تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175290 / ڈاؤنلوڈ: 4063
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

كيلئے سزا معين كى اور انہيں قتل كرديا يہ ايك سياسى حكم تھا اس وقت اس كا جارى كرنا حكومت كيلئے ان كے اسلام لانے سے بہتر تھا_

شورشوں كا دباجانا

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں اسامہ كے ہمراہ لشكر روانہ كرنے كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس خدمت كو ابوبكر نے انجام نہ ديا اس لشكر كے روانہ كئے جانے كے بعد خليفہ وقت اور ان كے ہمنوا افراد نے كوشش كى كہ جتنى بھى شورشيں اس وقت ابھرى تھيں يكے بعد ديگر ے دبادى جائيں _

طليحہ' سجاح' مسيلمہ اور اياس بن عبداللہ ان لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے يا كسى گوشے ميں پيغمبرى كا دعوا كيا يا سركشى كى ، قتل كرديئے گے يا انہوں نے فرار كى راہ اختيار كى _ جنوب اور مشرق ميں آبا د قبائل اور وہاں كے شہروں ميں آباد لوگ دوبارہ مدينہ كے مطيع و فرمانبردار ہوگئے كيونكہ انہوں نے اس بات كو سمجھ ليا تھا كہ خانہ جنگى سے كوئي فائدہ نہيں بلكہ مصلحت اس ميں ہے كہ مركزى حكومت كى اطاعت قبول كرليں _

حضرت فاطمہعليه‌السلام كى وفات

جس سال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انتقال ہوا اسى سال آپ كى اكلوتى بيٹى فاطمہ زہراعليه‌السلام نے بھى وفات پائي باپ كى موت اور مختصر مدت كے بعد جو سانحات پيش آئے انہوں نے فاطمہ زہراعليه‌السلام كے جسم و روح كو غمگين بناديا _

حضرت زہراعليه‌السلام كے دل ودماغ پر ان واقعات كا ايسا گہرا اثر ہوا كہ آپ كے فرمانے كے بموجب اگر يہ مصائب وآلام دنوں پر پڑتے تو رات كى تاريكى ميں تبديل ہوجاتے _(۲۵) ان

۶۱

صدمات كى تاب نہ لاكر صاحب فراش ہوگئيں ، وہ لوگ جو پيغمبرا كرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خاطر جان بكف رہا كرتے تھے اور ان كے پاس جو كچھ تھا وہ آپ كے والد محترمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وجود كى بركت سے ہى تھا اب ايسے پھرے كہ ان ميں سے چند ہى آپ كى عيادت كو آئے_

جناب صدوق اس ضمن ميں فرماتے ہيں : مہاجر وانصار كى كچھ خواتين آپ كى عيادت كے لئے گئيں آپ نے اس وقت كو غنيمت جانا اور اس موقعے پر جو خطبہ ارشاد فرمايا اس كے بعض اہم اقتباسات يہاں كئے جاتے ہيں :

افسوس تمہارے مردوں نے خلافت كو رسالت كى پائيگاہ، نبوت كى اقامت گاہ اور منزل وحى سے الگ كرديا اور دنيا ودين كے ماہروں سے زمام خلافت چھين ليں يقينا اس ميں انكا سراسر نقصان ہے انہيں ابوالحسنعليه‌السلام سے كيا عداوت تھي_

جى ہاں : انہےں علىعليه‌السلام كى راہ خدا ميں برہنہ شمشير، دليرى اور شجاعت كا خوف تھا_

قسم خدا كى اگر خلافت كو علىعليه‌السلام كے ہاتھ سے نہ ليا ہوتا تو ان كے امور و مسائل كو حل كرنے ميں وہعليه‌السلام خود حصہ ليتے اور انتہائي رضا و رغبت سے شادمانى وكامرانى كى جانب انہيں ہدايت كرتے، تشنگان عدل وانصاف آپ كے چشمہ داد و عدالت سے سيراب ہوتے محروم ولاچار لوگ ان كى پناہ صولت ميں دلير و شير دل ہوجاتے _(۲۶)

بنت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب تك علالت كے باعث صاحب فراش رہيں(۲۷) كسى شخص نے آپكے چہرے پر شادابى اور مسكراہٹ نہ ديكھى آپ ہفتے ميں دو مرتبہ (پير اور جمعرات) شہداء كے مزارات پر جاتيں اور ان كے لئے دعائے خير فرماتےں _(۲۸)

اور بالاخر ہجرت كے گيارہوےں سال ميں بتاريخ سوم جمادى الآخر اٹھارہ سال كى عمر ميں آپ نے اس جہان فانى سے كنارہ كرليا اور اپنے والد بزرگوار كے پاس پہنچ گئيں _(۲۹)

حضرت علىعليه‌السلام نے دختر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل ديا نيز آپ كى وصيت كے مطابق خواص كے علاوہ ديگر افراد كى غير موجودگى ميں نماز جنازہ ادا كى اور راتوں رات آپ كے جسد مطہر كو سپرد خاك كركے

۶۲

قبركے نشان كو محو كرديا اس كے بعد آنحضرتعليه‌السلام نے مزار پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب رخ كيا اور فرمايا:

يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرى اور اپنى دختر كى جانب سے جواب آپ كے جوار ميں پہنچ گئي ہيں اور بہت جلد آپ سے جاملى ہيں سلام قبول فرمايئے اور يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ كى برگزيدہ و پاك دختر كى جدائي كے باعث ميرا پيمانہ صبر لبريز ہوچكا ہے اور اب مجھ ميں غم برداشت كرنے كى تاب نہيں

آپ كے پيارى بيٹى جلد ہى آپ كو مطلع كرديں گى كہ آپ كى امت نے ان پر ستم رواركھنے كى غرض سے كيا كيا باہمى سازشيں نہ كيں ان پر جو كچھ گذرى انہى كى زبانى سنيئے اور يہ وقت كس طرح گذرا اس كى كيفيت انہى سے دريافت فرمايئے اگرچہ آپ كى رحلت و زمانہ حيات كے درميان كافى عرصہ نہيں گذرا ہے اور آپ كى ياد دلوں سے بھى محو نہيں ہوئي ہے_(۳۰)

-

۶۳

سوالات

۱ _ حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں كن لوگوں نے پناہ لى اور كيوں ؟

۲ _ واقعہ سقيفہ كے بعد حضرت عليعليه‌السلام كا كيا موقف رہا ؟ اس حساس كيفيت كى وضاحت كيجئے ؟

۳ _ حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال كى روشنى ميں كنارہ كشى كے اسباب بيان كيجئے ؟

۴ _ حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ وقت سے كس وقت مصالحت كى تھى ؟

۵ _ فدك كہاں واقع ہے يہ مسلمانوں كے ہاتھ كس طرح آيا اور رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے زمانہ حيات مےں كسے بخشا ؟

۶ _ فدك پر قابض ہونے كے محركات بيان كيجئے ؟

۷ _ ابوبكر كى حكومت كے مقابل اہل '' ردہ '' كا كيا ردعمل رہا كيا وہ سب مرتد ہو گئے تھے ؟

۸ _ مرتدين كے ساتھ جنگ كرنے ميں ابوبكر كے پيش نظر كيا محركات تھے اس بارے ميں خليفہ ثانى كا بھى نظريہ پيش كيجئے ؟

۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى وفات كس سنہ ميں واقع ہوئي رحلت كے وقت آپ كى كيا عمر تھى آپ كى تكفين و تدفين كى رسومات كس طرح ادا كى گئيں ؟

۶۴

حوالہ جات

۱ _ جن حضرات كے نام ديئے گئے ہيں ان مےں زبير ' عباس بن ابى لہب ' سلمان ' ابوذر ' مقداد عمار، براء ' ابى بن كعب'سعد بن ابى وقاص اور طلحہ شامل ہيں ليكن الفصول المہمة ميں ان افراد كے علاوہ ديگر حضرات كے نام بھى درج ہيں _

۲ _ الامامة والسيلة ج۱ / ۲۰ _

۳ _ الامامة والسيلمة ج۱ / ۱۹_

۴ _ الشيعة والى كمون / ۱۸ _

۵ _لو وجدت اربعين ذويى عذم منهم لنا هضت القوم شرح ابن ابى الحديد ج۲ / ۴۷ و ۲۲

۶ _ نہج البلاغہ (صبحى صالح)خلبہ ''فنظرت فاذا ليس معين الا اهل بيتيى فضنت بهم عن الموت _

۷ _ اس جماعت نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد اسلام كى مركزى حكومت كے خلاف بغاوت شروع كر دى اور ايك مدت اس كے حملے جارى رہے _

۸ _ نہج البلاغہ خطبہ ج'' شقوا امواج الفتن بسفن النجاة ، عرجوا عن طريق المناضرة وضعوا بتيجان المفاخرة اندمجت على مكنون علم لوبحت به لاضطربتم الاشية فى الطوى البيصره'' _

۹ _'' وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيہ فلن يضراللہ شيئا وسيجزى اللہ الشاكرين'' (محمد اس كے سوا كچھ نہيں كہ بس ايك رسول نہيں ان سے پہلے اور رسول بھى گذر چكے ہيں كيا اگر وہ مر جائيں يا قتل كر ديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤں گے ؟ ياد ركھو جو الٹا پھرے گا وہ اللہ كا كچھ نقصان نہ كرے گا البتہ جو اللہ كے شكر گزار بندے بن كر رہيں گے انھيں وہ اس كى جزادے گا)آل عمران آيہ ۱۴۴_

۱۰ _ نہج البلاغہ خط ۶۲ _

''فامسكت يديى حتى رايت راجعة الناس قد رجعت عن الاسلام يدعون الى محق دين محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فخشيت ان لم انصر الاسلام واهله ان ارى فيه ثلما اوهدما تكون المصيبة به على اعظم من فوت ولايتكم التى هيى متاع ايام قلائل يزول منها ماكان كما يزول السراب اوكما يتقشع السحاب '' _

۶۵

۱۱ _ تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو اسد الغابہ ج۳ / ۲۲۲ ' تاريخ يعقوبى ۲ / ۱۲۶ ' استيعاب ج۲ / ۲۴۴ ' التنبيہ والا شراف / ۲۵۰ اور الامامة والسيامة ج۱ / ۲۰ _

۱۲ _ نہج البلاغہ خطبہ ۳، يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مصالحت اور اجتماعا ميں شركت اسى حد تك تھى كہ جتنى اسلام و مسلمين كى حفاظت كا تقاضا تھا _

۱۳ _فدك خيبر كے نزديك مدينہ سے ۱۴۰ كلوميٹر كے فاصلے پر سرسبز و زرخيز زمين تھى فتح خيبر كے بعد رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك وفد ''فدك'' كے سرداروں كے پاس بھيجا اور بحث و گفتگو كے بعد وہاں كے رہنے والوں نے يہ عہد كيا كہ ہر سال خيبر كى جتنى پيداوار ہوگى اس كا نصف حصہ وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيج ديا كريں گے اور اس كے عوض حكومت كى جانب سے ان كى حفاظت كى جائے گي_اسلامى نظريے كے مطابق وہ زمين جو بغير جنگ كے مسلمانوں كو حاصل ہوتى ہے وہ خالص پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و امامعليه‌السلام كا حصہ ہے اس مسئلے كى رو سے ''فدك'' صرف رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حق تھا چنانچہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى شيعہ محدثين و مفسرين نيز بعض سنى مفكرين كے قول كے مطابق جس وقت آيت ذالقربى حقہ (سورہ اسراء آيت ۲۶) نازل ہوئي تو آپ نے اپنى دختر حضرت فاطمہعليه‌السلام كو بلايا اور ''فدك'' انہيں ديديا(كشف الغمہ ج ۱ / ۷۶ ۴) _

۱۴_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۳۱_

۱۵_ مروج الذہب ج ۳/ ۲۳۷_

۱۶_ فتوح البلدان ۴۴ شيعہ احاديث ميں مذكورہ بالا شواہد كے علاوہ اسماء بنت عميس كا نام بھى شاہد كى حيثيت سے آيا ہے_

۱۷_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۲۲_

۱۸_ اعيان الشيعہ (دس جلدي) ج۱/۳۱۸ منقول از سيرہ حلبي_

۱۹_ كامل ابن اثير ج ۲ / ۳۲۶ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۴۵ _

۲۰_ تاريخ طبرى ج۳/۲۰۲_

۲۱_ زيد بن ثابت كچھ رقم لے كر بنى عدى كى ايك خاتون كے پاس پہنچے اور كہا كہ يہ وہ رقم ہے جو خليفہ نے عورتوں كے درميان تقسيم كى ہے اور يہ تمہارا حصہ ہے اس نيك خاتون نے اپنى ذہانت كے باعث اس رقم كو قبول

۶۶

كرنے سے انكار كيا اور كہا كيا ميرا دين خريدنے كے لئے مجھے يہ رشوت دى جارہى ہے _ (شرح ابن ابى الحديدج۲/۵۳، طبقات ابن سعد ج ۳/۱۸۲)_

۲۲_البدايہ والنہايہ ج ۶ /۳۱۱ قال عمر ھو الاّ ان را يت اللہ قد شرح صدر ابى بكرللقتال فعرفت انہ الحق ''ليكن صحيح بخارى ج ۷/ ۱۷۱ ميں عمر كا جملہ اس طرح نقل كيا ہے فواللہ ما ہو الا ان قد شرح اللہ صدر ابى بكر فعرفت انہ الحق ''_

۲۳_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۱_

۲۴_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۲_

۲۵_ صبت على مصائب لوانہاصبت على الايام صرن لياليا

۲۶_احتجاج طبرسى ج ۱/ ۱۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج /۱۶ / ۲۳۳، بلاغات النساء /۱۹ اور دلائل الامامہ طبري/ ۳۹_

۲۷_ حضرت فاطمہعليه‌السلام كتنے عرصے تك عليل رہيں اس كے بارے ميں اختلاف ہے ابن شہر آشوب نے مناقب ميں بيان كيا ہے كہ آپ چاليس دن تك مريض رہيں اور اسى مرضى كے باعث آپ كى وفات واقع ہوئي حضرت امام باقرعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپ پندرہ تك عليل رہيں اور اس كے بعد آپ كى رحلت ہوئي_(اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹)_

۲۸_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹_

۲۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى تاريخ وفات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد آپ كى مدت عمر كے بارے ميں اختلاف ہے كتاب كے متن مےں جو بات درج كى گئي ہے وہ اقوال مشہور كے مطابق ہے مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت فاطمہ(س)رحلت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد كم از كم چاليس دن اور زيادہ سے زيادہ آٹھ ماہ اس جہان فانى ميں تشريف فرما رہيں مذكورہ بالا دونوں اقوال كے علاوہ مختلف روايات ميں دو ماہ سے پچھتر دن ' تين ماہ اور چھ ماہ عرصہ بھى نقل كيا گيا ہے _

۳۰ _ نہج البلاعہ (صبحى صالح)خ ۲۰۲ _

۶۷

چوتھا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳

سر زمين شام و عراق كى فتح

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

حضرت علىعليه‌السلام ، اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

جانشينى كا تعين

قلمر و اسلام كى وسعت

فتوحات كى خوشنجريوں كے اثرات

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى و علمى مشورے

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

بيت المال كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

خليفہ دوم كا قتل

كونسى شورى ؟

مذكورہ شورى كے بارے ميں عليعليه‌السلام كا رويہ

حضرت علىعليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ

۶۸

عثمان كى خلافت

مسلمانوں كا بيت المال

حضرت علىعليه‌السلام كے پند و نصايح

خليفہ سوم كا قتل

حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران علىعليه‌السلام كے كارنامے

سوالات

حوالہ جات

۶۹

سرزمين شام و عراق كى فتح

داخلى جنگوں كى آگ جب خاموش ہو گئي تو خليفہ وقت نے دو اہم لشكر تيار كيئے ان ميں سے ايك لشكر خالد كے زير فرمان عراق كى جانب روانہ كياجس پر اس وقت ساسانى حكومت كا اثر و غلبہ تھا اور دوسرا لشكر ابو عبيدہ كى سركردگى ميں شام كى سمت ' مشرقى روم كى جانب روانہ كيا _

خالد سب سے پہلے '' حيرہ '' كى طرف متوجہ ہوا ليكن وہاں كے حاكم نے صلح و امن كا طريقہ اختيار كيا اور نوے ہزار درہم ادا كر كے اپنے ملك كے تابع سرزمين كو مسلمين كى در ازدستى سے بچا ليا حيرہ كے بعد '' آبلہ '' '' عين التمر '' اور '' انبار '' جيسے شہر جنگ يا معاہدہ صلح كے ذريعے تابع و مطيع كئے گئے _

عراق كى جانب جب لشكر روانہ كيا گيا تھا تو وہ كاميابى سے ہمكنار ہوا مگر جو لشكر رومى شانہشاہيت كے متصرفات كو فتح كرنے كى غرض سے بھيجا گيا تھا اس كے بارے مےں احتمال تھا كہ كہيں شكست سے دو چار نہ ہو اس خدشے كے پيش نظر ابوبكر نے خالد كو عراق سے واپس بلا ليا اور مسلمانوں كى مدد كے لئے انھيں شام كى جانب جانے پر مقرر كيا خالد كے چلے جانے كے بعد قبيلہ بكر كے سردار مثنى نے لشكر عراق كے ماندارى كى ذمہ دارى قبول كى اور حيرہ سے بابل (يہ شہر موجودہ حلہ كے نزديك واقع تھا)كى جانب روانہ ہوئے خالد جب اپنا مختصر لشكر اسلام لے كر '' يرموك '' پہنچے تو لشكر اسلام كو اس سے بہت فرحت حاصل ہوئي اور بے مثال بہادرى و دليرى سے جنگ كر

۷۰

كے انہوں نے سپاہ روم كو شكست دى چنانچہ انھوں نے پسپا ہو كر دمشق ميں پناہ لى _

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

ابوبكر اگرچہ مسند خلافت پر متمكن ہو گئے ليكن مہاجر و انصار كى نظروں ميں ان كا شمار افضل و اعلى دانشور صحابہ رسول ميں نہيں ہوتا تھا مثلا تفسير قرآن مجيد كے وہ قابل اعتناء توجہ مطالب بيان نہےں كر سكتے تھے چنانچہ جلال الدين سيوطى جيسا تتبع مفسردس سے زيادہ تفسير و مطالب تفسير ان سے نقل نہےں كر سكا ہے جبكہ وہى مفسر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں لكھتا ہے كہ علم تفسير ميں آپ كى بہت سے روايات بيان كى گئي ہيں _(۵)

حنبلى مسلك كے پيشوا مام احمد بن حنبل كو دس لاكھ احاديث ياد تھيں ''(۶) مسند'' ميں انہوں نے پچاس ہزار سات سو احاديث نقل كى ہيں او جو احاديث انہوں نے ابوبكر كے واسطے سے نقل كى ہيں ان كى تعداد اسى (۸۰) سے كم ہى ہے(۷)

ابن كثير نے بہت زيادہ تلاش و جستجو كے بعد ابوبكر سے منقول بہتر (۷۲) احاديث جمع كى ہےں اور انھيں ''مجموعہ مسند صديق '' كا نام ديا ہے جلال الدين سيوطى كى علم تفسير و احاديث پر كافى دسترس تھى اس نے مجموعہ ابن كثير كا سند كے اعتبار سے جايزہ ليا ہے اور ان كى تعداد كو اس نے ايك سو چار تك پہنچا ديا ہے(۸)

حضرت علىعليه‌السلام ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

اوپر جو بيان كيا گيا ہے اس كے پيش نظر ابوبكر كے لئے علمى ہى نہيں بلكہ سياسى مشكلات ميں بھى اس كے سوا چارہ نہ تھا كہ ضرورت كے وقت حضرت علىعليه‌السلام سے رجوع كريں اور آپ سے مدد چاہيں اور يہ بات اس امر كى واضح دليل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كتاب خدا ،حديث رسولعليه‌السلام اور اسلام

۷۱

كے سياسى مصالح كے بارے ميں سب سے زيادہ باخبر ، ذى ہوش شخص تھے مثال كے طور پر ہم يہاں دو واقعے بيان كر رہے ہيں _

اہل روم سے جنگ كرنے كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خود فرمان تھا اسے نافذ كرنے مےں ابوبكر كو تردد تھا اس سلسلے ميں انہوں نے بعض صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشورہ بھى كيا چنانچہ ہر شخص نے اس سے متعلق اپنى رائے كا اظہار كيا بالاخر انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے مشورہ كيا اور رائے جاننا چاہى آپ نے پيغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كو نافذ كئے جانے كى ترغيب دلائي اور مزيد فرمايا '' ان فعلت ظفرت '' يعنى اگر آپ يہ اقدام كريں گے تو كامياب ہوں گے خليفہ نے بھى آپ كے كہنے پر عمل كيا _(۹)

۲ _ ايك شخص نے شراب پى ركھى تھى نشہ كى حالت ميں اسے خليفہ كے روبرو لايا گيا اس شخص نے كہا مجھے علم نہ تھا كہ شراب پينا حرام قرار ديا گيا ہے كيونكہ اب تك ميں نے اس ماحول ميں پرورش پائي ہے جہاں شراب كو حلال سمجھا جاتا ہے خليفہ كى سمجھ ميں نہيں آيا كہ كيا كريں چنانچہ انہوں نے ايك شخص كو حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں روانہ كيا اور كہا كہ اس مشكل كو حل فرمائيں _(۱۰)

جانشينى كا تعين

عمر نے ابوبكر كو خليفہ بنانے كے لئے بہت زيادہ سعى وكوشش كى جس كا مقصد يہ تھا كہ خليفہ اول كے بعد خلافت ان كو ملے ، ابوبكر نے بھى ان كى مرضى كے خلاف كوئي اقدام نہ كيا_ جس وقت بستر علالت پر وہ تھے تو انہوں نے عثمان كو بلايا اور كہا لكھو:

يہ عہد نامہ ابوبكر جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مسلمانوں كے لئے ہے بات يہيں تك پہنچى كہ ابوبكر پر غشى طارى ہوگئي عثمان كو يہ گمان گذرا كہ شايد خليفہ گذر گئے ہيں چنانچہ انہوں نے اس عہدنامے كى اس طرح تكميل كي_ ابوبكر نے اپنے بعد عمر بن خطاب كو اپنا جانشين مقرر كيا ہے _ اسى اثناء ميں ابوبكر كو ہوش آگيا اور جب انہيں يہ معلوم ہوا كہ عثمان نے كيا لكھا ہے تو انہوں نے كہا ''تم نے

۷۲

ٹھيك لكھا ہے اس معاملے ميں ميرى اور تمہارى ايك ہى رائے ہے_ (۱۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے نہج البلاغہ ميں ابوبكر كے اس اقدام پر سخت تنقيد كى ہے _ چنانچہ فرماتے ہيں ''عجيب بات ہے كہ وہ شخص جو زندگى ميں لوگوں سے كہا كرتا تھا كہ وہ ميرا عذر قبول كريں اور (علىعليه‌السلام كے ہوتے ہوئے) اس كو خلافت سے معذور ركھيں خود مرتے وقت خلافت (كى دلہن) كا پلا دوسرے سے باندھ گيا _(۱۲)

قلمرواسلام كى وسعت

عمر كے دور خلافت ميں مسلمانوں كو بہت سى فتوحات نصيب ہوئيں اور ايران و روم جيسى دو عظےم شہانشاہى حكومتوں كے دروازے ان پر كھل گئے_

عراق ميں مسلمانوں نے جس تيزى سے پيشرفت كى اس كے باعث انہيں يہ اميد نظر آنے لگى كہ ساسانى حكومت كے اصل سرزمين پر بھى وہ حملہ كرسكيں گے چنانچہ عمر نے ابوعبيدہ كو ايران كى فتح كے لئے فرماندار مقرر كيا اور مثنى چونكہ عراق ميں مقيم تھے انہيں حكم ديا كہ وہ اپنے لشكر كے ساتھ ابوعبيدہ كى اطاعت و پيروى كريں _

ايران كے بادشاہ ''يزدگرد سوم'' نے اپنے سرداروں كو كثير طاقت جمع كرنے كے بعد حكم ديا كہ وہ مسلمانوں كى پيشرفت كو روكيں اگرچہ اس كے سردار ہر چند لايق و جنگجو تھے مگر وہ سب ايك دوسرے كے بعد يا تو قتل ہوئے يا انہوں نے لشكر اسلام سے صلح كرلي_ ايرانى سرداروں ميں بہمن جادويہ ہى ايسا سردار تھا جو مطيع و فرمانبردار نہ ہوا چونكہ اس كى فوج ہاتھيوں كے لشكر سے آراستہ تھى جنہيں ديكھ كر عربوں كے گھوڑے بھڑك گئے چنانچہ ''جسر'' ميں ابوعبيدہ شہيد ہوئے اورباقى لشكر نے پسپا ہوكر فرات كے پار جاكر پناہ لي_

ليكن ايك سال بعد(۱۴ ھ) ميں سپاہ اسلام نے مثنى كے زير فرمان ''بويب(۱۲) '' ميں سپاہ ايران پر فتح پائي اور اس سے جنگ جسر كى شكست كى تلافى ہوگئي_

۷۳

اس كے بعد قادسيہ وقوع پذير ہوئي اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو ايرانى اور اسلامى افواج كے سپہ سالاروں (سعد وقاص اور رستم فرح زاد) كے درميان ايلچيوں كے ذريعے گفت وشنيد ہوتى رہى _ ايلچيوں كى اس ملاقات ميں سپاہ اسلام كے سپہ سلار نے بھى مطالبہ كيا كہ دو چيزوں ميں سے ايك چيز قبول كى جائے، اسلام يا جزيے كى ادائيگى _ ليكن رستم فرح زاد جو بڑا خود سر سردار تھا يہى كہتا رہا كہ جس وقت تك ہم تمہيں قتل نہ كرديں گے دم نہ ليں گے_

بالآخر چار دن كى جنگ كى بعد مسلمان فتح و كامرانى سے ہمكنار ہوئے اور اس طرح محرم سنہ ۱۴ ھ ميں ايران كے دروازے لشكر اسلام پر كھل گئے اور نور ايمان وتوحيد نے اس سرزمين كو اپنى آمد سے منور كيا_

دوسرى طرف شہنشاہ روم كى فوج نے يرموك ميں اپنى شكست كے بعد دمشق ميں پناہ لى اور اپنى اس شكست كے تلافى كرنے كى غرض سے اس نے عظےم فوجى طاقت جمع كى ليكن يہ لشكر بھى شكست سے دوچار ہوا اور مسلمانوں نے دمشق و اردن جيسے شہروں پر فتح پائي_ سنہ ۱۷ ميں مسلمانوں نے فلسطين كو بھى جو فوجى اور تاريخى لحاظ سے اہم شہر تھا ، تسخير كيا_ ۱۹ ھ ميں عمر وعاص نے بحر احمر كو عبور كركے مصر كى جانب رخ كيا_''بابليوں '' ميں باز نطينى سپاہ سے مقابلہ ہوا اس ميں بھى لشكر اسلام كو كاميابى نصيب ہوئي _ وہاں سے وہ عين الشمس اور روم كى جانب روانہ ہوا تاكہ شہنشاہ روم كى رضايت حاصل كركے اسكندريہ پہنچ جائے _ چنانچہ چند ماہ كے محاصرے كے بعد اسكندريہ كو بھى فتح كرليا اور اس طرح شمالى افريقہ كے لئے راستہ ہموار ہوگيا_

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات

مغايرت و مخالفت سے قطع نظر جو محركات خلفاء كے زمانے ميں ان فتوحات كے ذريعے مسلمانوں كو ہوئے اگر ان كا موازنہ ان جنگوں اور فتوحات سے كياجائے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ظہور پذير ہوئيں تو اس نكتے كو ملحوظ خاطر ركھنا ضرورى ہے ، ان فتوحات سے يہ ثابت نہيں ہوتا

۷۴

كہ ان كے باعث دربار خلافت كى شان وشوكت ميں اضافہ ہوا ، اس ميں شك نہيں كہ ايك طاقتور و فاتح فوج كو اعلى مقاصد ، حوصلہ مندانہ آمادگى ، فن حرب وضرب سے واقفيت اور فوجى تربيت جيسے عوامل و اوصاف كا مجموعہ ہوناچاہئے مگر اس كا چندان ربط و تعلق موجودہ سپہ سالاروں سے نہيں تھا _ مسلمانوں كى فتح وكامرانى ميں جو عوامل كار فرما تھے اور انہيں دو عظيم شہنشاہى حكومتوں سے قوت آزما ہونے كيلئے ترغيب دلاتے تھے، وہ پيغمبرا كرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ خوش خبرى تھى كہ مسلمان ايران اور وم جيسى سرزمينوں كو فتح كريں گے ان كے علاوہ بھى ديگر ايسے عوامل تھے جن سے مسلمانوں كى ميدان جنگ ميں حوصلہ افزائي ہوتى تھى مگر انكا تعلق كسى طرح بھى حكومت وقت سے نہ تھا بلكہ ان ميں وہ شہرت ونيك نامى كے عناصر كار فرماتھے جو رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شير خدا علىعليه‌السلام جيسے پيشوايان اسلام نے اپنے كردار كے ذريعے قائم كئے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے

حضرت علىعليه‌السلام خليفہ اول كى طرح خليفہ دوم كے بھى اہم مشكل كشا تھے اور ان كى بھى سياسى و علمى مشكلات كو حل فرماتے تھے يہاں ہم بطور مثال دو واقعات پيش كررہے ہيں _

جنگ قادسيہ ميں سپاہ ايران كى شكست كے بعد ايران كے بادشاہ يزدجرد نے فيروزان كے كمانڈرى ميں عظيم لشكر مرتب كيا تاكہ وہ آيندہ عربوں كے حملات كا سد باب كرسكے ، كوفہ كے حاكم نے خط كے ذريعے تمام واقعات كى اطلاع خليفہ كو دى ، عمر مسجد ميں آئے اور اصحاب سے مشورہ كيا كہ وہ مدينہ ميں ہى رہيں يا اس علاقے ميں پہنچ كر جو بصرہ وكوفہ كے درميان واقع ہے ، سپاہ اسلام كى كمان سنبھاليں _ عثمان اور طلحہ نے دوسرے نظريے كى تائيد كى اور اس ضمن ميں مزيد كہا كہ آپ سرداران سپاہ شام ويمن كو لكھيں كہ وہ آپ سے ملحق ہوں _ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے دونوں ہى نظريات كى مخالفت كى اور فرمايا كہ وہ شہر جو حال ہى ميں مسلمانوں كے تصرف ميں آئے ہيں انہيں فوج سے خالى نہيں رہنا چاہيئےيونكہ ايسى صورت ميں ممكن ہے كہ حبشہ كى فوج يمن پر اور روم كا لشكر

۷۵

شام پر قبضہ كرلے _ عمر كى پہلى تجويز كے بارے ميں بھى آپ نے مشورہ ديا اور فرمايا كہ اگر آپ مدينہ سے باہر چلے جائيں گے تو ممكن ہے كہ اطراف كے اعراب اس موقع كا فائدہ اٹھائيں اور يہاں كوئي فتنہ بپا كريں اس كے علاوہ اگر آپ محاذ جنگ پر پہنچيں گے تو دشمن جرى ہوجائے گا كيونكہ جب عجمى سپاہى آپ كو ديكھيں گے تو كہيں گے كہ عربوں كى جڑ بنياد يہى شخص ہے گر اس كو كاٹ ڈاليں تو سارا جھگڑا ہى پاك ہوجائے گا_

حضرت علىعليه‌السلام كى بات سننے كے بعد عمر نے روانگى كے خيال كو ترك كرديا اور كہا كہ قابل عمل رائے علىعليه‌السلام كى ہے مجھے انہى كى پيروى كرنى چاہيئے_(۱۳)

ايك شخص خليفہ كے پاس آيا اور شكايت كى كہ ميرى بيوى كے يہاں شادى كے چھ ماہ بعد ولادت ہوئي ہے عورت نے بھى اس بات كو قبول كيا اس پر خليفہ نے حكم ديا كہ اسے سنگسار كياجائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حد جارى كرنے سے منع كيا اور فرمايا كہ قرآن كى روسے عورت چھ ماہ پورے ہوجانے پر وضع حمل كرسكتى ہے كيونكہ مدت حمل اور شيرخوار تيس ماہ معين ہے_(۱۴)

اور دوسرى آيت ميں دودھ پلانے كى مدت دوسال بتائي گئي ہے _(۱۵) اور اگر تيس ماہ ميں سے دو سال كم كرديئے جائيں تو مدت حمل چھ ماہ رہ جاتى ہے _ حضرت علىعليه‌السلام كى منطقانہ گفتگو سننے كے بعد عمر نے كہا''لو لا على عليه‌السلام لهلك عمر'' _''اگر علىعليه‌السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاك ہوجاتا''_(۱۶)

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

ابوبكر و عمر كے زمانہ خلافت ميں بنى ہاشم اور حضرت علىعليه‌السلام كے ہوا خواہوں كو عملى طور پر حكومت كے اہم عہدوں سے دور ركھا گيا اور يہ كوشش كى گئي كہ اس زمانے كہ دل ودماغ سے اہل بيتعليه‌السلام كى اعلى اقتدار كو محو كردياجائے_

اس كے مقابل اموى گروہ بتدريج معاشرے كى رہبرى ميں اثر رسوخ پيدا كرتا رہا _ اس

۷۶

نظريے كے بہت سے تاريخى شواہد موجود ہيں جن ميں سے چند كا ذكر ذيل ميں كياجاتا ہے_

۱_ ابوبكر نے اس زمانے كى وسيع وعريض مملكت ميں سے چھوٹا سا حصہ بھى بنى ہاشم ميں سے كسى كو نہيں ديا كہ جبكہ شام كو سياسى اہميت حاصل ہونے كے باوجود ابوسفيان كے بيٹے يزيد كے اختيار ميں ديديا تھا _(۱۷)

۲_ عمر ''حميص'' كى حكومت حضرت ابن عباس كو دينے سے منصرف ہوگئے جبكہ معاويہ كو شام پر مسلط كرنے كے سلسلہ ميں كسى قسم كا دريغ نہيں كيا _

۳_ محض چند لوگوں كى اس شكايت پر كہ عمار ياسر ايك ضعيف انسان ہيں خليفہ دوم نے كوفہ كى گورنرى سے انہيں معزول كيا اور مغيرہ كو گورنر مقرر كيا چند روز بعد مغيرہ كى بھى شكايت پہنچى ليكن اس كا ذرہ برابر اثر نہ ہوا_(۱۸)

خليفہ اول و دوم اگرچہ ابوسفيان سے بہت زيادہ خوش نہ تھے اور اسى وجہ سے انہوں نے اموى خاندان كے افراد كو حد سے زيادہ سياسى امور ميں داخل ہونے نہيں ديا مگر اس كا ميدان انہوں نے عثمان كے زمانہ خلافت ميں ہموار كرديا تھا _ مثلاً عمر جانتے تھے كہ شورى جس كى انہوں نے تشكيل كى ہے اس كانتيجہ يہ برآمد ہوگا كہ عثمان كو خليفہ منتخب كرلياجائے گا چنانچہ اس نے خود بھى يہ بات كہہ دى تھى كہ اگر عثمان حاكم ہوئے تو وہ بنى اميہ كو لوگوں پر مسلط كرديں گے_(۱۹)

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

جيسا كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تاريخ حيات ميں بيان كياجاچكا ہے كہ آپ نے اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں چاہا تھا كہ امت كے لئے ايك نوشتہ لكھ ديں تاكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد وہ گمراہ نہ ہو مگر عمر نے منع كيا اور كہا كہ ہمارى لئے قرآن كافى ہے_

اس خيال كى پيروى كرتے ہوئے انہوں نے اپنے زمانہ خلافت ميں حكم ديا كہ احاديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قلم بند نہ كياجائے اور اگر انہيں كوئي حديث لكھى ہوئي مل جاتى تو اسے ضبط كركے جلوا ديتے_

۷۷

انہوں نے تمام شہروں ميں يہ منادى كرادى كہ اگر كسى كے پاس كوئي حديث ہے تو وہ اسے نيست ونابود كردے _(۲۰) چنانچہ قاسم بن محمد بن ابى بكر سے منقول ہے كہ عمر كے زمانے ميں احاديث بہت زيادہ جمع ہوگئيں جب ان كے پاس لائي گئيں تو حكم ديا كہ انہيں جلاديا جائے_(۲۱)

ابوبكر نے بھى اپنے زمانہ خلافت ميں پانچ سو احاديث جمع كيں _ عائشہ فرماتى ہيں : مجھ سے كہا كہ احاديث ميرے پاس لاؤ جب انہيں لايا گيا تو ان سب ميں آگ لگادى گئي _(۲۲) چنانچہ يہ روش عمر بن عبدالعزيز كے دور خلافت تك جار رہى _

اس رويے كو اختيار كرنے كى وجہ وہ يہ بتاتے تھے كہ اگر عوام كى توجہ احاديث كى جانب رہے تو وہ قرآن سے دور ہوجائيں گے درحاليكہ قرآن كا يہ ارشاد ہے كہ ''پيغمبر جو كچھ تمہارے لئے لائے ہيں ، اسے قبول كرلو اور جس چيز سے منع كيا ہے اس سے باز رہو ''_(۲۳) رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كا امكان پيدا ہونے كے لئے ضرورى ہے كہ وہ احاديث جن ميں بالخصوص اوامر و نواہى كے بارے ميں آپ نے فرمايا محفوظ رہنى چاہئے ورنہ كس طرح رسول كى اطاعت ہوسكے گى ؟

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عہد ميں سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ مقرر نہ تھى بلكہ اخراجات زندگى مال غنيمت كے ذريعے مہيا كئے جاتے تھے _ اس كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ زندگي' عربوں كى نسلى فضيلت يا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ قرابت دارى كو ملحوظ نہيں ركھا جاتا تھا_

خليفہ اول كے زمانے ميں بھى يہى طريقہ رائج رہا ليكن خليفہ دوم كے زمانے ميں اس طريقہ كار كو بدل ديا گيا انہوں نے سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ كے لئے عليحدہ رجسٹر بنايا اور اس كى تقسيم كے لئے نسل ونسبت كو معيار قرار ديا ان كے درميان عرب كو عجم پر ، قحطان كے عرب كو عدنان كے عرب پر ، مضر كو ربعيہ پر ، قريش كو غير قريش پر اور بنى ہاشم كو بنى اميہ پر برترى و

۷۸

فضيلت تھى اور انہيں بيشتر مراعات حاصل تھيں _(۲۴)

كچھ عرصہ گذرا تھا كہ ذخيرہ اندوزوں اور دنيا پرستوں نے اس طريقہ كار كى بدولت جس طرح بھى ممكن ہوسكتا تھا مال جمع كرنا شروع كرديا وہ غلاموں اور كنيزوں كو خريد ليتے اور انہيں مختلف كاموں پر زبردستى لگاديتے تاكہ ان كے لئے زندگى كى سہولتيں فراہم كرنے كے علاوہ ہر روز نقدرقم بھى اپنے آقائوں كو لاكر ديں _

خليفہ دوم كا قتل

فيرو زايرانى ابولو لو مغيرہ كا غلام تھا_ اپنى زندگى كے اخراجات پوركرنے كے علاوہ وہ مجبور تھا كہ ہر روز دو درہم مغيرہ كو ادا كرے اس نے ايك روز خليفہ كو بازار ميں ديكھا اس نے فرياد كى كہ اس كے آقانے اس سے ہرروز دو درہم وصول كرنے كا جو بار اس پر ڈالا ہے وہ اس كےلئے ناقابل برداشت ہے _ ليكن خليفہ نے بڑى بے اعتنائي سے جواب ديا كہ تجھ جيسے ہنرمند اور ماہر فن شخص كے لئے اتنى مقرر كردہ رقم كوئي زيادہ نہيں ميں نے تو يہ سنا ہے كہ تو ايسى چكى بناسكتا ہے جو ہوا كے رخ پر گردش كرتى ہے_ كيا ايسى چكى تو ميرے لئے بھى بناسكتا ہے ؟ فيروز كو چونكہ خليفہ كى بے اعتنائي سے بہت تكليف پہنچى تھى اس نے كہا كہ ميں آپ كيلئے ايسى چكى بنائوں گا جس كى مشرق و مغرب ميں كہيں مثال نہ ملے گى اور بالآخر ماہ ذى الحجہ ۲۳ ھ ميں اس نے خليفہ كو قتل كرديا_

كونسى شوري؟

عمر نے جب موت كے آثار ديكھے تو انہوں نے چھ ايسے افراد كو جن سے اس كے بقول پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں بہت خوش تھے ، بلوايا وہ يہ چھ افراد تھے:

حضرت علىعليه‌السلام _ عثمان _ طلحہ اور زبير _ عبدالرحمن بن عوف اور سعد وقاص_

۷۹

عمر نے ہر ايك كى معنوى خصوصيت بيان كرنے كے بعد كہا كہ : اگر ميرے بعد خليفہ مقرر كرنے كے سلسلے ميں تم نے اتفاق رائے سے كام ليا تو تمہيں نيز تمہارے فرزندان كو درخت خلافت كے ميوے سے فےض پہنچے گا ورنہ خلافت كى گيند كو معاويہ اچك ليگا _ اس كے بعد انہوں نے اباطلحہ كو كچھ ضرورى نصيحتيں كيں اور مزيد فرمايا اگر پانچ افراد نے اتفاق رائے كيا اور ايك نے مخالفت يا چار افراد ايك طرف ہوگئے اور دو شخص دوسرى جانب ، تو ايسى صورت ميں جو اقليت ميں ہوں ان كى گردن اڑا دينا اگر دونوں فريق برابر ہوئے تو حق اس طرف جائے گا جس طرف عبدالرحمن ہوں گے اگر تين دن گذر جائيں او ركسى بھى مرحلے پر اتفاق رائے نہ ہو تو سب كو قتل كردينا اور مسلمانوں كو ان كے حال پر چھوڑنا كہ اس كے بعد وہ جسے بھى چاہيں خليفہ مقرر كريں _(۲۵)

حضرت عمر كے انتقال كے بعد اس شورى ميں طلحہ نے اپنا حق حضرت عثمان كو دے ديا اور زبير حضرت علىعليه‌السلام كے حق ميں دستبردار اور سعد بن ابى وقاص نے اپنا ووٹ عبدالرحمن بن عوف كو دےديا ، يوں خلافت كے ليئے صرف تين اميدوار يعنى حضرت عثمان، حضرت علىعليه‌السلام اور عبدالرحمن باقى بچ گئے پھر عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب رخ كيا اور كہا كہ ميں اس شرط پر آپ كى بيعت كرتاہوں كہ آپ كتاب خدا ، سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شيخين كى روش پر عمل كريں گے اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں كتاب خدا اور سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اپنے اجتہاد كى بنياد پر عمل كروں گا_ عبدالرحمن نے يہى بات عثمان كى جانب رخ كركے كہى عثمان نے ان كى اس شرط كو فوراً قبول كرليا ،ا س كے بعد انہوں نے عثمان كے ہاتھ پر ہاتھ ركھديا اور انہےں ''اميرالمؤمنين'' ہونے كى حيثيت سے سلام كيا _(۲۶)

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كى نظر

جس وقت شورى كے اراكين كا تعين ہوا تو حضرت علىعليه‌السلام نے ابتدا ہى ميں اس كے فيصلے سے باخبر كرديا تھا اور عباس سے كہا تھا ''عدلت عنا'' يعنى ہمارے خاندان سے خلافت كا رخ موڑ ديا گيا ہے انہوں نے دريافت كيا كہ آپ نے كيسے جانا تو آپ نے فرمايا كيونكہ عثمان كو ميرے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

رغبت دلانے كى خاطر تقرير كى اور فرمايا كہ :

اب تم جہاد كرنے دشمن كى جانب روانہ ہونے كيلئے تيار ہوجاؤ پير كے دن '' نخيلة '' نامى مقام پر عسكر گاہ ميں تمہيں جمع ہونا ہے ہم نے منصفين كا انتخاب اسى لئے كيا تھا كہ وہ قرآن كى بنياد پر حكم كريں گے مگر تم نے ديكھ ليا كہ انہوں نے كلام اللہ اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف اقدام كيا خدا كى قسم ميں ان سے جنگ كروں گا اگر كسى نے بھى ساتھ نہ ديا تو ميں تنہاہى ان سے نبرد آزمائي كروں گا_(۲۷)

اس كے بعد آپعليه‌السلام '' نخيلہ'' كى جانب روانہ ہوئے اور بصرہ كے صوبہ دار كو خط لكھ كر اس سے مدد چاہى جب خوارج كو يہ علم ہوا كہ سپاہ اسلام نخيلہ ميں جمع ہو رہى ہے تو انہوں نے حَرُوراء ميں قيام كرنا تحفظ كے اعتبار سے خلاف مصلحت سمجھا اور اس جگہ كو ترك كرنے كا فيصلہ كرليا_

اس سے قبل كہ وہ اپنى قيام گاہ كو خالى كر كے جائيں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اتمام حجت كے طور پر انھيں خط لكھا اور انھيں يہ دعوت دى كہ وہ ديگر سپاہ كے ساتھ آن مليں تا كہ معاويہ كى جانب روانہ ہوا كر اس كے ساتھ جنگ كى جاسكے مگر انہوں نے اس خط كا جواب نفى ميں ديا_(۲۸)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام جب خوارج كو راہ حق پر لانے ميں مايوس ہوگئے تو آپ نے يہى فيصلہ كيا كہ انھيں انہى كے حال پر چھوڑ كر اصل مقاصد كى جانب روانہ ہوا جائے چنانچہ آپعليه‌السلام نے نخيلہ ميں بھى تقرير كا اہتمام كيا اور افواج كى معاويہ سے جنگ كرنے كے لئے حوصلہ افزائي كى اس ضمن ميں آپعليه‌السلام نے فرمايا: كہ ميں نے بصرہ كے بھائيوں كو بھى خط لكھا ہے اور جيسے ہى وہ يہاں پہنچ جائيں گے ہم دشمن كى جانب روانہ ہوں گے_(۲۹)

بصرہ كى فوج جو تين ہزار دو سو سے زيادہ سپاہيوں پر مشتمل تھى آن پہنچى سپاہ كى مجموعى تعداد تقريبا اڑسٹھ(۶۸) ہزار ہوگئي(۳۰) اس سے پہلے كہ لشكر روانہ ہو بعض سپاہ نے دبى آواز ميں كہنا شروع كيا كہ كيا ہى اچھا ہوتا كہ پہلے خوارج سے جنگ كرلى جاتى اور جب ان كا كام تمام ہوجاتا تو

۲۸۱

ہم صفين كى جانب رخ كرتے_

ليكن اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں اس امر كى جانب متوجہ كيا كى معاويہ كے ساتھ جنگ كى كيا اہميت ہے اور اسے كيوں مقدم سمجھنا چاہيئے اور انھيں سمجھايا كى فى الحال خوارج كے مسئلے كى طرف سے خاموشى اختيار كى جائے اور سردست ان كا نام تك نہ ليا جائے_

سپاہ نے جب اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے يہ اقوال سنے تو اس نے كہا كہ فيصلہ كن اقدام كے لئے ہمارى جانب سے آپ كو كل اختيار ہے اور كہا كہ ہم ايك متحد جماعت اورآپعليه‌السلام كے خير خواہ ہيں جس گروہ كى جانب لے جانے ميں آپ خيرہ و صلاح سمجھيں ادھرہى ہميں لے چليں(۳۱)

خوارج كے ساتھ جنگ كى ضرورت

خوارج كى سرگرميوں كے بارے ميں انتہائي اختصار كے ساتھ اوپر اشارہ كيا جاچكا ہے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كوجب ان كے ان مجرمانہ افعال كے خبريں مليں تو اس كے بعد آپعليه‌السلام نے ان كى طرف سے چشم پوشى كرنا اور انھيں ان كے حال پر چھوڑ دينا مناسب نہ سمجھا كيونكہ يہاں مسئلہ اظہار خيال و رائے كا نہ تھا بلكہ معاشرے كے امن ميں خلل انداز ہونا اورشرعى حكومت كے خلاف مسلح گروہ كى بغاوت تھى چنانچہ اس بناپر آپعليه‌السلام نے معاويہ سے جنگ كئے جانے كے فيصلے كو بدل ديا_

'' عبداللہ بن خباب'' كا قتل اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كيلئے اس قدر گرانبار ہوا كہ آپ نے ان خوارج كے سامنے جنہوں نے يہ اعتراف كيا كہ ہم ان كے قاتل ہيں فرمايا: اگر خطئہ ارض كے تمام لوگ يہ كہيں كہ ہم ان كے قتل ميں شريك ہيں اور ميں ان كے خون كا بدلہ لے سكوں تو سب كو قتل كر ڈالوں گا_(۳۲)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے مزيد اطلاعات حاصل كرنے كيلئے '' حارث بن مُرّہ '' كو خوارج

۲۸۲

كے پاس روانہ كياخوارج نے انھيں قتل كرديا ان كے اس اقدام نے سپاہ كو پہلے سے كہيں زيادہ متاثر اور غضبناك كرديا چنانچہ اس نے بآواز بلند كہا كہ يا اميرالمومنين كيا آپ انھيں اسى ليئے بے مہار چھوڑ رہے ہيں كہ وہ ہمارے پيچھے ہمارى عزت و ناموس اور مال و اموال كے ساتھ جو چاہيں كريں ؟ پہلے آپ عليه‌السلام ہميں ان كى طرف لے چلئے ان سے فراغت پا لينے كے بعد ہم '' شامي'' دشمن كى جانب روانہ ہوں گے _(۳۳)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے بھى ان كى بات مان لى چنانچہ سپاہ كو ان كا تعقب كرنے كيلئے '' پل(۳۴) ''كے اس پار جانے كا حكم ديا يہاں سے يہ لشكر '' دير ابوموسي'' كى جانب روانہ ہوا اور دريائے فرات كے كنارے '' نہروان(۳۵) '' نامى جگہ پر پڑا و ڈالا_

راہ ميں حضرت علىعليه‌السلام كو يہ اطلاع دى گئي كہ خوارج پل پار كر كے آگے آچكے ہيں اس موقع پر اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے ساتھيوں كے عقيدہ كو مستحكم كرنے نيز اپنى معنوى عظمت كے بارے ميں بتانے كى خاطر فرمايا: كہ ان كى قتل گاہ نہر كے اس طرف ہى ہے خدا كى قسم اس جنگ و پيكار ميں اگر ان كے دس آدميوں نے نجات حاصل نہ كى تو تم ميں بھى دس افراد قتل نہيں ہوں گے_(۳۶)

جس وقت سپاہ دريائے فرات كے كنارے پہنچى معلوم ہوا كہ خوارج نے دريا پار نہيں كيا ہے حضرت علىعليه‌السلام نے نعرہ تكبير بلند كيا اور فرمايا: ''الله اكبر صدق رسول الله'' (۳۷)

جنگ كا سدّ باب كرنے كى كوشش

دونوں لشكر دريائے نہروان كے كنارے ايك دوسرے كے مقابل آچكے تھے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے نبرد آزمائي سے قبل ہر ممكن كوشش كى كہ جنگ نہ ہو چنانچہ آپعليه‌السلام نے مندرجہ ذيل شرائط ركھيں

۱_ خوارج سے كہا كہ وہ عبداللہ بن خباب كے قاتلوں نيز شہداء كو ہمارے حوالے كرديں تا كہ

۲۸۳

ہم تم سے دستبردار ہو كر شام كى جانب روانہ ہوجائيں انہوں نے جواب ديا كہ ہم سب ہى قاتل ہيں اور مزيد يہ كہا كہ تمہارا اور ان كا خون بہانا ہمارے لئے جائز و مباح ہے (۳۸)

۲_ آپعليه‌السلام نے يہ تجويز ركھى كہ تم ميں سے كون شخص اس كام كيلئے آمادہ ہے كہ قرآن مجيد اٹھائے اور اس جماعت كو كلام اللہ كى جانب آنے كى دعوت دے طائفہ بنى عامر كے ايك نوجوان نے اپنے آمادگى كا اعلان كيا انہوں نے قرآن پاك اپنے ہاتھ ميں ليا اور خوارج كو اس كى جانب آنے كى دعوت دى خوارج نے ان پر بھى تيروں كى بارش كردى اگر چہ ان كے چہرے پر سب سے زيادہ تير لگے تھے مگر اس كے باوجود وہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے نزديك آگئے اور چند لمحہ بعد ہى شہيد ہوگئے_(۳۹)

۳_ قيس بن سعد اور ايوب انصارى جيسے اصحاب نے بھى اتمام حجت كے طور پر خوارج كے سامنے تقارير كيں ان حضرات كے علاوہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بذات خود تشريف لے گئے اور آخرى مرتبہ انھيں مخاطب كرتے ہوئے فرمايا ''ميں تمہيں كل كے لئے آگاہ كيئے ديتا ہوں كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ امت اسلاميہ تمہيں لعنت و ملامت سے ياد كرے كيونكہ تمہارے جسم تو اسى نہر كے كنارے زمين پر گريں گے اور تم كوئي محكم دليل يا سنت بطور سند اپنے بارے ميں چھوڑ كر نہيں جاؤگے''

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے حكميت كے افسوناك واقع اس معاملے ميں اپنے نيز خوارج كے كردار اور اپنے ہى قول سے ان كى روگردانى و خلاف ورزى كے بارے ميں تقرير كى اس ضمن ميں آپعليه‌السلام نے مزيد فرمايا: كہ اگر چہ حكمين نے كلام اللہ اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منحرف و رو گردان ہو كر اپنے نفسانى ميلان كى بنيادپر حكم جارى كيا مگر ہم اب بھى اپنى اس سابقہ روش پر قائم ہيں اس كے بعد تم كہو كہ كيا كہنا چاھتے ہو اور كہاں سے آگئے ہو؟(۴۰)

۳_ تقرير ختم كرنے كے بعد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے پرچم امان ابو ايوب انصارى كے حوالے كيا اور انھيں حكم ديا كہ اعلان كريں كہ جو شخص بھى اس پرچم كے نيچے آجائے گا امن و امان

۲۸۴

ميں رہے گا اس كے علاوہ جو كوئي شہر ميں داخل ہوگا يا عراق كى جانب واپس چلا جائے گاوہ بھى امان ميں رہے گا ہميں تمہارا خون بہانے كے ضرورت نہيں (۴۱)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جيسے ہى پرچم امان لہرايا تو بہت سے لوگوں نے بآواز بلند كہناشروع كيا التوبہ ، التوبہ يا اميرالمومنين چنانچہ اس كے بعد تقريبا آٹھ ہزار افراد مخالفت سے دستبردار ہوكر پرچم امان كے نيچے جمع ہوگئے_(۴۲)

۲۸۵

سوالات

۱_ منصفين كس تاريخ كو اور كہاں جمع ہوئے ان ميں سے ہر ايك كى ابتدائي رائے كس كے حق تھى اور انہوں نے كس مسئلے پر اتفاق رائے كيا؟

۲_ حكميت كے نتيجے كا عراق كے لوگوں پر كيا رد عمل ہوا حضرت علىعليه‌السلام نے حكميت كے ناپسنديدہ اثرات دور كرنے اور عامہ پر حقائق كى وضاحت كيلئے كيا اقدامات كيئے؟

۳_ اس سے قبل خوارج كہ دہشت پسندانہ راہ و روش اختيار كريں حضرت علىعليه‌السلام كا ان كے ساتھ كيسا سلوك و رويہ تھا؟ اس سلسلے ميں حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال ميں سے ايك قول بطور نمونہ پيش كيجئے_

۴_ خوارج كے فكرى دائرہ عمل كى تشكيل كن چيزوں پر منحصر تھي؟

۵_ حضرت علىعليه‌السلام نے معاويہ سے جنگ كرنے كے بجائے اپنى توجہ كس بناپر خوارج كى جانب كردي؟

۶_ حضرت علىعليه‌السلام نے خونريزى روكنے كيلئے كيا اقدامات كئے؟ اس كے دو نمونے پيش كيجئے

۲۸۶

حوالہ جات

۱_ اس كا شمار مدينہ كے قريات ميں ہوتا ہے

۲_ ملاحظہ ہو وقعہ صفين ۵۳۳، مروج الذہب ج ۲ ص ۳۹۰

۳_ ملاحظہ ہو وقعہ صفين ۵۳۶

۴_ وقعہ صفين ۵۳۴، واللہ ان لو استطعت لاحين سنة عمر

۵_ وقعہ صفين ۵۳۴

۶_ ملاحظہ ہو الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۸، وقعہ صفين ۵۴۴

۷_ وقعہ صفين ۵۴۶-_ ۵۴۵، الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۸

۸_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۱۹

۹_ خوارج جمع ہے خارجہ كى اصطلاحا اس كا اطلاق اس فرقے پر ہوتا ہے جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف شورش و سركشى كى اور نہروان نامى مقام پر آپ سے بر سر پيكار ہوئے ابن ملجم كا شمار بھى خوارج ہى ميں ہوتا ہے حضرت علىعليه‌السلام اسى شخص كے ہاتھوں شہيد ہوئے (كتاب ملل و نحل تاليف شہرستانى ج ۱ ص ۱۴۴)

۱۰_ان لكم عندنا ثلاثا لا نمنعكم صلواة فى هذا المسجد و لا نمنعكم نصيبكم من هذا الفي ى ما كانت ايديكم مع ايدينا و لا نقتلكم حتى تقاتلونا (تاريخ طبرى ج ۵ ص ۷۴ كامل ج ۳ ص ۳۳۵، المجموعہ الكاملہ ج ۵ ص ۱۷۱)

۱۱_ سورہ زمر آيت ۶۵

۱۲_ سورہ روم آيت ۶۰

۱۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۲ ص ۳۱۱، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۷۳

۱۴_ان سكتوا عمعناهم ان تكلموا حججنا هم و ان خرجوا علينا قاتلنا هم (تاريخ طبرى ج ۲۷۵، كامل بن اثير ج ۳ ص ۳۳۴)

۱۵_ خوارج كے نعرہ '' لاحكم الا للہ'' سے جو مطلب اخذ كيا گيا تھا اسى مفہوم ميں اس كا ذكر حضرت علىعليه‌السلام كے خطبہ نہج البلاغہ ۴۰ ميں بھى ملتا ہے ابتداء ميں ان كى رائے يہ تھى اجتماع كو امام وقت اور حكومت كى ضرورت نہيں اور

۲۸۷

لوگوں كو چاہيئے كہ خود براہ راست كلام اللہ پر عمل كريں مگر اس رائے كو ظاہر كرنے كے بعد انہوں نے حضرت عبداللہ بن وہب راسبى سے رجوع كيا اور انہى كے ہاتھ پر بيعت كى (كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۳۵)

۱۶_ جاذبہ و دافعہ علىعليه‌السلام منقول از ضحى الاسلام و ملل و نحل شہرستاني

۱۷_ان الحكم الا لله يقص الحق و هو خير الفاصلين (فيصلہ كا سارا اختيار اللہ كو ہے وہى امر حق بيان كرتا ہے اور وہى بہترين فيصلہ كرنے والا ہے (سورہ الانعام آيت ۵۷)

۱۸_ شوہر اور بيوى كے اختلاف كا ذكر سورہ نساء كى آيت ۳۵ ميں آچكا ہے اور ہم اس كا پہلے ذكر كرچكے ہيں ليكن احرام كى حالت ميں اگر كوئي محرم ديدہ و دانستہ شكار كرے تو اسے چاہيئے كہ كفارہ ادا كرے اور بطور كفارہ وہ جو جانور ذبح كرے اس كى حكميت دو عادل انسان كريں چنانچہ قرآن مجيد فرماتا ہےو من قتله منكم متعمدا فجزاء مثل ما قتل من النعم يحكم به ذوا عدل منكم (احرام كى حالت ميں شكار نہ مارو اور اگر تم ميں سے كوئي جان بوجھ كر ايسا گذرے تو جو جانور اس نے مار اہے اسى كے ہم پلہ ايك اور جانور اسے مويشيوں ميں سے نذر دينا ہوگا جس كا فيصلہ تم ميں سے دو عادل آدمى كريں گے (سورہ مائدہ آيت ۹۴)

۱۹_كلمة حق يراد بها باطل نعم انه لا حكم الا الله و لكن هولاء يقولون لا امرة الا لله انه لا بد للناس من امير من بر او فاجر ...(نہج البلاغہ خ ۴۰)

۲۰_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۳۳۵

۲۱_يا اخواننا ضربوا جباههم و وجوههم بالسيف حتى يطاع الرحمن عزوجل

۲۲_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۳۳، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۷۵، كامل ج ۳ ص ۳۳۶

۲۳_شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۴/۱۲۷

۲۴_ ستكون بعدى فتنہ يموت فيہا قلب الرجل كما يموت بَدَنُہُ يمسى مومنا و يصبح كافر افَكُن عنداللہ المقتول و لا تكن القاتل(شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۴ ص ۱۲۸، تاريخ طبرى ج ۵/۸۱

۲۵_ شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۴ ص ۱۲۸، تاريك طبرى ج ۵ ص ۸۱، اعيان الشيعہ ج ۱ص ۵۲۲ (دس جلديں مطبوعہ بيروت)و كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۴۱

۲۸۸

۲۶_ شرح نہج البلاغہ علامہ خوئي ج ۴ ص ۱۲۸، اعيان الشيعہ ج ۱/ ۵۲۳

۲۷_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۲۳

۲۸_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۲۳

۲۹_ تاريخ طبرى ج ۵ ص ۷۸، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۳۹

۳۰_ كامل ج ۳ ص ۳۴۰

۳۱_سر بنا يا اميرالمومنين حيث احببت فنحن حزبُكَ و انصارك ، الامامہ و السياسة ج ۱ ص ۱۲۵، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۸۰، كامل ج ۳ ص ۳۴۱

۳۲_والله لو اقر اهل الدنيا كلهم بقتله بكذا و انااقدر على قتلهم به لقتلتهم شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۴ ص ۱۲۸ و ابن ابى الحديد ج ۲ ص ۲۸۲

۳۳_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۲۷، تدع ہولاء القوم و ارثنا يخلفوننا فى عيالنا و اموالنا ؟سربنا اليہم فاذا فرغنا نہضنا الى عدونا من اہل الشام

۳۴_ يہ پل دريائے طبرستان پر حلوان اور بغدادكے درميان واقع تھا اور شاہراہ خراسان اسى پل سے گذرتى تھى (مروج الذہب ج ۲ ص ۴۰۵)

۳۵_ اس نام كے تين گاؤں ہيں جو طول ميں ايك دوسرے كے بعد آباد تھے ان كى شناخت نہروان اعلى نہروان اوسط اور نہروان اسفل سے كى جاتى تھى يہ گاوں واسطہ اور بغداد كے درميان آباد تھے

۳۶_مصارعهم دون النطفة واللّه لا يغلت منهم عشرة و لايهلك منكم عشره نہج البلاغہ خ۵۹

۳۷_ مروج الذہب ج ۲ ص ۴۰۵

۳۸_انا كلنا قتلنا هم كلنامُستَحل لدمائ كُم و دمائهم الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۲۷

۳۹_ شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۴ ص ۱۲۹

۴۰_فما نبوكم و من اين ايتتم ؟ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۲۷، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۸۴، كامل ج ۳ ص ۳۴۳

۴۱_ الامامہ و السياسہ ج ۱ ص ۱۲۸ ، كامل ج ۳ ص ۳۴۵، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۸۵

۴۲_ شرح نہج البلاغہ خوئي ج ۴ ص ۱۳۵

۲۸۹

پندرھواں سبق

مارقين _ جنگ نہروان

دو سپاہ كے درميان جنگ و نبرد

جنگ كے بعد

اصل دشمن كى جانب توجہ

غاليوں كا وجود

جنگ نہروان كا نتيجہ

جہاد كى دعوت

حضرت مالك كا صوبہ دار مصر كى حيثيت سے تقرر

حضرت مالك كى شہادت

مصر پر لشكر كشي

حضرت محمد بن ابى بكر كى شہادت

لوگوں كى تنبيہ و سرزنش

سوالات

حوالہ جات

۲۹۰

دو سپاہ كے درميان جنگ و نبرد

حضرت علىعليه‌السلام نے اگر چہ صلح كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس كے باوجود ان ميں سے چار ہزار سے زيادہ خوارج باقى رہ ہى گئے_ وہ عبداللہ بن وہب كے زير فرمان اب بھى اپنے پر انے عقيدے پر پورى طرح قائم تھے اور الرواح الرواح الى الجنة(بڑھو جنت كى طرف) كے نعرے لگاتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر پر حملہ آور ہوگئے(۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے بھى اپنى سپاہ كى صفين آراستہ كيں چنانچہ ميمنہ پر حجر بن عدى اور ميسرہ پر شبث بن ربعى كو متعين كيا_ سوار فوج كى فرماندارى ابو ايوب انصارى اور پيادہ لشكر كى ابوقتادہ كے سپرد كى قيس بن سعد كو مدينہ كے لوگوں كا سردار مقرر كيا ان كى تعداد بھى تقريبا آٹھ سوار افراد پر مشتمل تھى قلب لشكر ميں آپ بذات خود موجود رہے(۲)

تيراندازى خوارج كى جانب سے شروع ہوئي چنانچہ جب ايك شخص كو خون آلود حالت ميں آپعليه‌السلام كے سامنے لايا گيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ حملہ كرو كيونكہ اب اس گروہ كا قتل كرنا ہمارے لئے جائز ہے_(۳)

دونوں لشكر ايك دوسرے پر حملے آور ہوئے شروع ميں اگر چہ لشكر اسلام كے سوار فوج، دشمن كے سنگين حملے كے باعث اپنے مقام سے پيچھے ہٹ گئے اور پورى صف لشكر سے الگ ہوگئے خوارج اس پر تير كى تيزى سے حملے آور ہوئے وہ قلب لشكر پر حملہ كرنے كے ارادے سے آگے بڑھے ہى تھے كہ يكايك جنگ كا نقشہ ہى بدل گيا تير اندازوں كے اس دستے كو جو پہلے سے ہى اس مقام كى پشت پر متعين تھا جہاں سوار فوج كى جگہ مقرر كى گئي تھى انہيں اپنے تيروں كانشانہ بنايا اور اپنى طرف سے غافل و بے خبر پا كر ان پرحملہ كرديا يہ حملہ ايسا اچانك اور سخت تھا كہ ان كے لئے

۲۹۱

نہ آگے بڑھنا ممكن تھا اور نہ پيچھے ہٹنے كے لئے كوئي چارہ تھا خوارج كا خيال تھا كہ سوراوں كے لشكر نے ان كى طرح سے پشت كرلى ہے ليكن اس نے دائيں اور بائيں بازو كے پرے ساتھ لے كر انھيں اپنے درميان زنبور كى طرف نرغے ميں لے ليا اور دم شمشير و سرنيزے سے ان كى خوب خاطر و تواضع كى _ قلب لشكر اسلام كے درميان محاذ پر متعين دستے كو چونكہ ابھى تك كوئي نقصان نہيں پہنچا تھا وہ بھى ان كى سركوبى كرنے كى غرض سے حملہ آور ہوا سپاہ دشمن كے فرماندار عبداللہ بن وہب كے علاوہ ذوالثديہ ، اخنس طائي ، مالك بن وضَّاح و غيرہ جيسے ديگر فرماندار لشكر، حضرت على عليه‌السلام كى شمشير كے باعث ہلاك ہوئے(۴)

خوارج چونكہ سخت نرغے ميں آگئے تھے اسى لئے وہ اس ميں برى طرح پھنس گئے اور دو گھنٹے بھى نہيں گذر نے پائے تھے كہ وہ زمين پر اس طرح گرنے لگے جيسے خزاں كے دونوں ميں درختوں سے پتے گرتے ہيں گويا يہ بھى كوئي كن فيكون كى طرح تكوينى حكم تھاجس كے تحت ان سے كہا گيا كہ مرجاؤ اور وہ مرگئے چار ہزار افراد ميں سے صرف نوشخص يعنى شہدائے اسلام كى تعداد كے برابر اپنى جان بچا كر بھاگ گئے اور اس طرح امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كى پيشيں گوئي صحيح ثابت ہوئي_

جنگ كے بعد

جنگ ختم ہوجانے كے بعد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے حكم ديا كہ '' ذوالثديہ''كى تلاش و جستجو كريں (رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ نہروان ميں مقتولين كى جو خصوصيات بتائيں تھيں وہ اس شخص ميں موجود تھيں حضرت علىعليه‌السلام نے اس كى جستجو اس لئے كرائي تھى كہ حق كى روشن دليل اور تائيد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام واضح ہوجائے)

سپاہى اس كى لاش تلاش كرنے كے لئے نكلے مگر ناكام واپس آگئے اس كے بعد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام خود اس كى لاش نكالنے كے لئے تشريف لے گئے كچھ دير بعد اس كى لاش ديگر مقتولين

۲۹۲

كى لاشوں كے نيچے سے نكل آئي اسے ديكھ كر آپ مسرور ہوئے اور فرمايا اللہ اكبر ميں نے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى كوئي بات كبھى غلط نہ پائي رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ اس كاايك ہاتھ چھوٹا ہوگا جس ميں ہڈى نہ ہوگى اس كے ايك طرف پستان جيساگوشت كا گولہ ابھرا ہوا ہوگا جس پر پانچ ياسات بال اگے ہوئے ہوں گے جس وقت اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے يہ تمام خصوصيات ديكھيں تو آپ فورا سجدے ميں تشريف لے گئے اور خدا كا شكر بجالائے_(۵)

اس كے بعد آپعليه‌السلام گھوڑے پر سوار ہوئے اور مقولين كى لاشوں كے پاس سے گذرے اور فرمايا افسوس تمہارے اور اس كے حال پر جس نے تمہيں مغرور كيااور اس حال كو پہنچا ديا _دريافت كيا گيا كہ كس شخص نے انھيں مغرور كيا؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا شيطان اور نفس امارہ انھيں غرور كى جانب لے گيا آرزوں نے انھيں فريب ديئے نا فرمانياں انھيں حسين و جميل نظر آئيں اور فتح و نصرت كے وعدے نے انھيں اپنا فريفتہ كرليا_(۶)

حضرت علىعليه‌السلام نے وہ ہتھيار اور چوپائے جو ميدان جنگ ميں بطور مال غنيمت ہاتھ آئے تھے سپاہ كے درميان تقسيم كرديئے خوارج كے باقى سامان، ان كے كنيز و غلام و غيرہ كو كوفہ واپس آنے كے بعد ان كے وارثوں كے حوالے كرديا_(۷)

اصل دشمن كى جانب توجہ

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے خوارج كى سركوبى كے بعد جد وجہد كے اصل محاذ اور اسلام كے دفاع كى جانب رخ كيا اس جد و جہد كى خصوصيت و اہميت بتانے، معاويہ كے خلاف جہاد مقدس كى لشكر اسلام كو ترغيب دلانے اور عوام كو معاويہ كى حكومت كے عواقب و انجام سے باخبر كرنے كى غرض سے آپعليه‌السلام نے تقرير كى اور فرمايا كہ اے لوگو جب فتنہ و فساد كى لہريں ہر طرف پھيل چكى تھيں اور اس كابحران اپنے انتہائي درجہ كو پہنچ چكا تھا اس وقت كسى ميں اتنى جرات و ہمت نہ تھى كہ ميدان كار زار ميں داخل ہو اس وقت ميں ہى ايسا شخص تھا جس نے اس فتنے كو خاموش كرديا

۲۹۳

ياد ركھو فتنوں ميں سب سے زيادہ بھيانك خطرہ بنى اميہ كے فتنے كا ہے يہ فتنہ سياہى اور اندھيرے كا فتنہ ہے اور جب اس كا سايہ پھيل جائے گا تو اس كى بلا خاص طور پر نيك لوگوں پر نازل ہوگي ان كے اذيت ناك مظالم تم پر سالہا سال تك جارى رہيں گے ان پر تمہارافاتح ہونا اتنا ہى اہم ہے جتنا غلاموں كا اپنے مالك پر غالب آنا يا پيروكاروں كا اپنے پيشوا پر غلبہ حاصل كر لينا اس وقت قريش يہ چاہيں گے ان كے پاس جو كچھ اس دنيا ميں ہے اسے خرچ كركے بس ايك بار اسے ديكھ ليں اگر چہ وقت چند ہے لمحات پر منحصر ہے بس اتنا ہے جتنا ايك اونٹ كو نحر كرنے ميں صرف ہوتا ہے آج وہ چيز جس كا صرف ايك حصہ ميں ان سے مانگ رہاہوں اور وہ نہ دينے پر بضد ہيں كل اسے مجھے دينے كے لئے اصرار كريں گے اور يہ چاہيں گے كہ ميں اسے قبول كرلوں _

غاليوں كاوجود(۸)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنى حقانيت ثابت كرنے، خواب غفلت ميں سوئے ہوئے لوگوں بالخصوص خوارج كو جگانے اور چند ديگر مصلحتوں كى بنا پر بہت سے غيبى مسائل كى پشين گوئي كرنا شروع كردى ليكن كچھ كم ظرف لوگوں نے آپ كے بارے ميں مبالغے سے كام ليا وہ خوارج كے عين مقابل آگئے اور چونكہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى غير معمولى عقل و نظر اور دانش و بينش سے وہ حيرت زدہ و مرغوب تھے اسى لئے وہ آپعليه‌السلام كو حد انسانيت اور مخلوقيت سے بالاتر سمجھنے لگے اور آپعليه‌السلام كى الوہيت كے قائل ہوگئے_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے نظريے كے مطابق دونوں ہى گروہ ہلاك و بدبختى سے دوچار ہوئے چنانچہ اس سلسلے ميں آپعليه‌السلام خود فرماتے ہيں كہ ميرے معاملے ميں دو شخص ہلاك ہوئے ايك وہ جس نے مبالغہ كيا اور دوسرا ميرا بدخواہ دشمن(۹)

ايك روز اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام تقرير فرمارہے تھے سا معين ميں سے ايك شخص جو آپعليه‌السلام كا والہ و شيدائي تھا اپنى جگہ سے اٹھا ا ور كنہے لگا انت ، انت آپ (ع)نے فرمايا

۲۹۴

افسوس تيرے حال پر ميں كيا ہوں ؟ اس نے كہا انت اللہ يہ سن كر اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے حكم ديا كہ اس كے ہم عقيدہ ساتھيوں كو گرفتار كرليا جائے(۱۰)

غلات جو غيب كى باتيں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام سے سنتے تھے انھيں لوگوں ميں مشہور كرديتے اور كہتے كہ ايسے كاموں كا كرنا خدا كے علاوہ كسى كے بس كى بات نہيں اسى بنا پر علىعليه‌السلام يا تو خدا ہيں يا كوئي ايسى شخصيت ہے جس كے وجود ميں ذات خداوندى حلول كرگئي ہے(۱۱)

جنگ نہروان كے نتائج و عواقب

جنگ نہروان كا خاتمہ اگرچہ خوارج كى سركوبى پر ہوا ليكن اس كے جو نتائج پر آمد ہوئے وہ نہايت مضر اور اندوہناك ثابت ہوئے جن ميں سے بعض كا ذكر ذيل ميں كيا جاتا ہے_

۱_ اس جنگ ميں مقتولين كى تعداد چونكہ بہت زيادہ تھى اس لئے سپاہ عراق كے دلوں پر بہت زيادہ خوف و ہراس غالب آگيا اور باہمى اختلاف كى بنا پر وہ دو گروہ ميں تقسيم ہوگئے اس كے علاوہ وہ لوگ جن كے عزيز و اقربا اس جنگ ميں مارے گئے تھے وہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام سے سخت بدگمان ہوگئے_

۲_ لشكر اسلام ميں سركشى اور نافرمانى كاجذبہ بہت زيادہ بڑھ گيا چنانچہ نوبت يہاں تك پہنچى كہ سپاہ يہ بہانہ بنا كر كہ جنگ كى كوفت دور كر رہے ہيں حضرت علىعليه‌السلام كے فرمان بجالانے ميں سستى اور كاہلى سے كام لينے لگے بالخصوص اس وقت جب كہ وہ جنگ سے واپس آكر اپنے خاندان كى گرم آغوش ميں پہنچے اور اہل خاندان كے چہروں پر غم و اندوہ كے آثار ديكھے يہ عامل نيز اس كے ساتھ ہى ديگر عوامل اس امر كا باعث ہوئے كہ انہوں نے ہميشہ كيلئے جنگ كا ارادہ ترك كرديا اور معاويہ كے ساتھ آشتى كرنے كو ان كے ساتھ جنگ كرنے پر ترجيح دينے لگے_

مورخين نے لكھا ہے كہ جب جنگ نہروان ختم ہوگئي تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اپنى سپاہ كے سامنے كھڑے ہوئے اور فرمايا: كہ خداوندتعالى نے تمہيں آزمايا اور تم اس كے امتحان ميں پورے

۲۹۵

اترے اسى لئے اس نے تمہارى مدد كى اب تم جلدى سے معاويہ اور اس كے ظالم و ستمگر ساتھيوں سے جنگ كرنے كے لئے روانہ ہوجاؤ انہوں نے كلام اللہ كو پس پشت ڈال ديا ہے اور نہايت معمولى قيمت پر دشمن سے ساز باز كرلى ہے يہ سن كر ساتھيوں نے كہا كہ اميرالمومنين عليه‌السلام ہمارى طاقت اب جواب دے چكى ہے ہمارے زرہ بكتر پارہ پارہ ہوچكے ہيں تلواريں ٹو ٹ چكى ہيں اور نيزوں كى نوكوں ميں خم آگئے ہيں ہميں وطن جانے كى اجازت ديجئے تا كہ وہاں ہم اپنا اسلحہ تيار كر سكيں وہاں رہ كر كچھ وقت خوشى و خرمى ميں بسر كريں اور اپنے ساتھيوں كى تعداد ميں اضافہ كريں ايسى صورت ميں ہم دشمن كا بہتر طور پر مقابلہ كرسكيں گے(۱۲)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام جانتے تھے كہ واپس جانے كا كيا انجام ہوگا ليكن جب آپعليه‌السلام نے اكثريت كو اس نفاق انگيز نظريے كى جانب مائل ديكھا تو مجبورا ًان كے سات اتفاق كيا اور نخيلہ كى جانب واپس آگئے يہاں آپعليه‌السلام نے(سپاہ كو تاكيد كردى كہ وہ اپنى لشكر گاہ(چھاؤني) كو چھوڑ كرنہ جائيں اہل و عيال كى جانب كم توجہ ديں اللہ كے جہاد كيلئے تيارى كرتے رہيں سپاہ ميں سے چند ہى لوگ ايسے تھے جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كى ہدايات پر عمل كيا چنانچہ چند روز تك يہاں قيام كرنے كے بعد آہستہ آہستہ اپنے اپنے گھروں كى جانب واپس جانے لگے جہاں انہوں نے آرام كى زندگى بسر كرنا شروع كردي_(۱۳)

جہادكى دعوت

جب حضرت علىعليه‌السلام كوفہ واپس تشريف لے آئے تو آپعليه‌السلام كوشش كرنے لگے كہ ہر ممكن طريقے سے لوگوں كو معاويہ سے جہاد كرنے كى ترغيب دلائيں ايك موقعے پر تقرير كرتے ہوئے آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ اے لوگو اس دشمن كى جانب روانہ ہونے كيلئے تيار ہوجاؤ جس كے ساتھ جنگ كرنا خداوند تعالى كى قربت كا سبب ہے وہ لوگ جو امر حق سے روگرداں ہوچكے ہيں كلام اللہ سے دور ہيں اور دين كے كاموں ميں پيچھے رہ گئے ہيں درحقيقت اندھيرے اور گمراہى ميں ڈوبے

۲۹۶

ہوئے ہيں ان كے خلاف تم جتنے سپاہى اور گھوڑے فراہم كرسكتے ہو مہيا كر لو اور خداوند تعالى پر بھروسہ كرو_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى تقرير كا لوگوں پر ذرا بھى اثر نہ ہوا اور جنگ پر جانے كے لئے انہوں نے كوئي آمادگى ظاہر نہيں كى حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں چند دنوں كے لئے ان كے حال پر چھوڑديا اس عر صے ميں آپعليه‌السلام نے سرداران قوم كو دعوت دى اور ان كا نظريہ جاننا چاہا بعض نے عذر و بہانہ بنايا(۱۴) كچھ نے رضايت كا اظہار كيا مگر چند لوگ ايسے بھى تھے جنہوں نے اس دعوت كو قبول كيا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام دوبارہ عوام كے اجتماع ميں كھڑے ہوئے اور فرمايا كہ اے اللہ كے بندو ميں جب بھى حكم ديتاہوں آخر تم كيوں زمين سے چپك پر بيٹھ جاتے ہو كيا آخرت كى زندگى كے مقابلے اس چند روزہ دنيا كى خوشيوں پر فريفتہ ہو گئے ہو؟ عزت كى بجائے تم نے ذلت و خوارى كو اختيار كر ليا ہے آخر كيا وجہ ہے كہ ميں تمہيں جب بھى جہاد كى دعوت ديتاہوں تم آنكھيں پھيرنے لگتے ہو؟ ايسا معلوم ہوتا ہے كہ تم موت كے كنارے آپہنچے ہو يا تمہارے دل سراسيمہ و پريشان ہيں جو سمجھ نہيں سكتے آنكھيں بند ہيں جو ديكھ نہيں سكتيں شاباش تم پر اور تمہارى دليرى پر فرصت كے لمحات ميں تم گويا جنگل كے شير ہو اور جب تمہيں جنگ كيلئے دعوت دى جائے تو لومڑيوں كى طرح فرار كرنے لگتے ہو اب مجھے تم پر اعتماد نہيں رہا(۱۵)

حضرت مالك كا صوبہ دا مصر كى حيثيت سے تقرر

مالك اشتر ايك بااثر و رسوخ سردار اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے محكم و طاقتور فرماندار نيز آپعليه‌السلام كے سچے حامى و طرفدار تھے عثمان كے قتل كے بعد وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كي'' بيعت كرتے وقت بہت ہى پريشانى كے عالم ميں كہا تھا كہ ''كيا ان تين افراد كے بعد بھى آپعليه‌السلام زمام حكومت سنبھالنے كيلئے تيار

۲۹۷

نہيں(۶۱)

اس كے اگلے دن مسجد ميں لوگوں كے درميان جو حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے آئے تھے انہوں نے كہا تھا كہ يہ پيغمبروںصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وصى اور علم انبياء كے وارث اور وہ بزرگ ہستى ہيں جو سخت آزمايشوں سے گذرے ہيں كلام اللہ اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ كے رضوان بہشت ہونے كى شہادت دى ہے آپ وہ شخص ہيں جو فضائل كے اعتبار سے كمال كى منزلت پر پہنچ چكے ہيں آپ كى نيك طينتى اور دانشمندى كے بارے ميں ان لوگوں كو بھى شك نہ تھا جو اس دنيا سے گذر چكے ہيں اور جو آئندہ آئيں گے وہ بھى اس پر يقين كريں گے آپ لوگ اٹھيے اورآپ كے دست مبارك پر بيعت كيجئے(۱۷)

اس كے بعد وہ ہرجگہ اور ہر مرحلے پر اپنى لاثانى اور بے نظير بہادرى كے باعث ہميشہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دوش بدوش رہے ان كے اثر و رسوخ اور سياسى تدبر كااندازہ اس فرمان سے لگايا جاسكتا ہے جو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ان كے نام حكومت مصر تفويض كرتے وقت جارى كيا تھا اس كے علاوہ وہ خطوط جو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ان كے نام تحرير فرمائے تھے نيز وہ مراكز جن كى فرمانروائي انہوں نے قبول كى تھى ان كے حسن تدبر و معاملہ فہمى كے آئينہ دار ہيں(۱۸)

جنگ صفين اور واقعہ حكميت كے بعد سپاہ عراق ميں بتدريج كمزورى اور پراگندگى كے باعث لوگوں كے درميان بالخصوص دارالخلافت سے دور و دراز كے علاقوں ميں استقامت و پايدارى كاوہ جذبہ جس سے خوشى و نشاط ہوتى ہے نيز معاويہ سے جنگ كرنے كاجوش و خروش آہستہ آہستہ سرد ہونے لگا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو اطلاع ملى كہ معاويہ كاحامى و طرف دار معاويہ بن خديج نامى ايك شخص مصر ميں عثمان كے خون كابدلہ لينے كے لئے اٹھ كھڑا ہوا ہے اس نے وہاں كے امن و امان كو درہم برہم ، صوبہ دار محمد بن ابى بكر كى حيثيت و منزلت كو متزلزل اور وہاں كے لوگوں كا زندہ رہنا

۲۹۸

سخت دشوار كر ركھا ہے اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام نے فيصلہ كيا كہ صوبہ دار كا تبادلہ كرديا جائے مالك اشتر چونكہ نصبين(۱۹) ميں مامور تھے اس لئے جنگ صفين كے بعد وہ واپس وہيں چلے گئے تھے حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں بلايا اور مصر سے متعلق مسائل كے بارے ميں انھيں سمجھا كر محمد بن ابى بكر كا جانشين مقرر كرديا(۲۰) اس ضمن ميں فرمايا كہ تمہارے علاوہ اس جگہ كيلئے كوئي اور اہل و شايستہ نہيں اس لئے اس طرف روانہ ہوجاؤ(۲۱) اس كے ساتھ ہى آپعليه‌السلام نے وہاں كے لوگوں كے لئے مراسلہ روانہ كيا جس ميں آپعليه‌السلام نے مرقوم فرمايا كہ بندہ خدا على اميرالمومنينعليه‌السلام كى جانب سے مسلمانان مصر كو معلوم ہو كہ جب لوگوں نے خطہ ارض پر حكم خدا سے روگردانى كى تو انہوں نے اس كے غضب كو دعوت دى ميں ايك ايسے بندہ خدا كو تمہارى طرف روانہ كر رہا ہوں جو خوف و ہراس كے دنوں ميں چين كى نيند نہيں سوتا سخت و بحرانى وقت ميں وہ دشمن سے خوفزدہ نہيں ہوتا اور وہ بد كار لوگوں كے لئے آگ سے زيادہ سوزناك ہے اس كا نام مالك بن حارث ہے_

حضرت مالك كى شہادت

مالك مصر جانے كيلئے تيار ہوگئے كوفہ ميں مقيم معاويہ كے جاسوسوں نے اس واقعے كى اطلاع اسے دے دى معاويہ جانتا تھا كہ اگر مالك مصر پہنچ گئے تو وہ اس پر قبضہ كرنے ميں ہرگز كامياب نہ ہوسكے گا چنانچہ اس نے خفيہ طور پر علاقہ ''قلزم''(۲۲) كے تحصيلداركے نام فرمان جارى كيا كہ جس طرح بھى ممكن ہوسكے مالك كو مصر پہنچنے سے قبل ہى قتل كردے اور اس سے يہ وعدہ كيا كہ اگر وہ اس مقصد ميں كامياب ہوگيا تو تا دم حيات اس علاقے كى مالگذارى اسے عطا كرے گا_

اس پر فريب فرمان كے جارى كرنے كے بعد اس نے دعاگوئي كے لئے ايك جلسہ طلب كيا تا كہ حاضرين جلسہ مالك كى تباہى كے لئے دعا كريں كہ اگر كہيں اس كا يہ حربہ كامياب ہو گا تو وہ لوگوں كو يہ كہہ كر خوش فہمى ميں مبتلا كر سكے كہ ان كى موت تمہارى دعاؤں كے اثر سے واقع ہوئي ہے_

۲۹۹

حضرت مالك جب قلزم پہنچے وہ ايك شخص (۲۳) جو ان كى ہلاكت كے لئے مامور كيا گيا تھا ان كے پاس آيا اورانھيں اپنے گھر آنے كى دعوت دى حضرت مالك نے اس كى دعوت قبول كرلى ميزبان نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام كى حكومت كى تعريف كے ايسے پل باندھے كہ مالك كو اس پر اعتماد ہوگيا اس نے دسترخوان بچھايا اور شہد كا شربت جس ميں مہلك زہر يلا ہوا تھا سامنے لاكر ركھ ديا مالك نے اسے پيا اورتھوڑى دير بعد ہى وہيں شہيد ہوگئے(۲۴) اس شہادت كے باعث اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو سخت رنج ہوا اور معاويہ بہت خوش و خرم دونوں حضرات نے جو باتيں ان كے بارے ميں كہيں ان سے اندازہ ہوتا ہے كہ يہ ايك عظيم سانحہ تھا_

قبيلہ ''نخع'' كے چند سردار پرسہ دينے كے لئے حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے انہوں نے آپعليه‌السلام كى كيفيت كو ان الفاظ ميں بيان كياہے'' آپعليه‌السلام مالك كى شہادت سے سخت مضطرب خاطر تھے اس موقعے پر آپ نے فرمايا كہ اس شہادت كااجر خدا ہى دے _مالك كى كيا تعريف كروں خدا كى قسم اگر اسے پہاڑ سے بھى تراشا گيا ہوتا تو وہ يكتا و ممتاز زمانہ ہوتا اگر وہ پتھر كا بھى انسان ہوتا تو ايسا ہى محكم اور ارادے كا مضبوط ہوتاكوئي سوارى اس كے كہسار وجود سے بالاتر نہ ہو سكتى كوئي پرندہ اس كى عظمت كے اوج بلندى سے نہيں گذرسكتا(۲۵)

معاويہ تو حضرت مالك كا جانى دشمن تھا جب اس نے يہ خبر سنى كہ وہ شہيد ہوگئے ہيں تو اس نے كہا كہ علىعليه‌السلام كے دو ہاتھ تھے ان ميں سے ايك تو جنگ صفين ميں قطع ہوگيا وہ تھا عمار اور دوسرا ہاتھ مالك اشتر تھا جو آج شہيد ہوگيا(۲۶)

مصر پر لشكر كشي

معاويہ كو جب يہ معلوم ہوا كہ عراق كى سپاہ نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے حكم سے روگردانى كى ہے اور آرام طلبى و تن پرورى كو اس نے اپنا شعار بناليا ہے تو اس نے عمر و عاص ، ضحاك بن

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348