تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 348
مشاہدے: 142056
ڈاؤنلوڈ: 2674


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 142056 / ڈاؤنلوڈ: 2674
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 3

مؤلف:
اردو

رہے_ آپ كے حكم كے مطابق منادى كے ذريعے دشمن كو اعلان جنگ سنايا اور كہا كہ : اے شاميو كل صبح تم سے ميدان كارزار ميں ملاقات ہوگى _(۱۳)

منادى كى آواز جب دشمن كے كانوں ميں پہنچى تو اس كى صفوں ميں كہرام مچ گيا سب نے بيم و ترس كى حالت ميں معاويہ كى جانب رخ كيا اس نے تمام سرداروں اور فرمانداروں كو بلايا اور حكم ديا كہ اپنى فوجوں كو تيار كريں _

حضرت علىعليه‌السلام نے جب اپنے لشكر كو آراستہ كر ليا تو آپعليه‌السلام اپنى جگہ سے اٹھے اور سپاہ ميں جوش و خروش پيدا كرنے كيلئے ان كے سامنے تقرير كى اور فرمايا كہ : اے لوگو خداوند تعالى نے تمہيں اس تجارت كى جانب آنے كى دعوت دى ہے جس ميں عذاب سے نجات دلائي جائے گى اور خير و فلاح كى جانب بلايا ہے_يہ تجارت خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صداقت پر ايمان اور راہ خدا ميں جہاد ہے_ اس كا معاوضہ تمہيں يہ ملے گا كہ تمہارے گناہ بخش دئے جائيں گے اور خُلد بريں ميں تمہيں رہنے كيلئے پاكيزہ مكان مليں گے اور اس كا انتہائي اجر يہ ہے كہ تمہيں خدا كى رضا نصيب ہوگى جو ہر اجر سے كہيں عظيم ہے_ قرآن كا خدا كے محبوب بندوں سے ارشاد ہے كہ : خداوند تعالى ان مجاہدين حق كو دوست و عزيز ركھتا ہے جو محكم ديور كى طرح دشمن كے مقابل آجاتے ہيں اور اس سے جنگ و جدال كرتے ہيں(۱۴) _اپنى صفوں كو سيسہ پلائي ہوئي بنيادوں كى طرح محكم كرلو اور ايك دوسرے كے دوش بدوش رہو_ زرہ پوش سپاہ پيشاپيش رہيں اور جن كے پاس زرہ نہيں انہيں زرہ پوش سپاہ كے عقب ميں ركھا جائے اپنے دانت بھينچے ركھو كيونكہ اس كے باعث شمشير كى ضرب سے كاسہ سر محفوظ رہتا ہے_ اس سے قلب كو تقويت اور دل كو آسودگى حاصل ہوتى ہے_ اپنى آوازوں كو خاموش ركھو اس لئے كہ اس كى وجہ سے سستى و شكست سے نجات ملتى ہے اورچہرہ پر متانت و وقار كى كيفيت پيدا ہوتى ہے اپنے پرچموں كو يكجا ركھو اور انہيں باحميت دلاوروں كے سپرد كرو جو لوگ مصائب و مشكلات ميں صبر كرتے ہيں اور پرچم پر مسلط رہتے ہيں _ وہ اس كى ہر طرف سے حفاظت ميں كوشاں رہتے ہيں _(۱۵)

۲۰۱

حضرت على (ع)كا خطبہ ختم ہونے كے بعد آپ كے اصحاب ميں سے بھى ہر شخص نے اپنے قبيلے كے لشكر ميں جوش و خروش پيدا كرنے كى خاطر تقرير كى _ انہى مقررين ميں سعيد بن قيس بھى شامل تھے چنانچہ وہ اپنے ساتھيوں كے درميان سے اٹھے پہلے تو انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام كے اصحاب كى قدر و منزلت كا ذكر كيا اس كے بعد انہوں نے معاويہ كا تعارف كرايا_(۱۶) اس كے ساتھ ہى انہوں نے اپنے دوستوں كو جنگ كرنے كيلئے ترغيب دلائي_

فريقين كے لشكر چونكہ جنگ كيلئے آمادہ تھے اس لئے بدھ كے دن سخت معركہ ہوا _ رات كے وقت دونوں لشكر بغير فتح و نصرت واپس اپنے خيموں ميں آگئے(۱۷) _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جمعرات كى صبح نماز فجر جلدى پڑھ لى سپاہ سے خطاب كرنے اور جنگ كى ترغيب دلانے كے بعد آپعليه‌السلام نے گھوڑا طلب فرمايا(۱۸) اس پر سوار ہونے كے بعد آپ قبلہ رخ كھڑے ہوگئے انكے دونوں ہاتھ آسمانكى طرف تھے اور خداوند تعالى سے يوں راز و نياز كر رہے تھے: خداوند ا يہ قدم تيرى راہ ميں بڑھ رہے ہيں بدن خستہ و ناتواں ہيں دلوں پر لرزہ و وحشت طارى ہے اور يہ ہاتھ تيرى بارگاہ ميں اٹھے ہوئے ہيں اور آنكھيں تيرى طرف لگى ہوئي ہيں اس كے بعد آپ نے ايك آيت پڑھى جس كا ترجمہ يہ ہے (اے رب ہمارى قوم كے درميان ٹھيك ٹھيك فيصلہ كردے اور تو بہترين فيصلہ كرنے والا ہے_(۱۹)

آخر ميں آپ نے سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا كہ سيرو على بركة اللہ ((۲۰) آگے بڑھو خدا تمہارى پشت و پناہ ہے)_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے نبرد آزما ہونے سے قبل شام كے ہر قبيلے كا نام دريافت فرمايا اس كے بعد آپعليه‌السلام نے اپنى سپاہ كے قبائل كو حكم ديا كہ تم ميں سے ہر سپاہى اپنے ہم نام اور ہم پلہ و شان قبيلے كے ہراس شخص سے جنگ كرے جو دشمن كى صفوں ميں شامل ہے(۲۱) _

سپاہ اسلام كى علامت وہ سفيد رنگ كا كپڑا تھا جو انہوں نے اپنے سرو ں اور بازووں پر باندھ ركھتا تھا_ اور ان كا نعرہ ياللہ، يا احد ، يا صمد ، يا رب محمد يا رحمت اور يا رحيم تھا_

۲۰۲

اس كے برعكس معاويہ كى سپاہ كا نشان زرد پٹى تھى جسے انہوں نے بھى اپنے سروں اور بازووں پر باندھ ركھا تھا_ اور ان كا نعرہ يہ تھا نحن عبادالله حقا حقا يا لثارات عثمان (۲۲)

قرآن كى طرف دعوت

اس سے قبل كہ حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے عمروعاص كا مكر و فريب ظاہر ہو آپعليه‌السلام نے اپنى جمعيت كو بيدار كرنے اور دشمن پر اتمام حجت كى خاطر اس وقت بھى جب كہ آپعليه‌السلام نے اپنى فوج ميں ذرہ برابر زبونى و ناتوانى محسوس نہيں كى ، يہ تجويز پيش كى اور فرمايا كہ : كوئي شخص قرآن شريف اپنے ہاتھ ميں اٹھالے اور دشمن كے نزديك پہنچ كر اسے قرآن كى طرف آنے كى دعوت دے ايك شخص جس كا نام '' سعيد'' تھا اٹھا اور اس نے سپاہ دشمن كى جانب جانے كا اظہار كيا حضرت علىعليه‌السلام نے دوبارہ اپنى اس تجويز كو زبان مبارك سے ادا كيا اسى نوجوان نے آپعليه‌السلام كى اس تجويز پر لبيك كہا كيونكہ اكثر و بيشتر افراد كا خيال تھا جو شخص بھى اس راہ ميں پيشقدمى كرے گا اس كا مارا جانا يقينى ہے_

حضرت '' سعيد'' نے قرآن مجيد ہاتھ ميں ليا اور سپا ہ دشمن سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : اے لوگو شورش و سركشى سے باز آؤ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام قرآنى حكومت اور عدل الہى كى دعوت دے رہے ہيں سيدھا راستہ اختيار كرو سيدھا راستہ وہى ہے جو مہاجرين و انصار نے اختيار كيا ليكن اہل شام نے اس كو اپنے نيزوں اور تلواروں سے ٹكڑے ٹكڑے كرديا_(۲۳)

معاويہ كہاں ہے؟

فريقين كے لشكر كے درميان جنگ جيسے جيسے شديد تر ہوتى جاتى تھي، مالك اشتر ، عمار اور عبداللہ بديل جيسے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے يار و مددگار شير كى طرح غراتے اور دشمن پر حملہ آور ہوتے حضرت علىعليه‌السلام بھى ميدان كارزار ميں داخل ہوئے دشمن كى سپاہ نے جيسے ہى آپعليه‌السلام كو ديكھا اس

۲۰۳

پر خوف و ہراس طارى ہوگيا بعض قبائل كو تو اپنى جان كے لالے پڑگئے اور يہ فكر ستانے لگى كہ كس طرح نجات پائيں چنانچہ قبيلہ خثعم كے سردار عبداللہ خنش نے خثعم قبيلہ عراق كے سرگروہ كعب سے پيغام كے ذريعے يہ درخواست كى كہ صلہ رحم كى خاطر اور ايك دوسرے كے حقوق كا پاس كرتے ہوئے جنگ سے كنارہ كشى اختيار كر لے ليكن مخالفت سے دوچار ہوا_ (۲۴)

اسى اثناء ميں سپاہ اسلام كے فرماندار ميمنہ عبداللہ بديل جو بہت ہى شجاع و دلير شخص اور دو زرہ پہن كر جنگ كرتے تھے دونوں ہاتھوں ميں تلواريں لئے دشمن كى سپاہ كے ميسرہ كى جانب بڑھے اور اسے چيرتے ہوئے ان لوگوں تك پہنچ گئے جو معاويہ كے فدائي كہلاتے تھے يہ لوگ معاويہ كے ايسے جانثار و با وفا دوست تھے جنہوں نے يہ عہد كيا تھا كہ جب تك ہمارے دم ميں دم ہے اس كى حفاظت كرتے رہيں گے معاويہ نے ان فدائيوں كو حكم ديا كہ عبداللہ كے بمقابل آجائيں اور خفيہ طور پر اسے اپنے ميسرہ كے فرماندار حبيب بن مسلمہ سے كہا كہ وہ ابن بديل كو آگے بڑھنے سے روكے ليكن وہ آگے بڑھتے ہى گئے معاويہ نے ناچار مصلحت اس امر ميں سمجھى كہ اپنى جگہ بدل دے اور وہ پيچھے كى طرف بھاگ گيا ليكن عبداللہ پكار پكار كر كہہ رہے تھے يا لثارات عثمان (عثمان كے خون كا بدلہ)معاويہ كى سپاہ نے جب يہ نعرہ سنا تو اس نے انہيں اپنا ہى سپاہى سمجھ كر انہيں راستہ ديا_

معاويہ كو چونكہ دوسرى مرتبہ اپنى جگہ سے ہٹ كر پيچھے آنا پڑا تھا اس لئے اس نے دوبارہ حبيب بن مسلمہ سے كہا كہ ميرى مدد كرو چنانچہ اس نے بڑا سخت حملہ كيا اور دائيں جانب كے لشكر (جناح راست) كو چيرتا ہوا عبداللہ بن بديل تك پہنچ گيا_ عبداللہ سو قاريوں ميں سے اكيلے رہ گئے تھے (باقى سب پسپا ہو چكے تھے) چنانچہ وہ پورى دليرى سے جنگ كرتے رہے اور زبان سے بھى كہتے رہے كہ : معاويہ كہاں ہے_ معاويہ نے جب عبداللہ كو اپنے نزديك ديكھا تو اس نے پكار كر كہا كہ اگر تلوار سے ان پر حملہ نہيں كر سكتے تو انھيں آگے بھى نہ آنے دو ان پر سنگبارى شروع كردو چنانچہ ہر طرف سے اس جانباز اسلام پر اس قدر پتھر برسائے گئے كہ وہ وہيں شہيد ہوگئے_

۲۰۴

معاويہ نے حكم ديا كہ انكے ناك، كان كاٹ لئے جائيں ليكن ان كى عبداللہ بن عامر سے چونكہ سابقہ دوستى تھى اسيلئے وہ مانع ہوئے اور معاويہ نے بھى اس خيال كو ترك كرديا_(۲۶)

حضرت علىعليه‌السلام ميدان كارزار ميں

اميرالمومنين حضرت على كمانڈر انچيف كے فرائض انجام دينے كے علاوہ بہت سے مواقع پر بالخصوص حساس ترين لمحات ميں خود بھى ميدان كارزار ميں پہنچ جاتے اور دشمن كے حملوں كا مقابل كرتے اگرچہ آپ كے اصحاب و فرزند آپعليه‌السلام كے دشمن كے درميان حائل ہوجاتے اور آپكى پورى حفاظت كرتے اور ان كى يہ خبرگيرى آپكے ليئے جنگ كرنے ميں مانع ہوتي_

بطور مثال ايك موقع پر ميان كارزار ميں بنى اميہ كے '' احمر'' نامى غلام جو بڑا جرى و دلاور شخص تھا آگے بڑھا _جس وقت حضرت علىعليه‌السلام كى نگاہ اس پر گئي تو آپ بھى اسكى طرف بڑھے اسى اثناء ميں حضرت علىعليه‌السلام كا غلام جس كا نام '' كيسان'' تھا آگے بڑھ آيا _ دونوں كے درميان كچھ دير تك نبرد آزمائي ہوتى رہى _ بالاخر وہ احمر كے ہاتھوں ماراگيا اب احمر حضرت علىعليه‌السلام كى جانب بڑھا تا كہ آپ كو شہيد كردے_ حضرت علىعليه‌السلام نے اس سے قبل كہ دشمن وار كرے ہاتھ بڑھا كر اس كا گريبان پكڑا اور اسے گھوڑے پر سے كھينچ ليا_ اور اسے سر سے اوپر اٹھا كر زمين پر دے مارا كہ اس كے شانہ و بازو ٹوٹ كر الگ ہوگئے اور ايك طرف كھڑے ہوگئے_ اتنے ميں فرزندان علىعليه‌السلام (حضرت امام حسينعليه‌السلام اور حضرت محمد حنفيہ) وہاں پہنچ گئے اور تلوار كے وارسے اسے ہلاك كرديا_

راوى مزيد بيان كرتا ہے كہ : احمر كے قتل كے بعد شاميوں نے جب حضرت علىعليه‌السلام كو اكيلا ديكھا تو وہ آپعليه‌السلام كى طرف بڑھے اور جان لينے كا ارادہ كيا اگرچہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى جانب بڑھتے رہے مگر آپعليه‌السلام كى رفتار ميں ذرا بھى فرق نہ آيا اور پہلے كى طرح آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے رہے ، حالانكہ اپنے لشكر كى طرف پلٹنے كا ارادہ نہيں تھا_

يہ كيفيت ديكھ كر حضرت امام حسنعليه‌السلام نے اپنے والد محترم سے عرض كى كيا حرج ہے كہ آپعليه‌السلام اپنى

۲۰۵

رفتار تيز كرديں اور اپنے ان دوستوں سے آن مليں جو دشمن كے روبرو كھڑے ہيں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ديا كے اے ميرے فرزند تيرے والد كا اس جہان سے كوچ كرنے كے لئے خاص وقت معين ہے اس ميں ذرا بھى پس و پيش نہيں ہوسكتى _ تيرے والد كو اس بات كا ذرا بھى غم نہيں كہ موت كو اپنى آغوش ميں لے لے يا موت خود ہى آكر گلے لگ جائے_(۲۷)

ايك موقع پر سعيد بن قيس ميدان كارزار ميں موجود تھا اس نے بھى ايك مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں عرض كيا : يا اميرالمومنين آپ دشمن كى صف كے نزديك حد سے زيادہ آگے آجاتے ہيں كيا آپ كو اس بات كا ذرا بھى خوف نہيں كہ دشمن آپ پر وار كر سكتا ہے اس پر آپعليه‌السلام نے فرمايا تھا كہ خداوند تعالى سے بڑھ كر كوئي كسى كا نگہبان نہيں اگر كوئي كنويں ميں گرجائے يا اس پر ديوار گر رہى ہو يا كوئي اور بلا نازل ہو رہى ہو تو خدا كے علاوہ اس كى كوئي حفاظت كرنے والا نہيں اور جب موت آجاتى ہے تو تمام تدابير بيكار ہوجاتى ہيں _(۲۸)

دوستوں كى حمايت و مدد

حضرت علىعليه‌السلام ميدان جنگ ميں عين اس وقت بھى جب كہ ميدان كارزار ميں پيش قدمى فرما رہے ہوتے تھے اگر ضرورت پيش آجاتى تو اپنى جان كو خطرہ ميں ڈال كر وہ اپنے ساتھيوں كى مدد كيلئے تيزى سے پہنچتے_

غرار بن ادہم شامى لشكر كا مشہور سوار تھا ايك روز اس نے عباس بن ربيعہ(۲۸) كو جنگى كشتى كيلئے للكارا عباس گھوڑے سے اتر كر نيچے آگئے اور غرار سے كشتى ميں نبرد آزما ہوگئے سخت زور آزمائي كے بعد عباس نے شامى كى زرہ كو چاك كرديا اس كے بعد آپ نے تلوار نكال كر اس كے سينے پر وارد كيا يہاں تك كہ وہ زخمى ہوكر مارا گيا يہ منظر ديكھ كر لوگوں نے نعرہ تكبير بلند كيا_

ابوالاغَرّ سے يہ واقعہ منقول ہے كہ ميں نے اچانك سنا كہ ميرے پيچھے كوئي شخص يہ آيت تلاوت كر رہا ہے'' قاتلوہم يعذبہم اللہ بايديكم و يخزہم و ينصركم على ہم و

۲۰۶

يشف صدور قوم مومنين'' (انھيں قتل كر ڈالو خدا تمہارے ذريعہ انہيں عذاب ميں مبتلا كرتا ہے اور ذليل كرتا ہے اور تمہارى مدد كرتا ہے مومنوں كے دلوں كو شفا بخشتا ہے اور ان سے كدورت دور كرتا ہے (۲۹)

جب ميں نے پلٹ كرديكھا تو وہاں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو پايا_ اس كے بعد آپعليه‌السلام نے مجھ سے فرمايا ہم سے كس شخص نے دشمن سے جنگ كى ؟ ميں نے عرض كيا كہ آپ كے بھتيجے نے_ اس پر آپعليه‌السلام نے فرمايا كيا ميں نے تمہيں اور ابن عباس كو جنگ كرنے سے منع نہيں كيا تھا؟ انہوں نے جواب ديا كہ جى ہاں آپ نے منع فرماياتھا_ مگر دشمن نے خود ہى مجھے للكارا_ اس پر آپ نے كہا كہ اگر تم نے اپنے پيشوا كى اطاعت كى ہوتى تو وہ اس سے كہيں زيادہ بہتر تھا كہ تم دشمن كى للكار كا جواب ديتے _ اس كے بعد آپ نے بارگاہ خداوندى ميں دعا كى كہ وہ عباس كى لغزش كو معاف كرے اور جہاد كى انہيں جزا دے_

غرّار كے قتل ہوجانے كى وجہ سے معاويہ بہت زيادہ مضطرب و آشفتہ خاطر ہوا چنانچہ اس كے حكم كے مطابق اور انعام كے وعدے پر قبيلہ '' لخم'' كے دو افراد نے عباس بن ربيعہ كو پيكار كى غرض سے للكارا_ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں نبرد آزمائي كى اجازت نہيں دى اور فرمايا كہ معاويہ تو يہ چاہتا ہے كہ بنى ہاشم ميں سے ايك شخص بھى زندہ نہ رہے

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے عباس كے لباس اور اسلحہ سے خود كو آراستہ كيا اور انہى كے گھوڑے پر سوار ہو كر ان دونوں افراد كى طرف روانہ ہوئے اور انہيں وہيں ہلاك كرديا_ ميدان كارزار سے واپس آكر آپ نے عباس كا اسلحہ انہيں واپس كيا اور فرمايا كہ جو كوئي تمہيں نبرد آزمائي كے لئے للكارے پہلے تم ميرے پاس آؤ(۳۰)

اس واقعے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بنى ہاشم بالخصوص خاندان رسالت كى جانب خاص توجہ و عنايت تھى اور انكى جان كى حفاظت كيلئے آپعليه‌السلام ہر ممكن كوشش فرماتے_ چنانچہ بحران جنگ ميں جب كہ آپعليه‌السلام كى جانب تيروں كى بارش ہو رہى تھى اور آپ كے فرزندوں كو دشمن اپنے تيروں كا نشانہ بنائے ہوئے تھا، اس وقت بھى آپعليه‌السلام كو اپنى جان كى پروانہ تھى چنانچہ خود آگے بڑھ كر جاتے اور اپنے ہاتھ سے تيروں كے رخ كو كبھى ايك طرف اور كبھى دوسرى جانب منتشر كرديتے_(۳۱)

۲۰۷

سوالات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے نمائندے معاويہ كے پاس كس مقصد كے تحت روانہ كئے؟

۲_ معاويہ نے اپنے لشكر كى كمزورى كى تلافى كس طرح كرنا چاہى اور لشكر اسلام كو كمزور و ناتوان كرنے كيلئے اس نے كيا اقدامات كئے؟ اس كى دو مثاليں پيش كيجئے؟

۳_ نبرد آزمائي سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے سپاہيوں كے لئے كيا احكامات صادر كئے؟

۴_ پہلى اور دوسرى عام جنگوں كا آغاز كن تاريخوں سے ہوا؟ فريقين كے لشكروں كى علامات و نعرے كيا تھے؟

۵_ حضرت علىعليه‌السلام نے جنگ سے قبل اتمام حجت كے طور پر اور مسلمانوں كى خون ريزى كو روكنے كيلئے كيا اقدامات كيئے؟

۶_ جنگى پہلو كو مد نظر ركھتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام كے سپاھيانہ كردار كو مختصر طور پر بيان كريں _

۲۰۸

حوالہ جات

۱_ائتوا هذا الرجل و ادعوه الى الله و الى الطاعة و الى الجماعة

۲_ وقعہ صفين ص ۱۸۸_ ۱۸۷، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۸۵

۳_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۸۶، وقعہ صفين ص ۱۹۵

۴_ وقعہ صفين ص ۱۹۸_ ۱۹۷

۵_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۳ _ ۲۹۱ ،تاريخ طبرى ج ۵ ص ۷ ، وقعہ صفين ص ۲۰۲_ ۲۰۱

۶_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۰ ، وقعہ صفين ص ۲۰۰ _۱۹۹ ، معاويہ كى اس گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے كہ اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے ديگر سرداران سے بھى اس قسم كى بات كى تھي_

۷_ وقعہ صفين ص ۱۹۰_ ۱۸۸

۸ _ وقعہ صفين ۴۹۰_۴۸۹ ، اس واقعہ كى تفصيل بعد ميں آئے گي_

۹_ وقعہ صفين ص ۱۹۰

۱۰_ وقعہ صفين ص ۲۰۴_۲۰۳

۱۱_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۴ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۱ ، ليكن وقعہ صفين ميں صفحہ ۲۰۵ پر منقول ہے كہ سوار دستے كى كمانڈرى عمار كو اور پيادہ فوج كى عبداللہ بديل كو دى گئي_

۱۲_ كامل ج ۳ ص ۲۹۴ ، ليكن وقعہ صفين ميں درج ہے كہ فريقين كے لشكر فتح و كامرانى كے بغير واپس آئے ملاحظہ ہو وقعہ صفين ص ۲۲۲_

۱۳_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۷۹ ، كامل ج ۳ ص ۲۹۵_ ۲۹۴ ، وقعہ صفين ص ۲۲۳_۲۱۴

۱۴_ سورہ صف آيہ ۴) ان الله يحب الذين يقاتلون فى سبيله صفا كانهم بنيان مرصوص (

۱۵_ نہج البلاغہ كے خطبہ ۱۲۴ كا اقتباس، وقعہ صفين ص ۲۳۵

۱۶_ وقعہ صفين ص ۲۳۶

۱۷ _ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۶

۱۸_ اس سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كى سوارى ميں جانور خچر تھا اس روز آپعليه‌السلام نے تنومند و دراز دم گھوڑا لانے كے لئے حكم

۲۰۹

ديا_ يہ گھوڑا اس قدر تنومند و طاقتور تھا كہ اسے قابو ميں ركھنے كے لئے دو لگا ميں استعمال كرنى پڑتى تھيں اور وہ اپنى اگلى ٹانگوں سے زمين كھودتا رہتا تھا_

۱۹_ سورہ اعراف آيہ ۸۸) رَبَنا افتَح بيننا و بين قومنا بالحق و انت خير الفاتحين (

۲۰_ وقہ صفين ص ۲۳۰ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۷۶

۲۱_ وقعہ صفين ص ۲۲۹ ،كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۸ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۴، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۸۶

۲۲_ وقعہ صفين ص ۳۳۲

۲۳_ وقعہ فين ص ۲۴۴ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۶ ، اس پورے قضيے ميں يہ نكتہ قابل توجہ ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے خير خواہى كا جو يہ اقدام كيا تھا اس كے پيش نظر معاويہ كے كسى سپاہى نے اپنے فيصلہ جنگ پر ترديد نہيں كى وہ اس نوجوان كو ديكھتے رہے ليكن جب معاويہ كى صفوں ميں شكست كے آثار نمودار ہوئے تو اس كے سپاہيوں نے اس شكست كى تلافى كے لئے قرآن كو نيزے پر چڑھا ليا اور وہ بھى سپاہ عراق كو قرآن كى دعوت دينے لگے حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ ميں سے كچھ لوگوں پر اس كا اثر ہوگيا چنانچہ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے كہا كہ حكم صادر كيجئے كہ مالك اشتر واپس آجائيں ورنہ ہم آپعليه‌السلام كو قتل كرديں گے_

۲۵_ حضرت عبداللہ بن بديل كے بھائي كا نام بھى عثمان تھا_ وہ بھى دشمن كے ہاتھوں قتل ہوئے تھے_ يہاں عثمان سے مراد ان كے بھائي ہيں _

۲۶_ وقعہ صفين ص ۲۴۸ _ ۲۴۵، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۶، اگرچہ تاريخ كى كتابوں ميں ايسے كئي دلير جانبازوں كا ذكر ملتا ہے مگر اس كتاب كے اختصار كو مد نظر ركھتے ہوئے ان كى كيفيات بيان كرنے سے چشم پوشى كى گئي ہے تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۴ وقعہ صفين ص ۲۵۸

۲۷_ وقعہ صفين ص ۲۵۰_ ۲۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۸ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۹، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۹

۲۸ _ وقہ صفين ص ۲۵۰ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۹

۲۹_ عباس بن ربيعہ بن حارث بن عبدالمطلب

۳۰_ سورہ توبہ آيہ ۱۴

۳۱_ شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۹

۳۲_ وقعہ صفين ص ۲۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۸، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۹

۲۱۰

گيارھواں سبق

قاسطين (جنگ صفين) ۳

استقامت و پايدارى كى نصيحت

فرار كرنے والوں كى تنبيہ و سرزنش

جنگ ميں مالك كا كردار

دو حجر كى جنگ

حريث كا قتل

آخرى تجويز

بدترين طريقے كا سہارا

دشمن كے سرداروں كا اعتراف

پھر دھوكا

جنگ كى شدت

دو لائق سپہ سالاروں كى شہادت

عمار كى شہادت كارد عمل

سوالات

حوالہ جات

۲۱۱

استقامت و پايدارى كيلئے نصيحت

لشكر اسلام كا مركزى حصہ پہلے كى طرح اب بھى سپاہ دشمن كے قلب ميں جنگ آزما تھا حبيب بن مسلمہ كے سخت حملے كے باعث بائيں بازو كا پَرہ(جناح راست) پسپا ہوكر فرار كرنے لگا تھا اميرالومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ كيفيت ديكھى تو انہوں نے مالك كو حكم ديا كہ ان فرار كرنے والوں كى طرف جاؤ اور ان سے كہو كہ : موت سے بچ كر كہاں جا رہے ہو كيا اس زندگى كى جانب جو قطعى ناپايدار ہے ؟ مالك فرار كرنے والوں كى جانب لپكے اور كئي مرتبہ پكار كر كہا كہ لوگو ميں مالك ہوں ليكن كسى نے ان كى جانب توجہ نہ كى جس كى وجہ يہ تھى كہ بيشتر لوگ انھيں اشتر كے نام سے جانتے تھے لہذا جس وقت انہوں نے كہا كہ ميں مالك اشتر ہوں تو فرار كرنے والے واپس آنے لگے اور ان كے گرد جمع ہوگئے_

مالك نے اپنے زور بيان سے لوگوں كو دوبارہ جنگ و نبرد كيلئے آمادہ كر ليا اس كے بعد انہوں نے قبيلہ '' مذحج'' كے افراد كو جو اپنے دليرى و جنگجوئي ميں مشہور تھے خاص طور پر نبرد آزمائي كى دعوت دى اور كہا كہ ميدان كارزار ميں اپنى مردانگى كے جوہر ديكھائيں اور دشمن كو پسپائي پر مجبور كرديں ان سب نے ايك زبان ہوكر اپنى آمادگى كا اعلان كرديا اور كہنے لگے كہ ہم آپ كے فرمانبردار ہيں طائفہ ہمدان كے سو افراد اور ان كے علاوہ ديگر چند دانشور جرائتمند اور باوفا لوگ مالك كى جانب واپس آگئے اور اس طرح دوبارہ دائيں جانب كا پرہ مضبوط ہوگيا ان كے جوش و خروش كا يہ عالم تھا كہ جس لشكر پر بھى حملہ آور ہوجاتے اسے نيست و نابود كرديتے(۱) چنانچہ ان كے سخت و شديد حملات كا يہ نتيجہ برآمد ہوا كہ دشمن كو مجبور ا پسپا ہونا پڑا_

۲۱۲

فرار كرنے والوں كى تنبيہ و سرزنش

فرار كرنے والے جب واپس آگئے تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اس پيش بندى كے خيال سے كہ يہ اقدام دوبارہ نہ ہو ان سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا كہ : ميں نے تمہارى چابكدستى و دلاورى بھى ملاحظہ كى اور ديگر سپاہ كى صفوں سے تمہيں سرتابى كرتے ہوئے بھى ديكھا_ اہل شام تو جفا كار، پست فطرت اور صحرانشين بدو ہيں مگر افسوس انہوں نے تمہيں راہ فرار دكھا دى جب كہ تم شائستہ و لائق ، برگزيدہ اور سر برآوردہ عرب ہو جو رات كى تاريكيوں ميں قرآن پاك كى تلاوت كرتے تھے لوگ گمراہى ميں بھٹك رہے تھے تم حق كى جانب آنے كى دعوت دے رہے تھے اگر تم فرار كرنے كے بعد واپس نہ آگئے ہوتے تو وہ سخت سزا تمہارے گريبان گير ہوتى جو خداوند تعالى نے مفرورين كيلئے مقرر كى ہے_(۲)

... يہ جان لو كہ جو شخص راہ فرار اختيار كرتا ہے وہ خدا كے غضب كو برانگيختہ كرتا ہے اور خود كو ہلاكت كى جانب لے جاتا ہے اور وہ اس پستى و مذلت كى طرف چلا جاتا ہے جو ہميشہ اس كے ساتھ رہتى ہے وہ اس كے ذريعے اپنے لئے ابدى ننگ و رسوائي اور بد بختى كے سامان مہيا كرتا ہے جو شخص فرار كرتا ہے نہ اس كى عمر ميں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہى اسے خداتعالى كى رضاء و خوشنودى حاصل ہوتى ہے اس بناپر ان مذموم صفات كو حاصل كرنے سے موت كہيں زيادہ گوارا ہے_(۳)

جنگ ميں مالك كا كردار

مالك اشتر دراز قامت ، مضبوط جسم اور لاغر بدن انسان تھے مگر بہت زيادہ طاقتور و تنومند ايك مرتبہ قيس كے دو فرزند مُنقذ اور حمير ان كے بارے ميں گفتگو كر رہے تھے _ منقذنے كہا كہ اگر مالك كى نيت ان كے عمل كى طرح ہے تو عربوں ميں ان كاثانى نہيں اس پر حمير نے جواب ديا كہ ان كا عمل ان كے خلوص نيت كا آئينہ دار ہے_(۴)

مالك سرتاپا ايسے مسلح تھے كہ انھيں پہچانا نہيں جاسكتا تھا شمشير يمانى ان كے ہاتھ ميں تھى جس

۲۱۳

وقت يہ تلوار ان كے ہاتھ ميں گھوم جاتى تھى تو لگتا تھا كہ يہ تلوار نہيں آب رواں ہے اور جس وقت فضا كو چيرتى ہوئي گذرتى تھى تو اس كى چمك سے ديكھنے والوں كى آنكھيں چكا چوند ہوجاتى تھيں _ (۵)

''ابن جمہان'' نے جب ان كى تلوار سے آگ نكلتى ديكھى اور دشمن پر ان كے شگفت آور حملے كو ديكھا تو ان سے كہا: خداوند آپ كى اس عظيم فداكارى كے بدلے ہيں جزاء خير عطا فرمائے جو آپ مسلمانوں اور اميرالمومنين كے دفاع كيلئے انجام دے ديتے ہيں _

مالك نے ہمدانيوں كے ساتھ ان پانچ صفوں كو اپنے محاصرہ ميں لے ليا تھا كہ جنہوں نے معاويہ سے يہ عہد كيا تھا كہ مرتے دم تك تم پر آنچ نہيں آنے ديں گے ليكن مالك نے چار صفوں كو پسپا كرديا_(۶)

مالك جيسے لائق و اہل فرماندار كى موجودگى جہاد ميں سپاہيوں كى حوصلہ مندى اور دل گرمى كا سبب ہوتى وہ جس لشكر پر بھى حملہ آور ہوتے وہ لشكر فرار كرجاتا اور جب كبھى منتشر و پراگندہ سپاہ كے درميان پہنچ جاتے تو انھيں لشكر كى شكل ميں مرتب و منظم كرديتے جس وقت انہوں نے يہ ديكھا كہ سپاہ اسلام كے لشكر كے فرمانداروں اور پرچمداروں ميں سے دو شخص سخت جنگ و نبرد كے بعد شہيد ہوگئے ہيں تو انہوں نے كہا كہ : خدا كى قسم يہى صبر جميل اور كريمانہ عمل ہے اور مرد وہ ہے جو ميدان كارزار ميں يا تو كسى كو قتل كردے يا خود شہيد ہوجائے اور جو اس كے بغير ميدان جنگ سے واپس آتا ہے تو كيا اس كيلئے باعث ننگ و رسوائي نہيں ہے_(۷)

دو حجر كى جنگ

صفر كى ۷ تاريخ كو جب كہ فريقين كے لشكر ايك دوسرے كے مقابل آگئے تو پہلا شص جو معاويہ كے لشكر سے نكل كر ميدان كارزار ميں آيا اور حريف كو نبرد آزمائي كيلئے للكارا وہ ''حجر شرّ''

۲۱۴

كے نام سے مشہور اور اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام كے يار باوفا حضرت حجر بن عدى كا چچازاد بھائي تھا حجر شر كامقابلہ كرنے كے لئے حجربن عدى ميدان جنگ ميں پہنچے اور دو حجر كے درميان سخت نبرد آزمائي ہوئي اسى اثنا ميں '' خزيمہ بن ثابت '' حجر شر كى مدد كے لئے ميدان جنگ ميں آگيا اور حجر بن عدى كو اس نے زخمى كرديا، سپاہ اسلام نے جب يہ منظر ديكھا تو وہ بھى ميدان كارزار كى جانب بڑھے اور خزيمہ بن ثابت كو قتل كرڈالا حجر شر بھى مجاہدان اسلام ميں سے ايك شخص كو قتل كرنے كے بعد اپنے چچازاد بھائي (حجربن عدى)كے ہاتھوں ہلاك ہوا اس كى ہلاكت حضرت علىعليه‌السلام كے لئے باعث مسرت ہوئي اور آپعليه‌السلام بارى تعالى كا شكر بجالائے_(۸)

حريث كا قتل

حريث معاويہ كا غلام تھا تنومند ہونے كى وجہ سے اپنے آقا كا بہت محبوب و پسنديدہ تھا اسے ميدان جنگ ميں اسى وقت بھيجا جاتا تھا جب كہ ميدان كارزار سخت گرم ہوا اور جنگ دشوار و حساس لمحات گذر رہى ہوا اس ميں اور معاويہ ميں شباہت بھى بہت زيادہ تھى چنانچہ كبھى كبھى وہ اپنا مخصوص لباس بھى اس غلام كو پہنا ديتا جس كے باعث لوگ يہ سمجھنے لگتے كہ معاويہ بذات خود ميدان جنگ ميں آگيا ہے_

معاويہ نے اس سے يہ فرمائشے كى كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے علاوہ وہ جس سے بھى چاہے نبرد آزما ہوجائے ليكن عمروعاص نے اسے اپنى باتوں سے يہ ترغيب دلائي كہ موقعہ ملے تو حضرت علىعليه‌السلام سے بھى مقابلہ آرا ہوجائے چنانچہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كا مقابلہ كرنے كے لئے گيا اور كہنے لگا كہ اگر مجھ سے زور آزمائي كرنا چاہتے ہو تو آجاؤ_ حضرت علىعليه‌السلام نے ايك ہى وار ميں اس كے دو ٹكڑے كرديئے اس كے قتل سے معاويہ كو سخت صدمہ ہوا اور اس نے عمروعاص كى سخت ملامت كي_(۹)

۲۱۵

آخرى تجويز

سرزمين صفين پر دونوں لشكروں كا قيام كافى طويل ہوگيا اس عرصے ميں فريقين كا جانى و ، مالى نقصان بھى بہت زيادہ ہوا ايك روز اس وقت جب كہ ميدان كارزار گرم تھا اور حضرت علىعليه‌السلام كے ہاتھوں دشمن كے بہت سے جانباز دلاور مارے جاچكے تھے آپعليه‌السلام نے لشكر حريف كو للكارا اور كہا كہ ہے كوئي جو مجھ سے نبرد آزما ہو مگر دشمن كى صفوں ميں سے كوئي بھى ميدان جنگ ميں نہ آيا اس وقت حضر ت علىعليه‌السلام گھوڑے پر سوار تھے چنانچہ آپعليه‌السلام لشكر شام كے سامنے آئے اور معاويہ كو طلب كيا معاويہ نے كہا كہ ان سے پوچھو كہ كيا كام ہے؟ آپ نے فرمايا كيا اچھا ہوتا كہ معاويہ ميرے سامنے ہوتا اور ميں ان سے بات كرتا يہ سن كر معاويہ عمروعاص كى موافقت كے بعد اپنى صف سے نكل كر سامنے آيا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے فرماياكہ : افسوس تيرے حال پر آخر تو نے كيوں لوگوں كو قتل كرنے پر كمر باندھ ركھى ہے؟ كب تك دونوں لشكر اپنى تلواريں كھينچے رہيں گے كيوں نہ ہم باہم نبرد آزما ہوجائيں تا كہ جو بھى غالب آجائے حكومت اسى كو مل جائے اس پر معاويہ نے عمروعاص سے پوچھا كہ تمہارى كيا رائے ہے؟ كيا ميں علىعليه‌السلام سے نبرد آزمائي كروں عمروعاص نے كہا كہ تجويز تو معقول و منصفانہ ہے اگر اس وقت اس تجويز سے روگردانى كى تو تيرا خاندان ابد تك ذلت و خوارى ميں گرفتاررہے گا_

معاويہ نے كہا كہ : بھلا ميں اور تمہارى باتوں ميں آجاؤں ميں على بن ابى طالبعليه‌السلام كو خوب جانتا ہوں خدا كى قسم اس نے جس سے بھى دست و پنجہ نرم كيا اسى كے خون سے زمين كو سيراب كرديا(۱۰) يہ كہہ كر وہ واپس اپنے لشكر كى جانب چلا گيا اور آخرى صف ميں پہنچ كر پناہ لى يہ منظر ديكھ كر حضرت علىعليه‌السلام كو ہنسى آگئي چنانچہ آپ بھى اپنى جگہ واپس آگئے_(۱۱)

۲۱۶

بدترين طريقے كا سہارا

حارث بن نضر كا شمار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے اصحاب ميں ہوتا تھا عمروعاص كو ان سے خاص دشمنى تھى او ر شايد ہى كوئي ايسى مجلس ہو جس ميں حارث كى برائي نہ كرتا ہو حارث نے بھى عمروعاص كے متعلق كچھ شعر كہے اور اس كے پاس بھيجديئے ان اشعار ميں اسے يہ اشتعال دلايا گيا تھا كہ اگر نيك نام اور كار خير كى تمنا ہے تو على بن ابى طالب كے مد مقابل آجاؤ_

ان اشعار كو پڑھ كر عمروعاص نے قسم كھائي كہ علىعليه‌السلام سے ضرور زور آزمائي كروں گا چاہے ہزار مرتبہ موت كا سامنا كرنا پڑے يہ كہہ كر وہ ميدان كارزار ميں آيا حضرت علىعليه‌السلام بھى اس كى جانب بڑھے حضرت علىعليه‌السلام كو ديكھ كر عمروعاص پر ايسا خوف طارى ہوا كہ اس نے خود كو گھوڑے سے زمين پر گرا ديا اور شرمگاہ كھول دى حضرت علىعليه‌السلام نے منھ پھير ليا تو عمروعاص نے راہ فرار اختيار كي_(۱۲)

دشمن كے سرداروں كا اعتراف

عمروعاص ، عُتبہ ،وليد، عبداللہ ابن عامر اور طلحہ كے بيٹے جيسے لشكر شام كے نامور سردار ايك رات معاويہ كے گرد جمع تھے اور گفتگو حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں ہو رہى تھى عتبہ نے كہا كہ : علىعليه‌السلام كا ہمارے ساتھ رويہ بڑا ہى عجيب و حيرتناك ہے كيونكہ ہم ميں سے كوئي بھى ايسا نہيں بچا جو ان كے ستم كا نشانہ نہ بن چكا ہو ميرے دادا عتبہ اور بھائي حنظلہ كو تو انہوں نے قتل ہى كيا تھا ميرے چچا شيبہ كے قتل ميں بھى وہ شريك تھے وليد تيرے باپ كو بھى علىعليه‌السلام نے ہى قتل كيا ہے اور اے مروان تجھے علىعليه‌السلام سے دو لحاظ سے صدمہ پہنچا ہے_

اس پر معاويہ نے كہا كہ : يہ جو كچھ تم كہہ رہے ہو تو وہ علىعليه‌السلام كى شجاعت كا اعتراف ہے تم نے ان كا كيا بگاڑ ليا؟

مروان نے كہا كہ : آپ كيا چاہتے ہيں ميں ان كا كيا كروں ؟اس نے كہا كہ اپنے نيزے سے ان كى تكہ بوٹى كردو مروان نے كہا كہ : لگتا ہے كہ آپ كو مذاق سوجھاہے اور ہمارے ذريعہ

۲۱۷

آسودہ خاطر ہونا چاہتے ہيں _

اس موقع پر وليد نے بھى چند اشعار كہے جن كا مفہوم و مضمون يہ تھا كہ : معاويہ كہتا ہے كہ ہے كوئي جو ابوالحسن پر حملہ آور ہو اور اپنے مقتول بزرگوں كا انعليه‌السلام سے انتقام لے گويا فرزند ہند كو دل لگى سوجھى ہے يا وہ كوئي اجنبى ہے جو على (ع)كو نہ پہچانتا ہو كيا تم ہميں اس سانپ سے ڈسوانا چاہتے ہيں جو صحرا كے بيچ رہتا ہے اگر كاٹ لے تو اس كے ز ہر كا منتر نہ ملے ہم تو علىعليه‌السلام كے مقابل اس بجو كى طرح ہيں جو كسى وسيع دشت ميں ہيبت ناك شير غراں كے سامنے آگيا ہو_ عمروعاص نے حيلے سے تو اپنى جان تو بچالى مگر ڈركے مارے اس كا دل سينے ميں دھڑك رہا تھا_

وليد كے اشعار سن كر عمروعاص كو غصہ آگيا اس نے جواب ديا كہ : وليد نے تو علىعليه‌السلام كے رعب دار و وحشت ناك نعروں كى ياد تازہ كردى _ ميدان جنگ ميں شجاعت و دلاورى كے جوہر ان كى ذات سے نماياں ہوتے ہيں جب قريش ان كا ذكر كرتے ہيں تو ان كے دلوں كے پرندے سينوں كے قفس سے پرواز كرنے لگتے ہيں تم مجھے تو تنبيہہ و توبيخ كر رہے درحاليكہ معاويہ اور وليد تك علىعليه‌السلام سے دہشت كھاتے ہيں _ اور وليد اگر تو سچ كہہ رہا ہے اور كوئي سور ماسوار ہے تو علىعليه‌السلام كا سامنا كر خدا كى قسم اگر علىعليه‌السلام كى آواز بھى سن لى تو دل ہوا ہوجائے گا اور رگيں پھول كر كپہ ہوجائيں گى اور عورتيں تيرا سوگ مناتى رہيں گي_(۱۳)

پھر دھوكا

دليرى و جانبازى ، راہ خدا ميں جہاد مقدس اور شرك كے گدى داروں كى بيخ كنى حضرت علىعليه‌السلام كے ايسے نماياں كار نامے ہيں جن كا شمار آپ كے اہم ترين امتيازات و افتخارات ميں ہوتا ہے ليكن معاويہ رائے عامہ كو بدلنے كى خاطر انہى فضائل كو ايسے نقص سے تعبير كرتا تھا جو اس كے خيال كى روسے امور زمامدارى اور امت كى قيادت ميں مانع ثابت ہوتے ہيں _

ايك روز معاويہ نے عبيداللہ بن عمر كو اس كام پر مقرر كيا كہ وہ حضرت امام حسنعليه‌السلام كے پاس

۲۱۸

جائے اور ان سے ملاقات كرے اور ان تك معاويہ كا پيغام پہنچائے جب وہ حضرت امام حسنعليه‌السلام كے پاس پہنچا تو اس نے كہا كہ : آپ كے والد نے اول سے آخر تك قريش كا خون بہايا ہے اور اپنے عمل سے ان كے دلوں ميں جذبہ كينہ و دشمنى كو بر افروختہ كيا ہے كيا آپ ان كا ساتھ ترك نہيں كر سكتے تا كہ زمام خلافت آپ كے اختيار ميں دے دى جائے اس پر حضرت امام حسنعليه‌السلام نے فرمايا كہ : يہ ہرگز ممكن نہيں خدا كى قسم يہ كام كسى بھى صورت ميں عمل پذير نہيں ہوسكتا لگتا ہے كہ تيرا وقت پورا ہوچكا ہے اور تو آج يا كل ميں قتل ہونے والا ہے شيطان نے تجھے فريفتہ كر ليا ہے اسى لئے اس نے تيرے كاروبار كو رونق بخشى ہے خداوند تعالى تجھے نيست و نابود كرے_

عبيداللہ، معاويہ كے پاس واپس آگيا اور تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ چار ہزار سپاہيوں كا لشكر ميدان ميں حملہ آور ہوا اور طائفہ ہمدان كے ايك شخص كے ہاتھوں قتل ہوا امام مجتبىعليه‌السلام نے جوپشين گوئي فرمائي تھى وہ صحيح ثابت ہوئي_

حضرت امام حسنعليه‌السلام نے اس كا خون آلود لاشہ جب زمين پر گرا ہوا ديكھا تو آپ كو مسرت ہوئي اور خداوند تعالى كاشكر ادا كيا_(۱۴)

نويں روز جب كہ پرچم، ہاشم مرقال كے ہاتھ ميں تھا سپاہ اسلام ميں خاندان مذحج اور سپاہ شام سے، عك، لخم اور اشعريوں كے درميان شديد جنگ جارى تھى ، حضرت علىعليه‌السلام كى تلوار سے پانچ سو سے زيادہ عرب كے سربرآورہ اور دلاور قتل ہوئے يہاں تك كہ آپ كى تلوار خميدہ ہوگئي_

راوى كا بيان ہے كہ ہم حضرت علىعليه‌السلام كى خميدہ تلوار ليتے اور اسے سيدھا كرديتے اور واپس دے ديتے جسے لے كر آپ دشمن كى صفوں ميں اتر جاتے خدا كى قسم ہم نے كوئي ايسا شجاع نہيں ديكھا جو دشمن كے لئے علىعليه‌السلام سے زيادہ سخت ہو_(۱۵)

اس روز فريقين كے لشكر ايك دوسرے كى جان لينے پر تلے ہوئے تھے پہلے تو تيروں اور پتھروں سے مقابلہ ہوتا رہا اس كے بعد نيزوں سے جنگ ہوئي جب نيزے بھى ٹوٹ گئے تو تلواروں اور لوہے كے گرزوں سے ايك دوسرے پر حملہ آور ہوئے اس دن ميدان كارزار ايسا

۲۱۹

گرم تھا كہ اسلحہ كى چكاچك كے علاوہ كوئي آواز سنائي نہ ديتى تھى _ نعروں كى گونج ، بجلى كى گرج ، پہاڑوں كى چٹانيں ٹكرانے سے كہيں زيادہ ہولناك تھى فضا اس وقت ايسى گرد آلود تھى كہ لگتا تھا كہ سورج غروب ہو رہا ہے اس گردو خاك اور تاريكى كے درميان پرچم و بيرق كہيں نظر نہ آتے تھے مالك اشتر كبھى سپاہ ميمنہ كى طرف جاتے اور كبھى لشكر ميسرہ كى جانب لپكتے چنانچہ وہ جس لشكر يا قبيلے كے پاس پہنچتے جنگ جارى ركھنے كے سلسلے ميں اس كى حوصلہ افزائي كرتے_

جنگ نصف شب تك جارى رہى اس قت نماز پڑھنے كا بھى موقعہ نہ تھا(۱۵) مالك اشتر مسلسل ميدان جنگ كى جانب بڑھے چلے جارہے تھے يہاں تك كہ كار زار، ان كے پيچھے رہ گيا اور وہ آگے نكل گئے_

اس اثنا ميں حضرت امام مجتبىعليه‌السلام دشمن پر حملہ آور ہونے كے ارادے سے آگے بڑھے ليكن انھيںعليه‌السلام ديكھ كر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : ان كو ميدان جنگ ميں جانے سے روكا جائے كيونكہ ان دو فرزندوں (حضرت امام حسنعليه‌السلام و حضرت امام حسين (ع)) كى جانب ميرى خاص توجہ ہے كہيں ايسا نہ ہو كہ نسل پيغمبر روئے زمين سے مفقود و ناپديد ہوجائے_(۱۶)

اميرالمومنينعليه‌السلام قلب لشكر ميں پيش پيش تھے مالك دائيں پرے ميں اور ابن عباس سپاہ كے بائيں پرے ميں موجود تھے انجام كار يہ جنگ نويں روز اس دسويں شب جو ليلة الہرير(۱۷) كے نام مشہور ہے اختتام پذير ہوئي جس ميں فريقين كا بہت زيادہ جانى و مالى نقصان ہوا اور دونوں لشكروں(۱۸) كے سپاہى بھى تھك چكے تھے مگر تھكن كے آثار سپاہ شام ميں نظر آتے تھے اور فتح و ظفر كى علامات سپاہ عراق سے ہويدا تھيں _

دو لائق سپہ سالاروں كى شہادت

نويں روز جو دردناك حادثات رونما ہوئے ان ميں حضرت علىعليه‌السلام كے دو فرمانداروں يعنى عمار ياسر اور ہاشم مرقال كى شہادت تھى اگرچہ عمار كى عمر نوے سال سے تجاوز كر گئي تھى مگر ان ميں اس

۲۲۰