تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175341 / ڈاؤنلوڈ: 4064
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

دوسرے مرحلے پر '' بنى تميم'' كا نعرہ سنا گيا بلكہ اس قبيلے كے ايك فرد نے تو اشعث پر حملہ بھى كرديا_ اور كہا كہ امر خداوندى ميں افراد كو حاكم قرار ديا جاسكتا ہے ايسى صورت ميں ہمارے جوانوں كے خون كا كيا انجام ہوگا؟(۲۳)

تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ لا حكم الا للہ كا ہلہلہ و غلغلہ بيشتر سپاہيوں كے گلے سے جوش مارنے لگا_ انہوں نے اپنے گذشتہ عمل كى اس طرح اصلاح كى كہ ''حكميت'' كے لئے راضى ہوجانا در اصل ہمارى اپنى ہى لغزش تھى ليكن اپنے كئے پر ہم اب پشيمان اور توبہ كے طلب گار ہيں چنانچہ انہوں نے علىعليه‌السلام سے كہا كہ جس طرح ہم واپس آگئے ہيں آپعليه‌السلام بھى آجايئےرنہ ہم آپعليه‌السلام سے بيزار ہوجائيں گے_(۲۴)

وہ اس قدر جلد پشيمان ہوئے كہ انہوں نے پورى سنجيدگى سے يہ مطالبہ كرديا كہ معاہدہ جنگ بندى پر كاربند نہ رہا جائے_ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے آيات مباركہ و افوا بعہداللہ اذا عاہدتم و لا نتقضوا الايمان بعد توكيدہا (اللہ كے عہد كو پور كرو جب تم نے ان سے كوئي عہد باندھا ہو اور اپنى قسميں پختہ كرنے كے بعد توڑ نہ ڈالو)(۲۵) اور اوفوا بالعقود (لوگو بندشوں كى پورى پابندى كرو)(۲۶) سناكر انھيں عہد و پيمان شكنى سے باز ركھا( ۲۷)

مگر ان كى سست رائے اور متزلزل ارادے پر اس كا ذرا بھى اثر نہ ہوا جنگ كى كوفت كے آثار بھى ان كے چہرے سے زائل نہ ہوئے تھے كہ دوسرے فتنے كا بيج بوديا گيا_

سركشوں كى تشكيل و گروہ بندي

جب جنگ صفين ختم ہوگئي تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كوفہ واپس تشريف لے آئے ليكن جو لوگ سركش و باغى تھے وہ راہ ميں آپعليه‌السلام سے عليحدہ ہوگئے_ يہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اس وقت جب كہ جنگ پورى اوج پر تھى تو حضرت علىعليه‌السلام كو يہ دھمكى دى تھى كہ جنگ بندى كا اعلان كيجئے ورنہ ہم آپعليه‌السلام كو قتل كرڈاليں گے اور حكميت كا تعين ہوجانے كے بعد انہى افراد نے لا حكم الا اللہ كا نعرہ

۲۶۱

بلند كيا تھا اور ''حروراوئ''(۲۸) نامى مقام پر تقريبا بارہ ہزار افراد نے قيام كيا اور يہاں خود ايك مستقل گروہ كى شكل اختيار كرلى جہاں انہوں نے '' شبث بن ربعى '' كو اپنا فرماندار اور '' عبداللہ بن كوّاء '' كو اپنا امام جماعت مقرر كيا_(۲۹)

حضرت علىعليه‌السلام كے اصحاب نے جب اس واقعے كے بارے ميں سنا تو اس خيال كے پيش نظر كہ وہ اپنى وفادارى كا حضرت علىعليه‌السلام پر دوبارہ اظہار كريں انہوں نے آپعليه‌السلام كے ساتھ نيا عہد كيا اور وہ يہ تھا كہ دوستان علىعليه‌السلام كے ساتھ دوست اور آپعليه‌السلام كے دشمنوں كے ساتھ دشمن كا سلوك روا ركھيں _ليكن خوارج نے اس وعدہ كو كفر و گناہ سے تعبير كيا اور شيعيان علىعليه‌السلام سے كہا كہ تمہارى اور شاميوں كى مثال ان دو گھوڑوں كى سى ہے جنہيں دوڑ كے مقابلے ميں لگايا گيا ہوچنانچہ اس راہ ميں تم كفر كى جانب بڑھ گئے ہو _

حضرت علىعليه‌السلام خوارج كے درميان

جب خوارج ، حضرت علىعليه‌السلام سے عليحدہ ہوگئے تو آپعليه‌السلام نے يہ سوچ كر كہ ان كے ساتھ زيادہ نزديك سے ملاقات كى جائے اور ان كے ذھنوں ميں جو پيچيدگياں پيدا ہوگئي ہيں ان كا حل تلاش كيا جائے_ سب سے پہلے ابن عباس كو ان كے پاس بھيجا حضرت علىعليه‌السلام چونكہ انكے بارے ميں جانتے تھے كہ وہ حالات و واقعات كا تجزيہ تو نہيں كرسكتے ا لبتہ حريف كو قائل كرنے كى ان ميں غير معمولى مہارت و صلاحيت ہے اسى لئے آپعليه‌السلام نے ابن عباس سے تاكيدا يہ بات كہى كہ ان كے ساتھ گفتگو كرنے ميں عجلت نہ كريں بلكہ اس قدر توقف كريں كہ ميں ان تك پہنچ جاؤں _(۳۰)

ليكن ابن عباس جيسے ہى وہاں پہنچے انہوں نے فورا ہى بحث و گفتگو شروع كردى _ بالآخر انہوں نے بھى مجبورا اپنى زبان كھولى اور اس آيہ مباركہ) و ان خفتم شقاق بينهما فابعثوا حكما من اهله و حكما من اهلها ( (۳۱)

(اور اگر تم كو كہيں شوہر او ربيوى كے تعلقات بگڑجانے كا انديشہ ہو تو ايك حكم مرد كے رشتہ

۲۶۲

داروں ميں سے اورايك عورت كے رشتہ داروں ميں سے مقرر كرو) نيز حكم عقل كے ذريعے ثابت كرديا كہ '' حكميت '' كا تقرر شرعا جائز ہے مگر انہوں نے جواب ميں اس مرتبہ بھى وہى بات كہى جو اس سے پہلے كہتے چلے آرہے تھے_(۳۲)

ابن عباس كے چلے جانے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام بھى اس طرف روانہ ہوئے اور چونكہ يزيد بن قيس سے واقفيت تھى اس لئے آپعليه‌السلام اسى كے خيمے ميں پہنچے يہاں دو ركعت نماز ا دا كرنے كے بعد آپعليه‌السلام نے مجمع كى جانب رخ كيا اور دريافت فرمايا كہ تمہارا رہبر كون ہے؟ انہوں نے جواب ديا كہ '' ابن الكوا'' اس كے بعد آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ وہ كون سى چيز تھى جس نے تمہيں ہم سے برگشتہ كيا_ انہوں نے كہا كہ آپعليه‌السلام كى جانب سے حكميت كا تعين و تقرر اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ديا كہ حكميت كى پيشكش تمہارى جانب سے كى گئي تھي_ ميں تو اس كا سخت مخالف تھا انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے مدلل جوابات كى تائيد كرتے ہوئے اپنى اس نئي راہ و روش كى يہ توجيہ پيش كى كہ ہمارے سابقہ اعمال كفر پر مبنى تھى چنانچہ ہم نے ان سے توبہ كرلى ہے_ آپعليه‌السلام بھى تائب ہوجايئےا كہ ہم آپعليه‌السلام كے ہاتھ پر دوبارہ بيعت كرليں _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا انى ''استغفر اللہ من كل ذنب ''اس پر خوارج نے سمجھا كہ آپعليه‌السلام نے '' حكميت'' كو منظور كرنے پر توبہ كى ہے_ چنانچہ وہ سب آپعليه‌السلام كے ساتھ كوفہ چلے آئے اور بظاہر اس فتنہ و فساد كا خاتمہ ہوگيا_(۳۳)

منافقين كى تحريكات

وہ منافق و موقع پرست لوگ جو حكومت كے اقتدار اورمملكت ميں امن و امان كى فضا برداشت نہيں كرسكتے تھے جب خوارج كا گروہ واپس گيا تو مختلف قسم كى افواہيں پھيلانے لگے_ اور يہ كہنا شروع كرديا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام حكميت كے معاملے ميں پشيمان ہيں وہ اسے گمراہى تصور كرتے ہيں اور فكر ميں ہيں كہ جنگ كے امكانات پيدا ہوجائيں تا كہ دوبارہ معاويہ كى جانب

۲۶۳

روانہ ہوسكيں _ (۳۴)

يہ افواہيں معاويہ كے كانوں تك بھى پہنچيں اس نے ايك شخص كو كوفہ كى جانب روانہ كيا تا كہ اس سلسلے ميں بيشتر اطلاعات فراہم كرسكے_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو معاويہ اچھى طرح جانتا تھا يہ بھى معلوم تھا كہ حضرت علىعليه‌السلام قرآن اور اسلام كے راستے سے منحرف نہ ہوں گے اور جو عہد و پيمان انہوں نے كيا ہے اس كى وہ بھى خلاف ورزى نہ كريں گے_ ليكن شايد ظاہر كرنے كے لئے كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى حركات و سكنات كى نگرانى كر رہا تھا اسى لئے اس نے يہ اقدام كيا_

اس بارے ميں يہ بھى كہا جاسكتا ہے كہ معاويہ كو متحرك كرنے كا اصل عامل اشعث تھا _ اور وہ عہد جنگ بندى كى خلاف ورزى سے متعلق افواہوں كے بارے ميں جانتا چاہتا تھا _ كيونكہ اشعث وہ شخص تھا جو ابن ابى الحديد كے قول كے مطابق معتزلى تھا اور جن كا مقصد حضرت علىعليه‌السلام كو حكومت ميں ہر قسم كى تباہى و بربادى كو فروغ دينا تھا اور مسلمانوں كے لئے ہر طرح كى ا ضطرابى و پريشانى كا عامل بننا مقصود تھا_(۳۵) چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام نے بھى اسے منافق اور كافر بچہ كے ساتھ ياد كيا ہے_(۳۶)

اس احتمال كو جو چيز تقويت ديتى ہے وہ يہ ہے كہ جس وقت شام سے حضرت علىعليه‌السلام كے پاس پيغام پہنچا اور آپعليه‌السلام سے معاہدے كى خلاف ورزى سے اجتناب كرنے كو كہا گيا تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں وہ حاضر ہوا اور ان بہت سے لوگوں كى موجودگى ميں جوحضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر تھے كہا كہ يہ سننے ميں آيا ہے كہ آپعليه‌السلام حكميت كو گمراہى قرار ديتے ہيں اور اس پر ثابت قدم رہنا آپ كے نزديك كفر ہے_(۳۷)

افواہوں كو بے بنياد ثابت كرنے اور ان كى حقيقت كو عوام پر واضح و روشن كرنے كے لئے حضرت علىعليه‌السلام نے ضرورى سمجھا كہ مسجد ميں تشريف لے جائيں اور وہاں حاضرين سے خطاب كريں چنانچہ آپعليه‌السلام نے ارشادات عاليہ كے دوران فرمايا كہ : جس شخص كو يہ گمان ہے كہ ميں معاہدہ حكميت پر قائم نہيں ہوں تو اس نے درو غگوئي سے كام ليا ہے ا ور جو بھى مسلمان حكميت كو گمراہى كا سبب سمجھتا

۲۶۴

ہے وہ دوسروں كے مقابل خود زيادہ گمراہ ہے _(۳۸)

حضرت علىعليه‌السلام كا خطبہ ابھى ختم نہيں ہوا تھا كہ مسجد كے ايك كونے سے يہ آواز سنائي دى كہ '' اے علي تم نے ان افراد كو خدا كے دين ميں شامل كرليا '' لا حكم الا للہ اس آواز كے بلند ہونے كے ساتھ ہى مسجد كى پورى فضا لا حكم الا للہ كے نعروں سے گونجنے لگى _(۳۹)

منافقين كى تحريكات كا نتيجہ يہ برآمد ہوا كہ خوارج نہ صرف اپنى اصلى حالت پر واپس نہيں آئے بلكہ كينہ و عداوت ان كے دلوں ميں پہلے كے مقابل زيادہ گھر كرنے لگا_ چنانچہ جلسہ ختم ہوا تو لوگ گذشتہ كى نسبت اب زيادہ غم و غصہ اور نفرت كے جذبات سے لبريز شہر كے باہر روانہ ہوئے اور ا پنے خيمہ گاہوں ميں واپس آگئے_

۲۶۵

سوالا ت

۱_ اشعث جنگ بندى كے لئے كيوں بہت زيادہ كوشش كر رہا تھا اس كے مرتد ہونے كے بارے ميں آپ كيا جانتے ہيں ؟

۲_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام ابو موسى كو كن اسباب كى بنا پر منتخب كرنا نہيں چاہتے تھے_ اشعث اور اس كے حواريوں نے ان كے انتخاب پر كيوں اصرار كيا؟

۳_ صلح حديبيہ اور معاہدہ صفين كے درميان كيا باہمى ربط ہے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اس بارے ميں كيا پيشين گوئي تھي؟

۴_ جنگ صفين سے مسلمانوں نے كيا سبق سيكھا؟

۵_ جنگ صفين كے كيا نتائج پر آمد ہوئے؟ مختصر طور پر لكھيئے

۶_ جب اميرالمومنينعليه‌السلام كوفہ تشريف لے گئے تو وہ كون تھے جو آپ كے ساتھ كوفہ ميں داخل نہ ہوئے ان كى تعداد كتنى تھى ؟ انہوں نے اپنے خيمے كہاں لگائے اور ان كا پيش امام كون شخص تھا؟

۷_ خوارج جب كوفہ واپس آگئے تو انہوں نے كيا افواہيں پھيلائيں اور ان ميں كون لوگ سرگرم عمل تھے اس سلسلے ميں اشعث كياكردار رہا؟ مختصر طور پر لكھيئے؟

۲۶۶

حوالہ جات

۱_ نہج البلاغہ مكتوب ۶۳

۲_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۶۱

۳_ نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۶ سے ماخوذ

۴_ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے خطبے ميں بھى اس امر كى جانب اشارہ كيا ہے كہ عباس كو منتخب كرنے ميں كيا مصلحت تھى تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو وقعہ صفين ص ۵۰۰

۵_ ربيعہ اور مضر كا شمار عرب كے دو بڑے قبيلوں ميں ہوتا تھا يہ دونوں قبيلے نزر ابن معد بن عدنان كے فرزندان، ربيعہ اور مضر كى نسلوں سے تھے قبيلہ ربيعہ كے بيشتر لوگ يمن ميں اور مضر كے اكثر افراد حجاز ميں آباد تھے يہ دونوں قبيلے اپنے قبائلى مسائل كى بناپر ايك دوسرے كى جان كے دشمن تھے

۶_ وقعہ صفين / ۵۰۰

۷_ لا ا نصركم حتى تملكونى فملكوہ و تو جوہ كما يتوج الملك من قحطان _

۸_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱ ص ۲۹۵_۲۹۳

۹_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱ ص ۲۹۶، تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۳۸

۱۰_ وقعہ صفين ص ۵۰۲_ ۵۰۰ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۵۲_ ۵۱ _ كامل ابن ايثر جلد۳/ ۳۱۹

۱۱_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۳، وقعہ صفين / ۵۰۲

۱۲_ تاريخ طبرى ج ۵ ص ۵۲، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۱۹، وقعہ صفين ۵۰۸، الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۴

۱۳_لا تمسح اسم امرة المومنين عنك و ان قتل الناس بعضهم بعضا فانى اتخوف الا ترجع اليك ابدا

۱۴_ شرح ابن الحديد ج ۲ ص ۲۳۲، وقعہ صفين ۵۰۸، الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۴

۱۵_ يہ جملہ حضرت علىعليه‌السلام كى فرمايش كے مطابق '' سنة بسنة'' نقل كيا گيا ہے_

۱۶_فاليوم اكتبها الى ابنائهم كما كتبها رسول الله الى ابائهم سنة و مثلا وقعہ صفين ۵۰۸، شرح ابن ابى ا لحديد ج ۲ ص ۲۳۲، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۵۲

۱۷_ وقعہ صفين ص ۵۰۵_ ۵۰۴، الاماميہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۵، كامل ابن اثيرج ۳ ص ۳۲۰

۲۶۷

۱۸_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۴_ ۳۹۳

۱۹_ ايضاً

۲۰_ وقعہ صفين ۵۱۱

۲۱_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۴

۲۲_ وقعہ صفين ۵۱۳_ ۵۱۲

۲۳_ ايضاً

۲۴_ وقعہ صفين ۵۱۶_ / ۵۱۳

۲۵_ سورہ نحل آيت ۹۰

۲۶_ سورہ مائدہ آيت ۱

۲۷_ حروراء ۲۰۰جگہ كوفہ سے تقريبا نصف فرسخ كے فاصلے پر واقع تھى اور چونكہ انہوں نے يہاں قيام كيا تھا اسى لئے وہ '' حروريہ'' كہلائے جانے لگے_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۲۹۱

۲۸_ كامل ابن اثير ج ۳ ۳۲۶، مروج الذہب ج ۲ ۳۹۵

۲۹_ كامل ابن اثير ج ۳، ۳۲۷

۳۰_ سورہ نساء آيہ ۳۵، ابن عباس كى دليل يہ تھى كہ جب خداوند تعالى نے ايك خاندان كى اصلاح كيلئے ايك منصف ثالث كو لازم قرار ديا ہے تو يہ كيسے ممكن ہے كہ اس كا اطلاق اس عظيم امت پر نہ ہو_

۳۱_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۲۷

۳۲_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۹۱، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۲۸،عقد الفريد ج ۲ ص ۳۸۸

۳۳_سيرة الائمہ الانثى عشر ج ۱ /۴۸۹

۳۴_كل فساد كان فى خلافة على عليه السلام و كل اضطراب حدث فاصله الاشعث ، شرح نہج البلاغہ ج ۲ ص ۲۷۹

۳۵_ عليك لعنة اللہ و لعنة اللاعنين حائك بن حائك منافق بن كافر نہج البلاغہ ج ۱۹

۳۶_ سيرة الائمہ الاثنى عشر ج ۱ / ۴۹۸، شرح نہج البلاغہ علامہ خوئي ج ۴ ص ۱۲۶

۳۷_ سيرة الائمہ الاثنى عشر ج ۱ ص ۴۸۹

۳۸_ شرح نہج البلاغہ ، علامہ خوئي ج ۱ ص ۱۲۷

۲۶۸

چودھواں سبق

مارقين _ حكميت كا نتيجہ و رد عمل

منصفين كا اجتماع

حكميت كا نتيجہ اور اس كا رد عمل

مارقين

خوارج كے مقابل حضرت علىعليه‌السلام كا موقف

منشور

مجموعى نعرہ

بغاوت

معاويہ سے جنگ

خوارج كے ساتھ جنگ كى ضرورت

جنگ كا سد باب كرنے كى كوشش

سوالات

حوالہ جات

۲۶۹

منصفين كا اجتماع

معاويہ نے جب يہ ديكھا كہ حكميت كے معاملے ميں عراقى فوج كى كثير تعداد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام برگشتہ ہوگئي ہے تو اس نے يہ كوشش شروع كردى كہ جس قدر جلد ہوسكے حكميت كا نتيجہ اس كى مرضى كے مطابق برآمد ہوجائے_اس مقصد كے تحت اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف سركشى و شورش كا محاذ قائم كرديا تا كہ وہ اپنے سياسى موقف كو قائم كرسكے_

چنانچہ اس ارادے كے تحت اس نے جونمائندے حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں بھيجے انھيں ہدايت كردى كہ جس قد رجلد ممكن ہوسكے منصفين اپنا كام شروع كرديں _

بلاخرہ ۳۸ ھ چار سو افراد كے ہمراہ دو نمائندہ وفد '' دومة الجندل(۱) '' نامى مقام پر جمع ہوئے_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے جو وفد بھيجا گيا تھا اس كى سرپرستى كے فرائض ابن عباس انجام دے رہے تھے_(۲)

جس وقت يہ وفد روانہ ہونے لگا تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے بعض اصحاب نے ابوموسى كو كچھ ضرورى ہدايات بھى كيں(۳) جن كا ان پر ذرا بھى اثر نہ ہوا_ جس وقت اُسے مشورے ديئےارہے تھے تو وہ مسلسل اپنے داماد عبداللہ ابن عمر كى جانب ديكھ رہا تھا اور يہ كہہ رہا تھا كہ : خدا كى قسم اگر ميرا بس چل سكا تو عمر كى راہ و رسم كو از سرنو زندہ كروں گا_(۴)

عمر و عاص كى جيسے ہى ابوموسى سے ملاقات ہوئي تو وہ اس كے ساتھ نہايت عزت و احترام كى ساتھ پيش آيا اور اس بات كى كوشش كرنے لگا كہ اسے اپنا ہم خيال بنالے ابتدائي مراحل انجام دينے كے بعد وہ دونوں مشاورت كے لئے بيٹھ گئے اور باقى افراد دو جانب كھڑے اس گفتگو كا انتظار كرنے لگے_

۲۷۰

شام كاوفد خاص نظم و ضبط كے ساتھ آيا تھا ملاقاتوں اور گفتگو ميں ا حتياط كا عنصر غالب تھا اسى اثناء ميں معاويہ نے عمروعاص كو خط لكھا جس كے مضمون كى اطلاع اس كے علاوہ كسى كو نہ ہوئي اس كے برعكس عراقى وفد كے اراكين احتياط سے دور شور و غوغا بپا كئے ہوئے تھے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے بھى ابن عباس كو خط لكھا ابھى قاصد اونٹ سے اترا بھى نہيں تھا كہ لوگ اس كے گرد جمع ہوگئے_ اور پوچھنے لگے كہ خط ميں كيا لكھا گيا ہے يہى كام انہوں نے ابن عباس كے پاس پہنچ كر كيا ليكن جب انہوں نے خط كے مضمون كو ان سے پوشيدہ ركھنا چاہا تو لوگ ان كے بارے ميں بدگمانى كرنے لگے اور ان كے بارے ميں چرچے ہونے لگے يہاں تك كہ ابن عباس كو ان كى حماقت و ضد پر غصہ آگيا انہوں نے سرزنش كرتے ہوئے درشت لہجے ميں كہا كہ : ا فسوس تمہارى حالت پر تمہيں كب عقل آئے گى ديكھتے نہيں ہو كہ معاويہ كا قاصد آتا ہے اور كسى كو يہ تك معلوم نہيں ہوتا كہ كيا پيغام لے كر آيا ہے وہ اپنى بات كو ہوا تك لگنے نہيں ديتے اور ايك تم ہو كہ ميرے بارے ميں ہر وقت بدگمانى كرتے رہتے ہو _(۵)

حكميت كا نتيجہ اوراس كا رد عمل

منصفين كے درميان بحث و گفتگو تقريبا دو ماہ تك جارى رہى مذاكرات كے دوران ابوموسى كى يہ كوشش رہى كہ عمروعاص امور خلافت كو عبداللہ ابن عمر كى تحويل ميں دے دے دوسرى طرف عمروعاص معاويہ كى تعريف كے پل باندھے چلا رہا تھا اور اسے عثمان كا ولى و جانشين كہتے اس كى زبان نہيں تھكتى تھى _ وہ يہ كوشش كر رہا تھا كہ كس طرح ابوموسى كو قائل كر لے اور يہ كہنے پر مجبور كرے كہ خلافت اسى كا حصہ ہے_

بلاخر نتيجہ يہ بر آمد ہوا كہ فريقين نے اس بات پر اتفاق كيا كہ ''حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ دونوں ہى خلافت سے دست بردار ہوجائيں اور امور خلافت كو مشاورت كى صوابديد پر چھوڑديں اس موافقت كے بعد اعلان كيا گيا كہ لوگ حكميت كا نتيجہ سننے كے لئے جمع ہوجائيں _

۲۷۱

جب لوگ جمع ہوگئے تو ابوموسى نے عمروعاص كى جانب رخ كيا اور كہا كہ منبر پر چڑھ كر اپنى رائے كا اعلان كردو عمروعاص تو اول دن سے ہى اس بات كا متمنى تھا اور اسى لئے وہ ابوموسى كى تعريف و خوشامد كرتا رہتا تھا مگر اس نے استعجاب كرتے ہوئے كہا كہ : سبحان اللہ حاشا و كلا كہ يہ جسارت كروں اور آپ كى موجودگى ميں منبر پر قدم ركھوں ، خداوند تعالى نے ايمان و ہجرت ميں آپ كو مجھ پر فوقيت عطا كى ہے آپ اہل يمن كى طرف سے نمائندہ بن كر رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں حاضر ہوچكے ہيں اور پھررسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب سے آپ ہى نمائندہ بناكر يمن كے لوگوں كے پاس بھيجے گئے تھے اس كے علاوہ سن و سال ميں آپ مجھ سے بڑے ہيں اس بناپر آپ ہى گفتگو شروع كريں(۶)

ابوموسى گفتگو شروع ہى كرنا چاہتا تھا كہ ابن عباس نے كہا كہ عمروعاص تمہيں دام فريب ميں لانے كى فكر ميں ہے گفتگو كا آغاز اسے ہى كرنے دو كيونكہ وہ بہت عيار اور نيرنگ ساز آدمى ہے مجھے يقين نہيں كہ جس چيز پر اس نے اپنى رضايت ظاہر كى ہے اس پر وہ عمل بھى كرے_

ليكن ابوموسى نے ابن عباس كى نصيحت پر عمل نہيں كيا اور اس نيك مشورے كے باوجود وہ منبرپر چڑھ گيا اور اعلان كيا كہ ہم نے اس امت كے امور پر غور كيا اور ا س نتيجہ پر پہنچے كہ وحدت نظر سے بڑھ كر ايسى كوئي شي نہيں جو اس در ہم برہم حالت كى اصلاح كرسكے_ چنانچہ ميں نے اور ميرے حريف ساتھى '' عمرو'' نے اس بات پر اتفاق كيا ہے كہ علىعليه‌السلام اور معاويہ دونوں ہى خلافت سے دستبردار ہوجائيں اور اس معاملے كو مسلمانوں كى مجلس مشاورت كى تحويل ميں دے ديا جائے تا كہ جس شخص كو يہ مجلس مشاورت پسند كرے اسے ہى منصب خلافت پر فائز كيا جائے_

اس كے بعد اس نے پر وقار لہجے ميں كہا كہ ميں نے علىعليه‌السلام اور معاويہ كو خلافت سے برطرف كيا_

اس كے بعد عمروعاص منبر پر گيا اور اس نے بآواز بلند كہا كہ لوگو تم نے اس شخص كى باتيں سن ليں ميں بھى علىعليه‌السلام كو ان كے مقام سے برطرف كرتا ہوں ليكن اپنے دوست معاويہ كو اس منصب پر مقرر كرتا ہوں كيونكہ انہوں نے عثمان كے خون كا بدلہ ليا ہے اوراس منصب كے لئے وہ مناسب

۲۷۲

ترين شخص ہے يہ كہہ كر وہ منبر سے نيچے اتر آيا_

مجلس ميں ايك دم شور و ہيجان بپا ہوگيا لوگ طيش ميں آكر ابوموسى پر پل پڑے بعض نے عمروعاص پر تازيانہ تك اٹھاليا ابوموسى نے شكست كھائے ہوئے انسان كى طرح اپنے خيانت كار حريف كى اس حركت پر اعتراض كيا تجھے يہ كيا سوجھي؟ خدا تجھے نيك توفيق نہ دے تو نے خيانت كى ہے اور گناہ كا مرتكب ہوا ہے تيرى حالت كتے جيسى ہى ہے اسے چاہے مارا جائے يا چھوڑديا جائے وہ ہر حالت ميں بھونكتا ہى رہتا ہے اس پر عمرو نے جواب ميں كہا كہ تيرى حالت اس گدھے كى سى ہے جس پر كتابيں لدى ہوئي ہيں _(۷)

حكميت كا معاملہ اس تلخ انجام كے ساتھ اختتام پذير ہوا ابوموسى جان كے خوف سے فرار ركر كے مكہ چلا گيا عمروعاص فاتح كى حيثيت سے شام كى جانب روانہ ہوا اور اس نے معاويہ كو خليفہ كى حيثيت سے سلام كيا_

حكميت سے جو نتيجہ بر آمد ہوا اس نے عراق كے لوگوں كى ذہنى كيفيت كو برى طرح متاثر و مجروح كيا كيونكہ ايك طرف تو خوارج كا غم و غصہ پہلے كى نسبت اب كہيں زيادہ بڑھ گيا تھا كہ جس كا سبب يہ تھا كہ انھيں اميد تھى كہ امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام معاہدے كے منسوخ كرنے پر راضى ہوجائيں گے اور معاويہ كے خلاف اعلان جنگ كرديا جائے گا دوسرى طرف جب يہ افسوسناك خبر كوفہ و بصرہ كے لوگوں تك پہنچى كہ حضرت علىعليه‌السلام خلافت سے برطرف كرديئے گے وہيں تو مسلمانوں كےدرميان اختلافات بہت زيادہ تير كے آورد ان كى خليج كافى وسيع ہوتى چلى گئي چنانچہ نوبت يہاں تك پہنچى كہ ايك دوسرے كو بر ملا سخت و ست كہنے لگے_

امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام نے لوگوں كے درميان رفع اختلاف ، حزن و ملال كے آثار ميں كمى اور مسئلہ حكميت كے بارے ميں رائے عامہ روشن كرنے كى خاطر اپنے فرزند حضرت حسن مجتبيعليه‌السلام كو حكم ديا كہ وہ عوام كے سامنے جا كر تقرير كريں _

حضرت امام حسنعليه‌السلام منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا لوگو حكمين كے بارے ميں تم بہت زيادہ

۲۷۳

گفتگو كرچكے ہو ان كا انتخاب اس لئے عمل ميں آيا تھا كہ وہ قرآن كى بنياد پر حكم كريں گے مگر ہوائے نفسانى كى پيروى كرنے كى وجہ سے انہوں نے فيصلہ قرآن كے برخلاف كيا ہے اس بنا پر انھيں حكم نہيں كہا جا سكتا بلكہ وہ محكوم كہلائے جانے كے مستحق ہيں _

ابو موسى جو عبداللہ بن عمر كا نام تجويز كر چكا تھا تين اعتبار سے لغزش و خطا كا مرتكب ہوا_

اس كى پہلى لغزش تو يہى تھى كہ اس نے اس كے خلاف عمل كيا جو عمر نے كہا تھا عمر چونكہ اسے خلافت كا اہل نہيں سمجھتے تھے اسى لئے انہوں نے اس كو مجلس مشاورت كاركن بھى قرار نہيں ديا تھا_

دوسرى لغزش ان كى يہ تھى كہ انہوں نے يہ فيصلہ عبداللہ سے مشورہ كئے بغير كيا اور انھيں يہ معلوم نہيں تھا كہ وہ اس پر رضامند ہوں گے يا نہيں _

تيسرى لغزش يہ تھى كہ عبداللہ اس حيثيت سے ايسا انسان نہيں تھا جس كے بارے ميں مہاجرين و انصار كا اتفاق رائے ہوتا_

اب رہى مسئلہ حكميت كى اصل (تو كوئي نئي بات نہيں كيونكہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غزوات كے دوران اس پر عمل كرچكے ہيں ) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طائفہ '' بنى قريظہ'' كے بارے ميں سَعد بن معاذ كو حكم قرار ديا تھا اور چونكہ حكميت رضائے خداوندى كے خلاف تھى اس لئے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس پر راضى نہ ہوئے _

حضرت امام حسنعليه‌السلام كے بعد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے فرمانے پر عبداللہ بن جعفر اپنى جگہ سے اٹھے اور عامہ كو مطلع كرنے كى غرض سے انہوں نے تقرير كي(۸)

ج) مارقين

خوارج كے مقابل حضرت علىعليه‌السلام كا موقف(۹)

حكميت كے معاملے ميں شكست سے دوچار ہو كر اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام معاويہ سے جنگ كرنے كى غرض سے اپنے آپ كو آمادہ كرنا شروع كيا تا كہ مقرر مدّت ختم ہوجانے كے بعد صفين كى جانب واپس چلے جائيں ليكن خوارج نے حضرت علىعليه‌السلام كى اطاعت كرنے كى بجائے شورش و

۲۷۴

سركشى سے كام ليا اور پہلے كى طرح اس مرتبہ بھى نعرہ لا حكم الا اللہ كى بنياد پر اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام اور معاويہ كو وہ كافر كہنے لگے_

انھيں جب بھى موقع ملتا وہ شہر كوفہ ميں داخل ہوجاتے اور جس وقت حضرت علىعليه‌السلام مسجد ميں تشريف فرما ہوتے تو وہ اپنا وہى پرانا نعرہ لگانے لگتے اس كے ساتھ ہى انہوں نے اس شہر ميں اپنے افكار و نظريات كا پرچار بھى شروع كرديا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے خاموش و پر سكون رہ كر اور كوئي رد عمل ظاہر كئے بغير اپنى تحريك كو جارى ركھا وہ ان كے ساتھ انتہائي نرمى اور تواضع كے ساتھ پيش آئے اگر چہ حضرت علىعليه‌السلام چاہتے تو ان لوگوں سے كسى بھى قسم كا سلوك روا ركھ سكتے تھے مگر آپعليه‌السلام نے ان كى تمام افترا پردازيوں اور سياسى سرگرميوں كے باوجود اپنے محبت آميز رويے ميں ذرہ برابر بھى تبديلى نہ آنے دى آپعليه‌السلام ان سے اكثر فرماتے كہ '' تمہارے تين مسلم حقوق ہمارے پاس محفوظ ہيں :

۱_ شہر كى جامع مسجد ميں نماز پڑھنے اور اجتماعات ميں شركت كرنے سے تمہيں ہرگز منع نہيں كيا جائے گا_

۲_ جب تك تم لوگ ہمارے ساتھ ہو بيت المال سے تمہيں تنخواہيں ملتى رہيں گي_

۳_ جب تك تم ہم پر تلوار اٹھاؤ گے ہم تمہارے ساتھ ہرگز جنگ كے لئے اقدام نہ كريں گے(۱۰)

خوارج اگر چہ نماز ميں حضرت علىعليه‌السلام كى پيروى نہيں كرتے تھے مگر اجتماع نماز كے وقت ضرور پہنچ جاتے وہ لوگ اس جگہ نعرے لگا كر اور دوسرے طريقوں سے آپعليه‌السلام كو پريشان كركے آزار پہنچانے كى كوشش كرتے رہتے ايك دن جس وقت حضرت علىعليه‌السلام نماز ميں قيام كى حالت ميں تھے خوارج ميں سے ايك شخص نے جس كا نام ''كوا'' تھا بآواز بلند يہ آيت پڑھي:

) و لقد اوحى اليك والى الذين من قبلك لئن اشركت ليحبطن عملك و لتكونن من الخاسرين ( (۱۱)

۲۷۵

(اس آيت ميں خطاب پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كيا گيا ہے كہ : اے نبى ان سے كہو' پھر كيا اے جاہلو تم اللہ كے سوا كسى اور كى بندگى كرنے كےلئے مجھ سے كہتے ہو(يہ بات ہميں ان سے صاف كہہ دينى چاہيئے كيونكہ) تمہارى طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبياء كى طرف يہ وحى بھيجى جاچكى ہے_ اگر تم نے شرك كيا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا اور تم خسارے ميں رہوگے)

'' ابن كوا'' يہ آيت پڑھ كرچاھتا تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو اشارہ و كنايہ ميں يہ بتا دے كہ آپ نے عہد گذشتہ ميں جو اسلام كے لئے خدمات انجام دى ہيں ان سے ہرچند انكار نہيں كيا جاسكتا ليكن آپعليه‌السلام نے كفر كے باعث اپنے تمام گذشتہ اعمال كو تلف و ضائع كرديا ہے_

حضرت علىعليه‌السلام خاموش رہے اور جب يہ آيت پورى پڑھى جا چكى تو آپ نے نماز شروع كى '' ابن كوا'' نے دوسرى مرتبہ يہ آيت پڑھى حضرت علىعليه‌السلام اس مرتبہ بھى خاموش رہے چنانچہ جب وہ يہ آيت كئي بارپڑھ چكا اور چاہتا تھا كہ نماز ميں خلل انداز ہو تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے يہ آيت تلاوت فرمائي

فاصبر ان وعد الله حق و لا يستخفنك الذين لا يوقنون (۱۲) (پس اے نبى صبر كرو يقينا اللہ كا وعدہ سچا ہے اور ہرگز ہلكانہ پائيں تم كہ وہ لوگ جو يقين نہيں كرتے) اور آپ نے اس كى جانب توجہ و اعتنا كئے بغير نماز جارى ركھي_(۱۳)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كا طرز عمل يہ تھا كہ آپ لوگوں كى نعرہ بازى اور نكتہ چينى كا جواب منطقى نيز واضح و روشن دلائل سے ديتے تا كہ وہ اپنى ذھنى لغزش كى جانب متوجہ ہو سكيں اور آپعليه‌السلام كو پريشان كرنے سے باز رہيں اسى لئے آپعليه‌السلام فرماتے كہ اگر خوارج خاموش رہتے ہيں تو ہم انھيں اپنى جماعت كا جزو ركن سمجھتے ہيں اگر وہ اعتراض كيلئے لب كشائي كرتے ہيں تو ہم ان كا مقابلہ منطق و دليل سے كرتے ہيں اور وہ ہمارے ساتھ ضد پر اتر آئيں تو ہم ان سے نبرد آزمائي كرتے ہيں _(۱۴)

۲۷۶

منشور

خوارج نے ايك خاص انداز فكر كى بنياد پر اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف شورش و سركشى كى ان كے اس دائرہ عمل ميں مندرجہ ذيل نكات شامل تھے_

۱_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام معاويہ ،اور عثمان، اصحاب جمل اور حكميت سے متفق و ہم خيال اشخاص نيز ان افراد كو كافر تصور نہ كرنے والے لوگ اور مذكورہ بالا افراد سے وابستہ گروہ سب كے سب كافر ہيں _

۲_ امر بالمعروف و نہى از منكر كى بنياد پر ظالم و ستمگر خليفہ وقت (اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كےخلاف بلاقيد و شرط شورش كرنا ضرورى ہے كيونكہ ان كى رائے ميں اس كا اطلاق كسى شرط و پابندى كے بغير ہرجگہ ضرورى و لازمى امر تھا _

۳_ مسئلہ خلافت كا حل مجلس مشاورت كے ذريعے كيا جانا چاہئے اور اس مقام كو حاصل كرنے كيلئے ان كى دانست ميں واحد شرط يہ تھى كہ آدمى صاحب تقوى و ايمان ہو اور اگر خليفہ انتخاب كے بعد اسلامى معاشرے كى مصلحتوں كے برخلاف كوئي اقدام كرے تو اسے اس عہدے سے معزول كرديا جائے اور اگر وہ اپنے منصب سے دست بردار نہ ہو تو اس سے جنگ ونبرد كى جانى چاھيئے_(۱۵)

اس منشور كى بنياد پر وہ ابوبكر اور عمر كى خلافت كو صحيح سمجھتے تھے كيونكہ ان كى رائے ميں يہ حضرات صحيح انتخاب كے ذريعے عہدہ خلافت پر فائز ہوئے تھے اور وہ مسلمانوں كى خير و صلاح كى راہ سے منحرف نہ ہوئے تھے عثمان اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے انتخاب كو اگر چہ وہ ہر چند درست ہى سمجھتے تھے مگر اس كے ساتھ وہ يہ بھى كہتے تھے كہ عثمان نے اپنى خلافت كے چھٹے سال سے اپنے رويے كو بدلنا شروع كرديا تھا اسى لئے وہ خلافت سے اگر چہ معزول كرديئے گئے تھے مگر وہ چونكہ اپنے اس منصب پر فائز رہے اسى لئے وہ كافر اور واجب القتل تھے علىعليه‌السلام نے بھى چونكہ حكميت كو تسليم كرليا تھا اور اس اقدام پر پشيمان ہو كرا انہوںعليه‌السلام نے توبہ نہيں كى تھى اسى لئے وہ كافر اور واجب القتل ہيں (معاذ اللہ(۱۶)

۲۷۷

مجموعى نعرہ

خوارج كا انتہائي اہم اور پر جوش ترين نعرہ لا حكم الا للہ تھا اگر چہ يہ نعرہ انہوں نے قرآن مجيد سے ہى اخذ كيا تھا(۱۷) مگر عدم واقفيت اور فكرى جمود كے باعث اس كى وہ صحيح تفسير نہ كرسكے_

مذكورہ آيہ مباركہ ميں '' حكم'' سے مراد قانون ہے مگر خوارج نے اپنى كج فہمى كى بنا پر اس كے معنى '' رہبري'' سمجھ لئے جس ميں حكميت بھى شامل ہے وہ اس بات سے بے خبر رہے كہ خود قرآن نے ان كى كج فہمى كو رد كيا ہے جب قرآن نے بيوى و شوہر كے اختلاف اور حالت احرام ميں(۱۸) شكار كرنے تك مسائل كے بارے ميں انسانوں كو حكميت كا حق ديا ہے تو يہ كيسے ممكن تھا كہ مسلمانوں كے دو گروہ كے درميان ايسے حساس معاملات اور عظيم اختلافات كے بارے ميں انسانوں كو حق حكميت نہ ديا جاتا جس سے بعض انسانى زندگيوں كى نجات بھى وابستہ ہو_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ان لوگوں كى اطلاع كے لئے جو خوارج كا پروپيگنڈا بالخصوص اس دلكش نعرے سے متاثر ہوگئے تھے موثر تقرير كى اس ميں آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ اگر چہ يہ بات مبنى بر حقيقت ہے مگر اس سے جو مقصد و ارادہ اخذ كياگيا ہے وہ محض باطل ہے اس ميں شك نہيں كہ حكم خدا كيلئے ہى مخصوص ہے ليكن ان لوگوں نے حكم كى جو تفسير كى ہے اس سے مراد فرمانروا ہے اور ان كا كہنا ہے كہ خدا كے علاوہ كسى فرمانروا كا وجود نہيں در حاليكہ انسانوں كيلئے خواہ اچھے كام انجام ديتے ہوں يا برے ' فرمانروا كا وجوود امر ناگزير ہے(۱۹)

بغاوت

خوارج ابتدا ميں بہت امن پسند تھے اور صرف لوگوں پر تنقيد و اعتراض ہى كيا كرتے تھے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ ان كا رويہ وہ تھا جو اوپر بيان كيا جا چكا ہے مگر آہستہ آہستہ انہوں نے اپنى راہ و روش بدلى چنانچہ نوبت يہاں تك پہنچى كہ شورش و سركشى پر اتر آئے ايك روز عبداللہ

۲۷۸

بن وہب راہبى نے انھيں اپنے گھر پر جمع ہونے كى دعوت دى اور ان كے سامنے نہايت ہى پر جوش و لولہ انگيز تقرير كے ذريعے انہوں نے اپنے ہم مسلك لوگوں كو شورش و سركشى پر آمادہ كيااس ضمن ميں اس نے كہا كہ بھائيو اس جور و ستم كى نگرى سے نكل كر اچھا تو يہى ہے كہ پہاڑوں ميں جاكر آباد ہو رہيں تا كہ وہاں سے ہم ان گمراہ كن بدعتوں كا مقابلہ كركے ان كا قطع قمع كرسكيں _(۲۰)

اس كے بعد ''حر قرص بن زہير'' نے تقرير كى ان دونوں كى تقارير نے خوارج كے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر كيا اور ان ميں پہلے كى نسبت اب زيادہ جو ش و خروش پيدا ہونے لگا اگلا جلسہ '' ذفر بن حصين طائي'' كے گھر پر ہوا اس نے مفصل تقرير كے بعد كہا كہ ميں اپنے نظريئےيں دوسروں كى نسبت زيادہ محكم و پايدار ہوں اگر ايك شخص اس سلسلے ميں ميرا ساتھ نہ دے تو ميں اكيلا ہى شورش و سركشى كروں گا _ اے بھائيو تم اپنے چہروں اور پيشانيوں پر شمشير كى ضربيں لگاؤ تا كہ خدا ئے رحمن كى اطاعت ہوسكے(۲۱) اس كے بعد اس نے يہ تجويز پيش كى كہ بصرہ كے خوارج كو خط لكھا جائے تا كہ جس قدر جلد ممكن ہوسكے وہ ''نہروان'' ميں ان سے آن مليں اہل بصرہ نے مثبت جواب ديا اور كوفہ كے گروہ كے ساتھ آكر مل گئے(۲۲)

خوارج نے اپنى تحريك كوفہ كے باہر راہزنى اور ناكہ بندى كے ذريعے شروع كى _ قتل و غارتگرى كو انہوں نے اپنا شعار بنايا اور جو لوگ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے حامى و طرفدار تھے ان كے ساتھ وہ دہشت پسندانہ سلوك كرنے لگے_

اس اثناء ميں انھيں دو شخص نظر آئے ان ميں سے ايك مسلمان تھا ا ور دوسرا عيسائي ، عيسائي كو تو انہوں نے چھوڑ ديا مگر مسلمان كو اس جرم ميں قتل كرديا كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كا طرفدار ہے_(۲۳)

عبداللہ بن خباب سربرآوردہ شخص اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے كار پرداز تھے وہ اپنى زوجہ كے ساتھ جار ہے تھے كہ خوارج سامنے سے آگئے ان كو ديكھتے ہى انہوں نے كہنا شروع كيا كہ : '' اسى قرآن نے جو تيرى گردن ميں حمايل ہے تيرے قتل كا حكم صادر كيا ہے '' قتل كرنے سے پہلے

۲۷۹

ان سے كہا گيا اپنے والد كے واسطہ سے پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حديث نقل كرو اُنہوں نے كہا ''ميرے باپ كہتے تھے كہ ميں نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے كہ ميرے بعد كچھ عرصہ نہ گذرے گا كہ فتنہ و فساد كى لہريں ہر طرف پھيل جائيں گى اس وقت بعض لوگوں كے دل حقيقت كو سمجھنے سے قاصر رہيں گے اور وہ اسى طرح مردہ ہوجائيں گے جيسے انسانى جسم ايسے وقت ميں بعض افراد رات كے وقت مومن ہوں گے ليكن دن كے وقت كافر اس وقت تم خدا كے نزديك مقتول بن كر رہ لينا(حق كى پاسبانى كرنا اس كام ميں چاھے تمہارى جان پر بن جائے) مگر قتل و خونريزى سے گريز كرنا(۲۴)

عبداللہ نے حديث بيان كر كے اس وقت مسلمانوں ميں جو معاشرہ كار فرما تھا اس كى تصوير كشى كردى تا كہ خوارج اس سے پند و نصيحت لے سكيں ليكن انہوں نے ان كے ہاتھ پير اس برى طرح جكڑے كہ ديكھنے والے كے دل پر رقت طارى ہوتى تھى اور بہت زيادہ شكنجہ كشى اور آزار رسانى كے بعد انھيں نہر كے كنارے لے گئے جہاں انہوں نے انھيں بھيڑ كى مانند ذبح كيا ان كى حاملہ زوجہ كو قتل كرنے كے بعد ان كا شكم چاك كيا اور نارسيدہ بچے كو بھى انہوں نے ذبح كر ڈالا(۲۵)

عبداللہ كا قتل جس بے رحمى سے كيا گيا تھا اس پر ايك عيسائي شخص معترض ہوا وہ باغبان تھا اس وضع و كيفيت كو ديكھ كر وہ كچھ كھجوريں لے گيا اور قاتلوں كو پيش كيں جنہيں بغير قيمت ادا كئے انہوں نے قبول كرنے سے انكار كرديا اس پرعيسائي نے كہا كہ عجيب بات ہے كہ تم عبداللہ جيسے بے گناہ شخص كو قتل كرسكتے ہو اور بغير قيمت ادا كيے كھجوريں كھانے ميں تمہيں عذر ہے_(۲۶)

معاويہ سے جنگ

حكميت كى مدت اسى وقت ختم ہوئي جب كوفہ و بصرہ ميں خوارج جمع ہو رہے تھے مذكورہ مدت كے ختم ہوجانے كے بعد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے حَرُوراء ميں معاويہ سے جنگ كرنے كا فيصلہ كيا چنانچہ شہر ميں آمادہ رہنے كا اعلان كرديا گيا اس كے بعد آپ نے لوگوں كو جہاد كى جانب

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348