تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 348
مشاہدے: 142030
ڈاؤنلوڈ: 2672


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 142030 / ڈاؤنلوڈ: 2672
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 3

مؤلف:
اردو

قيس ، بسر بن ارطاة اور ابوالاعور سلمى جيسے مشاورين كو اپنے پاس بلايا اور ان كے ساتھ مشورہ كيا اتفاق اس بات پر ہوا كہ وہ علاقے جو حضرت علىعليه‌السلام كى قلمرو حكومت ميں شامل ہيں حملہ كركے ان پر قبضہ كرليا جائے_

اس وقت مصر چونكہ خاص اہميت كا حامل تھا(جس كى وجہ يہ تھى كہ يہ منطقہ عراق كے مقابلے شام سے نزديك تر ہے اور وہاں كے اكثر و بيشتر لوگ عثمان كے مخالف تھے اس لئے بھى معاويہ كو اس منطقہ كى طرف سے تشويق لا حق رہتى تھى اس كے علاوہ مصر پر قبضہ ہوجانے كے بعد محصول كى آمدنى ميں اضافہ ہوسكتا تھا اور وہاں كى انسانى طاقت كو حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف استعمال كياجاسكتاتھا) اسى لئے اس نے يہ خاكہ تيار كياكہ عثمان كے طرفداران عناصر كو جو مصر ميں ہيں بروئے كار لائيں اور لشكر كشى كا آغاز وہاں سے كياجائے اس سے قبل كہ وہ اس طرف اپنے فوجى طاقت روانہ كريں انہوں نے ''معاويہ بن خديج'' اور '' مسلمہ بن مخلد'' جيسے اپنے ہوا خواہوں كو خط لكھا اور اس ميں اس بات كا تذكرہ كيا كہ كثير تعداد ميں ميرى سپاہ جلد ہى تمہارى مدد كے لئے پہنچ جائے گي(۲۷)

اس كے بعداس نے تقريبا چھ ہزار سپاہى عمر و عاص كى زير فرماندارى روانہ كئے اس كى چونكہ ديرينہ آرزو تھى كہ اس منطقہ پر حكمرانى كرے اسى لئے اس طرف روانہ ہوگيا عثمان كے طرفدار بھى بصرہ سے چل كر اس كے ہمراہ ہوگئے_

اس سے قبل كہ شہر ميں داخل ہوں عمر وعاص نے محمد بن ابى بكر كو خط لكھا جس ميں انہيں يہ تنبيہ كى كہ اس سے پہلے كہ شام كى سپاہ تمہارا سر تن سے جدا كردے تم خودہى اپنے عہدے سے برطرف ہوجاؤ اور بصرہ سے نكل كر كسى بھى طرف چلے جاؤ_

محمد بن ابى بكر نے اپنے خط كے ساتھ عمر و عاص كامراسلہ اور معاويہ كا عريضہ حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں روانہ كرديا اور آپ سے مدد كے طالب و خواستگار ہوئے_

حضرت علىعليه‌السلام نے محمد بن ابى بكر كو جو خط لكھا اس ميں آپعليه‌السلام نے انہيں ہدايت كى تھى كہ

۳۰۱

استقامت اور پايدارى سے كام ليں اور شہر كى حفاظت كے پورے انتظامات كئے جائيں اس كے ساتھ ہى آپ عليه‌السلام نے حكم دياكہ كنانہ بن بشر كو چونكہ آزمودہ ، با تجربہ اور جنگجو سردار سپاہ ہيں حملہ آوروں كى جانب روانہ كياجائے اور مصر ميں بھى اپنے لوگوں كو جو بھى سوارى ميسر آسكے اس كے ہمراہ تمہارى طرف روانہ كر رہاہوں(۲۸)

اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا كہ : نابغہ زادہ(۲۹) كثير سپاہ لے كر مصر پر حملہ كرنے كى غرض سے روانہ ہوا ہے محمد بن ابى بكر اور ديگرى مصرى بھائيوں كو تمہارى مدد كى ضرورت ہے جس قدر جلد ممكن ہوسكے ان كى داد و فرياد كو پہونچو كہيں ايسا نہ ہو كہ مصر تمہارے ہاتھ سے نكل جائے اگر يہ ملك تمہارے ہاتھ ميں رہے تو باعث عزت و شرف ہے اور تمہارے دشمنوں كى كمزورى اور ناتوانى كا سبب كل كے لئے يہ ہمارى وعدہ گاہ ہے اور جرعہ كى فوجى چھاوني(۳۰)

حضرت علىعليه‌السلام دوسروں سے پہلے ہى سپاہ كى لشكر گاہ(چھاؤني) ميں تشريف لے گئے وہاں آپعليه‌السلام نے ظہر كے وقت تك انتظار كيا جو لوگ وہاں پہونچے ان كى تعداد سو سے بھى كم تھى مجبورا كوفہ كى جانب روانہ ہوگئے جب رات ہوئي تو آپعليه‌السلام نے قبائل كے سرداروں كو بلايا اور فرمايا كہ : حمد و تعريف خدا كى قضاء و قدر نے ميرے باعث تمہيں آزمائشے ميں مبتلا كيا لوگو ميں نے جب بھى تمہيں حكم ديا تم نے اس كى اطاعت نہيں كى اور جب بھى ميں نے تمہيں اپنى طرف آنے كى دعوت دى تم نے اسے قبول نہ كيا اپنى مدد اور راہ حق ميں جہاد كرنے كے لئے تم كس چيز كے منتظر ہو؟ موت چاھتے ہو يا ذلت و خواري كيا تمہارے پاس وہ دين و ايمان نہ رہا جو تمہيں متحد كر سكے كيا اب تم ميں وہ غيرت و حميت باقى نہيں رہى جو تمہيں جہاد كى جانب جانے كے لئے ترغيب دلا سكے كيا يہ بات باعث حيرت نہيں كہ معاويہ پست فطرت ، ظالم و جفا كار لوگوں كو جمع كرنے كے لئے كہے اور وہ اس كے گرد جمع ہوجائيں اور صلہ و انعام كى تمنا كئے بغير اس كى اطاعت و پيروى كريں ليكن اس كے برعكس جب ميں تم كو جو اسلام اور ہمت و مردانگى كى يادگار رہ گئے ہو اپنى طرف آنے كى دعوت ديتا ہوں تو ميرى مخالفت كرتے ہو تم مجھے اكيلا نہ چھوڑو اور

۳۰۲

انتشار و پراكندگى سے گريز كرو (۳۱)

حضرت علىعليه‌السلام كى تقرير نے مالك بن كعب كى غيرت كو للكاراوہ مجمع كے درميان سے اٹھ كھڑے ہوئے كہ جہاد پر جانے كيلئے تيار ہيں حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے خدمتگذار سعد سے كہاكہ لوگوں ميں جاكر منادى كريں اور مالك كے ہمراہ مصر كى جانب روانہ ہوں چنانچہ ايك ماہ گذرجانے كے بعد مالك كے گرد دوہزار افراد جمع ہوگئے تو مصر كى جانب انہوں نے كوچ كياپانچ روز تك سفر كرنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كے نمائندے نے يہ اطلاع پہنچائي كہ محمد بن ابى بكر شہيد ہوگئے يہ خبر سن كر مالك حضرت علىعليه‌السلام كے حكم بموجب واپس كوفہ آگئے(۳۲)

محمد بن ابى بكر كى شہادت

محمد بن ابى بكر كو جب حضرت علىعليه‌السلام كا خط ملا تو انہوں نے معاويہ اور عمر و عاص كو تند لہجے ميں قطعى جواب ديااس كے ساتھ ہى انہوں نے اپنى سپاہ كو دعوت دى كہ حملہ آوروں سے جنگ و پيكاركريں جن لشكروں نے نبرد آزمائي كا اعلان كياان كى تعداد تقريبا دو ہزار افراد ہوگئي چنانچہ انھيں كنانہ بن بشر كى زير قيادت و فرماندارى دشمن كى جانب روانہ كيا اور خود بھى دو ہزار افراد كو ساتھ ليكر ان كے پيچھے كوچ كيا پہلے قصبے ميں شام كے پيشگام سپاہ نے پے در پے حملوں كے باعث مصر كى مختصر دفاعى قوت كا قطع قمع كرديا عمر و عاص نے معاويہ بن خديج كو پيغام بھيجا اور اس سے مدد طلب كى تھوڑى ديرنہ گذرى تھى كہ معاويہ بن خديج نے ميدان كارزار كو لشكريوں سے بھرديا_

مصريوں كے مخالف اپنى پورى طاقت كے ساتھ كنانہ كے مقابل جمع ہوگئے انہوں نے جب يہ ديكھا كہ دشمن كے ہر طرف سے سخت دباؤ كے باعث وہ اپنے گھوڑے كو حركت نہيں دے سكتے تو وہ چھلانگ لگا كر زمين پر گركئے ان كے ساتھى بھى انہيں ديكھ كرگھوڑوں سے اتر گئے كنانہ جس وقت دشمن كے سپاہيوں كو برى طرح كچل رہے تھے يہ آيت ان كے زبان پر تھي_

۳۰۳

) و ما كان لنفس ان تموت الا باذن الله كتبا موجلا ( (۳۳)

چنانچہ آپ اس قدر دشمن سے بر سر پيكار رہے كہ شہيد ہوگئے_

كنانہ بن بشر كى شہادت كے بعد محمد بن ابى بكر كے اطراف سے فرماندارى كا سلسلہ چونكہ ٹوٹ چكا تھا اس لئے جو سپاہ باقى رہ گئي تھى وہ منتشر اور پراگندہ ہوگئي ناچار انہوں نے بھى ايك ويرانے ميں پناہ لى _مصر كے شورش پسندوں كے رہبر ابن خديج نے انكى تلاش شروع كى اور انہيں اس ويرانے ميں چھپا ہوا پايا اور گرفتار كيا پہلے شمشير سے سر كو تن سے جدا كيا اسكے بعد جسم كو مرے ہوئے گدھے كى كھال ميں بھر كر آگ لگادى(۳۴)

جب محمد بن ابى بكر كے قتل كى خبر معاويہ اور عمر عاص كے پاس ملك شام ميں پہونچى تو انہوں نے انتہائي مسرت اور شادمانى كااظہار كياعبداللہ ابن مسيب كا كہنا ہے كہ جس وقت محمدبن ابى بكر كے قتل كئے جانے كى خبر ملك شام ميں پہنچى تو اس موقع پر جسقدر خوشى اور مسرت كا اظہار كياگيا ايسى خوشى و مسرت و شادمانى ميں نے كبھى نہيں ديكھى تھي(۳۵)

ليكن ان كى شہادت كى خبر جب امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كو ملى تو آپ نے فرمايا كہ : ان كے قتل كئے جانے كا غم و اندوہ اتناہ ہى ہے جتنا معاويہ كو اس كا سرور _جب سے ميں نے ميدان كارزار ميں قدم ركھا مجھے كسى كے قتل كئے جانے كا اتنا صدمہ نہيں ہوا جتنا اس كى وجہ سے ہوا ہے وہ ميرے اپنے گھر ميں پل كر جو ان ہوا اور ميں نے اسے اپنى اولاد كى طرح سمجھا وہ ميرا حقيقى خيرخواہ تھا ايسے شخص كى وفات پر جس قدر رنج و غم كياجائے بجا ہے خدا سے دعا ہے كہ وہى اس كى جزا دے(۳۶)

لوگوں كى تنبيہ و سرزنش

محمد بن ابى بكر كى رقت انگيز شہادت اور لوگوں كى پے در پے تباہ كاريوں كے باعث اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بہت زيادہ آزردہ خاطر ہوئے چنانچہ جب يہ اطلاع ملى كہ عمر و عاص نے

۳۰۴

مصر پر قبضہ كر ليا تو آپعليه‌السلام نے واضح طور پر لوگوں كو سخت سست كہنا شروع كرديا اور فرمايا كہ تم وہ لوگ ہو جوكسى كے خون كا بدلہ لينے ميں ميرى مدد نہيں كر سكتے اگر كوئي گتھى الجھ جائے تم اسے سلجھا نہيں سكتے پچاس دن سے زيادہ ميں تمہارے سامنے داد و فرياد كرتا رہا كہ بھائيو آؤ اور ميرى مدد كرو مگر تم اس اونٹ كى طرح كلبلاتے رہے جو درد شكم كے مارے تڑپ رہا ہو تمہارى حالت اس شخص كى سى ہے جو راہ جہاد ميں تو نكلے مگريہ سوج كر كہ اس كام سے مجھے حاصل كيا ہوگا زمين پكڑے بيٹھے رہے يہاں تك كہ تم ہى ميں سے ايك مختصر سپاہ كى جماعت تھى جنہيں ديكھ كر لگتا تھا كہ خود كو جان بوجھ كر موت كے منہ ميں دھكيل رہے ہيں افسوس تمہارى حالت زار پر(۳۷)

حضرت علىعليه‌السلام كے رنج و اندوہ كايہ عالم تھا كہ زندگى سے بيزارى اور يہ آرزو كرنے لگے كہ جس قدر جلد ہو سكے موت آجائے تا كہ ان لوگوں كى ہمنشينى كے سخت و سنگين بار سے نجات ملے_

حضرت علىعليه‌السلام نے حضرت ابن عباس كوجو خط مرقوم فرمايا تھا اس ميں آپعليه‌السلام نے اس احساس كرب كا اظہار اس طرح كيا تھا: مصر كو دشمن نے فتح كر ليا محمد بن ابى بكر شہادت سے ہمكنار ہوئے ميں نے لوگوں كو بار بار ان سے ہمدوش ہونے اور ان كى مدد كرنے كى ترغيب دلائي اور كہا اس سے پہلے كہ پانى سرسے گذر جائے تم ان كى داد و فريادكو پہنچو چند لوگ تيار بھى ہوئے مگر بد دلى كے ساتھ كچھ عذر و بہانہ كر كے عليحدہ ہوگئے اور بعض نے تو ان كى مدد كرنے سے قطعى ہاتھ اٹھايا اورگھروں ميں گھس گئے ميں تو خدا سے يہى دعا كر رہا ہوں كہ مجھے ان لوگوں كے چنگل سے نجات دلائے اور ان سے رہائي كى كوئي سبيل نكل آئے_

خدا كى قسم دشمن كے ساتھ جنگ و پيكار كرتے وقت شہادت كى آرزو نہ ہوتى اور ميں نے راہ خدا ميں خود كو مرنے كيلئے آمادہ نہ كر ليا ہوتا تو ميں اس بات كو ترجيح ديتا كہ ايسے لوگوں كا ايك دن بھى منھ نہ ديكھوں اور ان كے پاس سے بھى نہ گذروں(۳۸)

۳۰۵

سوالات

۱_ جنگ نہروان كس كى طرف سے شروع ہوئي اس ميں كون فاتح رہا؟

۲_ ذوالثديہ كس شخص كا نام تھارسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كے بارے ميں كيا فرمايا تھا؟

۳_ غلات كون تھے او ر ان كے وجود ميں آنے كى كيا اسباب تھے؟

۴_ جنگ نہروان كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۵_ صوبہ دار مصر كو تبديل كرنے كى كيا وجہ تھي؟

۶_ مالك اشتر كى كہاں اور كيسے شہادت ہوئي؟

۷_ كن محركات كى بنا پر معاويہ نے اسلامى حكومت كے قلمرو پر حملہ كرنامصر سے شروع كيا؟

۸_ محمد بن ابى بكر كى شہادت كس شخص كے ہاتھوں اور كس طرح ہوئي؟

۳۰۶

حوالہ جات

۱_ الامامة و السياسة ج ۱ ص ۱۲۸ ، كامل بن اثير ج ۳ ص ۳۴۶ ، تاريخ طبرى ج ۵ص ۸۶

۲_ الامامة و السياسة ج ۱ ص ۱۲۸_

۳_ الان حل قتالہم احملوا على القوم مروج الذہب ج ۲ ص ۴۰۵_

۴_ شرح نہج البلاغہ علامہ خوئي ج ۴ ص ۱۳۶ ، منقول از كشف الغمہ

۵_ مروج الذہب ج ۲ ص ۴۰۶

۶_ نہج البلاغہ كلمات قصار ۳۲۳

۷_مروج الذہب ج ۲ ص ۴۰۷ و الامامة والسياسة ج ۱ /۱۲۸

۸_ نہج البلاغہ خطبہ ۹۳

۹_ غلات اور غاليہ علىعليه‌السلام كے عقيدت مندوں كا وہ گروہ تھا جس نے آپعليه‌السلام كے بارے ميں اس قدر مبالغے سے كام ليا كہ دائرہ مخلوق سے نكال كر الوہيت كے سراپردے تك لے آيا ملل و نحل شہرستانى ج ۱ ص ۲۳۷

۱۰_ ہلك فيّ رجلان محب غال و مبغض قال، نہج البلاغہ كلمات قصار ۱۱۷

۱۱_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۵_

۱۲_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۷

۱۳_ الامامة و السياسة ج ۱ ۱۲۸ ، تاريخ طبرى ج ۸۹۵، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۴۹ ، طبرى لكھتے ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام سے يہ گفتگو اشعث نے كى تھي_

۱۴_ الامامة و السياسة ج ۱ ص ۱۲۹

۱۵_ ان ميں سے كچھ نے بيمارى كا بہانہ بنايا اور خود كو بيمار ظاہر كيا حالانكہ وہ بيمار نہ تھے بلكہ وہ جنگ سے فرار چاہتے تھے_

۱۶_ كامل ابن اثير ج ۳۴۹۳ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۹۰ ، الامامة و السياسة ، ج ۱ ، ص ۱۲۹، غارات ج ۱ ص ۳۵_

۱۷_ الامامة و السياسة ج ۱ ص ۴۷

۱۸_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۷۹

۳۰۷

۱۹_ مصر كى فرمان دارى پر مامور ہونے سے قبل حضرت مالك اشتر موصل ،نصيبين، داراسنجار ، آمد، ہيت اور عانات كے والى رہ چكے تھے شرح نہج البلاغہ ناصر مكارم ج ۳ ص ۴۵۵

۲۰_ نصيبين آباد جزيرہ كاشہر اوور شام ميں موصل كے مقام پرہے معجم البلدان ۵ ج /۲۸۸

۲۱_ اس بارے ميں اختلاف ہے كہ حضرت مالك اشتر كو محمد بن ابى بكر كى شہادت سے قبل صوبہ دار مقرر كيا گيا يا اس واقعے كے بعد مورخين كے نزديك يہى قول مشہور و معتبر ہے اس كے علاوہ نہج البلاغہ كا مكتوب ۳۴ جو محمد بن ابى بكركو لكھا گيا تھے اور اس بتايا تھا كہ ان كا تبادلہ كس وجہ سے عمل ميں آيا ہے اس امر كى تائيد كرتا ہے ليكن علامہ مفيد (مرحوم) نے اپنى كتاب امالى ميں دوسرے قول كو قابل قبول قرار ديا ہے ملاحظہ ہو الغارات ج ۱ ص ۲۵۷ حاشيہ

۲۲_ الغارات ج ۱ ۲۵۸ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۶ /۷۴

۲۳_ يہ مصر كے راستے ميں ايك بستى تھى يہاں سے مصر كا فاصلہ تين دن كا تھا معجم البلدان ج ۴ ص ۳۸۸

۲۴_ الغارات نامى كتاب كے مصنف نے اس كا نام '' خراخر'' لكھا ہے ملاحظہ ہو الغارات ج ۱ ص ۲۵۹

۲۵_ الغارات ج ۱ ص ۲۶۴_ ۲۵۹

۲۶_مالك و ما مالك و الله لو كان جبلا لو كان فندا ولو كان حجرا لكان صلدا لايرتقيه الحافر و لايوقى عليه الطائر (نہج البلاغہ _ كلمات قصار ۴۴۳، الغارات ج ۱ ص ۲۶۵)الغارات كے مصنف نے يہ واقعہ قدرے مختلف طور پر بيان كيا ہے_

۲۷_ كانت لعلى بن ابى طالب يدان يمينان فقطعت احداهما يوم صفين يعنى عمار و قطعت الاخرى اليوم و هو مالك اشتر الغارت ج ۱ ص ۲۶۴، كامل ابن اثيرج۳ ص ۳۵۳

۲۸_ شرح نہج ا لبلاغہ ابن ابى الحديد ج ۶ ص ۸۱

۲۹_ الغارات ج ۱ ص ۲۸۰ ۲۷۶، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۸۵_۸۲، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۵۶

۳۰_ عمروعاص كى ماں كا نام تھا

۳۱_ يہ جگہ كوفہ كے باہر خيرہ و كوفہ كے درميان وقع ہے_

۳۲_ نہج البلاغہ ج ۱۸۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۶ ص ۹۰، و لغارات ج ۱ ص ۲۹۰

۳۰۸

۳۳_ الغارات ج ۱ ص ۲۹۴_ ۲۹۲و ۷ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۶ /۹۱

۳۴_ كوئي ذى روح اللہ كے اذن كے بغير نہيں مرسكتا موت كا وقت تو لكھا ہوا ہے(آل عمران آيہ ۱۴۵)

۳۵_ الغارات ج ۱ ص ۲۸۲، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۶/ ۸۶، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۵۷

۳۶_ الغارات ج ۱ ص ۲۸۲، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۲ ص ۸۶، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۵۷

۳۷_ مروج الذہب ج ۲/ ۴۰۹

۳۸_ الغارات ج ۱ ص ۲۹۷

۳۹_ نہج البلاغہ مكتوب ۳۵ ، الغارات ج ۱/ ۲۹۸

۳۰۹

سولھواں سبق

نہروان كے بعد

دہشت پسند اور غارتگر گروہ

۱_ نعمان بن بشير

۲_ سفيان بن عوف

۳_ عبداللہ بن مسعدہ

۴_ ضحاك بن قيس

۵_ بسربن ارطاہ

حضرت علىعليه‌السلام كارد عمل

معاويہ كے تجاوز كارانہ اقدام كا نتيجہ

دو متضاد سياسى روشيں

فتنہ خرّيت

آخرى سعى و كوشش

حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف دہشت پسندانہ سازش

شہادت كا انتظار

شہادت

سوالات

حوالہ جات

۳۱۰

دہشت پسند اور غارتگر گروہ

معاويہ كو اس اقتدار كے باوجود جو اس نے حاصل كيا تھا اور اس اثر و رسوخ كے بعد بھى جو س كا شام كے لوگوں پر ہوگيا تھا نيزہ سپاہ عراق ميں ہر طرح سے انتشار و پراگندگى پيدا كر كے بھى يہ اطمينان نہ تھا كہ اگر اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے مركز حكومت پر حملہ كرے گا تو وہ كامياب ہوجائے گا اس نے جنگ صفين كے دوران جو ہولناك مناظر اپنى آنكھوں سے ديكھے تھے اور حضرت علىعليه‌السلام كى تلوار كے جن واروں كو اس نے سہاتھا وہ اس امر كے متقاضى نہ تھے كہ ايسا كوئي اقدام كرے_ اسے اب تك جو كاميابى نصيب ہوئي تھى وہ سب حيلہ و نيرنگ كا نتيجہ تھى چنانچہ اس كے ساتھيوں نے جب بھى يہ تجوير پيش كى كہ كوفہ پر حملہ كيا جائے تو اس نے اس كا جواب نفى ہى ميں ديا اس ضمن ميں اس نے كہا كہ عراق كے لوگوں كو شكست دينے اور پراگندہ فوجى دستے عراق كے مختلف علاقوں ميں سركشى و غارت گرى كرتے رہيں كيونكہ يہى ايسا طريقہ ہے جس كے ذريعے ہمارے حامى و طرفدار بتدريج طاقت ور ہوتے چلے جائيں گے اور عراق كا محاذ شكست و ريخت اور خوف و خطر ميں مبتلا رہے گا جب عراق كے اشراف و سربرآوردہ لوگ يہ كيفيت ديكھيں گے تو وہ خود ہى علىعليه‌السلام كا ساتھ چھوڑ كر ہماى طرف آنے لگيں گے_

اس فيصلے كے بعد اس نے نعمان بن بشير، سفيان بن عوف، عبداللہ بن مَسعَدہ اور ضحاك بن قيس جيسے فرمانداروں كى زير قيادت سپاہ كے دستے منظم كئے اور انھيں عراق كے مختلف علاقوں ميں روانہ كيا تا كہ اس فرمان كو جس ميں مسلمانوں كے لئے تباہى و بربادى اور خوف و دہشت كے عناصر شامل تھے جارى و سارى كرسكے_

يہاں ہم ان ہلاكت بار تجاوزات كى درد انگيز داستان بيان كرنے كے ساتھ ہى ان افراد كا

۳۱۱

مختصر تعارف كرائيں گے جو ان دستوں كے سرغنہ و سردار تھے_

۱_ نعمان بن بشير

وہ انصار اور طائفہ خزرج ميں سے تھا عثمان كے زمانے ميں جو شورشيں ہوئيں ان ميں اس نے خليفہ وقت كا ساتھ ديا_

عثمان كے قتل كے بعد ان كا خون آلودہ كرتا وہ ملك شام لے كرگيا اور معاويہ كو پيش كيا اور يہيں سے وہ معاويہ كا حامى و طرفدار ہوا معاويہ كى طرف سے كچھ عرصہ حاكم كوفہ بھى رہا اور اس كے بعد اسے '' حمص'' كا حاكم مقرر كيا گيا _

معاويہ نے اسے ۳۹ ھ ميں دوہزار افراد كے ساتھ '' عين التمر''(۱) كى جانب روانہ كيا اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے فوجى محافظ دستے پر جو تقريبا سو افراد پر مشتمل تھا اس نے حملہ كيا ليكن دلاور مدافعين نے اپنى تلواروں كى نيا ميں توڑ كر پورى پا مردى و جانبازى سے دفاعى مقابلہ كيا اس عرصے ميں تقريبا پچاس افراد ان كى مدد كے لئے وہاں آن پہنچے نعمان كے سپاہيوں كو يہ گمان گذرا كہ مدافعين كے پاس مدد كے لئے جو لشكر پہنچا ہے اس كى تعداد بہت زيادہ ہے چنانچہ راتوں رات وہ اس جگہ سے بھاگ نكلے اور شام كى جانب رخ كيا_

۲_ سفيان بن عوف

اسے معاويہ كى طرف سے اس مقصد كے تحت مقرر كيا گيا تھا كہ عراق كے بعض مقامات پر حملہ كريں معاويہ نے رخصت كرتے وقت اسے يہ تاكيد كى تھى كہ :

تمہارے سامنے كوئي بھى ايسا شخص آئے جو تم سے متفق و ہم خيال نہ ہوا سے بے دريغ قتل كردينا تمہارے راستے ميں جو بھى بستياں آئيں انھيں ويران كرتے چلے جانا لوگوں كے مال و متاع كو لوٹ لينا كيونكہ لوٹ مار بھى قتل كرنے كے برابر ہى ہے بلكہ بعض اوقات غارتگرى قتل سے زيادہ جانگداز و مہلك ثابت ہوتى ہے_

چلتے وقت اسے يہ ہدايت بھى كى كہ پہلے شہر '' ہيت''(۲) پر حملہ كرنا اس كے بعدانبار اور

۳۱۲

مدائن كے شہروں پر قبضہ كرنا سفيان بن عوف چھ ہزار سپاہيوں كو ساتھ لے كر روانہ ہوا جب شہر ہيت ميں اسے كوئي نظر نہ آيا تو اس نے شہر انبار پريورش كى محافظين شہر كو كثير تعداد ميں قتل كرنے كے بعد اس نے شہر ميں كشت و كشتار اور غارتگرى كا بازار گرم كيا اور بہت ساماں جمع كر كے وہ شام كى طرف واپس آگيا_(۳)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو جب اس واقعے كى اطلاع ملى تو آپعليه‌السلام نے جہاد كى فضيلت كے بارے ميں مفصل تقرير كى اور بتايا كہ جو لوگ اس اسلامى فرض سے روگردانى كرتے ہيں وہ كيسے ناگوار نتائج سے دوچار ہوتے ہيں اس ضمن ميں آپعليه‌السلام نے فرماياكہ : ميں شب و روز پنہاں و آشكارا تمہيں اس گروہ سے بر سر پيكار ہونے كى دعوت ديتا رہا ميں نے تمہيں يہ ہدايت كى كہ اس سے پہلے وہ تمہارے ساتھ نبرد آزما ہوں تم ہى ان پر وار كردو ليكن تم نے سستى سے كام لياور فرض جہاد كو ايك دوسرے پر ٹالتے رہے چنانچہ نوبت يہاں تك آن پہنچى كہ تم پر ہر طرف سے پے در پے حملے كئے جانے لگے تمہيں غارتگرى كا نشانہ بنايا جانے لگا اور اب تمہارى زمين و جائيداد كے مالك دوسرے لوگ ہوئے ہيں يہ شخص جس نے اپنى سپاہ كو ساتھ لے كر شہر انبار پر حملہ كيا '' غامد'' قبيلے كا ہے اس نے فرماندار شہر حسان بن حسان بكرى كو قتل كيا اور تمہارى سپاہ كو اس نے ان كى عسكر گاہوں سے باہر نكل ديا ہے_

مجھے يہ اطلاع ملى ہے كہ ان ميں سے ايك شخص ايك مسلم خاتون اور اس اہل كتاب عورت كے گھر ميں جو مسلمانوں كى زير حمايت زندگى بسر كرتى تھى داخل ہوا اور ان كے زيورات ان كے جسموں پر سے اس نے اتار لئے اس كے بعد بہت سال غنيمت جمع كر كے وہ اور اس كے ساتھى واپس چلے گئے _ ديكھنے كى بات يہ ہے كہ ان غارتگروں ميں سے نہ تو كوئي زخمى ہوا اور نہ ہى كسى كے خون كا قطرہ زمين پر گرا ا س واقعے كے بعد اگر ايك سچا مسلمان غم و افسوس كے باعث مرجائے يا ڈوب مرے تو بجا ہوگا اور وہ قابل سرزنش بھى قرار نہ ديا جائيگا_(۴)

۳۱۳

۳_ عبداللہ بن مسعدہ

ابتدا ميں وہ حضرت علىعليه‌السلام كے حامى و طرفداروں ميں سے تھا ليكن دنيا پرستى كے باعث كچھ عرصہ بعد معاويہ كے ساتھ جاملا اور اس كا شمار حضرت علىعليه‌السلام كے سخت ترين دشمنوں ميں كيا جانے لگا_

معاويہ نے اسے سترہ سو افراد كے ساتھ '' تيمائ''(۵) كى جانب روانہ كيا اور يہ حكم ديا كہ جس بستى ميں سے بھى گذرنا اس سے زكات كا مطالبہ كرنا اور جو شخص ادا كرنے سے منع كرے اسے قتل كرڈالنا _عبداللہ مكہ اور مدينہ كے شہروں سے گذرا جب حضرت علىعليه‌السلام كو اس كى روانگى كى اطلاع ملى تو آپعليه‌السلام نے مسيب بن نجبہ فزارى كو دو ہزار افراد كے ساتھ ان كا مقابلہ كرنے كے لئے روانہ كيا تيماء ميں دونوں حريف لشكر ايك دوسرے كے مقابل آگئے دونوں كے درميان سخت معركہ ہوا جس كے باعث شامى لشكر كا فرماندار زخمى ہوا اور مسعدہ راتوں رات شام كى جانب بھاگ گيا(۶)

۴_ ضحاك بن قيس

وہ معاويہ كى فوج كا فرماندار تھا وہ كچھ عرصہ تك محافظين شہر دمشق كا صدر امين رہا اور بعد ميں كوفہ كى حكومت بھى اسے تفويض كى گئي اس نے معاويہ كے حكم پر تين ہزار سپاہيوں كو ساتھ ليكر سرزمين '' نعلبيہ''(۷) كى جانب رخ كيا اس كے گرد و نواح كے ان تمام قبائل كو اس نے اپنى غارتگرى كا نشانہ بنايا جو حضرت علىعليه‌السلام كے مطيع و فرمانبردار تھے اس كے بعد وہ كوفہ كى جانب روانہ ہوا راستے ميں اسے قطقطانہ(۸) نامى علاقے ميں عمربن عميس سے سامنا ہوا وہ زيارت حج بيت اللہ كيلئے تشريف لے جارہے تھے ضحاك بن قيس نے انھيں اور ان كے قافلے كو لوٹ ليا اور انھيں اپنے مقصد كى طرف جانے سے روكا( ۹)

حضرت علىعليه‌السلام نے ان كا مقابلہ كرنے كے لئے حجربن عدى كو چار ہزار سپاہيوں كے ہمراہ ان كے راستے پر روانہ كيا حجر كا ضحاك سے ''تدمر''(۱۰) نامى مقام پر مقابلہ ہوا جس ميں سپاہ كے اُنيس سپاہى مارے گئے اس كے بعد ان كى سپاہ فرار كر كے شام كى جانب چلى گئي_(۱۲)

۳۱۴

۵_ بسر بن ارطاہ

قبيلہ قريش ميں سے تھا عراق و حجاز كى جانب معاويہ نے جو فرماندار روانہ كيئے تھے ان ميں اس كا شمار خونخوارترين فرماندار كى حيثيت سے ہوتا ہے رخصت كرتے وقت معاويہ نے اس سے كہا تھا كہ مدينہ پہنچنے كيلئے روانہ ہوجاؤ راستے ميں لوگوں كو منتشر و پراگندہ كرتے رہنا سامنے جو بھى آئے اسے خوفزدہ ضرور كرنا جو لوگ تمہارى اطلاعت سے انكار كريں ان كے مال و متاع كو تباہ و غارت كردينا بسربن ارطاة تين ہزار افراد كو ساتھ لے كر مدينہ كى طرف روانہ ہوا وہ جس بستى سے بھى گزر جاتا وہاں كے مويشيوں پر قبضہ كرليتا اور انھيں اپنے لشكريوں كے حوالے كرديتا مدينہ پہنچ كر اس نے تقرير كى جس ميں دل كھول كر مسلمانوں پر سخت نكتہ چينى كى اور جو نہ كہنا تھا وہ تك كہا اس كے ساتھ ہى انھيں مجبور كيا كہ اس كے ہاتھ پر بيعت كريں بہت سے گھروں كو نذر آتش كرنے كے بعد ابوہريرہ كو اپنا جانشين مقرر كيا اور خود مكہ كى جانب روانہ ہوگيا راستے ميں قبيلہ خزاعہ كے بہت سے لوگوں نيز چند ديگر افراد كو قتل كيا اور ان كے مال كو لوٹ كر قبضے ميں كرليا_ مكہ پہنچ كر اس نے ابولہب كى اولاد ميں سے بہت سے لوگوں كو تہ تيغ كر ڈالا اور يہاں سے '' سراة '' كى جانب روانہ ہوا جہاں اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے حامى و طرفداروں كو قتل كر ڈالا '' نجران'' اور يمن ميں اس نے كشت و كشتار كا خوب بازار گرم كيا يہى نہيں بلكہ فرماندار يمن عبيداللہ بن عباس كے دوكم سن بچوں كے سر تك اس نے اپنے ہاتھ سے قلم كئے قتل و غارتگرى اور كشت و كشتار كا بازار گرم كرنے اور تقريبا تيس ہزار كوتہ و تيغ كرنے كے بعد وہ واپس ملك شام پہنچ گيا(۱۲)

حضرت علىعليه‌السلام كار و عمل

حضرت علىعليه‌السلام كو جب بسر بن ارطاة كے بزدلانہ حملوں كا علم ہوا تو آپعليه‌السلام نے لوگوں كواس مقابلہ كرنے كى دعوت دى اور فرمايا: كہ مجھے اطلاع ملى ہے كہ بسر نے يمن پر قبضہ كرليا ہے خدا شاہد ہے كہ مجھے اس بات كا علم تھا كہ يہ لوگ جلد ہى تم پر غالب آجائيں گے جس كى وجہ يہ ہے كہ

۳۱۵

وہ باطل پر تو ہيں مگر يكجا ہيں اس كے برعكس تم حق پر ہو مگر منتشر و پراگندہ_ تمہارے رہبر و پيشوا نے تمہيں راہ حق پر چلنے كے لئے كہا مگر تم نے نافرمانى كى وہ آج باطل پر ہيں مگر اپنے سردار كے مطيع و فرمانبردار ہيں _

وہ اپنے رہبر كے ساتھ امانت دارى سے كام ليتے ہيں اور تم خيانت كرتے ہو وہ اپنے شہروں ميں اصلاح كے كام كر رہے ہيں اور تم فساد بپا كئے ہوئے ہو ميں تمہارے پاس اگر قدح (پيالہ)بھى بطور امانت ركھوں تو اس بات كا احتمال ہے كہ اس كے گرد كوئي ڈورى بندھى ہوئي ہو تو وہ بھى چرالى جائے گي_(۱۳)

اہل كوفہ نے پہلے كى طرح اب بھى حضرت علىعليه‌السلام كے فرمان پر اپنى سرد مہرى دكھائي كچھ عرصہ گزرجانے كے بعد آپ نے ايك ہزار افراد پر مشتمل لشكر جاريہ بن قدّامہ كى زير فرماندارى ترتيب ديا جسے ساتھ لے كر جاريہ بصرہ كى طرف روانہ ہوئے حجاز كے راستے سے وہ يمن پہنچے بسر كو يہ اطلاع مل چكى تھى كہ جاريہ كا لشكر حركت ميں ہے چنانچہ اس نے يمامہ كى سمت كو ترك كر كے اپنا رخ دوسرى طرف موڑليا جاريہ منزلگاہ پر اترے بڑى تيزى كے ساتھ ان كا تعاقب كرنے كے لئے روانہ ہوگئے بسر ان كے خوف سے كبھى ايك طرف فرار كرجاتا اور كبھى دوسرى جانب يہاں تك كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى قلمرو و حكومت سے باہر چلاگيا لوگوں نے جب اسطرح فرار ہوتے ہوئے انہيں ديكھا تو اچانك ان پر حملہ كرديا جاريہ كے خوف نے اس كو ايسا سراسيمہ و وحشت زدہ كيا كہ اس كو نہ تو تحفظ و دفاع كا ہوش رہا اور نہ ہى اس مال كو وہ اپنے ساتھ لے سكا جسے اس نے قتل و غارتگرى سے جمع كيا تھا بسر كا مقابلہ كئے بغير جاريہ واپس كوفہ تشريف لے آئے_(۱۴)

معاويہ كے تجاوزكارانہ اقدام كا نتيجہ

شام كے جن سرپسندوں نے فتنہ و فساد كے بيچ بوئے تھے ان كى اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى زير حكومت قلمروپر پے در پے حملے سخت نقصان دہ نتائج كا باعث ہوئے ان ميں سے چند كا ذكر

۳۱۶

ذيل ميں كيا جاتا ہے _

۱_ وہ اسلامى معاشرہ جس ميں اب امن و سكون مجال ہونے لگا تھا دوبارہ بد امنى اور بحرانى كيفيات كا شكار ہونے لگا خوارج كا فتنہ ابھى دبا ہى تھا بصرہ و كوفہ ميں بھى معاويہ كى تحريك كے شرپسند حملہ آوروں نے مدينہ، مكہ، يمن ا ور ديگر شہروں ميں فتنہ و فساد بپا كرنا شروع كرديا_

۲_ وہ بزدل اور سست عقيدہ لوگ اس خوف و خطرہ كے باعث جو اس وقت ماحول پر مسلط تھا يہ سوچنے لگے كہ حكومت اس قابل نہيں كہ امن بحال كرسكے اور معاويہ كے حملے آور ہرجگہ پر اپنا قبضہ كرليں گے اس لئے وہ معاويہ كى جانب چلے گئے_

۳_ ديگر عوامل كے ساتھ غارتگر دستوں كے حملے اس امر كے باعث ہوئے كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام جنگ نہروان كے بعد اپنى منتشر و متفرق فوجى طاقت كو تيزى كے ساتھ يكجا جمع نہ كرسكے نيز ايسے محكم و مضبوط فوجي، سياسى اور اقتصادى تشكيلات بھى وجود ميں نہ آسكيں جن كے باعث معاويہ كا مقابلہ كيا جاسكتا_

۴_ وہ لوگ جو حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے حامى اور طرفدار تھے كثير تعداد ميں بزدلانہ حملوں ميں قتل ہوئے قبيلہ ہمدان كے سب ہى افراد حضرت علىعليه‌السلام كے پيرو و معتقد تھے وہ بسر كے حملوں كاشكار ہوئے جس ميں سارے مردوں كو قتل كرديا گيا اور عورتوں كو بُسر كى قيد ميں ڈال ديا گيا اور يہ وہ اولين مسلم خواتين تھيں جنہيں بردہ فروشوں كے بازار ميں لايا گيا_

دو متضاد سياسى روشيں

اوپر جو كچھ بيان كيا گيا ہے وہ چند نمونے اس سياسى روش و حكمت عملى كے ہيں جو معاويہ نے مطلق اقتدار حاصل كرنے اور حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كو تباہ و برباد كرنے كے لئے اختيار كى تھى اس كے مقابل ہم اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى انصاف پسندانہ و عدل گسترانہ سياسى راہ و روش كو ديكھتے ہيں چنانچہ جس وقت جاريہ بن قدامہ كو حضرت علىعليه‌السلام رخصت كرنے لگے تو آپ نے يہ نصيحت كى كہ :

۳۱۷

صرف جنگجو لوگوں سے ہى جنگ كرنا تم كو چاھے مجبورا پيدل سفر طے كرنا پڑے مگر عوام كے چوپايوں پر ہرگز نظر مت ركھنا جب تك كنوؤں اور چشموں كے مالك اجازت نہ دے ديں تم راستے ميں كسى كنويں اور چشمے كا پانى استعمال نہ كرنا كسى مسلمان كو فحش بات نہ كہنا جس سے تمہارا عہد و پيمان ہوجائے اس كے ساتھ عہد شكنى كر كے ظلم نہ كرنا اور ذرہ برابر خون نا حق نہ بہانا_ (۱۵)

جب ہم ان دو متضاد روشوں كا باہمى مقابلہ كرتے ہيں تو ديكھتے ہيں كہ ان ميں سے پہلى قتل و غارتگرى پر مبنى ہے اگر چہ يہ حكمت عملى بظاہر لوگوں كے مال و حقوق كا احترام كرتى ہے مگر چونكہ پہلا راستہ جس راہ سے گزر كر منزل مقصود تك پہنچتا ہے وہ اصول و ضوابط كے كسى دائرے ميں نہيں آتا اسى لئے وہ شرعى اور قانونى قواعد كى پابندى بھى نہى كرتا اس كے برعكس قانونى حدود اور انسانى قدريں دوسرے گروہ كى راہ ميں چونكہ مانع و حايل ہوتى ہيں اسى لئے وہ اسے ہرناجائز و ناروا كام كو انجام دينے سے روكتى ہيں _

حق گوئي اور عدل پسندى جيسى خصوصيات كى پابنديوں كے باعث حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ كے دنيا پرست افراد نے جہاد جيسے مقدس فرض كو انجام دينے ميں سستى و سہل انگارى سے كام ليا كيونكہ وہ اپنے سامنے ايسى جنگ ديكھتے تھے جس كا اجر اس دنيا ميں ان كے لئے موت كے سوا كچھ نہ تھا اگر وہ جنگ ميں كامياب ہوتے تو دشمن كے مال پر قبضہ نہيں كرسكتے تھے وہ كسى دشمن كو نہ تو اپنى مرضى سے قتل كرسكتے تھے اور نہ ہى اس كے بيوى بچوں كو اپنى قيد ميں ركھ سكتے تھے جب يہ شرائط و پابندياں عائد ہوں تو جنگ كس لئے كريں ؟ جنگ كے محركات احكام خداوندى كى پابندى اور انسانى فضائل پيش نظر ركھے جاتے تو ان كيلئے جنگ كرنا امر لاحاصل تھا اس كے برعكس اہل شام معاويہ كى ايك آواز پر فورا لبيك كہتے كيونكہ جنگ سے ان كے تمام حيوانى جبلتوں كو آسودگى ملتى جسے بھى وہ چاہتے قتل كرتے، كنيز و غلام بنا ليتے قتل و غارتگرى ہى ان كى آمدنى كا ذريعہ و وسيلہ تھا بالخصوص اہل شام ميں ان لوگوں كے جن كى تربيت اسلامى اصول كے مطابق نہيں ہوئي تھى حضرت علىعليه‌السلام نے كوفہ كے لوگوں سے خطاب كرتے ہوئے اس كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا

۳۱۸

تھا كہ جس چيز سے تمہارى اصلاح ہوتى ہے اور جو چيز تمہارى كجى كو درست كرتى ہے ميں اس سے واقف ہوں ليكن تمہارى اس اصلاح كو اپنے ضمير كى آواز كے خلاف ميں اور ناجائز سمجھتا ہوں (۱۶)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى ريا كار سياست مندوں كى راہ و ورش اختيار كرنے كے بجائے ہميشہ يہ كوشش رہى كہ عراق كے عوام كى اصلاح كے ذريعے عام لوگوں كے ضمير ميں اپنے جذبے كو بيدار كرتے رہيں نيز اسلامى معاشرے كى كمزورى اور دشمن كى طاقت كے عوامل كى جانب توجہ دلا كر انھيں اصلاح نفس و تہذيب اخلاق كى تعليم ديں تا كہ ان كى كمزوريوں كو دور كر كے انھيں دعوت حق قبول كرنے كى اصلاح دى جاسكے_

حضرت علىعليه‌السلام كے خطبات و ہمدردانہ نصائح ميں وہ تمام انسانى محركات اور مادى و معنوى پہلو موجود ہيں جن ميں عراق كے عوام كى فلاح و بہبود مضمر تھى چانچہ ہر درد و غم اور ہر كمزورى و ناتوانى كاعلاج ان پر كاربند رہ كر ہى كيا جاسكتا تھا اور اسى ميں ان كى فلاح و بہبود پنہاں تھى _

كوئي بھى فرد بشر وہ علم و اقتدار كے اعتبار سے خواہ كسى بھى مقام و منزلت پر ہو حضرت علىعليه‌السلام جيسى بصيرت نظر كے ساتھ اس كيفيت كو بيان نہيں كر سكتا تھا جو اس وقت عراق و شام پر مسلط و حكم فرما تھى اپنے رہبر كے حكم سے روگرداں ہو كر او رجہاد جيسے مقدم فرض سے كنارہ كشى كر كے عراق كے لوگوں كى كيا سرنوشت ہوسكتى تھى اسے حضرت علىعليه‌السلام سے بہتر كوئي دوسرا شخص بيان نہيں كرسكتا تھا اس كے ساتھ ہى آپعليه‌السلام نے بہترين دستور عمل پر كاربند رہنے كى ہدايت فرمائي تھى جس سے ان كى حالت فلاح و بہبود پاسكتى تھي_

ليكن عراق كے عوام آپعليه‌السلام كى نظر ميں ان سے كہيں بدتر تھے جنہيں معاويہ جنگ و پيكار كے لئے بھيجا كرتا تھا كيونكہ وہ دوستى كا لبادہ پہن كر آپعليه‌السلام كے پرچم كے نيچے جمع ہوتے اور ہوا خواہى و طرفدارى كا دم بھرتے ليكن اس كے ساتھ اس جنگ ميں جو اہل شام كى طرف سے شروع كى جاتى وہ دفاعى اقدام نہ كرتے وہ ہر لمحہ و لحظہ كوئي نہ كوئي بہانہ تراشتے رہتے كبھى كہتے كہ

۳۱۹

موسم بہت گرم ہے اتنى تو مہلت ديجئے كہ دن كى تمازت ذرا كم ہوجائے اور كبھى يہ كہنے لگتے كہ موسم بہت سرد ہے اس وقت تك كے لئے صبر كيجئے كہ موسم معتدل ہوجائے_ (۱۷)

جب حضرت علىعليه‌السلام انھيں يہ كہہ كر لا جواب كرديتے كہ سردى و گرمى تو تمہارے لئے ايك بہانہ ہے خدا كى قسم تم اس قدر كاہل و بزدل ہوچكے ہو كہ اگر تلوار تمہارے روبرو آجائے تو اسے ديكھ كر فرار كرجاؤ گے اس پر وہ كہتے كہ ہم اس صورت ميں ہى ميدان كار زار كى طرف جاسكتے ہيں كہ جنگ ميں آپ بھى ہمارے ساتھ شريك ہوں _

ان كى يہ شرائط اس وضع ميں تھى جب كہ مركزى حكومت كو حضرت علىعليه‌السلام كى سخت ضرورت تھى ا س پر حضرت علىعليه‌السلام فرماتے كيا ان حالات كے تحت ميرے لئے ميدان جنگ كى جانب روانہ ہونا مناسب ہے تمہارى يہى شرط كافى ہے كہ ميں اپنے ايك دلاور اور قابل اعتماد فرماندار كا انتخاب كروں اور اس كے ہمراہ تمہيں جنگ پر روانہ كروں(۱۸)

حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك ميں جب تك عنان حكومت رہى آپ كا كوئي بھى وقت ايسانہ گذرا جس ميں آپ نے عوام كى راہنمائي نہ فرمائي ہو وہ اپنے تجربيات اور علوم باطنى كے ذريعے ان پر وہ چيزيں كشف و عياں كرتے جن ميں ان كى فلاح و بہبود مضمر تھى اور انہى سے ان كى حالت بہتر ہوسكتى تھى چنانچہ ايك مرتبہ آپعليه‌السلام نے خود فرمايا تھا: كہ ميں نے تمہارے ساتھ رہ كر تمہارى ہمنشينى و ہمدمى كو زيبائي اور خوبصورتى بخشى اور ميرى ہميشہ يہى كوشش رہى كہ جس قدر ممكن ہوسكے تمہيں ذلت و خوارى كے حلقے اور جور و ستم كى بندشوں سے آزاد كروا دوں _(۱۹)

ليكن افسوس كہ حضرت علىعليه‌السلام نے اصلاح كى جو بھى ہمدردانہ سعى و كوشش كى اس كا اثر ان كے تھكے ہوئے جسموں پر اور خستہ و كوفتہ دل و دماغ پر اس حد تك نہ ہو سكا جس قدر آپعليه‌السلام چاہتے تھے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ انہوں نے خود كا غارتگر شاميوں كے حوالے كرديا تا كہ جب بھى چاہيں اور جس طرح بھى چاہيں ان كے جان و مال كو نذر آتش كرديں _

۳۲۰