تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 11%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180066 / ڈاؤنلوڈ: 4271
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

روانہ ہوئے_

جب سپاہى جمع ہوگئے تو حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں سات دستوں ميں تقسيم كيا اور دستہ كا كمانڈر و سردار مقرر كيا_

۱_ قيس و عبدالقيس كے دستہ كا سد بن مسعود ثقفى كو_

۲_ تميم، ضبہ، قريش، وبات كنانہ اور اَسَد كے دستہ پر معقل بن قيس يربوعى كو_

۳_ ازد بجيلہ خثعم، انصار اور خزاعہ كے دستہ پر مخنف ابن سليم كو_

۴_ كندا، حضرت موت، قضاعہ اور مہرہ كے دستہ پر حجر بن عدى كو_

۵ _ مذحج و اشعرى قبائل كے دستوں پر زياد بن نَضر كو_

۶_ ہمدان اور حمير كے قبائل كے دستے پر سعد بن قيس ہمدانى كو_

۷_ طى كے قبائل دستہ پر عدى ابن حاتم كو(۱۹)

ابن عباس اور ''ابوالاسود دُئلى ''كو بصرہ ميں اپنا جانشين مقرر كيا چنانچہ اس شہر سے پانچ لشكروں پر مشتمل افواج اپنے اپنے فرمانداروں كى نگرانى ميں روانہ ہوئيں اور نُخيلة ميں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں پہنچ گئيں _(۲۰)

حضرت على (ع نے فرمانداروں كو مقرر اور دستوں كو منظم كرنے كے بعد زياد بن نَضر (دستہ مذحج اور اشعريوں كے فرماندار)اور شريح بن ہانى كو اپنے پاس بلايا اور ضرورى تذكرات و ہدايات كے بعد انھيں بارہ ہزار سپاہيوں كے ساتھ اگلى منزل كى جانب روانہ كيا اور حكم ديا كہ تمام واقعات كى اطلاعات اور خبريں آپعليه‌السلام كو پہنچائي جائيں _(۲۱)

صفين كى جانب روانگي

روانگى كے بعد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بھى بدھ كے دن بتاريخ ۵ شوال ۳۶ھ اپنے لشكر عظيم كے ہمراہ جس كى تعداد (قراول لشكر) كے ساتھ نوے ہزار سپاہيوں پر مشتمل تھى(۲۲) نُخيلہ سے

۱۸۱

صفين كى جانب روانہ ہوئے_

راستے ميں مختلف حادثات بھى پيش آئے جن ميں سے يہاں صرف دو واقعات كا ذكر كيا جاتا ہے_

۱_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام جس وقت شہر '' رقہ'' ميں داخل ہوئے تو آپ نے وہاں كے لوگوں سے فرمايا كہ دريا پر پل باندھيں تا كہ سپاہ آرام سے دريا پار كرسكے ليكن وہ لوگ چونكہ آپ كى حكومت كے مخالف تھے اسے لئے انہوں نے اس كام كو انجام دينے سے انكار كيا يہى نہيں بلكہ وہ جہاز جو وہاں اس وقت لنگر انداز تھے وہ انھيں بھى اپنے ساتھ لے گئے تا كہ لشكر اسلام كے ہاتھ نہ لگ جائيں اور ہ انھيں اپنے استعمال ميں لائيں يہ كيفيت ديكھ كر حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے عساكر كو حكم ديا كہ وہ پل مَنبج سے گذريں (جو لشكر گاہ سے نسبتاً دور تھا) اس اقدام كے بعد آپعليه‌السلام نے مالك اشتر كو وہيں قيام كرنے كا حكم ديا اور خود اس جانب روانہ ہوگئے_

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ اہل رقہ نے جو سلوك كيا اس سے مالك اشتر خوش تو نہ تھے چنانچہ انہوں نے وہاں كے لوگوں سے كہا كہ خدا كى قسم اگر تم نے پل نہ باندھا اور حضرت علىعليه‌السلام كو واپس نہ آنے ديا تو يں تم سب كو تہ و تيغ كردوں گا، تمہارے مال كو ضبط كرلوں گا اور زمين ويران كرڈالوں گا_

يہ سن كر وہ لوگ ايك دوسرے كا منھ تكنے لگے اور آپس ميں كہنے لگے كہ اشتر جو كہتے ہيں وہ كر گذرتے ہيں حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں يہاں اسى مقصد كے لئے رہنے كا حكم ديا ہے چنانچہ وہ فورا ہى پل باندھنے كيلئے تيار ہوگئے اور تھوڑے عرصے ميں ہى انہوں نے دريا پر پل باندھ ديا اور لشكر اسلام اس پر سے گذر گيا(۲۳) جب لشكر اسلام فرات كے ساحل پر اتر گيا بض افراد نے يہ تجويز پيش كى كہ اتمام حجت كے طور پر معاويہ كو خط لكھا جائے اور اس كو يہ دعوت دى جائے كہ تم سے جو لغزشيں سرزد ہوئي ہيں وہ ان سے اَب باز رہے حضرت علىعليه‌السلام نے ان كى اس تجويز كو قبول كرليا اور كتنى ہى مرتبہ نصيحت آميز خط لكھئے_

۱۸۲

حضرت على (ع)نے مذكورہ خط ميں اس امر كى جانب بھى اشارہ فرمايا كہ (اے معاويہ) مقام خلافت كے لئے وہ شخص سب سے زيادہ سزاوار ہے جو دوسروں كے مقابل رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سب سے زيادہ نزديك ہو وہ كتاب خدا اور احكام اسلام كو دوسرں كى نسبت زيادہ بہتر سمجھتا ہو دين اسلام قبول كرنے ميں وہ سب پر سبقت لے گيا ہو اور جس نے سب سے زيادہ اور بہتر طريقے پر جہاد كيا ہو ميں تمھيں كتاب خدا و سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب آنے اور امت مسلمہ كى خون ريزى سے اجتناب كى دعوت ديتا ہوں _

حضرت علىعليه‌السلام كے خط كى جواب ميں معاويہ نے صرف ايك ہى شعر لكھا اور اس ميں اس نے تہديد آميز رويہ اختيار كيا شعر كا مضمون يہ ہے كہ ميرے اور تمہارے درميان جنگ اور شمشير كے علاوہ كوئي اور چيز فيصلہ نہيں كر سكتي_(۲۴)

شام ميں بحرانى حالات كا اعلان

معاويہ كو جب يہ اطلاع ملى كہ لشكر عراق كى روانگى شام كى جانب ہے تو وہ سمجھ گيا كہ اب كام نامہ و پيام سے گذر كر سنجيدہ صورت اختيار كر گيا ہے چنانچہ اس نے حكم ديا كہ لوگ شہر كى مسجد ميں جمع ہوں تقريبا ستر ہزار لوگ جمع ہوئے عثمان كے خون آلود پيراھن كو ہاتھ ميں ليا معاويہ مسجد كے منبر پر گيا اور كہا: اے شام والو تم نے اس سے پہلے علىعليه‌السلام كے معاملے ميں مجھ پر اعتبار نہيں كيا ليكن اب سب پر يہ بات روشن ہوگئي ہے كہ عثمان كا قتل علىعليه‌السلام كے علاوہ كسى نے نہيں كيا انہوں نے ہى عثمان كے قتل كا حكم صادر كيا اور ان كے قاتلوں كو پناہ دى اور آج انہى افراد پر مشتمل فوج انہوں نے تشكيل دى ہے اور تمہيں نيست و نابود كرنے كے لئے اب ان كا رخ شام كى جانب ہے_(۲۵)

معاويہ كى جب ولولہ انگيز تقرير ختم ہوئي تو لوگ اس كے گرد ہر طرف سے جمع ہوگئے اور اس كے قول و بيان كى تائيد كى اس نے بھى اس موقع سے فائدہ اٹھانے كى غرض سے لوگوں كے گروہ

۱۸۳

بنائے اور انھيں صفين كى جانب روانہ كيا اور ساتھ ہى اس نے شام ميں غير معمولى حالات كا اعلان كرديا اور وہاں كے عوام كو حكم ديا كہ محاذ جنگ پر روانہ ہوں _

معاويہ نے اپنى فوج كو حكم ديا كہ جب وہ شہر سے ايك منزل كے فاصلہ پر پہنچ جائے تو وہيں ٹھہر جائے اور اسے سلامى دے يہاں اس نے ميمنہ، ميسرہ اور مقدم لشكر كے فرماندار مقرر كيئے_

اس كے بعد لشكر وہاں سے روانہ ہوا اور اس سے قبل كہ حضرت علىعليه‌السلام كے دستے صفين پہنچيں(۲۶) وہ وہاں پہنچ گيا اور ايسے وسيع ميدان ميں جہاں سے دريائے فرات كا پانى آسانى سے دستياب ہوسكتا تھا اس نے اپنے خيمے لگائے (يہاں ساحل كے نزديك ديگر مقامات بلندى پر واقع ہيں اسى لئے پانى تك رسائي آسانى سے نہيں ہوسكتي) لشكر شام كى سپاہ كى تعداد تقريبا پچاسى ہزار(۸۵) تھى(۲۷) معاويہ نے قراول لشكر كے فرماندار ابوالاعور سلمى كو چاليس ہزار سواروں كے ساتھ گھاٹ پر مقرر كرديا_(۲۸)

پہلا مقابلہ

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے قراول لشكر كو جب يہ معلوم ہوا كہ معاويہ عظيم فوج كى ساتھ صفين كى جانب روانہ ہوگيا ہے تو انہوں نے اس خوف سے كہ كہيں دشمن كے نرغے ميں نہ گھر جائيں انہوں نے ''ہيت''نامى دريا كو پيچھے چھوڑديا اور حضرت علىعليه‌السلام سے جاملے حضرت علىعليه‌السلام كو جب قراول لشكر كے واپس آنے كى اطلاع ملى اور اس كى وجہ معلوم ہوئي تو آپعليه‌السلام نے فرماندار لشكر كى رائے و تدبير كو قدر و منزلت كى نظر(۲۹) سے ديكھا _

اس كے بعد آپ نے اسى لشكر كو دوبارہ پيش پيش چلنے كيلئے روانہ كيا چنانچہ جب ان كا معاويہ كے قراول دستے سے سامنا ہوا تو انہوں نے اس كى اطلاع حضرت علىعليه‌السلام كو دى اور دريافت كيا كہ اب انھيں كيا اقدام كرنا چاہيے؟ حضرت علىعليه‌السلام نے حضرت مالك اشتر كو ايك دستے كے ہمراہ ان كى مدد كے لئے روانہ كيا اور يہ حكم ديا كہ جب غنيم كا لشكر سامنے آئے تو تم ميرى جانب سے سردار لشكر

۱۸۴

كے فرائض انجام دينا مگر يہ ياد رہے كہ حملے كا آغاز تمہارى جانب سے نہ ہو جب دشمن بالكل ہى مقابل آجائے تو اتمام حجت كى طور پر تم اس سے گفتگو كرنا اور اس كى بات غور سے سننا تا كہ آغاز جنگ كا موجب كينہ عداوت نہ ہو اپنى سپاہ كے ساتھ زياد كو ميمنہ پر اور شريح كو ميسرہ پر مقرر كرنا تم دشمن كے اس قدر نزديك بھى نہ ہونا كہ وہ خيال كرے كہ تم جنگ كے شعلوں كو بر افروختہ كرنا چاھتے ہو اور اس سے اس قدر دور بھى نہ رہنا كہ وہ يہ سمجھنے لگے كہ تم پر اس كا خوف طارى ہے حضرت علىعليه‌السلام نے زياد اور شريح كو خطوط بھى لكھے جن ميں آپ نے يہ حكم صادر فرمايا تھا كہ وہ مالك اشتر كى اطاعت كريں(۳۰) مالك انتہائي تندى و تيزى كے ساتھ روانہ ہوكر قراول دستے تك پہنچ گئے جب رات كى تاريكى سب طرف پھيل گئي تو معاويہ كے فرماندار لشكر ابوالاعور نے مالك اشتر پر شبخون مارا مگر سپاہ اسلام نے اس كى پورى پايمردى سے مقابلہ كيا اور ناچاراُسے پسپا ہونا پڑا_

اگلے روز '' ہاشم بن عتبہ'' كا ابوالاعور سے مقابلہ ہوگيا پہلے تو دونوں فرمانداروں كے درميان پيغامات كا سلسلہ جارى ہوا دونوں كے درميان رنجش و تكرار بھى ہوئي مگر جيسے ہى دن ختم ہوا يہ پيام رسانى اور باہمى درگيرى بھى ختم ہوگئي اگلے روز حضرت علىعليه‌السلام بھى تشريف لے آئے اور معاويہ كے نزديك ہى آپعليه‌السلام نے قيام فرمايا_(۳۱)

پانى پر بندش

حضرت علىعليه‌السلام نے ہر ممكن كوشش كى كہ كوئي ايسى مناسب جگہ مل جائے جہاں انھيں دريائے فرات تك رسائي ممكن ہوسكے مگر آپعليه‌السلام كو اس مقصد ميں كاميابى نہيں ہوئي وہاں تك پہنچنے كا ايك ہى راستہ تھا جسے ابوالاعور نے چاليس ہزار سپاہى تعينات كركے بند كرديا تھا اور وہ سپاہ اسلام كو اس جانب بڑھنے ہى نہيں ديتا تھا_

سپاہ اسلام نے كچھ عرصہ تك اس كو برداشت كيا مگر جب پياس كى شدت كا ان پر غلبہ ہوا تو انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے دريافت كيا كہ انھيں كيا كرنا چاہيے حضرت علىعليه‌السلام نے صعصہ بن صوحان كو

۱۸۵

معاويہ كے پاس اپنے پيغام كے ساتھ روانہ كيا جس ميں آپ نے فرمايا كہ اب جس راہ پر ميں نے قدم ركھ ديا ہے مجھے ہرگز يہ پسند نہيں كہ باہمى مذاكرہ اور اتمام حجت كے بغير جنگ كروں مگر تمہارے قراول لشكر نے ميرے قراول دستے پر حملہ كركے جنگ كا آغاز كرديا ہے اس نے دريا كے راستے كو بند كركے جنگ و جدال ميں پيشقدمى كى ہے اب تم اپنى سپاہ كو حكم دو كہ وہ دريائے فرات كے راستے سے ايك طرف ہوجائے تا كہ ہم جس مقصد كے لئے يہاں آئے ہيں اس پر گفتگو كى جاسكے مگر اس كے ساتھ ہى اگر تم اس بات كے حامى ہو كہ اصل مقصد كو بر طرف كر كے پانى پر جنگ كرو تا كہ اس تك رسائي ہوجائے تو مجھے اس پر بھى عذر نہيں _

معاويہ كو جب يہ پيغام ملا تو اس نے اس كے بارے ميں اپنے ساتھيوں سے مشورہ كيا ان ميں سے بعض نے كہا كہ جس طرح انہوں نے عثمان پر پانى بند كرديا تھا تم بھى بند كرو تا كہ وہ لوگ بھى پياس سے ہلاك ہوجائيں ليكن عمروعاص نے اس اقدام كو لا حاصل سمجھا اور كہا كہ يہ ہو ہى نہيں سكتا كہ تم تو سير ہو كر پانى پيو اور علىعليه‌السلام پيا سے رہ جائيں تم جانتے ہو كہ علىعليه‌السلام كتنے دلاور اور بہادر انسان ہيں عراق و حجاز كے لوگ بھى انہى كے ساتھ ہيں جس روز ہم (حضرت فاطمہعليه‌السلام كے گھر كى تلاشى لے رہے تھے تو ہم دونوں نے ہى علىعليه‌السلام كى زبان سے يہ سنا تھا كہ اگر ميرے ساتھ چاليس آدمى ہى ہوتے انقلاب برپا كرديتا_(۳۲)

مگر اس كے ساتھ ہى معاويہ نے واضح طور پر حضرت علىعليه‌السلام كے نمائندے كو جواب نہيں ديا بس اتنا كہا كہ ميرا فيصلہ جلدى ہى آپ تك پہنچ جائے گا_

''صعصہ'' اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كے پاس واپس آگئے اور پورے واقعے كى آپعليه‌السلام كو اطلاع دي_

جب صعصہ واپس چلے گئے تو معاويہ نے اپنى سپاہ مزيد ايك دستہ ابوالاعور كى مدد كے لئے روانہ كيا اور يہ تاكيد كہ كہ علىعليه‌السلام پر حسب سابق پانى بند ركھا جائے جب اس واقعہ كى اطلاع حضرت علىعليه‌السلام كو ہوئي تو آپعليه‌السلام نے جنگ كرنے كے لئے حكم ديا_

۱۸۶

اشعث بن قيس نے يہ تجويز پيش كى كہ اس مقصد كى بر آورى كا موقع انہيں ديا جائے جب حضرت علىعليه‌السلام نے اس كى اس تجويز سے اتفاق كيا تو ايك فوجى دستہ فرات كى جانب روانہ كيا گيا دونوں لشكروں كے درميان سخت مقابلہ ہوا دونوں جانب سے فرمانداران لشكر نے تازہ دم سپاہى روانہ كئے اور آتش جنگ ہر لحظہ تيز تر ہوتى چلى گئي حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كو فتح ہوئي اس نے فرات كو اپنے قبضہ ميں لے ليا_

اس پر بعض فاتح سپاہيوں نے يہ تجويز پيش كى كہ ہم بھى دشمن كے ساتھ وہى سلوك كريں گے جو اس نے ہمارے ساتھ روا ركھا تھا مگر جب حضرت علىعليه‌السلام تك يہ بات پہنچى تو آپعليه‌السلام نے حكم ديا كہ جس قدر تمہيں ضرورت ہے وہاں سے پانى بھرلاؤ اور معاويہ كے سپاھيوں كو بھى پانى بھرنے دو كيونكہ خداوند تعالى نے تمہيں فتح و كامرانى عطا كى ہے اور ان كے ظلم و تجاوز كو تم سے دور كرديا ہے_(۳۳)

۱۸۷

سوالات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام كى رائے ميں معايہ بے عقل، بے پروا اور جاہ طلب انسان تھا مگر اس كے باوجود آپ نے كيوں خطوط لكھے اور اس كے خطوط كے كيوں جواب ديئے؟

۲_ معاويہ نے شام كے لوگوں كے علاوہ اسلامى حكومت كے كن علاقوں سے لوگوں كو اپنى جانب متوجہ كرنا چاہا اور اس كے لئے اس نے كيا اقدامات كئے؟

۳_حضرت علىعليه‌السلام نے طائفہ باہلہ كے افراد كو اپنے لشكر سے عليحدہ كركے انھيں ديلم كى جانب كيوں روانہ كرديا؟

۴_ جب معاويہ كو علم ہوا كہ حضرت علىعليه‌السلام كا لشكر صفين كى جانب روانہ ہے تو اس نے كيا اقدام كيا؟

۵_ معاويہ جب صفين پہنچ گيا تو اس نے سپاہ علىعليه‌السلام كى شكست كے لئے كيا اقدامات كئے؟ اس كا مختصر حال بيان كيجئے اور اس اقدام پر حضرت علىعليه‌السلام كا كيارد عمل رہا اس كى كيفيت بھى لكھيئے؟

۱۸۸

حوالہ جات

۱_ ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغہ جلد ۶۱/۱۳۶' اس كے علاوہ خود اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام انہى اقوال ميں فرماتے ہيں اس سے زيادہ ميرے لئے اور كيا باعث تردد ہوگا كہ ميرا موازنہ ان لوگوں سے كيا جارہا ہے در حاليكہ ميں عثمان' طلحہ ' زبير ' سعد اور عبدالرحمن كے ہم پلہ نہيں شرح ابن ابى الحديد ج ۱/۱۸۴الدہر انزلنى حتى قيل معاوية و على (زمانے نے مجھے اس قدر گرا ديا ہے كہ ميرا اور معاويہ كا نام ساتھ ليا جاتا ہے)

۲_ عمر ابن خطاب نے معاويہ كو '' كسرائے عرب'' كا لقب ديا تھا اور شورائے خلافت كو تنبيہ كرتے ہوئے فرمايا تھا كہ خبردار اگر تم ايك دوسرے كے ساتھ اختلاف كروگے تو معاويہ شام سے اٹھے گا اور تمہيں مغلوب كر لے گا_

۳_ بطور مثال حضرت علىعليه‌السلام پر حسد كا اتہام لگايا گيا اس كا جواب ديتے ہوئے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے لكھا تھا بالفرض اس الزام ميں اگر كوئي صداقت ہے تو ايسا كوئي جرم نہيں جو تم پر بھى عايد ہوا اور ميں اس كے لئے عذر خواہى كروں بقول شاعر اگر چہ ننگ ہے مگر اس كى گرد تمہارے دامن كو نہ پكڑے گى (نہج البلاغہ مكتوب ۲۸) معاويہ كے خطوط اور حضرت علىعليه‌السلام كے جوابات كے لئے بيشتر اطلاع كے لئے ملاحظہ ہو شرح ابن ابين الحديد ج ۱۵/۱۸۴

۴_ وقعہ صفين ۶۳ ، ۶۲' شرح ابن ابى الحديد ۳/۱۰۹

۵_ ان خطوط كے جوابات كا مطالعہ كرنے كے لئے ملاحظہ ہوكتا ب'' وقعة صفين '' صفات ۶۳' ۷۱' ۷۲' ۷۵' اور ۷۶،

۶_ وقعہ صفين /۶۵/۶۴

۷_ وقعہ صفين ۶۸

۸_ وقعہ صفين ۹۲

۹_ وقعہ صفين ۹۳

۰_ وقعہ صفين ۹۴

۱۱_ وقعہ صفين ۹۴' چونكہ اس كے قاتلين كى تشخيص نہ كى جاسكى اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام نے اس كا خون بہا بيت المال سے ادا كيا_

۱۸۹

۱۲_ ان خطوط كے متون كا مطالعہ كرنے كے لئے كتاب وقعہ صفين كے صفحات ۱۰۸،۱۰۴ملاحظہ ہو_

۱۳_ وقعہ صفين ۱۱۳

۱۴_ وقعہ صفين ۱۱۳

۱۵_ وقعہ صفين ۷_۶

۱۶_ وقعہ صفين ۱۱۶

۱۷_ وقہ صفين ۱۱۵

۱۸_ وقعہ صفين ۱۱۶

۱۹_ وقعہ صفين ۱۲۱

۲۰_ وقعہ صفين ۱۱۷

۲۱_ وقعہ صفين ۱۲۲، ۱۲۱

۲۲_ مروج الذہب ج ۲/۳۷۵ ' سپاہ كى تعداد ايك لاكھ اور ايك لاكھ پچاس ہزار بھى بتائي گئي ہے تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو وقعہ صفين ۱۵۶' اور اعيان الشيعہ ج ۱/۴۷۸ (دس جلدي)

۲۳_ رقہ ، فرات كے كنار ے پرواقع جزيرہ كا ايك شہر ہے اس كا حرّان تك فاصلہ تين دن كا ہے (معجم البلدان ج۳)

۲۳_ وقعہ صفين ۱۵۲، ۱۵۱'يعقوبى ج ۲/۱۸۷، كامل ابن اثير ج ۳/۲۸۱

۲۵_ وقعہ صفين ۱۵۱،۱۴۹' ليس بينى و بين قيس عتاب غير طعن الكلى و ضرب الرقاب

۲۶_ وقعہ صفين ۱۲۷

۲۷_ صفين رومى عہد حكومت كے زمانے كا ايك ويران قريہ تھا اس كے اور فرات كے درميان ايك تير كى دورى كا فاصلہ تھا صفين كے سامنے ساحل كے نزديك دو فرسخ كے رقبے ميں بانسوں كا گھنا جنگل تھا جس كے درميان پختہ راستہ ساحل فرات تك بنا ہوا تھا اور اسى كے ذريعے پانى وہاں سے لايا جاتا تھا (اخبار الطوال /۱۶۷)

۲۸و۲۹_ مروج الذہب ج ۱/۳۷۵' جس طرح حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں سپاہ كى تعداد ميں اختلاف تھامعاويہ كے لشكر كے بارے ميں مورخين متفق الرائے نہيں ہيں _

۱۹۰

۳۰_ كامل ابن اثير ج/ ۲۸۲ ' وقعہ صفين ۱۵۲

۳۱ _ كامل ابن اثير ج ۳/۲۸۲' وقعہ صفين ۱۵۲

۳۲و۳۳_ وقعہ صفين ۱۵۵_ ۱۵۴

۳۴_ وقعہ صفين ۱۶۳

۳۵_ كامل ابن اثير ۳/۲۸۵_ ۲۸۲' وقعہ صفين /۱۶۷و ۱۶۰' مروج الذہب ج۲/۳۷۵' تاريخ يعقوبى ج۲/۱۸۷

۱۹۱

دسواں سبق

قاسطين (جنگ صفين)۲

نمايندگان كى روانگي

دوبارہ وفود كى روانگي

معاويہ كے نمائندے

دغہ بازى كمزور حربہ

فيصلہ كن جنگ

عام جنگ

قرآن كى طرف دعوت

معاويہ كہاں ہے؟

حضرت علىعليه‌السلام ميدان كارزار ميں

دوستوں كى حمايت و مدد

سوالات

حوالہ جات

۱۹۲

نمائندگان كى روانگي

جب اس راستے پر قبض ہوگيا جو لب دريا تك جاتا تھا تو حضرت علىعليه‌السلام نے دو روز تك توقف فرمايا اس كے بعد آپعليه‌السلام نے اپنى سپاہ كے سرداروں ميں سے بشير بن عمرو ، سعيد بن قيس اور شبث بن ربعى كو معاويہ كے پاس بھيجا_ اور فرمايا كہ تم ان كے پاس جاؤں اور انہيں اطاعت خدا ، ميرے ہاتھ پر بيعت نيز جماعت كى طرف آنے كى دعوت دو_(۱)

حضرت على (ع كے نمائندے ماہ ذى الحجہ كى پہلى تاريخ كو معاويہ كے پاس پہنچے اور اس كے ساتھ مذاكرات شروع كئے سب سے پہلے بشير نے كہا كہ :اے معاويہ دنيا ختم ہوا چاہتى ہے اور آخرت تم پر آشكار ہونے لگى ہے_ خداوند تعالى تجھے تيرے اعمال كى جزاء دے_ اب تو امت كے درميان تقرفہ اندازى اور خون ريزى سے باز رہو معاويہ نے ان كى گفتگو كو درميان ميں ہى قطع كرديا اور كہا كہ : يہى مشورہ تم نے اپنے آقا كو كيوں نہيں ديا؟ بشير نے جواب ديا كہ وہ تمہارے جيسے نہيں ہيں وہ دين ، فضيلت ، اسلام ميں سابقہ زندگى اور رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ قرابت دارى كے اعتبار سے اور اس امر و قصد كيلئے بہترين اور اہل ترين فرد ہيں _

اس كہ بعد شبث نے گفتگو شروع كى معاويہ نے جب اس كى مدلل گفتگو سنى تو وہ حيران رہ گيا اور جب كوئي جواب بن نہ پڑا تو طيش ميں اس كى زبان سے كچھ ناشايستہ الفاظ نكل گئے _ اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے نمائندوں سے كہا كہ يہاں سے اٹھو اور چلے جاؤ_ ميرے اور تمہارے درميان فيصلہ اب تلوار ہى كرے گي_ اس پر شبث نے كہا كہ تم ہميں تلوار سے ڈرا رہے ہو خدا كى قسم ہم جلدى ہى تمہيں گرداب بلا ميں گرفتار ديكھيں گے_ يہ كہہ كر يہ نمائندے وہاں سے اٹھ گئے اور حضرت علىعليه‌السلام كے پاس چلے آئے(۲) _

۱۹۳

اس كے بعد حضرت على عليه‌السلام نے اپنى سپاہ كو حكم ديا كہ وہ چند دستوں ميں تقسيم ہوجائے اور با رى بارى اپنے ان حريفوں اور ہم پلہ قبائل كے ساتھ جو معاويہ كى سپاہ ميں ہيں نبرد آزما ہوں اور اس طرح طرفين نے ماہ ذى الحجہ كو جنگ و نبرد ميں گذارا ديا_(۳)

دوبارہ وفود كى روانگي

ماہ محرم كى آمد جنگ و جدال كو روكنے كا ايك عمدہ بہانہ تھا _ اور فريقين ميں اس امر پر معاہدہ ہوگيا كہ ماہ محرم كے آخر تك جنگ نہ كى جائے_ حضرت علىعليه‌السلام نے اس وقت كو صلح پسندانہ اقدامات كے لئے بہترين موقع جانا_ چنانچہ آپعليه‌السلام نے اس مقصد كے تحت ايك وفد جو عدى بن حاتم ، يزيد بن قيس ، شبث بن ربعى اور زياد بن خَصَفَہ پر مشتمل تھا معاويہ كے پاس بھيجا_

ہر نمائندے نے جو لازم سمجھا وہ كہا_ ليكن معاويہ كى منطق ہميشہ كى طرح اب بھى وہى تھى اس نے پہلے كى طرح اب بھى يہى كہا كہ : ميں جنگ سے دست بردار نہيں ہوسكتا ميرے اور علىعليه‌السلام كے درميان صرف تلوار ہى فيصلہ كر سكتى ہے_ اس ضمن ميں اس نے مزيد كہا كہ : تم ہميں كيوں اس جماعت كى اطاعت و فرمانبردارى كى دعوت دے رہے ہو_ خلافت كے اصل حقدار ہم ہيں نہ كہ تمہارا پيشوا كيونكہ تمہارے پيشوا نے ہمارے خليفہ كو قتل كيا ہے_ ہمارى منظم جماعت كو منتشر كرديا ہے_ اس گفتگو كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كے نمائندے كوئي نتيجہ حاصل كئے بغير واپس آگئے_(۴)

معاويہ كے نمائندے

معاويہ نے بھى ايك وفد جو حبيب بن مسلمہ ، شرحبيل اور معن بن يزيد پر مشتمل تھا حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں روانہ كيا _ انہوں نے گفتگو كا آغار عثمان كے قتل سے كيا اور كہا كہ : اگر تم صادق ہو اور تم نے عثمان كو قتل نہيں كيا تو ان كے قاتلوں كو ہمارے حوالے كرو اس كے بعد خلافت سے دست

۱۹۴

بردار ہوجاؤ اور مسئلہ خلافت كو رائے عامہ پر چھوڑ دو تا كہ لوگ باہمى مشورے اور اتفاق رائے سے جسے چاہيں اپنا خليفہ منتخب كريں _

حضرت علىعليه‌السلام نے اس سے سخت برتاؤ كے ضمن ميں شائستگى سے مذكورہ مسائل كى ترديد كى اور قتل عثمان، اپنى بيعت اور بنى اميہ خصوصا معاويہ كى پہلى زندگى اور حق سے ان كى عداوت كو بيان فرمايا_ معاويہ كے نمائندوں كے پاس چونكہ امامعليه‌السلام كى باتوں كا كوئي جواب نہيں تھا اسلئے وہ اٹھكر چلے گئے_(۵)

دغہ بازى كمزور كا حربہ

معاويہ كے لشكر كا سپاہ اسلام كے ساتھ پہلا معركہ پانى پر ہوا اور اس كے لشكر كو شكست ہوئي اس شكست اور اس طرز گفتگو سے جو اميرالمومنينعليه‌السلام سے براہ راست نيز آپعليه‌السلام كے نمائندگان كے ذريعے ہوئي اس نے سپاہ اسلام كى قوت ، ان كے جذبہ ايثار اور فوج كے بعض سردار و كمانڈروں كى مددگارى كا اندازہ لگايا اور جان ليا كہ جو لوگ ايمان و عقيدت سے سرشار ہوركر جنگ كرنے كے لئے آئے ہيں اگر بالفرض ان كے ساتھ جنگ ہوئي بھى تو پنجہ كشى كركے سنگين خسارے كے باوجود نصرت و فتح حاصل نہيں كى جاسكتي_ بالخصوص ان حالات ميں جب كہ ان كے چاروں طرف خطرہ ہى خطرہ ہے_ چنانچہ انہوں نے يہ ارادہ كيا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ كے بعض سرداروں سے ملاقات كى جائے اور انھيں لالچ كے ذريعے شوق و ترغيب ولا كر نيز سپاہ كے درميان شك و شبہ پيدا كر كے ان ميں تفرقہ پيدا كيا جائے تا كہ اس كے باعث عساكر اسلام ميں كمزورى و ناتوانى پيدا ہوجائے اور بالاخرہ شكست و پسپائي سے دوچار ہوں _

اس راہ ميں انہوں نے جو عملى تدابير اختيار كيں ہم ان كے يہاں چند نمونے پيش كريں گے_

۱۹۵

لشكر كے سرداروں سے ملاقات

حضرت علىعليه‌السلام كا وفد جب معاويہ سے رخصت ہوكر چلا گيا تو اس نے اس وفد كے ايك ركن زيادبن خَصَفَہ سے دوبارہ ملاقات كرنے كى خواہش ظاہر كي_ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام سے متعلق گفتگو كرتے ہوئے اس نے زياد سے كہا كہ وہ اپنے قبيلے كے ہمراہ اس كام ميں ميرى مدد كرے اور ان سے يہ وعد كيا كہ وہ اپنے مقصد ميں كامياب ہوگيا تو شہر بصرہ يا كوفہ كى حكومت اس كو دے دى جائے گي_

ليكن معاويہ كو اس سے مدد و تعاون ميں مايوسى ہوئي تو اس نے عمروعاص سے كہا كہ ہم علىعليه‌السلام كے لشكر كے سرداروں ميں سے جس كے ساتھ بھى گفتگو كرتے ہيں وہ ہميں اطمينان بخش لگتا ہے وہ سب دل سے باہمى طور پر متحد ہيں(۶) _

۲_ قاريوں ، زاہدوں كى جماعت سے ملاقات

معاويہ جب حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے سرداروں اور فرمانداروں كو فريفتہ كرنے ميں نااميد ہوگيا تو اس نے ان قاريوں اور زہد فروشوں كى جانب توجہ كى جن كى ظاہرى زندگى ہى اسلام سے متاثر ہوئي تھي_

شام اور عراق كى سپاہ ميں دونوں لشكروں كے درميان تيس ہزار سے زيادہ قارى قرآن موجود تھے يہ قارى دونوں لشكروں كى صفوں سے نكل كر باہر آگئے اور انہوں نے عليحدہ جگہ پر اپنے خيمے نصب كئے اور يہ فيصلہ كيا كہ فريقين كے درميان ثالث كے فرائض انجام ديں _

اس مقصد كے پيش نظر ان كے نمائندے دونوں سپاہ كے فرمانداروں سے ملاقات كرنے كى غرض سے گئے اور ہر ايك نے اپنے نظريات دوسرے كے سامنے بيان كيئے ان كى طرز گفتگو سے يہ اندازہ ہوتا تھا كہ ان پر معاويہ كى جاد و بيانى كا اثر ہوگيا ہے_

جب يہ جماعت حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئي تو آپعليه‌السلام نے انھيں آگاہ كيا كہ وہ كسى كى پر فريب گفتگو سے متاثر نہ ہوں _ اور فرمايا كہ : اس بات كا خيال رہے كہ معاويہ كہيں دين كے

۱۹۶

معاملے ميں تمہارى جانوں كو مفتون و فريفتہ نہ كرلے_(۷)

ليكن ابھى كچھ عرصہ نہ گذرا تھا كہ انہى لوگوں كى كثير تعداد اشعث اور چند ديگر افراد كى سركردگى ميں معاويہ كى جادو وبيانى پر فريفتہ ہوگئے اور جنگ كے معاملے ميں انہوں نے عہد شكنى كى _ اور حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف صف بستہ ہوگئے چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام نے مجبورا معاويہ كى جانب سے مسلط كردہ شرط جنگ بندى كو قبول كرليا_

۳_ سپاہ كے درميان خلل اندازي

معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ كے دلوں ميں تذبذب و تزلزل پيدا كرنے اور ذہنوں پر خوف و ہراس طارى كرنے كى غرض سے اس دوران جب كہ فريقين كے درميان جنگ جارى تھى حكم ديا كہ خط لكھا جائے جسے تير پر باندھ كر حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں پھينك ديا گيا_

اس خط كا مضمون يہ تھا كہ : خدا كے ايك خير انديش بندے كى طرف سے لشكر عراق كو پيغام _ آگاہ كيا جاتا ہے كہ معاويہ نے تم پر دريائے فرات كا كنارہ كھول ديا ہے وہ چاہتا ہے كہ تمام لشكر عراق كو اس ميں غرق كردے_ جس قدر ممكن ہوسكے فرار كر جاؤ_

اہل كوفہ ميں سے ايك شخص نے يہ خط اٹھاليا اور پڑھ كر دوسرے كو دے ديا_ اور اسطرح يہ خط دست بدست ايك جگہ سے دوسرى جگہ پہنچ گيا چنانچہ جس شخص نے بھى يہ خط پڑھا لكھنے والے كو خير انديش ہى سمجھا_

معاويہ نے اس اقدام كے بعد دو سو آدميوں كو بيلچے اور كداليں دے كر اس پشتے كى جانب روانہ كرديا جو دريائے فرات پر بنا ہوا تھا اور ان سے كہا كہ تم اپنے كام پر لگ جاؤ_

حضرت علىعليه‌السلام كو جب اس خط كے بارے ميں علم ہوا تو آپعليه‌السلام نے اپنے سپاہيوں سے كہا كہ : معاويہ كا يہ اقدام عملى نہيں وہ چاھتا ہے كہ اپنى سازش سے تمہيں پسپائي كيلئے مجبور كرے اور تمہارے درميا ن آشفتگى و سراسيمگى پيدا كردے اس پر سپاہيوں نے جواب ديا كہ ہم كيسے اس بات پر يقين نہ كريں _ہم ديكھ ہى رہے ہيں كہ ان كے مزدور نہر كھودنے ميں لگے ہوئے ہيں _

۱۹۷

ہم تو يہاں سے كوچ كرتے ہيں _ يہ آپكى مرضى ہے كہ آپ بھى چليں يا يہيں قيام كريں چنانچہ اس فيصلے كے بعد حضرت على عليه‌السلام كے سپاہى پيچھے ہٹنے لگے اور لشكر سے دور جاكر انہوں نے پڑاؤ كيا_ جس جگہ سے حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ نے كوچ كيا تھا اس پر معاويہ كى سپاہ نے قدم جماديئے)_

فيصلہ كن جنگ

ماہ محرم كے ختم ہوتے ہى مذاكرات كا بھى خاتمہ ہوگيا اور فريقين جنگ كيلئے تيار ہوگئے اميرالمومنين فرماتے ہيں : ميں نے تمہيں مہلت دى كہ شايد تم حق كى طرف واپس آجاؤں كلام اللہ كے ذريعے تمہارے لئے حجت و دليل پيش كى ليكن تم شورش و سركشى سے باز نہ آئے _ تم نے دعودت حق سے روگردانى كي_ اس لئے اب تم جنگ و جدال كے لئے تيار ہوجاؤ كيونكہ خداوند تعالى خيانت كاروں كو پسند نہيں كرتا_

اس كے بعد آپ نے لشكروں كى صفوں كو منظم كيا معاويہ نے بھى اپنى سپاہ كو آرستہ كيا_(۹)

اميرالمومنين نے اپنى سپاہ كو مرتب كرتے ہوئے فرمايا كہ : جب تك دشمن پيشقدمى نہ كرے تم جنگ شروع نہ كرنا كيونكہ تمہارے پاس حجت و دليل موجود ہے ان كا جنگ شروع كرنا تمہارے لئے دوسرى حجت و دليل ہے جب انہيں شكست دے چكو تو فرار كرنے والوں كو قتل نہ كرنا _ زخميوں پر حملہ آور نہ ہونا، برہنہ نہ كرنا مردہ لوگوں كے ناك ،كان نہ كاٹنا جس وقت تم ان پر غالب آجاؤ تو تم ان كے گھروں ميں اس وقت تك داخل نہ ہونا جب تك ميں اجازت نہ دوں اس مال كے علاوہ جو ميدان جنگ ميں رہ گيا ہے تم انكى كسى چيز كو ہاتھ نہ لگانا اگر چہ عورتيں تمہيں ، تمہارے سرداروں اور تمہارے نيك بزرگوں كو ناشائستہ الفاظ سے ياد كر رہى ہيں مگر تم انہيں تكليف نہ پہنچانا كيونكہ وہ جسمانى طور پر كمزور اور عقل كے اعتبار سے ناقص ہيں _(۱۰)

سپاہ كو مرتب كرنے كے بعد آپعليه‌السلام نے مالك اشتر كو كوفہ سے سواروں كا اور سھل بن حنيف كو

۱۹۸

بصرہ كے دستہ كا فرماندار مقرر كيا_ كوفہ كى پيادہ فوج كى فرماندارى عمار ياسر كو تفويض كى گئي اور بصرہ كى پيادہ فوج كا فرماندار قيس بن سعد كو مقرر كيا كوفہ و بصرہ كے قاريوں كو آپ عليه‌السلام نے '' مسعر بن فد كى '' كى تحويل ميں ديا اور پرچم ہاشم مرقال ك سپرد كيا_(۱۱)

يكم صفرہ ۳۷ ھ دونوں فوجوں كے درميان جنگ شروع ہوئي كوفہ كى فوج نے مالك كى كمانڈرى اور شام كى فوج نے حبيب بن مسلمہ كى كمانڈرى ميں شديد جنگ كا آغاز كيا يہ معركہ ظہر تك جارى رہا_

اگلے دين ہاشم مرقال ميدان ميں اترے اور شام كے اس لشكر كے ساتھ جو ابوالاعور كى زير فرماندارى ميدان جنگ ميں آيا تھا نبرد آزمائي كى اور شاميوں كے ساتھ سخت جنگ كے بعد وہ واپس اپنى لشكر گاہ ميں آئے_

تيسرے روز عمارياسر مہاجر و انصار بدريوں كے ساتھ ميدان جنگ ميں اترے اور عمرو عاص سے مقابلہ كيا عمار نے اپنى سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : كيا تم ان دشمنوں كو ديكھنا چاہتے ہو جنہوں نے خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف جنگ كى اور دشمنوں كو مدد پہنچائي خداوند تعالى كو چونكہ اپنا دين عزيز تھا اسى لئے اس نے اسے كاميابى عطا كى اور بالاخر اس دشمن نے خوف كى وجہ سے اپنا سر اسلام كے سامنے خم كرديا پيغمبر اكر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے رحلت كے بعد اس دشمن كى مسلمانوں كے خلاف دشمنى و عداوت آشكارا ہوگئي_مسلمانو تم دشمن كے لشكر سے جنگ كرو كيونكہ انكے سردار ان لوگوں ميں سے ہيں جو نور الہى كو خاموش كرنے كا ارادہ كئے ہوئے ہيں _

اس كے بعد انہوں نے پيادہ فوج كے فرماندار زياد بن نَضر كو حكم ديا كہ حملہ كريں اور خود بھى حملہ آور ہوئے اور عمروعاص كو پسپا كرديا_

چوتھے دن حضرت علىعليه‌السلام كے فرزند محمد حنفيہ ميدان جنگ ميں گئے اور عبيداللہ بن عمر سے جنگ كى _ دونوں جانب سے مقابلہ سخت رہا_ بالاخرہ عبيداللہ نے محمد حنفيہ كو جنگى كشتى كى دعوت دى محمد حنفيہ نے پيشقدمى كى مگر حضرت علىعليه‌السلام نے منع كرديا اور خود ان كى جگہ كشتى گيرى كيلئے تشريف لے گئے _مگر

۱۹۹

عبيداللہ بن عمر اس كے لئے تيار نہ ہوا_

پانچويں دن عبداللہ بن عباس كا '' وليد بن عقبہ'' سے مقابلہ ہوا سخت نبرد آزمائي كے بعد انہوں نے وليد بن عقبہ كو جنگى كشتى كى دعوت دى مگر اس كے دل پر خوف طارى ہوگيا اور بالاخر لشكر اسلام فتح و كامرانى كے ساتھ واپس آيا_(۱۲)

چھٹے دن قيس بن سعد اور '' ذى الكلاع'' كے درميان سخت معركہ ہوا سخت نبرد آزمائي كے بعد واپس آيا_

ساتويں دن مالك اشتر كا اپنے سابقہ رقيب سے مقابلہ ہوا اورظہر كے وقت لشكر گا واپس آئے_

عام جنگ

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ديكھا كہ جنگ كو ايك ہفتہ ہوگيا ہے اگرچہ دونوں طرف سے بہت سے سپاہى قتل كئے جاچكے ہيں مگر اس كے باوجود لشكر اسلام كو فتح نصيب نہيں ہو رہى ہے اسى لئے آپ نے عام حملے كا حكم ديا اور فرمايا كہ : ہم كيوں اپنى پورى فوجى طاقت كو حريف كے خلاف جنگ ميں بروئے كار نہ لائيں ؟

اسى لئے آپ نے ۸ صفر شب چہارشنبہ (بدھ كى رات) اپنى سپاہ كے سامنے تقرير كى اور فرمايا كہ : جان لو كہ كل تمہيں دشمن كے روبرو ہونا ہے اس لئے تمام رات عبادت ميں گزارو اور قرآن مجيد كى كثرت سے تلاوت كرو خداوند تعالى سے دعا كرو كہ ہميں صبر و نصرت عطا فرمائے دشمن كے مقابل مكمل پايدارى ، ثابت قدمى سے آنا اور پورى جد و جہد و استوارى سے اس كا مقابلہ كرنا اور ہميشہ راستگو رہنا_

حضرت علىعليه‌السلام كى جيسے ہى تقرير ختم ہوئي آپعليه‌السلام كى سپاہ نے اپنے اسلحہ اور تلوار نيزہ و زوبين و غيرہ كو سنبھالا اور اسے جلا دينى شروع كى _ حضرت علىعليه‌السلام صبح كے وقت تك اپنے لشكر كو آراستہ كرتے

۲۰۰

رہے_ آپ كے حكم كے مطابق منادى كے ذريعے دشمن كو اعلان جنگ سنايا اور كہا كہ : اے شاميو كل صبح تم سے ميدان كارزار ميں ملاقات ہوگى _(۱۳)

منادى كى آواز جب دشمن كے كانوں ميں پہنچى تو اس كى صفوں ميں كہرام مچ گيا سب نے بيم و ترس كى حالت ميں معاويہ كى جانب رخ كيا اس نے تمام سرداروں اور فرمانداروں كو بلايا اور حكم ديا كہ اپنى فوجوں كو تيار كريں _

حضرت علىعليه‌السلام نے جب اپنے لشكر كو آراستہ كر ليا تو آپعليه‌السلام اپنى جگہ سے اٹھے اور سپاہ ميں جوش و خروش پيدا كرنے كيلئے ان كے سامنے تقرير كى اور فرمايا كہ : اے لوگو خداوند تعالى نے تمہيں اس تجارت كى جانب آنے كى دعوت دى ہے جس ميں عذاب سے نجات دلائي جائے گى اور خير و فلاح كى جانب بلايا ہے_يہ تجارت خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صداقت پر ايمان اور راہ خدا ميں جہاد ہے_ اس كا معاوضہ تمہيں يہ ملے گا كہ تمہارے گناہ بخش دئے جائيں گے اور خُلد بريں ميں تمہيں رہنے كيلئے پاكيزہ مكان مليں گے اور اس كا انتہائي اجر يہ ہے كہ تمہيں خدا كى رضا نصيب ہوگى جو ہر اجر سے كہيں عظيم ہے_ قرآن كا خدا كے محبوب بندوں سے ارشاد ہے كہ : خداوند تعالى ان مجاہدين حق كو دوست و عزيز ركھتا ہے جو محكم ديور كى طرح دشمن كے مقابل آجاتے ہيں اور اس سے جنگ و جدال كرتے ہيں(۱۴) _اپنى صفوں كو سيسہ پلائي ہوئي بنيادوں كى طرح محكم كرلو اور ايك دوسرے كے دوش بدوش رہو_ زرہ پوش سپاہ پيشاپيش رہيں اور جن كے پاس زرہ نہيں انہيں زرہ پوش سپاہ كے عقب ميں ركھا جائے اپنے دانت بھينچے ركھو كيونكہ اس كے باعث شمشير كى ضرب سے كاسہ سر محفوظ رہتا ہے_ اس سے قلب كو تقويت اور دل كو آسودگى حاصل ہوتى ہے_ اپنى آوازوں كو خاموش ركھو اس لئے كہ اس كى وجہ سے سستى و شكست سے نجات ملتى ہے اورچہرہ پر متانت و وقار كى كيفيت پيدا ہوتى ہے اپنے پرچموں كو يكجا ركھو اور انہيں باحميت دلاوروں كے سپرد كرو جو لوگ مصائب و مشكلات ميں صبر كرتے ہيں اور پرچم پر مسلط رہتے ہيں _ وہ اس كى ہر طرف سے حفاظت ميں كوشاں رہتے ہيں _(۱۵)

۲۰۱

حضرت على (ع)كا خطبہ ختم ہونے كے بعد آپ كے اصحاب ميں سے بھى ہر شخص نے اپنے قبيلے كے لشكر ميں جوش و خروش پيدا كرنے كى خاطر تقرير كى _ انہى مقررين ميں سعيد بن قيس بھى شامل تھے چنانچہ وہ اپنے ساتھيوں كے درميان سے اٹھے پہلے تو انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام كے اصحاب كى قدر و منزلت كا ذكر كيا اس كے بعد انہوں نے معاويہ كا تعارف كرايا_(۱۶) اس كے ساتھ ہى انہوں نے اپنے دوستوں كو جنگ كرنے كيلئے ترغيب دلائي_

فريقين كے لشكر چونكہ جنگ كيلئے آمادہ تھے اس لئے بدھ كے دن سخت معركہ ہوا _ رات كے وقت دونوں لشكر بغير فتح و نصرت واپس اپنے خيموں ميں آگئے(۱۷) _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جمعرات كى صبح نماز فجر جلدى پڑھ لى سپاہ سے خطاب كرنے اور جنگ كى ترغيب دلانے كے بعد آپعليه‌السلام نے گھوڑا طلب فرمايا(۱۸) اس پر سوار ہونے كے بعد آپ قبلہ رخ كھڑے ہوگئے انكے دونوں ہاتھ آسمانكى طرف تھے اور خداوند تعالى سے يوں راز و نياز كر رہے تھے: خداوند ا يہ قدم تيرى راہ ميں بڑھ رہے ہيں بدن خستہ و ناتواں ہيں دلوں پر لرزہ و وحشت طارى ہے اور يہ ہاتھ تيرى بارگاہ ميں اٹھے ہوئے ہيں اور آنكھيں تيرى طرف لگى ہوئي ہيں اس كے بعد آپ نے ايك آيت پڑھى جس كا ترجمہ يہ ہے (اے رب ہمارى قوم كے درميان ٹھيك ٹھيك فيصلہ كردے اور تو بہترين فيصلہ كرنے والا ہے_(۱۹)

آخر ميں آپ نے سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا كہ سيرو على بركة اللہ ((۲۰) آگے بڑھو خدا تمہارى پشت و پناہ ہے)_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے نبرد آزما ہونے سے قبل شام كے ہر قبيلے كا نام دريافت فرمايا اس كے بعد آپعليه‌السلام نے اپنى سپاہ كے قبائل كو حكم ديا كہ تم ميں سے ہر سپاہى اپنے ہم نام اور ہم پلہ و شان قبيلے كے ہراس شخص سے جنگ كرے جو دشمن كى صفوں ميں شامل ہے(۲۱) _

سپاہ اسلام كى علامت وہ سفيد رنگ كا كپڑا تھا جو انہوں نے اپنے سرو ں اور بازووں پر باندھ ركھتا تھا_ اور ان كا نعرہ ياللہ، يا احد ، يا صمد ، يا رب محمد يا رحمت اور يا رحيم تھا_

۲۰۲

اس كے برعكس معاويہ كى سپاہ كا نشان زرد پٹى تھى جسے انہوں نے بھى اپنے سروں اور بازووں پر باندھ ركھا تھا_ اور ان كا نعرہ يہ تھا نحن عبادالله حقا حقا يا لثارات عثمان (۲۲)

قرآن كى طرف دعوت

اس سے قبل كہ حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے عمروعاص كا مكر و فريب ظاہر ہو آپعليه‌السلام نے اپنى جمعيت كو بيدار كرنے اور دشمن پر اتمام حجت كى خاطر اس وقت بھى جب كہ آپعليه‌السلام نے اپنى فوج ميں ذرہ برابر زبونى و ناتوانى محسوس نہيں كى ، يہ تجويز پيش كى اور فرمايا كہ : كوئي شخص قرآن شريف اپنے ہاتھ ميں اٹھالے اور دشمن كے نزديك پہنچ كر اسے قرآن كى طرف آنے كى دعوت دے ايك شخص جس كا نام '' سعيد'' تھا اٹھا اور اس نے سپاہ دشمن كى جانب جانے كا اظہار كيا حضرت علىعليه‌السلام نے دوبارہ اپنى اس تجويز كو زبان مبارك سے ادا كيا اسى نوجوان نے آپعليه‌السلام كى اس تجويز پر لبيك كہا كيونكہ اكثر و بيشتر افراد كا خيال تھا جو شخص بھى اس راہ ميں پيشقدمى كرے گا اس كا مارا جانا يقينى ہے_

حضرت '' سعيد'' نے قرآن مجيد ہاتھ ميں ليا اور سپا ہ دشمن سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : اے لوگو شورش و سركشى سے باز آؤ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام قرآنى حكومت اور عدل الہى كى دعوت دے رہے ہيں سيدھا راستہ اختيار كرو سيدھا راستہ وہى ہے جو مہاجرين و انصار نے اختيار كيا ليكن اہل شام نے اس كو اپنے نيزوں اور تلواروں سے ٹكڑے ٹكڑے كرديا_(۲۳)

معاويہ كہاں ہے؟

فريقين كے لشكر كے درميان جنگ جيسے جيسے شديد تر ہوتى جاتى تھي، مالك اشتر ، عمار اور عبداللہ بديل جيسے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے يار و مددگار شير كى طرح غراتے اور دشمن پر حملہ آور ہوتے حضرت علىعليه‌السلام بھى ميدان كارزار ميں داخل ہوئے دشمن كى سپاہ نے جيسے ہى آپعليه‌السلام كو ديكھا اس

۲۰۳

پر خوف و ہراس طارى ہوگيا بعض قبائل كو تو اپنى جان كے لالے پڑگئے اور يہ فكر ستانے لگى كہ كس طرح نجات پائيں چنانچہ قبيلہ خثعم كے سردار عبداللہ خنش نے خثعم قبيلہ عراق كے سرگروہ كعب سے پيغام كے ذريعے يہ درخواست كى كہ صلہ رحم كى خاطر اور ايك دوسرے كے حقوق كا پاس كرتے ہوئے جنگ سے كنارہ كشى اختيار كر لے ليكن مخالفت سے دوچار ہوا_ (۲۴)

اسى اثناء ميں سپاہ اسلام كے فرماندار ميمنہ عبداللہ بديل جو بہت ہى شجاع و دلير شخص اور دو زرہ پہن كر جنگ كرتے تھے دونوں ہاتھوں ميں تلواريں لئے دشمن كى سپاہ كے ميسرہ كى جانب بڑھے اور اسے چيرتے ہوئے ان لوگوں تك پہنچ گئے جو معاويہ كے فدائي كہلاتے تھے يہ لوگ معاويہ كے ايسے جانثار و با وفا دوست تھے جنہوں نے يہ عہد كيا تھا كہ جب تك ہمارے دم ميں دم ہے اس كى حفاظت كرتے رہيں گے معاويہ نے ان فدائيوں كو حكم ديا كہ عبداللہ كے بمقابل آجائيں اور خفيہ طور پر اسے اپنے ميسرہ كے فرماندار حبيب بن مسلمہ سے كہا كہ وہ ابن بديل كو آگے بڑھنے سے روكے ليكن وہ آگے بڑھتے ہى گئے معاويہ نے ناچار مصلحت اس امر ميں سمجھى كہ اپنى جگہ بدل دے اور وہ پيچھے كى طرف بھاگ گيا ليكن عبداللہ پكار پكار كر كہہ رہے تھے يا لثارات عثمان (عثمان كے خون كا بدلہ)معاويہ كى سپاہ نے جب يہ نعرہ سنا تو اس نے انہيں اپنا ہى سپاہى سمجھ كر انہيں راستہ ديا_

معاويہ كو چونكہ دوسرى مرتبہ اپنى جگہ سے ہٹ كر پيچھے آنا پڑا تھا اس لئے اس نے دوبارہ حبيب بن مسلمہ سے كہا كہ ميرى مدد كرو چنانچہ اس نے بڑا سخت حملہ كيا اور دائيں جانب كے لشكر (جناح راست) كو چيرتا ہوا عبداللہ بن بديل تك پہنچ گيا_ عبداللہ سو قاريوں ميں سے اكيلے رہ گئے تھے (باقى سب پسپا ہو چكے تھے) چنانچہ وہ پورى دليرى سے جنگ كرتے رہے اور زبان سے بھى كہتے رہے كہ : معاويہ كہاں ہے_ معاويہ نے جب عبداللہ كو اپنے نزديك ديكھا تو اس نے پكار كر كہا كہ اگر تلوار سے ان پر حملہ نہيں كر سكتے تو انھيں آگے بھى نہ آنے دو ان پر سنگبارى شروع كردو چنانچہ ہر طرف سے اس جانباز اسلام پر اس قدر پتھر برسائے گئے كہ وہ وہيں شہيد ہوگئے_

۲۰۴

معاويہ نے حكم ديا كہ انكے ناك، كان كاٹ لئے جائيں ليكن ان كى عبداللہ بن عامر سے چونكہ سابقہ دوستى تھى اسيلئے وہ مانع ہوئے اور معاويہ نے بھى اس خيال كو ترك كرديا_(۲۶)

حضرت علىعليه‌السلام ميدان كارزار ميں

اميرالمومنين حضرت على كمانڈر انچيف كے فرائض انجام دينے كے علاوہ بہت سے مواقع پر بالخصوص حساس ترين لمحات ميں خود بھى ميدان كارزار ميں پہنچ جاتے اور دشمن كے حملوں كا مقابل كرتے اگرچہ آپ كے اصحاب و فرزند آپعليه‌السلام كے دشمن كے درميان حائل ہوجاتے اور آپكى پورى حفاظت كرتے اور ان كى يہ خبرگيرى آپكے ليئے جنگ كرنے ميں مانع ہوتي_

بطور مثال ايك موقع پر ميان كارزار ميں بنى اميہ كے '' احمر'' نامى غلام جو بڑا جرى و دلاور شخص تھا آگے بڑھا _جس وقت حضرت علىعليه‌السلام كى نگاہ اس پر گئي تو آپ بھى اسكى طرف بڑھے اسى اثناء ميں حضرت علىعليه‌السلام كا غلام جس كا نام '' كيسان'' تھا آگے بڑھ آيا _ دونوں كے درميان كچھ دير تك نبرد آزمائي ہوتى رہى _ بالاخر وہ احمر كے ہاتھوں ماراگيا اب احمر حضرت علىعليه‌السلام كى جانب بڑھا تا كہ آپ كو شہيد كردے_ حضرت علىعليه‌السلام نے اس سے قبل كہ دشمن وار كرے ہاتھ بڑھا كر اس كا گريبان پكڑا اور اسے گھوڑے پر سے كھينچ ليا_ اور اسے سر سے اوپر اٹھا كر زمين پر دے مارا كہ اس كے شانہ و بازو ٹوٹ كر الگ ہوگئے اور ايك طرف كھڑے ہوگئے_ اتنے ميں فرزندان علىعليه‌السلام (حضرت امام حسينعليه‌السلام اور حضرت محمد حنفيہ) وہاں پہنچ گئے اور تلوار كے وارسے اسے ہلاك كرديا_

راوى مزيد بيان كرتا ہے كہ : احمر كے قتل كے بعد شاميوں نے جب حضرت علىعليه‌السلام كو اكيلا ديكھا تو وہ آپعليه‌السلام كى طرف بڑھے اور جان لينے كا ارادہ كيا اگرچہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى جانب بڑھتے رہے مگر آپعليه‌السلام كى رفتار ميں ذرا بھى فرق نہ آيا اور پہلے كى طرح آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے رہے ، حالانكہ اپنے لشكر كى طرف پلٹنے كا ارادہ نہيں تھا_

يہ كيفيت ديكھ كر حضرت امام حسنعليه‌السلام نے اپنے والد محترم سے عرض كى كيا حرج ہے كہ آپعليه‌السلام اپنى

۲۰۵

رفتار تيز كرديں اور اپنے ان دوستوں سے آن مليں جو دشمن كے روبرو كھڑے ہيں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ديا كے اے ميرے فرزند تيرے والد كا اس جہان سے كوچ كرنے كے لئے خاص وقت معين ہے اس ميں ذرا بھى پس و پيش نہيں ہوسكتى _ تيرے والد كو اس بات كا ذرا بھى غم نہيں كہ موت كو اپنى آغوش ميں لے لے يا موت خود ہى آكر گلے لگ جائے_(۲۷)

ايك موقع پر سعيد بن قيس ميدان كارزار ميں موجود تھا اس نے بھى ايك مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں عرض كيا : يا اميرالمومنين آپ دشمن كى صف كے نزديك حد سے زيادہ آگے آجاتے ہيں كيا آپ كو اس بات كا ذرا بھى خوف نہيں كہ دشمن آپ پر وار كر سكتا ہے اس پر آپعليه‌السلام نے فرمايا تھا كہ خداوند تعالى سے بڑھ كر كوئي كسى كا نگہبان نہيں اگر كوئي كنويں ميں گرجائے يا اس پر ديوار گر رہى ہو يا كوئي اور بلا نازل ہو رہى ہو تو خدا كے علاوہ اس كى كوئي حفاظت كرنے والا نہيں اور جب موت آجاتى ہے تو تمام تدابير بيكار ہوجاتى ہيں _(۲۸)

دوستوں كى حمايت و مدد

حضرت علىعليه‌السلام ميدان جنگ ميں عين اس وقت بھى جب كہ ميدان كارزار ميں پيش قدمى فرما رہے ہوتے تھے اگر ضرورت پيش آجاتى تو اپنى جان كو خطرہ ميں ڈال كر وہ اپنے ساتھيوں كى مدد كيلئے تيزى سے پہنچتے_

غرار بن ادہم شامى لشكر كا مشہور سوار تھا ايك روز اس نے عباس بن ربيعہ(۲۸) كو جنگى كشتى كيلئے للكارا عباس گھوڑے سے اتر كر نيچے آگئے اور غرار سے كشتى ميں نبرد آزما ہوگئے سخت زور آزمائي كے بعد عباس نے شامى كى زرہ كو چاك كرديا اس كے بعد آپ نے تلوار نكال كر اس كے سينے پر وارد كيا يہاں تك كہ وہ زخمى ہوكر مارا گيا يہ منظر ديكھ كر لوگوں نے نعرہ تكبير بلند كيا_

ابوالاغَرّ سے يہ واقعہ منقول ہے كہ ميں نے اچانك سنا كہ ميرے پيچھے كوئي شخص يہ آيت تلاوت كر رہا ہے'' قاتلوہم يعذبہم اللہ بايديكم و يخزہم و ينصركم على ہم و

۲۰۶

يشف صدور قوم مومنين'' (انھيں قتل كر ڈالو خدا تمہارے ذريعہ انہيں عذاب ميں مبتلا كرتا ہے اور ذليل كرتا ہے اور تمہارى مدد كرتا ہے مومنوں كے دلوں كو شفا بخشتا ہے اور ان سے كدورت دور كرتا ہے (۲۹)

جب ميں نے پلٹ كرديكھا تو وہاں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو پايا_ اس كے بعد آپعليه‌السلام نے مجھ سے فرمايا ہم سے كس شخص نے دشمن سے جنگ كى ؟ ميں نے عرض كيا كہ آپ كے بھتيجے نے_ اس پر آپعليه‌السلام نے فرمايا كيا ميں نے تمہيں اور ابن عباس كو جنگ كرنے سے منع نہيں كيا تھا؟ انہوں نے جواب ديا كہ جى ہاں آپ نے منع فرماياتھا_ مگر دشمن نے خود ہى مجھے للكارا_ اس پر آپ نے كہا كہ اگر تم نے اپنے پيشوا كى اطاعت كى ہوتى تو وہ اس سے كہيں زيادہ بہتر تھا كہ تم دشمن كى للكار كا جواب ديتے _ اس كے بعد آپ نے بارگاہ خداوندى ميں دعا كى كہ وہ عباس كى لغزش كو معاف كرے اور جہاد كى انہيں جزا دے_

غرّار كے قتل ہوجانے كى وجہ سے معاويہ بہت زيادہ مضطرب و آشفتہ خاطر ہوا چنانچہ اس كے حكم كے مطابق اور انعام كے وعدے پر قبيلہ '' لخم'' كے دو افراد نے عباس بن ربيعہ كو پيكار كى غرض سے للكارا_ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں نبرد آزمائي كى اجازت نہيں دى اور فرمايا كہ معاويہ تو يہ چاہتا ہے كہ بنى ہاشم ميں سے ايك شخص بھى زندہ نہ رہے

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے عباس كے لباس اور اسلحہ سے خود كو آراستہ كيا اور انہى كے گھوڑے پر سوار ہو كر ان دونوں افراد كى طرف روانہ ہوئے اور انہيں وہيں ہلاك كرديا_ ميدان كارزار سے واپس آكر آپ نے عباس كا اسلحہ انہيں واپس كيا اور فرمايا كہ جو كوئي تمہيں نبرد آزمائي كے لئے للكارے پہلے تم ميرے پاس آؤ(۳۰)

اس واقعے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بنى ہاشم بالخصوص خاندان رسالت كى جانب خاص توجہ و عنايت تھى اور انكى جان كى حفاظت كيلئے آپعليه‌السلام ہر ممكن كوشش فرماتے_ چنانچہ بحران جنگ ميں جب كہ آپعليه‌السلام كى جانب تيروں كى بارش ہو رہى تھى اور آپ كے فرزندوں كو دشمن اپنے تيروں كا نشانہ بنائے ہوئے تھا، اس وقت بھى آپعليه‌السلام كو اپنى جان كى پروانہ تھى چنانچہ خود آگے بڑھ كر جاتے اور اپنے ہاتھ سے تيروں كے رخ كو كبھى ايك طرف اور كبھى دوسرى جانب منتشر كرديتے_(۳۱)

۲۰۷

سوالات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے نمائندے معاويہ كے پاس كس مقصد كے تحت روانہ كئے؟

۲_ معاويہ نے اپنے لشكر كى كمزورى كى تلافى كس طرح كرنا چاہى اور لشكر اسلام كو كمزور و ناتوان كرنے كيلئے اس نے كيا اقدامات كئے؟ اس كى دو مثاليں پيش كيجئے؟

۳_ نبرد آزمائي سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے سپاہيوں كے لئے كيا احكامات صادر كئے؟

۴_ پہلى اور دوسرى عام جنگوں كا آغاز كن تاريخوں سے ہوا؟ فريقين كے لشكروں كى علامات و نعرے كيا تھے؟

۵_ حضرت علىعليه‌السلام نے جنگ سے قبل اتمام حجت كے طور پر اور مسلمانوں كى خون ريزى كو روكنے كيلئے كيا اقدامات كيئے؟

۶_ جنگى پہلو كو مد نظر ركھتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام كے سپاھيانہ كردار كو مختصر طور پر بيان كريں _

۲۰۸

حوالہ جات

۱_ائتوا هذا الرجل و ادعوه الى الله و الى الطاعة و الى الجماعة

۲_ وقعہ صفين ص ۱۸۸_ ۱۸۷، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۸۵

۳_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۸۶، وقعہ صفين ص ۱۹۵

۴_ وقعہ صفين ص ۱۹۸_ ۱۹۷

۵_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۳ _ ۲۹۱ ،تاريخ طبرى ج ۵ ص ۷ ، وقعہ صفين ص ۲۰۲_ ۲۰۱

۶_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۰ ، وقعہ صفين ص ۲۰۰ _۱۹۹ ، معاويہ كى اس گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے كہ اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے ديگر سرداران سے بھى اس قسم كى بات كى تھي_

۷_ وقعہ صفين ص ۱۹۰_ ۱۸۸

۸ _ وقعہ صفين ۴۹۰_۴۸۹ ، اس واقعہ كى تفصيل بعد ميں آئے گي_

۹_ وقعہ صفين ص ۱۹۰

۱۰_ وقعہ صفين ص ۲۰۴_۲۰۳

۱۱_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۴ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۱ ، ليكن وقعہ صفين ميں صفحہ ۲۰۵ پر منقول ہے كہ سوار دستے كى كمانڈرى عمار كو اور پيادہ فوج كى عبداللہ بديل كو دى گئي_

۱۲_ كامل ج ۳ ص ۲۹۴ ، ليكن وقعہ صفين ميں درج ہے كہ فريقين كے لشكر فتح و كامرانى كے بغير واپس آئے ملاحظہ ہو وقعہ صفين ص ۲۲۲_

۱۳_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۷۹ ، كامل ج ۳ ص ۲۹۵_ ۲۹۴ ، وقعہ صفين ص ۲۲۳_۲۱۴

۱۴_ سورہ صف آيہ ۴) ان الله يحب الذين يقاتلون فى سبيله صفا كانهم بنيان مرصوص (

۱۵_ نہج البلاغہ كے خطبہ ۱۲۴ كا اقتباس، وقعہ صفين ص ۲۳۵

۱۶_ وقعہ صفين ص ۲۳۶

۱۷ _ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۶

۱۸_ اس سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كى سوارى ميں جانور خچر تھا اس روز آپعليه‌السلام نے تنومند و دراز دم گھوڑا لانے كے لئے حكم

۲۰۹

ديا_ يہ گھوڑا اس قدر تنومند و طاقتور تھا كہ اسے قابو ميں ركھنے كے لئے دو لگا ميں استعمال كرنى پڑتى تھيں اور وہ اپنى اگلى ٹانگوں سے زمين كھودتا رہتا تھا_

۱۹_ سورہ اعراف آيہ ۸۸) رَبَنا افتَح بيننا و بين قومنا بالحق و انت خير الفاتحين (

۲۰_ وقہ صفين ص ۲۳۰ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۷۶

۲۱_ وقعہ صفين ص ۲۲۹ ،كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۸ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۴، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۸۶

۲۲_ وقعہ صفين ص ۳۳۲

۲۳_ وقعہ فين ص ۲۴۴ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۶ ، اس پورے قضيے ميں يہ نكتہ قابل توجہ ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے خير خواہى كا جو يہ اقدام كيا تھا اس كے پيش نظر معاويہ كے كسى سپاہى نے اپنے فيصلہ جنگ پر ترديد نہيں كى وہ اس نوجوان كو ديكھتے رہے ليكن جب معاويہ كى صفوں ميں شكست كے آثار نمودار ہوئے تو اس كے سپاہيوں نے اس شكست كى تلافى كے لئے قرآن كو نيزے پر چڑھا ليا اور وہ بھى سپاہ عراق كو قرآن كى دعوت دينے لگے حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ ميں سے كچھ لوگوں پر اس كا اثر ہوگيا چنانچہ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے كہا كہ حكم صادر كيجئے كہ مالك اشتر واپس آجائيں ورنہ ہم آپعليه‌السلام كو قتل كرديں گے_

۲۵_ حضرت عبداللہ بن بديل كے بھائي كا نام بھى عثمان تھا_ وہ بھى دشمن كے ہاتھوں قتل ہوئے تھے_ يہاں عثمان سے مراد ان كے بھائي ہيں _

۲۶_ وقعہ صفين ص ۲۴۸ _ ۲۴۵، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۶، اگرچہ تاريخ كى كتابوں ميں ايسے كئي دلير جانبازوں كا ذكر ملتا ہے مگر اس كتاب كے اختصار كو مد نظر ركھتے ہوئے ان كى كيفيات بيان كرنے سے چشم پوشى كى گئي ہے تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۴ وقعہ صفين ص ۲۵۸

۲۷_ وقعہ صفين ص ۲۵۰_ ۲۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۸ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۹، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۹

۲۸ _ وقہ صفين ص ۲۵۰ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۹

۲۹_ عباس بن ربيعہ بن حارث بن عبدالمطلب

۳۰_ سورہ توبہ آيہ ۱۴

۳۱_ شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۹

۳۲_ وقعہ صفين ص ۲۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۸، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۹

۲۱۰

گيارھواں سبق

قاسطين (جنگ صفين) ۳

استقامت و پايدارى كى نصيحت

فرار كرنے والوں كى تنبيہ و سرزنش

جنگ ميں مالك كا كردار

دو حجر كى جنگ

حريث كا قتل

آخرى تجويز

بدترين طريقے كا سہارا

دشمن كے سرداروں كا اعتراف

پھر دھوكا

جنگ كى شدت

دو لائق سپہ سالاروں كى شہادت

عمار كى شہادت كارد عمل

سوالات

حوالہ جات

۲۱۱

استقامت و پايدارى كيلئے نصيحت

لشكر اسلام كا مركزى حصہ پہلے كى طرح اب بھى سپاہ دشمن كے قلب ميں جنگ آزما تھا حبيب بن مسلمہ كے سخت حملے كے باعث بائيں بازو كا پَرہ(جناح راست) پسپا ہوكر فرار كرنے لگا تھا اميرالومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ كيفيت ديكھى تو انہوں نے مالك كو حكم ديا كہ ان فرار كرنے والوں كى طرف جاؤ اور ان سے كہو كہ : موت سے بچ كر كہاں جا رہے ہو كيا اس زندگى كى جانب جو قطعى ناپايدار ہے ؟ مالك فرار كرنے والوں كى جانب لپكے اور كئي مرتبہ پكار كر كہا كہ لوگو ميں مالك ہوں ليكن كسى نے ان كى جانب توجہ نہ كى جس كى وجہ يہ تھى كہ بيشتر لوگ انھيں اشتر كے نام سے جانتے تھے لہذا جس وقت انہوں نے كہا كہ ميں مالك اشتر ہوں تو فرار كرنے والے واپس آنے لگے اور ان كے گرد جمع ہوگئے_

مالك نے اپنے زور بيان سے لوگوں كو دوبارہ جنگ و نبرد كيلئے آمادہ كر ليا اس كے بعد انہوں نے قبيلہ '' مذحج'' كے افراد كو جو اپنے دليرى و جنگجوئي ميں مشہور تھے خاص طور پر نبرد آزمائي كى دعوت دى اور كہا كہ ميدان كارزار ميں اپنى مردانگى كے جوہر ديكھائيں اور دشمن كو پسپائي پر مجبور كرديں ان سب نے ايك زبان ہوكر اپنى آمادگى كا اعلان كرديا اور كہنے لگے كہ ہم آپ كے فرمانبردار ہيں طائفہ ہمدان كے سو افراد اور ان كے علاوہ ديگر چند دانشور جرائتمند اور باوفا لوگ مالك كى جانب واپس آگئے اور اس طرح دوبارہ دائيں جانب كا پرہ مضبوط ہوگيا ان كے جوش و خروش كا يہ عالم تھا كہ جس لشكر پر بھى حملہ آور ہوجاتے اسے نيست و نابود كرديتے(۱) چنانچہ ان كے سخت و شديد حملات كا يہ نتيجہ برآمد ہوا كہ دشمن كو مجبور ا پسپا ہونا پڑا_

۲۱۲

فرار كرنے والوں كى تنبيہ و سرزنش

فرار كرنے والے جب واپس آگئے تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اس پيش بندى كے خيال سے كہ يہ اقدام دوبارہ نہ ہو ان سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا كہ : ميں نے تمہارى چابكدستى و دلاورى بھى ملاحظہ كى اور ديگر سپاہ كى صفوں سے تمہيں سرتابى كرتے ہوئے بھى ديكھا_ اہل شام تو جفا كار، پست فطرت اور صحرانشين بدو ہيں مگر افسوس انہوں نے تمہيں راہ فرار دكھا دى جب كہ تم شائستہ و لائق ، برگزيدہ اور سر برآوردہ عرب ہو جو رات كى تاريكيوں ميں قرآن پاك كى تلاوت كرتے تھے لوگ گمراہى ميں بھٹك رہے تھے تم حق كى جانب آنے كى دعوت دے رہے تھے اگر تم فرار كرنے كے بعد واپس نہ آگئے ہوتے تو وہ سخت سزا تمہارے گريبان گير ہوتى جو خداوند تعالى نے مفرورين كيلئے مقرر كى ہے_(۲)

... يہ جان لو كہ جو شخص راہ فرار اختيار كرتا ہے وہ خدا كے غضب كو برانگيختہ كرتا ہے اور خود كو ہلاكت كى جانب لے جاتا ہے اور وہ اس پستى و مذلت كى طرف چلا جاتا ہے جو ہميشہ اس كے ساتھ رہتى ہے وہ اس كے ذريعے اپنے لئے ابدى ننگ و رسوائي اور بد بختى كے سامان مہيا كرتا ہے جو شخص فرار كرتا ہے نہ اس كى عمر ميں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہى اسے خداتعالى كى رضاء و خوشنودى حاصل ہوتى ہے اس بناپر ان مذموم صفات كو حاصل كرنے سے موت كہيں زيادہ گوارا ہے_(۳)

جنگ ميں مالك كا كردار

مالك اشتر دراز قامت ، مضبوط جسم اور لاغر بدن انسان تھے مگر بہت زيادہ طاقتور و تنومند ايك مرتبہ قيس كے دو فرزند مُنقذ اور حمير ان كے بارے ميں گفتگو كر رہے تھے _ منقذنے كہا كہ اگر مالك كى نيت ان كے عمل كى طرح ہے تو عربوں ميں ان كاثانى نہيں اس پر حمير نے جواب ديا كہ ان كا عمل ان كے خلوص نيت كا آئينہ دار ہے_(۴)

مالك سرتاپا ايسے مسلح تھے كہ انھيں پہچانا نہيں جاسكتا تھا شمشير يمانى ان كے ہاتھ ميں تھى جس

۲۱۳

وقت يہ تلوار ان كے ہاتھ ميں گھوم جاتى تھى تو لگتا تھا كہ يہ تلوار نہيں آب رواں ہے اور جس وقت فضا كو چيرتى ہوئي گذرتى تھى تو اس كى چمك سے ديكھنے والوں كى آنكھيں چكا چوند ہوجاتى تھيں _ (۵)

''ابن جمہان'' نے جب ان كى تلوار سے آگ نكلتى ديكھى اور دشمن پر ان كے شگفت آور حملے كو ديكھا تو ان سے كہا: خداوند آپ كى اس عظيم فداكارى كے بدلے ہيں جزاء خير عطا فرمائے جو آپ مسلمانوں اور اميرالمومنين كے دفاع كيلئے انجام دے ديتے ہيں _

مالك نے ہمدانيوں كے ساتھ ان پانچ صفوں كو اپنے محاصرہ ميں لے ليا تھا كہ جنہوں نے معاويہ سے يہ عہد كيا تھا كہ مرتے دم تك تم پر آنچ نہيں آنے ديں گے ليكن مالك نے چار صفوں كو پسپا كرديا_(۶)

مالك جيسے لائق و اہل فرماندار كى موجودگى جہاد ميں سپاہيوں كى حوصلہ مندى اور دل گرمى كا سبب ہوتى وہ جس لشكر پر بھى حملہ آور ہوتے وہ لشكر فرار كرجاتا اور جب كبھى منتشر و پراگندہ سپاہ كے درميان پہنچ جاتے تو انھيں لشكر كى شكل ميں مرتب و منظم كرديتے جس وقت انہوں نے يہ ديكھا كہ سپاہ اسلام كے لشكر كے فرمانداروں اور پرچمداروں ميں سے دو شخص سخت جنگ و نبرد كے بعد شہيد ہوگئے ہيں تو انہوں نے كہا كہ : خدا كى قسم يہى صبر جميل اور كريمانہ عمل ہے اور مرد وہ ہے جو ميدان كارزار ميں يا تو كسى كو قتل كردے يا خود شہيد ہوجائے اور جو اس كے بغير ميدان جنگ سے واپس آتا ہے تو كيا اس كيلئے باعث ننگ و رسوائي نہيں ہے_(۷)

دو حجر كى جنگ

صفر كى ۷ تاريخ كو جب كہ فريقين كے لشكر ايك دوسرے كے مقابل آگئے تو پہلا شص جو معاويہ كے لشكر سے نكل كر ميدان كارزار ميں آيا اور حريف كو نبرد آزمائي كيلئے للكارا وہ ''حجر شرّ''

۲۱۴

كے نام سے مشہور اور اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام كے يار باوفا حضرت حجر بن عدى كا چچازاد بھائي تھا حجر شر كامقابلہ كرنے كے لئے حجربن عدى ميدان جنگ ميں پہنچے اور دو حجر كے درميان سخت نبرد آزمائي ہوئي اسى اثنا ميں '' خزيمہ بن ثابت '' حجر شر كى مدد كے لئے ميدان جنگ ميں آگيا اور حجر بن عدى كو اس نے زخمى كرديا، سپاہ اسلام نے جب يہ منظر ديكھا تو وہ بھى ميدان كارزار كى جانب بڑھے اور خزيمہ بن ثابت كو قتل كرڈالا حجر شر بھى مجاہدان اسلام ميں سے ايك شخص كو قتل كرنے كے بعد اپنے چچازاد بھائي (حجربن عدى)كے ہاتھوں ہلاك ہوا اس كى ہلاكت حضرت علىعليه‌السلام كے لئے باعث مسرت ہوئي اور آپعليه‌السلام بارى تعالى كا شكر بجالائے_(۸)

حريث كا قتل

حريث معاويہ كا غلام تھا تنومند ہونے كى وجہ سے اپنے آقا كا بہت محبوب و پسنديدہ تھا اسے ميدان جنگ ميں اسى وقت بھيجا جاتا تھا جب كہ ميدان كارزار سخت گرم ہوا اور جنگ دشوار و حساس لمحات گذر رہى ہوا اس ميں اور معاويہ ميں شباہت بھى بہت زيادہ تھى چنانچہ كبھى كبھى وہ اپنا مخصوص لباس بھى اس غلام كو پہنا ديتا جس كے باعث لوگ يہ سمجھنے لگتے كہ معاويہ بذات خود ميدان جنگ ميں آگيا ہے_

معاويہ نے اس سے يہ فرمائشے كى كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے علاوہ وہ جس سے بھى چاہے نبرد آزما ہوجائے ليكن عمروعاص نے اسے اپنى باتوں سے يہ ترغيب دلائي كہ موقعہ ملے تو حضرت علىعليه‌السلام سے بھى مقابلہ آرا ہوجائے چنانچہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كا مقابلہ كرنے كے لئے گيا اور كہنے لگا كہ اگر مجھ سے زور آزمائي كرنا چاہتے ہو تو آجاؤ_ حضرت علىعليه‌السلام نے ايك ہى وار ميں اس كے دو ٹكڑے كرديئے اس كے قتل سے معاويہ كو سخت صدمہ ہوا اور اس نے عمروعاص كى سخت ملامت كي_(۹)

۲۱۵

آخرى تجويز

سرزمين صفين پر دونوں لشكروں كا قيام كافى طويل ہوگيا اس عرصے ميں فريقين كا جانى و ، مالى نقصان بھى بہت زيادہ ہوا ايك روز اس وقت جب كہ ميدان كارزار گرم تھا اور حضرت علىعليه‌السلام كے ہاتھوں دشمن كے بہت سے جانباز دلاور مارے جاچكے تھے آپعليه‌السلام نے لشكر حريف كو للكارا اور كہا كہ ہے كوئي جو مجھ سے نبرد آزما ہو مگر دشمن كى صفوں ميں سے كوئي بھى ميدان جنگ ميں نہ آيا اس وقت حضر ت علىعليه‌السلام گھوڑے پر سوار تھے چنانچہ آپعليه‌السلام لشكر شام كے سامنے آئے اور معاويہ كو طلب كيا معاويہ نے كہا كہ ان سے پوچھو كہ كيا كام ہے؟ آپ نے فرمايا كيا اچھا ہوتا كہ معاويہ ميرے سامنے ہوتا اور ميں ان سے بات كرتا يہ سن كر معاويہ عمروعاص كى موافقت كے بعد اپنى صف سے نكل كر سامنے آيا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے فرماياكہ : افسوس تيرے حال پر آخر تو نے كيوں لوگوں كو قتل كرنے پر كمر باندھ ركھى ہے؟ كب تك دونوں لشكر اپنى تلواريں كھينچے رہيں گے كيوں نہ ہم باہم نبرد آزما ہوجائيں تا كہ جو بھى غالب آجائے حكومت اسى كو مل جائے اس پر معاويہ نے عمروعاص سے پوچھا كہ تمہارى كيا رائے ہے؟ كيا ميں علىعليه‌السلام سے نبرد آزمائي كروں عمروعاص نے كہا كہ تجويز تو معقول و منصفانہ ہے اگر اس وقت اس تجويز سے روگردانى كى تو تيرا خاندان ابد تك ذلت و خوارى ميں گرفتاررہے گا_

معاويہ نے كہا كہ : بھلا ميں اور تمہارى باتوں ميں آجاؤں ميں على بن ابى طالبعليه‌السلام كو خوب جانتا ہوں خدا كى قسم اس نے جس سے بھى دست و پنجہ نرم كيا اسى كے خون سے زمين كو سيراب كرديا(۱۰) يہ كہہ كر وہ واپس اپنے لشكر كى جانب چلا گيا اور آخرى صف ميں پہنچ كر پناہ لى يہ منظر ديكھ كر حضرت علىعليه‌السلام كو ہنسى آگئي چنانچہ آپ بھى اپنى جگہ واپس آگئے_(۱۱)

۲۱۶

بدترين طريقے كا سہارا

حارث بن نضر كا شمار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے اصحاب ميں ہوتا تھا عمروعاص كو ان سے خاص دشمنى تھى او ر شايد ہى كوئي ايسى مجلس ہو جس ميں حارث كى برائي نہ كرتا ہو حارث نے بھى عمروعاص كے متعلق كچھ شعر كہے اور اس كے پاس بھيجديئے ان اشعار ميں اسے يہ اشتعال دلايا گيا تھا كہ اگر نيك نام اور كار خير كى تمنا ہے تو على بن ابى طالب كے مد مقابل آجاؤ_

ان اشعار كو پڑھ كر عمروعاص نے قسم كھائي كہ علىعليه‌السلام سے ضرور زور آزمائي كروں گا چاہے ہزار مرتبہ موت كا سامنا كرنا پڑے يہ كہہ كر وہ ميدان كارزار ميں آيا حضرت علىعليه‌السلام بھى اس كى جانب بڑھے حضرت علىعليه‌السلام كو ديكھ كر عمروعاص پر ايسا خوف طارى ہوا كہ اس نے خود كو گھوڑے سے زمين پر گرا ديا اور شرمگاہ كھول دى حضرت علىعليه‌السلام نے منھ پھير ليا تو عمروعاص نے راہ فرار اختيار كي_(۱۲)

دشمن كے سرداروں كا اعتراف

عمروعاص ، عُتبہ ،وليد، عبداللہ ابن عامر اور طلحہ كے بيٹے جيسے لشكر شام كے نامور سردار ايك رات معاويہ كے گرد جمع تھے اور گفتگو حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں ہو رہى تھى عتبہ نے كہا كہ : علىعليه‌السلام كا ہمارے ساتھ رويہ بڑا ہى عجيب و حيرتناك ہے كيونكہ ہم ميں سے كوئي بھى ايسا نہيں بچا جو ان كے ستم كا نشانہ نہ بن چكا ہو ميرے دادا عتبہ اور بھائي حنظلہ كو تو انہوں نے قتل ہى كيا تھا ميرے چچا شيبہ كے قتل ميں بھى وہ شريك تھے وليد تيرے باپ كو بھى علىعليه‌السلام نے ہى قتل كيا ہے اور اے مروان تجھے علىعليه‌السلام سے دو لحاظ سے صدمہ پہنچا ہے_

اس پر معاويہ نے كہا كہ : يہ جو كچھ تم كہہ رہے ہو تو وہ علىعليه‌السلام كى شجاعت كا اعتراف ہے تم نے ان كا كيا بگاڑ ليا؟

مروان نے كہا كہ : آپ كيا چاہتے ہيں ميں ان كا كيا كروں ؟اس نے كہا كہ اپنے نيزے سے ان كى تكہ بوٹى كردو مروان نے كہا كہ : لگتا ہے كہ آپ كو مذاق سوجھاہے اور ہمارے ذريعہ

۲۱۷

آسودہ خاطر ہونا چاہتے ہيں _

اس موقع پر وليد نے بھى چند اشعار كہے جن كا مفہوم و مضمون يہ تھا كہ : معاويہ كہتا ہے كہ ہے كوئي جو ابوالحسن پر حملہ آور ہو اور اپنے مقتول بزرگوں كا انعليه‌السلام سے انتقام لے گويا فرزند ہند كو دل لگى سوجھى ہے يا وہ كوئي اجنبى ہے جو على (ع)كو نہ پہچانتا ہو كيا تم ہميں اس سانپ سے ڈسوانا چاہتے ہيں جو صحرا كے بيچ رہتا ہے اگر كاٹ لے تو اس كے ز ہر كا منتر نہ ملے ہم تو علىعليه‌السلام كے مقابل اس بجو كى طرح ہيں جو كسى وسيع دشت ميں ہيبت ناك شير غراں كے سامنے آگيا ہو_ عمروعاص نے حيلے سے تو اپنى جان تو بچالى مگر ڈركے مارے اس كا دل سينے ميں دھڑك رہا تھا_

وليد كے اشعار سن كر عمروعاص كو غصہ آگيا اس نے جواب ديا كہ : وليد نے تو علىعليه‌السلام كے رعب دار و وحشت ناك نعروں كى ياد تازہ كردى _ ميدان جنگ ميں شجاعت و دلاورى كے جوہر ان كى ذات سے نماياں ہوتے ہيں جب قريش ان كا ذكر كرتے ہيں تو ان كے دلوں كے پرندے سينوں كے قفس سے پرواز كرنے لگتے ہيں تم مجھے تو تنبيہہ و توبيخ كر رہے درحاليكہ معاويہ اور وليد تك علىعليه‌السلام سے دہشت كھاتے ہيں _ اور وليد اگر تو سچ كہہ رہا ہے اور كوئي سور ماسوار ہے تو علىعليه‌السلام كا سامنا كر خدا كى قسم اگر علىعليه‌السلام كى آواز بھى سن لى تو دل ہوا ہوجائے گا اور رگيں پھول كر كپہ ہوجائيں گى اور عورتيں تيرا سوگ مناتى رہيں گي_(۱۳)

پھر دھوكا

دليرى و جانبازى ، راہ خدا ميں جہاد مقدس اور شرك كے گدى داروں كى بيخ كنى حضرت علىعليه‌السلام كے ايسے نماياں كار نامے ہيں جن كا شمار آپ كے اہم ترين امتيازات و افتخارات ميں ہوتا ہے ليكن معاويہ رائے عامہ كو بدلنے كى خاطر انہى فضائل كو ايسے نقص سے تعبير كرتا تھا جو اس كے خيال كى روسے امور زمامدارى اور امت كى قيادت ميں مانع ثابت ہوتے ہيں _

ايك روز معاويہ نے عبيداللہ بن عمر كو اس كام پر مقرر كيا كہ وہ حضرت امام حسنعليه‌السلام كے پاس

۲۱۸

جائے اور ان سے ملاقات كرے اور ان تك معاويہ كا پيغام پہنچائے جب وہ حضرت امام حسنعليه‌السلام كے پاس پہنچا تو اس نے كہا كہ : آپ كے والد نے اول سے آخر تك قريش كا خون بہايا ہے اور اپنے عمل سے ان كے دلوں ميں جذبہ كينہ و دشمنى كو بر افروختہ كيا ہے كيا آپ ان كا ساتھ ترك نہيں كر سكتے تا كہ زمام خلافت آپ كے اختيار ميں دے دى جائے اس پر حضرت امام حسنعليه‌السلام نے فرمايا كہ : يہ ہرگز ممكن نہيں خدا كى قسم يہ كام كسى بھى صورت ميں عمل پذير نہيں ہوسكتا لگتا ہے كہ تيرا وقت پورا ہوچكا ہے اور تو آج يا كل ميں قتل ہونے والا ہے شيطان نے تجھے فريفتہ كر ليا ہے اسى لئے اس نے تيرے كاروبار كو رونق بخشى ہے خداوند تعالى تجھے نيست و نابود كرے_

عبيداللہ، معاويہ كے پاس واپس آگيا اور تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ چار ہزار سپاہيوں كا لشكر ميدان ميں حملہ آور ہوا اور طائفہ ہمدان كے ايك شخص كے ہاتھوں قتل ہوا امام مجتبىعليه‌السلام نے جوپشين گوئي فرمائي تھى وہ صحيح ثابت ہوئي_

حضرت امام حسنعليه‌السلام نے اس كا خون آلود لاشہ جب زمين پر گرا ہوا ديكھا تو آپ كو مسرت ہوئي اور خداوند تعالى كاشكر ادا كيا_(۱۴)

نويں روز جب كہ پرچم، ہاشم مرقال كے ہاتھ ميں تھا سپاہ اسلام ميں خاندان مذحج اور سپاہ شام سے، عك، لخم اور اشعريوں كے درميان شديد جنگ جارى تھى ، حضرت علىعليه‌السلام كى تلوار سے پانچ سو سے زيادہ عرب كے سربرآورہ اور دلاور قتل ہوئے يہاں تك كہ آپ كى تلوار خميدہ ہوگئي_

راوى كا بيان ہے كہ ہم حضرت علىعليه‌السلام كى خميدہ تلوار ليتے اور اسے سيدھا كرديتے اور واپس دے ديتے جسے لے كر آپ دشمن كى صفوں ميں اتر جاتے خدا كى قسم ہم نے كوئي ايسا شجاع نہيں ديكھا جو دشمن كے لئے علىعليه‌السلام سے زيادہ سخت ہو_(۱۵)

اس روز فريقين كے لشكر ايك دوسرے كى جان لينے پر تلے ہوئے تھے پہلے تو تيروں اور پتھروں سے مقابلہ ہوتا رہا اس كے بعد نيزوں سے جنگ ہوئي جب نيزے بھى ٹوٹ گئے تو تلواروں اور لوہے كے گرزوں سے ايك دوسرے پر حملہ آور ہوئے اس دن ميدان كارزار ايسا

۲۱۹

گرم تھا كہ اسلحہ كى چكاچك كے علاوہ كوئي آواز سنائي نہ ديتى تھى _ نعروں كى گونج ، بجلى كى گرج ، پہاڑوں كى چٹانيں ٹكرانے سے كہيں زيادہ ہولناك تھى فضا اس وقت ايسى گرد آلود تھى كہ لگتا تھا كہ سورج غروب ہو رہا ہے اس گردو خاك اور تاريكى كے درميان پرچم و بيرق كہيں نظر نہ آتے تھے مالك اشتر كبھى سپاہ ميمنہ كى طرف جاتے اور كبھى لشكر ميسرہ كى جانب لپكتے چنانچہ وہ جس لشكر يا قبيلے كے پاس پہنچتے جنگ جارى ركھنے كے سلسلے ميں اس كى حوصلہ افزائي كرتے_

جنگ نصف شب تك جارى رہى اس قت نماز پڑھنے كا بھى موقعہ نہ تھا(۱۵) مالك اشتر مسلسل ميدان جنگ كى جانب بڑھے چلے جارہے تھے يہاں تك كہ كار زار، ان كے پيچھے رہ گيا اور وہ آگے نكل گئے_

اس اثنا ميں حضرت امام مجتبىعليه‌السلام دشمن پر حملہ آور ہونے كے ارادے سے آگے بڑھے ليكن انھيںعليه‌السلام ديكھ كر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : ان كو ميدان جنگ ميں جانے سے روكا جائے كيونكہ ان دو فرزندوں (حضرت امام حسنعليه‌السلام و حضرت امام حسين (ع)) كى جانب ميرى خاص توجہ ہے كہيں ايسا نہ ہو كہ نسل پيغمبر روئے زمين سے مفقود و ناپديد ہوجائے_(۱۶)

اميرالمومنينعليه‌السلام قلب لشكر ميں پيش پيش تھے مالك دائيں پرے ميں اور ابن عباس سپاہ كے بائيں پرے ميں موجود تھے انجام كار يہ جنگ نويں روز اس دسويں شب جو ليلة الہرير(۱۷) كے نام مشہور ہے اختتام پذير ہوئي جس ميں فريقين كا بہت زيادہ جانى و مالى نقصان ہوا اور دونوں لشكروں(۱۸) كے سپاہى بھى تھك چكے تھے مگر تھكن كے آثار سپاہ شام ميں نظر آتے تھے اور فتح و ظفر كى علامات سپاہ عراق سے ہويدا تھيں _

دو لائق سپہ سالاروں كى شہادت

نويں روز جو دردناك حادثات رونما ہوئے ان ميں حضرت علىعليه‌السلام كے دو فرمانداروں يعنى عمار ياسر اور ہاشم مرقال كى شہادت تھى اگرچہ عمار كى عمر نوے سال سے تجاوز كر گئي تھى مگر ان ميں اس

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348