تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 22%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175228 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

جوں جوں انسان کی آگاہی کا درجہ بڑھتا جاتا ہے‘ اس کی حیات اور جانداری کا درجہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ زیربحث ”خود شناسی“، ”شناختی کارڈ“ والی خود شناسی نہیں ہے‘ جس میں لکھا ہوتا ہے کہ میرا نام کیا ہے؟ میرے ماں باپ کا نام کیا ہے؟ میری جائے پیدائش کون سی ہے؟ اور میری سکونت کہاں ہے؟ اور اسی طرح سے زیربحث ”خود شناسی“ حیاتیات کی شناخت بھی نہیں ہے جو حیوانات کی شناخت میں انسان کو ریچھ یا بندر سے بالاتر درجے کا ایک حیوان قرار دے۔

اس مقصد کی مزید وضاحت کے لئے ہم یہاں ”حقیقی خود شناسی“ کی اقسام مختصراً بیان کرتے ہیں‘ مجازی خود آگاہی سے قطع نظر خود شناسی کی چند اقسام ہیں:

1 ۔ فطری خود شناسی

انسان ذاتاً خود شناس ہے‘ یعنی اس کی ذات کا جوہر ہی آگاہی ہے‘ لیکن ایسا نہیں ہے کہ پہلے انسان کا جوہر ذات وجود میں آئے اور اس کے بعد انسان اس سے آگاہ ہو‘ بلکہ اس کے جوہر ذات کی پیدائش ہی اس کی خود آگاہی کی پیدائش ہے اور اس مرحلے میں آگاہ ”آگاہی“ اور درجہ آگاہی میں آیا ہوا‘ تینوں ایک ہی چیز ہیں۔ جوہر ذات وہ حقیقت ہے جو عین خود آگاہی ہے۔

دوسری چیزوں سے کم و بیش آگاہی کے بعد والے مراحل میں اپنے بارے میں بھی اسے اسی طرح سے آگاہی حاصل ہوتی ہے یعنی اپنے بارے میں انسان ذہن میں ایک تصور قائم کر لیتا ہے اور اصطلاحی الفاظ میں علم حصولی کے ذریعے خود سے آگاہ ہوتا ہے‘ لیکن اس طرح کی آگاہی سے قبل بلکہ ہر طرح کی دوسری چیزوں کی شناخت سے قبل اپنے بارے میں وہ علم حضوری رکھتا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔

۸۱

ماہرین نفسیات عموماً خود شناسی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں‘ ان کے پیش نظر دوسرا مرحلہ ہوتا ہے یعنی علم حصولی اور ذہنی کے ذریعے خود شناسی لیکن فلاسفہ کی نظر زیادہ تر علم حضوری کے مرحلے پر ہوتی ہے نہ علم ذہنی پر۔ شناخت کی یہ قسم وہی ہے جو فلسفہ میں تجردد نفس کی مضبوط ترین دلیل کے طور بیان کی جاتی ہے۔

اس قسم کی خود شناسی میں اس طرح کے شک و تردد کی گنجائش نہیں ہوتی کہ میں موجود ہوں یا نہیں؟ اور اگر موجود ہوں تو کون ہوں؟ شک و تردید کی گنجائش وہاں ہوتی ہے‘ جہاں شناخت علم حصولی کا نتیجہ ہو یعنی شناخت شدہ شے کا عینی وجود اور شناخت کا عینی وجود دو مختلف چیزیں ہوں۔

لیکن جہاں شناخت‘ شناخت کنندہ اور شناخت شدہ تینوں ایک ہی چیز ہوں تو یہ شناخت حضوری ہو گی جس میں شک و تردد کو فرض نہیں کیا جا سکتا یعنی شک کا واقع ہونا وہاں وہاں محال ہے۔

ڈیکارٹ کی بنیادی غلطی ہی یہی ہے کہ اس نے اس بات پر توجہ ہی نہیں کی کہ ”میں ہوں“ شک و تردد سے مبرا ہے جو ہم ”شک“ کو ”میں سوچتا ہوں“ سے دور کریں۔

فطری خود شناسی اگرچہ ایک واقعیت ہے لیکن اکتسابی اور حصولی نہیں ہے بلکہ وجود انسان کی ذات کا ایک پرتو اور عکس ہے۔ اسی لئے وہ خود شناسی جس کی دعوت دی گئی ہے‘ خود شناسی کا ایسا درجہ نہیں جو فطرت کی حرکت جوہری کے نتیجے میں تکوینی اور قہری طور پر وجود میں آتی ہے۔ جہاں پر قرآن حکیم نے رحم مادر میں بچے کی خلقت کے تین مراحل بیان کرتے ہوئے آخری مرحلے کے بارے میں فرمایا:

۸۲

ثم انشاء ناه خلقاً آخر (سورئہ مومنون‘ آیت 14)

”پھر ہم نے اسے ایک اور چیز سے اور ایک اور خلقت سے کر دیا۔“

اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ مادہ انجانے طور پر خود شناس روحی جوہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

2 ۔ فلسفی خود شناسی

فلسفی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ”ذات خود شناس“ کی حقیقت کو پہچانے کہ وہ کیا ہے؟ آیا وہ ”جوہر“ ہے یا ”عرض“؟ وہ مجرد ہے یا مادی؟ اس کا جسم سے کیا تعلق ہے؟ کیا وہ جسم سے پہلے موجود تھا‘ یا جسم کے ساتھ وجود میں آیا؟ یا خود جسم سے نکلا ہے؟ کیا وہ فنائے جسم کے بعد بھی باقی رہتا ہے یا نہیں؟ اور اس طرح کے اور سوالات۔

خود شناسی کی اس سطح پر جو سوال پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ خود اور ذات کی ماہیت اور حقیقت کیا ہے؟ وہ کیا ہے اور کس جنگ سے ہے؟ اگر فلسفی ”خود شناسی“ کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات کی ماہیت‘ جوہر اور جنس کو پہچانتا ہے۔

۸۳

3 ۔ دنیوی خود شناسی

یعنی انسان کے دنیا سے تعلق کی شناخت کہ میں کہاں سے آیا ہوں؟ کہاں ہوں؟ اور کہاں جا رہا ہوں؟ اس ”خود شناسی“ سے اس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہ اس ”کل“ کا ایک ”جزو“ ہے جس کا نام ”دنیا“ ہے وہ جانتا ہے کہ وہ خود کسی مستقل حیثیت کا ملک نہیں بلکہ وہ کسی دوسری چیز سے ملحق ہے۔ وہ اپنی مرضی سے نہ خود وجود میں آیا ہے اور نہ ہی زندگی بسر کر رہا ہے البتہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اپنے اس ”جزو“ کو اس ”کل“ میں معین کر دے۔

حضرت علی 1  کے اس پرمغز کلام سے اس قسم کی خود شناسی کی عکاسی ہوتی ہے:

رحم الله امرء علم من این؟ وفی این؟ والی این؟

”خدا اس پر رحمت کرے جو یہ جان لے کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ وہ کہاں ہے؟ اور کہاں جا رہا ہے؟“

اس طرح کی ”خود شناسی“ انسان میں ایک لطیف ترین اور باعظمت ترین درد پیدا کرتی ہے‘ جو اس کائنات کی دوسری ذی روح چیزوں میں نہیں پایا جاتا اور وہ درد ہے ”حقیقت رکھنے“ کا درد اور یہی وہ خود شناسی ہے جو ان کو حقیقت کا پیاسا اور یقین کا متلاشی بناتی ہے‘ شک و تردد کی آگ اس کی روح میں روشن کرتی ہے‘ اس کو ادھر سے ادھر کھینچتی ہے اور یہ وہی آگ ہے جو امام غزالی(سچی کہانیاں) جیسے انسان کی روح میں روشن ہوتی ہے‘ جس سے ان کی بھوک اور نیند اڑ جاتی ہے‘ ان کو نظامیہ کی مسند سے نیچے کھینچ لاتی اور بیابانوں میں آوارہ کرتی ہے اور سالہا سال تک عالم غربت اور بے وطنی میں تدبر اور تفکر میں مصروف رکھتی ہے۔

یہ وہی آگ ہے جو ”عنوان بصری“(سچی کہانیاں) جیسے انسانوں کو حقیقت کی تلاش میں شہر شہر اور کوچہ کوچہ گھومنے پر مجبور کر دیتی ہے اس طرح کی خود شناسی انسان میں تقدیر کا خیال پیدا کرتی ہے۔

۸۴

4 ۔ طبقاتی خود شناسی

یہ خود شناسی ”اجتماعی خود شناسی“ کی مختلف صورتوں میں سے ایک ہے۔ طبقاتی خود شناسی یعنی معاشرے کے مختلف طبقات سے اپنے تعلق کی شناخت جن کے ساتھ وہ زندگی بسر کرتا ہے‘ طبقاتی معاشروں میں ہر فرد کی ایک خاص ٹولی ہے اور ایک خاص طبقہ میں کامیاب یا ناکام زندگی بسر کرتا ہے‘ طبقاتی مقام اور طبقاتی ذمہ داریوں کی پہچان طبقاتی ”خود شناسی“ ہے۔

بعض نظریات کی رو سے انسان کا اس طبقے سے باہر کوئی ”خود“ موجود نہیں جس میں وہ ہے‘ ہر شخص کی ذات‘ اس کا ضمیر ہے اور اس کے احساسات‘ افکار‘ آلام اور میلانات کا مجموعہ ہیں اور یہ سب طبقاتی زندگی میں پیدا ہوتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اس گروہ کے نزدیک نوع انسان کی کوئی ذات نہیں ہوتی وہ ایک انتزاع شدہ انسان ہے نہ عینی انسان‘ کیوں کہ عینی انسان تو طبقے میں معین ہو جاتا ہے‘ انسان موجود نہیں ہوتا بلکہ یا اشراف ہوتے ہیں یا عوام‘ لہٰذا ایک غیر طبقاتی معاشرے میں اجتماعی خود شناسی‘ طبقاتی خود شناسی پر منحصر ہے۔

اس نظریے کے مطابق ”طبقاتی خود شناسی“، ”نفع شناسی“ کے مساوی ہے‘ کیوں کہ اس کی بنیاد یہ فلسفہ ہے کہ ”فرد“ پر اصل حاکم اور فرد کی شخصیت کی بنیاد ”مادی منافع“ ہے جس طرح سے معاشرے کی عمارت میں اس کی بنیاد اقتصاد ہے اور جو چیز ایک طبقے کے افراد کو مشترک ضمیر‘ مشترک ذوق اور مشترک فیصلہ دیتی ہے وہ مشترک مادی زندگی اور مشترک منافع ہیں‘ طبقاتی زندگی انسان کو طبقاتی نقطہ نظر عطا کرتی ہے اور طبقاتی نقطہ نظر اس چیز کا باعث ہوتاہے کہ انسان دنیا اور معاشرے کو خاص زاویے اور خاص عینک سے دیکھے اور اسے طبقاتی نظر سے پیش کرے۔ اس کے اندر درد بھی طبقاتی ہوتا ہے اور اس کی کوششیں اور طرز تفکر بھی طبقاتی ہوتا ہے۔

مارکسزم اس طرح کی خود شناسی کا قائل ہے اس طرح کی خود شناسی کو مارکسزم کی خود شناسی کہا جا سکتا ہے۔

۸۵

5 ۔ قومی خود شناسی

قومی خود شناسی سے مراد اپنے بارے میں ایسی خود شناسی ہے جو انسان اور اس کی اپنی قوم کے دیگر افراد سے تعلق اور ربط کے سلسلے میں ہو‘ ایک طبقے کے افراد کے آداب‘ قوانین‘ تاریخ‘ تاریخی فتوحات اور شکستیں‘ زبان‘ ادبیات اور تہذیب مشترک ہو تو ان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے نتیجے میں انسان میں ان لوگوں کے ساتھ ایک طرح کی یگانگت اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے‘ بلکہ جس طرح ایک فرد ایک شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ ایک قوم بھی ایک تہذیب کی حامل ہونے کی بناء پر ایک ملی شخصیت پیدا کر لیتی ہے۔ مشترک تہذیب سے افراد کے درمیان مشترک قومیت کی نسبت زیادہ شباہت اور وحدت پیدا ہوتی ہے‘ ایسی قومیت جس کی بنیاد تہذیب اور ثقافت پر ہو‘ افراد کو اجتماع اور وحدت میں بدل دیتی ہے اور اسی اجتماع اور وحدت کی خاطر قربانی دیتی ہے‘ اجتماع کی کامیابی سے اس میں فخر اور شکست سے شرمندگی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

”ملی خود شناسی“ یعنی قومی ثقافت سے آگاہی‘ ملی شخصیت کی شناخت قومیت کے اجتماعی احساس کی شناخت ہے‘ بنیادی طور پر دنیا میں ”ایک ثقافت“ نہیں بلکہ ”ثقافتیں“ موجود ہیں اور ہر ثقافت کی ایک خاص ماہیت‘ خصوصیت اور پہچان ہوتی ہے لہٰذا صرف ایک ثقافت کا نعرہ کھوکھلا اور بے معنی ہے۔ نیشنلزم (قومیت) جس نے بالخصوص انیسویں صدی عیسوی میں بہت رواج پایا ہے اور اب بھی کم و بیش اس کی ترویج کا سلسلہ جاری ہے‘ اسی فلسفے پر مبنی ہے اس طرح کی ”خود شناسی“ میں ”طبقاتی خود شناسی“ کے برعکس‘ جس میں ہر قسم کے اندازے‘ جذبات‘ فیصلے اور طرف داریوں کا رجحان طبقاتی ہوتا ہے‘ قومی جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔

”ملی خود شناسی“ اگرچہ ”منافع خود شناسی“ نہیں ہے تاہم یہ ”خود خواہی“ کے جذبے سے خالی نہیں ہوتی‘ اس میں ”خود خواہی“ کے تمام عیب جیسے تعصب‘ جانبداری کا احساس‘ اپنے عیوب نہ دیکھنا‘ اپنے آپ پر اترانا اور خود پسندی وغیرہ پائے جاتے ہیں‘ اس لئے یہ بھی ”طبقاتی خود شناسی“ کی مانند اخلاقی صفات سے عاری ہوتی ہے۔

۸۶

6 ۔ انسانی خود شناسی

یعنی دوسرے انسانوں کے لحاظ سے انسان کی اپنے بارے میں شناخت‘ اس خود شناسی کا انحصار اس فلسفے پر ہے کہ تمام انسان مجموعی طور پر ایک اکائی ہیں اور ایک مشترک انسانی ضمیر رکھتے ہیں‘ اس لئے انسان دوستی اور اس کی طرف میلان کا احساس ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔

سعدی شیرازی کے بقول:

بنی آدم اعضای یک پیکر اند

کہ در آفرینش زیک گوہر اند

چو عضوی بدرد آورد روزگار

عضوھا را نماند قرار

تو کز محنت دیگران بی غمی

نشاید کہ نامت نھند آدمی

بنی آدم 1  ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں‘ اس لئے کہ وہ خلقت میں ایک ہی جوہر سے ہیں۔

جب زمانہ ایک حصے کو درد میں مبتلا کرتا ہے‘ تو دوسرے اعضاء بھی بے چین اور بے قرار ہو جاتے ہیں تو جو کہ دوسروں کی مصیبت سے بے غم ہے‘ تجھے انسان کہنا نامناسب ہے‘ وہ لوگ جو کانٹ کی مانند ”دین انسانیت“ کی تلاش میں تھے اور اب بھی ہیں‘ اسی طرز فکر کے حامل ہیں۔ ہیومانزم ( Humanism ) کا فلسفہ جو ہمارے زمانے میں بھی کم و بیش رائج ہے اور بہت سے روشن فکر اشخاص جس کے مدعی ہیں‘ یہی ہے۔ یہ فلسفہ انسان کو گروہوں‘ قومیتوں‘ تہذیبوں‘ مذہبوں‘ رنگوں اور نسلوں سے بالاتر ہو کر انسانوں کو ایک ”اکائی“ کی صورت میں دیکھتا ہے اور ان کے درمیان ہر قسم کی تفریق اور امتیازات کی نفی کرتا ہے‘ وہ منشور جو ”حقوق انسانی“ کے نام سے شائع ہوئے ہیں‘ اسی فلسفہ پر مبنی ہیں اور دنیا میں اسی طرح کی خود شناسی کی ترویج کرتے ہیں۔

۸۷

اگر اس طرح کی ”انسانی خود شناسی“ ایک فرد میں پیدا ہو جائے تو اس کا درد انسانیت کا درد اور اس کی آرزوئیں انسانیت کی آرزوئیں بن جاتی ہیں۔ اس کا میلان انسانی میلانات کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس کی دوستی اور دشمنی بھی انسانی رنگ اختیار کرتی ہے۔ وہ انسان کے دوستوں یعنی علم‘ تہذیب‘ رفاہ‘ آزادی‘ انصاف اور محبت کا دوست اور اس کے دشمنوں یعنی جہالت‘ افلاس‘ ظلم‘ بیماری‘ گھٹن اور تفریق کا دشمن بن جاتا ہے اور اس طرح کی خود شناسی ”ملی خود شناسی“ اور ”طبقاتی خود شناسی“ کے برعکس اخلاقی صفات کی حامل ہوتی ہے۔

لیکن ایسی خود شناسی باوجودیکہ سب سے زیادہ منطقی اور شہرت یافتہ ہے۔ دوسری خود شناسیوں کی نسبت کم پائی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟

اس کا راز انسان کے وجود اور اس کی اصلیت میں پوشیدہ ہے۔ انسان اپنے وجود اور اپنی اصلیت کے اعتبار سے تمام دوسری موجودات سے‘ جمادات ہوں‘ نبادات ہوں یا حیوانات‘ مختلف ہے۔ اس لئے انسان کے علاوہ ہر دوسرا وجود جو اس دنیا میں آتا ہے‘ وہی ہوتا ہے جس حالت میں وہ پیدا کیا گیا ہے یعنی اس کی اصلیت اور کیفیت وہی ہوتی ہے جو پیدائش کے وقت اس کو دی گئی ہے‘ لیکن اس حالت کے برعکس انسان کو پیدائش کے بعد ایک نیا مرحلہ پیش آتا ہے کہ وہ کیا ہے؟ اور اسے کیسے ہونا چاہئے؟ انسان ویسا نہیں رہتا جیسا پیدائش کے وقت ہوتا ہے بلکہ وہ جیسا چاہتا ہے بنتا ہے‘ یعنی وہ تمام وسائل‘ جن میں اس کا ارادہ اور انتخاب بھی شامل ہوتا ہے‘ اس کی پرورش اور تربیت کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر انسان کے علاوہ ہر چیز اپنی ماہیت کے لحاظ سے کہ وہ کیا ہے؟ اور کیفیت کے اعتبار سے کہ اسے کیسے ہونا چاہئے؟

۸۸

حقیقی طور پر مکمل پیدا کی گئی ہے‘ لیکن اس لحاظ سے انسان ایک ممکنہ قوت اور استعداد کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے‘ یعنی انسانیت کا بیج اس کے اندر استعدادی قوت کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور اگر اس بیج پر کوئی آفت نہ پڑے تو وہ آہستہ آہستہ وجود انسان کی زمین سے باہر نکل آتا ہے اور یہی وہ انسانی فطریات ہیں جو بعد میں اس کے فطری اور انسانی ضمیر کی تعمیر کرتی ہیں۔ انسان جمادات‘ نباتات اور حیوانات کے برعکس ایک ظاہری بدن اور شخصیت کا حامل ہوتا ہے‘ اس کا بدن یعنی جسمانی اعضاء کا مجموعہ جو مکمل طور پر دنیا میں آتا ہے اس لحاظ سے پیدائش کے وقت حیوانات کی مانند ہوتا ہے‘ لیکن روحانی پہلوؤں سے وہ ایک استعدادی قوت رکھتا ہے جو اس کی انسانی شخصیت کو بناتی ہے‘ انسانی اقدار اس کے وجود میں استعدادی قوت کے ساتھ موجود ہوتی ہیں جو پیدا ہونے اور بڑھنے پر آمادہ ہوتی ہیں۔

انسان روحانی اور باطنی اعتبار سے جسم سے ایک مرحلہ پیچھے ہوتا ہے اس کے جسمانی اعضاء پہلے مرحلے میں رحم مادر میں دست قدرت کے وسائل سے تکمیل پاتے ہیں لیکن اس کی روحانی اور باطنی حیثیت اور اس کی شخصیت کے حصے اس کی پیدائش کے بعد والے مرحلے میں مکمل ہوتے ہیں‘ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ہر شخص خود اپنی شخصیت کا معمار ہے۔ انسان کی تصویر بنانے والا قلم خود اس کے ہاتھ میں دیا گیا ہے اور (اپنی جسمانی ساخت کے برعکس) اپنی شخصیت کو بنانے والا نقاش وہ خود ہے۔

انسان کے علاوہ دوسرے تمام موجودات میں ان کی ذات اور ماہیت کے درمیان جدائی کا تصور ناممکن ہے مثلاً پتھر اور اس کی خصوصیات جیسے مختلف درخت اور اس کی خصوصیات‘ کتا اور اس کی خصوصیات‘ بلی اور اس کی خصوصیات کے مابین جدائی ناممکن ہے‘ اگر بلی‘ بلی ہے تو اپنی خصوصیات کی بنیاد پر ہے اگر اس کی خصوصیات اس سے چھین لی جائیں تو بلی‘ بلی نہیں رہتی۔

۸۹

لیکن انسان ایک ایسا وجود ہے جس کی ذات اور اس کی ماہیت کے درمیان جدائی اور دوری ممکن ہے یعنی انسان اور انسانیت کے درمیان جدائی ممکن ہے۔ بہت سے انسان ایسے ہوتے ہیں جو ابھی انسانیت کے مرحلے پر نہیں ہوتے اور ابھی تک حیوانیت ہی کے مرحلے پر باقی ہوتے ہیں‘ جیسے ابتدائی انسان تھے یا جنگلی انسان ہوتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ بہت سے انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو مسخ ہو جاتے ہیں اور انسان کے دشمن بن جاتے ہیں جیسے وجود اور اس کی ماہیت میں جدائی پیدا ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ ماہیت وجود کا لازمہ ہے اگر ایک وجود موجود ہو تو اس کی ماہیت بھی وجود کے ساتھ ساتھ موجود ہو گی۔ ہاں‘ استعدادی وجود کی ماہیت نہیں ہوتی۔

اگزیسٹینشالیزم ( Existentialism ) کے اصالت وجود کا نظریہ مدعی ہے کہ ”انسان بغیر ماہیت کے ایک وجود ہے اور اپنے ہی انتخاب سے راستہ طے کرتا ہے اور ماہیت پیدا کر لیتا ہے۔“

اس کی صحیح فلسفیانہ توجیہ یہی ہے۔ اسلامی فلاسفہ خصوصاً ملاصدرا کا انحصار اسی نظریے پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ

”انسان ایک نوع نہیں بلکہ انواع ہے‘ بلکہ ہر فرد ایک دن اس طرح ہوتا ہے جس طرح دوسرے دن نہیں ہوتا۔“

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علم حیاتیات ( Biology ) کا انسان انسانیت کا معیار نہیں ہے بلکہ وہ صرف انسان کا ڈھانچہ ہے اور فلاسفہ کی تفسیر کے مطابق ”استعداد انسانیت“ کا حامل ہے نہ کہ خود ”انسانیت“ کا اور یہ بھی واضح ہے کہ واقعیت روح کے بغیر ”انسانیت“ کا دعویٰ بے معنی ہے۔

مذکورہ مقدمہ کے جاننے کے بعد ہم ”انسانی خود شناسی“ کا مفہوم زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ”انسانی خود شناسی“ کی بنیاد یہ ہے کہ تمام انسان مجموعی طور پر ایک حقیقی اکائی کے طور پر شمار کئے جاتے ہیں اور ایک مشترک انسانی ضمیر سے بہرہ مند ہیں‘ جو طبقاتی‘ مذہبی اور قومی ضمیر سے بالاتر ہے۔

۹۰

البتہ یہ بیان توضیح طلب ہے کہ کون سے انسان مجموعی طور پر ایک ”شخصیت“ کے حامل ہیں اور واحد روح ان پر حاکم ہے؟ ”انسانی خود شناسی“ کون سے انسانوں کے درمیان بڑھتی ہے اور ان میں ہمدردی اور جسد واحد ہونے کا تصور پیدا کرتی ہے؟ آیا ”انسانی خود شناسی“ صرف انہی انسانوں کے درمیان بڑھتی ہے‘ جو انسانیت کے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں اور جن میں انسانی اقدار اور انسان کی حقیقی ماہیت‘ حقیقت بن چکی ہوتی ہے؟ یا ان انسانوں کے درمیان جو انسانیت نہیں پا سکے لیکن استعداد رکھتے ہیں؟ یا ان انسانوں کے درمیان جو مسخ ہو کر بدترین جانور بن گئے ہیں؟ یا ان سب کے درمیان یہ خود شناسی پائی جاتی ہے؟ جہاں تک باہمی احساس درد کا تعلق ہے سب کو اس درد کا احساس ہونا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ بظاہر تو تمام انسان ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں اور ایک دوسرے کے درد سے بے چین ہو جاتے ہیں‘ لیکن یہ سب گروہ تو ایسے نہیں ہو سکتے‘ جنگلی اور ابتدائی انسان جو اپنے بچپن پر باقی رہے اور ان کی انسانی فطرت ابھی بیدار اور متحرک نہیں ہوئی‘ کب باہمی احساس درد کے حامل ہوتے ہیں؟ اور ایک مشترک روح ان پر کیسے حکومت کر سکتی ہے؟ البتہ جن انسانوں کی ہیئت ہی مسخ ہو چکی ہو‘ ان کا معاملہ تو بالکل واضح ہے پس صرف وہی انسان جو انسانیت کے درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ جو انسانی ماہیت کے حامل ہیں اور جو انسانی فطرت کے لحاظ سے تکمیل پائے ہوئے ہیں‘ حقیقت میں ایک جسم کے اعضاء ہیں اور ایک واحد روح پر حکم فرما ہے اور بقول سعدی شیرازی 111#

چو عضوی بدرد آورد روزگار

دیگر عضوھارا نماند قرار

”جب زمانہ ایک حصے کو درد میں مبتلا کرتا ہے تو دوسرے اعضاء بھی بے چین ہو جاتے ہیں۔“

۹۱

ایسے انسان جن میں تمام فطری اقدار پیدا ہو چکی ہیں ”مومن انسان“ ہیں کیوں کہ ایمان انسان کی فطریات اور حقیقی انسانی اقدار میں سرفہرست ہے‘ چنانچہ جو چیز انسانوں کو حقیقی طور پر سماجی وحدت کی صورت دیتی ہے‘ ان میں واحد روح پھونکتی ہے اور اس طرح کے اخلاقی اور انسانی معجزے کو ظہور میں لاتی ہے‘ وہ صرف ”مشترک ایمان“ ہے‘ نہ کہ مشترک جوہر‘ نسب اور وطنیت جیسا کہ سعدی شیرازی کے کلام میں آیا ہے۔

جو کچھ سعدی نے کہا ہے وہ ایک ”آئیڈیل“ ہے نہ کہ حقیقت بلکہ ”آئیڈیل“ بھی نہیں ہے۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ موسیٰ 1  فرعون کے جسم کا حصہ ہوں‘ ابوذر معاویہ کے ہمدرد ہوں‘علیٰ هذا القیاس…؟

جو چیز حقیقت بھی ہے اور ”آئیڈیل“ بھی وہ ایسے انسانوں کی وحدت ہے‘ جو انسانیت کے درجے اور اقدار تک پہنچے ہوئے ہیں‘ یہ وہ حقیقی بیان ہے جو رسول اکرم نے فرمایا تھا اور شیخ سعدی نے اسے عمومیت دے کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا‘ پیغمبر اسلام نے بجائے اس کے کہ کہا جائے بنی آدم ایک ہی جسم کے حصے ہیں‘ فرمایا:

مثل المومنین فی توا ددهم و تراحمهم کمثل الجسد اذا شتکی بعضی تداعی له سائر اعضائه بالحمی والسهر

”مومنین ایک ہی جسم کے حصے ہیں‘ جب ایک حصے میں درد اٹھتا ہے تو دوسرے حصے بخار اور بے خوابی میں اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔“

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانیت کے درجے پر پہنچا ہوا انسان تمام انسانوں بلکہ تمام موجودات سے محبت کرتا ہے‘ حتیٰ کہ انسان انسانوں سے بھی‘ جن کی ہیئت مسخ ہو چکی ہے اور جنہوں نے اپنی اصل تبدیل کر لی ہے‘ اسی لئے خداوند تعالیٰ نے حضرت رسول اکرم 1 کو رحمتہ للعالمین قرار دیا ہے۔

۹۲

ایسے انسان اپنے دشمنوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ حضرت علی 1  نے ابن ملجم کے بارے میں فرمایا تھا کہ

”میں اس کی زندگی چاہتا ہوں اور وہ میرا قتل۔“

لیکن معاملہ برابر کی محبت اور برابر کی دردمندی کا ہے اور برابری کی محبت صرف اور صرف معاشرے کے اہل ایمان افراد کے درمیان ہی وجود پا سکتی ہے۔

ظاہر ہے تمام انسانوں سے محبت یعنی ”صلح کلی“ کا تقاضا یہ نہیں کہ کوئی ذمہ داری قبول نہ کی جائے اور کسی گمراہی اور ظالم سے لاتعلق رہا جائے‘ بلکہ اس کے برعکس انسانوں سے حقیقی محبت کا تقاضا اس ضمن میں سخت ترین ذمہ داریاں قبول کرنا ہے۔

ہمارے زمانے میں مشہور انگریز فلسفی اور ریاضی دان برٹرینڈرسل اور فرانس کے ایگزیسٹینشل فلسفی ”جان پال سارتر“ انسانی مسلک کے دو مشہور انسان دوست چہرے ہیں‘ البتہ رسل کے فلسفہ اخلاق کی بنیاد اس کے نظریہ ”انسان دوستی“ کی دو طرح سے مخالف ہے‘ رسل کا فلسفہ اخلاق شخصی منافع کی سوچ پر مبنی ہے‘ یعنی اس کے اخلاق کی بنیاد اصول اخلاق کی روشنی میں زیادہ اور بہتر منافع کے تحفظ پر ہے اور وہ اخلاق کے کسی دوسرے فلسفہ کا قائل نہیں ہے‘ اس بناء پر رسل کی ”انسان دوستی“ ایک اہل قلم کے قول کے مطابق مغربی دنیا کے اس اضطراب کی مظہر ہے‘ جس کی بنیاد ختم ہو چکی ہے‘ یہ اہل قلم ”آج کے مغربی نیھیلزم کے دو چہرے“ کے عنوان سے لکھتا ہے:

”وہ جوشیلا برژوازی جس نے قومیت کا پرچم لہرایا تھا‘ آج اس کے پاس سوچنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ یورپی جوان نسل ایک کھوکھلے نقطے پر کھڑی ہے۔ آج مغرب اور برآمدات کو جو اجتماعی شورش‘ ناامیدی‘ پریشانی‘ احساس حقارت اور افکار مذہب و اخلاق کے جذبات پر مشتمل ہیں اور جو اس نے دوسری قوموں اور تہذیبوں پر مسلط کیا تھا‘ واپس لے رہا ہے۔ منکر مذہب و اخلاق تو یہ سوچتا ہے کہ جب میرے لئے کچھ نہیں تو دوسرے کے لئے بھی کچھ نہ ہو اور اس طرح وہ خود اپنی ہی خرابی کی طرف رواں دواں ہے۔

۹۳

لیکن ایک اور ردعمل ایک طرح کے روحانی انسان دوستی کے فلسفے کے ظہور میں آنے سے ہوا ہے‘ جو مختلف سطحوں پر مغربی روشن فکر افراد کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے ایک طرف رسل کا سادہ عملی نظریہ ہے اور دوسری جانب سارتر کا پیچیدہ اور شدید نظریہ اور درمیان میں ٹیبو رمنڈر جیسے سیاست دان کا اور اقتصادیات کے حامی روشن فکر افراد اپنی اور دوسروں کی مشکلات کے حل کے لئے عملی طریقے سوچ رہے ہیں۔

لیکن سارتر اپنے عارفانہ اور آزادانہ مشرب اور ذمہ داری کے اس پیچیدہ اور شدت آمیز نظریے کے باوجود مغربی روح کا ایک اور مظہر ہے‘ جو احساس گناہ کی بناء پر تلافی مکافات کرنا چاہتا ہے۔ وہ رواقی فلاسفہ کی مانند انسانوں میں برادری‘ برابری‘ آزادی‘ خود مختاری‘ پرہیزگاری اور پارسائی سے دنیا میں حکومت کرنے کا معتقد ہے۔ موجودہ دور میں وہ ایسی روشن خیالی کا مظہر ہے جو یہ چاہتا ہے کہ ”انسانیت کامل“ کا حامی بن کر اپنے آپ کو مغرب کے اس اضطراب سے نکال لے‘ جس کی بنیاد کھوکھلی ہو چکی ہے۔ وہ نظریہ ”انسان دوستی“ کو مذہب کا بدل بنا کر پرانے خدا کے بدلے پوری انسانیت کے لئے نئے خدا سے اپنے اور پورے مغرب کے لئے معافی کا خواستگار ہے۔“

سارتر کی واضح انسان دوستی کا نتیجہ یہی ہے کہ کبھی تو وہ اسرائیل کی مظلومیت پر مگرمچھ کے آنسو بہاتا ہے اور کبھی عربوں اور بالخصوص فلسطینی مہاجرین کے مظالم پر فریاد کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

دنیا نے مغرب کے تمام انسان دوستوں کو جنہوں نے ”حقوق انسانی“ کے منشور پر دستخط کئے ہیں۔ مسلسل دیکھا ہے اور دیکھ رہی ہے اور یہ امر کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔

”اجتماعی خود شناسی“ ملی ہو یا طبقاتی یا انسانی ہمارے دور میں ”روشن خیال خود شناسی“ کہلاتی ہے۔ روشن خیال شخص وہ ہے جسے ان اقسام خود شناسی میں سے کوئی ایک حاصل ہو جس کے دل میں قوم یا طبقے یا انسان کے درد کا احساس ہو‘ جو انہیں اس درد سے رہائی دلانے میں کوشاں ہو‘ وہ چاہتا ہو کہ اپنی ”خود شناسی“ کو ان میں منتقل کر دے اور اجتماع کی قیود سے رہائی کے لئے ان کو کوشش اور حرکت کی ترغیب دلائے۔

۹۴

7 ۔ عارفانہ خود شناسی

عارفانہ خود شناسی ذات حق سے اپنے رابطے کے سلسلے میں خود شناسی ہے‘ عرفا کے نقطہ نظر سے یہ رابطہ ایسا نہیں ہے جو دو انسانوں کا آپس میں یا معاشرے کے کسی دوسرے افراد سے ہوتا ہے‘ بلکہ یہ رابطہ ”شاخ کا جڑ“ سے ”مجاز کا حقیقت“ سے اور عرفا کی اصطلاح میں مقید کا مطلق سے رابطہ ہے۔

ایک روشن فکر کے درد کے برعکس عارف کا درد انسان کی ”خود شناسی“ میں کسی بیرونی درد کا انعکاس نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک ایسا باطنی درد ہے‘ جو فطری اور اجتماعی درد ہوتا ہے‘ لہٰذا وہ پہلے اس سے آگاہ ہوتا ہے پھر یہ آگاہی اس کو درد مندبناتی ہے۔

لیکن ایک عارف کا درد چونکہ ایک باطنی درد ہوتا ہے‘ خود درد ہی اس کے لئے آگاہی ہے بالکل بیماریوں کے درد ہی کی طرح‘ جو طبیعت کی طرف سے کسی حاجت اور ضرورت کا اعلان ہے۔

حسرت و زاری کہ درد بیماری است

وقت بیماری ھمہ بیداری است

ہر کہ او بیدار تر پر درد تر

ہر کہ او آگاہ تر رخ زرد تر

پس بدان این اصل را ای اصلجو

ہر کہ را درد است او بردہ است بو

۹۵

”بیماری میں جو حسرت اور گریہ زاری ہے‘ بیماری کے وقت سب کی بیداری کی علامت ہے۔

جو جتنا زیادہ بیدار ہے وہ اتنا ہی زیادہ دردمند ہے اور جو جتنا زیادہ خود شناس ہے اس کا چہرہ اتنا ہی زیادہ زرد ہے‘ پس اے حقیقت کے متلاشی! اس حقیقت کو جان لے کہ جو شخص درد میں مبتلا ہے اسی نے حقیقت کا پتہ لگا لیا ہے۔“

عارف کا درد فلسفی کے درد جیسا بھی نہیں‘ دونوں ہی حقیقت کے درد مند ہیں لیکن فلسفی کا درد حقیقت کے جاننے اور شناخت کرنے کا درد ہے اور عارف کا درد پہنچنے‘ ایک ہو جانے اور محو ہو جانے کا درد۔ فلسفی کا درد اسے فطرت کے دیگر فرزندوں یعنی تمام جمادات‘ نباتات اور حیوانات سے ممتاز کر دیتا ہے۔ عالم طبیعت کے کسی وجود میں ماننے اور شناخت کرنے کا درد موجود نہیں‘ لیکن عارف کا درد عشق اور جذبے کا درد ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو نہ صرف حیوان میں نہیں بلکہ فرشتوں میں بھی موجود نہیں‘ جن کی ذات کا جوہر ہی خود شناسی اور جاننا ہے۔

فرشتہ عشق نداانست چیست قصہ مخوان

بخواہ جام و گلابی بہ خاک آدم ریز

”فرشتے نے عشق کو نہ جانا کہ وہ کیا چیز ہے قصہ نہ سنا‘ جام طلب کر اور گلاب کا پانی آدم کی خاک پر ڈال دے۔“

جلوہ ای کرد رخش دید ملک‘ عشق نداشت

خیمہ در مزرعہ آب و گل آدم زد

”جب اس کے رخ کا ایک جلوہ نظر آیا تو فرشتے نے دیکھا کہ اس میں عشق نہیں تو اس نے آدم کی خاک پر اپنے خیمے گاڑ دیئے۔“

۹۶

فلسفی کا درد فطرت کی حاجتوں کے جاننے کا اعلان ہے جسے فطری طور پر انسان جاننا چاہتا ہے اور عارف کا درد فطرت عشق کی حاجتوں کا اعلان ہے جو پرواز کرنا چاہتا ہے اور جب تک پوری طرح سے حقیقت کا ادراک نہیں کرتا‘ سکون نہیں پاتا۔ عارف کامل خود شناسی کو ”خداشناسی“ میں منحصر سمجھتا ہے۔ عارف کی نظر میں جسے فلسفی انسان کا حقیقی ”من“ سمجھتا ہے‘ حقیقی ”من“ نہیں ہے بلکہ روح ہے۔ ”جان“ ہے‘ ایک تعین ہے‘ حقیقی ”من“ خدا ہے اور اس تعین کے ٹوٹنے کے بعد انسان اپنے حقیقی ”من“ کو پا لیتا ہے۔

محی الدین ابن عربی فصول الحکم‘ فص شعیبی میں فرماتے ہیں‘ حکماء اور متکلمین نے خود شناسی کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ لیکن ان راہوں سے ”معرفت النفس“ حاصل نہیں ہو سکتی‘ جس کا خیال یہ ہو کہ ”خود شناسی“ کے بارے میں حکماء نے جو کچھ سمجھا ہے‘ وہ حقیقت ہے‘ تو اس نے پھولی ہوئی چیز کو موٹا سمجھ رکھا ہے۔

شیخ محمود شبستری سے عرفانی مسائل کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات ”جن کے جواب میں کم نظیر عرفانی کلام‘ ”گلشن راز“ وجود میں آیا ہے۔“ میں سے ایک ”خود“ ذات اور ”من“ کے بارے میں سوال تھا کہ یہ کیا ہے؟

۹۷

دگر کردی سوال ازمن کہ ”من“ چیست

مرا از من خبر کن تاکہ ”من“ کیست

چو ہست مطلق آمد در اسارت

بہ لفظ ”من“ کنند از وی عبارت

حقیقت کز تعین شد معین

تو او را در عبارت گفتہ ای من

من و تو عارض ذات وجودیم

مشبکہای مشکوة وجودیم

ھمہ یک نور دان اشباح و ارواح

گہ از آئینہ پیدا گہ ز مصباح

”تو نے پھر مجھ سے پوچھا کہ یہ ”من“ کیا ہے‘ ”من“ کے بارے میں پوچھنے سے پہلے مجھے میرے بارے میں خبر تو دو!

مطلق ہستی کو جب اسیر اور مقید کر دیا جاتا ہے تو اسے ”من“ سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ جب تعین اور حدود و قیود کی وجہ سے حقیقت کو متعین کیا جاتا ہے اسے سادہ عبارت میں ”من“ کہا جاتا ہے‘ میں اور تم دونوں ذات وجود کے عارض ہیں اور ہم وجود (روح) کے فانوس کے گرد لگی ہوئی جالیاں ہیں (جن سے روشنی چھن چھن کر باہر آتی ہے) ہیولا اور روح کو ایک نور ہی سمجھ لو‘ کیوں کہ نور کبھی تو آئینہ سے منعکس ہو کر تم تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی فانوس سے سیدھا تم تک پہنچ جاتا ہے۔“

پھر ”روح“ اور ”من“ کے بارے میں فلاسفہ کی خود شناسی پر اس طرح سے اعتراض کرتے ہیں۔

۹۸

تو گوی لفظ ”من“ در ہر عبارت

بسوی روح می باشد اشارت

چو کردی پیشوائے خود خرد را

نمی دانی ز جزء خویش خودرا

برو ای خواجہ خود را نیک بشناس

کہ نبود فربہی مانند آماس( 1)

من و تو بر تر از جان و تن آمد

کہ این ہر دو ز اجزای من آمد

بہ لفظ من نہ انسان است مخصوص

کہ تا گوی بدان جان است مخصوص

یکی راہ برتر از کون و مکان شو

جہاں بگذار و خود در خود جہان شو

”تم چاہے کسی بھی عبارت میں لفظ ”من استعمال کرو اشارہ تمہاری روح ہی کی طرف ہے‘ جب تم عقل کو اپنا رہبر اور رہنما بناؤ گے‘ تو اپنے آپ کو اپنے اعضاء سے نہیں سمجھو گے۔ اے خواجہ جا اور اپنے آپ کو اچھی طرح پہچان لے کیوں کہ پھول جانا موٹاپا نہیں ہوتا‘ ”من“ اور ”تو“ جگہ اور بدن سے برتر ہیں کیوں کہ یہ دونوں مرے اجزاء اور حصے ہیں لفظ ”من“ کسی خاص انسان سے مخصوص نہیں جو تم اس سے کسی خصوصی روح کو مراد لو‘ ایک راستے پر چلو اور کون و مکان سے برتر ہو جاؤ‘ دنیا کو چھوڑ دو اور اپنے اندر ایک دنیا بن جاؤ۔“

۹۹

مولانا کہتے ہیں:

ای کہ در پیکار ”خود“ را باختہ

دیگران را تو ز خود نشاختہ

تو بہ ہر صورت کہ آئی بیستی

کہ منم این واللہ آن تو نیستی

یک زمان تنہا بمانی تو زخلق

در غم و اندیشہ مانی تا بحلق

این تو کی باشی؟ کہ تو آن اوحدی

کہ خوش و زیبا و سرمست خودی

مرغ خویشی‘ صید خویشی‘ دام خویش

صدر خویشی‘ فرش خویشی‘ بام خویش

گر تو آدم زادہ ای چون اونشین

جملہ ذرات را در خود ببین

”اے وہ شخص جو جنگ میں اپنے آپ کو ہار چکا ہے اور اپنے اور دوسروں کے فرق کو نہ جان سکا‘ تم چاہے کسی بھی صورت میں آ جاؤ تم نہیں ہو‘ بلکہ اللہ کی قسم وہ میں ہوں‘ ایک وقت ایسا آئے گا جب تم مخلوقات سے الگ تھلگ اکیلے رہ جاؤ گے اور گردن تک غم و اندوہ میں مبتلا رہو گے۔ یہ تم کب ہو؟‘ تم تو وہ فرد ہو جو اپنا مرکز‘ اپنا فرش اور اپنا چھت ہے اور جو اپنے آپ میں سرمست‘ خوش اور مگن ہے‘ تم خود ہی پرندہ ہو‘ خود شکار ہو اور خود ہی جال بھی‘ بلندی بھی تم خود ہو‘ پستی بھی خود ہی اور چھت بھی تم ہی ہو‘ اگر تم آدم کی اولاد ہو تو اس کی طرح رہو اور تمام ذرات کا اپنے اندر مشاہدہ کرو۔“

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

قيادت و فرماندارى ميں روميوں سے جنگ كرنے كے لئے لشكر روانہ كيا تھا ، تو معاويہ پرچمدار كى حيثيت سے لشكر شام كے ہمراہ تھا جب اس كے بھائي كا انتقال ہوگيا تو خليفہ وقت نے اسے سپاہ كا فرماندار مقرر كرديا_ عثمان كے دور خلافت ميں بہت سے نئے علاقے اسلامى حكومت كى قلمرو ميں شامل ہوئے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ معاويہ انيس سال تك خاطر جمعى كے ساتھ شام پر حكومت كرتا رہا_

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے زمام حكومت سنبھالى تو معاويہ نے آپعليه‌السلام كا فرمان قبول كرنے سے روگردانى كى اور عثمان كے خون كا بدلہ لينے كو بہانہ بناكر حضرت علىعليه‌السلام سے برسر پيكار ہوگيا اورجنگ صفين كيلئے راہ ہموار كى ، آخرى لمحات ميں جب كہ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كى فتح و پيروزى يقينى تھى ، اس نے عمرو عاص كى نيرنگى سے قرآن مجيد كو نيزوں كى نوك پر اٹھاليا اور حضرت علىعليه‌السلام كو حكميت قرآن كى جانب آنے كى دعوت دى اور اس طرح اس نے كوفہ كے سادہ لوح سپاہيوں كو تقدس نمائي سے اپنا گرويدہ كرليا _ يہاں تك كہ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو مجبور كيا كہ وہ جنگ كرنے سے باز رہيں _

قرآن مجيد كى ''حكميت'' كا فائدہ بھى معاويہ كو ہى ہوا (اس كى تفصيل بعد ميں بيان كى جائے گى)چنانچہ پہلى مرتبہ اس كا نام لوگوں كى زبانوں پر خليفہ كى حيثيت سے آنے لگا اور سنہ ۴۰ ھ ميں جب حضرت علىعليه‌السلام كو شہيد كرديا گيا تو خليفہ بن كر ہى مسند خلافت پر آيا اور اس نے انيس سال سے زيادہ مسلمانوں پر حكومت كى اور بالآخر ماہ رجب ميں اس كا انتقال ہوا_

معاويہ كى تخريب كاري

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف معاويہ نے جس قدر مخالفت و تخريب كارى كى اس كى طرح اندازى عمرو عاص كرتا تھا جيسے ہى يہ اطلاع ملى كہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كر رہے ہيں تو اس نے درج ذيل مضمون پر مشتمل خط زبير كو لكھا:

۱۶۱

''معاويہ كى جانب سے بندہ خدا زبير كى خدمت ميں عرض ہے كہ اے اميرالمومنين ميں نے شام كے لوگوں سے كہا كہ وہ آپ كے لئے ميرے ہاتھ پر بيعت كريں انہوں نے ميرے ہاتھ پر بيعت كرلى ہے وہ سب متفقہ طور پر آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں انہوں نے ہى مجھ پر دباؤ ڈالا كہ آپ كے حق ميں ، ميں ان سے بيعت لوں ، آپ كوفہ و بصرہ كى حفاظت كيجئے كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ دو شہر على بن ابى طالبعليه‌السلام كے ہاتھ لگ جائيں كيونكہ ان دو شہروں پر قبضہ ديگر سرزمينوں كو حاصل كرنے كے لئے خاص اہميت كا حامل ہے _ آپ كے بعد ميں نے طلحہ كے حق ميں بھى لوگوں سے بيعت لے لى ہے اب آپ يہ كہہ كر شورش و سركشى كريں كہ عثمان كے خون كا بدلہ لينا ہے اور لوگوں كو بھى اسى عنوان سے دعوت ديجئے اس مقصد كى برآورى كے لئے پورى متانت و سنجيدگى اور سرعت عمل سے كام ليجئے _(۱۸)

معاويہ نے اپنى جدو جہد كا آغاز اسى روش سے كيا اگر چہ كسى بھى تاريخ كى كتاب ميں يہ واقعہ نہيں ملتا كہ انہوں نے شام ميں زبير كى حق ميں بيعت لى ہو _

امام علىعليه‌السلام كا نمايندہ معاويہ كى جانب

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے معاويہ كيساتھ جنگ كرنے سے قبل اتمام حجت كى غرض سے ''جرير ابن عبداللہ'' كو خط ديكر روانہ كيا(۱۹) اور اس سے بيعت كا مطالبہ كرتے ہوئے طلحہ اور زبير كى عہد شكنى كا بھى ذكركيا ، خط كے آخر ميں آپعليه‌السلام نے مزيد تحرير فرمايا كہ اگر تمہارا خودكو بلاؤں ميں گرفتار كرنا مقصد ہے تم سے جنگ كروں گا تم ان آزاد شدہ لوگوں ميں سے ہو جن ميں نہ تو خلافت كى اہليت وشايستگى ہے او رنہ ہى امور خلافت ميں انكو مشير بنايا جاسكتا ہے _(۲۰) جب جرير نے خط معاويہ كو ديا وہ اس خط كو پڑھ كر حيرت زدہ رہ گيا اور جرير سے كہا كہ ميرے جواب كا انتظار كرو اس مسئلہ كا حل تلاش كرنے كى غرض سے عمرو عاص كو اپنے پاس بلايا اور كہا كہ اگر اس مشكل كا حل نكال لو تو مصر كى حكومت ميں تمہارے حوالے كردوں گا _ معاويہ نے ان كى تجويز پر

۱۶۲

شام كے سربرآوردہ لوگوں كو مسجد ميں جمع كيا اور ان كے سامنے مفصل تقرير كى اس نے اہل شام كى تحسين و قدر دانى كرتے ہوئے ان كے جذبات كو عثمان كے خون كا بدلہ لينے كيلئے مشتعل كيا اور حاضرين جلسہ كى اس بارے ميں رائے جاننا چاہي، اس بات پر حاضرين اٹھ كھڑے ہوئے اور انہوں نے عثمان كے خون كا بدلہ لينے كے لئے اپنى آمادگى و رضامندى كا اظہار كيا چنانچہ اس غرض كے تحت انہوں نے معاويہ كے ہاتھ پر بيعت كى اور يہ وعدہ كيا كہ جب تك دم ميں دم ہے ، وہ اس عہد پر قائم رہيں گے اور اپنا مال تك اس راہ ميں قربان كرديں گے _

جرير نے جب يہ منظر اپنى آنكھوں سے ديكھا تو وہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے پاس واپس آگئے اور تمام واقعات آپ كے سامنے بيان كئے اور كہا كہ شام كے لوگوں نے معاويہ كے ساتھ گريہ و زارى بھى كى اور آپ سے جنگ كرنے كيلئے سب متفق الرائے ہيں كيونكہ ان كا گمان ہے كہ حضرت على بن ابى طالبعليه‌السلام نے انہيں قتل كرايا ہے اور ان كے قاتلوں كو پناہ دى ہے_(۲۱)

سركشى كے اسباب

معاويہ نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف كيوں سركشى كى نيز اس كے پس پشت كيا اسباب و علل اور محركات كار فرماتھے ان كا مختصر طور پر ہى سہى مگر ذكر كردينابہت ضرورى ہے_

۱_ دشمنى اور كينہ

خاندان بنى اميہ كو جس كا سردار معاويہ تھا ، ہاشمى خاندان بالخصوص پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام سے سخت عداوت ودشمنى تھى ، اس دشمنى و كينہ توزى كا آغاز نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عہد رسالت اور اس كے بعد پيش آنے والے غزوات كے باعث ہوا_ عداوت اور دشمنى اس حدتك پہنچ چكى تھى كہ جہاں كہيں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عظمت كا ذكر ہوتا معاويہ اپنے دل ميں ملول ہوتا ذيل كى حكايت اس كى شاہد و گواہ ہے ''مطرف ابن مغيرہ '' سے منقول ہے كہ ميرے والد كى معاويہ كے پاس آمد

۱۶۳

ورفت تھى وہ جب بھى اس كے پاس سے واپس گھر آتے تو اسكى ذہانت و ذكاوت كى بہت تعريف كرتے ايك رات معاويہ كے پاس سے آئے تو ميں نے انہيں اتنا مضطرب وپراكندہ خاطر پايا كہ انہوں نے كھانا تك نہيں كھايا_ ميں نے اپنے والد سے دريافت كيا كہ وہ اس قدر كيوں مضطرب و پريشان خاطر ہيں ، انہوں نے جواب ديا كہ آج ميں انتہائي كافر اور خبيث ترين شخص كے پاس سے واپس آرہا ہوں _ ميں نے پوچھا آخر ہوا كيا؟ انہوں نے كہا كہ معاويہ كے پاس بيٹھا ہوا تھا جب خلوت ہوئي تو ميں نے كہا اے اميرالمومنين آپ كافى عمر رسيدہ ہوچكے ہيں اور عہد پيرى كى منزل تك پہنچ گئے يہاں اچھا ہوگا كہ آپ اب عدل وانصاف سے كام ليں اور اپنے بھائي بنى ہاشم سے صلہ رحمى كے ساتھ پيش آئيں كيونكہ انكے پاس ايسى كوئي چيز نہيں جس كے باعث آپ كو ان سے خطرہ ہو ، اس كے علاوہ اگر آپ حسن سلوك كريں گے تو لوگ آپ كو ياد ركھيں گے اور اس كا آپ كو اجر بھى ملے گا_

اس پر معاويہ نے كہا كہ ہرگز اپنے كام كى بقا كى خاطر كس اميد پر نيك كام كروں ''يتم'' كے بھائي ابوبكر كو خلافت ملى عدل وانصاف كو اپنا شيوہ بنايا اور جو كچھ كرنا تھا انہوں نے كيا ليكن جب ان كى وفات ہوگئي تو لوگ انہيں بھول گئے بس لوگوں كو اتنا ہى ياد رہ گيا ہے كہ ابوبكر كے بعد عدى كے بھائي عمر نے حكومت كى _ دس سال تك وہ خدمت خلق كرتے رہے مگر مرنے كے بعد انكا نام بھى صفحہ ہستى سے محو ہوگيا صرف چند ہى لوگوں كو يہ نام (عمر)ياد رہ گيا ہے ليكن اس كے برعكس ''ابى كبشہ'' كے فرزند محمد ابن عبداللہ'' كا نام ہر روز پانچ مرتبہ بآواز بلند ليا جاتا ہے اور''اشهد ان محمد رسول الله'' كہا جاتا ہے اس كے بعد ميرى كون سى كاركردگى اور ياد باقى رہ جائے گى خدا كى قسم جيسے ہى ميں خاك كے نيچے جاؤں گا ميرا نام بھى اس كے ساتھ دفن ہوجائے گا_(۲۲)

۲_ حكومت كى آرزو

معاويہ جانتا تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اسے اس كے منصب پر قائم رہنے نہيں دےں گے كيونكہ اسے اس بات كا علم تھا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے ظلم واستبداد كى ہميشہ مخالفت كى ہے اور حكومت اسى

۱۶۴

لئے قبول كى كہ اسے عدالت وانصاف سے چلائيں گے_

حضرت علىعليه‌السلام كے كردار سے وہ چونكہ بخوبى واقف تھا اس لئے اسے يہ بھى علم تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نہ صرف يہ كہ حكومت شام كى جانب سے چشم پوشى نہ كريں گے بلكہ وہاں جو مال انہوں نے عثمان كے دور خلافت ميں جمع كيا تھ اس سے لے كر بيت المال ميں داخل كرديں گے _ اس كے بعد وہ ايك معمولى فرد كى طرح اپنى باقى عمر كسى گوشہ تنہائي ميں گذارلے گا يہ بات اس كے لئے كسى بھى طرح قابل برداشت نہ تھى _

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ وہ جب تك شام پر حكم فرما رہا ، اس نے كبھى مركزى حكومت كے كارپردازو و نمايندے كى حيثيت سے عمل نہيں كيا بلكہ وہاں اپنے لئے ايك مستقل سلطنت كى بنياد قائم كردى تھى _ تاكہ اپنى مرضى كے مطابق وہ لوگوں پر حكمرانى كرسكے اور ايسى حكومت كى بنياد ركھ دى جو اس كے خاندان ميں آنے والى نسلوں كى ميراث بن گئي _

۳_ ناكثين كى شورش

ناكثين كى شورش نے عثمان كے خون كا بدلہ لينے كى تحريك كے لئے راستہ ہموار كرديا اگر ايسا نہ ہوتا تو معاويہ كے لئے مشكل تھا كہ اس اتحاد كو جو مسلمانوں كے درميان پيدا ہوگيا تھا اور جس كى سرزمين اسلام كے بيشتر علاقوں پر حكم و فرمانروائي تھى اس كو درہم برہم كرسكے اور مسلمانوں ميں ايك دوسرے كے خلاف مقابلے كى ہمت و جرا ت پيدا ہوسكے ليكن جنگ جمل كے جو ناخوشگوار نتائج رونما ہوئے انہوں نے اس سد عظيم كو گراديا اور معاويہ كے واسطے شورش و سركشى كا ميدان صاف كرديا_

۴_ گزشتہ خلفاء كى دليل ومثال

اس كے علاوہ معاويہ اپنے اس رويے كى يہ توجيہ پيش كرتا اور كہتا كہ گذشتہ خلفاء نے حضرت علىعليه‌السلام پر سبقت حاصل كرلى اور مسلمانوں نے بھى ان كى حكومت كو تسليم كرليا اس لئے ميں بھى انہى كے رويے كى پيروى كر رہا ہوں _

۱۶۵

چنانچہ جب اس نے محمد ابن ابى بكر كو خط لكھا تو اس ميں انہوں نے اسى امر كى جانب اشارہ كيا كہ تمہارے والد اورعمرآن اولين افراد ميں سے تھے جنہوں نے خلافت ميں علىعليه‌السلام كى مخالفت كى اور ان كا حق خود لے ليا وہ خود تو مسئلہ خلافت پر متمكن رہے مگر علىعليه‌السلام كو انہوں نے امر خلافت ميں شريك تك نہ كيا اگر وہ راہ راست پر چل رہے ہيں تو تمہارے والد وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے يہ راہ اختيار كى اگر ہم ظلم و ستم كے رستے پر گامزن ہيں تو اس راستے كو بھى تمہارے والد نے سب سے پہلے ہموار كيا تھا اس مقصد ميں ہم ان كے شريك كار اور انہى كى پيروى كر رہے ہيں اگر تمہارے والد اس راہ ميں ہم پر سبقت نہ لے جاتے تو ہم على بن ابى طالبعليه‌السلام كى ہرگز مخالفت نہ كرتے ليكن ہم نے ديكھا كہ تمہارے والد نے يہ كام انجام ديا ہے چنانچہ ہم ان كى راہ و روش پر گامزن ہيں _(۲۳)

۵_ پروپيگنڈہ

عثمان كے قتل كے بعد طلحہ و زبير نے جو شورش و سركشى كى راہ اختيار كى اس كے باعث معاويہ كو يہ موقع مل گيا كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف پروپيگنڈہ كرسكے اور اس ميں بھى جو چيز كار فرما تھى وہ عثمان كے خون كا بدلہ تھا_

معاويہ نے اہل شام كے جذبات بر افروختہ كرنے كے لئے عثمان كے خون آلود كرتے اور ان كى اہليہ نائلہ كى قطع شدہ انگلى كو جنہيں ''نعمان بن بشير'' اپنے ساتھ صوبہ شام سے لے آيا تھا ، مسجد كى ديوار پر نصب كرديا اور انہوں نے چند عمر رسيدہ لوگوں سے كہا كہ وہ ان چيزوں كے نزديك بيٹھ كر گريہ وزارى كريں ، اس پروپيگنڈہ نے لوگوں كے دلوں پر ايسا گہرا اثر كيا كہ جيسے ہى معاويہ كى ولولہ انگيز تقرير ختم ہوگئي تو لوگ اپنى جگہ سے اٹھ كھڑے ہوئے اور سب نے ايك آواز ہوكر كہا كہ ہم عثمان كے خون كا بدلہ ليں گے اورمعاويہ كے ہاتھ پر يہ كہہ كر بيعت كى كہ جب تك ہمارے دم ميں دم ہے تمہارا ساتھ ديں گے_

۱۶۶

مشہور و معروف اشخاص كواپنانا

معاويہ كا مقصد چونكہ زمام حكومت كو اپنے اختيار ميں لينا تھا سى لئے اسكى مسلسل يہ سعى وكوشش تھى كہ جس طرح بھى ممكن ہوسكے ان لوگوں كى توجہ كو اپنى طرف مائل كريں جو اس كام كے لئے مناسب ہوسكتے ہيں اور ان كے ساتھ يہ عہد وپيمان كريں كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف سرگرم عمل رہيں گے اس كام ميں جو لوگ اس كے ہم خيال رہے ان كے نام درج ذيل ہيں :

۱_ عمروعاص : معاويہ نے اس سے كہا كہ تم ميرے ہاتھ پر بيعت كرو اور ميرى مدد كرو اس پر عمرو عاص نے كہا كہ خدا كى قسم دين كى خاطر تو ميں يہ كام نہيں كرسكتا البتہ دنيوى مفاد كى خاطر ميں تيار ہوں معاويہ نے دريافت كيا كہ كيا مانگنا چاہتے ہو اس نے كہا كہ مصر كى حكومت معاويہ نے اس كے اس مطالبے كو منظور كرليا اور لكھ كر دستاويز بھى دى _(۲۴)

۲_ طلحہ و زبير جيسا كہ پہلے ذكر كيا جاچكاہے كہ معاويہ نے زبير كو خط لكھا تو اس ميں زبير كو اميرالمومنين كے لقب سے ياد كيا تھا اور ان كى نيز طلحہ كى توجہ كو اپنى جانب مائل كرنے كى غرض سے ايسا ظاہر كياكہ ميں نے تمہارے حق ميں شام كے لوگوں سے بيعت لى ہے اور طلحہ كو وليعہد مقرر كرديا ہے_

۳_ شرحبيل _ اس كا شمار شام كے بااثر و رسوخ افراد ميں ہوتا تھا معاويہ نے خاص حكمت عملى كے ذريعے اسے اپنى جانب مائل كيا اور وہ بھى اس كا ايسا گرويدہ ہوا كہ معاويہ كا دم بھرنے كے علاوہ عثمان كے خون كا مطالبہ شروع كرديا _ معاويہ نے ضمناً عمرو عاص كا ذكر كرتے ہوئے اسے خط ميں لكھا كہ علىعليه‌السلام كا جرير نامى نمايندہ ميرے پاس آيا ہے اور اس نے بہت اہم تجويز ميرے سامنے ركھى ہے يہ خط ملتے ہيں آپ فوراً ميرے پاس چلے آئيں _ معاويہ نے شرحبيل كے آنے سے قبل بعض ايسے لوگوں كو جو اس كے نزديك قابل اعتماد تھے اور اس كے ساتھ ہى وہ شرجيل كے قرابت دار بھى يہ ہدايت كہ جب شرحبيل مجھ سے ملاقات كرچكے تو وہ اس سے ملاقات كريں اور اسے اطلاع ديں كہ عثمان كا قتل حضرت علىعليه‌السلام كے ايماء پر ہى ہوا ہے _(۲۵)

۱۶۷

شرحبيل كو جيسے ہى معاويہ كا خط ملا تو عبدالرحمن ابن غنم اور عياض جيسے خير خواہ دوستوں كى مرضى و منشاء كے خلاف اس نے معاويہ كى دعوت كو قبول كرليا اگرچہ انہوں نے بہت منع كيا مگر اس كے باوجودوہ حمص سے دمشق كى جانب روانہ ہوگيا _(۲۶)

شرحبيل جيسے ہى شہر ميں داخل ہوا تو معاويہ كے ہواخواہ اس كے ساتھ بہت عزت واحترام سے پيش آئے اس كے بعد معاويہ نے جرير كے خط كا ذكر كيا اورمزيد يہ كہا كہ اگر علىعليه‌السلام نے عثمان كو قتل نہ كرايا ہو تا تو وہ بہترين انسان شمار كئے جاتے جب معاويہ كى گفتگو ختم ہوگئي تو شرحبيل نے كہا كہ مجھے اس مسئلے پر سوچنے كا موقع ديجئے تا كہ اس كے بارے ميں غور وفكر كرسكوں _

معاويہ سے رخصت ہوكر جب وہ واپس ہو اتو اس كى كچھ لوگوں سے ملاقات ہوگئي يہ لوگ تو پہلے سے ہى ان سے ملنے كے متمنى و مشتاق تھے _ شرحبيل نے عثمان كے قتل كے بارے ميں ان سے دريافت كيا تو سب نے يہى كہا كہ علىعليه‌السلام ہى عثمان كے قاتل ہيں _

يہ سننے كے بعد شرحبيل غضبناك حالت ميں معاويہ كے پاس واپس آيا اور كہا كہ لوگوں كا يہ خيال واضح ہے كہ عثمان كو علىعليه‌السلام نے قتل كيا ہے _ خدا كى قسم اگر تم نے ان كے ہاتھ پر بيعت كى تو ہم لوگ يا تو تمہيں شام سے باہر نكال ديں گے يا يہيں قتل كرڈاليں گے _ معاويہ نے محسوس كرليا كہ اس كا منصوبہ كارگر ثابت ہوا ہے كہا كہ ميں بھى شام كے افراد ميں سے ايك ہوں ميں نے آج تك تمہارى مخالفت نہيں كى ہے اور آيندہ بھى ايسا نہ كروں گا مگر تم كو يہ جاننا چاہئے كہ يہ كام شام كے عوام كى مرضى كے بغير صورت پذير نہيں ہوسكتا تم كو اس منطقے ميں شہرت و نام آورى حاصل ہے اب تم شام كے مختلف شہروں كا دورہ كرو اور لوگوں كو بتاؤ كہ عثمان كو علىعليه‌السلام نے قتل كياہے اور اب مسلمانوں پر واجب ہے كہ اس خون كا بدلہ لينے كى خاطر شورش وسركشى كريں _ شرحبيل نے ايسا ہى كيا چنانچہ چند زاہد و پارسا و گوشہ نشين افراد كے علاوہ شام كے عام لوگوں نے اس دعوت كو قبول كرليا _(۲۷)

۱۶۸

سوالات

۱_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے بصرہ پہنچنے كے بعد كيا اقدامات كئے ؟

۲_ جنگ جمل كے كيا نتائج واثرات رونما ہوئے ؟مختصر طور پر وضاحت كيجئے_

۳_ جنگ جمل كے بعد كوفہ كو مركز حكومت كيوں قرار ديا ؟

۴_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف معاويہ كا كيا موقف تھا ؟ معاويہ كے عدم تعاون كى ايك مثال پيش كيجئے _

۵_ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف معاويہ نے كيوں شورش و سركشى اختيار كى ؟ مختصر طور پر بيان كيجئے_

۶_ معاويہ نے صاحب اثر ورسوخ اور سياستمدار افراد كى توجہ كو اپنى طرف كيسے مبذول كيا اس كى ايك مثال پيش كيجئے ؟

۱۶۹

حوالہ جات

۱_ الجمل ۲۱۱

۲_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۵۵ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۳۸

۳_ مروج الذہب ج ۲ہ ۳۶۸

۴_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۴۱، كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۵۶

۵_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۱ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۴۹

۶_ جنگ جمل ميں جو جانى نقصان ہوا اس كے بارے ميں مورخين كے درميان اختلاف رائے ہے _ ابن اثير ج ۳/ ۲۵۵_ اور طبرى ج ۴/ ۵۳۹ نے مقتولين كى تعداد دس ہزار افراد لكھى ہے يعنى ہرطرف سے تقريباً پانچ ہزار افرادقتل ہوئے _ مسعودى ج ۲/ ۵۳۹نے مروج الذہب ميں مقتولين كى تعداد بيان كرتے ہوئے لكھا ہے كہ اصحاب جمل كے تيرہ ہزار افراد مارے گئے اور حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ ميں سے پانچ ہزار افراد شہيد ہوئے _ بلاذرى نے انساب الاشراف ج ۲/ ۲۶۵ ميں درج كيا ہے كہ صرف اہل بصرہ ميں سے بيس ہزار افراد قتل ہوئے مگر يعقوبى نے اپنى تاريخ كے ج۲ /۱۸۳ پر جانبين كے مقتولين كى تعداد تيس ہزار افراد سے زيادہ بيان كى ہے _

۷_ ملاحظہ ہو الملل و النحل شہرستانى ج ۱/ ۱۲۱ ، والتبصير ۴۲_

۸_ علامہ مفيد نے حضرت علىعليه‌السلام كے خطوط اپنى تاليف و تاليف الجمل ميں صفحات ۲۱۵ ، ۲۱۱ پر درج كئے ہيں _

۹_ رحبہ كوفہ كے محلوں ميں سے ايك محلے كا نام تھا (معجم البلدان ج ۳/ ۳۳)

۱۰_ وقعہ صفين ۳_

۱۱_ ملاحظہ ہو كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۶۰ و تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۴۴ ، ۵۴۳_

۱۲_ ''جعدہ'' اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بھانجے تھے آپ كى والدہ ام بانى دخترابى طالب تھيں (شرح ابن ابى الحديد ج ۱۰ /۷۷)_

۱۳_ وقعہ صفين / ۳_۱۰_

۱۴_ مروج الذہب ج ۲/ ۲۷۲ ، كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۷۶_

۱۷۰

۱۵_ وقعہ صفين ۱۲_۱۱_

۱۶_اذهبو انتم الطلقاء (اسى وجہ سے معاويہ كا شمار طلقاء ميں ہوتا ہے _

۱۷_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۳۱ _ تاريخ التواريخ ج ۱/ ۳۸_

۱۸_ بعض مورخين نے لكھا ہے كہ جرير كو انہى كى درخواست پر روانہ كيا گيا تھا اگر چہ مالك اشتر نے انہيں روانہ كئے جانے كى مخالفت كى تھى اور يہ كہا تھا كہ جرير كا دل سے جھكاؤ معاويہ كى جانب ہے ليكن اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا تھا كہ ان كا امتحان كئے ليتے ہيں پھر ديكھيں گے كہ وہ ہمارى طرف كيسے آتے ہيں _ ملاحظہ ہو مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۲ ، وقعہ صفين ۲۷_

۱۹_ وقعہ صفين /۱۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۳ ۷۵ ، كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۷۶ اور مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۲_

۲۰ _ مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۲ ، وقعہ صفين ۳۴ ، ۳۱_

۲۱_ شرح ابن ابى الحديد ج ۵/ ۱۲۹_

۲۲_ وقعہ صفين ۱۲۰_۱۱۹ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۳/ ۱۸۹_

۲۳_ تاريخ ابوالفداء ج ۱/ ۱۷۱ كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۲_ ۲۷۷_

۲۴_ وقعہ صفين ۳۲ شرح ابن ابى الحديد ج ۳/ ۷۸_

۲۵_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۴ _ وقعہ صفين ۴۰/ ۳۸_

۲۶_ وقعہ صفين ۴۴ يہاں اس بات كا ذكر بھى ضرورى ہے كہ شرحبيل اور جرير كے درميان سخت عداوت تھي_

۲۷_ ان كى قرابت دارى ميں يزيد بن اسد بُسر اور ارطاء اور عمر بن سفيان بھى شامل تھے_

۲۸_ وقعہ صفين ۴۵_

۲۹_ وقعہ صفين ۵۰_ ۴۶ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۷۱_

۱۷۱

نواں سبق

قاسطين (جنگ صفين)۱

حضرت علىعليه‌السلام كا معاويہ كے ساتھ مراسلت ميں محرك

حجاز كى جانب درازدستي

نمايندے كى روانگي

مہاجرين و انصار كے ساتھ مشورہ

عمومى فوج

كمانڈروں كاتقرر

صفين كى جانب روانگي

شام ميں بحرانى حالات كا اعلان

پہلا مقابلہ

پانى پر بندشي

سوالات

حوالہ جات

۱۷۲

حضرت علىعليه‌السلام كا معاويہ كے ساتھ مراسلت ميں محرك

حضرت علىعليه‌السلام جب تك كوفہ ميں قيام پذير رہے اور صفين كى جانب روانہ ہونے سے پہلے تك آپ نے معاويہ كى جانب خطوط بھيجنے اور اپنے نمايندگان كو روانہ كرنے ميں ہميشہ پيشقدمى كى تا كہ اسے اس راہ و روش سے روكا جا سكے جو اس نے اختيار كر ركھى تھى جس كى پہلى وجہ يہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام دل سے يہ نہيں چاھتے تھے كہ شام كے لوگوں سے جنگ كى جائے كيونكہ وہ بھى مسلمان تھے_

دوسرى وجہ يہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام چاھتے تھے كہ معاويہ ،شام كے عوام اور ان لوگوں كے لئے جو آئندہ آپ كے ہمركاب رہ كر معاويہ سے جنگ كريں گے اتمام حجت ہوجائے_

تيسرى وجہ يہ تھى كہ اگر امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام معاويہ كے خطوط كا جواب نہ ديتے اور اس كے عدم تعاون كے خلاف صريح و قطعى موقف اختيار نہ كرتے تو ممكن تھا كہ عوام اس رائے كے حامى ہوجاتے كہ معاويہ حق بجانب ہے_

ابن ابى الحديد نے ان بعض خطوط كونقل كرتے ہوئے جن كا مبادلہ حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ كے درميان ہوا لكھا ہے كہ اگر چہ زمانے ميں نيرنگياں تو بہت ہيں مگر اس سے زيادہ كيا عجيب بات ہو سكتى ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كے لئے نوبت يہاں تك آن پہنچى كہ ان كا اور معاويہ كا شمار ايك ہى صف كيا جانے لگا اور وہ ايك دوسرے كے ساتھ مراسلت كريں _(۱)

اس كے بعد ابن ابى الحديدنے لكھا ہے كہ اس مراسلت و مكاتبت كے پس پشت كون سا محرك كار فرما تھا وہ لكھتا ہے كہ '' شايد حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں اس كى وہ مصلحت آشكار و روشن تھى جو ہم پر

۱۷۳

پوشيدہ و پنہاں ہے '' اوپر جو وجوہ بيان كے گئے ہيں ان كے علاوہ خطوط لكھنے كى وجہ يہ بھى ہو سكتى ہے كہ :

۱-_ زور آور و تنومند سياسى افراد نے مختلف احاديث جعل كركے معاويہ كو اس بلند مقام پر پہنچا ديا اور اس كے لئے ايسے فضائل اختراع كئے كہ معاويہ امامعليه‌السلام كے مقابلہ ميں آگيا يہى نہيں بلكہ معاويہ خود كو افضل تصور كرتا اور اس پر فخر كرتا تھا يہ تحريك عمر كے عہد خلافت ميں شروع ہوئي(۲) اور بالاخرہ امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كے زمان خلافت ميں شدت اختيار كر گئي_

۲_ معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كو جو خطوط لكھے ہيں ان ميں اس نے حضرت علىعليه‌السلام سے بہت سى ناروا باتيں منسوب كى ہيں اور اپنى طرف ايسے افتخارات كى نسبت دى ہے جن كى كوئي اساس نہيں ہے اگر حضرت علىعليه‌السلام نے ان حقائق كوآشكار نہ كيا ہوتا اور اس ضمن ميں ضرورى باتيں نہ بتائي ہوتيں تو بہت سے حقيقى واقعات نظروں سے او جھل ہو كر رہ جاتے اور وہ افترا پردازياں جو آپعليه‌السلام كے ساتھ روا ركھى گئيں ان كا جواب نہ ديا گيا ہوتا تو سادہ لوح انسان ان كو حقيقت سمجھ كر قبول كر ليتے_

حضرت علىعليه‌السلام سے جو اتہامات منسوب كئے گئے ان ميں سے ايك يہ بھى تھا كہ آپعليه‌السلام كو اپنے سے پہلے كے خلفاء سے حسد و بغض تھا اور ان كے خلاف شورش كرنا چاہتے تھے اگر اس كا جواب نہ ديا گيا ہوتا تو عين ممكن تھا كہ سپاہ عراق ميں تفرقہ پيدا ہوجاتا چنانچہ يہى جہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام نے اس سازش كو روكنے كى غرض سے اپنے منطقى و مستدل بيان سے معاويہ كو جواب ديا(۳) _

حجاز كى جانب دراز دستي

حضرت علىعليه‌السلام كى يہى كوشش تھى كہ معاويہ كے ساتھ جو اختلافات ہے وہ مسالمت آميز طريقے سے حل ہوجائيں اور وہ قتل و خون ريزى كے بغير حق و انصاف كے سامنے سر تسليم خم كردے ليكن اس كے بر عكس معاويہ پورى سنجيدگى سے حالات كى برہمى و آشفتگى اور مسلمانوں ميں باہمى اختلاف و گروہ بندى كى كوشش كرتا رہا چنانچہ اس نے اپنے سياسى اقتدار كو تقويت دينے كے لئے

۱۷۴

سر برآوردہ افراد اور سرداران قبائل كو خط لكھنے شروع كئے تا كہ اس طريقے سے حجاز اس كى دسترس ميں آجائے_

اس سلسلے ميں اس نے عمروعاص سے مشورہ كيا اور كہا كہ اس اقدام كے ذريعے ہميں دو نتائج ميں سے ايك حاصل ہوگا يا تو ہم اپنے مقصد ميں كامياب ہوجائيں گے اور انھيں اپنا ہم خيال بناليں گے يا تو كم از كم ان كے درميان شك و ترديد تو پيدا كرديں گے تا كہ وہ علىعليه‌السلام كو مدد دينے سے باز رہيں _

ليكن عمروعاص كى رائے ميں يہ اقدام موثر نہ تھا كيونكہ اس كا خيال تھا كہ جن افراد كو خط لكھا جا رہا ہے وہ يا تو حضرت علىعليه‌السلام كے طرفدار ہيں ظاہر صورت ميں انھيں خط لكھنے سے ان كى نظر و بصيرت ميں اضافہ ہوگا اور وہ بيشتر علىعليه‌السلام كى حامى و طرفدار ہوجائيں گے يا پھر وہ لوگ ہى جو عثمان كے جانبدار ہيں انھيں خط لكھنے سے كوئي فائدہ نہيں كيونكہ وہ جو كچھ بھى ہيں خط سے ان پر مزيد كوئي اثر ہونے والا نہيں ،رہے وہ لوگ جو ہر طرف سے لاتعلق ہيں انھيں بھى تم سے زيادہ علىعليه‌السلام پر اعتماد ہے_

ليكن معاويہ اپنے فيصلے پر پورى سنجيدگى سے قائم رہا بالاخر دونوں نے مشتركہ طور پر اہل مدينہ كو لكھا اور اس ميں انہوں نے يہ اتہام لگايا كہ عثمان كے قاتل علىعليه‌السلام ہيں چنانچہ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے درخواست كى كہ عثمان كے قاتل ان كے حوالے كئے جائيں اور اس سلسلے ميں اہل مدينہ سے مدد چاہي_(۴)

مذكورہ بالا خط كے علاوہ انہوں نے سعد بن ابى وقاص ،عبداللہ بن عمر اور محمد بن مسلمہ جيسے سر برآوردہ لوگوں كو بھى خطوط لكھے كہ جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے كنارہ كشى اختيار كر لى تھي_

اس اقدام سے معاويہ كا مقصد و مدعا يہ تھا كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كو داخلى مشكلات و كشمكش سے دوچار كردے كيونكہ وہ جانتا تھا كہ اگر اپنے مقصد ميں كامياب ہوگيا تو اسے دو جانبہ فتح و كامرانى حاصل ہوگى اول تو يہ كہ وہ سربرآوردہ اشخاص كى حمايت حاصل كرلے گا اور دوسرى طرف اس كے اس اقدام سے مركزى حكومت كو كارى ضرب لگے گي_

۱۷۵

ليكن معاويہ كو جيسا كہ عمروعاص نے پيشين گوئي كى تھى كاميابى حاصل نہ ہوئي كيونكہ جن اشخاص كو خطوط لكھے گئے تھے انہوں نے منطقى و مدلل جواب كے ساتھ ان كى درخواست كو رد كرديا_(۵)

نمايندے كى روانگي

اس سے پہلے كہ جنگ و جدال كى نوبت آئے حضرت علىعليه‌السلام ہر اس طريقے كو بروئے كار لائے جس كے ذريعے اہل شام بيدار ہو سكيں اور معاويہ كو شورش و سركشى سے باز ركھا جاسكے اسى مقصد كے تحت انہوں نے ''خفاف بن عبداللہ '' كو معاويہ كے پاس بھيجا كيونكہ خفاف ميں شاعرانہ مزاح جاتا پايا تھا اور فطرتا بولنے والے واقع ہوئے تھے شام پہنچنے كے بعد انہوں نے اپنے چچا زاد بھائي '' حابس بن سعد'' كو جو قبيلہ طيى ّ كے سردار تھے اپنے ساتھ ليا اور دونوں مل كر معاويہ كى طرف روانہ ہوئے اور عثمان كے واقعہ قتل كى پورى تفصيل اس كے سامنے بيان كى اس كے بعد انہوں نے يہ بھى بتايا كہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے كس طرح متمنى و خواہش مند تھے ساتھ ہى انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ و كوفہ كى جانب روانگى كى مفصل كيفيت بيان كى اور مزيد كہا كہ اس وقت بھى بصرہ ان كى ہاتھ ميں ہے اور كوفہ ميں تمام طبقات كے لوگ جن ميں بچے، سن رسيدہ خواتين ، نئي دلہينں و غيرہ شامل ہيں پورے جوش و خروش سے آپ كا استقبال كرنے كے لئے شاداں و خندان آئے اور ميں جس وقت ان كے پاس روانہ ہوا تھا ان كے سامنے شام كى جانب آنے كے علاوہ كوئي مقصد نہ تھا(۶) _معاويہ نے جب يہ كيفيت سنى تو اس پر خوف طارى ہوگيا اور ان لوگوں كى موجودگى ميں جو ان كے گرد جمع تھے اسے اپنى شكست كا احساس ہوا ناچار اس نے حابس سے كہا كہ لگتا ہے كہ يہ شخص علىعليه‌السلام كا جاسوس ہے اسے اپنے پاس سے آگے چلتا كر كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ شام كے لوگوں كو گمراہ كردے _(۷)

۱۷۶

مہاجرين و انصار سے مشورہ

جب حضرت علىعليه‌السلام كو يہ يقين ہوگيا كہ اب يہ طوفان دبنے والا نہيں اور معاويہ اپنے ارادے سے بازنہ آئے گا تو ناچار انہوں نے فيصلہ كيا كہ مقابلے كيلئے اقدام كريں چنانچہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے طريق كا ر پر عمل كرتے ہوئے آپعليه‌السلام نے جنگ سے قبل اپنے مہاجرين اور انصار اصحاب سے مشورہ كيا حضرت علىعليه‌السلام كے پيروكاروں نے مختلف افكار و خيالات كا اظہار كيا جن ميں بيشتر افراد كى رائے يہى تھى كہ جس قدر جلد ہوسكے اقدام كيا جائے كچھ لوگوں نے كہا كہ جتنا جلدى ہوسكے اس بارے ميں فيصلہ كر ليا جائے مگر ان ميں ايسے لوگ بھى تھے جو چاھتے تھے كہ پہلے مسالمت آميز طريقہ اختيار كيا جائے اور اگر حريف اپنى عناد پسندى اور سركشى پر قائم رہا تو جنگ شروع كى جانى چاھيئے_(۸)

سب سے آخر ميں سہل بن حنيف اپنى جگہ سے اٹھے اور انہوں نے حاضرين كى نمايندگى كرتے ہوئے كہا كہ '' اے امير المومنين آپ جس كے ساتھ صلح و آشتى چاہيں گے ہم اس كے ساتھ صلح و آشتى كريں گے ہمارى رائے اور مرضى وہى ہے جو آپ كى ہے ہم سب دست راست كى مانند آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں _(۹)

اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے عام لوگوں كو آمادہ كرنے كى خاطر خطبہ ديا اور لوگوں ميں جہاد كرنے اور صفين كى جانب روانہ ہونے كيلئے جوش دلايا آپ نے فرمايا : سيرو الى اعداء اللہ سيروا الى اعداء السنن و القران سيروا الى بقية الاحزاب قتلة المہاجرين و الانصار(۱۰) چلو دشمنان خدا كى طرف ،چلو سنت و قرآن كے دشمنوں كى جانب ان لوگوں كى طرف جو باطل كے گروہ ميں سے بچ گئے ہيں جو مہاجرين و انصار كے قاتل ہيں _

اس اثناء '' بنى فزارہ '' قبيلے كا '' اربد'' نامى شخص اٹھا جو بظاہر معاويہ كا ہمنوا اور اس كا جاسوس تھا اس نے كہا كہ كيا آپ يہ چاھتے ہيں كہ ہميں اپنے شامى بھائيوں كے خلاف جنگ كرنے كے ليئے لے جائيں ؟ بالكل اسى طرح جيسے آپ برادران بصرہ كے خلاف ہميں لے گئے تھے خدا كى

۱۷۷

قسم ہم ہرگز ايسا كوئي اقدام نہيں كريں گے_

حضرت مالك اشتر نے جب يہ ديكھا كہ يہ شخص مسلمانوں كى صفوں كو درہم برہم كرنا چاہتا ہے تو انہوں نے بلند آواز ميں كہا_ ہے كوئي جو ہميں اس كے شر سے نجات دلائے؟ اربدى فزارى نے جيسے ہى مالك اشتر كى آواز سنى تو خوف كے مارے بھاگ نكلا لوگوں نے اس كا تعاقب كيا اور بالاخر بيچ بازار ميں اسے پكڑليا اور گھونسوں لاتوں ،اور شمشير كى نيام سے اسے اتنا مارا كہ اس كى جان ہى تن سے نكل گئي _(۱۱)

عمومى فوج

جب حضرت علىعليه‌السلام نے سركشوں اور شورش پسندوں كے خلاف جہاد كرنے كے لئے رائے عامہ كو ہموار كر ليا تو آپعليه‌السلام نے مختلف مناطق ميں اپنے كارپردازوں كو فوجى فرمانداروں اور عاملين محصول كو خطوط لكھے جن ميں انھيں ہدايت كى گئي كہ اپنے اپنے علاقوں ميں وہ لوگوں كو اس جہاد مقدس ميں شركت كى دعوت ديں اور جو لوگ متمنى ہيں انھيں مركز كى جانب روانہ كيا جائے_(۱۲)

لوگوں كے دلوں ميں جذبہ خلوص و قربانى كو تقويت دينے كى خاطر منبر مسجد پر تشريف لے گئے اور وہاں خطبہ صادر فرمايا_ خطبہ كے دوران بعض مقامات پر آپ نے يہ بھى فرمايا كہ معاويہ اور اس كے سپاہى باغى و سركش ہوگئے ہيں كيونكہ شيطان نے ان كى زمام اپنے دست اختيار ميں لے لى ہے اور پر فريب و عدوں سے انھيں گمراہ كرديا ہے تم خداوند تعالى كى داناترين مخلوق ہو اور اسنے جن چيزوں كو حلال و حرام قرار ديا ہے ان كے درميان تم خوب تميز كرسكتے ہو چنانچہ جو تم جانتے ہو اس پر اكتفاء كرو اور خدا نے جن چيزوں سے گريز كرنے كے لئے كہا تم ان سے اجتناب كرو_(۱۳)

حضرت علىعليه‌السلام كے خطبے كے بعد آپ كے دونوں فرزند دلبند حضرت امام حسن اور حضرت امام حسين (عليہما السلام) نے بھى اس مسئلے كى اہميت كو واضح و روشن كرنے كے غرض سے بصيرت افروز تقارير كيں _

۱۷۸

حضرت امام حسنعليه‌السلام كے بعض ارشادات عاليہ ميں آيا ہے كہ معاويہ اور ان كے سپاہى تيار ہوچكے ہيں خيال رہے تم ہرگز كنارہ كشى نہ كرنا كيونكہ كنارہ كشى اور احساس كمترى دلوں كو ايك دوسرے سے جدا كرديتے ہيں نوك نيزہ كے سامنے سينہ سپر ہونا عزت شجاعت اور پاكدامنى كى علامات ہيں _(۱۴)

امام مجتبىعليه‌السلام نے عام خطبہ صادر كرنے كے علاوہ ان لوگوں سے بھى شخصاً ملاقات كى جن كا ارادہ جنگ سے كنارہ كشى اختيار كرنے كا تھا چنانچہ انھيں سمجھا كر صف مجاہدين ميں لے آئے_(۱۵)

حضرت امام حسينعليه‌السلام نے تقرير كرنے كے علاوہ لوگوں كوراہ خدا ميں جہاد كرنے كى ترغيب دلائي اور انھيں بعض آداب فن حرب و جنگ بھى سكھائے اور سب كو اتحاد و يگانگى كى دعوت دي_(۱۶)

جب حضرت علىعليه‌السلام اور ان كے دونوں فرزند ارجمند كى تقارير اختتام پذير ہوئيں تو اكثر و بيشتر لوگ نبرد آزمائي كيلئے آمادہ ہوچكے تھے ليكن عبداللہ بن مسعود كے ساتھى عليحدہ رہے چنانچہ وہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كے پاس آئے اور كہنے لگے كہ ہم جنگ ميں آپ سے لا تعلق رہيں گے ليكن جب ہميں جداگانہ طور پر جگہ مل جائے گى تو قريب آكر آپ اور شام كے لشكر كو ديكھيں گے اور دونوں ميں سے جو بھى غير مشروع مقصد كى جانب جائے گا يا جس كا ظلم و ستم ہميں نظر آئے گا ہم اس كے خلاف جنگ كريں گے_

حضرت علىعليه‌السلام نے ان كے افكار و خيالات كى ستائشے كى اور فرمايا كہ دين ميں اسى كا نام فہم و فراست ہے اور يہى سنت سے آگاہى و واقفيت ہے_

عبداللہ كے دوسرے ساتھيوں نے جو چار سو افراد پر مشتمل تھے حضرت علىعليه‌السلام سے كہا كہ ہم آپ كى فضيلت و برترى سے بخوبى واقف ہيں اور يہ بھى جانتے ہيں كہ ہم سب كو دشمن سے نبرد آزما ہونے كى آرزو ہے مگر اس كے ساتھ ہى ہميں اس جنگ كے بارے ميں شك و تردد ہے ہمارى

۱۷۹

مرضى تو يہ ہے كہ آپ عليه‌السلام ہميں اسلامى مملكت كى سرحدوں پر بھيجديں تا كہ وہاں پہنچ كر ہم اسلام كا دفاع كرسكيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں ربيع بن خيثم كى فرماندارى ميں علاقہ رى كى سرحد پر بھيجديا_(۱۷)

قبيلہ '' باہلہ'' ميں بھى ايسا گروہ موجود تھا جس كا حضرت علىعليه‌السلام كے مكتب فكر كى جانب كوئي خاص ميلان نہ تھا چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام كے فرمان كے بموجب وہ جنگ سے كنارہ كش ہوگيا كيونكہ ايسے لوگوں كى جہاد ميں شركت جن كا كوئي مقصد و ارادہ نہ ہو اور عقيدہ بھى ان كا سُست ہو تو وہ نہ صرف محاذ حق كو تقويت نہيں پہنچاتے بلكہ بسا اوقات دوسرے سپاہيوں كا حوصلہ پست كرنے كا سبب ہوتے ہيں اور ايسى صورت ميں كہ وہ قيد كرلئے جائيں تو بہت سے فوجى راز دشمن تك پہنچاديتے ہيں يا خود دشمن ہى انھيں يہ موقع فراہم كرديتا ہے كہ وہ اس كے ليئے اپنے وطن ميں خدمات انجام ديں _

شايد ان دلائل كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں اپنے پاس بلايا اور ان كى جو مزدورى يا تنخواہ ہوسكتى تھى وہ ادا كرنے كے بعد انھيں حكم ديا كہ '' ديلم'' كى جانب مہاجرت كرجائيں _(۱۸)

كمانڈروں كا تقرر

حضرت علىعليه‌السلام نے تمام بنيادى كام انجام دينے كے بعد لشكر كى روانگى كا فيصلہ كيا چنانچہ آپ كى فرمايش كے مطابق '' حارث بن اعور'' نے كوفہ ميں اعلان كيا كہ تمام لشكر'' نُخَيلة''كى جانب روانہ ہوجائے اور شہر سے باہر خيمے بپا كرلے كوفہ كے حاكم شہر '' مالك بن حبيب'' كو اس كام پر مقرر كيا گيا كہ وہ سپاہ عسكر كے درميان ہم آہنگى پيدا كريں اور انھيں لشكرگاہ كى جانب روانہ كرنے ميں مدد كريں عقبہ بن عمرو انصارى حضرت علىعليه‌السلام كے جانشين كى حيثيت سے كوفہ ميں ہى مقيم رہے_

ان اقدامات كى تكميل كے بعد امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام اپنے لشكر كے ہمراہ لشكرگاہ كى جانب

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348