تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180438 / ڈاؤنلوڈ: 4273
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

دنيوى امور كى سرپرستى كےلئے اپنے بعد ان كى جانشينى كا اعلام فرماديں _

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس الہى پيغام كا اعلان مختلف مواقع پر فرمايا يہاں ہم اختصار كے پيش نظر ان تين احاديث كا ہى ذكر كريں گے جو آپ نے مختلف اوقات ميں بيان فرمائي ہيں :

۱_ حديث يوم الدار

۲_ حديث منزلت

۳_ حديث غدير

حديث يوم الدار

بعثت كى تين سال كے بعد جب يہ آيت نازل ہوئي ''وانذر عشيرتك الاقربين''(۳۲) يعنى رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كام پر مامور كئے گئے كہ وہ سب سے پہلے اپنے عزيز واقرباء كو دعوت اسلام ديں _ اس مقصد كے تحت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم پر حضرت علىعليه‌السلام نے بنى ہاشم كے چاليس سرداروں كو جن ميں ابوطالب، ابولہب ، حمزہ ، وغيرہ شامل تھے مدعو كيا جب سب لوگ كھانے سے فارغ ہوئے تو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا اے فرزندان عبدالمطلب عرب كے جوانوں ميں مجھے كوئي بھى ايسا نظر نہيں آتا جو تمہارے لئے مجھ سے بہتر پيغام لايا ہو _ ميں تمہارے لئے ايسا پيغام لے كر آياہوں جس ميں دونوں جہان كى خير وسعادت ہے_ خداوند تعالى نے مجھے حكم ديا ہے كہ ميں تمہيں اس كى طرف دعوت دوں _ تم ميں سے ايسا كون ہے جو اس راہ ميں ميرى مدد كرے تاكہ وہ ميرا بھائي ، وصى اور جانشين قرار پائے _ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس سوال كو تين مرتبہ دہرايا اور ہر مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام ہى اپنى جگہ سے اٹھے اور انہوں نے اپنى آمادگى كا اعلان كيا_

اس وقت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا : تو گويا علىعليه‌السلام ہى ميرے بھائي ، وصى اور جانشين ہيں لہذا تم ان كى بات سنو اور ان كى اطاعت كرو _(۳۳)

۲۱

حديث منزلت

صرف وہ غزوہ جس ميں حضرت علىعليه‌السلام نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حكم كے پيروى كرتے ہوئے شركت نہيں كى غزوہ تبوك تھا _ چنانچہ اس مرتبہ آپ جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حيثيت سے اور ان واقعات كا سد باب كرنے كى غرض سے جن كے رونما ہونے كا احتمال تھا مدينہ ميں ہى قيام پذير رہے_

جس وقت منافقوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ارادے كى خبر ہوئي تو انہوں نے ايسى افواہيں پھيلائيں جن سے حضرت علىعليه‌السلام اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تعلقات ميں كشيدگى پيدا ہوجائے اور حضرت علىعليه‌السلام كو يہ بات باور كراديں كہ اب آپ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو پہلى سى محبت نہيں _ چنانچہ جب آپ كو منافقين كى ان شرپسندانہ سازشوں كا علم ہوا تو ان كى باتوں كو غلط ثابت كرنے كى غرض سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں تشريف لے گئے اور صحيح واقعات كى اطلاع دي_ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علىعليه‌السلام كو مدينہ واپس جانے كا حكم ديتے ہوئے اس تاريخى جملے سے حضرت علىعليه‌السلام كے اس مقام و مرتبہ كو جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نزديك تھا اس طرح بيان فرمايا : ''كيا تم اس بات سے خوش نہيں ہو كہ ميرے اور تمہارے درميان وہى نسبت ہے جو كہ موسىعليه‌السلام اور ہارونعليه‌السلام كے درميان تھي_ مگر يہ كہ ميرے بعد كوئي نبى نہيں ہوگا_(۳۴)

قرآن مجيد ميں حضرت ہارون كے مقامات ومناصب:

اب ديكھنا يہ ہے كہ قرآن پاك كى نظر ميں حضرت ہارون كے وہ كون سے مناصب و مقامات تھے جو حضرت علىعليه‌السلام ميں بھى نبوت كے علاوہ (چنانچہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود ہى مذكورہ حديث ميں آپ كو اس سے مستثنى قرار ديا ہے) بدرجہ اتم موجود تھے_

چنانچہ جب ہم قرآن كى جانب رجوع كرتے ہيں تو ديكھتے ہيں كہ حضرت موسىعليه‌السلام نے حضرت ہارونعليه‌السلام كے لئے مندرجہ ذيل مناصب چاہے تھے_ مقام وزارت :( واجعل لى وزيرا من اهلى هارون اخي' ) _(۳۵) _ ''ميرے كنبے سے ہارون كو وزير مقرر كردے جوكہ ميرے بھائي ہيں ''_

۲۲

تقويت و تائيد''واشد به ازري'' _ اس كے ذريعے ميرا ہاتھ مضبوط كر

مقام نبوت:''واشركه فى امري''اور اس كو ميرے كام ميں شريك كردے''_

حضرت موسىعليه‌السلام نے جو چيزيں خداوند تعالے سے مانگيں اس نے ان كا مثبت جواب ديا اور مذكورہ تمام مقامات حضرت ہارون كو عطا كرديئے_ چنانچہ اس سلسلے ميں قرآن مجيد فرماتاہے:''قد اوتيت سوالك يا موسي_ ''اے موسى جو تم نے مانگا ہم نے عطا كيا''_

اس كے علاوہ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى غير موجودگى ميں حضرت ہارونعليه‌السلام كو اپنا جانشين مقرر كيا _ (وقال موسى لاخيہ ہارون اخلفنى فى قومي)موسى نے حضرت ہارون سے كہا تم ميرى قوم ميں ميرے خليفہ اور جانشين ہو ''_

حديث منزلت كے مطابق وہ تمام مناصب و مقامات جو ہارون كےلئے بيان كئے گئے ہيں ، صرف ايك منصب كے علاوہ كہ جسے آيت سے مستثنى قرار ديا ہے، حضرت علىعليه‌السلام كےلئے ثابت ہيں _

اس لحاظ سے حضرت عليعليه‌السلام ہى امت مسلمہ ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ياور و مددگار اور خليفہ ہيں _(۴۰)

حديث غدير

ہجرت كے دسويں سال پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس وقت ''حجة الوداع''(۴۱) سے واپس تشريف لا رہے تھے تو ماہ ذى الحجہ كى اٹھارہ تاريخ كو آپ نے ''غدير خم '' كے مقام پر فرمان خداوندى كے مطابق حكم ديا كہ سارے مسلمان يہاں توقف كريں اس كے بعد ايك لاكھ سے زيادہ افراد كى موجودگى ميں حمد وستائشے بارى تعالى كے بعد جو خطبہ ديا اسے جارى ركھتے ہوئے آپ نے دريافت فرمايا : اے لوگو تم ميں ايسا كون ہے جسے تمام مومنين پر برترى حاصل ہو ؟

سب نے كہا يہ تو خدااور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى بہتر جانتاہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا خداوند تعالى نے مجھے ولايت سے سرفراز فرمايا ہے اور مجھے تمام مومنين پر ان كے نفسوں سے زيادہ تصرف كا حق حاصل ہے_

۲۳

اس كے بعد آپ نے حضرت على عليه‌السلام كا ہاتھ اونچا كيا چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس وقت وہاں جمع تھے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دوش بدوش ديكھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا : جس كا مولا و سرپرست ميں ہوں علىعليه‌السلام اس كا مولا و سرپرست ہے _(۴۲) چنانچہ يہ جملہ آپ نے تين مرتبہ دہرايا_

اس كے بعد مزيد فرمايا : ''اے پروردگار تو اسے دوست ركھ جو علىعليه‌السلام كو دوست ركھے اور اسے دشمن ركھ جو علىعليه‌السلام كو دشمن ركھے _ خداوندا ياران علىعليه‌السلام كى مدد فرما اور اس كے دشمنوں كو ذليل و خواركر_(۴۳)

يہ تھيں وہ سرافرازياں جو حضرت علىعليه‌السلام نے زندگى كے اس اولين مرحلے ميں حاصل كيں كہ جس كى مدت دس سال سے زيادہ نہ تھى _ اگرچہ ديگر كتب ميں آپ كى سوانح حيات مفصل طور پر بيان كى گئي ہے مگر يہاں اختصار سے كام ليتے ہوئے انہى پر اكتفا كرتے ہيں _

۲۴

سوالات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے مختلف ادوار كے بارے ميں لكھيئے؟

۲_ بعثت سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى ميں كون سا اہم ترين واقعہ پيش آيا؟آپ كے اقوال كے روشنى ميں اس كى مختصر اً وضاحت كيجئے؟

۳_ حضرت علىعليه‌السلام كے امتيازات وافتخارات ميں سے ان دو كى كيفيت بيان كيجئے جو بعثت كے بعد اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت سے قبل رونما ہوئے_

۴_ جنگ بدر ميں حضرت علىعليه‌السلام كا كيا كردار رہا اختصار سے لكھ يے_

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غزوہ احزاب كے موقع پر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں كيا فرمايا تھا؟

۶_ حضرت علىعليه‌السلام نے مختلف جنگوں (بالخصوص جنگ بدر)ميں دلاورى كے جو جوہر دكھائے اورمشركين كو قتل كيا وہ آپ كى سياسى زندگى پر كس طرح اثر انداز ہوئے اور كب منظر عام پر آئے ان كى كوئي مثال لكھيئے

۷_ حديث ''يوم الدار'' كى مختصر وضاحت كيجئے اور بتايئے مذكورہ حديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد امامعليه‌السلام كى جانشينى پر كس طرح دلالت كرتى ہے؟

۲۵

حوالہ جات

۱_ عام الفيل وہ سال كہلاتا ہے جس ميں ابرہہ ہاتھيوں پر سوار لشكر كے ساتھ كعبہ كو نيست و نابود كرنے كى غرض سے آيا تھا_

۲_ حضرت عمران كے چار فرزند تھے جن كے نام طالب ، عقيل ، جعفر اور على تھے وہ ابوطالب كى كنيت سے مشہور تھے_ بعض مورخين نے حضرت علىعليه‌السلام كے والد كا نام عبدمناف بھى بيان كيا ہے (تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج۱ ص ۱۱)

۳_حضرت علىعليه‌السلام كى ولادت كو اہل سنت كے محدثين و مورخين نے بھى اپنى كتابوں ميں خانہ كعبہ ميں تحرير كيا ہے منجملہ ان كے مسعودى نے مروج الذہب (ج ۲ ص ۳۴۹)حاكم نے مستدرك (ج ۳ ص ۴۸۳) اور آلوسى نے شرح قصيدہ _ عبدالباقى افندى ص ۱۵ مزيد تفصيل كيلئے اہل سنت كے دانشوروں كے نظريات كو جاننے كيلئے ملاحظہ ہو كتاب ''الغدير'' ج ۴ ص ۲۳_ ۲۱

۴_ سيرت ابن ہشام ج ۱ /۲۶۲ ، كامل ابن اثير ج ۲/ ۵۸ كشف الغمہ ج ۱ / ۷۹ ، تاريخ طبرى ج ۲ / ۳۱۲ البتہ مورخين كى رائے ميں حضرت علىعليه‌السلام كے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر منتقل ہونے كا سبب وہ قحط سالى تھى جس سے شہر مكہ دوچار ہواتھا اور ابوطالب كى زندگى چونكہ تنگ دستى ميں گزر رہى تھى اس لئے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تجويز پر آپ كے قبيلے كے لوگ ان كے ہر فرزند كو اپنے ساتھ لے گئے اور حضرت علىعليه‌السلام كو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ساتھ لے آئے ليكن شہيد مطہرى نے نقل مكانى كى اس وجہ كو مسترد كيا ہے اور اسے مورخين كے ذہن كى اختراع قرار ديا ہے_ جس كا سبب رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اس اقدام كى اہميت اور قدر وقيمت كو كم كرنا مقصود ہے اس سلسلے ميں موصوف كا مطمع نظر متن كتاب ميں ملاحظہ ہو _

۵_ تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۱۳ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۳/۱۹۹ _ كشف الغمہ ج ۱ / ۱۱۷ كامل ابن اثير ج ۲ /۵۸ وسيرة ابن ہشام ج ۱ / ۲۶۳

۶_ نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ (۱۹۲)ولقد كنت اتبعه اتباع الفصيل اثر امه يرفع لى كل يوم من اخلاقه علماً يا مرنى بالاقتداء به

۷_ سورہ واقعہ آيہ( السابقون السابقون اولئك المقربون ) _ جنہوں نے اسلام قبول كرنے ميں سبقت

۲۶

كى وہى افراد خدا كى رضا ورحمت كے حصول ميں سبقت ركھتے ہيں _

۸_ سورہ حديد آيہ ۱۰( لاَيَستَوى منكُم مَن أَنفَقَ من قَبل الفَتح وَقَاتَلَ أُولَئكَ أَعظَمُ دَرَجَةً من الَّذينَ أَنفَقُوا من بَعدُ وَقَاتَلُوا ) ''تم ميں سے جو لوگ خرچ اور جہاد كريں گے وہ كبھى ان لوگوں كے برابر نہيں ہوسكتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد كيا ان كا درجہ بعد ميں خرچ اور جہاد كرنے والوں سے بڑھ كر ہے''_

۹_ سيرت ابن ہشام ج ۱ / ۲۴۶ ، كشف الغمہ ج ۱/۱۱۳ ، تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۱۰ _ سنن ابن ماجہ ج ۱/ ۵۷

۱۰ _''اولكم ورداً على الحوض اولكم اسلاماً على بن ابى طالب _ مستدرك حاكم ج ۳/ ۱۳۶ ، كشف الغمہ ج ۱ / ۱۰۵ _ تاريخ بغداد ج ۲/ ۸۱ شرح ابن ابى الحديد ج ۳ / ۳۸۵ وغيرہ مزيد اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو الغدير ج ۳/ ۲۲۰

۱۱_ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲ _''ولم يجمع بيت واحد يومئذ فى الاسلام غير رسول اللہ وخديجة انا ثالثہما ا رى نورالوحى والرسالة واشم ريح النبوة''_

۱۲_ نہج البلاغہ خ ۱۳۱ _اللهم انى اول من اناب وسمع واجاب

۱۳_ روايات سے مزيد آگہى كے لئے ملاحظہ ہو تفسير برہان ج ۱ / ۲۰۶ ، تفسير الميزان ج ۲/ ۹۹، مطبوعہ جامعہ مدرسين بحار ج ۱۹ صفحات (۵۶_ ۷۸_ ۸۷)

۱۴_ بقرہ آيہ ۲۰۷

۱۵_ قبا مدينہ سے دو فرسخ كے فاصلے پر واقع ہے يہاں قبيلہ بنى عمروبن عوف آباد تھا(معجم البلدان) ج ۴ / ۳۰۱

۱۶_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۷۷ (دس جلدي) منقول از سيرت حلبى واسد الغابہ

۱۷_والذى بعثنى بالحق الخ انت اخى فى الدنيا و الاخرة _ مستدرك حاكم ج ۳/ ۱۴

۱۸_ ''غزوہ'' اصطلاح ميں اس جنگ كو كہتے ہيں جس ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بذات خود موجود رہتے تھے _ ايسى جنگوں كى تعداد چھبيس يا ستائيس ہيں اورجن جنگوں ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موجود نہ تھے انہيں اصطلاحاً ''سريہ'' كہاجاتا ہے جن كى تعداد پينتيس سے چھياسٹھ تك كے درميان بتائي گئي ہے_

۱۹_ الصحيح من سيرة النبى ج ۳/۱۹۲ ، بحار ج ۱۹/ ۲۲۵ _ ۲۵۴ _۲۹۰

۲۷

۲۱_ الصحيح من سيرة النبى ج ۳ / ۲۰۳ _۲۰۲_ مناقب ج ۲/ ۶۸ نيز ملاحظہ ہو بحار ج ۱۹/ ۲۷۹_ ۲۷۶_ ۲۹۱

۲۲_ بحار ج ۲۰/۵۰ _ ۵۱ ،الصحيح من سيرة النبىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ج ۴ / ۲۱۸_ ۲۱۳_

۲۳_ ملاحظہ ہو تاريخ طبرى ج ۲/ ۵۱۴ كامل ابن اثير ج ۲/ ۱۵۴ وشرح ابن ابى الحديد ج ۱۴/ ۲۵۰ اس واقعے كا ذكر تمام مذكورہ كتب ميں مختصر سے فرق كے ساتھ موجود ہے _

۲۴_ بحار ج ۲۰ / ۷۰ خصال صدوق (مترجم) ج ۲ / ۱۲۷_

۲۵_ بحار ج ۲۰/ ۵۴ تفسير على ابن ابراہيم سے منقول_

۲۶_ ۱۲۷ _ بحارج ۲۰ / ۲۱۶_ ۲۱۵ _

۲۷_ بحار ج ۲۰ / ۲۰۵_

۲۸_''ا رونيه ترونى رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله (ارشاد مفيد / ۶۶)_

۲۹_ ارشاد مفيد / ۶۷ / ۶۵ بحار ج ۲۱ / ۱۶_ ۱۴_

۳۰ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۲۳_ الصحيح ج ۳/ ۲۲۰_

۳۱_ مقتل خوارزمى ۲ /۵۹ _

لستُ من خندف ان لم انتقم من بنى احمد ما كان فعل

لعبت هاشم بالملك فلا خبر جاء و لا وحى نزل

قد اخذنا من على ثارناوقتلنا الفارس الليث البطل

۳۲_ سورہ شعرا ء ۲۱۴ _

۳۳_ تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۲۱ و ۳۲۰ كامل ابن اثير ج ۲/ ۶۳ _ ۶۲ مجمع البيان ج ۸/ ۷ الغدير ج ۲ / ۲۷۸ ''فا يكم يؤازرنى على هذاالامر على ان يكون اخى ووصى وخليفتى فيكم ...؟ ان هذا اخى و وصيى وخليفتى فيكم فاسمعوا له واطيعوه'' _

۳۴_اما ترضى ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الا انه لا نبى بعدى _ غاية المرام كے صفحہ ۱۵۲ سے ۱۰۷پر ايك سو ستر (۱۷۰)محدثين كے طريق سے ''حديث منزلت'' كو نقل كيا گيا ہے ان ميں سے سو طريق اہل سنت والجماعت كے ہيں _ صاحب المراجعات نے بھى (۱۳۹_ ۱۴۱) پر مذكورہ حديث كو صحيح

۲۸

مسلم ، بخارى ، سنن ابن ماجہ ومستدرك حاكم اور اہل سنت كے ديگر مصادر سے نقل كيا ہے_

۳۵_ سورہ طہ ۲۹_ ۳۰_

۳۶_ _۳۷_ ۳۸ _ سورہ طہ آيات ۳۱_۳۲_ ۳۶_

۳۹_سورہ احزاب آيت ۱۴۲_

۴۰_ رہبرى امت مصنفہ جعفر سبحانى سے ماخوذ صفحات ۱۶۸ _ ۱۶۷_

۴۱_ فرمان خداوندى سورہ مائدہ آيت ۶۷ ''( ياأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغ مَا أُنزلَ إلَيكَ من رَبّكَ وَإن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رسَالَتَهُ وَالله ُ يَعصمُكَ من النَّاس ) '_

۴۲_من كنت مولاه فهذا على مولاه _اللهم وال من والاه و عاد من عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله _ ملاحظہ ہو الغدير ج ۱/ ۱۱_۹

۲۹

دوسر ا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك

وفات پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا

غير متوقع حادثہ

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں

لاتعلقي

امت كى پريشانى كا خطرہ

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ

منافقين كا خطرہ

شورى

وصى اور جانشين كا تقرر

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات

اس خطبے كے اہم نكات

انصار كا رد عمل

علىعليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز

سقيفہ كے واقعات كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كا رد عمل

علىعليه‌السلام نے كيوں عجلت نہيں كي؟

سوالات

حوالہ جات

۳۰

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك(۱)

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے تعميرى اور كردار ساز بعض حادثات وواقعات كا جائزہ ترتيب وار گذشتہ فصل ميں ليا جاچكا ہے _ چونكہ ہمارا مطمع نظر تاريخ اسلام كا تجزيہ وتحليل ہے نہ كہ ان بزرگوار شخصيات كے احوال زندگى كو بيان كرنا اسيلئے بہت سے ايسے واقعات جن كا امامعليه‌السلام نے ان مراحل ميں سامنا كيا ، ان كا ذكر نہيں كياجاسكا_اب ہم يہاں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد تاريخ اسلام كے واقعات كا جائزہ ليں گے_

وفات پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد سب سے پہلا واقعہ جو مسلمانوں كے سامنے آيا وہ عمر كى جانب سے رونما ہوا چنانچہ انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر كے سامنے بآواز بلند كہا كہ جو شخص يہ كہے گا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت ہوگئي ميں اسى تلوار سے اس كا سر قلم كردوں گا اگر چہ حضرت ابن عباس و ديگر صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ آيت بھى سنائي جس كا مفہوم يہ ہے كہ موت سے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بھى مفر نہيں(۲) مگر اس كا ان پر اثر نہ ہوا بوقت رحلت ابوبكر مدينہ سے باہر تھے _ چند لحظے گذرنے كے بعد وہ بھى آن پہنچے اور عمر كى داد و فرياد كى جانب توجہ كي ے بغير وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں داخل ہوگئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چہرہ مبارك سے چادر ايك طرف كركے بوسہ ديا اور مسجد ميں واپس آگئے اور يہ اعلان كيا كہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحلت فرماگئے ہيں _ اس كے بعد انہوں نے بھى اسى آيت كى تلاوت كى اس پر عمر نے كہا ايسا لگتا ہے كہ ميں نے آج تك گويا يہ آيت سنى ہى نہيں تھى(۳)

۳۱

غير متوقع حادثہ

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل دينے ميں مشغول اور مسلمان تكميل غسل و كفن كا انتظار كر رہے تھے تاكہ نماز جنازہ ميں شركت كرسكيں خبر آئي كہ كچھ لوگ ''سقفيہ بنى ساعدہ'' ميں جمع ہيں او رخليفہ منتخب كئے جانے كے بارے ميں بحث كر رہے ہيں اور قبيلہ خزرج كے سردار سعد بن عبادہ كا نام خلافت كےلئے پيش كيا گيا ہے_

عمر اور ابوبكر نے جيسے ہى يہ خبر سنى فوراً سقيفہ كى طرف روانہ ہوئے_ راستے ميں ابوعبيدہ بن جراح كو بھى مطلع كيا اور تينوں افراد نے سقيفہ(۴) كى جانب رخ كيا _

اس وقت تك معاملہ انصار كے ہاتھ ميں تھا ليكن جيسے ہى يہ تينوں مہاجر وہاں پہنچے تو تنازع شروع ہوگيا اور ہر شخص اپنى اہليت وشايستگى كى تعريف كرنے لگا _ بالآخر ابوبكر كو پانچ رائے كے ذريعے سقيفہ ميں خليفہ چن ليا گيا _

برادران اہل سنت نے اس واقعہ كو حقيقت سمجھ ليا اور خليفہ كے انتخاب كو مشاورت اور اجماع مسلمين كا نام دے كر اسے تسليم كرليا_

اس حقيقت كو آشكار كرنے كے لئے ضرورى ہے كہ مندرجہ ذيل عنوانات كا تجزيہ كياجائے تاكہ اصل واقعے كى وضاحت ہوسكے_

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں

شيعوں كا عقيدہ ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں ہى فرمان خدا كے ذريعے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طے اور واضح كرديا تھا اور جو كچھ سقيفہ بنى ساعدہ ميں پيش آيا وہ فرمان خدا اور حكم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف محض ايك تحريك تھي_

گذشتہ فصل ميں ہم نے چند ايسى دليليں اور حديثيں بيان كى تھےں جو مذكورہ دعوے كو ثابت كرتى ہيں _ يہاں اس مسئلے كا تاريخى واقعات كى روشنى ميں جائزہ لياجائے گا_

۳۲

پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دوش مبارك پر ايك عالمى تحريك كى قيادت تھى يہ بات بھى واضح و روشن ہے كہ اس تحريك كے پروان چڑھنے اور سياسى ، ثقافتى نيز اجتماعى سطح پر گہرى تبديلى لانے كيلئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا زمانہ رسالت (بعثت سے رحلت تك) كافى نہ تھا اگرچہ اسلام كے اس عظےم رہبر و پيشوا نے اس مختصر و محدود عرصے ميں ہى انسان كى تكميل اور اسلامى معاشرے كى تشكيل كے لئے بہت عظيم واساسى اقدامات كئے ليكن اس عالمى تحريك كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد بھى جارى و سارى رہناتھا_

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت اچانك واقع نہيں ہوئي بلكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كے وقوع پذير ہونے سے كچھ عرصہ قبل محسوس كرليا تھا كہ جلد ہى اس دنيا سے كوچ كر جائيں گے _ چنانچہ آپ نے ''حجةالوداع'' كے موقع پر كھلے لفظوں ميں اس كا اعلان بھى كرديا تھا اس كے بعد آپ كے پاس اسلام كے مستقبل سے متعلق سوچنے كے لئے وقت كافى تھا اور آپ كوئي اصولى روش وتدبير اختيار كركے ان عوامل كى پيش بندى كرسكتے تھے جن سے انقلاب خداوندى كى راہ ميں آئندہ كسى خطرے كے آنے كا امكان ہوسكتا تھا_ان حالات و واقعات كے بارے ميں غيبى عوامل كى مدداور سرچشمہ وحى سے ارتباط كو عليحدہ كركے بھى غور كياجاسكتا ہے ايسى صورت اور ان واقعات كى روشنى ميں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے اسلام كے مستقبل سے متعلق تين ہى ممكن راہيں ہوسكتى تھيں :

لا تعلقي

شوري

اپنے وصى اور جانشين كے بارے ميں وصيت

اب ہم تاريخى حقائق اور ان سياسى واجتماعى حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے جو اس وقت اسلامى معاشرہ پر حكم فرما تھے مذكورہ بالا تينوں راہوں كا اجمالى جائزہ ليں گے_

۳۳

لاتعلقي

لاتعلقى سے مراد يہ ہے كہ ہم اس بات كے قائل ہوجائيں كہ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اسلام كے مستقبل سے كوئي سرو كار نہ تھا بلكہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے نوشتہ تقدير اور آئندہ حالات كے رحم وكرم پر چھوڑ ديا تھا_

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جيسى شخصيت كے بارے ميں ايسى بے سرو پا باتوں كا فرض كرلينا كسى طرح بھى حقائق وواقعات كے موافق نہيں ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اسلامى رسالت كا مقصد يہ تھا كہ دور جاہليت كے جتنے بھى رگ وريشے اس دور كے انسان ميں ہوسكتے تھے انہيں اس كے دل وجان كے اندر ہى خشك كردياجائے اور اس كے بجائے ايك جديد اسلامى انسان كى تعمير كى جائے _ جب بھى كوئي ہادى و راہنما نہ ہو تو معاشرہ بے سرپرست رہ جائے اور انقلاب ميں ايك ايسا خلاء پيدا ہوجائے گا جس كى وجہ سے اس كو مختلف قسم كے خطرات لاحق ہوجائيں گے _ مثال كے طور پر :

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ روح رسالت اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تحريك كے مقاصد كو وہى شخص پايہ تكميل تك پہنچاسكتا تھا كہ جس كو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہچنواياتھا اور امت كے كسى فرد ميں اسكى صلاحيت نہ تھى كہ وہ رسول كے بعد زمام دارى اور رسالت كے مقصد كے درميان كوئي متين تناسب قائم كرسكے اور اسلامى معاشرہ سے ان جاہلى تعصبات كو دور كرسكے جو ابھى تك معاشرہ كى رگ و پے ميں موجود تھے كہ جس نے انہيں مہاجر، انصار ، قريش و غير قريش اور مكى و مدنى وغيرہ ميں تقسيم كر ركھا تھا_

۳۴

تھے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ كاغذ و دوات لے آؤ تاكہ ميں تمہارے لئے ايسا نوشتہ لكھ دوں كہ جس سے تم (ميرے بعد)ہرگز گمراہ نہ ہو(۵)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا يہ فرمانا ہى اس بات كى واضح و روشن دليل ہے كہ آيندہ رونما ہونے والے خطرات كے بارے ميں آپ كو تشويش تھى اور ان كا سد باب كرنے كے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوشاں تھے _

شورى

شورى سے مراد يہ ہے كہ گويا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد مسلمانوں كى رہبرى كو انہى كے وست اختيار ميں دے ديا تھا كہ جسكو چاہيں منتخب كر ليں _

اگرچہ اسلام نے قانون اور اصول شورى (مشاورت)كا احترام كيا ہے اور قرآن ميں اس كا شمار اوصاف مومنين ميں ہوتا ہے(۶) ليكن اس كا تعلق ان واقعات سے ہے جو مسلم معاشرے كے درميان رونما ہوتے ہيں اور ان كى بارے ميں كوئي نص صريح موجود نہ ہو كيونكہ اسلام كے قوانين و احكام مشوروں سے طے نہيں ہوتے يہى وجہ تھى كہ وہ ذمہ دارياں (تكاليف) جو وحى كى ذريعے معين كى گئيں تھيں ان كے بارے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كسى سے مشورہ نہ كيا چنانچہ مسئلہ ولايت و امامت كا شمار بھى ايسے ہى مسائل ميں ہوتاہے جو امور مشاورت كى حدود سے خارج ہيں يہى نہيں بلكہ اس كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى اپنى رائے كا اظہار نہيں فرما سكتے تھے _

يہى وجہ ہے كہ جس وقت قبيلہ بنى عامر كى ايك جماعت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات كرنے كے لئے آئي اور اس نے يہ تجويز پيش كى كہ ہم اس شرط پر ايمان لانے كو تيار ہيں كہ آپ اپنے بعد خلافت ہمارى تحويل ميں دے ديں اگرچہ اس وقت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انتہائي پر آشوب حالات سے دو چار تھے نيز قريش(۷) كى جانب سے آپ پر سخت دباؤ بھى تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوخوفزدہ كرنے كى كوشش بھى كى جا رہى تھى مگر اس كے باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا يہ كام خداند تعالى كا ہے (اور اس ميں مجھے كوئي اختيار نہيں )وہ جسے بھى مناسب سمجھے گا اسے ہى ميرے بعد ميرا جانشين مقرر كرے گا(۸) _

۳۵

اس كى علاوہ اسلام كى فلاح و بہبود كى خاطر پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نظام شورى كو سودمند اقدام خيال فرماتے تو آپ يقينا اپنے زمانہ حيات كے دوران ايسے دستورات عمل كا سلسلہ مرتب فرماتے جس كے ذريعے امت مسلمہ خود كو اس اقدام كے لئے تيار كر ليتى كہ شورى كے ذريعے نظام حكومت جارى ركھ سكے كيونكہ دور جاہليت كے نظام حكومت ميں كوئي ايسا ادارہ كار فرمانہ تھا جو شورى كى ذريعے نظام حكومت چلاسكے اگرچہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كسى وقت بھى نظام شورى اور راس كے دائرہ عمل نيز مشخصات كو منفى قرار نہيں ديا اور نہ ہى مسلمانوں كو يہ ہدايت فرمائي كہ وہ اس سے گريز كريں _

اس سے قطع نظر ابو بكر نے جب عمر كو اپنا جانشين مقرر كيا تو يہ اس امر كى واضح دليل تھى كہ اس اقدام كے ذريعے نظام شورى كى نفى كى گئي اور يہ ثابت ہو گيا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نظام شورى كے حامى نہ تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے اپنا حق سمجھتے تھے كہ زمانہ حيات ميں كسى ايسے شخص كو مقرر فرما ديں جو رحلت كے بعد آپ كا جانشين ہو سكے يہى نہيں بلكہ عمر بھى خليفہ مقرر كرنا اپنا حق سمجھتے تھے اور اسے انہوں نے چھ افراد كے درميان محدود كر ديا تھا تاكہ وہ اپنے درميان ميں سے كسى ايك شخص كو خليفہ مقرر كر ليں اور ان افراد كے علاوہ انہوں نے تمام امت مسلمہ كو اس حق سے محروم كر ديا تھا_

وصى اور جانشين كا تقرر

وصايت (عملى جانشينى)سے ہمارى مراد يہ ہے كہ تنہا ايك يہى ايسى راہ ہے جو حقائق اور فطرت اور خلافت كى واقعيت سے عين سازگار ہے اور ہم كہہ سكتے ہيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلام كى آيندہ فلاح و بہبود كى خاطر يہ مثبت اقدام فرمايا تھا اور خدا عالم كے حكم سے ايك شخص كو جانشين كى حيثيت سے مقرر كر ديا تھا چنانچہ صرف يہى ايك ايسا مثبت اقدام تھا جو مستقبل ميں اسلام كى خير و صلاح اور رسالت كو خطرات سے محفوظ ركھنے كا ضامن ہو سكتا تھا _ اسلام ميں سبقت ، اور دوسرے مسلمانوں كى نسبت عليعليه‌السلام كى واضح و امتيازى خصوصيات كى بناء پر كسى دوسرے شخص كو ان كے علاوہ

۳۶

پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا حق حاصل نہ تھا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علىعليه‌السلام كى باہمى زندگى كے ايسے بہت سے شواہد موجود ہيں جو اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حيثيت سے حضرت علىعليه‌السلام كى تربيت فرمارہے تھے كہ آيندہ اسلامى معاشرے كے آپعليه‌السلام ہى قائد و رہبر ہيں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپعليه‌السلام كو حقائق رسالت كى بہت سے خصوصيات سے نوازا تھا حضرت علىعليه‌السلام جب كبھى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كوئي بات دريافت فرماتے تو آپكا سوال ختم ہونے كے بعد رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كلام كى ابتدا فرماتے اور تہذيب و افكار كے ہدايا و تحائف كى دولت سے آپعليه‌السلام كو معزز و مفتخر فرماتے چنانچہ روز و شب كا زيادہ وقت باہمى گفتگو اور خلوت مےں گذرتا _

اس كے علاوہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانشينى كا مختلف مواقع پر اعلان بھى فرما ديا تھا چنانچہ اس ضمن ميں بكثرت احاديث نبوى موجود ہيں جس ميں سے حديث يوم الدرار ' حديث الثقلين ' حديث منزلت اور سب سے اہم غدير (حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر مسلمانوں كا بيعت كرنا)قابل ذكر اور اس دعوے كى شاہد و گواہ ہيں(۹) _

مزيد بر آں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد بہت سے حوادث رونما ہوئے اور آپ نے پورى زندگى جہاد و ذمہ دارى ميں گذارى جس سے يہ بات ثابت ہوتى ہے كہ آپعليه‌السلام ہى رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جانشين ہيں آپ كى لياقت كا ايك نمونہ يہ ہے كہ جن مسائل كو حل كرنا خلفاء كے لئے ناممكن تھا انھيں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى سے حل كرتے تھے ليكن اس كے برعكس ہميں خلفاء كے زمانہ ميں ايك موقعہ بھى ايسا نظر نہيں آتا كہ جس ميں امامعليه‌السلام نے كسى مشكل كے حل كيلئے يا اسلام كے نظريہ سے مزيد آگہى كے لئے كسى سے رجوع كيا ہو(۱۰)

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات

معن بن عدى اور عويم بن ساعدہ نامى دو افراد كے دلوں ميں '' سعد بن عبادہ خزرجى '' كے

۳۷

خلاف كدورت تھى ان كے ذريعے عمر اور ابوبكر كو خبر ملى كہ انصار سقيفہ بنى ساعدہ ميں جمع ہو رہے ہيں چنانچہ يہ دونوں حضرات نہايت عجلت كے ساتھ اضطراب و پريشانى كے عالم ميں ابو عبيدہ كے ہمراہ سقيفہ ميں داخل ہوئے عمر گفتگو كا آغاز كر كے ابوبكر كى خلافت كيلئے ميدان ہموار كرنا چاہتے تھے ليكن ابو بكر نے منع كر ديا اور كہا كہ اگر مجھ سے كوئي فرو گذاشت ہو جائے تو تم اس كى تلافى كرو چنانچہ اس كے بعد انھوں نے تقرير شروع كى اور خداوند عالم كى وحدنيت اور رسالت رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شہادت كے بعد كہا كہ مہاجرين ميں ہم وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے دين اسلام قبول كيا اور اس لحاظ سے تمام لوگ ہمارے پيروكار ہيں ہم طائفہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مركز قبائل عرب ميں سے ہيں نيز ان كے درميان نقطئہ ربط و تعلق ہيں آپ انصار بھى خدا و رسول كے ياور و مددگار ہيں پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پشتيبان اور ہمارے سردار ہيں دين اور اس كے فائدے ميں آپ ہمارے شريك ہيں _ خداوند تعالى كى رضا ميں راضى رہے اور اس پاك پروردگار نے تم سے مہاجر بھائيوں كے لئے جو كچھ چاہا اسے قبول كرنے ميں لائق و شائستہ ترين افراد ثابت ہوئے ليكن تمہيں اس پر حسد نہيں كرنا چاہيے اسلام كى ترقى كى خاطر تم نے مشكلات ميں اپنى طاقت كے جوہر دكھائے اس بنا پر تمہارے لئے يہ زيبا نہيں كہ اپنے ہى ہاتھوں سے اس دين كى بيخ كُنى كرو_ ميں تمہيں ابو عبيدہ اور عمر كى بيعت كى دعوت ديتا ہوں ميں دونوں ہى كو قابل و اہل سمجھتا ہوں(۱۱) اس موقعے پر ان دونوں نے كہا : لوگوں ميں سے كسى كو تم پر برترى حاصل نہيں ہے _ تم پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے يار غار ہو

اس خطبے كے اہم نكات

ابو بكر نے جو تقرير كى اس كے بعض نكات كا ذكر كرنا يہاں ضرورى ہے _(۱۲)

ابوبكر نے پہلے مہاجرين كى تعريف كى تاكہ ان كى عظمت انصار كے ذہنوں پر نقش ہو جائے اس كے بعد جس حد تك ممكن تھا اُس نے انصار كى بھى تعريف و توصيف بيان كى اور خود كو منصف كى حيثيت سے ظاہر كيا جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ انصار كو اپنى طرف متوجہ كر ليا اس تردو كے بر خلاف جو

۳۸

خلافت كے سلسلہ مےں انصار كے ذہنوں ميں تھا ابوبكر نے يقين كے ساتھ كہا مہاجرين كى خلافت جو خدا كى مرضى كے مطابق ہے اور يہى خدا كا حتمى فيصلہ ہے چنانچہ ہر قسم كا تذبذب ختم ہو گيا ابوبكر نے خلافت كو مہاجرين كا مسلم حق ثابت كرنے كے بعد اس سلسلہ ميں انصار كى كسى بھى فعاليت كو خدا سے عہد شكنى اور دين كو برباد كرنے كے مترادف قرار دے ديا اپنى تقرير كے آخر ميں ابوبكر نے حاضرين كو عُمر و ابوعبيدہ كى بيعت كى دعوت دى وہ طبيعى طور پر ابوبكر كو مقدم سمجھتے تھے گويا وہ پہلے ہى خليفہ كى تعيين كے سلسلہ ميں منصوبہ بنا چكے تھے _(۱۳)

انصار كا ردّعمل

پروگرام كے تحت ابوبكر كى ہونے والى تقرير سن كر انصار اپنے گذشتہ موقف سے ہٹ گئے اور انہوں نے مہاجرين كے سامنے اپنے سرخم كر ديئے ان ميں '' حباب بن منذر '' ہى ايك ايسے انصار تھے جنہوں نے كھڑے ہو كر يہ دھمكى دى كہ اگر مہاجرين انصار سے مصالحت نہيں كرتے تو ہم عليحدہ مستقل حكومت قائم كر ليں گے ليكن عمر نے فورا ہى اس كى گفتگو كى كمزورى سے فائدہ اٹھاتے ہوئے كہا كہ افسوس دو تلواريں ايك ميان ميں نہےں سماسكتيں خدا كى قسم عرب اس بات پر ہرگز راضى نہےں ہوں گے كہ حكومت تمہارے حوالے كر دى جائے اس كى وجہ يہ تھے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم ميں سے نہےں تھے _(۱۴) مہاجرين اور انصار كے درميان حصول اقتدار كى خاطر بہت سخت كشمكش ہونے لگى چنانچہ انصار كے دو قبيلوں اوس اور خزرج كے درميان شديد اختلاف پيدا ہو گيا قبيلہ اوس كے سردار ''اسيد بن حضير'' كا ميلان مہاجرين كى طرف تھا ، اس نے اظہار رغبت كيا انكى پيروى كرتے ہوئے '' بشير بن سعد خزرجى '' نے لوگوں كو مہاجرين كى بيعت كى جانب رغبت دلانا شروع كى بالاخر اس كشمكش كا نتيجہ يہ ہوا كہ خلافت كا فيصلہ ابوبكر كے حق ميں ہوگيا اور انھيں پانچ رائے كے ذريعے خليفہ منتخب كر ليا گيا _(۱۵)

اس واقعے كا اگر اجمالى طور پر جايزہ ليں تو اس نتيجے پر پہنچيں گے كہ سقيفہ ميں جو كچھ پيش آيا

۳۹

اور اس ميں ابوبكر كو خليفہ منتخب كيا گيا وہ انتخاب كے اصول و ضوابط كے منافى تھا _

اس معاملے مےں فيصلہ اتنى عجلت و جلدى سے كيا گيا كہ كسى صاحب فكر شخص كو اتنا موقعہ ہى نہےں ديا گيا كہ وہ اس مسئلے كے بارے ميں غور و فكر كر سكے اور كسى مخالف كوبھى اتنى مہلت نہ ملى كہ وہ اپنے دعوے كے حق ميں دليل پيش كر سكے اس عجلت و تندى كے باعث روح انتخابات كى اچھى طرح پائمالى كى گئي كہ حتى كہ ان لوگوں سے بھى جو سقيفہ ميں موجود تھے حق رائے دہى سلب كر ليا گيا شروع سے آخر تك ذاتى ميلانات و احساسات كار فرما رہے اس كے علاوہ انتخاب اس طرح كيا گياكہ بيشتر مسلمان قطعى لاعلم و بے خبر رہے اور جنہيں اطلاع بھى ہوئي تو وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مراسم تجہيز و تكفين ميں منہمك و مشغول تھے وہ سقيفہ والے انتخابات ميں شريك نہيں ہو سكتے تھے _

جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے انتخاب كے لئے جس مجلس كى تشكيل كى گئي تھى اس ميں كم از كم كوئي ايسا شخص تو اپنے افراد خاندان كے ہمراہ وہاں پيش پيش رہتا جس كى قدر و منزلت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظروں ميں وہى تھى جو حضرت ہارون كى حضرت موسيعليه‌السلام كے نزديك تھى اس واقعے پر جب ہم شروع سے آخر تك نظر ڈالتے ہيں تو ديكھتے ہيں يہ سب اس طرح پيش آيا كہ قبيلہ بنى ہاشم بالخصوص اس كے سردار يعنى اميرالمومنين علىعليه‌السلام ان واقعات سے قطعى بے خبر اور لاعلم ركھا گيا _

علىعليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز

حضرت علىعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جسد مبارك كى تجہيز و تدفين ميں منہمك و مشغول تھے كہ ابو سفيان ' جس مےں حس تدبر و سياست فہمى بہت تيز تھى ' پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر پہنچا تاكہ مسلمانوں كے درميان اختلاف پيدا كرے اور حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے يہ تجويز پيش كى كہ آپعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرے ليكن حضرت علىعليه‌السلام اسكى نيت كو جانتے تھے لہذا اسكى باتوں كو قطعى اہميت نہ دى اور فرمايا تمہارا مقصد مسلمانوں كے درميان فتنہ پھيلانا ہے_(۱۶)

جس وقت ابوسفيان نے يہ تجويز پيش كى توعين اس وقت حضرت عباس نے بھى چاہا كہ اپنے

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

” واخرج الحکیم الترمذی والطبرانی وابن مردویه وابونعیم والبیهقی معاً فی الدلائل عن ابن عباس رضی الله عنهما قال رسول الله -( ص) - انّ اللّه قسّم الخلاق قسمیں فجعلنی فی خیرهما قسماً، فذلک قوله( واصحاب الیمین ) (۱) ( واصحاب الشمال ) (۲) فاٴنامن اٴصحاب الیمین واٴناخبراٴصحاب الیمین ثمّ جعل القسمین اٴثلاثاً،فجعلنی فی خیرها ثلثاً،فذلک قوله :( واٴصحاب المیمنة مااٴصحاب المیمنةواٴصحاب المشئمة مااٴصحاب المشئمةالسابقون ) (۳) فاٴنامن السابقین واٴناخیرالسابقین، ثمّ جعل الاٴثلاث قبائل،فجعلنی فی خیرها قبیلة،وذلک قوله:( وجعلنا کم شعوباًوقبائل لتعارفواإنّ اٴکرمکم عنداللّٰه اٴتقاکم ) (۴) واٴنااٴتقی ولدآدم واٴکرمهم عنداللّٰه تعالی ولافخر،ثمّ جعل القبائل بیوتاًوجعلنی فی خیرها بیتاً،فذلک قوله: ا( ٕنّما یریداللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت ویطهّرکم تطهیراً ) (۵) فاٴناواٴهل بیتی مطهّرون من الذنوب“(۶)

____________________

۱۔سورئہ واقعہ/۲۷ ۲۔سورئہ واقعہ/۴۱ ۳۔سورئہ واقعہ/۸۔۱۰ ۴۔سورئہ حجرات/۱۳ ۵۔سورئہ/احزاب/۳۳

۶۔الدرالمنثور، ج ۵، ص ۳۷۸، دارالکتاب، العلمیہ، بیروت، فتح، القدیر، شوکافی، ج ۴، ص ۳۵۰ دارالکتاب العلمیہ، بیروت۔المعروفہ و التاریخ، ج ۱، ص ۲۹۸

۱۸۱

”حکیم ترمذی،طبرانی،ابن مردویہ،ابو نعیم اور بیہقی نے کتاب”الدلائل‘میں ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا:خداوندمتعال نے اپنی مخلوقات کودو حصوں میں تقسیم کیا ہے اور مجھ کوان میں سے برترقراردیاہے اورخداوندمتعال کاقول یہ ہے:( و اصحاب الیمین ) ( واصحاب الشمال ) اور میں اصحاب یمین میں سے سب سے افضل ہوں۔اس کے بعدمذکورہ دوقسموں)اصحاب یمین اوراصحاب شمال)کوپھرسے تین حصوں میں تقسیم کیااورمجھ کوان میں افضل ترین لو گوں میں قرار دیا اور یہ ہے خدا وند کریم کا قول:( واٴصحاب المیمنةمااٴصحاب المیمنة واٴصحاب المشئمة مااٴصحاب المسئمةوالسابقون السابقون ) اورمیں سابقین اور افضل ترین لو گوں میں سے ہوں۔اس کے بعدان تینوں گروہوں کوکئی قبیلوں میں تقسیم کردیا،چنانچہ فر ما یا:

( وجعلناکم شعوباًوقبائل لتعارفواإنّ اکرمکم عنداللّه اٴتقاکم )

”اورپھرتم کو خاندان اور قبائل میں بانٹ دیاتاکہ آپس میں ایک دوسرے کوپہچان سکوبیشک تم میں سے خداکے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جوزیادہ پرہیزگارہے“ اورمیں فرزندان آدم میں پرہیزگار ترین اور خدا کے نزدیک محترم ترین بندہ ہوں اورفخرنہیں کرتاہوں۔

”اس کے بعدقبیلوں کوگھرانوں میں تقسیم کر دیااورمیرے گھرانے کوبہترین گھرانہ قرار دیااورفرمایا( انمّا یرید اللّه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهّرکم تطهیراً ) ”بس اللّہ کاارادہ یہ ہے اے اہل بیت!تم سے ہر طرح کی آلودگی وبرائی کودوررکھے اور اس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کاحق ہے“پس مجھے اورمیرے اہل بیت کو )برائیوں) گناہوں سے پاک قراردیاگیاہے۔“

۱۸۲

۲ ” حدثني الحسن بن زید، عن عمربن علي، عن اٴبیه عليّ بن الحسین قال خطب الحسن بن علي الناس حین قتل عليّ فحمداللّه و اٴثنی علیه ثمّ قال:لقد قبض في هذه اللیلة رجل لایسبقه الاٴوّلون بعمل و لایدرکه الآخرون، و قدکان رسول اللّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یعطیه رایته فیقاتل وجبرئیل عن یمینه ومیکائیل عن یساره حتی یفتح اللّه علیه، وما ترک علی اٴهل الاٴرض صفراء ولابیضاء إلّا سبع مائة درهم فضلت عن عطایاه اٴراد اٴن یبتاع بهاخادماً لاٴهله

ثمّ قال: اٴیّها الناس! من عرفني فقد عرفني ومن ُلم یعرفنيفاٴنا الحسن بن علي واٴنا ابن النبيّ واٴنا ابن الوصيّ واٴناابن البشیر، واٴنا ابن النذیر، واٴناابن الداعي إلی اللّه باذنه، واٴنا ابن السراج المنیر، و اٴنا من اٴهل البیت الّذی کان جبرئیل ینزل إلیناویصعدمن عندنا، و اٴنامن اٴهل البیت الّذی کان جبرئیل ینزل إلینا و یصعدمن عندنا، واٴنا من اٴهل البیت الّذی اٴذهب اللّه عنهم الرجس وطهّرهم تطهیراً و اٴنا من اٴهل البیت الّذی افترض اللّه مودّتهم علی کلّ مسلم، فقال تبارک و تعالی لنبیة:( قل لااٴسئلکم علیه اٴجراً،إلّاالمودّة فی ا لقربی و من یقترف حسنة نزدله فیهاحسناً ) (۱) فاقتراف الحسنة مودّتنااٴهل البیت(۲)

____________________

۱۔ سورہ شوریٰ/۲۳

۲۔مستدرک الصحیحین، ج۳،ص۱۷۲، دارالکتب العلمیہ، بیروت

۱۸۳

”عمربن علی نے اپنے باپ علی بن حسین (علیہ السلام)سے روایت کی ہے انہوں نے کہا: حسن بن علی (علیہ السلام)نے)اپنے والدگرامی)حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعدلوگوں کے در میان ایک خطبہ دیا جس میں ۔حمدوثنائے الہی کے بعدفرمایا:

آج کی شب ایک ایساشخص اس دنیا سے رحلت کرگیاکہ گزشتہ انسانوں میں سے کسی نے ان پرسبقت حاصل نہیں کی اورنہ ہی مستقبل میں کوئی ا س کے مراتب و مدا رج تک پہو نچنے والا ہے۔

پیغمبراسلام (ص)اسلامی جنگوں میں ان کے ہاتھ پرچم اسلام تھما کر انہیں جنگ کے لئے روانہ کر تے تھے، جبکہ اس طرح سے کہ جبرئیل)امورتشریعی میں فیض الہٰی کے وسیلہ)ان کی دائیں جانب اورمیکائیل)امورارزاق میں فیض الہٰی کے ذریعہ)ان کی بائیں جانب ہوا کرتے تھے۔او روہ جنگ سے فتح کامرانی کے حاصل ہو نے تک واپس نہیں لوٹتے تھے۔

انھوں نے اپنے بعد زر وجواہرات میں سے صرف سات سودرہم بہ طور ”تر کہ“ چھوڑے جو صدقہ و خیرات کے بعد باقی بچ گئے تھے اور وہ اس سے اپنے اہل بیت کے لئے ایک خادم خریدناچاہئے تھے۔

اس کے بعدفرمایا:اے لوگو!جو مجھے پہچانتا ہے، وہ پہنچاتا ہے اورجونہیں پہچانتاوہ پہچان لے کہ میں حسن بن علی (ع) ہوں، میں پیغمبر کافرزندہوں، ان کے جانشین کا فرزند، بشیر)بشارت دینے والے)ونذیر)ڈرانے والے)کافرزندہوں،جوخداکے حکم سے لوگوں کوخداکی طرف دعوت دیتاتھا،میں شمع فروزان الٰہی کا بیٹاہوں، اس خاندان کی فرد ہوں کہ جہاں ملائکہ نزول اور جبرئیل رفت وآمد کر تے تھے۔میں اس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں کہ خدائے متعال نے ان سے برائی کودورکیاہے اورانھیں خاص طور سے پاک وپاکیزہ بنایاہے۔میں ان اہل بیت میں سے ہوں کہ خداوندمتعال نے ان کی دوستی کوہرمسلمان پرواجب قراردیاہے اورخدا وندمتعال نے اپنے پیغمبرسے فرمایا:” اے پیغمبر!کہدیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کے بد لے کسی اجرت کا مطا لبہ نہیں کر تا ہوں سواء اس کے کہ میرے قرابتداروں سے محبت کرواورجوشخص بھی کوئی نیکی دے گا ہم اس کی نیکیوں کی جزامیں اضافہ کردیں گے ”لہذانیک عمل کاکام انجام دینا ہی ہم اہل بیت(ع)کی دوستی ہے۔“

۱۸۴

ان دواحادیث سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں خداکی مخصوص طہارت کے خارج میں متحقق ہو نے سے مرادان کی عصمت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔اور یہ بیان واضح طور پر اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آیہء شریفہ میں ارادہ سے مراد ارادہ،تکوینی ہے۔

آیہء تطہیر میں اہل بیت علیہم السلام

اس آیہء شریفہ کی بحث کاتیسراپہلویہ ہے کہ آیہء کریمہ میں ”اہل البیت“سے مراد“کون ہیں؟اس بحث میں دوزاویوں سے توجہ مبذول کرناضروری ہے:

۱ ۔اہل بیت کا مفہوم کیاہے؟

۲ ۔اہل بیت کے مصادیق کون ہیں؟

اگرلفظ”اہل“کا استعمال تنہاہوتویہ مستحق اورشائستہ ہو نے کامعنی دیتاہے اوراگراس لفظ کی کسی چیز کی طرف اضافت ونسبت دی جائے توا س اضا فت کے لحاظ سے اس کے معنی ہوں گے۔مثلاً”اہل علم“اس سے مرادوہ لوگ ہیں جن میں علم ومعرفت موجودہے اور”اہل شہروقریہ“سے مرادوہ لوگ ہیں جواس شہریاقریہ میں زندگی بسرکرتے ہیں،اہل خانہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس گھر میں سکونت پذیر ہیں،مختصریہ کہ:”اہل“کامفہوم اضافت کی صورت میں مزید اس شی کی خصوصیت پردلالت کرتاہے کہ جس کی طرف اس کی نسبت دی گئی ہے۔۔۔

۱۸۵

لفظ”بیت“میں ایک احتمال یہ ہے کہ بیت سے مراد مسکن اور گھرہواور دوسرااحتمال یہ ہے کہ بیت سے مراد حسب ونَسَب ہوکہ اس صورت میں ”اہل بیت“کامعنی خاندان کے ہوں گے۔ایک اوراحتمال یہ ہے کہ” اہل بیت “میں ”بیت“سے مراد،خا نہ نبوت ہواور یہاں پر قابل مقبول احتمال یہی موخرالذکراحتمال ہے،اس کی وضاحت انشاء اللہ آیندہ چل کر آئے گی۔

ان صفات کے پیش نظر”اہل بیت“سے مرادوہ افراد ہیں جواس گھرکے محرم اسرار ہوں اورجوکچھ نبی (ص)کے گھرمیں واقع ہوتاہے اس سے واقف ہوں۔

اب جبکہ”اہل بیت“کامفہوم واضح اورمعلوم ہوگیا توہم دیکھتے ہیں کہ خارج میں اس کے مصادیق کون لوگ ہیں اور یہ عنوان کن افرادپر صادق آتاہے؟

اس سلسلہ میں تین قول پائے جاتے ہیں:

۱ ۔”اہل بیت“سے مرادصرف پیغمبراکرم (ص)کی بیویاں ہیں۔(۱)

۲ ۔”اہل بیت“سے مراد خودپیغمبر،علی وفاطمہ،حسن وحسین )علیہم السلام)نیزپیغمبر (ص)کی بیویاں ہیں۔(۲)

۳ ۔شیعہ امامیہ کانظریہ یہ ہے کہ”اہل بیت“سے مرادپیغمبر (ص)آپکی دختر گرامی حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)اوربارہ ائمہ معصومین) علیہم السلام)ہیں۔

بعض سنی علماء جیسے:طحاوی نے”مشکل ا لآثار“میں اورحاکم نیشابوری نے”المستدرک“میں ”اہل بیت“سے صرف پنجتن پاک )علہیم السلام )کو مراد لیاہے۔

”اہل بیت“کوواضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس سلسلہ میں دوجہات سے

____________________

۱۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۲۹۱

۲۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۴۹۲

۱۸۶

بحث کریں:

۱ ۔آیہء شریفہ کے مفاد کے بارے میں بحث۔

۲ ۔آیہء شریفہ کے ضمن میں نقل کی گئی احادیث اورروایات کے بارے بحث۔

آیت کے مفاد کے بارے میں بحث

آیت کے مفہوم پر بحث کے سلسلہ میں درج ذیل چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:

اول یہ کہ:لغوی اور عرفی لحاظ سے”اہل بیت“کا مفہوم پنجتن پاک کے عنوان کوشامل ہے۔

دوسرے یہ کہ آیہء شریفہ میں ضمیر”عنکم)جوجمع مذکر کے لئے ہے)کی وجہ سے اہل بیت کے مفہوم میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں شامل نہیں ہیں۔

تیسرے یہ کہ:بہت سی ایسی روایتیں مو جودہیں جن میں ”اہل بیت“کے مرادسے پنجتن پاک)علیہم السلام)کو لیاگیاہے۔لہذایہ قول کہ اہل بیت سے مرادصرف پیغمبراکرم (ص)کی بیویاں ہیں،ایک بے بنیاد بلکہ برخلاف دلیل قول ہے۔یہ قول عکرمہ سے نقل کیا گیا ہے وہ کہتاتھا:

”جوچاہتا ہے،میں اس کے ساتھ اس بابت مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں کہ آیہ شریفہ میں ”اہل بیت کا مفہوم“پیغمبر (ص)کی بیویوں سے مختص ہے(۱)“

اے کاش کہ اس نے)اس قول کی نسبت اس کی طرف صحیح ہونے کی صورت میں )مباہلہ کیاہوتا اورعذاب الہٰی میں گرفتار ہواہوتا!کیونکہ اس نے پنجتن پاک(ع)کی شان میں نقل کی گئی ان تمام احادیث سے چشم بستہ انکار کیا ہے جن میں آیہء تطہیرکی شان نزول بیان کی گئی ہے۔

____________________

۱۔روح المعانی ،ج۲۲،ص۱۳،داراحیائ التراث العربی،بیروت

۱۸۷

لیکن دوسرے قول کہ جس کے مطابق”اہل بیت کے مفہوم“میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں نیزعلی،فاطمہ،حسن اورحسین)علیہم السلام)شامل ہیں کوبہت سے اہل سنت،بلکہ ان کی اکثریت نے قبول کیا۔

اور انھوں نے،اس نظریہ کو ثابت کر نے کے لئے آیات کے سیاق سے استدلال کیا ہے۔اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ آیہء تطہیرسے پہلے والی آیتیں اور آیت تطہیر کے بعد والی آیتیں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں سے متعلق ہیں۔چونکہ آیہء تطہیر ان کے درمیان میں واقع ہے،اس لئے مفہوم اہل بیت کی صلا حیت اورقرینہء سیاق کے لحاظ سے،اس میں پیغمبراکرم (ص)کی بیویاں شامل ہیں۔

ابن کثیر نے اپنی تفسیر،قرینہء سیاق کے پیش نظر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کو یقینی طو رپر اہل بیت کی فہرست میں شامل جاناہے۔

سیاق آیہء تطہیر

کیا آیہء تطہیر کے سیاق کے بارے میں کیا گیا دعویٰ قابل انعقادہے؟اورپیغمبر (ص)کی بیویوں کے اہل بیت کے زمرے میں شامل ہونے کو ثابت کرسکتاہے؟مطلب کوواضح کرنے کے لئے درج ذیل چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:

اول یہ کہ:چند آیات کے بعد صرف ایک آیت کا واقع ہو نا سیاق کے واقع ہو نے کا سبب نہیں بن سکتا ہے اوردوسری طرف سے یہ یقین پیدا نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ آیتیں ایک ساتھ ایک مر تبہ نازل ہوئی ہیں،کیونکہ سیاق کے واقع ہو نے کے سلسلہ میں شر ط یہ ہے کہ آیات کا نزول ایک دوسرے کے ساتھ انجام پایا ہو۔لہذاہم شک کرتے ہیں اورممکن نہیں ہے کہ ہم سیاق کو احراز)متعین)کر سکیں جبکہ موجودہ قرآن مجیدکی تر تیب نزول قرآن کی ترتیب کے متفاوت ہے،اس لئے اس مسئلہ پرکبھی اطمینان پیدانہیں کیا جا سکتا ہے کہ آیہء تطہیر کا نزول پیغمبر (ص)کی بیویوں سے مربوط آیات کے بعد واقع ہواہے۔

۱۸۸

اگریہ کہا جائے کہ:اگرچہ یہ آیتیں ایک ساتھ نازل نہیں ہوئی ہیں،لیکن ہرآیہ اورسورئہ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مو جودگی میں ان کی نظروں کے سامنے ایک خاص جگہ پرانھیں رکھا گیا ہے،اس لئے آیات کا ایک دوسرے کے ساتھ معنوی رابطہ کے پیش نظران آیات میں سیاق واقع ہو اہے لہذاپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں پنجتن پاک علیہم السلام کے ساتھ اہل بیت کے زمرے میں شامل ہوں گی۔

اس کا جواب یہ ہے کہ:اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ آیہء تطہیر کا اس خاص جگہ پرواقع ہو ناآیات کے معنوی پیوند کے لحاظ سے ہے اور وہ چیز کہ جس پر دلیل قائم ہے صرف یہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی مصلحت کے پیش نظر اس آیت کواپنی بیویوں سے مربوط آیات کے درمیان قراردیا ہے،لیکن یہ کہ مصلحت صرف آیات کے درمیان معنوی رابطہ کی وجہ سے ہے اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ممکن ہے اس کی مصلحت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کے لئے ایک انتباہ ہوکہ تمہارااہل بیت“کے ساتھ ایک رابطہ اور ہے ،اس لئے اپنے اعمال کے بارے میں ہوشیار رہنا،نہ یہ کہ وہ خود”اہل بیت“کی مصداق ہیں۔

دوسرے یہ کہ:آیہء کریمہ میں کئی جہتوں سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ آیہء تطہیر کا سیاق اس کی قبل اور بعد والی آیات کے سیاق سے متفاوت ہے اوریہ دو الگ الگ سیاق ہیں اور ان میں سے ہر ایک ،ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے جس کا دوسرے سے کوئی ربط نہیں ہے۔وہ جہتیں حسب ذیل ہیں:

پہلی جہت:پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیوں سے مربوط آیات کا سیاق سرزنش کے ساتھ ہے)چنانچہ آیت ۲۸ کے بعدغورکرنے سے معلوم ہو تا ہے)اوران آیات میں پیغمبراکرم (ص)کی بیویوں کی کسی قسم کی ستائش اور تعریف نہیں کی گئی ہے،جبکہ آیہء تطہیر کے سیاق میں فضیلت وبزرگی اورمدح و ستا ئش ہے اورآیہ تطہیر کے ذیل میں ذکر ہو نے والی احادیث سے یہ مطلب اور بھی زیادہ روشن و نمایاں ہو جا تا ہے۔

دوسری جہت:یہ کہ آیہء تطہیر کی شان نزول مستقل ہے اورآنحضرت (ص)کی بیویوں سے مربوط آیات کی شان نزول بھی مستقل ہے چنانچہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں نے اپنے حق سے زیادہ نفقہ کاتقاضا کیا تھا لہذا مذکورہ آیتیں اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہیں۔اس شان نزول کے بارے میں مزیدآگاہی حاصل کرنے کے لئے شیعہ وسنی تفسیروں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلہ میں پہلے ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں سے مربوط آیات کی طرف اشارہ کر تے ہیں کہ اور اس کے بعد اس حدیث کا ترجمہ پیش کریں گے جسے ابن کثیر نے ان آیات کی شان نزول کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے:

۱۸۹

( یااٴیّهاالنبیّ قل لازواجک ان کنتنّ تردن الحیوةالدنیا وزینتها فتعالین اٴُمّتعکنّ واٴُسرّحکنّ سراحاًجمیلاًوإن کنتنّتردن اللّٰه ورسوله والدار الآخرة فإنّ اللّٰه اٴعدّ للمحسنات منکنّ اٴجراً عظیماًیانساء النبیّ من یاٴت منکنّ بفاحشة مبیّنة یضاعف لها العذاب ضعفین وکان ذلک علی اللّٰه یسیراًً ومن یقنت منکنّ للّٰه ورسوله وتعمل صالحاً نؤتهااجرهامرّتین واٴعتد نا لهارزقاً کریماًیانساء النبیّ لستنّ کاٴحد من النساء إن اتقیتنّ فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبه مرض وقلن قولاً معروفاًوقرن فی بیوتکنّ ولا تبرّجن الجا هلیة الاُولی واٴقمن الصلوة وء اتین الزکوة واٴطعن اللّٰه ورسوله إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت ویطهّرکم تطهیراًواذکرن مایتلی فی بیوتکنّ من آیات اللّٰه والحکمةإنّ اللّٰه کان لطیفاًخبیرا ) (احزاب/ ۲۸ ۔ ۳۴)

”پیغمبر!آپ اپنی بیویوں سے کہد جئے کہ اگر تم سب زندگانی دنیااوراس کی زینت کی طلبگارہوتوآؤمیں تمہارامہرتمھیں دیدوں اورخوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں اوراگراللہ اور رسول اورآخرت کی طلبگار ہو تو خدا نے تم میں سے نیک کردار عورتوں کے لئے اجر عظیم قرار دیا ہے ۔اے زنان پیغمبرجو بھی تم میں سے کھلی ہوئی برائیوں کاارتکاب کرے گااس کو دھرا عذاب کر دیا جائے گا اوریہ بات خد اکے لئے بہت آسان ہے۔اورجوبھی تم میں سے خدااوررسول کی اطاعت کرے اورنیک عمل انجام دے اسے دہرا اجر عطا کیا جائے گا اورہم نے اس کے لئے بہترین رزق فراہم کیا ہے ۔اے زنان پیغمبر!تم اگر تقویٰ اختیار کرو تو تمھارامرتبہ عام عورتوں کے جیسا نہیں ہے،لہذا کسی آدمی سے نازکی)دل لبھانے والی کیفیت) سے بات نہ کرو کہ بیمار دل افراد کوتمہاری طمع پیدا ہو اور ہمیشہ شائستہ و نیک باتیں کیا کرواور اپنے گھروں میں بیٹھی رہواور جاہلیت کے زما نہ کی طرح بناؤ سنگار نہ کرواور نماز قائم کرو اورزکوةادا کرو اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو۔بس اللہ کا ارادہ ہے اے اہل بیت!کہ تم سے ہر طرح کی برائی کو دور رکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔اورازواج پیغمبر!تمھارے گھروں میں جن آیات الہٰی اور حکمت کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انھیں یادرکھو خدا لطیف اور ہرشے سے آگاہ ہے۔“

۱۹۰

ابن کثیر نے ابی الزبیر سے اوراس نے جابر سے روایت کی ہے:

”لوگ پیغمبر (ص)کے گھر کے سامنے بیٹھے تھے،اسی حالت میں ابوبکراورعمرآگئے اورداخل خا نہ ہونے کی اجازت چاہی۔پہلے انھیں اجازت نہیں دی گئی۔جب انھیں اجازت ملی اور وہ خا نہ رسول میں ہوئے توانہوں نے کیادیکھاکہ آنحضرت (ص)بیٹھے ہوئے ہیں اورآپ کی بیویاں بھی آپکے گردبیٹھی ہوئی ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،خاموش تھے۔عمر نے آنحضرت (ص)کو ہنسا نے کے قصد سے کہا:یارسول اللہ!اگرآپ دیکھتے کہ بنت زید) اس سے مراد عمر کی زوجہ ہے) نے جب مجھ سے نفقہ کا تقاضا کیا تو میں نے کیسی اس کی پٹائی کی!یہ سن کرپیغمبراکرم (ص)ایسا ہنسے کہ آپکے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔پیغمبر (ص)نے فرمایا:یہ )میری بیویاں)میرے گردجمع ہوئی ہیں ا ور مجھ سے)بیشتر)نفقہ کا تقاضا کرتی ہیں۔اس وقت ابوبکرعائشہ کو مار نے کے لئے آگے بڑھے اور عمر بھی اٹھے اوردونوں نے اپنی اپنی بیٹیوں سے نصیحت کر تے ہو ئے کہا:تم پیغمبر (ص)سے ایسی چیزکامطالبہ کرتی ہوجوپیغمبر کے پا س نہیں ہے؟آنحضرت (ص)نے انھیں مار نے سے منع فرمایا۔اس قضیہ کے بعد آنحضرت (ص)کی بیویوں نے کہا:ہم آج کے بعد سے پیغمبر (ص)سے کبھی ایسی چیز کا تقاضا نہیں کریں گے،جوان کے پاس موجود نہ ہو۔خدا وند متعال نے مذکورہ آیات کو نازل فرمایا جس میں آنحضرت (ص)کی بیویوں کو پیغمبر کی زوجیت میں باقی رہنے یا انھیں طلاق کے ذریعہ آنحضرت کو چھوڑ کے جا نے کا اختیار دیا گیاہے۔(۱)

یہ تھی،آنحضرت (ص)کی ازواج سے مربوط آیات کی شان نزول۔جبکہ آیہء تطہیر کی شان نزول پنجتن آل عبا اورائمہ معصومین (علیہم السلام) سے متعلق ہے۔اس سلسلہ میں شیعہ وسنی تفسیر اورحدیث کی کتا بوں میں کافی تعداد میں روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔ہم ان میں سے چند ایک کا ذکر احادیث کے باب میں کریں گے۔

____________________

۱۔تفسیر ابن کثیر،ج۳،ص۴۹۱

۱۹۱

اس شان نزول اورپیغمبراکرم (ص)کی ازواج سے مربوط آیات کی شان نزول میں احتمالاً کئی سالوں کا فاصلہ ہے۔اب کیسے ان آیا ت کے در میان وحدت سیاق کے قول کو تسلیم کیا جا سکتا ہے اورکیاان دو مختلف واقعات کو ایک سیاق میں ضم کرکے آیت کے معنی کی توجیہ کی جاسکتی ہے؟

تیسری جہت:یہ کہ سیاق کے انعقادکو مختل کرنے کاایک اورسبب پیغمبراکرم (ص)کی بیویوں سے مربوط آیات اور آیہء تطہیر کے ضمیروں میں پا یا جا نے والا اختلاف ہے۔مجموعی طورپر مذکورہ آیات میں جمع مونث مخاطب کی ۲۲ ضمیریں ہیں۔ان میں سے ۲۰ ضمیریں ایہء تطہیرسے پہلے اوردوضمیریں ایہء تطہیر کے بعداستعمال ہوئی ہیں،جبکہ آیہء تطہیر میں مخاطب کی دوضمیریں ہیں اوردونوں مذکر ہیں۔اس اختلاف کے پیش نظر کیسے سیاق محقق ہوسکتا ہے؟

اعتراض:آیہء تطہیرمیں ”عنکم“اور”یطھّرکم“سے مراد صرف مرد نہیں ہیں،کیونکہ عورتوں کے علاوہ خود پیغمبر (ص)علی ،حسن وحسین (علیہم السلام) بھی اس میں داخل تھے۔اس لئے”کم“کی ضمیر آئی ہے اورعربی ادبیات میں اس قسم کے استعمال کو ”تغلیب“کہتے ہیں اوراس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کسی حکم کا ذکرکرنا چاہیں اوراس میں دوجنس کے افراد شامل ہوں،تو مذکر کو مونث پر غلبہ دے کر لفظ مذکر کو ذکر کریں گے اوراس سے دونوں جنسوں کا ارادہ کریں گے۔

اس کے علاوہ،مذکرکی ضمیرکا استعمال ایسی جگہ پر کہ جہاں مونث کا بھی ارادہ کیا گیا ہے قرآن مجید میں اور بھی جگہوں پر دیکھنے میں آیا ہے،جیسے درج ذیل آیات میں( قالو ااٴتعجبین من اٴمراللهرحمت اللهوبرکاته عليکم اٴهل البیت ) (۱) کہ حضرت ابراھیم) علیہ السلام) کی زوجہ سے خطاب کے بعد جمع مذکر حاضر کی ضمیر اور اہل بیت کا عنوان ذکر ہوا ہے۔

( قال لاهله امکثوا ) (۲) کہ حضرت موسی علیہ اسلام کے اہل خاندان )کہ جس سے

____________________

۱۔ ہود/۷۳

۲۔قصص/۲۹

۱۹۲

مرادان کی زوجہ ہے) کے ذکرکے بعد ضمیرجمع مذکر حاضر کے ذریعہ خطاب کیا گیا ہے۔

جواب: ہر کلام کا اصول یہ ہے کہ الفاظ کو اس کے حقیقی معنی پر حمل کیا جائے اور”اصالة الحقیقة“ایک ایسا عقلائی قاعدہ ہے کہ جس کے ذریعہ ہر لغت وزبان کے محاورات و مکالمات میں استناد کیا جاتاہے۔

اس عقلائی قاعدے کی بنیاد پر جس لفظ کے بارے میں یہ شک پیدا ہو کہ وہ اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے یا نہیں، اسے اس کے حقیقی معنی پر حمل کرنا چاہے۔ اس لحاظ سے آیہء تطہیر میں دو جگہ پراستعمال ہوئی”کم“کی ضمیرسے مراد اس کے حقیقی معنی ہیں اور یہ کہ آ یہ شریفہء مذکور میں تمام افراد اہلبیت مذکر تھے، صرف قرینہ خارجی اور آیت کی ذیل میں روآیت کی گئی احادیث کی وجہ سے قطعی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت کی فہرست میں حضرت فاطمہ زہراسلام الله علیہابھی شامل ہیں، اور ان کے علاوہ کوئی مونث فرد اہل بیت میں شامل نہیں ہے۔ اور آیہ شریفہ میں قاعدئہ”اقرب المجازات“جاری ہوگا۔

لیکن شواہدکے طور پر پیش کی گئی آیات میں قرینہ کی وجہ سے مونث کی جگہ ضمیر مذکر کا استعمال ہوا ہے اوریہ استعمال مجازی ہے اور ایک لفظ کا مجازی استعمال قرینہ کے ساتھ دلیل نہیں بن سکتا ہے کہ قرینہ کے بغیر بھی یہ عمل انجام دیا جائے اور جیسا کہ کہا گیاکہ اصل استعمال یہ ہے کہ لفظ اس کے حقیقی معنی میں استعمال ہواور ایسا نہ ہونے کی صورت میں قاعدہ”اقرب المجازات“کی رعآیت کی جانی چاہئے۔

آیہ تطہیر کے بارے میں احادیث

ش یعہ اور اہل سنت کے منابع میں بڑی تعداد میں ذکر ہونے والی احادیث سے واضح طور پریہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آیہ تطہیر میں ”اہل بیت“سے مراد صرف پنجتن پاک) علیہم السلام) ہیں اور ان میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں کسی جہت سے شامل نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں مذکورہ

۱۹۳

منابع میں اتنی زیادہ حدیثیں نقل ہوئی ہیں کہ حاکم حسکانی(۱) نے اپنی کتاب”شواہد التنزیل“ کے صفحہ ۱۸ سے لیکر ۱۴۰ تک انہی احادیث سے مخصوص کیا ہے۔(۲) ہم ذیل )حاشیہ) میں اہل سنت

____________________

۱۔ذہبی،تذکرةالحافظ،ج۲،ص۱۲۰۰پر کہتا ہے:حاکم حسکانی علم حدیث کے کامل عنایت رکھنے والاایک محکم اورمتقن سند ہے۔

۲۔ اسدالغابة/ج۵ص۵۲۱/داراحیائ التراث العربی ،بیروت، الاصابة/ج۲/ص۵۰۹/دارالفکر، اضوائ البیان /ج۶/ص۵۷۸/عالم الکتب بیروت، انساب الاشراف/ج۲/ص۳۵۴/دارالفکر، بحار الانوار،ج۳۵،ازص۲۰۶،باب آیة تطہیر تاص۲۳۲ مؤسسة الوفائ بیروت، تاریخ بغداد /ج۹/ص۱۲۶/ وج۱۰/ص۲۷۸/دارالفکر، تاریخ مدینہ دمشق/ج۱۳/ص۲۰۳و ۲۰۶و۲۰۷وج۱۴/ ص۱۴۱و۱۴۵، تفسیر ابن ابی حاتم /ج۹/ص۳۱۲۹/المکتبة المصربة بیروت، تفسیر ابی السعود/ ج۷/ ص۱۰۳/دارالحیائ التراث العربی بیروت، تفسیر البیضاوی/ج۲۳/ص ۳۸۲/دارالکتاب العلمیة، تفسیر فرات الکوفی/ج۱/ص۳۳۲ تا۳۴۲/مؤسسة النعمان، تفسیر القرآن العظیم ابن کثیر/ج۳/ص۵۴۸/دارالکتب العلمیة بیروت، تفسیر اللباب ابن عادل دمشقی/ج۱۵/ص۵۴۸/ دارالکتاب العلمیة بیروت، تفسیر الماوردی/ج۴/ص۴۰۱/دارالمعرفة بیروت، التفسیر المنبر/ج۲۳/ص۱۴/دارالفکرالمعاصر، تھذیب التھذیب/ج۲/ص۲۵۸/دارالفکر، جامع البیان/ طبری/ج۲۲/ص۵/دارالمعرفة بیروت، جامع احکام القرآن/ قرطبی/ج۱۴/ص۱۸۳/دارالفکر، الدار المنثور/ج۶/ص۶۰۴/دارالفکر، ذخائر العقبی/ص۲۱تا۲۴، روح البیان/ج۷/ص۱۷۱/داراحیائ التراث العربی، روح المعانی/ آلوسی/ج۲۲/ص۱۴/دار احیائ التراث العربی/الریاض النضرة/ج۲)۴-۴)/ص۱۳۵/دار الندوة الجدیدة بیروت، زاد المسیر/ ابن جوزی/ج۶/ص۱۹۸/ دارالفکر، سنن الترمذی/ج۵/ص۳۲۸-۳۲۷و ۶۵۶/ دارالفکر، السنن الکبری / بیھقی/ ج۲ / ص۱۴۹/ دارالمعرفة بیروت، سیر اعلام النبلاء/ ذہبی/ج۳/ص۲۵۴و ۲۸۳/ مؤسسة الرسالة بیروت، شرح السنة بغوی/ج۱۴/ص۱۱۶/المکتب الاسلامی بیروت، شواہد التنزبل/ج۲/ص۸۱-۱۴۰/ موسسة الطبع و النشر لوزرارة الارشاد، صحیح ابن حبان/ج۱۵/ص۴۴۲ الٰی ۴۴۳/موسسة الی سالة بیروت، صحیح مسلم/ج۵/ص۳۷/ کتاب الفضائل باب فضائل / مؤسسة عزالدین بیروت، فتح القدیر/ شوکانی/ج۴/ص۳۴۹تا۳۵۰/ دار الکتاب العلمیة بیروت، فرائد السمطین/ جوینی/ج۱/ص۳۶۷/مؤسسة المحمودی بیروت، کفایة الطالب/ص۳۷۱تا۳۷۷/داراحیاء تراث اہل البیت، مجمع الزوائد/ج۹/ص۱۶۶-۱۶۹/دارالکتب العربی بیروت، المستدرک علی الصحیحین /ج۲/ص۴۱۶وج۳/ص۱۴۷/دارالمعرفة بیروت، مسند ابی یعلی/ج۱۲/ ص۳۴۴و۴۵۶/ دار الہامون للتراث، مسند احمد/ج۴/ص۱۰۷وج۶/ص۲۹۲/دارصادر بیروت، مسند اسحاق بن راہویہ/ ج۳/ص۶۷۸/مکتبة الایمان مدینة المنورة، مسندطیالسی/ص۲۷۴/ دارالکتب اللبنانی، مشکل الآثار/ طحاوی/ج۱/ص۳۳۵/دارالباز، المعجم الصغیر/طبرانی/ج۱/ص ۱۳۵/ دارالفکر، المعجم الاوسط/طبرانی/ج۲/ص۴۹۱/ مکتبة المعارف ریاض، المعجم لکبیر/طبرانی/ ج۲۳/ ص۲۴۵و۲۸۱و ۲۸۶و ۳۰۸و۳۲۷و۳۳۰و۳۳۳و۳۳۴و۳۳۷و۳۵۷و۳۹۳و۳۹۶، المعرفة و التاریخ بسوی/ ج۱/۳۹۸، المنتخب من مسند عبد بن حمید/ص۱۷۳ و ۳۶۷/عالم الکتب قاہرہ مناقب ابن مغازلی/ص۳۰۱-۳۰۲/ المکتبةالاسلامیة

۱۹۴

کے بعض منابع کا ذکرکرتے ہیں کہ جن میں مذکورہ احادیث یا درج ہو ئی ہے یاان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

ان احادیث کے رادیوں کا سلسلہ جن اصحاب پرمنتہی ہو تا ہے وہ حسب ذیل ہیں:

۱ ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام

۲ ۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام الله علیہا

۳ ۔ حسن بن علی علیہ السلام

۴ ۔ انس بن مالک

۵ ۔ براء بن عازب انصاری

۶ ۔ جابربن عبد الله انصاری

۷ ۔ سعد بن ابی وقاص

۸ ۔ سید بن مالک)ابو سعید خدومی)

۹ ۔ عبد اللهبن عباس

۱۰ ۔ عبدالله بن جعفرطیار

۱۱ ۔ عائشہ

۲۱ ۔ ام سلمہ

۱۳ ۔ عمربن ابی سلم

۱۴ ۔ واثلة بن اسقع

۱۵ ۔ ابی الحمرائ

اس کے علاوہ شیعوں کی حدیث اور تفسیر کی کتابوں اور بعض اہل سنت منابع میں درج کی گئی احادیث اور روایتوں سے استفادہ ہو تا ہے کہ ” اہل بیت “سے مراد پیغمبر اسلام (ص)علی، فاطمہ نیز شیعوں کے گیارہ ائمہ معصومین )علیہم السلام )ہیں۔

۱۹۵

آیہ تطہیر کے بارے میں احادیث کی طبقہ بندی

آیہ تطہیر سے مربوط احادیث کو اہل سنت کے مصادر میں مطالعہ کرنے اور شیعوں کے منابع میں موجود ان احادیث کا سرسری جائزہ لینے کے بعد انھیں چند طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

۱ ۔ وہ حدیثیں جن میں ” اہل بیت “ کی تفسیر علی و فاطمہ، حسن وحسین علیہم السلام کے ذریعہ کی گئی ہے۔

۲ ۔ وہ حدیثیں جن کا مضمون یہ ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی، وفاطمہ،حسن و حسین علیہم السلام کو کساء کے نیچے قرار دیا پھر آیہ تطہر نازل ہوئی ، اور یہ واقعہ ” حدیث کساء “ کے نام سے مشہور ہے ۔ ان میں سے بعض احادیث میں آیا ہے کہ ام سلمہ یا عائشہ نے سوال کیا کہ : کیا ہم بھی اہل بیت میں شامل ہیں؟

۳ ۔ وہ حدیثیں جن میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہرروز صبح کو یا روزانہ پانچوں وقت حضرت علی و فاطمہ علیہماالسلام کے کھرکے دروازے پر تشریف لے جاتے تھے اور سلام کر تے تھے نیز آیہ تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے۔

۴ ۔ وہ حدیثیں جواس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آیہ تطہیر پنجتن پاک علیہم السلام یا پنجتن پاک علیہم السلام نیز جبرئیل ومیکائیل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

یہاں پرمناسب ہے کہ احادیث کے مذکورہ چارطبقات میں سے چند نمونوں کی طرف اشارہ کیا جاے:

۱۹۶

۱ ۔ ”اہل بیت“کی پنجتن پاک سے تفسیر

ذیل میں چند ایسی احادیث بیان کی جاتی ہیں جن میں آیہء تطہیر میں ”اہل بیت“کی تفسیرپنجتن پاک) علیہم السلام )سے کی گئی ہے:

الف:کتاب”المستدرک علی الصحیحین“میں عبداللہ بن جعفر سے روایت کی گئی ہے:

لمّا نظر رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إلی الرحمة هابطة قال: اٴُدعوالی، اٴُدعوالی فقالت صفیة: من یا رسول اللّٰه؟ قال:اٴهل بیتی:علیاً وفاطمه والحسن و الحسین - علیهم السلام - فجیئی بهم،فاٴلقی علیهم النبییّ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کساء ه ثم رفع یدیه ثمّ قال: ”اللّهمّ هؤلاء آلی فصل علی محمد و علی آل محمد“ و اٴنزل اللّٰه عزّوجلّ ( : إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) هذا حدیث صحیح الاسناد ۔(۱)

”جب پیغمبر خدا (ص)نے رحمت الہی )جو آسمان سے نازل ہوئی تھی) کا مشاہدہ کیا تو فرمایا: میرے پاس بلاؤ!میرے پاس بلاؤ!صفیہ نے کہا:یارسول اللہ کس کو بلاؤں؟آپ نے فرمایا:میرے اہل بیت،علی وفاطمہ، حسن وحسین )علیہم السلام)کو۔

جب ان کو بلایا گیا،تو پیغمبراکرم (ص)نے اپنی کساء )ردا)کوان پر ڈال دیااوراپنے ہاتھ پھیلاکر یہ دعا کی:خدایا!”یہ میرے اہل بیت ہیں۔محمد اور ان کے اہل بیت پر دورد ورحمت نازل کر۔“اس وقت خدا وند متعال نے آیہء شریفہ إنمّا یرید اللہ۔۔۔ نازل فرمائی۔

اس حدیث کے بارے میں حاکم نیشاپوری کا کہنا ہے:

هذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاه ۔“

”اس حدیث کی سند صحیح ہے اگرچہ بخاری اورمسلم نے اپنی صحیحین میں سے نقل نہیں

_____________________

۱۔المستدرک علی الصحیحین،ج۳،ص۱۴۸

۱۹۷

کیا ہے۔“(۱)

قابل غوربات ہے کہ حاکم نیشاپوری کا خود اہل سنت کے حدیث ورجال کے بزرگ علماء اور امام میں شمار کیا جاتا ہے ۔

ب:عن ابی سعید الخدری عن اٴُم سلمة قالت: ”نزلت هذه الآیة فی بیتی: ( إنّما یرید اللّهٰ لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) قلت: یا رسول اللّٰه، اٴلست من اٴهل البیت؟ قال: إنّک إلی خیر، إنّک من اٴزواج رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قالت: و اٴهل البیت رسول اللّٰه و علیّ و فاطمة والحسن والحسن(۲)

”ابی سعیدخدری نے ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا:یہ آیت:

( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الّرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیرا ) میرے گھر میں نازل ہوئی میں نے عرض کی یارسول اللہ!کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟فرمایا:تمھارا انجام بخیر ہے،تم رسولکی بیوی ہوپھرام سلمہ نے کہا:”اہل بیت“رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی و فاطمہ، حسن وحسین (علیہم السلام) ہیں۔

____________________

۱۔حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب ”المستدرک علی الصحیحین“میں ان ا حادیث کودرج کیا ہے جو بخاری کے نزدیک صحیح ہو نے کی شرط رکھتی تھیں،لیکن انہوں نے انھیں اپنی کتابوں میں درج نہیں کیا ہے۔جو کچھ ذہبی اس حدیث کے خلاصہ کے ذیل میں ۔ اس کے ایک راوی ۔ملیکی کے بارے میں کہتا ہیں کہ:”قلت: الملیکی ذاھب الحدیث“اس کے عدم اعتماد کی دلیل نہیں ہو سکتی ہے۔کیونکہ اس کے بارے میں جیسا کہ ابن حجر نے”تہذیب التہذیب“ج۶،ص۱۳۲ پر”ساجی“سے نقل کر کے”صدوق“ کی تعبیرکی ہے۔ اس کی صداقت اور سچ کہنے کی دلیل ہے۔اوراس کی مدح میں جوتعبیرات نقل کی گئی ہے وہ اس کی حدیث کے بارے میں ہے اورخود صحیح بخاری ومسلم میں بھی ہم بہت سے ابواب میں ان کے راویوں کوپاتے ہیں کہ بہت سی تعرفیں کی گئی ہیں۔

۲۔تاریخ مدینة دمشق،ج۱۳،ص۲۰۶

۱۹۸

۲ ۔آیہء تطہیر کی تفسیرمیں حدیث کساء کی تعبیر

ش یعہ اور اہل سنت کی تفاسیر و احادیث کی کتابوں میں اس مضمون کی فراون حدیثیں موجود ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیت علیہم السلام کو ایک کساء کے نیچے جمع کیا اور اس کے بعد ان کے بارے میں آیہ تطہیر نازل ہوئی۔ ہم اس کتاب میں ان احادیث میں سے چند ایک کو نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

قابل توجہ بات ہے کہ ش یعہ امامیہ کے نزدیک حدیث کساء ایک خاص اہمیت و منزلت کی حامل ہے۔ یہ حدیث مرحوم بحرانی(۱) کی کتاب،”عوالم العلوم“میں حضرت فاطمہ زہرا )سلام الله علیہا) سے روآیت کی گئی ہے اور مختلف زمانوں میں ش یعوں کے نا مور علماء اور فقہا کے نام سے مزّین اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ نیز یہ حدیث ش یعوں کی مجلسوں اور محفلوں میں پڑھی جاتی ہے اور توسّل اور تبّرک کا ذریعہ قرار دی گئی ہے۔

احادیث کے اس گروہ میں درجہ ذیل تعبیر یں توجہ کا باعث ہیں اور ان تعبیروں میں سے ہر ایک ”اہل بیت “ کے دائرے کو پنجتن پاک )علیہم اسلام) کی ذات میں متعین کرتی ہیں:

۱ ۔”إنّک الی خیر “ یا جملہء”انّک من ازواج النبّی “ سے ضمیمہ کے ساتھ(۲)

۲ ۔”تنحّی، فإنّک علی خیر ۔“(۳)

۳ ۔”فجذبه من یدی ۔“(۴)

۴ ۔”ماقال إنّک من ٍهل البیت ۔“(۵)

۵ ۔”لا،واٴنت علی خیر ۔“(۶)

____________________

۱۔ عوام العوم، جلد حضرت زہراء علیہماسلام۔ ج۱۱،ص ۶۳۸موسسہ الامامم مھدی علیہ اسلام

۲۔الدر المنثور،ج۶،ص۶۳۸،موسسة الامام مھدی

۳۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۴۹۳

۴۔الدر المنثور،ج۶،ص۱۶۰۴۔المعجم الکبیرج،۲۳،ص۳۳۶ ۵۔تاریخ مدینةدمشق ج۱۴،ص۱۴۵

۶۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۳،ص۰۶ ۲

۱۹۹

۶ ۔”فواللّٰه مااٴنعم ۔“(۱)

۷ ۔”مکانک،اٴنت علی خیر ۔“(۲)

۸ ۔”فوددت اٴنّه قال:نعم ۔۔۔“(۳)

۹ ۔”تنحیّ لی عن اٴهل بیتی ۔“(۴)

۱۰ ۔”إنّک لعلی خیر،ولم ید خلنی معهم ۔“(۵)

۱۱ ۔”فواللّٰه ماقال:اٴنت معهم ۔“(۶)

۱۲ ۔”اجلسی مکا نک،فانک علی خیر ۔“(۷)

۱۳ ۔”إنّک لعلی خیر،وهؤلائ اٴهل بیتی ۔“(۸)

۱ ۔”إنک إلی خیر “کی تعبیر

”اٴخرج ابن جریر و ابن حاتم و الطبرانی و ابن مردویه عن اٴمّ سلمة زوج النبیّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إنّ رسول اللّٰه( ص) کان ببیتها علی منامة له علیه کساء خیبریّ! فجا ء ت فاطمة - رضی اللّٰه عنها - ببرمة فیها خزیره فقال رسول اللّه( ص) : اُدعی زوجک و ابنیک حسناً و حسیناً فدعتهم، فبینما هم یاٴکلون إذنزلت علی رسول اللّٰه( ص) :( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) فاٴخذ النبیّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بفضلة ازاراه فشّاهم إیاّها، ثمّ اٴخرج یده من الکساء و اٴومابها إلی السماء ثمّ قال: ”اللّهمَّ هؤلاء

____________________

۱۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۴۹۲،تفسیر طبری ج،۲۲ص،۵

۲۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۴،ص۱۴۱ ۳۔مشکلا آثار،ج۱،ص۳۳۶

۴۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۳،ص۲۰۳

۵۔شواہدالتنزیل،ج۲،ص۶۱

۶۔شواہد التنزیل،ج۲،ص۱۳۴

۷۔شواہدالتنزیل،ج۲،ص۱۹

۸۔المستدرک علی الصحیحین،ج۲،ص۴۱۶

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348