تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 22%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180451 / ڈاؤنلوڈ: 4273
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

دوسری فصل

جزیرة العرب سے باہراسلام کی توسیع

۱۔جنگ موتہ( ۱ )

رسول(ص) نے یہ عزم کر لیا تھا کہ جزیرة العرب کے شمال میں امن و امان کی فضا قائم کریں گے، اور اس علاقہ کے باشندوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے اور اس طرح شام تک جائیں گے ۔ آپ(ص) نے حارث بن عمیر ازدی کو حارث بن ابی شمر غسانی کے پاس بھیجا، شرحبیل بن عمرو غسانی نے ان کا راستہ روکا اور قتل کر دیا۔

اسی اثنا میں رسول(ص) نے مسلمانوں کا ایک اور دستہ اسلام کی تبلیغ کے لئے روانہ کیا، ملکِ شام کے علاقہ ذات الصلاح کے لوگوں نے ان پر ظلم کیا اور انہیں قتل کر ڈالا، ان کے قتل کی خبر رسول(ص) کو ملی،اس سانحہ کو سن کر رسول(ص) کو بہت افسوس ہوا، پھر آپ(ص) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان سے انتقام کے لئے نکلیں آپ (ص) کے فرمان پرتین ہزار سپاہیوں کا لشکر تیار ہو گیا تو آپ(ص) نے فرمایا: اس کے سپہ سالار علی الترتیب زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور بعد میں عبد اللہ بن رواحہ ہونگے پھر آپ(ص) نے ان کے درمیان خطبہ دیا:

''اغزوا بسم اللّه...ادعوهم الیٰ الدّخول فی الاسلام...فان فعلوا فاقبلوا منهم و اکقفوا عنهم...و الا فقاتلوا عدو الله و عدوکم بالشام و ستجدون فیها رجالا فی الصوامع معتزلین الناس، فلا تعرضوا لهم، و ستجدون آخرین للشیطان فی رؤوسهم مفاحص

____________________

۱۔ جنگ موتہ ماہ جمادی الاول ۸ھ میں ہوئی۔

۱۸۱

فاقلعوها بالسیوف ولا تقتلن امراة ولا صغیراً ولامر ضعاً ولا کبیراً فانیا لا تغرفن نخلا ولا تقطعن شجراً ولا تهدموا بیتاً'' ( ۱ )

پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا...اگر انہوں نے قبول کر لیا تو ان پر حملہ نہ کرنا انہیں مسلمان سمجھنا اور اگر انہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو تم اپنے اور خدا کے دشمن سے شام میں جنگ کرنا اور دیکھو تمہیں کلیسائوں میں کچھ لوگ گوشہ نشین ملیں گے ان سے کچھ نہ کہنا۔

اور کچھ لوگ ایسے ملیں گے جو شیطان کے چیلے ہونگے ان کے سرمنڈھے ہونگے انہیں تلواروں سے صحیح کرنا اور دیکھو عورتوں، دودھ پیتے بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا، کھجور کو برباد نہ کرنا اور کسی درخت کو نہ کاٹنا اور کسی گھر کو منہدم نہ کرنا۔

اس لشکر کو وداع کرنے کے لئے رسول(ص) بھی ان کے ساتھ چلے اور ثنیة الوداع تک ان کے ساتھ گئے مسلمانوں کا یہ لشکر جب ''مشارق'' کے مقام پر پہنچا تو وہاں کثیر تعدادمیں روم کی فوج دیکھی، جس میں دو لاکھ جنگجو شامل تھے۔ مسلمان موتہ کی طرف پیچھے ہٹے اور وہاں دشمن سے مقابلہ کیلئے، تیار ہوئے مختلف اسباب کی بنا پر مسلمانوں کا لشکر پسپا ہو گیا اور نتیجہ میں تینوں سپہ سالار شہید ہو گئے اس جنگ میں مسلمانوں کی شکست کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ اس دور افتادہ علاقہ میں جنگ کر رہے تھے جہاں امداد کا پہنچنا مشکل تھا۔ پھر یہ روم والوںپر حملہ آور ہوئے تھے اوروہ اپنی کثیر تعداد کے ساتھ دفاعی جنگ لڑ رہے تھے ،دونوں لشکروں کی جنگی معلومات میں بہت زیادہ فرق تھا، روم کی فوج ایک منظم و مستحکم فوج تھی جو جنگی مشق کرتی رہتی تھی، دوسری طرف مسلمانوں کی تعداداوران کے جنگی معلومات بہت کم تھی،یہ جمعیت نئی نئی وجود میں آئی تھی۔( ۲ )

جعفر بن ابی طالب کی شہادت کی خبر سن کر رسول(ص) بہت غم زدہ ہوئے اور آپ(ص) پرشدید رقت طاری ہوئی

____________________

۱۔ مغازی ج۲ ص ۷۵۸ ، سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۷۴۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۸۱۔

۱۸۲

تعزیت اور اظہار ہمدردی کے لئے ان کے گھر تشریف لے گئے اسی طرح زید بن حارثہ کے مارے جانے کا بھی بہت صدمہ ہوا۔( ۱ )

۲۔ فتح مکہ

جنگ موتہ کے بعد علاقہ کی طاقتوں کے مختلف قسم کے رد عمل ظاہر ہوئے، مسلمانوں کے پسپا ہونے اور شام میں داخل نہ ہونے سے روم کو بہت خوشی تھی۔

قریش بھی بہت خوش تھے، مسلمانوں کے خلاف ان کی جرأت بڑھ گئی تھی چنانچہ وہ معاہدہ ٔامان کو ختم کرکے صلح حدیبیہ کو توڑ نے کی کوشش کرنے لگے انہوںنے قبیلۂ بنی بکر کو قبیلۂ بنی خزاعہ کے خلاف اکسایا جبکہ صلح حدیبیہ کے بعد قبیلۂ بنی بکر قریش کا حلیف بن گیا تھا اور خزاعہ رسول(ص) کا حلیف بن گیا تھااور اسلحہ وغیرہ سے اس کی مدد کی جس کے نتیجہ میں قبیلۂ بکر نے قبیلۂ خزاعہ پر ظلم کیا اور اس کے بہت سے لوگوںکو قتل کر دیا حالانکہ وہ اپنے شہروں میں امن کی زندگی گزار رہے تھے اور بعض تو ان میں سے اس وقت عبادت میں مشغول تھے انہوںنے رسول(ص) سے فریاد کی اور مدد طلب کی۔ عمرو بن سالم نے رسول(ص) کے سامنے کھڑے ہو کر جب آپ(ص) مسجد میں تشریف فرما تھے نقض عہد کے بارے میں کچھ اشعار پڑھے، جس سے رسول(ص) بہت متاثر ہوئے اور فرمایا:''نُصِرتَ یا عمرو بن سالم'' اے سالم کے بیٹے عمرو تمہاری مدد کی جائیگی۔

قریش کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں اپنی غلط حرکت کا احساس ہو گیا۔ مسلمانوں کی طرف سے انہیں خوف لاحق ہوا اس صورت حال کے بارے میں انہوں نے آپس میں مشورہ کیا تو یہ طے پایا کہ ابو سفیان کو مدینہ بھیجا جائے تاکہ وہ صلح کی تجدید کرے اور رسول(ص) سے مدتِ صلح بڑھانے کی درخواست کرے۔

لیکن رسول(ص) نے ابو سفیان کی باتوں پر توجہ نہ کی بلکہ اس سے یہ فرمایا: اے ابو سفیان کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہے ؟ ابو سفیان نے کہا: میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں رسول(ص) نے فرمایا: ہم اپنی صلح اور اس کی مدت پر قائم ہیں۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱ ص ۵۴، مغازی ج۲ ص ۷۶۶، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۶۸۔

۱۸۳

اس سے ابوسفیان کا دل مطمئن نہ ہوا اور اس کو سکون حاصل نہیں ہوا بلکہ اس نے رسول(ص) سے عہد لینے اور امان طلب کرنے کی کوشش کی لہذا وہ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنے لگا کہ جو نبی (ص) سے یہ کام کرا دے مگرہر ایک نے واسطہ بننے سے انکار کر دیااور اس کی باتوں کی طرف اعتنا نہ کی۔ جب اسے کوئی چارہ کا ر نظر نہ آیا تو وہ ناکام مکہ واپس لوٹ گیا مشرک طاقتوں کے معاملات پیچیدہ ہو گئے تھے۔ حالات بدل گئے تھے اب رسول(ص) بڑھتی ہوئی طاقت اور راسخ ایمان کے سبب مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہونا چاہتے تھے مشرکین مکہ کی پیمان شکنی نے اس کا جواز پیدا کر دیااور قریش اپنی جان و مال کے لئے امان طلب کرنا چاہتے تھے۔ مکہ پر اقتدار و تسلط کا مطلب یہ تھا کہ پورا جزیرةالعرب اسلام کے زیر تسلط آ جائے۔

رسول(ص) نے یہ اعلان کر دیا کہ سب لوگ دشمن سے جنگ کے لئے تیار ہوجا ئیں چنانچہ مسلمانوں کے گروہ آپ(ص) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حاضر خدمت ہو نے لگے دس ہزار کا لشکر فراہم ہو گیا رسول(ص) نے چند مخصوص افراد ہی سے اپنا مقصد بیان کیا تھا آپ(ص) خدا سے یہ دعا کر رہے تھے۔

''اللهم خذ العیون و الاخبار من قریش حتی نباغتها فی بلادها'' ( ۱ )

اے اللہ قریش کی آنکھوں اور ان کے سراغ رساں لوگوں کو ناکام کر دے یہاں تک کہ ہم ان کے شہر میں ان کے سروں پر پہنچ جائیں۔

ظاہر ہے کہ رسول(ص) کم مدت میں بغیر کسی خونریزی کے پائیدار کا میابی چاہتے تھے اسی لئے آپ(ص) نے خفیہ طریقہ اختیار کیا تھا لیکن اس کی خبر ایسے شخص کو مل گئی جو اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھتا تھا چنانچہ اس نے اس سلسلہ میں قریش کو ایک خط لکھ دیا اور ایک عورت کے بدست روانہ کر دیا وحی کے ذریعہ رسول(ص) کو اس کی خبر ہو گئی آپ(ص) نے حضرت علی اور زبیر کو حکم دیا کہ اس عورت تک پہنچو اور اس سے خط واپس لو حضرت علی بن ابی طالب نے رسول(ص) پرراسخ ایمان کے سبب اس عورت سے خط واپس لے لیا۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۳۹۷، مغازی ج۲ ص ۷۹۶۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۹۸۔

۱۸۴

رسول(ص) نے وہ خط لیتے ہی مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا تاکہ ایک طرف ان کی ہمت بڑھا ئیں اور دوسری طرف انہیں خیانت سے ڈرائیں اور ان پر یہ بات ظاہر کر دیں کہ خدا کی رضا کے لئے اپنے جذبات کو کچلنے کی کتنی اہمیت ہے ۔ مسلمان اس خط کے بھیجنے والے حاطب بن ابی بلتعہ کا دفاع کرنے لگے کیونکہ اس نے خدا کی قسم کھا کے یہ کہا تھا کہ خط بھیجنے سے اس کا مقصد خیانت نہیں تھا ، لیکن اس کی اس حرکت پر عمر بن خطاب کو بہت زیادہ غصہ آیا اور رسول(ص) سے عرض کی : اگر اجازت ہو تو میں اسے ابھی قتل کردوں رسول(ص) نے فرمایا:

''وما یدریک یا عمر لعل الله اطلع علیٰ اهل بدر و قال لهم اعملوا ما شئتم خلفه غفرت لکم'' ( ۱ )

اے عمر تمہیں کیا خبر؟ ہو سکتا ہے خدا نے بدر والوں پر نظر کی ہو اور ان سے یہ فرمایا ہو کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے ۔

فوج اسلام کی مکہ کی طرف روانگی

دس رمضان المبارک کو فوج اسلام مکہ کی طرف روانہ ہوئی جب''کدید'' کے مقام پر پہنچی تو رسول(ص) نے پانی طلب کیا اور مسلمانوں کے سامنے آپ(ص) نے پانی پیا، مسلمانوں کو بھی آپ نے روزہ توڑنے کا حکم دیا لیکن ان میں سے بعض لوگوں نے رسول(ص) کی نافرمانی کرتے ہوئے روزہ نہ توڑا، ان کی اس نافرمانی پر رسول(ص) غضبناک ہوئے اور فرمایا:''اولٰئک العصاة'' یہ نافرمان ہیں پھرانہیں روزہ توڑنے کا حکم دیا۔( ۲ ) جب رسول(ص) ظہران کے نزدیک پہنچے تو آپ(ص) نے مسلمانوں کو صحراء میں منتشر ہونے اور ہر ایک کو آگ روشن کرنے کا حکم دیا، اس طرح ڈرائونی رات روشن ہو گئی اور قریش کی ہر طاقت کو مسلمانوں کا عظیم لشکر نظر آیا جس کے سامنے قریش کی ساری طاقتیں سر نگوں ہو گئیں، اس کو دیکھ کر عباس بن عبد المطلب پریشان ہوئے

____________________

۱۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۳۶۳، مغازی ج۲ ص ۷۹۸، لیکن محدثین نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے ملاحظہ ہو سیرة المصطفیٰ ، ص ۵۹۲۔

۲۔ وسائل الشیعة ج۷ ص ۱۲۴، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۹۰، مغازی ج۲ ص ۸۰۲، صحیح مسلم ج۳ ص ۱۴۱ و ۱۴۲، کتاب الصیام باب جواز الصوم و الفطر فی شہر رمضان للمسافر فی غیر معصیة، دار الفکر، بیروت۔

۱۸۵

یہ آخری مہاجر تھے جو رسول(ص) سے جحفہ میں ملحق ہوئے -لہذا وہ کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرنے لگے جس سے وہ قریش تک یہ پیغام پہنچا سکیں کہ وہ مکہ میں لشکر اسلام کے داخل ہونے سے پہلے فرمانبردار ہو کر آجائیں۔

اچانک عباس نے ابو سفیان کی آواز سنی جو مکہ کی بلندیوں سے اس عظیم لشکر کو دیکھ کر تعجب سے بدیل بن ورقاء سے بات کر رہا تھا اور جب عباس نے ابو سفیان سے یہ بتایا کہ رسول(ص) اپنے لشکر سے مکہ فتح کرنے کے لئے آئے ہیں تو وہ خوف سے کانپنے لگا ۔ اسے اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ وہ عباس کے ساتھ رسول(ص) کی خدمت حاضر ہو کران سے امان حاصل کر لے ۔

یہ صاحب خلق عظیم اور عفو و بخشش کے بحر بیکراںسے نہیں ہو سکتا تھا کہ اپنے چچا کے ساتھ آنے والے ابو سفیان کے لئے باریابی کی اجازت دینے میں بخل کریں چنانچہ فرمایا: آپ جائیے ہم نے اسے امان دی، کل صبح اسے ہمارے پاس لائیے گا۔

ابو سفیان کا سپر انداختہ ہونا

جب ابو سفیان رسول(ص) کے سامنے آیا تو اس سے آپ(ص) نے یہ فرمایا:''ویحک یا ابا سفیان الم یان لک ان تعلم ان لاالٰه الا اللّه'' اے ابوسفیان وائے ہو تیرے اوپر کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا بیشک تو یہ جان لے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ؟ ابو سفیان نے کہا:میرے ماں باپ آپ(ص) پر قربان ہوں آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم میرا یہ گمان تھا کہ اگر خدا کے علاوہ کوئی اور معبود ہوتا تو وہ مجھے بے نیاز کر دیتا۔ پھر رسول(ص) نے فرمایا: اے ابو سفیان! کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم یہ اقرار کرو کہ میں اللہ کا رسول(ص) ہوں؟ ابو سفیان نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم اس سلسلہ میں ابھی تک میرے دل میں کچھ شک ہے ۔( ۱ )

عباس نے اس موقعہ پر ابو سفیان پر اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں زور دیتے ہوئے کہا : وائے ہو تیرے

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۴۰، مجمع البیان ج۱۰ ص ۵۵۴۔

۱۸۶

اوپر، قبل اس کے کہ تجھے قتل کر دیا جائے یہ گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد(ص) اس کے رسول (ص) ہیں۔ پس ابو سفیان نے قتل کے خوف سے خدا کی وحدانیت اور محمد(ص) کی رسالت کی گواہی دی اور مسلمانوں میں شامل ہو گیا۔

ابو سفیان کے اسلام لانے کے بعد مشرکین کے دوسرے سردار بھی اسی طرح اسلام لے آئے لیکن رسول(ص) نے اس غرض سے کہ قریش خونریزی کے بغیر اسلام قبول کر لیں، ان پر نفسیاتی دبائو ڈالا۔ عباس سے فرمایا: اے عباس ا سے کسی تنگ وادی میں لے جائو، جہاں سے یہ فوجوں کو دیکھے۔

رسول(ص) نے اطمینان کی فضا پیدا کرنے اور اسلام و رسول اعظم کی مہربانی و رحم دلی پر اعتماد قائم کرنے نیز ابو سفیان کی عزت نفس کو باقی رکھنے کی غرض سے فرمایا:

جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اس کے لئے امان ہے جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرے گا وہ امان میں ہے ، جو مسجد میں داخل ہو جائیگا وہ امان میں ہے، جو ہتھیار ڈال دے گا وہ امان میں ہے ۔

اس تنگ وادی کے سامنے سے خدائی فوجیں گذرنے لگیں جو دستہ گذرتا تھا عباس اس کا تعارف کراتے تھے کہ یہ فلاں کا دستہ ہے وہ فلاںکا دستہ ہے اس سے ابو سفیان پر اتنی دہشت طاری ہوئی کہ اس نے عباس سے کہا: اے ابو الفضل خدا کی قسم تمہارا بھتیجہ بہت بڑا بادشاہ بن گیا، عباس نے جواب دیا: یہ بادشاہت نہیں ہے یہ نبوت ہے ۔ ان کے جواب میںابوسفیان نے تردد کیا ۔ اس کے بعد اہل مکہ کو ڈرانے اور رسول(ص) کی طرف سے ملنے والی امان کا اعلان کرنے کے لئے ابو سفیان مکہ چلا گیا۔( ۱ )

مکہ میں داخلہ

رسول(ص) نے اپنی فوج کے لئے مکہ میں داخل ہونے سے متعلق کچھ احکام صادر فرمائے اورہر دستہ کے لئے راستہ معین کر دیا نیزیہ تاکید فرمائی کہ جنگ سے پرہیز کریں ہاں اگر کوئی بر سر پیکار ہو جائے تو اس کاجواب

____________________

۱۔ مغازی از واقدی ج۲ ص ۸۱۶، سیرت نبویہ ج۳ ص ۴۷۔

۱۸۷

دیا جائے، چند مشرکین کا خون ہر حال میں مباح قرار دیا، خواہ وہ کعبہ کے پردہ ہی سے لٹکے ہوئے ہوں کیونکہ وہ اسلام اور رسول(ص) کے سخت ترین دشمن تھے۔

جب مکہ کے درو دیوار پرآپ (ص) کی نظر پڑی تو آنکھوں میں اشک بھر آئے، اسلامی فوجیں چاروں طرف سے فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئیں فتح و نصرت نے اس کی شان دوبالا کر دی تھی اور رسول(ص) کو خدانے جو نعمت و عزت عطا کی تھی اس کے شکریہ کی خاطر رسول(ص) سر جھکائے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے کیونکہ اعلائے کلمةاللہ کے لئے آپ (ص) کی بے پناہ جانفشانیوں کے بعد ام القریٰ نے آپ(ص) کی رسالت و حکومت کے سامنے سر جھکا دیا تھا۔

اہلِ مکہ کے شدید اصرار کے باوجود نبی (ص) نے کسی کے گھر میں مہمان ہونا قبول نہیں کیا تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد آپ(ص) نے غسل کیا اور سواری پر سوار ہوئے۔ تکبیر کہی تو سارے مسلمانوں نے تکبیر کہی، دشت و جبل میں نعرۂ تکبیر کی آواز گونجنے لگی-جہاں اسلام اور اس کی فتح سے خوف زدہ ہو کر شرک کے سرغنہ جا چھپے تھے-خانۂ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے آپ(ص) نے اس میں موجود ہر بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:( قل جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقا ) کہو ،حق آیا باطل گیا باطل کو تو جانا ہی تھا اس سے ہر بت منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔

رسول(ص) نے حضرت علی سے فرمایا: تم بیٹھ جائو تاکہ میں تمہارے دوش پر سوار ہو کر بتوںکو توڑ دوں لیکن حضرت علی اپنے دوش پر نبی (ص) کا بار نہ اٹھا سکے تو حضرت علی بن ابی طالب دوش رسول(ص) پر سوار ہوئے اور بتوں کو توڑ ڈالا ۔ پھر رسول(ص) نے خانۂ کعبہ کی کلید طلب کی، دروازے کھولے، اندر داخل ہوئے اور اس میں موجود ہر قسم کی تصویر کو مٹا دیا۔ اس کے بعد خانۂ کعبہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر فتحِ عظیم کے بارے میں ایک جمِّ غفیر کے سامنے خطبہ دیا ، فرمایا:

۱۸۸

''لا الٰه الا اللّٰه وحده لا شریک له، صدق وعده، و نصر عبده، و هزم الاحزاب وحده، الا کل ماثره اودم او مال یدعی فهو تحت قدمی هاتین الا سدانة البیت و سقایة الحاج...'' ۔

اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اس نے اپنے بندے کی مدد کی، اسی نے سارے لشکروں کو شکست دی، ہر وہ فضیلت یا خون یا مال کہ جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے میرے قدموں کے نیچے ہے ، سوائے خانۂ کعبہ کی کلید برداروی اور حاجیوں کو سیراب کرنے کی فضیلت...۔

پھر فرمایا:'' یا معاشر قریش ان اللّٰه قد اذهب عنکم نخوة الجاهلیة وتعظمها بالآباء النّاس من آدم و آدم من تراب...'' ( ۱ )

اے گروہ قریش! خدا نے تمہارے درمیان سے جاہلیت کی نخوت کو ختم کر دیا ہے وہ اپنے آباء و اجداد پر فخر کرتے تھے یا د رکھو سارے لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔

( یا ایها النّاس انا خلقناکم من ذکرٍ و انثیٰ و جعلناکم شعوباً و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللّٰه اتقاکم ان اللّٰه علیم خبیر )

اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد و عورت سے پیدا کیاہے اور پھر تمہارے گروہ اور قبیلے بنا دیئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، بیشک خدا کی نظر میں تم میں سے وہی محترم ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے۔( ۲ )

پھر فرمایا: اے گروہِ قریش تم کیا سوچتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟

انہوں نے کہا: آپ مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے فرزند ہیں۔ آپ(ص) نے فرمایا:''اذهبوا انتم طلقائ'' ( ۳ ) جائو تم آزاد ہو۔

____________________

۱۔ مسند احمدج۱ ص ۱۵۱، فرائد السمطین ج۱ ص ۴۹، کنز العمال ج۱۳ ص۱۷۱، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۸۶۔

۲۔حجرات:۱۳۔

۳۔ بحار الانوار ج۲۱، ص ۱۰۶، سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۱۲۔

۱۸۹

اس کے بعد بلال نے خانۂ کعبہ کی چھت پر جاکر اذان ظہر دی سارے مسلمانوں نے اس فتح کے بعد مسجد الحرام میں رسول(ص) کی امامت میں نماز پڑھی ، مشرکین حیرت سے کھڑے منہ تک رہے تھے، سرتاپا خوف و استعجاب میں ڈوبے ہوئے تھے، اہل مکہ کے ساتھ رسول(ص) کا یہ سلوک دیکھ کر انصار کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں رسول(ص) دوبارہ مکہ آباد نہ کریں ، ان کے ذہنوںمیں اور بہت سے خیالات گردش کر رہے تھے، رسول(ص) بارگاہ معبود میں دست بدعا تھے، انصار کے دل کی کیفیت سے بھی آگاہ تھے، انہیں مخاطب کر تے ہوئے فرمایا:''معاذ اللّٰه المحیا محیاکم و الممات مماتکم'' ایسا نہیں ہوگا میری موت و حیات تمہاری موت و حیات کے ساتھ ہے ، اسلام کا مرکز مدینہ ہی رہے گا۔

اس کے بعد مکہ والے رسول(ص) سے بیعت کے لئے بڑھے، پہلے مردوںنے بیعت کی ۔ بعض مسلمانوں نے ان لوگوں کی بھی رسول(ص) سے سفارش کی جن کا خون مباح کر دیا گیا تھا، رسول(ص) نے انہیںمعاف کر دیا۔

پھر عورتیں بیعت کے لئے آئیں -ان کی بیعت کے لئے آپ(ص) نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ ایک پانی سے لبریز ظرف میں پہلے آپ(ص) ہاتھ ڈال کر نکالتے تھے پھر عورت اس میں ہاتھ ڈالتی تھی- ان سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ کسی بھی چیز کو خدا کا شریک نہیں قراردیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اور اپنے ہاتھوں پیروں کے ذریعہ گناہ نہیں کریںگی اور بہتان نہیں باندھیں گی اور امر بالمعروف میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔( ۱ )

رسول(ص) اس وقت غضبناک ہوئے جب آپ(ص) کے حلیف خزاعہ نے مشرکین کے ایک آدمی پر زیادتی کی اور اسے قتل کر دیا، آپ(ص) کھڑے ہوئے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:

''یا ایّها النّاس ان الله حرم مکة یوم خلق السمٰوات و الارض فهی حرام الیٰ یوم القیامة لا یحل لامریٔ یؤمن باللّٰه و الیوم الآخر ان یسفک دماً او یعضد فیها شجراً'' ۔( ۲ )

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱، ص ۱۱۳ ، سورۂ ممتحنہ :۱۲۔

۲۔ سنن ابن ماجہ حدیث ۳۱۰۹، کنز العمال ح ۳۴۶۸۲، در منثور ج۱ ص ۱۲۲۔

۱۹۰

اے لوگو! بیشک خدا نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا اسی روز مکہ کو حرم قراردیدیا تھا اور وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا اور جو شخص خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اس میں خونریزی کرے یا اس میں کوئی درخت کاٹے۔

پھر فرمایا:''من قال لکم ان رسول اللّه قد قاتل فیها فقولوا ان اللّه قد احلها لرسوله و لم یحللها لکم یا معاشرخزاعه''

اور اگر کوئی کہے کہ رسول اللہ(ص) نے اس شہر میں جنگ کی ہے تو اس سے کہو کہ خدا نے اپنے رسول کے لئے جنگ حلال کی تھی اور تمہارے لئے جنگ حلال نہیں کی ہے اے بنی خزاعہ!

رسول(ص) نے اہل مکہ اور اس کے باشندوںکے بارے میں جس محبت و مہربانی ،عفو و در گذر اور مکہ کی سر زمین کی تقدیس اور اس کی حرمت کے متعلق جو اقدام کئے تھے وہ قریش کو بہت پسند آئے، لہذا ان کے دل آپ(ص) کی طرف جھکے اورانہوں نے بطیب الخاطر اسلام قبول کرلیا۔

جب پورا علاقہ مسلمان ہو گیا تو رسول(ص) نے مکہ اور اس کے مضافات میں بعض دستے روانہ کئے تاکہ وہ باقی ماندہ بتوں کو توڑ ڈالیں اور مشرکین کے معبدوں کو منہدم کر دیں لیکن خالد بن ولید نے اپنے چچا کے قصاص میں بنی جذیمہ کے بہت سے لوگوں کو قتل کر ڈالا حالانکہ وہ اسلام قبول کر چکے تھے۔( ۱ ) جب رسول (ص) کو اس سانحہ کی خبر ملی تو آپ(ص) بہت غضبناک ہوئے اور حضرت علی کو حکم دیا کہ ان مقتولوں کی دیت ادا کریں پھرآپ(ص) قبلہ رو کھڑے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا اور عرض کی:''اللّهم انّی ابرء الیک مما صنع خالد بن الولید'' اے اللہ جو کچھ خالد بن ولید نے کیا ہے میں اس سے بری ہوں، اس سے بنی جذیمہ کے دلوںکو اطمینان ہو گیا۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۲۰، خصال ص ۵۶۲، امالی طوسی ص ۳۱۸۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۴۸۔

۱۹۱

۳۔ جنگ حنین او ر طائف کا محاصرہ( ۱ )

فاتح کی حیثیت سے رسول(ص) کو مکہ میں پندرہ روز گزر گئے شرک کی مدتِ دراز کے بعد توحید کا یہ عہدِ جدید تھا مسلمان مسرت میں جھوم رہے تھے، ام القریٰ میں امن و امان کی حکمرانی تھی اچانک رسول(ص) کو یہ خبر ملی کہ ہوازن و ثقیف دونوں قبیلوںنے اسلام سے جنگ کرنے کی تیاری کر لی ہے ان کا خیال ہے اس کام کو انجام دیدیں گے جسے شرک و نفاق کی ساری طاقتیں متحد ہو کر انجام نہ دے سکیں یعنی یہ دونوں قبیلے-معاذ اللہ- اسلام کو نابود کر دیں گے؟! رسول(ص) نے ان سے نمٹنے کا عزم کیا لیکن آپ(ص) نے اپنی عادت کے مطابق پہلے مکہ میں امور کی دیکھ بھال کا انتظام کیا نماز پڑھانے اور امور کا نظم و نسق عتاب بن اسید کے سپرد کیا لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے اور انہیں احکام اسلام سکھانے کے لئے معاذ بن جبل کو معین کیا اس کے بعد بارہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ روانہ ہوئے، اتنی بڑی فوج مسلمانوں نے نہیں دیکھی تھی اس سے انہیں غرور ہو گیا یہاں تک ابو بکر کی زبان پر یہ جملہ آگیا : اگر بنی شیبان بھی ہم سے مقابلہ کریں گے تو آج ہم اپنی قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہونگے۔( ۲ )

ہوازن و ثقیف میں اتحاد تھاوہ جنگ کی پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے اہل و عیال کو بھی اپنے ہمراہ لائے تھے اور لشکر اسلام کو کچلنے کے لئے گھات میں بیٹھ گئے تھے۔لشکر اسلام کے مہراول دستے جب کمین گاہ کے اطراف میں پہنچے توانہوں نے انہیں فرار کرنے پر مجبور کر دیا یہاں تک کہ دشمن کے اسلحہ سے ڈر کر باقی مسلمان بھی ثابت قدم نہ رہ سکے، بنی ہاشم میں سے صرف نو افراد رسول(ص) کے ساتھ باقی بچے تھے دسویں ایمن-ام ایمن کے بیٹے- تھے۔ یہ صورت حال دیکھ کر منافقین مارے خوشی کے اچھل پڑے۔ ابو سفیان طعن و تشنیع کرتا ہوا نکلا اور کہنے لگا۔ یہ لوگ جب تک سمندر کے کنارے تک نہیں پہنچیں گے اس وقت تک دم نہیں لیں گے ۔ کسی نے کہا: کیا آج سحر باطل نہیں ہو گیا؟ کسی نے اس پریشان حالی میں رسول(ص) کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔( ۳ )

____________________

۱۔ جنگ حنین ماہ شوال ۸ھ میں ہوئی ۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۵۰، مغازی ج۲ ص ۸۸۹۔

۳۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۴۳، مغازی ج۳ ص ۹۹۔

۱۹۲

رسول(ص) نے اپنے چچا عباس سے فرمایا کہ بلندی پر جاکر شکست خوردہ اور بھاگے ہوئے انصار و مہاجرین کو اس طرح آواز دیں:'' یا اصحاب سورة البقره، یا اهل بیعة الشجرة الی این تفرون؟ هذا رسول اللّه!''

اے سورۂ بقرہ والو! اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! کہاں بھاگے جا رہے ہو؟ یہ اللہ کے رسول(ص) ہیں ۔

اس سے وہ لوگ غفلت کے بعد ہوش میں آگئے، پراگندگی کے بعد میدان کار زار پھر گرم کیا، اسلام اور رسول(ص) کا دفاع کرنے کے بارے میں جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کرنے کی طرف لوٹ آئے جب رسول(ص) نے ان کی جنگ دیکھی تو فرمایا:''الآن حمی الوطیس انا النبی لا کذب انا ابن المطلب'' ہاں اب جنگ اپنے شباب پر آئی ہے ، میں خدا کا نبی (ص) ہوں جھوٹ نہیں ہے ، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ پس خدا نے مسلمانوں کے دلوں کو سکون بخشااور اپنی مدد سے ان کی تائید کی جس کے نتیجے میں کفر کے گروہ شکست کھا کر بھاگ گئے ، لشکر اسلام نے ان میں سے چھہ ہزار کو اسیر کیااور بہت سا مال غنیمت پایا۔( ۱ )

رسول(ص) نے فرمایا: مال غنیمت کی حفاظت اور اسیروں کی نگہبانی کی جائے۔ دشمن فرار کرکے اوطاس، نخلہ اور طائف تک پہنچ گیا۔

یہ رسول(ص) کے اخلاق کی بلندی ، رحم دلی اور عفو ہی تھا کہ آپ(ص) نے ام سلیم سے فرمایا:''یا ام سلیم قد کفی اللّه، عافیة اللّه اوسع'' خدا کافی ہے اور اس کی عافیت بہت زیادہ وسیع ہے ۔

دوسری جگہ رسول(ص) اس وقت غضبناک ہوئے جب آپ(ص) کو یہ خبر ملی کہ بعض مسلمان مشرکین کی ذریت کو تہ تیغ کر رہے ہیں فرمایا:''ما بال اقوام ذهب بهم القتل حتی بلغ الذریة الا لا نقتل الذریة'' ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے اب وہ بچوں تک کو قتل کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم بچوںکو قتل نہیں کرتے ہیں۔ اسید بن حضیر نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! کیایہ مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟ فرمایا:

____________________

۱۔ اس سلسلہ میں سورۂ توبہ کی کچھ آیتیں نازل ہوئی تھیں جو کہ خدا کی تائید و نصرت کی وضاحت کر رہی ہیں۔

۱۹۳

''اولیس خیارکم اولاد المشرکین ، کل نسمة تولد علیٰ الفطرة حتی یعرب عنها لسانها و ابواها یهودانها او ینصرانها'' ( ۱ ) کیا تمہارے بہترین افراد مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟ ہر انسان فطرت-اسلام- پر پیدا ہوتا ہے اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔

مسلمانوں کے فوجی دستے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے طائف تک پہنچ گئے اور تقریبا پچیس دین تک ان کا محاصرہ کئے رہے ، وہ بھی دیواروں کے پیچھے سے مسلمانوں پر تیر بارانی کرتے تھے اس کے بعد رسول(ص) بہت سی وجوہ کی بنا پر طائف سے لوٹ آئے۔

جب جعرانہ -جہاں اسیروں اور مال غنیمت کو جمع کیا گیا تھا-پہنچے تو قبیلۂ ہوازن کے بعض لوگوں نے خدمت رسول(ص) میں معافی کے لئے التماس کی، کہنے لگے: اے اللہ کے رسول(ص)! ان اسیروں میں بعض آپ(ص) کی پھوپھیاں اور بعض خالائیں ہیں جنہوں نے آپ(ص) کو گود کھلایا ہے -ایک روایت کے مطابق رسول(ص) کو رضاعت کے لئے قبیلہ بنی سعد کے سپرد کیا گیا تھا جو کہ ہوازن کی شاخ تھی-اگر ہم حارث بن ابی شمر یا نعمان بن المنذر سے انتا اصرار کرتے تو ہمیں ان کے عفو و مہربانی کی امید ہوتی۔ آپ(ص) سے توان سے زیادہ امید ہے ۔ اس گفتگو کے بعد رسول(ص) نے ان سے یہ فرمایا: ایک چیز اختیار کریں ۔ یا مال واپس لے لیں یا قیدیوں کو چھڑا لیں۔ انہوں نے قیدیوں کو آزاد کرا لیا۔ پھر رسول(ص) نے فرمایا:''اما ما کان لی ولبن عبد المطلب فهو لکم '' جو میرا اور بنی عبد المطلب کا حصہ ہے وہ تمہارا ہے جب مسلمانوںنے رسول (ص) کا عفو و کرم دیکھا تو انہوںنے بھی اپنا اپنا حصہ رسول(ص) کے سپرد کر دیا۔( ۲ )

رسول(ص) نے اپنی حکمت بالغہ اور درایت سے تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے نیز جنگ کی آگ کو خاموش کرنے کی خاطر سب کو معاف کر دیا یہاں تک کہ اس جنگ کو بھڑکانے والا مالک بن حارث بھی اگر مسلمان ہو کر آپ کے پاس آجائے تو اسے بخش دیا جائیگا۔ چنانچہ ارشاد ہے :

____________________

۱۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۰۹۔

۲۔سید المرسلین ج۲ ص ۵۳، مغازی ج۳ ص ۹۴۹-۹۵۳۔

۱۹۴

''اخبروا مالکاً انّه ان اتانی مسلماً رددت علیه اهله و ماله واعطیته مائة من الابل و سرعان ما اسلم مالک'' ( ۱ )

مالک کو خبر کرو کہ اگر وہ مسلمان ہو کر میرے پاس آئیگا تو اس کے اہل و عیال اور مال و دولت اسے واپس مل جائیں گے اور مزیداسے سو اونٹ دئیے جائینگے۔ اس کے نتیجہ میں مالک نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔

مال غنیمت کی تقسیم

مسلمان رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور مال غنیمت تقسیم کرنے کے لئے اصرار کرنے لگے ،انہوں نے اس سلسلہ میں اتنی شدت اختیار کی کہ آپ(ص) کی ردا تک اچک لے گئے آپ(ص) نے فرمایا:

''ردوا علی ردائی فو اللّٰه لو کان لکم بعدد شجر تهامة نعماً لقسمته علیکم، ثم ما الفیتمونی بخیلاً ولا جباناً ولا کذاباً'' ۔

میری ردا واپس کر دو، خدا کی قسم اگر تہامہ کے درختوں کے برابر بھی تمہارا مال ہوتا تو بھی میں اسے تقسیم کر دیتا پھر تم مجھ پر بخل، بزدلی اور جھوٹ کا الزام نہیں لگا سکتے تھے۔

اس کے بعد آپ(ص) اٹھے، اپنے اونٹ کے کوہان کے کچھ بال لئے اور اپنی انگلیوں میں لیکر بلند کیا اورفرمایا:

''ایها النّاس و اللّه مالی فی فیئکم ولا هذه الوبرة الا الخمس ، و الخمس مردود علیکم'' ۔

اے لوگو! اس مال غنیمت میں میرا حصہ اس اونٹ کے بال کے برابر بھی نہیں ہے سوائے خمس کے اور وہ پانچواں حصہ بھی تمہیں دے دیا گیا ہے ۔ پھر آپ نے یہ حکم دیا کہ جو چیز بھی غنیمت میں ہاتھ آئی ہے اسے واپس لوٹایا جائے تاکہ انصاف کے ساتھ تقسیم ہو سکے۔

____________________

۱۔ مغازی ج۳ ص ۹۵۴ و ص ۹۵۵۔

۱۹۵

رسول(ص) نے مولفة القلوب ، ابو سفیان، معاویہ بن ابو سفیان، حکیم بن حزام، حارث بن حارث، سہیل بن عمرو،حویطب بن عبد العزی اور صفوان بن امیہ وغیرہ سے شروع کیا، یہ کفر و شرک کے وہ سرغنہ تھے جو آپ (ص) کے سخت ترین دشمن اور کل تک آپ(ص) سے جنگ کرتے تھے۔ اس کے بعد اپنا حق خمس بھی انہیں میں تقسیم کر دیا رسول(ص) کے اس عمل سے بعض مسلمانوں کے دل میں غصہ وحمیت بھڑک اٹھی کیونکہ وہ رسول(ص) کے مقاصد اور اسلام کی مصلحتوں سے واقف نہیں تھے ، یہ غصہ میں اتنے آپے سے باہر ہوئے کہ ان میں سے ایک نے تو یہ تک کہہ دیا کہ میں آپ(ص) کو عادل نہیں پاتا ہوں۔ اس پر رسول(ص) نے فرمایا: ''ویحک اذا لم یکن العد ل عندی فعند من یکون'' وائے ہو تمہارے اوپر اگر میں عدل نہیں کرونگا تو کون عدل کرے گا؟ عمر بن خطاب چاہتے تھے کہ اسے قتل کر دیں لیکن رسول(ص) نے انہیں اجازت نہیں دی فرمایا:''دعوه فانه سیکون له شیعة یتعمقون فی الدین حتی یخرجوا منه کما یخرج السهم من رمیته'' ۔( ۱ )

جانے دو عنقریب اس کے پیرو ہونگے جو دین کے بارے میں بہت بحث کیا کریں گے او ردین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل جاتا ہے ۔

انصار کا اعتراض

سعد بن عبادہ نے یہ مناسب سمجھا کہ رسول(ص) کو انصار کی یہ بات ''کہ رسول(ص) اپنی قوم سے مل گئے اور اپنے اصحاب کو بھول گئے'' بتا دی جائے جو ان کے درمیان گشت کر رہی ہے ۔ سعد نے انصار کو جمع کیا رسول(ص) کریم تشریف لائے تاکہ ان سے گفتگو کریں، پس آپ(ص) نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

''یا معشر الانصار ما مقالة بلغتنی عنکم وجِدَةً وجد تموها ف انفسکم؟ ! الم آتکم ضُلّالاً فهداکم اللّه و عالة فاغناکم اللّه و اعدائً فالّف اللّه بین قلوبکم؟ قالوا: بلیٰ اللّه و

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۹۶، مغازی ج۳ ص ۹۴۸۔

۱۹۶

رسوله أمّنُّ و افضل ، ثم قال: الا تجیبون یا معشر الانصار؟ قالواو ماذا نجیبک یا رسول اللّه؟ قال: اما و اللّه لو شئتم قلتم فصدقتم: اتیتنا مکذباً فصدقناک و مخذولاً فنصرناک و طریداً فآویناک و عائلاً فآسیناک وجدتم ف انفسکم یا معشر الانصار ان یذهب النّاس بالشاة و البعیر و ترجعوا برسول اللّه الیٰ رحالکم؟ و الذی نفس محمد بیده لولا الهجرة لکنت امر ئاً من الانصار ولو سلک النّاس شعباً و سلکت الانصار شعباً لسلکت شعب الانصار''

اے گروہ انصار! مجھ تک تمہاری وہ بات پہنچی ہے جو تم اپنے دلوں میں محسوس کر رہے ہو ۔ کیا تم پہلے گمراہ نہیں تھے ، خدا نے تمہیں-ہمارے ذریعہ-ہدایت دی، تم نادار و مفلس تھے خدا نے تمہیں ہماری بدولت مالا مال کیا۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے خدا نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈالی۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟ انصار نے کہا: خدا و رسول(ص) کا احسان سب سے بڑھ کر ہے۔ پھر فرمایا: اے گروہ انصار کیا تم مجھے جواب نہیں دوگے؟ انہوںنے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! ہم آپ(ص) کو کس طرح جواب دیں؟ آپ(ص) نے فرمایا: خدا کی قسم! اگر تم اس طرح کہتے تو سچ ہوتا کہ لوگوں نے آپ(ص) کو جھٹلایا اور ہم نے اپ(ص) کی تصدیق کی ، لوگوں نے آپ(ص) کو چھوڑ دیا تو ہم نے آپ(ص) کی مدد کی لوگوںنے آپ(ص) کو وطن سے نکال دیا تو ہم نے آپ(ص) کو پناہ دی، آپ مفلس تھے ہم نے آپ(ص) کی مال سے مدد کی اے گروہِ انصار! تم اپنے دلوں میں دنیا کی جس چیز کی محبت محسوس کرتے ہو اس کے ذریعہ میں نے کچھ لوگوں کی تالیف قلب کی ہے تاکہ وہ مسلمان ہو جائیں اور تمہیں تمہارے اسلام کے سپرد کر دیا ہے اے گروہ انصار کیاتمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ لوگ اونٹ اور بکریوں کے ساتھ اپنے گھر جائیں اور تم اللہ کے رسول(ص) کے ساتھ اپنے گھر جائو؟ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد(ص) کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی میں سے ہوتا اگر لوگ کسی قبیلہ کا انتخاب کرتے اور انصار بھی کسی قبیلہ کا انتخاب کرتے تو میں انصار کے قبیلہ کو اختیار کرتا۔

ان جملوںنے ان کے دلوں میں جذبات و شعور کو بیدار کر دیا اور وہ یہ سمجھ گئے کہ رسول(ص) کے بارے میں ان کا خیال صحیح نہیں تھا یہ سوچ کر وہ رونے لگے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول(ص) ہم اسی تقسیم پر راضی ہیں۔

۱۹۷

ماہِ ذی الحجہ میں رسول(ص) اپنے ساتھیوں کے ساتھ جعرانہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے، عمرہ بجالائے احرام کھولا، عتاب بن اسید اور ان کے ساتھ معاذ بن جبل کو مکہ میں اپنا نمائندہ مقرر کیا جو مہاجرین و انصارآپ کے ساتھ تھے ان کے ہمراہ آپ(ص)مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔( ۱ )

۴۔ جنگ تبوک( ۲ )

اسلامی حکومت ایک مستقل نظام کی صورت میں سامنے آئی اس کے سامنے بہت سے چیلنج تھے اس کی سرحدوں اور زمینوں کی حفاظت کرنا مسلمانوںکا فریضہ تھا تاکہ زمین کے گوشہ گوشہ میں اسلام کا پیغام پہنچ جائے۔

رسول(ص) نے مملکتِ اسلامیہ کے تمام مسلمانوںسے یہ فرمایا کہ روم سے جنگ کے لئے تیاری کرو، کیونکہ روم کے بارے میں مسلسل یہ خبریں مل رہی تھیں کہ وہ جزیرہ نمائے عرب پر حملہ کرکے دین اسلام اور اس کی حکومت کونیست و نابود کرنے کے لئے تیاری کر رہا ہے۔ اتفاق سے اس سال بارش نہیں ہوئی، جس کے نتیجہ میںپیداوار کم ہوئی اور شدید گرمی پڑ ی، اس صورت میں دشمن کی اس فوج سے مقابلہ کے لئے نکلنا بہت دشوار تھا جو تجربہ کار قوی اور کثیر تھی چنانچہ جن لوگوں میں روحانیت کم تھی اور جن کے نفس کمزور تھے وہ پیچھے ہٹ گئے اور ایک بار پھر نفاق کھل کرسامنے آ گیا تاکہ ارادوںمیں ضعف آجائے اور اسلام کو چھوڑ دیا جائے۔

بعض تو اس لئے لشکر اسلام میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ وہ دنیا کو بہت دوست رکھتے تھے، بعض شدید گرمی کو بہانہ بنا کر پیچھے ہٹ گئے کچھ اپنے ضعف اور رسول(ص) کے کم وسائل کی وجہ سے آپ(ص) کے ساتھ نہیں گئے، حالانکہ راہ خدا میں جہاد کے لئے سچے مومنین نے اپنا مال بھی خرچ کیا تھا۔

رسول (ص) کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ منافقین ایک یہودی کے گھر میں جمع ہوتے ہیں اور لوگوں کو جنگ میں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۹۸، مغازی ج۳ ص ۹۵۷۔

۲۔ جنگ تبوک ماہ رجب ۹ھ میں ہوئی ۔

۱۹۸

شریک ہونے سے روکتے ہیں، انہیں ڈراتے ہیں، رسول(ص) نے دور اندیشی اورسختی کے ساتھ اس معاملہ کو بھی حل کیا۔ ان کے پاس ایسے شخص کو بھیجا جس نے انہیں اسی گھر میں جلا دیا تاکہ دوسروں کے لئے عبرت ہو جائے۔

خدا نے کچھ آیتیں نازل کی ہیں جو منافقین کی گھناونی سازشوںکو آشکار کرتی ہیں اور جنگ سے جی چرانے والوں کو جھنجھوڑتی ہیں اور کمزور لوگوں کو معذور قرار دیتی ہیں مسلمانوں کی فوج میں کم سے کم تیس ہزار سپاہی تھے-روانگی سے قبل رسول(ص) نے مدینہ میں حضرت علی بن ابی طالب کو اپنا خلیفہ مقرر کیا کیونکہ آپ(ص) جانتے تھے کہ علی تجربہ کار بہترین تدبیر کرنے والے اور پختہ یقین کے حامل ہیں۔ رسول(ص) کو یہ خوف تھا کہ منافقین مدینہ میں تخریب کاریاں کریں گے اس لئے فرمایا: ''یا علی ان المدینة لا تصلح الا بی او بک''۔( ۱ ) اے علی ! مدینہ کی اصلاح میرے یا تمہارے بغیر نہیں ہو سکتی۔

نبی (ص) کی نظر میں علی کی منزلت

جب منافقین او ردل کے کھوٹے لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ علی بن ابی طالب مدینہ میں ہی رہیں گے تو انہوں نے بہت سی افواہیں پھیلائیں کہنے لگے رسول (ص) انہیں اپنے لئے درد سر سمجھتے ہیں اس لئے یہاں چھوڑ گئے ہیں، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ مدینہ خالی ہو جائے تاکہ پھر وہ حسب منشا جوچاہیںسو کریں ان کی یہ باتیں سن کر حضرت علی نے رسول(ص) سے ملحق ہونے کے لئے جلدی کی چنانچہ مدینہ کے قریب ہی آنحضرت (ص) کی خدمت میں پہنچ گئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول(ص) منافقین کا یہ گمان ہے کہ آپ(ص) مجھے اپنے لئے وبال جان سمجھتے ہیں اسی لئے مجھے آپ (ص) نے مدینہ میں چھوڑا ہے ۔

فرمایا:''کذبوا ولکننی خلفتک لما ترکت ورائ فاخلفنی فی اهلی و اهلک افلا ترضیٰ یا علی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الّا انّه لا نبی بعدی'' ( ۲ )

____________________

۱۔ ارشاد مفید ج۱ ص ۱۱۵، انساب الاشراف ج۱ ص ۹۴ و ۹۵، کنز العمال ج۱۱ باب فضائل علی۔

۲۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۴۹، صحیح بخاری ج۳ ص ۱۳۵، حدیث۳۵۰۳، صحیح مسلم ج۵ ص ۲۳، حدیث ۲۴۰۴، سنن ابن ماجہ ج۱ ص ۴۲، حدیث ۱۱۵، مسند احمد ج۱ ص ۲۸۴، حدیث ۱۵۰۸۔

۱۹۹

وہ جھوٹے ہیں ،میں نے تمہیںاپنا جانشین بنایا ہے تاکہ تم اپنے اور میرے اہل خانہ میں میرے جانشین رہو، اے علی ! کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم میرے لئے ویسے ہی ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے بس میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

مسلمانوں کی فوج دشوار و طویل راستہ طے کرتی چلی جا رہی تھی اس جنگ میں رسول(ص) نے گذشتہ جنگوں کے بر خلاف مقصد و ہدف کی وضاحت فرمادی تھی ، جو لوگ مدینہ سے آپ(ص) کے ساتھ چلے تھے ان کی ایک جماعت نے راستہ کے بارے میں آپ(ص) سے اختلاف کیا تو آپ(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:''دعوه فان یکن به خیر سیلحقه اللّه بکم و ان یکن غیر ذالک فقد اراحکم اللّٰه منه''

انہیں جانے دو اگر ان کا ارادہ نیک ہے تو خدا انہیں تم سے ملحق کر دے گا اور اگر کوئی دوسرا ارادہ ہے توخدا نے تمہیں ان سے نجات دیدی۔

رسول(ص) تیزی سے منزل مقصود کی طرف بڑھ رہے تھے جب آپ(ص) حضرت صالح کی قوم کے ٹیلوں کے پاس سے گذرے تو اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:''لا تدخلوا بیوت الذین ظلموا اِلّا و انتم باکون خوفاً ان یصیبکم ما اصابهم' ' ظلم کرنے والوں کے گھروں میں داخل نہ ہونا مگر روتے ہوئے اور اس خوف کے ساتھ(داخل ہونا)کہ جو افتاد ان پر پڑی تھی وہ تم پرنہ پڑے'' اور انہیں اس علاقہ کا پانی استعمال کرنے سے منع کیا اور انہیں سخت موسم سے آگاہ کیا نیزاس جنگ میں کھانے پانی اور دیگر اشیاء کی قلت سے متنبہ کیا، اسی لئے اس لشکر کو ''جیش العسرة'' کہتے ہیں۔

مسلمانوں کو روم کی فوج نہیں ملی کیونکہ وہ پراگندہ ہو چکی تھی۔ اس موقعہ پر رسول(ص) نے اصحاب سے یہ مشورہ کیا کہ دشمن کا تعاقب کیا جائے یا مدینہ واپس چلا جائے اصحاب نے عرض کی: اگر آپ کو چلنے کا حکم دیاگیا ہے تو چلئے رسول(ص) نے فرمایا:''لو امرت به ما استشرتکم فیه'' اگر مجھے حکم دیا گیا ہوتا تو میں تم سے مشورہ نہ کرتا( ۱ ) پھر آپ(ص) نے مدینہ لوٹنے کا فیصلہ کیا۔

____________________

۱۔المغازی ج۳ ص۱۰۱۹ ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

شريك گناہ ہيں '' اس پر مالك نے كہا كہ تم اپنى بات كر رہے ہو تم وہ لوگ ہو جنہوں نے اپنے برگزيدہ لوگوں كو قتل كرا ديا اور جو پست فطرت تھے وہ زندہ ہيں ايسى حالت ميں تم خود كو كس طرح حق پر سمجھ سكتے ہو؟ كيا اس وقت جب تم شاميوں كو قتل كر ہے تھے يا اس وقت جب كہ تم كشت و كشتار سے دستبردار ہوگئے ہو؟ دوسرى صورت ميں تمہيں يہ بات تسليم كر لينى چاہيئے كہ تمہارے وہ عزيز جو قتل ہوئے تم سے بہتر و افضل تھے اگرچہ تم ان كى فضيلت سے انكار نہيں كر سكتے مگر اب وہ اپنى آگ ميں خود جل رہے ہيں ''

وہ لوگ جو مالك كى منطق و دليل كا جواب نہ دے سكے انہوں نے كہا'' كہ اب آپ ہم سے حجت و بحث نہ كيجئے كيونكہ ہم نے راہ خدا ميں ہى جنگ كى تھى اور راہ خدا ميں ہى اس جنگ سے دستكش ہو رہے ہيں آپ كى اطاعت ہرگز نہيں كريں گے بہتر ہے كہ آپ اپنى راہ ليں ...''

مالك نے چاہا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اس جنگ كو جو شاميوں سے ہو رہى تھى سركشوں پر مسلط كرديں _

ليكن انہوں نے چلانا شروع كرديا كہ اميرالمومنينعليه‌السلام نے حكميت كو تسليم كر ليا ہے قرآن كے حكم پر وہ راضى ہيں اس كے علاوہ ان كے لئے كوئي چارہ نہيں اس پر اشتر نے كہا كہ اگر اميرالمومنينعليه‌السلام نے حكميت كو قبول كر ليا ہے تو ميں بھى اس پر راضى اور خوش ہوں ''

حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ ديكھا كہ سركش لوگ آپعليه‌السلام ہى كى موجودگى ميں دروغ گوئي سے كام لے رہے ہيں تو آپعليه‌السلام نے كوئي بات كہے بغير نظريں زمين پر جھكا ليں(۲۲) ليكن جب سب لوگ خاموش ہوگئے تو آپعليه‌السلام اپنى جگہ سے اٹھے اور فرمايا كہ : تم جب تك مجھ سے متفق و ہم خيال تھے جنگ كر تے رہے يہاں تك كہ جنگ نے تمہيں زبوں و ناتواں كرديا خدا كى قسم جنگ كے زبونى و ناتوانى نے تمہيں پكڑ ليا ہے اور تمہيں تمھارے حال پر چھوڑ ديا ہے تمہيں يہ جان لينا چاہيئے كہ كل تك ميں اميرالمومنينعليه‌السلام تھا مگر آج ميں حكم بجالانے كے لئے مامور ہوں كل تك مجھے اختيار تھا اور تمہيں حكم دے سكتا تھا مگر آج ميں اس حكم سے محروم ہوں آج ميرے حكم كو ٹھكرايا جا رہا ہے اس

۲۴۱

لئے ميں تمہيں تمہارى مرضى كے خلاف مجبور نہيں كر سكتا''(۲۳)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام ان سے خطاب كرنے كے بعد تشريف فرما ہوئے قبائل كے سرداروں نے اپنے خيالات كا اظہار كيا ان ميں سے بعض جنگ كى حامى و طرفدار تھے اور بعض صلح كے متمنى و خواہشمند(۲۴)

نفاق و حماقت كے خلاف جدوجہد

اگرچہ سپاہ شام كى طرف سے يہ آوازيں بلند ہو رہى تھيں كہ '' ہم نے قرآن كے سامنے اپنے سر خم كرديئے ہيں اور تم بھى قرآن كى حكومت كو تسليم كر لو'' مگر عمل ميں وہ لوگ در حقيقت قرآن كے حكم سے روگرداں تھے كيا اب تك اميرالمومنين علىعليه‌السلام نے قرآن كے احكام كو تسليم نہيں كيا تھا اور كيا آپعليه‌السلام كا عمل قرآن كے حكم كى بنياد پر نہ تھا يا جيسے ہى سپاہ شام كے سرداروں نے قرآن كو نيزوں پر چڑھايا اور ظاہر دارى سے كام ليا تو قرآن كا حكم بھى بدل گيا اور يہيں سے علىعليه‌السلام كا راستہ قرآن سے عليحدہ ہوگيا؟شاميوں نے در حقيقت اپنے اس عمل سے حق و عدالت كو نفاق كے پيروں تلے روند ڈالا_

انہى لوگوں ميں كچھ تعداد ايسے لوگوں كى بھى تھى جنہوں نے اپنے ہادى و پيشوا كو نہ پہچانا انہوں نے اپنى حماقت و نادانى سے اپنى خواہشات ہى نہيں بلكہ دشمن كى خواہشات كو اميرالمومنينعليه‌السلام پر مسلط كر كے ظلم و نفاق كى بنيادوں كو مضبوط كرديا جب كچھ كوتاہ فكر اور كج انديش لوگ ان سے آكر مل گئے تو نفاق كى گرم بازارى پہلے سے كہيں زيادہ بڑھ گئي_ ان حالات ميں نفاق سے ٹكر لينا گويا اس وقت ايسا اقدام كرنا حماقت و نادانى سے پنجہ نرم كرنا تھا_

اميرالمومنينعليه‌السلام ايسى حساس صورتحال كے روبرو تھے جس ميں ايك طرف منافق و مفاد پرست لوگ قرآن كو نيزوں پر بلند كئے ہوئے تھے اور دوسرى طرف وہ لوگ تھے جو بظاہر محاذ حق پر جنگ و جدال كر رہے تھے مگر اس كے ساتھ ہى اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام پر تلوار كھينچے كھڑے تھے

۲۴۲

كہ حكم قرآن كو تسليم كيجئے_ اور وہ اس بات سے قطعى بے خبر تھے كہ اس بارے ميں قرآن كا صريح ارشاد ہے كہ '' ان طائفتان من المومنين اقتتلوا فاصلحوا بينہما فان بغت احداہما على الاخرى فقاتلوا التى تبغى حتى تفى الى امر اللہ''(۲۵) اور اگر اہل ايمان ميں سے دو گروہ آپس ميں لڑ جائيں تو ان كے درميان صلح كر او پھر اگر ان ميں سے ايك گروہ دوسرے گروہ پر زيادتى كرے تو زيادتى كرنے والے سے لڑويہاں تك كہ وہ اللہ كے حكم كيطرف پلٹ آئے_

باغى و سركش جانتے تھے كہ مسلمانوں كے قانونى و شرعى زمامدار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام ہيں اور معاويہ آپعليه‌السلام سے باغى و برگشتہ_ اسے چاہيئے كہ سركشى سے دستبردار ہوجائے_ حق كے سامنے گردن خم كردے _ اور اگر ايسا نہيں تو حكم قرآن كے مطابق جنگ و جدال كريں _

سركشوں نے حيلہ و نيرنگ پر كاربند رہ كر قرآن كو تو نيزوں پر چڑھاديا مگر ان سے يہ نہيں كيا گيا كہ ہم اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كو تسليم كرنے كے لئے آمادہ ہيں _ بلكہ وہ تو يہ چاہتے تھے كہ انھيں كوئي ايسا موقعہ مل جائے جس كے ذريعے وہ اپنى يورش و سركشى كو جارى ركھ سكيں مگر سپاہ عراق ميں سے كچھ ظاہر بين اور كج انديش افراد انجانے ميں ان كے ہاتھوں كا كھلونا بن كر رہ گئے جس كا يہ نتيجہ ہوا كہ رنج و افسوس كے علاوہ انہيں كچھ نہ ملا_

حكميت و ثالثى كى دعوت

معاويہ نے سپاہ عراق كے درميان اختلاف پيدا كرنے اور مسئلہ حكميت كى پيش كش كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں خط لكھا كہ ہمارا اختلاف كافى طويل ہوگيا ہے اور دونوں طرف سے بہت زيادہ خون بہايا جاچكا ہے اور ڈر ہے كہ كہيں حالت پہلے سے زيادہ بد تر نہ ہوجائے اور اس كى ذمہ دارى ہم دونوں پر ہوگى كيا آپ اس بات سے متفق ہے كہ لوگوں كى كشت و كشتار كو روكا جائے اور دينى اخوت و محبت برقرار ہوجائے_

۲۴۳

اس كى راہ يہى ہے كہ آپ اور ميرے ہوا خواہوں سے دو معتبر حكم (ثالث) انتخاب كئے جائيں اور وہ كلام اللہ كى اساس و بنياد پر فيصلہ كريں _ كيونكہ ہمارے ليئے يہى بہتر ہے كہ خوف خدا كو دل ميں ركھيں اور اگر اہل قرآن ہيں تو اس حكم كا پاس كريں _ (۲۶)

معاويہ ايسا نافہم تو نہيں تھا كہ اسے يہ معلوم نہ ہوتا كہ حضرت علىعليه‌السلام اس ظاہر سازى كا فريب نہ كھائيں گے اس نے اتنا يقينا سوچ ہى ركھا تھا كہ اس خط كا مضمون سپاہ عراق كے بعض كج انديش او رمنافق افراد كے كانوں تك ضرور پہونچے گا اور وہ اس سے متاثر بھى ہوں گے_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے مدلل بيان سے صريح الفاظ ميں واضح و قطعى جواب ديتے ہوئے اسے لكھا كہ معاويہ تم مجھے حكميت قرآن كى دعوت دے رہے ہو جبكہ تم اس سے كہيں دور ہو اور تم اس كتاب مقدس كو اپنا حكم بنانا نہيں چاہتے ہو ہم نے دعوت قرآن كو حكميت كى بنياد پر قبول كيا ہے نہ كہ تمہارى تجويز پر(۲۷)

معاويہ كى جانب روانگي

اشعث جو دستہ مخالفين اور صلح پسندوں كا سردار بنا ہوا تھا معاويہ كے خط كى تشہير كرنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا اور كہنے لگا كہ ميں ديكھ رہا ہوں كہ لوگ شاميوں كى دعوت حكميت سے خوش و خرم ہيں اگر آپ اجازت ديں تو ميں معاويہ كے پاس جاؤں اور اس سے پوچھوں كہ كيا چاہتے ہو_(۲۸)

كيا اشعث واقعى يہ نہيں جانتا تھا كہ معاويہ كيا چاہتا ہے آخر وہ كون سا مقصد تھا جس كى خاطر وہ معاويہ كے پاس جانے كى كوشش كر رہا تھا اسے ان تمام باتوں كا علم تھا اور وہ يہ بھى جانتا تھا كہ اب فيصلہ كرنے كا اختيار كس كے ہاتھ ميں ہے وہ حضرت علىعليه‌السلام كے ان الفاظ كو نہيں بھولاتھا جو آپعليه‌السلام نے چند لمحہ قبل فرمائے تھے كہ '' ميں كبھى امير تھا مگر اب تابع و مامور ہوں ليكن اس كے باوجود اس نے حضرت علىعليه‌السلام سے اجازت مانگى تا كہ وفد كے اراكين كے درميان اس كى حيثيت مامور كى

۲۴۴

رہے_

حضرت علىعليه‌السلام نے اسے بہت بے اعتنائي سے جواب ديا كہ اگر چاھو تو معاويہ كے پاس جاسكتے ہو(۲۹) اشعث تو اس موقع كى تلاش ميں تھا ہى اورخود كو اس نے وفد كا رہبر فرض كر ليا تھا وہ ظاہراً حضرت علىعليه‌السلام كے نمائندے كى حيثيت سے معاويہ كے پاس گيا اور اس كے سامنے چند سوال پيش كئے معاويہ نے اس كے وہى جواب ديے جو وہ خط ميں حضرت علىعليه‌السلام كو لكھ چكا تھا_

اس پر اشعث نے كہا يہ سب مبنى بر حق ہے اس كے بعد وہ حضرت علىعليه‌السلام كے پاس واپس آگيا_

جب يہ خبر پھيل گئي كہ اشعث كو وفد كا سربراہ بنايا گيا ہے تو لوگوں نے بآواز بلند كہنا شروع كيا كہ : ہم اس حكم پر راضى ہيں اور ہميں يہ منظور ہے_

اس كے بعد شام و عراق كے لشكروں كے قارى يكجا جمع ہوئے اور انہوں نے اس بات پر اتفاق كيا كہ حكم قرآن كو بحال كيا جائے_(۳۰)

حكمين (ثالثوں ) كا انتخاب

يہ تو پہلے سے معلوم تھا كہ معاويہ كا حكم عمروعاص ہوگا اور شام كے لوگوں كو بھى اس كے انتخاب كئے جانے پر اتفاق ہوگا چنانچہ معاويہ نے بغير كسى مشورے كے حكم مقرر كرديا اور اپنى سپاہ كو اپنے اس انتخاب كے ذريعہ مطمئن كرديا_

عراق كے لوگ اپنے ہادى اور پيشوا كى حكم عدولى كے باعث اگر چہ تباہى اور ہلاكت كے دہانے تك پہنچ چكے تھے مگر اس كے باوجود انہوں نے حكم كے انتخاب كے حق سے بھى اميرالمومنينعليه‌السلام كو محروم كرديا اشعث نے ان قاريان قرآن كے ہمراہ (جو بعد ميں خوارج شمار كئے گئے) بلند كہنا شروع كيا كہ '' ہم ابو موسى اشعرى كو انتخاب كرتے ہيں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : مجھے اس پر اتفاق نہيں كيونكہ ميں انہيں اس كام كا اہل نہيں سمجھتا اشعث ، زيد بن حصين اور مسعر بن فدكى

۲۴۵

نے قاريان قرآن كے ساتھ يك زبان ہوكر كہا كہ ہمارا انہيں پر اتفاق ہے كيونكہ وہيں ہيں جنہوں نے ہميں ا س جنگ كى مصيبت سے محفوظ ركھا اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ مجھے يہ انتخاب منظور نہيں كيونكہ انہوں نے ميرا ساتھ چھوڑ ديا تھا اور وہ لوگوں كو ميرى مدد كرنے سے منع كر رہے تھے اس كے بعد وہ فرار كر گئے چنانچہ كئي ماہ گذر جانے كے بعد ميں نے انھيں امان و پناہ دي'' ميں اس كام كے لئے عباس كو اہل و شايستہ سمجھتا ہوں _

ليكن وہ لوگ حسب سابق اپنى ضد پر قائم رہے اور كہنے لگے كہ ہمارے لئے آپ كے ہونے يا عباس كے ہونے ميں ذرا فرق نہيں ليكن ہم يہ چاھتے ہيں كہ حكم ايسے شخص كو بنايا جائے جو آپ كى اور معاويہ كى طرف سے بے لاگ ہو اور اس كى نظر ميں دونوں افراد يكساں و برابر ہوں _

حضر ت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں پھر مالك اشتر كو مقرر كرتا ہوں اس پر اشعث نے بلند آواز سے كہا كيا اشتر كے علاوہ كوئي اور شخص تھا جس نے سارى زمين ميں آگ لگائي؟ اگر ہم ان كا نام منظور كر ليتے ہيں تو ہميں ان كا پابند رہنا ہوگا حضرت علىعليه‌السلام نے دريافت فرمايا كہ ان كا حكم كيا ہے سب نے ايك آواز ہو كر كہا يہ كہ شمشير ہاتھ ميں ليكر تمہارا اور اپنا مدعا حاصل كرنے كى خاطر جان تك كى بازى لگاديں _

حضرت علىعليه‌السلام كو انكى ضد اور خود سرى پر طيش آگيا اور فرمايا كہ ابو موسى كے علاوہ كسى اور كو اپنا حكم تسليم نہيں كروگے؟ انہوں نے كہا نہيں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا جو چاھو وہ كرو(۳۱)

۲۴۶

سوالات

۱_ معاويہ نے جنگ سے فرار كرنے اور اپنى حالت و حيثيت كى حفاظت كے لئے كيا اقدامات كئے؟

۲_ معاويہ اور عمروعاص نے شكست سے نجات پانے كے خاطر كيا سازش كي؟

۳_ جب قرآن مجيد كو نيزوں پر بلند كيا گيا تو سپاہ عراق كا كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

۴_ سپاہ عراق ميں كون لوگ جنگ جارى ركھنے كے حق ميں تھے اور كون اس مقصد كے لئے پيش پيش تھے؟

۵_ وہ لوگ كون تھے جنہوں نے فتح و نصرت كے آخرى لمحات ميں حضرت علىعليه‌السلام كو جنگ بندى پر مجبور كيا؟

۶_ حكميت كا مسئلہ پہلى مرتبہ كس كى طرف سے پيش كيا گيا حضر ت علىعليه‌السلام اور سركش سپاہ كا حكم مقرر كرنے كے سلسلے ميں كيا نظريہ تھا؟

۲۴۷

حوالہ جات

۱_ وقعہ صفين ۴۰۹_۴۰۸

۲_ وقعہ صفين ۴۱۳_ ۴۰۹

۳_ وقعہ صفين ۴۷۷_ ۴۷۶

۴_ وقعہ صفين ۴۷۶و لم يبق منهم الا آخر نفس انا غار عليهم بالغداة احاكمهم الى الله عزوجل

۵_ وقعہ صفين ۴۸۱_۴۸۰

۶_اعيذكم باالله ان ترضعوا الغنم ساير اليوم يہ اس بات پر كنايہ ہے كہ اگر تمہيں فتح نصيب نہ ہو تو تمہارى حالت عورتوں جيسى ہوجائے گى جو چوپاؤں كا دودھ دوہا كرتى ہيں _

۷_ وقعہ صفين ۴۷۶_۴۷۵ ، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۱_۳۱۵

۸_ وقعہ صفين ص ۴۷۹، مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۰

۹_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۰ ہلم مخباتك يابن عاص فقد ہلكنا

۱۰_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۰ ايك قول كے مطابق ليلة الہرير ميں ہى معاويہ كے جاسوسوں نے اشعث كى بات اس تك پہنچادى تھى چنانچہ اس كے بعد ہى معاويہ نے اس بات كا فيصلہ كيا تھا كہ قرآن كو نيزوں پر چڑھا ديا جائے وقعہ صفين ۴۸۱

۱۱_نجيب الى كتابه الله عزوجل نتنيب اليه ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۸ ، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۱۶ ، مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۰

۱۲_تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۸، مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۱ كامل ج ۳ ص ۳۱۶

۱۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۶ ص ۱۳۴

۱۴_ وقعہ صفين ۴۸۳_۴۸۲

۱۵_ وقعہ صفين ۴۸۳_۴۸۲

۱۶و۱۷_ وقعہ صفين ۴۸۳_۴۸۲

۲۴۸

۱۸_ وقعہ صفين ۴۸۲

۱۹_فان تطعيونى فقاتلوا و ان تعصونى فاصنعوا ما بدالكم

۲۰_ ملاحظہ ہو، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۱۷_ ۳۱۶ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۹ ، وقعہ صفين ۴۹۰_۴۸۹

۲۱_ وقعہ صفين ۴۹۱ _ ۴۹۰ كامل ج۳ ص ۳۱۷ تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۹

۲۲_ وقعہ صفين ۴۹۱_۹۰ ، كامل ج ۳ ص ۳۱۷، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۵۰

۲۳_ وقعہ صفين ۴۸۴

۲۴_ وقعہ صفين ۴۸۵_۴۸۴

۲۵_ سورہ حجرات آيت ۸

۲۶_ وقعہ صفين ۴۹۳

۲۷_ وقعہ صفين ۴۹۳، نہج البلاغہ مكتوب ۴۸

۲۸_ وقعہ صفين ۴۹۹_۴۹۸

۲۹_ وقعہ صفين ۴۹۹

۳۰_ وقعہ صفين ص ۴۹۹

۳۱_ وقعہ صفين ۵۰۰_۴۹۹ ، كامل ابن اثير ۳۱۹_۳۱۸

۲۴۹

تيرھواں سبق

قاسطين (جنگ صفين)۵

خوارج كى نامزدگي

حكميت كا معاہدہ

جنگ صفين كے عبرت آموز درس

جنگ كے نتائج

سركشوں كى تشكيل و گروہ بندي

حضرت علىعليه‌السلام خوارج كے درميان

منافقين كى تحريك

سوالات

حوالہ جات

۲۵۰

خوارج كى نامزدگي

ان سركشوں اور باغيوں كى حماقتيں اور كوتاہيوں جو بعد ميں (خوارج) كے نام سے مشہور ہوئے ايك دو نہ تھيں _ ان سے جو لغزشيں اور خطائيں سرزد ہوئيں ان ميں سے ايك يہ بھى تھى كہ انہوں نے حاكم كا انتخاب صحيح نہيں كيا_ اگرچہ ان كا دعوى تو يہ تھا كہ انہوں نے غير جانبدار شخص كو منتخب كرنے كى كوشش كى ہے_ مگر جس شخص كو انہوں نے اس كام كے لئے نامزد كيا اس كى عداوت و دشمنى حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ دوسروں كى نسبت كہيں زيادہ تھي_ ليكن اس كے بر عكس معاويہ كو حق انتخاب اس شخص كيلئے ديا گيا كہ جو اس سے كہيں زيادہ مال و جاہ كا حريص اور اس كا فرمانبردار تھا_

ابو موسى وہ شخص تھا جس نے اس وقت جبكہ كوفہ كى فرمانروائي اس كے ہاتھ ميں تھى اپنے پيشوا كے حكم سے سرتابى كى تھى اور جنگ جمل كے موقع پر لوگوں كو حضرت علىعليه‌السلام كى مدد سے منع كيا تھا_

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام نے انہيں ايك خط ميں لكھا تھا كہ تمہارى طرف سے جو بات مجھ تك پہنچى ہے اس ميں تمہارا نفع بھى ہے اور نقصان بھي_ جيسے ہى ميرا پيغام رساں تمہارے پاس پہنچے تم اپنى كمر كس لينا _ اور اس پر مضبوطى سے پٹكا باندھ لينا_ اور اپنى كمين گاہ سے نكل كر باہر آجانا _ جو افراد تمہارے ساتھ ہيں انہيں بھى باخبر كردينا_ اگر ميرے اس حكم پر عمل كرنا مقصود ہو تو قدم آگے بڑھانا_ اگر خوف غالب ہو اور سستى تمہارے وجود سے عياں ہوتى ہو تو كہيں اور نكل جانا_ خدا كى قسم تمہارى گيلى اور سوكھى ہر لكڑى كو جلا كر خاك كردوں گا_ اور اتنا موقع نہيں دوں گا كہ بيٹھ كر دم لے سكو تمہيں پيٹھ پيچھے جس چيز كا خوف اور ڈر ہے اسے بھى تم اپنے سامنے پاؤں گے_(۱)

ليكن اس سركش كارندے نے نہ صرف كمر ہى نہ كسى اور حضرت علىعليه‌السلام كى دعوت كا مثبت جواب

۲۵۱

نہ ديا بلكہ حضرت علىعليه‌السلام كا وہ وفد جو حضرت امام حسنعليه‌السلام كى سركردگى ميں گيا تھا اس كى بھى مخالفت كى _ اور جو لوگ اپنا فرض ادا كرنے كى غرض سے ابوموسى كے پاس آئے تھے تا كہ اپنا فريضہ معلوم كريں تو يہ ان سے كہتا تھا كہ اگر آخرت كى فكر ہے تو اپنے گھروں ميں جاكر بيٹھو_ عثمان كى بيعت ابھى ہمارى گردنوں پر ہے_ اگر جنگ كرنا ہى مقصود ہے تو پہلے عثمان كے قاتلوں سے جنگ كرو_(۲)

اسى وجہ سے جنگ جمل ميں حضرت علىعليه‌السلام كے اقدام كو ايك قسم كا فتنہ بتايا تھا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے يہ حديث نقل كى تھى كہ جس وقت فتنہ بپا ہو تو بيٹھے رہنے سے بہتر ہے كہ ليٹ جاؤ_ اگر كھڑے ہو تو بہتر ہے كہ بيٹھ جاؤ اور اگر چل رہے ہو تو اس سے اچھا ہے كہ اپنى جگہ كھڑے رہو_ يہ كہہ كر وہ لوگوں كو اس بات كى جانب ترغيب دلا رہا تھا كہ اپنى تلواروں كو ميان ميں ركھدو اور نيزوں كو توڑ ڈالو تا كہ اس فتنے كے شر ان كا دامن كو نہ پكڑ لے_(۳)

آيا ايسا شخص جو اس طرز فكر كا حامل ہو اور جس كا حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف اس طرح كا يہ موقف رہا ہو ، كيا وہ اس لائق ہو سكتا تھا كہ اسے حضرت علىعليه‌السلام كے نمائندے كى حيثيت سے منتخب كيا جائے؟

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام ہميشہ اس فكر ميں رہتے تھے كہ وہ لوگ جو توہمات ميں غرق ہيں ان پر صحيح افكار كو روشن اور حقيقت كو واضح كرديا جائے_ اسى لئے آپعليه‌السلام نے يہ فيصلہ كيا كہ چونكہ ابوموسى كا تعلق خوارج كے گروہ سے ہے حكميت كے واسطے ان كے منتخب كئے جانے كے مسئلے كو مزيد و سيع پيمانے پر پيش كريں _ اور سب كے سامنے وہ دلائل پيش كرديں جن كى بنا پر وہ حكميت كيلئے ان كا نام منظور كرنا نہيں چاہتے ہيں _ چنانچہ انہوں نے اپنے تمام ساتھيوں كو جمع كيا اور فرمايا كہ : يہ جان لو كہ شاميوں نے اس شخص كا انتخاب كيا ہے جو قضيے ميں ان سب سے زيادہ نزديك ہے _ ليكن تم نے اس شخص كو منتخب كيا ہے جو اس قضيے ميں تمہارى نفرت كا سب سے زيادہ حقدار ہے_ كيا تم بھول گئے ہو كہ يہ ابوموسى ہى تھا جو يہ كہا كرتا تھا كہ جنگ جمل محض ايك فتنہ ہے_ اس مقصد كيلئے تم اپنى كمانوں كے چلے نہ چڑھاؤ اور اپنى تلواروں كو ميان ميں ركھ لو _ اگر اس كى اس بات ميں حقيقت تھى تو وہ كيوں بحالت مجبورى جنگ صفين ميں شريك ہوا _ اگر يہ صورتحال نہيں

۲۵۲

ہے تو اس پردروغگوئي كا الزام عائد كيا جانا چاہئے عمروعاص كے اندرونى ارادے كو عبداللہ بن عباس كے ذريعے خاك ميں ملا دو _ اس موقعے كو ہاتھ سے جانے نہ دو _ اسلام كے اطراف ميں جو سرحديں ہيں ان كى حفاظت كرو _ كيا تم ديكھتے نہيں ہو كہ تمہارے شہروں پر حملہ كئے جا رہے ہيں ور تمہيں تيروں كا نشانہ بنايا جا رہا ہے_ (۴)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام چاہتے تھے كہ عباس كو حكم مقرر كر كے جنگ بندى كے ان تلخ و ناگوار اثرات كو كم كرديں جنہوں نے ان لوگوں كے دل و دماغ پر غفلت كا پردہ ڈال ديا تھا_ كيونكہ عمروعاص كى نيرنگيوں اور ديگر كمزوريوں سے دوسروں كے مقابل وہ زيادہ واقف و باخبر تھے_ اس كے علاوہ مذاكرہ ميں بھى وہ ان سے زيادہ محكم و قوى تھے_(۵)

ليكن ايسا معلوم ہوتا تھا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بات كسى كى كان تك نہيں پہنچى اور كسى كے دل و دماغ پر اس كا اثر نہ ہوا _ اشعث تو حضرت علىعليه‌السلام كى بات سن كرہى بر افروختہ ہوگيا بالخصوص اس وقت جب كہ اس نے يہ ديكھا كہ جس شخص كو مذاكرے كيلئے منتخب كيا جا رہا ہے وہ قريش ميں سے ہے _ اور اشعث يہ سمجھتا تھا كہ ان كا حكم مقرر كيا جانا قبيلہ يمن كى مذمت كئے جانے كى واضح و روشن دليل ہے_ اور اسى بنا پر وہ كہہ رہا تھا كہ عبداللہ بن عباس ميں حكم ہونے صلاحيت نہيں ہے_ چنانچہ انہوں نے ناراض ہوكر با آواز بلند كہا كہ : خدا كى قسم قيامت تك قبيلہ مُضر كے افراد بيك وقت حكم نہيں بنائے جاسكتے_(۶) معاويہ نے چونكہ حكم كيلئے قبيلہ مُضر كے شخص كا انتخاب كيا ہے اس لئے آپعليه‌السلام ايسے شخص كا انتخاب كريں جو قبيلہ يمن كے لوگوں ميں سے ہو_ اس پر آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ : مجھے ڈر ہے كہ كہيں تمہارا يمنى دھو كہ نہ كھا جائے_ اشعث نے كہا اگر وہ دھو كہ كھا گيا اور وہ بات جو ہمارے لئے پسنديدہ نہيں اس نے اسى كو فيصلے ميں تسليم كر ليا تو اس سے بہتر ہے كہ دونوں ہى افراد قبيلہ مضر سے ہوں تا كہ ہمارى مرضى كے مطابق حكم كے فرائض انجام دے سكيں _

اس طرح اشعث نے اپنے باطنى نفاق كو ظاہر و آشكار كرديا_ وہ اقتدار حاصل كرنے كى غرض سے چاہتا تھا كہ حكم كسى ايسے شخص كو بنايا جائے جو انہى كے قبيلے كا ہو_ ليكن اس نظريے كے پس

۲۵۳

پشت ان يمنيوں كا قبائلى تعصب كارفرما تھا جو سپاہ عراق و شام ميں بكثرت شامل تھے_ ايسى صورت ميں اگر دو حكم ميں سے ايك اسى قبيلے كا ہو تو وہ كيوں نہ خلافت پر نظر ركھيں _ ابوموسى كے موقف سے اشعث بخوبى واقف تھا اور يہ جانتا تھا كہ وہ معاويہ كى طرفدارى نہيں كرے گا_ جس كى وجہ يہ تھى كہ ابوموسى اسے بھى فتنہ سمجھتا تھا_ اس كے برعكس دوسرى طرف ان كے ماضى كو مد نظر ميں ركھتے ہوئے كہا جا سكتا تھا كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كا بھى جانبدار نہ ہوگا_ چنانچہ اسى وجہ سے اسے بہترين طاقت سمجھا گيا تھا_

اشعث كتنا اقتدار پسند اور جاہ طلب تھا اس كى شاہد ذيل كى داستان ہے_

طايفہ '' بنى وليعہ'' ان طائفوں ميں سے تھا جوپيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد مرتد ہو گئے تھے_ جس وقت زياد ابن لبيد انصارى نے ان سے جنگ كى اور انہيں اپنى تلوار كى دھار كا مزہ چكھايا تو وہ اشعث كى حمايت حاصل كرنے كى غرض سے طائفہ كندہ كے سردار كے پاس گئے اس نے اس موقع كو سلطنت حاصل كرنے كا بہانہ سمجھا اور ان سے كہا كہ اگر تم مجھے اپنا بادشاہ تسليم كر لو تو ميں تمہارى مدد كرنے كيلئے تيار ہوں _ انہوں اس كى اس شرط كو مان ليا _ چنانچہ وہ بھى دائرہ اسلام سے خارج ہوگيا _ اور '' قطحان'' خاندان كے بادشاہوں كى طرح رسم تاج پوشى ادا كى گئي_(۷)

اس كے بعد ان كى قيادت كرتے ہوئے وہ مسلمين كے ساتھ بر سر پيكار ہوا _ ليكن زياد كے لشكر نے جيسے ہى دباؤ ڈالا اور اس قلعے كا جس ميں اس نے پناہ لى تھى محاصرہ كيا تو انہوں نے فيصلہ كيا كہ اپنى زندگى كو خيانت كے ذريعے خريد ليں اور اپنے ساتھيوں سے دور ہو كر اس نے اپنے نيز اپنے دس قرابت داروں كے لئے پناہ مانگى _ اس كے بعد اس نے قلعے كا دروازہ كھول ديا اور باقى لشكر كو موت كے منھ ميں دھكيل ديا_(۸)

ان خيانت كاريوں كى وجہ سے اسے مسلمانوں اور كفار كے درميان ہميشہ لعن طعن اور نفرت كى نظر سے ديكھا جاتا تھا _ بالخصوص كندہ طائفے كى عورتيں اس بزدلى اور خيانت كارى كى وجہ سے جو اس سے سرزد ہوئي تھى اور جس كے باعث اس طائفے كے ايك گروہ كو سخت نقصان پہنچا تھا ، سخت

۲۵۴

لعنت و ملامت كيا كرتى تھيں _ اور عام طور پر '' عرف النار '' (آگ لگانے والا جاسوس) كہا كرتى تھيں _ اور اس اصطلاح كا اطلاق اس شخص پر كيا جاتا تھا جس كى سرشت ميں مكر ، فريب اور دغہ باز ى شامل ہو_(۹)

ابوموسى بھى جس كا نام اشعث نے حكميت كيلئے پيش كيا تھا_ كسى طرح بھى اشعث سے كم نہ تھا _ جس وقت جنگ جارى تھى اس نے جانبين كى طرف سے كنارہ كشى اختيار كر كے اور شام ميں اس مقام پر جو '' عرض'' كے نام سے مشہور تھا گوشہ نشينى اختيار كر لى تھى _ ليكن جيسے ہى اس كے غلام نے يہ اطلاع دى كہ لوگ جنگ سے دست كش ہوگئے ہيں اور تمہارا نام حكم كى حيثيت سے ليا جا رہا ہے تو صفين كى جانب روانہ ہوا اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر تك پہنچ گيا_

مالك اشتر اور احنف ابن قيس جيسے امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے_ اور ابوموسى كے اوصاف و افكار بيان كرنے كے بعد عرض كيا كہ انہيں حكم منتخب نہ كيا جائے_ اس ضمن ميں انہوں نے يہ بھى كہا كہ اس كا اعلان كرنے كيلئے وہ خودتيار ہيں _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ان كا نظريہ لوگوں كے سامنے بيان كيا_ ليكن اس پر خوارج نے كہا كہ ہم ابوموسى كے علاوہ كسى دوسرے شخص كو منتخب نہ كريں گے_(۱۰)

اس سلسلے ميں انہوں نے مزيد كہا كہ : ابوموسى وہ شخص ہيں جن پر شام و عراق كے لوگوں كو اعتماد ہے_ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس يمن كے لوگوں كا نمائندہ بن كر آچكے ہيں اورمال غنيمت كے سلسلہ ميں حضرت ابوبكر كے امين اور حضرت عمر كے كارگزار رہ چكے ہيں _(۱۲)

آخر كار ابوموسى اشعرى سپاہ عراق كى جانب سے حكميت كيلئے مقرر كرديا گيا_

حكميت كا معاہدہ

جب حكمين مقرر كرلئے گئے تو معاہدہ صلح اس طرح لكھا گيا (ہذا ما تقاضى عليہ على بن ابى طالب اميرالمومنين عليہ السلام و معاويہ بن ابى سفيان ...) ليكن اس پر

۲۵۵

معاويہ نے اعتراض كيا اور كہا كہ : اگر ميں نے انہيں اميرالمومنين تسليم كرليا ہوتا تو ان سے جنگ نہ كرتا_ عمروعاص نے بھى يہى كہا كہ : ہرچند على عليه‌السلام تمہارے امير ہيں ليكن وہ ہمارے نہيں _ اس لئے صرف ان كا اور ان كے والد كا نام لكھا جائے_(۱۳)

ليكن احنف بن قيس نے كہا كہ : اس لقب كو حذف نہ كيا جائے اس كے لئے خواہ كتنا ہى خون ہوجائے كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ اگر يہ لقب ايك دفعہ حدف كرديا گيا تو پھر واپس نہ ديا جائے گا_(۱۴)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كافى دير تك اس فكر ميں محور ہے كہ يہاں تك كہ اشعث آگيا_ اس كى آنكھوں ميں فاتحانہ چمك تھى اور لہجہ خيانت سے سرشار و شرابور_ اس نے فخريہ انداز ميں كہا كہ: اس نام كو حذف كرديجئے_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو ماضى كا وہ واقعہ ياد آگيا جب كہ '' صلح حديبيہ '' كا معاہدہ لكھا جارہا تھا '' (ہذا ما تصالح عليہ محمد رسول اللہ و سہيل )ابن عمرو سہيل كو يہ ضد تھى كہ لقب '' رسول اللہ '' حذف كيا جائے اور رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انتہائي صبر سے اس كى اس ضد كو برداشت كر رہے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كيلئے لقب رسول اللہ حذف كرنا گواراہ نہ تھا ليكن رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ اسے حذف كرديا جائے اور فرمايا كہ اس لقب كے حذف كئے جانے سے مجھے رسالت سے تو محروم نہيں كرديا جائے گا_ اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب رخ كر كے فرمايا كہ : ايك دن تمہارے سامنے بھى يہى مسئلہ آئے گا_ اگر چہ تمہيں بہت زيادہ كوفت ہوگى مگر تمہيں بھى يہى كرنا ہوگا _(۱۵)

اب وہ زمان موعود آن پہنچا تھا_ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام نے پورى رضا و رغبت اور مكمل اطمينان كے ساتھ اس كلام كو ملحوظ ركھتے ہوئے جو رسول گرامىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زبان مبارك سے ادا ہوا تھا فرمايا كہ : '' لا الہ اللہ و اللہ اكبر'' تاريخ خود كو دھرا رہى ہے(۱۶) _

۲۵۶

آج ميں ان كى آل و اولاد كيلئے اس طرح لكھ رہا ہوں جيسا رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان كے آباواجداو كيلئے تحرير فرماچكے ہيں _(۱۷)

معاہدے كا متن لقب '' اميرالمومنين'' حذف كر كے طرفين كى اتفاق رائے سے جس طرح تحريرى شكل ميں آيا اس كا اجمالا ذكر ہم ذيل ميں اس كے اہم نكات كے ساتھ كريں گے_

۱_ طرفين قرآن و سنت پيغمبريصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مطابق حكم خداوندى كو قبول كريں گے_ حكم قرآن او سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جو خلاف ہے اسے وہ دور كرنے كى كوشش كريں گے_

۲_ حكمين ابوموسى اشعرى اور عمروعاص ہيں _ جب تك حق سے تجاوز نہ كريں ان كے جان و مال اور ناموس كو حفظ و امان ميں ركھا جائے گا_

۳_ حكمين اور تمام مسلمين پر فرض ہے كہ وہ حكم كو قرآن و سنت كے مطابق قبول كريں _ اور اس پر عمل پيراہوں _

۴_ جب تك حكمين كا حكم جنگ بندى برقرار ہے اس وقت تك طرفين ميں سے كسى كو بھى دوسرے پر تجاوز كرنے كا حق نہيں _

۵_ منصفين كو اختيار ہے كہ وہ شام و عراق كے درميان كوئي متوسط نقطہ متعين كرسكتے ہيں _ ان افراد كے علاوہ جن كے بارے ميں اتفاق رائے ہوگا كسى بھى شخص كو مجلس منصفين ميں داخل ہونے كى اجازت نہيں دى جائے گى _ منصفى كى مدت ماہ رمضان كے آخر تك معين ہے_

۶_ اگر منصفين نے مقررہ مدت تك قرآن و سنت كے مطابق حكم صادر نہيں كيا تو طرفين كو حق حاصل ہوگا كہ اپنى پہلى حالت پر واپس آجائيں اور ايك دوسرے سے جنگ كريں _

مذكورہ معاہدے پر حضرت علىعليه‌السلام كے طرفداروں ميں سے عبداللہ بن عباس، مالك اشتر، حضرت امام حسن (ع)، حضرت امام حسين (ع)، سعيد بن قيس نيز اشعث نے اور معاويہ كى طرف سے حبيب بن مسلمہ ، ابوالاعور بُسروغيرہ نے دستخط كئے_(۱۸)

اور اس طرح ايك سودس روزہ جنگ ستر مرتبہ سے زيادہ مقابلوں كے بعد تاريخ ۱۷ صفر

۲۵۷

سنہ ۳۷ ہجرى كو اختتام پذير ہوئي_ (۱۹)

مورخين نے اس جنگ كے جانى نقصانات كے مختلف اعداد درج كيئے ہيں _ بعض نے مقتولين كى تعداد ايك لاكھ دس ہزار بتائي ہے_ جن ميں سے نوے ہزار شام كے سپاہى اور بيس ہزار عراقى فوج كے لوگ شامل تھے اور پچيس ہزار عراق كے لوگ_(۲۰)

جنگ صفين كے عبرت آموز سبق

جنگ صفين كا نتيجہ اسلام كى فتح و نصرت كے ساتھ يہ ہونا چاہيئے تھا كہ فتنہ و فساد و نيز درخت نفاق كى بيخ كنى ہو اور اس كے ساتھ ہى فرمانروائے شام كى بيدادگرى كا قلع قمع ہوجائے_ ليكن عراقى فوج كے بعض كمانڈروں كى خود سرى اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے حكم سے روگردانى كے باعث جو نتائج برآمد ہوئے وہ انتہائي تلخ و ناگوار ہونے كے ساتھ ، عبرت آموز بھى ثابت ہوئے اس سے قبل كہ جنگ صفين كے نتائج كا اجمالى جائزہ ليا جائے ہم يہاں اس كے بعض درس آموز نكات كى جانب اشارہ كريں گے:

۱_ جنگ صفين نے ثابت كرديا كہ معاويہ كے بارے ميں اميرالمومنينعليه‌السلام نے جو بھى پيشين گوئي كى اور ابتدائے امر سے ہى جتنے بھى موقف اختيار كئے وہ تمام حق پر مبنى تھے اور اس بات كے آئينہ دار تھے كہ حضرت علىعليه‌السلام كو ايسے عناصر كى كتنى گہرى شناخت تھى _

معاويہ كى سياسى سرگرمى كے باعث ناسازگار ماحول پيدا ہوگيا تھا اور وہ افراد جنہوں نے اپنے كرو فر كى خاطر انھيں ان كے مرتبے پر برقرار ركھا تھا اگر اس ہنگامہ آرائي ميں سرگرم عمل نہ ہوتے تو وہ تمام ہلاكتيں تباہياں نہ ہوتيں جو اس جنگ كى وجہ سے رونما ہوئيں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اس كى معزولى كا فرمان جارى كر كے اور جنگ و نبرد آزمائي كے ذريعے اس كى سركشى و بالا دستى كا جس طرح قلع و قمع كيا اس سے آپعليه‌السلام نے يہ ثابت كرديا كہ اس جيسے كسى بھى غير پسنديدہ عنصر كو ہرگز برداشت نہيں كيا جاسكتا تھا_

۲۵۸

۲_ جنگ كے دوران لشكر شام پر يہ بات ثابت ہوگئي كہ لشكر اسلام كو قوت ايمانى اور دليرانہ حوصلہ مندى كے باعث اس پر نماياں فضيلت و برترى حاصل ہے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ معاويہ نے اپنى شكست و نابودى سے نجات پانے كے لئے فريب كارى و نيرنگى كا سہارا ليا_

بلاشك و ترديد كہا جاسكتا ہے كہ اس فضيلت و برترى كا بنيادى عامل خود حضرت علىعليه‌السلام نيز ان كے فرزندوں اور اصحاب كا جذبہ ايثار و قربانى تھا_

۳_ اسلامى افواج جب تك حضرت علىعليه‌السلام كے زير فرمان رہيں انھيں نماياں كاميابى حاصل ہوئي ليكن جيسے ہى افواج كے سرداروں نے خود سرى اختيار كر كے آپ كے احكام سے روگردانى كى تو نہ صرف مسلمانوں بلكہ دين اسلام كو سخت ناگوار نتائج و حادثات سے دوچار ہونا پڑا_

۴_ جنگ صفين نے يہ سبق سكھايا كہ اگر پيروان حق اپنے موقف پر ثابت قدم رہيں تو حق ہى غالب رہتا ہے_ اور اس كا ہى بول بالا ہوتا ہے_ اس كے برعكس اگر وہ اپنے جزئي جانى مالى نقصان كى وجہ سے اپنے موقف سے پھر جائيں اور سازش و ريشہ دوانى كا رويہ اختيار كرليں تو ظاہر ہے كہ باطل كو ہى ان پر برترى و بالا دستى حاصل ہوگئي _

جنگ كے نتائج

صفين كى تباہ كن جنگ كے باعث دونوں ہى لشكروں كا سخت مالى و جانى نقصان ہوا اس كے ساتھ ہى اس جنگ كے جو سودمند و ضرر رساں نتائج برآمد ہوئے ان كى كيفيت مندرجہ ذيل ہے_

۱_ جب لشكر عراق ميدان جنگ سے واپس آيا تو اس كى فوج ميں سخت باہمى اختلاف پيدا ہوگيا_ چنانچہ ان ميں سے بعض كو تو ميدان كارزار ترك كرنے كا اتنا سخت افسوس وملال ہوا تھا كہ ان كے دلوں ميں ان لوگوں كے خلاف دشمنى و عداوت پيدا ہوگئي جو ميدان جنگ ترك كرانے كے اصلى محرك تھے_چنانچہ يہ دشمنى و عداوت اس حد تك پہنچى كہ بھائي بھائي سے اور بيٹا باپ سے

۲۵۹

نفرت كرنے لگا _ اور كہيں كہيں تو نوبت يہاں تك آئي كہ انہوں نے ا يك دوسرے كو خوب زد كوب كيا_ (۲۱)

۲_ اگر چہ معاويہ كا نقصان بہت زيادہ ہوا ليكن اس كے باوجود وہ عمرو عاص كى نيرنگى كے باعث اپنى سياسى حيثيت برقرار ركھنے ميں كامياب ہوگيا _ جنگ سے قبل وہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كا معزول و باغى كارگزار تھا ليكن اس معاہدے كى رو سے جو اس جنگ كے بعد كيا گيا اس كا مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام كے ہم پايہ و ہم پلہ تھا_ اور اسے سركارى سطح پر رہبر شام تسليم كرليا گيا تھا_

۳_ اگر چہ لشكر عراق ميں ايسے سپاہيوں كى تعداد كم ہى تھى جنہوں نے اس جنگ سے درس عبرت ليا اور راہ حق پر كاربند رہے ليكن اس ميں ايسے ظاہربين فوجيوں كى تعداد بہت زيادہ تھى جو منافق اور اقتدار پرست افراد كے دام فريب ميں آگئے اور انہوں نے اپنى نيز دين اسلام كى تقدير كو حيلہ گر ، نيرنگ ساز،كج انديش حكمين كے حوالے كرديا اور اپنے لئے مصائب و آلام كو دعوت دے دى _

۴_ اس جنگ كا دوسرااہم نتيجہ فتنہ و آشوب كا بيج بويا جانا تھا اور يہ در حقيقت عراقى فوج كے بعض نادان افراد كى خود سرى و ضد كا ثمرہ تھا_

چنانچہ اشعث اس معاہدے كو لے كردونوں لشكروں كے سپاہيوں كى جانب روانہ ہوا اور اس كى شرائط پڑھ كر انھيں سنائيں _ شاميوں نے سن كر خوشى كا اظہار كيا اور انہيں قبول بھى كرليا ليكن فوج عراق ميں سے بعض نے تو اس پر رضايت ظاہر كي، بعض نے مجبور انھيں پسند كيا مگر چند ايسے بھى تھے جنہوں نے سخت مخالفت كى اور معترض ہوئے_

مخالفت كى پہلى صدا طايفہ '' عَنزہ ''كى جانب سے بلند ہوئي جو چار ہزار سے زيادہ افراد پر مشتمل تھا_ اور ان ميں دو افراد نے بلند كہا لا حكم الا اللہ يعنى خدا كے علاوہ كسى كو حاكميت كا حق نہيں _ اس كے بعد وہ معاويہ كے لشكر پر حملہ آور ہوگئے مگر شہيد ہوئے_(۲۲)

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348