تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 348
مشاہدے: 142033
ڈاؤنلوڈ: 2672


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 142033 / ڈاؤنلوڈ: 2672
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 3

مؤلف:
اردو

روانہ ہوئے_

جب سپاہى جمع ہوگئے تو حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں سات دستوں ميں تقسيم كيا اور دستہ كا كمانڈر و سردار مقرر كيا_

۱_ قيس و عبدالقيس كے دستہ كا سد بن مسعود ثقفى كو_

۲_ تميم، ضبہ، قريش، وبات كنانہ اور اَسَد كے دستہ پر معقل بن قيس يربوعى كو_

۳_ ازد بجيلہ خثعم، انصار اور خزاعہ كے دستہ پر مخنف ابن سليم كو_

۴_ كندا، حضرت موت، قضاعہ اور مہرہ كے دستہ پر حجر بن عدى كو_

۵ _ مذحج و اشعرى قبائل كے دستوں پر زياد بن نَضر كو_

۶_ ہمدان اور حمير كے قبائل كے دستے پر سعد بن قيس ہمدانى كو_

۷_ طى كے قبائل دستہ پر عدى ابن حاتم كو(۱۹)

ابن عباس اور ''ابوالاسود دُئلى ''كو بصرہ ميں اپنا جانشين مقرر كيا چنانچہ اس شہر سے پانچ لشكروں پر مشتمل افواج اپنے اپنے فرمانداروں كى نگرانى ميں روانہ ہوئيں اور نُخيلة ميں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں پہنچ گئيں _(۲۰)

حضرت على (ع نے فرمانداروں كو مقرر اور دستوں كو منظم كرنے كے بعد زياد بن نَضر (دستہ مذحج اور اشعريوں كے فرماندار)اور شريح بن ہانى كو اپنے پاس بلايا اور ضرورى تذكرات و ہدايات كے بعد انھيں بارہ ہزار سپاہيوں كے ساتھ اگلى منزل كى جانب روانہ كيا اور حكم ديا كہ تمام واقعات كى اطلاعات اور خبريں آپعليه‌السلام كو پہنچائي جائيں _(۲۱)

صفين كى جانب روانگي

روانگى كے بعد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بھى بدھ كے دن بتاريخ ۵ شوال ۳۶ھ اپنے لشكر عظيم كے ہمراہ جس كى تعداد (قراول لشكر) كے ساتھ نوے ہزار سپاہيوں پر مشتمل تھى(۲۲) نُخيلہ سے

۱۸۱

صفين كى جانب روانہ ہوئے_

راستے ميں مختلف حادثات بھى پيش آئے جن ميں سے يہاں صرف دو واقعات كا ذكر كيا جاتا ہے_

۱_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام جس وقت شہر '' رقہ'' ميں داخل ہوئے تو آپ نے وہاں كے لوگوں سے فرمايا كہ دريا پر پل باندھيں تا كہ سپاہ آرام سے دريا پار كرسكے ليكن وہ لوگ چونكہ آپ كى حكومت كے مخالف تھے اسے لئے انہوں نے اس كام كو انجام دينے سے انكار كيا يہى نہيں بلكہ وہ جہاز جو وہاں اس وقت لنگر انداز تھے وہ انھيں بھى اپنے ساتھ لے گئے تا كہ لشكر اسلام كے ہاتھ نہ لگ جائيں اور ہ انھيں اپنے استعمال ميں لائيں يہ كيفيت ديكھ كر حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے عساكر كو حكم ديا كہ وہ پل مَنبج سے گذريں (جو لشكر گاہ سے نسبتاً دور تھا) اس اقدام كے بعد آپعليه‌السلام نے مالك اشتر كو وہيں قيام كرنے كا حكم ديا اور خود اس جانب روانہ ہوگئے_

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ اہل رقہ نے جو سلوك كيا اس سے مالك اشتر خوش تو نہ تھے چنانچہ انہوں نے وہاں كے لوگوں سے كہا كہ خدا كى قسم اگر تم نے پل نہ باندھا اور حضرت علىعليه‌السلام كو واپس نہ آنے ديا تو يں تم سب كو تہ و تيغ كردوں گا، تمہارے مال كو ضبط كرلوں گا اور زمين ويران كرڈالوں گا_

يہ سن كر وہ لوگ ايك دوسرے كا منھ تكنے لگے اور آپس ميں كہنے لگے كہ اشتر جو كہتے ہيں وہ كر گذرتے ہيں حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں يہاں اسى مقصد كے لئے رہنے كا حكم ديا ہے چنانچہ وہ فورا ہى پل باندھنے كيلئے تيار ہوگئے اور تھوڑے عرصے ميں ہى انہوں نے دريا پر پل باندھ ديا اور لشكر اسلام اس پر سے گذر گيا(۲۳) جب لشكر اسلام فرات كے ساحل پر اتر گيا بض افراد نے يہ تجويز پيش كى كہ اتمام حجت كے طور پر معاويہ كو خط لكھا جائے اور اس كو يہ دعوت دى جائے كہ تم سے جو لغزشيں سرزد ہوئي ہيں وہ ان سے اَب باز رہے حضرت علىعليه‌السلام نے ان كى اس تجويز كو قبول كرليا اور كتنى ہى مرتبہ نصيحت آميز خط لكھئے_

۱۸۲

حضرت على (ع)نے مذكورہ خط ميں اس امر كى جانب بھى اشارہ فرمايا كہ (اے معاويہ) مقام خلافت كے لئے وہ شخص سب سے زيادہ سزاوار ہے جو دوسروں كے مقابل رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سب سے زيادہ نزديك ہو وہ كتاب خدا اور احكام اسلام كو دوسرں كى نسبت زيادہ بہتر سمجھتا ہو دين اسلام قبول كرنے ميں وہ سب پر سبقت لے گيا ہو اور جس نے سب سے زيادہ اور بہتر طريقے پر جہاد كيا ہو ميں تمھيں كتاب خدا و سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب آنے اور امت مسلمہ كى خون ريزى سے اجتناب كى دعوت ديتا ہوں _

حضرت علىعليه‌السلام كے خط كى جواب ميں معاويہ نے صرف ايك ہى شعر لكھا اور اس ميں اس نے تہديد آميز رويہ اختيار كيا شعر كا مضمون يہ ہے كہ ميرے اور تمہارے درميان جنگ اور شمشير كے علاوہ كوئي اور چيز فيصلہ نہيں كر سكتي_(۲۴)

شام ميں بحرانى حالات كا اعلان

معاويہ كو جب يہ اطلاع ملى كہ لشكر عراق كى روانگى شام كى جانب ہے تو وہ سمجھ گيا كہ اب كام نامہ و پيام سے گذر كر سنجيدہ صورت اختيار كر گيا ہے چنانچہ اس نے حكم ديا كہ لوگ شہر كى مسجد ميں جمع ہوں تقريبا ستر ہزار لوگ جمع ہوئے عثمان كے خون آلود پيراھن كو ہاتھ ميں ليا معاويہ مسجد كے منبر پر گيا اور كہا: اے شام والو تم نے اس سے پہلے علىعليه‌السلام كے معاملے ميں مجھ پر اعتبار نہيں كيا ليكن اب سب پر يہ بات روشن ہوگئي ہے كہ عثمان كا قتل علىعليه‌السلام كے علاوہ كسى نے نہيں كيا انہوں نے ہى عثمان كے قتل كا حكم صادر كيا اور ان كے قاتلوں كو پناہ دى اور آج انہى افراد پر مشتمل فوج انہوں نے تشكيل دى ہے اور تمہيں نيست و نابود كرنے كے لئے اب ان كا رخ شام كى جانب ہے_(۲۵)

معاويہ كى جب ولولہ انگيز تقرير ختم ہوئي تو لوگ اس كے گرد ہر طرف سے جمع ہوگئے اور اس كے قول و بيان كى تائيد كى اس نے بھى اس موقع سے فائدہ اٹھانے كى غرض سے لوگوں كے گروہ

۱۸۳

بنائے اور انھيں صفين كى جانب روانہ كيا اور ساتھ ہى اس نے شام ميں غير معمولى حالات كا اعلان كرديا اور وہاں كے عوام كو حكم ديا كہ محاذ جنگ پر روانہ ہوں _

معاويہ نے اپنى فوج كو حكم ديا كہ جب وہ شہر سے ايك منزل كے فاصلہ پر پہنچ جائے تو وہيں ٹھہر جائے اور اسے سلامى دے يہاں اس نے ميمنہ، ميسرہ اور مقدم لشكر كے فرماندار مقرر كيئے_

اس كے بعد لشكر وہاں سے روانہ ہوا اور اس سے قبل كہ حضرت علىعليه‌السلام كے دستے صفين پہنچيں(۲۶) وہ وہاں پہنچ گيا اور ايسے وسيع ميدان ميں جہاں سے دريائے فرات كا پانى آسانى سے دستياب ہوسكتا تھا اس نے اپنے خيمے لگائے (يہاں ساحل كے نزديك ديگر مقامات بلندى پر واقع ہيں اسى لئے پانى تك رسائي آسانى سے نہيں ہوسكتي) لشكر شام كى سپاہ كى تعداد تقريبا پچاسى ہزار(۸۵) تھى(۲۷) معاويہ نے قراول لشكر كے فرماندار ابوالاعور سلمى كو چاليس ہزار سواروں كے ساتھ گھاٹ پر مقرر كرديا_(۲۸)

پہلا مقابلہ

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے قراول لشكر كو جب يہ معلوم ہوا كہ معاويہ عظيم فوج كى ساتھ صفين كى جانب روانہ ہوگيا ہے تو انہوں نے اس خوف سے كہ كہيں دشمن كے نرغے ميں نہ گھر جائيں انہوں نے ''ہيت''نامى دريا كو پيچھے چھوڑديا اور حضرت علىعليه‌السلام سے جاملے حضرت علىعليه‌السلام كو جب قراول لشكر كے واپس آنے كى اطلاع ملى اور اس كى وجہ معلوم ہوئي تو آپعليه‌السلام نے فرماندار لشكر كى رائے و تدبير كو قدر و منزلت كى نظر(۲۹) سے ديكھا _

اس كے بعد آپ نے اسى لشكر كو دوبارہ پيش پيش چلنے كيلئے روانہ كيا چنانچہ جب ان كا معاويہ كے قراول دستے سے سامنا ہوا تو انہوں نے اس كى اطلاع حضرت علىعليه‌السلام كو دى اور دريافت كيا كہ اب انھيں كيا اقدام كرنا چاہيے؟ حضرت علىعليه‌السلام نے حضرت مالك اشتر كو ايك دستے كے ہمراہ ان كى مدد كے لئے روانہ كيا اور يہ حكم ديا كہ جب غنيم كا لشكر سامنے آئے تو تم ميرى جانب سے سردار لشكر

۱۸۴

كے فرائض انجام دينا مگر يہ ياد رہے كہ حملے كا آغاز تمہارى جانب سے نہ ہو جب دشمن بالكل ہى مقابل آجائے تو اتمام حجت كى طور پر تم اس سے گفتگو كرنا اور اس كى بات غور سے سننا تا كہ آغاز جنگ كا موجب كينہ عداوت نہ ہو اپنى سپاہ كے ساتھ زياد كو ميمنہ پر اور شريح كو ميسرہ پر مقرر كرنا تم دشمن كے اس قدر نزديك بھى نہ ہونا كہ وہ خيال كرے كہ تم جنگ كے شعلوں كو بر افروختہ كرنا چاھتے ہو اور اس سے اس قدر دور بھى نہ رہنا كہ وہ يہ سمجھنے لگے كہ تم پر اس كا خوف طارى ہے حضرت علىعليه‌السلام نے زياد اور شريح كو خطوط بھى لكھے جن ميں آپ نے يہ حكم صادر فرمايا تھا كہ وہ مالك اشتر كى اطاعت كريں(۳۰) مالك انتہائي تندى و تيزى كے ساتھ روانہ ہوكر قراول دستے تك پہنچ گئے جب رات كى تاريكى سب طرف پھيل گئي تو معاويہ كے فرماندار لشكر ابوالاعور نے مالك اشتر پر شبخون مارا مگر سپاہ اسلام نے اس كى پورى پايمردى سے مقابلہ كيا اور ناچاراُسے پسپا ہونا پڑا_

اگلے روز '' ہاشم بن عتبہ'' كا ابوالاعور سے مقابلہ ہوگيا پہلے تو دونوں فرمانداروں كے درميان پيغامات كا سلسلہ جارى ہوا دونوں كے درميان رنجش و تكرار بھى ہوئي مگر جيسے ہى دن ختم ہوا يہ پيام رسانى اور باہمى درگيرى بھى ختم ہوگئي اگلے روز حضرت علىعليه‌السلام بھى تشريف لے آئے اور معاويہ كے نزديك ہى آپعليه‌السلام نے قيام فرمايا_(۳۱)

پانى پر بندش

حضرت علىعليه‌السلام نے ہر ممكن كوشش كى كہ كوئي ايسى مناسب جگہ مل جائے جہاں انھيں دريائے فرات تك رسائي ممكن ہوسكے مگر آپعليه‌السلام كو اس مقصد ميں كاميابى نہيں ہوئي وہاں تك پہنچنے كا ايك ہى راستہ تھا جسے ابوالاعور نے چاليس ہزار سپاہى تعينات كركے بند كرديا تھا اور وہ سپاہ اسلام كو اس جانب بڑھنے ہى نہيں ديتا تھا_

سپاہ اسلام نے كچھ عرصہ تك اس كو برداشت كيا مگر جب پياس كى شدت كا ان پر غلبہ ہوا تو انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے دريافت كيا كہ انھيں كيا كرنا چاہيے حضرت علىعليه‌السلام نے صعصہ بن صوحان كو

۱۸۵

معاويہ كے پاس اپنے پيغام كے ساتھ روانہ كيا جس ميں آپ نے فرمايا كہ اب جس راہ پر ميں نے قدم ركھ ديا ہے مجھے ہرگز يہ پسند نہيں كہ باہمى مذاكرہ اور اتمام حجت كے بغير جنگ كروں مگر تمہارے قراول لشكر نے ميرے قراول دستے پر حملہ كركے جنگ كا آغاز كرديا ہے اس نے دريا كے راستے كو بند كركے جنگ و جدال ميں پيشقدمى كى ہے اب تم اپنى سپاہ كو حكم دو كہ وہ دريائے فرات كے راستے سے ايك طرف ہوجائے تا كہ ہم جس مقصد كے لئے يہاں آئے ہيں اس پر گفتگو كى جاسكے مگر اس كے ساتھ ہى اگر تم اس بات كے حامى ہو كہ اصل مقصد كو بر طرف كر كے پانى پر جنگ كرو تا كہ اس تك رسائي ہوجائے تو مجھے اس پر بھى عذر نہيں _

معاويہ كو جب يہ پيغام ملا تو اس نے اس كے بارے ميں اپنے ساتھيوں سے مشورہ كيا ان ميں سے بعض نے كہا كہ جس طرح انہوں نے عثمان پر پانى بند كرديا تھا تم بھى بند كرو تا كہ وہ لوگ بھى پياس سے ہلاك ہوجائيں ليكن عمروعاص نے اس اقدام كو لا حاصل سمجھا اور كہا كہ يہ ہو ہى نہيں سكتا كہ تم تو سير ہو كر پانى پيو اور علىعليه‌السلام پيا سے رہ جائيں تم جانتے ہو كہ علىعليه‌السلام كتنے دلاور اور بہادر انسان ہيں عراق و حجاز كے لوگ بھى انہى كے ساتھ ہيں جس روز ہم (حضرت فاطمہعليه‌السلام كے گھر كى تلاشى لے رہے تھے تو ہم دونوں نے ہى علىعليه‌السلام كى زبان سے يہ سنا تھا كہ اگر ميرے ساتھ چاليس آدمى ہى ہوتے انقلاب برپا كرديتا_(۳۲)

مگر اس كے ساتھ ہى معاويہ نے واضح طور پر حضرت علىعليه‌السلام كے نمائندے كو جواب نہيں ديا بس اتنا كہا كہ ميرا فيصلہ جلدى ہى آپ تك پہنچ جائے گا_

''صعصہ'' اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كے پاس واپس آگئے اور پورے واقعے كى آپعليه‌السلام كو اطلاع دي_

جب صعصہ واپس چلے گئے تو معاويہ نے اپنى سپاہ مزيد ايك دستہ ابوالاعور كى مدد كے لئے روانہ كيا اور يہ تاكيد كہ كہ علىعليه‌السلام پر حسب سابق پانى بند ركھا جائے جب اس واقعہ كى اطلاع حضرت علىعليه‌السلام كو ہوئي تو آپعليه‌السلام نے جنگ كرنے كے لئے حكم ديا_

۱۸۶

اشعث بن قيس نے يہ تجويز پيش كى كہ اس مقصد كى بر آورى كا موقع انہيں ديا جائے جب حضرت علىعليه‌السلام نے اس كى اس تجويز سے اتفاق كيا تو ايك فوجى دستہ فرات كى جانب روانہ كيا گيا دونوں لشكروں كے درميان سخت مقابلہ ہوا دونوں جانب سے فرمانداران لشكر نے تازہ دم سپاہى روانہ كئے اور آتش جنگ ہر لحظہ تيز تر ہوتى چلى گئي حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كو فتح ہوئي اس نے فرات كو اپنے قبضہ ميں لے ليا_

اس پر بعض فاتح سپاہيوں نے يہ تجويز پيش كى كہ ہم بھى دشمن كے ساتھ وہى سلوك كريں گے جو اس نے ہمارے ساتھ روا ركھا تھا مگر جب حضرت علىعليه‌السلام تك يہ بات پہنچى تو آپعليه‌السلام نے حكم ديا كہ جس قدر تمہيں ضرورت ہے وہاں سے پانى بھرلاؤ اور معاويہ كے سپاھيوں كو بھى پانى بھرنے دو كيونكہ خداوند تعالى نے تمہيں فتح و كامرانى عطا كى ہے اور ان كے ظلم و تجاوز كو تم سے دور كرديا ہے_(۳۳)

۱۸۷

سوالات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام كى رائے ميں معايہ بے عقل، بے پروا اور جاہ طلب انسان تھا مگر اس كے باوجود آپ نے كيوں خطوط لكھے اور اس كے خطوط كے كيوں جواب ديئے؟

۲_ معاويہ نے شام كے لوگوں كے علاوہ اسلامى حكومت كے كن علاقوں سے لوگوں كو اپنى جانب متوجہ كرنا چاہا اور اس كے لئے اس نے كيا اقدامات كئے؟

۳_حضرت علىعليه‌السلام نے طائفہ باہلہ كے افراد كو اپنے لشكر سے عليحدہ كركے انھيں ديلم كى جانب كيوں روانہ كرديا؟

۴_ جب معاويہ كو علم ہوا كہ حضرت علىعليه‌السلام كا لشكر صفين كى جانب روانہ ہے تو اس نے كيا اقدام كيا؟

۵_ معاويہ جب صفين پہنچ گيا تو اس نے سپاہ علىعليه‌السلام كى شكست كے لئے كيا اقدامات كئے؟ اس كا مختصر حال بيان كيجئے اور اس اقدام پر حضرت علىعليه‌السلام كا كيارد عمل رہا اس كى كيفيت بھى لكھيئے؟

۱۸۸

حوالہ جات

۱_ ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغہ جلد ۶۱/۱۳۶' اس كے علاوہ خود اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام انہى اقوال ميں فرماتے ہيں اس سے زيادہ ميرے لئے اور كيا باعث تردد ہوگا كہ ميرا موازنہ ان لوگوں سے كيا جارہا ہے در حاليكہ ميں عثمان' طلحہ ' زبير ' سعد اور عبدالرحمن كے ہم پلہ نہيں شرح ابن ابى الحديد ج ۱/۱۸۴الدہر انزلنى حتى قيل معاوية و على (زمانے نے مجھے اس قدر گرا ديا ہے كہ ميرا اور معاويہ كا نام ساتھ ليا جاتا ہے)

۲_ عمر ابن خطاب نے معاويہ كو '' كسرائے عرب'' كا لقب ديا تھا اور شورائے خلافت كو تنبيہ كرتے ہوئے فرمايا تھا كہ خبردار اگر تم ايك دوسرے كے ساتھ اختلاف كروگے تو معاويہ شام سے اٹھے گا اور تمہيں مغلوب كر لے گا_

۳_ بطور مثال حضرت علىعليه‌السلام پر حسد كا اتہام لگايا گيا اس كا جواب ديتے ہوئے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے لكھا تھا بالفرض اس الزام ميں اگر كوئي صداقت ہے تو ايسا كوئي جرم نہيں جو تم پر بھى عايد ہوا اور ميں اس كے لئے عذر خواہى كروں بقول شاعر اگر چہ ننگ ہے مگر اس كى گرد تمہارے دامن كو نہ پكڑے گى (نہج البلاغہ مكتوب ۲۸) معاويہ كے خطوط اور حضرت علىعليه‌السلام كے جوابات كے لئے بيشتر اطلاع كے لئے ملاحظہ ہو شرح ابن ابين الحديد ج ۱۵/۱۸۴

۴_ وقعہ صفين ۶۳ ، ۶۲' شرح ابن ابى الحديد ۳/۱۰۹

۵_ ان خطوط كے جوابات كا مطالعہ كرنے كے لئے ملاحظہ ہوكتا ب'' وقعة صفين '' صفات ۶۳' ۷۱' ۷۲' ۷۵' اور ۷۶،

۶_ وقعہ صفين /۶۵/۶۴

۷_ وقعہ صفين ۶۸

۸_ وقعہ صفين ۹۲

۹_ وقعہ صفين ۹۳

۰_ وقعہ صفين ۹۴

۱۱_ وقعہ صفين ۹۴' چونكہ اس كے قاتلين كى تشخيص نہ كى جاسكى اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام نے اس كا خون بہا بيت المال سے ادا كيا_

۱۸۹

۱۲_ ان خطوط كے متون كا مطالعہ كرنے كے لئے كتاب وقعہ صفين كے صفحات ۱۰۸،۱۰۴ملاحظہ ہو_

۱۳_ وقعہ صفين ۱۱۳

۱۴_ وقعہ صفين ۱۱۳

۱۵_ وقعہ صفين ۷_۶

۱۶_ وقعہ صفين ۱۱۶

۱۷_ وقہ صفين ۱۱۵

۱۸_ وقعہ صفين ۱۱۶

۱۹_ وقعہ صفين ۱۲۱

۲۰_ وقعہ صفين ۱۱۷

۲۱_ وقعہ صفين ۱۲۲، ۱۲۱

۲۲_ مروج الذہب ج ۲/۳۷۵ ' سپاہ كى تعداد ايك لاكھ اور ايك لاكھ پچاس ہزار بھى بتائي گئي ہے تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو وقعہ صفين ۱۵۶' اور اعيان الشيعہ ج ۱/۴۷۸ (دس جلدي)

۲۳_ رقہ ، فرات كے كنار ے پرواقع جزيرہ كا ايك شہر ہے اس كا حرّان تك فاصلہ تين دن كا ہے (معجم البلدان ج۳)

۲۳_ وقعہ صفين ۱۵۲، ۱۵۱'يعقوبى ج ۲/۱۸۷، كامل ابن اثير ج ۳/۲۸۱

۲۵_ وقعہ صفين ۱۵۱،۱۴۹' ليس بينى و بين قيس عتاب غير طعن الكلى و ضرب الرقاب

۲۶_ وقعہ صفين ۱۲۷

۲۷_ صفين رومى عہد حكومت كے زمانے كا ايك ويران قريہ تھا اس كے اور فرات كے درميان ايك تير كى دورى كا فاصلہ تھا صفين كے سامنے ساحل كے نزديك دو فرسخ كے رقبے ميں بانسوں كا گھنا جنگل تھا جس كے درميان پختہ راستہ ساحل فرات تك بنا ہوا تھا اور اسى كے ذريعے پانى وہاں سے لايا جاتا تھا (اخبار الطوال /۱۶۷)

۲۸و۲۹_ مروج الذہب ج ۱/۳۷۵' جس طرح حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں سپاہ كى تعداد ميں اختلاف تھامعاويہ كے لشكر كے بارے ميں مورخين متفق الرائے نہيں ہيں _

۱۹۰

۳۰_ كامل ابن اثير ج/ ۲۸۲ ' وقعہ صفين ۱۵۲

۳۱ _ كامل ابن اثير ج ۳/۲۸۲' وقعہ صفين ۱۵۲

۳۲و۳۳_ وقعہ صفين ۱۵۵_ ۱۵۴

۳۴_ وقعہ صفين ۱۶۳

۳۵_ كامل ابن اثير ۳/۲۸۵_ ۲۸۲' وقعہ صفين /۱۶۷و ۱۶۰' مروج الذہب ج۲/۳۷۵' تاريخ يعقوبى ج۲/۱۸۷

۱۹۱

دسواں سبق

قاسطين (جنگ صفين)۲

نمايندگان كى روانگي

دوبارہ وفود كى روانگي

معاويہ كے نمائندے

دغہ بازى كمزور حربہ

فيصلہ كن جنگ

عام جنگ

قرآن كى طرف دعوت

معاويہ كہاں ہے؟

حضرت علىعليه‌السلام ميدان كارزار ميں

دوستوں كى حمايت و مدد

سوالات

حوالہ جات

۱۹۲

نمائندگان كى روانگي

جب اس راستے پر قبض ہوگيا جو لب دريا تك جاتا تھا تو حضرت علىعليه‌السلام نے دو روز تك توقف فرمايا اس كے بعد آپعليه‌السلام نے اپنى سپاہ كے سرداروں ميں سے بشير بن عمرو ، سعيد بن قيس اور شبث بن ربعى كو معاويہ كے پاس بھيجا_ اور فرمايا كہ تم ان كے پاس جاؤں اور انہيں اطاعت خدا ، ميرے ہاتھ پر بيعت نيز جماعت كى طرف آنے كى دعوت دو_(۱)

حضرت على (ع كے نمائندے ماہ ذى الحجہ كى پہلى تاريخ كو معاويہ كے پاس پہنچے اور اس كے ساتھ مذاكرات شروع كئے سب سے پہلے بشير نے كہا كہ :اے معاويہ دنيا ختم ہوا چاہتى ہے اور آخرت تم پر آشكار ہونے لگى ہے_ خداوند تعالى تجھے تيرے اعمال كى جزاء دے_ اب تو امت كے درميان تقرفہ اندازى اور خون ريزى سے باز رہو معاويہ نے ان كى گفتگو كو درميان ميں ہى قطع كرديا اور كہا كہ : يہى مشورہ تم نے اپنے آقا كو كيوں نہيں ديا؟ بشير نے جواب ديا كہ وہ تمہارے جيسے نہيں ہيں وہ دين ، فضيلت ، اسلام ميں سابقہ زندگى اور رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ قرابت دارى كے اعتبار سے اور اس امر و قصد كيلئے بہترين اور اہل ترين فرد ہيں _

اس كہ بعد شبث نے گفتگو شروع كى معاويہ نے جب اس كى مدلل گفتگو سنى تو وہ حيران رہ گيا اور جب كوئي جواب بن نہ پڑا تو طيش ميں اس كى زبان سے كچھ ناشايستہ الفاظ نكل گئے _ اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے نمائندوں سے كہا كہ يہاں سے اٹھو اور چلے جاؤ_ ميرے اور تمہارے درميان فيصلہ اب تلوار ہى كرے گي_ اس پر شبث نے كہا كہ تم ہميں تلوار سے ڈرا رہے ہو خدا كى قسم ہم جلدى ہى تمہيں گرداب بلا ميں گرفتار ديكھيں گے_ يہ كہہ كر يہ نمائندے وہاں سے اٹھ گئے اور حضرت علىعليه‌السلام كے پاس چلے آئے(۲) _

۱۹۳

اس كے بعد حضرت على عليه‌السلام نے اپنى سپاہ كو حكم ديا كہ وہ چند دستوں ميں تقسيم ہوجائے اور با رى بارى اپنے ان حريفوں اور ہم پلہ قبائل كے ساتھ جو معاويہ كى سپاہ ميں ہيں نبرد آزما ہوں اور اس طرح طرفين نے ماہ ذى الحجہ كو جنگ و نبرد ميں گذارا ديا_(۳)

دوبارہ وفود كى روانگي

ماہ محرم كى آمد جنگ و جدال كو روكنے كا ايك عمدہ بہانہ تھا _ اور فريقين ميں اس امر پر معاہدہ ہوگيا كہ ماہ محرم كے آخر تك جنگ نہ كى جائے_ حضرت علىعليه‌السلام نے اس وقت كو صلح پسندانہ اقدامات كے لئے بہترين موقع جانا_ چنانچہ آپعليه‌السلام نے اس مقصد كے تحت ايك وفد جو عدى بن حاتم ، يزيد بن قيس ، شبث بن ربعى اور زياد بن خَصَفَہ پر مشتمل تھا معاويہ كے پاس بھيجا_

ہر نمائندے نے جو لازم سمجھا وہ كہا_ ليكن معاويہ كى منطق ہميشہ كى طرح اب بھى وہى تھى اس نے پہلے كى طرح اب بھى يہى كہا كہ : ميں جنگ سے دست بردار نہيں ہوسكتا ميرے اور علىعليه‌السلام كے درميان صرف تلوار ہى فيصلہ كر سكتى ہے_ اس ضمن ميں اس نے مزيد كہا كہ : تم ہميں كيوں اس جماعت كى اطاعت و فرمانبردارى كى دعوت دے رہے ہو_ خلافت كے اصل حقدار ہم ہيں نہ كہ تمہارا پيشوا كيونكہ تمہارے پيشوا نے ہمارے خليفہ كو قتل كيا ہے_ ہمارى منظم جماعت كو منتشر كرديا ہے_ اس گفتگو كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كے نمائندے كوئي نتيجہ حاصل كئے بغير واپس آگئے_(۴)

معاويہ كے نمائندے

معاويہ نے بھى ايك وفد جو حبيب بن مسلمہ ، شرحبيل اور معن بن يزيد پر مشتمل تھا حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں روانہ كيا _ انہوں نے گفتگو كا آغار عثمان كے قتل سے كيا اور كہا كہ : اگر تم صادق ہو اور تم نے عثمان كو قتل نہيں كيا تو ان كے قاتلوں كو ہمارے حوالے كرو اس كے بعد خلافت سے دست

۱۹۴

بردار ہوجاؤ اور مسئلہ خلافت كو رائے عامہ پر چھوڑ دو تا كہ لوگ باہمى مشورے اور اتفاق رائے سے جسے چاہيں اپنا خليفہ منتخب كريں _

حضرت علىعليه‌السلام نے اس سے سخت برتاؤ كے ضمن ميں شائستگى سے مذكورہ مسائل كى ترديد كى اور قتل عثمان، اپنى بيعت اور بنى اميہ خصوصا معاويہ كى پہلى زندگى اور حق سے ان كى عداوت كو بيان فرمايا_ معاويہ كے نمائندوں كے پاس چونكہ امامعليه‌السلام كى باتوں كا كوئي جواب نہيں تھا اسلئے وہ اٹھكر چلے گئے_(۵)

دغہ بازى كمزور كا حربہ

معاويہ كے لشكر كا سپاہ اسلام كے ساتھ پہلا معركہ پانى پر ہوا اور اس كے لشكر كو شكست ہوئي اس شكست اور اس طرز گفتگو سے جو اميرالمومنينعليه‌السلام سے براہ راست نيز آپعليه‌السلام كے نمائندگان كے ذريعے ہوئي اس نے سپاہ اسلام كى قوت ، ان كے جذبہ ايثار اور فوج كے بعض سردار و كمانڈروں كى مددگارى كا اندازہ لگايا اور جان ليا كہ جو لوگ ايمان و عقيدت سے سرشار ہوركر جنگ كرنے كے لئے آئے ہيں اگر بالفرض ان كے ساتھ جنگ ہوئي بھى تو پنجہ كشى كركے سنگين خسارے كے باوجود نصرت و فتح حاصل نہيں كى جاسكتي_ بالخصوص ان حالات ميں جب كہ ان كے چاروں طرف خطرہ ہى خطرہ ہے_ چنانچہ انہوں نے يہ ارادہ كيا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ كے بعض سرداروں سے ملاقات كى جائے اور انھيں لالچ كے ذريعے شوق و ترغيب ولا كر نيز سپاہ كے درميان شك و شبہ پيدا كر كے ان ميں تفرقہ پيدا كيا جائے تا كہ اس كے باعث عساكر اسلام ميں كمزورى و ناتوانى پيدا ہوجائے اور بالاخرہ شكست و پسپائي سے دوچار ہوں _

اس راہ ميں انہوں نے جو عملى تدابير اختيار كيں ہم ان كے يہاں چند نمونے پيش كريں گے_

۱۹۵

لشكر كے سرداروں سے ملاقات

حضرت علىعليه‌السلام كا وفد جب معاويہ سے رخصت ہوكر چلا گيا تو اس نے اس وفد كے ايك ركن زيادبن خَصَفَہ سے دوبارہ ملاقات كرنے كى خواہش ظاہر كي_ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام سے متعلق گفتگو كرتے ہوئے اس نے زياد سے كہا كہ وہ اپنے قبيلے كے ہمراہ اس كام ميں ميرى مدد كرے اور ان سے يہ وعد كيا كہ وہ اپنے مقصد ميں كامياب ہوگيا تو شہر بصرہ يا كوفہ كى حكومت اس كو دے دى جائے گي_

ليكن معاويہ كو اس سے مدد و تعاون ميں مايوسى ہوئي تو اس نے عمروعاص سے كہا كہ ہم علىعليه‌السلام كے لشكر كے سرداروں ميں سے جس كے ساتھ بھى گفتگو كرتے ہيں وہ ہميں اطمينان بخش لگتا ہے وہ سب دل سے باہمى طور پر متحد ہيں(۶) _

۲_ قاريوں ، زاہدوں كى جماعت سے ملاقات

معاويہ جب حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے سرداروں اور فرمانداروں كو فريفتہ كرنے ميں نااميد ہوگيا تو اس نے ان قاريوں اور زہد فروشوں كى جانب توجہ كى جن كى ظاہرى زندگى ہى اسلام سے متاثر ہوئي تھي_

شام اور عراق كى سپاہ ميں دونوں لشكروں كے درميان تيس ہزار سے زيادہ قارى قرآن موجود تھے يہ قارى دونوں لشكروں كى صفوں سے نكل كر باہر آگئے اور انہوں نے عليحدہ جگہ پر اپنے خيمے نصب كئے اور يہ فيصلہ كيا كہ فريقين كے درميان ثالث كے فرائض انجام ديں _

اس مقصد كے پيش نظر ان كے نمائندے دونوں سپاہ كے فرمانداروں سے ملاقات كرنے كى غرض سے گئے اور ہر ايك نے اپنے نظريات دوسرے كے سامنے بيان كيئے ان كى طرز گفتگو سے يہ اندازہ ہوتا تھا كہ ان پر معاويہ كى جاد و بيانى كا اثر ہوگيا ہے_

جب يہ جماعت حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئي تو آپعليه‌السلام نے انھيں آگاہ كيا كہ وہ كسى كى پر فريب گفتگو سے متاثر نہ ہوں _ اور فرمايا كہ : اس بات كا خيال رہے كہ معاويہ كہيں دين كے

۱۹۶

معاملے ميں تمہارى جانوں كو مفتون و فريفتہ نہ كرلے_(۷)

ليكن ابھى كچھ عرصہ نہ گذرا تھا كہ انہى لوگوں كى كثير تعداد اشعث اور چند ديگر افراد كى سركردگى ميں معاويہ كى جادو وبيانى پر فريفتہ ہوگئے اور جنگ كے معاملے ميں انہوں نے عہد شكنى كى _ اور حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف صف بستہ ہوگئے چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام نے مجبورا معاويہ كى جانب سے مسلط كردہ شرط جنگ بندى كو قبول كرليا_

۳_ سپاہ كے درميان خلل اندازي

معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ كے دلوں ميں تذبذب و تزلزل پيدا كرنے اور ذہنوں پر خوف و ہراس طارى كرنے كى غرض سے اس دوران جب كہ فريقين كے درميان جنگ جارى تھى حكم ديا كہ خط لكھا جائے جسے تير پر باندھ كر حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں پھينك ديا گيا_

اس خط كا مضمون يہ تھا كہ : خدا كے ايك خير انديش بندے كى طرف سے لشكر عراق كو پيغام _ آگاہ كيا جاتا ہے كہ معاويہ نے تم پر دريائے فرات كا كنارہ كھول ديا ہے وہ چاہتا ہے كہ تمام لشكر عراق كو اس ميں غرق كردے_ جس قدر ممكن ہوسكے فرار كر جاؤ_

اہل كوفہ ميں سے ايك شخص نے يہ خط اٹھاليا اور پڑھ كر دوسرے كو دے ديا_ اور اسطرح يہ خط دست بدست ايك جگہ سے دوسرى جگہ پہنچ گيا چنانچہ جس شخص نے بھى يہ خط پڑھا لكھنے والے كو خير انديش ہى سمجھا_

معاويہ نے اس اقدام كے بعد دو سو آدميوں كو بيلچے اور كداليں دے كر اس پشتے كى جانب روانہ كرديا جو دريائے فرات پر بنا ہوا تھا اور ان سے كہا كہ تم اپنے كام پر لگ جاؤ_

حضرت علىعليه‌السلام كو جب اس خط كے بارے ميں علم ہوا تو آپعليه‌السلام نے اپنے سپاہيوں سے كہا كہ : معاويہ كا يہ اقدام عملى نہيں وہ چاھتا ہے كہ اپنى سازش سے تمہيں پسپائي كيلئے مجبور كرے اور تمہارے درميا ن آشفتگى و سراسيمگى پيدا كردے اس پر سپاہيوں نے جواب ديا كہ ہم كيسے اس بات پر يقين نہ كريں _ہم ديكھ ہى رہے ہيں كہ ان كے مزدور نہر كھودنے ميں لگے ہوئے ہيں _

۱۹۷

ہم تو يہاں سے كوچ كرتے ہيں _ يہ آپكى مرضى ہے كہ آپ بھى چليں يا يہيں قيام كريں چنانچہ اس فيصلے كے بعد حضرت على عليه‌السلام كے سپاہى پيچھے ہٹنے لگے اور لشكر سے دور جاكر انہوں نے پڑاؤ كيا_ جس جگہ سے حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ نے كوچ كيا تھا اس پر معاويہ كى سپاہ نے قدم جماديئے)_

فيصلہ كن جنگ

ماہ محرم كے ختم ہوتے ہى مذاكرات كا بھى خاتمہ ہوگيا اور فريقين جنگ كيلئے تيار ہوگئے اميرالمومنين فرماتے ہيں : ميں نے تمہيں مہلت دى كہ شايد تم حق كى طرف واپس آجاؤں كلام اللہ كے ذريعے تمہارے لئے حجت و دليل پيش كى ليكن تم شورش و سركشى سے باز نہ آئے _ تم نے دعودت حق سے روگردانى كي_ اس لئے اب تم جنگ و جدال كے لئے تيار ہوجاؤ كيونكہ خداوند تعالى خيانت كاروں كو پسند نہيں كرتا_

اس كے بعد آپ نے لشكروں كى صفوں كو منظم كيا معاويہ نے بھى اپنى سپاہ كو آرستہ كيا_(۹)

اميرالمومنين نے اپنى سپاہ كو مرتب كرتے ہوئے فرمايا كہ : جب تك دشمن پيشقدمى نہ كرے تم جنگ شروع نہ كرنا كيونكہ تمہارے پاس حجت و دليل موجود ہے ان كا جنگ شروع كرنا تمہارے لئے دوسرى حجت و دليل ہے جب انہيں شكست دے چكو تو فرار كرنے والوں كو قتل نہ كرنا _ زخميوں پر حملہ آور نہ ہونا، برہنہ نہ كرنا مردہ لوگوں كے ناك ،كان نہ كاٹنا جس وقت تم ان پر غالب آجاؤ تو تم ان كے گھروں ميں اس وقت تك داخل نہ ہونا جب تك ميں اجازت نہ دوں اس مال كے علاوہ جو ميدان جنگ ميں رہ گيا ہے تم انكى كسى چيز كو ہاتھ نہ لگانا اگر چہ عورتيں تمہيں ، تمہارے سرداروں اور تمہارے نيك بزرگوں كو ناشائستہ الفاظ سے ياد كر رہى ہيں مگر تم انہيں تكليف نہ پہنچانا كيونكہ وہ جسمانى طور پر كمزور اور عقل كے اعتبار سے ناقص ہيں _(۱۰)

سپاہ كو مرتب كرنے كے بعد آپعليه‌السلام نے مالك اشتر كو كوفہ سے سواروں كا اور سھل بن حنيف كو

۱۹۸

بصرہ كے دستہ كا فرماندار مقرر كيا_ كوفہ كى پيادہ فوج كى فرماندارى عمار ياسر كو تفويض كى گئي اور بصرہ كى پيادہ فوج كا فرماندار قيس بن سعد كو مقرر كيا كوفہ و بصرہ كے قاريوں كو آپ عليه‌السلام نے '' مسعر بن فد كى '' كى تحويل ميں ديا اور پرچم ہاشم مرقال ك سپرد كيا_(۱۱)

يكم صفرہ ۳۷ ھ دونوں فوجوں كے درميان جنگ شروع ہوئي كوفہ كى فوج نے مالك كى كمانڈرى اور شام كى فوج نے حبيب بن مسلمہ كى كمانڈرى ميں شديد جنگ كا آغاز كيا يہ معركہ ظہر تك جارى رہا_

اگلے دين ہاشم مرقال ميدان ميں اترے اور شام كے اس لشكر كے ساتھ جو ابوالاعور كى زير فرماندارى ميدان جنگ ميں آيا تھا نبرد آزمائي كى اور شاميوں كے ساتھ سخت جنگ كے بعد وہ واپس اپنى لشكر گاہ ميں آئے_

تيسرے روز عمارياسر مہاجر و انصار بدريوں كے ساتھ ميدان جنگ ميں اترے اور عمرو عاص سے مقابلہ كيا عمار نے اپنى سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : كيا تم ان دشمنوں كو ديكھنا چاہتے ہو جنہوں نے خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف جنگ كى اور دشمنوں كو مدد پہنچائي خداوند تعالى كو چونكہ اپنا دين عزيز تھا اسى لئے اس نے اسے كاميابى عطا كى اور بالاخر اس دشمن نے خوف كى وجہ سے اپنا سر اسلام كے سامنے خم كرديا پيغمبر اكر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے رحلت كے بعد اس دشمن كى مسلمانوں كے خلاف دشمنى و عداوت آشكارا ہوگئي_مسلمانو تم دشمن كے لشكر سے جنگ كرو كيونكہ انكے سردار ان لوگوں ميں سے ہيں جو نور الہى كو خاموش كرنے كا ارادہ كئے ہوئے ہيں _

اس كے بعد انہوں نے پيادہ فوج كے فرماندار زياد بن نَضر كو حكم ديا كہ حملہ كريں اور خود بھى حملہ آور ہوئے اور عمروعاص كو پسپا كرديا_

چوتھے دن حضرت علىعليه‌السلام كے فرزند محمد حنفيہ ميدان جنگ ميں گئے اور عبيداللہ بن عمر سے جنگ كى _ دونوں جانب سے مقابلہ سخت رہا_ بالاخرہ عبيداللہ نے محمد حنفيہ كو جنگى كشتى كى دعوت دى محمد حنفيہ نے پيشقدمى كى مگر حضرت علىعليه‌السلام نے منع كرديا اور خود ان كى جگہ كشتى گيرى كيلئے تشريف لے گئے _مگر

۱۹۹

عبيداللہ بن عمر اس كے لئے تيار نہ ہوا_

پانچويں دن عبداللہ بن عباس كا '' وليد بن عقبہ'' سے مقابلہ ہوا سخت نبرد آزمائي كے بعد انہوں نے وليد بن عقبہ كو جنگى كشتى كى دعوت دى مگر اس كے دل پر خوف طارى ہوگيا اور بالاخر لشكر اسلام فتح و كامرانى كے ساتھ واپس آيا_(۱۲)

چھٹے دن قيس بن سعد اور '' ذى الكلاع'' كے درميان سخت معركہ ہوا سخت نبرد آزمائي كے بعد واپس آيا_

ساتويں دن مالك اشتر كا اپنے سابقہ رقيب سے مقابلہ ہوا اورظہر كے وقت لشكر گا واپس آئے_

عام جنگ

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ديكھا كہ جنگ كو ايك ہفتہ ہوگيا ہے اگرچہ دونوں طرف سے بہت سے سپاہى قتل كئے جاچكے ہيں مگر اس كے باوجود لشكر اسلام كو فتح نصيب نہيں ہو رہى ہے اسى لئے آپ نے عام حملے كا حكم ديا اور فرمايا كہ : ہم كيوں اپنى پورى فوجى طاقت كو حريف كے خلاف جنگ ميں بروئے كار نہ لائيں ؟

اسى لئے آپ نے ۸ صفر شب چہارشنبہ (بدھ كى رات) اپنى سپاہ كے سامنے تقرير كى اور فرمايا كہ : جان لو كہ كل تمہيں دشمن كے روبرو ہونا ہے اس لئے تمام رات عبادت ميں گزارو اور قرآن مجيد كى كثرت سے تلاوت كرو خداوند تعالى سے دعا كرو كہ ہميں صبر و نصرت عطا فرمائے دشمن كے مقابل مكمل پايدارى ، ثابت قدمى سے آنا اور پورى جد و جہد و استوارى سے اس كا مقابلہ كرنا اور ہميشہ راستگو رہنا_

حضرت علىعليه‌السلام كى جيسے ہى تقرير ختم ہوئي آپعليه‌السلام كى سپاہ نے اپنے اسلحہ اور تلوار نيزہ و زوبين و غيرہ كو سنبھالا اور اسے جلا دينى شروع كى _ حضرت علىعليه‌السلام صبح كے وقت تك اپنے لشكر كو آراستہ كرتے

۲۰۰