواب ديا كہ: آپ كے جوانوں ميں نہ تو ان جوانوں كا مقابلہ كرنے كى تاب و طاقت ہے اور نہ ہى آپ علىعليه‌السلام كے مثل و مانند ہيں وہ دين كى خاطر جنگ كر رہے ہيں اور آپ دنيا كے لئے_ آپ زندگى و بقاء كے متمنى ہيں اور وہ شہادت كے خواہشمند_ عراق كے لوگوں كو آپ كے غالب آنے كا خوف و ہراس ہے مگر شام كے عوام حضرت علىعليه‌السلام كى فتح و كامرانى سے خوش و خرم ہيں ليكن ميں ايك مشورہ ديتا ہوں اور وہ يہ كہ ان كے سامنے ايسى تجويز پيش كردى جائے كہ جس كو وہ قبول كرليں يا اسے رد كرديں ان كے درميان اختلاف راہ پاسكے_ انہيں يہ دعوت ديجئے كہ قرآن ہمارے درميان ثالث و حكم ہے_ اور يہى ايسى راہ ہے جس كے ذريعے آپ كامياب ہوسكتے ہيں ميں نے اس حربے كو ہميشہ اس خيال كے پيش نظر التواء ميں ركھا تا كہ اسے بوقت ضرورت بروئے كار لايا جاسكے معاويہ نے اس كے اس نظريے كو پسند كيا_(۳)

اشعث بن قيس نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے اس بيان كى پيروى كرتے ہوئے كہ دشمن آخرى چند سانس لے رہا ہے كہا ميں كل ان پر حملہ كروں گا تا كہ بارگاہ خداوندى ميں ان كا محاكمہ كيا جائے(۴) اس نے اپنے طائفہ ''كندا'' كے لوگوں سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : اے مسلمانو: تم ديكھ رہے ہو كہ تم پر كيا گزر گئي ہے كتنے عرب ہلاك ہوچكے ہيں خدا كى قسم ميں نے اپنى پورى زندگى ميں ايسا منحوس دن نہيں ديكھا جو حاضر ہيں وہ غائب لوگوں كو يہ پيغام پہنچا ديں كہ اگر كل كا دن بھى اسے طرح گذرا تو عربوں كى نسل نيست و نابود ہوجائے گى عورتوں اور بچوں كے

۲۳۳

سرپر كوئي وارث نہ رہے گا_

معاويہ كے جاسوسوں نے اشعث كے اس بيان كو اس تك پہنچا ديا معاويہ نے اس كے اس بيان كو اپنى جنگى سازش كى بنياد اور نيرنگى فكر كا محور بنا ليا اس نے اشعث كے بيان كى تائيد كرتے ہوئے حكم ديا كہ آدھى رات كے وقت عراقيوں كے درميان بلند آواز سے كہيں كہ '' اے عراقيو اگر ہم ميں سے ہر ايك دوسرے كو قتل كرے گا تو ہمارى عورتوں اور اولاد كا كون ولى و وارث ہوگا اب جو كچھ باقى رہ گيا ہے كم از كم اس كى حفاظت كى جائے_(۵)

بروز جمعہ (يوم الہرير) مالك اشتر كے حملے دشمس پر مسلسل جارى تھے يہاں تك كہ ان كے سپاہى تھك گئے چنانچہ انہوں نے اپنى سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : ميں تمہارے لئے خدا سے پناہ مانگتا ہوں اس لئے كہ (اگر زندہ بچ گئے) تو باقى دنوں ميں اپنے گلے كا دودھ دوہيا كروگے(۶) اس كے بعد انہوں نے اپنا گھوڑا طلب كيا اور پرچم كو ''حيان بن ہوذہ'' سے لے كر زمين ميں گاڑديا_ اور بآواز بلند يہ كہتے ہوئے سپاہ كے درميان پہنچ گئے كہ : تم ميں سے كون حاضر ہے كہ اپنى جان كا خدا سے معاملہ كرے اور اشتر كے شانہ بشانہ جنگ كرے تا كہ اسے يا تو فتح و نصرت نصيب ہو يا شہادت اس تقرير كے بعد بہت سے سپاہى ان كے گرد جمع ہوگئے اور ان كے ہمراہ دشمن پر حملہ آور ہوئے يہاں تك كہ انہوں نے سپاہ شام كو دھكيل كر ان كى قرار گاہ لشكر تك پہنچا ديا ليكن يہاں پہنچ كر انھيں دشمن كا سخت مقابلہ كنا پڑا چنانچہ اس مقابلے ميں مالك كے پرچمدار شہيدبھى ہوگئے_

حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ ديكھا كہ فتح و كاميابى مالك كے قدم چومنا چاھتى ہے تو آپعليه‌السلام نے ان كى مدد كيلئے سپاہ كى ايك جماعت روانہ كي_(۷)

مالك كى سرشكن ضربات اور دشمن كے ٹھكانہ پر مسلسل يورش سے يہ خوشخبرى مل رہى تھى كہ فتح و نصرت جلد ہى نصيب ہونے والى ہے شام كے ضعيف و عمر رسيدہ لوگوں كے لبوں پر يہ صدا بلند تى اللہ اللہ فى الحرمات من النساء و البنات(۸) (خدا كيلئے اپنے عورتوں اور بيٹيوں كا

۲۳۴

توكچھ تو خيال و پاس كرو)

معاويہ نے اپنے لشكر كى جب يہ زبوں حالى ديكھى اور يہ يقين ہوگيا كہ شكست ميں قطعا شك نہيں تو اس نے عمروعاص سے كہا كہ : ہم تو اب فنا ہوا چاھتے ہيں كہاں ہے وہ تمہارا آخرى حربہ(۱۹) يہ سن كر عمروعاص نے بآواز بلند كہا كہ : اے لوگو تم ميں سے جس كے پاس بھى قرآن مجيد ہے اسے نيزے كى نوك پر حمائل كردو_ تقريبا پانچ سو قرآن نيزوں پر آگئے اس كے ساتھ لوگوں كو چيخ و پكار بھى شروع ہوگئي كہ: ہمارے اور تمہارے درميان قرآن حاكم و ثالث ہے اگر ہميں قتل كردو گے تو شام كى سرحدوں كى كون نگرانى و حفاظت كرے گا(۱۰)

سپاہ عراق كا رد عمل

عراق كے بعض سپاہيوں پر دشمن كے حيلہ و نيرنگ اور اس كے پر فريب ،ہيجان انگيز نعروں كا جادو چل گيا (بالخصوص اشعث جيسے سرداروں پر چونكہ ان كے دل معاويہ كى جانب مايل تھے اسى لئے ان كا شمار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے منافقين ميں ہوتا تھا) چنانچہ انہوں نے لوگوں كو مشتعل كرنا شروع كرديا تا كہ وہ دشمن كے دام فريب ميں آجائيں اور اسى لئے انہوں نے بآواز بلند يہ كہنا شروع كرديا كہ ''تمہارى دعوت كتاب خدا ہم نے قبول كر ليا ہے آؤ ہم اسى طرف چليں ''(۱۱)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ كيفيت ديكھى تو اپنى سپاہ كے افكار روشن كرنے اور دشمن كے حيلہ و نيرنگ سے باخبر كرنے كى خاطر فرمايا كہ '' اے بندگان خدا اسى طرف چلتے رہو دشمن سے جہاد كرتے ہوئے حقيقت و حقانيت كو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دو معاويہ، عمروعاص اور ابن ابى معيط كو دين و قرآن سے كوئي سروكار نہيں ميں ان لوگوں كو تم سے بہتر جانتا ہوں ان كے بچپن سے سن رسيدہ ہونے تك ميرا سابقہ رہا ہے يہ اپنے وقت كے بدترين بچے اور بدترين مرد رہے ہيں اگر يہ لوگ قرآن كى عظمت سے واقف ہوتے اور اس كے احكام پر عمل كرتے تو ان كو نيزوں

۲۳۵

پر نہ چڑھاتے_ وہ جو كچھ كر رہے ہيں سب نيرنگ و نفاق ہے_(۱۲)

اس سے قبل يہ واقعہ رونما ہوا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے اس خط ميں جو معاويہ كو لكھا تھا يہ پيشين گوئي كردى تھى گويا ميں ديكھ رہا ہوں كہ حوصلہ شكن ضربات، بے حد و اندازہ كشت و خون اور يقينى شكست و ريخت كے بعد تم اپنے ساتھيوں كے ہمراہ كتاب اللہ كى جانب آنے كى دعوت دوگے چنانچہ جو لوگ اس دعوت كى دہائي ديں گے وہ كافر ہوں گے يا منافق يا حق سے روگرداں(۱۳) دشمن كى اس سازش كو ناكام كرنے اور سپاہ فريقين كے افكار بيدار كرنے كى خاطر حضرت علىعليه‌السلام نے حضرت سعيد كو قرآن كے ساتھ شاميوں كى جانب روانہ كيا اور انھيں حكومت قرآن كى دعوت دي_

سپاہ عراق ميں نظرياتى اختلاف

حضرت علىعليه‌السلام كى تقارير و تنبيہات كا اثر چند ہى لوگوں پر ہوا ان ميں اكثريت ايسے لوگوں كى تھى جنہوں نے ضد اختيار كر لى تھى اور ان كا اس بات پر اصرار تھا كہ جنگ ترك كردى جائے چنانچہ انہوں نے پكارپكار كر كہنا شروع كيا: اس جنگ نے ہميں نگل ليا اس ميں ہمارے تمام مرد مارے گئے ان كى دعوت كو قبول كر لو ورنہ سب مارے جاؤ گے_

جو لوگ اس حق ميں تھے كہ جنگ جارى رہے ان ميں مالك اشتر پيش پيش تھے_

ان كى دليل يہ تھى كہ معاويہ كے پاس اب اپنى فوجى طاقت كا دم خم نہيں جب كہ ہمارى فوجى طاقت بہت زيادہ ہے اور ہم ميں حوصلہ مندى ہے اگر اس كے پاس تمہارى جيسى فوجى طاقت ہوتى تو وہ ہرگز جنگ سے روگرداں نہ ہوتا(۱۴)

جنگ كو جارى ركھنے كے حاميوں ميں دوسرے شخص'' عدى بن حاتم'' تھے انہوں نے كہا كہ ہرچند ہمارى سپاہ كا كشت و خون ہوا ہے اور ان ميں سے بہت سے مجروح بھى ہوئے ہيں مگر حق كى پاسدارى كر رہے ہيں اس لئے ہم اہل شام زيادہ ثابت قدم وپائيدار ہيں اب وہ لوگ زبوں و ناتواں ہوچكے ہيں ضرورى ہے كہ اس موقع سے فائدہ اٹھايا جائے اور ہم ان سے جنگ

۲۳۶

كريں _ (۱۵)

انہى افراد ميں سے ''عمرو بن حمق'' اپنى جگہ سے اٹھے اور كہنے لگے: اے اميرالمومنينعليه‌السلام ہم نے آپ كا ساتھ باطل كى خاطر نہيں ديا ہے بلكہ ہم راہ خدا ميں اور حق قائم كرنے كى غرض سے آپ كے دوش بدوش رہے ہيں اب كام اپنے انجام كو پہنچ چكا ہے اور ہم بھى آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں(۱۶)

اس جماعت كے مقابل اشعث كھڑا تھا اور كہنے لگا اے اميرالمومنينعليه‌السلام ہم آپ كے آج بھى وہى جاں نثار دوست ہيں جو كل تھے ليكن كام كا انجام آغاز سے مختلف ہے مجھ سے بڑھ كر كوئي اہل عراق كا دوست او مجھ سے بدتر كوئي شاميوں كا دشمن نہيں انہوں نے جب كلام اللہ كى دعوت دى ہے تو قبول كر ليجئے كيونكہ اس كيلئے آپ ان سے كہيں زيادہ اہل و لائق ہيں لوگ اپنى زندگى و بقاء كے متمنى ہيں ہلاكت و تباہى انھيں پسند نہيں _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اس خيال كے پيش نظر كہ لشكر كے درميان ہم آہنگى برقرار رہے اور ان كے درميان كوئي اختلاف و اشتعال پيدا نہ ہو پہلے تو خود سے ہى كہا كہ اس مسئلہ كے بارے ميں غور كيا جانا چاہيئے(۱۷) ليكن جيسے ہى ہر گوشہ و كنار سے صلح كے بارے ميں دبى دبى آوازيں آنے لگيں تو آپ نے فرمايا كہ : اے بندگان خدا اس ميں كوئي شك نہيں كہ كلام اللہ كى دعوت قبول كرنے كيلئے ميں آپ سے زيادہ لائق و اہل ہوں مگر دين و قرآن كے معاملے ميں معاويہ اور عمروعاص كى بات الگ ہے ان كا قول اگرچہ كلمہ حق ہے مگر اس كے پس پردہ جو ارادہ كار فرما نظر آتا ہے وہ باطل ہے قرآن كو نيزے پر چڑھانا معرفت اور ايفائے عہد كى بنياد پر نہيں بلكہ يہ بھى حيلہ و نيرنگ اور ايك بہانہ ہے تم صرف ايك گھنٹے كے لئے اپنے دست و بازو اور سر ميرے حوالے كردو تو جلد ہى يہ ديكھو گے كہ حق اپنے آشكارہ نتيجے پر پہنچ چكا ہے اور ستمگروں كى بيخ كنى ہونے ميں ذرا بھى دير نہيں _

ليكن اشعث نے جب يہ ديكھا كہ اس كى بات كو نظر انداز كيا جا رہا ہے اور يا اس پر عمل ہونا

۲۳۷

مشكل و محال نظر آتا ہے تو يہ بات اس كيلئے ناقابل برداشت ہوگئي چنانچہ و ہ سپاہ كى جانب روانہ ہوا تا كہ اپنے اس نظريے كا ان كے درميان پر چار كر سكے چنانچہ اس نے اس بات پر سب سے زيادہ زور ديا كہ جنگ بند كردى جائے اور يہ بات اس نے ان حساس لمحات ميں كہى جب كہ جنگ كى چكى مالك اشتر كے ہاتھ ميں گھوم رہى تھى اور دشمن گيہوں كے دانوں كى مانند ان كى سرشكن ضربات كے باعث پس رہے تھے وہ ميدان كارزار ميں حق كو روشن اور فتح و نصرت كو آشكار كرنا چاہتے تھے دشمن كے آخرى محاذ كو زير و زبر كرنے ميں بھى اب چند قدم كا ہى فاصلہ رہ گيا تھا_

شاميوں كى زندگى اب معاويہ اور عمروعاص كے باريك تار اميد سے وابستہ تھى وہ سراسيمہ و پريشان معاويہ كے سرپر كھڑے چلا رہے تھے اور كہہ رہے تھے معاويہ ايسا لگتا ہے كہ اہل عراق ہمارى دعوت قبول كرنے كو تيار نہيں اپنى اس تجويز كو ان كے سامنے دوبارہ ركھيے تم نے يہ دعوت دے كر دشمن كو جرات مند و گستاخ كرديا ہے اور لالچ و حرص نے تم كو گھير ليا ہے(۱۸) _

دوسرى طرف اشعث كى كوشش كے باعث تقريبا دو ہزار آہن پوش افراد سلاح بدست اور شمشير بدوش ان قاريان قرآن كى جماعت كے ہمراہ جن كو بعد ميں جزو خوارج كہا گيا'' مسطر بن فدكي'' اور '' زيد بن حصين'' كى قيادت ميں حضرت علىعليه‌السلام پر حملہ آور ہوئے وہ آپ كو بار بار ضدى و خود سر كہے جا رہے تھے_

انہوں نے پہلى مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام كو اميرالمومنينعليه‌السلام خطاب كرنے كے بجائے يہ كہ كہا اے على انہوں نے كلام اللہ كى دعوت دى ہے تم اسے قبول كر لو ورنہ ہم تمہيں بھى عثمان كى طرح قتل كروائيں گے اور ہم خدا كو شاہد بنا كر كہتے ہيں كہ ہم يہ كام كر گزريں گے_

حضرت علىعليه‌السلام نے فرماياكہ : افسوس تمہارى حالت پر ميں وہ پہلا شخص ہوں جس نے قرآن كى دعوت دى اور ميں ہى پہلا فرد ہوں جس نے اس كى دعوت كو قبول كيا ميرے لئے يہ كسى طرح بھى شائستہ و سزاوار نہيں كہ حكميت قرآن كى دعوت دى جائے اور ميں اسے قبول نہ كروں ميں ان سے اس لئے جنگ كر رہا ہوں كہ وہ حكم قرآن كے آگے اپنى گرد نيں خم كرديں كيونكہ انہوں نے حكم

۲۳۸

خداوندى سے روگردانى كى اور اس كے احكام سے عہد شكنى كر كے اس كى كتاب سے منحرف ہوگئے ہيں ميں بار بار تمہارے سامنے يہ اعلان كر چكا ہوں كہ ان كا ہرگز يہ ارادہ نہيں كہ احكام الہى پر عمل پيرا ہوں بلكہ اپنے اس اقدام سے وہ تمہيں فريب دے رہے ہيں ميں نے جو كچھ كہا اور وہ بات جو تم كہہ رہے ہو اس پر غور كرو اگر ميرى اطاعت مقصود ہے تو جنگ كرو اور اگر ميرے حكم كى خلاف ورزى منظور ہے تو تمہيں اختيار ہے جو چاھو كرو_ (۱۹)

انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے بيان كى جانب توجہ كئے بغير كہا كہ اشتر كو حكم د يجئے كہ وہ جنگ سے دست بردار ہوكر واپس آجائيں _(۲۰)

مالك كا واپس آنا

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ناگزير يزيد بن ہانى كے ذريعے مالك كو پيغام بھجوايا كہ واپس آجائيں _ مالك اس وقت دشمن كى استقامت و پايدارى كو كارى ضرب لگا چكے تھے اور فتح و نصرت ان كے قدم چوم لينا چاہتى تھى انہوں نے جواب ديا كہ : يہ وقت مجھے اپنے موقف سے دوركرنے كيلئے مناسب نہيں مجھے خداوند تعالى كى ذات سے اميد ہے كہ فتح و كاميابى حاصل ہوگى ميرے بارے ميں آپ جلدى نہ كيجئے انہوں نے مالك كا پيغام حضرت علىعليه‌السلام كو پہنچا ديا انہى لمحات كے دوران ميدان كار زار ميں گرد و غبار بلند ہوا اور نبرد آزما سپاہ كى پر جوش و خروش صدائيں سنائي ديں اب مالك اشتر كى فتح و نصرت اور شاميوں كى شكست فاش نماياں ہوچكى تھي_

ليكن فتح و نصرت كى ان علامتوں سے كوئي بھى علامت ان سركشوں كو جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو اپنے حصار ميں لے ركھا تھا ضد پر سے نہ روك سكى وہ غضبناك ہو كر چيخے اور كہنے لگے كہ يقينا آپ نے مالك كو يہ حكم ديا ہے كہ آتش جنگ كو مزيد بر افروختہ كريں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : افسوس تمہارى حالت پر كيا ميں نے تمہارے سامنے قاصد مالك كى جانب روانہ نہيں كيا جو بات روشن و آشكارا ميں نے كہى تھى كيا وہ تمہارے كانوں تك نہيں پہنچي؟ انہوں نے كہا : دوبارہ يہ

۲۳۹

پيغام بھجوائے كہ وہ واپس آجائيں اور اگر آپ نے ايسا نہ كيا تو ہم آپ سے قطع تعلق كرليں گے حضرت على عليه‌السلام نے دوبارہ يہ پيغام بھيجا كہ يہاں فتنہ بپا ہے تم واپس آجاؤ اشتر نے قاصد سے پوچھا كيا يہ شور و غوغا قرآن كو نيزوں پر بلند كرنے كے باعث بپا ہوا ہے؟ قاصد نے جواب ديا ہاں اس كى وجہ يہى ہے اس پر مالك نے كہا كہ خدا كى قسم جس وقت قرآن كو نيزوں پر لايا گيا تھا مجھے اسى وقت يہ گمان گذرا تھا كہ اختلاف و تفرقہ پيدا ہوگا يہ طرح ريزى و نقشہ كشى اس غير معمولى ذہنى كى پيدا وار ہے جس كا نام عمروعاص ہے_

اس كے بعد انہوں نے يزيد بن ہانى سے كہا كہ:كيا تم ديكھ نہيں رہے ہو كہ خداوند تعالى نے ہميں فتح و كاميابى عطا فرمائي ہے كيا اس وقت يہ مناسب ہے كہ اس موقع كو ہاتھ سے جانے دوں اور واپس چلا آجاؤں ؟ يزيد بن ہانى نے كہا كہ : كيا آپ يہ چاھتے ہيں كہ اس محاذ جنگ پر تو آپ كامياب ہوجائيں اور ادھر آپ اميرالمومنينعليه‌السلام كو دشمن كے حوالے كرديں ؟ انہوں نے جواب ديا كہ '' سبحان اللہ آپ نے يہ كيا بات كہى خدا كى قسم ميں ايسا ہرگز چاھوں گيا يہ كہہ كر وہ ميدان كارزار سے واپس آگئے_(۲۱)

سركشوں كى سرزنش

مالك جب ميدان كارزار سے واپس آگئے تو وہ ان لوگوں پر غضبناك ہوے جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو گھير ركھا تھا اور كہا: اے مذلت پذير سست عنصر لوگو تمہيں غالب و فاتح ديكھ كر دشمن نے حكميت قرآن كى دعوت دى ہے كيا دعوت دينے كيلے يہى وقت رہ گيا تھا خدا كى قسم انہوں نے احكام الہى و قرآن اور سنت كو پامال كيا ہے اس لئے تم ان كى دعوت قبول نہ كرو مجھے اتنى مہلت دے دو كہ ميں يہاں سے جاؤں اور واپس چلا آؤں ميں فتح و كاميابى كو اپنے سامنے ديكھ رہا ہوں انہوں نے كہا كہ : ايسا نہيں ہوسكتا مالك نے كہا كہ '' كم از كم مجھے اتنا ہى وقت دے ديا جائے جتنى دير گھوڑے كو دوڑنے ميں لگتى ہے انہوں نے جواب ديا كہ ايسے وقت ميں ہم تمہارے ساتھ

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348