تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175243 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

دنيوى امور كى سرپرستى كےلئے اپنے بعد ان كى جانشينى كا اعلام فرماديں _

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس الہى پيغام كا اعلان مختلف مواقع پر فرمايا يہاں ہم اختصار كے پيش نظر ان تين احاديث كا ہى ذكر كريں گے جو آپ نے مختلف اوقات ميں بيان فرمائي ہيں :

۱_ حديث يوم الدار

۲_ حديث منزلت

۳_ حديث غدير

حديث يوم الدار

بعثت كى تين سال كے بعد جب يہ آيت نازل ہوئي ''وانذر عشيرتك الاقربين''(۳۲) يعنى رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كام پر مامور كئے گئے كہ وہ سب سے پہلے اپنے عزيز واقرباء كو دعوت اسلام ديں _ اس مقصد كے تحت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم پر حضرت علىعليه‌السلام نے بنى ہاشم كے چاليس سرداروں كو جن ميں ابوطالب، ابولہب ، حمزہ ، وغيرہ شامل تھے مدعو كيا جب سب لوگ كھانے سے فارغ ہوئے تو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا اے فرزندان عبدالمطلب عرب كے جوانوں ميں مجھے كوئي بھى ايسا نظر نہيں آتا جو تمہارے لئے مجھ سے بہتر پيغام لايا ہو _ ميں تمہارے لئے ايسا پيغام لے كر آياہوں جس ميں دونوں جہان كى خير وسعادت ہے_ خداوند تعالى نے مجھے حكم ديا ہے كہ ميں تمہيں اس كى طرف دعوت دوں _ تم ميں سے ايسا كون ہے جو اس راہ ميں ميرى مدد كرے تاكہ وہ ميرا بھائي ، وصى اور جانشين قرار پائے _ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس سوال كو تين مرتبہ دہرايا اور ہر مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام ہى اپنى جگہ سے اٹھے اور انہوں نے اپنى آمادگى كا اعلان كيا_

اس وقت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا : تو گويا علىعليه‌السلام ہى ميرے بھائي ، وصى اور جانشين ہيں لہذا تم ان كى بات سنو اور ان كى اطاعت كرو _(۳۳)

۲۱

حديث منزلت

صرف وہ غزوہ جس ميں حضرت علىعليه‌السلام نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حكم كے پيروى كرتے ہوئے شركت نہيں كى غزوہ تبوك تھا _ چنانچہ اس مرتبہ آپ جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حيثيت سے اور ان واقعات كا سد باب كرنے كى غرض سے جن كے رونما ہونے كا احتمال تھا مدينہ ميں ہى قيام پذير رہے_

جس وقت منافقوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ارادے كى خبر ہوئي تو انہوں نے ايسى افواہيں پھيلائيں جن سے حضرت علىعليه‌السلام اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تعلقات ميں كشيدگى پيدا ہوجائے اور حضرت علىعليه‌السلام كو يہ بات باور كراديں كہ اب آپ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو پہلى سى محبت نہيں _ چنانچہ جب آپ كو منافقين كى ان شرپسندانہ سازشوں كا علم ہوا تو ان كى باتوں كو غلط ثابت كرنے كى غرض سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں تشريف لے گئے اور صحيح واقعات كى اطلاع دي_ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علىعليه‌السلام كو مدينہ واپس جانے كا حكم ديتے ہوئے اس تاريخى جملے سے حضرت علىعليه‌السلام كے اس مقام و مرتبہ كو جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نزديك تھا اس طرح بيان فرمايا : ''كيا تم اس بات سے خوش نہيں ہو كہ ميرے اور تمہارے درميان وہى نسبت ہے جو كہ موسىعليه‌السلام اور ہارونعليه‌السلام كے درميان تھي_ مگر يہ كہ ميرے بعد كوئي نبى نہيں ہوگا_(۳۴)

قرآن مجيد ميں حضرت ہارون كے مقامات ومناصب:

اب ديكھنا يہ ہے كہ قرآن پاك كى نظر ميں حضرت ہارون كے وہ كون سے مناصب و مقامات تھے جو حضرت علىعليه‌السلام ميں بھى نبوت كے علاوہ (چنانچہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود ہى مذكورہ حديث ميں آپ كو اس سے مستثنى قرار ديا ہے) بدرجہ اتم موجود تھے_

چنانچہ جب ہم قرآن كى جانب رجوع كرتے ہيں تو ديكھتے ہيں كہ حضرت موسىعليه‌السلام نے حضرت ہارونعليه‌السلام كے لئے مندرجہ ذيل مناصب چاہے تھے_ مقام وزارت :( واجعل لى وزيرا من اهلى هارون اخي' ) _(۳۵) _ ''ميرے كنبے سے ہارون كو وزير مقرر كردے جوكہ ميرے بھائي ہيں ''_

۲۲

تقويت و تائيد''واشد به ازري'' _ اس كے ذريعے ميرا ہاتھ مضبوط كر

مقام نبوت:''واشركه فى امري''اور اس كو ميرے كام ميں شريك كردے''_

حضرت موسىعليه‌السلام نے جو چيزيں خداوند تعالے سے مانگيں اس نے ان كا مثبت جواب ديا اور مذكورہ تمام مقامات حضرت ہارون كو عطا كرديئے_ چنانچہ اس سلسلے ميں قرآن مجيد فرماتاہے:''قد اوتيت سوالك يا موسي_ ''اے موسى جو تم نے مانگا ہم نے عطا كيا''_

اس كے علاوہ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى غير موجودگى ميں حضرت ہارونعليه‌السلام كو اپنا جانشين مقرر كيا _ (وقال موسى لاخيہ ہارون اخلفنى فى قومي)موسى نے حضرت ہارون سے كہا تم ميرى قوم ميں ميرے خليفہ اور جانشين ہو ''_

حديث منزلت كے مطابق وہ تمام مناصب و مقامات جو ہارون كےلئے بيان كئے گئے ہيں ، صرف ايك منصب كے علاوہ كہ جسے آيت سے مستثنى قرار ديا ہے، حضرت علىعليه‌السلام كےلئے ثابت ہيں _

اس لحاظ سے حضرت عليعليه‌السلام ہى امت مسلمہ ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ياور و مددگار اور خليفہ ہيں _(۴۰)

حديث غدير

ہجرت كے دسويں سال پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس وقت ''حجة الوداع''(۴۱) سے واپس تشريف لا رہے تھے تو ماہ ذى الحجہ كى اٹھارہ تاريخ كو آپ نے ''غدير خم '' كے مقام پر فرمان خداوندى كے مطابق حكم ديا كہ سارے مسلمان يہاں توقف كريں اس كے بعد ايك لاكھ سے زيادہ افراد كى موجودگى ميں حمد وستائشے بارى تعالى كے بعد جو خطبہ ديا اسے جارى ركھتے ہوئے آپ نے دريافت فرمايا : اے لوگو تم ميں ايسا كون ہے جسے تمام مومنين پر برترى حاصل ہو ؟

سب نے كہا يہ تو خدااور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى بہتر جانتاہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا خداوند تعالى نے مجھے ولايت سے سرفراز فرمايا ہے اور مجھے تمام مومنين پر ان كے نفسوں سے زيادہ تصرف كا حق حاصل ہے_

۲۳

اس كے بعد آپ نے حضرت على عليه‌السلام كا ہاتھ اونچا كيا چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس وقت وہاں جمع تھے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دوش بدوش ديكھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا : جس كا مولا و سرپرست ميں ہوں علىعليه‌السلام اس كا مولا و سرپرست ہے _(۴۲) چنانچہ يہ جملہ آپ نے تين مرتبہ دہرايا_

اس كے بعد مزيد فرمايا : ''اے پروردگار تو اسے دوست ركھ جو علىعليه‌السلام كو دوست ركھے اور اسے دشمن ركھ جو علىعليه‌السلام كو دشمن ركھے _ خداوندا ياران علىعليه‌السلام كى مدد فرما اور اس كے دشمنوں كو ذليل و خواركر_(۴۳)

يہ تھيں وہ سرافرازياں جو حضرت علىعليه‌السلام نے زندگى كے اس اولين مرحلے ميں حاصل كيں كہ جس كى مدت دس سال سے زيادہ نہ تھى _ اگرچہ ديگر كتب ميں آپ كى سوانح حيات مفصل طور پر بيان كى گئي ہے مگر يہاں اختصار سے كام ليتے ہوئے انہى پر اكتفا كرتے ہيں _

۲۴

سوالات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے مختلف ادوار كے بارے ميں لكھيئے؟

۲_ بعثت سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى ميں كون سا اہم ترين واقعہ پيش آيا؟آپ كے اقوال كے روشنى ميں اس كى مختصر اً وضاحت كيجئے؟

۳_ حضرت علىعليه‌السلام كے امتيازات وافتخارات ميں سے ان دو كى كيفيت بيان كيجئے جو بعثت كے بعد اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت سے قبل رونما ہوئے_

۴_ جنگ بدر ميں حضرت علىعليه‌السلام كا كيا كردار رہا اختصار سے لكھ يے_

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غزوہ احزاب كے موقع پر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں كيا فرمايا تھا؟

۶_ حضرت علىعليه‌السلام نے مختلف جنگوں (بالخصوص جنگ بدر)ميں دلاورى كے جو جوہر دكھائے اورمشركين كو قتل كيا وہ آپ كى سياسى زندگى پر كس طرح اثر انداز ہوئے اور كب منظر عام پر آئے ان كى كوئي مثال لكھيئے

۷_ حديث ''يوم الدار'' كى مختصر وضاحت كيجئے اور بتايئے مذكورہ حديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد امامعليه‌السلام كى جانشينى پر كس طرح دلالت كرتى ہے؟

۲۵

حوالہ جات

۱_ عام الفيل وہ سال كہلاتا ہے جس ميں ابرہہ ہاتھيوں پر سوار لشكر كے ساتھ كعبہ كو نيست و نابود كرنے كى غرض سے آيا تھا_

۲_ حضرت عمران كے چار فرزند تھے جن كے نام طالب ، عقيل ، جعفر اور على تھے وہ ابوطالب كى كنيت سے مشہور تھے_ بعض مورخين نے حضرت علىعليه‌السلام كے والد كا نام عبدمناف بھى بيان كيا ہے (تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج۱ ص ۱۱)

۳_حضرت علىعليه‌السلام كى ولادت كو اہل سنت كے محدثين و مورخين نے بھى اپنى كتابوں ميں خانہ كعبہ ميں تحرير كيا ہے منجملہ ان كے مسعودى نے مروج الذہب (ج ۲ ص ۳۴۹)حاكم نے مستدرك (ج ۳ ص ۴۸۳) اور آلوسى نے شرح قصيدہ _ عبدالباقى افندى ص ۱۵ مزيد تفصيل كيلئے اہل سنت كے دانشوروں كے نظريات كو جاننے كيلئے ملاحظہ ہو كتاب ''الغدير'' ج ۴ ص ۲۳_ ۲۱

۴_ سيرت ابن ہشام ج ۱ /۲۶۲ ، كامل ابن اثير ج ۲/ ۵۸ كشف الغمہ ج ۱ / ۷۹ ، تاريخ طبرى ج ۲ / ۳۱۲ البتہ مورخين كى رائے ميں حضرت علىعليه‌السلام كے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر منتقل ہونے كا سبب وہ قحط سالى تھى جس سے شہر مكہ دوچار ہواتھا اور ابوطالب كى زندگى چونكہ تنگ دستى ميں گزر رہى تھى اس لئے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تجويز پر آپ كے قبيلے كے لوگ ان كے ہر فرزند كو اپنے ساتھ لے گئے اور حضرت علىعليه‌السلام كو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ساتھ لے آئے ليكن شہيد مطہرى نے نقل مكانى كى اس وجہ كو مسترد كيا ہے اور اسے مورخين كے ذہن كى اختراع قرار ديا ہے_ جس كا سبب رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اس اقدام كى اہميت اور قدر وقيمت كو كم كرنا مقصود ہے اس سلسلے ميں موصوف كا مطمع نظر متن كتاب ميں ملاحظہ ہو _

۵_ تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۱۳ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۳/۱۹۹ _ كشف الغمہ ج ۱ / ۱۱۷ كامل ابن اثير ج ۲ /۵۸ وسيرة ابن ہشام ج ۱ / ۲۶۳

۶_ نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ (۱۹۲)ولقد كنت اتبعه اتباع الفصيل اثر امه يرفع لى كل يوم من اخلاقه علماً يا مرنى بالاقتداء به

۷_ سورہ واقعہ آيہ( السابقون السابقون اولئك المقربون ) _ جنہوں نے اسلام قبول كرنے ميں سبقت

۲۶

كى وہى افراد خدا كى رضا ورحمت كے حصول ميں سبقت ركھتے ہيں _

۸_ سورہ حديد آيہ ۱۰( لاَيَستَوى منكُم مَن أَنفَقَ من قَبل الفَتح وَقَاتَلَ أُولَئكَ أَعظَمُ دَرَجَةً من الَّذينَ أَنفَقُوا من بَعدُ وَقَاتَلُوا ) ''تم ميں سے جو لوگ خرچ اور جہاد كريں گے وہ كبھى ان لوگوں كے برابر نہيں ہوسكتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد كيا ان كا درجہ بعد ميں خرچ اور جہاد كرنے والوں سے بڑھ كر ہے''_

۹_ سيرت ابن ہشام ج ۱ / ۲۴۶ ، كشف الغمہ ج ۱/۱۱۳ ، تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۱۰ _ سنن ابن ماجہ ج ۱/ ۵۷

۱۰ _''اولكم ورداً على الحوض اولكم اسلاماً على بن ابى طالب _ مستدرك حاكم ج ۳/ ۱۳۶ ، كشف الغمہ ج ۱ / ۱۰۵ _ تاريخ بغداد ج ۲/ ۸۱ شرح ابن ابى الحديد ج ۳ / ۳۸۵ وغيرہ مزيد اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو الغدير ج ۳/ ۲۲۰

۱۱_ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲ _''ولم يجمع بيت واحد يومئذ فى الاسلام غير رسول اللہ وخديجة انا ثالثہما ا رى نورالوحى والرسالة واشم ريح النبوة''_

۱۲_ نہج البلاغہ خ ۱۳۱ _اللهم انى اول من اناب وسمع واجاب

۱۳_ روايات سے مزيد آگہى كے لئے ملاحظہ ہو تفسير برہان ج ۱ / ۲۰۶ ، تفسير الميزان ج ۲/ ۹۹، مطبوعہ جامعہ مدرسين بحار ج ۱۹ صفحات (۵۶_ ۷۸_ ۸۷)

۱۴_ بقرہ آيہ ۲۰۷

۱۵_ قبا مدينہ سے دو فرسخ كے فاصلے پر واقع ہے يہاں قبيلہ بنى عمروبن عوف آباد تھا(معجم البلدان) ج ۴ / ۳۰۱

۱۶_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۷۷ (دس جلدي) منقول از سيرت حلبى واسد الغابہ

۱۷_والذى بعثنى بالحق الخ انت اخى فى الدنيا و الاخرة _ مستدرك حاكم ج ۳/ ۱۴

۱۸_ ''غزوہ'' اصطلاح ميں اس جنگ كو كہتے ہيں جس ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بذات خود موجود رہتے تھے _ ايسى جنگوں كى تعداد چھبيس يا ستائيس ہيں اورجن جنگوں ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موجود نہ تھے انہيں اصطلاحاً ''سريہ'' كہاجاتا ہے جن كى تعداد پينتيس سے چھياسٹھ تك كے درميان بتائي گئي ہے_

۱۹_ الصحيح من سيرة النبى ج ۳/۱۹۲ ، بحار ج ۱۹/ ۲۲۵ _ ۲۵۴ _۲۹۰

۲۷

۲۱_ الصحيح من سيرة النبى ج ۳ / ۲۰۳ _۲۰۲_ مناقب ج ۲/ ۶۸ نيز ملاحظہ ہو بحار ج ۱۹/ ۲۷۹_ ۲۷۶_ ۲۹۱

۲۲_ بحار ج ۲۰/۵۰ _ ۵۱ ،الصحيح من سيرة النبىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ج ۴ / ۲۱۸_ ۲۱۳_

۲۳_ ملاحظہ ہو تاريخ طبرى ج ۲/ ۵۱۴ كامل ابن اثير ج ۲/ ۱۵۴ وشرح ابن ابى الحديد ج ۱۴/ ۲۵۰ اس واقعے كا ذكر تمام مذكورہ كتب ميں مختصر سے فرق كے ساتھ موجود ہے _

۲۴_ بحار ج ۲۰ / ۷۰ خصال صدوق (مترجم) ج ۲ / ۱۲۷_

۲۵_ بحار ج ۲۰/ ۵۴ تفسير على ابن ابراہيم سے منقول_

۲۶_ ۱۲۷ _ بحارج ۲۰ / ۲۱۶_ ۲۱۵ _

۲۷_ بحار ج ۲۰ / ۲۰۵_

۲۸_''ا رونيه ترونى رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله (ارشاد مفيد / ۶۶)_

۲۹_ ارشاد مفيد / ۶۷ / ۶۵ بحار ج ۲۱ / ۱۶_ ۱۴_

۳۰ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۲۳_ الصحيح ج ۳/ ۲۲۰_

۳۱_ مقتل خوارزمى ۲ /۵۹ _

لستُ من خندف ان لم انتقم من بنى احمد ما كان فعل

لعبت هاشم بالملك فلا خبر جاء و لا وحى نزل

قد اخذنا من على ثارناوقتلنا الفارس الليث البطل

۳۲_ سورہ شعرا ء ۲۱۴ _

۳۳_ تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۲۱ و ۳۲۰ كامل ابن اثير ج ۲/ ۶۳ _ ۶۲ مجمع البيان ج ۸/ ۷ الغدير ج ۲ / ۲۷۸ ''فا يكم يؤازرنى على هذاالامر على ان يكون اخى ووصى وخليفتى فيكم ...؟ ان هذا اخى و وصيى وخليفتى فيكم فاسمعوا له واطيعوه'' _

۳۴_اما ترضى ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الا انه لا نبى بعدى _ غاية المرام كے صفحہ ۱۵۲ سے ۱۰۷پر ايك سو ستر (۱۷۰)محدثين كے طريق سے ''حديث منزلت'' كو نقل كيا گيا ہے ان ميں سے سو طريق اہل سنت والجماعت كے ہيں _ صاحب المراجعات نے بھى (۱۳۹_ ۱۴۱) پر مذكورہ حديث كو صحيح

۲۸

مسلم ، بخارى ، سنن ابن ماجہ ومستدرك حاكم اور اہل سنت كے ديگر مصادر سے نقل كيا ہے_

۳۵_ سورہ طہ ۲۹_ ۳۰_

۳۶_ _۳۷_ ۳۸ _ سورہ طہ آيات ۳۱_۳۲_ ۳۶_

۳۹_سورہ احزاب آيت ۱۴۲_

۴۰_ رہبرى امت مصنفہ جعفر سبحانى سے ماخوذ صفحات ۱۶۸ _ ۱۶۷_

۴۱_ فرمان خداوندى سورہ مائدہ آيت ۶۷ ''( ياأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغ مَا أُنزلَ إلَيكَ من رَبّكَ وَإن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رسَالَتَهُ وَالله ُ يَعصمُكَ من النَّاس ) '_

۴۲_من كنت مولاه فهذا على مولاه _اللهم وال من والاه و عاد من عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله _ ملاحظہ ہو الغدير ج ۱/ ۱۱_۹

۲۹

دوسر ا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك

وفات پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا

غير متوقع حادثہ

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں

لاتعلقي

امت كى پريشانى كا خطرہ

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ

منافقين كا خطرہ

شورى

وصى اور جانشين كا تقرر

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات

اس خطبے كے اہم نكات

انصار كا رد عمل

علىعليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز

سقيفہ كے واقعات كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كا رد عمل

علىعليه‌السلام نے كيوں عجلت نہيں كي؟

سوالات

حوالہ جات

۳۰

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك(۱)

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے تعميرى اور كردار ساز بعض حادثات وواقعات كا جائزہ ترتيب وار گذشتہ فصل ميں ليا جاچكا ہے _ چونكہ ہمارا مطمع نظر تاريخ اسلام كا تجزيہ وتحليل ہے نہ كہ ان بزرگوار شخصيات كے احوال زندگى كو بيان كرنا اسيلئے بہت سے ايسے واقعات جن كا امامعليه‌السلام نے ان مراحل ميں سامنا كيا ، ان كا ذكر نہيں كياجاسكا_اب ہم يہاں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد تاريخ اسلام كے واقعات كا جائزہ ليں گے_

وفات پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد سب سے پہلا واقعہ جو مسلمانوں كے سامنے آيا وہ عمر كى جانب سے رونما ہوا چنانچہ انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر كے سامنے بآواز بلند كہا كہ جو شخص يہ كہے گا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت ہوگئي ميں اسى تلوار سے اس كا سر قلم كردوں گا اگر چہ حضرت ابن عباس و ديگر صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ آيت بھى سنائي جس كا مفہوم يہ ہے كہ موت سے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بھى مفر نہيں(۲) مگر اس كا ان پر اثر نہ ہوا بوقت رحلت ابوبكر مدينہ سے باہر تھے _ چند لحظے گذرنے كے بعد وہ بھى آن پہنچے اور عمر كى داد و فرياد كى جانب توجہ كي ے بغير وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں داخل ہوگئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چہرہ مبارك سے چادر ايك طرف كركے بوسہ ديا اور مسجد ميں واپس آگئے اور يہ اعلان كيا كہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحلت فرماگئے ہيں _ اس كے بعد انہوں نے بھى اسى آيت كى تلاوت كى اس پر عمر نے كہا ايسا لگتا ہے كہ ميں نے آج تك گويا يہ آيت سنى ہى نہيں تھى(۳)

۳۱

غير متوقع حادثہ

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل دينے ميں مشغول اور مسلمان تكميل غسل و كفن كا انتظار كر رہے تھے تاكہ نماز جنازہ ميں شركت كرسكيں خبر آئي كہ كچھ لوگ ''سقفيہ بنى ساعدہ'' ميں جمع ہيں او رخليفہ منتخب كئے جانے كے بارے ميں بحث كر رہے ہيں اور قبيلہ خزرج كے سردار سعد بن عبادہ كا نام خلافت كےلئے پيش كيا گيا ہے_

عمر اور ابوبكر نے جيسے ہى يہ خبر سنى فوراً سقيفہ كى طرف روانہ ہوئے_ راستے ميں ابوعبيدہ بن جراح كو بھى مطلع كيا اور تينوں افراد نے سقيفہ(۴) كى جانب رخ كيا _

اس وقت تك معاملہ انصار كے ہاتھ ميں تھا ليكن جيسے ہى يہ تينوں مہاجر وہاں پہنچے تو تنازع شروع ہوگيا اور ہر شخص اپنى اہليت وشايستگى كى تعريف كرنے لگا _ بالآخر ابوبكر كو پانچ رائے كے ذريعے سقيفہ ميں خليفہ چن ليا گيا _

برادران اہل سنت نے اس واقعہ كو حقيقت سمجھ ليا اور خليفہ كے انتخاب كو مشاورت اور اجماع مسلمين كا نام دے كر اسے تسليم كرليا_

اس حقيقت كو آشكار كرنے كے لئے ضرورى ہے كہ مندرجہ ذيل عنوانات كا تجزيہ كياجائے تاكہ اصل واقعے كى وضاحت ہوسكے_

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں

شيعوں كا عقيدہ ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں ہى فرمان خدا كے ذريعے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طے اور واضح كرديا تھا اور جو كچھ سقيفہ بنى ساعدہ ميں پيش آيا وہ فرمان خدا اور حكم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف محض ايك تحريك تھي_

گذشتہ فصل ميں ہم نے چند ايسى دليليں اور حديثيں بيان كى تھےں جو مذكورہ دعوے كو ثابت كرتى ہيں _ يہاں اس مسئلے كا تاريخى واقعات كى روشنى ميں جائزہ لياجائے گا_

۳۲

پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دوش مبارك پر ايك عالمى تحريك كى قيادت تھى يہ بات بھى واضح و روشن ہے كہ اس تحريك كے پروان چڑھنے اور سياسى ، ثقافتى نيز اجتماعى سطح پر گہرى تبديلى لانے كيلئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا زمانہ رسالت (بعثت سے رحلت تك) كافى نہ تھا اگرچہ اسلام كے اس عظےم رہبر و پيشوا نے اس مختصر و محدود عرصے ميں ہى انسان كى تكميل اور اسلامى معاشرے كى تشكيل كے لئے بہت عظيم واساسى اقدامات كئے ليكن اس عالمى تحريك كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد بھى جارى و سارى رہناتھا_

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت اچانك واقع نہيں ہوئي بلكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كے وقوع پذير ہونے سے كچھ عرصہ قبل محسوس كرليا تھا كہ جلد ہى اس دنيا سے كوچ كر جائيں گے _ چنانچہ آپ نے ''حجةالوداع'' كے موقع پر كھلے لفظوں ميں اس كا اعلان بھى كرديا تھا اس كے بعد آپ كے پاس اسلام كے مستقبل سے متعلق سوچنے كے لئے وقت كافى تھا اور آپ كوئي اصولى روش وتدبير اختيار كركے ان عوامل كى پيش بندى كرسكتے تھے جن سے انقلاب خداوندى كى راہ ميں آئندہ كسى خطرے كے آنے كا امكان ہوسكتا تھا_ان حالات و واقعات كے بارے ميں غيبى عوامل كى مدداور سرچشمہ وحى سے ارتباط كو عليحدہ كركے بھى غور كياجاسكتا ہے ايسى صورت اور ان واقعات كى روشنى ميں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے اسلام كے مستقبل سے متعلق تين ہى ممكن راہيں ہوسكتى تھيں :

لا تعلقي

شوري

اپنے وصى اور جانشين كے بارے ميں وصيت

اب ہم تاريخى حقائق اور ان سياسى واجتماعى حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے جو اس وقت اسلامى معاشرہ پر حكم فرما تھے مذكورہ بالا تينوں راہوں كا اجمالى جائزہ ليں گے_

۳۳

لاتعلقي

لاتعلقى سے مراد يہ ہے كہ ہم اس بات كے قائل ہوجائيں كہ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اسلام كے مستقبل سے كوئي سرو كار نہ تھا بلكہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے نوشتہ تقدير اور آئندہ حالات كے رحم وكرم پر چھوڑ ديا تھا_

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جيسى شخصيت كے بارے ميں ايسى بے سرو پا باتوں كا فرض كرلينا كسى طرح بھى حقائق وواقعات كے موافق نہيں ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اسلامى رسالت كا مقصد يہ تھا كہ دور جاہليت كے جتنے بھى رگ وريشے اس دور كے انسان ميں ہوسكتے تھے انہيں اس كے دل وجان كے اندر ہى خشك كردياجائے اور اس كے بجائے ايك جديد اسلامى انسان كى تعمير كى جائے _ جب بھى كوئي ہادى و راہنما نہ ہو تو معاشرہ بے سرپرست رہ جائے اور انقلاب ميں ايك ايسا خلاء پيدا ہوجائے گا جس كى وجہ سے اس كو مختلف قسم كے خطرات لاحق ہوجائيں گے _ مثال كے طور پر :

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ روح رسالت اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تحريك كے مقاصد كو وہى شخص پايہ تكميل تك پہنچاسكتا تھا كہ جس كو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہچنواياتھا اور امت كے كسى فرد ميں اسكى صلاحيت نہ تھى كہ وہ رسول كے بعد زمام دارى اور رسالت كے مقصد كے درميان كوئي متين تناسب قائم كرسكے اور اسلامى معاشرہ سے ان جاہلى تعصبات كو دور كرسكے جو ابھى تك معاشرہ كى رگ و پے ميں موجود تھے كہ جس نے انہيں مہاجر، انصار ، قريش و غير قريش اور مكى و مدنى وغيرہ ميں تقسيم كر ركھا تھا_

۳۴

تھے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ كاغذ و دوات لے آؤ تاكہ ميں تمہارے لئے ايسا نوشتہ لكھ دوں كہ جس سے تم (ميرے بعد)ہرگز گمراہ نہ ہو(۵)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا يہ فرمانا ہى اس بات كى واضح و روشن دليل ہے كہ آيندہ رونما ہونے والے خطرات كے بارے ميں آپ كو تشويش تھى اور ان كا سد باب كرنے كے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوشاں تھے _

شورى

شورى سے مراد يہ ہے كہ گويا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد مسلمانوں كى رہبرى كو انہى كے وست اختيار ميں دے ديا تھا كہ جسكو چاہيں منتخب كر ليں _

اگرچہ اسلام نے قانون اور اصول شورى (مشاورت)كا احترام كيا ہے اور قرآن ميں اس كا شمار اوصاف مومنين ميں ہوتا ہے(۶) ليكن اس كا تعلق ان واقعات سے ہے جو مسلم معاشرے كے درميان رونما ہوتے ہيں اور ان كى بارے ميں كوئي نص صريح موجود نہ ہو كيونكہ اسلام كے قوانين و احكام مشوروں سے طے نہيں ہوتے يہى وجہ تھى كہ وہ ذمہ دارياں (تكاليف) جو وحى كى ذريعے معين كى گئيں تھيں ان كے بارے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كسى سے مشورہ نہ كيا چنانچہ مسئلہ ولايت و امامت كا شمار بھى ايسے ہى مسائل ميں ہوتاہے جو امور مشاورت كى حدود سے خارج ہيں يہى نہيں بلكہ اس كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى اپنى رائے كا اظہار نہيں فرما سكتے تھے _

يہى وجہ ہے كہ جس وقت قبيلہ بنى عامر كى ايك جماعت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات كرنے كے لئے آئي اور اس نے يہ تجويز پيش كى كہ ہم اس شرط پر ايمان لانے كو تيار ہيں كہ آپ اپنے بعد خلافت ہمارى تحويل ميں دے ديں اگرچہ اس وقت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انتہائي پر آشوب حالات سے دو چار تھے نيز قريش(۷) كى جانب سے آپ پر سخت دباؤ بھى تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوخوفزدہ كرنے كى كوشش بھى كى جا رہى تھى مگر اس كے باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا يہ كام خداند تعالى كا ہے (اور اس ميں مجھے كوئي اختيار نہيں )وہ جسے بھى مناسب سمجھے گا اسے ہى ميرے بعد ميرا جانشين مقرر كرے گا(۸) _

۳۵

اس كى علاوہ اسلام كى فلاح و بہبود كى خاطر پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نظام شورى كو سودمند اقدام خيال فرماتے تو آپ يقينا اپنے زمانہ حيات كے دوران ايسے دستورات عمل كا سلسلہ مرتب فرماتے جس كے ذريعے امت مسلمہ خود كو اس اقدام كے لئے تيار كر ليتى كہ شورى كے ذريعے نظام حكومت جارى ركھ سكے كيونكہ دور جاہليت كے نظام حكومت ميں كوئي ايسا ادارہ كار فرمانہ تھا جو شورى كى ذريعے نظام حكومت چلاسكے اگرچہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كسى وقت بھى نظام شورى اور راس كے دائرہ عمل نيز مشخصات كو منفى قرار نہيں ديا اور نہ ہى مسلمانوں كو يہ ہدايت فرمائي كہ وہ اس سے گريز كريں _

اس سے قطع نظر ابو بكر نے جب عمر كو اپنا جانشين مقرر كيا تو يہ اس امر كى واضح دليل تھى كہ اس اقدام كے ذريعے نظام شورى كى نفى كى گئي اور يہ ثابت ہو گيا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نظام شورى كے حامى نہ تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے اپنا حق سمجھتے تھے كہ زمانہ حيات ميں كسى ايسے شخص كو مقرر فرما ديں جو رحلت كے بعد آپ كا جانشين ہو سكے يہى نہيں بلكہ عمر بھى خليفہ مقرر كرنا اپنا حق سمجھتے تھے اور اسے انہوں نے چھ افراد كے درميان محدود كر ديا تھا تاكہ وہ اپنے درميان ميں سے كسى ايك شخص كو خليفہ مقرر كر ليں اور ان افراد كے علاوہ انہوں نے تمام امت مسلمہ كو اس حق سے محروم كر ديا تھا_

وصى اور جانشين كا تقرر

وصايت (عملى جانشينى)سے ہمارى مراد يہ ہے كہ تنہا ايك يہى ايسى راہ ہے جو حقائق اور فطرت اور خلافت كى واقعيت سے عين سازگار ہے اور ہم كہہ سكتے ہيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلام كى آيندہ فلاح و بہبود كى خاطر يہ مثبت اقدام فرمايا تھا اور خدا عالم كے حكم سے ايك شخص كو جانشين كى حيثيت سے مقرر كر ديا تھا چنانچہ صرف يہى ايك ايسا مثبت اقدام تھا جو مستقبل ميں اسلام كى خير و صلاح اور رسالت كو خطرات سے محفوظ ركھنے كا ضامن ہو سكتا تھا _ اسلام ميں سبقت ، اور دوسرے مسلمانوں كى نسبت عليعليه‌السلام كى واضح و امتيازى خصوصيات كى بناء پر كسى دوسرے شخص كو ان كے علاوہ

۳۶

پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا حق حاصل نہ تھا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علىعليه‌السلام كى باہمى زندگى كے ايسے بہت سے شواہد موجود ہيں جو اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حيثيت سے حضرت علىعليه‌السلام كى تربيت فرمارہے تھے كہ آيندہ اسلامى معاشرے كے آپعليه‌السلام ہى قائد و رہبر ہيں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپعليه‌السلام كو حقائق رسالت كى بہت سے خصوصيات سے نوازا تھا حضرت علىعليه‌السلام جب كبھى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كوئي بات دريافت فرماتے تو آپكا سوال ختم ہونے كے بعد رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كلام كى ابتدا فرماتے اور تہذيب و افكار كے ہدايا و تحائف كى دولت سے آپعليه‌السلام كو معزز و مفتخر فرماتے چنانچہ روز و شب كا زيادہ وقت باہمى گفتگو اور خلوت مےں گذرتا _

اس كے علاوہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانشينى كا مختلف مواقع پر اعلان بھى فرما ديا تھا چنانچہ اس ضمن ميں بكثرت احاديث نبوى موجود ہيں جس ميں سے حديث يوم الدرار ' حديث الثقلين ' حديث منزلت اور سب سے اہم غدير (حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر مسلمانوں كا بيعت كرنا)قابل ذكر اور اس دعوے كى شاہد و گواہ ہيں(۹) _

مزيد بر آں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد بہت سے حوادث رونما ہوئے اور آپ نے پورى زندگى جہاد و ذمہ دارى ميں گذارى جس سے يہ بات ثابت ہوتى ہے كہ آپعليه‌السلام ہى رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جانشين ہيں آپ كى لياقت كا ايك نمونہ يہ ہے كہ جن مسائل كو حل كرنا خلفاء كے لئے ناممكن تھا انھيں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى سے حل كرتے تھے ليكن اس كے برعكس ہميں خلفاء كے زمانہ ميں ايك موقعہ بھى ايسا نظر نہيں آتا كہ جس ميں امامعليه‌السلام نے كسى مشكل كے حل كيلئے يا اسلام كے نظريہ سے مزيد آگہى كے لئے كسى سے رجوع كيا ہو(۱۰)

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات

معن بن عدى اور عويم بن ساعدہ نامى دو افراد كے دلوں ميں '' سعد بن عبادہ خزرجى '' كے

۳۷

خلاف كدورت تھى ان كے ذريعے عمر اور ابوبكر كو خبر ملى كہ انصار سقيفہ بنى ساعدہ ميں جمع ہو رہے ہيں چنانچہ يہ دونوں حضرات نہايت عجلت كے ساتھ اضطراب و پريشانى كے عالم ميں ابو عبيدہ كے ہمراہ سقيفہ ميں داخل ہوئے عمر گفتگو كا آغاز كر كے ابوبكر كى خلافت كيلئے ميدان ہموار كرنا چاہتے تھے ليكن ابو بكر نے منع كر ديا اور كہا كہ اگر مجھ سے كوئي فرو گذاشت ہو جائے تو تم اس كى تلافى كرو چنانچہ اس كے بعد انھوں نے تقرير شروع كى اور خداوند عالم كى وحدنيت اور رسالت رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شہادت كے بعد كہا كہ مہاجرين ميں ہم وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے دين اسلام قبول كيا اور اس لحاظ سے تمام لوگ ہمارے پيروكار ہيں ہم طائفہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مركز قبائل عرب ميں سے ہيں نيز ان كے درميان نقطئہ ربط و تعلق ہيں آپ انصار بھى خدا و رسول كے ياور و مددگار ہيں پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پشتيبان اور ہمارے سردار ہيں دين اور اس كے فائدے ميں آپ ہمارے شريك ہيں _ خداوند تعالى كى رضا ميں راضى رہے اور اس پاك پروردگار نے تم سے مہاجر بھائيوں كے لئے جو كچھ چاہا اسے قبول كرنے ميں لائق و شائستہ ترين افراد ثابت ہوئے ليكن تمہيں اس پر حسد نہيں كرنا چاہيے اسلام كى ترقى كى خاطر تم نے مشكلات ميں اپنى طاقت كے جوہر دكھائے اس بنا پر تمہارے لئے يہ زيبا نہيں كہ اپنے ہى ہاتھوں سے اس دين كى بيخ كُنى كرو_ ميں تمہيں ابو عبيدہ اور عمر كى بيعت كى دعوت ديتا ہوں ميں دونوں ہى كو قابل و اہل سمجھتا ہوں(۱۱) اس موقعے پر ان دونوں نے كہا : لوگوں ميں سے كسى كو تم پر برترى حاصل نہيں ہے _ تم پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے يار غار ہو

اس خطبے كے اہم نكات

ابو بكر نے جو تقرير كى اس كے بعض نكات كا ذكر كرنا يہاں ضرورى ہے _(۱۲)

ابوبكر نے پہلے مہاجرين كى تعريف كى تاكہ ان كى عظمت انصار كے ذہنوں پر نقش ہو جائے اس كے بعد جس حد تك ممكن تھا اُس نے انصار كى بھى تعريف و توصيف بيان كى اور خود كو منصف كى حيثيت سے ظاہر كيا جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ انصار كو اپنى طرف متوجہ كر ليا اس تردو كے بر خلاف جو

۳۸

خلافت كے سلسلہ مےں انصار كے ذہنوں ميں تھا ابوبكر نے يقين كے ساتھ كہا مہاجرين كى خلافت جو خدا كى مرضى كے مطابق ہے اور يہى خدا كا حتمى فيصلہ ہے چنانچہ ہر قسم كا تذبذب ختم ہو گيا ابوبكر نے خلافت كو مہاجرين كا مسلم حق ثابت كرنے كے بعد اس سلسلہ ميں انصار كى كسى بھى فعاليت كو خدا سے عہد شكنى اور دين كو برباد كرنے كے مترادف قرار دے ديا اپنى تقرير كے آخر ميں ابوبكر نے حاضرين كو عُمر و ابوعبيدہ كى بيعت كى دعوت دى وہ طبيعى طور پر ابوبكر كو مقدم سمجھتے تھے گويا وہ پہلے ہى خليفہ كى تعيين كے سلسلہ ميں منصوبہ بنا چكے تھے _(۱۳)

انصار كا ردّعمل

پروگرام كے تحت ابوبكر كى ہونے والى تقرير سن كر انصار اپنے گذشتہ موقف سے ہٹ گئے اور انہوں نے مہاجرين كے سامنے اپنے سرخم كر ديئے ان ميں '' حباب بن منذر '' ہى ايك ايسے انصار تھے جنہوں نے كھڑے ہو كر يہ دھمكى دى كہ اگر مہاجرين انصار سے مصالحت نہيں كرتے تو ہم عليحدہ مستقل حكومت قائم كر ليں گے ليكن عمر نے فورا ہى اس كى گفتگو كى كمزورى سے فائدہ اٹھاتے ہوئے كہا كہ افسوس دو تلواريں ايك ميان ميں نہےں سماسكتيں خدا كى قسم عرب اس بات پر ہرگز راضى نہےں ہوں گے كہ حكومت تمہارے حوالے كر دى جائے اس كى وجہ يہ تھے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم ميں سے نہےں تھے _(۱۴) مہاجرين اور انصار كے درميان حصول اقتدار كى خاطر بہت سخت كشمكش ہونے لگى چنانچہ انصار كے دو قبيلوں اوس اور خزرج كے درميان شديد اختلاف پيدا ہو گيا قبيلہ اوس كے سردار ''اسيد بن حضير'' كا ميلان مہاجرين كى طرف تھا ، اس نے اظہار رغبت كيا انكى پيروى كرتے ہوئے '' بشير بن سعد خزرجى '' نے لوگوں كو مہاجرين كى بيعت كى جانب رغبت دلانا شروع كى بالاخر اس كشمكش كا نتيجہ يہ ہوا كہ خلافت كا فيصلہ ابوبكر كے حق ميں ہوگيا اور انھيں پانچ رائے كے ذريعے خليفہ منتخب كر ليا گيا _(۱۵)

اس واقعے كا اگر اجمالى طور پر جايزہ ليں تو اس نتيجے پر پہنچيں گے كہ سقيفہ ميں جو كچھ پيش آيا

۳۹

اور اس ميں ابوبكر كو خليفہ منتخب كيا گيا وہ انتخاب كے اصول و ضوابط كے منافى تھا _

اس معاملے مےں فيصلہ اتنى عجلت و جلدى سے كيا گيا كہ كسى صاحب فكر شخص كو اتنا موقعہ ہى نہےں ديا گيا كہ وہ اس مسئلے كے بارے ميں غور و فكر كر سكے اور كسى مخالف كوبھى اتنى مہلت نہ ملى كہ وہ اپنے دعوے كے حق ميں دليل پيش كر سكے اس عجلت و تندى كے باعث روح انتخابات كى اچھى طرح پائمالى كى گئي كہ حتى كہ ان لوگوں سے بھى جو سقيفہ ميں موجود تھے حق رائے دہى سلب كر ليا گيا شروع سے آخر تك ذاتى ميلانات و احساسات كار فرما رہے اس كے علاوہ انتخاب اس طرح كيا گياكہ بيشتر مسلمان قطعى لاعلم و بے خبر رہے اور جنہيں اطلاع بھى ہوئي تو وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مراسم تجہيز و تكفين ميں منہمك و مشغول تھے وہ سقيفہ والے انتخابات ميں شريك نہيں ہو سكتے تھے _

جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے انتخاب كے لئے جس مجلس كى تشكيل كى گئي تھى اس ميں كم از كم كوئي ايسا شخص تو اپنے افراد خاندان كے ہمراہ وہاں پيش پيش رہتا جس كى قدر و منزلت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظروں ميں وہى تھى جو حضرت ہارون كى حضرت موسيعليه‌السلام كے نزديك تھى اس واقعے پر جب ہم شروع سے آخر تك نظر ڈالتے ہيں تو ديكھتے ہيں يہ سب اس طرح پيش آيا كہ قبيلہ بنى ہاشم بالخصوص اس كے سردار يعنى اميرالمومنين علىعليه‌السلام ان واقعات سے قطعى بے خبر اور لاعلم ركھا گيا _

علىعليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز

حضرت علىعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جسد مبارك كى تجہيز و تدفين ميں منہمك و مشغول تھے كہ ابو سفيان ' جس مےں حس تدبر و سياست فہمى بہت تيز تھى ' پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر پہنچا تاكہ مسلمانوں كے درميان اختلاف پيدا كرے اور حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے يہ تجويز پيش كى كہ آپعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرے ليكن حضرت علىعليه‌السلام اسكى نيت كو جانتے تھے لہذا اسكى باتوں كو قطعى اہميت نہ دى اور فرمايا تمہارا مقصد مسلمانوں كے درميان فتنہ پھيلانا ہے_(۱۶)

جس وقت ابوسفيان نے يہ تجويز پيش كى توعين اس وقت حضرت عباس نے بھى چاہا كہ اپنے

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

و الحظنی بالحظته من لحظاتک تنوربها قلبی بمعرفتک خاصته و معرفته اولیائک انک علی کل شیء قدیر _(۳۹۷)

امام جعفر صادق(ع) کا حکم

عنوان بصری چورا نوے سال کا کہتا ہے کہ میں علم حاصل کرنے کے لئے مالک بن انس کے پاس آتا جاتا تھا_ جب جعفر صادق علیہ السلام ہماری شہر آئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا کیونکہ میں دوست رکھتا تھا کہ میں آپ سے بھی کسب فیض کروں ایک دن آپ نے مجھ سے فرمایا کہ میں ایک ایسا شخص ہوں کہ جو مورد نظر اور توجہہ قرار پاچکا ہوں یعنی میرے پاس لوگوں کی زیادہ آمد و رفت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود میں دن او رات میں خاص ورد اور ذکر بجا لاتا ہوں تم میرے اس کام میں مزاحم اور رکاوٹ بنتے ہو تم علوم کے حاصل کرنے کے لئے پہلے کی طرح مالک بن انس کے پاس جایا کرو_ میں آپ کی اس طرح کی گفتگو سے غمگین اور افسردہ خاطر ہوا اور آپ کے ہاں سے چلا گیا اور اپنے دل میں کہا کہ اگر امام مجھ میں کوئی خیر دیکھتے تو مجھے اپنے پاس آنے سے محروم نہ کرتے میں رسول خدا کی مسجد میں گیا اور آپ پر سلام کیا دوسرے دن بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روضہ میں گیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا اے میرے اللہ تعالی میرے لئے جعفر صادق علیہ اسلام کا دل نرم کردے اور اس علم سے مجھے وہ عطا کر کہ جس کے ذریعے میں صراط مستقیم کی ہدایت پاؤں_ اس کے بعد غمگین اور اندوہناک حالت میں گھر لوٹ آیا اور مالک بن انس کے ہاں نہ گیا کیونکہ میرے دل میں جعفر صادق علیہ السلا کی محبت اور عشق پیدا ہو چکا تھا بہت مدت تک سوائے نماز کے میں اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا یہاں تک میرا صبر ختم ہوچکا اور ایک دن جعفر صادق کے دروازے پر گیا اور اندر جانے کی اجازت طلب کی آپ کا خادم باہر آیا اور کہا

۲۲۱

کہ تجھے کیا کام ہے؟ میں نے کہا کہ میں امام کی خدمت میں مشرف ہونا چاہتا ہوں اور سلام کرنا چاہتا ہوں خادم نے جواب دیا کہ آقا محراب میں نماز میں مشغول ہیں اور وہ واپس گھر کے اندر چلا گیا اور میں آپ کے دروازے پر بیٹھ گیا_ زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ وہ خادم دوبارہ لوٹ آیا اور کہا کہ اندر آجاؤ میں گھر میں داخل ہوا آور آنحضرت پر سلام کیا آپ نے میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ بیٹھ جاؤ خدا تجھے مورد مغفرت قرار دے_ میں آپ کی خدمت میں بیٹھ گیا آپ نے اپنا سر مبارک جھکا دیا اور بہت دیر کے بعد اپنا سر بلند کیا اور فرمایا تمہاری کنیت کونسی ہے؟ میں نے عرض کی کہ ابوعبداللہ آپ نے فرمایا کہ خدا تجھے اس کنیت پر ثابت رکھے اور توفیق عنایت فرمائے_ تم کیا چاہتے ہو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر اس ملاقات میں سوائے اس دعا کہ جو آپ نے فرمائی ہے اور کچھ بھی فائدہ حاصل نہ ہو تو یہ بھی میرے لئے بہت قیمتی اور ارزشمند ہے_ میں نے عرض کی کہ میں نے خدا سے طلب کیا ہے کہ خدا آپ کے دل کو میرے بارے میں مہربان کردے اور میں آپ کے علم سے فائدہ حاصل کروں_ امیدوار ہوں کہ خداوند عالم نے میری یہ دعا قبول کر لی ہوگی_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا _ اے عبداللہ _ علم پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ علم ایک نور ہے_ جو اس انسان کے دل میں کہ خدا جس کی ہدایت چاہتا ہے روشنی ڈالتا ہے پس اگر تو طالب علم ہے تو پہلے اپنے دل پر حقیقی بندگی پیدا کر اور علم کو عمل کے وسیلے سے طلب کر اور خدا سے سمجھنے کی طلب کرتا کہ خدا تجھے سمجھائے_ میں نے کہا_ اے شریف_ اپ نے فرمایا اے ابوعبداللہ_ کہہ میں نے کہا کہ بندگی کی حقیقت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا بندگی کی حقیقت تین چیزوں میں ہے_ پہلی بندہ کسی چیز کے مالک نہیں ہوا کرتا بلکہ مال کو اللہ تعالی کا مال سمجھے اور اسی راستے میں کہ جس کا خدا نے حکم دیا ہے خرچ کرے_ دوسری_ اپنے امور کی تدبیر میں اپنے آپ کو ناتواں

۲۲۲

اور ضعیف سمجھے_ تیسری _ اپنے آپ کو اللہ تعالی کے اوامر اور نواہی کے بجالانے میں مشغول رکھے اگر بندہ اپنے آپ کو مال کا مالک نہ سمجھے تو پھر اس کے لئے اپنے مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنا آسان ہوجائیگا اور اگر اپنے کاموں اور امور کی تدبیر اور نگاہ داری اللہ تعالی کے سپرد کردے تو اس کے لئے مصائب کا تحمل کرنا آسان ہوجائیگا اور اگر وہ اللہ تعالی کے احکام کی بجا آوری میں مشغول رہے تو اپنے قیمتی اور گران قدر وقت کو فخر اورمباہات اور ریاکاری میں خرچ نہیں کرے گا اگر خدا اپنے بندے کو ان تین چیزوں سے نواز دے تو اس کے لئے دنیا اور شیطن اور مخلوق آسان ہوجائے گی اور وہ اس صورت میں مال کو زیادہ کرنے اور فخر اور مباہات کے لئے طلب نہیں کرے گا اور جو چیز لوگوں کے نزدیک عزت اور برتری شمار ہوتی ہے اسے طلب نہیںکرے گا اور اپنے قیمتی وقت کو سستی اور بطالت میں خرچ نہیں کرے گا اور یہ تقوی کا پہلا درجہ ہے اور خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ یہ آخرت کا گھر ہم اس کے لئے قرار دیں گے کہ جو دنیا میں علو اور فساد برپا نہیں کریں گے اور عاقبت اور انجام تو متقیوں کیلیئے ہے_

تلک الدار الاخرة نجعلها للذین لا یریدون علوا فی الارض و لا فسادا و العاقبته للمتقین _

میں نے عرض کیا کہ اے امام(ع) _ مجھے کوئی وظیفہ اور دستور عنایت فرمایئےآپ نے فرمایا کہ میں تجھے نو چیزوں کی وصیت کرتا ہوں اور یہ میری وصیت اور دستورالعمل ہر اس شخص کے لئے ہے جو حق کا راستہ طے کرنا چاہتا ہے اور میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ خدا تجھے ان پر عمل کرنے کی توفیق دے_ تین چیزیں اور دستور العمل نفس کی ریاضت کے لئے ہیں اور تین دستور العمل حلم اور بردباری کے لئے ہیں اور تین دستور العمل علم کے بارے میں ہیں_ تم انہیں حفظ کر لو اور خبردار کہ ان کے بارے میں سستی کرو_ عنوان بصری کہتا ہے کہ میری تمام توجہ آپ کی فرمایشات کی طرف تھی آپ نے فرمایا کہ وہ تین دستور العمل جو

۲۲۳

نفس کی ریاضت کے لئے ہیں وہ یہ ہیں_

۱_ خبردار ہو کہ جس چیز کی طلب اور اشتہاء نہ ہو اسے مت کھاؤ_ ۲_ اور جب تک بھوک نہ لگے کھانا مت کھاؤ_ ۳_ جب کھانا کھاؤ تو حلال کھانا کھاؤ اور کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھو_ آپ نے اس کے بعد رسول اللہ کی حدیث نقل کی اور فرمایا کہ انسان بر تن کویر نہیں کرتا مگر شکم کا پر کرنا اس سے بدتر ہوتا ہے اور اگر کھانے کی ضرورت ہو تو شکم کا ایک حصہ کھانے کے لئے اور ایک حصہ پانی کے لئے اور ایک حصہ سانس لینے کے لئے قرار دے_

وہ تین دستور العمل جو حلم کے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں_

۱_ جو شخص تجھ سے کہے کہ اگر تو نے ایک کلمہ مجھ سے کہا تو میں تیرے جواب میں دس کلمے کہونگا تو اس کے جواب میں کہے کہ اگر تو نے دس کلمے مجھے کہے تو اس کے جواب میں مجھ سے ایک کلمہ بھی نہیں سنے گا_

۲_ جو شخص تجھے برا بھلا کہے تو اس کے جواب میں کہہ دے کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو خدا مجھے معاف کردے اور اگر تم جھوٹ کہہ رہے تو خدا تجھے معاف کردے_

۳_ جو شخص تجھے گالیاں دینے کی دھمکی دے تو تو اسے نصیحت اور دعا کا وعدہ کرے وہ تین دستور العمل جو علم کے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں_

۱_ جو کچھ نہیں جانتا اس کا علماء سے سوال کر لیکن ملتفت رہے کہ تیرا سوال کرنا امتحان اور اذیت دینے کے لئے نہیں ہونا چاہئے_ ۲_ اپنی رائے پر عمل کرنے سے پرہیز کر اور جتنا کر سکتا ہے احتیاط کو ہاتھ سے نہ جانے دے_ ۳_ اپنی رائے سے (بغیر کسی مدرک شرعی) کے فتوی دینے سے پرہیز کر اور اس سے اس طرح بچ کے جیسے پھاڑ دینے والے شیر سے بچتا ہے_ اپنی گردن کو لوگوں کے لئے پل قرار نہ دے اس کے بعد اپ نے مجھ سے فرمایا کہ اب یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ_ بہت کافی مقدار میں نے تجھ نصیحت کی ہے اور میرے ذکر اور اذکار کے بجالانے میں زیادہ مزاحم اور رکاوٹ نہ بنو کیونکہ میں اپنی جان کی قیمت اور ارزش کا قائل ہوں اور سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی

۲۲۴

کرتا ہے_

''و السلام علی من اتبع الهدی'' _(۳۹۸)

مرحوم مجلسی کا دستور العمل

بہت بڑے بزرگوار عالم جو مقام عرفان میں عارف ربانی ملا محمد تقی مجلسی ہیں انہوں نے لکھا ہے_ کہ میں نے اپنے آپ کو صاف کرنے اور ریاضت کرنے میں کچھ حاصل کیا ہے اور یہ اس وقت تھا جب میں قرآن کی تفسیر لکھنے میں مشغول تھا_ ایک رات نیم نیند اور بیداری میں پیغمبر علیہ السلام کو دیکھا_ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میں آنحضرت کے کمالات اور اخلاق میں خوب اور دقت کروں_ میں نے جتنی زیاددہ وقت کی اتنا ہی آنحضرت کی عظمت اور نورانیت کو اس طرح وسیع تر پایا کہ آپ کے نور نے تمام جنگوں کو گھیرا ہوا تھا اسی دوران میں جاگ اٹھا اور اپنے آپ میں آیا تو مجھے القاء ہوا کہ رسول خدا کا اخلاق عین قرآن ہے لہذا ہمیں قرآن میں غور اور فکر کرنا چاہئے میں جتنا قرآن میں زیادہ غور اور فکر کرتا جاتا تھا اتنا ہی زیادہ حقائق سامنے آتے جاتے تھے یہاں تک کہ ایک ہی دفعہ مجھ میں بہت زیادہ قرآن کے معارف اور حقائق آ موجود ہوئے میں جس آیت میں تدبر اور فکر کرتا تھا تو مجھے عجیب موحبت اور مطالب عطا کئے جاتے تھے گرچہ یہ مطالب اس شخص کے لئے کہ جس نے ایسی توفیق حاصل نہ کی ہو بہت دشوار اور ارشاد کرنا ہے_ نفس کی ریاضت او راپنے آپ کو سنوار نے کا دستور العمل یہ ہے کہ بے فائدہ گفتگو کرنے بلکہ اللہ تعالی کے ذکر بغیر بات کرنے سے اپنے آپ کو روکیں_ کھانے پینے اور لباس و غیرہ کی لذیذ چیزوں اور بہترین اور خوبصورت مکان اور عورتوں کو ترک کریں اور بقدر ضرورت استعمال کرنے پر اکتفاء کریں اولیاء خدا کے علاوہ لوگوں سے میل جول نہ رکھیں زیادہ سونے سے پرہیز کریں اور اللہ کے ذکر کو دائماً

۲۲۵

اور پابندی سے بجالائیں_ اولیاء خدا نے یا حی یا قیوم او ریا _ من لا الہ الا انت کا زیادہ تجربہ کیا ہے اور میں نے بھی اسی ذکر کا تجربہ کیا ہے لیکن میرا غالبا ذکر _ یا اللہ _ جب کہ دل کو خدا کے علاوہ سے نکال کر اور خداوند عالم کی طرف پوری توجہہ سے ہوا کرتا تھا_

لیکن سب سے زیادہ اہم اللہ تعالی کا پوری توجہ اور پابندی سے ذکر کرنا ہوا کرتا ہے باقی چیزیں اللہ تعالی کے ذکر کے برابر نہیں ہوا کرتیں اگر اللہ کا ذکر چالیس دن اور رات تک متصل کیا جائے تو حکمت اور معرفت اور محبت کے انوار کے دروازے ایسے کرنے والے پر کھول دیئے جاتے ہیں اس وقت وہ فناء فی اللہ اور بقاء باللہ کے مقام تک ترقی کر جاتا ہے_(۳۹۹)

ملا آخوند حسین قلی کا خط

آخوند ملا حسین قلی ہمدانی جو عالم ربانی اور زاہد اور عارف تھے انہوں نے ایک خط تبریز شہر کے ایک عالم کو لکھا کہ جس میں آپ نے فرمایا _بسم الله الرحمن الرحیم الحمد لله رب العالمین و الصلواة و اسلام علی محمد و آله الطاهرین و لعنته الله علی اعدائهم اجمعین _ دینی اور ایمانی بھائیوں پر واضح ہونا چاہئے کہ ذات الہی تک قرب حاصل کرنا سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہے کہ انسان کو تمام حرکات اور سکنات اور تمام اوقات میں شریعت اسلامی کا پابند ہونا چاہئے_

جاہل صوفیاء کی لغویات اور خرافات سے جو ان کی عادت بن چکی ہے اس کے اپنا نے سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ ان کے طریقے اور ذکر اور ورد پر عمل کرنا اللہ سے دور ہو جانے کے اور سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا یہاں تک کہ اگر کوئی شخص موچھوں کو بڑھانے رکھے جیسے کہ یہ ایران کے صوفیوں کی جو اپنے آپ کو شیعہ کہلاتے ہیں علامت ہے_ ) اور اسے ضروری سمجھتے ہیں اور گوشت کو نہ کھائے تو یہ بھی خرافات اور لغویات میں شمار ہوتا ہے اگر کوئی شخص ائمہ علیہم السلام کے معصوم ہونے

۲۲۶

پر ایمان رکھتا ہے تو اسے سمجھنا چاہئے کہ وہ ایسے اعمال سے جو ایران کے شیعہ صوفی انجام دیتے ہیں اور اسی طرح خاص ذکر جو ائمہ علیہم السلام سے وارد نہیں ہوئے بجا لاتے ہیں ان سے وہ ذات خدا کے قرب سے دور ہو رہے ہوتے ہیں اور ان سے انہیں قرب الہی حاصل نہیں ہوتا_ لہذا سب سے پہلے شرعیت اسلامی کو مقدم کرے اور جو کچھ شریعت میں وارد ہوا اس پر عمل کرنے کا پابند بنے_ اس ناتوان اور کمزور بندے نے عقل اور روایات سے جو کچھ سمجھا اور استفادہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے سب سے زیادہ اہم خدا کی معصیت اور نافرمانی کو ترک کرنا ہوگا اور جب تک یہ نہیں کرے گا تب تک نہ کوئی ذکر اور نہ کوئی فکر تیرے دل کو فائدہ پہنچا سکے گا کیونکہ شیطان کی اطاعت اور خدمت کرنے والا جو ذات الہی کا نافرمان اور انکاری ہے کس طرح اس ذات کا قرب حاصل کر سکے گا کیا کوئی بادشاہ او راس کی سلطنت خداوند عالم کی سلطنت سے عظیم الشان ہے_

جو کچھ میں نے ذکر کیا ہے اسے خوب سمجھ تیرا اللہ تعالی کی محبت کو طلب کرنا جب کہ تو اس کی معصیت بجالا رہا ہے ایک غلط اور فاسد کام ہے_ کس طرح تم پر مخفی ہے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی نفرت کا سبب ہوا کرتی ہے اور اللہ تعالی کا نفرت کرنا محبت کے ساتھ اکٹھا نہیں ہوا کرتا _ جب تیرے نزدیک ثابت ہوچکا ہے کہ نافرمانی نہ کرنا اول اور آخر ظاہر اور باطن دین ہے تو پھر مجاہدہ اور کوشش کرنے کی طرف جلدی کر اور پوری کوشش سے نیند سے بیدار ہونے سے لے کر تمام اوقات میں مراقبہ میں مشغول رہ اور اللہ تعالی کی ذات اقدس کے ادب بجالانے کی پابندی کر اور یہ جان لے کہ تو اپنے تمام وجود کے ذرہ ذرہ میں اس کی قدرت کا قیدی ہے اور اللہ تعالی کے حضور کا احترام کر اور اس کی یوں عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ ذات تجھے دیکھ رہی ہے_ ہمیشہ اس کی عظمت اور اپنے حقیر ہونے اس کی بلندی اور اپنی پستی اس کی عزت اور اپنی ذلت اور اس کا مستفی ہوتا اور تیرا محتاج ہونے کی طرف متوجہہ رہ_ اور اس ذات کی طرف غفلت سے جب کہ وہ تیری

۲۲۷

طرف ہمیشہ ملتفت ہے غافل نہ رہ_ اس ذات کے سامنے ایک ذلیل ضعیف بندے کی طرح کھڑا ہو اور اپنے قدموں کو اس کے سامنے یوں جھکا جیسے ایک کمزور کتا اپنے قدم زمین پر رگڑتا ہے_ کیا تیرے لئے یہ شرف اور فخر کافی نہیں کہ اس نے تجھے اپنے عظیم نام لینے کی تیری کثیف اور معصیت کی گندگی سے نجس زبان سے ذکر کرنے کی اجازت دی ہے_

عزیز من_ اس رحیم اور کریم ذات نے زبان کو اپنے شریف ذکر کا مرکز قرا ردیا ہے کتنی بے حیائی ہوگی کہ اس کے مرکز کو غیبت جھوٹ گالیاں دینا آزار اور اذیت اور دوسری نافرمانیوں کی گندگی اور نجاست سے آلودہ کیا جائے_ ذات الہی کے مرکز کو خوشبو اور گلاب سے معطر ہونا چاہئے نہ کہ گندگیوں سے نجس ہو_بلا شک جب مراقبت اور حفاظت کرنے میں وقت نہیں کرے گا تو تجھے علم نہ ہوگا کہ تیرے سات اعضاء یعنی کان زبان ہاتھ پاؤں پیٹ اور شرمگاہ کیا کیا نافرمانی کرتے ہیں اور کتنی آگ لگاتے ہیں؟ اور تو ان سے قتل نہ کیا جا چکا ہو_ اگر میں ان مفاسد کی شرح بیان کروں تو اس خط میں ممکن نہیں ہے میں آیک ورقہ پر کیا کچھ لکھ سکتا ہوں_ تم نے ابھی تک اپنی اعضاء کو معصیت سے پاک نہیں کیا پھر تو کس طرح انتظار رکھتا ہے کہ میں دل کے حالات کی تیرے لئے شرح لکھ دوں پس سچی توبہ کرنے کی طرف جلدی کر اور پھر مراقبت اور کوشش کرنے کی طرف دوڑ لگا_ خلاصہ مراقبت اور حفاظت نفس کے بعد قرب الہی کو طلب کر اور سحری کے وقت بیدا ہو اور تہجد کی نماز کو آداب اور حضور قلب سے بجا لا اور اگر زیادہ وقت مل سکے تو اللہ کے ذکر اور اس کی مناجات میں مشغول ہوجا لیکن رات کے ایک خاص وقت میں حضور قلب کے ساتھ ذکر الہی میں مشغولل رہ اور تمام حالات میں حزن اور رنج سے خالی نہ رہتا اور اگر حزن اور رنج موجود نہ ہو تو اسے اس کے اسباب سے حاصل کر اور فارغ ہونے کے بعد حضرت زہرا علیہ السلام کی تسبیح اور بارہ دفعہ سورہ توحید دس مرتبہ لا الہ الا اللہ و حدہ لا

۲۲۸

شریک لہ لہ الملک کو آخر تک اور سہ مرتبہ لا الہ الا اللہ اور ستر مرتبہ استغفار_ اور تھوڑا سا قرآن پڑھ اور دعا صباح بھی ضرور پڑھا کر اور ہمیشہ با وضو رہ اور اگر ہر وضو کے بعد دو رکعت نماز پڑھ لے تو بہت اچھا ہے_ مومنین کی حاجات اور بالخصوص علما اور بالاخص جو متقی ہیں کے بجالانے میں بہت کوشش کر اور جس محفل میں گناہ کے واقع ہونے کا گمان ہو حتمی طور سے اس کے جانے سے پرہیز کر بلکہ غافل لوگوں کے ساتھ بغیر ضروری کام کے اٹھ بیٹھ کرنا نقصان وہ ہے گرچہ اس میں معصیت بھی نہ ہوتی ہو_ مباح چیزوں میں زیادہ مشغول رہنا زیادہ مزاح کرنا اور لغویات کہنا اور غلط چیزوں کو سننا انسان کے دل کو مار دیتے ہیں اور اگر مراقبہ کے بغیر ذکر اور فکر میں مشغول ہو تو وہ بھی بے فائدہ ہوگا گرچہ حال بھی لے آئے کیونکہ ایسا حال دائمی نہ ہو گا بغیر مراقبہ کے حال پیدا ہونے سے دھوکا نہ کھا_ اس سے زیادہ کہنے کی مجھ میں طاقت نہیں ہے_ التماس دعا اور تم تمام سے دعا کا ملتمس ہوں_ اس بندہ حقیر پر تقصیر اور معاصی کو فراموش نہ کرنا_ شب جمعہ میں سو دفعہ اور جمعہ کے عصر میں سو دفعہ سورہ قدر کو پڑھا کرو_(۴۰۰)

میرزا جواد آقا تبریزی کا دستور العمل

عالم ربانی عارف کامل آقا ملکی تبریزی لکھتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل سجدہ کرنے کی بہت زیادہ سفارش فرمائی ہے کہ یہ ایک بہت ہی اہم کام ہے_ طویل سجدہ کرنا بندگی کی قریب ترین کیفیت اور علامت ہے اسی لئے تو ہر ایک رکعت میں دو سجدہے قرار دیئے گئے ہیں_ ائمہ اطہار اور خالص شیعوں سے طویل سجدے کے بارے میں مہم مطالب ثقل ہوئے ہیں_ امام زین العابدین علیہ السلام کو ایک سجدے میں ایک ہزار مرتبہلا اله الا الله حقا حقا لا اله الا الله تعبدا و رقا لا اله الا ایمانا و صدقا پڑھتے سنا گیا_

امام موسی کاظم علیہ السلام کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ کبھی آپ کا سجدہ صبح کی

۲۲۹

نماز کی بعد ظہر تک ہوا کرتا تھا اور ائمہ علیہم السلام کے اصحاب میں سے ابن ابی عمیر و جمیل و خربود کے بارے میں بھی ایسا نقل کیا گیا ہے_ نجف اشرف میں طالب علمی کے زمانے میں میرے ایک استاد تھے جو متقی طلبہ کے لئے مرجع تھے میں نے آپ سے سوال کیا آپ نے کو ن سے عمل کا تجربہ کیا ہے کہ جو سالک الی اللہ کے حق میں موثر اور مفید ہو؟ آپ نے فرمایا کہ دن اور رات میں اسیک طویل سجدہ بجا لایا جائے اور سجدہ کی حالت میں یہ کہا جائےلا اله الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین اور اس کے ذکر میں اس طرح توجہہ کرے کہ میرا خدا کسی پر ظلم کرنے سے پاک و پاکیزہ ہے بلکہ میں خود ہوں جو اپنے اوپر ظلم کرتا ہوں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہوں_ میرے یہ استاد اپنے مریدوں اور علاقمندوں سے ایسے سجدہ کی سفارش کیا کرتے تھے اور جو بھی یہ سجدہ بجالاتا تھآ اس کے اثرات کا مشاہدہ کیا کرتا تھا _ بالخصوص وہ حضرات جو اس سجدے کو بہت زیادہ طویل انجام دیتے تھے ان میں سے بعض اس ذکر کو سجدہ میں تکرار کیا کرتے تھے بعض تھوڑا اور بعض زیادہ تکرار کرتے تھے میں نے سنا ہے کہ ان میں سے بعض اس ذکر کو تین ہزار مرتبہ سجدہ میں پڑھا کرتے تھے_(۴۰۱)

شیخ نجم الدین کا دستور العمل

شیخ نجم الدین رازی لکھتے ہیں کہ اداب اور شرائط کے بغیر زیادہ ذکر کرنا مفید نہیں ہوتا_ پہلے شرائط اور ترتیب سے قیام کیا جائے اور جب سچے مرید کو سلوک الی اللہ کا دل میں درد پیدا ہوجائے تو یہ علامت ہوگی کہ اس نے ذکر سے انس پیدا کر لیا ہے اور اسے مخلوق سے وحشت اور نفرت پیدا ہوگئی ہے جو تمام مخلوق سے نامید ہو کر ذکر الہی کی پناہ میں چاپہنچا ہے_ قل اللہ ثم ذرہم (یعنی اللہ کا ذکر کر اور تمام مخلوق کو چھوڑ دے کہ وہ اپنی لغویات میں کھیلتے رہیں) جب ذکر کو پے در پے بجالائے جو صحیح اور خالص توبہ کے بعد ہو اور ذکر کرنے کی حالت میں با غسل ہو اور اگر یہ نہ کر

۲۳۰

سکے تو با وضو ہو کیونکہ ذکر الہی کرنا دشمن کے ساتھ جنگ کرنے کے مانند ہوا کرتا ہے اور بغیر اسلحے کے دشمن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور وضو مومن کا اسلحہ ہوا کرتا ہے_ الوضوء سلاح المومومن پاک کپڑے پہنے ہوا ہو اور کپڑے کے پاک ہونے کی چار شرطیں ہیں_ ۱_ نجاست سے پاک ہو_ ۲_ لوگوں پر ظلم کئے ہوئے مال سے پاک ہو_ ۳_ حرام سے یعنی ابریشم سے پاک ہو یعنی ابریشمی کپڑا نہ ہو_ ۴_ رعونت اور تکبر سے پاک ہو یعنی کپڑا کوتاہ ہو بہت لمبا نہ ہو_ ثیابک فطہر سے مراد کوتاہ کرنا ہے_ اور گھر میں خلوت اور تاریکی اور صفات ستھرا کر کے بیٹھے اور اگر تھوڑی خوشبو یعنی دھونی کرے تو بہتر ہے_ قبلہ رخ بیٹھے اور چار زانوں یعنی پلٹھی مار کر گرچہ تمام حالا میں بیٹھنا منع ہے لیکن ذکر کرنے کی حالت میں خواجہ علیہ السلام جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تھے تو اسی جگہ پلتھی مار کر یعنی چار زانوں سورج کے نکلنے تک بیٹھے رہتے تھے_ ذکر کرنے کے وقت اپنے ہاتھوں کو رانوں پر رکھے اور دل کو حاضر کرے اور آنکھیں بند کر لے اور پوری تعظیم کے ساتھ ذکر کرنا شروع کردے اور لا الہ الا اللہ کے جملے کو پوری طاقت سے گویا اس کی ناف لا الہ سے اٹھے اور الا اللہ دل پر بیٹھ جائے اور اس کا تمام اعضاء پر اثر ظاہر ہو رہا ہو لیکن اپنی آواز کو بلند نہ کرے اور جتنا ہو سکے آہستہ اور کمتر آواز سے ذکر کرے جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے _و اذکر ربک فی نفسک تضرعا و خیفة و دون الجہر من القول اس طرح سے تحت ذکر کرتے ہوئے اس کے معنی کو دل میں فکر کرے دوسرے خیالات کو دور کرے جیسے کہ لا الہ کے معنی سے یہی مراد ہے کہ جو بھی خدا کے علاوہ خیالات ہوں انہیں دور کرے اور گویا یوں سوچے کہ میں سوائے الا اللہ کے کوئی چیز نہیں چاہتا اور میرا مقصود اور محبوب صرف الا اللہ ہے اور تمام خیالات کو الا اللہ کے ذریعے دور کر رہا ہوں اور اللہ تعالی کو اپنا مقصود اور محبوب اور مطلوب الا اللہ کے ذریعے سے کر رہا ہوں اور جان لینا چاہئے کہ ہر ذکر میں اول سے لے کر آخر تک دل نفی اور اثبات میں

۲۳۱

حاضر ہو اور لگا رہے_ اور جس وقت دل کے اندر نگاہ کرے اگر کوئی چیز دل کو لبھانے والی ہو تو اسے نظر انداز کر کے دل کو ذات الہی کی طرف توجہہ دے اور الا اللہ کے ذریعے اس چیز کو دل سے اکھیڑ دے اور اس کے ربط کو باطل کردے اور الا اللہ کو اس چیز کی محبت کی جگہ قرار دے دے اسی روش کو دوام دے تا کہ دل آہستہ آہستہ تمام چیزوں کی محبت اور انس سےے خالی ہو کر ذکر الہی سے سرشار ہوجائے_ اس کا باحال ہونا ذکر کے غالب ہوجائے سے ہو_ ذکر کرنے والے کا وجود ذکر کے نور میں مضمحل ہو جائے اور ذاکر کو ذکر مفرد بنا دے اور تمام تعلقات اور موانع کو اس کے وجود سے ختم کر دے اور اسے جسمانی دنیا سے اخروی دنیا کے لئے آمادہ کردے جیسے وارد ہوا ہے کہ سیروا فقد سبق المفردون جان لے کہ دل اللہ تعالی کے لئے خلوت کی جگہ ہے_ لا یسعنی ارضی و لا سمائی و انما یسعنی قلب عبدی المومن یعنی مجھے نہ زمین اور نہ آسمان سمو سکتا ہے مجھے صرف مومن کا دل سمو سکتا ہے_ اور جب تک دل میں اغیار کا وجود ہوگا اس وقت تک اللہ تعالی کی عظمت کی غیرت اس سے نفرت کرے گی لیکن جب لا الہ کا چابک دل کو اغیار سے خالی کر دے گا اس وقت الا اللہ کی بادشاہ کی تجلی کا انتظار کیا جا سکتا ہے_اذا فرغت فانصب و الی ربک فارغب (۴۰۲) جیسے کہ آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہے کہ عرفان کے استاذہ نے ذکر کے دوامی بجالانے کو سیر و سلوک کے لئے بہترین طریقہ قرار دیا ہے اور اس کے پہنچنے کے لئے مختلف طریقے اور تجربات اور وصیتیں فرمائی ہیں_ اس مطلب کی علت یہ ہے کہ جتنے ذکر کے طریقے شرعیت میں وارد ہوئے ان کے بنانے کی اصلی غرض غیر خدا سے قطع تعلق کرنا اور پوری توجہہ خدا تعالی کی طرف کرنے کو حاصل کرنا ہے لیکن یہ کام افراد اور مقامات اور حالات کے لحاظ سے فرق رکھتا ہے لہذا کسی نہ کسی استاذ اور مربی کی ضرورت ہے کہ جو اس کام میں رہبری انجام دے احادیث اور دعاؤں کی کتابوں میں بہت زیادہ دعائیں نقل ہوئی ہیں_ اور ہر ایک کے لئے ثواب اور خاصیت ذکر کی گئی ہے_ مطلق دعا اور ذکر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک مطلق اور دوسرا مقید_ بعض ذکر

۲۳۲

کے لئے خاص زمانہ اور خاص ترکیب اور خاص عدد بتلایا گیا ہے ایسے ذکر کو اسی طرح بجالانا چاہئے جیسکہ ائمہ علیہم السلام سے نقل ہوا ہے تا کہ اس کے ثواب اور خاص اثر کو حاصل کیا جا سکے_ اس کے بر عکس بعض ذکر مطلق ہیں جن میں کوئی قید نہیں ہے اسے انسان اپنے اختیار سے خاص شرائط اور حالات اور عدد اور زمانے کا تعین کر سکتا ہے_ اور اسے دائمی بجالاتا رہے یا اپنے کسی استاد اور رہنما سے اس میں راہنمایی حاصل کرے آپ اس بارے میں احادیث اور دعاؤں کی کتابوں کی طرف رجوع کر سکتے ہیں_

آخر میں دو مطلب کی طرف توجہہ دلانا ضروری ہے_ پہلا_ عارف انسان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ذکر کرنے کی اصلی غرض و غایت خداوند عالم کی طرف حال اور حضور قلب کا حاصل کرنا ہوتا ہے لہذا ذکر کی تعداد اور زمانے اور کیفیت میں یہ مطلب مد نظر رہے اور پھر اس کو دائمی بجالائے اور جب تھک جائے یا بے میل اور رغبت ہو تو اسے چھوڑ دے اور پھر مناسب وقت میں دوبارہ شروع کر دے_ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' دل اور روح کبھی حالت اقبال اور توجہہ رکھتی ہے اور کبھی سب اور بے میل اور بے رغبت نہ ہوتی ہے لہذا جب دل مائل اور رغبت رکھتا ہو اس وقت عمل کیا جائے کیونکہ اگر روح کو عمل کرنے پر مجبور کیا جائے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے_(۴۰۳)

البتہ اس بارے میں افراد اور مقامات اور حالات کا فرق ہوا کرتا ہے_

دوسرا_ یہ جاننا چاہئے کہ ریاضت نفس اور ذکر کی اصلی غرض اور غایت نفس اور روح کا تکامل اور قرب خداوند ہے_ اللہ تعالی کا تقرب بغیر احکام پر عمل کرنے سے ممکن نہیں ہوا کرتا اگر کوئی انسان شرعی یا اجتماعی ذمہ داری رکھتا ہو تو وہ اسی حالت میں اللہ تعالی کی یاد میں ہو سکتا ہے اور جتنا ہو سکے ذکر کو بھی انجام دے اور فراغت کی حالت میں ذکر کو دائمی بجالائے گوشہ نشین نہیں ہو جانا اور اجتماعی اور شرعی ذمہ داری کو نظر کردینے سے انسان اللہ کا قرب اور تقرب حاصل نہیں کر سکتا_

۲۳۳

موانع (رکاوٹیں)

کمالات اور مقامات عالیہ تک پہنچنا اتنا سادہ اور آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ راستہ طے کرنا بہت مشکل اور دشوار ہے اس راستے میں کئی ایک موانع اور رکاوٹیں موجود ہیں اور جو انسان کمال حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے ان کو دور کرنا ہوگا ورنہ وہ کبھی کمال تک نہیں پہنچ سکے گا_

پہلی رکاوٹ

قرب الہی حاصل کرنے اور سر و سلوک الی اللہ کی سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی قابلیت کا نہ ہونا ہے_ جو روح اور دل گناہوں کے ارتکاب کرنے کی وجہ سے تاریک اور آلودہ ہوچکا ہو وہ انوار الہی کی تابش کا مرکز قرار نہیں پا سکتا_ جب انسان کا دل گناہوں کی وجہ سے شیطن کی حکومت کا مرکز پا چکا ہو وہاں کس طرح اللہ کے مقرب فرشتے داخل ہو سکے ہیں ؟ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب انسان کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پیدا ہو جاتا ہے اگر تو اس نے توبہ کر لی تو وہ نقطہ مٹ جاتا ہے_ اور اگر وہ اسی طرح گناہ بجالاتا رہا

۲۳۴

تو و سیاہ نقطہ تدریجاً بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے ت مام دل کو گھیر لیتا ہے اس حالت میں وہ کبھی کامیابی اور چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے گا_(۴۰۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' میرے والد فرمایا ہے کہ انسان کے دل اور روح کے لئے گناہ سے کوئی چیز بدتر نہیں ہوا کرتی کیونکہ گناہ انسان کی روح اور قلب سے جنگ کرنا شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ اس پر قابو اور غلبہ حاصل کر لیتا ہے اس صورت میں اس کا دل الٹا اور سرنگوں ہو جاتا ہے_(۴۰۵) گناہ گار انسان کی روح سرنگوں اورالہی ہوجاتی ہے اور وہ الٹے راستے چلتی ہے تو پھر وہ کس طرح قرب الہی کے رساتے کی طرف حرکت کر سکی گی اور اللہ تعالی کے فیوضات اور اشراقات کو قبول کرے گی؟ لہذا کمال تک رسائی حاصل کرنے والے انسان کے لئے ضروری اور واجب ہوجاتا ہے کہ وہ ابتداء ہی سے اپنے نفس اور روح کو گناہوں سے پاک اور صاف کرے اور پھر ریاضت اور ذکر الہی میں داخل ہو ور نہ اس کا ذکر اور عبادت میں کوشش کرنا اس کو قرب الہی تک نہیں پہنچا سکے گا_

دوسری رکاوٹ

کمال حاصل حاصل کرنے سے ایک بڑی رکاوٹ مادی اور دنیاوی تعلقات ہیں جیسے مال اور دولت سے اہل و عیال سے یا مکان اور زندگی کے اسباب سے جاہ و جلال مقام اور منصب سے مال باپ سے بہن بھائی سے یہاں تک کہ علم اور دانش سے اور اس طرح کی دوسری چیزوں سے علاقہ اور تعلق یہ وہ تعلقات ہیں کہ انسان کو اللہ تعالی کے قرب حاصل کرنے اور اس کے طرف حرکت اور ہجرت کرنے سے روک دیتے ہیں_

جس دل نے محسوسات سے محبت اور انس کر رکھا ہو اور اس کا فریفتہ اور عاشق ہو کس طرح وہ ان چیزوں کو چھوڑ کر عالم بالا کی طرف حرکت کرے گا جو دل دنیاوی

۲۳۵

امور کا مرکز اور مکان بن چکا ہو وہ کب انوار الہی کی تابش کا مرکز قرار پاسکتا ہے؟ بہت سی روایات کے مطابق دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے_ گناہ گار انسان اللہ تعالی سے قرب کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا کی محبت ہر ایک گناہ کی جڑ ہے( ۴۰۶)

رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' سب سے پہلی چیز کہ جن سے اللہ تعالی کی نافرمانی کی گئی وہ چھ تھیں دنیا سے محبت حکومت اور مقام منصب سے محبت_ عورت سے محبت_ خوراک سے محبت نیند سے محبت اور آرام اور سکون سے محبت_(۴۰۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان اللہ تعالی سے اس حکومت میں زیادہ دور ہوتا ہے جب اس کی غرص و غایت صرف پیٹ کا بھرنا اور شہوات حیوانی کا پورا کرنا ہو_

جناب جابر فرماتے ہیں کہ میں امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھ سے فرمایا اے جابر_ میں محزون اور مشغول دل والا ہوں_ میں نے عرض کی کہ میں آپ پر قربان جاؤں آپ کا محزون اور غمگین ہونا اور مشغول ہونا کس سبب اور وجہہ سے ہے_ آپ نے فرمایا کہ جس کے دل میں خالص اور صاف دین داخل ہو چکا ہو اس کا دل غیر خدا سے خالی ہوجاتا ہے_ اے جابر_ دنیا کیا ہے اور کیا قیمت رکھتی ہے؟ کیا وہ صرف لقمہ نہیں ہے کہ جسے تو کھاتا ہے اور لباس ہے کہ جسے تو پہنتا ہے یا عورت ہے کہ جس سے شادی کرتا ہے کیا اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟ اے جابر_ مومنین دنیا اور زندگی پر بھروسہ نہیں کرتے اور آخرت کے جہاں میں جانے سے اپنے آپ کو امان میں نہیں دیکھتے_ اے جابر_ آخرت ہمیشہ رہنے والی منزل اور مکان ہے اور دنیا مرنے اور چلے جانے کا محل اور مکان ہے_ لیکن دنیا والے اس مطلب سے غافل ہیں صرف مومنین جو فکر او رعبرت اور سمجھ رکھتے ہیں انہیں جوان کے کانوں پر پڑتا ہے اللہ تعالی کے ذکر سے نہیں روکتا_ زرو جواہرات کا دیکھنا انہیں اللہ تعالی کے

۲۳۶

ذکر سے غافل نہیں کرتا وہ آخرت کے ثواب کو پالیتے ہیں گویا کہ انہوں نے اس کے علم حاصل کرلیا ہے_(۴۰۹)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' انسان ایمان کی شرینی کو نہیں چکھ سکتا مگر جب وہ جسے کھاتا ہے اس سے لاپرواہی نہ برتے_(۴۱۰)

لہذا عارف انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس طرح کا علاقہ اور محبت اپنے دل سے نکال دے تا کہ اللہ تعالی کی قرب اور مقامات عالیہ کی طرف اس کا حرکت اور ہجرت کرنا ممکن ہوسکے_ دنیا کے اور اور فکر کو اپنے دل سے باہر نکال دے تا کہ اللہ کی یاد اس کے دل میں جگہ پاسکے_ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دنیاوری امور سے علاقہ مندی اور دل دے دنیا صرف قابل خدمت ہے نہ کہ خود دنیا مذموم ہے کیونکہ عارف انسان دوسرے انسانوں کی طرح زندگی کو باقی رکھنے میں غذا اور لباس اور مکان اور بیوی کا محتاج ہے اور ان کے حاصل کرنے کے لئے اسے ضرور کام کرنا ہوگا_ نسل کی بقاء کے لئے اسے شادی ضرور کرنی ہوگی_ اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لئے اسے اجتماعی ذمہ داریاں قبول کرنی ہونگیں اسلامی شرعیت میں ان میں کسی کی مذمت نہیں کی گئی بلکہ ان کے بجالانے میں اگر قصد قربت کرلے تو وہ عبادت بھی ہوجائیں گی اور اللہ سے تقرب کا موجب ہونگیں خود یہ چیزیں اللہ تعالی کے قرب حاصل کرنے کی مانع نہیں ہوا کرتیں وہ جو مانع ہے ان امور سے وابستگی اور محبت ہے_

اگر یہی امور زندگی کی غرض اور غایت قرار پائیں اور اللہ تعالی کے ذکر اور فکر سے غافل بنادیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان خدا سے غافل ہوجائے اور پیسہ او رعورت مقام اور منصب اور علم پرست ہوجائے جو قابل مذمت ہے اور انسان کو اللہ تعالی کی طرف حرکت کرنے سے روک دیتا ہے ورنہ خود پیسہ اور زن علم اور مقام منصب اور ریاست قابل مذمت نہیں ہیں_ کیا پیغمبر اسلام امام سجاد اور امیرالمومنین علیہ السلام اور دوسرے ائمہ اطہار کام اور کوشش نہیں کیا کتے تھے اور اللہ تعالی کی نعمتوں سے استفادہ نہیں کیا کرتے تھے، اسلام کی سب سے بزرگ خصوصیت یہ ہے کہ

۲۳۷

دنیاوی اور اخروی امور کے لئے کسی خاص حد اور مرز کا قائل نہیں ہے_

تیسری رکاوٹ

خواہشات نفس اور اس کی ہوی اور ہوس سے پیروی کرنا قرب الہی حاصل کرنے کا بہت بڑا مانع ہے_ نفسانی خواہشات دل کے گھر کو سیاہ دھوئیں کی طرح سیاہ کر دیتے ہیں اس طرح کا دل اللہ تعالی کے انوار کی تابش کی قابلیت نہیں رکھتا_ نفسانی خواہشات انسان کے دل کو ادھر ادھر کھینچتے رہتے ہیں اور اسے مہلت نہیں دیتے کہ وہ خداوند عالم سے خلوت کرسکے اور اس ذات سے انس اور محبت کرسکے_ وہ دن رات نفسانی خواہشات کے پورا کرنے کی تلاش اور کوشش میں لگا رہتا ہے_ وہ کب دنیا کو چھوڑسکتا ہے تا کہ بارگاہ الہی کی طرف پرواز کرسکے_ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے_ '' ہوی او رہوس کی پیروی نہ کر کیونکہ وہ تجھے خدا کے راستے سے دور کئے رکھیں گے_(۴۱۱) امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سب سے بہادر انسان وہ ہے جو خواہشات نفس پر غلبہ حاصل کرے _(۴۱۲)

چوتھی رکاوٹ

خدا کی یادسے ایک رکاوٹ او رمانع شکم پرستی ہے_ جو شخص دن رات کوشش کرتا رہتا ہے کہ اچھی اور لذیذ غذا مہیا کرے اور اپنے پیٹ کو مختلف قسم کی غذاؤں سے پر کرے وہ کس طرح اپنے خدا سے خلوت اور راز و نیاز اور انس کرسکتا ہے_ غذا سے بھرا ہوا پیٹ کس طرح اللہ تعالی کی عبادت اور دعا کرنے کی حالت پیدا کرسکتا ہے_ غذا سے بھر ہوا پیٹ کس طرح اللہ تعالی کی عبادت اور دعا کرنے کی حالت پیدا کرسکتا ہے_ جو انسان کھانے اور پینے میں لذت سمجھتا ہے وہ کس طرح اللہ تعالی سے مناجات کی لذت کو محسوس کرسکتا ہے؟ اسی لئے تو اسلام نے شکم پرستی کی مذمت کی ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابوبصیر سے فرمایا ہے کہ '' انسان کا پیٹ بھر جانے

۲۳۸

سے طغیان کرتا ہے اللہ تعالی سے زیادہ نزدیک ہونے کی حالت انسان کے لئے اس وقت ہوتی ہے جب کہ اس کا پیٹ خالی ہو اور بدترین حالت اس وقت ہوتی ہے جب اس کا پیٹ بھرا ہوا ہو_( ۴۱۳)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' مومن کے دل کے لئے پرخوری سے اور کوئی چیز نقصان دہ نہیں ہے_ پرخوری قساوت قلب کا سبب ہوا کرتی ہے او رشہوت کو تحریک کرتی ہے_ بھوک مومن کا سالن اور روح کی غذا اور طعام ہے اور بدن کی صحت ہے(۴۱۴) امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب اللہ تعالی کسی بندے کی مصلحت دیکھتا ہے تو اسے کم غذا کم کلام اور کم خواب کا الہام کرتا ہے_(۴۱۵)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' نفس پر کنٹرول کرنے اور عادت کے ختم کرنے کے لئے بھوک بہترین مددگار ہے(۴۱۶) امیرالمومنین علیہ السلام نے روایت کی ہے کہ '' خداوند عالم نے معراج کی رات رسول خدا سے فرمایا_ اے احمد_ کاش تم بھوک اور ساکت رہنے اور تنہائی اور اس کے آثار کی شیرینی کو چکھتے_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرض کی اے میرے خدا_ بھوک کا کیا فائدہ ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا _ دا_نائی دل کی حفاظت میرا تقرب ہمیشگی حزن تھوڑا خرچ_ حق گوئی اور آسائشے اور تنگی میں بے خوف _(۴۱۷)

درست ہے کہ عارف انسان بھی دوسرے انسانوں کی طرح زندہ رہنے اور عبادت کی طاقت کے لئے غذا کا محتاج ہے اسے اتنی مقدار جو بدن کی ضرورت کو پورا کرے کھانا کھانا چاہئے اور شکم پری سے پرہیز کرنا چاہئے_ کیونکہ شکم پری سستی بے میلی اور عبادت کی طرف بے رغبتی قساوت قلب اور اللہ تعالی کی یاد سے غفلت کا سبب ہوا کرتی ہے اور اگر تھوڑا کھائے اور بھوکا رہے تو عبادت کے لئے آمادگی اور خداوند عالم کی ذات کی طرف توجہہ کرنے کا سبب ہوا کرتی ہے_ اس کا تجربہ کیا جا چکا ہے انسان بھوک کی حالت میں با نورانیت روح با صفا اور ہلکا پھکا رہتا ہے لیکن پیٹ بھری ہوئی حالت میں ایسا نہیں ہوا کرتا لہذا ایک عارف انسان کے لئے ضروری ہے کہ جتنی بدن

۲۳۹

کو غذا کی ضرورت ہے اتناہی کھائے بالخصوص جب عبادت اور دعا اور ذکر میں مشغول ہو تو بھوکا ہی رہے_

پانچویں رکاوٹ

عارف اور سالک انسان کو اس کے قرب الہی کے مقصد اور حضور قلب اور خدا کی طرف توجہہ سے ایک رکاوٹ غیر ضروری اور بے فائدہ گفتگو کرنا ہوا کرتی ہے_ خداوند عالم نے انسان ضرورت کی مقدار تک گفتگو کرے تو اس نے اس بہت بڑی نعمت سے صحیح فائدہ حاصل کیا ہوگا اور اگر بیہودہ اور غیر ضروری گفتگو کرے تو اس نے اس بہت بڑی نعمت کو ضائع اور بردبار کر دیا ہوگا اس کے علاوہ زیادہ اور ادھر ادھر کی گفتگو اور باتیں کرنا انسان کی فکر کو پریشان کر دیتی ہیں اور پھر وہ پوری طرح سے اللہ تعالی کی طرف حضور قلب اور توجہہ پیدا نہیں کر سکتا_ اسی لئے احادیث میں زیادہ اور بے فائدہ باتیں کرنے کی مذمت وارد ہوئی ہے_

پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سوائے اللہ تعالی کے ذکر کرنے کے زیادہ کلام کرنے سے پرہیز کرو کیونکہ اللہ تعالی کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں کرنا قساوت قلب کا سبب ہوتا ہے اللہ تعالی سے سب سے زیادہ دور انسان وہ ہے کہ جس کا دل تاریک ہو_(۴۱۸)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اپنی زبان کی حفاظت کر اور اپنی گفتگو کو شمار کرتا رہے تا کہ تیری گفتگو امر خیر کے علاوہ کمتر ہوجائے_(۴۱۹)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' گفتگو تین قسم کی ہوا کرتی ہے _ مفید _ سالم _ شاحب یعنی بیہودہ_ مفید گفتگو ذکر خدا_ سالم گفتگو وہ ہے کہ جسے خدا دوست رکھے_ شاحب گفتگو وہ ہے جو لوگوں کے متعلق بیہودہ بات کی جائے_(۴۲۰)

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348