تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 22%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175331 / ڈاؤنلوڈ: 4064
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

خدا وند عالم کی گواھی:

اس آیہء شریفہ میں پیغمبر خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے پہلے گواہ کے طور پر خدا وندمتعال کا ذکرہوا ہے۔ خدا وند متعال کی اس گواہی کے دوفرض ہیں:

۱ ۔ممکن ہے یہ گواہی قولی ہو اور گفتگو و کلام کے مقولہ سے ہو اس صورت میں وہی آیتیں جو آنحضرت کی رسالت کو بیان کرتی ہیں خداوندمتعال کی اس گواہی کی مصداق ہوں گی، جیسے :( والقران الحکیم انّک لمن المرسلین ) (۱) ” قرآن حکیم کی قسم آپ مرسلین میں سے ہیں“

۲ ۔ ممکن ہے یہ گواہی فعلی ہو اور خدا وندمتعال نے اسے معجزہ کی صورت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذر یعہ ظاہر کیا ہو، یہ معجزے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے سلسلہ میں دعویٰ کے لئے ایک قوی سند ، واضح دلیل اور گو یا گواہ ہیں، خاص کر قرآن مجید ، جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاایک لافانی معجزہ ہے اورہر زمانہ میں باقی رہنے والا ہے اوران معجزات کی حیثیت ایک طرح سے خداوندمتعال کے فعل کی سی ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر گواہ ہیں۔

من عندہ علم الکتاب - سے مرادکون ہے؟

دوسرے محورمیں بحث اس جہت سے ہوگی کہ ” کتاب“ سے مراد کیا ہے؟ اور جس کے پاس ” کتاب کا علم“ ہے ، وہ کون ہے؟ اس سلسلہ میں چند احتمالات پائے جاتے ہیں کہ ہم ان پر بحث کریں گے:

پہلا احتمال :” کتاب“سے مرادقرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور کتاب کے عالم سے مرادعلمائے یہودو نصاریٰ ہیں:

اس صورت میں اس آیہ شریفہ کے معنی یوں ہوں گے: ” کہدےجئے اے پیغمبر! ہمارے

_____________________

۱-۔ سورہ یاسین/۱۔۲

۲۴۱

اورتمھارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے کافی ہے خدا وندمتعال اور وہ لوگ جن کے پاس گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم ہے جیسے علمائے یہودونصاری چونکہ ان کتابوں میں پیغمبر)صلی الله علیہ وآلہ وسلم) کا نام آیا ہے اور آنحضرت کی رسالت بیان ہوئی ہے ۔ اسی لئے علمائے یہودو نصاری اس مطلب سے آگاہی رکھتے ہیں اور اس پر گواہ ہیں۔

یہ احتمال صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر چہ علمائے یہودونصاری اپنی آسمانی کتابوں کے عالم تھے ، لیکن وہ کافر تھے اور ہر گز اپنے خلاف گواہی دینے کے لئے حاضر نہیں تھے۔

دوسرا احتمال : ” کتاب “سے مراد وہی قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور ان کے عالم سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا شمار پہلے علمائے یہودونصاری ٰ میں ہوا کر تا تھالیکن بعد میں اسلام قبول کرکے وہ مسلمان ہوگئے تھے، جیسے : سلمان فارسی ، عبدالله بن سلام اور تمیم الداری۔ یہ لوگ ایک جہت سے توریت اور انجیل جیسی گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے اور ایک جہت سے آمادہ تھے تاکہ اسلام کی حقانیت اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے بارے میں جو کچھ انہیں معلوم ہے اس کی گواہی دیں۔

یہ احتمال بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ سورہ رعد اور من جملہ زیر بحث آیہء شریفہ جو اس سورہ کی آخری آیت ہے ، مکہ میں نازل ہوئی ہے اور مذکورہ افراد مدینہ میں مسلمان ہوئے ہیں۔ اس لئے اس کاکوئی مفہوم نہیں ہے جو ابھی کافر ہیں اور مسلمان نہیں ہوئے ہیں اپنے دین کے خلاف گواہی دینے کے لئے مدعو ہوجائیں۔

شبعی اور سعید بن جبیر سے نقل ہوئی روآیت کے مطابق انہوں نے بھی مذکورہ احتمال یعنی ” من عندہ علم الکتاب“ سے عبدالله بن سلام کو مراد لینا اس کو مسترد کر دیا ہے ۔ اس کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ یہ سورہ مکی ہے اور عبداللهبن سلام مدینہ میں مسلمان ہوا ہے۔(۱)

تیسرا احتمال: ”من عنده علم الکتاب “ سے مقصود خداوندمتعال اور

____________________

۱۔ معالم التنزیل ، ج ۳-، ص ۴۶۴، ۴۶۵-۔ الاتقان ، ج ۱، ص ۳۶، دار ابن کثیر بیروت

۲۴۲

”کتاب“سے مرادلوح محفوظ ہے اور ”من عند ه علم الکتاب “ کا ” الله“ پر عطف ہونا صفت کا اسم ذات پر عطف ہونے کے باب سے ہے۔ اس صورت میں معنی یوں ہوتا ہے: خداوندمتعال اور وہ شخص جو لوح محفوظ )جس میں تمام کائنات کے حقائق ثبت ہیں ) کا علم رکھتا ہے، وہ تمہاری رسالت پر گواہ ہے۔

اول یہ کہ : جملہء( قل کفی باالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) میں بظاہر عطف یہ ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“ خدا وندمتعال کے علاوہ ہے کہ جس کا ذکر ابتداء میں پہلے گواہ کے طور پرآیا ہے۔

دوسرے یہ کہ: عربی ادبیات میں صفت کا عطف ، صفت پر موصوف کے سلسلہ میں مشہور اور رائج ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس قسم کا استعمال پایاجاتا ہے، جیسے :آیہء شریفہ :( تنزیل الکتاب من اللهالعزيز العلیم غافر الذّنب وقابل التوب ) (۱) میں ”غافرالذّ نب “)گناہ کو بخشنے والا) اور ”قابل التوب “ )توبہ کو قبول کرنے والا) دوصفتیں ہیں جو حرف عطف کے فاصلہ سے ایک دوسرے کے بعدہیں اور خدا وندمتعال کے لئے بیان ہوئی ہیں۔ لیکن جن مواقع پر پہلے اسم ذات ذکر ہوا ہے، کبھی بھی مشہور اور رائج استعمالات میں صفت اس پر عطف نہیں ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ : آیہ کریمہ میں ” من عندہ علم الکتاب“ سے مرادخدا وندمتعال ہے۔

چوتھا احتمال: کتاب سے مراد ” لوح محفوظ“ ہے اور ” جس کے پاس کتاب کا علم ہے اس سے مراد امیرلمومنین علی علیہ السلام ہیں۔

اب ہم اس احتمال پر بحث و تحقیق کرتے ہیں۔

____________________

۱۔ سورہ غافر/۲

۲۴۳

لوح محفوظ اور حقائق ھستی

قرآن مجید کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے تمام حقائق ایک مجموعہ کی شکل میں موجود ہیں کہ قرآن مجید نے اسے ” کتاب مبین“(۱) یا ” امام مبین“(۲) یا ” لوح محفوظ“(۳) کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ من جملہ سورہ نمل میں فرماتا ہے:( وما من غائبة فی السّماء والارض إلّا فی کتاب مبین ) (۴) یعنی: اور آسمان و زمین میں کوئی پوشیدہ چیزایسی نہیں ہے جس کا ذکر کتاب مبین ) لوح محفوظ ) میں نہ ہو۔

اس بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوح محفوظ میں درج شدہ حقائق سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے؟ اور اگر یہ ممکن ہے تو کون لوگ ان حقائق سے با خبر اور آگاہ ہیں اور کس حد تک؟

مطھّرون اور لوح محفوظ سے آگاہی

اس سلسلہ میں ہم سورہ واقعہ کی چند آیتوں پر غوروخوض کرتے ہیں:

( فلا اٴُ قسم بمواقع النجوموإنّه لقسم لوتعلمون عظیم إنّه لقرآن کریمفی کتاب مکنون لایمسّه إلّا المطهّرون ) ) سورہ واقعہ/ ۷۵ ۔-- ۷۹)

ان آیات میں ، پہلے ستاروں کے محل و مدارکی قسم کھائی گئی ہے۔ اس کے بعد اس قسم کی عظمت و اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور اس کی نشاندھی کی گئی ہے۔ اس نکتہ پرتو جہ کرنا ضروری ہے کہ قسم کا معیار اور اس کی حیثیت اس حقیقت کے مطابق ہونا چا ہئیے کہ جس کے متعلق یا جس کے

____________________

۱-۔ سورہ یونس/۶۱، سورہ سبا/۱۳، سورہ نمل/۷۵

۲۔ سورہ یسین/۱۲

۳۔ سورہ بروج/ ۲۲

۴۔ سورہ نمل/۷۵

۲۴۴

اثبات کے لئے قسم کھائی جارہی ہے ۔ اگر قسم با عظمت اور بااہمیت ہے تو یہ اس حقیقت کی اہمیت کی دلیل ہے کہ جس کے لئے قسم کھائی گئی ہے۔

جس حقیقت کے لئے یہ عظیم قسم کھائی گئی ہے، وہ یہ ہے: - إنّہ لقرآن کریم فی کتاب مکنون لایمسّہ الّا المطھرون یعنی بیشک یہ بہت ہی با عظمت قرآن ہے جسے ایک پو شیدہ کتاب میں رکھاگیا ہے اسے پاک و پاکیزہ افراد کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا ہے۔ ) اس کے ساتھ رابطہ نہیں کرسکتا ہے۔)آیہ شریفہ کا یہ جملہ لا یمسّہ الّاالمطھرون بہت زیادہ قابل غور ہے۔

ابتدائی نظر میں کہاجاتا ہے کہ بے طہارت لوگوں کا قرآن مجید سے مس کرنا اور اس کے خط پر ہاتھ لگانا حرام ہے، لیکن اس آیہ شریفہ پر عمیق غور وفکر کرنے سے یہ اہم نکتہ و اضح ہو جاتا ہے کہ مس سے مراد مس ظا ہری نہیں ہے اور ” مطھرون“ سے مراد باطہارت )مثلاً باوضو) افراد نہیں ہیں ۔ بلکہ مس سے مراد مس معنوی )رابطہ) اور”مطھرون “ سے مرادوہ افراد ہیں جنہیں خدا وندمتعال نے خاص پاکیزہ گی عنآیت کی ہے، اور ”لایمسہ“ کی ضمیر کتاب مکنون )لوح محفوظ) کی طرف پلٹتی ہے ۔

آیہ کریمہ سے یہ معنی )مس معنوی) استفادہ کرنے کے لئے چند نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:

۱ ۔ جملہء ”لا یمسہ “ کا ظہور اخبار ہے نہ انشاء ، کیونکہ بظا ہر یہ جملہ دوسرے اوصاف کے مانند کہ جو اس سے قبل ذکر ہوئے ہیں، صفت ہے اور انشاء صفت نہیں بن سکتا ہے، جبکہ آیت میں غیر مطہرون کے مس سے حکم تحریم )حرمت) کا استفادہ اس بنا پر کیا جاتا ہے کہ جملہ ”لا یمسہ “ انشاء ہو ، نہ اخبار۔

۲ ۔ ” لایمسہ“ کی ضمیر بلا فاصلہ ” کتاب مکنوں“ کی طرف پلٹتی ہے ، کہ جو اس جملہ سے پہلے واقع ہے نہ قرآن کی طرف کہ جواس سے پہلے مذکور ہے اور چند کلمات نے ان کے درمیان فاصلہ ڈال دیا ہے۔

۲۴۵

۳ ۔ قرآن مجید کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک پوشیدہ اور محفوظ کتاب میں واقع ہے کہ جس تک عام انسانوں کی رسائی نہیں ہے اور یہ مطلب اس کے ساتھ مس کرنے سے کوئی تناسب نہیں رکھتا ہے۔

۴ ۔ طہارت شرعی ، یعنی وضو )جہاں پر وضو واجب ہو) یا غسل یا تیمم )جہاں پر ان کا انجام دینا ضروری وفرض)رکھنے والے کو ” متطھرّ“ کہتے ہیں نہ ”مطھّر“۔

اس تشریح سے واضح ہوجاتا ہے کہ جو کچھ جملہ ء ”( لا یمسه الّا المطهرون ) “ سے استفادہ ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ ” مطھر“ ) پاک قرار دئے گئے)افراد کے علاوہ کوئی بھی ”کتاب مکنون“ )لوح محفوظ) کو مس نہیں کرسکتا ہے، یعنی اس کے حقائق سے آگاہ نہیں ہوسکتا ہے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس خصوصی طہارت کے حامل افراد کون لوگ ہیں اور ”مطھرون“ سے مرادکون لوگ ہیں کہ جو ” لوح محفوظ“ سے اطلاع حاصل کرتے ہیں؟

” مطھرون “سے مرادکون ہیں؟

کیا ” مطھرون“کی اصطلاح فر شتوں سے مخصوص ہے جیسا کہ بعض مفسرین نے اشارہ کیا ہے ۔(۱) یایہ کہ اس میں عمومیت ہے یعنی وہ افراد جو خدا کی جانب سے خصوصی طہارت کے حامل ہیں وہ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بحث کرنے کی ضرورت ہے:

حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ، اور خدا کی جانب سے انھیں جانشین مقرر کیا جا نا نیز

____________________

۱۔جیسے ” روح المعانی“ ج ۲۷،۱۵۴،دار احیاء التراث العربی، بیروت

۲۴۶

”اسماء“الہی کا علم رکھنا یعنی ایک ایسی حقیقت سے آگاہی کہ جس کے بارے میں ملا ئکہ نے بھی لا علمی کا اظہار کیا۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام کے لئے ملائکہ کو سجدے کا حکم دیناو غیرہ ان واقعات اور قرآنی آیات ۱ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ خاص علوم سے آگاہی اور تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت انسان کامل میں ملائکہ سے کہیں زیادہ ہے۔

مذکورہ ان صفات کے پیش نظر کوئی دلیل نہیں ہے کہ جملہ لا یمسہ الّا المطھرون کو فرشتوں سے مخصوص کیا جائے جبکہ قرآن مجید کے مطابق خدا کے ایسے منتخب بندے موجود ہیں جو خاص طہارت و پاکیزگی کے مالک ہیں۔

آیہ تطہیر اور پیغمبر کا محترم خاندان

( إنّمایریدالله ليذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهر کم تطهیرا )

) سورہ احزاب/ ۳۳)

” بس الله کا ارادہ ہے اے اہل بیت : کہ تم سے ہرطرح کی برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“

یہ آیہ شریفہ دلالت کرتی ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان خدا وندمتعال کی طرف سے ایک خاص اور اعلی قسم کی پاکیزگی کا مالک ہے۔ آیہ کریمہ میں ” تطھیرا“ کا لفظ مفعول مطلق نوعی ہے جو ایک خاص قسم کی طہارت و پاکیزگی کو بیان کرتا ہے۔

ہم یہاں پر اس آیہ شریفہ سے متعلق مفصل بحث کرنا نہیں چاہتے، اس لئے کہ آیت تطہیر سے مربوط باب میں اس پر مکمل بحث گزر چکی ہے، اور اس کا نتےجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے اہل بیت کہ جن میں سب سے نمایاں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں، اس آیہ شریفہ کے مطابق خداکی طرف سے خاص طہارت و پاکیزگی کے مالک ہیں اور

____________________

۱۔ سورہ بقرہ/۳۴۔۳۰

۲۴۷

”مطھرون“ میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ لوح محفوظ کے حقائق سے آگاہی رکھ سکتے ہیں۔

”آصف بر خیا“ اور کتاب کے کچھ حصہ کا علم

ہم جانتے ہیں کہ خدا وندمتعال نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک ایسی وسیع سلطنت عطا کی تھی کہ انسانوں کے علاوہ جناّت اور پرندے بھی ان کے تابع تھے ۔ ایک دن جب جن وانس ان کے گرد جمع تھے حضرت سلیمان نے ان سے کہا: تم میں سے کون ہے جو بلقیس کے مسلمان ہونے سے پہلے اس کے تخت کو میرے پاس حاضر کردے؟جنّات میں سے ایک عفریت نے سلیمان نبی سے کہا:قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھے ہیں تخت کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا۔ قرآن مجید فرماتا ہے(۱) ” کتاب کے کچھ حصہ کا علم رکھنے والے ایک شخص نے کہا: میں اتنی جلدی تخت بلقیس کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا کہ آپ کی پلک بھی جھپکنے نہیں پائے گی اور اسی طرح اس نے حاضر کیا ۔

جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ یہ کتاب ” لوح محفوظ “ہے اور ش یعہ و سنی احادیث کے مطابق مذکورہ شخص حضرت سلیمان کا وزیر ” آصف بر خیا“ تھا ۔ قرآن مجید سے استفادہ ہوتا ہے آصف کی یہ غیر معمولی اور حیرت انگیز طاقت وصلاحیت کتاب )لوح محفوظ) کے کچھ حصہ کا علم جاننے کے سبب تھی۔

واضح رہے کہ طہارت و پاکیزگی کے چند مراحل ہیں۔ جس قدر طہارت کامل تر ہوگی اسی اعتبار سے علم وقدرت میں بھی اضا فہ ہو گا۔

جب ہمیں آیہ کریمہ( لا یمسّه إلا المطهرون ) سے یہ معلوم ہوگیا کہ لوح محفوظ کے حقایق کا علم خدا کی خاص طہارت کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے اور آیہ تطہیر نے اس خاص طہارت اور پاکیزگی کو اہل بیت علیہم السلام کے لئے ثابت کیا ہے، وہ بھی ایک ایسی تطہیر جو

____________________

۱۔سورہ نمل/۴۰

۲۔کچھ اردو قوال بھی ہیں کہ تفاسیر کی طرف رجوع کرنا چاہئے

۲۴۸

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تطہیر کے ہم پلہ ہے۔لہذا ان صفات کے پیش نظربعید نہیں ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین) علیہم السلام) لوح محفوظ کے تمام حقائق کا علم رکھتے ہوں اس لئے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ثعلبی کہ جو اھل سنت(۱) کے نزدیک تفسیر کے استاد نیزحافظ اور امام کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں اور اہل سنت کے ائمہ رجال(۲) کے مطابق جن کی روایتیں صحیح اورقابل اعتماد جانی جاتیں ہیں ، تفسیر”الکشف و البیان“(۳) میں اور حاکم حسکانی(۴) تفسیر شواہد التنزیل(۵) میں ، ابوسعید خدری، عبداللہ بن سلام اور ابن عباس جیسے چند اصحاب سے روایت کرتے ہیں کہ ”من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیر المومنین علی، علیہ السلام ہیں۔

بلکہ ابو سعیدخدریاور عبداللهبن سلام سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد کون ہے؟ جواب میں پیغمبر (ص)نے علی علیہ السلام کو” من عندہ الکتاب“کے مصداق کے طور پر پیش کیا۔ اسی مطلب کو )من عندہ علم الکتاب،سے مرادعلی علیہ السلام ہیں)سعید بن جبیر ،ابی صالح نیزمحمد بن حنفیہ سے بھی نقل کیا گیا ہے۔

اسی طرح کئی طریقوں سے نقل کیا گیا ہے کہ عبدالله بن عطاء کہ جو امام باقر علیہ السلام کے ہمراہ تھے، جب انھوں نے عبدالله بن سلام کے بیٹے کو دیکھا تو امام باقر علیہ السلام سے سوال کیا: کیا یہ )عبداللهبن سلام کا بیٹا) اس شخص کا بیٹا ہے جس کے پاس کتاب کا علم تھا؟ حضرت نے فرمایا: نہیں،”من عندہ علم الکتاب“سے مراد )عبداللهبن سلام نہیں ہے، بلکہ) امیر

____________________

۱۔اہل سنت کے علم رجال کے جلیل القدرامام ذہبی نے ” سیر اعلام النبلاء“ ج۱۷، ص۴۳۵ میں ثعلبی کے بارے میں کہا ہے : ” الامام الحافظ العلامة شیخ التفسیر“، ۲۔ عبدالغافر نیشابوری کتاب” تاریخ نیشاپوری“ ص۱۰۹ میں اس کے بارے میں کہتا ہے: الثقة الحافظو ہو صحیح النقل موثوق بہ، ۳۔ الکشف وا لبیان، ج۵، ص ۳۰۳۔۳۰۲، داراحیا التراث العربی، بیروت، ۴۔ذہبی کی عبادت کو ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس کے متقن، محکم اسناد کے عالی ہونے کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو ۵۔” شواہد التنزیل“ با تحقیق شیخ محمد باقر محمود، ج۱، ص۴۰۰

۲۴۹

المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔

اس کے علاوہ ابن شہر آشوب(۱) نے اپنی ”کتاب مناقب(۲) “ میں کہا ہے:

” محمدبن مسلم، ابوحمزہ ثمالی اور جابربن یزید نے امام باقر(علیہ السلام) سے اسی طرح علی بن فضل،فضیل بن یسار اور ابو بصیر نے امام صادق(علیہ السلام) سے نیز احمد بن محمدحلبی اور محمد بن فضیل نے امام رضا(علیہ السلام) سے روایت نقل کی ہے اور اس کے علاوہ موسی بن جعفر(علیہ السلام)، زیدبن علی، محمد بن حنفیہ، سلمان فارسی، ابوسعید خدری اور اسماعیل سدی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں خداوند متعال کے قول:( کل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) کے بارے میں کہا ہے کہ:”من عندہ علم الکتاب“سے مراد علی بن ابیطالب (علیہ السلام) ہیں۔“

شیعہ احادیث میں مختلف طریقوں سے آیا ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصو مین علیہم السلام ہیں۔ نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل حدیث پر غور فرماہئے: ثقة الاسلام کلینی نے اصول کافی(۳) میں معتبر سند سے بریدبن معاویہ سے کہ جو امام باقر علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے روایت کی ہے انھوں نے حضرت سے عرض کی:”آیہ کریمہ( قل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) میں ”من عندہ علم الکتاب“ سے مراد کون ہے؟حضرت نے فرمایا:اس سے صرف ہم اھل بیت معصومین(ع) کا قصد کیا گیا ہے اور علی ) علیہ السلام) پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدسب سے مقدم اورہم میں افضل ترین فرد ہیں۔

____________________

۱۔ ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس )شہر آشوب) کی صداقت کے بارے میں ابن ابی طما کی زبانی زہبی کی ستائش بیان کی ہے۔

۲۔ مناقب، ابن شہر آشوب، ج۲، ص۲۹، موسسہ انتشارات علامہ قم،

۳۔ اصول کافی، ج۱،ص۱۷۹

۲۵۰

احادیث میں جس کے پاس کتاب کا علم ہے)علی بن ابیطالب علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین) اور جس کے پاس کتاب کا کچھ علم موجود ہے)آصف برخیا) کے در میان دلچسپ موازنہ کیا گیا ہے:

عن اٴبی عبد الله قال: ” الذي عنده علم الکتاب“ هو امیرالمؤمنین - علیه السلام - و سئل عن الذي عنده علم من الکتاب اٴعلم اٴم الذي عنده علم الکتاب؟ فقال: ما کان علم الّذي عنده علم من الکتاب عند الذي عنده علم الکتاب إلّا بقدر ما تاٴخذ البعوضة بجناحها من مائ البحر(۱)

یعنی: امام صادق) علیہ السلام) نے فرمایا:

”جس کے پاس کتاب کا علم تھا علی بن ابیطالب(علیہ السلام) تھے۔ سوال کیا گیا: کیا وہ شخص جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا یعنی آصف برخیازیادہ عالم تھا یا وہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھا)یعنی حضرت علی علیہ السلام)امام نے فرمایا:جس کے پاس کتاب کا تھوڑا ساعلم تھا،اس کاموازنہ اس شخص سے کہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھا ایسا ہے جیسے مچھرکے بھیگے ہوئے پر کا موازنہ سمندرسے کیاجائے۔“

یہ بحث وگفتگواس بناپرتھی کہ جب”من عندہ علم الکتاب“میں ”کتاب“سے مرادلوح محفو ظ ہو۔لیکن اگر”الکتاب“سے مرادجنس کتاب ہو،اس بنا پرکہ” الف ولام“جنس کے لئے ہے اور کوئی خاص چیز مد نظرنہ ہوتوہرکتاب اس میں شامل ہو سکتی ہے حتی لوح محفوظ بھی اس کے مصادیق میں سے ایک ہوگا،اس میں گزشتہ آسمانی کتابیں اور قرآن مجید سبھی شامل ہیں۔

____________________

۱۔ نورالثقلیب،ج۴،ص۸۸۔۸۷

۲۵۱

اس صورت میں بھی”من عندہ علم الکتاب“سے مرادحضرت علی علیہ السلام ہی ہوں گے کیونکہ حضرت کالوح محفوظ کے حقائق سے آگاہ ہونا آیہ کریمہ”( لایمسه الّا المطهرون ) “کوآیہ تطہیرکے ساتھ ضمیمہ کرنے سے معلوم ہوجا تا ہے،اورحضرت کاقرآن مجید کے تمام ابعاد سے واقف ہو نابہت سی دلیلوں من جملہ حدیث ثقلین(۱) کے ذریعہ ثابت ہے۔

اس لئے اس حدیث شریف میں آیا ہے کہ پیغمبراکرم )صلی الله علیہ و آلہ وسلم )کے اہل بیت )علیہم السلام)ہرگزقرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے اور یہ حضرت علی علیہ السلام کے قرآن مجید کے تمام علوم سے آگاہی رکھنے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگرحضرت قرآن مجید کے کسی پہلوکو نہیں جانتے ہیں تو گو یاوہ اس اعتبار سے قرآن مجید سے اتنا دور ہو گئے ہیں اور یہ حدیث میں بیان کئے گئے مطلب کے خلاف ہے۔

آسمانی کتا بوں کے متعلق حضرت علی علیہ السلام کے علم کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کی احا دیث کی کتا بوں میں ایا ہے، من جملہ مندرجہ ذیل حدیث سے جوخود حضرت سے نقل کی گئی ہے:

لو ثنّیت لي الوسادة لحکمت بین اٴهل التوراة بتوراتهم، و بین اٴهل الإنجیل بإنجیلهم، و بین اٴهل الزبور بزبورهم(۲)

”اگر میرے لئے مسند قضا بچھادی جائے تو میں اہل توریت کے لئے توریت سے، اہل انجیل کے لئے انجیل سے اور اہل زبو ر کے لئے زبور سے فیصلہ کروں گا۔“

____________________

۱۔ سنن الترمذی،ج۵ص۶۲۲ مسنداحمد،ج۳،ص۱۴،۱۷،۲۶،۹۵وج۵،ص۱۸۹۔۱۸۸خصائص امیرالمؤمنین علی نسائی ص ۸۵۔۸۴

۲۔فرائد السمطن،ج۱،ص۳۴۱۔۹۳۳۔شواہد التنزیل ج۱،ص۳۶۶،ح۳۸۴

۲۵۲

منابع کی فہرست

(الف)

۱ ۔القرآن الکریم

۲ ۔ الاتقان،سیوطی، ۹۱۱ ئھ-،دار ابن کثیر، بیروت، لبنان

۳ ۔ احقاق الحق، قاضی سید نورالله تستری، شہادت ۱۰۱۹ ئہ-

۴ ۔ احکام القرآن، جصاص،ت ۷۳۰ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۵ ۔ احکام القرآن، ابوبکر ابن العربی المعافري، ت ۵۴۶ ئہ-

۶ ۔ اربعین، محمد بن ابی الفوارس، مخطوط کتابخانہ آستان قدس، رقم ۸۴۴۳

۷ ۔ ارجح المطالب، عبدالله الحنفي، ت ۱۳۸۱ ئہ-، طبع لاہور )بہ نقل احقاق الحق)

۸ ۔ ارشاد العقل السلیم، ابو السعود، ت ۹۵۱ ء، داراحیاء التراث العربی،بیروت، لبنان

۹ ۔ اسباب النزول،و احدی النیسابوری، ت ۴۶۸ ئہ-، دارالکتاب العلمیة، بیروت، لبنان

۱۰ ۔ اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ابن اثیر،ت ۶۳۰ ئہ- داراحیائ التراث العر بی،بیروت،لبنان

۱۱ ۔ الإصابة فی تمییز الصحابة، احمد بن علی، ابن حجر عسقلانی،ت ۸۵۲ ئہ-، دارالفکر

۱۲ ۔ اضوائ البیان،شنقیطی،ت ۳۹۳ ئہ-، عالم الکتب، بیروت

۱۳ ۔اعیان الشیعة، سیدمحسن الامین، ت حدود ۱۳۷۲ ئہ-،دارالتعارف للمطبوعات، بیروت

۱۴ ۔ الامامة و السیاسة، ابن قتیبة دینوری، ت ۲۷۶ ء ہ-، منشورات الشریف الرضی،قم

۱۵ ۔انساب الاشراف،احمد بن یحیی بلاذری،ت ۲۷۹ ئہ-،دارالفکر

۱۶ ۔ایضاح المکنون، اسماعیل باشا،ت ۴۶۳ ئہ-، دارالفکر

۲۵۳

(ب)

۱۷ ۔ بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ت ۱۱۱۱ ئہ- مؤسسة الوفاء، بیروت

۱۸ ۔ بحر العلوم، نصر بن محمد سمرقندی، ت ۳۷۵ ئہ-، دارالکتب العلمیة،بیروت

۱۹ ۔ البحر المحیط، ابوحیان اندلسی، ت ۷۵۴ ء،المکتبة التجاریة

احمد الباز، مکة المکرمة

۲۰ ۔ البدایة و النہایة، ابن کثیر الدمشقی،ت ۷۷۴ ئہ-،دارالکتب العلمیة، بیروت

۲۱ ۔ البرہان، سید ہاشم بحرانی، ت ۱۱۰۷ ئہ-، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان

۲۲ ۔ البہجة المرضیة، سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-، مکتب المفید)ت)

۲۳ ۔ التاج الجامع للاصول، منصور علی ناصف، ت ۱۳۷۱ ئہ-، دار احیائ التراث العربی، بیروت

۲۴ ۔ تاج الفردوس، محمد مرتضی حسینی زبیدی، ت ۱۲۵۰ ء ہ-، دار الہدایة للطباعة والنشر و التوزیع، دارمکتبة الحیاة، بیروت

۲۵ ۔ تاریخ الاسلام، شمس الدین ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالکتاب العربی

۲۶ ۔ تاریخ بغداد، احمد بن علی خطیب بغدادی، ت ۴۶۳ ء ہ-، دارالفکر

۲۷ ۔ تاریخ طبری، محمد بن جریر طبری،ت ۳۱۰ ئہ-، مؤسسة عزالدین للطباعة والنشر، بیروت، لبنان

۲۸ ۔ تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ت ۵۷۱ ئہ-، دارالفکر، بیروت

۲۹ ۔ تاریخ نیسابور، عبدالغافر نیشابوری،ت ۵۲۹ ہ-

۳۰ ۔ تذکرة الحفّاظ، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان

۳۱ ۔ تذکرة الخواص، سبط بن جوزی ت ۶۵۴ ئہ-، چاپ نجف

۳۲ ۔التسہیل لعلوم التنزیل، ابن حزی الکلبی، ت ۲۹۲ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۳۳ ۔ تفسیر ابن ابی حاتم، عبد الرحمن بن محمد بن ادریسی الرازی، ت ۳۲۷ ہ-، المکتبة المصریة، بیروت

۳۴ ۔ تفسیر البیضاوی، قاضی بیضاوی،ت ۷۹۱ ئہ-

۲۵۴

۳۵ ۔ تفسیر الخازن )لباب التاویل)، علاء الدین بغدادی، ت ۷۲۵ ئہ-، دارالفکر

۳۶ ۔ تفسیر علی بن ابراہیم قمی، متوفی اواخر قرن سوم ہ-، مطبعہ نجف

۳۷ ۔ تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر، ت ۷۷۴ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۳۸ ۔ التفسیر الکبیر، فخر رازی، ت ۶۰۶ ئہ-، دار احیائ التراث العربی بیروت، لبنان

۳۹ ۔ تفسیر الماوردی، محمد بن حبیب ماوردی بصری، متوفی ۴۵۰ ہ-، دارالمعرفة، بیروت

۴۰ ۔ تفسیر النسفی )مدارک التنزیل وحقائق التاویل) حاشیہ تفسیر خازن، عبدالله النسفی،ت ۷۱۰ ئہ-، دارالفکر

۴۱ ۔ تفسیر المنار، رشید رضا،ت ۱۳۵۴ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۴۲ ۔ تلخیص المستدرک، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-،دارالمعرفة، بیروت

۴۳ ۔ تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی، ت ۸۵۲ ئہ-، دارالفکر

۴۴ ۔تہذیب الکمال، مزّی، ت ۷۴۲ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت

(ج)

۴۵ ۔جامع الاحادیث، سیوطی،ت ۹۱۱ ئہ-، دارالفکر

۴۶ ۔جامع البیان، محمد بن جریر طبری، ت ۳۱۰ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت، لبنان

۴۷ ۔جامع احکام القرآن، قرطبی، ت ۶۷۱ ئہ-،دارالفکر

۴۸ ۔ الجامع الصحیح الترمذی، محمد بن عیسی ت ۲۷۹ ئہ-، دارالفکر

۴۹ ۔جمع الجوامع، سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-

۵۰ ۔جمہرةاللغة،ابن درید،ت ۳۲۱ ئہ-

۵۱ ۔الجواہر الحسان ابوزید الثعالبی ت ۸۷۶ ء ہ-، داراحیاء التراث العربی، بیروت

۵۲ ۔ جواہر العقدین، سمہودی، ت ۹۱۱ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۲۵۵

(ح)

۵۳ ۔الحاوی للفتاوی سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-، مکتبة القدس قاہرة)بہ نقل احقاق الحق)

۵۴ ۔حاشیة الشہاب علی تفسیر البیضاوی احمد خفاجی مصری حنفی، ت ۱۰۶۹ ئہ-،دار احیائ التراث العربی، بیروت

۵۵ ۔حاشیہ الصاوی علی تفسیر الجلالین، شیخ احمد الصاوی المالکی، ت ۱۲۴۱ ئہ-، دارالفکر

۵۶ ۔حلیة الاولیاء، ابونعیم اصفہانی، ت ۴۳۰ ئہ-، دارالفکر

(خ)

۵۷ ۔ خصائص امیرالمؤمنین علیہ السلام، احمد بن شعیب نسائی ت ۳۰۳ ئہ-، دارالکتاب العربی

۵۸ ۔خصال، محمد بن علی بن بابویہ قمی)صدوق)، ت ۳۸۱ ئہ-، دفتر انتشارات اسلامی

(س)

۵۹ ۔سفینة البحار، شیخ عباس قمی ت ۱۳۵۹ ئہ-، انتشارات کتابخانہ محمودی

۶۰ ۔السنن الکبری، ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، ت ۴۵۸ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت، لبنان

۶۱ ۔السنن الکبری، نسائی، ت ۳۰۳ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۶۲ ۔سیر اعلام النبلاء، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت، لبنان

۶۳ ۔ السیرة النبویة و الآثار المحمدیة )حاشیة السیرة الحلویة)، سیدزینی دحلان، ت ۱۳۰۴ ئہ-، دار احیائ التراث العربی، بیروت، لبنان

۶۴ ۔ السیرة النبویة، ابن ہشام،ت ۲۱۸ ئہ-، داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان

۲۵۶

(ش)

۶۵ ۔شرح التجرید، قوشجی، ت ۸۷۹ ئہ-

۶۶ ۔شرح السنة، بغوی، ت ۵۱۰ ئہ-، المکتب الاسلامی، بیروت

۶۷ ۔ شرح المقاصد، تفتازانی، ت ۷۹۳ ئہ-،منشورات الشریت الرضی

۶۸ ۔شرح المواقف،جرجانی،ت ۸۱۲ ئئئہ-، منشورات الشریف الرضی

۶۹ ۔ شرح التنزیل، حاکم حسکانی، ت اواخر القرن الخامس، مؤسسة الطبع و النشر

(ص)

۷۱ ۔صحاح اللغة، جوہری، ت ۳۹۳ ئہ-

۷۲ ۔صحیح ابن حبان، محمد بن حبان بستی، ت ۳۵۴ ئہ-، مؤسسة الرسالة

۷۳ ۔ صحیح بخاری، محمد بن اسماعیل بخاری، ت ۲۵۶ ئہ-، دارالقلم، بیروت، لبنان-دارالمعرفة، بیروت،لبنان

۷۴ ۔ صحیح مسلم، مسلم بن حجاج نیشابوری، ت ۲۶۱ ئہ-، مؤسسة عز الدین للطباعة و النشر، بیروت، لبنان

۷۵ ۔ الصلاة و البشر،فیروز آبادی ،ت ۸۱۷ ئھجری دارالکتب العلمیہ،بیروت،لبنان۔

۷۶ ۔الصواعق المحرقة، ابن حجر ہیتمی،ت ۹۵۴ ئہ-،مکتبة القاہرة

(ط)

۷۷ ۔ الطبقات الکبری، ابن سعد، ت ۲۳۰ ئہ-،داربیروت للطباعة والنشر

۷۸ ۔ الطرائف، علی بن موسی بن طاووس،ت ۶۶۲ ئہ-، مطبعة الخیام،قم

(ع)

۷۹ ۔العمدة، ابن بطریق، ت ۵۳۳ ئہ-، مؤسسة النشرالاسلامی

۸۰ ۔عوالم العلوم، سید ہاشم بحرانی، ت ۱۱۰۷ ئہ-، مؤسسة الامام المہدی علیہ السلام

۸۱ ۔عیون خبارالرضا، صدوق، ت ۳۸۱ ئہ-

۲۵۷

(غ)

۸۲ ۔غایة المرام، سید ہاشم بحرانی،ت ۱۱۰۷ ئہ-

۸۳ ۔غرائب القرآن،نیشابوری ت ۸۵۰ ئہ-، دارالکتب العلمیة بیروت

۸۴ ۔فتح الباری، ابن حجر العسقلانی، ت ۸۵۲ ئہ-

۸۵ ۔ فتح القدیر، شوکانی، ت ۱۲۵۰ ئہ-، داراکتاب العلمیة بیروت لبنان

۸۶ ۔فرائد السمطین، ابراہیم بن محمد بن جوینی،ت ۷۲۲ ئہ-، مؤسسة المحمودی للطباعة والنشر، بیروت

۸۷ ۔الفصول المہمة، ابن صباغ مالکی،ت ۸۵۵ ئہ-

۸۸ ۔فضائل الصحابة، سمعانی، ت ۵۶۲ ئہ-

(ق)

۸۹ ۔القاموس المحیط، فیروزآبادی،ت ۸۱۷ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۹۰ ۔قواعد فی علوم الحدیث، ظفر احمد تہانوی شافعی، تحقیق ابوالفتاح ابوغدة

(ک)

۹۱ ۔ الکافی، کلینی، ت ۳۲۹ ئہ-، دارالکتب الاسلامیة

۹۲ ۔کتاب الثقات، ابن حبان، ت ۳۵۴ ء ہ-، مؤسسة الکتب الثقافیة، بیروت

۹۳ ۔کتاب العین، خلیل بن احمد فراہیدی، ت ۱۷۵ ئہ-، مؤسسة دارالہجرة

۹۴ ۔الکشاف، زمخشری، ت ۵۸۳ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۹۵ ۔الکشف و البیان، ثعلبی نیسابوری، ت ۴۲۷ ئیا ۴۳۷ ئہ-، داراحیائ التراث العربی،بیروت، لبنان

۹۶ ۔ کفایة الطالب، محمد بن یوسف گنجی شافعی، ت ۶۵۸ ئہ-، داراحیائ تراث اہل البیت

۹۷ ۔کمال الدین، محمد بن علی بن بابویہ، ت ۳۸۱ ئہ-

۹۸ ۔کنز العمال، متقی ہندی، ت ۹۷۵ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت

۲۵۸

(ل)

۹۹ ۔اللباب فی علوم الکتاب، عمر بن علی بن عادل الدمشقی الحنبلی، متوفی بعد ۸۸۰ ئہ-، دار الکتب العلمیة، بیروت

۱۰۰ ۔لسان العرب، ابن منظور، ت ۷۱۱ ئہ-، دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان

(م)

۱۰۱ ۔ما نزل من القرآن فی علی،ابوبکر الشیرازی، ت ۴۰۷ ئہ-

۱۰۲ ۔ ما نزل من القرآن فی علی، ابو نعیم اصفہانی، ت ۴۳۰ ئہ- )بہ نقل احقاق)

۱۰۳ ۔المتفق و المتفرق خطیب بغدادی، ت ۴۶۳ ئہ-)بہ واسطہ کنزالعمال)

۱۰۴ ۔ مجمع البحرین، طریحی، ت ۱۰۸۵ ئہ-، دفتر نشر فرہنگ اسلامی

۱۰۵ ۔مجمع البیان،طبرسی، ت ۵۶۰ ئہ-، دارالمعرفة،بیروت

۱۰۶ ۔ مجمع الزوائد،ہیثمی، ت ۸۰۷ ئہ-،دارالکتاب العربی-دارالفکر، بیروت

۱۰۷ ۔المستدرک علی الصحیحین،حاکم نیشابوری، ت ۴۰۵ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۱۰۸ ۔مسند ابی داوود طیالسی،ت ۲۰۴ ئہ-،دارالکتاب اللبنانی

۱۰۹ ۔مسند ابی یعلی موصلی،ت ۳۰۷ ئہ-

۱۱۰ ۔مسند احمد،احمد بن حنبل،ت ۲۴۱ ئہ-، دارصادر،بیروت-دارالفکر

۱۱۱ ۔مسند اسحاق بن راہویہ، ت ۲۳۸ ئہ-،مکتبة الایمان، مدینة المنورة

۱۱۲ ۔مسند عبد بن حمید،ت ۲۴۹ ئہ-، عالم الکتب

۱۱۳ ۔مشکل الآثار، طحاوی، ت ۳۲۱ ئہ-،ط مجلس دائرة المعارف النظامیة بالہند

۱۱۴ ۔ المصباح المنیر احمد فیومی، ت ۷۰ ء ۷ ہ- طبع مصطفی البابی الحلبی و اولادہ بمصر

۱۱۵ ۔مصباح الہدایة، بہبہانی، ط سلمان فارسی،قم

۱۱۶ ۔المصنف،ابن ابی شیبة،ت ۲۳۵ ئہ-

۲۵۹

۱۱۷ ۔مطالب السؤول ابن طلحة نصیبی شافعی، ت ۶۵۲ ئہ-

۱۱۸ ۔معالم التنزیل، بغوی،ت ۲۱۰ ئہ-

۱۱۹ ۔المعجم الاوسط، طبرانی،ت ۳۶۰ ئہ-،مکتبة المعارف الریاض

۱۲۰ ۔المعجم الصفیر، طبرنی، ت ۳۶۰ ئہ-

۱۲۱ ۔المعجم الکبیر، طبرانی،ت ۳۶۰ ئہ-

۱۲۲ ۔ المعجم المختص بالمحدثین، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، مکتبة الصدیق سعودی

۱۲۳ ۔معجم مقاییس اللغة، ابن فارسی بن زکریا القزوینی الرازی،ت ۳۹۰ ہ-

۱۲۴ ۔معرفة علوم الحدیث، حاکم نیشابوری، ت ۴۰۵ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۱۲۵ ۔المعرفة والتاریخ، یعقوب بن سفیان بن بسوی،ت ۲۷۷ ئہ-

۱۲۶ ۔مغنی اللبیب، ابن ہشام،ت ۷۶۱ ئ ہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۱۲۷ ۔المفردات،راغب اصفہانی،ت ۵۰۲ ئہ-

۱۲۸ ۔مقتل الحسین، خوارزمی، ت ۵۶۸ ئہ-، مکتبة المفید

۱۲۹ ۔المناقب،موفق بن احمد خوارزمی،ت ۵۶۸ ئہ-

۱۳۰ ۔مناقب ابن مغازلی شافعی،ت ۴۸۳ ئہ-،المکتبة الاسلمة

۱۳۱ ۔مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب،ت ۵۸۸ ئہ-،ذوالقربی

۱۳۲ ۔منتہی الارب عبدالرحیم بن عبدالکریم الہندی ت ۱۲۵۷ ئہ-

۱۳۳ ۔المیزان، محمد حسین طباطبائی، ت ۱۴۰۲ ئہ-، دارالکتب الاسلامیة

۱۳۴ ۔میزان الاعتدال، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالفکر

۲۶۰

دوسرے مرحلے پر '' بنى تميم'' كا نعرہ سنا گيا بلكہ اس قبيلے كے ايك فرد نے تو اشعث پر حملہ بھى كرديا_ اور كہا كہ امر خداوندى ميں افراد كو حاكم قرار ديا جاسكتا ہے ايسى صورت ميں ہمارے جوانوں كے خون كا كيا انجام ہوگا؟(۲۳)

تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ لا حكم الا للہ كا ہلہلہ و غلغلہ بيشتر سپاہيوں كے گلے سے جوش مارنے لگا_ انہوں نے اپنے گذشتہ عمل كى اس طرح اصلاح كى كہ ''حكميت'' كے لئے راضى ہوجانا در اصل ہمارى اپنى ہى لغزش تھى ليكن اپنے كئے پر ہم اب پشيمان اور توبہ كے طلب گار ہيں چنانچہ انہوں نے علىعليه‌السلام سے كہا كہ جس طرح ہم واپس آگئے ہيں آپعليه‌السلام بھى آجايئےرنہ ہم آپعليه‌السلام سے بيزار ہوجائيں گے_(۲۴)

وہ اس قدر جلد پشيمان ہوئے كہ انہوں نے پورى سنجيدگى سے يہ مطالبہ كرديا كہ معاہدہ جنگ بندى پر كاربند نہ رہا جائے_ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے آيات مباركہ و افوا بعہداللہ اذا عاہدتم و لا نتقضوا الايمان بعد توكيدہا (اللہ كے عہد كو پور كرو جب تم نے ان سے كوئي عہد باندھا ہو اور اپنى قسميں پختہ كرنے كے بعد توڑ نہ ڈالو)(۲۵) اور اوفوا بالعقود (لوگو بندشوں كى پورى پابندى كرو)(۲۶) سناكر انھيں عہد و پيمان شكنى سے باز ركھا( ۲۷)

مگر ان كى سست رائے اور متزلزل ارادے پر اس كا ذرا بھى اثر نہ ہوا جنگ كى كوفت كے آثار بھى ان كے چہرے سے زائل نہ ہوئے تھے كہ دوسرے فتنے كا بيج بوديا گيا_

سركشوں كى تشكيل و گروہ بندي

جب جنگ صفين ختم ہوگئي تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كوفہ واپس تشريف لے آئے ليكن جو لوگ سركش و باغى تھے وہ راہ ميں آپعليه‌السلام سے عليحدہ ہوگئے_ يہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اس وقت جب كہ جنگ پورى اوج پر تھى تو حضرت علىعليه‌السلام كو يہ دھمكى دى تھى كہ جنگ بندى كا اعلان كيجئے ورنہ ہم آپعليه‌السلام كو قتل كرڈاليں گے اور حكميت كا تعين ہوجانے كے بعد انہى افراد نے لا حكم الا اللہ كا نعرہ

۲۶۱

بلند كيا تھا اور ''حروراوئ''(۲۸) نامى مقام پر تقريبا بارہ ہزار افراد نے قيام كيا اور يہاں خود ايك مستقل گروہ كى شكل اختيار كرلى جہاں انہوں نے '' شبث بن ربعى '' كو اپنا فرماندار اور '' عبداللہ بن كوّاء '' كو اپنا امام جماعت مقرر كيا_(۲۹)

حضرت علىعليه‌السلام كے اصحاب نے جب اس واقعے كے بارے ميں سنا تو اس خيال كے پيش نظر كہ وہ اپنى وفادارى كا حضرت علىعليه‌السلام پر دوبارہ اظہار كريں انہوں نے آپعليه‌السلام كے ساتھ نيا عہد كيا اور وہ يہ تھا كہ دوستان علىعليه‌السلام كے ساتھ دوست اور آپعليه‌السلام كے دشمنوں كے ساتھ دشمن كا سلوك روا ركھيں _ليكن خوارج نے اس وعدہ كو كفر و گناہ سے تعبير كيا اور شيعيان علىعليه‌السلام سے كہا كہ تمہارى اور شاميوں كى مثال ان دو گھوڑوں كى سى ہے جنہيں دوڑ كے مقابلے ميں لگايا گيا ہوچنانچہ اس راہ ميں تم كفر كى جانب بڑھ گئے ہو _

حضرت علىعليه‌السلام خوارج كے درميان

جب خوارج ، حضرت علىعليه‌السلام سے عليحدہ ہوگئے تو آپعليه‌السلام نے يہ سوچ كر كہ ان كے ساتھ زيادہ نزديك سے ملاقات كى جائے اور ان كے ذھنوں ميں جو پيچيدگياں پيدا ہوگئي ہيں ان كا حل تلاش كيا جائے_ سب سے پہلے ابن عباس كو ان كے پاس بھيجا حضرت علىعليه‌السلام چونكہ انكے بارے ميں جانتے تھے كہ وہ حالات و واقعات كا تجزيہ تو نہيں كرسكتے ا لبتہ حريف كو قائل كرنے كى ان ميں غير معمولى مہارت و صلاحيت ہے اسى لئے آپعليه‌السلام نے ابن عباس سے تاكيدا يہ بات كہى كہ ان كے ساتھ گفتگو كرنے ميں عجلت نہ كريں بلكہ اس قدر توقف كريں كہ ميں ان تك پہنچ جاؤں _(۳۰)

ليكن ابن عباس جيسے ہى وہاں پہنچے انہوں نے فورا ہى بحث و گفتگو شروع كردى _ بالآخر انہوں نے بھى مجبورا اپنى زبان كھولى اور اس آيہ مباركہ) و ان خفتم شقاق بينهما فابعثوا حكما من اهله و حكما من اهلها ( (۳۱)

(اور اگر تم كو كہيں شوہر او ربيوى كے تعلقات بگڑجانے كا انديشہ ہو تو ايك حكم مرد كے رشتہ

۲۶۲

داروں ميں سے اورايك عورت كے رشتہ داروں ميں سے مقرر كرو) نيز حكم عقل كے ذريعے ثابت كرديا كہ '' حكميت '' كا تقرر شرعا جائز ہے مگر انہوں نے جواب ميں اس مرتبہ بھى وہى بات كہى جو اس سے پہلے كہتے چلے آرہے تھے_(۳۲)

ابن عباس كے چلے جانے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام بھى اس طرف روانہ ہوئے اور چونكہ يزيد بن قيس سے واقفيت تھى اس لئے آپعليه‌السلام اسى كے خيمے ميں پہنچے يہاں دو ركعت نماز ا دا كرنے كے بعد آپعليه‌السلام نے مجمع كى جانب رخ كيا اور دريافت فرمايا كہ تمہارا رہبر كون ہے؟ انہوں نے جواب ديا كہ '' ابن الكوا'' اس كے بعد آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ وہ كون سى چيز تھى جس نے تمہيں ہم سے برگشتہ كيا_ انہوں نے كہا كہ آپعليه‌السلام كى جانب سے حكميت كا تعين و تقرر اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ديا كہ حكميت كى پيشكش تمہارى جانب سے كى گئي تھي_ ميں تو اس كا سخت مخالف تھا انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے مدلل جوابات كى تائيد كرتے ہوئے اپنى اس نئي راہ و روش كى يہ توجيہ پيش كى كہ ہمارے سابقہ اعمال كفر پر مبنى تھى چنانچہ ہم نے ان سے توبہ كرلى ہے_ آپعليه‌السلام بھى تائب ہوجايئےا كہ ہم آپعليه‌السلام كے ہاتھ پر دوبارہ بيعت كرليں _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا انى ''استغفر اللہ من كل ذنب ''اس پر خوارج نے سمجھا كہ آپعليه‌السلام نے '' حكميت'' كو منظور كرنے پر توبہ كى ہے_ چنانچہ وہ سب آپعليه‌السلام كے ساتھ كوفہ چلے آئے اور بظاہر اس فتنہ و فساد كا خاتمہ ہوگيا_(۳۳)

منافقين كى تحريكات

وہ منافق و موقع پرست لوگ جو حكومت كے اقتدار اورمملكت ميں امن و امان كى فضا برداشت نہيں كرسكتے تھے جب خوارج كا گروہ واپس گيا تو مختلف قسم كى افواہيں پھيلانے لگے_ اور يہ كہنا شروع كرديا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام حكميت كے معاملے ميں پشيمان ہيں وہ اسے گمراہى تصور كرتے ہيں اور فكر ميں ہيں كہ جنگ كے امكانات پيدا ہوجائيں تا كہ دوبارہ معاويہ كى جانب

۲۶۳

روانہ ہوسكيں _ (۳۴)

يہ افواہيں معاويہ كے كانوں تك بھى پہنچيں اس نے ايك شخص كو كوفہ كى جانب روانہ كيا تا كہ اس سلسلے ميں بيشتر اطلاعات فراہم كرسكے_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو معاويہ اچھى طرح جانتا تھا يہ بھى معلوم تھا كہ حضرت علىعليه‌السلام قرآن اور اسلام كے راستے سے منحرف نہ ہوں گے اور جو عہد و پيمان انہوں نے كيا ہے اس كى وہ بھى خلاف ورزى نہ كريں گے_ ليكن شايد ظاہر كرنے كے لئے كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى حركات و سكنات كى نگرانى كر رہا تھا اسى لئے اس نے يہ اقدام كيا_

اس بارے ميں يہ بھى كہا جاسكتا ہے كہ معاويہ كو متحرك كرنے كا اصل عامل اشعث تھا _ اور وہ عہد جنگ بندى كى خلاف ورزى سے متعلق افواہوں كے بارے ميں جانتا چاہتا تھا _ كيونكہ اشعث وہ شخص تھا جو ابن ابى الحديد كے قول كے مطابق معتزلى تھا اور جن كا مقصد حضرت علىعليه‌السلام كو حكومت ميں ہر قسم كى تباہى و بربادى كو فروغ دينا تھا اور مسلمانوں كے لئے ہر طرح كى ا ضطرابى و پريشانى كا عامل بننا مقصود تھا_(۳۵) چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام نے بھى اسے منافق اور كافر بچہ كے ساتھ ياد كيا ہے_(۳۶)

اس احتمال كو جو چيز تقويت ديتى ہے وہ يہ ہے كہ جس وقت شام سے حضرت علىعليه‌السلام كے پاس پيغام پہنچا اور آپعليه‌السلام سے معاہدے كى خلاف ورزى سے اجتناب كرنے كو كہا گيا تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں وہ حاضر ہوا اور ان بہت سے لوگوں كى موجودگى ميں جوحضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر تھے كہا كہ يہ سننے ميں آيا ہے كہ آپعليه‌السلام حكميت كو گمراہى قرار ديتے ہيں اور اس پر ثابت قدم رہنا آپ كے نزديك كفر ہے_(۳۷)

افواہوں كو بے بنياد ثابت كرنے اور ان كى حقيقت كو عوام پر واضح و روشن كرنے كے لئے حضرت علىعليه‌السلام نے ضرورى سمجھا كہ مسجد ميں تشريف لے جائيں اور وہاں حاضرين سے خطاب كريں چنانچہ آپعليه‌السلام نے ارشادات عاليہ كے دوران فرمايا كہ : جس شخص كو يہ گمان ہے كہ ميں معاہدہ حكميت پر قائم نہيں ہوں تو اس نے درو غگوئي سے كام ليا ہے ا ور جو بھى مسلمان حكميت كو گمراہى كا سبب سمجھتا

۲۶۴

ہے وہ دوسروں كے مقابل خود زيادہ گمراہ ہے _(۳۸)

حضرت علىعليه‌السلام كا خطبہ ابھى ختم نہيں ہوا تھا كہ مسجد كے ايك كونے سے يہ آواز سنائي دى كہ '' اے علي تم نے ان افراد كو خدا كے دين ميں شامل كرليا '' لا حكم الا للہ اس آواز كے بلند ہونے كے ساتھ ہى مسجد كى پورى فضا لا حكم الا للہ كے نعروں سے گونجنے لگى _(۳۹)

منافقين كى تحريكات كا نتيجہ يہ برآمد ہوا كہ خوارج نہ صرف اپنى اصلى حالت پر واپس نہيں آئے بلكہ كينہ و عداوت ان كے دلوں ميں پہلے كے مقابل زيادہ گھر كرنے لگا_ چنانچہ جلسہ ختم ہوا تو لوگ گذشتہ كى نسبت اب زيادہ غم و غصہ اور نفرت كے جذبات سے لبريز شہر كے باہر روانہ ہوئے اور ا پنے خيمہ گاہوں ميں واپس آگئے_

۲۶۵

سوالا ت

۱_ اشعث جنگ بندى كے لئے كيوں بہت زيادہ كوشش كر رہا تھا اس كے مرتد ہونے كے بارے ميں آپ كيا جانتے ہيں ؟

۲_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام ابو موسى كو كن اسباب كى بنا پر منتخب كرنا نہيں چاہتے تھے_ اشعث اور اس كے حواريوں نے ان كے انتخاب پر كيوں اصرار كيا؟

۳_ صلح حديبيہ اور معاہدہ صفين كے درميان كيا باہمى ربط ہے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اس بارے ميں كيا پيشين گوئي تھي؟

۴_ جنگ صفين سے مسلمانوں نے كيا سبق سيكھا؟

۵_ جنگ صفين كے كيا نتائج پر آمد ہوئے؟ مختصر طور پر لكھيئے

۶_ جب اميرالمومنينعليه‌السلام كوفہ تشريف لے گئے تو وہ كون تھے جو آپ كے ساتھ كوفہ ميں داخل نہ ہوئے ان كى تعداد كتنى تھى ؟ انہوں نے اپنے خيمے كہاں لگائے اور ان كا پيش امام كون شخص تھا؟

۷_ خوارج جب كوفہ واپس آگئے تو انہوں نے كيا افواہيں پھيلائيں اور ان ميں كون لوگ سرگرم عمل تھے اس سلسلے ميں اشعث كياكردار رہا؟ مختصر طور پر لكھيئے؟

۲۶۶

حوالہ جات

۱_ نہج البلاغہ مكتوب ۶۳

۲_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۶۱

۳_ نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۶ سے ماخوذ

۴_ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے خطبے ميں بھى اس امر كى جانب اشارہ كيا ہے كہ عباس كو منتخب كرنے ميں كيا مصلحت تھى تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو وقعہ صفين ص ۵۰۰

۵_ ربيعہ اور مضر كا شمار عرب كے دو بڑے قبيلوں ميں ہوتا تھا يہ دونوں قبيلے نزر ابن معد بن عدنان كے فرزندان، ربيعہ اور مضر كى نسلوں سے تھے قبيلہ ربيعہ كے بيشتر لوگ يمن ميں اور مضر كے اكثر افراد حجاز ميں آباد تھے يہ دونوں قبيلے اپنے قبائلى مسائل كى بناپر ايك دوسرے كى جان كے دشمن تھے

۶_ وقعہ صفين / ۵۰۰

۷_ لا ا نصركم حتى تملكونى فملكوہ و تو جوہ كما يتوج الملك من قحطان _

۸_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱ ص ۲۹۵_۲۹۳

۹_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱ ص ۲۹۶، تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۳۸

۱۰_ وقعہ صفين ص ۵۰۲_ ۵۰۰ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۵۲_ ۵۱ _ كامل ابن ايثر جلد۳/ ۳۱۹

۱۱_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۳، وقعہ صفين / ۵۰۲

۱۲_ تاريخ طبرى ج ۵ ص ۵۲، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۱۹، وقعہ صفين ۵۰۸، الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۴

۱۳_لا تمسح اسم امرة المومنين عنك و ان قتل الناس بعضهم بعضا فانى اتخوف الا ترجع اليك ابدا

۱۴_ شرح ابن الحديد ج ۲ ص ۲۳۲، وقعہ صفين ۵۰۸، الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۴

۱۵_ يہ جملہ حضرت علىعليه‌السلام كى فرمايش كے مطابق '' سنة بسنة'' نقل كيا گيا ہے_

۱۶_فاليوم اكتبها الى ابنائهم كما كتبها رسول الله الى ابائهم سنة و مثلا وقعہ صفين ۵۰۸، شرح ابن ابى ا لحديد ج ۲ ص ۲۳۲، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۵۲

۱۷_ وقعہ صفين ص ۵۰۵_ ۵۰۴، الاماميہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۵، كامل ابن اثيرج ۳ ص ۳۲۰

۲۶۷

۱۸_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۴_ ۳۹۳

۱۹_ ايضاً

۲۰_ وقعہ صفين ۵۱۱

۲۱_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۴

۲۲_ وقعہ صفين ۵۱۳_ ۵۱۲

۲۳_ ايضاً

۲۴_ وقعہ صفين ۵۱۶_ / ۵۱۳

۲۵_ سورہ نحل آيت ۹۰

۲۶_ سورہ مائدہ آيت ۱

۲۷_ حروراء ۲۰۰جگہ كوفہ سے تقريبا نصف فرسخ كے فاصلے پر واقع تھى اور چونكہ انہوں نے يہاں قيام كيا تھا اسى لئے وہ '' حروريہ'' كہلائے جانے لگے_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۲۹۱

۲۸_ كامل ابن اثير ج ۳ ۳۲۶، مروج الذہب ج ۲ ۳۹۵

۲۹_ كامل ابن اثير ج ۳، ۳۲۷

۳۰_ سورہ نساء آيہ ۳۵، ابن عباس كى دليل يہ تھى كہ جب خداوند تعالى نے ايك خاندان كى اصلاح كيلئے ايك منصف ثالث كو لازم قرار ديا ہے تو يہ كيسے ممكن ہے كہ اس كا اطلاق اس عظيم امت پر نہ ہو_

۳۱_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۲۷

۳۲_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۹۱، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۲۸،عقد الفريد ج ۲ ص ۳۸۸

۳۳_سيرة الائمہ الانثى عشر ج ۱ /۴۸۹

۳۴_كل فساد كان فى خلافة على عليه السلام و كل اضطراب حدث فاصله الاشعث ، شرح نہج البلاغہ ج ۲ ص ۲۷۹

۳۵_ عليك لعنة اللہ و لعنة اللاعنين حائك بن حائك منافق بن كافر نہج البلاغہ ج ۱۹

۳۶_ سيرة الائمہ الاثنى عشر ج ۱ / ۴۹۸، شرح نہج البلاغہ علامہ خوئي ج ۴ ص ۱۲۶

۳۷_ سيرة الائمہ الاثنى عشر ج ۱ ص ۴۸۹

۳۸_ شرح نہج البلاغہ ، علامہ خوئي ج ۱ ص ۱۲۷

۲۶۸

چودھواں سبق

مارقين _ حكميت كا نتيجہ و رد عمل

منصفين كا اجتماع

حكميت كا نتيجہ اور اس كا رد عمل

مارقين

خوارج كے مقابل حضرت علىعليه‌السلام كا موقف

منشور

مجموعى نعرہ

بغاوت

معاويہ سے جنگ

خوارج كے ساتھ جنگ كى ضرورت

جنگ كا سد باب كرنے كى كوشش

سوالات

حوالہ جات

۲۶۹

منصفين كا اجتماع

معاويہ نے جب يہ ديكھا كہ حكميت كے معاملے ميں عراقى فوج كى كثير تعداد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام برگشتہ ہوگئي ہے تو اس نے يہ كوشش شروع كردى كہ جس قدر جلد ہوسكے حكميت كا نتيجہ اس كى مرضى كے مطابق برآمد ہوجائے_اس مقصد كے تحت اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف سركشى و شورش كا محاذ قائم كرديا تا كہ وہ اپنے سياسى موقف كو قائم كرسكے_

چنانچہ اس ارادے كے تحت اس نے جونمائندے حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں بھيجے انھيں ہدايت كردى كہ جس قد رجلد ممكن ہوسكے منصفين اپنا كام شروع كرديں _

بلاخرہ ۳۸ ھ چار سو افراد كے ہمراہ دو نمائندہ وفد '' دومة الجندل(۱) '' نامى مقام پر جمع ہوئے_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے جو وفد بھيجا گيا تھا اس كى سرپرستى كے فرائض ابن عباس انجام دے رہے تھے_(۲)

جس وقت يہ وفد روانہ ہونے لگا تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے بعض اصحاب نے ابوموسى كو كچھ ضرورى ہدايات بھى كيں(۳) جن كا ان پر ذرا بھى اثر نہ ہوا_ جس وقت اُسے مشورے ديئےارہے تھے تو وہ مسلسل اپنے داماد عبداللہ ابن عمر كى جانب ديكھ رہا تھا اور يہ كہہ رہا تھا كہ : خدا كى قسم اگر ميرا بس چل سكا تو عمر كى راہ و رسم كو از سرنو زندہ كروں گا_(۴)

عمر و عاص كى جيسے ہى ابوموسى سے ملاقات ہوئي تو وہ اس كے ساتھ نہايت عزت و احترام كى ساتھ پيش آيا اور اس بات كى كوشش كرنے لگا كہ اسے اپنا ہم خيال بنالے ابتدائي مراحل انجام دينے كے بعد وہ دونوں مشاورت كے لئے بيٹھ گئے اور باقى افراد دو جانب كھڑے اس گفتگو كا انتظار كرنے لگے_

۲۷۰

شام كاوفد خاص نظم و ضبط كے ساتھ آيا تھا ملاقاتوں اور گفتگو ميں ا حتياط كا عنصر غالب تھا اسى اثناء ميں معاويہ نے عمروعاص كو خط لكھا جس كے مضمون كى اطلاع اس كے علاوہ كسى كو نہ ہوئي اس كے برعكس عراقى وفد كے اراكين احتياط سے دور شور و غوغا بپا كئے ہوئے تھے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے بھى ابن عباس كو خط لكھا ابھى قاصد اونٹ سے اترا بھى نہيں تھا كہ لوگ اس كے گرد جمع ہوگئے_ اور پوچھنے لگے كہ خط ميں كيا لكھا گيا ہے يہى كام انہوں نے ابن عباس كے پاس پہنچ كر كيا ليكن جب انہوں نے خط كے مضمون كو ان سے پوشيدہ ركھنا چاہا تو لوگ ان كے بارے ميں بدگمانى كرنے لگے اور ان كے بارے ميں چرچے ہونے لگے يہاں تك كہ ابن عباس كو ان كى حماقت و ضد پر غصہ آگيا انہوں نے سرزنش كرتے ہوئے درشت لہجے ميں كہا كہ : ا فسوس تمہارى حالت پر تمہيں كب عقل آئے گى ديكھتے نہيں ہو كہ معاويہ كا قاصد آتا ہے اور كسى كو يہ تك معلوم نہيں ہوتا كہ كيا پيغام لے كر آيا ہے وہ اپنى بات كو ہوا تك لگنے نہيں ديتے اور ايك تم ہو كہ ميرے بارے ميں ہر وقت بدگمانى كرتے رہتے ہو _(۵)

حكميت كا نتيجہ اوراس كا رد عمل

منصفين كے درميان بحث و گفتگو تقريبا دو ماہ تك جارى رہى مذاكرات كے دوران ابوموسى كى يہ كوشش رہى كہ عمروعاص امور خلافت كو عبداللہ ابن عمر كى تحويل ميں دے دے دوسرى طرف عمروعاص معاويہ كى تعريف كے پل باندھے چلا رہا تھا اور اسے عثمان كا ولى و جانشين كہتے اس كى زبان نہيں تھكتى تھى _ وہ يہ كوشش كر رہا تھا كہ كس طرح ابوموسى كو قائل كر لے اور يہ كہنے پر مجبور كرے كہ خلافت اسى كا حصہ ہے_

بلاخر نتيجہ يہ بر آمد ہوا كہ فريقين نے اس بات پر اتفاق كيا كہ ''حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ دونوں ہى خلافت سے دست بردار ہوجائيں اور امور خلافت كو مشاورت كى صوابديد پر چھوڑديں اس موافقت كے بعد اعلان كيا گيا كہ لوگ حكميت كا نتيجہ سننے كے لئے جمع ہوجائيں _

۲۷۱

جب لوگ جمع ہوگئے تو ابوموسى نے عمروعاص كى جانب رخ كيا اور كہا كہ منبر پر چڑھ كر اپنى رائے كا اعلان كردو عمروعاص تو اول دن سے ہى اس بات كا متمنى تھا اور اسى لئے وہ ابوموسى كى تعريف و خوشامد كرتا رہتا تھا مگر اس نے استعجاب كرتے ہوئے كہا كہ : سبحان اللہ حاشا و كلا كہ يہ جسارت كروں اور آپ كى موجودگى ميں منبر پر قدم ركھوں ، خداوند تعالى نے ايمان و ہجرت ميں آپ كو مجھ پر فوقيت عطا كى ہے آپ اہل يمن كى طرف سے نمائندہ بن كر رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں حاضر ہوچكے ہيں اور پھررسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب سے آپ ہى نمائندہ بناكر يمن كے لوگوں كے پاس بھيجے گئے تھے اس كے علاوہ سن و سال ميں آپ مجھ سے بڑے ہيں اس بناپر آپ ہى گفتگو شروع كريں(۶)

ابوموسى گفتگو شروع ہى كرنا چاہتا تھا كہ ابن عباس نے كہا كہ عمروعاص تمہيں دام فريب ميں لانے كى فكر ميں ہے گفتگو كا آغاز اسے ہى كرنے دو كيونكہ وہ بہت عيار اور نيرنگ ساز آدمى ہے مجھے يقين نہيں كہ جس چيز پر اس نے اپنى رضايت ظاہر كى ہے اس پر وہ عمل بھى كرے_

ليكن ابوموسى نے ابن عباس كى نصيحت پر عمل نہيں كيا اور اس نيك مشورے كے باوجود وہ منبرپر چڑھ گيا اور اعلان كيا كہ ہم نے اس امت كے امور پر غور كيا اور ا س نتيجہ پر پہنچے كہ وحدت نظر سے بڑھ كر ايسى كوئي شي نہيں جو اس در ہم برہم حالت كى اصلاح كرسكے_ چنانچہ ميں نے اور ميرے حريف ساتھى '' عمرو'' نے اس بات پر اتفاق كيا ہے كہ علىعليه‌السلام اور معاويہ دونوں ہى خلافت سے دستبردار ہوجائيں اور اس معاملے كو مسلمانوں كى مجلس مشاورت كى تحويل ميں دے ديا جائے تا كہ جس شخص كو يہ مجلس مشاورت پسند كرے اسے ہى منصب خلافت پر فائز كيا جائے_

اس كے بعد اس نے پر وقار لہجے ميں كہا كہ ميں نے علىعليه‌السلام اور معاويہ كو خلافت سے برطرف كيا_

اس كے بعد عمروعاص منبر پر گيا اور اس نے بآواز بلند كہا كہ لوگو تم نے اس شخص كى باتيں سن ليں ميں بھى علىعليه‌السلام كو ان كے مقام سے برطرف كرتا ہوں ليكن اپنے دوست معاويہ كو اس منصب پر مقرر كرتا ہوں كيونكہ انہوں نے عثمان كے خون كا بدلہ ليا ہے اوراس منصب كے لئے وہ مناسب

۲۷۲

ترين شخص ہے يہ كہہ كر وہ منبر سے نيچے اتر آيا_

مجلس ميں ايك دم شور و ہيجان بپا ہوگيا لوگ طيش ميں آكر ابوموسى پر پل پڑے بعض نے عمروعاص پر تازيانہ تك اٹھاليا ابوموسى نے شكست كھائے ہوئے انسان كى طرح اپنے خيانت كار حريف كى اس حركت پر اعتراض كيا تجھے يہ كيا سوجھي؟ خدا تجھے نيك توفيق نہ دے تو نے خيانت كى ہے اور گناہ كا مرتكب ہوا ہے تيرى حالت كتے جيسى ہى ہے اسے چاہے مارا جائے يا چھوڑديا جائے وہ ہر حالت ميں بھونكتا ہى رہتا ہے اس پر عمرو نے جواب ميں كہا كہ تيرى حالت اس گدھے كى سى ہے جس پر كتابيں لدى ہوئي ہيں _(۷)

حكميت كا معاملہ اس تلخ انجام كے ساتھ اختتام پذير ہوا ابوموسى جان كے خوف سے فرار ركر كے مكہ چلا گيا عمروعاص فاتح كى حيثيت سے شام كى جانب روانہ ہوا اور اس نے معاويہ كو خليفہ كى حيثيت سے سلام كيا_

حكميت سے جو نتيجہ بر آمد ہوا اس نے عراق كے لوگوں كى ذہنى كيفيت كو برى طرح متاثر و مجروح كيا كيونكہ ايك طرف تو خوارج كا غم و غصہ پہلے كى نسبت اب كہيں زيادہ بڑھ گيا تھا كہ جس كا سبب يہ تھا كہ انھيں اميد تھى كہ امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام معاہدے كے منسوخ كرنے پر راضى ہوجائيں گے اور معاويہ كے خلاف اعلان جنگ كرديا جائے گا دوسرى طرف جب يہ افسوسناك خبر كوفہ و بصرہ كے لوگوں تك پہنچى كہ حضرت علىعليه‌السلام خلافت سے برطرف كرديئے گے وہيں تو مسلمانوں كےدرميان اختلافات بہت زيادہ تير كے آورد ان كى خليج كافى وسيع ہوتى چلى گئي چنانچہ نوبت يہاں تك پہنچى كہ ايك دوسرے كو بر ملا سخت و ست كہنے لگے_

امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام نے لوگوں كے درميان رفع اختلاف ، حزن و ملال كے آثار ميں كمى اور مسئلہ حكميت كے بارے ميں رائے عامہ روشن كرنے كى خاطر اپنے فرزند حضرت حسن مجتبيعليه‌السلام كو حكم ديا كہ وہ عوام كے سامنے جا كر تقرير كريں _

حضرت امام حسنعليه‌السلام منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا لوگو حكمين كے بارے ميں تم بہت زيادہ

۲۷۳

گفتگو كرچكے ہو ان كا انتخاب اس لئے عمل ميں آيا تھا كہ وہ قرآن كى بنياد پر حكم كريں گے مگر ہوائے نفسانى كى پيروى كرنے كى وجہ سے انہوں نے فيصلہ قرآن كے برخلاف كيا ہے اس بنا پر انھيں حكم نہيں كہا جا سكتا بلكہ وہ محكوم كہلائے جانے كے مستحق ہيں _

ابو موسى جو عبداللہ بن عمر كا نام تجويز كر چكا تھا تين اعتبار سے لغزش و خطا كا مرتكب ہوا_

اس كى پہلى لغزش تو يہى تھى كہ اس نے اس كے خلاف عمل كيا جو عمر نے كہا تھا عمر چونكہ اسے خلافت كا اہل نہيں سمجھتے تھے اسى لئے انہوں نے اس كو مجلس مشاورت كاركن بھى قرار نہيں ديا تھا_

دوسرى لغزش ان كى يہ تھى كہ انہوں نے يہ فيصلہ عبداللہ سے مشورہ كئے بغير كيا اور انھيں يہ معلوم نہيں تھا كہ وہ اس پر رضامند ہوں گے يا نہيں _

تيسرى لغزش يہ تھى كہ عبداللہ اس حيثيت سے ايسا انسان نہيں تھا جس كے بارے ميں مہاجرين و انصار كا اتفاق رائے ہوتا_

اب رہى مسئلہ حكميت كى اصل (تو كوئي نئي بات نہيں كيونكہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غزوات كے دوران اس پر عمل كرچكے ہيں ) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طائفہ '' بنى قريظہ'' كے بارے ميں سَعد بن معاذ كو حكم قرار ديا تھا اور چونكہ حكميت رضائے خداوندى كے خلاف تھى اس لئے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس پر راضى نہ ہوئے _

حضرت امام حسنعليه‌السلام كے بعد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے فرمانے پر عبداللہ بن جعفر اپنى جگہ سے اٹھے اور عامہ كو مطلع كرنے كى غرض سے انہوں نے تقرير كي(۸)

ج) مارقين

خوارج كے مقابل حضرت علىعليه‌السلام كا موقف(۹)

حكميت كے معاملے ميں شكست سے دوچار ہو كر اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام معاويہ سے جنگ كرنے كى غرض سے اپنے آپ كو آمادہ كرنا شروع كيا تا كہ مقرر مدّت ختم ہوجانے كے بعد صفين كى جانب واپس چلے جائيں ليكن خوارج نے حضرت علىعليه‌السلام كى اطاعت كرنے كى بجائے شورش و

۲۷۴

سركشى سے كام ليا اور پہلے كى طرح اس مرتبہ بھى نعرہ لا حكم الا اللہ كى بنياد پر اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام اور معاويہ كو وہ كافر كہنے لگے_

انھيں جب بھى موقع ملتا وہ شہر كوفہ ميں داخل ہوجاتے اور جس وقت حضرت علىعليه‌السلام مسجد ميں تشريف فرما ہوتے تو وہ اپنا وہى پرانا نعرہ لگانے لگتے اس كے ساتھ ہى انہوں نے اس شہر ميں اپنے افكار و نظريات كا پرچار بھى شروع كرديا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے خاموش و پر سكون رہ كر اور كوئي رد عمل ظاہر كئے بغير اپنى تحريك كو جارى ركھا وہ ان كے ساتھ انتہائي نرمى اور تواضع كے ساتھ پيش آئے اگر چہ حضرت علىعليه‌السلام چاہتے تو ان لوگوں سے كسى بھى قسم كا سلوك روا ركھ سكتے تھے مگر آپعليه‌السلام نے ان كى تمام افترا پردازيوں اور سياسى سرگرميوں كے باوجود اپنے محبت آميز رويے ميں ذرہ برابر بھى تبديلى نہ آنے دى آپعليه‌السلام ان سے اكثر فرماتے كہ '' تمہارے تين مسلم حقوق ہمارے پاس محفوظ ہيں :

۱_ شہر كى جامع مسجد ميں نماز پڑھنے اور اجتماعات ميں شركت كرنے سے تمہيں ہرگز منع نہيں كيا جائے گا_

۲_ جب تك تم لوگ ہمارے ساتھ ہو بيت المال سے تمہيں تنخواہيں ملتى رہيں گي_

۳_ جب تك تم ہم پر تلوار اٹھاؤ گے ہم تمہارے ساتھ ہرگز جنگ كے لئے اقدام نہ كريں گے(۱۰)

خوارج اگر چہ نماز ميں حضرت علىعليه‌السلام كى پيروى نہيں كرتے تھے مگر اجتماع نماز كے وقت ضرور پہنچ جاتے وہ لوگ اس جگہ نعرے لگا كر اور دوسرے طريقوں سے آپعليه‌السلام كو پريشان كركے آزار پہنچانے كى كوشش كرتے رہتے ايك دن جس وقت حضرت علىعليه‌السلام نماز ميں قيام كى حالت ميں تھے خوارج ميں سے ايك شخص نے جس كا نام ''كوا'' تھا بآواز بلند يہ آيت پڑھي:

) و لقد اوحى اليك والى الذين من قبلك لئن اشركت ليحبطن عملك و لتكونن من الخاسرين ( (۱۱)

۲۷۵

(اس آيت ميں خطاب پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كيا گيا ہے كہ : اے نبى ان سے كہو' پھر كيا اے جاہلو تم اللہ كے سوا كسى اور كى بندگى كرنے كےلئے مجھ سے كہتے ہو(يہ بات ہميں ان سے صاف كہہ دينى چاہيئے كيونكہ) تمہارى طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبياء كى طرف يہ وحى بھيجى جاچكى ہے_ اگر تم نے شرك كيا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا اور تم خسارے ميں رہوگے)

'' ابن كوا'' يہ آيت پڑھ كرچاھتا تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو اشارہ و كنايہ ميں يہ بتا دے كہ آپ نے عہد گذشتہ ميں جو اسلام كے لئے خدمات انجام دى ہيں ان سے ہرچند انكار نہيں كيا جاسكتا ليكن آپعليه‌السلام نے كفر كے باعث اپنے تمام گذشتہ اعمال كو تلف و ضائع كرديا ہے_

حضرت علىعليه‌السلام خاموش رہے اور جب يہ آيت پورى پڑھى جا چكى تو آپ نے نماز شروع كى '' ابن كوا'' نے دوسرى مرتبہ يہ آيت پڑھى حضرت علىعليه‌السلام اس مرتبہ بھى خاموش رہے چنانچہ جب وہ يہ آيت كئي بارپڑھ چكا اور چاہتا تھا كہ نماز ميں خلل انداز ہو تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے يہ آيت تلاوت فرمائي

فاصبر ان وعد الله حق و لا يستخفنك الذين لا يوقنون (۱۲) (پس اے نبى صبر كرو يقينا اللہ كا وعدہ سچا ہے اور ہرگز ہلكانہ پائيں تم كہ وہ لوگ جو يقين نہيں كرتے) اور آپ نے اس كى جانب توجہ و اعتنا كئے بغير نماز جارى ركھي_(۱۳)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كا طرز عمل يہ تھا كہ آپ لوگوں كى نعرہ بازى اور نكتہ چينى كا جواب منطقى نيز واضح و روشن دلائل سے ديتے تا كہ وہ اپنى ذھنى لغزش كى جانب متوجہ ہو سكيں اور آپعليه‌السلام كو پريشان كرنے سے باز رہيں اسى لئے آپعليه‌السلام فرماتے كہ اگر خوارج خاموش رہتے ہيں تو ہم انھيں اپنى جماعت كا جزو ركن سمجھتے ہيں اگر وہ اعتراض كيلئے لب كشائي كرتے ہيں تو ہم ان كا مقابلہ منطق و دليل سے كرتے ہيں اور وہ ہمارے ساتھ ضد پر اتر آئيں تو ہم ان سے نبرد آزمائي كرتے ہيں _(۱۴)

۲۷۶

منشور

خوارج نے ايك خاص انداز فكر كى بنياد پر اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف شورش و سركشى كى ان كے اس دائرہ عمل ميں مندرجہ ذيل نكات شامل تھے_

۱_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام معاويہ ،اور عثمان، اصحاب جمل اور حكميت سے متفق و ہم خيال اشخاص نيز ان افراد كو كافر تصور نہ كرنے والے لوگ اور مذكورہ بالا افراد سے وابستہ گروہ سب كے سب كافر ہيں _

۲_ امر بالمعروف و نہى از منكر كى بنياد پر ظالم و ستمگر خليفہ وقت (اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كےخلاف بلاقيد و شرط شورش كرنا ضرورى ہے كيونكہ ان كى رائے ميں اس كا اطلاق كسى شرط و پابندى كے بغير ہرجگہ ضرورى و لازمى امر تھا _

۳_ مسئلہ خلافت كا حل مجلس مشاورت كے ذريعے كيا جانا چاہئے اور اس مقام كو حاصل كرنے كيلئے ان كى دانست ميں واحد شرط يہ تھى كہ آدمى صاحب تقوى و ايمان ہو اور اگر خليفہ انتخاب كے بعد اسلامى معاشرے كى مصلحتوں كے برخلاف كوئي اقدام كرے تو اسے اس عہدے سے معزول كرديا جائے اور اگر وہ اپنے منصب سے دست بردار نہ ہو تو اس سے جنگ ونبرد كى جانى چاھيئے_(۱۵)

اس منشور كى بنياد پر وہ ابوبكر اور عمر كى خلافت كو صحيح سمجھتے تھے كيونكہ ان كى رائے ميں يہ حضرات صحيح انتخاب كے ذريعے عہدہ خلافت پر فائز ہوئے تھے اور وہ مسلمانوں كى خير و صلاح كى راہ سے منحرف نہ ہوئے تھے عثمان اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے انتخاب كو اگر چہ وہ ہر چند درست ہى سمجھتے تھے مگر اس كے ساتھ وہ يہ بھى كہتے تھے كہ عثمان نے اپنى خلافت كے چھٹے سال سے اپنے رويے كو بدلنا شروع كرديا تھا اسى لئے وہ خلافت سے اگر چہ معزول كرديئے گئے تھے مگر وہ چونكہ اپنے اس منصب پر فائز رہے اسى لئے وہ كافر اور واجب القتل تھے علىعليه‌السلام نے بھى چونكہ حكميت كو تسليم كرليا تھا اور اس اقدام پر پشيمان ہو كرا انہوںعليه‌السلام نے توبہ نہيں كى تھى اسى لئے وہ كافر اور واجب القتل ہيں (معاذ اللہ(۱۶)

۲۷۷

مجموعى نعرہ

خوارج كا انتہائي اہم اور پر جوش ترين نعرہ لا حكم الا للہ تھا اگر چہ يہ نعرہ انہوں نے قرآن مجيد سے ہى اخذ كيا تھا(۱۷) مگر عدم واقفيت اور فكرى جمود كے باعث اس كى وہ صحيح تفسير نہ كرسكے_

مذكورہ آيہ مباركہ ميں '' حكم'' سے مراد قانون ہے مگر خوارج نے اپنى كج فہمى كى بنا پر اس كے معنى '' رہبري'' سمجھ لئے جس ميں حكميت بھى شامل ہے وہ اس بات سے بے خبر رہے كہ خود قرآن نے ان كى كج فہمى كو رد كيا ہے جب قرآن نے بيوى و شوہر كے اختلاف اور حالت احرام ميں(۱۸) شكار كرنے تك مسائل كے بارے ميں انسانوں كو حكميت كا حق ديا ہے تو يہ كيسے ممكن تھا كہ مسلمانوں كے دو گروہ كے درميان ايسے حساس معاملات اور عظيم اختلافات كے بارے ميں انسانوں كو حق حكميت نہ ديا جاتا جس سے بعض انسانى زندگيوں كى نجات بھى وابستہ ہو_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ان لوگوں كى اطلاع كے لئے جو خوارج كا پروپيگنڈا بالخصوص اس دلكش نعرے سے متاثر ہوگئے تھے موثر تقرير كى اس ميں آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ اگر چہ يہ بات مبنى بر حقيقت ہے مگر اس سے جو مقصد و ارادہ اخذ كياگيا ہے وہ محض باطل ہے اس ميں شك نہيں كہ حكم خدا كيلئے ہى مخصوص ہے ليكن ان لوگوں نے حكم كى جو تفسير كى ہے اس سے مراد فرمانروا ہے اور ان كا كہنا ہے كہ خدا كے علاوہ كسى فرمانروا كا وجود نہيں در حاليكہ انسانوں كيلئے خواہ اچھے كام انجام ديتے ہوں يا برے ' فرمانروا كا وجوود امر ناگزير ہے(۱۹)

بغاوت

خوارج ابتدا ميں بہت امن پسند تھے اور صرف لوگوں پر تنقيد و اعتراض ہى كيا كرتے تھے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ ان كا رويہ وہ تھا جو اوپر بيان كيا جا چكا ہے مگر آہستہ آہستہ انہوں نے اپنى راہ و روش بدلى چنانچہ نوبت يہاں تك پہنچى كہ شورش و سركشى پر اتر آئے ايك روز عبداللہ

۲۷۸

بن وہب راہبى نے انھيں اپنے گھر پر جمع ہونے كى دعوت دى اور ان كے سامنے نہايت ہى پر جوش و لولہ انگيز تقرير كے ذريعے انہوں نے اپنے ہم مسلك لوگوں كو شورش و سركشى پر آمادہ كيااس ضمن ميں اس نے كہا كہ بھائيو اس جور و ستم كى نگرى سے نكل كر اچھا تو يہى ہے كہ پہاڑوں ميں جاكر آباد ہو رہيں تا كہ وہاں سے ہم ان گمراہ كن بدعتوں كا مقابلہ كركے ان كا قطع قمع كرسكيں _(۲۰)

اس كے بعد ''حر قرص بن زہير'' نے تقرير كى ان دونوں كى تقارير نے خوارج كے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر كيا اور ان ميں پہلے كى نسبت اب زيادہ جو ش و خروش پيدا ہونے لگا اگلا جلسہ '' ذفر بن حصين طائي'' كے گھر پر ہوا اس نے مفصل تقرير كے بعد كہا كہ ميں اپنے نظريئےيں دوسروں كى نسبت زيادہ محكم و پايدار ہوں اگر ايك شخص اس سلسلے ميں ميرا ساتھ نہ دے تو ميں اكيلا ہى شورش و سركشى كروں گا _ اے بھائيو تم اپنے چہروں اور پيشانيوں پر شمشير كى ضربيں لگاؤ تا كہ خدا ئے رحمن كى اطاعت ہوسكے(۲۱) اس كے بعد اس نے يہ تجويز پيش كى كہ بصرہ كے خوارج كو خط لكھا جائے تا كہ جس قدر جلد ممكن ہوسكے وہ ''نہروان'' ميں ان سے آن مليں اہل بصرہ نے مثبت جواب ديا اور كوفہ كے گروہ كے ساتھ آكر مل گئے(۲۲)

خوارج نے اپنى تحريك كوفہ كے باہر راہزنى اور ناكہ بندى كے ذريعے شروع كى _ قتل و غارتگرى كو انہوں نے اپنا شعار بنايا اور جو لوگ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے حامى و طرفدار تھے ان كے ساتھ وہ دہشت پسندانہ سلوك كرنے لگے_

اس اثناء ميں انھيں دو شخص نظر آئے ان ميں سے ايك مسلمان تھا ا ور دوسرا عيسائي ، عيسائي كو تو انہوں نے چھوڑ ديا مگر مسلمان كو اس جرم ميں قتل كرديا كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كا طرفدار ہے_(۲۳)

عبداللہ بن خباب سربرآوردہ شخص اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے كار پرداز تھے وہ اپنى زوجہ كے ساتھ جار ہے تھے كہ خوارج سامنے سے آگئے ان كو ديكھتے ہى انہوں نے كہنا شروع كيا كہ : '' اسى قرآن نے جو تيرى گردن ميں حمايل ہے تيرے قتل كا حكم صادر كيا ہے '' قتل كرنے سے پہلے

۲۷۹

ان سے كہا گيا اپنے والد كے واسطہ سے پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حديث نقل كرو اُنہوں نے كہا ''ميرے باپ كہتے تھے كہ ميں نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے كہ ميرے بعد كچھ عرصہ نہ گذرے گا كہ فتنہ و فساد كى لہريں ہر طرف پھيل جائيں گى اس وقت بعض لوگوں كے دل حقيقت كو سمجھنے سے قاصر رہيں گے اور وہ اسى طرح مردہ ہوجائيں گے جيسے انسانى جسم ايسے وقت ميں بعض افراد رات كے وقت مومن ہوں گے ليكن دن كے وقت كافر اس وقت تم خدا كے نزديك مقتول بن كر رہ لينا(حق كى پاسبانى كرنا اس كام ميں چاھے تمہارى جان پر بن جائے) مگر قتل و خونريزى سے گريز كرنا(۲۴)

عبداللہ نے حديث بيان كر كے اس وقت مسلمانوں ميں جو معاشرہ كار فرما تھا اس كى تصوير كشى كردى تا كہ خوارج اس سے پند و نصيحت لے سكيں ليكن انہوں نے ان كے ہاتھ پير اس برى طرح جكڑے كہ ديكھنے والے كے دل پر رقت طارى ہوتى تھى اور بہت زيادہ شكنجہ كشى اور آزار رسانى كے بعد انھيں نہر كے كنارے لے گئے جہاں انہوں نے انھيں بھيڑ كى مانند ذبح كيا ان كى حاملہ زوجہ كو قتل كرنے كے بعد ان كا شكم چاك كيا اور نارسيدہ بچے كو بھى انہوں نے ذبح كر ڈالا(۲۵)

عبداللہ كا قتل جس بے رحمى سے كيا گيا تھا اس پر ايك عيسائي شخص معترض ہوا وہ باغبان تھا اس وضع و كيفيت كو ديكھ كر وہ كچھ كھجوريں لے گيا اور قاتلوں كو پيش كيں جنہيں بغير قيمت ادا كئے انہوں نے قبول كرنے سے انكار كرديا اس پرعيسائي نے كہا كہ عجيب بات ہے كہ تم عبداللہ جيسے بے گناہ شخص كو قتل كرسكتے ہو اور بغير قيمت ادا كيے كھجوريں كھانے ميں تمہيں عذر ہے_(۲۶)

معاويہ سے جنگ

حكميت كى مدت اسى وقت ختم ہوئي جب كوفہ و بصرہ ميں خوارج جمع ہو رہے تھے مذكورہ مدت كے ختم ہوجانے كے بعد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے حَرُوراء ميں معاويہ سے جنگ كرنے كا فيصلہ كيا چنانچہ شہر ميں آمادہ رہنے كا اعلان كرديا گيا اس كے بعد آپ نے لوگوں كو جہاد كى جانب

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348