تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175315 / ڈاؤنلوڈ: 4063
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اب کے بچھڑا ہے تو کچھ نا شادماں وہ بھی تو ہے

اب کے بچھڑا ہے تو کچھ نا شادماں وہ بھی تو ہے

دھوپ ہم پر ہی نہیں بے سائباں وہ بھی تو ہے

*

شکوہ بیداد موسم اس سے کیجے بھی تو کیوں

کیا کرے وہ بھی کہ زیر آسماں وہ بھی تو ہے

*

اور اب کیا چاہتے ہیں لوگ دیکھیں تو سہی

دربدر ہم ہی نہیں بے خانماں وہ بھی تو ہے

*

ایک ہی دستک جہاں چونکائے رکھے ساری عمر

ایک انداز ِ شکست ِ جسم و جاں وہ بھی تو ہے

*

اس طرف بھی اک نظر اے راہرو منزل نصیب

وہ جو منزل پر لٹا ہے کارواں وہ بھی تو ہے

٭٭٭

۴۱

کھوئے ہوئے ایک موسم کی یاد میں

سمائے ہیں مری آنکھوں میں خواب جیسے دن

وہ ماہتاب سی راتیں گلاب جیسے دن

وہ کنج شہر وفا میں سحاب جیسے دن

*

وہ دن کے جن کا تصور متاع قریہ دل

وہ دن کہ جن کی تجلی فروغ ہر محفل

گئے وہ دن تو اندھیروں میں کھو گئی منزل

*

فضا کا جبر شکستہ پروں پہ آ پہنچا

عذاب دربدری بے گھروں پہ آ پہنچا

ذرا سی دیر میں سورج سروں پہ آ پہنچا

*

کسے دکھائے یہ بے مائیگی خزینوں کی

کٹی جو فصل تو غربت بڑھی زمینوں کی

یہی سزا ہے زمانے میں بے یقینوں کی

٭٭٭

۴۲

اک خواب ِ دل آویز کی نسبت سے ملا کیا

اک خواب ِ دل آویز کی نسبت سے ملا کیا

جز دربدری اس درِ دولت سے ملا کیا

*

آشوب فراغت! ترے مجرم ترے مجبور

کہہ بھی نہیں سکتے کہ فراغت سے ملا کیا

*

اک نغمہ کہ‌ خود کو اپنے ہی آہنگ سے محجوب

اک عمر کے پندار ِ سماعت سے ملا کیا

*

اک نقش کہ خود اپنے ہی رنگوں سے ہراساں

آخر کو شب و روز کی وحشت سے ملا کیا

*

جاں دے کر بھی بالا نہ ہوئے نرخ ہمارے

بازار معانی میں مشقت سے ملا کیا

*

جیتا ہوا میدان کہ ہاری ہوئی بازی

اس خانہ خرابی کی اذیت سے ملا کیا

*

اک خلعت دشنام و کلاہ سخن ِ بد

شہرت تو بہت پائی پہ شہرت سے ملا کیا

٭٭٭

۴۳

کوچ

جس روز ہمارا کوچ ہوگا

پھولوں کی دکانیں بند ہو گی

شیریں سخنوں کے حرف ِ دشنام

بے مہر زبانیں بند ہو ں گی

*

پلکوں پہ نمی کا ذکر ہی کیا

یادوں کا سراغ تک نہ ہوگا

ہمواری ہر نفس سلامت

دل پر کوئی داغ تک نہ ہوگا

پامالی خواب کی کہانی

کہنے کو چراغ تک نہ ہوگا

*

معبود! اس آخری سفر میں

تنہائی کو سرخرو ہی رکھنا

جز تیرے نہیں کوئی نگہدار

اُس دن بھی خیال تو ہی رکھنا

جس آنکھ نے عمر بھر رلایا

اس آنکھ کو بے وضو ہی رکھنا

*

جس روز ہمارا کوچ ہوگا

پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی

٭٭٭

۴۴

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

ہمارے بعد تم کو یہ جہاں کیسا لگے گا

*

تھکے ہارے ہوئے سورجوں کی بھیگی روشنی میں

ہواؤں سے الجھتا بادباں کیسا لگے گا

*

جمے قدموں کے نیچے سے پھسلتی جائے گی ریت

بکھر جائے گی جب عمر رواں کیسا لگے گا

*

اسی مٹی میں مل جائے گی پونجی عمر بھر کی

گرے گی جس گھڑی دیوار ِ جاں کیسا لگے گا

*

بہت اترا رہے ہو دل کی بازی جیتنے پر

زیاں بعد از زیاں بعد از زیاں کیسا لگے گا

*

وہ جس کے بعد ہوگی ایک مسلسل بے نیازی

گھڑی بھر کا وہ سب شور فغاں کیسا لگے گا

*

ابھی سے کیا بتائیں مرگ مجنوں کی خبر پر

سلوک ِ کوچۂ نا مہرباں کیسا لگے گا

*

بتاؤ تو سہی اے جان جاں کیسا لگے گا

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

٭٭٭

۴۵

ہمیں خبر تھی کہ یہ درد اب تھمے گا نہیں

ہمیں خبر تھی کہ یہ درد اب تھمے گا نہیں

یہ دل کا ساتھ بہت دیر تک رہے گا نہیں

*

ہمیں خبر تھی کوئی آنکھ نم نہیں ہو گی

ہمارے غم میں کہیں کوئی دل دکھے گا نہیں

*

ہمیں خبر تھی کہ اک روز یہ بھی ہونا ہے

کہ ہم کلام کریں گے کوئی سنے گا نہیں

*

ہماری دربدری جانتی تھی برسوں سے

گھر جائیں بھی تو کوئی پناہ دے گا نہیں

*

ہماری طرح نہ آئے گا کوئی نرغے میں

ہماری طرح کوئی قافلہ لٹے گا نہیں

*

نمود خواب کی باتیں شکست خواب کا ذکر

ہمارے بعد یہ قصے کوئی کہے گا نہیں

*

غریب شہر ہو یا شہر یار ہفت اقلیم

یہ وقت ہے یہ کسی کے لیے رکے گا نہیں

*

مگر چراغ ہنر کا معاملہ ہے کچھ اور

یہ ایک بار جلا ہے تو اب بجھے گا نہیں

٭٭٭

۴۶

یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں

یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں

دعا کے دن ہیں مسلسل دعا کیے جائیں

*

کوئی فغاں، کوئی نالہ، کوئی بکا، کوئی بین

کھلے گا باب مقتل دعا کیے جائیں

*

یہ اضطراب یہ لمبا سفر، یہ تنہائی

یہ رات اور یہ جنگل دعا کیے جائیں

*

بحال ہو کے رہے گی فضائے خطۂ خیر

یہ حبس ہوگا معطل دعا کئے جائیں

*

گزشتگان ِ محبت کے خواب کی سوگند

وہ خواب ہوگا مکمل دعا کیے جائیں

*

ہوائے سرکش و سفاک کے مقابل بھی

یہ دل بجھیں گے نہ مشعل دعا کیے جائیں

*

غبار اڑاتی جھلستی ہوئی زمینوں پر

امنڈ کے آئیں گے بادل دعا کیے جائیں

*

قبول ہونا مقدر ہے حرف خالص کا

ہر ایک آن ہر اک پل دعا کیے جائیں

٭٭٭

۴۷

دل کو دیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم

دل کو دیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم

خاک ہو جائیں جو رسوائی کو شہرت کریں ہم

*

اک قیامت کہ تلی بیٹھی ہے پامالی پر

یہ گزر لے تو بیان ِ قد و قامت کریں ہم

*

حرف تردید سے پڑ سکتے ہیں سو طرح کے پیچ

ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم

*

دل کے ہمراہ گزارے گئے سب عمر کے دن

شام آئی ہے تو کیا ترک ِ محبت کریں ہم

*

اک ہماری بھی امانت ہے تہ خاک یہاں

کیسے ممکن ہے اس شہر سے ہجرت کریں ہم

*

دن نکلنے کو ہے چہروں پہ سجا لیں دنیا

صبح سے پہلے ہر اک خواب کو رخصت کریں

*

شوق ِ آرائش گل کا یہ صلہ ہے کہ صبا

کہتی پھرتی ہے کہ اب اور نہ زحمت کریں ہم

*

عمر بھی دل میں سجائے پھرے اوروں کی شبیہ

کبھی ایسا ہو کہ اپنی بھی زیارت کریں ہم

٭٭٭

۴۸

مقدر ہو چکا ہے بے در و دیوار رہنا

مقدر ہو چکا ہے بے در و دیوار رہنا

کہیں طے پا رہا ہے شہر کا مسمار رہنا

*

نمود خواب کے اور انہدام خواب کے بیچ

قیامت مرحلہ ہے دل کا ناہموار رہنا

*

دلوں کے درمیاں دوری کے دن ہں اور ہم کو

اسی موسم میں تنہا برسرپیکار رہنا

*

اندھیری رات اور شور سگاں کوئے دشنام

اور ایسے میں کسی آنکھ کا بیدار رہنا

*

تماشا کرنے والے آ رہے ہیں جوک در جوک

گروہ پابجولاں! رقص کو تیار رہنا

*

ہوائے کوئے قاتل بے ادب ہونے لگی ہے

چراغ جادہ صدق و صفا ہشاور رہنا

*

یہ دشواری تو آسانی کا خمیازہ ہے ورنہ

بہت ہی سہل تھا ہم کو بہت دشوار رہنا

*

ادھر کچھ دن سے اس بستی کو راس آنے لگا ہے

ہم آشفتہ سروں کے در پے آزار رہنا

٭٭٭

۴۹

ہم نہ ہوئے تو کوئی افق مہتاب نہیں دیکھے گا

ہم نہ ہوئے تو کوئی افق مہتاب نہیں دیکھے گا

ایسی نیند اڑے گی پھر کوئی خواب نہیں دیکھے گا

*

نرمی اور مٹھاس میں ڈوبا یہی مہذب لہجہ

تلخ ہوا تو محفل کے آداب نہیں دیکھے گا

*

پیش لفظ سے اختتام تک پڑھنے والا قاری

جس میں ہم تحریر ہیں بس وہی باب نہیں دیکھے گا

*

لہو رلاتے خاک اڑاتے موسم کی سفاکی

دیکھتے ہیں کب تک یہ شہر گلاب نہیں دیکھے گا

*

بپھرے ہوئے دریا کو ہوا کا ایک اشارہ کافی

کوئی گھر کوئی بھی گھر سیلاب نہیں دیکھے گا

*

بے معنی بے مصرف عمر کی آخری شام کا آنسو

ایک سبب دیکھے گا سب اسباب نہیں دیکھے گا

*

اک ہجرت اور ایک مسلسل دربدری کا قصہ

سب تعبر یں دیکھیں گے کوئی خواب نہیں دیکھے گا

٭٭٭

۵۰

روش میں گردش ساارگاں سے اچھی ہے

روش میں گردش ساارگاں سے اچھی ہے

زمین کہںش کی بھی ہو آسماں سے اچھی ہے

*

جو حرف حق کی حمایت مںب ہو وہ گمنامی

ہزار وضع کے نام و نشاں سے اچھی ہے

*

عجب نہںع کل اسی کی زبان کھنچ جائے

جو کہہ رہا ہے خموشی زباں سے اچھی ہے

*

بس ایک خوف کہںا دل یہ بات مان نہ جائے

یہ خاک غرک ہمں آشاہں سے اچھی ہے

*

ہم ایسے گل زدگاں کو بہار یک ساعت

نگار خانۂ عہد خزاں سے اچھی ہے

٭٭٭

۵۱

شہر بے مہر سے پما ن وفا کا باندھیں

شہر بے مہر سے پما ن وفا کا باندھیں

خاک اڑتی ہے گل تر کی ہوا کاا باندھیں

*

جانتے ہیں سفر شوق کی حد کیا ہوگی

زور باندھںت بھی تو ہم آبلہ پا کا باندھیں

*

کوئی بولے گا تو آواز سنائی دے گی

ہو کا عالم ہو تو مضمون صدا کان باندھیں

*

ساری بستی ہوئی اک موجۂِ سفاک کی نذر

اب کوئی بند سر سلا بلا کا باندھیں

*

آخرش ہر نفس گرم کا انجام ہے ایک

سو گھڑی بھر کو طلسم من و ما کا باندھیں

٭٭٭

۵۲

محبت کی ایک نظم

مری زندگی مں بس اک کتاب ہے اک چراغ ہے

ایک خواب ہے اور تم ہو

یہ کتاب و خواب کے درماون جو منزلںس ہںا، مںچ چاہتا تھا

تمہارے ساتھ بسر کروں

ییہ کل اثاثہ ِ زندگی ہے اسی کو زاد ِ سفر کروں

کسی اور سمت نظر کروں تو مری دعا مں اثر نہ ہو

مرے دل کے جادۂِ خوش خبر پہ بجز تمہارے کبھی کسی کا گزر نہ ہو

مگر اس طرح کہ تمہںر بھی اس کی خبر نہ ہو

اسی احتایط مںت ساری عمر گزر گئی

وہ جو آرزو تھی کتاب و خواب کے ساتھ تم بھی شریک ہو وہی مر گئی

اسی کشمکش نے کئی سوال اٹھائے ہںا

وہ سوال جن کا جواب مر ی کتاب مںھ ہے نہ خواب مںہ

مرے دل کے جادۂ خوش خبر کے رفقں

تم ہی بتاؤ پھر کہ یہ کاروبار ِ حاےت کس کے حساب مںت

مری زندگی مںب بس اک کتاب اک چراغ ہے

ایک خواب ہے اور تم

٭٭٭

۵۳

جو فضل سے شرف ِ استفادہ رکھتے ہںا

جو فضل سے شرف ِ استفادہ رکھتے ہںا

کچھ اہل ِ درد سے نسبت زیادہ رکھتے ہںی

*

رموز ِ مملکت ِ حرف جاننے والے

دلوں کو صورت ِ معنی کشادہ رکھتے ہںک

*

شب ِ ملال بھی ہم رہ روان ِ منزل ِ عشق

وصال ِ صبح سفر کا ارادہ رکھتے ہںا

*

جمال ِ چہرہ ِ فردا سے سرخرو ہے جو خواب

اس ایک خواب کو جادہ بہ جادہ رکھتے ہں

*

مقام ِ شکر کہ اس شہر ِ کج ادا مںد بھی لوگ

لحاظ ِ حرف دل آویز و سادہ رکھتے ہں

*

بنام ِ فضف، بجان ِ اسد فقرر کے پاس

جو آئے آ گئے ہم دل کشادہ رکھتے ہںے

٭٭٭

۵۴

تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں

تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں

اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں

*

میں نے ایک اور بھی محفل میں انھیں دیکھا ہے

یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں

*

یہ بہ ہر لمحہ نئی دھن پہ تھرکتے ہوے لوگ

کون جانے کہ یہ کب تیرے ہیں کب تیرے نہیں

*

تیرا احسان کہ جانے گئے پہچانے گئے

اب کسی اور کے کیا ہوں گے یہ جب تیرے نہیں

*

در بدر ہوکے بھی جو تیری طرف دیکھتے تھے

وہ ترے خانماں برباد بھی اب تیرے نہیں

*

اب گلہ کیا کہ ہوا ہو گئے سب حلقہ بگوش

میں نہ کہتا تھا کہ یہ اہل طلب تیرے نہیں

*

ہو نہ ہو دل پہ کوئ بوجھ ہے بھائی ورنہ

بات کہنے کے یہ انداز یہ ڈھب تیرے نہیں

٭٭٭

۵۵

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

*

ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے

ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں

*

سمندورں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت

کسی کو ہم نے مد د کے لیے پکارا نہیں

*

جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار

جو کہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں

*

ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امیں

ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں

٭٭٭

۵۶

ہو کے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف

ہو کے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف

دل کسی اور طرف دستِ دعا اور طرف

*

اک رجز خوان ہنر کاسہ و کشکول میں طاق

جب صفِ آرا ہوئے لشکر تو ملا اور طرف

*

اے بہ کہ ہر لمحہ نئے وہم میں الجھے ہوئے شخص

میری محفل میں الجھتا ہے تو جا اور طرف

*

اہلِ تشیری و تماشا کے طلسمات کی خیر

چل پڑے شری کے سب شعلہ نوا اور طرف

*

کیا مسافر تھا سفر کرتا رہا اس بستی میں

اور لو دیتے تےل نقشِ کفِ پا اور طرف

*

شاخِ مژگاں سے جو ٹوٹا تھا ستارہ سرِ شام

رات آئ تو وہی پھول کھلا اور طرف

*

نرغۂ ظلم میں دکھ سیھل رہی خلقتِ شرج

اہلِ دنیا نے کیے جشن بپا اور طرف

٭٭٭

۵۷

شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خو ف آتا ہے

شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خو ف آتا ہے

جس کا وارث ہوں اُسی خاک سے خوف آتا ہے

*

شکل بننے نہیں پا تی کہ بگڑ جا تی ہے

نئی مٹی کو ابھی چا ک سے خوف آتا ہے

*

وقت نے ایسے گھمائے افق آفاق کہ بس

محورِ گردشِ سفّا ک سے خوف آتا ہے

*

یہی لہجہ تھا کہ معیار سخن ٹھہرا تھا

اب اسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے

*

آگ جب آگ سے ملتی ہے تو لو دیتی ہے

خاک کو خاک کی پو شاک سے خوف آتا ہے

*

قامتِ جاں کو خوش آیا تھا کبھی خلعتِ عشق

اب اسی جامۂ صد چاک سے خوف آتا ہے

*

کبھی افلاک سے نا لوں کے جواب آتے تھے

ان دنوں عالمِ افلاک سے خوف آتا ہے

*

رحمتِ سیدِؐ لولاک پہ کامل ایمان

امتِ سیدِؐ لولاک سے خوف آتا ہے

٭٭٭

۵۸

فہرست

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے ۴

آخری آدمی کا رجز ۵

ایک رخ ۷

خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم ۸

بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے ۹

پتہ نہیں کیوں ۱۰

دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے ۱۱

سرگوشی ۱۲

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں ۱۳

رنگ تھا روشنی تھا قامت تھا ۱۴

ہوائیں ان پڑھ ہیں ۱۵

دعا ۱۶

کہیں سے کوئی حرف معتبر شاید نہ آئے ۱۷

پھول مہکیں مرے آنگن میں صبا بھی آئے ۱۸

ابو الہول کے بیٹے ۱۹

جھوٹ ۲۰

استغاثہ ۲۱

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں ۲۲

۵۹

ان وعدہ اللہ حق ۲۳

صحرا میں ایک شام ۲۴

ھل من ناصراً ینصرنا ۲۵

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے ۲۶

اے میری زندگی کے خواب، شام بخیر شب بخیر ۲۷

جن کی پرواز کے چرچے کبھی افلاک میں تھے ۲۸

ایک پل کا فاصلہ ۲۹

التجا ۳۰

دکھ اور طرح کے ہیں دعا اور طرح کی ۳۱

یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا ۳۲

یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے ۳۳

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں ۳۴

جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں ۳۵

میرے خدا میرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو ۳۶

انھیں بستیوں میں جیتے انھیں بستیوں میں مر رہتے ۳۷

قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے ۳۸

فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں ۳۹

جہاں بھی رہنا ہمیں یہی اک خیال رکھنا ۴۰

اب کے بچھڑا ہے تو کچھ نا شادماں وہ بھی تو ہے ۴۱

کھوئے ہوئے ایک موسم کی یاد میں ۴۲

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

فتنہ خريت

خوارج كے تباہ كن و خطرناك عقائد ان لوگوں كے دلوں ميں جو ذہنى طور پر فرسودہ و ناكارہ ہوچكے تھے اور اس كج رفتارى كيلئے آمادہ تھے بتدريج قوت پانے لگے اور ان كى وجہ سے اسلامى معاشرے كے لئے وہ نئي مشكل پيدا ہوگئي جس كا ذكر ذيل ميں آئے گا_

'' خريت بن راشد''(۲۱) بہت سرسخت خوارج ميں سے تھا جب حكميت كے نتيجے كا اعلان كيا گيا تو وہ اپنے حواريوں كوساتھ لے كر حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا اور كہنے لگا كہ اس كے بعد مجھ سے آپعليه‌السلام كى اطاعت و فرمانبردارى نہ ہوسكے گى ميں آپعليه‌السلام كے پيچھے نماز بھى ادانہ كروں گا اور كل ميں آپ سے عليحدہ ہوجاؤں گا _

اپنے اس فيصلے كا محرك وہ مسئلہ حكميت كو سمجھتا تھا حضرت علىعليه‌السلام نے اس كو جواب دينے ميں نرم رويہ اختيار كيا اور اسے پند و نصيحت كرنے كے بعد فرمايا : كہ وہ حكميت كے بارے ميں چاہيں تو بحث و گفتگو كرسكتے ہيں اس وقت تو اس نے گفتگو كرنا مناسب نہ سمجھاالبتہ اگلے دن كا وعدہ كر كے چلا گيا مگر رات كے وقت وہ اپنے حواريوں كو ساتھ لے كر فرار كرگيا_

اور ديگر خوارج كى طرح دہشت پسندى اور غارتگرى شروع كردى چنانچہ راہ ميں اسے جتنے بھى كينہ پرور و عناد پسند لوگ ملے وہ اس كے ہمراہ ہوگئے وہ مدائن پہنچ گيا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام '' زياد بن خصفہ'' كو ان كا تعاقب كرنے كے لئے روانہ كيا اور مختلف شہروں ميں اپنے كار پردازوں كو بھى لكھا تا كہ وہ ان علاقوں ميں جو ان كے زير فرمان ہيں ان كى تلاش و جستجو كے لئے اپنے كارندے مقرر كريں اور اس كے نتائج سے آپ كو مطلع و باخبر كرتے رہيں(۲۲) _

حضرت علىعليه‌السلام كے ''قرظہ بن كعب نامى '' كارپرداز نے اسے اپنى حراست ميں لے ليا اور اس واقعے كى حضرت علىعليه‌السلام كو اطلاع كى حضرت علىعليه‌السلام نے زياد كو اس بارے ميں مطلع كيا اور حكم ديا كہ اسے ميرے پاس روانہ كردو اگر وہ آنے سے انكار كرے تو ان كے ساتھ جنگ كرو كيونكہ اس نے نيز

۳۲۱

اس كے حواريوں نے حق كو پس پشت ڈال كر لوگوں كا ناحق خون بہلايا ہے اور راستوں ميں بد امنى پھيلا ركھى ہے_(۲۳)

زياد ا ور خريت ايك دوسرے كے مقابل آئے دونوں كے درميان گفتگو اور سوال و جواب ہوئے خريت اپنے عقيدے ميں پابر جاتھا دونوں كے درميان سخت جنگ ہوئي اور ان كے بيشتر افراد كارى زخموں كے باعث مجروح ہوئے جب رات ہوگئي تو خريت فرار كر كے اہواز كى سمت چلاگيا اور زيادہ واپس بصرہ تشريف لے آئے_

اہواز ميں بہت سے راہزن ، اس كے ہم عقيدہ عرب اور سطحى مسلمان جو اس كى تحريك كو دين پر ضرب لگانے، خراج ادا نہ كرنے اور قانون كى ہر قيد و بند سے خارج ہونے كا ذريعہ و وسيلہ سمجھتے تھے اس كے گرد جمع ہوگئے_

حضرت علىعليه‌السلام كو جب ان واقعات كى اطلاع ملى تو آپعليه‌السلام نے '' معقل بن قيس '' كو ايك ہزار افراد كے ہمراہ جنگ كرنے كے لئے بھيجا آپعليه‌السلام نے صوبہ دار بصرہ حضرت عبداللہ بن عباس كو بھى لكھا كو دو ہزار افراد كے ساتھ كسى دلير و بہادر نيز راستباز شخص كو روانہ كريں تا كہ وہ حضرت معقل كے ساتھ مل كر جنگ كر سكے اس كے ساتھ ہى آپعليه‌السلام نے زياد اور ان كے ہم قبيلہ لوگوں كى تعريف و توصيف كرتے ہوئے انھيں واپس آنے كے لئے حكم صادر كيا(۲۴) _

حضرت ابن عباس نے حضرت خالد بن معدان طائي كو دوہزار افراد كے ہمراہ روانہ كيا خريت كا تعاقب كرنے كے لئے حضرت معقل اہواز پہنچ كر اترے اس وقت خوارج وسيع دشت سے گذر كر كوہ رامہرمز كى بلنديوں كى جانب جانے كى كوشش و فكر ميں تھے تا كہ تعاقب كرنے والى جماعت كى نسبت وہ بہتر اور زيادہ مستحكم جگہ پر قيام كرسكيں ليكن معقل نے انھيں اچانك بے خبر نرغے ميں لے ليا اور ابھى وہ پہاڑ كے دامن سے اوپر نہيں گئے تھے كہ ان پر حملہ كرديا خونريز جنگ ، قبيلہ بنى ناجيہ كے تين سو ستر افراد كے قتل اور ان كے بے دين ساتھى كى كشت و كشتار(جن ميں كچھ عرب، بے دين اور بعض كر دشامل تھے) كے بعد خريت كيلئے فرار كے علاوہ كوئي چارہ باقى نہ رہ گيا

۳۲۲

(۲۵) يہاں سے فرار كرنے كے بعد خريت بحرين ميں دور ترين ممكن مقام پر پناہ گزيں ہوا يہاں بھى اس نے اپنے اغراض و مقاصد كا پر چار شروع كرديا اوردوبارہ لوگوں كو اپنے گرد آنے كى دعوت دينے لگے معقل نے حضرت علىعليه‌السلام كے حكم كے مطابق ان كا تعاقب كيا بحرين پہنچنے كے بعد اس نے سب سے پہلے حضرت علىعليه‌السلام كا وہ خط پڑھ كرسنايا جس ميں آپعليه‌السلام نے مسلمانوں ، عيسائيوں ، مرتدين اور بے دين لوگوں سے خطاب كيا تھا اس كے بعد انہوں نے پرچم دين لہرايا اور كہا كہ خريت اور اس كے ان حواريوں كى علاوہ جو كينہ و عداوت كے باعث مسلمانوں سے عليحدہ ہوگئے ہو جو شخص بھى اس پرچم كے زير سايہ آجائے گا وہ امن و امان ميں رہے گا اور ابھى چند لمحے ہى گذر ے تھے كہ خريت كے اطراف ميں اس كے اہل قبيلہ كے علاوہ كوئي شخص نہ رہا اس كے اور معقل كے درميان سخت جنگ ہوى تجاوز كاروں كى استقامت و پايدارى ايك گھنٹہ سے زيادہ قائم نہ رہ سكى ان كا رہبر اپنے ايك سوسترسے زيادہ افراد كے ساتھ قتل ہوا باقى ساتھى ايسے فرار كر گئے جيسے بھيڑوں كے درميان كوئي بھيڑيا آيا ہوليكن وہ بھى گرفتار و قيد ہوا ان ميں سے جو لوگ تائب ہوگئے معقل نے انھيں آزاد كرديا اور باقى افراد كو جو تعداد ميں پانچ سو سے زيادہ تھے كوفہ كى جانب روانہ كرديا_(۲۶)

آخرس سعى و كوشش

۳۹ ۴۰ ہجرى كے دوران معاويہ كى يورش ميں چونكہ بہت اضافہ ہوگيا تھا اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام نے اس كے حملوں كو روكنے كے لئے ان فوجى دستوں كو بھيجنے كے علاوہ جن كى حيثيت محفوظ لشكر كى تھى يہ فيصلہ كيا كہ اپنى تمام سعى و كوشش شام كى جانب لازم و ضرورى فوجى طاقت روانہ كرنے كيلئے صرف كرديں تا كہ معاويہ كى تجاوز كارى كا ہميشہ كے لئے سد باب ہوسكے كيونكہ آپ كے لئے اس كے علاوہ كوئي چارہ باقى نہيں رہ گيا تھا كہ مكمل جنگى سطح پر اس كا مقابلہ كيا جائے تا كہ اس شر سے ہميشہ كے لئے نجات حاصل ہو اور وہ بھى اپنى جگہ خاموش ہركر بيٹھے رہے_

۳۲۳

اس فيصلے كے بعد آپ نے حضرت معقل بن قيس كو سَواد (۲۷) كوفہ(۲۸) كى جانب روانہ كيا تا كہ لوگوں كو جنگ ميں شريك ہونے كى دعوت دے سكيں _

آپعليه‌السلام نے والى آذربائيجان قيس بن سعد كو بھى خط لكھا جس ميں مرقوم فرمايا كہ وہ لوگوں كو شام كى جانب روانہ ہونے كيلئے آمادہ اور نظرياتى اعتبار سے ان ميں وحدت يكجہتى كرے(۲۹)

اس كے علاوہ حضرت علىعليه‌السلام نے خود بھى كوفہ كے لوگوں كو آمادہ كرنے كے لئے مفصل تقرير كى جس ميں آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ اے ا للہ كے بندو گذشتہ اقوام كى تاريخ پر غور و فكر كرنا تمہارے لئے بيش قيمت درس عبرت ہے كہاں ہيں وہ بادشاہوں كے غول اور ان كے وارثين سلطنت كہاں ہيں فراعنہ اور ان كے جانشين ؟ كدھر گئے وہ خاندان رس كے مدنى فرمانروا جن سب نے پيغمبروں كو تہ تيغ، سنت كے روشن چراغوں كو خاموش اور ستمگروں كى راہ و روش كو زندہ كيا تھا كہاں گئے وہ فرمانروا جو عظيم لشكر لے كر روانہ ہوئے اور جنہوں نے ہزاروں بلكہ لاكھوں كى سپاہ كو شكست دى كدھر جاچھپى فاتحين كى وہ فوج كثير تعداد جو يكجا جمع ہوئي اور جس نے نئے شہروں كى بنياد ركھي؟

...خدا كے برگزيدہ و نيك بندے سفر پرجانے كے لئے كمربستہ ہوگئے انہوں نے دنيا كا فانى و بے ثبات چند روزہ چيزوں كا سودا آخرت كى جاودانى زندگى سے كيا سچ تو يہ ہے كہ ہمارے وہ بھائي جنہوں نے جنگ صفين ميں اپنا خون بہايا تھا اگر آج اس دنيا ميں نہيں ہيں تو انہوں نے كون سا خسارہ برداشت كيا؟

كہاں ہيں وہ ميرے بھائي جنہوں نے جہاد كى راہ اختيار كى اور جادہ حق طے كيا كہاں ہيں عماريا كہاں گئے ابن تيہان ذوالشہادتين ؟اور كدھر گئے ان جيسے دوسرے لوگ جنہوں نے موت سے عہد و پيمان كيا اور شرپسندوں كے ہاتھوں اپنے سر قلم كرائے اس كے بعد آپعليه‌السلام نے ريش مبارك پر اپنے ہاتھ ركھے اور كافى دير تك گريہ و زارى كرتے رہے _اس كے بعد فرمايا: كہ افسوس افسوس كہاں گئے وہ ميرے بھائي جنہوں نے قرآن پاك كى تلاوت كى اور زندگى ميں اسے اپنا حاكم بنايا اپنے فرائض كے پابند رہے اور ہميشہ انھيں پورا كيا انہوں نے سنت نبوى كو زندہ

۳۲۴

اور بدعتوں كا قلع قمع كيا انہوں نے جہاد كى حكومت كو قبول كيا اور اپنے ہادى اور رہبر پر پورا اعتماد كرتے ہوئے اس كى پيروى كى _

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے بآواز بلند فرمايا: (جہاد جہاد) اے خدا كے بندو ميں تمہيں يہ بتادينا چاہتا ہوں كہ آج ميں بھى تمہارے ساتھ عسكر گاہ كى جانب چلوں گا جو شخص بھى خدا كى جانب جلد از جلد آنا چاہتا ہے وہ نكل كر ہمارے ساتھ آئے_(۳۰)

آپعليه‌السلام كى اس سعى و كوشش كا يہ نتيجہ بر آمد ہوا كہ تقريبا چاليس ہزار افراد عسكر گاہ ميں جمع ہوگئے_

بقول '' نوف بكالي'' آپعليه‌السلام نے دس ہزار سپاہ كا پرچم حضرت امام حسينعليه‌السلام كو ديا دس ہزار سپاہى حضرت قيس كے زير نگرانى كئے دس ہزار سپاہ حضرت ابوايوب انصارى كى زير فرماندارى مقرر كئے اور دس ہزار سپاہى ان ديگر فرمانداروں كے حوالے كئے جنہوں نے اس تعداد ميں مزيد اضافہ كيا تھا اور حكم ديا كہ پورى فوج صفين كى جانب روانہ ہوليكن ابھى جمعہ بھى نہ گذر ا تھا كہ آپعليه‌السلام كے سرمبارك پر ابن ملجم نے كارى ضرب لگائي جس كے باعث لشكر بحالت مجبورى واپس كوفہ آگيا_(۳۱)

حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف دہشت پسندانہ سازش

تمام مشكلات اور سختيوں كے باوجود حضرت علىعليه‌السلام جس زمانے ميں شام كى جانب روانہ ہوئے اور معاويہ سے جنگ كا تدارك كر رہے تھے اسى عرصہ ميں چند خوارج بظاہر مراسم حج بيت اللہ ادا كرنے كى نيت سے مكہ ميں جمع ہوئے يہاں انہوں نے چند جلسات كى تشكيل كى جس ميں ان مقتولين كو ياد كيا جو جنگ نہروان ميں كام آگئے تھے ان كے خيال ميں وہ لوگ بے قصور مارے گئے تھے اور ان كے قتل كے اصل ذمہ دار حضرت علىعليه‌السلام ، معاويہ اور عمروعاص تھے_

ان كے خيال ميں يہ تينوں ہى حضرات '' ائمہ ضلال (گمراہوں كے امام) تھے_ چنانچہ انہوں نے فيصلہ كيا كہ تينوں كا فيصلہ كرديا جائے تا كہ اس طرح باہمى اختلاف ، كشمكش اور ناانصافى كى بيخ

۳۲۵

كنى كرديں _

ان ميں سے تين افراد نے اس مقصد كے لئے اپنى زندگى داؤ پر لگادى _ تا كہ تينوں مذكورہ حضرات كى زندگى كو ختم كرديں حضرت علىعليه‌السلام كو قتل كرنے كا ذمہ عبدالرحمن ابن ملجم نامى نے ليا انہوں نے اس سازش كى تكميل كے لئے باہمى عہد و پيمان كئے اور يہ فيصلہ كيا كہ بتاريخ ۱۹ ماہ رمضان ۴۰ ھ صبح كے وقت وہ اپنى دہشت پسندانہ كاروائي پر عمل در آمد كريں گے اس كے بعد وہ ايك دوسرے سے جداہوگئے_

ابن ملجم كوفہ ميں داخل ہوا اور اپنى چچازاد بہن قَطَام كے گھر پہنچا وہ اس كے ساتھ پہلے بھى چونكہ معاشقہ كرچكا تھا اسى لئے اب اسے اپنى شادى كرنے كا پيغام ديا قَطَام خود خوارج ميں سے تھى اس كے بھائي اور باپ كا قتل جنگ نہروان ميں ہوچكا تھا اسى لئے اس كے دل ميں حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف سخت عداوت و دشمنى تھى اس نے كہا كہ ميں اس شرط پرشادى قبول كرسكتى ہوں كہ ايك كنيز و غلام اور تين ہزار درہم نقد دينے كے علاوہ تو علىعليه‌السلام كو قتل كردے اگر تو اس مقصد ميں كامياب ہوگيا تو تو ميرے كليجے كو ٹھنڈا كرے گا اور مجھ سے داد مراد پائے گا اور اگر كہيں تو خود مارا گيا تو تجھے دنيوى نعمتوں سے كہيں زيادہ عظيم اس كااجر و ثواب ملے گا _

ابن ملجم نے جب ديكھا كہ يہ عورت اس كام كے لئے بہت زيادہ اصرار كررہى ہے تو اس نے بتاديا كہ ميں يہى ناپاك ارادہ لے كر كوفہ سے آيا ہوں _(۳۲)

ابن ملجم نے شبيب بن بجرہ نامى دوسرے شخص سے جو خود بھى خوارج ميں سے تھا اس كام ميں مدد لى قطام نے و ردان بن مجالد كو بھى اس كے ساتھ كرديا تا كہ وہ بھى اس كام ميں اس كا مدد گار ہوسكے اس نے '' اشعث بن قيس'' كو بھى اپنا راز دار بناليا اس شخض نے بھى اس كام كو تمام كرنے كے لئے اس كى حوصلہ افزائي كي (۳۳)

۳۲۶

شہادت كا انتظار

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے احاديث نبوى اور علم لدنى كى بنياد پر يہ پيشين گوئي كردى تھى كہ آپعليه‌السلام كى شہادت ماہ رمضان المبارك كے آخرى عشرہ ميں واقعہ ہوگى جب ماہ رمضان آگيا تو افطار كے بعد آپعليه‌السلام كبھى امام حسنعليه‌السلام كبھى امام حسينعليه‌السلام اور بعض راتوں ميں حضرت عبداللہ بن عباس كے گھر قيام فرماتے ليكن افطار كے وقت تين لقموں سے زيادہ تناول نہ فرماتے جب اس كى وجہ دريافت كى گئي تو آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميرى يہ آرزو ہے كہ خداوند تعالى كا ديدار شكم سير ہوئے بغير كروں(۳۴)

ماہ مبارك كى انيسويں شب ميں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام پر سخت ہيجانى كيفيت طارى تھى آپعليه‌السلام اچانك گھر كے اندر سے نكل كر صحن ميں تشريف لے آتے اور وہاں ٹہلنے لگتے اور آسمان كى طرف ديكھتے_ آپعليه‌السلام نے سب حاضريں كو بتادياتھا كہ آج كون سا عظيم حادثہ رونما ہونے والا ہے آپ يہ فرماچكے تھے كہ '' خدا كى قسم ميں غلط نہيں كہہ رہا رہوں اور مجھے غلط خبر نہيں دى گئي ہے كہ آج كى رات وہى رات ہے جس كا مجھ سے وعدہ كيا جاچكا ہے(۳۵)

اس رات حضرت علىعليه‌السلام تمام وقت بيدار رہے پورى رات تلاوت قرآن مجيد اور عبادت ميں گذرى طلوع فجر سے قبل جب آپ گھر سے مسجد تشريف لے جانے لگے تو راستے ميں مرغابياں آگئيں جنہيں راستے سے دور كرديا گيا اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ انھيں كچھ مت كہو يہ نوحہ و گريہ كر رہيں ہيں(۳۶)

شہادت

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام مسجد ميں تشريف لائے جو لوگ محو خواب تھے انھيں بيدار كيا كہ خداوند تعالى كى عبادت و مناجات ميں مشغول ہوں آپعليه‌السلام نے ابن ملجم كو بھى بيدار كيا(۳۱) وہ تو اول شب سے ہى آپعليه‌السلام كى آمد كا منتظر تھا ا وراس وقت خود كو سوتا ہوا بناليا تھا اس كے بعد

۳۲۷

آپعليه‌السلام نماز ادا كرنے كيلئے كھڑے ہوئے اور قلب و زبان كو ذكر خدا ميں مشغول كرديا_

اس وقت شبيب نے چاہا كہ آپعليه‌السلام پر تلوار سے وار كرے مگر اس كى تلوار محراب مسجد نے ٹكرا كر رہ گئي ابن ملجم تباہ كار جلدى سے آگے آيا اس نے اپنى تلوار اوپر اٹھائي اور باواز بلند كہا ''الحكم للہ لا لك يا على و لا لاصحابك'' يہ كہہ كر اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے سر مبارك پر اپنى تلوار اٹھائي جو ٹھيك اسى جگہ لگى جہاں جنگ خندق ميں ''عمرو بن عبدود''(۳۷) كى تلوار آپ كے سرمبارك پر لگ چكى تھى حق و عدل كا وہ پيكر جو صريح و واضح كفر اور الحاد كے ضربات سے زمين پر نہيں گرسكا تھا آج نفاق اور جہل و تعصب آميز ظاہرى تقدس كے ايك ہى وار سے خاك و خون ميں لوٹنے لگا حضرت علىعليه‌السلام نے جيسے ہى ضرب شمشير كو محسوس كيا فرمايا: ''فزت و رب الكعبه'' (۳۸) قسم كعبہ كے خدا كى آج ميں نے كاميابى حاصل كي_

آپعليه‌السلام كے فرزندوں اور اصحاب پر تو گويا غم و اندوہ كا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہر طرف سے گريہ و نالہ اور آہ و بكا كى صدائيں سنائي دينے لگيں لوگ سراسيمگى كى حالت ميں مسجد كى جانب دوڑے_

حضرت علىعليه‌السلام كا سرمبارك حضرت امام حسنعليه‌السلام كى آغوش ميں تھا جس سے مسلسل خون جارى تھا زخم كى شدت اور بہت زيادہ خون بہہ جانے كى وجہ سے آپعليه‌السلام اب تك بے ہوشى كى حالت ميں تھے ابن ملجم بھى پكڑا گيا اور اسے حضرت امام حسنعليه‌السلام كى خدمت ميں پيش كيا گيا حضرت مجتبىعليه‌السلام نے اس سے فرمايا اے ملعون تو نے پيشوائے مسلمين حضرت علىعليه‌السلام كو قتل كرديا كيا نيكى اور خير خواہى كا بدلہ يہى ہے تو وہى شخص ہے جسے خليفہ وقت نے پناہ دى اور اپنا مقرب بنايا؟

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے والد محترم كى خدمت ميں عرض كيا بابا جان يہ آپ كا اور خدا كا دشمن بحمداللہ گرفتار كرليا گيا ہے وہ اس وقت آپ كے روبرو حاضر ہے_

حضرت علىعليه‌السلام نے چشم مبارك كو كھولا اور فرمايا كہ تو بہت عظيم سانحہ كا مرتكب ہوا ہے اور تو نے نہايت ہى خطرناك كام كيا ہے كيا ميں تيرے لئے برا امام ثابت ہوا؟ ايسى كون سى مہربانى اور بخشش تھى جو ميں نے تيرے حق ميں روانہ ركھى كيا لطف و مہربانى كا يہى بدلہ وصلہ ہے؟

۳۲۸

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے حضرت امام حسنعليه‌السلام سے فرمايا كہ اے فرزند عزيز اپنے اس قيدى كے ساتھ خاطر و مدارات كا سلوك كرنا اور اس كے ساتھ مہربانى و نوازش سے پيش آنا_

جو كچھ تم كھاؤ اور پيو وہى تم اسے كھلانا اور پلانا اگر ميں مرجاؤں توميرے خون كے قصاص ميں اسے قتل كردينا مگر اس كے ناك، كان نہ كاٹنا كيونكہ ميں نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زبان مبارك سے سنا ہے كہ اس كتے كے بھى ناك كان نہ كاٹو جس نے تمہيں كاٹا ہے اور اگر ميں بچ گيا تو ميں ہى جانتا ہوں كہ اس كے ساتھ كيا سلوك كروں گا اسے معاف كردينے ميں مجھے سب پر فضيلت حاصل ہے كيونكہ ہمارا خاندان وہ خاندان ہے جس نے بڑے بڑے گناہگاروں كو معاف كيا اور ان كے ساتھ ہم بزرگوارى كے ساتھ پيش آتے ہيں(۳۹)

حضرت امام حسنعليه‌السلام اپنے والد بزرگوار كو گھر لے آئے لوگ گريہ و نالہ كرتے اور آپ سے رخصت ہوتے عجب كہرام كا عالم تھا لگتا تھا كہ غمگساروں كى جان كھينچ كرلبوں پر آگئي ہے_

حضرت امام مجتبىعليه‌السلام نے بعض اطبا كو جن ميں اثير بن عمرو سكونى سب سے زيادہ ماہر و حازق طبيب تھے علاج كے لئے بلايا انہوں نے كہا كہ بھيڑ كا تازہ جگر لاؤ اس كى ايك رگ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے زخم كے اندر ركھى اور اسے باہر نكال ليا انہوں نے ديكھا كہ مغز كى سفيدى اس رگ پر لگ گئي ہے اور دم شمشير كى ضرب نے دماغ تك اثر كيا ہے يہ ديكھ كر اس طبيب نے كہا '' يا اميرالمومنين اگر كوئي وصيت كرنا چاہيں تو كرديجئے''(۴۰)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے فرزندوں كو اخلاق حسنہ كى وصيت فرمائي اپنى زندگى كے قابل قدر و قيمت درس انھيں اور تمام مسلمين كو ديئے _ امور خلافت اپنے فرزند محترم امام حسنعليه‌السلام كو تفويض كيئے اور اس كا گواہ اپنے فرزندوں اور بزرگان خاندان كو بنايا كلام مجيد اور اپنا اسلحہ آپ كى تحويل ميں ديا_

جب حضرت علىعليه‌السلام اپنے فرزندوں كو پند ونصائح كرچكے تو آپعليه‌السلام نے موت كى علامات محسوس كيں اس كے بعد آپ قرآن پاك كى تلاوت ميں مشغول ہوگئے آخرى آيت جوآپ كى

۳۲۹

زبان مبارك پر آئي وہ يہ تھي_

) فمن يعمل مثقال ذرة خير ايره و من يعمل مثقال ذرة شر ايره ( (۴۱)

(پھر جس نے ذرہ برابر نيكى كى ہوگى وہ اس كو ديكھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدى كى ہوگى وہ اس كو ديكھ لے گا)

بتاريخ ۲۱ رمضان ۴۰ ھ اس وقت جب كہ آپ كاسن شريف تريسٹھ برس كا تھا آپ كى روح مقدس و مطہر اس جہان فانى سے پرواز كر كے عالم جاودانى كى جانب عروج كرگئي_

حضرت امام حسنعليه‌السلام نے اپنے ديگر بھائيوں اور حضرت علىعليه‌السلام كے اصحاب كى مدد سے اپنے شہيد والد محترم كى تجہيز كا انتظام كيا غسل و كفن كے بعد جب كچھ رات گذر گئي تو اس پيكر مقدس كو كوفہ سے باہر لے آئے تمام راستہ جنازے كے پيچھے رہ كر طے كيا اور جنازہ اس جگہ لايا گيا جو آج نجف اشرف كے نام سے مشہور و معروف ہے نماز جنازہ ادا كرنے كے بعد انتہايى خاموشى كے ساتھ اس پيكر تقدس كو سپرد خاك كرديا( ۴۲)

سلام عليه يوم ولد و يوم استشهد و يوم يبعث حيا

سلام ہو آپ پر جس دن آپ كى ولادت ہوئي اور جس دن شہيد كئے گئے اور جس دن زندہ اٹھائے جائيں گے_)

۳۳۰

سوالات

۱_ معاويہ نے كن محركات كے تحت دہشت پسند دستے ان مناطق ميں بھيجے جہاں حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت تھي؟

۲_ بسر بن ارطاہ نے جو قتل و غارتگرى كى اس كى كچھ مثاليں بيان كيجئے ان كے تجاوز كارانہ اقدام كا حضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے كيا رو عمل ہوا؟

۳_ سپاہ عراق پر سپاہ شام كى كاميابى كے كيا عوامل تھے؟ نہج البلاغہ ميں بيان كئے گئے حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال كى روشنى ميں اس امر كى وضاحت كيجئے؟

۴_ معاويہ كے حملات اور تجاوز كارانہ اقدامات كا سد باب كرنے كيلئے حضرت علىعليه‌السلام كا آخرى فيصلہ كيا تھا؟

۵_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو قتل كرنے كے لئے خوارج نے كيا سازش كى اس اقدام ميں كون سے عوامل كار فرماتھے؟

۶_ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے قاتل كے بارے ميں كيا ارشاد فرمايا؟ اور حضرت امام حسنعليه‌السلام كو اس سلسلے ميں كيا پند نصائح كيئے

۷_ حضرت علىعليه‌السلام كى شہادت كس تاريخ كو واقع ہوئي شہادت كے وقت آپ كا سن مبارك كتنا تھا؟

۳۳۱

حوالہ جات

۱_ يہ كوفہ كے مغرب ميں شہر انباركے نزديك بستى تھى (معجم البلدان ج ۴ پ ۱۷۶)الغارات ج ۲ /۴۴۵ ، طبرى ج ۵ / ۱۳۳ ، كامل ابن اثير ج ۳ / ۴۷۵ ، شرح ابى الحديد ج ۲ / ۳۰۵ _ ۳۰۱

۲_ يہ شہر دريائے فرات كے كنارے بغداد اور انبار كے درميان واقع تھا(معجم البلدان ۵/۴۲۰)

۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۲ ص ۸۵ ، كامل ابن اثير ج ۳/۳۷۶ و الغارات ج ۲ /۴۶۴

۴_ نہج البلاغہ خ ۲۷

۵_ يہ بستى شام كے اطراف ميں شام اور وادى القرى كے درميان اس راستے پر واقع ہے جہاں سے شام و دمشق كے حجاج گذر كر مكہ پہنچتے تھے (معجم البلدان ج ۲ /۶۷)

۶_ تاريخ طبرى ج ۵/۱۳۴ ، كامل ابن اثير ج ۳/۳۷۶ ، تاريخ يعقوبى ج ۲/۱۹۶

۷_ يہ كوفہ كے راستے ميں ايسى بستى تھى جہاں حجاج قيام كرتے تھے يہ خزيمہ سے پہلے اور شقوق كے بعد حجاج كى منزل گاہوں پر واقع تھي_

۸_ يہ جگہ كوفہ كے نزديك خشكى كى سمت واقع تھى سرزمين طف اور زندان نعمان بن منذر اسى جگہ تھى (معجم البلدان ج ۴/۳۷۴)

۹_ تاريخ طبرى ج ۵/۱۳۵ ، ليكن ثقفى نے الغارات كتاب ج ۳/۴۲۲ ميں لكھا ہے كہ ضحاك بن قيس نے عمرو بن عميس نيز اس كے ساتھيوں كو قتل كرديا_

۱۰_ تدمر سرزمين شام كا قديم شہر تھا يہ جگہ شہر حلب سے پانچ دن كے سفر پر وقع تھى (معجم البلدان )_

۱۱_ تاريخ طبرى ج ۵ /۱۳۵ ، الغارات ج ۲/۴۲۵_

۱۲_ ملاحظہ ہو الغارات ج ۲ /۶۰۰، و ديگر بعد كے صفحات ، نيز شرح ابن ابى الحديد ج ۲/۱۷_۷ و الغاتى ۱۶/۲۶۶_

۱۳_ نہح البلاغہ خ ۲۵_

۱۴ شرح ابن ابى الحديد ج ۲ / ۱۶_

۱۵_ تاريخ يعقوبى ج ۲ / ۲۰۰_

۳۳۲

۱۶_انى لعالم بما يصلحكم و يقم اودكم و لكنى لا ارى اصلاحكم بافساد نفسى نہج البلاغہ خ ۶۹_

۱۷_ نہج البلاغہ خ ۱۷_

۱۸_ نہج البلاغہ خ ۱۱۹_

۱۹_ نہج البلاغہ خ ۱۵۹_

۲۰_ ان كا ذكر سطور ذيل ميں آئے گا_

۲۱_ يہ حضرت جنگ جمل اور جنگ صفين ميں حضرت علىعليه‌السلام كے ہمراہ تھے جنگ جمل ميں تو انہوں نے قبيلہ نصر كى فرماندارى كے فرائض بھى انجام دئے ليكن مسئلہ حكميت كے بعد حضرت علىعليه‌السلام سے برگشتہ ہوگئے اور آپعليه‌السلام كى مخالفت پر اتر آئے _ الغارات ج ۱/۳۳۳_ ۳۳۲ _

۲۲_ الغارات ج ۱ ۳۳۸_۳۳۲_

۲۳_ الغارات ج ۱ ۳۴۲/۳۴۹_

۲۴_ الغارات ج ۱/۳۴۹_

۲۵_ الغارات جلد ،۱ ۳۵۳_۳۵۲_ كامل ابن اثير ج ۳ / ۳۶۸_۳۶۷_

۲۶_ الغارات ج ۱ /۳۵۹_كامل ابن اثير ۳/۳۶۹_

۲۷_'' سواد كوفہ '' اطراف كوفہ ميں وہ جگہ تھى جہاں كھجور كے درخت اس كثرت سے تھے كہ دور سے وہ جگہ سياہ نظر آتى تھى اسى وجہ سے اسے سواد كہا جاتا تھا يہ جگہ طول ہيں موصل سے آبادان تك اور عرض ميں غريب سے علوان تك پھيلى ہوئي تھى (مجمع البحرين ج ۳/۷۲)_

۲۸_ الغارات ج ۲ /۷۸۲ ، تقيح المقال ما مقانى ج۳/۲۹۷ _

۲۹_ تاريخ يعقوبى ج ۲ /۲۰۳_

۳۰_ ملاحظہ ہو نہج البلاغہ كا خطبہ ۱۸۲_

۳۱_ نہج البلاغہ خ ۱۸۲ ، ومناقب ابن شہر آشوب ج ۳ /۱۹۴_

۳۲_ مروج الذہب ج ۲/۴۱۱ ، بحار ج ۴۲/۲۲۸، مقاتل الطالبين ۱۸تاريخ طبرى ج ۵/۱۴۳_

۳۳۳

۳۳ _ حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كے قتل ميں اشعث بن قيس شركت تھا اس كى بيٹى نے حضرت امام حسنعليه‌السلام كو زہر ديااس كابيٹا محمد بھى حضرت امام حسينعليه‌السلام كے قتل ميں شريك تھا بحار ج ۴۲/۲۲۶_

۳۴_ بحار ج ۴۲/۲۲۴ ، ارشاد مفيد ۱۴_

۳۵_و الله ما كذبت و لا كذبت انها معى ليلة التى وعدت فيها بحار ج ۴۲/۲۲۶ ، ارشاد ۱۵ _

۳۶_ذروهن فانهن نوائح بحار ج ۴۲ /۲۲۶ ، و ارشاد مفيد/۱۵_

۳۷_ بحار ج ۴۲/۲۲۶ ، ارشاد ص ۱۲_

۳۸_ مناقب ج ۳/۳۱۲ ، بحار ج ۴۲/۲۳۹_

۳۹_ بحار الانوار ج ۴۲ /۲۸۸_۲۸۷_

۴۰_ مقاتل الطالبين ۲۳_

۴۱_ سورہ زلزال آيہ ۶_

۴۲_ بحارالانوار ج ۴۲/۲۹۴_

۳۳۴

فہرست

عرض ناشر: ۵

حضرت على _ كى زندگي مختلف ادوار ۶

پہلا سبق ۷

ولادت سے حضرت محمد مصطفي صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مبعوث بہ رسالت ہونے تك ۷

ولادت ۹

پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زير دامن آپ كى پرورش ۹

بعثت سے آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت تك ۱۱

بے نظيرقربانى ۱۲

ہجرت سے آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت تك ۱۲

علي عليه‌السلام رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے امين ۱۲

علي عليه‌السلام رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بھائي ۱۳

على عليه‌السلام اور راہ خدا ميں جنگ ۱۴

علي عليه‌السلام جنگ بدر كے بے نظير جانباز ۱۴

حضرت على عليه‌السلام رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تنہا محافظ ۱۵

مرحلہ فتح و كاميابى : ۱۵

مرحلہ شكست : ۱۶

جنگ خندق ميں على عليه‌السلام كا كردار ۱۷

على عليه‌السلام فاتح خيبر ۱۸

اميرالمومنين عليه‌السلام كى سياسى زندگى ميں جنگجوئي كے اثرات ۱۹

۳۳۵

حضرت على عليه‌السلام اور پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشيني ۲۰

حديث يوم الدار ۲۱

حديث منزلت ۲۲

قرآن مجيد ميں حضرت ہارون كے مقامات ومناصب: ۲۲

حديث غدير ۲۳

سوالات ۲۵

حوالہ جات ۲۶

دوسر ا سبق ۳۰

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳۰

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك(۱) ۳۱

وفات پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا ۳۱

غير متوقع حادثہ ۳۲

پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں ۳۲

لاتعلقي ۳۴

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ ۳۴

شورى ۳۵

وصى اور جانشين كا تقرر ۳۶

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات ۳۷

اس خطبے كے اہم نكات ۳۸

انصار كا ردّعمل ۳۹

۳۳۶

على عليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز ۴۰

سقيفہ كے واقعات كے بعد حضرت على عليه‌السلام كا ردعمل ۴۱

على عليه‌السلام نے كيوں عجلت نہيں كي؟ ۴۳

سوالات ۴۵

حوالہ جات ۴۶

تيسرا سبق ۴۸

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۲ ۴۸

حضرت على عليه‌السلام كے گھر ميں پناہ گزيني ۴۹

انصار سے مدد چاہنا ۵۰

حساس صورتحال ۵۰

قيام نہ كرنے كے دلائل اور وجوہات ۵۱

۱_ معقول فوجى طاقت كى كمي ۵۱

۲_ اسلام اور اسلامى وحدت كا تحفظ ۵۲

۳_ جاہليت كى طرف بازگشت ۵۳

۴_ كينہ تو ز دشمن ۵۴

بيعت كا انجام ۵۵

مسئلہ فدك ۵۵

فدك پر قابض ہونے كے محركات ۵۷

۱_ مخالفين كو اپنے جانب متوجہ كرنا ۵۷

۲_ جمع وخرچ كى مد ميں كمي ۵۸

۳۳۷

۳_ على عليه‌السلام كى اقتصادى قوت كے باعث خطرے كا احتمال ۵۸

مخالفين كى سركوبي ۵۹

شورشوں كا دباجانا ۶۱

حضرت فاطمہ عليه‌السلام كى وفات ۶۱

سوالات ۶۴

حوالہ جات ۶۵

چوتھا سبق ۶۸

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳ ۶۸

سرزمين شام و عراق كى فتح ۷۰

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت ۷۱

حضرت على عليه‌السلام ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات ۷۱

جانشينى كا تعين ۷۲

قلمرواسلام كى وسعت ۷۳

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات ۷۴

حضرت على عليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے ۷۵

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني ۷۶

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي ۷۷

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ ۷۸

خليفہ دوم كا قتل ۷۹

كونسى شوري؟ ۷۹

۳۳۸

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت على عليه‌السلام كى نظر ۸۰

حضرت على عليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ ۸۱

عثمان كى خلافت ۸۲

مسلمانوں كا بيت المال ۸۳

حضرت على عليه‌السلام كے پندو نصايح ۸۴

خليفہ سوم كا قتل ۸۶

حضرت على عليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل(۴۶) ۸۷

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران على عليه‌السلام كے كارنامے ۸۸

سوالات ۹۰

حوالہ جات ۹۱

پانچواں سبق ۹۵

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۹۵

حضرت علي عليه‌السلام كى بيعت ۹۶

بيعت كے بعد لوگوں ميں سرور و شادماني ۹۸

قريش كى وحشت و پريشاني ۹۹

گوشہ نشين لوگ ۱۰۰

حضرت علي عليه‌السلام كى بيعت كے امتيازات ۱۰۱

سوالات كے جوابات ۱۰۲

حضرت على عليه‌السلام نے كن مقاصد كے تحت حكومت قبول فرمائي_ ۱۰۳

ابتدائي اقدامات ۱۰۴

۳۳۹

نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر ۱۰۵

مساوى حقوق كى ضمانت ۱۰۷

لوٹے ہوئے مال كى واپسي ۱۰۸

بدعنوانيوں ميں ملوث دولتمندوں كى رخنہ اندازي ۱۱۰

سوالات ۱۱۱

حوالہ جات ۱۱۲

چھٹا سبق ۱۱۵

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۲ ۱۱۵

ناكثين(حكومت على عليه‌السلام كى مخالفت) ۱۱۶

ناكثين ۱۱۷

موقف ميں تبديلي ۱۱۹

مكہ ميں مخالفين كا جمع ہونا ۱۲۱

سپاہ كے اخراجات ۱۲۲

عراق كى جانب روانگي ۱۲۳

سپاہ كى جانب عثمان بن حنيف كے نمايندوں كى روانگي ۱۲۴

پہلا تصادم ۱۲۵

دھوكہ وعہد شكني ۱۲۷

جمل اصغر ۱۲۷

سردارى پر اختلاف ۱۲۸

خبر رساني ۱۲۹

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348