تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175274 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

خدمت میں عرض کیا تھا کہ فاطمہ (ع) اللہ کی اطاعت میں میری بہترین مددگار اور یاور ہے _(۱)

بچوں کی تعلیم و تربیت

جناب زہرا ء کی ذمہ داریوں میں سے سب سے زیادہ سخت ذمہ داری اولاد کی تربیت تھی_ آپ کے پانچ بچے ہوئے، جناب امام حسن(ع) اور امام حسین (ع) اور جناب زینب خاتوں اور جناب ام کلثوم اور پانچوں فرزند کا نام محسن تھا جو ساقط کردیا گیا، آپ کے دو لڑکے اور دو لڑکیاں زندہ ہیں آپ کی اولاد عام لوگوں کی اولاد کی طرح نہ تھی بلکہ یوں ہی مقدر ہوچکا تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) کی نسل مبارک جناب فاطمہ (ع) سے چلے_

جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے باقی پیغمبروں کی ذریت ان کے صلب سے ہے لیکن میری نسل علی (ع) کے صلب سے مقرر ہوئی ہے میں فاطمہ (ع) کی اولاد کا باپ ہوں_(۲)

خدا نے مقرر فرمایا ہے کہ دین کے پیشوا اور رسول خدا(ص) کے خلفاء جناب زہرا(ع) کی پاک نسل سے ہوں لہذا جناب زہرا(ع) کی سب سے زیادہ سخت ذمہ داری اولاد کی تربیت تھی_

تربیت اولاد ایک مختصر جملہ ہے لیکن یہ لفظ بہت مہم اور وسیع المعنی ہے شاید کسی کے ذہن میں آئے کہ اولاد کی تربیت صرف اور صرف باپ کا ان کے لئے لوازم زندگی

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۱۱۷_

۲) مناقب ابن شہر آشوب، ج ۳ص ۲۸۷_

۸۱

فراہم کرنا ہی نہیں اور ماں ان کے لئے خشک و ترسے غذا مہیا کردے اور لباس دھو دے اور بس اس کے علاوہ اور کوئی بھی ذمہ داری اولاد کی ان پر عائد نہیں ہوتی لیکن معلوم ہونا چاہیئےہ اسلام اسی حد تک اولاد کی تربیت میں اکتفا نہیں کرتا بلکہ ماں باپ کو ان کے بہت بڑے وظیفہ کا مسئول قرار دیتا ہے_

اسلام بچے کی بعد میں بننے والی شخصیت کو ماں باپ کی پرورش او رتربیت اور ان کی نگہداری کے مرہون منت سمجھتا ہے ماں باپ کے تمام حرکات او رسکنات اور افعال و کردار بچے کی لطیف اور حساس روح پر اثرانداز ہوتے ہیں، ہر بچہ ماں باپ کے رفتار اور سلوک کی کیفیت کا نمائندہ ہوتا ہے_ ماں باپ کا وظیفہ ہے کہ بہت زیادہ احتیاط سے بچے کے مستقبل کے مراقب او رمواظب ہوں تا کہ بے گناہ بچہ کہ جس کی نہاد اچھائی خلق ہوئی ہے فاسد اور بدبخت نہ ہوجائے_

جناب زہرا(ع) نے خود دامن وحی میں تربیت پائی تھی او راسلامی تربیت سے نا آشنا او رغافل نہ تھیں_ یہ جانتی تھیں کہ کس طرح ماں کا دودھ اور اس کے معصوم بچے کے لبوں پر بوسے لے کر اس کے تمام حرکات اور سکنات اعمال اور گفتار اس کی حساس روح پر اثرانداز ہوا کرتے ہیں_ جانتی تھیں کہ مجھے امام کی تربیت کرتا ہے اور معاشرہ اسلامی کو ایک ایسا نمونہ دینا ہے جو روح اسلام کا آئینہ دار اور حقیقت کا معرف ہوگا، معارف اور حقائق ان کے وجود میں جلوہ گر ہوں اور یہ کام کوئی آسانی کا م نہ تھا_

جناب فاطمہ (ع) جانتی تھیں کہ مجھے اس حسین (ع) کی تربیت کرنا ہے کہ جو اسلام کی ضرورت کے وقت اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان دین اسلام کے دفاع اور ظلم سے مبارزہ کر کے فداکر سکے اور اپنے عزیزوں کے پاک خون سے اسلام کے درخت کو سیراب کردے_ جانتی تھیں کہ انھیں ایسی لڑکیاں زینب او رام کلثوم تربیت

۸۲

کرنی ہیں جو اپنے پر جوش خطبوں اور تقریروں سے بنی امیہ کی ظلم و ستم کی حکومت کو رسوا اور مفتضح کردیں اور ان کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنادے_ فاطمہ (ع) زہرا گھریلو یونیورسٹی میں زینب کو فداکاری اور شجاعت اور یزید کے ظلم سے مرعوب نہ ہونے کا دس دے رہی تھیں تا کہ اپنی شعلہ بیانی سے دوست اور دشمن کو رلائے اور اپنے بھائی کی مظلومیت اور بنو امیہ کی بیدادگی اور ظلم سے مرعوب نہ ہونے کا درس دے رہی تھیں، جانتی تھیں کہ ایک متحمل مزاج فرزند امام حسن جیسا تربیت کرنا ہے تا کہ اسلام کے حساس موقع پر اپنے جگر کا خون پیتا رہے اور اسلام کے منافع اور اساسی انقلاب کے لئے زمین ہموار کرنے کے لئے ساکت رہے اور شام کے حاکم سے صلح کر کے عالم کو بتلا دے کہ اسلام جب تک ممکن ہو صلح کو جنگ پر ترجیح دیتا ہے اور اس طرح کر کے حاکم شام کی عوام فریبی اور دغل بازی کو ظاہر کردے، غیر معمولی نمونے جو اس اعجازآمیز مکتب سے نکلے ہیں وہ حضرت زہرا (ع) کی غیر معمولی طاقت اور عظمت روحی کے ظاہر کر نے کے لئے کافی ہیں_

جی ہاں حضرت زہرا (ع) کوتاہ فکر عورتوں سے نہ تھیں کہ جو گھر کے ماحول اور محیط کو معمولی شمار کرتے ہوئے بلند پرواز کرتی ہیں_ حضرت زہرا(ع) کے گھر کے ماحول کو بہت بڑا اور حساس خیال کرتی تھیں اسے انسان سازی کا ایک بہت بڑا کارخانہ اور فوجی تمرین اور فداکاری کی ایک اہم یونیورسٹی شمار کرتی تھیں اور جانتی تھیں کہ اس درسگاہ کے تربیت شدہ کو جو درس دیا جائے گا وہ نہیں معاشرہ کے بہت بڑے میدان میں ظاہر کرنا ہوگا، جو یہاں ٹریننگ لیں گے اس پر انہیں مستقبل میں عمل کرنا ہوگا، جناب زہرا (ع) عورت ہونے میں احساس کمتری میں مبتلا نہ تھیں اور عورت کے مقام اور مرتبے کو اہم اور اعلی جانتی تھیں اور اس قسم کی بھاری

۸۳

استعداد اپنے میں دیکھ رہی تھیں کہ کارخانہ خلقت نے ان پر اس قسم کی بھاری اور مہم ذمہ داری ڈال دی ہے اور اس قسم کی اہم مسئولیت اس کے سپرد کردی ہے_

تربیت کی اعلی درسگاہ

حضرت زہرا(ع) کے گھر میں بچوں کی ایک اسلامی تربیت اور اعلی درسگاہ کی بنیاد رکھی گئی یہ درسگاہ اسلام کی دوسری شخصیت اور اسلام کی خاتون اول کی مدد سے یعنی علی (ع) اور فاطمہ زہرا (ع) کی مدد سے چلائی جارہی تھی اور اسلام کی پہلی شخصیت یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیرنگرانی چل رہی تھی_اس میں تربیت کے قواعد اور پروگرام بلاواسطہ پرودگار جہان کی طرف سے نازل ہوتے تھے، تربیت کے بہترین پروگرام اس میںجاری کئے جاتے تھے اور بہترین افراد کو تربیت دی گئی تھی میں یہاں اس مطلب کے اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ اس عالی پروگرام کے جزئیات ہمارے لئے بیان نہیں کئے گئے، کیوں کہ اول تو اس زمانے کے مسلمان اتنی فکری رشد نہیں رکھتے تھے کہ وہ تربیتی امور کی اہمیت کے قائل ہوں اور اس کی قدر کریں اور پیغمبر اور علی (ع) اور فاطمہ علیہم السلام کی گفتار اور رفتار کو جو وہ بجالائے تھے محفوظ کر لیتے اور دوسروں کے لئے روایت کرتے دوسرے بچوں کی تربیت کا اکثر لائحہ عمل گھر کے اندر جاری کیا جاتا تھا کہ جو دوسروں سے اندرونی اوضاع غالباً پوشیدہ رہتے تھے_

لیکن اس کے باوجود اجمالی طور سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی تربیت کا لائحہ عمل وہی تھا جو قرآن کریم اور احادیث پیغمبر(ص) اور احادیث آئمہ اطہار میں وارد ہوا ہے اور پھر جو تھوڑی بہت جزئیات نقل کی گئی ہیں اس سے ایک حد تک ان کی تربیت

۸۴

کی طرف راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے_

یہ بھی واضح رہے کہ میں نہیں چاہتا ہوں کہ مفصول طور پر اصول تربیت پر بحث کروں کیوں کہ یہاں اس بحث کے لئے گنجائشے نہیں ہے_ لیکن ان میں سے کچھ اصول تربیت کو جو حضرت زہرا(ع) کی اولاد کی تربیت میں استعمال کئے گئے ہیں اور ہمارے لئے نقل ہوئے ہیں اختصار کے طور پر یہاں بیان کرتا ہوں_

پہلا درس

محبت

شاید اکثر لوگ یہ خیال کریں کے بچے کی تربیت کا آغاز اس وقت سے ہونا چاہیئے جب اچھائی اور برائی کو بچہ درک کرنے لگے اور اس سے پہلے بچے کی تربیت کرنا موثر نہ ہوگی، کیوں کہ اس سے پہلے بچہ خارجی عوامل سے متاثر نہیں ہوتا لیکن یہ خیال درست نہیں ہے کیوں کہ فن تربیت کے دانشمندوں کی تصدیق کے مطابق بچے کی پرورش اور تربیت کا آغاز اس کی پیدائشے سے ہی شروع کردینا چاہیئے، دودھ پلانے کی کیفیت اور ماں باپ کے واقعات اور رفتار نو مولود کی پرورش میں ایک حد تک موثر واقع ہوتے ہیں اور اس کی مستقبل کی شخصیت اسی وقت سے شروع جاتی ہے_

فن تربیت اور نفسیات کے ماہرین کے نزدیک یہ مطلب یا یہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ بچے بچپن کے زمانے سے ہی محبت اور شفقت کے محتاج ہوتے ہیں_ بچہ چاہتا ہے کہ اس کے ماں باپ اسے حد سے زیادہ دوست رکھیں

۸۵

اور اس کے ساتھ شفقت کا اظہار کریں بچے کو اس کی زیادہ فکر نہیں ہوتی کہ وہ قصر میں زندگی گزار رہا ہے یا خیمے میں اس کا لباس بہت اعلی اور نفیس ہے یا نہیں، لیکن اسے اس موضوع سے زیادہ توجہ ہوتی ہے کہ اس سے محبت کی جاتی ہے یا نہیں، بچے کے اس اندورنی احساس کو سوائے محبت کے اظہار اور شفقت کے اور کوئی چیز ختم نہیں کرسکتی، بچے کی مستقبل کی شخصیت اور اخلاق کا سرچشمہ اس سے محبت کا اظہار ہے یہی ماں کی گرم گود اور باپ کی مخلصانہ نوازش بچے میں بشر دوستی کی حس اور ہم جنس سے علاقہ مندی پیدا کرتی ہے_ یہی بچے سے بے ریاء نوازش بچے کو تنہائی کے خوف اور ضعف سے نجات دیتی ہے اور اسے زندگی کا امیدوار بناتی ہے، یہی خالص پیار و محبت بچے کی روح میں اچھی اخلاق اور حسن ظن کی آمیرش کرتی ہے اور اسے اجتماعی زندگی اور ایک دوسرے سے تعاون و ہمکاری کی طرف ہدایت کرتی ہے اور گوشہ نشینی اور گمنامی سے نجات دیتی ہے انہیں نوازشات کے واسطے سے بچے میں اپنی شخصیت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اپنے آپ کو دوستی کے لائق سمجھتا ہے_

جس بچے میں محبت کی کمی کا احساس ہو وہ عام طور سے ڈرپوک، شرمیلا ضعیف، بدگمان، گوشہ نشین، بے علاقہ، پمردہ اور مریض ہوا کرتا ہے، اور کبھی ممکن ہے کہ اس کے رد عمل کے اظہار کے لئے اور اپنی بے نیازی کو بتلانے کے لئے مجرمانہ افعال کے بجالانے میں ہاتھ ڈال دے جیسے جنایت، چوری، قتل و غیرہ تا کہ اس وسیلہ سے اس معاشرہ سے انتقام لے سکے جو اسے دوست نہیں رکھتا اور اس سے بے نیازی کا مظاہرہ کرسکے_

پس بچے سے محبت اور شفقت اس کی ضروریات میں شمار ہوتی ہیں اور اس

۸۶

کی پرورش میں محبت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے_

اس چیز کا درس حضرت زہرا(ع) کے گھر میں کامل طور سے دیا جاتا تھا اور پیغمبر اکرم(ص) یہ جناب فاطمہ (ع) کو یاد دلاتے تھے_

روایت میں آیا ہے کہ جب امام حسن (ع) متولد ہوئے تو آپ کو زرد کپڑے میں لپیٹ کر پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ نو مولود کو زرد کپڑے میں نہ لپیٹا کرو؟ اس کے بعد امام حسن (ع) کے زرد کپڑے کو اتار پھینکا اور انہیں سفید کپڑے میں لپیٹا اور بغل میں لیا او رانہیں بوسہ دینا شروع کیا، یہی کام آپ نے امام حسین علیہ السلام کی پیدائشے وقت بھی انجام دیا_(۱)

روایت میں آیا ہے کہ ایک دن جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز جماعت میں مشغول تھے آپ جب سجدے میں جاتے تو امام حسین (ع) آپ کی پشت مبارک پر سوار ہوجاتے اور پاؤں کو حرکت دینے اور جب سجد سے سر اٹھاتے تو امام حسین علیہ السلام کو پشت سے ہٹاکر زمین پر بٹھا دیتے اور جب آپ دوبارہ سجدے میں جاتے تو امام حسین علیہ و آلہ و سلم انہیں ہٹا دیتے، پیغمبر اکرم(ص) نے اسی کیفیت سے نماز پوری کی، ایک یہودی جو یہ کیفیت دیکھ رہا تھا اس نے عرض کی کہ بچوں کے ساتھ آپ کا جو برتاؤ ہے اس کو ہم پسند نہیں کرتے_ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ اگر تم بھی خدا اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہوتے تو تم بھی بچوں کے ساتھ ایسی ہی نرمی سے پیش آتے وہ یہودی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۲۴۰_

۸۷

کے اس رویہ کی وجہ سے مسلمان ہوگیا_(۱)

ایک دن پیغمبر(ص) جناب امام حسن (ع) کو بوسہ اور پیار کر رہے تھے کہ اقرع بن حابس نے عرض کی کہ میرے دس فرزند ہیں لیکن میں نے ابھی تک کسی کو بھی بوسہ نہیں دیا_ پیغمبر (ص) غضبناک ہوئے اور فرمایا کہ اگر خدا نے تیرے دل سے محبت کو لے لیا ہے تو میں کیا میں کیا کروں؟ جو شخص بھی بچوں پر ترحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے _(۲)

ایک دن جناب رسول خدا(ص) کا جناب فاطمہ (ع) کے گھر سے گزر ہوا آپ نے امام حسین علیہ السلام کے رونے کی آواز سنی آپ نے جناب فاطمہ (ع) کو آواز دی اور فرمایا کیا تم کو معلوم نہیں کہ حسین (ع) کو رونا مجھے اذیت دیتا ہے_(۳)

ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو اپنے کندھے پر سوار کیا تھا راستے میں کبھی امام حسن علیہ السلام کا بوسہ لیتے تھے اور کبھی امام حسین علیہ السلام کا، ایک آدمی نے عرض کی_ یا رسول اللہ(ص) آپ ان دو بچوں کو دوست رکھتے ہیں آپ نے فرمایا_ ہاں، جو شخص حسن (ع) اور حسین (ع) کو دوست رکھے وہ میرا دوست ہے اور جو شخص ان سے دشمنی کرے وہ میرا دشمن ہے _(۴)

پیغمبر اسلام(ص) کبھی جناب فاطمہ (ع) سے فرماتے تھے، حسن اور حسین کو میرے پاس لاؤ

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۹۶_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۲_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ص ۲۹۵_

۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۱_

۸۸

اور جب آپ ان کو حضور کی خدمتم یں لے جاتیں تو رسول اکرم(ص) ان کو سینے سے لگاتے اورپھول کی طرح ان کو سونگھتے _(۱)

ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حسن(ع) اور حسین(ع) کے لبوں کو اس طرح چوستے دیکھا ہے جیسے خرما کو چوسا جاتا ہے_(۲)

دوسرا درس

شخصیت

نفسیات کے ماہر کہتے ہیں کہ بچے کی تربیت کرنے والے کو بچے کی شخصیت کی پرورش کرنی چاہیئے اور بچے کو خود اعتماد کا درس دینا چاہیئے_ یعنی اس میں اعتماد نفس اجاگر کیا جائے تا کہ اسے بڑی شخصیت اور بڑا آدمی بنایا جاسکے_

اگر بچے کی تربیت کرتے والا بچے کا احترام نہ کرے اور اسے حقیر شمار کرے اور اس کی شخصیت کو ٹھیس پہنچاتا رہے تو خودبخود وہ بچہ ڈرپوک اور احساس کمری کا شکار ہوجائے گا اور اپنے آپ کو بے قیمت اور حقیر جاننے لگے گا_ اور جب جوان ہوگا تو اپنے آپ کو اس لائق ہی نہیں سمجھے گا کہ کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکے_ اس قسم کا آدمی معاشرہ میں بے اثر ہوگا اور اپنے آپ کو بہت آسانی سے پست کاموں کے لئے حاضر کردے گا_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۹۹_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۴_

۸۹

بخلاف اگر اپنے آپ کو صاحب شخصیت اور با وقار سمجھتا ہو تو پھر وہ پست کاموں کے لئے تیار نہ ہوگا اورذلت وخواری کے زیر بار نہ ہوگا_ اس قسم کی نفسیاتی کیفیت ایک حد تک ماں باپ کی روحی کیفیت اور خاندانی تربیت سے وابستہ ہوا کرتی ہے_

نفسیات کے ماہر بچے کی تربیت کے لئے تربیت کرنے والوں سے سفارش کرتے ہیں کہ جن میں سے بعض یہ مطالب ہیں_

اول: بچے سے محبت اور نوازش کااظہار کرتا ہم اسے پہلے درس میں بیان کرچکے ہیں اور ہم نے ذکر کیا تھا کہ جناب امام حسن(ع) اور جناب امام حسین(ع) ماں باپ اور حضرات رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بہت زیادہ محبت سے بہرہ ور تھے_

دوم: بچے کی اچھی صفات کا ذکر کیا جائے اور اس کی اپنے دوستوں کے سامنے تعریف اورتوصیف کی جائے اور اسے نفس کی بزرگی کا درس دیا جائے_

جناب رسول خدا(ص) نے کئی دفعہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا کہ یہ جوانان جنت کے بہترین افراد سے ہیں اور ان کا باپ ان سے بھی بہتر ہے_(۱)

پیغمبر اکرم(ص) نے امام حسین اور امام حسین علیہما السلام سے فرمایا کہ تم خدا کے ریحان ہو_(۲)

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳_ ص ۲۶۴_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ج_ ص۲۸۱_

۹۰

جناب ابوبکر کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر تشریف فرماتھے اور جناب امام حسن (ع) آپ کے پہلوں میں بیٹھے ہوئے تھے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی جناب امام حسن علیہ السلام کی طرف اور فرماتے تھے کہ حسن (ع) سید وسردار ہے_ شاید اس کی برکت سے میری امت میں صلح واقع ہو_(۱)

جابر کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی پشت پر سوار ہیں اور آپ گھٹنوں اور ہاتھوں پر چل رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تمہاری سواری بہترین ہے اورتم بہترین سوار ہو_(۲)

یعلی عامری کہتے ہیں کہ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، آپ نے اپنے ہاتھ بڑھائے تا کہ آپ کو پکڑلیں جناب امام حسین علیہ السلام اس طرف اور اس طرف بھاگتے تھے_ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہنستے ہوئے امام حسین علیہ السلام کو بغل میں لے لیا اور اس وقت اپنا ایک ہاتھ امام حسین علیہ السلام کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا ہاتھ گردن کے پیچھے رکھا اور اپنے دہن مبارک کو امام حسین(ع) کے لبوں پر رکھ کر بوسہ دیا اور فرمایا کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں_ جو شخص اسے دوست رکھے خدا اسے دوست رکھتا ہے_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۲۰۵_

۲) بحار الانوار،ج ۴۳_ ص ۲۸۵_

۹۱

حسین (ع) میری بیٹی کا فرزند ہے_(۱)

حضرت علی بن ابی طالب امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) سے فرمایا کرتے تھے کہ تم، لوگوں کے پیشوا اور جوانان جنت کے سردار ہو اور معصوم ہو خدا اس پر لعنت کرے جو تم سے دشمنی کرے_(۲)

جناب فاطمہ (ع) ایک دن امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمت میں لائیںاور عرض کی یا رسول اللہ(ص) حسن (ع) اور حسین آپ کے فرزند ہیں ان کو کچھ عطا فرمایئےرسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنی سیادت و ہیبت حسن کو بخشی، اور اپنی شجاعت اور سخاوت حسین (ع) کو دی_

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میںنے امام حسین (ع) کو دیکھا کہ آپ پیغمبر(ص) کے زانو پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ ان کو بوسہ دے رہیں اور فرماتے ہیں کہ تم سردار اورسردار زادہ ہو امام اور امام کے فرزند اور ماموں کے باپ ہو تم حجت ہو اور حجت کے فرزند اور نوحجتوں کے باپ ہو کہ آخری حجت امام مہدی قائم ہوں گے_(۳)

جی ہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب زہرا(ع) کی اولاد کی تربیت میں کوشش کرتے تھے جناب زہراء اور حضرت علی بھی اسی لائحہ عمل پرآپ کی متابعت کرتے تھے کبھی بھی انہوں نے بچوں کو حقیر نہیں سمجھا اور ان کی شخصیت کو دوسروں کے

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۷۱_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۶۵_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۹۵_

۹۲

سامنے ہلکاپھلکا بنا کر پیش نہیں کیا، اور ان کے روح اور نفس پر اس قسم کی ضرب نہیں لگائی یہی وجہ تھی کہ آپ کے یہاں سید و سردار نے تربیت پائی_

روایت میںآیا ہے کہ ایک آدمی نے ایک گناہ کا ارتکاب کیا کہ جس کی اسے سزا ملنی تھی اس نے اپنے آپ کو جناب رسول خدا(ص) سے مخفی رکھا یہاں تک کہ ایک دن راستے میں امام حسن (ع) اورامام حسین (ع) سے اس کی ملاقات ہوگئی ان دونوں کو کندھے پر بیٹھایا اور جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور عرض کی یا رسول اللہ(ص) میں حسن (ع) اور حسین (ع) کو شفیع اورواسطہ قرار دیتا ہوں پیغمبر اکرم(ص) ہنس دیئے اورفرمایا میںنے تمہیں معاف کردیا اس کے بعد امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) سے فرمایا کہ میں نے تمہاری سفارش اور شفاعت قبول کرلی ہے _(۱)

یہی عظمت نفس اور بزرگی تھی کہ امام حسین علیہ السلام اپنی مختصر فوج سے یزید کے بے شمار لشکر کے سامنے ڈٹ گئے اور مردانہ وار جنگ کی لیکن ذلت اور خواری کو برداشت نہ کیا آپ فرماتے تھے میں غلاموں کی طرح بھاگوں گا نہیں اور ذلت اور خواری کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کروں گا _(۲)

اسی تربیت کی برکت تھی کہ زینب کبری ان تمام مصائب کے باوجود یزید کے ظلم و ستم کے سامنے حواس باختہ نہ ہوئیں اور اس سے مرعوب نہ ہوئیں اور پرجوش خطابت سے کوفہ اور شام کو منقلب کر گئیں اور یزید کی ظالم اور خونخوار حکوت کو ذلیل اور خوار کر کے رکھ دیا_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۳۱۸_

۲) مقتل ابن مختف، ص ۴۶_

۹۳

تیسرا درس

ایمان اورتقوی

نفسیات کے ماہرین کے درمیان یہ بحث ہے کہ بچوں کے لئے دینی تعلیمات اور تربیت کس وقت سے شروع کی جائے ایک گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ بچہ جب تک بالغ اوررشید نہ ہو وہ عقائد اورافکار دینی کو سمجھنے کی استعداد نہیں رکھتا اور بالغ ہوتے تک اسے دینی امور کی تربیت نہیں دینی چاہیئے_ لیکن ایک دوسرے گروہ کاعقیدہ یہ ہے کہ بچے بھی اس کی استعداد رکھتے ہیں اور انہیں دینی تربیت دی جانی چاہیئےربیت کرنے والے دینی مطالب اور مذہبی موضوعات کو سادہ اور آسان کر کے انہیں سمجھائیں اور تلقین کریں اور انہیں دینی امور اور اعمال کو جو آسان ہیں بجالانے پر تشویق دلائیں تا کہ ان کے کان ان دینی مطالب سے آشنا ہوں اور وہ دینی اعمال اورافکار پرنشو و نما پاسکیں_ اسلام اسی دوسرے نظریئے کی تائید کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ بچوں کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کی تاکید کریں _(۱)

پیغمبر اسلام(ص) نے دینی امور کی تلقین حضرت زہرا(ع) کے گھر بچپن اور رضایت کے زمانے سے جاری کردی تھی_ جب امام حسن علیہ السلام دنیا میں آئے اور انہیں رسول خدا(ص) کی خدمت میں لے گئے تو آپ نے انہیں بوسہ دیا اوردائیں کان میں

____________________

۱) شافی ج ۲ ص ۱۴۹_

۹۴

اذان اور بائیں کان میں اقامت اور امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے موقع پربھی یہی عمل انجام دیا(۱) _

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ایک دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھنا چاہتے تھے امام حسین علیہ السلام بھی آپ کے پہلو میں کھڑے ہوگئے جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی توجناب امام حسین علیہ السلام نہ کہہ سکے رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے سات مرتبہ تکبیرکی تکرار کی یہاں تک کہ امام حسین (ع) نے بھی تکبیر کہہ دی _(۲)

جناب رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دینی تلقین کو اس طرح موثر جانتے تھے کہ تولد کے آغاز سے ہی آپ نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے کانوں میں اذان اور اقامت کہی تا کہ اولاد کی تربیت کرنے والوں کے لئے درس ہوجائے یہی وجہ تھی کہ جناب فاطمہ (ع) جب امام حسن (ع) کو کھلایا کرتیں اورانہیں ہاتھوں پرا ٹھا کر اوپر اور نیچے کرتیں تو اس وقت یہ جملے پڑھتیں اے حسن(ع) تو باپ کی طرح ہوتا حق سے دفاع کرنا اور اللہ کی عبادتکرنا اوران افراد سے جو کینہ پرور اور دشمن ہوں دوستی نہ کرنا_(۳)

جناب فاطمہ زہرا، بچوں کے ساتھ کھیل میں بھی انہیں شجاعت اور دفاع حق اور عبادت الہی کا درس دیتی تھیں اور انہیں مختصر جملوں میں چار حساس مطالبہ بچے کویاد دلا رہی ہیں، یعنی باپ کی طرح بہادر بننا اوراللہ کی عبادت کرنا اور

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۴۱_

۲) بحار الانوار ، ج ۴۳ ص ۲۰۷_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۶_

۹۵

حق سے دفاع کرنااوران اشخاص سے دوستی نہ کرنا جو کینہ پرور اور دشمن ہوں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مالی تقوی اورناپاک غذا کے موارد میں اپنی اسخت مراقبت فرماتے تھے کہ ابوہریرہ نے نقل کیا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں کچھ خرما کی مقدار زکوة کے مال سے موجود تھی آپ نے اسے فقراء کے درمیان تقسیم کردیا جب آپ تقسیم سے فارغ ہوئے اور امام حسن (ع) کو کندھے پر بیٹھا کر چلنے لگے تو آپ نے دیکھا کہ خرما کا ایک دانہ امام حسن(ع) کے منھ میں ہے_ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ہاتھ امام حسن علیہ السلام کے منھ میں ڈال کر فرمایا طخ طخ بیٹا حسن (ع) کیا تمہیں علم نہیں کہ آل محمد(ص) صدقہ نہیں کھاتے _(۱)

حالانکہ امام حسن (ع) بچے اور نابالغ تھے کہ جس پرکوئی تکلیف نہیں ہوا کرتی چونکہ پیغمبر(ص) جانتے تھے کہ ناپاک غذا بچے کی روح پر اثر انداز ہوتی ہے لہذا اسے نکال دینے کا حکم فرمای قاعدتاً بچے کو بچپن سے معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ کھانے کے معاملہ میں مطلقاً آزاد نہیں ہے بلکہ وہ حرام اور، حلال کا پابند ہے اس کے علاوہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اس عمل سے حسن علیہ السلام کی شخصیت اور بزرگی منش ہونے کی تقویت کی اور فرمایا زکوة بیچاروں کا حق ہے اور تمہارے لئے سزاوار نہیں کہ ایسے مال سے استفادہ کرو، حضرت فاطمہ زہرا(ع) کی اولاد میں شرافت، طبع اور ذاتی لحاظ سے بڑا ہونا اس قدر نافذ تھا کہ جناب ام کلثوم نے ویسے ہی کوفہ میں عمل کر دکھایا جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے جد نے انجام دیا تھا_

مسلم نے کہا کہ جس دن امام حسین علیہ السلام کے اہلبیت قید ہوکر کوفہ میں

____________________

۱) ینابیع المودہ ص ۴۷_ بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۳۰۵_

۹۶

لائے گئے تھے تو لوگوں میںاہلبیت کے بچوں پرترحم اوررقت طاری ہوئی اور انہوں نے روٹیاں، خرمے، اخروٹ بطور صدقہ ان پر ڈالنی شروع کیں اور ان سے کہتے تھے کہ دعا کرنا ہمارے بچے تمہاری طرح نہ ہوں_

جناب زہرا(ع) کی باغیرت دختر اور آغوش وحی کی تربیت یافتہ جناب ام کلثوم روٹیاں اور خرمے اور اخروٹ بچوں کے ہاتھوں اور منھ سے لے کر دور پھینک دیتیں اور بلند آواز سے فرماتیں ہم اہلبیت پرصدقہ حرام ہے _(۱)

اگر چہ امام حسین (ع) کے بچے مکلف نہ تھے لیکن شرافت طبع اور بزرگواری کا اقتضا یہ تھا کہ اس قسم کی غذا سے حتی کہ اس موقع پربھی اس سے اجتناب کیا جائے تا کہ بزرگی نفس اور شرافت اور پاکدامنی سے تربیت دیئے جائیں_

چوتھا درس

نظم اوردوسروں کے حقوق کی مراعات

ایک اہم مطلب جو ماں باپاور دوسرے بچوں کی تربیت کرنے والوں کے لئے مورد توجہ ہونا چاہیئےہ یہ ہے کہ وہ بچے پرنگاہ رکھیں کہ وہ اپنے حق سے تجاوز نہ کرے اور دوسروں کے حق کا احترام کرے بچے کو منظم اور با ضبط ہونا چاہیئے زندگی میں نظم اور ضبط کا برقرار رکھنا اسے سمجھایا جائے اس کی اس طرح تربیت کی

____________________

۱) مقتل ابی مختف، ص ۹۰_

۹۷

جائے کہ اپنے حق کے لینے سے عاجز نہ ہو اوردوسروں کے حق کو پا مال نہ کرے، البتہ اس صفت کی بنیاد گھر اور ماں باپ کو رکھنی ہوگی، ماں باپ کو اپنی تمام اولاد کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا چاہیئے کسی ایک کو دوسرے پر مقدم نہ کریں، لڑکے اور لڑکی کے درمیان، چھوٹے اور بڑے کے درمیان، خوبصورت اور بدصورت کے درمیان، ذہین او رکم ذہن کے درمیان فرق نہ کریں یہاں تک کہ محبت کے ظاہر کرنے کے وقت بھی ایک جیسا سلوک کریں تا کہ ان میں حسد اور کینہ کی حس پیدا نہ ہو اور مراکش اور متجاوز نہ نکل آئیں_

اگر بچہ دیکھے کہ گھر میں تمام افراد کے درمیان حقوق کی پوری طرح رعایت کی جاتی ہے تو وہ سمجھ جائے گا کہ جامعہ اور معاشرہ میں بھی ایک دوسرے کے حقوق کی پوری طرح رعایت نہ ہوئی تو اس میںسرکشی اور تجاوز کی عادت تقویت پکڑے گی اگر کوئی بچہ کسی تربیت وار چیز کے خرید نے یا کسی جگہ با تربیت سوار ہونے میں یا کلاس کے کمرے میں باترتیب جانے یا نکلنے میں اس ترتیب اور نظم کا خیال نہ کرے اور دوسروں کے حق کو پا مال کرے اور اس کے ماں باپ اور تربیت کرنے والے افراد اس کے اس عمل میںتشویق کریں تو انہوں نے اس معصوم بچے کے حق میں خیانت کی کیونکہ وہ بچپن سے یہی سمجھے گا کہ دوسروں پر تعدی اور تجاوز بلا وجہ تقدم ایک قسم کی چالاکی اور ہنر ہے_ یہی بچہ جوان ہو کر جب معاشرہ میں وارد ہوگا یا کسی کام کی بجا آوری کا ذمہ دار بنا جائے گا تو اس کی ساری کوشش دوسروں کے حقوق کو تلف اور پائمال کرنا ہوگی اور اپنے ذاتی منافع کے علاوہ اس کا کوئی ہدف نہ ہوگا اس صفت کا درس حضرت زہرا کے گھر میں کامل طور ''اتنی وقت کے ساتھ کہ معمولی سے معمولی ضابطہ کی بھی مراعات کی جات تھی'' دیا جاتا تھا_

مثال کے طور پر حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

۹۸

ہمارے گھر آرام کر رہے تھے، امام حسن (ع) نے پانی مانگا جناب رسول خدا(ص) اٹھے تھوڑا دودھ برتن میں دودہ کر جناب امام حسن (ع) کو دیا کہ اتنے میں امام حسین علیہ السلام بھی اٹھے اور چاہا کہ دودھ کا برتن امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ سے لیں لیکن پیغمبر(ص) نے امام حسین علیہ السلام کو اس کے لینے سے روک دیا، جناب فاطمہ زہرا یہ منظر دیکھ رہی تھیں، عرض کیا یا رسول اللہ(ص) گویا آپ امام حسن (ع) کو زیادہ دوست رکھتے ہیں؟ آپ(ص) نے جواب دیا کہ بات یہ نہیںہے بلکہ اس کے روکنے کی وجہ یہ ہے کہ امام حسن (ع) کو تقدم حاصل ہے اس نے حسین (ع) سے پہلے پانی مانگا تھا لہذا نوبت کی مراعات ہونی چاہیئے _(۱)

پانچواں درس

ورزش اور کھیل کود

تربیت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کہ کھیل کود کی اس کی مرضی کے مطابق آزادی دینی چاہیئے بلکہ اس کے لئے کھیل کود اور سیر و سیاحت کے پورے اسباب فراہم کرنے ہیں آج کل متمدن معاشرے میں یہ موضوع قابل توجہ قرار دیا جاتا ہے اور پرائمری، ہڈل اور ہائی اسکول اور کالجوں میں کھیل اور تفریح کے مختلف وسائل بچوں اور جوانوں کی عمر کے مطابق فراہم کئے جاتے ہیں اور انہیں مل کرکھیلنے اور ورزش کرنے کی تشویق دلاتے ہیں،

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۳_

۹۹

گویا وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کھیلنا جیسے بدن کے رشد کرنے کے لئے ضروری ہے ویسے ہی یہ ان کی روح کی تربیت کے لئے بھی بہت تاثیر رکھتا ہے_

بعض لوگ بچوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بڑوں کی طرح زندگی گزاریں اوراپنے لئے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ انہیں طفلانہ کھیل گود سے روکے رکھیں اور اگر کوئی بچہ کھیل کود میں مشغول ہو تو اسے بے ادب بچہ قرار دیتے ہیں اوراگر چپ چاپ سر جھکائے اورکھیل گود سے دور ایک گوشہ میں بیٹھا رہنے والا ہو تو اسے شاباشی دیتے ہیں اور اسے با ادب بچہ سمجھتے ہیں_ لیکن نفسیات کے ماہر اس عقیدے کوغلط اور بے جا قرار دیتے ہیں ان کاعقیدہ ہے کہ بچے کو کھیلنا چاہیئے_ اور اگر بچہ نہ کھیلے تو یہ اس کے جسمی اور روحی بیمار ہونے کی علامت ہے_ البتہ ماں باپ کو یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ بچہ وہ کھیل کود انجام نہ دے جو اس کے لئے ضرر کا موجب ہو اور دوسروں کے لئے مسرت کے اسباب فراہم کرتا ہو_

ماں باپ صرف بچہ کو کھیل کودکے لئے آزادی ہی نہ دیں بلکہ خود بھی بیکاری کے وقت بچے کے ساتھ کھیلیں، کیوں کہ ماں باپ کا یہ عمل بچے کے لئے لذت بخش ہوتا ہے اوروہ اسے اپنے لئے محبت کی علامت قرار دیتا ہے_

رسول خدا(ص) جناب امام حسن اور امام حسین کے ساتھ کھیلتے تھے_ ابوہریرہ نے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول خد ا (ص) کو دیکھا کہ وہ حسن (ع) اور حسین (ع) کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور ان کے پاؤں کو اپنے سینے پر رکھے ہوئے فرما رہے تھے، فاطمہ (ع) کے نور چشم اور چڑھو، حسن (ع) اور حسین (ع) اوپر چڑھتے یہاں تک کہ ان کے پاؤں آپ

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

شريك گناہ ہيں '' اس پر مالك نے كہا كہ تم اپنى بات كر رہے ہو تم وہ لوگ ہو جنہوں نے اپنے برگزيدہ لوگوں كو قتل كرا ديا اور جو پست فطرت تھے وہ زندہ ہيں ايسى حالت ميں تم خود كو كس طرح حق پر سمجھ سكتے ہو؟ كيا اس وقت جب تم شاميوں كو قتل كر ہے تھے يا اس وقت جب كہ تم كشت و كشتار سے دستبردار ہوگئے ہو؟ دوسرى صورت ميں تمہيں يہ بات تسليم كر لينى چاہيئے كہ تمہارے وہ عزيز جو قتل ہوئے تم سے بہتر و افضل تھے اگرچہ تم ان كى فضيلت سے انكار نہيں كر سكتے مگر اب وہ اپنى آگ ميں خود جل رہے ہيں ''

وہ لوگ جو مالك كى منطق و دليل كا جواب نہ دے سكے انہوں نے كہا'' كہ اب آپ ہم سے حجت و بحث نہ كيجئے كيونكہ ہم نے راہ خدا ميں ہى جنگ كى تھى اور راہ خدا ميں ہى اس جنگ سے دستكش ہو رہے ہيں آپ كى اطاعت ہرگز نہيں كريں گے بہتر ہے كہ آپ اپنى راہ ليں ...''

مالك نے چاہا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اس جنگ كو جو شاميوں سے ہو رہى تھى سركشوں پر مسلط كرديں _

ليكن انہوں نے چلانا شروع كرديا كہ اميرالمومنينعليه‌السلام نے حكميت كو تسليم كر ليا ہے قرآن كے حكم پر وہ راضى ہيں اس كے علاوہ ان كے لئے كوئي چارہ نہيں اس پر اشتر نے كہا كہ اگر اميرالمومنينعليه‌السلام نے حكميت كو قبول كر ليا ہے تو ميں بھى اس پر راضى اور خوش ہوں ''

حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ ديكھا كہ سركش لوگ آپعليه‌السلام ہى كى موجودگى ميں دروغ گوئي سے كام لے رہے ہيں تو آپعليه‌السلام نے كوئي بات كہے بغير نظريں زمين پر جھكا ليں(۲۲) ليكن جب سب لوگ خاموش ہوگئے تو آپعليه‌السلام اپنى جگہ سے اٹھے اور فرمايا كہ : تم جب تك مجھ سے متفق و ہم خيال تھے جنگ كر تے رہے يہاں تك كہ جنگ نے تمہيں زبوں و ناتواں كرديا خدا كى قسم جنگ كے زبونى و ناتوانى نے تمہيں پكڑ ليا ہے اور تمہيں تمھارے حال پر چھوڑ ديا ہے تمہيں يہ جان لينا چاہيئے كہ كل تك ميں اميرالمومنينعليه‌السلام تھا مگر آج ميں حكم بجالانے كے لئے مامور ہوں كل تك مجھے اختيار تھا اور تمہيں حكم دے سكتا تھا مگر آج ميں اس حكم سے محروم ہوں آج ميرے حكم كو ٹھكرايا جا رہا ہے اس

۲۴۱

لئے ميں تمہيں تمہارى مرضى كے خلاف مجبور نہيں كر سكتا''(۲۳)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام ان سے خطاب كرنے كے بعد تشريف فرما ہوئے قبائل كے سرداروں نے اپنے خيالات كا اظہار كيا ان ميں سے بعض جنگ كى حامى و طرفدار تھے اور بعض صلح كے متمنى و خواہشمند(۲۴)

نفاق و حماقت كے خلاف جدوجہد

اگرچہ سپاہ شام كى طرف سے يہ آوازيں بلند ہو رہى تھيں كہ '' ہم نے قرآن كے سامنے اپنے سر خم كرديئے ہيں اور تم بھى قرآن كى حكومت كو تسليم كر لو'' مگر عمل ميں وہ لوگ در حقيقت قرآن كے حكم سے روگرداں تھے كيا اب تك اميرالمومنين علىعليه‌السلام نے قرآن كے احكام كو تسليم نہيں كيا تھا اور كيا آپعليه‌السلام كا عمل قرآن كے حكم كى بنياد پر نہ تھا يا جيسے ہى سپاہ شام كے سرداروں نے قرآن كو نيزوں پر چڑھايا اور ظاہر دارى سے كام ليا تو قرآن كا حكم بھى بدل گيا اور يہيں سے علىعليه‌السلام كا راستہ قرآن سے عليحدہ ہوگيا؟شاميوں نے در حقيقت اپنے اس عمل سے حق و عدالت كو نفاق كے پيروں تلے روند ڈالا_

انہى لوگوں ميں كچھ تعداد ايسے لوگوں كى بھى تھى جنہوں نے اپنے ہادى و پيشوا كو نہ پہچانا انہوں نے اپنى حماقت و نادانى سے اپنى خواہشات ہى نہيں بلكہ دشمن كى خواہشات كو اميرالمومنينعليه‌السلام پر مسلط كر كے ظلم و نفاق كى بنيادوں كو مضبوط كرديا جب كچھ كوتاہ فكر اور كج انديش لوگ ان سے آكر مل گئے تو نفاق كى گرم بازارى پہلے سے كہيں زيادہ بڑھ گئي_ ان حالات ميں نفاق سے ٹكر لينا گويا اس وقت ايسا اقدام كرنا حماقت و نادانى سے پنجہ نرم كرنا تھا_

اميرالمومنينعليه‌السلام ايسى حساس صورتحال كے روبرو تھے جس ميں ايك طرف منافق و مفاد پرست لوگ قرآن كو نيزوں پر بلند كئے ہوئے تھے اور دوسرى طرف وہ لوگ تھے جو بظاہر محاذ حق پر جنگ و جدال كر رہے تھے مگر اس كے ساتھ ہى اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام پر تلوار كھينچے كھڑے تھے

۲۴۲

كہ حكم قرآن كو تسليم كيجئے_ اور وہ اس بات سے قطعى بے خبر تھے كہ اس بارے ميں قرآن كا صريح ارشاد ہے كہ '' ان طائفتان من المومنين اقتتلوا فاصلحوا بينہما فان بغت احداہما على الاخرى فقاتلوا التى تبغى حتى تفى الى امر اللہ''(۲۵) اور اگر اہل ايمان ميں سے دو گروہ آپس ميں لڑ جائيں تو ان كے درميان صلح كر او پھر اگر ان ميں سے ايك گروہ دوسرے گروہ پر زيادتى كرے تو زيادتى كرنے والے سے لڑويہاں تك كہ وہ اللہ كے حكم كيطرف پلٹ آئے_

باغى و سركش جانتے تھے كہ مسلمانوں كے قانونى و شرعى زمامدار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام ہيں اور معاويہ آپعليه‌السلام سے باغى و برگشتہ_ اسے چاہيئے كہ سركشى سے دستبردار ہوجائے_ حق كے سامنے گردن خم كردے _ اور اگر ايسا نہيں تو حكم قرآن كے مطابق جنگ و جدال كريں _

سركشوں نے حيلہ و نيرنگ پر كاربند رہ كر قرآن كو تو نيزوں پر چڑھاديا مگر ان سے يہ نہيں كيا گيا كہ ہم اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كو تسليم كرنے كے لئے آمادہ ہيں _ بلكہ وہ تو يہ چاہتے تھے كہ انھيں كوئي ايسا موقعہ مل جائے جس كے ذريعے وہ اپنى يورش و سركشى كو جارى ركھ سكيں مگر سپاہ عراق ميں سے كچھ ظاہر بين اور كج انديش افراد انجانے ميں ان كے ہاتھوں كا كھلونا بن كر رہ گئے جس كا يہ نتيجہ ہوا كہ رنج و افسوس كے علاوہ انہيں كچھ نہ ملا_

حكميت و ثالثى كى دعوت

معاويہ نے سپاہ عراق كے درميان اختلاف پيدا كرنے اور مسئلہ حكميت كى پيش كش كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں خط لكھا كہ ہمارا اختلاف كافى طويل ہوگيا ہے اور دونوں طرف سے بہت زيادہ خون بہايا جاچكا ہے اور ڈر ہے كہ كہيں حالت پہلے سے زيادہ بد تر نہ ہوجائے اور اس كى ذمہ دارى ہم دونوں پر ہوگى كيا آپ اس بات سے متفق ہے كہ لوگوں كى كشت و كشتار كو روكا جائے اور دينى اخوت و محبت برقرار ہوجائے_

۲۴۳

اس كى راہ يہى ہے كہ آپ اور ميرے ہوا خواہوں سے دو معتبر حكم (ثالث) انتخاب كئے جائيں اور وہ كلام اللہ كى اساس و بنياد پر فيصلہ كريں _ كيونكہ ہمارے ليئے يہى بہتر ہے كہ خوف خدا كو دل ميں ركھيں اور اگر اہل قرآن ہيں تو اس حكم كا پاس كريں _ (۲۶)

معاويہ ايسا نافہم تو نہيں تھا كہ اسے يہ معلوم نہ ہوتا كہ حضرت علىعليه‌السلام اس ظاہر سازى كا فريب نہ كھائيں گے اس نے اتنا يقينا سوچ ہى ركھا تھا كہ اس خط كا مضمون سپاہ عراق كے بعض كج انديش او رمنافق افراد كے كانوں تك ضرور پہونچے گا اور وہ اس سے متاثر بھى ہوں گے_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے مدلل بيان سے صريح الفاظ ميں واضح و قطعى جواب ديتے ہوئے اسے لكھا كہ معاويہ تم مجھے حكميت قرآن كى دعوت دے رہے ہو جبكہ تم اس سے كہيں دور ہو اور تم اس كتاب مقدس كو اپنا حكم بنانا نہيں چاہتے ہو ہم نے دعوت قرآن كو حكميت كى بنياد پر قبول كيا ہے نہ كہ تمہارى تجويز پر(۲۷)

معاويہ كى جانب روانگي

اشعث جو دستہ مخالفين اور صلح پسندوں كا سردار بنا ہوا تھا معاويہ كے خط كى تشہير كرنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا اور كہنے لگا كہ ميں ديكھ رہا ہوں كہ لوگ شاميوں كى دعوت حكميت سے خوش و خرم ہيں اگر آپ اجازت ديں تو ميں معاويہ كے پاس جاؤں اور اس سے پوچھوں كہ كيا چاہتے ہو_(۲۸)

كيا اشعث واقعى يہ نہيں جانتا تھا كہ معاويہ كيا چاہتا ہے آخر وہ كون سا مقصد تھا جس كى خاطر وہ معاويہ كے پاس جانے كى كوشش كر رہا تھا اسے ان تمام باتوں كا علم تھا اور وہ يہ بھى جانتا تھا كہ اب فيصلہ كرنے كا اختيار كس كے ہاتھ ميں ہے وہ حضرت علىعليه‌السلام كے ان الفاظ كو نہيں بھولاتھا جو آپعليه‌السلام نے چند لمحہ قبل فرمائے تھے كہ '' ميں كبھى امير تھا مگر اب تابع و مامور ہوں ليكن اس كے باوجود اس نے حضرت علىعليه‌السلام سے اجازت مانگى تا كہ وفد كے اراكين كے درميان اس كى حيثيت مامور كى

۲۴۴

رہے_

حضرت علىعليه‌السلام نے اسے بہت بے اعتنائي سے جواب ديا كہ اگر چاھو تو معاويہ كے پاس جاسكتے ہو(۲۹) اشعث تو اس موقع كى تلاش ميں تھا ہى اورخود كو اس نے وفد كا رہبر فرض كر ليا تھا وہ ظاہراً حضرت علىعليه‌السلام كے نمائندے كى حيثيت سے معاويہ كے پاس گيا اور اس كے سامنے چند سوال پيش كئے معاويہ نے اس كے وہى جواب ديے جو وہ خط ميں حضرت علىعليه‌السلام كو لكھ چكا تھا_

اس پر اشعث نے كہا يہ سب مبنى بر حق ہے اس كے بعد وہ حضرت علىعليه‌السلام كے پاس واپس آگيا_

جب يہ خبر پھيل گئي كہ اشعث كو وفد كا سربراہ بنايا گيا ہے تو لوگوں نے بآواز بلند كہنا شروع كيا كہ : ہم اس حكم پر راضى ہيں اور ہميں يہ منظور ہے_

اس كے بعد شام و عراق كے لشكروں كے قارى يكجا جمع ہوئے اور انہوں نے اس بات پر اتفاق كيا كہ حكم قرآن كو بحال كيا جائے_(۳۰)

حكمين (ثالثوں ) كا انتخاب

يہ تو پہلے سے معلوم تھا كہ معاويہ كا حكم عمروعاص ہوگا اور شام كے لوگوں كو بھى اس كے انتخاب كئے جانے پر اتفاق ہوگا چنانچہ معاويہ نے بغير كسى مشورے كے حكم مقرر كرديا اور اپنى سپاہ كو اپنے اس انتخاب كے ذريعہ مطمئن كرديا_

عراق كے لوگ اپنے ہادى اور پيشوا كى حكم عدولى كے باعث اگر چہ تباہى اور ہلاكت كے دہانے تك پہنچ چكے تھے مگر اس كے باوجود انہوں نے حكم كے انتخاب كے حق سے بھى اميرالمومنينعليه‌السلام كو محروم كرديا اشعث نے ان قاريان قرآن كے ہمراہ (جو بعد ميں خوارج شمار كئے گئے) بلند كہنا شروع كيا كہ '' ہم ابو موسى اشعرى كو انتخاب كرتے ہيں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : مجھے اس پر اتفاق نہيں كيونكہ ميں انہيں اس كام كا اہل نہيں سمجھتا اشعث ، زيد بن حصين اور مسعر بن فدكى

۲۴۵

نے قاريان قرآن كے ساتھ يك زبان ہوكر كہا كہ ہمارا انہيں پر اتفاق ہے كيونكہ وہيں ہيں جنہوں نے ہميں ا س جنگ كى مصيبت سے محفوظ ركھا اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ مجھے يہ انتخاب منظور نہيں كيونكہ انہوں نے ميرا ساتھ چھوڑ ديا تھا اور وہ لوگوں كو ميرى مدد كرنے سے منع كر رہے تھے اس كے بعد وہ فرار كر گئے چنانچہ كئي ماہ گذر جانے كے بعد ميں نے انھيں امان و پناہ دي'' ميں اس كام كے لئے عباس كو اہل و شايستہ سمجھتا ہوں _

ليكن وہ لوگ حسب سابق اپنى ضد پر قائم رہے اور كہنے لگے كہ ہمارے لئے آپ كے ہونے يا عباس كے ہونے ميں ذرا فرق نہيں ليكن ہم يہ چاھتے ہيں كہ حكم ايسے شخص كو بنايا جائے جو آپ كى اور معاويہ كى طرف سے بے لاگ ہو اور اس كى نظر ميں دونوں افراد يكساں و برابر ہوں _

حضر ت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں پھر مالك اشتر كو مقرر كرتا ہوں اس پر اشعث نے بلند آواز سے كہا كيا اشتر كے علاوہ كوئي اور شخص تھا جس نے سارى زمين ميں آگ لگائي؟ اگر ہم ان كا نام منظور كر ليتے ہيں تو ہميں ان كا پابند رہنا ہوگا حضرت علىعليه‌السلام نے دريافت فرمايا كہ ان كا حكم كيا ہے سب نے ايك آواز ہو كر كہا يہ كہ شمشير ہاتھ ميں ليكر تمہارا اور اپنا مدعا حاصل كرنے كى خاطر جان تك كى بازى لگاديں _

حضرت علىعليه‌السلام كو انكى ضد اور خود سرى پر طيش آگيا اور فرمايا كہ ابو موسى كے علاوہ كسى اور كو اپنا حكم تسليم نہيں كروگے؟ انہوں نے كہا نہيں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا جو چاھو وہ كرو(۳۱)

۲۴۶

سوالات

۱_ معاويہ نے جنگ سے فرار كرنے اور اپنى حالت و حيثيت كى حفاظت كے لئے كيا اقدامات كئے؟

۲_ معاويہ اور عمروعاص نے شكست سے نجات پانے كے خاطر كيا سازش كي؟

۳_ جب قرآن مجيد كو نيزوں پر بلند كيا گيا تو سپاہ عراق كا كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

۴_ سپاہ عراق ميں كون لوگ جنگ جارى ركھنے كے حق ميں تھے اور كون اس مقصد كے لئے پيش پيش تھے؟

۵_ وہ لوگ كون تھے جنہوں نے فتح و نصرت كے آخرى لمحات ميں حضرت علىعليه‌السلام كو جنگ بندى پر مجبور كيا؟

۶_ حكميت كا مسئلہ پہلى مرتبہ كس كى طرف سے پيش كيا گيا حضر ت علىعليه‌السلام اور سركش سپاہ كا حكم مقرر كرنے كے سلسلے ميں كيا نظريہ تھا؟

۲۴۷

حوالہ جات

۱_ وقعہ صفين ۴۰۹_۴۰۸

۲_ وقعہ صفين ۴۱۳_ ۴۰۹

۳_ وقعہ صفين ۴۷۷_ ۴۷۶

۴_ وقعہ صفين ۴۷۶و لم يبق منهم الا آخر نفس انا غار عليهم بالغداة احاكمهم الى الله عزوجل

۵_ وقعہ صفين ۴۸۱_۴۸۰

۶_اعيذكم باالله ان ترضعوا الغنم ساير اليوم يہ اس بات پر كنايہ ہے كہ اگر تمہيں فتح نصيب نہ ہو تو تمہارى حالت عورتوں جيسى ہوجائے گى جو چوپاؤں كا دودھ دوہا كرتى ہيں _

۷_ وقعہ صفين ۴۷۶_۴۷۵ ، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۱_۳۱۵

۸_ وقعہ صفين ص ۴۷۹، مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۰

۹_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۰ ہلم مخباتك يابن عاص فقد ہلكنا

۱۰_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۰ ايك قول كے مطابق ليلة الہرير ميں ہى معاويہ كے جاسوسوں نے اشعث كى بات اس تك پہنچادى تھى چنانچہ اس كے بعد ہى معاويہ نے اس بات كا فيصلہ كيا تھا كہ قرآن كو نيزوں پر چڑھا ديا جائے وقعہ صفين ۴۸۱

۱۱_نجيب الى كتابه الله عزوجل نتنيب اليه ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۸ ، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۱۶ ، مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۰

۱۲_تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۸، مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۱ كامل ج ۳ ص ۳۱۶

۱۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۶ ص ۱۳۴

۱۴_ وقعہ صفين ۴۸۳_۴۸۲

۱۵_ وقعہ صفين ۴۸۳_۴۸۲

۱۶و۱۷_ وقعہ صفين ۴۸۳_۴۸۲

۲۴۸

۱۸_ وقعہ صفين ۴۸۲

۱۹_فان تطعيونى فقاتلوا و ان تعصونى فاصنعوا ما بدالكم

۲۰_ ملاحظہ ہو، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۱۷_ ۳۱۶ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۹ ، وقعہ صفين ۴۹۰_۴۸۹

۲۱_ وقعہ صفين ۴۹۱ _ ۴۹۰ كامل ج۳ ص ۳۱۷ تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۹

۲۲_ وقعہ صفين ۴۹۱_۹۰ ، كامل ج ۳ ص ۳۱۷، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۵۰

۲۳_ وقعہ صفين ۴۸۴

۲۴_ وقعہ صفين ۴۸۵_۴۸۴

۲۵_ سورہ حجرات آيت ۸

۲۶_ وقعہ صفين ۴۹۳

۲۷_ وقعہ صفين ۴۹۳، نہج البلاغہ مكتوب ۴۸

۲۸_ وقعہ صفين ۴۹۹_۴۹۸

۲۹_ وقعہ صفين ۴۹۹

۳۰_ وقعہ صفين ص ۴۹۹

۳۱_ وقعہ صفين ۵۰۰_۴۹۹ ، كامل ابن اثير ۳۱۹_۳۱۸

۲۴۹

تيرھواں سبق

قاسطين (جنگ صفين)۵

خوارج كى نامزدگي

حكميت كا معاہدہ

جنگ صفين كے عبرت آموز درس

جنگ كے نتائج

سركشوں كى تشكيل و گروہ بندي

حضرت علىعليه‌السلام خوارج كے درميان

منافقين كى تحريك

سوالات

حوالہ جات

۲۵۰

خوارج كى نامزدگي

ان سركشوں اور باغيوں كى حماقتيں اور كوتاہيوں جو بعد ميں (خوارج) كے نام سے مشہور ہوئے ايك دو نہ تھيں _ ان سے جو لغزشيں اور خطائيں سرزد ہوئيں ان ميں سے ايك يہ بھى تھى كہ انہوں نے حاكم كا انتخاب صحيح نہيں كيا_ اگرچہ ان كا دعوى تو يہ تھا كہ انہوں نے غير جانبدار شخص كو منتخب كرنے كى كوشش كى ہے_ مگر جس شخص كو انہوں نے اس كام كے لئے نامزد كيا اس كى عداوت و دشمنى حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ دوسروں كى نسبت كہيں زيادہ تھي_ ليكن اس كے بر عكس معاويہ كو حق انتخاب اس شخص كيلئے ديا گيا كہ جو اس سے كہيں زيادہ مال و جاہ كا حريص اور اس كا فرمانبردار تھا_

ابو موسى وہ شخص تھا جس نے اس وقت جبكہ كوفہ كى فرمانروائي اس كے ہاتھ ميں تھى اپنے پيشوا كے حكم سے سرتابى كى تھى اور جنگ جمل كے موقع پر لوگوں كو حضرت علىعليه‌السلام كى مدد سے منع كيا تھا_

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام نے انہيں ايك خط ميں لكھا تھا كہ تمہارى طرف سے جو بات مجھ تك پہنچى ہے اس ميں تمہارا نفع بھى ہے اور نقصان بھي_ جيسے ہى ميرا پيغام رساں تمہارے پاس پہنچے تم اپنى كمر كس لينا _ اور اس پر مضبوطى سے پٹكا باندھ لينا_ اور اپنى كمين گاہ سے نكل كر باہر آجانا _ جو افراد تمہارے ساتھ ہيں انہيں بھى باخبر كردينا_ اگر ميرے اس حكم پر عمل كرنا مقصود ہو تو قدم آگے بڑھانا_ اگر خوف غالب ہو اور سستى تمہارے وجود سے عياں ہوتى ہو تو كہيں اور نكل جانا_ خدا كى قسم تمہارى گيلى اور سوكھى ہر لكڑى كو جلا كر خاك كردوں گا_ اور اتنا موقع نہيں دوں گا كہ بيٹھ كر دم لے سكو تمہيں پيٹھ پيچھے جس چيز كا خوف اور ڈر ہے اسے بھى تم اپنے سامنے پاؤں گے_(۱)

ليكن اس سركش كارندے نے نہ صرف كمر ہى نہ كسى اور حضرت علىعليه‌السلام كى دعوت كا مثبت جواب

۲۵۱

نہ ديا بلكہ حضرت علىعليه‌السلام كا وہ وفد جو حضرت امام حسنعليه‌السلام كى سركردگى ميں گيا تھا اس كى بھى مخالفت كى _ اور جو لوگ اپنا فرض ادا كرنے كى غرض سے ابوموسى كے پاس آئے تھے تا كہ اپنا فريضہ معلوم كريں تو يہ ان سے كہتا تھا كہ اگر آخرت كى فكر ہے تو اپنے گھروں ميں جاكر بيٹھو_ عثمان كى بيعت ابھى ہمارى گردنوں پر ہے_ اگر جنگ كرنا ہى مقصود ہے تو پہلے عثمان كے قاتلوں سے جنگ كرو_(۲)

اسى وجہ سے جنگ جمل ميں حضرت علىعليه‌السلام كے اقدام كو ايك قسم كا فتنہ بتايا تھا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے يہ حديث نقل كى تھى كہ جس وقت فتنہ بپا ہو تو بيٹھے رہنے سے بہتر ہے كہ ليٹ جاؤ_ اگر كھڑے ہو تو بہتر ہے كہ بيٹھ جاؤ اور اگر چل رہے ہو تو اس سے اچھا ہے كہ اپنى جگہ كھڑے رہو_ يہ كہہ كر وہ لوگوں كو اس بات كى جانب ترغيب دلا رہا تھا كہ اپنى تلواروں كو ميان ميں ركھدو اور نيزوں كو توڑ ڈالو تا كہ اس فتنے كے شر ان كا دامن كو نہ پكڑ لے_(۳)

آيا ايسا شخص جو اس طرز فكر كا حامل ہو اور جس كا حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف اس طرح كا يہ موقف رہا ہو ، كيا وہ اس لائق ہو سكتا تھا كہ اسے حضرت علىعليه‌السلام كے نمائندے كى حيثيت سے منتخب كيا جائے؟

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام ہميشہ اس فكر ميں رہتے تھے كہ وہ لوگ جو توہمات ميں غرق ہيں ان پر صحيح افكار كو روشن اور حقيقت كو واضح كرديا جائے_ اسى لئے آپعليه‌السلام نے يہ فيصلہ كيا كہ چونكہ ابوموسى كا تعلق خوارج كے گروہ سے ہے حكميت كے واسطے ان كے منتخب كئے جانے كے مسئلے كو مزيد و سيع پيمانے پر پيش كريں _ اور سب كے سامنے وہ دلائل پيش كرديں جن كى بنا پر وہ حكميت كيلئے ان كا نام منظور كرنا نہيں چاہتے ہيں _ چنانچہ انہوں نے اپنے تمام ساتھيوں كو جمع كيا اور فرمايا كہ : يہ جان لو كہ شاميوں نے اس شخص كا انتخاب كيا ہے جو قضيے ميں ان سب سے زيادہ نزديك ہے _ ليكن تم نے اس شخص كو منتخب كيا ہے جو اس قضيے ميں تمہارى نفرت كا سب سے زيادہ حقدار ہے_ كيا تم بھول گئے ہو كہ يہ ابوموسى ہى تھا جو يہ كہا كرتا تھا كہ جنگ جمل محض ايك فتنہ ہے_ اس مقصد كيلئے تم اپنى كمانوں كے چلے نہ چڑھاؤ اور اپنى تلواروں كو ميان ميں ركھ لو _ اگر اس كى اس بات ميں حقيقت تھى تو وہ كيوں بحالت مجبورى جنگ صفين ميں شريك ہوا _ اگر يہ صورتحال نہيں

۲۵۲

ہے تو اس پردروغگوئي كا الزام عائد كيا جانا چاہئے عمروعاص كے اندرونى ارادے كو عبداللہ بن عباس كے ذريعے خاك ميں ملا دو _ اس موقعے كو ہاتھ سے جانے نہ دو _ اسلام كے اطراف ميں جو سرحديں ہيں ان كى حفاظت كرو _ كيا تم ديكھتے نہيں ہو كہ تمہارے شہروں پر حملہ كئے جا رہے ہيں ور تمہيں تيروں كا نشانہ بنايا جا رہا ہے_ (۴)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام چاہتے تھے كہ عباس كو حكم مقرر كر كے جنگ بندى كے ان تلخ و ناگوار اثرات كو كم كرديں جنہوں نے ان لوگوں كے دل و دماغ پر غفلت كا پردہ ڈال ديا تھا_ كيونكہ عمروعاص كى نيرنگيوں اور ديگر كمزوريوں سے دوسروں كے مقابل وہ زيادہ واقف و باخبر تھے_ اس كے علاوہ مذاكرہ ميں بھى وہ ان سے زيادہ محكم و قوى تھے_(۵)

ليكن ايسا معلوم ہوتا تھا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بات كسى كى كان تك نہيں پہنچى اور كسى كے دل و دماغ پر اس كا اثر نہ ہوا _ اشعث تو حضرت علىعليه‌السلام كى بات سن كرہى بر افروختہ ہوگيا بالخصوص اس وقت جب كہ اس نے يہ ديكھا كہ جس شخص كو مذاكرے كيلئے منتخب كيا جا رہا ہے وہ قريش ميں سے ہے _ اور اشعث يہ سمجھتا تھا كہ ان كا حكم مقرر كيا جانا قبيلہ يمن كى مذمت كئے جانے كى واضح و روشن دليل ہے_ اور اسى بنا پر وہ كہہ رہا تھا كہ عبداللہ بن عباس ميں حكم ہونے صلاحيت نہيں ہے_ چنانچہ انہوں نے ناراض ہوكر با آواز بلند كہا كہ : خدا كى قسم قيامت تك قبيلہ مُضر كے افراد بيك وقت حكم نہيں بنائے جاسكتے_(۶) معاويہ نے چونكہ حكم كيلئے قبيلہ مُضر كے شخص كا انتخاب كيا ہے اس لئے آپعليه‌السلام ايسے شخص كا انتخاب كريں جو قبيلہ يمن كے لوگوں ميں سے ہو_ اس پر آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ : مجھے ڈر ہے كہ كہيں تمہارا يمنى دھو كہ نہ كھا جائے_ اشعث نے كہا اگر وہ دھو كہ كھا گيا اور وہ بات جو ہمارے لئے پسنديدہ نہيں اس نے اسى كو فيصلے ميں تسليم كر ليا تو اس سے بہتر ہے كہ دونوں ہى افراد قبيلہ مضر سے ہوں تا كہ ہمارى مرضى كے مطابق حكم كے فرائض انجام دے سكيں _

اس طرح اشعث نے اپنے باطنى نفاق كو ظاہر و آشكار كرديا_ وہ اقتدار حاصل كرنے كى غرض سے چاہتا تھا كہ حكم كسى ايسے شخص كو بنايا جائے جو انہى كے قبيلے كا ہو_ ليكن اس نظريے كے پس

۲۵۳

پشت ان يمنيوں كا قبائلى تعصب كارفرما تھا جو سپاہ عراق و شام ميں بكثرت شامل تھے_ ايسى صورت ميں اگر دو حكم ميں سے ايك اسى قبيلے كا ہو تو وہ كيوں نہ خلافت پر نظر ركھيں _ ابوموسى كے موقف سے اشعث بخوبى واقف تھا اور يہ جانتا تھا كہ وہ معاويہ كى طرفدارى نہيں كرے گا_ جس كى وجہ يہ تھى كہ ابوموسى اسے بھى فتنہ سمجھتا تھا_ اس كے برعكس دوسرى طرف ان كے ماضى كو مد نظر ميں ركھتے ہوئے كہا جا سكتا تھا كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كا بھى جانبدار نہ ہوگا_ چنانچہ اسى وجہ سے اسے بہترين طاقت سمجھا گيا تھا_

اشعث كتنا اقتدار پسند اور جاہ طلب تھا اس كى شاہد ذيل كى داستان ہے_

طايفہ '' بنى وليعہ'' ان طائفوں ميں سے تھا جوپيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد مرتد ہو گئے تھے_ جس وقت زياد ابن لبيد انصارى نے ان سے جنگ كى اور انہيں اپنى تلوار كى دھار كا مزہ چكھايا تو وہ اشعث كى حمايت حاصل كرنے كى غرض سے طائفہ كندہ كے سردار كے پاس گئے اس نے اس موقع كو سلطنت حاصل كرنے كا بہانہ سمجھا اور ان سے كہا كہ اگر تم مجھے اپنا بادشاہ تسليم كر لو تو ميں تمہارى مدد كرنے كيلئے تيار ہوں _ انہوں اس كى اس شرط كو مان ليا _ چنانچہ وہ بھى دائرہ اسلام سے خارج ہوگيا _ اور '' قطحان'' خاندان كے بادشاہوں كى طرح رسم تاج پوشى ادا كى گئي_(۷)

اس كے بعد ان كى قيادت كرتے ہوئے وہ مسلمين كے ساتھ بر سر پيكار ہوا _ ليكن زياد كے لشكر نے جيسے ہى دباؤ ڈالا اور اس قلعے كا جس ميں اس نے پناہ لى تھى محاصرہ كيا تو انہوں نے فيصلہ كيا كہ اپنى زندگى كو خيانت كے ذريعے خريد ليں اور اپنے ساتھيوں سے دور ہو كر اس نے اپنے نيز اپنے دس قرابت داروں كے لئے پناہ مانگى _ اس كے بعد اس نے قلعے كا دروازہ كھول ديا اور باقى لشكر كو موت كے منھ ميں دھكيل ديا_(۸)

ان خيانت كاريوں كى وجہ سے اسے مسلمانوں اور كفار كے درميان ہميشہ لعن طعن اور نفرت كى نظر سے ديكھا جاتا تھا _ بالخصوص كندہ طائفے كى عورتيں اس بزدلى اور خيانت كارى كى وجہ سے جو اس سے سرزد ہوئي تھى اور جس كے باعث اس طائفے كے ايك گروہ كو سخت نقصان پہنچا تھا ، سخت

۲۵۴

لعنت و ملامت كيا كرتى تھيں _ اور عام طور پر '' عرف النار '' (آگ لگانے والا جاسوس) كہا كرتى تھيں _ اور اس اصطلاح كا اطلاق اس شخص پر كيا جاتا تھا جس كى سرشت ميں مكر ، فريب اور دغہ باز ى شامل ہو_(۹)

ابوموسى بھى جس كا نام اشعث نے حكميت كيلئے پيش كيا تھا_ كسى طرح بھى اشعث سے كم نہ تھا _ جس وقت جنگ جارى تھى اس نے جانبين كى طرف سے كنارہ كشى اختيار كر كے اور شام ميں اس مقام پر جو '' عرض'' كے نام سے مشہور تھا گوشہ نشينى اختيار كر لى تھى _ ليكن جيسے ہى اس كے غلام نے يہ اطلاع دى كہ لوگ جنگ سے دست كش ہوگئے ہيں اور تمہارا نام حكم كى حيثيت سے ليا جا رہا ہے تو صفين كى جانب روانہ ہوا اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر تك پہنچ گيا_

مالك اشتر اور احنف ابن قيس جيسے امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے_ اور ابوموسى كے اوصاف و افكار بيان كرنے كے بعد عرض كيا كہ انہيں حكم منتخب نہ كيا جائے_ اس ضمن ميں انہوں نے يہ بھى كہا كہ اس كا اعلان كرنے كيلئے وہ خودتيار ہيں _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ان كا نظريہ لوگوں كے سامنے بيان كيا_ ليكن اس پر خوارج نے كہا كہ ہم ابوموسى كے علاوہ كسى دوسرے شخص كو منتخب نہ كريں گے_(۱۰)

اس سلسلے ميں انہوں نے مزيد كہا كہ : ابوموسى وہ شخص ہيں جن پر شام و عراق كے لوگوں كو اعتماد ہے_ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس يمن كے لوگوں كا نمائندہ بن كر آچكے ہيں اورمال غنيمت كے سلسلہ ميں حضرت ابوبكر كے امين اور حضرت عمر كے كارگزار رہ چكے ہيں _(۱۲)

آخر كار ابوموسى اشعرى سپاہ عراق كى جانب سے حكميت كيلئے مقرر كرديا گيا_

حكميت كا معاہدہ

جب حكمين مقرر كرلئے گئے تو معاہدہ صلح اس طرح لكھا گيا (ہذا ما تقاضى عليہ على بن ابى طالب اميرالمومنين عليہ السلام و معاويہ بن ابى سفيان ...) ليكن اس پر

۲۵۵

معاويہ نے اعتراض كيا اور كہا كہ : اگر ميں نے انہيں اميرالمومنين تسليم كرليا ہوتا تو ان سے جنگ نہ كرتا_ عمروعاص نے بھى يہى كہا كہ : ہرچند على عليه‌السلام تمہارے امير ہيں ليكن وہ ہمارے نہيں _ اس لئے صرف ان كا اور ان كے والد كا نام لكھا جائے_(۱۳)

ليكن احنف بن قيس نے كہا كہ : اس لقب كو حذف نہ كيا جائے اس كے لئے خواہ كتنا ہى خون ہوجائے كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ اگر يہ لقب ايك دفعہ حدف كرديا گيا تو پھر واپس نہ ديا جائے گا_(۱۴)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كافى دير تك اس فكر ميں محور ہے كہ يہاں تك كہ اشعث آگيا_ اس كى آنكھوں ميں فاتحانہ چمك تھى اور لہجہ خيانت سے سرشار و شرابور_ اس نے فخريہ انداز ميں كہا كہ: اس نام كو حذف كرديجئے_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو ماضى كا وہ واقعہ ياد آگيا جب كہ '' صلح حديبيہ '' كا معاہدہ لكھا جارہا تھا '' (ہذا ما تصالح عليہ محمد رسول اللہ و سہيل )ابن عمرو سہيل كو يہ ضد تھى كہ لقب '' رسول اللہ '' حذف كيا جائے اور رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انتہائي صبر سے اس كى اس ضد كو برداشت كر رہے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كيلئے لقب رسول اللہ حذف كرنا گواراہ نہ تھا ليكن رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ اسے حذف كرديا جائے اور فرمايا كہ اس لقب كے حذف كئے جانے سے مجھے رسالت سے تو محروم نہيں كرديا جائے گا_ اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب رخ كر كے فرمايا كہ : ايك دن تمہارے سامنے بھى يہى مسئلہ آئے گا_ اگر چہ تمہيں بہت زيادہ كوفت ہوگى مگر تمہيں بھى يہى كرنا ہوگا _(۱۵)

اب وہ زمان موعود آن پہنچا تھا_ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام نے پورى رضا و رغبت اور مكمل اطمينان كے ساتھ اس كلام كو ملحوظ ركھتے ہوئے جو رسول گرامىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زبان مبارك سے ادا ہوا تھا فرمايا كہ : '' لا الہ اللہ و اللہ اكبر'' تاريخ خود كو دھرا رہى ہے(۱۶) _

۲۵۶

آج ميں ان كى آل و اولاد كيلئے اس طرح لكھ رہا ہوں جيسا رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان كے آباواجداو كيلئے تحرير فرماچكے ہيں _(۱۷)

معاہدے كا متن لقب '' اميرالمومنين'' حذف كر كے طرفين كى اتفاق رائے سے جس طرح تحريرى شكل ميں آيا اس كا اجمالا ذكر ہم ذيل ميں اس كے اہم نكات كے ساتھ كريں گے_

۱_ طرفين قرآن و سنت پيغمبريصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مطابق حكم خداوندى كو قبول كريں گے_ حكم قرآن او سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جو خلاف ہے اسے وہ دور كرنے كى كوشش كريں گے_

۲_ حكمين ابوموسى اشعرى اور عمروعاص ہيں _ جب تك حق سے تجاوز نہ كريں ان كے جان و مال اور ناموس كو حفظ و امان ميں ركھا جائے گا_

۳_ حكمين اور تمام مسلمين پر فرض ہے كہ وہ حكم كو قرآن و سنت كے مطابق قبول كريں _ اور اس پر عمل پيراہوں _

۴_ جب تك حكمين كا حكم جنگ بندى برقرار ہے اس وقت تك طرفين ميں سے كسى كو بھى دوسرے پر تجاوز كرنے كا حق نہيں _

۵_ منصفين كو اختيار ہے كہ وہ شام و عراق كے درميان كوئي متوسط نقطہ متعين كرسكتے ہيں _ ان افراد كے علاوہ جن كے بارے ميں اتفاق رائے ہوگا كسى بھى شخص كو مجلس منصفين ميں داخل ہونے كى اجازت نہيں دى جائے گى _ منصفى كى مدت ماہ رمضان كے آخر تك معين ہے_

۶_ اگر منصفين نے مقررہ مدت تك قرآن و سنت كے مطابق حكم صادر نہيں كيا تو طرفين كو حق حاصل ہوگا كہ اپنى پہلى حالت پر واپس آجائيں اور ايك دوسرے سے جنگ كريں _

مذكورہ معاہدے پر حضرت علىعليه‌السلام كے طرفداروں ميں سے عبداللہ بن عباس، مالك اشتر، حضرت امام حسن (ع)، حضرت امام حسين (ع)، سعيد بن قيس نيز اشعث نے اور معاويہ كى طرف سے حبيب بن مسلمہ ، ابوالاعور بُسروغيرہ نے دستخط كئے_(۱۸)

اور اس طرح ايك سودس روزہ جنگ ستر مرتبہ سے زيادہ مقابلوں كے بعد تاريخ ۱۷ صفر

۲۵۷

سنہ ۳۷ ہجرى كو اختتام پذير ہوئي_ (۱۹)

مورخين نے اس جنگ كے جانى نقصانات كے مختلف اعداد درج كيئے ہيں _ بعض نے مقتولين كى تعداد ايك لاكھ دس ہزار بتائي ہے_ جن ميں سے نوے ہزار شام كے سپاہى اور بيس ہزار عراقى فوج كے لوگ شامل تھے اور پچيس ہزار عراق كے لوگ_(۲۰)

جنگ صفين كے عبرت آموز سبق

جنگ صفين كا نتيجہ اسلام كى فتح و نصرت كے ساتھ يہ ہونا چاہيئے تھا كہ فتنہ و فساد و نيز درخت نفاق كى بيخ كنى ہو اور اس كے ساتھ ہى فرمانروائے شام كى بيدادگرى كا قلع قمع ہوجائے_ ليكن عراقى فوج كے بعض كمانڈروں كى خود سرى اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے حكم سے روگردانى كے باعث جو نتائج برآمد ہوئے وہ انتہائي تلخ و ناگوار ہونے كے ساتھ ، عبرت آموز بھى ثابت ہوئے اس سے قبل كہ جنگ صفين كے نتائج كا اجمالى جائزہ ليا جائے ہم يہاں اس كے بعض درس آموز نكات كى جانب اشارہ كريں گے:

۱_ جنگ صفين نے ثابت كرديا كہ معاويہ كے بارے ميں اميرالمومنينعليه‌السلام نے جو بھى پيشين گوئي كى اور ابتدائے امر سے ہى جتنے بھى موقف اختيار كئے وہ تمام حق پر مبنى تھے اور اس بات كے آئينہ دار تھے كہ حضرت علىعليه‌السلام كو ايسے عناصر كى كتنى گہرى شناخت تھى _

معاويہ كى سياسى سرگرمى كے باعث ناسازگار ماحول پيدا ہوگيا تھا اور وہ افراد جنہوں نے اپنے كرو فر كى خاطر انھيں ان كے مرتبے پر برقرار ركھا تھا اگر اس ہنگامہ آرائي ميں سرگرم عمل نہ ہوتے تو وہ تمام ہلاكتيں تباہياں نہ ہوتيں جو اس جنگ كى وجہ سے رونما ہوئيں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اس كى معزولى كا فرمان جارى كر كے اور جنگ و نبرد آزمائي كے ذريعے اس كى سركشى و بالا دستى كا جس طرح قلع و قمع كيا اس سے آپعليه‌السلام نے يہ ثابت كرديا كہ اس جيسے كسى بھى غير پسنديدہ عنصر كو ہرگز برداشت نہيں كيا جاسكتا تھا_

۲۵۸

۲_ جنگ كے دوران لشكر شام پر يہ بات ثابت ہوگئي كہ لشكر اسلام كو قوت ايمانى اور دليرانہ حوصلہ مندى كے باعث اس پر نماياں فضيلت و برترى حاصل ہے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ معاويہ نے اپنى شكست و نابودى سے نجات پانے كے لئے فريب كارى و نيرنگى كا سہارا ليا_

بلاشك و ترديد كہا جاسكتا ہے كہ اس فضيلت و برترى كا بنيادى عامل خود حضرت علىعليه‌السلام نيز ان كے فرزندوں اور اصحاب كا جذبہ ايثار و قربانى تھا_

۳_ اسلامى افواج جب تك حضرت علىعليه‌السلام كے زير فرمان رہيں انھيں نماياں كاميابى حاصل ہوئي ليكن جيسے ہى افواج كے سرداروں نے خود سرى اختيار كر كے آپ كے احكام سے روگردانى كى تو نہ صرف مسلمانوں بلكہ دين اسلام كو سخت ناگوار نتائج و حادثات سے دوچار ہونا پڑا_

۴_ جنگ صفين نے يہ سبق سكھايا كہ اگر پيروان حق اپنے موقف پر ثابت قدم رہيں تو حق ہى غالب رہتا ہے_ اور اس كا ہى بول بالا ہوتا ہے_ اس كے برعكس اگر وہ اپنے جزئي جانى مالى نقصان كى وجہ سے اپنے موقف سے پھر جائيں اور سازش و ريشہ دوانى كا رويہ اختيار كرليں تو ظاہر ہے كہ باطل كو ہى ان پر برترى و بالا دستى حاصل ہوگئي _

جنگ كے نتائج

صفين كى تباہ كن جنگ كے باعث دونوں ہى لشكروں كا سخت مالى و جانى نقصان ہوا اس كے ساتھ ہى اس جنگ كے جو سودمند و ضرر رساں نتائج برآمد ہوئے ان كى كيفيت مندرجہ ذيل ہے_

۱_ جب لشكر عراق ميدان جنگ سے واپس آيا تو اس كى فوج ميں سخت باہمى اختلاف پيدا ہوگيا_ چنانچہ ان ميں سے بعض كو تو ميدان كارزار ترك كرنے كا اتنا سخت افسوس وملال ہوا تھا كہ ان كے دلوں ميں ان لوگوں كے خلاف دشمنى و عداوت پيدا ہوگئي جو ميدان جنگ ترك كرانے كے اصلى محرك تھے_چنانچہ يہ دشمنى و عداوت اس حد تك پہنچى كہ بھائي بھائي سے اور بيٹا باپ سے

۲۵۹

نفرت كرنے لگا _ اور كہيں كہيں تو نوبت يہاں تك آئي كہ انہوں نے ا يك دوسرے كو خوب زد كوب كيا_ (۲۱)

۲_ اگر چہ معاويہ كا نقصان بہت زيادہ ہوا ليكن اس كے باوجود وہ عمرو عاص كى نيرنگى كے باعث اپنى سياسى حيثيت برقرار ركھنے ميں كامياب ہوگيا _ جنگ سے قبل وہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كا معزول و باغى كارگزار تھا ليكن اس معاہدے كى رو سے جو اس جنگ كے بعد كيا گيا اس كا مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام كے ہم پايہ و ہم پلہ تھا_ اور اسے سركارى سطح پر رہبر شام تسليم كرليا گيا تھا_

۳_ اگر چہ لشكر عراق ميں ايسے سپاہيوں كى تعداد كم ہى تھى جنہوں نے اس جنگ سے درس عبرت ليا اور راہ حق پر كاربند رہے ليكن اس ميں ايسے ظاہربين فوجيوں كى تعداد بہت زيادہ تھى جو منافق اور اقتدار پرست افراد كے دام فريب ميں آگئے اور انہوں نے اپنى نيز دين اسلام كى تقدير كو حيلہ گر ، نيرنگ ساز،كج انديش حكمين كے حوالے كرديا اور اپنے لئے مصائب و آلام كو دعوت دے دى _

۴_ اس جنگ كا دوسرااہم نتيجہ فتنہ و آشوب كا بيج بويا جانا تھا اور يہ در حقيقت عراقى فوج كے بعض نادان افراد كى خود سرى و ضد كا ثمرہ تھا_

چنانچہ اشعث اس معاہدے كو لے كردونوں لشكروں كے سپاہيوں كى جانب روانہ ہوا اور اس كى شرائط پڑھ كر انھيں سنائيں _ شاميوں نے سن كر خوشى كا اظہار كيا اور انہيں قبول بھى كرليا ليكن فوج عراق ميں سے بعض نے تو اس پر رضايت ظاہر كي، بعض نے مجبور انھيں پسند كيا مگر چند ايسے بھى تھے جنہوں نے سخت مخالفت كى اور معترض ہوئے_

مخالفت كى پہلى صدا طايفہ '' عَنزہ ''كى جانب سے بلند ہوئي جو چار ہزار سے زيادہ افراد پر مشتمل تھا_ اور ان ميں دو افراد نے بلند كہا لا حكم الا اللہ يعنى خدا كے علاوہ كسى كو حاكميت كا حق نہيں _ اس كے بعد وہ معاويہ كے لشكر پر حملہ آور ہوگئے مگر شہيد ہوئے_(۲۲)

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348