تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180020 / ڈاؤنلوڈ: 4270
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اس باغ سے جو چاہو کھائو، لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جائوگے۔

اور آدم کے گوش گز ار کیا کہ شیطان تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے ہوشیار رہنا کہیں تمہیں وہ اس بہشت سے باہر نہ کر دے۔

حضرت آدم شیطان کے باربار خدا کی قسم کھانے اور اس کے یہ کہنے سے کہ میں تمہارا خیر خواہ اور ہمدرد ہوں اپنے اختیار سے حو اکے ساتھ شیطان کے وسوسے کا شکار ہو گئے اور خدا وند عالم کے فرمان کے مطابق اپنی اطمیان بخش اور مضبوط حالت سے نیچے آگئے اور وسوسہسے متاثرہوگئے؛ اس کی سزا بھی اطمینان بخش بہشت رحمت سے دنیائے زحمت میں قدم رکھنا تھا، ایسی دنیا جو کہ رنج و مشقت ، درد و تکلیف اور اس عالم جاوید کا پیش خیمہ ہے ،کہ جس میں بہشتی نعمتیں ہیں یا جہنمی عذاب۔

اس طرح سے انسان نے امانت کا با ر قبول کیا ایسی امانت جس کے بارے میں خدا وند عالم نے خبر دیتے ہوئے فرمایا:

( انا عرضنا الامانة علیٰ السمٰوات و الارض و الجبال فأَبین ان یحملنها و وأشفقن منها و حملها الانسان انه کان ظلوما جهولاً، لیعذب الله المنافقین و المنافقات و المشرکین و المشرکات و یتوب الله علیٰ المؤمنین و المؤمنات و کان الله غفوراً رحیماً ) ( ۱ )

ہم نے بارامانت (تعہد و تکلیف) کوآسمان، زمین اور پہاڑوںکے سامنے پیش کیاانہوں نے اس کا بار اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے خوفزدہ ہوئے ، لیکن انسان نے اسے اپنے دوش پر اٹھا لیا، وہ بہت جاہل اور ظالم تھا، ہدف یہ تھا کہ خد اوند عالم منافق اور مشرک مردوں اور عورتوں کو عذاب دے اور با ایمان مردوں و عورتوں پر اپنی رحمت نازل کرے، خدا وند عالم ہمیشہ بخشنے والا اور رحیم ہے ۔

امانت سے اس آیت میں مراد(خداوند عالم بہتر جانتا ہے) الٰہی تکالیف اور وہ چیزیں ہیںجو انسان کو انسانیت کے زیور سے آراستہ کرتی ہیں۔

آسمان و زمین پر پیش کرنے سے مراد مخلوقات میں غیر مکلف افراد پر پیش کرنا ہے ، یہ پیشکش اور قبولیت انتخاب الٰہی کامقدمہ تھی تاکہ مخلص اور خالص افراد کو جدا کر دے ۔

اس لحاظ سے آدم کا گناہ بار امانت اٹھانے میں تھا، ایسی امانت جس کے آثار میں سے وسوسۂ شیطانی

____________________

(۱)احزاب ۷۲۔۷۳

۱۲۱

سے متاثر ہونا ہے ۔ یہ تمام پروگرام حضرت آدم کی آفرینش سے متعلق ایک مرحلہ میں تھے جو کہ ان کی آخری خاکی زندگی سے کسی طرح مشابہ نہیں ہیں نیز عالم تکوین و ایجاد میں تھے قبل اس کے کہ اس خاص بہشت سے ان کا معنوی ہبوط ہوا اور اس سے خارج ہو کر اس زمین مین تشریف لائے ۔

کیونکہ انبیاء اس عالم میں معصوم اور گناہ سے مبرا ہیںاور حضرت آدم اپنے اختیار اورانتخاب سے جس عالم کے لئے خلق کئے گے تھے اس میں تشریف لائے،اس اعتبار سے حضرت آدم کا عصیان اس معنوی امر سے تنزل ہے (خدا وند عالم بہتر جانتا ہے) ۔

۱۲۲

آیات کی شرح اور روایات میں ان کی تفسیر

پہلے۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول روایات:

۱۔ احمد بن حنبل، ابن سعد، ابو دائوداور ترمذی نے اپنی سندوں سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے: آپ نے فرمایا: خدا وند عالم نے آدم کو ایک مشت مٹی جوزمین کے تمام اطراف سے لی تھی خلق کیا؛ اسی وجہ سے بنی آدم زمین کے ہم رنگ ہیں بعض سرخ، بعض سفید، بعض سیاہ اور کچھ لوگ انہیں گروہوںمیں میانہ رنگ کے مالک ہیں...۔( ۱ )

۲۔ ابن سعد نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

جب حضرت آدم سے یہ خطا سرزد ہوئی تو ان کی شرمگاہ ظاہر ہو گئی جبکہ اس سے پہلے ان کے لئے نمایاںنہیں تھی۔( ۲ )

۳۔ شیخ صدوق نے اپنی سند کے ساتھ خصال میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ذکر کیا ہے :

آدم و حوا کا قیام اس بہشت میں ان کے خارج ہونے تک دنیاوی دنوں کے لحاظ سے صرف سات گھنٹہ تھا یہاں تک کہ خدا وند عالم نے اسی دن بہشت سے نیچے بھیج دیا۔( ۳ )

____________________

(۱)سنن ترمذی ، ج ۱۱، ص ۱۶، سنن ابی داؤد ج ، ۴، ص ۲۲۲، حدیث ۴۶۹۳،مسند احمد ج ، ۴، ص ۴۰۰، طبقات ابن سعد ، طبع یورپ ، ج ۱، حصہ اول ص۵۔ ۶

(۲) طبقات ابن سعد ، ج ، ۱حصہ اول ، طبع یورپ ، ص ۱۰.

(۳)نقل از بحار الا نوار ج ۱۱، ص ۱۴۲.

۱۲۳

دوسرے۔ حضرت امام علی سے مروی روایات

الف:۔ فرشتوںکی خلقت کے بارے میں

کتاب بحار الانوار میں مذکور ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی ـ خدا وند عالم سے عرض کرتے ہیں:

....جن فرشتوں کو تونے خلق کیا اور انہیں اپنے آسمان میں جگہ دی ان میں کسی طرح کی کوتاہی اور سستی نہیں ہے؛ نیز ان کے یہاں نسیان وفراموشی کا گز ر نہیں ہے اور عصیان و نافرمانی ان کے اندر نہیں ہے وہ لوگ تیری مخلوقات کے با شعور اور دانا ترین افراد ہیں؛ وہ تجھ سے سب سے زیادہ خوف رکھتے اورتجھ سے نزدیک ترین اور تیری مخلوقات میں سب سے زیادہ اطاعت گزاراورفرمانبردارہیں؛ انہیں نیند نہیں آتی ، عقلی غلط فہمیاں ان کے یہاں نہیں پائی جاتی، جسموں میں سستی نہیں آتی، وہ لوگ باپ کے صلب اور ماں کے رحم سے وجود میں نہیں آئے ہیں نیز بے حیثیت پانی (منی) سے پیدا نہیںہوئے ہیں؛ تونے ان لوگوںکو جیسا ہونا چاہئے تھا خلق کیا ہے اور اپنے آسمانوں میں انہیں جگہ دی ہے اور اپنے نزدیک انہیں عزیز و مکرم بنایا ہے اور اپنی وحی پر امین قرار دیا آفات و بلیات سے دور اور محفوظ رکھ کر گناہوں سے پاک کیا اگرتونے انہیں قوت نہ دی ہوتی تو وہ قوی نہ ہوتے؛ اگر تونے انہیںثبات و استقلال نہ دیا ہوتا تو وہ ثابت و پائدار نہ ہوتے۔

اگر تیری رحمت ان کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ اطاعت نہیں کرتے اورا گر تو نہ ہوتا تو وہ بھی نہوتے، وہ لوگ جو تجھ سے قرابت رکھتے ہیں اور تیری اطاعت کرتے اور تیرے نزدیک جو اپنا مخصوص مقام رکھتے ہیں اور ذرہ برابر بھی تیرے حکم کی مخالفت نہیں کرتے ان سب کے باوجود اگر نگاہوں سے تیرا پوشیدہ مرتبہ مشاہدہ کرتے ہیں تو اپنے اعمال کو معمولی سمجھ کراپنی ملامت و سرزنش کرتے ہیں اور راہ صداقت اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیری عبادت کا جو حق تھا ویسی ہم نے عبادت نہیں کی ؛اے خالق و معبود! تو پاک و منزہ ہے تیرا امتحان و انتخاب مخلوقات کے نزدیک کس قدر حسین وخوبصورت اور باعظمت ہے ۔( ۱ )

ب:۔آغاز آفرینش

خلقت کی پیدائش کے بارے میں حضرت امام علی ـ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے:

____________________

(۱) بحار الانوار ج ۵۹ ، ص ۱۷۵، ۱۷۶.

۱۲۴

خدا وند عالم نے فضائوں کو خلق کیا، اس کی بلندی پر موجزن اور متلاطم پانی کی تخلیق کی، سرکش اور تھپیڑے کھاتا ہوا پانی؛ بلند موجوں کے ساتھ کہ جس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے پھر اسے تیز و تند اور سخت ہلا دینے والی ہوا کی پشت پر قرار دیاجس نے اپنے شدید جھونکوںسے (جس طرح دہی اور دودھ کو متھا جاتا ہے اس کو متھتے اور حرکت دیتے ہیں؛اور اس سے مکھن اور بالائی نکالتے ہیں اور اس کا جھاگ اوپر آجاتا ہے) ان جھاگوں کو پراکندہ کر دیا پھر وہ جھاگ کھلی فضا اور وسیع ہوا میں بلندی کی طرف چلے گئے تو خدا وند عالم نے ان سے سات آسمان خلق کئے اور اس کی نچلی سطح کو سیلاب سے عاری موج اور اس کے اوپری حصہ کو ایک محفوظ چھت قرار دیا، بغیر اس کے کہ کوئی ستون ہو اور وسائل و آلات سے مل کر ایک دوسرے سے متصل و مرتبط ہوں؛ آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت بخشی پھر فوقانی آسمانوں کے درمیان جو کہ آسمان دنیا کے اوپر واقع ہے ،شگاف کیا پھر انہیں انواع و اقسام کے فرشتوں سے بھر دیا، ان میں سے بعض دائمی سجدہ کی حالت میں ہیںجو کبھی سجدے سے سر نہیںاٹھاتے تو بعض رکوع دائم کی حالت میں ہیں جو کبھی قیام نہیں کرتے، بعض بالکل سیدھے منظم صفوف کی صورت میں مستقیم اورثابت قدم ہیں اور حرکت نہیں کرتے؛ خدا کی تسبیح کرتے ہوئے کبھی تھکاوٹ کا احساس نہیں کرتے، انہیںخواب آنکھوں میں عقلوں کی غفلت ، جسموں میں سستی، فراموشی، بے توجہی اور بے اعتنائی لاحق نہیں ہوتی، بعض وحی خداوندی کے امین ہیں اور رسولوں تک پیغام رسانی کے لئے اس کی زبان اور حکم خداوندی پہنچانے کے لئے ہمیشہ رفت و آمد رکھتے ہیں، بعض اس کے بندوں کے محافظ اور بہشت کے دروازوں کے نگہبان ہیں، ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کے قدم پست سر زمینوں پر ہیں اور سر آسمان سے بھی اوپر ہیں... وہ لوگ اپنے پروردگار؛ کی توہم و خیال کے ذریعہ تصویر کشی نہیں کرتے، خدا کی خلق کردہ مخلوقات کے اوصاف کو خدا کی طرف نسبت نہیں دیتے اسے مکان کے دائرہ میں محدود نہیں کرتے اور امثال و نظائر کے ذریعہ اس کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔

ج:۔ انسان کی خلقت

امام نے فرمایا: خدا نے پھر زمین کے سخت و نرم ، نمکین اور شیرین مختلف حصوں سے کچھ مٹی لی؛ پھر اسے پانی میں مخلوط کیا تاکہ خالص ہو جائے، پھر اسے دوبارہ گیلا کر کے جلادی اور صیقل کیا ، پھر اس سے شکل و صورت جس میں اعضا ء وجوارح والی خلق کی اور اسے خشک کیا پھر اسے استحکام بخشا تاکہ محکم و مضبوط ہو جائے روز معین و معلوم کے لئے۔

۱۲۵

پھر اس میں اپنی روح پھونکی، تو ایک ہوشیار انسان کی شکل میں ظاہر ہوا؛ اور حرکت کرتے ہوئے اپنے ،دل و دماغ؛ عقل و شعور اور دیگر اعضاء کا استعمال کرتاہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ قابل انتقال آلات سے استفادہ کرتاہے حق و باطل میں فرق قائم کرتاہے نیز چکھنے، سونگھنے اور دیکھنے والے حواس کا مالک ہے وہ رنگا رنگ سرشت اور طبیعت اور مختلف عناصر کاایک ایسا معجون ہے جن میں سے بعض ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ان میں سے بعض متبائن اور ایک دوسرے سے علٰحدہ ہیں جیسے گرمی، سردی، خشکی، رطوبت، بدحالی اور خوش حالی۔( ۱ )

د:۔جن، شیطان اورابلیس کی خلقت

حضرت امام علی فرماتے ہیں: خدا وند عالم نے جن اور نسناس کے سات ہزار سال روئے زمین پر زندگی بسر کرنے کے بعد جب چاہا کہ اپنے دست قدرت سے ایک مخلوق پیداکرے اور وہ مخلوق آدمی ہونا چاہے کہ جن کے لئے آسمان و زمین کی تقدیر و تدبیر کی گئی ہے تو آسمانوںکے طبقوں کا پردہ اٹھا کر فرشتوں سے فرمایا: میری (جن اور نسناس )مخلوقات کا زمین میں مشاہدہ کرو۔

جب ان لوگوں نے اہل زمین کی غیر عادلانہ رفتار اورظالمانہ اور سفاکانہ انداز دیکھے تو ان پرگراں گز را اور خدا کے لئے ناراض ہوئے اور اہل زمین پر افسوس کیا اور اپنے غیظ و غضب پر قابو نہ پا کر بول پڑے: پروردگارا! تو عزیز، قادر، جبار، عظیم و قہار عظیم الشان ہے اور یہ تیری ناتواں اور حقیر مخلوق ہے کہ جو تیرے قبضہ قدرت میں جابجا ہوکر،تیر ا ہی رزق کھاتی ہے اور تیری عفو و بخشش کے سہارے زندہ ہے اور اپنے سنگین گناہوں کے ذریعہ تیری نافرمانی کرتی ہے جبکہ تو نہ ان پر ناراض ہوتاہے اور نہ ہی ان پر اپنا غضب ڈھاتا ہے اور نہ ہی جو کچھ ان سے سنتا اور دیکھتاہے اس کاانتقام لیتا ہے ، یہ بات ہم پر بہت ہی گراں ہے اور ان تمام باتوںکو تیرے سلسلہ میں ہم عظیم شمار کرتے ہیں۔ جب خدا وند عالم نے فرشتوں کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا: ''میں روئے زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں'' تاکہ میری مخلوق پر حجت اور میرا جانشین ہو، فرشتوںنے کہا: تو منزہ اور پاک ہے ''آیا زمین پر ایسے کوخلیفہ بنائے گا جو فساد و خونریزی کرے جبکہ ہم تیر ی تسبیح اور حمد بجالاتے ہیں اور تیری تقدیس کرتے اور پاکیزگی کا گن گاتے ہیں۔'' اور کہا: اس جانشینی کو ہمارے درمیان

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید : ج ۱، ص ۳۲.

۱۲۶

قرار دے کہ نہ تو ہم فساد کرتے ہیں اور نہ ہی خونریزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

خداوند عالم نے فرمایا: میرے فرشتو! میں جن حقائق کو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ، میرا ارادہ ہے کہ ایک مخلوق اپنے دستِ قدرت سے بنائوں اور اس کی نسل و ذریت کو مرسل ،پیغمبراور صالح بندے اورہدایت یافتہ امام قرار دوں نیز ان کو اپنی مخلوقات کے درمیان اپنا زمینی جانشین بنائوں، تاکہ لوگوں کو گناہوں سے روکیں اور میرے عذاب سے ڈرائیں، میری اطاعت و بندگی کی ہدایت کریں اور میری راہ کو اپنائیں نیز انہیں آگہی بخش برہان اور اپنے عذر کی دلیل قرار دوں، نسناس( ۱ ) کو اپنی زمین سے دور کرکے ان کے ناپاک وجود سے اسے پاک کر دوں.اور طاغی و سرکش جنوںکو اپنی مخلوقات کے درمیان سے نکال کر انہیں ہوااور دور دراز جگہوں پر منتقل کر دوں تاکہ نسل آدم کے جوار سے دوررہیں اور ان سے انس و الفت حاصل نہ کریں اور ان کی معاشرت اختیار نہ کریں، لہٰذا جو شخص ہماری اس مخلوق کی نسل سے جس کو میں نے خود ہی انتخاب کیا ہے میری نافرمانی کرے گا اسے سر کشوں اور طاغیوں کے ٹھکانوں پر پہنچا دوں گااور کوئی اہمیت نہیں دوںگا۔ فرشتوں نے کہا: خدایا! جو مرضی ہو وہ انجام دے: ہم تیری تعلیم کردہ چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ، تو دانا اور حکیم ہے( ۲ )

ھ۔ روح: حضرت امام علی نے روح کے بارے میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے :

جبریل روح نہیں ہیں، جبرئیل فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے اور روح جبریل کے علاوہ ایک دوسری مخلوق ہے، اس لئے کہ خدا وند عالم نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا:

( تنزل الملائکة بالروح من امره علیٰ من یشاء من عباده )

فرشتوں کو اپنے فرمان سے روح کے ساتھ اپنے جس بندہ پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے ۔ لہٰذا روح فرشتوں کے علاوہ چیز ہے۔( ۳ )

نیز فرمایا:

( لیلة القدر خیر من الف شهر٭ تنزل الملائکة و الروح فیها بِأِذن ربهم ) ( ۴ )

شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے فرشتے اور روح اس شب میں اپنے پروردگار کے اذن سے نازل ہوتے ہیں۔ نیز فرماتا ہے :

____________________

(۱) نسناس کی حقیقت ہم پرواضح نہیں ہے ، بحار الانوار میں ایسا ہی مذکور ہے ۔

(۲)بحار الانوار ج۶۳ص۸۲۔۸۳، علل الشرائع سے منقول.

(۳)نحل۲(۴)قدر۳۔۴

۱۲۷

( یوم یقوم الروح و الملائکة صفاً ) ( ۱ )

جس دن روح اور فرشتے ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔

اور حضرت آدم کے بارے میں جبرائیل سمیت تمام فرشتوں سے فرمایا:

( انی خالق بشراً من الطین فأِذا سوّیته و نفخت فیه من روحی فقعوا له ساجدین )

میں مٹی سے ایک انسان بنائوں گا اور جب اسے منظم کر دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو اس کے سجدہ کے لئے سر جھکا دینا! تو جبریل نے تمام فرشتوں کے ہمراہ اس روح کا سجدہ( ۲ ) کیا۔

اور مریم کے بارے میں ارشاد ہوا:

( فأَرسلنا الیها روحنا فتمثّل لها بشراً سویاً ) ( ۳ )

ہم نے اپنی روح اس کی طرف بھیجی اور وہ ایک مکمل انسان کی شکل میں مریم پر ظاہر ہوا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا:

( نزل به الروح الامین٭ علیٰ قلبک )

تمہارے قلب پر اسے روح الامین نے نازل کیا ہے ۔

پھر فرمایا:

( لتکون من المنذرین، بلسانٍ عربیٍ مبین ) ( ۴ )

تاکہ واضح عربی زبان میں ڈرانے والے رہو۔

لہٰذا روح گوناگوں اور مختلف شکل و صورت میں ایک حقیقت ہے۔( ۵ )

امام کی گفتگو کا خاتمہ۔

اس بنا پر روح (خد ابہتر جانتا ہے) وہ چیز ہے جو آدم میں پھونکی گئی ، نیز وہ چیز ہے کہ جو مریم کی طرف بھیجی گئی نیز وہ چیز ہے جو حامل وحی فرشتہ اپنے ہمراہ پیغمبر کے پاس لاتا تھا ؛ اور کبھی اس فرشتہ کو جو وحی پیغمبر کا حامل ہوتا تھا اسے بھی روح الامین کہتے ہیں، اس طرح روح وہی روح القدس ہے جس کے ذریعہ خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ کی تائید کی تھی اور قیامت کے دن خود روح فرشتوں کے ہمراہ ایک صف میں کھڑی ہوگی۔

____________________

(۱)نبأ۳۸(۲)ص۷۱۔۷۲(۳)مریم۱۷(۴)شعرائ۱۹۴۔۱۹۵(۵)الغارات ثقفی تحقیق اسناد جلال الدین حسینی ارموی '' محدث ''جلد اول ص ۱۸۴۔۱۸۵

۱۲۸

یہ وہی روح ہے جس کے بارے میں خدا وند عالم فرماتا ہے :

( و یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی ) ( ۱ )

تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں توتم ان سے کہہ دو روح امر پروردگار ہے ۔

خدا وندا! ہم کو سمجھنے میں خطا سے اور گفتار میں لغز ش سے محفوظ رکھ۔

و۔ فرشتوں کے حضرت آدم کا سجدہ کرنے کے معنی

امام علی کی اس سلسلے میں گفتگو کا خلاصہ یہ ہے :

فرشتوں کا آدم کے لئے سجدہ؛ اطاعت اور بندگی کا سجدہ نہیں تھا فرشتوں نے اس سجدہ سے ، غیر اللہ، یعنی آدم کی عبادت اور بندگی نہیں کی ہے ، بلکہ حضرت آدم کی فضیلت اور ان کیلئے خداداد فضل و رحمت کا اعتراف کیا ہے ۔

امام علی کے کلام کی تشریح:

امام نے گز شتہ بیان میں فرشتوں کو چار گروہ میں تقسیم کیا ہے :

پہلا گروہ: عبادت کرنے والے ، بعض رکوع کی حالت میں ہیں، بعض سجدہ کی حالت میں ہیں تو بعض قیام کی حالت میں ہیں تو بعض تسبیح میں مشغول ہیں۔

دوسرا گروہ: پیغمبروں تک وحی پہنچانے میں وحی خداوندی کے امین ہیں اور رسولوں کے دہن میں گویا زبان؛ نیز بندوں کے امور سے متعلق کہ خداوند عالم ان کے ذریعہ خلق کا انتظام کرتا ہے رفت و آمد کرنے والے ہیں۔

تیسرا گروہ: بندوں کے محافظ و نگہبان، انسان کے جسم و جان میں ایک امانت اور ذخیرہ کی قوتوں کے مانند کہ جن کے ذریعہ خدا وند عالم بندوں کو ، ہلاکت اور مفاسد سے محفوظ رکھتا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہلاکت اور مفسدہ ؛امن و امان اور حفاظت و سلامتی سے زیادہ انسان کو پہنچے، ان میں سے بعض جنت کے خدام یعنی نگہبان اور خدمت گز ار بھی ہیں۔

چوتھا گروہ: حاملان عرش کا ہے : شاید یہی لوگ ہیںجو امور عالم کی تدبیر پر مامور کئے گئے ہیں جیسے بارش نازل کرنا ،نباتات اور اس جیسی چیزوںکا اگانا اور اس کے مانند ایسے امور جو پروردگار عالم کی ربوبیت

سے متعلق ہیں اور مخلوقات عالم کے لئے ان کی تدبیر کی گئی ہے ۔

____________________

(۱)اسرائ۸۵

۱۲۹

تیسرے۔ امام محمد باقرسے مروی روایات

امام باقر نے (ونفخت فیہ من روحی ) کے معنی میں ارشاد فرمایا:

یہ روح وہ روح ہے جسے خدا وند عالم نے خودہی انتخاب کیا، خود ہی اسے خلق کیا اور اسے اپنی طرف نسبت دی اور تمام ارواح پر فوقیت و برتری عطا کی ہے ۔( ۱ )

اور دوسری روایت میں آپ نے فرمایا ہے :

خدا وند عالم نے اس روح کو صرف اس لئے اپنی طرف نسبت دی ہے کہ اسے تمام ارواح پر برتری عطا کی ہے ،جس طرح اس نے گھروں میں سے ایک گھر کو اپنے لئے اختیار فرمایا:

میرا گھر! اور پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر سے کہا:میرا خلیل ( میرے دوست) یہ سب ،مخلوق ، مصنوع، محدَّث ، مربوب اور مدبَّر ہیں۔( ۲ )

یعنی ان کی خد اکی طرف اضافت اور نسبت تشریفی ہے ۔

دوسری روایت میں راوی کہتا ہے :

امام باقر سے میں نے سوال کیا: جو روح حضرت آدم اور حضرت عیسیٰ میں ہے وہ کیا ہے ؟

فرمایا: دو خلق شدہ روحیں ہیں خد اوند عالم نے انہیں اختیار کیاا ور منتخب کیا: حضرت آدم اور حضرت عیسی ـ کی روح کو۔( ۳ )

چوتھے۔ امام صادق سے مروی روایات

حضرت امام صادق نے خدا وند عالم کے حضرت آدمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و حوا سے متعلق کلام( فبدت لھما سو ء اتھما) ''ان کی شرمگاہیں ہویدا ہو گئیں'' کے بارے میں فرمایا:

ان کی شرمگاہیں ناپیدا تھیں ظاہر ہو گئیں یعنی اس سے قبل اندر مخفی تھیں۔( ۴ )

امام نے حضرت آدم سے حضرت جبریل کی گفتگو کے بارے میں فرمایا:

____________________

(۱)بحار الانوار ، ج۴ ص ۱۲، بنا بر نقل معانی الاخبار اورتوحید صدوق(۲) بحار الانوار ج۴ ،ص۱۲، بحوالہ ٔ نقل از معانی الاخبارو توحید صدوق.(۳) بحار الانوار ج۴ ،ص ۱۳(۴) بحار الانوار ج۱۱ ص ۱۶۰، نقل از تفسیر قمی ص ۲۳۱

۱۳۰

جب حضرت آدم جنت سے باہر ہوئے تو ان کے پاس جبرئیل نے آکر کہا: اے آدم! کیا ایسا نہیں ہے کہ آ پ کو خدا وند عالم نے خود اپنے دست قدرت سے خلق کیا اورآپ میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو آپ کے سجدہ کا حکم دیا اور اپنی کنیز حوا کوآ پ کی زوجیت کے لئے منتخب کیا، بہشت میں جگہ دی اور اسے تمہارے لئے حلا ل اور جائز بنایا اور بالمشافہہ آپ کونہی کی : اس درخت سے نہ کھانا! لیکن آپ نے اس سے کھایا اور خدا کی نافرمانی کی، آدم نے کہا: اے جبرئیل! ابلیس نے میرے اطمینان کے لئے خدا کی قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ اور میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خدا وند عالم کی کوئی مخلوق خدا کی جھوٹی قسم کھا سکتی ہے۔( ۱ )

امام نے حضرت آدم کی توبہ کے بارے میں فرمایا:

جب خدا وند عالم نے آدم کو معاف کرنا چاہا تو جبرئیل کو ان کی طرف بھیجا، جبرئیل نے ان سے کہا: آپپر سلام ہو اے اپنی مصیبت پر صابر آدم اور اپنی خطا سے توبہ کرنے والے !خدا وند عالم نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ ایسے مناسک آپ کو تعلیم دوں جن کے ذریعہآ پ کی توبہ قبول کرلے! جبرئیل نے ان کا ہاتھ پکڑا اور بیت کی طرف روانہ ہو گئے اسی اثناء میں آسمان پر ایک بادل نمودار ہوا، جبرئیل نے ان سے کہا جہاں پر یہ بادل آپ پر سایہ فگن ہو جائے اپنے قدم سے خط کھیچ دیجئے ، پھر انہیںلیکر منیٰ چلے گئے اور مسجد منیٰ کی جگہ انہیں بتائی اور اس کے حدود پر خط کھینچا، محل بیت کو معین کرنے اور حدود حرم کی نشاندہی کرنے کے بعد عرفات لے گئے اور اس کی بلندی پر کھڑے ہوئے اور ان سے کہا: جب خورشید غروب ہو جائے تو سات بار اپنے گناہ کا اعتراف کیجئے آدم نے ایسا ہی کیا۔( ۲ )

پانچویں۔ امام رضا سے مروی روایات

امام رضا نے خدا وند عالم کے کلام ''خلقت بیدی'' کے معنی کے بارے میں فرمایا : یعنی اسے میں نے اپنی قوت اور قدرت سے خلق فرمایا:( ۳ )

آپ سے عصمت انبیاء سے متعلق مامون نے سوال کیا:

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند! کیا ایسا نہیں ہے کہ آپ کہتے ہیں انبیاء معصوم ہیں؟

____________________

(۱ ) بحار الانوار ج۱۱ ص ۱۶۷. (۲) تفسیر نور الثقلین ج۴ ص ۴۷۲ بہ نقل عیون اخبار الرضا (۳)بحار الانوار ج۱۱ص ۱۶۷

۱۳۱

امام نے فرمایا: ہاں، بولا! پھر جو خدا وند عالم نے فرمایا( فعصی آدم ربه فغویٰ ) اس کے معنی کیا ہیں؟

فرمایا: خدا وند عالم نے آدم سے فرمایا: ''تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکونت اختیار کرو اور اس میں جو دل چاہے کھائو لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جائو گے'' اور گندم کے درخت کا انہیں تعارف کرایا۔ خدا وند عالم نے ان سے یہ نہیں فرمایاکہ: اس درخت اور جو بھی اس درخت کی جنس سے ہونہ کھانا لہٰذاآدم و حوا اس درخت سے نزدیک نہیں ہوئے یہ دونوں شیطان کے ورغلانے اور اس کے یہ کہنے پر کہ خداوندعالم نے تمہیں اس درخت سے نہیں روکا ہے بلکہ اس کے علاوہ کے قریب جانے سے منع کیا ہے ،تمہیں اسکے کھانے سے ا س لئے نہی کی ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتہ نہ بن جائو اوران لوگوں میں سے ہو جائو جو حیات جاودانی کے مالک ہیں اس کے بعد ان دونوں کے اطمینان کے لئے قسم کھائی کہ ''میں تمہارا خیر خوا ہ ہوں'' آدم و حوا نے اس سے پہلے کبھی یہ نہیں دیکھا تھا کہ کوئی خدا وند عالم کی جھوٹی قسم کھائے گا، فریب کھا گئے اور خدا کی کھائی ہوئی قسم پر اعتماد کرتے ہوئے اس درخت سے کھا لیا؛ لیکن یہ کام حضرت آدم کی نبوت سے پہلے کاتھا( ۱ ) ، آغاز خلقت سے مربوط باقی روایتوں کو انشاء اللہ کتاب کے خاتمہ پر ملحقات کے ضمن میں عرض کریں گا۔

بحث کا خلاصہ

اس بحث کی پہلی فصل میں مذکورہ مخلوقات درج ذیل چار قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں۔

۱۔ جو لوگ موت، زندگی، ارادہ اور کامل ادراک کے مالک ہیں اور ان کے پاس نفس امارہ بالسوء نہیں ہوتا وہ لوگ خدا کے سپاہی اورفرشتے ہیں۔

۲۔ جولوگ، موت ، زندگی، ارادہ؛ درک کرنے والا نفس اور نفس امارہ کے مالک ہیں یہ گروہ دو قسم کا ہے:

الف۔ جن کی خلقت مٹی سے ہوئی ہے وہ حضرت آدم کی اولاد ؛تمام انسان ہیں.

ب۔ جن کی خلقت جھلسا دینے والی آگ سے ہوئی ہے وہ جنات ہیں.

۳۔ جو موت، زندگی اور ارادہ رکھتے ہیں لیکن درک کرنے والا نفس نہیں رکھتے اور غور و خوض کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ حیوانات ہیں۔

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱۱، ص ۱۶۴، بہ نقل عیون اخبار الرضا

۱۳۲

۴۔جو حیوانی زندگی نیز ادراک و ارادہ بھی نہیں رکھتے ، جیسے: نباتات ، پانی کی اقسام ، ماہ و خورشید اور ستارے۔

ہم ان تمام مخلوقات کی انواع و اصناف میں غور و فکر کرتے ہیں تو ہر ایک کی زندگی میں ایک دقیق اور متقن نظام حیات پوشیدہ و مضمر پاتے ہیں جو ہر ایک کو اس کے کمال و جودی کے اعلیٰ درجہ تک پہنچاتا ہے ؛اب ہم سوال کرتے ہیں: جس نے ان انواع و اقسام اور رنگا رنگ مخلوقات کے لئے منظم نظام حیات بنایاوہ کون ہے ؟ اور اس کا نام کیا ہے ؟

یہ وہ بات ہے جس کے متعلق ہم خدا کی توفیق سے ربوبیت کی بحث میں تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے ۔

۱۳۳

۴

ربوبیت کی بحثیں

۱۔ رب اور پروردگار

۲۔ رب العالمین کون ہے ؟

۳۔ مخلوقات کے بارے میں رب العالمین کی اقسام ہدایت

۱۔رب

اسلامی اصطلاحوں میں سب سے اہم ''رب'' کی اصطلاح ہے کہ اس کے روشن و واضح معنی کا ادراک ہمارے ئے آئندہ مباحث میں ضروری و لازم ہے ؛ جس طرح قرآن کریم کی بہت ساری آیات کا کلی طور پر سمجھنا نیز خدا وند عزیز کی خصوصی طور پر معرفت و شناخت اس لفظ کے صحیح سمجھنے اور واضح کرنے سے وابستہ ہے نیز پیغمبر، وحی ، امام، روز قیامت کی شناخت اور موحد کی مشرک سے پہچان اسی کے سمجھنے ہی پر موقوف ہیلہٰذا ہم ابتد ا میں اس کے لغوی معنی اس کے بعد اصطلاحی معنی کی تحقیق کریں گے :

الف۔ لغت عرب میں رب کے معنی

''رب'' زبان عربی میں مربی اور تدبیر کرنے والے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ، نیز مالک اور صاحب اختیار کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔''رب البیت'' یعنی گھر کا مالک اور ''رب الضیعة؛ یعنی مدبر اموال ،پراپرٹی کا مالک اور ''رب الفرس'' یعنی گھوڑے کو تربیت کرنے والا یا اس کامالک۔

ب۔ اسلامی اصطلاح میں رب کے معنی

''رب'' اسلامی اصطلاح میں خدا وند عالم کے اسمائے حسنی میں شمار ہوتا ہے ، نیز رب نام ہے مخلوقات کے خالق اور مالک ، نظام حیات کے بانی اور اس کے مربی کا ،حیات کے ہر مرحلہ میں ، تاکہ ہر ایک اپنے کمال وجودی تک پہنچ سکے ۔( ۱ )

''رب'' قرآن کریم میں کہیں کہیں لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے اور ہم اس معنی کو قرینہ کی مدد سے جو دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد رب کے لغوی معنی ہیں سمجھتے ہیں، جیسے حضرت یوسف کی گفتگو اپنے قیدی

____________________

(۱)راغب اصفہانی نے کلمہ ''رب'' کے لغوی اور اصطلاحی معنی کو خلط و ملط کردیا ہے اور ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا ہے ،کیونکہ مربی شۓ تمام مراحل کے طے کرنے میں درجہ ٔ کمال تک پہنچنے تک یہ معنی خاص طور پر اسلامی اصطلاح میں ہیں جبکہ راغب نے اس کو تمام معنی میں ذکر کیا ہے ۔

۱۳۴

ساتھیوں سے کہ ان سے فرمایا:

۱۔( أ أرباب متفرقون خیرأَم الله الواحد القهار ) ( ۱ )

آیا چند گانہ مالک بہتر ہیں یا خدا وند عالم واحد و قہار؟

۲۔( وقال للذی ظن انه ناجٍ منهما اذکرنی عند ربک ) ( ۲ )

جسکی رہائی اور آزاد ہونے کا گمان تھا اس سے کہا: میرا ذکر اپنے مالک کے پاس کرنا۔

جہاں پر''رب'' مطلق استعمال ہوا ہے اور کسی چیز کی طرف منسوب نہیں ہوا ہے وہاں مراد خداوندمتعال ہی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے :

( بلدة طیبة ورب غفور ) ( ۳ )

''پاک و پاکیزہ سر زمین اور غفور پروردگار''

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس کی بنا پر ''رب'' لغت عرب اور اسلامی اصطلاح میں مالک اور مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اس کے علاوہ اسلامی اصطلاح میں نظام حیات کے مؤسس اور بانی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جو زندگی کے تمام مراحل میں درجہ کمال( ۴ ) تک پہنچے کے لئے پرورش کرتا ہے اور اسی کے ساتھ مربی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ، اس اضافہ کی صورت میں کامل مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی اصطلاحی ''رب' ' کے دو معنی ہوئے یا اس کے معنی دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔

راغب اصفہانی مادۂ ''قرئ'' کے ذیل میں فرماتے ہیں:

کوئی اسم بھی اگر ایک ساتھ دو معنی کے لئے وضع کیا جائے تو جب بھی تنہا استعمال ہوگا دونوں ہی معنی مراد ہوں گے ، جیسے ''مائدہ'' جو کہ کھانے اور دستر خوان دونوں ہی کے لئے ایک ساتھ وضع ہوا ہے لیکن تنہا تنہا بھی ہر ایک کو ''مائدہ'' کہتے ہیں۔

''رب'' کے معنی لغت عرب میں بھی اسی قسم کے ہیں، کبھی مالک تو کبھی مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اسلامی اصطلاح میں کبھی تربیت کرنے والے مالک اور کبھی ا س کے بعض حصہ کے معنی میں استعمال

____________________

(۱)یوسف ۳۹(۲) یوسف ۴۲.(۳)سبا۱۵

(۴) کلمۂ '' رب '' کلمہ ٔ '' صلاة '' کے مانند ہے کہ جو لغت عرب میں ہر طرح کے دعا کے معنی میں ہے اور شریعت اسلام میں مشہور اور رائج '' نماز '' کے معنی میں ہے

۱۳۵

ہوا ہے یعنی نظام زندگی کے بانی اور اس کا قانون بنانے والے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، جیسے خداوندعالم کا کلام کہ فرمایا:

( اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباباً من دون الله ) ( ۱ )

(یہود و نصاریٰ نے) اپنے دانشوروں اور راہبوںکو خدا کے مقابل قانون گز ار بنا لیا ۔

____________________

(۱)توبہ ۳۱

۱۳۶

۲۔ رب العالمین اور اقسام ہدایت

مقدمہ:

''رب العالمین'' کی بحث درج ذیل اقسام میں تقسیم ہوتی ہے۔

الف۔ ''رب العالمین'' کے معنی اور اس کی توضیح و تشریح۔

ب۔ اس کا خدا وند جلیل میں منحصر ہونا۔

ج۔ رب العالمین کی طرف سے ہدایت کی چہار گانہ انواع کا بیان درج ذیل ہے :

۱۔ فرشتوں کی ہدایت جو موت ، زندگی، عقل اور ارادہ رکھتے ہیں، لیکن نفس امارہ بالسوء نہیں رکھتے ان کی ہدایت بلا واسطہ خدا وند عالم کی تعلیم سے ہوتی ہے ۔

۲۔ انسان و جن کی ہدایت جو موت، زندگی، عقل و ارادہ کے ساتھ ساتھ نفس امارہ بالسوء بھی رکھتے ہیں ان کی ہدایت پیغمبروں کی تعلیم اور انذار کے ذریعہ ہوتی ہے ۔

۳۔موت و زندگی کے حامل حیوانات جو عقل اور نفس امارہ بالسوء نہیں رکھتے ان کی ہدایت الہام غریزی کے تحت ہوتی ہے ۔

۴۔ بے جان اور بے ارادہ، موجودات کی ہدایت، تسخیر ی ہے ۔

الف:۔قرآن کریم میں رب العالمین کے معنی

خدا وند متعال نے فرمایا:

بسم الله الرحمن الرحیم

۱۔( سبح اسم ربک الاعلیٰ٭الذی خلق فسوی٭ و الذی قدر فهدی٭ و الذی اخرج المرعیٰ٭فجعله غثاء اَحوی )

خدا وند مہربان و رحیم کے نام سے

۱۳۷

اپنے بلند مرتبہ خدا کے نام کو منزہ شمار کرو جس خدا نے منظم طریقہ سے خلق کیا وہی جس نے اندازہ گیری کی اور ہدایت کی وہ جس نے چراگاہ کو وجود بخشا پھر اسے خشک اور سیاہ کردیا۔( ۱ )

۲۔( ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقه ثم هدی )

ہمارا خدا وہی ہے جس نے ہر چیز کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا اور اس کے بعد ہدایت فرمائی۔( ۲ )

۳۔( خلق کل شیء فقدره تقدیرا )

اس نے ساری چیزوں کو خلق کیا اور نہایت دقت و خوض کیساتھ اندازہ گیری کی۔( ۳ )

۴۔( وعلّم آدم الاسماء کلها ثم عرضهم علیٰ الملائکة فقال انبئونی باسماء هٰؤلاء ان کنتم صادقین٭ قالوا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم )

اسرار آفرینش کے تمام اسما ء کا علم آدم کو سکھایا پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر سچے ہو تو ان کے اسماء مجھے بتائو!

فرشتوں نے کہا: تو پاک و پاکیزہ ہے! ہم تیری تعلیم کے علاوہ کچھ نہیں جانتے؛ تو دانا اور حکیم ہے۔( ۴ )

۵۔( شرع لکم من الدین ما وصیٰ به نوحاً و الذی اوحینا الیک و ما وصینا به ابراهیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیه... )

اس نے تمہارے لئے ایک آئین اور نظام کی تشریع کی جس کی نوح کو وصیت کی تھی اور جو کچھ تم پر وحی کی ہے اور ابراہیم موسیٰ، عیسیٰ کو جس کی سفارش کی ہے وہ یہ ہے کہ دین قائم کرو اور اس میں تفرقہ اندازی نہ کرو۔( ۵ )

۶۔( انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوحٍ و النبیین من بعده و اوحینا الیٰ ابراهیم و اسماعیل و اسحق و یعقوب و الاسباط و عیسیٰ و اَیوب و یونس و هارون و سلیمان و آتینا داود زبوراً و رسلاً قد قصصنا هم علیک من قبل و رسلاً لم نقصصهم علیک وکلم الله موسیٰ

____________________

(۱)اعلیٰ ۱۔۵(۲)طہ۵۰(۳) فرقان ۲(۴)بقرہ۳۱۔۳۲(۵)شوریٰ۱۳

۱۳۸

تکلیماً ٭ رسلاً مبشرین و منذرین... )

ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعدکے انبیاء کی طرف وحی کی تھی اور ابراہیم ، اسماعیل، اسحق، یعقوب، اسباط، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف وحی کی ہے اور داؤد کو ہم نے زبور دی ،کچھ رسول ہیں جن کی سر گز شت اس سے قبل ہم نے تمھارے لئے بیان کی ہے ؛ نیزکچھ رسول ایسے بھی جن کی داستان ہم نے بیان نہیں کی ہے ؛ خدا وند عالم نے موسیٰ سے بات کی ، یہ تمام رسول ڈرانے والے اور بشارت دینے والے تھے...( ۱ )

۷۔( نزل علیک الکتاب بالحق مصدقاً لما بین یدیه و انزل التوراة والأِنجیل من قبل هدیً للناس... )

اس نے تم پر کتاب ،حق کے ساتھ نازل کی، جو گز شتہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ا س سے پہلے توریت اور انجیل لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کی۔( ۲ )

۸۔( وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون )

میں نے جن و انس کوصرف اپنی بندگی اور عبادت کے لئے خلق کیا۔( ۳ )

۹۔( یا معشر الجن و الانس اَلم یأتکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی و ینذرونکم لقاء یومکم هذا قالوا شهدنا علیٰ انفسنا و غرتهم الحیوٰة الدنیا و شهدوا علیٰ انفسهم انهم کانوا کافرین )

اے گروہ جن و انس! کیا تمہارے پاس تم میں سے کوئی رسول نہیں آئے کہ ہماری آیتوں کو تمہارے لئے بیان کرتے اور تمہیں ایسے دن کی ملاقات سے ڈراتے؟!

ان لوگوں نے کہا : (ہاں) ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں؛ اور انہیں زندگانی دنیا نے دھوکہ دیا: اور اپنے نقصان میں گواہی دیتے ہیں اسلئے کہ وہ کافر تھے!( ۴ )

۱۰۔( و اذ صرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القرآن فلما حضروه قالوا انصتوا فلما قضی ولوا الیٰ قومهم منذرین٭قالوا یاقومنا انا سمعنا کتاباً انزل من بعد موسیٰ مصدقاً لما بین یدیه یهدی الیٰ الحق و الیٰ طریق مستقیم ٭یا قومنا اجیبوا داعی الله و آمنوا به یغفرلکم

____________________

(۱)نسائ۱۶۳۔۱۶۵(۲)آل عمران۳۔۴(۳)ذاریات ۵۶(۲)انعام۱۳۰

۱۳۹

من ذنوبکم و یجرکم من عذاب الیم٭و من لا یجب داعی الله فلیس بمعجزٍ فی الارض و لیس له من دونه أَولیاء اولئک فی ضلالٍ مبین ) ۔

اور جب ہم نے جن کے ایک گروہ کو تمہاری طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن مبین کو سنیں؛ جب سب ایک جگہ ہوئے تو ایک دوسرے سے کہنے لگے: خاموش ر ہو! اور جب تلاوت تمام ہوگئی تو اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انہیں ڈرایا! اور کہا: اے میری قوم! ہم نے ایک ایسی کتاب کی تلاوت سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اور گز شتہ کتابوں کی تصدیق بھی کرتی ہے اور راہ راست اور حق کی ہدایت کرتی ہے ؛ اے میری قوم !اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لائو تاکہ وہ تمہارے گناہوںکو بخش دے اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے!اورجو اللہ کی طرف دعوت دینے والے کا جواب نہیں دے گا، وہ کبھی زمین میں عذاب الٰہی سے بچ نہیں سکتا اور اس کیلئے خدا کے علاوہ کوئی یا رو مددگاربھی نہیں ہے ، یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔( ۱ )

۱۱۔( قل اوحی الی انه استمع نفر من الجن فقالوا انا سمعنا قرآنا عجباً، یهدی الیٰ الرشد فامنا به ولن نشرک بربنا احدا٭ و انه تعالیٰ جد ربنا ما اتخذ صاحبةً و ولا ولداً٭ و انه کان یقول سفیهنا علیٰ الله شططاً٭ وانا ظننا ان لن تقول الانس و الجن علیٰ الله کذبا٭و انه کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقا٭ و انهم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث الله احدا٭ و انا لمسنا السماء فوجدنا ها ملئت حرساً شدیداً و شهباً٭و انا کنا نقعد منها مقاعد للسمع فمن یستمع الآن یجد له شهاباً رصدا و انا لا ندری اشر ارید بمن فی الارض ام ارادبهم ربهم رشداً٭ وانا منا الصالحون و منا دون ذلک کنا طرائق قددا٭ و انا ظننا ان لن نعجز الله فی الارض و لن نعجزه هرباً٭ و انا لما سمعنا الهدی آمنا به فمن یومن بربه فلا یخاف بخساً ولا رهقا٭ وانا منا المسلمون ومنا القاسطون فمن اسلم فاُولٰئک تحروا رشداً٭ و اما القاسطون فکانوا لجهنم حطباً٭ و ان لو استقاموا علیٰ الطریقة لاسقیناهم مائً غدقاً٭ لنفتنهم فیه و من یعرض عن ذکر ربه یسلکه عذاباً صعداً )

کہو!میری طرف وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوں نے میری باتوں پر توجہ دی اور بولے : ہم نے ایک عجیب

____________________

(۱)احقاف ۲۹۔۳۲

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

قيس ، بسر بن ارطاة اور ابوالاعور سلمى جيسے مشاورين كو اپنے پاس بلايا اور ان كے ساتھ مشورہ كيا اتفاق اس بات پر ہوا كہ وہ علاقے جو حضرت علىعليه‌السلام كى قلمرو حكومت ميں شامل ہيں حملہ كركے ان پر قبضہ كرليا جائے_

اس وقت مصر چونكہ خاص اہميت كا حامل تھا(جس كى وجہ يہ تھى كہ يہ منطقہ عراق كے مقابلے شام سے نزديك تر ہے اور وہاں كے اكثر و بيشتر لوگ عثمان كے مخالف تھے اس لئے بھى معاويہ كو اس منطقہ كى طرف سے تشويق لا حق رہتى تھى اس كے علاوہ مصر پر قبضہ ہوجانے كے بعد محصول كى آمدنى ميں اضافہ ہوسكتا تھا اور وہاں كى انسانى طاقت كو حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف استعمال كياجاسكتاتھا) اسى لئے اس نے يہ خاكہ تيار كياكہ عثمان كے طرفداران عناصر كو جو مصر ميں ہيں بروئے كار لائيں اور لشكر كشى كا آغاز وہاں سے كياجائے اس سے قبل كہ وہ اس طرف اپنے فوجى طاقت روانہ كريں انہوں نے ''معاويہ بن خديج'' اور '' مسلمہ بن مخلد'' جيسے اپنے ہوا خواہوں كو خط لكھا اور اس ميں اس بات كا تذكرہ كيا كہ كثير تعداد ميں ميرى سپاہ جلد ہى تمہارى مدد كے لئے پہنچ جائے گي(۲۷)

اس كے بعداس نے تقريبا چھ ہزار سپاہى عمر و عاص كى زير فرماندارى روانہ كئے اس كى چونكہ ديرينہ آرزو تھى كہ اس منطقہ پر حكمرانى كرے اسى لئے اس طرف روانہ ہوگيا عثمان كے طرفدار بھى بصرہ سے چل كر اس كے ہمراہ ہوگئے_

اس سے قبل كہ شہر ميں داخل ہوں عمر وعاص نے محمد بن ابى بكر كو خط لكھا جس ميں انہيں يہ تنبيہ كى كہ اس سے پہلے كہ شام كى سپاہ تمہارا سر تن سے جدا كردے تم خودہى اپنے عہدے سے برطرف ہوجاؤ اور بصرہ سے نكل كر كسى بھى طرف چلے جاؤ_

محمد بن ابى بكر نے اپنے خط كے ساتھ عمر و عاص كامراسلہ اور معاويہ كا عريضہ حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں روانہ كرديا اور آپ سے مدد كے طالب و خواستگار ہوئے_

حضرت علىعليه‌السلام نے محمد بن ابى بكر كو جو خط لكھا اس ميں آپعليه‌السلام نے انہيں ہدايت كى تھى كہ

۳۰۱

استقامت اور پايدارى سے كام ليں اور شہر كى حفاظت كے پورے انتظامات كئے جائيں اس كے ساتھ ہى آپ عليه‌السلام نے حكم دياكہ كنانہ بن بشر كو چونكہ آزمودہ ، با تجربہ اور جنگجو سردار سپاہ ہيں حملہ آوروں كى جانب روانہ كياجائے اور مصر ميں بھى اپنے لوگوں كو جو بھى سوارى ميسر آسكے اس كے ہمراہ تمہارى طرف روانہ كر رہاہوں(۲۸)

اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا كہ : نابغہ زادہ(۲۹) كثير سپاہ لے كر مصر پر حملہ كرنے كى غرض سے روانہ ہوا ہے محمد بن ابى بكر اور ديگرى مصرى بھائيوں كو تمہارى مدد كى ضرورت ہے جس قدر جلد ممكن ہوسكے ان كى داد و فرياد كو پہونچو كہيں ايسا نہ ہو كہ مصر تمہارے ہاتھ سے نكل جائے اگر يہ ملك تمہارے ہاتھ ميں رہے تو باعث عزت و شرف ہے اور تمہارے دشمنوں كى كمزورى اور ناتوانى كا سبب كل كے لئے يہ ہمارى وعدہ گاہ ہے اور جرعہ كى فوجى چھاوني(۳۰)

حضرت علىعليه‌السلام دوسروں سے پہلے ہى سپاہ كى لشكر گاہ(چھاؤني) ميں تشريف لے گئے وہاں آپعليه‌السلام نے ظہر كے وقت تك انتظار كيا جو لوگ وہاں پہونچے ان كى تعداد سو سے بھى كم تھى مجبورا كوفہ كى جانب روانہ ہوگئے جب رات ہوئي تو آپعليه‌السلام نے قبائل كے سرداروں كو بلايا اور فرمايا كہ : حمد و تعريف خدا كى قضاء و قدر نے ميرے باعث تمہيں آزمائشے ميں مبتلا كيا لوگو ميں نے جب بھى تمہيں حكم ديا تم نے اس كى اطاعت نہيں كى اور جب بھى ميں نے تمہيں اپنى طرف آنے كى دعوت دى تم نے اسے قبول نہ كيا اپنى مدد اور راہ حق ميں جہاد كرنے كے لئے تم كس چيز كے منتظر ہو؟ موت چاھتے ہو يا ذلت و خواري كيا تمہارے پاس وہ دين و ايمان نہ رہا جو تمہيں متحد كر سكے كيا اب تم ميں وہ غيرت و حميت باقى نہيں رہى جو تمہيں جہاد كى جانب جانے كے لئے ترغيب دلا سكے كيا يہ بات باعث حيرت نہيں كہ معاويہ پست فطرت ، ظالم و جفا كار لوگوں كو جمع كرنے كے لئے كہے اور وہ اس كے گرد جمع ہوجائيں اور صلہ و انعام كى تمنا كئے بغير اس كى اطاعت و پيروى كريں ليكن اس كے برعكس جب ميں تم كو جو اسلام اور ہمت و مردانگى كى يادگار رہ گئے ہو اپنى طرف آنے كى دعوت ديتا ہوں تو ميرى مخالفت كرتے ہو تم مجھے اكيلا نہ چھوڑو اور

۳۰۲

انتشار و پراكندگى سے گريز كرو (۳۱)

حضرت علىعليه‌السلام كى تقرير نے مالك بن كعب كى غيرت كو للكاراوہ مجمع كے درميان سے اٹھ كھڑے ہوئے كہ جہاد پر جانے كيلئے تيار ہيں حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے خدمتگذار سعد سے كہاكہ لوگوں ميں جاكر منادى كريں اور مالك كے ہمراہ مصر كى جانب روانہ ہوں چنانچہ ايك ماہ گذرجانے كے بعد مالك كے گرد دوہزار افراد جمع ہوگئے تو مصر كى جانب انہوں نے كوچ كياپانچ روز تك سفر كرنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كے نمائندے نے يہ اطلاع پہنچائي كہ محمد بن ابى بكر شہيد ہوگئے يہ خبر سن كر مالك حضرت علىعليه‌السلام كے حكم بموجب واپس كوفہ آگئے(۳۲)

محمد بن ابى بكر كى شہادت

محمد بن ابى بكر كو جب حضرت علىعليه‌السلام كا خط ملا تو انہوں نے معاويہ اور عمر و عاص كو تند لہجے ميں قطعى جواب ديااس كے ساتھ ہى انہوں نے اپنى سپاہ كو دعوت دى كہ حملہ آوروں سے جنگ و پيكاركريں جن لشكروں نے نبرد آزمائي كا اعلان كياان كى تعداد تقريبا دو ہزار افراد ہوگئي چنانچہ انھيں كنانہ بن بشر كى زير قيادت و فرماندارى دشمن كى جانب روانہ كيا اور خود بھى دو ہزار افراد كو ساتھ ليكر ان كے پيچھے كوچ كيا پہلے قصبے ميں شام كے پيشگام سپاہ نے پے در پے حملوں كے باعث مصر كى مختصر دفاعى قوت كا قطع قمع كرديا عمر و عاص نے معاويہ بن خديج كو پيغام بھيجا اور اس سے مدد طلب كى تھوڑى ديرنہ گذرى تھى كہ معاويہ بن خديج نے ميدان كارزار كو لشكريوں سے بھرديا_

مصريوں كے مخالف اپنى پورى طاقت كے ساتھ كنانہ كے مقابل جمع ہوگئے انہوں نے جب يہ ديكھا كہ دشمن كے ہر طرف سے سخت دباؤ كے باعث وہ اپنے گھوڑے كو حركت نہيں دے سكتے تو وہ چھلانگ لگا كر زمين پر گركئے ان كے ساتھى بھى انہيں ديكھ كرگھوڑوں سے اتر گئے كنانہ جس وقت دشمن كے سپاہيوں كو برى طرح كچل رہے تھے يہ آيت ان كے زبان پر تھي_

۳۰۳

) و ما كان لنفس ان تموت الا باذن الله كتبا موجلا ( (۳۳)

چنانچہ آپ اس قدر دشمن سے بر سر پيكار رہے كہ شہيد ہوگئے_

كنانہ بن بشر كى شہادت كے بعد محمد بن ابى بكر كے اطراف سے فرماندارى كا سلسلہ چونكہ ٹوٹ چكا تھا اس لئے جو سپاہ باقى رہ گئي تھى وہ منتشر اور پراگندہ ہوگئي ناچار انہوں نے بھى ايك ويرانے ميں پناہ لى _مصر كے شورش پسندوں كے رہبر ابن خديج نے انكى تلاش شروع كى اور انہيں اس ويرانے ميں چھپا ہوا پايا اور گرفتار كيا پہلے شمشير سے سر كو تن سے جدا كيا اسكے بعد جسم كو مرے ہوئے گدھے كى كھال ميں بھر كر آگ لگادى(۳۴)

جب محمد بن ابى بكر كے قتل كى خبر معاويہ اور عمر عاص كے پاس ملك شام ميں پہونچى تو انہوں نے انتہائي مسرت اور شادمانى كااظہار كياعبداللہ ابن مسيب كا كہنا ہے كہ جس وقت محمدبن ابى بكر كے قتل كئے جانے كى خبر ملك شام ميں پہنچى تو اس موقع پر جسقدر خوشى اور مسرت كا اظہار كياگيا ايسى خوشى و مسرت و شادمانى ميں نے كبھى نہيں ديكھى تھي(۳۵)

ليكن ان كى شہادت كى خبر جب امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كو ملى تو آپ نے فرمايا كہ : ان كے قتل كئے جانے كا غم و اندوہ اتناہ ہى ہے جتنا معاويہ كو اس كا سرور _جب سے ميں نے ميدان كارزار ميں قدم ركھا مجھے كسى كے قتل كئے جانے كا اتنا صدمہ نہيں ہوا جتنا اس كى وجہ سے ہوا ہے وہ ميرے اپنے گھر ميں پل كر جو ان ہوا اور ميں نے اسے اپنى اولاد كى طرح سمجھا وہ ميرا حقيقى خيرخواہ تھا ايسے شخص كى وفات پر جس قدر رنج و غم كياجائے بجا ہے خدا سے دعا ہے كہ وہى اس كى جزا دے(۳۶)

لوگوں كى تنبيہ و سرزنش

محمد بن ابى بكر كى رقت انگيز شہادت اور لوگوں كى پے در پے تباہ كاريوں كے باعث اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بہت زيادہ آزردہ خاطر ہوئے چنانچہ جب يہ اطلاع ملى كہ عمر و عاص نے

۳۰۴

مصر پر قبضہ كر ليا تو آپعليه‌السلام نے واضح طور پر لوگوں كو سخت سست كہنا شروع كرديا اور فرمايا كہ تم وہ لوگ ہو جوكسى كے خون كا بدلہ لينے ميں ميرى مدد نہيں كر سكتے اگر كوئي گتھى الجھ جائے تم اسے سلجھا نہيں سكتے پچاس دن سے زيادہ ميں تمہارے سامنے داد و فرياد كرتا رہا كہ بھائيو آؤ اور ميرى مدد كرو مگر تم اس اونٹ كى طرح كلبلاتے رہے جو درد شكم كے مارے تڑپ رہا ہو تمہارى حالت اس شخص كى سى ہے جو راہ جہاد ميں تو نكلے مگريہ سوج كر كہ اس كام سے مجھے حاصل كيا ہوگا زمين پكڑے بيٹھے رہے يہاں تك كہ تم ہى ميں سے ايك مختصر سپاہ كى جماعت تھى جنہيں ديكھ كر لگتا تھا كہ خود كو جان بوجھ كر موت كے منہ ميں دھكيل رہے ہيں افسوس تمہارى حالت زار پر(۳۷)

حضرت علىعليه‌السلام كے رنج و اندوہ كايہ عالم تھا كہ زندگى سے بيزارى اور يہ آرزو كرنے لگے كہ جس قدر جلد ہو سكے موت آجائے تا كہ ان لوگوں كى ہمنشينى كے سخت و سنگين بار سے نجات ملے_

حضرت علىعليه‌السلام نے حضرت ابن عباس كوجو خط مرقوم فرمايا تھا اس ميں آپعليه‌السلام نے اس احساس كرب كا اظہار اس طرح كيا تھا: مصر كو دشمن نے فتح كر ليا محمد بن ابى بكر شہادت سے ہمكنار ہوئے ميں نے لوگوں كو بار بار ان سے ہمدوش ہونے اور ان كى مدد كرنے كى ترغيب دلائي اور كہا اس سے پہلے كہ پانى سرسے گذر جائے تم ان كى داد و فريادكو پہنچو چند لوگ تيار بھى ہوئے مگر بد دلى كے ساتھ كچھ عذر و بہانہ كر كے عليحدہ ہوگئے اور بعض نے تو ان كى مدد كرنے سے قطعى ہاتھ اٹھايا اورگھروں ميں گھس گئے ميں تو خدا سے يہى دعا كر رہا ہوں كہ مجھے ان لوگوں كے چنگل سے نجات دلائے اور ان سے رہائي كى كوئي سبيل نكل آئے_

خدا كى قسم دشمن كے ساتھ جنگ و پيكار كرتے وقت شہادت كى آرزو نہ ہوتى اور ميں نے راہ خدا ميں خود كو مرنے كيلئے آمادہ نہ كر ليا ہوتا تو ميں اس بات كو ترجيح ديتا كہ ايسے لوگوں كا ايك دن بھى منھ نہ ديكھوں اور ان كے پاس سے بھى نہ گذروں(۳۸)

۳۰۵

سوالات

۱_ جنگ نہروان كس كى طرف سے شروع ہوئي اس ميں كون فاتح رہا؟

۲_ ذوالثديہ كس شخص كا نام تھارسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كے بارے ميں كيا فرمايا تھا؟

۳_ غلات كون تھے او ر ان كے وجود ميں آنے كى كيا اسباب تھے؟

۴_ جنگ نہروان كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۵_ صوبہ دار مصر كو تبديل كرنے كى كيا وجہ تھي؟

۶_ مالك اشتر كى كہاں اور كيسے شہادت ہوئي؟

۷_ كن محركات كى بنا پر معاويہ نے اسلامى حكومت كے قلمرو پر حملہ كرنامصر سے شروع كيا؟

۸_ محمد بن ابى بكر كى شہادت كس شخص كے ہاتھوں اور كس طرح ہوئي؟

۳۰۶

حوالہ جات

۱_ الامامة و السياسة ج ۱ ص ۱۲۸ ، كامل بن اثير ج ۳ ص ۳۴۶ ، تاريخ طبرى ج ۵ص ۸۶

۲_ الامامة و السياسة ج ۱ ص ۱۲۸_

۳_ الان حل قتالہم احملوا على القوم مروج الذہب ج ۲ ص ۴۰۵_

۴_ شرح نہج البلاغہ علامہ خوئي ج ۴ ص ۱۳۶ ، منقول از كشف الغمہ

۵_ مروج الذہب ج ۲ ص ۴۰۶

۶_ نہج البلاغہ كلمات قصار ۳۲۳

۷_مروج الذہب ج ۲ ص ۴۰۷ و الامامة والسياسة ج ۱ /۱۲۸

۸_ نہج البلاغہ خطبہ ۹۳

۹_ غلات اور غاليہ علىعليه‌السلام كے عقيدت مندوں كا وہ گروہ تھا جس نے آپعليه‌السلام كے بارے ميں اس قدر مبالغے سے كام ليا كہ دائرہ مخلوق سے نكال كر الوہيت كے سراپردے تك لے آيا ملل و نحل شہرستانى ج ۱ ص ۲۳۷

۱۰_ ہلك فيّ رجلان محب غال و مبغض قال، نہج البلاغہ كلمات قصار ۱۱۷

۱۱_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۵_

۱۲_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۷

۱۳_ الامامة و السياسة ج ۱ ۱۲۸ ، تاريخ طبرى ج ۸۹۵، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۴۹ ، طبرى لكھتے ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام سے يہ گفتگو اشعث نے كى تھي_

۱۴_ الامامة و السياسة ج ۱ ص ۱۲۹

۱۵_ ان ميں سے كچھ نے بيمارى كا بہانہ بنايا اور خود كو بيمار ظاہر كيا حالانكہ وہ بيمار نہ تھے بلكہ وہ جنگ سے فرار چاہتے تھے_

۱۶_ كامل ابن اثير ج ۳۴۹۳ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۹۰ ، الامامة و السياسة ، ج ۱ ، ص ۱۲۹، غارات ج ۱ ص ۳۵_

۱۷_ الامامة و السياسة ج ۱ ص ۴۷

۱۸_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۷۹

۳۰۷

۱۹_ مصر كى فرمان دارى پر مامور ہونے سے قبل حضرت مالك اشتر موصل ،نصيبين، داراسنجار ، آمد، ہيت اور عانات كے والى رہ چكے تھے شرح نہج البلاغہ ناصر مكارم ج ۳ ص ۴۵۵

۲۰_ نصيبين آباد جزيرہ كاشہر اوور شام ميں موصل كے مقام پرہے معجم البلدان ۵ ج /۲۸۸

۲۱_ اس بارے ميں اختلاف ہے كہ حضرت مالك اشتر كو محمد بن ابى بكر كى شہادت سے قبل صوبہ دار مقرر كيا گيا يا اس واقعے كے بعد مورخين كے نزديك يہى قول مشہور و معتبر ہے اس كے علاوہ نہج البلاغہ كا مكتوب ۳۴ جو محمد بن ابى بكركو لكھا گيا تھے اور اس بتايا تھا كہ ان كا تبادلہ كس وجہ سے عمل ميں آيا ہے اس امر كى تائيد كرتا ہے ليكن علامہ مفيد (مرحوم) نے اپنى كتاب امالى ميں دوسرے قول كو قابل قبول قرار ديا ہے ملاحظہ ہو الغارات ج ۱ ص ۲۵۷ حاشيہ

۲۲_ الغارات ج ۱ ۲۵۸ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۶ /۷۴

۲۳_ يہ مصر كے راستے ميں ايك بستى تھى يہاں سے مصر كا فاصلہ تين دن كا تھا معجم البلدان ج ۴ ص ۳۸۸

۲۴_ الغارات نامى كتاب كے مصنف نے اس كا نام '' خراخر'' لكھا ہے ملاحظہ ہو الغارات ج ۱ ص ۲۵۹

۲۵_ الغارات ج ۱ ص ۲۶۴_ ۲۵۹

۲۶_مالك و ما مالك و الله لو كان جبلا لو كان فندا ولو كان حجرا لكان صلدا لايرتقيه الحافر و لايوقى عليه الطائر (نہج البلاغہ _ كلمات قصار ۴۴۳، الغارات ج ۱ ص ۲۶۵)الغارات كے مصنف نے يہ واقعہ قدرے مختلف طور پر بيان كيا ہے_

۲۷_ كانت لعلى بن ابى طالب يدان يمينان فقطعت احداهما يوم صفين يعنى عمار و قطعت الاخرى اليوم و هو مالك اشتر الغارت ج ۱ ص ۲۶۴، كامل ابن اثيرج۳ ص ۳۵۳

۲۸_ شرح نہج ا لبلاغہ ابن ابى الحديد ج ۶ ص ۸۱

۲۹_ الغارات ج ۱ ص ۲۸۰ ۲۷۶، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۸۵_۸۲، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۵۶

۳۰_ عمروعاص كى ماں كا نام تھا

۳۱_ يہ جگہ كوفہ كے باہر خيرہ و كوفہ كے درميان وقع ہے_

۳۲_ نہج البلاغہ ج ۱۸۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۶ ص ۹۰، و لغارات ج ۱ ص ۲۹۰

۳۰۸

۳۳_ الغارات ج ۱ ص ۲۹۴_ ۲۹۲و ۷ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۶ /۹۱

۳۴_ كوئي ذى روح اللہ كے اذن كے بغير نہيں مرسكتا موت كا وقت تو لكھا ہوا ہے(آل عمران آيہ ۱۴۵)

۳۵_ الغارات ج ۱ ص ۲۸۲، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۶/ ۸۶، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۵۷

۳۶_ الغارات ج ۱ ص ۲۸۲، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۲ ص ۸۶، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۵۷

۳۷_ مروج الذہب ج ۲/ ۴۰۹

۳۸_ الغارات ج ۱ ص ۲۹۷

۳۹_ نہج البلاغہ مكتوب ۳۵ ، الغارات ج ۱/ ۲۹۸

۳۰۹

سولھواں سبق

نہروان كے بعد

دہشت پسند اور غارتگر گروہ

۱_ نعمان بن بشير

۲_ سفيان بن عوف

۳_ عبداللہ بن مسعدہ

۴_ ضحاك بن قيس

۵_ بسربن ارطاہ

حضرت علىعليه‌السلام كارد عمل

معاويہ كے تجاوز كارانہ اقدام كا نتيجہ

دو متضاد سياسى روشيں

فتنہ خرّيت

آخرى سعى و كوشش

حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف دہشت پسندانہ سازش

شہادت كا انتظار

شہادت

سوالات

حوالہ جات

۳۱۰

دہشت پسند اور غارتگر گروہ

معاويہ كو اس اقتدار كے باوجود جو اس نے حاصل كيا تھا اور اس اثر و رسوخ كے بعد بھى جو س كا شام كے لوگوں پر ہوگيا تھا نيزہ سپاہ عراق ميں ہر طرح سے انتشار و پراگندگى پيدا كر كے بھى يہ اطمينان نہ تھا كہ اگر اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے مركز حكومت پر حملہ كرے گا تو وہ كامياب ہوجائے گا اس نے جنگ صفين كے دوران جو ہولناك مناظر اپنى آنكھوں سے ديكھے تھے اور حضرت علىعليه‌السلام كى تلوار كے جن واروں كو اس نے سہاتھا وہ اس امر كے متقاضى نہ تھے كہ ايسا كوئي اقدام كرے_ اسے اب تك جو كاميابى نصيب ہوئي تھى وہ سب حيلہ و نيرنگ كا نتيجہ تھى چنانچہ اس كے ساتھيوں نے جب بھى يہ تجوير پيش كى كہ كوفہ پر حملہ كيا جائے تو اس نے اس كا جواب نفى ہى ميں ديا اس ضمن ميں اس نے كہا كہ عراق كے لوگوں كو شكست دينے اور پراگندہ فوجى دستے عراق كے مختلف علاقوں ميں سركشى و غارت گرى كرتے رہيں كيونكہ يہى ايسا طريقہ ہے جس كے ذريعے ہمارے حامى و طرفدار بتدريج طاقت ور ہوتے چلے جائيں گے اور عراق كا محاذ شكست و ريخت اور خوف و خطر ميں مبتلا رہے گا جب عراق كے اشراف و سربرآوردہ لوگ يہ كيفيت ديكھيں گے تو وہ خود ہى علىعليه‌السلام كا ساتھ چھوڑ كر ہماى طرف آنے لگيں گے_

اس فيصلے كے بعد اس نے نعمان بن بشير، سفيان بن عوف، عبداللہ بن مَسعَدہ اور ضحاك بن قيس جيسے فرمانداروں كى زير قيادت سپاہ كے دستے منظم كئے اور انھيں عراق كے مختلف علاقوں ميں روانہ كيا تا كہ اس فرمان كو جس ميں مسلمانوں كے لئے تباہى و بربادى اور خوف و دہشت كے عناصر شامل تھے جارى و سارى كرسكے_

يہاں ہم ان ہلاكت بار تجاوزات كى درد انگيز داستان بيان كرنے كے ساتھ ہى ان افراد كا

۳۱۱

مختصر تعارف كرائيں گے جو ان دستوں كے سرغنہ و سردار تھے_

۱_ نعمان بن بشير

وہ انصار اور طائفہ خزرج ميں سے تھا عثمان كے زمانے ميں جو شورشيں ہوئيں ان ميں اس نے خليفہ وقت كا ساتھ ديا_

عثمان كے قتل كے بعد ان كا خون آلودہ كرتا وہ ملك شام لے كرگيا اور معاويہ كو پيش كيا اور يہيں سے وہ معاويہ كا حامى و طرفدار ہوا معاويہ كى طرف سے كچھ عرصہ حاكم كوفہ بھى رہا اور اس كے بعد اسے '' حمص'' كا حاكم مقرر كيا گيا _

معاويہ نے اسے ۳۹ ھ ميں دوہزار افراد كے ساتھ '' عين التمر''(۱) كى جانب روانہ كيا اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے فوجى محافظ دستے پر جو تقريبا سو افراد پر مشتمل تھا اس نے حملہ كيا ليكن دلاور مدافعين نے اپنى تلواروں كى نيا ميں توڑ كر پورى پا مردى و جانبازى سے دفاعى مقابلہ كيا اس عرصے ميں تقريبا پچاس افراد ان كى مدد كے لئے وہاں آن پہنچے نعمان كے سپاہيوں كو يہ گمان گذرا كہ مدافعين كے پاس مدد كے لئے جو لشكر پہنچا ہے اس كى تعداد بہت زيادہ ہے چنانچہ راتوں رات وہ اس جگہ سے بھاگ نكلے اور شام كى جانب رخ كيا_

۲_ سفيان بن عوف

اسے معاويہ كى طرف سے اس مقصد كے تحت مقرر كيا گيا تھا كہ عراق كے بعض مقامات پر حملہ كريں معاويہ نے رخصت كرتے وقت اسے يہ تاكيد كى تھى كہ :

تمہارے سامنے كوئي بھى ايسا شخص آئے جو تم سے متفق و ہم خيال نہ ہوا سے بے دريغ قتل كردينا تمہارے راستے ميں جو بھى بستياں آئيں انھيں ويران كرتے چلے جانا لوگوں كے مال و متاع كو لوٹ لينا كيونكہ لوٹ مار بھى قتل كرنے كے برابر ہى ہے بلكہ بعض اوقات غارتگرى قتل سے زيادہ جانگداز و مہلك ثابت ہوتى ہے_

چلتے وقت اسے يہ ہدايت بھى كى كہ پہلے شہر '' ہيت''(۲) پر حملہ كرنا اس كے بعدانبار اور

۳۱۲

مدائن كے شہروں پر قبضہ كرنا سفيان بن عوف چھ ہزار سپاہيوں كو ساتھ لے كر روانہ ہوا جب شہر ہيت ميں اسے كوئي نظر نہ آيا تو اس نے شہر انبار پريورش كى محافظين شہر كو كثير تعداد ميں قتل كرنے كے بعد اس نے شہر ميں كشت و كشتار اور غارتگرى كا بازار گرم كيا اور بہت ساماں جمع كر كے وہ شام كى طرف واپس آگيا_(۳)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو جب اس واقعے كى اطلاع ملى تو آپعليه‌السلام نے جہاد كى فضيلت كے بارے ميں مفصل تقرير كى اور بتايا كہ جو لوگ اس اسلامى فرض سے روگردانى كرتے ہيں وہ كيسے ناگوار نتائج سے دوچار ہوتے ہيں اس ضمن ميں آپعليه‌السلام نے فرماياكہ : ميں شب و روز پنہاں و آشكارا تمہيں اس گروہ سے بر سر پيكار ہونے كى دعوت ديتا رہا ميں نے تمہيں يہ ہدايت كى كہ اس سے پہلے وہ تمہارے ساتھ نبرد آزما ہوں تم ہى ان پر وار كردو ليكن تم نے سستى سے كام لياور فرض جہاد كو ايك دوسرے پر ٹالتے رہے چنانچہ نوبت يہاں تك آن پہنچى كہ تم پر ہر طرف سے پے در پے حملے كئے جانے لگے تمہيں غارتگرى كا نشانہ بنايا جانے لگا اور اب تمہارى زمين و جائيداد كے مالك دوسرے لوگ ہوئے ہيں يہ شخص جس نے اپنى سپاہ كو ساتھ لے كر شہر انبار پر حملہ كيا '' غامد'' قبيلے كا ہے اس نے فرماندار شہر حسان بن حسان بكرى كو قتل كيا اور تمہارى سپاہ كو اس نے ان كى عسكر گاہوں سے باہر نكل ديا ہے_

مجھے يہ اطلاع ملى ہے كہ ان ميں سے ايك شخص ايك مسلم خاتون اور اس اہل كتاب عورت كے گھر ميں جو مسلمانوں كى زير حمايت زندگى بسر كرتى تھى داخل ہوا اور ان كے زيورات ان كے جسموں پر سے اس نے اتار لئے اس كے بعد بہت سال غنيمت جمع كر كے وہ اور اس كے ساتھى واپس چلے گئے _ ديكھنے كى بات يہ ہے كہ ان غارتگروں ميں سے نہ تو كوئي زخمى ہوا اور نہ ہى كسى كے خون كا قطرہ زمين پر گرا ا س واقعے كے بعد اگر ايك سچا مسلمان غم و افسوس كے باعث مرجائے يا ڈوب مرے تو بجا ہوگا اور وہ قابل سرزنش بھى قرار نہ ديا جائيگا_(۴)

۳۱۳

۳_ عبداللہ بن مسعدہ

ابتدا ميں وہ حضرت علىعليه‌السلام كے حامى و طرفداروں ميں سے تھا ليكن دنيا پرستى كے باعث كچھ عرصہ بعد معاويہ كے ساتھ جاملا اور اس كا شمار حضرت علىعليه‌السلام كے سخت ترين دشمنوں ميں كيا جانے لگا_

معاويہ نے اسے سترہ سو افراد كے ساتھ '' تيمائ''(۵) كى جانب روانہ كيا اور يہ حكم ديا كہ جس بستى ميں سے بھى گذرنا اس سے زكات كا مطالبہ كرنا اور جو شخص ادا كرنے سے منع كرے اسے قتل كرڈالنا _عبداللہ مكہ اور مدينہ كے شہروں سے گذرا جب حضرت علىعليه‌السلام كو اس كى روانگى كى اطلاع ملى تو آپعليه‌السلام نے مسيب بن نجبہ فزارى كو دو ہزار افراد كے ساتھ ان كا مقابلہ كرنے كے لئے روانہ كيا تيماء ميں دونوں حريف لشكر ايك دوسرے كے مقابل آگئے دونوں كے درميان سخت معركہ ہوا جس كے باعث شامى لشكر كا فرماندار زخمى ہوا اور مسعدہ راتوں رات شام كى جانب بھاگ گيا(۶)

۴_ ضحاك بن قيس

وہ معاويہ كى فوج كا فرماندار تھا وہ كچھ عرصہ تك محافظين شہر دمشق كا صدر امين رہا اور بعد ميں كوفہ كى حكومت بھى اسے تفويض كى گئي اس نے معاويہ كے حكم پر تين ہزار سپاہيوں كو ساتھ ليكر سرزمين '' نعلبيہ''(۷) كى جانب رخ كيا اس كے گرد و نواح كے ان تمام قبائل كو اس نے اپنى غارتگرى كا نشانہ بنايا جو حضرت علىعليه‌السلام كے مطيع و فرمانبردار تھے اس كے بعد وہ كوفہ كى جانب روانہ ہوا راستے ميں اسے قطقطانہ(۸) نامى علاقے ميں عمربن عميس سے سامنا ہوا وہ زيارت حج بيت اللہ كيلئے تشريف لے جارہے تھے ضحاك بن قيس نے انھيں اور ان كے قافلے كو لوٹ ليا اور انھيں اپنے مقصد كى طرف جانے سے روكا( ۹)

حضرت علىعليه‌السلام نے ان كا مقابلہ كرنے كے لئے حجربن عدى كو چار ہزار سپاہيوں كے ہمراہ ان كے راستے پر روانہ كيا حجر كا ضحاك سے ''تدمر''(۱۰) نامى مقام پر مقابلہ ہوا جس ميں سپاہ كے اُنيس سپاہى مارے گئے اس كے بعد ان كى سپاہ فرار كر كے شام كى جانب چلى گئي_(۱۲)

۳۱۴

۵_ بسر بن ارطاہ

قبيلہ قريش ميں سے تھا عراق و حجاز كى جانب معاويہ نے جو فرماندار روانہ كيئے تھے ان ميں اس كا شمار خونخوارترين فرماندار كى حيثيت سے ہوتا ہے رخصت كرتے وقت معاويہ نے اس سے كہا تھا كہ مدينہ پہنچنے كيلئے روانہ ہوجاؤ راستے ميں لوگوں كو منتشر و پراگندہ كرتے رہنا سامنے جو بھى آئے اسے خوفزدہ ضرور كرنا جو لوگ تمہارى اطلاعت سے انكار كريں ان كے مال و متاع كو تباہ و غارت كردينا بسربن ارطاة تين ہزار افراد كو ساتھ لے كر مدينہ كى طرف روانہ ہوا وہ جس بستى سے بھى گزر جاتا وہاں كے مويشيوں پر قبضہ كرليتا اور انھيں اپنے لشكريوں كے حوالے كرديتا مدينہ پہنچ كر اس نے تقرير كى جس ميں دل كھول كر مسلمانوں پر سخت نكتہ چينى كى اور جو نہ كہنا تھا وہ تك كہا اس كے ساتھ ہى انھيں مجبور كيا كہ اس كے ہاتھ پر بيعت كريں بہت سے گھروں كو نذر آتش كرنے كے بعد ابوہريرہ كو اپنا جانشين مقرر كيا اور خود مكہ كى جانب روانہ ہوگيا راستے ميں قبيلہ خزاعہ كے بہت سے لوگوں نيز چند ديگر افراد كو قتل كيا اور ان كے مال كو لوٹ كر قبضے ميں كرليا_ مكہ پہنچ كر اس نے ابولہب كى اولاد ميں سے بہت سے لوگوں كو تہ تيغ كر ڈالا اور يہاں سے '' سراة '' كى جانب روانہ ہوا جہاں اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے حامى و طرفداروں كو قتل كر ڈالا '' نجران'' اور يمن ميں اس نے كشت و كشتار كا خوب بازار گرم كيا يہى نہيں بلكہ فرماندار يمن عبيداللہ بن عباس كے دوكم سن بچوں كے سر تك اس نے اپنے ہاتھ سے قلم كئے قتل و غارتگرى اور كشت و كشتار كا بازار گرم كرنے اور تقريبا تيس ہزار كوتہ و تيغ كرنے كے بعد وہ واپس ملك شام پہنچ گيا(۱۲)

حضرت علىعليه‌السلام كار و عمل

حضرت علىعليه‌السلام كو جب بسر بن ارطاة كے بزدلانہ حملوں كا علم ہوا تو آپعليه‌السلام نے لوگوں كواس مقابلہ كرنے كى دعوت دى اور فرمايا: كہ مجھے اطلاع ملى ہے كہ بسر نے يمن پر قبضہ كرليا ہے خدا شاہد ہے كہ مجھے اس بات كا علم تھا كہ يہ لوگ جلد ہى تم پر غالب آجائيں گے جس كى وجہ يہ ہے كہ

۳۱۵

وہ باطل پر تو ہيں مگر يكجا ہيں اس كے برعكس تم حق پر ہو مگر منتشر و پراگندہ_ تمہارے رہبر و پيشوا نے تمہيں راہ حق پر چلنے كے لئے كہا مگر تم نے نافرمانى كى وہ آج باطل پر ہيں مگر اپنے سردار كے مطيع و فرمانبردار ہيں _

وہ اپنے رہبر كے ساتھ امانت دارى سے كام ليتے ہيں اور تم خيانت كرتے ہو وہ اپنے شہروں ميں اصلاح كے كام كر رہے ہيں اور تم فساد بپا كئے ہوئے ہو ميں تمہارے پاس اگر قدح (پيالہ)بھى بطور امانت ركھوں تو اس بات كا احتمال ہے كہ اس كے گرد كوئي ڈورى بندھى ہوئي ہو تو وہ بھى چرالى جائے گي_(۱۳)

اہل كوفہ نے پہلے كى طرح اب بھى حضرت علىعليه‌السلام كے فرمان پر اپنى سرد مہرى دكھائي كچھ عرصہ گزرجانے كے بعد آپ نے ايك ہزار افراد پر مشتمل لشكر جاريہ بن قدّامہ كى زير فرماندارى ترتيب ديا جسے ساتھ لے كر جاريہ بصرہ كى طرف روانہ ہوئے حجاز كے راستے سے وہ يمن پہنچے بسر كو يہ اطلاع مل چكى تھى كہ جاريہ كا لشكر حركت ميں ہے چنانچہ اس نے يمامہ كى سمت كو ترك كر كے اپنا رخ دوسرى طرف موڑليا جاريہ منزلگاہ پر اترے بڑى تيزى كے ساتھ ان كا تعاقب كرنے كے لئے روانہ ہوگئے بسر ان كے خوف سے كبھى ايك طرف فرار كرجاتا اور كبھى دوسرى جانب يہاں تك كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى قلمرو و حكومت سے باہر چلاگيا لوگوں نے جب اسطرح فرار ہوتے ہوئے انہيں ديكھا تو اچانك ان پر حملہ كرديا جاريہ كے خوف نے اس كو ايسا سراسيمہ و وحشت زدہ كيا كہ اس كو نہ تو تحفظ و دفاع كا ہوش رہا اور نہ ہى اس مال كو وہ اپنے ساتھ لے سكا جسے اس نے قتل و غارتگرى سے جمع كيا تھا بسر كا مقابلہ كئے بغير جاريہ واپس كوفہ تشريف لے آئے_(۱۴)

معاويہ كے تجاوزكارانہ اقدام كا نتيجہ

شام كے جن سرپسندوں نے فتنہ و فساد كے بيچ بوئے تھے ان كى اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى زير حكومت قلمروپر پے در پے حملے سخت نقصان دہ نتائج كا باعث ہوئے ان ميں سے چند كا ذكر

۳۱۶

ذيل ميں كيا جاتا ہے _

۱_ وہ اسلامى معاشرہ جس ميں اب امن و سكون مجال ہونے لگا تھا دوبارہ بد امنى اور بحرانى كيفيات كا شكار ہونے لگا خوارج كا فتنہ ابھى دبا ہى تھا بصرہ و كوفہ ميں بھى معاويہ كى تحريك كے شرپسند حملہ آوروں نے مدينہ، مكہ، يمن ا ور ديگر شہروں ميں فتنہ و فساد بپا كرنا شروع كرديا_

۲_ وہ بزدل اور سست عقيدہ لوگ اس خوف و خطرہ كے باعث جو اس وقت ماحول پر مسلط تھا يہ سوچنے لگے كہ حكومت اس قابل نہيں كہ امن بحال كرسكے اور معاويہ كے حملے آور ہرجگہ پر اپنا قبضہ كرليں گے اس لئے وہ معاويہ كى جانب چلے گئے_

۳_ ديگر عوامل كے ساتھ غارتگر دستوں كے حملے اس امر كے باعث ہوئے كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام جنگ نہروان كے بعد اپنى منتشر و متفرق فوجى طاقت كو تيزى كے ساتھ يكجا جمع نہ كرسكے نيز ايسے محكم و مضبوط فوجي، سياسى اور اقتصادى تشكيلات بھى وجود ميں نہ آسكيں جن كے باعث معاويہ كا مقابلہ كيا جاسكتا_

۴_ وہ لوگ جو حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے حامى اور طرفدار تھے كثير تعداد ميں بزدلانہ حملوں ميں قتل ہوئے قبيلہ ہمدان كے سب ہى افراد حضرت علىعليه‌السلام كے پيرو و معتقد تھے وہ بسر كے حملوں كاشكار ہوئے جس ميں سارے مردوں كو قتل كرديا گيا اور عورتوں كو بُسر كى قيد ميں ڈال ديا گيا اور يہ وہ اولين مسلم خواتين تھيں جنہيں بردہ فروشوں كے بازار ميں لايا گيا_

دو متضاد سياسى روشيں

اوپر جو كچھ بيان كيا گيا ہے وہ چند نمونے اس سياسى روش و حكمت عملى كے ہيں جو معاويہ نے مطلق اقتدار حاصل كرنے اور حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كو تباہ و برباد كرنے كے لئے اختيار كى تھى اس كے مقابل ہم اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى انصاف پسندانہ و عدل گسترانہ سياسى راہ و روش كو ديكھتے ہيں چنانچہ جس وقت جاريہ بن قدامہ كو حضرت علىعليه‌السلام رخصت كرنے لگے تو آپ نے يہ نصيحت كى كہ :

۳۱۷

صرف جنگجو لوگوں سے ہى جنگ كرنا تم كو چاھے مجبورا پيدل سفر طے كرنا پڑے مگر عوام كے چوپايوں پر ہرگز نظر مت ركھنا جب تك كنوؤں اور چشموں كے مالك اجازت نہ دے ديں تم راستے ميں كسى كنويں اور چشمے كا پانى استعمال نہ كرنا كسى مسلمان كو فحش بات نہ كہنا جس سے تمہارا عہد و پيمان ہوجائے اس كے ساتھ عہد شكنى كر كے ظلم نہ كرنا اور ذرہ برابر خون نا حق نہ بہانا_ (۱۵)

جب ہم ان دو متضاد روشوں كا باہمى مقابلہ كرتے ہيں تو ديكھتے ہيں كہ ان ميں سے پہلى قتل و غارتگرى پر مبنى ہے اگر چہ يہ حكمت عملى بظاہر لوگوں كے مال و حقوق كا احترام كرتى ہے مگر چونكہ پہلا راستہ جس راہ سے گزر كر منزل مقصود تك پہنچتا ہے وہ اصول و ضوابط كے كسى دائرے ميں نہيں آتا اسى لئے وہ شرعى اور قانونى قواعد كى پابندى بھى نہى كرتا اس كے برعكس قانونى حدود اور انسانى قدريں دوسرے گروہ كى راہ ميں چونكہ مانع و حايل ہوتى ہيں اسى لئے وہ اسے ہرناجائز و ناروا كام كو انجام دينے سے روكتى ہيں _

حق گوئي اور عدل پسندى جيسى خصوصيات كى پابنديوں كے باعث حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ كے دنيا پرست افراد نے جہاد جيسے مقدس فرض كو انجام دينے ميں سستى و سہل انگارى سے كام ليا كيونكہ وہ اپنے سامنے ايسى جنگ ديكھتے تھے جس كا اجر اس دنيا ميں ان كے لئے موت كے سوا كچھ نہ تھا اگر وہ جنگ ميں كامياب ہوتے تو دشمن كے مال پر قبضہ نہيں كرسكتے تھے وہ كسى دشمن كو نہ تو اپنى مرضى سے قتل كرسكتے تھے اور نہ ہى اس كے بيوى بچوں كو اپنى قيد ميں ركھ سكتے تھے جب يہ شرائط و پابندياں عائد ہوں تو جنگ كس لئے كريں ؟ جنگ كے محركات احكام خداوندى كى پابندى اور انسانى فضائل پيش نظر ركھے جاتے تو ان كيلئے جنگ كرنا امر لاحاصل تھا اس كے برعكس اہل شام معاويہ كى ايك آواز پر فورا لبيك كہتے كيونكہ جنگ سے ان كے تمام حيوانى جبلتوں كو آسودگى ملتى جسے بھى وہ چاہتے قتل كرتے، كنيز و غلام بنا ليتے قتل و غارتگرى ہى ان كى آمدنى كا ذريعہ و وسيلہ تھا بالخصوص اہل شام ميں ان لوگوں كے جن كى تربيت اسلامى اصول كے مطابق نہيں ہوئي تھى حضرت علىعليه‌السلام نے كوفہ كے لوگوں سے خطاب كرتے ہوئے اس كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا

۳۱۸

تھا كہ جس چيز سے تمہارى اصلاح ہوتى ہے اور جو چيز تمہارى كجى كو درست كرتى ہے ميں اس سے واقف ہوں ليكن تمہارى اس اصلاح كو اپنے ضمير كى آواز كے خلاف ميں اور ناجائز سمجھتا ہوں (۱۶)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى ريا كار سياست مندوں كى راہ و ورش اختيار كرنے كے بجائے ہميشہ يہ كوشش رہى كہ عراق كے عوام كى اصلاح كے ذريعے عام لوگوں كے ضمير ميں اپنے جذبے كو بيدار كرتے رہيں نيز اسلامى معاشرے كى كمزورى اور دشمن كى طاقت كے عوامل كى جانب توجہ دلا كر انھيں اصلاح نفس و تہذيب اخلاق كى تعليم ديں تا كہ ان كى كمزوريوں كو دور كر كے انھيں دعوت حق قبول كرنے كى اصلاح دى جاسكے_

حضرت علىعليه‌السلام كے خطبات و ہمدردانہ نصائح ميں وہ تمام انسانى محركات اور مادى و معنوى پہلو موجود ہيں جن ميں عراق كے عوام كى فلاح و بہبود مضمر تھى چانچہ ہر درد و غم اور ہر كمزورى و ناتوانى كاعلاج ان پر كاربند رہ كر ہى كيا جاسكتا تھا اور اسى ميں ان كى فلاح و بہبود پنہاں تھى _

كوئي بھى فرد بشر وہ علم و اقتدار كے اعتبار سے خواہ كسى بھى مقام و منزلت پر ہو حضرت علىعليه‌السلام جيسى بصيرت نظر كے ساتھ اس كيفيت كو بيان نہيں كر سكتا تھا جو اس وقت عراق و شام پر مسلط و حكم فرما تھى اپنے رہبر كے حكم سے روگرداں ہو كر او رجہاد جيسے مقدم فرض سے كنارہ كشى كر كے عراق كے لوگوں كى كيا سرنوشت ہوسكتى تھى اسے حضرت علىعليه‌السلام سے بہتر كوئي دوسرا شخص بيان نہيں كرسكتا تھا اس كے ساتھ ہى آپعليه‌السلام نے بہترين دستور عمل پر كاربند رہنے كى ہدايت فرمائي تھى جس سے ان كى حالت فلاح و بہبود پاسكتى تھي_

ليكن عراق كے عوام آپعليه‌السلام كى نظر ميں ان سے كہيں بدتر تھے جنہيں معاويہ جنگ و پيكار كے لئے بھيجا كرتا تھا كيونكہ وہ دوستى كا لبادہ پہن كر آپعليه‌السلام كے پرچم كے نيچے جمع ہوتے اور ہوا خواہى و طرفدارى كا دم بھرتے ليكن اس كے ساتھ اس جنگ ميں جو اہل شام كى طرف سے شروع كى جاتى وہ دفاعى اقدام نہ كرتے وہ ہر لمحہ و لحظہ كوئي نہ كوئي بہانہ تراشتے رہتے كبھى كہتے كہ

۳۱۹

موسم بہت گرم ہے اتنى تو مہلت ديجئے كہ دن كى تمازت ذرا كم ہوجائے اور كبھى يہ كہنے لگتے كہ موسم بہت سرد ہے اس وقت تك كے لئے صبر كيجئے كہ موسم معتدل ہوجائے_ (۱۷)

جب حضرت علىعليه‌السلام انھيں يہ كہہ كر لا جواب كرديتے كہ سردى و گرمى تو تمہارے لئے ايك بہانہ ہے خدا كى قسم تم اس قدر كاہل و بزدل ہوچكے ہو كہ اگر تلوار تمہارے روبرو آجائے تو اسے ديكھ كر فرار كرجاؤ گے اس پر وہ كہتے كہ ہم اس صورت ميں ہى ميدان كار زار كى طرف جاسكتے ہيں كہ جنگ ميں آپ بھى ہمارے ساتھ شريك ہوں _

ان كى يہ شرائط اس وضع ميں تھى جب كہ مركزى حكومت كو حضرت علىعليه‌السلام كى سخت ضرورت تھى ا س پر حضرت علىعليه‌السلام فرماتے كيا ان حالات كے تحت ميرے لئے ميدان جنگ كى جانب روانہ ہونا مناسب ہے تمہارى يہى شرط كافى ہے كہ ميں اپنے ايك دلاور اور قابل اعتماد فرماندار كا انتخاب كروں اور اس كے ہمراہ تمہيں جنگ پر روانہ كروں(۱۸)

حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك ميں جب تك عنان حكومت رہى آپ كا كوئي بھى وقت ايسانہ گذرا جس ميں آپ نے عوام كى راہنمائي نہ فرمائي ہو وہ اپنے تجربيات اور علوم باطنى كے ذريعے ان پر وہ چيزيں كشف و عياں كرتے جن ميں ان كى فلاح و بہبود مضمر تھى اور انہى سے ان كى حالت بہتر ہوسكتى تھى چنانچہ ايك مرتبہ آپعليه‌السلام نے خود فرمايا تھا: كہ ميں نے تمہارے ساتھ رہ كر تمہارى ہمنشينى و ہمدمى كو زيبائي اور خوبصورتى بخشى اور ميرى ہميشہ يہى كوشش رہى كہ جس قدر ممكن ہوسكے تمہيں ذلت و خوارى كے حلقے اور جور و ستم كى بندشوں سے آزاد كروا دوں _(۱۹)

ليكن افسوس كہ حضرت علىعليه‌السلام نے اصلاح كى جو بھى ہمدردانہ سعى و كوشش كى اس كا اثر ان كے تھكے ہوئے جسموں پر اور خستہ و كوفتہ دل و دماغ پر اس حد تك نہ ہو سكا جس قدر آپعليه‌السلام چاہتے تھے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ انہوں نے خود كا غارتگر شاميوں كے حوالے كرديا تا كہ جب بھى چاہيں اور جس طرح بھى چاہيں ان كے جان و مال كو نذر آتش كرديں _

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348