تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 11%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175317 / ڈاؤنلوڈ: 4063
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

فتنہ خريت

خوارج كے تباہ كن و خطرناك عقائد ان لوگوں كے دلوں ميں جو ذہنى طور پر فرسودہ و ناكارہ ہوچكے تھے اور اس كج رفتارى كيلئے آمادہ تھے بتدريج قوت پانے لگے اور ان كى وجہ سے اسلامى معاشرے كے لئے وہ نئي مشكل پيدا ہوگئي جس كا ذكر ذيل ميں آئے گا_

'' خريت بن راشد''(۲۱) بہت سرسخت خوارج ميں سے تھا جب حكميت كے نتيجے كا اعلان كيا گيا تو وہ اپنے حواريوں كوساتھ لے كر حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا اور كہنے لگا كہ اس كے بعد مجھ سے آپعليه‌السلام كى اطاعت و فرمانبردارى نہ ہوسكے گى ميں آپعليه‌السلام كے پيچھے نماز بھى ادانہ كروں گا اور كل ميں آپ سے عليحدہ ہوجاؤں گا _

اپنے اس فيصلے كا محرك وہ مسئلہ حكميت كو سمجھتا تھا حضرت علىعليه‌السلام نے اس كو جواب دينے ميں نرم رويہ اختيار كيا اور اسے پند و نصيحت كرنے كے بعد فرمايا : كہ وہ حكميت كے بارے ميں چاہيں تو بحث و گفتگو كرسكتے ہيں اس وقت تو اس نے گفتگو كرنا مناسب نہ سمجھاالبتہ اگلے دن كا وعدہ كر كے چلا گيا مگر رات كے وقت وہ اپنے حواريوں كو ساتھ لے كر فرار كرگيا_

اور ديگر خوارج كى طرح دہشت پسندى اور غارتگرى شروع كردى چنانچہ راہ ميں اسے جتنے بھى كينہ پرور و عناد پسند لوگ ملے وہ اس كے ہمراہ ہوگئے وہ مدائن پہنچ گيا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام '' زياد بن خصفہ'' كو ان كا تعاقب كرنے كے لئے روانہ كيا اور مختلف شہروں ميں اپنے كار پردازوں كو بھى لكھا تا كہ وہ ان علاقوں ميں جو ان كے زير فرمان ہيں ان كى تلاش و جستجو كے لئے اپنے كارندے مقرر كريں اور اس كے نتائج سے آپ كو مطلع و باخبر كرتے رہيں(۲۲) _

حضرت علىعليه‌السلام كے ''قرظہ بن كعب نامى '' كارپرداز نے اسے اپنى حراست ميں لے ليا اور اس واقعے كى حضرت علىعليه‌السلام كو اطلاع كى حضرت علىعليه‌السلام نے زياد كو اس بارے ميں مطلع كيا اور حكم ديا كہ اسے ميرے پاس روانہ كردو اگر وہ آنے سے انكار كرے تو ان كے ساتھ جنگ كرو كيونكہ اس نے نيز

۳۲۱

اس كے حواريوں نے حق كو پس پشت ڈال كر لوگوں كا ناحق خون بہلايا ہے اور راستوں ميں بد امنى پھيلا ركھى ہے_(۲۳)

زياد ا ور خريت ايك دوسرے كے مقابل آئے دونوں كے درميان گفتگو اور سوال و جواب ہوئے خريت اپنے عقيدے ميں پابر جاتھا دونوں كے درميان سخت جنگ ہوئي اور ان كے بيشتر افراد كارى زخموں كے باعث مجروح ہوئے جب رات ہوگئي تو خريت فرار كر كے اہواز كى سمت چلاگيا اور زيادہ واپس بصرہ تشريف لے آئے_

اہواز ميں بہت سے راہزن ، اس كے ہم عقيدہ عرب اور سطحى مسلمان جو اس كى تحريك كو دين پر ضرب لگانے، خراج ادا نہ كرنے اور قانون كى ہر قيد و بند سے خارج ہونے كا ذريعہ و وسيلہ سمجھتے تھے اس كے گرد جمع ہوگئے_

حضرت علىعليه‌السلام كو جب ان واقعات كى اطلاع ملى تو آپعليه‌السلام نے '' معقل بن قيس '' كو ايك ہزار افراد كے ہمراہ جنگ كرنے كے لئے بھيجا آپعليه‌السلام نے صوبہ دار بصرہ حضرت عبداللہ بن عباس كو بھى لكھا كو دو ہزار افراد كے ساتھ كسى دلير و بہادر نيز راستباز شخص كو روانہ كريں تا كہ وہ حضرت معقل كے ساتھ مل كر جنگ كر سكے اس كے ساتھ ہى آپعليه‌السلام نے زياد اور ان كے ہم قبيلہ لوگوں كى تعريف و توصيف كرتے ہوئے انھيں واپس آنے كے لئے حكم صادر كيا(۲۴) _

حضرت ابن عباس نے حضرت خالد بن معدان طائي كو دوہزار افراد كے ہمراہ روانہ كيا خريت كا تعاقب كرنے كے لئے حضرت معقل اہواز پہنچ كر اترے اس وقت خوارج وسيع دشت سے گذر كر كوہ رامہرمز كى بلنديوں كى جانب جانے كى كوشش و فكر ميں تھے تا كہ تعاقب كرنے والى جماعت كى نسبت وہ بہتر اور زيادہ مستحكم جگہ پر قيام كرسكيں ليكن معقل نے انھيں اچانك بے خبر نرغے ميں لے ليا اور ابھى وہ پہاڑ كے دامن سے اوپر نہيں گئے تھے كہ ان پر حملہ كرديا خونريز جنگ ، قبيلہ بنى ناجيہ كے تين سو ستر افراد كے قتل اور ان كے بے دين ساتھى كى كشت و كشتار(جن ميں كچھ عرب، بے دين اور بعض كر دشامل تھے) كے بعد خريت كيلئے فرار كے علاوہ كوئي چارہ باقى نہ رہ گيا

۳۲۲

(۲۵) يہاں سے فرار كرنے كے بعد خريت بحرين ميں دور ترين ممكن مقام پر پناہ گزيں ہوا يہاں بھى اس نے اپنے اغراض و مقاصد كا پر چار شروع كرديا اوردوبارہ لوگوں كو اپنے گرد آنے كى دعوت دينے لگے معقل نے حضرت علىعليه‌السلام كے حكم كے مطابق ان كا تعاقب كيا بحرين پہنچنے كے بعد اس نے سب سے پہلے حضرت علىعليه‌السلام كا وہ خط پڑھ كرسنايا جس ميں آپعليه‌السلام نے مسلمانوں ، عيسائيوں ، مرتدين اور بے دين لوگوں سے خطاب كيا تھا اس كے بعد انہوں نے پرچم دين لہرايا اور كہا كہ خريت اور اس كے ان حواريوں كى علاوہ جو كينہ و عداوت كے باعث مسلمانوں سے عليحدہ ہوگئے ہو جو شخص بھى اس پرچم كے زير سايہ آجائے گا وہ امن و امان ميں رہے گا اور ابھى چند لمحے ہى گذر ے تھے كہ خريت كے اطراف ميں اس كے اہل قبيلہ كے علاوہ كوئي شخص نہ رہا اس كے اور معقل كے درميان سخت جنگ ہوى تجاوز كاروں كى استقامت و پايدارى ايك گھنٹہ سے زيادہ قائم نہ رہ سكى ان كا رہبر اپنے ايك سوسترسے زيادہ افراد كے ساتھ قتل ہوا باقى ساتھى ايسے فرار كر گئے جيسے بھيڑوں كے درميان كوئي بھيڑيا آيا ہوليكن وہ بھى گرفتار و قيد ہوا ان ميں سے جو لوگ تائب ہوگئے معقل نے انھيں آزاد كرديا اور باقى افراد كو جو تعداد ميں پانچ سو سے زيادہ تھے كوفہ كى جانب روانہ كرديا_(۲۶)

آخرس سعى و كوشش

۳۹ ۴۰ ہجرى كے دوران معاويہ كى يورش ميں چونكہ بہت اضافہ ہوگيا تھا اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام نے اس كے حملوں كو روكنے كے لئے ان فوجى دستوں كو بھيجنے كے علاوہ جن كى حيثيت محفوظ لشكر كى تھى يہ فيصلہ كيا كہ اپنى تمام سعى و كوشش شام كى جانب لازم و ضرورى فوجى طاقت روانہ كرنے كيلئے صرف كرديں تا كہ معاويہ كى تجاوز كارى كا ہميشہ كے لئے سد باب ہوسكے كيونكہ آپ كے لئے اس كے علاوہ كوئي چارہ باقى نہيں رہ گيا تھا كہ مكمل جنگى سطح پر اس كا مقابلہ كيا جائے تا كہ اس شر سے ہميشہ كے لئے نجات حاصل ہو اور وہ بھى اپنى جگہ خاموش ہركر بيٹھے رہے_

۳۲۳

اس فيصلے كے بعد آپ نے حضرت معقل بن قيس كو سَواد (۲۷) كوفہ(۲۸) كى جانب روانہ كيا تا كہ لوگوں كو جنگ ميں شريك ہونے كى دعوت دے سكيں _

آپعليه‌السلام نے والى آذربائيجان قيس بن سعد كو بھى خط لكھا جس ميں مرقوم فرمايا كہ وہ لوگوں كو شام كى جانب روانہ ہونے كيلئے آمادہ اور نظرياتى اعتبار سے ان ميں وحدت يكجہتى كرے(۲۹)

اس كے علاوہ حضرت علىعليه‌السلام نے خود بھى كوفہ كے لوگوں كو آمادہ كرنے كے لئے مفصل تقرير كى جس ميں آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ اے ا للہ كے بندو گذشتہ اقوام كى تاريخ پر غور و فكر كرنا تمہارے لئے بيش قيمت درس عبرت ہے كہاں ہيں وہ بادشاہوں كے غول اور ان كے وارثين سلطنت كہاں ہيں فراعنہ اور ان كے جانشين ؟ كدھر گئے وہ خاندان رس كے مدنى فرمانروا جن سب نے پيغمبروں كو تہ تيغ، سنت كے روشن چراغوں كو خاموش اور ستمگروں كى راہ و روش كو زندہ كيا تھا كہاں گئے وہ فرمانروا جو عظيم لشكر لے كر روانہ ہوئے اور جنہوں نے ہزاروں بلكہ لاكھوں كى سپاہ كو شكست دى كدھر جاچھپى فاتحين كى وہ فوج كثير تعداد جو يكجا جمع ہوئي اور جس نے نئے شہروں كى بنياد ركھي؟

...خدا كے برگزيدہ و نيك بندے سفر پرجانے كے لئے كمربستہ ہوگئے انہوں نے دنيا كا فانى و بے ثبات چند روزہ چيزوں كا سودا آخرت كى جاودانى زندگى سے كيا سچ تو يہ ہے كہ ہمارے وہ بھائي جنہوں نے جنگ صفين ميں اپنا خون بہايا تھا اگر آج اس دنيا ميں نہيں ہيں تو انہوں نے كون سا خسارہ برداشت كيا؟

كہاں ہيں وہ ميرے بھائي جنہوں نے جہاد كى راہ اختيار كى اور جادہ حق طے كيا كہاں ہيں عماريا كہاں گئے ابن تيہان ذوالشہادتين ؟اور كدھر گئے ان جيسے دوسرے لوگ جنہوں نے موت سے عہد و پيمان كيا اور شرپسندوں كے ہاتھوں اپنے سر قلم كرائے اس كے بعد آپعليه‌السلام نے ريش مبارك پر اپنے ہاتھ ركھے اور كافى دير تك گريہ و زارى كرتے رہے _اس كے بعد فرمايا: كہ افسوس افسوس كہاں گئے وہ ميرے بھائي جنہوں نے قرآن پاك كى تلاوت كى اور زندگى ميں اسے اپنا حاكم بنايا اپنے فرائض كے پابند رہے اور ہميشہ انھيں پورا كيا انہوں نے سنت نبوى كو زندہ

۳۲۴

اور بدعتوں كا قلع قمع كيا انہوں نے جہاد كى حكومت كو قبول كيا اور اپنے ہادى اور رہبر پر پورا اعتماد كرتے ہوئے اس كى پيروى كى _

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے بآواز بلند فرمايا: (جہاد جہاد) اے خدا كے بندو ميں تمہيں يہ بتادينا چاہتا ہوں كہ آج ميں بھى تمہارے ساتھ عسكر گاہ كى جانب چلوں گا جو شخص بھى خدا كى جانب جلد از جلد آنا چاہتا ہے وہ نكل كر ہمارے ساتھ آئے_(۳۰)

آپعليه‌السلام كى اس سعى و كوشش كا يہ نتيجہ بر آمد ہوا كہ تقريبا چاليس ہزار افراد عسكر گاہ ميں جمع ہوگئے_

بقول '' نوف بكالي'' آپعليه‌السلام نے دس ہزار سپاہ كا پرچم حضرت امام حسينعليه‌السلام كو ديا دس ہزار سپاہى حضرت قيس كے زير نگرانى كئے دس ہزار سپاہ حضرت ابوايوب انصارى كى زير فرماندارى مقرر كئے اور دس ہزار سپاہى ان ديگر فرمانداروں كے حوالے كئے جنہوں نے اس تعداد ميں مزيد اضافہ كيا تھا اور حكم ديا كہ پورى فوج صفين كى جانب روانہ ہوليكن ابھى جمعہ بھى نہ گذر ا تھا كہ آپعليه‌السلام كے سرمبارك پر ابن ملجم نے كارى ضرب لگائي جس كے باعث لشكر بحالت مجبورى واپس كوفہ آگيا_(۳۱)

حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف دہشت پسندانہ سازش

تمام مشكلات اور سختيوں كے باوجود حضرت علىعليه‌السلام جس زمانے ميں شام كى جانب روانہ ہوئے اور معاويہ سے جنگ كا تدارك كر رہے تھے اسى عرصہ ميں چند خوارج بظاہر مراسم حج بيت اللہ ادا كرنے كى نيت سے مكہ ميں جمع ہوئے يہاں انہوں نے چند جلسات كى تشكيل كى جس ميں ان مقتولين كو ياد كيا جو جنگ نہروان ميں كام آگئے تھے ان كے خيال ميں وہ لوگ بے قصور مارے گئے تھے اور ان كے قتل كے اصل ذمہ دار حضرت علىعليه‌السلام ، معاويہ اور عمروعاص تھے_

ان كے خيال ميں يہ تينوں ہى حضرات '' ائمہ ضلال (گمراہوں كے امام) تھے_ چنانچہ انہوں نے فيصلہ كيا كہ تينوں كا فيصلہ كرديا جائے تا كہ اس طرح باہمى اختلاف ، كشمكش اور ناانصافى كى بيخ

۳۲۵

كنى كرديں _

ان ميں سے تين افراد نے اس مقصد كے لئے اپنى زندگى داؤ پر لگادى _ تا كہ تينوں مذكورہ حضرات كى زندگى كو ختم كرديں حضرت علىعليه‌السلام كو قتل كرنے كا ذمہ عبدالرحمن ابن ملجم نامى نے ليا انہوں نے اس سازش كى تكميل كے لئے باہمى عہد و پيمان كئے اور يہ فيصلہ كيا كہ بتاريخ ۱۹ ماہ رمضان ۴۰ ھ صبح كے وقت وہ اپنى دہشت پسندانہ كاروائي پر عمل در آمد كريں گے اس كے بعد وہ ايك دوسرے سے جداہوگئے_

ابن ملجم كوفہ ميں داخل ہوا اور اپنى چچازاد بہن قَطَام كے گھر پہنچا وہ اس كے ساتھ پہلے بھى چونكہ معاشقہ كرچكا تھا اسى لئے اب اسے اپنى شادى كرنے كا پيغام ديا قَطَام خود خوارج ميں سے تھى اس كے بھائي اور باپ كا قتل جنگ نہروان ميں ہوچكا تھا اسى لئے اس كے دل ميں حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف سخت عداوت و دشمنى تھى اس نے كہا كہ ميں اس شرط پرشادى قبول كرسكتى ہوں كہ ايك كنيز و غلام اور تين ہزار درہم نقد دينے كے علاوہ تو علىعليه‌السلام كو قتل كردے اگر تو اس مقصد ميں كامياب ہوگيا تو تو ميرے كليجے كو ٹھنڈا كرے گا اور مجھ سے داد مراد پائے گا اور اگر كہيں تو خود مارا گيا تو تجھے دنيوى نعمتوں سے كہيں زيادہ عظيم اس كااجر و ثواب ملے گا _

ابن ملجم نے جب ديكھا كہ يہ عورت اس كام كے لئے بہت زيادہ اصرار كررہى ہے تو اس نے بتاديا كہ ميں يہى ناپاك ارادہ لے كر كوفہ سے آيا ہوں _(۳۲)

ابن ملجم نے شبيب بن بجرہ نامى دوسرے شخص سے جو خود بھى خوارج ميں سے تھا اس كام ميں مدد لى قطام نے و ردان بن مجالد كو بھى اس كے ساتھ كرديا تا كہ وہ بھى اس كام ميں اس كا مدد گار ہوسكے اس نے '' اشعث بن قيس'' كو بھى اپنا راز دار بناليا اس شخض نے بھى اس كام كو تمام كرنے كے لئے اس كى حوصلہ افزائي كي (۳۳)

۳۲۶

شہادت كا انتظار

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے احاديث نبوى اور علم لدنى كى بنياد پر يہ پيشين گوئي كردى تھى كہ آپعليه‌السلام كى شہادت ماہ رمضان المبارك كے آخرى عشرہ ميں واقعہ ہوگى جب ماہ رمضان آگيا تو افطار كے بعد آپعليه‌السلام كبھى امام حسنعليه‌السلام كبھى امام حسينعليه‌السلام اور بعض راتوں ميں حضرت عبداللہ بن عباس كے گھر قيام فرماتے ليكن افطار كے وقت تين لقموں سے زيادہ تناول نہ فرماتے جب اس كى وجہ دريافت كى گئي تو آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميرى يہ آرزو ہے كہ خداوند تعالى كا ديدار شكم سير ہوئے بغير كروں(۳۴)

ماہ مبارك كى انيسويں شب ميں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام پر سخت ہيجانى كيفيت طارى تھى آپعليه‌السلام اچانك گھر كے اندر سے نكل كر صحن ميں تشريف لے آتے اور وہاں ٹہلنے لگتے اور آسمان كى طرف ديكھتے_ آپعليه‌السلام نے سب حاضريں كو بتادياتھا كہ آج كون سا عظيم حادثہ رونما ہونے والا ہے آپ يہ فرماچكے تھے كہ '' خدا كى قسم ميں غلط نہيں كہہ رہا رہوں اور مجھے غلط خبر نہيں دى گئي ہے كہ آج كى رات وہى رات ہے جس كا مجھ سے وعدہ كيا جاچكا ہے(۳۵)

اس رات حضرت علىعليه‌السلام تمام وقت بيدار رہے پورى رات تلاوت قرآن مجيد اور عبادت ميں گذرى طلوع فجر سے قبل جب آپ گھر سے مسجد تشريف لے جانے لگے تو راستے ميں مرغابياں آگئيں جنہيں راستے سے دور كرديا گيا اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ انھيں كچھ مت كہو يہ نوحہ و گريہ كر رہيں ہيں(۳۶)

شہادت

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام مسجد ميں تشريف لائے جو لوگ محو خواب تھے انھيں بيدار كيا كہ خداوند تعالى كى عبادت و مناجات ميں مشغول ہوں آپعليه‌السلام نے ابن ملجم كو بھى بيدار كيا(۳۱) وہ تو اول شب سے ہى آپعليه‌السلام كى آمد كا منتظر تھا ا وراس وقت خود كو سوتا ہوا بناليا تھا اس كے بعد

۳۲۷

آپعليه‌السلام نماز ادا كرنے كيلئے كھڑے ہوئے اور قلب و زبان كو ذكر خدا ميں مشغول كرديا_

اس وقت شبيب نے چاہا كہ آپعليه‌السلام پر تلوار سے وار كرے مگر اس كى تلوار محراب مسجد نے ٹكرا كر رہ گئي ابن ملجم تباہ كار جلدى سے آگے آيا اس نے اپنى تلوار اوپر اٹھائي اور باواز بلند كہا ''الحكم للہ لا لك يا على و لا لاصحابك'' يہ كہہ كر اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے سر مبارك پر اپنى تلوار اٹھائي جو ٹھيك اسى جگہ لگى جہاں جنگ خندق ميں ''عمرو بن عبدود''(۳۷) كى تلوار آپ كے سرمبارك پر لگ چكى تھى حق و عدل كا وہ پيكر جو صريح و واضح كفر اور الحاد كے ضربات سے زمين پر نہيں گرسكا تھا آج نفاق اور جہل و تعصب آميز ظاہرى تقدس كے ايك ہى وار سے خاك و خون ميں لوٹنے لگا حضرت علىعليه‌السلام نے جيسے ہى ضرب شمشير كو محسوس كيا فرمايا: ''فزت و رب الكعبه'' (۳۸) قسم كعبہ كے خدا كى آج ميں نے كاميابى حاصل كي_

آپعليه‌السلام كے فرزندوں اور اصحاب پر تو گويا غم و اندوہ كا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہر طرف سے گريہ و نالہ اور آہ و بكا كى صدائيں سنائي دينے لگيں لوگ سراسيمگى كى حالت ميں مسجد كى جانب دوڑے_

حضرت علىعليه‌السلام كا سرمبارك حضرت امام حسنعليه‌السلام كى آغوش ميں تھا جس سے مسلسل خون جارى تھا زخم كى شدت اور بہت زيادہ خون بہہ جانے كى وجہ سے آپعليه‌السلام اب تك بے ہوشى كى حالت ميں تھے ابن ملجم بھى پكڑا گيا اور اسے حضرت امام حسنعليه‌السلام كى خدمت ميں پيش كيا گيا حضرت مجتبىعليه‌السلام نے اس سے فرمايا اے ملعون تو نے پيشوائے مسلمين حضرت علىعليه‌السلام كو قتل كرديا كيا نيكى اور خير خواہى كا بدلہ يہى ہے تو وہى شخص ہے جسے خليفہ وقت نے پناہ دى اور اپنا مقرب بنايا؟

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے والد محترم كى خدمت ميں عرض كيا بابا جان يہ آپ كا اور خدا كا دشمن بحمداللہ گرفتار كرليا گيا ہے وہ اس وقت آپ كے روبرو حاضر ہے_

حضرت علىعليه‌السلام نے چشم مبارك كو كھولا اور فرمايا كہ تو بہت عظيم سانحہ كا مرتكب ہوا ہے اور تو نے نہايت ہى خطرناك كام كيا ہے كيا ميں تيرے لئے برا امام ثابت ہوا؟ ايسى كون سى مہربانى اور بخشش تھى جو ميں نے تيرے حق ميں روانہ ركھى كيا لطف و مہربانى كا يہى بدلہ وصلہ ہے؟

۳۲۸

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے حضرت امام حسنعليه‌السلام سے فرمايا كہ اے فرزند عزيز اپنے اس قيدى كے ساتھ خاطر و مدارات كا سلوك كرنا اور اس كے ساتھ مہربانى و نوازش سے پيش آنا_

جو كچھ تم كھاؤ اور پيو وہى تم اسے كھلانا اور پلانا اگر ميں مرجاؤں توميرے خون كے قصاص ميں اسے قتل كردينا مگر اس كے ناك، كان نہ كاٹنا كيونكہ ميں نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زبان مبارك سے سنا ہے كہ اس كتے كے بھى ناك كان نہ كاٹو جس نے تمہيں كاٹا ہے اور اگر ميں بچ گيا تو ميں ہى جانتا ہوں كہ اس كے ساتھ كيا سلوك كروں گا اسے معاف كردينے ميں مجھے سب پر فضيلت حاصل ہے كيونكہ ہمارا خاندان وہ خاندان ہے جس نے بڑے بڑے گناہگاروں كو معاف كيا اور ان كے ساتھ ہم بزرگوارى كے ساتھ پيش آتے ہيں(۳۹)

حضرت امام حسنعليه‌السلام اپنے والد بزرگوار كو گھر لے آئے لوگ گريہ و نالہ كرتے اور آپ سے رخصت ہوتے عجب كہرام كا عالم تھا لگتا تھا كہ غمگساروں كى جان كھينچ كرلبوں پر آگئي ہے_

حضرت امام مجتبىعليه‌السلام نے بعض اطبا كو جن ميں اثير بن عمرو سكونى سب سے زيادہ ماہر و حازق طبيب تھے علاج كے لئے بلايا انہوں نے كہا كہ بھيڑ كا تازہ جگر لاؤ اس كى ايك رگ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے زخم كے اندر ركھى اور اسے باہر نكال ليا انہوں نے ديكھا كہ مغز كى سفيدى اس رگ پر لگ گئي ہے اور دم شمشير كى ضرب نے دماغ تك اثر كيا ہے يہ ديكھ كر اس طبيب نے كہا '' يا اميرالمومنين اگر كوئي وصيت كرنا چاہيں تو كرديجئے''(۴۰)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے فرزندوں كو اخلاق حسنہ كى وصيت فرمائي اپنى زندگى كے قابل قدر و قيمت درس انھيں اور تمام مسلمين كو ديئے _ امور خلافت اپنے فرزند محترم امام حسنعليه‌السلام كو تفويض كيئے اور اس كا گواہ اپنے فرزندوں اور بزرگان خاندان كو بنايا كلام مجيد اور اپنا اسلحہ آپ كى تحويل ميں ديا_

جب حضرت علىعليه‌السلام اپنے فرزندوں كو پند ونصائح كرچكے تو آپعليه‌السلام نے موت كى علامات محسوس كيں اس كے بعد آپ قرآن پاك كى تلاوت ميں مشغول ہوگئے آخرى آيت جوآپ كى

۳۲۹

زبان مبارك پر آئي وہ يہ تھي_

) فمن يعمل مثقال ذرة خير ايره و من يعمل مثقال ذرة شر ايره ( (۴۱)

(پھر جس نے ذرہ برابر نيكى كى ہوگى وہ اس كو ديكھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدى كى ہوگى وہ اس كو ديكھ لے گا)

بتاريخ ۲۱ رمضان ۴۰ ھ اس وقت جب كہ آپ كاسن شريف تريسٹھ برس كا تھا آپ كى روح مقدس و مطہر اس جہان فانى سے پرواز كر كے عالم جاودانى كى جانب عروج كرگئي_

حضرت امام حسنعليه‌السلام نے اپنے ديگر بھائيوں اور حضرت علىعليه‌السلام كے اصحاب كى مدد سے اپنے شہيد والد محترم كى تجہيز كا انتظام كيا غسل و كفن كے بعد جب كچھ رات گذر گئي تو اس پيكر مقدس كو كوفہ سے باہر لے آئے تمام راستہ جنازے كے پيچھے رہ كر طے كيا اور جنازہ اس جگہ لايا گيا جو آج نجف اشرف كے نام سے مشہور و معروف ہے نماز جنازہ ادا كرنے كے بعد انتہايى خاموشى كے ساتھ اس پيكر تقدس كو سپرد خاك كرديا( ۴۲)

سلام عليه يوم ولد و يوم استشهد و يوم يبعث حيا

سلام ہو آپ پر جس دن آپ كى ولادت ہوئي اور جس دن شہيد كئے گئے اور جس دن زندہ اٹھائے جائيں گے_)

۳۳۰

سوالات

۱_ معاويہ نے كن محركات كے تحت دہشت پسند دستے ان مناطق ميں بھيجے جہاں حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت تھي؟

۲_ بسر بن ارطاہ نے جو قتل و غارتگرى كى اس كى كچھ مثاليں بيان كيجئے ان كے تجاوز كارانہ اقدام كا حضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے كيا رو عمل ہوا؟

۳_ سپاہ عراق پر سپاہ شام كى كاميابى كے كيا عوامل تھے؟ نہج البلاغہ ميں بيان كئے گئے حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال كى روشنى ميں اس امر كى وضاحت كيجئے؟

۴_ معاويہ كے حملات اور تجاوز كارانہ اقدامات كا سد باب كرنے كيلئے حضرت علىعليه‌السلام كا آخرى فيصلہ كيا تھا؟

۵_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو قتل كرنے كے لئے خوارج نے كيا سازش كى اس اقدام ميں كون سے عوامل كار فرماتھے؟

۶_ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے قاتل كے بارے ميں كيا ارشاد فرمايا؟ اور حضرت امام حسنعليه‌السلام كو اس سلسلے ميں كيا پند نصائح كيئے

۷_ حضرت علىعليه‌السلام كى شہادت كس تاريخ كو واقع ہوئي شہادت كے وقت آپ كا سن مبارك كتنا تھا؟

۳۳۱

حوالہ جات

۱_ يہ كوفہ كے مغرب ميں شہر انباركے نزديك بستى تھى (معجم البلدان ج ۴ پ ۱۷۶)الغارات ج ۲ /۴۴۵ ، طبرى ج ۵ / ۱۳۳ ، كامل ابن اثير ج ۳ / ۴۷۵ ، شرح ابى الحديد ج ۲ / ۳۰۵ _ ۳۰۱

۲_ يہ شہر دريائے فرات كے كنارے بغداد اور انبار كے درميان واقع تھا(معجم البلدان ۵/۴۲۰)

۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۲ ص ۸۵ ، كامل ابن اثير ج ۳/۳۷۶ و الغارات ج ۲ /۴۶۴

۴_ نہج البلاغہ خ ۲۷

۵_ يہ بستى شام كے اطراف ميں شام اور وادى القرى كے درميان اس راستے پر واقع ہے جہاں سے شام و دمشق كے حجاج گذر كر مكہ پہنچتے تھے (معجم البلدان ج ۲ /۶۷)

۶_ تاريخ طبرى ج ۵/۱۳۴ ، كامل ابن اثير ج ۳/۳۷۶ ، تاريخ يعقوبى ج ۲/۱۹۶

۷_ يہ كوفہ كے راستے ميں ايسى بستى تھى جہاں حجاج قيام كرتے تھے يہ خزيمہ سے پہلے اور شقوق كے بعد حجاج كى منزل گاہوں پر واقع تھي_

۸_ يہ جگہ كوفہ كے نزديك خشكى كى سمت واقع تھى سرزمين طف اور زندان نعمان بن منذر اسى جگہ تھى (معجم البلدان ج ۴/۳۷۴)

۹_ تاريخ طبرى ج ۵/۱۳۵ ، ليكن ثقفى نے الغارات كتاب ج ۳/۴۲۲ ميں لكھا ہے كہ ضحاك بن قيس نے عمرو بن عميس نيز اس كے ساتھيوں كو قتل كرديا_

۱۰_ تدمر سرزمين شام كا قديم شہر تھا يہ جگہ شہر حلب سے پانچ دن كے سفر پر وقع تھى (معجم البلدان )_

۱۱_ تاريخ طبرى ج ۵ /۱۳۵ ، الغارات ج ۲/۴۲۵_

۱۲_ ملاحظہ ہو الغارات ج ۲ /۶۰۰، و ديگر بعد كے صفحات ، نيز شرح ابن ابى الحديد ج ۲/۱۷_۷ و الغاتى ۱۶/۲۶۶_

۱۳_ نہح البلاغہ خ ۲۵_

۱۴ شرح ابن ابى الحديد ج ۲ / ۱۶_

۱۵_ تاريخ يعقوبى ج ۲ / ۲۰۰_

۳۳۲

۱۶_انى لعالم بما يصلحكم و يقم اودكم و لكنى لا ارى اصلاحكم بافساد نفسى نہج البلاغہ خ ۶۹_

۱۷_ نہج البلاغہ خ ۱۷_

۱۸_ نہج البلاغہ خ ۱۱۹_

۱۹_ نہج البلاغہ خ ۱۵۹_

۲۰_ ان كا ذكر سطور ذيل ميں آئے گا_

۲۱_ يہ حضرت جنگ جمل اور جنگ صفين ميں حضرت علىعليه‌السلام كے ہمراہ تھے جنگ جمل ميں تو انہوں نے قبيلہ نصر كى فرماندارى كے فرائض بھى انجام دئے ليكن مسئلہ حكميت كے بعد حضرت علىعليه‌السلام سے برگشتہ ہوگئے اور آپعليه‌السلام كى مخالفت پر اتر آئے _ الغارات ج ۱/۳۳۳_ ۳۳۲ _

۲۲_ الغارات ج ۱ ۳۳۸_۳۳۲_

۲۳_ الغارات ج ۱ ۳۴۲/۳۴۹_

۲۴_ الغارات ج ۱/۳۴۹_

۲۵_ الغارات جلد ،۱ ۳۵۳_۳۵۲_ كامل ابن اثير ج ۳ / ۳۶۸_۳۶۷_

۲۶_ الغارات ج ۱ /۳۵۹_كامل ابن اثير ۳/۳۶۹_

۲۷_'' سواد كوفہ '' اطراف كوفہ ميں وہ جگہ تھى جہاں كھجور كے درخت اس كثرت سے تھے كہ دور سے وہ جگہ سياہ نظر آتى تھى اسى وجہ سے اسے سواد كہا جاتا تھا يہ جگہ طول ہيں موصل سے آبادان تك اور عرض ميں غريب سے علوان تك پھيلى ہوئي تھى (مجمع البحرين ج ۳/۷۲)_

۲۸_ الغارات ج ۲ /۷۸۲ ، تقيح المقال ما مقانى ج۳/۲۹۷ _

۲۹_ تاريخ يعقوبى ج ۲ /۲۰۳_

۳۰_ ملاحظہ ہو نہج البلاغہ كا خطبہ ۱۸۲_

۳۱_ نہج البلاغہ خ ۱۸۲ ، ومناقب ابن شہر آشوب ج ۳ /۱۹۴_

۳۲_ مروج الذہب ج ۲/۴۱۱ ، بحار ج ۴۲/۲۲۸، مقاتل الطالبين ۱۸تاريخ طبرى ج ۵/۱۴۳_

۳۳۳

۳۳ _ حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كے قتل ميں اشعث بن قيس شركت تھا اس كى بيٹى نے حضرت امام حسنعليه‌السلام كو زہر ديااس كابيٹا محمد بھى حضرت امام حسينعليه‌السلام كے قتل ميں شريك تھا بحار ج ۴۲/۲۲۶_

۳۴_ بحار ج ۴۲/۲۲۴ ، ارشاد مفيد ۱۴_

۳۵_و الله ما كذبت و لا كذبت انها معى ليلة التى وعدت فيها بحار ج ۴۲/۲۲۶ ، ارشاد ۱۵ _

۳۶_ذروهن فانهن نوائح بحار ج ۴۲ /۲۲۶ ، و ارشاد مفيد/۱۵_

۳۷_ بحار ج ۴۲/۲۲۶ ، ارشاد ص ۱۲_

۳۸_ مناقب ج ۳/۳۱۲ ، بحار ج ۴۲/۲۳۹_

۳۹_ بحار الانوار ج ۴۲ /۲۸۸_۲۸۷_

۴۰_ مقاتل الطالبين ۲۳_

۴۱_ سورہ زلزال آيہ ۶_

۴۲_ بحارالانوار ج ۴۲/۲۹۴_

۳۳۴

فہرست

عرض ناشر: ۵

حضرت على _ كى زندگي مختلف ادوار ۶

پہلا سبق ۷

ولادت سے حضرت محمد مصطفي صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مبعوث بہ رسالت ہونے تك ۷

ولادت ۹

پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زير دامن آپ كى پرورش ۹

بعثت سے آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت تك ۱۱

بے نظيرقربانى ۱۲

ہجرت سے آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت تك ۱۲

علي عليه‌السلام رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے امين ۱۲

علي عليه‌السلام رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بھائي ۱۳

على عليه‌السلام اور راہ خدا ميں جنگ ۱۴

علي عليه‌السلام جنگ بدر كے بے نظير جانباز ۱۴

حضرت على عليه‌السلام رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تنہا محافظ ۱۵

مرحلہ فتح و كاميابى : ۱۵

مرحلہ شكست : ۱۶

جنگ خندق ميں على عليه‌السلام كا كردار ۱۷

على عليه‌السلام فاتح خيبر ۱۸

اميرالمومنين عليه‌السلام كى سياسى زندگى ميں جنگجوئي كے اثرات ۱۹

۳۳۵

حضرت على عليه‌السلام اور پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشيني ۲۰

حديث يوم الدار ۲۱

حديث منزلت ۲۲

قرآن مجيد ميں حضرت ہارون كے مقامات ومناصب: ۲۲

حديث غدير ۲۳

سوالات ۲۵

حوالہ جات ۲۶

دوسر ا سبق ۳۰

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳۰

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك(۱) ۳۱

وفات پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا ۳۱

غير متوقع حادثہ ۳۲

پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں ۳۲

لاتعلقي ۳۴

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ ۳۴

شورى ۳۵

وصى اور جانشين كا تقرر ۳۶

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات ۳۷

اس خطبے كے اہم نكات ۳۸

انصار كا ردّعمل ۳۹

۳۳۶

على عليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز ۴۰

سقيفہ كے واقعات كے بعد حضرت على عليه‌السلام كا ردعمل ۴۱

على عليه‌السلام نے كيوں عجلت نہيں كي؟ ۴۳

سوالات ۴۵

حوالہ جات ۴۶

تيسرا سبق ۴۸

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۲ ۴۸

حضرت على عليه‌السلام كے گھر ميں پناہ گزيني ۴۹

انصار سے مدد چاہنا ۵۰

حساس صورتحال ۵۰

قيام نہ كرنے كے دلائل اور وجوہات ۵۱

۱_ معقول فوجى طاقت كى كمي ۵۱

۲_ اسلام اور اسلامى وحدت كا تحفظ ۵۲

۳_ جاہليت كى طرف بازگشت ۵۳

۴_ كينہ تو ز دشمن ۵۴

بيعت كا انجام ۵۵

مسئلہ فدك ۵۵

فدك پر قابض ہونے كے محركات ۵۷

۱_ مخالفين كو اپنے جانب متوجہ كرنا ۵۷

۲_ جمع وخرچ كى مد ميں كمي ۵۸

۳۳۷

۳_ على عليه‌السلام كى اقتصادى قوت كے باعث خطرے كا احتمال ۵۸

مخالفين كى سركوبي ۵۹

شورشوں كا دباجانا ۶۱

حضرت فاطمہ عليه‌السلام كى وفات ۶۱

سوالات ۶۴

حوالہ جات ۶۵

چوتھا سبق ۶۸

رسول اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳ ۶۸

سرزمين شام و عراق كى فتح ۷۰

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت ۷۱

حضرت على عليه‌السلام ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات ۷۱

جانشينى كا تعين ۷۲

قلمرواسلام كى وسعت ۷۳

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات ۷۴

حضرت على عليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے ۷۵

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني ۷۶

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي ۷۷

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ ۷۸

خليفہ دوم كا قتل ۷۹

كونسى شوري؟ ۷۹

۳۳۸

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت على عليه‌السلام كى نظر ۸۰

حضرت على عليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ ۸۱

عثمان كى خلافت ۸۲

مسلمانوں كا بيت المال ۸۳

حضرت على عليه‌السلام كے پندو نصايح ۸۴

خليفہ سوم كا قتل ۸۶

حضرت على عليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل(۴۶) ۸۷

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران على عليه‌السلام كے كارنامے ۸۸

سوالات ۹۰

حوالہ جات ۹۱

پانچواں سبق ۹۵

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۹۵

حضرت علي عليه‌السلام كى بيعت ۹۶

بيعت كے بعد لوگوں ميں سرور و شادماني ۹۸

قريش كى وحشت و پريشاني ۹۹

گوشہ نشين لوگ ۱۰۰

حضرت علي عليه‌السلام كى بيعت كے امتيازات ۱۰۱

سوالات كے جوابات ۱۰۲

حضرت على عليه‌السلام نے كن مقاصد كے تحت حكومت قبول فرمائي_ ۱۰۳

ابتدائي اقدامات ۱۰۴

۳۳۹

نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر ۱۰۵

مساوى حقوق كى ضمانت ۱۰۷

لوٹے ہوئے مال كى واپسي ۱۰۸

بدعنوانيوں ميں ملوث دولتمندوں كى رخنہ اندازي ۱۱۰

سوالات ۱۱۱

حوالہ جات ۱۱۲

چھٹا سبق ۱۱۵

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۲ ۱۱۵

ناكثين(حكومت على عليه‌السلام كى مخالفت) ۱۱۶

ناكثين ۱۱۷

موقف ميں تبديلي ۱۱۹

مكہ ميں مخالفين كا جمع ہونا ۱۲۱

سپاہ كے اخراجات ۱۲۲

عراق كى جانب روانگي ۱۲۳

سپاہ كى جانب عثمان بن حنيف كے نمايندوں كى روانگي ۱۲۴

پہلا تصادم ۱۲۵

دھوكہ وعہد شكني ۱۲۷

جمل اصغر ۱۲۷

سردارى پر اختلاف ۱۲۸

خبر رساني ۱۲۹

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348