تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 22%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175336 / ڈاؤنلوڈ: 4064
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

دوسرے مرحلے پر '' بنى تميم'' كا نعرہ سنا گيا بلكہ اس قبيلے كے ايك فرد نے تو اشعث پر حملہ بھى كرديا_ اور كہا كہ امر خداوندى ميں افراد كو حاكم قرار ديا جاسكتا ہے ايسى صورت ميں ہمارے جوانوں كے خون كا كيا انجام ہوگا؟(۲۳)

تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ لا حكم الا للہ كا ہلہلہ و غلغلہ بيشتر سپاہيوں كے گلے سے جوش مارنے لگا_ انہوں نے اپنے گذشتہ عمل كى اس طرح اصلاح كى كہ ''حكميت'' كے لئے راضى ہوجانا در اصل ہمارى اپنى ہى لغزش تھى ليكن اپنے كئے پر ہم اب پشيمان اور توبہ كے طلب گار ہيں چنانچہ انہوں نے علىعليه‌السلام سے كہا كہ جس طرح ہم واپس آگئے ہيں آپعليه‌السلام بھى آجايئےرنہ ہم آپعليه‌السلام سے بيزار ہوجائيں گے_(۲۴)

وہ اس قدر جلد پشيمان ہوئے كہ انہوں نے پورى سنجيدگى سے يہ مطالبہ كرديا كہ معاہدہ جنگ بندى پر كاربند نہ رہا جائے_ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے آيات مباركہ و افوا بعہداللہ اذا عاہدتم و لا نتقضوا الايمان بعد توكيدہا (اللہ كے عہد كو پور كرو جب تم نے ان سے كوئي عہد باندھا ہو اور اپنى قسميں پختہ كرنے كے بعد توڑ نہ ڈالو)(۲۵) اور اوفوا بالعقود (لوگو بندشوں كى پورى پابندى كرو)(۲۶) سناكر انھيں عہد و پيمان شكنى سے باز ركھا( ۲۷)

مگر ان كى سست رائے اور متزلزل ارادے پر اس كا ذرا بھى اثر نہ ہوا جنگ كى كوفت كے آثار بھى ان كے چہرے سے زائل نہ ہوئے تھے كہ دوسرے فتنے كا بيج بوديا گيا_

سركشوں كى تشكيل و گروہ بندي

جب جنگ صفين ختم ہوگئي تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كوفہ واپس تشريف لے آئے ليكن جو لوگ سركش و باغى تھے وہ راہ ميں آپعليه‌السلام سے عليحدہ ہوگئے_ يہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اس وقت جب كہ جنگ پورى اوج پر تھى تو حضرت علىعليه‌السلام كو يہ دھمكى دى تھى كہ جنگ بندى كا اعلان كيجئے ورنہ ہم آپعليه‌السلام كو قتل كرڈاليں گے اور حكميت كا تعين ہوجانے كے بعد انہى افراد نے لا حكم الا اللہ كا نعرہ

۲۶۱

بلند كيا تھا اور ''حروراوئ''(۲۸) نامى مقام پر تقريبا بارہ ہزار افراد نے قيام كيا اور يہاں خود ايك مستقل گروہ كى شكل اختيار كرلى جہاں انہوں نے '' شبث بن ربعى '' كو اپنا فرماندار اور '' عبداللہ بن كوّاء '' كو اپنا امام جماعت مقرر كيا_(۲۹)

حضرت علىعليه‌السلام كے اصحاب نے جب اس واقعے كے بارے ميں سنا تو اس خيال كے پيش نظر كہ وہ اپنى وفادارى كا حضرت علىعليه‌السلام پر دوبارہ اظہار كريں انہوں نے آپعليه‌السلام كے ساتھ نيا عہد كيا اور وہ يہ تھا كہ دوستان علىعليه‌السلام كے ساتھ دوست اور آپعليه‌السلام كے دشمنوں كے ساتھ دشمن كا سلوك روا ركھيں _ليكن خوارج نے اس وعدہ كو كفر و گناہ سے تعبير كيا اور شيعيان علىعليه‌السلام سے كہا كہ تمہارى اور شاميوں كى مثال ان دو گھوڑوں كى سى ہے جنہيں دوڑ كے مقابلے ميں لگايا گيا ہوچنانچہ اس راہ ميں تم كفر كى جانب بڑھ گئے ہو _

حضرت علىعليه‌السلام خوارج كے درميان

جب خوارج ، حضرت علىعليه‌السلام سے عليحدہ ہوگئے تو آپعليه‌السلام نے يہ سوچ كر كہ ان كے ساتھ زيادہ نزديك سے ملاقات كى جائے اور ان كے ذھنوں ميں جو پيچيدگياں پيدا ہوگئي ہيں ان كا حل تلاش كيا جائے_ سب سے پہلے ابن عباس كو ان كے پاس بھيجا حضرت علىعليه‌السلام چونكہ انكے بارے ميں جانتے تھے كہ وہ حالات و واقعات كا تجزيہ تو نہيں كرسكتے ا لبتہ حريف كو قائل كرنے كى ان ميں غير معمولى مہارت و صلاحيت ہے اسى لئے آپعليه‌السلام نے ابن عباس سے تاكيدا يہ بات كہى كہ ان كے ساتھ گفتگو كرنے ميں عجلت نہ كريں بلكہ اس قدر توقف كريں كہ ميں ان تك پہنچ جاؤں _(۳۰)

ليكن ابن عباس جيسے ہى وہاں پہنچے انہوں نے فورا ہى بحث و گفتگو شروع كردى _ بالآخر انہوں نے بھى مجبورا اپنى زبان كھولى اور اس آيہ مباركہ) و ان خفتم شقاق بينهما فابعثوا حكما من اهله و حكما من اهلها ( (۳۱)

(اور اگر تم كو كہيں شوہر او ربيوى كے تعلقات بگڑجانے كا انديشہ ہو تو ايك حكم مرد كے رشتہ

۲۶۲

داروں ميں سے اورايك عورت كے رشتہ داروں ميں سے مقرر كرو) نيز حكم عقل كے ذريعے ثابت كرديا كہ '' حكميت '' كا تقرر شرعا جائز ہے مگر انہوں نے جواب ميں اس مرتبہ بھى وہى بات كہى جو اس سے پہلے كہتے چلے آرہے تھے_(۳۲)

ابن عباس كے چلے جانے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام بھى اس طرف روانہ ہوئے اور چونكہ يزيد بن قيس سے واقفيت تھى اس لئے آپعليه‌السلام اسى كے خيمے ميں پہنچے يہاں دو ركعت نماز ا دا كرنے كے بعد آپعليه‌السلام نے مجمع كى جانب رخ كيا اور دريافت فرمايا كہ تمہارا رہبر كون ہے؟ انہوں نے جواب ديا كہ '' ابن الكوا'' اس كے بعد آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ وہ كون سى چيز تھى جس نے تمہيں ہم سے برگشتہ كيا_ انہوں نے كہا كہ آپعليه‌السلام كى جانب سے حكميت كا تعين و تقرر اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ديا كہ حكميت كى پيشكش تمہارى جانب سے كى گئي تھي_ ميں تو اس كا سخت مخالف تھا انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے مدلل جوابات كى تائيد كرتے ہوئے اپنى اس نئي راہ و روش كى يہ توجيہ پيش كى كہ ہمارے سابقہ اعمال كفر پر مبنى تھى چنانچہ ہم نے ان سے توبہ كرلى ہے_ آپعليه‌السلام بھى تائب ہوجايئےا كہ ہم آپعليه‌السلام كے ہاتھ پر دوبارہ بيعت كرليں _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا انى ''استغفر اللہ من كل ذنب ''اس پر خوارج نے سمجھا كہ آپعليه‌السلام نے '' حكميت'' كو منظور كرنے پر توبہ كى ہے_ چنانچہ وہ سب آپعليه‌السلام كے ساتھ كوفہ چلے آئے اور بظاہر اس فتنہ و فساد كا خاتمہ ہوگيا_(۳۳)

منافقين كى تحريكات

وہ منافق و موقع پرست لوگ جو حكومت كے اقتدار اورمملكت ميں امن و امان كى فضا برداشت نہيں كرسكتے تھے جب خوارج كا گروہ واپس گيا تو مختلف قسم كى افواہيں پھيلانے لگے_ اور يہ كہنا شروع كرديا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام حكميت كے معاملے ميں پشيمان ہيں وہ اسے گمراہى تصور كرتے ہيں اور فكر ميں ہيں كہ جنگ كے امكانات پيدا ہوجائيں تا كہ دوبارہ معاويہ كى جانب

۲۶۳

روانہ ہوسكيں _ (۳۴)

يہ افواہيں معاويہ كے كانوں تك بھى پہنچيں اس نے ايك شخص كو كوفہ كى جانب روانہ كيا تا كہ اس سلسلے ميں بيشتر اطلاعات فراہم كرسكے_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو معاويہ اچھى طرح جانتا تھا يہ بھى معلوم تھا كہ حضرت علىعليه‌السلام قرآن اور اسلام كے راستے سے منحرف نہ ہوں گے اور جو عہد و پيمان انہوں نے كيا ہے اس كى وہ بھى خلاف ورزى نہ كريں گے_ ليكن شايد ظاہر كرنے كے لئے كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى حركات و سكنات كى نگرانى كر رہا تھا اسى لئے اس نے يہ اقدام كيا_

اس بارے ميں يہ بھى كہا جاسكتا ہے كہ معاويہ كو متحرك كرنے كا اصل عامل اشعث تھا _ اور وہ عہد جنگ بندى كى خلاف ورزى سے متعلق افواہوں كے بارے ميں جانتا چاہتا تھا _ كيونكہ اشعث وہ شخص تھا جو ابن ابى الحديد كے قول كے مطابق معتزلى تھا اور جن كا مقصد حضرت علىعليه‌السلام كو حكومت ميں ہر قسم كى تباہى و بربادى كو فروغ دينا تھا اور مسلمانوں كے لئے ہر طرح كى ا ضطرابى و پريشانى كا عامل بننا مقصود تھا_(۳۵) چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام نے بھى اسے منافق اور كافر بچہ كے ساتھ ياد كيا ہے_(۳۶)

اس احتمال كو جو چيز تقويت ديتى ہے وہ يہ ہے كہ جس وقت شام سے حضرت علىعليه‌السلام كے پاس پيغام پہنچا اور آپعليه‌السلام سے معاہدے كى خلاف ورزى سے اجتناب كرنے كو كہا گيا تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں وہ حاضر ہوا اور ان بہت سے لوگوں كى موجودگى ميں جوحضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر تھے كہا كہ يہ سننے ميں آيا ہے كہ آپعليه‌السلام حكميت كو گمراہى قرار ديتے ہيں اور اس پر ثابت قدم رہنا آپ كے نزديك كفر ہے_(۳۷)

افواہوں كو بے بنياد ثابت كرنے اور ان كى حقيقت كو عوام پر واضح و روشن كرنے كے لئے حضرت علىعليه‌السلام نے ضرورى سمجھا كہ مسجد ميں تشريف لے جائيں اور وہاں حاضرين سے خطاب كريں چنانچہ آپعليه‌السلام نے ارشادات عاليہ كے دوران فرمايا كہ : جس شخص كو يہ گمان ہے كہ ميں معاہدہ حكميت پر قائم نہيں ہوں تو اس نے درو غگوئي سے كام ليا ہے ا ور جو بھى مسلمان حكميت كو گمراہى كا سبب سمجھتا

۲۶۴

ہے وہ دوسروں كے مقابل خود زيادہ گمراہ ہے _(۳۸)

حضرت علىعليه‌السلام كا خطبہ ابھى ختم نہيں ہوا تھا كہ مسجد كے ايك كونے سے يہ آواز سنائي دى كہ '' اے علي تم نے ان افراد كو خدا كے دين ميں شامل كرليا '' لا حكم الا للہ اس آواز كے بلند ہونے كے ساتھ ہى مسجد كى پورى فضا لا حكم الا للہ كے نعروں سے گونجنے لگى _(۳۹)

منافقين كى تحريكات كا نتيجہ يہ برآمد ہوا كہ خوارج نہ صرف اپنى اصلى حالت پر واپس نہيں آئے بلكہ كينہ و عداوت ان كے دلوں ميں پہلے كے مقابل زيادہ گھر كرنے لگا_ چنانچہ جلسہ ختم ہوا تو لوگ گذشتہ كى نسبت اب زيادہ غم و غصہ اور نفرت كے جذبات سے لبريز شہر كے باہر روانہ ہوئے اور ا پنے خيمہ گاہوں ميں واپس آگئے_

۲۶۵

سوالا ت

۱_ اشعث جنگ بندى كے لئے كيوں بہت زيادہ كوشش كر رہا تھا اس كے مرتد ہونے كے بارے ميں آپ كيا جانتے ہيں ؟

۲_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام ابو موسى كو كن اسباب كى بنا پر منتخب كرنا نہيں چاہتے تھے_ اشعث اور اس كے حواريوں نے ان كے انتخاب پر كيوں اصرار كيا؟

۳_ صلح حديبيہ اور معاہدہ صفين كے درميان كيا باہمى ربط ہے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اس بارے ميں كيا پيشين گوئي تھي؟

۴_ جنگ صفين سے مسلمانوں نے كيا سبق سيكھا؟

۵_ جنگ صفين كے كيا نتائج پر آمد ہوئے؟ مختصر طور پر لكھيئے

۶_ جب اميرالمومنينعليه‌السلام كوفہ تشريف لے گئے تو وہ كون تھے جو آپ كے ساتھ كوفہ ميں داخل نہ ہوئے ان كى تعداد كتنى تھى ؟ انہوں نے اپنے خيمے كہاں لگائے اور ان كا پيش امام كون شخص تھا؟

۷_ خوارج جب كوفہ واپس آگئے تو انہوں نے كيا افواہيں پھيلائيں اور ان ميں كون لوگ سرگرم عمل تھے اس سلسلے ميں اشعث كياكردار رہا؟ مختصر طور پر لكھيئے؟

۲۶۶

حوالہ جات

۱_ نہج البلاغہ مكتوب ۶۳

۲_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۶۱

۳_ نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۶ سے ماخوذ

۴_ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے خطبے ميں بھى اس امر كى جانب اشارہ كيا ہے كہ عباس كو منتخب كرنے ميں كيا مصلحت تھى تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو وقعہ صفين ص ۵۰۰

۵_ ربيعہ اور مضر كا شمار عرب كے دو بڑے قبيلوں ميں ہوتا تھا يہ دونوں قبيلے نزر ابن معد بن عدنان كے فرزندان، ربيعہ اور مضر كى نسلوں سے تھے قبيلہ ربيعہ كے بيشتر لوگ يمن ميں اور مضر كے اكثر افراد حجاز ميں آباد تھے يہ دونوں قبيلے اپنے قبائلى مسائل كى بناپر ايك دوسرے كى جان كے دشمن تھے

۶_ وقعہ صفين / ۵۰۰

۷_ لا ا نصركم حتى تملكونى فملكوہ و تو جوہ كما يتوج الملك من قحطان _

۸_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱ ص ۲۹۵_۲۹۳

۹_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱ ص ۲۹۶، تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۳۸

۱۰_ وقعہ صفين ص ۵۰۲_ ۵۰۰ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۵۲_ ۵۱ _ كامل ابن ايثر جلد۳/ ۳۱۹

۱۱_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۳، وقعہ صفين / ۵۰۲

۱۲_ تاريخ طبرى ج ۵ ص ۵۲، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۱۹، وقعہ صفين ۵۰۸، الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۴

۱۳_لا تمسح اسم امرة المومنين عنك و ان قتل الناس بعضهم بعضا فانى اتخوف الا ترجع اليك ابدا

۱۴_ شرح ابن الحديد ج ۲ ص ۲۳۲، وقعہ صفين ۵۰۸، الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۴

۱۵_ يہ جملہ حضرت علىعليه‌السلام كى فرمايش كے مطابق '' سنة بسنة'' نقل كيا گيا ہے_

۱۶_فاليوم اكتبها الى ابنائهم كما كتبها رسول الله الى ابائهم سنة و مثلا وقعہ صفين ۵۰۸، شرح ابن ابى ا لحديد ج ۲ ص ۲۳۲، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۵۲

۱۷_ وقعہ صفين ص ۵۰۵_ ۵۰۴، الاماميہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۵، كامل ابن اثيرج ۳ ص ۳۲۰

۲۶۷

۱۸_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۴_ ۳۹۳

۱۹_ ايضاً

۲۰_ وقعہ صفين ۵۱۱

۲۱_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۴

۲۲_ وقعہ صفين ۵۱۳_ ۵۱۲

۲۳_ ايضاً

۲۴_ وقعہ صفين ۵۱۶_ / ۵۱۳

۲۵_ سورہ نحل آيت ۹۰

۲۶_ سورہ مائدہ آيت ۱

۲۷_ حروراء ۲۰۰جگہ كوفہ سے تقريبا نصف فرسخ كے فاصلے پر واقع تھى اور چونكہ انہوں نے يہاں قيام كيا تھا اسى لئے وہ '' حروريہ'' كہلائے جانے لگے_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۲۹۱

۲۸_ كامل ابن اثير ج ۳ ۳۲۶، مروج الذہب ج ۲ ۳۹۵

۲۹_ كامل ابن اثير ج ۳، ۳۲۷

۳۰_ سورہ نساء آيہ ۳۵، ابن عباس كى دليل يہ تھى كہ جب خداوند تعالى نے ايك خاندان كى اصلاح كيلئے ايك منصف ثالث كو لازم قرار ديا ہے تو يہ كيسے ممكن ہے كہ اس كا اطلاق اس عظيم امت پر نہ ہو_

۳۱_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۲۷

۳۲_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۹۱، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۲۸،عقد الفريد ج ۲ ص ۳۸۸

۳۳_سيرة الائمہ الانثى عشر ج ۱ /۴۸۹

۳۴_كل فساد كان فى خلافة على عليه السلام و كل اضطراب حدث فاصله الاشعث ، شرح نہج البلاغہ ج ۲ ص ۲۷۹

۳۵_ عليك لعنة اللہ و لعنة اللاعنين حائك بن حائك منافق بن كافر نہج البلاغہ ج ۱۹

۳۶_ سيرة الائمہ الاثنى عشر ج ۱ / ۴۹۸، شرح نہج البلاغہ علامہ خوئي ج ۴ ص ۱۲۶

۳۷_ سيرة الائمہ الاثنى عشر ج ۱ ص ۴۸۹

۳۸_ شرح نہج البلاغہ ، علامہ خوئي ج ۱ ص ۱۲۷

۲۶۸

چودھواں سبق

مارقين _ حكميت كا نتيجہ و رد عمل

منصفين كا اجتماع

حكميت كا نتيجہ اور اس كا رد عمل

مارقين

خوارج كے مقابل حضرت علىعليه‌السلام كا موقف

منشور

مجموعى نعرہ

بغاوت

معاويہ سے جنگ

خوارج كے ساتھ جنگ كى ضرورت

جنگ كا سد باب كرنے كى كوشش

سوالات

حوالہ جات

۲۶۹

منصفين كا اجتماع

معاويہ نے جب يہ ديكھا كہ حكميت كے معاملے ميں عراقى فوج كى كثير تعداد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام برگشتہ ہوگئي ہے تو اس نے يہ كوشش شروع كردى كہ جس قدر جلد ہوسكے حكميت كا نتيجہ اس كى مرضى كے مطابق برآمد ہوجائے_اس مقصد كے تحت اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف سركشى و شورش كا محاذ قائم كرديا تا كہ وہ اپنے سياسى موقف كو قائم كرسكے_

چنانچہ اس ارادے كے تحت اس نے جونمائندے حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں بھيجے انھيں ہدايت كردى كہ جس قد رجلد ممكن ہوسكے منصفين اپنا كام شروع كرديں _

بلاخرہ ۳۸ ھ چار سو افراد كے ہمراہ دو نمائندہ وفد '' دومة الجندل(۱) '' نامى مقام پر جمع ہوئے_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے جو وفد بھيجا گيا تھا اس كى سرپرستى كے فرائض ابن عباس انجام دے رہے تھے_(۲)

جس وقت يہ وفد روانہ ہونے لگا تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے بعض اصحاب نے ابوموسى كو كچھ ضرورى ہدايات بھى كيں(۳) جن كا ان پر ذرا بھى اثر نہ ہوا_ جس وقت اُسے مشورے ديئےارہے تھے تو وہ مسلسل اپنے داماد عبداللہ ابن عمر كى جانب ديكھ رہا تھا اور يہ كہہ رہا تھا كہ : خدا كى قسم اگر ميرا بس چل سكا تو عمر كى راہ و رسم كو از سرنو زندہ كروں گا_(۴)

عمر و عاص كى جيسے ہى ابوموسى سے ملاقات ہوئي تو وہ اس كے ساتھ نہايت عزت و احترام كى ساتھ پيش آيا اور اس بات كى كوشش كرنے لگا كہ اسے اپنا ہم خيال بنالے ابتدائي مراحل انجام دينے كے بعد وہ دونوں مشاورت كے لئے بيٹھ گئے اور باقى افراد دو جانب كھڑے اس گفتگو كا انتظار كرنے لگے_

۲۷۰

شام كاوفد خاص نظم و ضبط كے ساتھ آيا تھا ملاقاتوں اور گفتگو ميں ا حتياط كا عنصر غالب تھا اسى اثناء ميں معاويہ نے عمروعاص كو خط لكھا جس كے مضمون كى اطلاع اس كے علاوہ كسى كو نہ ہوئي اس كے برعكس عراقى وفد كے اراكين احتياط سے دور شور و غوغا بپا كئے ہوئے تھے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے بھى ابن عباس كو خط لكھا ابھى قاصد اونٹ سے اترا بھى نہيں تھا كہ لوگ اس كے گرد جمع ہوگئے_ اور پوچھنے لگے كہ خط ميں كيا لكھا گيا ہے يہى كام انہوں نے ابن عباس كے پاس پہنچ كر كيا ليكن جب انہوں نے خط كے مضمون كو ان سے پوشيدہ ركھنا چاہا تو لوگ ان كے بارے ميں بدگمانى كرنے لگے اور ان كے بارے ميں چرچے ہونے لگے يہاں تك كہ ابن عباس كو ان كى حماقت و ضد پر غصہ آگيا انہوں نے سرزنش كرتے ہوئے درشت لہجے ميں كہا كہ : ا فسوس تمہارى حالت پر تمہيں كب عقل آئے گى ديكھتے نہيں ہو كہ معاويہ كا قاصد آتا ہے اور كسى كو يہ تك معلوم نہيں ہوتا كہ كيا پيغام لے كر آيا ہے وہ اپنى بات كو ہوا تك لگنے نہيں ديتے اور ايك تم ہو كہ ميرے بارے ميں ہر وقت بدگمانى كرتے رہتے ہو _(۵)

حكميت كا نتيجہ اوراس كا رد عمل

منصفين كے درميان بحث و گفتگو تقريبا دو ماہ تك جارى رہى مذاكرات كے دوران ابوموسى كى يہ كوشش رہى كہ عمروعاص امور خلافت كو عبداللہ ابن عمر كى تحويل ميں دے دے دوسرى طرف عمروعاص معاويہ كى تعريف كے پل باندھے چلا رہا تھا اور اسے عثمان كا ولى و جانشين كہتے اس كى زبان نہيں تھكتى تھى _ وہ يہ كوشش كر رہا تھا كہ كس طرح ابوموسى كو قائل كر لے اور يہ كہنے پر مجبور كرے كہ خلافت اسى كا حصہ ہے_

بلاخر نتيجہ يہ بر آمد ہوا كہ فريقين نے اس بات پر اتفاق كيا كہ ''حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ دونوں ہى خلافت سے دست بردار ہوجائيں اور امور خلافت كو مشاورت كى صوابديد پر چھوڑديں اس موافقت كے بعد اعلان كيا گيا كہ لوگ حكميت كا نتيجہ سننے كے لئے جمع ہوجائيں _

۲۷۱

جب لوگ جمع ہوگئے تو ابوموسى نے عمروعاص كى جانب رخ كيا اور كہا كہ منبر پر چڑھ كر اپنى رائے كا اعلان كردو عمروعاص تو اول دن سے ہى اس بات كا متمنى تھا اور اسى لئے وہ ابوموسى كى تعريف و خوشامد كرتا رہتا تھا مگر اس نے استعجاب كرتے ہوئے كہا كہ : سبحان اللہ حاشا و كلا كہ يہ جسارت كروں اور آپ كى موجودگى ميں منبر پر قدم ركھوں ، خداوند تعالى نے ايمان و ہجرت ميں آپ كو مجھ پر فوقيت عطا كى ہے آپ اہل يمن كى طرف سے نمائندہ بن كر رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں حاضر ہوچكے ہيں اور پھررسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب سے آپ ہى نمائندہ بناكر يمن كے لوگوں كے پاس بھيجے گئے تھے اس كے علاوہ سن و سال ميں آپ مجھ سے بڑے ہيں اس بناپر آپ ہى گفتگو شروع كريں(۶)

ابوموسى گفتگو شروع ہى كرنا چاہتا تھا كہ ابن عباس نے كہا كہ عمروعاص تمہيں دام فريب ميں لانے كى فكر ميں ہے گفتگو كا آغاز اسے ہى كرنے دو كيونكہ وہ بہت عيار اور نيرنگ ساز آدمى ہے مجھے يقين نہيں كہ جس چيز پر اس نے اپنى رضايت ظاہر كى ہے اس پر وہ عمل بھى كرے_

ليكن ابوموسى نے ابن عباس كى نصيحت پر عمل نہيں كيا اور اس نيك مشورے كے باوجود وہ منبرپر چڑھ گيا اور اعلان كيا كہ ہم نے اس امت كے امور پر غور كيا اور ا س نتيجہ پر پہنچے كہ وحدت نظر سے بڑھ كر ايسى كوئي شي نہيں جو اس در ہم برہم حالت كى اصلاح كرسكے_ چنانچہ ميں نے اور ميرے حريف ساتھى '' عمرو'' نے اس بات پر اتفاق كيا ہے كہ علىعليه‌السلام اور معاويہ دونوں ہى خلافت سے دستبردار ہوجائيں اور اس معاملے كو مسلمانوں كى مجلس مشاورت كى تحويل ميں دے ديا جائے تا كہ جس شخص كو يہ مجلس مشاورت پسند كرے اسے ہى منصب خلافت پر فائز كيا جائے_

اس كے بعد اس نے پر وقار لہجے ميں كہا كہ ميں نے علىعليه‌السلام اور معاويہ كو خلافت سے برطرف كيا_

اس كے بعد عمروعاص منبر پر گيا اور اس نے بآواز بلند كہا كہ لوگو تم نے اس شخص كى باتيں سن ليں ميں بھى علىعليه‌السلام كو ان كے مقام سے برطرف كرتا ہوں ليكن اپنے دوست معاويہ كو اس منصب پر مقرر كرتا ہوں كيونكہ انہوں نے عثمان كے خون كا بدلہ ليا ہے اوراس منصب كے لئے وہ مناسب

۲۷۲

ترين شخص ہے يہ كہہ كر وہ منبر سے نيچے اتر آيا_

مجلس ميں ايك دم شور و ہيجان بپا ہوگيا لوگ طيش ميں آكر ابوموسى پر پل پڑے بعض نے عمروعاص پر تازيانہ تك اٹھاليا ابوموسى نے شكست كھائے ہوئے انسان كى طرح اپنے خيانت كار حريف كى اس حركت پر اعتراض كيا تجھے يہ كيا سوجھي؟ خدا تجھے نيك توفيق نہ دے تو نے خيانت كى ہے اور گناہ كا مرتكب ہوا ہے تيرى حالت كتے جيسى ہى ہے اسے چاہے مارا جائے يا چھوڑديا جائے وہ ہر حالت ميں بھونكتا ہى رہتا ہے اس پر عمرو نے جواب ميں كہا كہ تيرى حالت اس گدھے كى سى ہے جس پر كتابيں لدى ہوئي ہيں _(۷)

حكميت كا معاملہ اس تلخ انجام كے ساتھ اختتام پذير ہوا ابوموسى جان كے خوف سے فرار ركر كے مكہ چلا گيا عمروعاص فاتح كى حيثيت سے شام كى جانب روانہ ہوا اور اس نے معاويہ كو خليفہ كى حيثيت سے سلام كيا_

حكميت سے جو نتيجہ بر آمد ہوا اس نے عراق كے لوگوں كى ذہنى كيفيت كو برى طرح متاثر و مجروح كيا كيونكہ ايك طرف تو خوارج كا غم و غصہ پہلے كى نسبت اب كہيں زيادہ بڑھ گيا تھا كہ جس كا سبب يہ تھا كہ انھيں اميد تھى كہ امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام معاہدے كے منسوخ كرنے پر راضى ہوجائيں گے اور معاويہ كے خلاف اعلان جنگ كرديا جائے گا دوسرى طرف جب يہ افسوسناك خبر كوفہ و بصرہ كے لوگوں تك پہنچى كہ حضرت علىعليه‌السلام خلافت سے برطرف كرديئے گے وہيں تو مسلمانوں كےدرميان اختلافات بہت زيادہ تير كے آورد ان كى خليج كافى وسيع ہوتى چلى گئي چنانچہ نوبت يہاں تك پہنچى كہ ايك دوسرے كو بر ملا سخت و ست كہنے لگے_

امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام نے لوگوں كے درميان رفع اختلاف ، حزن و ملال كے آثار ميں كمى اور مسئلہ حكميت كے بارے ميں رائے عامہ روشن كرنے كى خاطر اپنے فرزند حضرت حسن مجتبيعليه‌السلام كو حكم ديا كہ وہ عوام كے سامنے جا كر تقرير كريں _

حضرت امام حسنعليه‌السلام منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا لوگو حكمين كے بارے ميں تم بہت زيادہ

۲۷۳

گفتگو كرچكے ہو ان كا انتخاب اس لئے عمل ميں آيا تھا كہ وہ قرآن كى بنياد پر حكم كريں گے مگر ہوائے نفسانى كى پيروى كرنے كى وجہ سے انہوں نے فيصلہ قرآن كے برخلاف كيا ہے اس بنا پر انھيں حكم نہيں كہا جا سكتا بلكہ وہ محكوم كہلائے جانے كے مستحق ہيں _

ابو موسى جو عبداللہ بن عمر كا نام تجويز كر چكا تھا تين اعتبار سے لغزش و خطا كا مرتكب ہوا_

اس كى پہلى لغزش تو يہى تھى كہ اس نے اس كے خلاف عمل كيا جو عمر نے كہا تھا عمر چونكہ اسے خلافت كا اہل نہيں سمجھتے تھے اسى لئے انہوں نے اس كو مجلس مشاورت كاركن بھى قرار نہيں ديا تھا_

دوسرى لغزش ان كى يہ تھى كہ انہوں نے يہ فيصلہ عبداللہ سے مشورہ كئے بغير كيا اور انھيں يہ معلوم نہيں تھا كہ وہ اس پر رضامند ہوں گے يا نہيں _

تيسرى لغزش يہ تھى كہ عبداللہ اس حيثيت سے ايسا انسان نہيں تھا جس كے بارے ميں مہاجرين و انصار كا اتفاق رائے ہوتا_

اب رہى مسئلہ حكميت كى اصل (تو كوئي نئي بات نہيں كيونكہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غزوات كے دوران اس پر عمل كرچكے ہيں ) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طائفہ '' بنى قريظہ'' كے بارے ميں سَعد بن معاذ كو حكم قرار ديا تھا اور چونكہ حكميت رضائے خداوندى كے خلاف تھى اس لئے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس پر راضى نہ ہوئے _

حضرت امام حسنعليه‌السلام كے بعد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے فرمانے پر عبداللہ بن جعفر اپنى جگہ سے اٹھے اور عامہ كو مطلع كرنے كى غرض سے انہوں نے تقرير كي(۸)

ج) مارقين

خوارج كے مقابل حضرت علىعليه‌السلام كا موقف(۹)

حكميت كے معاملے ميں شكست سے دوچار ہو كر اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام معاويہ سے جنگ كرنے كى غرض سے اپنے آپ كو آمادہ كرنا شروع كيا تا كہ مقرر مدّت ختم ہوجانے كے بعد صفين كى جانب واپس چلے جائيں ليكن خوارج نے حضرت علىعليه‌السلام كى اطاعت كرنے كى بجائے شورش و

۲۷۴

سركشى سے كام ليا اور پہلے كى طرح اس مرتبہ بھى نعرہ لا حكم الا اللہ كى بنياد پر اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام اور معاويہ كو وہ كافر كہنے لگے_

انھيں جب بھى موقع ملتا وہ شہر كوفہ ميں داخل ہوجاتے اور جس وقت حضرت علىعليه‌السلام مسجد ميں تشريف فرما ہوتے تو وہ اپنا وہى پرانا نعرہ لگانے لگتے اس كے ساتھ ہى انہوں نے اس شہر ميں اپنے افكار و نظريات كا پرچار بھى شروع كرديا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے خاموش و پر سكون رہ كر اور كوئي رد عمل ظاہر كئے بغير اپنى تحريك كو جارى ركھا وہ ان كے ساتھ انتہائي نرمى اور تواضع كے ساتھ پيش آئے اگر چہ حضرت علىعليه‌السلام چاہتے تو ان لوگوں سے كسى بھى قسم كا سلوك روا ركھ سكتے تھے مگر آپعليه‌السلام نے ان كى تمام افترا پردازيوں اور سياسى سرگرميوں كے باوجود اپنے محبت آميز رويے ميں ذرہ برابر بھى تبديلى نہ آنے دى آپعليه‌السلام ان سے اكثر فرماتے كہ '' تمہارے تين مسلم حقوق ہمارے پاس محفوظ ہيں :

۱_ شہر كى جامع مسجد ميں نماز پڑھنے اور اجتماعات ميں شركت كرنے سے تمہيں ہرگز منع نہيں كيا جائے گا_

۲_ جب تك تم لوگ ہمارے ساتھ ہو بيت المال سے تمہيں تنخواہيں ملتى رہيں گي_

۳_ جب تك تم ہم پر تلوار اٹھاؤ گے ہم تمہارے ساتھ ہرگز جنگ كے لئے اقدام نہ كريں گے(۱۰)

خوارج اگر چہ نماز ميں حضرت علىعليه‌السلام كى پيروى نہيں كرتے تھے مگر اجتماع نماز كے وقت ضرور پہنچ جاتے وہ لوگ اس جگہ نعرے لگا كر اور دوسرے طريقوں سے آپعليه‌السلام كو پريشان كركے آزار پہنچانے كى كوشش كرتے رہتے ايك دن جس وقت حضرت علىعليه‌السلام نماز ميں قيام كى حالت ميں تھے خوارج ميں سے ايك شخص نے جس كا نام ''كوا'' تھا بآواز بلند يہ آيت پڑھي:

) و لقد اوحى اليك والى الذين من قبلك لئن اشركت ليحبطن عملك و لتكونن من الخاسرين ( (۱۱)

۲۷۵

(اس آيت ميں خطاب پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كيا گيا ہے كہ : اے نبى ان سے كہو' پھر كيا اے جاہلو تم اللہ كے سوا كسى اور كى بندگى كرنے كےلئے مجھ سے كہتے ہو(يہ بات ہميں ان سے صاف كہہ دينى چاہيئے كيونكہ) تمہارى طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبياء كى طرف يہ وحى بھيجى جاچكى ہے_ اگر تم نے شرك كيا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا اور تم خسارے ميں رہوگے)

'' ابن كوا'' يہ آيت پڑھ كرچاھتا تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو اشارہ و كنايہ ميں يہ بتا دے كہ آپ نے عہد گذشتہ ميں جو اسلام كے لئے خدمات انجام دى ہيں ان سے ہرچند انكار نہيں كيا جاسكتا ليكن آپعليه‌السلام نے كفر كے باعث اپنے تمام گذشتہ اعمال كو تلف و ضائع كرديا ہے_

حضرت علىعليه‌السلام خاموش رہے اور جب يہ آيت پورى پڑھى جا چكى تو آپ نے نماز شروع كى '' ابن كوا'' نے دوسرى مرتبہ يہ آيت پڑھى حضرت علىعليه‌السلام اس مرتبہ بھى خاموش رہے چنانچہ جب وہ يہ آيت كئي بارپڑھ چكا اور چاہتا تھا كہ نماز ميں خلل انداز ہو تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے يہ آيت تلاوت فرمائي

فاصبر ان وعد الله حق و لا يستخفنك الذين لا يوقنون (۱۲) (پس اے نبى صبر كرو يقينا اللہ كا وعدہ سچا ہے اور ہرگز ہلكانہ پائيں تم كہ وہ لوگ جو يقين نہيں كرتے) اور آپ نے اس كى جانب توجہ و اعتنا كئے بغير نماز جارى ركھي_(۱۳)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كا طرز عمل يہ تھا كہ آپ لوگوں كى نعرہ بازى اور نكتہ چينى كا جواب منطقى نيز واضح و روشن دلائل سے ديتے تا كہ وہ اپنى ذھنى لغزش كى جانب متوجہ ہو سكيں اور آپعليه‌السلام كو پريشان كرنے سے باز رہيں اسى لئے آپعليه‌السلام فرماتے كہ اگر خوارج خاموش رہتے ہيں تو ہم انھيں اپنى جماعت كا جزو ركن سمجھتے ہيں اگر وہ اعتراض كيلئے لب كشائي كرتے ہيں تو ہم ان كا مقابلہ منطق و دليل سے كرتے ہيں اور وہ ہمارے ساتھ ضد پر اتر آئيں تو ہم ان سے نبرد آزمائي كرتے ہيں _(۱۴)

۲۷۶

منشور

خوارج نے ايك خاص انداز فكر كى بنياد پر اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف شورش و سركشى كى ان كے اس دائرہ عمل ميں مندرجہ ذيل نكات شامل تھے_

۱_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام معاويہ ،اور عثمان، اصحاب جمل اور حكميت سے متفق و ہم خيال اشخاص نيز ان افراد كو كافر تصور نہ كرنے والے لوگ اور مذكورہ بالا افراد سے وابستہ گروہ سب كے سب كافر ہيں _

۲_ امر بالمعروف و نہى از منكر كى بنياد پر ظالم و ستمگر خليفہ وقت (اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كےخلاف بلاقيد و شرط شورش كرنا ضرورى ہے كيونكہ ان كى رائے ميں اس كا اطلاق كسى شرط و پابندى كے بغير ہرجگہ ضرورى و لازمى امر تھا _

۳_ مسئلہ خلافت كا حل مجلس مشاورت كے ذريعے كيا جانا چاہئے اور اس مقام كو حاصل كرنے كيلئے ان كى دانست ميں واحد شرط يہ تھى كہ آدمى صاحب تقوى و ايمان ہو اور اگر خليفہ انتخاب كے بعد اسلامى معاشرے كى مصلحتوں كے برخلاف كوئي اقدام كرے تو اسے اس عہدے سے معزول كرديا جائے اور اگر وہ اپنے منصب سے دست بردار نہ ہو تو اس سے جنگ ونبرد كى جانى چاھيئے_(۱۵)

اس منشور كى بنياد پر وہ ابوبكر اور عمر كى خلافت كو صحيح سمجھتے تھے كيونكہ ان كى رائے ميں يہ حضرات صحيح انتخاب كے ذريعے عہدہ خلافت پر فائز ہوئے تھے اور وہ مسلمانوں كى خير و صلاح كى راہ سے منحرف نہ ہوئے تھے عثمان اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے انتخاب كو اگر چہ وہ ہر چند درست ہى سمجھتے تھے مگر اس كے ساتھ وہ يہ بھى كہتے تھے كہ عثمان نے اپنى خلافت كے چھٹے سال سے اپنے رويے كو بدلنا شروع كرديا تھا اسى لئے وہ خلافت سے اگر چہ معزول كرديئے گئے تھے مگر وہ چونكہ اپنے اس منصب پر فائز رہے اسى لئے وہ كافر اور واجب القتل تھے علىعليه‌السلام نے بھى چونكہ حكميت كو تسليم كرليا تھا اور اس اقدام پر پشيمان ہو كرا انہوںعليه‌السلام نے توبہ نہيں كى تھى اسى لئے وہ كافر اور واجب القتل ہيں (معاذ اللہ(۱۶)

۲۷۷

مجموعى نعرہ

خوارج كا انتہائي اہم اور پر جوش ترين نعرہ لا حكم الا للہ تھا اگر چہ يہ نعرہ انہوں نے قرآن مجيد سے ہى اخذ كيا تھا(۱۷) مگر عدم واقفيت اور فكرى جمود كے باعث اس كى وہ صحيح تفسير نہ كرسكے_

مذكورہ آيہ مباركہ ميں '' حكم'' سے مراد قانون ہے مگر خوارج نے اپنى كج فہمى كى بنا پر اس كے معنى '' رہبري'' سمجھ لئے جس ميں حكميت بھى شامل ہے وہ اس بات سے بے خبر رہے كہ خود قرآن نے ان كى كج فہمى كو رد كيا ہے جب قرآن نے بيوى و شوہر كے اختلاف اور حالت احرام ميں(۱۸) شكار كرنے تك مسائل كے بارے ميں انسانوں كو حكميت كا حق ديا ہے تو يہ كيسے ممكن تھا كہ مسلمانوں كے دو گروہ كے درميان ايسے حساس معاملات اور عظيم اختلافات كے بارے ميں انسانوں كو حق حكميت نہ ديا جاتا جس سے بعض انسانى زندگيوں كى نجات بھى وابستہ ہو_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ان لوگوں كى اطلاع كے لئے جو خوارج كا پروپيگنڈا بالخصوص اس دلكش نعرے سے متاثر ہوگئے تھے موثر تقرير كى اس ميں آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ اگر چہ يہ بات مبنى بر حقيقت ہے مگر اس سے جو مقصد و ارادہ اخذ كياگيا ہے وہ محض باطل ہے اس ميں شك نہيں كہ حكم خدا كيلئے ہى مخصوص ہے ليكن ان لوگوں نے حكم كى جو تفسير كى ہے اس سے مراد فرمانروا ہے اور ان كا كہنا ہے كہ خدا كے علاوہ كسى فرمانروا كا وجود نہيں در حاليكہ انسانوں كيلئے خواہ اچھے كام انجام ديتے ہوں يا برے ' فرمانروا كا وجوود امر ناگزير ہے(۱۹)

بغاوت

خوارج ابتدا ميں بہت امن پسند تھے اور صرف لوگوں پر تنقيد و اعتراض ہى كيا كرتے تھے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ ان كا رويہ وہ تھا جو اوپر بيان كيا جا چكا ہے مگر آہستہ آہستہ انہوں نے اپنى راہ و روش بدلى چنانچہ نوبت يہاں تك پہنچى كہ شورش و سركشى پر اتر آئے ايك روز عبداللہ

۲۷۸

بن وہب راہبى نے انھيں اپنے گھر پر جمع ہونے كى دعوت دى اور ان كے سامنے نہايت ہى پر جوش و لولہ انگيز تقرير كے ذريعے انہوں نے اپنے ہم مسلك لوگوں كو شورش و سركشى پر آمادہ كيااس ضمن ميں اس نے كہا كہ بھائيو اس جور و ستم كى نگرى سے نكل كر اچھا تو يہى ہے كہ پہاڑوں ميں جاكر آباد ہو رہيں تا كہ وہاں سے ہم ان گمراہ كن بدعتوں كا مقابلہ كركے ان كا قطع قمع كرسكيں _(۲۰)

اس كے بعد ''حر قرص بن زہير'' نے تقرير كى ان دونوں كى تقارير نے خوارج كے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر كيا اور ان ميں پہلے كى نسبت اب زيادہ جو ش و خروش پيدا ہونے لگا اگلا جلسہ '' ذفر بن حصين طائي'' كے گھر پر ہوا اس نے مفصل تقرير كے بعد كہا كہ ميں اپنے نظريئےيں دوسروں كى نسبت زيادہ محكم و پايدار ہوں اگر ايك شخص اس سلسلے ميں ميرا ساتھ نہ دے تو ميں اكيلا ہى شورش و سركشى كروں گا _ اے بھائيو تم اپنے چہروں اور پيشانيوں پر شمشير كى ضربيں لگاؤ تا كہ خدا ئے رحمن كى اطاعت ہوسكے(۲۱) اس كے بعد اس نے يہ تجويز پيش كى كہ بصرہ كے خوارج كو خط لكھا جائے تا كہ جس قدر جلد ممكن ہوسكے وہ ''نہروان'' ميں ان سے آن مليں اہل بصرہ نے مثبت جواب ديا اور كوفہ كے گروہ كے ساتھ آكر مل گئے(۲۲)

خوارج نے اپنى تحريك كوفہ كے باہر راہزنى اور ناكہ بندى كے ذريعے شروع كى _ قتل و غارتگرى كو انہوں نے اپنا شعار بنايا اور جو لوگ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے حامى و طرفدار تھے ان كے ساتھ وہ دہشت پسندانہ سلوك كرنے لگے_

اس اثناء ميں انھيں دو شخص نظر آئے ان ميں سے ايك مسلمان تھا ا ور دوسرا عيسائي ، عيسائي كو تو انہوں نے چھوڑ ديا مگر مسلمان كو اس جرم ميں قتل كرديا كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كا طرفدار ہے_(۲۳)

عبداللہ بن خباب سربرآوردہ شخص اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے كار پرداز تھے وہ اپنى زوجہ كے ساتھ جار ہے تھے كہ خوارج سامنے سے آگئے ان كو ديكھتے ہى انہوں نے كہنا شروع كيا كہ : '' اسى قرآن نے جو تيرى گردن ميں حمايل ہے تيرے قتل كا حكم صادر كيا ہے '' قتل كرنے سے پہلے

۲۷۹

ان سے كہا گيا اپنے والد كے واسطہ سے پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حديث نقل كرو اُنہوں نے كہا ''ميرے باپ كہتے تھے كہ ميں نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے كہ ميرے بعد كچھ عرصہ نہ گذرے گا كہ فتنہ و فساد كى لہريں ہر طرف پھيل جائيں گى اس وقت بعض لوگوں كے دل حقيقت كو سمجھنے سے قاصر رہيں گے اور وہ اسى طرح مردہ ہوجائيں گے جيسے انسانى جسم ايسے وقت ميں بعض افراد رات كے وقت مومن ہوں گے ليكن دن كے وقت كافر اس وقت تم خدا كے نزديك مقتول بن كر رہ لينا(حق كى پاسبانى كرنا اس كام ميں چاھے تمہارى جان پر بن جائے) مگر قتل و خونريزى سے گريز كرنا(۲۴)

عبداللہ نے حديث بيان كر كے اس وقت مسلمانوں ميں جو معاشرہ كار فرما تھا اس كى تصوير كشى كردى تا كہ خوارج اس سے پند و نصيحت لے سكيں ليكن انہوں نے ان كے ہاتھ پير اس برى طرح جكڑے كہ ديكھنے والے كے دل پر رقت طارى ہوتى تھى اور بہت زيادہ شكنجہ كشى اور آزار رسانى كے بعد انھيں نہر كے كنارے لے گئے جہاں انہوں نے انھيں بھيڑ كى مانند ذبح كيا ان كى حاملہ زوجہ كو قتل كرنے كے بعد ان كا شكم چاك كيا اور نارسيدہ بچے كو بھى انہوں نے ذبح كر ڈالا(۲۵)

عبداللہ كا قتل جس بے رحمى سے كيا گيا تھا اس پر ايك عيسائي شخص معترض ہوا وہ باغبان تھا اس وضع و كيفيت كو ديكھ كر وہ كچھ كھجوريں لے گيا اور قاتلوں كو پيش كيں جنہيں بغير قيمت ادا كئے انہوں نے قبول كرنے سے انكار كرديا اس پرعيسائي نے كہا كہ عجيب بات ہے كہ تم عبداللہ جيسے بے گناہ شخص كو قتل كرسكتے ہو اور بغير قيمت ادا كيے كھجوريں كھانے ميں تمہيں عذر ہے_(۲۶)

معاويہ سے جنگ

حكميت كى مدت اسى وقت ختم ہوئي جب كوفہ و بصرہ ميں خوارج جمع ہو رہے تھے مذكورہ مدت كے ختم ہوجانے كے بعد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے حَرُوراء ميں معاويہ سے جنگ كرنے كا فيصلہ كيا چنانچہ شہر ميں آمادہ رہنے كا اعلان كرديا گيا اس كے بعد آپ نے لوگوں كو جہاد كى جانب

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

فتنہ خريت

خوارج كے تباہ كن و خطرناك عقائد ان لوگوں كے دلوں ميں جو ذہنى طور پر فرسودہ و ناكارہ ہوچكے تھے اور اس كج رفتارى كيلئے آمادہ تھے بتدريج قوت پانے لگے اور ان كى وجہ سے اسلامى معاشرے كے لئے وہ نئي مشكل پيدا ہوگئي جس كا ذكر ذيل ميں آئے گا_

'' خريت بن راشد''(۲۱) بہت سرسخت خوارج ميں سے تھا جب حكميت كے نتيجے كا اعلان كيا گيا تو وہ اپنے حواريوں كوساتھ لے كر حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا اور كہنے لگا كہ اس كے بعد مجھ سے آپعليه‌السلام كى اطاعت و فرمانبردارى نہ ہوسكے گى ميں آپعليه‌السلام كے پيچھے نماز بھى ادانہ كروں گا اور كل ميں آپ سے عليحدہ ہوجاؤں گا _

اپنے اس فيصلے كا محرك وہ مسئلہ حكميت كو سمجھتا تھا حضرت علىعليه‌السلام نے اس كو جواب دينے ميں نرم رويہ اختيار كيا اور اسے پند و نصيحت كرنے كے بعد فرمايا : كہ وہ حكميت كے بارے ميں چاہيں تو بحث و گفتگو كرسكتے ہيں اس وقت تو اس نے گفتگو كرنا مناسب نہ سمجھاالبتہ اگلے دن كا وعدہ كر كے چلا گيا مگر رات كے وقت وہ اپنے حواريوں كو ساتھ لے كر فرار كرگيا_

اور ديگر خوارج كى طرح دہشت پسندى اور غارتگرى شروع كردى چنانچہ راہ ميں اسے جتنے بھى كينہ پرور و عناد پسند لوگ ملے وہ اس كے ہمراہ ہوگئے وہ مدائن پہنچ گيا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام '' زياد بن خصفہ'' كو ان كا تعاقب كرنے كے لئے روانہ كيا اور مختلف شہروں ميں اپنے كار پردازوں كو بھى لكھا تا كہ وہ ان علاقوں ميں جو ان كے زير فرمان ہيں ان كى تلاش و جستجو كے لئے اپنے كارندے مقرر كريں اور اس كے نتائج سے آپ كو مطلع و باخبر كرتے رہيں(۲۲) _

حضرت علىعليه‌السلام كے ''قرظہ بن كعب نامى '' كارپرداز نے اسے اپنى حراست ميں لے ليا اور اس واقعے كى حضرت علىعليه‌السلام كو اطلاع كى حضرت علىعليه‌السلام نے زياد كو اس بارے ميں مطلع كيا اور حكم ديا كہ اسے ميرے پاس روانہ كردو اگر وہ آنے سے انكار كرے تو ان كے ساتھ جنگ كرو كيونكہ اس نے نيز

۳۲۱

اس كے حواريوں نے حق كو پس پشت ڈال كر لوگوں كا ناحق خون بہلايا ہے اور راستوں ميں بد امنى پھيلا ركھى ہے_(۲۳)

زياد ا ور خريت ايك دوسرے كے مقابل آئے دونوں كے درميان گفتگو اور سوال و جواب ہوئے خريت اپنے عقيدے ميں پابر جاتھا دونوں كے درميان سخت جنگ ہوئي اور ان كے بيشتر افراد كارى زخموں كے باعث مجروح ہوئے جب رات ہوگئي تو خريت فرار كر كے اہواز كى سمت چلاگيا اور زيادہ واپس بصرہ تشريف لے آئے_

اہواز ميں بہت سے راہزن ، اس كے ہم عقيدہ عرب اور سطحى مسلمان جو اس كى تحريك كو دين پر ضرب لگانے، خراج ادا نہ كرنے اور قانون كى ہر قيد و بند سے خارج ہونے كا ذريعہ و وسيلہ سمجھتے تھے اس كے گرد جمع ہوگئے_

حضرت علىعليه‌السلام كو جب ان واقعات كى اطلاع ملى تو آپعليه‌السلام نے '' معقل بن قيس '' كو ايك ہزار افراد كے ہمراہ جنگ كرنے كے لئے بھيجا آپعليه‌السلام نے صوبہ دار بصرہ حضرت عبداللہ بن عباس كو بھى لكھا كو دو ہزار افراد كے ساتھ كسى دلير و بہادر نيز راستباز شخص كو روانہ كريں تا كہ وہ حضرت معقل كے ساتھ مل كر جنگ كر سكے اس كے ساتھ ہى آپعليه‌السلام نے زياد اور ان كے ہم قبيلہ لوگوں كى تعريف و توصيف كرتے ہوئے انھيں واپس آنے كے لئے حكم صادر كيا(۲۴) _

حضرت ابن عباس نے حضرت خالد بن معدان طائي كو دوہزار افراد كے ہمراہ روانہ كيا خريت كا تعاقب كرنے كے لئے حضرت معقل اہواز پہنچ كر اترے اس وقت خوارج وسيع دشت سے گذر كر كوہ رامہرمز كى بلنديوں كى جانب جانے كى كوشش و فكر ميں تھے تا كہ تعاقب كرنے والى جماعت كى نسبت وہ بہتر اور زيادہ مستحكم جگہ پر قيام كرسكيں ليكن معقل نے انھيں اچانك بے خبر نرغے ميں لے ليا اور ابھى وہ پہاڑ كے دامن سے اوپر نہيں گئے تھے كہ ان پر حملہ كرديا خونريز جنگ ، قبيلہ بنى ناجيہ كے تين سو ستر افراد كے قتل اور ان كے بے دين ساتھى كى كشت و كشتار(جن ميں كچھ عرب، بے دين اور بعض كر دشامل تھے) كے بعد خريت كيلئے فرار كے علاوہ كوئي چارہ باقى نہ رہ گيا

۳۲۲

(۲۵) يہاں سے فرار كرنے كے بعد خريت بحرين ميں دور ترين ممكن مقام پر پناہ گزيں ہوا يہاں بھى اس نے اپنے اغراض و مقاصد كا پر چار شروع كرديا اوردوبارہ لوگوں كو اپنے گرد آنے كى دعوت دينے لگے معقل نے حضرت علىعليه‌السلام كے حكم كے مطابق ان كا تعاقب كيا بحرين پہنچنے كے بعد اس نے سب سے پہلے حضرت علىعليه‌السلام كا وہ خط پڑھ كرسنايا جس ميں آپعليه‌السلام نے مسلمانوں ، عيسائيوں ، مرتدين اور بے دين لوگوں سے خطاب كيا تھا اس كے بعد انہوں نے پرچم دين لہرايا اور كہا كہ خريت اور اس كے ان حواريوں كى علاوہ جو كينہ و عداوت كے باعث مسلمانوں سے عليحدہ ہوگئے ہو جو شخص بھى اس پرچم كے زير سايہ آجائے گا وہ امن و امان ميں رہے گا اور ابھى چند لمحے ہى گذر ے تھے كہ خريت كے اطراف ميں اس كے اہل قبيلہ كے علاوہ كوئي شخص نہ رہا اس كے اور معقل كے درميان سخت جنگ ہوى تجاوز كاروں كى استقامت و پايدارى ايك گھنٹہ سے زيادہ قائم نہ رہ سكى ان كا رہبر اپنے ايك سوسترسے زيادہ افراد كے ساتھ قتل ہوا باقى ساتھى ايسے فرار كر گئے جيسے بھيڑوں كے درميان كوئي بھيڑيا آيا ہوليكن وہ بھى گرفتار و قيد ہوا ان ميں سے جو لوگ تائب ہوگئے معقل نے انھيں آزاد كرديا اور باقى افراد كو جو تعداد ميں پانچ سو سے زيادہ تھے كوفہ كى جانب روانہ كرديا_(۲۶)

آخرس سعى و كوشش

۳۹ ۴۰ ہجرى كے دوران معاويہ كى يورش ميں چونكہ بہت اضافہ ہوگيا تھا اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام نے اس كے حملوں كو روكنے كے لئے ان فوجى دستوں كو بھيجنے كے علاوہ جن كى حيثيت محفوظ لشكر كى تھى يہ فيصلہ كيا كہ اپنى تمام سعى و كوشش شام كى جانب لازم و ضرورى فوجى طاقت روانہ كرنے كيلئے صرف كرديں تا كہ معاويہ كى تجاوز كارى كا ہميشہ كے لئے سد باب ہوسكے كيونكہ آپ كے لئے اس كے علاوہ كوئي چارہ باقى نہيں رہ گيا تھا كہ مكمل جنگى سطح پر اس كا مقابلہ كيا جائے تا كہ اس شر سے ہميشہ كے لئے نجات حاصل ہو اور وہ بھى اپنى جگہ خاموش ہركر بيٹھے رہے_

۳۲۳

اس فيصلے كے بعد آپ نے حضرت معقل بن قيس كو سَواد (۲۷) كوفہ(۲۸) كى جانب روانہ كيا تا كہ لوگوں كو جنگ ميں شريك ہونے كى دعوت دے سكيں _

آپعليه‌السلام نے والى آذربائيجان قيس بن سعد كو بھى خط لكھا جس ميں مرقوم فرمايا كہ وہ لوگوں كو شام كى جانب روانہ ہونے كيلئے آمادہ اور نظرياتى اعتبار سے ان ميں وحدت يكجہتى كرے(۲۹)

اس كے علاوہ حضرت علىعليه‌السلام نے خود بھى كوفہ كے لوگوں كو آمادہ كرنے كے لئے مفصل تقرير كى جس ميں آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ اے ا للہ كے بندو گذشتہ اقوام كى تاريخ پر غور و فكر كرنا تمہارے لئے بيش قيمت درس عبرت ہے كہاں ہيں وہ بادشاہوں كے غول اور ان كے وارثين سلطنت كہاں ہيں فراعنہ اور ان كے جانشين ؟ كدھر گئے وہ خاندان رس كے مدنى فرمانروا جن سب نے پيغمبروں كو تہ تيغ، سنت كے روشن چراغوں كو خاموش اور ستمگروں كى راہ و روش كو زندہ كيا تھا كہاں گئے وہ فرمانروا جو عظيم لشكر لے كر روانہ ہوئے اور جنہوں نے ہزاروں بلكہ لاكھوں كى سپاہ كو شكست دى كدھر جاچھپى فاتحين كى وہ فوج كثير تعداد جو يكجا جمع ہوئي اور جس نے نئے شہروں كى بنياد ركھي؟

...خدا كے برگزيدہ و نيك بندے سفر پرجانے كے لئے كمربستہ ہوگئے انہوں نے دنيا كا فانى و بے ثبات چند روزہ چيزوں كا سودا آخرت كى جاودانى زندگى سے كيا سچ تو يہ ہے كہ ہمارے وہ بھائي جنہوں نے جنگ صفين ميں اپنا خون بہايا تھا اگر آج اس دنيا ميں نہيں ہيں تو انہوں نے كون سا خسارہ برداشت كيا؟

كہاں ہيں وہ ميرے بھائي جنہوں نے جہاد كى راہ اختيار كى اور جادہ حق طے كيا كہاں ہيں عماريا كہاں گئے ابن تيہان ذوالشہادتين ؟اور كدھر گئے ان جيسے دوسرے لوگ جنہوں نے موت سے عہد و پيمان كيا اور شرپسندوں كے ہاتھوں اپنے سر قلم كرائے اس كے بعد آپعليه‌السلام نے ريش مبارك پر اپنے ہاتھ ركھے اور كافى دير تك گريہ و زارى كرتے رہے _اس كے بعد فرمايا: كہ افسوس افسوس كہاں گئے وہ ميرے بھائي جنہوں نے قرآن پاك كى تلاوت كى اور زندگى ميں اسے اپنا حاكم بنايا اپنے فرائض كے پابند رہے اور ہميشہ انھيں پورا كيا انہوں نے سنت نبوى كو زندہ

۳۲۴

اور بدعتوں كا قلع قمع كيا انہوں نے جہاد كى حكومت كو قبول كيا اور اپنے ہادى اور رہبر پر پورا اعتماد كرتے ہوئے اس كى پيروى كى _

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے بآواز بلند فرمايا: (جہاد جہاد) اے خدا كے بندو ميں تمہيں يہ بتادينا چاہتا ہوں كہ آج ميں بھى تمہارے ساتھ عسكر گاہ كى جانب چلوں گا جو شخص بھى خدا كى جانب جلد از جلد آنا چاہتا ہے وہ نكل كر ہمارے ساتھ آئے_(۳۰)

آپعليه‌السلام كى اس سعى و كوشش كا يہ نتيجہ بر آمد ہوا كہ تقريبا چاليس ہزار افراد عسكر گاہ ميں جمع ہوگئے_

بقول '' نوف بكالي'' آپعليه‌السلام نے دس ہزار سپاہ كا پرچم حضرت امام حسينعليه‌السلام كو ديا دس ہزار سپاہى حضرت قيس كے زير نگرانى كئے دس ہزار سپاہ حضرت ابوايوب انصارى كى زير فرماندارى مقرر كئے اور دس ہزار سپاہى ان ديگر فرمانداروں كے حوالے كئے جنہوں نے اس تعداد ميں مزيد اضافہ كيا تھا اور حكم ديا كہ پورى فوج صفين كى جانب روانہ ہوليكن ابھى جمعہ بھى نہ گذر ا تھا كہ آپعليه‌السلام كے سرمبارك پر ابن ملجم نے كارى ضرب لگائي جس كے باعث لشكر بحالت مجبورى واپس كوفہ آگيا_(۳۱)

حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف دہشت پسندانہ سازش

تمام مشكلات اور سختيوں كے باوجود حضرت علىعليه‌السلام جس زمانے ميں شام كى جانب روانہ ہوئے اور معاويہ سے جنگ كا تدارك كر رہے تھے اسى عرصہ ميں چند خوارج بظاہر مراسم حج بيت اللہ ادا كرنے كى نيت سے مكہ ميں جمع ہوئے يہاں انہوں نے چند جلسات كى تشكيل كى جس ميں ان مقتولين كو ياد كيا جو جنگ نہروان ميں كام آگئے تھے ان كے خيال ميں وہ لوگ بے قصور مارے گئے تھے اور ان كے قتل كے اصل ذمہ دار حضرت علىعليه‌السلام ، معاويہ اور عمروعاص تھے_

ان كے خيال ميں يہ تينوں ہى حضرات '' ائمہ ضلال (گمراہوں كے امام) تھے_ چنانچہ انہوں نے فيصلہ كيا كہ تينوں كا فيصلہ كرديا جائے تا كہ اس طرح باہمى اختلاف ، كشمكش اور ناانصافى كى بيخ

۳۲۵

كنى كرديں _

ان ميں سے تين افراد نے اس مقصد كے لئے اپنى زندگى داؤ پر لگادى _ تا كہ تينوں مذكورہ حضرات كى زندگى كو ختم كرديں حضرت علىعليه‌السلام كو قتل كرنے كا ذمہ عبدالرحمن ابن ملجم نامى نے ليا انہوں نے اس سازش كى تكميل كے لئے باہمى عہد و پيمان كئے اور يہ فيصلہ كيا كہ بتاريخ ۱۹ ماہ رمضان ۴۰ ھ صبح كے وقت وہ اپنى دہشت پسندانہ كاروائي پر عمل در آمد كريں گے اس كے بعد وہ ايك دوسرے سے جداہوگئے_

ابن ملجم كوفہ ميں داخل ہوا اور اپنى چچازاد بہن قَطَام كے گھر پہنچا وہ اس كے ساتھ پہلے بھى چونكہ معاشقہ كرچكا تھا اسى لئے اب اسے اپنى شادى كرنے كا پيغام ديا قَطَام خود خوارج ميں سے تھى اس كے بھائي اور باپ كا قتل جنگ نہروان ميں ہوچكا تھا اسى لئے اس كے دل ميں حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف سخت عداوت و دشمنى تھى اس نے كہا كہ ميں اس شرط پرشادى قبول كرسكتى ہوں كہ ايك كنيز و غلام اور تين ہزار درہم نقد دينے كے علاوہ تو علىعليه‌السلام كو قتل كردے اگر تو اس مقصد ميں كامياب ہوگيا تو تو ميرے كليجے كو ٹھنڈا كرے گا اور مجھ سے داد مراد پائے گا اور اگر كہيں تو خود مارا گيا تو تجھے دنيوى نعمتوں سے كہيں زيادہ عظيم اس كااجر و ثواب ملے گا _

ابن ملجم نے جب ديكھا كہ يہ عورت اس كام كے لئے بہت زيادہ اصرار كررہى ہے تو اس نے بتاديا كہ ميں يہى ناپاك ارادہ لے كر كوفہ سے آيا ہوں _(۳۲)

ابن ملجم نے شبيب بن بجرہ نامى دوسرے شخص سے جو خود بھى خوارج ميں سے تھا اس كام ميں مدد لى قطام نے و ردان بن مجالد كو بھى اس كے ساتھ كرديا تا كہ وہ بھى اس كام ميں اس كا مدد گار ہوسكے اس نے '' اشعث بن قيس'' كو بھى اپنا راز دار بناليا اس شخض نے بھى اس كام كو تمام كرنے كے لئے اس كى حوصلہ افزائي كي (۳۳)

۳۲۶

شہادت كا انتظار

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے احاديث نبوى اور علم لدنى كى بنياد پر يہ پيشين گوئي كردى تھى كہ آپعليه‌السلام كى شہادت ماہ رمضان المبارك كے آخرى عشرہ ميں واقعہ ہوگى جب ماہ رمضان آگيا تو افطار كے بعد آپعليه‌السلام كبھى امام حسنعليه‌السلام كبھى امام حسينعليه‌السلام اور بعض راتوں ميں حضرت عبداللہ بن عباس كے گھر قيام فرماتے ليكن افطار كے وقت تين لقموں سے زيادہ تناول نہ فرماتے جب اس كى وجہ دريافت كى گئي تو آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميرى يہ آرزو ہے كہ خداوند تعالى كا ديدار شكم سير ہوئے بغير كروں(۳۴)

ماہ مبارك كى انيسويں شب ميں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام پر سخت ہيجانى كيفيت طارى تھى آپعليه‌السلام اچانك گھر كے اندر سے نكل كر صحن ميں تشريف لے آتے اور وہاں ٹہلنے لگتے اور آسمان كى طرف ديكھتے_ آپعليه‌السلام نے سب حاضريں كو بتادياتھا كہ آج كون سا عظيم حادثہ رونما ہونے والا ہے آپ يہ فرماچكے تھے كہ '' خدا كى قسم ميں غلط نہيں كہہ رہا رہوں اور مجھے غلط خبر نہيں دى گئي ہے كہ آج كى رات وہى رات ہے جس كا مجھ سے وعدہ كيا جاچكا ہے(۳۵)

اس رات حضرت علىعليه‌السلام تمام وقت بيدار رہے پورى رات تلاوت قرآن مجيد اور عبادت ميں گذرى طلوع فجر سے قبل جب آپ گھر سے مسجد تشريف لے جانے لگے تو راستے ميں مرغابياں آگئيں جنہيں راستے سے دور كرديا گيا اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ انھيں كچھ مت كہو يہ نوحہ و گريہ كر رہيں ہيں(۳۶)

شہادت

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام مسجد ميں تشريف لائے جو لوگ محو خواب تھے انھيں بيدار كيا كہ خداوند تعالى كى عبادت و مناجات ميں مشغول ہوں آپعليه‌السلام نے ابن ملجم كو بھى بيدار كيا(۳۱) وہ تو اول شب سے ہى آپعليه‌السلام كى آمد كا منتظر تھا ا وراس وقت خود كو سوتا ہوا بناليا تھا اس كے بعد

۳۲۷

آپعليه‌السلام نماز ادا كرنے كيلئے كھڑے ہوئے اور قلب و زبان كو ذكر خدا ميں مشغول كرديا_

اس وقت شبيب نے چاہا كہ آپعليه‌السلام پر تلوار سے وار كرے مگر اس كى تلوار محراب مسجد نے ٹكرا كر رہ گئي ابن ملجم تباہ كار جلدى سے آگے آيا اس نے اپنى تلوار اوپر اٹھائي اور باواز بلند كہا ''الحكم للہ لا لك يا على و لا لاصحابك'' يہ كہہ كر اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے سر مبارك پر اپنى تلوار اٹھائي جو ٹھيك اسى جگہ لگى جہاں جنگ خندق ميں ''عمرو بن عبدود''(۳۷) كى تلوار آپ كے سرمبارك پر لگ چكى تھى حق و عدل كا وہ پيكر جو صريح و واضح كفر اور الحاد كے ضربات سے زمين پر نہيں گرسكا تھا آج نفاق اور جہل و تعصب آميز ظاہرى تقدس كے ايك ہى وار سے خاك و خون ميں لوٹنے لگا حضرت علىعليه‌السلام نے جيسے ہى ضرب شمشير كو محسوس كيا فرمايا: ''فزت و رب الكعبه'' (۳۸) قسم كعبہ كے خدا كى آج ميں نے كاميابى حاصل كي_

آپعليه‌السلام كے فرزندوں اور اصحاب پر تو گويا غم و اندوہ كا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہر طرف سے گريہ و نالہ اور آہ و بكا كى صدائيں سنائي دينے لگيں لوگ سراسيمگى كى حالت ميں مسجد كى جانب دوڑے_

حضرت علىعليه‌السلام كا سرمبارك حضرت امام حسنعليه‌السلام كى آغوش ميں تھا جس سے مسلسل خون جارى تھا زخم كى شدت اور بہت زيادہ خون بہہ جانے كى وجہ سے آپعليه‌السلام اب تك بے ہوشى كى حالت ميں تھے ابن ملجم بھى پكڑا گيا اور اسے حضرت امام حسنعليه‌السلام كى خدمت ميں پيش كيا گيا حضرت مجتبىعليه‌السلام نے اس سے فرمايا اے ملعون تو نے پيشوائے مسلمين حضرت علىعليه‌السلام كو قتل كرديا كيا نيكى اور خير خواہى كا بدلہ يہى ہے تو وہى شخص ہے جسے خليفہ وقت نے پناہ دى اور اپنا مقرب بنايا؟

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے والد محترم كى خدمت ميں عرض كيا بابا جان يہ آپ كا اور خدا كا دشمن بحمداللہ گرفتار كرليا گيا ہے وہ اس وقت آپ كے روبرو حاضر ہے_

حضرت علىعليه‌السلام نے چشم مبارك كو كھولا اور فرمايا كہ تو بہت عظيم سانحہ كا مرتكب ہوا ہے اور تو نے نہايت ہى خطرناك كام كيا ہے كيا ميں تيرے لئے برا امام ثابت ہوا؟ ايسى كون سى مہربانى اور بخشش تھى جو ميں نے تيرے حق ميں روانہ ركھى كيا لطف و مہربانى كا يہى بدلہ وصلہ ہے؟

۳۲۸

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے حضرت امام حسنعليه‌السلام سے فرمايا كہ اے فرزند عزيز اپنے اس قيدى كے ساتھ خاطر و مدارات كا سلوك كرنا اور اس كے ساتھ مہربانى و نوازش سے پيش آنا_

جو كچھ تم كھاؤ اور پيو وہى تم اسے كھلانا اور پلانا اگر ميں مرجاؤں توميرے خون كے قصاص ميں اسے قتل كردينا مگر اس كے ناك، كان نہ كاٹنا كيونكہ ميں نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زبان مبارك سے سنا ہے كہ اس كتے كے بھى ناك كان نہ كاٹو جس نے تمہيں كاٹا ہے اور اگر ميں بچ گيا تو ميں ہى جانتا ہوں كہ اس كے ساتھ كيا سلوك كروں گا اسے معاف كردينے ميں مجھے سب پر فضيلت حاصل ہے كيونكہ ہمارا خاندان وہ خاندان ہے جس نے بڑے بڑے گناہگاروں كو معاف كيا اور ان كے ساتھ ہم بزرگوارى كے ساتھ پيش آتے ہيں(۳۹)

حضرت امام حسنعليه‌السلام اپنے والد بزرگوار كو گھر لے آئے لوگ گريہ و نالہ كرتے اور آپ سے رخصت ہوتے عجب كہرام كا عالم تھا لگتا تھا كہ غمگساروں كى جان كھينچ كرلبوں پر آگئي ہے_

حضرت امام مجتبىعليه‌السلام نے بعض اطبا كو جن ميں اثير بن عمرو سكونى سب سے زيادہ ماہر و حازق طبيب تھے علاج كے لئے بلايا انہوں نے كہا كہ بھيڑ كا تازہ جگر لاؤ اس كى ايك رگ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے زخم كے اندر ركھى اور اسے باہر نكال ليا انہوں نے ديكھا كہ مغز كى سفيدى اس رگ پر لگ گئي ہے اور دم شمشير كى ضرب نے دماغ تك اثر كيا ہے يہ ديكھ كر اس طبيب نے كہا '' يا اميرالمومنين اگر كوئي وصيت كرنا چاہيں تو كرديجئے''(۴۰)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے فرزندوں كو اخلاق حسنہ كى وصيت فرمائي اپنى زندگى كے قابل قدر و قيمت درس انھيں اور تمام مسلمين كو ديئے _ امور خلافت اپنے فرزند محترم امام حسنعليه‌السلام كو تفويض كيئے اور اس كا گواہ اپنے فرزندوں اور بزرگان خاندان كو بنايا كلام مجيد اور اپنا اسلحہ آپ كى تحويل ميں ديا_

جب حضرت علىعليه‌السلام اپنے فرزندوں كو پند ونصائح كرچكے تو آپعليه‌السلام نے موت كى علامات محسوس كيں اس كے بعد آپ قرآن پاك كى تلاوت ميں مشغول ہوگئے آخرى آيت جوآپ كى

۳۲۹

زبان مبارك پر آئي وہ يہ تھي_

) فمن يعمل مثقال ذرة خير ايره و من يعمل مثقال ذرة شر ايره ( (۴۱)

(پھر جس نے ذرہ برابر نيكى كى ہوگى وہ اس كو ديكھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدى كى ہوگى وہ اس كو ديكھ لے گا)

بتاريخ ۲۱ رمضان ۴۰ ھ اس وقت جب كہ آپ كاسن شريف تريسٹھ برس كا تھا آپ كى روح مقدس و مطہر اس جہان فانى سے پرواز كر كے عالم جاودانى كى جانب عروج كرگئي_

حضرت امام حسنعليه‌السلام نے اپنے ديگر بھائيوں اور حضرت علىعليه‌السلام كے اصحاب كى مدد سے اپنے شہيد والد محترم كى تجہيز كا انتظام كيا غسل و كفن كے بعد جب كچھ رات گذر گئي تو اس پيكر مقدس كو كوفہ سے باہر لے آئے تمام راستہ جنازے كے پيچھے رہ كر طے كيا اور جنازہ اس جگہ لايا گيا جو آج نجف اشرف كے نام سے مشہور و معروف ہے نماز جنازہ ادا كرنے كے بعد انتہايى خاموشى كے ساتھ اس پيكر تقدس كو سپرد خاك كرديا( ۴۲)

سلام عليه يوم ولد و يوم استشهد و يوم يبعث حيا

سلام ہو آپ پر جس دن آپ كى ولادت ہوئي اور جس دن شہيد كئے گئے اور جس دن زندہ اٹھائے جائيں گے_)

۳۳۰

سوالات

۱_ معاويہ نے كن محركات كے تحت دہشت پسند دستے ان مناطق ميں بھيجے جہاں حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت تھي؟

۲_ بسر بن ارطاہ نے جو قتل و غارتگرى كى اس كى كچھ مثاليں بيان كيجئے ان كے تجاوز كارانہ اقدام كا حضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے كيا رو عمل ہوا؟

۳_ سپاہ عراق پر سپاہ شام كى كاميابى كے كيا عوامل تھے؟ نہج البلاغہ ميں بيان كئے گئے حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال كى روشنى ميں اس امر كى وضاحت كيجئے؟

۴_ معاويہ كے حملات اور تجاوز كارانہ اقدامات كا سد باب كرنے كيلئے حضرت علىعليه‌السلام كا آخرى فيصلہ كيا تھا؟

۵_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو قتل كرنے كے لئے خوارج نے كيا سازش كى اس اقدام ميں كون سے عوامل كار فرماتھے؟

۶_ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے قاتل كے بارے ميں كيا ارشاد فرمايا؟ اور حضرت امام حسنعليه‌السلام كو اس سلسلے ميں كيا پند نصائح كيئے

۷_ حضرت علىعليه‌السلام كى شہادت كس تاريخ كو واقع ہوئي شہادت كے وقت آپ كا سن مبارك كتنا تھا؟

۳۳۱

حوالہ جات

۱_ يہ كوفہ كے مغرب ميں شہر انباركے نزديك بستى تھى (معجم البلدان ج ۴ پ ۱۷۶)الغارات ج ۲ /۴۴۵ ، طبرى ج ۵ / ۱۳۳ ، كامل ابن اثير ج ۳ / ۴۷۵ ، شرح ابى الحديد ج ۲ / ۳۰۵ _ ۳۰۱

۲_ يہ شہر دريائے فرات كے كنارے بغداد اور انبار كے درميان واقع تھا(معجم البلدان ۵/۴۲۰)

۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۲ ص ۸۵ ، كامل ابن اثير ج ۳/۳۷۶ و الغارات ج ۲ /۴۶۴

۴_ نہج البلاغہ خ ۲۷

۵_ يہ بستى شام كے اطراف ميں شام اور وادى القرى كے درميان اس راستے پر واقع ہے جہاں سے شام و دمشق كے حجاج گذر كر مكہ پہنچتے تھے (معجم البلدان ج ۲ /۶۷)

۶_ تاريخ طبرى ج ۵/۱۳۴ ، كامل ابن اثير ج ۳/۳۷۶ ، تاريخ يعقوبى ج ۲/۱۹۶

۷_ يہ كوفہ كے راستے ميں ايسى بستى تھى جہاں حجاج قيام كرتے تھے يہ خزيمہ سے پہلے اور شقوق كے بعد حجاج كى منزل گاہوں پر واقع تھي_

۸_ يہ جگہ كوفہ كے نزديك خشكى كى سمت واقع تھى سرزمين طف اور زندان نعمان بن منذر اسى جگہ تھى (معجم البلدان ج ۴/۳۷۴)

۹_ تاريخ طبرى ج ۵/۱۳۵ ، ليكن ثقفى نے الغارات كتاب ج ۳/۴۲۲ ميں لكھا ہے كہ ضحاك بن قيس نے عمرو بن عميس نيز اس كے ساتھيوں كو قتل كرديا_

۱۰_ تدمر سرزمين شام كا قديم شہر تھا يہ جگہ شہر حلب سے پانچ دن كے سفر پر وقع تھى (معجم البلدان )_

۱۱_ تاريخ طبرى ج ۵ /۱۳۵ ، الغارات ج ۲/۴۲۵_

۱۲_ ملاحظہ ہو الغارات ج ۲ /۶۰۰، و ديگر بعد كے صفحات ، نيز شرح ابن ابى الحديد ج ۲/۱۷_۷ و الغاتى ۱۶/۲۶۶_

۱۳_ نہح البلاغہ خ ۲۵_

۱۴ شرح ابن ابى الحديد ج ۲ / ۱۶_

۱۵_ تاريخ يعقوبى ج ۲ / ۲۰۰_

۳۳۲

۱۶_انى لعالم بما يصلحكم و يقم اودكم و لكنى لا ارى اصلاحكم بافساد نفسى نہج البلاغہ خ ۶۹_

۱۷_ نہج البلاغہ خ ۱۷_

۱۸_ نہج البلاغہ خ ۱۱۹_

۱۹_ نہج البلاغہ خ ۱۵۹_

۲۰_ ان كا ذكر سطور ذيل ميں آئے گا_

۲۱_ يہ حضرت جنگ جمل اور جنگ صفين ميں حضرت علىعليه‌السلام كے ہمراہ تھے جنگ جمل ميں تو انہوں نے قبيلہ نصر كى فرماندارى كے فرائض بھى انجام دئے ليكن مسئلہ حكميت كے بعد حضرت علىعليه‌السلام سے برگشتہ ہوگئے اور آپعليه‌السلام كى مخالفت پر اتر آئے _ الغارات ج ۱/۳۳۳_ ۳۳۲ _

۲۲_ الغارات ج ۱ ۳۳۸_۳۳۲_

۲۳_ الغارات ج ۱ ۳۴۲/۳۴۹_

۲۴_ الغارات ج ۱/۳۴۹_

۲۵_ الغارات جلد ،۱ ۳۵۳_۳۵۲_ كامل ابن اثير ج ۳ / ۳۶۸_۳۶۷_

۲۶_ الغارات ج ۱ /۳۵۹_كامل ابن اثير ۳/۳۶۹_

۲۷_'' سواد كوفہ '' اطراف كوفہ ميں وہ جگہ تھى جہاں كھجور كے درخت اس كثرت سے تھے كہ دور سے وہ جگہ سياہ نظر آتى تھى اسى وجہ سے اسے سواد كہا جاتا تھا يہ جگہ طول ہيں موصل سے آبادان تك اور عرض ميں غريب سے علوان تك پھيلى ہوئي تھى (مجمع البحرين ج ۳/۷۲)_

۲۸_ الغارات ج ۲ /۷۸۲ ، تقيح المقال ما مقانى ج۳/۲۹۷ _

۲۹_ تاريخ يعقوبى ج ۲ /۲۰۳_

۳۰_ ملاحظہ ہو نہج البلاغہ كا خطبہ ۱۸۲_

۳۱_ نہج البلاغہ خ ۱۸۲ ، ومناقب ابن شہر آشوب ج ۳ /۱۹۴_

۳۲_ مروج الذہب ج ۲/۴۱۱ ، بحار ج ۴۲/۲۲۸، مقاتل الطالبين ۱۸تاريخ طبرى ج ۵/۱۴۳_

۳۳۳

۳۳ _ حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كے قتل ميں اشعث بن قيس شركت تھا اس كى بيٹى نے حضرت امام حسنعليه‌السلام كو زہر ديااس كابيٹا محمد بھى حضرت امام حسينعليه‌السلام كے قتل ميں شريك تھا بحار ج ۴۲/۲۲۶_

۳۴_ بحار ج ۴۲/۲۲۴ ، ارشاد مفيد ۱۴_

۳۵_و الله ما كذبت و لا كذبت انها معى ليلة التى وعدت فيها بحار ج ۴۲/۲۲۶ ، ارشاد ۱۵ _

۳۶_ذروهن فانهن نوائح بحار ج ۴۲ /۲۲۶ ، و ارشاد مفيد/۱۵_

۳۷_ بحار ج ۴۲/۲۲۶ ، ارشاد ص ۱۲_

۳۸_ مناقب ج ۳/۳۱۲ ، بحار ج ۴۲/۲۳۹_

۳۹_ بحار الانوار ج ۴۲ /۲۸۸_۲۸۷_

۴۰_ مقاتل الطالبين ۲۳_

۴۱_ سورہ زلزال آيہ ۶_

۴۲_ بحارالانوار ج ۴۲/۲۹۴_

۳۳۴

فہرست

عرض ناشر: ۵

حضرت على _ كى زندگي مختلف ادوار ۶

پہلا سبق ۷

ولادت سے حضرت محمد مصطفي صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مبعوث بہ رسالت ہونے تك ۷

ولادت ۹

پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زير دامن آپ كى پرورش ۹

بعثت سے آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت تك ۱۱

بے نظيرقربانى ۱۲

ہجرت سے آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت تك ۱۲

علي عليه‌السلام رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے امين ۱۲

علي عليه‌السلام رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بھائي ۱۳

على عليه‌السلام اور راہ خدا ميں جنگ ۱۴

علي عليه‌السلام جنگ بدر كے بے نظير جانباز ۱۴

حضرت على عليه‌السلام رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تنہا محافظ ۱۵

مرحلہ فتح و كاميابى : ۱۵

مرحلہ شكست : ۱۶

جنگ خندق ميں على عليه‌السلام كا كردار ۱۷

على عليه‌السلام فاتح خيبر ۱۸

اميرالمومنين عليه‌السلام كى سياسى زندگى ميں جنگجوئي كے اثرات ۱۹

۳۳۵

حضرت على عليه‌السلام اور پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشيني ۲۰

حديث يوم الدار ۲۱

حديث منزلت ۲۲

قرآن مجيد ميں حضرت ہارون كے مقامات ومناصب: ۲۲

حديث غدير ۲۳

سوالات ۲۵

حوالہ جات ۲۶

دوسر ا سبق ۳۰

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳۰

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك(۱) ۳۱

وفات پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا ۳۱

غير متوقع حادثہ ۳۲

پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں ۳۲

لاتعلقي ۳۴

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ ۳۴

شورى ۳۵

وصى اور جانشين كا تقرر ۳۶

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات ۳۷

اس خطبے كے اہم نكات ۳۸

انصار كا ردّعمل ۳۹

۳۳۶

على عليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز ۴۰

سقيفہ كے واقعات كے بعد حضرت على عليه‌السلام كا ردعمل ۴۱

على عليه‌السلام نے كيوں عجلت نہيں كي؟ ۴۳

سوالات ۴۵

حوالہ جات ۴۶

تيسرا سبق ۴۸

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۲ ۴۸

حضرت على عليه‌السلام كے گھر ميں پناہ گزيني ۴۹

انصار سے مدد چاہنا ۵۰

حساس صورتحال ۵۰

قيام نہ كرنے كے دلائل اور وجوہات ۵۱

۱_ معقول فوجى طاقت كى كمي ۵۱

۲_ اسلام اور اسلامى وحدت كا تحفظ ۵۲

۳_ جاہليت كى طرف بازگشت ۵۳

۴_ كينہ تو ز دشمن ۵۴

بيعت كا انجام ۵۵

مسئلہ فدك ۵۵

فدك پر قابض ہونے كے محركات ۵۷

۱_ مخالفين كو اپنے جانب متوجہ كرنا ۵۷

۲_ جمع وخرچ كى مد ميں كمي ۵۸

۳۳۷

۳_ على عليه‌السلام كى اقتصادى قوت كے باعث خطرے كا احتمال ۵۸

مخالفين كى سركوبي ۵۹

شورشوں كا دباجانا ۶۱

حضرت فاطمہ عليه‌السلام كى وفات ۶۱

سوالات ۶۴

حوالہ جات ۶۵

چوتھا سبق ۶۸

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳ ۶۸

سرزمين شام و عراق كى فتح ۷۰

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت ۷۱

حضرت على عليه‌السلام ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات ۷۱

جانشينى كا تعين ۷۲

قلمرواسلام كى وسعت ۷۳

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات ۷۴

حضرت على عليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے ۷۵

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني ۷۶

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي ۷۷

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ ۷۸

خليفہ دوم كا قتل ۷۹

كونسى شوري؟ ۷۹

۳۳۸

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت على عليه‌السلام كى نظر ۸۰

حضرت على عليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ ۸۱

عثمان كى خلافت ۸۲

مسلمانوں كا بيت المال ۸۳

حضرت على عليه‌السلام كے پندو نصايح ۸۴

خليفہ سوم كا قتل ۸۶

حضرت على عليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل(۴۶) ۸۷

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران على عليه‌السلام كے كارنامے ۸۸

سوالات ۹۰

حوالہ جات ۹۱

پانچواں سبق ۹۵

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۹۵

حضرت علي عليه‌السلام كى بيعت ۹۶

بيعت كے بعد لوگوں ميں سرور و شادماني ۹۸

قريش كى وحشت و پريشاني ۹۹

گوشہ نشين لوگ ۱۰۰

حضرت علي عليه‌السلام كى بيعت كے امتيازات ۱۰۱

سوالات كے جوابات ۱۰۲

حضرت على عليه‌السلام نے كن مقاصد كے تحت حكومت قبول فرمائي_ ۱۰۳

ابتدائي اقدامات ۱۰۴

۳۳۹

نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر ۱۰۵

مساوى حقوق كى ضمانت ۱۰۷

لوٹے ہوئے مال كى واپسي ۱۰۸

بدعنوانيوں ميں ملوث دولتمندوں كى رخنہ اندازي ۱۱۰

سوالات ۱۱۱

حوالہ جات ۱۱۲

چھٹا سبق ۱۱۵

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۲ ۱۱۵

ناكثين(حكومت على عليه‌السلام كى مخالفت) ۱۱۶

ناكثين ۱۱۷

موقف ميں تبديلي ۱۱۹

مكہ ميں مخالفين كا جمع ہونا ۱۲۱

سپاہ كے اخراجات ۱۲۲

عراق كى جانب روانگي ۱۲۳

سپاہ كى جانب عثمان بن حنيف كے نمايندوں كى روانگي ۱۲۴

پہلا تصادم ۱۲۵

دھوكہ وعہد شكني ۱۲۷

جمل اصغر ۱۲۷

سردارى پر اختلاف ۱۲۸

خبر رساني ۱۲۹

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348