تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 22%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175304 / ڈاؤنلوڈ: 4063
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

جملہء شرطیہ میں ”فائے تفریع“

ایک اورنکتہ جو”اولوالامر“کے معنی کو ثابت کرنے کے لئے بہت مؤثرہے وہ جملہئ شرطیہ میں اطیعو اللّٰہ واطیعوالرّسول واولی الامر کے بعد”فائے تفریع“کا پایا جا نا ہے۔

یہ جملہء شرطیہ یوں ایاہے:( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه و رسول ) اختلافی مسائل کوخدائے متعال اوررسول (ص)کی طرف پلٹانے کاوجوب،خدا،رسولاوراولی الامرکی اطاعت کے وجوب پرمتفرع ہواہے،اوراس بیان سے بخوبی سمجھ میں آتاہے کہ اختلافی مسائل کوخدااوررسول (ص)ی طرف پلٹانے میں اولوالامرکی اطاعت دخالت رکھتی ہے۔یہ تفریع دوبنیادی مطلب کی حامل ہے:

۱ ۔اولوالامرکی عصمت :اس لحاظ سے کہ اگراولوالامرخطااورگناہ کامرتکب ہو گااور اختلافی مسائل میں غلط فیصلہ دے گا تواس کے اس فیصلہ کاکتاب وسنت سے کوئی ربط نہیں ہوگاجبکہ تفریع دلالت کرتی ہے کہ چونکہ اولی الامرکی اطاعت ضروری ہے لہذا چاہیئے کہ،اختلافی مسائل کوخدااوررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹا یا جائے۔

۲ ۔کتاب وسنت کے بارے میں کامل ووسیع معلو مات:اس لحاظ سے اگراولی الامر کتاب وسنت کے ایک حکم سے بھی جاہل ہواوراس سلسلہ میں غلط حکم جاری کرے تواس حکم میں اس کی طرف رجوع کرناگویاکتاب وسنت کی طرف رجوع نہ کرنے کے مترادف ہے۔جبکہ”فائے تفریع“سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ اولی الامرکی اطاعت مسلسل اختلافی مسائل کوکتاب وسنت کی طرف پلٹانے کاسبب ہے۔اس لئے آیہء شریفہ میں فائے تفریع، کاوجوداولی الامر کے تعین کے لئے کہ جس سے مرادائمہ معصومین (ع)واضح قرینہ ہے۔

۱۰۱

مذکورہ نکات سے استفادہ کی صورت میں اب تک درج ذیل چندمطالب واضح ہوگئے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں ”اولی الامر“سے مرادجوبھی ہیں ان کاامرونہی کر نے میں گناہ اورخطاسے معصوم ہونا ضروری ہے۔

۲ ۔اولی الامرکا انطباق اہل حل وعقدپر صحیح ودرست نہیں ہے۔)جیساکہ فخررازی کا نظریہ ہے)

۳ ۔اب تک جوکچھ ثابت ہوچکا ہے اس کے پیش نظراگر”اولی الامر“کے بارے میں ہمارے بیان کئے گئے گیارہ اقوال پرنظرڈالیں،توآیہء کریمہ کی روشنی میں ”اولی الامر“سے مراد تنہاشیعہ امامیہ کا نظریہ قابل قبول ہے اوریہ امران کے علاوہ دوسروں کے عدم عصمت پراجماع ہونے کی بھی تاکیدکرتاہے۔

ظالم حکام اولوالامرنہیں ہیں

اولوالامرکے مفہوم میں اشارہ کیاگیاکہ اولوالامرمیں صرف وہ لوگ شامل ہیں،جوامت کی سرپرستی ان کے امور کے مالک ہوں،اوریہ عنوان ان پر بھی صادق ہے کہ جنھیں ظلم اورناحق طریقہ سے امت کی سرپرستی سے علیحدہ کیاگیاہے۔اس کی مثال اس مالک مکان کی جیسی ہے،جس کے مکان پرغاصبانہ قبضہ کرکے اسے نکال باہرکر دیاگیاہو۔

دوسرانکتہ جو”اولوالامر“کے مقام کی عظمت اور اس کے بلند مر تبہ ہونے پر دلالت کرتا ہے وہ”اولوالامر“کاخداورسول (ص)کے او پرعطف ہوناہے۔مطلقاً وجوب اطاعت میں خدا ورسول کے ساتھ یہ اشتراک و مقا رنت ایک ایسا رتبہ ہے جوان کے قدرومنزلت کے لائق افراد کے علاوہ دوسروں کے لئے میسرنہیں ہے۔

۱۰۲

یہ دواہم نکتے)مفہوم”اولوالامر“اوروجوب اطاعت کے سلسلہ میں الوالامرکا خداورسولپرعطف ہونا) خود”اولوالامر“کے دائرے سے ظالم حکام کے خارج ہونے کوواضح کرتا ہے۔

زمخشری کاتفسیرالکشاف(۱) میں اس آیہء شریفہ کے ذیل میں کہناہے:

”خدااوررسول (ص)ظالم حکام سے بیزارہیں اوروہ خداورسول کی اطاعت کے واجب ہونے پرعطف کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ان کے لئے شائستہ ترین نام”اللصوص المتغلبہ“ہے۔یعنی ایسے راہزن کہ جو لو گوں کی سر نوشت پرزبردستی مسلط ہوگئے ہیں۔“

اس بیان سے معروف مفسرقرآن،طبری کے نظریہ کاقابل اعتراض ہوناواضح ہوجاتاہے،جس نے ظالم کام کو بھی اولوالامر کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔

اولوالامرکے بارے میں طبری کا قول

مناسب ہے کہ ہم اس سلسلہ میں طبری کے بیان اورا ستدلال کی طرف اشارہ کریں:

اٴولی الاٴقوال فی ذلک بالصواب قول من قال:”هم الاٴمراؤالو لاةلصحة الاٴخبارعن رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بالاٴمربطاعته الاٴئمّة والولاةفیماکان طاعة وللمسلمین مصلحة“

____________________

۱۔الکشاف،ج۱،ص۲۷۷۔۲۷۶،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۳

کالذی حدثنی علی بن مسلم الطوسی قال:ثنا ابن اٴبی فدیک قال:ثنی عبداللّٰه ابن محمدبن عروة،عن هشام بن عروة،عن اٴبی صالح السمان،عن اٴبی هریرة:اٴن النبیّ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وسلم-قال:سیلیکم بعدی ولاة،فیلیکم البرّببرّه،والفاجر بفجوره

فاسمعوالهم واٴطیعوافی کل ماوافق الحق وصلوّاوراء هم!فإن اٴ حسنوا فلکم ولهم،وإن اٴساؤوافلکم وعلیهم!

وحدثنا ابن المثنی قال:ثنا یحیی بن عبیداللّٰه قال:اٴخبرنی نافع،عن عبداللّٰه،عن النبیّ-( ص) -قال:علی المرء المسلم الطا عة فیما اٴحبّ وکره إلاّاٴن یؤمر بمعصیةٍ،فمن اٴمربمعصیة فلا طاعة حدثناابن المثنی قال:ثنی خالدبن عبیداللّٰه،عن نافع،عن اٴبی عمر،عن النبیّ-( ص) -نحوه(۱)

طبری نے تمام اقوال میں سے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ جس میں ”اولوالامر“سے مرادمطلق حکام)نیک وبد)لیا گیاہے۔اوراس سلسلہ میں ان دواحادیث سے استدلال کیا ہے،جن میں حکمران اور فرمانرواؤں کی اطاعت کو مطلق طور پر ضروری جا ناکیا گیا ہے۔

نہ صرف”اولی الامر“کا مفہوم اوراس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونااس نظریہ کو مسترد کرتا ہے،بلکہ ایسی صورت میں طبری کے نظریہ پر چند اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں:

پہلا اعتراض:یہ احادیث قابل اعتبار اورحجت نہیں ہیں،کیونکہ حدیث کی سند میں پہلے ابن ابی فدیک کا نام ہے کہ اہل سنّت کے رجال وحدیث کے ایک امام،ابن سعدکا اس کے بارے میں کہنا ہے:

__________________

۱۔تفسیرطبری،ج۵،ص۹۵،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۴

کان کثیرالحدیث ولیس بحجة(۱)

”اس سے کافی احادیث رو ایت ہوئی ہیں اور)اس کی بات) حجت نہیں ہے“

ابن حبان نے اسے خطا اوراشتباہ کرنے والا جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عروة ہے کہ جس کا علم رجال کی معروف کتابوں میں موثق ہونا ثابت نہیں ہے۔

دوسری حدیث کی سند میں بھی بعض ضعیف اور مجہول افراد پائے جاتے ہیں،جیسے یحییٰ بن عبیداللہ،کے متعلق اہل سنت کے ائمہء رجال جیسے ابوحاتم،ابن عیینہ، یحییٰ القطان،ابن معین ،ابن شیبہ،نسائی اوردار قطبنی نے اسے ضعیف اور قابل مذمت قراردیا ہے۔(۳)

دوسرااعتراض:ان احادیث کا آیہء ”اولی الامر“ سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ احادیث اس آیت کی تفسیر نہیں کرتی ہیں۔

تیسرااعترض:طبری کی یہ تفسیرقرآن مجید کی دوسری آیات سے تناقص رکھتی ہے،من جملہ یہ آیہء شریفہ:

( لاتطیعوااٴمرالمسرفین الذین یفسدون فی الاٴرض ولا یصلحون ) (شعراء/ ۱ ۵۲۔۱۵۱)

”اورزیادتی کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو،جوزمین میں فساد برپاکرتے ہیں اوراصلاح کے در پی نہیں ہیں“

علماء بھی اولوالامرنہیں ہیں

”اولوالامر“کا مفہوم سرپرستی اورولایت کو بیان کرتا ہے اورعلماء کا کردار لوگوں کووضاحت اور آگاہی دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ :

___________________

۱۔الطبقات الکبری،ج۵،ص۴۳۷،داربیروت للطباعةوالنشر

۲۔کتاب الثقات،ج۹،ص۴۲،مؤسسةالکتب الثقافیة

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۲۲۱،دارالفکر

۱۰۵

ایک تو،”اولوالامر“کے عنوان سے صاحبان علم وفقہ ذہن میں نہیں آتے ہیں مگریہ کہ خارج سے اس سلسلہ میں کوئی دلیل موجود ہو جس کے روسے علماء اوردانشوروں کو سر پرستی حاصل ہو جائے اوریہ دلالت آیت کے علاوہ ہے جنہوں نے اس قول کو پیش کیاہے،وہ اس لحاظ سے ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں علماء کی اطاعت کرکے ان کی راہنمائی سے استفادہ کریں۔

دوسرے یہ کہ:اس آیہء شریفہ سے قبل والی آیت میں خداوند متعال نے حکام کے فرائض بیان کئے ہیں:

( وإذا حکمتم بین الناس اٴن تحکموا بالعدل )

”جب کوئی فیصلہ کرو توانصاف کے ساتھ کرو“

زیر بحث آیت میں ”اولوالامر“ کی نسبت لوگوں کی ذمہ داریوں کوبیان کیا گیا ہے اوراس سے واضح ہوتا ہے کہ ”اولوالامر“سے مراد مذکورہ صفات کے حامل وہی حکام ہیں،نہ علمائ

تیسرے یہ کہ:اگراس سے مراد علماء ہیں توکیا یہ علماء بہ طور عام اور بہ حیثیت مجموعی مراد ہیں یا یہ کہ بہ حیثیت استغراقی،ان میں ہرفرد ولی امر ہے اوراس کی اطاعت واجب ہے؟

اگر پہلا فرض مراد ہے ،تواس پر اعتراض اہل حل وعقد والے قول اورفخررازی کے نظریہ کے سلسلہ میں بیان ہوچکا ہے،اوراگردوسری صورت مراد ہے توآیہء شریفہ میں مطلقا طور پر کس طرح ان کی اطاعت واجب ہو ئی ہے،جبکہ اگرایسا ہے تواس کے ضوابط اورشرائط قرآن وحدیث میں بیان ہونے چاہئے تھے۔

چوتھے یہ کہ: پچھلی آیت میں ”فائے تفریع “کی وضاحت میں آیہء شریفہ کے بعد والے جملہ میں آیاہے:( فإنّ تنازعتم فی شیئٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) یہ جملہ فائے تفریع کے ذریعہ پہلے والے جملہ سے مر بوط ہے کہ اس کے معنی اختلافی صورت میں خدا اوررسول کی طرف رجوع کر ناخدا ورسول نیز اولی الامر کی مطلقاً اطاعت کے وجوب پر متفرع ہے۔ اس جملہ سے واضح ہو جا تاہے کہ اختلافی مسائل میں خدااوررسول کی طرف رجوع کر نا ضروری ہے،یہ رجوع کر نا’اولوالامر“ کی اطاعت ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔اوربعد والے جملہ میں لفظ ”اولوالامر“کو نہ لانے کا مقصد بھی اسی مطلب کو واضح کرتا ہے یعنی تنہا”اولوالامر“ ہے جوکتاب وسنت کے معانی و مفاہیم نیز تمام پہلوؤں سے آگاہ ہے لہذا اختلافی مسائل میں اس کی طرف رجوع کر نا درحقیقت خدااوررسولکی طرف رجوع کر نا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مطلقاً یعنی بہ طور کلی علماء ایسے نہیں ہیں سواء ان لو گوں کے کہ جو منجانب اللہ گناہ وخطاء سے محفوظ ہیں۔

۱۰۶

آیہء کریمہ کے بارے میں چند دیگر نکات

اس قول کے بارے میں کہ”اولوالامر“سے مراد علماء ہیں ،مفسرین کے بیانات میں بعض قابل غور باتیں دیکھنے میں آتی ہیں ،شائستہ نکات کو ملحوظ رکھتے ہو ئے آیت میں غور وخوص ان اعتراضات کو واضح کر دیتا ہے پہلا نکتہ: فإنّ تنازعتم میں مخاطبین وہی ہیں جو( یاایّها الذین آمنوا ) میں مخاطبین ہیں۔”آیت میں مخاطب مو منین “کا اولوالامر کے درمیان تقابل کا قرینہ متقاضی ہے کہ”الذین آمنوا“”اولوالامر“ کے علاوہ ہوں کہ جس میں حاکم و فر مانروااولوالامر اور مطیع وفرمانبردارمومنین قرار دیئے جائیں ۔

دوسرانکتہ:اس نکتہ کے پیش نظر،مو منین کے اختلا فات ان کے آپسی ا ختلا فات ہیں نہ ان کے اور اولوالامر کے درمیان کے اختلافات۔

تیسرانکتہ: یہ کہ مو منین سے خطاب مورد توجہ واقع ہو اور اس کو اولی الامر کی طرف موڑ دیا جائے ،یہ سیاق آیت کے خلاف ہے اوراس تو جہ کے بارے میں آیہء شریفہ میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

۱۰۷

چند نظریات پرتنقید

قرطبی اورجصّاص نے جملہ( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) کواس پر دلیل قراردیا کہ”اولوالامر“ سے مرادعلماء ہیں،اورچونکہ جو علماء نہیں ہیں وہ خدا ورسولکی طرف پلٹانے کی کیفیت کو نہیں جانتے ہیں،اس لحاظ سے خدائے تعالیٰ نے علماء کوخطاب کیا ہے اورانھیں جھگڑے اوراختلاف کی صورت میں حکم دیاہے کہ اختلافی مسئلہ کو خدا اور رسول کی طرف پلٹادیں۔ ۱

ابوالسعود نے اپنی تفسیر میں اس قول کو پیش کیا ہے اورمذکورہ دومفسروں نے جو کچھ کہا ہے،اس کے خلاف ہے:جملہء”فإن تنازعتم“اس کی دلیل ہے کہ اولوالامر سے مراد علماء نہیں ہو سکتے ہیں،کیونکہ مقلد مجتہد کے حکم کے بارے میں اس سے اختلاف نہیں کرسکتا ہے!مگر یہ کہ ہم کہیں کہ جملہ”فإن تنازعتم“کا مقلدین سے کوئی ربط نہیں ہے اوریہ خطاب صرف علماء سے ہے اوراس سلسلہ میں کسی حد تک التفات ملا حظہ کیا گیا ہے لیکن ےہ بھی بعید ہے۔ ۲

قرطبی اورجصّاص کے لئے یہ اعتراض ہے کہ وہ التفات)توجہ) کے قائل ہوئے ہیں اور جملہ ”تنازعتم“ کو علماء سے خطاب جاناہے جبکہ بظاہر یہ ہے کہ’ ’تنازعتم“ کا خطاب تمام مومنین سے ہے اوراس التفات کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

ابوالسعودکا اشکال یہ ہے کہ اس نے آیہء شریفہ میں اختلاف کو ”اولوالامر“سے مراد علماء ہو نے کی صورت میں اختلاف بین علماء اور مقلدین سمجھا ہے ،جبکہ مؤ منین سے خطاب ہے،چونکہ مؤ منین آیہء شریفہ میں اولوالامر کے مقابلہ میں قراردئے گئے ہیں ،لہذاان کے اختلافات ان کے آپسی اختلافات ہوں گے،نہ کہ علماء کے فرض کر نے کی صورت میں اولوالامر

____________________

۱۔جامع احکام القرآن،ج۵،ص۲۶۰،دارالفکر۔احکام القرآن جصاص،ج۲،ص۲۱۰،دارالکناف العربی۔

۲۔ارشاد العقل السلیم ،تفسیر ابوالسعود،ج۲،ص۱۹۳،داراحیائ التراث العربی ،بیروت۔

۱۰۸

کے ساتھ یہاں تک واضح ہوا کہ مذکورہ نکات کے پیش نظر”اولوالامر“سے مرادعلمائنہیں ہوسکتے ہیں۔قرطبی اورجصاص کا نظریہ بھی صحیح نہیں ہے،جنھوں نے التفات کا سہارالے کر اس قول کوصحیح قراردینے کی کوشش کی ہے اورابوالسعود کا نظریہ بھی درست نہ ہونے کی وجہ سے اس کامستردہونا واضح ہے۔

اصحاب اور تابعین بھی اولوالامر نہیں ہیں۔

آیہء شریفہ میں چند دوسرے ایسے نکات بھی موجود ہیں کہ جن کی روشنی میں اصحاب یا اصحاب وتابعین یا مہا جرین وانصار کا اولوالامر نہ ہوناثابت کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں عموماً مؤ منین سے خطاب کیا گیا ہے اور ایسے افراد کہ جن کی اطاعت کرنا مؤمنین کے لئے بطور مطلق واجب ہے،ان کا ذکر ہے لہذا مؤمنین وہ لوگ ہیں کہ جن کی شان اطاعت وفرمانبرداری ہے اورخدا ورسول نیز اولوالامر کی شان مو منین کے اوپر مطلقاًاختیار اور فرمانروائی ہے ،ان دونوں کا)مفہوم)ایک دوسرے کے مد مقابل واقع ہو نا واضح قرینہ ہے کہ مؤ منین ”اولوالامر“کے علاوہ ہیں۔مؤمنین کی حیثیت صرف فرمانبرداری ہے،اوران کے مقابل یعنی خداورسول نیزاولوالامر کی حیثیت فرماں روائی ہے۔

یہ مغایرت جس چیزکی تاکید کرتی ہے ،وہ یہ ہے کہ اولوالامرکا تذکرہ خداورسول کے ساتھ ایک سیاق میں واقع ہے اورآیت میں خدا اورسولکی حیثیت سواء مطاع )جس کی اطاعت کی جائے )کے کچھ نہیں ہے،لہذا اولوالامرکی بھی و ہی حیثیت ہو نی چا ہئے۔

اس مطلب کا تقاضا یہ ہے کہ اولوالامر،اصحاب ،تابعین یا مہاجرین وانصارکے زمرے سے نہیں ہوں گے کیوں کہ ایسی صورت میں مذکورہ مغایرت موجود نہیںر ہے گی،حالانکہ جو مؤ منین آیہء شریفہ کے نزول کے وقت اس کے مخاطب واقع ہوئے ہیں وہ،وہی اصحاب ،مہاجرین اور انصا رہیں۔

۲ ۔دوسرانکتہ یہ ہے کہ اگر اولوالامر کے مصداق اصحاب ہوگے، تو کےا یہ تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی ہیں ےا بنحواستغراقی ؟

مزید واضح لفظوں مےں کیا اصحاب مےں سے ہر ایک فرد بہ طورمستقل اولوالامر ہے او ر قوم کی سرپرستی کا اختیاررکھتاہے، یا تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی اس عہدے کے مالک ہیں؟ فطری بات ہے کہ دوسری صورت کے اعتبار پر سب کا اجماع اور اتفاق ہوگا؟

۱۰۹

دوسرا فرض )یعنی عام بہ حیثیت مجموع) ظاہر کے خلاف ہے، جیسا کہ فخررازی کے بیان میں اس کی وضاحت ہو چکی ہے ، او ر پہلا فرض یعنی اصحاب میں سے ہر ایک بہ طور مستقل صاحب ولایت ہوگا، یہ بھی ظاہر اور اصحاب کی سیرت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اصحاب کے زمانہ میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ ہر ایک دوسرے کے لئے )وہ بھی مطلقاً) وجوب اطاعت کا مالک ہوا۔

اس کے علاوہ اصحاب علمی اور عملی لحاظ سے ایک دوسرے سے کافی مختلف تھے۔ان میں کافی تعداد میں ایسے افراد بھی تھے جن میں علمی اور اخلاقی صلاحیتوں کا فقدان تھا۔مثال کے طور پر ولیدبن عقبہ(۱) کے فاسق ہو نے کے بارے میں آیت نازلی ہوئی ہے کہ جس کی خبر کی تحقیق واجب وضروری ہے ان حالات کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ ” اولوالامر“کے مصداق بہ طور مطلق اصحاب یا مہاجرین و انصار ہوں؟

سریہ کے سردار بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

اسی طرح”اولوالامر“ کے مصداق سریہ(۲) کے کمانڈو بھی نہیں ہیں کیونکہ جو کچھ ہم نے بیان کیا، اس کے علاوہ ”اولوالامر“ کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونا، ”اولوالامر“کی مطلق اطاعت کے و اجب ہونے پر دلالت کر تا ہے اور جملہ ”فإن تنازعتم“ کامتفرع ہو نا، خدا و

____________________

۱۔ اصحاب کے بارے میں مصنف کی کتاب ” عدالت صحابہ در میزان کتاب و سنت “ ملاحظہ ہو

۲۔جن جنگوں میں پیغمبراکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے ذاتی طورپر شرکت نہیں کی ہے،انھیں سریہ کہتے ہیں۔

۱۱۰

پیغمبر اور اولوالامرکی مطلق اطاعت نیز”اولوالامر“ کی عصمت پر دلیل ہیں ۔سریہ کے کمانڈ معصوم نہیں ہیں،اس سلسلہ میں اصحاب اورتابعین کی طرف سے کچھ آثار نقل ہوئے ہیں جواس مطلب کی تائید کرتے ہیں۔ہم یہاں پر ان آثار میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

۱ ۔ابن عباس سے ایک حدیث میں روایت کی گئی ہے:آیہء”اولی الامر“ایک ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے،کہ جسے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک سریہ میں )سرپرست و سر براہ کے عنوان سے) بھیجا تھا۔(۱) اس حدیث کی سند میں حجاج بن محمد کا نام آیا ہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیّرفی آخر عمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔

اورابن حجر نے کہا ہے کہ اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے(۲) فطری بات ہے کہ اس کیفیت و حالت کے پیش نظر اس کی روایت معتبر نہیں ہوسکتی ہے۔

۲ ۔ایک دوسری حدیث میں میمون بن مہران سے روایت ہوئی ہے کہ”اولوالامر“ وہ لوگ ہیں جوسریہ)جنگوں) میں شرکت کرتے تھے۔(۳) اس حدیث کی سند میں عنبسة بن سعیدضریس کا نام ہے کہ ابن حبان نے اس کے بارے میں کہا ہے:

”کان یخطی(۴)

”یعنی :وہ مسلسل خطا کا مرتکب ہوتاتھا۔“

____________________

۱۔تفسیر طبری،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تفسیر طبری ،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۴۔تہذیب التہذیب،ج۸،ص۱۳۸

۱۱۱

طبری نے ایک حدیث میں سدی سے نقل کیا ہے(۱) کہ اس نے آیہء ”اولوالامر“ کو اس قضیہ سے مرتبط جانا ہے کہ ایک سریہ)جنگ) میں خالد بن ولیدکوکمانڈر مقرر کیا گیا تھااورس سریہ میں عماریاسر بھی موجود تھے اور انہوں نے ایک مسلمان کو دئے گئے امان کے سلسلہ میں خالد سے اختلاف رای کا اظہارکیا تھا۔(۲)

یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے،کیونکہ ایک تو یہ مرسل ہے اوردوسرے سدی کے بارے میں یحییٰ بن معین ا ورعقیلی سے نقل ہو ا ہے کہ وہ ضعیف ہے اورجوزجانے اسے کافی جھوٹا بتا یا ہے ۔(۳)

۳ ۔بخاری نے آیہء ”اولوالامر“ کی تفسیر میں جو حدیث ذکر کی ہے وہ یوں ہے:

حدثناصدقة بن الفضل،اٴخبرناحج ابن محمّد،عن ابن جریح،عن یعلی بن مسلم،عن سعید بن جبیرعن ابن عباس رضی اللّٰه عنهما:”اٴطیعوااللّٰه واٴطیعوالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی عبداللّٰه بن حذافة ابن قیس بن عدی اذبعثه النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی سریة ۔(۴)

اس حدیث میں سعیدبن جبیران نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آیہء( اٴطیعوااللّٰه واٴطیعواالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم ) عبداللہ بن حذافہ کے بارے میں نازل ہو ئی ہے،جب رسول خدا (ص)نے اس سے ایک سریہ کے لئے روانہ کیا۔

چونکہ یہ حدیث فتح الباری میں ابن حجر کے کلام سے اخذ کی گئی ہے اس لئے احتمال ہے کہ یہ روایت سنید بن داؤد مصیصی سے روایت ہوئی ہو جیسا کہ ابن سکن سے منقول ہے نہ کہ صدقہ بن

____________________

۱۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفة

۲۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفہ

۳۔تہذیب التہذیب،ج۱،ص۲۷۳

۴۔صحیح بخاری،ج۳،ص۳۷۶،کتاب التفسیر،باب قولہ اطیعواللّٰہ۔۔۔ ح۱۰۱۰،دارالقلم ،بیروت

۱۱۲

فضل سے جیسا کہ اکثر نے نقل کیا ہے اور موجودہ صحیح بخاری میں بھی اسی کے حوآلے سے آیا ہے اورسنید بن داؤد کو ابی حاتم ونسائی نے ضعیف جانا ہے۔(۱)

اس بناپر ایک تو یہ بات مسلّم ویقینی نہیں ہے کہ بخاری میں موجود روایت صدقہ بن فضل سے ہوگی،بلکہ ممکن ہے سنید سے ہو جبکہ وہ ضعیف شمار ہو تا ہے۔

دوسرے یہ کہ:اس کی سند میں حجاج بن محمدہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیرفی آخرعمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔“

اور ابن حجر نے کہاہے:اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے۔(۲)

ابوبکراورعمربھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں

مذکورہ وجوہ کے پیش نظر واضح ہوگیا کہ ابوبکر اور عمربھی ”اولوالامر“کے مصداق نہیں ہیں نیزان وجوہ کے علاوہ دین وشریعت سے متعلق سوالات کے جوابات میں ان کی لا علمی ناتوانی اوراحکام الٰہی کے خلاف ان کا اظہار نظر بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ جو تاریخ وحدیث کی کتابوں میں کثرت سے درج ہے۔اس سلسلہ میں کتاب الغدیر کی جلد ۶ اور ۷ کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے۔

اہل سنت کی بعض کتابوں میں درج یہ حدیث کہ جس میں ان کی اقتداء کرنے کااشارہ ہواہے:”إقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر “کئی جہات سے باعث نزاع ہے۔من جملہ یہ کہ اس کی سند میں عبدالملک بن عمیر ہے کہ تہذیب الکمال(۳) میں احمد بن حنبل

____________________

۱۔فتح الباری،ج۸،ص۲۵۳

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تہذیب الکمال،ج۱۸،ص۳۷۳،موسسہ الرسالة

۱۱۳

سے اس کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے:عبد الملک بن عمیر بہت زیادہ مضطرب البیان ہے اس سے منقول میں نے ۵۰۰ سو روایتیں دیکھی ہیں کہ جن میں اکثر غلط ہیںعبدالملک بن عمیر مضطرب الحدیث جداًمااٴری له خمساًئة حدیث، وقد غلط فی کثیرمنها “ اور احمد بن خلیل نے بھی اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ کیا ہے۔اور ابو حاتم سے نقل کیا ہے:)عبدالملک)لیس بحافظ۔۔۔تغیرحفظہ قبل موتہ“عبدالملک کا حافظ درست نہیں ہے اور موت سے پہلے اس کا حا فظ کھو گیا تھا۔

اورترمذی(۱) کی سند میں سالم بن علاء مرادی ہے کہ ابن معین اور نسائی نے اسے ضعیف جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ ترمذی کی سند میں سعید بن یحییٰ بن سعید الاموی ہے کہ ابن حجر نے صالح بن محمد سے نقل کیا ہے:”إنّه کان یغلط “یعنی:”وہ مسلسل غلطی کرتا تھا۔(۳)

اس کے علاوہ اگر اس قسم کی احادیث ثابت ہوتیں توابو بکر اورعمر سقیفہ میں ان سے استدلال کرتے اورخلافت کے لئے اپنی صلاحیت ثابت کرتے جبکہ اس قسم کی کوئی چیز قطعی طورپر نقل نہیں ہوئی ہے اور یہ قطعی طورپرثابت ہے کہ مذکورہ حدیث صاد ر نہیں ہوئی ہے اور جعلی ہے۔

او لیاء شرعی(باپ)بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

باپ،دادا و غیرہ کہ جو ولایت شرعی رکھتے ہیں وہ بھی بہ طور مطلق ”اولوالامر“ نہیں ہیں۔گزشتہ موارد میں ذکر شدہ مطالب سے بھی یہ مسئلہ واضح ہو جاتاہے۔

____________________

۱۔سنن ترمذی ،ج۵،ص۵۷۰،ح۳۶۶۳

۲۔میزان الاعتدال،ج۲،ص۱۱۲،دارالفکر

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۴،ص۸۶

۱۱۴

”اولوالامر“اورحدیث منزلت،حدیث اطاعت اورحدیث ثقلین

حدیث منزلت:

حا کم حسکانی(۱) نے”شواہد التنزیل(۲) “ میں آیہء اولوالامر کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی ہے اوراپنی سند سے مجاہد سے روایت کی ہے:

”واٴُلی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی اٴمیرالمؤمنین حین خلّفه رسول اللّٰه بالمدینة، فقال:اٴتخلفنی علی النساء والصبیان؟ فقال: اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی،حین قال له ”اٴخلفنی فی قومی واٴصلح“فقال اللّٰه: ”واٴُولی الاٴمر منکم“ فقال: هوعلی بن ابی طالب، ولاّه اللّٰه الامر بعد محمد فی حیاته حین خلّفه رسول اللّٰه بالمد ینة،فاٴمراللّٰه العباد بطاعته وترک خلافه

”(آیہء شریفہ کے بارے میں ) ۔۔۔( واٴولی الاٴمرمنکم ) ۔۔۔ مجاہد نے یوں کہا ہے:آیہء شریفہ امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہے،جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔اس وقت علی(علیہ السلام)نے کہا :کیامجھے عورتوں اور بچوں پر جانشین قرا ر د ے ر ہے ہیں؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ تمھاری نسبت میرے

____________________

۱۔حاکم حسکانی اہل سنّت کے بڑے محدثین میں سے ہے۔ذہبی اس کے بارے میں کہتاہے:

الحسکانی القاضی المحدث ابوالقاسم عبیداللّٰہ بن عبداللّٰہ ۔۔۔ محمد بن حساکان القرشی العامری اللنیسا بوری الحنفی الحاکم، و یعرف با بن الحذاء ، شیخ متقن ذو عنایة تامة بعلم الحدیث، حسکانی،قاضی محدث ابوالقاسم عبیداللہ بن عبداللہ محمد بن حسکانی قر شی عامری نیشابوری حنفی مذہب وحاکم ،ابن خداء کے نام سے معروف ہے۔ وہ علم حدیث کے بارے میں قوی اور متقن استاد)شیخ) ہے۔

۲۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۰،مؤسسہ الطبع والنشر

۱۱۵

ساتھ وہی ہے جو ہارون کی نسبت موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی جب موسیٰ(علیہ السلام)نے اپنی قوم سے کہا( اٴخلفنی فی قومی ) ”میری قوم میں میرے جانشین ہو اوراصلاح کرو“)اس آیہء شریفہ میں )خدا وند متعال نے فرمایا ہے:( واٴولی الاٴمر منکم ) ”اولوالامر“)کامصداق)علی بن ابیطالب(علیہ السلام)ہیں کہ خداوند متعال نے انھیں پیغمبر (ص)کی حیات میں اپ کے بعدامت کے لئے سرپرست قرار دیاہے،جب انھیں مدینہ میں اپناجانشین مقرر فرمایا۔لہذا خداوند متعال نے اپنے بندوں کوان کی اطاعت کرنے اوران کی مخالفت ترک کرنے کاحکم دیا ہے۔

اس حدیث میں ،اس مجاہد نامی تابعی دانشور اورمفسرنے آیہء شریفہ”اولی الامر“کی شان نزول کے لئے وہ وقت جانا ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین قراردیا تھا۔

اس حدیث میں ہارون کی وہ تمام منزلتین جو وہ موسیٰ کے حوالے سے رکھتے تھے،علی علیہ السلام کے لئے رسول خدا (ص)کے حوالے سے قراردی گئی ہیں۔من جملہ ان میں سے ایک موسیٰ(علیہ السلام)کی نسبت سے ہارون کی جانشینی ہے۔یہ جانشینی،جس کا لازمہ پوری امت کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کا واجب ہونا ہے،علی علیہ السلام کے لئے معین کی گئی ہے۔

یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس ان نزول سے قطع نظر،حدیث منزلت فریقین )شیعہ وسنی) کے درمیان ثابت اورمسلّم احادیث میں سے ہے،اس طرح کہ حدیث منزلت کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ شان نزول کے سلسلہ میں حاکم حسکانی کا کہنا ہے:

وهذاهوحدیث المنزلة الّذی کان شیخاًابوحازم الحافظ یقول: خرجته بخمسةآلاف إسناد

یہ وہی حدیث منزلت ہے کہ ہمارے شیخ)ہمارے استاد)ابوحازم حافظ)اس کے بارے میں )کہتے ہیں:میں نے اس)حدیث)کو پانچ ہزار اسنادسے استخراج کیا ہے۔“

۱۱۶

لہذا،اس حدیث کے معتبر ہونے کے سلسلے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے۔ ابن عسا کر جیسے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں اسے اصحاب کی ایک بڑی تعدادسے نقل کیا ہے۔(۱)

یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ علی علیہ السلام ،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل اور سب سے اعلم نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات اورآپ کی رحلت کے بعد آپ کے جانشین ہیں۔

حدیث اطاعت:

دوسری دلیل جو”اولوالامر“کو علی علیہ السلام پر منتطبق کرنے کی تاکید کرتی ہے،وہ”حدیث اطاعت“ ہے۔یہ حدیث گوناگوں طریقوں سے مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے:

حاکم نیشا پوری نے اپنی کتاب ”المستدرک علی الصحیحین(۲) میں اسے نقل کیا ہے اورذہبی نے ذیل صفحہ تلخیص کرتے ہوئے اس کے صحیح ہو نے کی تائیدکی ہے۔

حدیث کا متن یوں ہے:

قال رسول اللّٰه- ( ص ) من اٴطاعنی فقداطاع اللّٰه ومن عصانی فقد عصی اللّٰه ومن اٴطاع علیّاً فقد اٴطاعنی ومن عصی علیاًفقدعصانی

”پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے خداکی اطاعت کی اور جس نے میری نافرنی)معصیت)کی گویا اس نے خدا کی نافرمانی کی

____________________

۱۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۵،مؤسسة الطبع والنشر

۲۔المستدرک ،ج۳،ص۱۲۱،دارالمعرفة،بیروت

۱۱۷

ہے۔اور جس نے علی (علیہ السلام) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جو نے علی(علیہ السلام) سے نافرمانی کرے گا اس نے مجھ سے نافرمانی کی ہے۔

اس حدیث میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ نے علی علیہ السلام کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے متلازم قراردیا ہے اوراپنی اطاعت کوخدا کی اطاعت سے متلازم جا ناہے۔اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی سے تعبیر کیا ہے اوراپنی نافرمانی کو خدا کی نافرمانی قراردیا ہے۔

یہ حدیث واضح طور پر علی علیہ السلام کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانند واجب الاطاعت ہونے کی دلیل ہے۔اس کا مضمون آیہء شریفہ” اولوالامر“ کے مضمون کی طرح ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اولوالامر کی اطاعت گویا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت ہے۔حقیقت میں یہ حدیث آیہء شریفہء اولی الامر کے حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام پر انطباق کے لئے مفسر ہے۔

اسی طرح یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی عصمت پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اطاعت حکم اورامرپر متفرع ہے کیونکہ جب تک کوئی حکم و امر نہیں ہوگااطاعت موضوع ومعنی نہیں رکھتی ہے اور حکم وامر ارادہ پر مو قو ف ہے،اورارادہ شوق نیزدرک مصلحت در فعل کا معلول ہے۔جب حدیث کے تقاضے کے مطابق علی علیہ السلام کی اطاعت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کے ملازم ،بلکہ اس کا ایک حصہ ہے،تواس کا امر بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امر اور اس کا ارادہ بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ اوراس کا درک مصلحت بھی عین درک مصلحت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا اوریہ حضرت علی علیہ السلام کی عصمت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔

۱۱۸

حدیث ثقلین:

ایک اور دلیل جو آیہ شریفہ”اولوالامر“کو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام (ائمہء معصوم)پرانطباق کی تاکید کرتی ہے،وہ حدیث ثقلین ہے۔یہ حدیث شیعہ وسنی کے نزدیک مسلّم اور قطعی ہے اور بہت سے طریقوں اور اسناد سے احادیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اگر چہ یہ حدیث متعدد مواقع پر مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے ،لیکن اس میں دوجملے مر کزی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ دوجملے حسب ذیل ہیں:

إنی تارک فیکم الثقلین :کتاب اللّٰه وعترتی اهل بیتی ماإن تمسکتم بهما لن تضلّواابداًوإنّهمالن یفترقا حتی یرداعلی الحوض (۱)

”میں تم میں دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں:ایک کتاب خدااور دوسرے میری عترت کہ جواہل بیت (علیہم السلام)ہیں اگر تم انھیں اختیار کئے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثرپرمیرے پاس وارد ہوں گے ۔“

ابن حجر نے اپنی کتاب”الصواق المحر قة(۲) میں اس حدیث کے بارے میں کہاہے:

”ثقلین سے تمسک کرنے کی حدیث کے بارے میں بہت سے طریقے ہیں۔یہ حدیث بیس سے زیادہ اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔

ان طریقوں میں سے بعض میں آیاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے اس وقت مدینہ میں ارشاد فرمایا کہ جب آپبسترعلالت پرتھے اوراصحاب آپ کے حجرئہ مبارک میں اپ کے گرد جمع تھے۔بعض دوسرے طریقوں سے نقل ہواہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے غدیر خم میں بیان فرمایا ہے۔بعض دوسرے منابع میں ایاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے طائف سے واپسی

___________________

۱۔صحیح ترمذی، ج۵، ص۶۲۱۔۶۲۲دارالفکر۔ مسنداحمد، ج۳، ص۱۷و۵۹وج۵، ص۱۸۱و۸۹ ۱دارصادر، بیروت۔مستدرک حاکم ج۳،ص۱۰۹۔۱۱۰،دارالمعرفة،بیروت۔حضائص النسائی ، ص۹۳، مکتبةنینویٰ۔ اس کے علاوہ اس اسلسلہ میں دوسرے بہت سے منا بع کے لئے کتاب اللہ واھل البیت فی حدیث ثقلین“کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

۲۔الصواعق المحرقة،ص۱۵۰،مکتبة القاہرة

۱۱۹

کے موقع پر فرمایاہے۔ان سب روایتوں کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔کیونکہ ممکن ہے قرآن وعترت کی اہمیت کے پیش نظران تمام مواقع اور ان کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہوگا۔

شیعوں کے ایک بہت بڑے عالم،علامہ بحرانی نے اپنی کتاب ”غایةالمرام(۱) میں حدیث ثقلین کو اہل سنت کے ۳۹ طریقوں سے اور شیعوں کے ۸۲ طریقوں سے نقل کیا ہے۔

اس حدیث شریف میں پہلے،امت کوگمراہی سے بچنے کے لئے دوچیزوں)قرآن مجید اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علہیم السلام )سے تمسک اور پیروی کرنے کی تاکید کی گئی ہے، جو اس بات پردلالت ہے کہ اگر ان دونوں کی یاان میں سے کسی ایک کی پیروی نہیں کی گئی تو ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہو نا یقینی ہے اور یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت) علیہم السلام) اور قرآن مجید ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں اورہرگزایک دوسرے سے جد انہیں ہوں گے۔یہ دو جملے واضح طورپر دلالت کرتے ہیں کہ،اہل بیت علیہم السلام ،جن میں سر فہرست حضرت علی علیہ السلام ہیں ،لوگوں کوچاہیئے وہ قرآن مجید کے مانندان سے متمسک رہیں اوران کے اوامر کی اطاعت کر یں ۔اور یہ کہ وہ قرآن مجید سے کبھی جدا نہیں ہوں گے ،واضح طورپر ان کی عصمت کی دلیل ہے،کیونکہ اگروہ گناہ وخطا کے مرتکب ہو تے ہیں تو وہ قرآن مجید سے جدا ہوجائیں گے،جبکہ حدیث ثقلین کے مطابق وہ کبھی قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے۔

شیعہ وسنی منابع میں اولوالامر سے متعلق حدیثیں

آیہء شریفہ”اولوالامر“کے علی علیہ السلام اورآپ (ع)کے گیارہ معصوم فرزندوں )شیعوں کے بارہ اماموں)پرانطباق کی دلائل میں سے ایک اوردلیل،وہ حدیثیں ہیں،جو شیعہ و سنی کی حدیث کی کتابوں میں درج ہوئی ہیں اور اولوالامرکی تفسیر علی)علیہ السلام)،اورآپ(ع)کے بعدآپ(ع)کے گیارہ معصوم اماموں کی صورت میں

____________________

۱۔غا یةالمرام،ج۲،ص۳۶۷۔۳۰۴

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

رہے_ آپ كے حكم كے مطابق منادى كے ذريعے دشمن كو اعلان جنگ سنايا اور كہا كہ : اے شاميو كل صبح تم سے ميدان كارزار ميں ملاقات ہوگى _(۱۳)

منادى كى آواز جب دشمن كے كانوں ميں پہنچى تو اس كى صفوں ميں كہرام مچ گيا سب نے بيم و ترس كى حالت ميں معاويہ كى جانب رخ كيا اس نے تمام سرداروں اور فرمانداروں كو بلايا اور حكم ديا كہ اپنى فوجوں كو تيار كريں _

حضرت علىعليه‌السلام نے جب اپنے لشكر كو آراستہ كر ليا تو آپعليه‌السلام اپنى جگہ سے اٹھے اور سپاہ ميں جوش و خروش پيدا كرنے كيلئے ان كے سامنے تقرير كى اور فرمايا كہ : اے لوگو خداوند تعالى نے تمہيں اس تجارت كى جانب آنے كى دعوت دى ہے جس ميں عذاب سے نجات دلائي جائے گى اور خير و فلاح كى جانب بلايا ہے_يہ تجارت خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صداقت پر ايمان اور راہ خدا ميں جہاد ہے_ اس كا معاوضہ تمہيں يہ ملے گا كہ تمہارے گناہ بخش دئے جائيں گے اور خُلد بريں ميں تمہيں رہنے كيلئے پاكيزہ مكان مليں گے اور اس كا انتہائي اجر يہ ہے كہ تمہيں خدا كى رضا نصيب ہوگى جو ہر اجر سے كہيں عظيم ہے_ قرآن كا خدا كے محبوب بندوں سے ارشاد ہے كہ : خداوند تعالى ان مجاہدين حق كو دوست و عزيز ركھتا ہے جو محكم ديور كى طرح دشمن كے مقابل آجاتے ہيں اور اس سے جنگ و جدال كرتے ہيں(۱۴) _اپنى صفوں كو سيسہ پلائي ہوئي بنيادوں كى طرح محكم كرلو اور ايك دوسرے كے دوش بدوش رہو_ زرہ پوش سپاہ پيشاپيش رہيں اور جن كے پاس زرہ نہيں انہيں زرہ پوش سپاہ كے عقب ميں ركھا جائے اپنے دانت بھينچے ركھو كيونكہ اس كے باعث شمشير كى ضرب سے كاسہ سر محفوظ رہتا ہے_ اس سے قلب كو تقويت اور دل كو آسودگى حاصل ہوتى ہے_ اپنى آوازوں كو خاموش ركھو اس لئے كہ اس كى وجہ سے سستى و شكست سے نجات ملتى ہے اورچہرہ پر متانت و وقار كى كيفيت پيدا ہوتى ہے اپنے پرچموں كو يكجا ركھو اور انہيں باحميت دلاوروں كے سپرد كرو جو لوگ مصائب و مشكلات ميں صبر كرتے ہيں اور پرچم پر مسلط رہتے ہيں _ وہ اس كى ہر طرف سے حفاظت ميں كوشاں رہتے ہيں _(۱۵)

۲۰۱

حضرت على (ع)كا خطبہ ختم ہونے كے بعد آپ كے اصحاب ميں سے بھى ہر شخص نے اپنے قبيلے كے لشكر ميں جوش و خروش پيدا كرنے كى خاطر تقرير كى _ انہى مقررين ميں سعيد بن قيس بھى شامل تھے چنانچہ وہ اپنے ساتھيوں كے درميان سے اٹھے پہلے تو انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام كے اصحاب كى قدر و منزلت كا ذكر كيا اس كے بعد انہوں نے معاويہ كا تعارف كرايا_(۱۶) اس كے ساتھ ہى انہوں نے اپنے دوستوں كو جنگ كرنے كيلئے ترغيب دلائي_

فريقين كے لشكر چونكہ جنگ كيلئے آمادہ تھے اس لئے بدھ كے دن سخت معركہ ہوا _ رات كے وقت دونوں لشكر بغير فتح و نصرت واپس اپنے خيموں ميں آگئے(۱۷) _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جمعرات كى صبح نماز فجر جلدى پڑھ لى سپاہ سے خطاب كرنے اور جنگ كى ترغيب دلانے كے بعد آپعليه‌السلام نے گھوڑا طلب فرمايا(۱۸) اس پر سوار ہونے كے بعد آپ قبلہ رخ كھڑے ہوگئے انكے دونوں ہاتھ آسمانكى طرف تھے اور خداوند تعالى سے يوں راز و نياز كر رہے تھے: خداوند ا يہ قدم تيرى راہ ميں بڑھ رہے ہيں بدن خستہ و ناتواں ہيں دلوں پر لرزہ و وحشت طارى ہے اور يہ ہاتھ تيرى بارگاہ ميں اٹھے ہوئے ہيں اور آنكھيں تيرى طرف لگى ہوئي ہيں اس كے بعد آپ نے ايك آيت پڑھى جس كا ترجمہ يہ ہے (اے رب ہمارى قوم كے درميان ٹھيك ٹھيك فيصلہ كردے اور تو بہترين فيصلہ كرنے والا ہے_(۱۹)

آخر ميں آپ نے سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا كہ سيرو على بركة اللہ ((۲۰) آگے بڑھو خدا تمہارى پشت و پناہ ہے)_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے نبرد آزما ہونے سے قبل شام كے ہر قبيلے كا نام دريافت فرمايا اس كے بعد آپعليه‌السلام نے اپنى سپاہ كے قبائل كو حكم ديا كہ تم ميں سے ہر سپاہى اپنے ہم نام اور ہم پلہ و شان قبيلے كے ہراس شخص سے جنگ كرے جو دشمن كى صفوں ميں شامل ہے(۲۱) _

سپاہ اسلام كى علامت وہ سفيد رنگ كا كپڑا تھا جو انہوں نے اپنے سرو ں اور بازووں پر باندھ ركھتا تھا_ اور ان كا نعرہ ياللہ، يا احد ، يا صمد ، يا رب محمد يا رحمت اور يا رحيم تھا_

۲۰۲

اس كے برعكس معاويہ كى سپاہ كا نشان زرد پٹى تھى جسے انہوں نے بھى اپنے سروں اور بازووں پر باندھ ركھا تھا_ اور ان كا نعرہ يہ تھا نحن عبادالله حقا حقا يا لثارات عثمان (۲۲)

قرآن كى طرف دعوت

اس سے قبل كہ حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے عمروعاص كا مكر و فريب ظاہر ہو آپعليه‌السلام نے اپنى جمعيت كو بيدار كرنے اور دشمن پر اتمام حجت كى خاطر اس وقت بھى جب كہ آپعليه‌السلام نے اپنى فوج ميں ذرہ برابر زبونى و ناتوانى محسوس نہيں كى ، يہ تجويز پيش كى اور فرمايا كہ : كوئي شخص قرآن شريف اپنے ہاتھ ميں اٹھالے اور دشمن كے نزديك پہنچ كر اسے قرآن كى طرف آنے كى دعوت دے ايك شخص جس كا نام '' سعيد'' تھا اٹھا اور اس نے سپاہ دشمن كى جانب جانے كا اظہار كيا حضرت علىعليه‌السلام نے دوبارہ اپنى اس تجويز كو زبان مبارك سے ادا كيا اسى نوجوان نے آپعليه‌السلام كى اس تجويز پر لبيك كہا كيونكہ اكثر و بيشتر افراد كا خيال تھا جو شخص بھى اس راہ ميں پيشقدمى كرے گا اس كا مارا جانا يقينى ہے_

حضرت '' سعيد'' نے قرآن مجيد ہاتھ ميں ليا اور سپا ہ دشمن سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : اے لوگو شورش و سركشى سے باز آؤ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام قرآنى حكومت اور عدل الہى كى دعوت دے رہے ہيں سيدھا راستہ اختيار كرو سيدھا راستہ وہى ہے جو مہاجرين و انصار نے اختيار كيا ليكن اہل شام نے اس كو اپنے نيزوں اور تلواروں سے ٹكڑے ٹكڑے كرديا_(۲۳)

معاويہ كہاں ہے؟

فريقين كے لشكر كے درميان جنگ جيسے جيسے شديد تر ہوتى جاتى تھي، مالك اشتر ، عمار اور عبداللہ بديل جيسے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے يار و مددگار شير كى طرح غراتے اور دشمن پر حملہ آور ہوتے حضرت علىعليه‌السلام بھى ميدان كارزار ميں داخل ہوئے دشمن كى سپاہ نے جيسے ہى آپعليه‌السلام كو ديكھا اس

۲۰۳

پر خوف و ہراس طارى ہوگيا بعض قبائل كو تو اپنى جان كے لالے پڑگئے اور يہ فكر ستانے لگى كہ كس طرح نجات پائيں چنانچہ قبيلہ خثعم كے سردار عبداللہ خنش نے خثعم قبيلہ عراق كے سرگروہ كعب سے پيغام كے ذريعے يہ درخواست كى كہ صلہ رحم كى خاطر اور ايك دوسرے كے حقوق كا پاس كرتے ہوئے جنگ سے كنارہ كشى اختيار كر لے ليكن مخالفت سے دوچار ہوا_ (۲۴)

اسى اثناء ميں سپاہ اسلام كے فرماندار ميمنہ عبداللہ بديل جو بہت ہى شجاع و دلير شخص اور دو زرہ پہن كر جنگ كرتے تھے دونوں ہاتھوں ميں تلواريں لئے دشمن كى سپاہ كے ميسرہ كى جانب بڑھے اور اسے چيرتے ہوئے ان لوگوں تك پہنچ گئے جو معاويہ كے فدائي كہلاتے تھے يہ لوگ معاويہ كے ايسے جانثار و با وفا دوست تھے جنہوں نے يہ عہد كيا تھا كہ جب تك ہمارے دم ميں دم ہے اس كى حفاظت كرتے رہيں گے معاويہ نے ان فدائيوں كو حكم ديا كہ عبداللہ كے بمقابل آجائيں اور خفيہ طور پر اسے اپنے ميسرہ كے فرماندار حبيب بن مسلمہ سے كہا كہ وہ ابن بديل كو آگے بڑھنے سے روكے ليكن وہ آگے بڑھتے ہى گئے معاويہ نے ناچار مصلحت اس امر ميں سمجھى كہ اپنى جگہ بدل دے اور وہ پيچھے كى طرف بھاگ گيا ليكن عبداللہ پكار پكار كر كہہ رہے تھے يا لثارات عثمان (عثمان كے خون كا بدلہ)معاويہ كى سپاہ نے جب يہ نعرہ سنا تو اس نے انہيں اپنا ہى سپاہى سمجھ كر انہيں راستہ ديا_

معاويہ كو چونكہ دوسرى مرتبہ اپنى جگہ سے ہٹ كر پيچھے آنا پڑا تھا اس لئے اس نے دوبارہ حبيب بن مسلمہ سے كہا كہ ميرى مدد كرو چنانچہ اس نے بڑا سخت حملہ كيا اور دائيں جانب كے لشكر (جناح راست) كو چيرتا ہوا عبداللہ بن بديل تك پہنچ گيا_ عبداللہ سو قاريوں ميں سے اكيلے رہ گئے تھے (باقى سب پسپا ہو چكے تھے) چنانچہ وہ پورى دليرى سے جنگ كرتے رہے اور زبان سے بھى كہتے رہے كہ : معاويہ كہاں ہے_ معاويہ نے جب عبداللہ كو اپنے نزديك ديكھا تو اس نے پكار كر كہا كہ اگر تلوار سے ان پر حملہ نہيں كر سكتے تو انھيں آگے بھى نہ آنے دو ان پر سنگبارى شروع كردو چنانچہ ہر طرف سے اس جانباز اسلام پر اس قدر پتھر برسائے گئے كہ وہ وہيں شہيد ہوگئے_

۲۰۴

معاويہ نے حكم ديا كہ انكے ناك، كان كاٹ لئے جائيں ليكن ان كى عبداللہ بن عامر سے چونكہ سابقہ دوستى تھى اسيلئے وہ مانع ہوئے اور معاويہ نے بھى اس خيال كو ترك كرديا_(۲۶)

حضرت علىعليه‌السلام ميدان كارزار ميں

اميرالمومنين حضرت على كمانڈر انچيف كے فرائض انجام دينے كے علاوہ بہت سے مواقع پر بالخصوص حساس ترين لمحات ميں خود بھى ميدان كارزار ميں پہنچ جاتے اور دشمن كے حملوں كا مقابل كرتے اگرچہ آپ كے اصحاب و فرزند آپعليه‌السلام كے دشمن كے درميان حائل ہوجاتے اور آپكى پورى حفاظت كرتے اور ان كى يہ خبرگيرى آپكے ليئے جنگ كرنے ميں مانع ہوتي_

بطور مثال ايك موقع پر ميان كارزار ميں بنى اميہ كے '' احمر'' نامى غلام جو بڑا جرى و دلاور شخص تھا آگے بڑھا _جس وقت حضرت علىعليه‌السلام كى نگاہ اس پر گئي تو آپ بھى اسكى طرف بڑھے اسى اثناء ميں حضرت علىعليه‌السلام كا غلام جس كا نام '' كيسان'' تھا آگے بڑھ آيا _ دونوں كے درميان كچھ دير تك نبرد آزمائي ہوتى رہى _ بالاخر وہ احمر كے ہاتھوں ماراگيا اب احمر حضرت علىعليه‌السلام كى جانب بڑھا تا كہ آپ كو شہيد كردے_ حضرت علىعليه‌السلام نے اس سے قبل كہ دشمن وار كرے ہاتھ بڑھا كر اس كا گريبان پكڑا اور اسے گھوڑے پر سے كھينچ ليا_ اور اسے سر سے اوپر اٹھا كر زمين پر دے مارا كہ اس كے شانہ و بازو ٹوٹ كر الگ ہوگئے اور ايك طرف كھڑے ہوگئے_ اتنے ميں فرزندان علىعليه‌السلام (حضرت امام حسينعليه‌السلام اور حضرت محمد حنفيہ) وہاں پہنچ گئے اور تلوار كے وارسے اسے ہلاك كرديا_

راوى مزيد بيان كرتا ہے كہ : احمر كے قتل كے بعد شاميوں نے جب حضرت علىعليه‌السلام كو اكيلا ديكھا تو وہ آپعليه‌السلام كى طرف بڑھے اور جان لينے كا ارادہ كيا اگرچہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى جانب بڑھتے رہے مگر آپعليه‌السلام كى رفتار ميں ذرا بھى فرق نہ آيا اور پہلے كى طرح آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے رہے ، حالانكہ اپنے لشكر كى طرف پلٹنے كا ارادہ نہيں تھا_

يہ كيفيت ديكھ كر حضرت امام حسنعليه‌السلام نے اپنے والد محترم سے عرض كى كيا حرج ہے كہ آپعليه‌السلام اپنى

۲۰۵

رفتار تيز كرديں اور اپنے ان دوستوں سے آن مليں جو دشمن كے روبرو كھڑے ہيں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ديا كے اے ميرے فرزند تيرے والد كا اس جہان سے كوچ كرنے كے لئے خاص وقت معين ہے اس ميں ذرا بھى پس و پيش نہيں ہوسكتى _ تيرے والد كو اس بات كا ذرا بھى غم نہيں كہ موت كو اپنى آغوش ميں لے لے يا موت خود ہى آكر گلے لگ جائے_(۲۷)

ايك موقع پر سعيد بن قيس ميدان كارزار ميں موجود تھا اس نے بھى ايك مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں عرض كيا : يا اميرالمومنين آپ دشمن كى صف كے نزديك حد سے زيادہ آگے آجاتے ہيں كيا آپ كو اس بات كا ذرا بھى خوف نہيں كہ دشمن آپ پر وار كر سكتا ہے اس پر آپعليه‌السلام نے فرمايا تھا كہ خداوند تعالى سے بڑھ كر كوئي كسى كا نگہبان نہيں اگر كوئي كنويں ميں گرجائے يا اس پر ديوار گر رہى ہو يا كوئي اور بلا نازل ہو رہى ہو تو خدا كے علاوہ اس كى كوئي حفاظت كرنے والا نہيں اور جب موت آجاتى ہے تو تمام تدابير بيكار ہوجاتى ہيں _(۲۸)

دوستوں كى حمايت و مدد

حضرت علىعليه‌السلام ميدان جنگ ميں عين اس وقت بھى جب كہ ميدان كارزار ميں پيش قدمى فرما رہے ہوتے تھے اگر ضرورت پيش آجاتى تو اپنى جان كو خطرہ ميں ڈال كر وہ اپنے ساتھيوں كى مدد كيلئے تيزى سے پہنچتے_

غرار بن ادہم شامى لشكر كا مشہور سوار تھا ايك روز اس نے عباس بن ربيعہ(۲۸) كو جنگى كشتى كيلئے للكارا عباس گھوڑے سے اتر كر نيچے آگئے اور غرار سے كشتى ميں نبرد آزما ہوگئے سخت زور آزمائي كے بعد عباس نے شامى كى زرہ كو چاك كرديا اس كے بعد آپ نے تلوار نكال كر اس كے سينے پر وارد كيا يہاں تك كہ وہ زخمى ہوكر مارا گيا يہ منظر ديكھ كر لوگوں نے نعرہ تكبير بلند كيا_

ابوالاغَرّ سے يہ واقعہ منقول ہے كہ ميں نے اچانك سنا كہ ميرے پيچھے كوئي شخص يہ آيت تلاوت كر رہا ہے'' قاتلوہم يعذبہم اللہ بايديكم و يخزہم و ينصركم على ہم و

۲۰۶

يشف صدور قوم مومنين'' (انھيں قتل كر ڈالو خدا تمہارے ذريعہ انہيں عذاب ميں مبتلا كرتا ہے اور ذليل كرتا ہے اور تمہارى مدد كرتا ہے مومنوں كے دلوں كو شفا بخشتا ہے اور ان سے كدورت دور كرتا ہے (۲۹)

جب ميں نے پلٹ كرديكھا تو وہاں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو پايا_ اس كے بعد آپعليه‌السلام نے مجھ سے فرمايا ہم سے كس شخص نے دشمن سے جنگ كى ؟ ميں نے عرض كيا كہ آپ كے بھتيجے نے_ اس پر آپعليه‌السلام نے فرمايا كيا ميں نے تمہيں اور ابن عباس كو جنگ كرنے سے منع نہيں كيا تھا؟ انہوں نے جواب ديا كہ جى ہاں آپ نے منع فرماياتھا_ مگر دشمن نے خود ہى مجھے للكارا_ اس پر آپ نے كہا كہ اگر تم نے اپنے پيشوا كى اطاعت كى ہوتى تو وہ اس سے كہيں زيادہ بہتر تھا كہ تم دشمن كى للكار كا جواب ديتے _ اس كے بعد آپ نے بارگاہ خداوندى ميں دعا كى كہ وہ عباس كى لغزش كو معاف كرے اور جہاد كى انہيں جزا دے_

غرّار كے قتل ہوجانے كى وجہ سے معاويہ بہت زيادہ مضطرب و آشفتہ خاطر ہوا چنانچہ اس كے حكم كے مطابق اور انعام كے وعدے پر قبيلہ '' لخم'' كے دو افراد نے عباس بن ربيعہ كو پيكار كى غرض سے للكارا_ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں نبرد آزمائي كى اجازت نہيں دى اور فرمايا كہ معاويہ تو يہ چاہتا ہے كہ بنى ہاشم ميں سے ايك شخص بھى زندہ نہ رہے

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے عباس كے لباس اور اسلحہ سے خود كو آراستہ كيا اور انہى كے گھوڑے پر سوار ہو كر ان دونوں افراد كى طرف روانہ ہوئے اور انہيں وہيں ہلاك كرديا_ ميدان كارزار سے واپس آكر آپ نے عباس كا اسلحہ انہيں واپس كيا اور فرمايا كہ جو كوئي تمہيں نبرد آزمائي كے لئے للكارے پہلے تم ميرے پاس آؤ(۳۰)

اس واقعے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بنى ہاشم بالخصوص خاندان رسالت كى جانب خاص توجہ و عنايت تھى اور انكى جان كى حفاظت كيلئے آپعليه‌السلام ہر ممكن كوشش فرماتے_ چنانچہ بحران جنگ ميں جب كہ آپعليه‌السلام كى جانب تيروں كى بارش ہو رہى تھى اور آپ كے فرزندوں كو دشمن اپنے تيروں كا نشانہ بنائے ہوئے تھا، اس وقت بھى آپعليه‌السلام كو اپنى جان كى پروانہ تھى چنانچہ خود آگے بڑھ كر جاتے اور اپنے ہاتھ سے تيروں كے رخ كو كبھى ايك طرف اور كبھى دوسرى جانب منتشر كرديتے_(۳۱)

۲۰۷

سوالات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے نمائندے معاويہ كے پاس كس مقصد كے تحت روانہ كئے؟

۲_ معاويہ نے اپنے لشكر كى كمزورى كى تلافى كس طرح كرنا چاہى اور لشكر اسلام كو كمزور و ناتوان كرنے كيلئے اس نے كيا اقدامات كئے؟ اس كى دو مثاليں پيش كيجئے؟

۳_ نبرد آزمائي سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے سپاہيوں كے لئے كيا احكامات صادر كئے؟

۴_ پہلى اور دوسرى عام جنگوں كا آغاز كن تاريخوں سے ہوا؟ فريقين كے لشكروں كى علامات و نعرے كيا تھے؟

۵_ حضرت علىعليه‌السلام نے جنگ سے قبل اتمام حجت كے طور پر اور مسلمانوں كى خون ريزى كو روكنے كيلئے كيا اقدامات كيئے؟

۶_ جنگى پہلو كو مد نظر ركھتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام كے سپاھيانہ كردار كو مختصر طور پر بيان كريں _

۲۰۸

حوالہ جات

۱_ائتوا هذا الرجل و ادعوه الى الله و الى الطاعة و الى الجماعة

۲_ وقعہ صفين ص ۱۸۸_ ۱۸۷، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۸۵

۳_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۸۶، وقعہ صفين ص ۱۹۵

۴_ وقعہ صفين ص ۱۹۸_ ۱۹۷

۵_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۳ _ ۲۹۱ ،تاريخ طبرى ج ۵ ص ۷ ، وقعہ صفين ص ۲۰۲_ ۲۰۱

۶_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۰ ، وقعہ صفين ص ۲۰۰ _۱۹۹ ، معاويہ كى اس گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے كہ اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے ديگر سرداران سے بھى اس قسم كى بات كى تھي_

۷_ وقعہ صفين ص ۱۹۰_ ۱۸۸

۸ _ وقعہ صفين ۴۹۰_۴۸۹ ، اس واقعہ كى تفصيل بعد ميں آئے گي_

۹_ وقعہ صفين ص ۱۹۰

۱۰_ وقعہ صفين ص ۲۰۴_۲۰۳

۱۱_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۴ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۱ ، ليكن وقعہ صفين ميں صفحہ ۲۰۵ پر منقول ہے كہ سوار دستے كى كمانڈرى عمار كو اور پيادہ فوج كى عبداللہ بديل كو دى گئي_

۱۲_ كامل ج ۳ ص ۲۹۴ ، ليكن وقعہ صفين ميں درج ہے كہ فريقين كے لشكر فتح و كامرانى كے بغير واپس آئے ملاحظہ ہو وقعہ صفين ص ۲۲۲_

۱۳_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۷۹ ، كامل ج ۳ ص ۲۹۵_ ۲۹۴ ، وقعہ صفين ص ۲۲۳_۲۱۴

۱۴_ سورہ صف آيہ ۴) ان الله يحب الذين يقاتلون فى سبيله صفا كانهم بنيان مرصوص (

۱۵_ نہج البلاغہ كے خطبہ ۱۲۴ كا اقتباس، وقعہ صفين ص ۲۳۵

۱۶_ وقعہ صفين ص ۲۳۶

۱۷ _ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۶

۱۸_ اس سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كى سوارى ميں جانور خچر تھا اس روز آپعليه‌السلام نے تنومند و دراز دم گھوڑا لانے كے لئے حكم

۲۰۹

ديا_ يہ گھوڑا اس قدر تنومند و طاقتور تھا كہ اسے قابو ميں ركھنے كے لئے دو لگا ميں استعمال كرنى پڑتى تھيں اور وہ اپنى اگلى ٹانگوں سے زمين كھودتا رہتا تھا_

۱۹_ سورہ اعراف آيہ ۸۸) رَبَنا افتَح بيننا و بين قومنا بالحق و انت خير الفاتحين (

۲۰_ وقہ صفين ص ۲۳۰ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۷۶

۲۱_ وقعہ صفين ص ۲۲۹ ،كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۸ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۴، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۸۶

۲۲_ وقعہ صفين ص ۳۳۲

۲۳_ وقعہ فين ص ۲۴۴ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۶ ، اس پورے قضيے ميں يہ نكتہ قابل توجہ ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے خير خواہى كا جو يہ اقدام كيا تھا اس كے پيش نظر معاويہ كے كسى سپاہى نے اپنے فيصلہ جنگ پر ترديد نہيں كى وہ اس نوجوان كو ديكھتے رہے ليكن جب معاويہ كى صفوں ميں شكست كے آثار نمودار ہوئے تو اس كے سپاہيوں نے اس شكست كى تلافى كے لئے قرآن كو نيزے پر چڑھا ليا اور وہ بھى سپاہ عراق كو قرآن كى دعوت دينے لگے حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ ميں سے كچھ لوگوں پر اس كا اثر ہوگيا چنانچہ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے كہا كہ حكم صادر كيجئے كہ مالك اشتر واپس آجائيں ورنہ ہم آپعليه‌السلام كو قتل كرديں گے_

۲۵_ حضرت عبداللہ بن بديل كے بھائي كا نام بھى عثمان تھا_ وہ بھى دشمن كے ہاتھوں قتل ہوئے تھے_ يہاں عثمان سے مراد ان كے بھائي ہيں _

۲۶_ وقعہ صفين ص ۲۴۸ _ ۲۴۵، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۶، اگرچہ تاريخ كى كتابوں ميں ايسے كئي دلير جانبازوں كا ذكر ملتا ہے مگر اس كتاب كے اختصار كو مد نظر ركھتے ہوئے ان كى كيفيات بيان كرنے سے چشم پوشى كى گئي ہے تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۴ وقعہ صفين ص ۲۵۸

۲۷_ وقعہ صفين ص ۲۵۰_ ۲۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۸ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۹، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۹

۲۸ _ وقہ صفين ص ۲۵۰ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۹

۲۹_ عباس بن ربيعہ بن حارث بن عبدالمطلب

۳۰_ سورہ توبہ آيہ ۱۴

۳۱_ شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۹

۳۲_ وقعہ صفين ص ۲۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۸، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۹

۲۱۰

گيارھواں سبق

قاسطين (جنگ صفين) ۳

استقامت و پايدارى كى نصيحت

فرار كرنے والوں كى تنبيہ و سرزنش

جنگ ميں مالك كا كردار

دو حجر كى جنگ

حريث كا قتل

آخرى تجويز

بدترين طريقے كا سہارا

دشمن كے سرداروں كا اعتراف

پھر دھوكا

جنگ كى شدت

دو لائق سپہ سالاروں كى شہادت

عمار كى شہادت كارد عمل

سوالات

حوالہ جات

۲۱۱

استقامت و پايدارى كيلئے نصيحت

لشكر اسلام كا مركزى حصہ پہلے كى طرح اب بھى سپاہ دشمن كے قلب ميں جنگ آزما تھا حبيب بن مسلمہ كے سخت حملے كے باعث بائيں بازو كا پَرہ(جناح راست) پسپا ہوكر فرار كرنے لگا تھا اميرالومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ كيفيت ديكھى تو انہوں نے مالك كو حكم ديا كہ ان فرار كرنے والوں كى طرف جاؤ اور ان سے كہو كہ : موت سے بچ كر كہاں جا رہے ہو كيا اس زندگى كى جانب جو قطعى ناپايدار ہے ؟ مالك فرار كرنے والوں كى جانب لپكے اور كئي مرتبہ پكار كر كہا كہ لوگو ميں مالك ہوں ليكن كسى نے ان كى جانب توجہ نہ كى جس كى وجہ يہ تھى كہ بيشتر لوگ انھيں اشتر كے نام سے جانتے تھے لہذا جس وقت انہوں نے كہا كہ ميں مالك اشتر ہوں تو فرار كرنے والے واپس آنے لگے اور ان كے گرد جمع ہوگئے_

مالك نے اپنے زور بيان سے لوگوں كو دوبارہ جنگ و نبرد كيلئے آمادہ كر ليا اس كے بعد انہوں نے قبيلہ '' مذحج'' كے افراد كو جو اپنے دليرى و جنگجوئي ميں مشہور تھے خاص طور پر نبرد آزمائي كى دعوت دى اور كہا كہ ميدان كارزار ميں اپنى مردانگى كے جوہر ديكھائيں اور دشمن كو پسپائي پر مجبور كرديں ان سب نے ايك زبان ہوكر اپنى آمادگى كا اعلان كرديا اور كہنے لگے كہ ہم آپ كے فرمانبردار ہيں طائفہ ہمدان كے سو افراد اور ان كے علاوہ ديگر چند دانشور جرائتمند اور باوفا لوگ مالك كى جانب واپس آگئے اور اس طرح دوبارہ دائيں جانب كا پرہ مضبوط ہوگيا ان كے جوش و خروش كا يہ عالم تھا كہ جس لشكر پر بھى حملہ آور ہوجاتے اسے نيست و نابود كرديتے(۱) چنانچہ ان كے سخت و شديد حملات كا يہ نتيجہ برآمد ہوا كہ دشمن كو مجبور ا پسپا ہونا پڑا_

۲۱۲

فرار كرنے والوں كى تنبيہ و سرزنش

فرار كرنے والے جب واپس آگئے تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اس پيش بندى كے خيال سے كہ يہ اقدام دوبارہ نہ ہو ان سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا كہ : ميں نے تمہارى چابكدستى و دلاورى بھى ملاحظہ كى اور ديگر سپاہ كى صفوں سے تمہيں سرتابى كرتے ہوئے بھى ديكھا_ اہل شام تو جفا كار، پست فطرت اور صحرانشين بدو ہيں مگر افسوس انہوں نے تمہيں راہ فرار دكھا دى جب كہ تم شائستہ و لائق ، برگزيدہ اور سر برآوردہ عرب ہو جو رات كى تاريكيوں ميں قرآن پاك كى تلاوت كرتے تھے لوگ گمراہى ميں بھٹك رہے تھے تم حق كى جانب آنے كى دعوت دے رہے تھے اگر تم فرار كرنے كے بعد واپس نہ آگئے ہوتے تو وہ سخت سزا تمہارے گريبان گير ہوتى جو خداوند تعالى نے مفرورين كيلئے مقرر كى ہے_(۲)

... يہ جان لو كہ جو شخص راہ فرار اختيار كرتا ہے وہ خدا كے غضب كو برانگيختہ كرتا ہے اور خود كو ہلاكت كى جانب لے جاتا ہے اور وہ اس پستى و مذلت كى طرف چلا جاتا ہے جو ہميشہ اس كے ساتھ رہتى ہے وہ اس كے ذريعے اپنے لئے ابدى ننگ و رسوائي اور بد بختى كے سامان مہيا كرتا ہے جو شخص فرار كرتا ہے نہ اس كى عمر ميں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہى اسے خداتعالى كى رضاء و خوشنودى حاصل ہوتى ہے اس بناپر ان مذموم صفات كو حاصل كرنے سے موت كہيں زيادہ گوارا ہے_(۳)

جنگ ميں مالك كا كردار

مالك اشتر دراز قامت ، مضبوط جسم اور لاغر بدن انسان تھے مگر بہت زيادہ طاقتور و تنومند ايك مرتبہ قيس كے دو فرزند مُنقذ اور حمير ان كے بارے ميں گفتگو كر رہے تھے _ منقذنے كہا كہ اگر مالك كى نيت ان كے عمل كى طرح ہے تو عربوں ميں ان كاثانى نہيں اس پر حمير نے جواب ديا كہ ان كا عمل ان كے خلوص نيت كا آئينہ دار ہے_(۴)

مالك سرتاپا ايسے مسلح تھے كہ انھيں پہچانا نہيں جاسكتا تھا شمشير يمانى ان كے ہاتھ ميں تھى جس

۲۱۳

وقت يہ تلوار ان كے ہاتھ ميں گھوم جاتى تھى تو لگتا تھا كہ يہ تلوار نہيں آب رواں ہے اور جس وقت فضا كو چيرتى ہوئي گذرتى تھى تو اس كى چمك سے ديكھنے والوں كى آنكھيں چكا چوند ہوجاتى تھيں _ (۵)

''ابن جمہان'' نے جب ان كى تلوار سے آگ نكلتى ديكھى اور دشمن پر ان كے شگفت آور حملے كو ديكھا تو ان سے كہا: خداوند آپ كى اس عظيم فداكارى كے بدلے ہيں جزاء خير عطا فرمائے جو آپ مسلمانوں اور اميرالمومنين كے دفاع كيلئے انجام دے ديتے ہيں _

مالك نے ہمدانيوں كے ساتھ ان پانچ صفوں كو اپنے محاصرہ ميں لے ليا تھا كہ جنہوں نے معاويہ سے يہ عہد كيا تھا كہ مرتے دم تك تم پر آنچ نہيں آنے ديں گے ليكن مالك نے چار صفوں كو پسپا كرديا_(۶)

مالك جيسے لائق و اہل فرماندار كى موجودگى جہاد ميں سپاہيوں كى حوصلہ مندى اور دل گرمى كا سبب ہوتى وہ جس لشكر پر بھى حملہ آور ہوتے وہ لشكر فرار كرجاتا اور جب كبھى منتشر و پراگندہ سپاہ كے درميان پہنچ جاتے تو انھيں لشكر كى شكل ميں مرتب و منظم كرديتے جس وقت انہوں نے يہ ديكھا كہ سپاہ اسلام كے لشكر كے فرمانداروں اور پرچمداروں ميں سے دو شخص سخت جنگ و نبرد كے بعد شہيد ہوگئے ہيں تو انہوں نے كہا كہ : خدا كى قسم يہى صبر جميل اور كريمانہ عمل ہے اور مرد وہ ہے جو ميدان كارزار ميں يا تو كسى كو قتل كردے يا خود شہيد ہوجائے اور جو اس كے بغير ميدان جنگ سے واپس آتا ہے تو كيا اس كيلئے باعث ننگ و رسوائي نہيں ہے_(۷)

دو حجر كى جنگ

صفر كى ۷ تاريخ كو جب كہ فريقين كے لشكر ايك دوسرے كے مقابل آگئے تو پہلا شص جو معاويہ كے لشكر سے نكل كر ميدان كارزار ميں آيا اور حريف كو نبرد آزمائي كيلئے للكارا وہ ''حجر شرّ''

۲۱۴

كے نام سے مشہور اور اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام كے يار باوفا حضرت حجر بن عدى كا چچازاد بھائي تھا حجر شر كامقابلہ كرنے كے لئے حجربن عدى ميدان جنگ ميں پہنچے اور دو حجر كے درميان سخت نبرد آزمائي ہوئي اسى اثنا ميں '' خزيمہ بن ثابت '' حجر شر كى مدد كے لئے ميدان جنگ ميں آگيا اور حجر بن عدى كو اس نے زخمى كرديا، سپاہ اسلام نے جب يہ منظر ديكھا تو وہ بھى ميدان كارزار كى جانب بڑھے اور خزيمہ بن ثابت كو قتل كرڈالا حجر شر بھى مجاہدان اسلام ميں سے ايك شخص كو قتل كرنے كے بعد اپنے چچازاد بھائي (حجربن عدى)كے ہاتھوں ہلاك ہوا اس كى ہلاكت حضرت علىعليه‌السلام كے لئے باعث مسرت ہوئي اور آپعليه‌السلام بارى تعالى كا شكر بجالائے_(۸)

حريث كا قتل

حريث معاويہ كا غلام تھا تنومند ہونے كى وجہ سے اپنے آقا كا بہت محبوب و پسنديدہ تھا اسے ميدان جنگ ميں اسى وقت بھيجا جاتا تھا جب كہ ميدان كارزار سخت گرم ہوا اور جنگ دشوار و حساس لمحات گذر رہى ہوا اس ميں اور معاويہ ميں شباہت بھى بہت زيادہ تھى چنانچہ كبھى كبھى وہ اپنا مخصوص لباس بھى اس غلام كو پہنا ديتا جس كے باعث لوگ يہ سمجھنے لگتے كہ معاويہ بذات خود ميدان جنگ ميں آگيا ہے_

معاويہ نے اس سے يہ فرمائشے كى كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے علاوہ وہ جس سے بھى چاہے نبرد آزما ہوجائے ليكن عمروعاص نے اسے اپنى باتوں سے يہ ترغيب دلائي كہ موقعہ ملے تو حضرت علىعليه‌السلام سے بھى مقابلہ آرا ہوجائے چنانچہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كا مقابلہ كرنے كے لئے گيا اور كہنے لگا كہ اگر مجھ سے زور آزمائي كرنا چاہتے ہو تو آجاؤ_ حضرت علىعليه‌السلام نے ايك ہى وار ميں اس كے دو ٹكڑے كرديئے اس كے قتل سے معاويہ كو سخت صدمہ ہوا اور اس نے عمروعاص كى سخت ملامت كي_(۹)

۲۱۵

آخرى تجويز

سرزمين صفين پر دونوں لشكروں كا قيام كافى طويل ہوگيا اس عرصے ميں فريقين كا جانى و ، مالى نقصان بھى بہت زيادہ ہوا ايك روز اس وقت جب كہ ميدان كارزار گرم تھا اور حضرت علىعليه‌السلام كے ہاتھوں دشمن كے بہت سے جانباز دلاور مارے جاچكے تھے آپعليه‌السلام نے لشكر حريف كو للكارا اور كہا كہ ہے كوئي جو مجھ سے نبرد آزما ہو مگر دشمن كى صفوں ميں سے كوئي بھى ميدان جنگ ميں نہ آيا اس وقت حضر ت علىعليه‌السلام گھوڑے پر سوار تھے چنانچہ آپعليه‌السلام لشكر شام كے سامنے آئے اور معاويہ كو طلب كيا معاويہ نے كہا كہ ان سے پوچھو كہ كيا كام ہے؟ آپ نے فرمايا كيا اچھا ہوتا كہ معاويہ ميرے سامنے ہوتا اور ميں ان سے بات كرتا يہ سن كر معاويہ عمروعاص كى موافقت كے بعد اپنى صف سے نكل كر سامنے آيا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے فرماياكہ : افسوس تيرے حال پر آخر تو نے كيوں لوگوں كو قتل كرنے پر كمر باندھ ركھى ہے؟ كب تك دونوں لشكر اپنى تلواريں كھينچے رہيں گے كيوں نہ ہم باہم نبرد آزما ہوجائيں تا كہ جو بھى غالب آجائے حكومت اسى كو مل جائے اس پر معاويہ نے عمروعاص سے پوچھا كہ تمہارى كيا رائے ہے؟ كيا ميں علىعليه‌السلام سے نبرد آزمائي كروں عمروعاص نے كہا كہ تجويز تو معقول و منصفانہ ہے اگر اس وقت اس تجويز سے روگردانى كى تو تيرا خاندان ابد تك ذلت و خوارى ميں گرفتاررہے گا_

معاويہ نے كہا كہ : بھلا ميں اور تمہارى باتوں ميں آجاؤں ميں على بن ابى طالبعليه‌السلام كو خوب جانتا ہوں خدا كى قسم اس نے جس سے بھى دست و پنجہ نرم كيا اسى كے خون سے زمين كو سيراب كرديا(۱۰) يہ كہہ كر وہ واپس اپنے لشكر كى جانب چلا گيا اور آخرى صف ميں پہنچ كر پناہ لى يہ منظر ديكھ كر حضرت علىعليه‌السلام كو ہنسى آگئي چنانچہ آپ بھى اپنى جگہ واپس آگئے_(۱۱)

۲۱۶

بدترين طريقے كا سہارا

حارث بن نضر كا شمار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے اصحاب ميں ہوتا تھا عمروعاص كو ان سے خاص دشمنى تھى او ر شايد ہى كوئي ايسى مجلس ہو جس ميں حارث كى برائي نہ كرتا ہو حارث نے بھى عمروعاص كے متعلق كچھ شعر كہے اور اس كے پاس بھيجديئے ان اشعار ميں اسے يہ اشتعال دلايا گيا تھا كہ اگر نيك نام اور كار خير كى تمنا ہے تو على بن ابى طالب كے مد مقابل آجاؤ_

ان اشعار كو پڑھ كر عمروعاص نے قسم كھائي كہ علىعليه‌السلام سے ضرور زور آزمائي كروں گا چاہے ہزار مرتبہ موت كا سامنا كرنا پڑے يہ كہہ كر وہ ميدان كارزار ميں آيا حضرت علىعليه‌السلام بھى اس كى جانب بڑھے حضرت علىعليه‌السلام كو ديكھ كر عمروعاص پر ايسا خوف طارى ہوا كہ اس نے خود كو گھوڑے سے زمين پر گرا ديا اور شرمگاہ كھول دى حضرت علىعليه‌السلام نے منھ پھير ليا تو عمروعاص نے راہ فرار اختيار كي_(۱۲)

دشمن كے سرداروں كا اعتراف

عمروعاص ، عُتبہ ،وليد، عبداللہ ابن عامر اور طلحہ كے بيٹے جيسے لشكر شام كے نامور سردار ايك رات معاويہ كے گرد جمع تھے اور گفتگو حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں ہو رہى تھى عتبہ نے كہا كہ : علىعليه‌السلام كا ہمارے ساتھ رويہ بڑا ہى عجيب و حيرتناك ہے كيونكہ ہم ميں سے كوئي بھى ايسا نہيں بچا جو ان كے ستم كا نشانہ نہ بن چكا ہو ميرے دادا عتبہ اور بھائي حنظلہ كو تو انہوں نے قتل ہى كيا تھا ميرے چچا شيبہ كے قتل ميں بھى وہ شريك تھے وليد تيرے باپ كو بھى علىعليه‌السلام نے ہى قتل كيا ہے اور اے مروان تجھے علىعليه‌السلام سے دو لحاظ سے صدمہ پہنچا ہے_

اس پر معاويہ نے كہا كہ : يہ جو كچھ تم كہہ رہے ہو تو وہ علىعليه‌السلام كى شجاعت كا اعتراف ہے تم نے ان كا كيا بگاڑ ليا؟

مروان نے كہا كہ : آپ كيا چاہتے ہيں ميں ان كا كيا كروں ؟اس نے كہا كہ اپنے نيزے سے ان كى تكہ بوٹى كردو مروان نے كہا كہ : لگتا ہے كہ آپ كو مذاق سوجھاہے اور ہمارے ذريعہ

۲۱۷

آسودہ خاطر ہونا چاہتے ہيں _

اس موقع پر وليد نے بھى چند اشعار كہے جن كا مفہوم و مضمون يہ تھا كہ : معاويہ كہتا ہے كہ ہے كوئي جو ابوالحسن پر حملہ آور ہو اور اپنے مقتول بزرگوں كا انعليه‌السلام سے انتقام لے گويا فرزند ہند كو دل لگى سوجھى ہے يا وہ كوئي اجنبى ہے جو على (ع)كو نہ پہچانتا ہو كيا تم ہميں اس سانپ سے ڈسوانا چاہتے ہيں جو صحرا كے بيچ رہتا ہے اگر كاٹ لے تو اس كے ز ہر كا منتر نہ ملے ہم تو علىعليه‌السلام كے مقابل اس بجو كى طرح ہيں جو كسى وسيع دشت ميں ہيبت ناك شير غراں كے سامنے آگيا ہو_ عمروعاص نے حيلے سے تو اپنى جان تو بچالى مگر ڈركے مارے اس كا دل سينے ميں دھڑك رہا تھا_

وليد كے اشعار سن كر عمروعاص كو غصہ آگيا اس نے جواب ديا كہ : وليد نے تو علىعليه‌السلام كے رعب دار و وحشت ناك نعروں كى ياد تازہ كردى _ ميدان جنگ ميں شجاعت و دلاورى كے جوہر ان كى ذات سے نماياں ہوتے ہيں جب قريش ان كا ذكر كرتے ہيں تو ان كے دلوں كے پرندے سينوں كے قفس سے پرواز كرنے لگتے ہيں تم مجھے تو تنبيہہ و توبيخ كر رہے درحاليكہ معاويہ اور وليد تك علىعليه‌السلام سے دہشت كھاتے ہيں _ اور وليد اگر تو سچ كہہ رہا ہے اور كوئي سور ماسوار ہے تو علىعليه‌السلام كا سامنا كر خدا كى قسم اگر علىعليه‌السلام كى آواز بھى سن لى تو دل ہوا ہوجائے گا اور رگيں پھول كر كپہ ہوجائيں گى اور عورتيں تيرا سوگ مناتى رہيں گي_(۱۳)

پھر دھوكا

دليرى و جانبازى ، راہ خدا ميں جہاد مقدس اور شرك كے گدى داروں كى بيخ كنى حضرت علىعليه‌السلام كے ايسے نماياں كار نامے ہيں جن كا شمار آپ كے اہم ترين امتيازات و افتخارات ميں ہوتا ہے ليكن معاويہ رائے عامہ كو بدلنے كى خاطر انہى فضائل كو ايسے نقص سے تعبير كرتا تھا جو اس كے خيال كى روسے امور زمامدارى اور امت كى قيادت ميں مانع ثابت ہوتے ہيں _

ايك روز معاويہ نے عبيداللہ بن عمر كو اس كام پر مقرر كيا كہ وہ حضرت امام حسنعليه‌السلام كے پاس

۲۱۸

جائے اور ان سے ملاقات كرے اور ان تك معاويہ كا پيغام پہنچائے جب وہ حضرت امام حسنعليه‌السلام كے پاس پہنچا تو اس نے كہا كہ : آپ كے والد نے اول سے آخر تك قريش كا خون بہايا ہے اور اپنے عمل سے ان كے دلوں ميں جذبہ كينہ و دشمنى كو بر افروختہ كيا ہے كيا آپ ان كا ساتھ ترك نہيں كر سكتے تا كہ زمام خلافت آپ كے اختيار ميں دے دى جائے اس پر حضرت امام حسنعليه‌السلام نے فرمايا كہ : يہ ہرگز ممكن نہيں خدا كى قسم يہ كام كسى بھى صورت ميں عمل پذير نہيں ہوسكتا لگتا ہے كہ تيرا وقت پورا ہوچكا ہے اور تو آج يا كل ميں قتل ہونے والا ہے شيطان نے تجھے فريفتہ كر ليا ہے اسى لئے اس نے تيرے كاروبار كو رونق بخشى ہے خداوند تعالى تجھے نيست و نابود كرے_

عبيداللہ، معاويہ كے پاس واپس آگيا اور تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ چار ہزار سپاہيوں كا لشكر ميدان ميں حملہ آور ہوا اور طائفہ ہمدان كے ايك شخص كے ہاتھوں قتل ہوا امام مجتبىعليه‌السلام نے جوپشين گوئي فرمائي تھى وہ صحيح ثابت ہوئي_

حضرت امام حسنعليه‌السلام نے اس كا خون آلود لاشہ جب زمين پر گرا ہوا ديكھا تو آپ كو مسرت ہوئي اور خداوند تعالى كاشكر ادا كيا_(۱۴)

نويں روز جب كہ پرچم، ہاشم مرقال كے ہاتھ ميں تھا سپاہ اسلام ميں خاندان مذحج اور سپاہ شام سے، عك، لخم اور اشعريوں كے درميان شديد جنگ جارى تھى ، حضرت علىعليه‌السلام كى تلوار سے پانچ سو سے زيادہ عرب كے سربرآورہ اور دلاور قتل ہوئے يہاں تك كہ آپ كى تلوار خميدہ ہوگئي_

راوى كا بيان ہے كہ ہم حضرت علىعليه‌السلام كى خميدہ تلوار ليتے اور اسے سيدھا كرديتے اور واپس دے ديتے جسے لے كر آپ دشمن كى صفوں ميں اتر جاتے خدا كى قسم ہم نے كوئي ايسا شجاع نہيں ديكھا جو دشمن كے لئے علىعليه‌السلام سے زيادہ سخت ہو_(۱۵)

اس روز فريقين كے لشكر ايك دوسرے كى جان لينے پر تلے ہوئے تھے پہلے تو تيروں اور پتھروں سے مقابلہ ہوتا رہا اس كے بعد نيزوں سے جنگ ہوئي جب نيزے بھى ٹوٹ گئے تو تلواروں اور لوہے كے گرزوں سے ايك دوسرے پر حملہ آور ہوئے اس دن ميدان كارزار ايسا

۲۱۹

گرم تھا كہ اسلحہ كى چكاچك كے علاوہ كوئي آواز سنائي نہ ديتى تھى _ نعروں كى گونج ، بجلى كى گرج ، پہاڑوں كى چٹانيں ٹكرانے سے كہيں زيادہ ہولناك تھى فضا اس وقت ايسى گرد آلود تھى كہ لگتا تھا كہ سورج غروب ہو رہا ہے اس گردو خاك اور تاريكى كے درميان پرچم و بيرق كہيں نظر نہ آتے تھے مالك اشتر كبھى سپاہ ميمنہ كى طرف جاتے اور كبھى لشكر ميسرہ كى جانب لپكتے چنانچہ وہ جس لشكر يا قبيلے كے پاس پہنچتے جنگ جارى ركھنے كے سلسلے ميں اس كى حوصلہ افزائي كرتے_

جنگ نصف شب تك جارى رہى اس قت نماز پڑھنے كا بھى موقعہ نہ تھا(۱۵) مالك اشتر مسلسل ميدان جنگ كى جانب بڑھے چلے جارہے تھے يہاں تك كہ كار زار، ان كے پيچھے رہ گيا اور وہ آگے نكل گئے_

اس اثنا ميں حضرت امام مجتبىعليه‌السلام دشمن پر حملہ آور ہونے كے ارادے سے آگے بڑھے ليكن انھيںعليه‌السلام ديكھ كر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : ان كو ميدان جنگ ميں جانے سے روكا جائے كيونكہ ان دو فرزندوں (حضرت امام حسنعليه‌السلام و حضرت امام حسين (ع)) كى جانب ميرى خاص توجہ ہے كہيں ايسا نہ ہو كہ نسل پيغمبر روئے زمين سے مفقود و ناپديد ہوجائے_(۱۶)

اميرالمومنينعليه‌السلام قلب لشكر ميں پيش پيش تھے مالك دائيں پرے ميں اور ابن عباس سپاہ كے بائيں پرے ميں موجود تھے انجام كار يہ جنگ نويں روز اس دسويں شب جو ليلة الہرير(۱۷) كے نام مشہور ہے اختتام پذير ہوئي جس ميں فريقين كا بہت زيادہ جانى و مالى نقصان ہوا اور دونوں لشكروں(۱۸) كے سپاہى بھى تھك چكے تھے مگر تھكن كے آثار سپاہ شام ميں نظر آتے تھے اور فتح و ظفر كى علامات سپاہ عراق سے ہويدا تھيں _

دو لائق سپہ سالاروں كى شہادت

نويں روز جو دردناك حادثات رونما ہوئے ان ميں حضرت علىعليه‌السلام كے دو فرمانداروں يعنى عمار ياسر اور ہاشم مرقال كى شہادت تھى اگرچہ عمار كى عمر نوے سال سے تجاوز كر گئي تھى مگر ان ميں اس

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348