تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175252 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

بھتيجے كے دست مبارك پر بيعت كريں ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے ان كى تجويز كو بھى منظور كرنے سے انكار كر ديا _(۱۷)

حضرت عباس كى تجويز كو حضرت علىعليه‌السلام نے كيوں منظور نہےں فرمايا اس كا ذكر بعد مےں كيا جائے گا ، يہاں ابوسفيان كى تجويز كے بارے ميں وضاحت كر دينا ضرورى ہے كہ ابو سفيان كى كى پيشكش حسن نيت پر مبنى نہيں تھى بلكہ اس كا مقصد اختلاف و فتنہ پرپا كرنا تھا اس نے جانشينى پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے ميں مسلمانوں كى رسہ كشى اور اختلاف كو اچھى طرح محسوس كر ليا تھا وہ جانتا تھا كہ ابو بكر و عمر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كے چكر ميں ہےں اور اسے يہ معلوم تھا كہ سياسى اور معنوى اعتبار سے بنى ہاشم ہى ان كا مقابلہ كر سكتے ہيں لہذا وہ اپنے ناپاك مقصد كے حصول كے غرض سے خدمت امامعليه‌السلام مےں آيا اور آپ كو جنگ كيلئے ابھارا _

آپ نے ابوسفيان كى گفتگو سے اس اختلاف كا اندازہ لگا ليا تھا چنانچہ آپ خود فرماتے ہيں ميں ايك طوفان ديكھ رہا ہوں كہ جس كى منھ زوريوں كو خون ہى روك سكتا ہے(۱۸) پھر آپ اپنى رائے مےں صحيح تھے اگر بنى ہاشم اور ان كے سردار حضرت على بن ابيطالبعليه‌السلام فداكارى اور صبر سے كام نہ ليتے تو اس طوفانى اختلاف كو كشت و خون كے علاوہ كوئي چيز خاموش نہيں كر سكتى تھى _

سقيفہ كے واقعات كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كا ردعمل

سقيفہ ميں جو اجتماع ہوا تھا وہ اس طرح اختتام پذير ہوا كہ انصار و مہاجرين مےں سے چند افراد نے ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كر لى اس كے بعد يہ مجمع مسجد كى جانب روانہ ہوا تاكہ وہاں عام مسلمان بيعت كر سكيں عمر اس مجمع مےں پيش پيش تھے اور راہ ميں جو بھى ملتا اس سے كہتے كہ وہ ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كر لے _(۱۹)

حضرت علىعليه‌السلام ابھى پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جسد مبارك كے تكفين و تدفين مےں مشغول و منہمك تھے كہ لوگوں كے شورو غل كى صدائيں سنائي ديں اور صحيح واقعے كا اس كے ذريعے علم ہوا خلافت كى اہليت كے

۴۱

بارے ميں جب مہاجرين كى يہ حجت و دليل آپ كو بتائي گئي كہ انہوں نے اس بات پر احتجاج كيا كہ خليفہ خاندان قريش اور شجر نبوت كى شاخ ہو تو اس پر آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ انہوں نے تكيہ تو درخت پر ہى كيا ليكن اس كے پھل كو تباہ كر ڈالا _(۲۰)

حضرت علىعليه‌السلام كا دوسرا رد عمل پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جسد مبارك كى تدفين كے بعد ظاہر ہوا _ حضرت علىعليه‌السلام مسجد مےں تشريف فرما تھے اس وقت بنى ہاشم كے افراد بھى كافى تعداد ميں وہاں موجود تھے بعض وہ لوگ جو ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كر چكے تھے آپ كے اور افراد بنى ہاشم كے گرد جمع ہو گئے اور كہنے لگے كہ طائفہ انصار نيز ديگر افراد نے ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كر لى ہے آپ بھى بيعت كر ليجئے ورنہ تلوار آپ كا فيصلہ كرے گى _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں ان سے زيادہ بيعت كے لئے اہل وقابل ہوں تم لوگ ميرے ہاتھ پر بيعت كرو تم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قربت كے باعث خلافت انصار سے لے لى اور انہوں نے بھى يہ حق تسليم كر ليا خلافت كے لئے ميرے پاس بھى دلائل موجود ہيں مےں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں ہى نہےں بلكہ رحلت كے وقت بھى ان كے سب سے زيادہ قريب و نزديك تھا ميں وصى ' وزير اور علم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حامل ہوں ميں كتاب خدا اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے مےں سب سے زيادہ واقف و باخبر ہوں امور كے نتائج كے بارے ميں تم سے زيادہ جانتا ہوں ، ثبات و پائداراى مےں تم سے سب سے بہتر محكم و ثابت قدم ہوں اس كے بعد اب تنازع كس بات پر ہے؟(۲۱)

اس پر عمر نے كہا : آپ مانيں يا نہ مانيں ہم آپ كو بيعت كئے بغير جانے نہيں ديں گے حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں فيصلہ كن انداز ميں جواب ديتے ہوئے فرمايا كہ دودھ اچھى طرح دوہ لو اس مےں تمہارا بھى حصہ ہے آج خلافت كے كمر بند كو ابو بكر كيلئے مضبوط باندھ لو كل وہ تمہيں ہى لوٹا ديں گے _(۲۲)

اس وقت وہاں عبيدہ بھى موجود تھے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ اے ميرے چچا زاد بھائي رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آپ كى قرابت داري، اسلام ميں آپ كے سابق

۴۲

الاسلام ،اور اس كے مددگار اور آپ كى علمى فضيلت سے ہميں انكار نہيں ليكن آپ ابھى جو ان ہيں اور ابوبكر آپ ہى كے قبيلے كے معمر آدمى ہيں اس بار خلافت كو اٹھانے كيلئے وہ بہتر ہيں آپ كى اگر عمر نے وفا كى تو ان كے بعد خلافت آپ كو پيش كر دى جائي گى لہذا آپ اس وقت فتنہ و آشوب بپانہ كيجئے يہ آپ كو بخوبى علم ہے كہ عربوں كے دلوں ميں آپ كى كتنى دشمنى ہے _ (۲۳)

حضرت علىعليه‌السلام كا تيسرا رد عمل وہ تقرير تھى جو آپ نے مہاجرين و انصار كے سامنے فرمائي اسى تقرير كے دوران آپ نے فرمايا تھا '' اے مہاجرين و انصار خدا پر نظر ركھو اور ميرے بارے ميں تم نے جو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عہد و پيمان كيا تھا اسے فراموش نہ كرو حكومت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہ كو ان كے گھر سے اپنے گھر مت لے جاؤ

تم يہ بات جانتے ہو كہ ہم اہل بيت اس معاملے مےں تم سے زيادہ حقدار ہيں _ كيا تم كسى ايسے شخص كو نہيں چاہتے جسے مفاہيم قرآن، اصول و فروع دين اور سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عبور حاصل ہے تاكہ وہ اسلامى معاشرے كا بحسن و خوبى نظم ونسق برقرار كرسكے ميں خدائے واحد كو گواہ كركے كہتا ہوں كہ ايسا شخص ہم ميں موجود ہے اور تمہارے درميان نہيں ، نفسانى خواہشات كى پيروى مت كرو اور حق سے دور نہ ہوجائو نيز اپنے گذشتہ اعمال كو اپنى بد اعماليوں سے فاسد و كثيف نہ ہونے دو ''_

بشير بن سعد نے انصار كى ايك جماعت كے ساتھ كہا : اے ابوالحسن اگر انصار نے آپ كى يہ تقرير ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كرنے سے پہلے سن لى ہوتى تو دہ آدمى بھى ايسے نہ ہوتے جو آپ كے بارے ميں اختلاف كرتے_(۲۴)

علىعليه‌السلام نے كيوں عجلت نہيں كي؟

تاريخ كے اس حصے كا مطالعہ كرنے كے بعد ممكن ہے كہ يہ سوال سامنے آئے كہ اگر حضرت علىعليه‌السلام بھى دوسروں كى طرح امر خلافت ميں عجلت كرتے اور حضرت عباس و ابوسفيان كى تجويز مان ليتے

۴۳

تو شايد يہ منظر سامنے نہ آيا ہوتا اس بات كى وضاحت كے لئے يہاں اس بات كا واضح كردينا ضرورى ہے كہ آپ كى خلافت كا مسئلہ دو حالتوں سے خالى نہ تھا يا تو رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ كو خداوند تعالى كے حكم سے اس مقام كے لئے منتخب كرليا تھا (اس پر شيعہ عقائد كے لوگوں كا اتفاق ہے) ايسى صورت ميں عوام كا بيعت كرنا يا نہ كرنا اس حقيقت كو بدل نہيں سكتا اور اگر بالفرض خلافت كے معاملے ميں امت كو اس كے فيصلے پر آزاد چھوڑديا تھا تو پھر كيوں حضرت علىعليه‌السلام لوگوں كے حق انتخاب كو سلب كرتے_ وہ امت كو اس حال پر چھوڑديتے كہ وہ جسے بھى چاہيں اپنا خليفہ مقرر كريں _

اس سے بھى زيادہ اہم بات يہ ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا جسد مبارك ابھى زمين كے اوپر ہى تھا ، حضرت علىعليه‌السلام پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وصى كے لئے ايسى صورت ميں يہ كيسے ممكن تھا كہ وہ جسد اطہر پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو زمين پر ركھے رہنے ديں اور خود اپنے كام كے چكر ميں نكل جائيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے پہلے اپنا فرض ادا كيا پھر لوگوں كے سامنے تشريف لائے _ دوسرے بھى يہ بات جانتے تھے كہ اگر ايسے ميں حضرت عليعليه‌السلام تشريف لے آتے تو وہ ہرگز اپنے مقصد و ارادے ميں كامياب نہ ہوتے_ چنانچہ دوسروں نے امر خلافت كے سلسلے ميں عجلت كى اور حضرت علىعليه‌السلام كو اس وقت اطلاع دى جب كام تمام ہوچكاتھا_(۲۵)

۴۴

سوالات

۱_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد كيا واقعہ پيش آيا اور وہ كس طرح رفع ہوا؟

۲_ زمانہ مستقبل ميں اسلام كى قيادت ورہبرى كے سلسلے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظر ميں كونسى ممكن راہيں تھيں سب كى كيفيت بتايئے اور ہر ايك كا مقصد بيان كيجئے؟

۳_ اگر پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب سے كوئي شخص جانشين كى حيثيت سے منتخب نہ كيا گيا ہوتا تو مستقبل ميں اسلام كے لئے كيا خطرات لاحق ہوسكتے تھے مختصر طور پر لكھيئے؟

۴_ خلافت كے سلسلے ميں جس شورى كى تشكيل كى گئي تھى اسكى نفى كے لئے دو تاريخى شواہد و دلائل بيان كيجئے؟

۵_ امر خلافت ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وصايت كو پيش نظر ركھا تھا اس ميں تاريخ و احاديث كى بنياد پر دو دليل پيش كيجئے؟

۶_ سقيفہ كا واقعہ كس طرح پيش آيا ، مہاجرين ميں سے وہاں كون لوگ موجود تھے وہ وہاں كس لئے پہنچے اور اس كا كيا نتيجہ برآمد ہوا؟

۷_ بيعت كے سلسلے ميں حضرت علىعليه‌السلام پر اپنے چچا عباس اور ابوسفيان كى تجاويز كا كيوں اثر نہ ہوا؟

۸_ واقعہ سقيفہ كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كا كيا رد عمل تھا؟

۴۵

حوالہ جات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے دوواقعات جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں پيش آئے وہ مختصر طور پر تاريخ عصر نبوت ميں بيان كرديئے گئے ہيں _

۲_ آل عمران ۱۴۴ _( وَمَا مُحَمَّدٌ إلاَّ رَسُولٌ قَد خَلَت من قَبله الرُّسُلُ أَفَإين مَاتَ أَو قُتلَ انقَلَبتُم عَلَى أَعقَابكُم ) (محمد اس كے سوا كچھ نہيں كہ بس ايك رسول ہيں ان سے پہلے اور رسول گذر چكے ہيں اگر وہ مرجائيں يا قتل كرديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پائوں پلٹ جاؤ گے_

۳_ تاريخ طبرى ج ۳/۲۰۰ كامل ابن اثير ج ۲/ ۳۲۳، شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۱۲۸_

۴_ سقيفہ كے لغوى معنى سايبان ہيں _ سقيفہ مدينہ ميں مسجد النبىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ۶۰۰ قدم كے فاصلے پر باب السلام كے راستے ميں واقع ہے _ يہ جگہ بنى ساعدہ بن كعب خزرمى سے متعلق تھى _ لوگ اس سايبان كے نيچے اپنے معاملات كا فيصلہ كرنے كے لئے جمع ہوتے تھے بعد ميں يہ جگہ سقيفہ بنى ساعدہ كے نام سے مشہور ہوگئي_ (معجم البلدان ج ۳/ ۲۲۸)_

۵_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۶/ ۵۱، المراجعات / ۲۶۰ _ ۲۵۹ منقول از صحيح بخارى و مسلم ، تاريخ ابى الفدا ج ۱/۱۵۱ائتونى بدواة وصحيفة اكتب لكم كتاباً لا تضلون بعده _

۶_ وامرہم شورى بينہم (سورہ شورى آيت ۳۸)_

۷_ حضرت ابوطالبعليه‌السلام و حضرت خديجہعليها‌السلام كى وفات كے بعد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قبيلہ بنى عامر كے درميان سخت رنجش پيدا ہوگئي جس كے باعث قريش پہلے كى نسبت اب زيادہ آپ پر دبائو ڈالنے لگے نيز حملات كرنے كى كوشش كرنے لگے تھے_

۸_ سيرة ابن ہشام ج ۲ / ۶۶ ''الامر الى الله يضعه حيث يشائ''

۹_ گذشتہ فصل ميں حديث ثقلين كے علاوہ ديگر احاديث كا مختصر جائزہ لياجاچكا ہے اسى وجہ سے يہاں اس كے دوبارہ نقل كرنے سے گريز كيا گيا ہے_

۱۰ _ تاريخ اس امر كى گواہ ہے كہ خلفاء وقت نے جب كبھى ضرورت محسوس كى حضرت علىعليه‌السلام سے رجوع كيا اور آپ سے درخواست كى ان كى مشكلات حل كرنے ميں انكى مدد فرمائيں _ ان واقعات كى كيفيت آيندہ ابواب ميں بيان كى جائے گا_

۴۶

يہ حصہ كتاب تشيع مولود طبيعى اسلام ترجمہ التشيع والاسلام_ شہيد باقر الصدر سے ماخوذ ہے ص۲۸_

۱۱_ الامامة والسياسة ج ۱/ ۱۴_ ۳۱_

۱۲_ يہاں يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ ابوبكر كى تقرير كے بعد عمر نے بھى اپنے خيالات كا اظہار كيا اور كہا كہ ميں نے راستہ طے كرنے كے دوران كسى منصوبے يا لائحہ عمل كے بارے ميں غور و فكر نہيں كيا ہے سوائے اس كے جو ابوبكر نے بيان كيا ہے مجھے اس سے كلى اتفاق ہے اور جو كچھ انہوں نے اپنى زبان سے كہاہے بلكہ اس سے بھى سنے بہترما من شى كنت زرته فى الطريق الا انا به او باحسن منه _ تاريخ طبرى ج ۳/ ۲۱۹ ، كامل ابن اثير ج ۲/ ۳۲۷ _

۱۳_ طرح ہاى رسالت (ج ۱ / ۲۵۷ _ ۲۵۵)كا خلاصہ_

۱۴_ الامامة والسياسة (ج ۱/ ۲۱_۱۶)كامل ابن اثير ج ۲/ ۳۲۹_ ۲۲۸)تاريخ طبرى (ج ۳/ ۲۲۰_ ۲۱۸)_

۱۵_ ان پانچ رائے ميں سے تين تو ابوبكر، عمر اور ابوعبيدہ كى تھيں اور انصار ميں سے دو رائے بشير ابن سعد واسيد بن حضير كى تھيں _ ان پانچ افراد كے علاوہ باقى لوگ اپنے سرداران قبائل كے تابع تھے_ چنانچہ ہر قبيلے كا سردار جو رائے ديتا اس قبيلے كے تمام افراد اس كى پيروى كرتے اور اپنى مرضى سے كوئي رائے نہ ديتے_

۱۶_ كامل ابن اثير ج ۲/ ۳۲۶ _ تاريخ طبرى ج ۳/ ۲۰۹ ارشاد مفيد ۱۰۲_

۱۷_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۲۳۰ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۱۹۲_

۱۸_انى لارى عجاجةلا يطفئها الالدم _ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۲/ ۴۴_ كامل ج ۲/ ۳۲۵ _ تاريخ طبرى ج ۳/ ۲۰۹_

۱۹_ شرح ابن ابى الحديد ج ۳/۲۰۹_

۲۰_ احتجوا بالشجرة واضاعوا الثمرة_ نہج البلاغہ خ ۶۶_

۲۱_ احتجاج طبرى ج ۱/۹۵ الامامة والسياسة ج ۱ / ۱۸_

۲۲_ احلب حلباً ہناك شطرہ وشد لہ اليوم ليرد عليك غداً_

۲۳_ الامامة والسياسة ج ۱ / ۱۸ شرح ابن ابى الحديد ج ۶/ ۱۲_۱۱_ احتجاج طبرسى ج ۱/ ۹۶ _

۲۴_ الامامة والسياسة ج ۱۹/ ۱۸ _ احتجاج طبرسى ج ۱/ ۹۶ _

۲۵_ ماخوذ از كتاب ''خلافت و ولايت'' /۶۳_

۴۷

تيسرا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۲

حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں پناہ گزيني

انصار سے مدد چاہنا

حساس صورت حال

قيام نہ كرنے كے دلائل اور وجوہات

معقول فوجى طاقت كى كمي

اسلام اور اسلامى وحدت كا تحفظ

جاہليت كى طرف بازگشت

كينہ توز دشمن

بيعت كا انجام

مسئلہ فدك

فدك پر قابض ہونے كے محركات

۱)مخالفين كو اپنى جانب متوجہ كرنا۲) جمع وخرچ كى مد ميں كمي

علىعليه‌السلام كى اقتصادى قوت كے باعث خطرے كا احتمال

مخالفين كى سركوبي

شورش كا دباجانا

حضرت فاطمہعليه‌السلام كى وفات

سوالات

حوالہ جات

۴۸

حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں پناہ گزيني

صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں ايسے پاك طينت لوگ بھى موجود تھے جنہوں نے ابوبكر كى بيعت نہيں كى تھي_ چنانچہ موصوف كو خليفہ بنائے جانے پر انہوں نے اعتراض كيا اور اس كے اظہار كے لئے انہوں نے پناہ گزينى كى راہ اختيار كى اور اس مقصد كے لئے بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت فاطمہعليه‌السلام كے گھر ميں جمع ہوگئے_

ان ميں سے بعض افراد كے نام مورخين نے اپنى كتابوں ميں درج كئے ہيں _(۱)

حضرت فاطمہعليه‌السلام كا گھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حيات ميں خاص احترام كى نظر سے ديكھا جاتا تھا_ چنانچہ بنى ہاشم ' بعض مہاجرين اور اہل بيتعليه‌السلام كا آپ كے گھر ميں پناہ گزيں ہونے كا فطرى طور پر مقصد ہى يہ تھا كہ كوئي شخص زبردستى پناہ گزينوں كى بيعت كى غرض سے مسجد ميں لانہيں سكتا تھا _ بالاخر عمر كو ايك دستے كے ساتھ مقرر كيا گيا كہ وہ حضرت فاطمہعليه‌السلام كے گھر پر جائيں اور پناہ گزينوں كو نكال كر باہر لائيں تاكہ وہ خليفہ كے ہاتھ پر بيعت كريں _ عمر ايك گروہ كے ساتھ حضرت فاطمہعليه‌السلام كے گھر كى جانب روانہ ہوئے اور بڑى كشمكش كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كو باہر لايا گيا اور آپ كو مسجد لے گئے جہاں آپ كو مجبور كيا گيا كہ ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كريں ليكن حضرت علىعليه‌السلام اپنے ارادے پر قائم رہے_

جب ديكھا كہ حضرت علىعليه‌السلام اپنے عزم وارادے پر قائم ہيں تو لوگ بھى آپ سے دستكش ہوگئے_(۲)

۴۹

انصار سے مدد چاہنا

اس واقعے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام اور حضرت فاطمہعليه‌السلام راتوں كو انصار كے گھر تشريف لے جاتے اور اہل بيت سے متعلق پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وصايا اور احاديث كى جانب توجہ دلاتے ہوئے ان سے مدد كے خواہاں ہوتے وہ لوگ جواب ميں كہتے اے بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم اس شخص كے ہاتھ پر بيعت كرچكے ہيں اگر تمہارے چچا كے بيٹے نے ابوبكر سے قبل ہم سے بيعت كرنے كے لئے كہا ہو تا تو ہم علىعليه‌السلام كے مقابل كسى دوسرے شخص كو ترجيح نہ ديتے_ اس پر حضرت علىعليه‌السلام فرماتے كيا عجيب بات ہے كيا تمہيں مجھ سے يہ توقع تھى كہ جنازہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تكفين و تدفين كيئےغير اسے يونہى گھر ميں چھوڑ ديتا اور اس حكومت كو حاصل كرنے كى غرض سے' جو اس عظےم المرتبت انسان نے چھوڑى تھى ، كشمكش و تنازع ميں پڑجاتا ؟

فاطمہ زہراعليه‌السلام فرماتيں : ابوالحسن نے جو كچھ كيا وہ صحيح تھا اور لوگوں نے جو كچھ كيا ہے خدا ان سے باز پرس كرے گا _(۳)

حساس صورتحال

حضرت علىعليه‌السلام جس كيفيت وحالت سے گذر رہے تھے وہ بہت زيادہ حساس تھى كيونكہ آپ كو جو فرض سپرد كيا گيا تھا وہ نہايت ہى مشكل مگر بہت ہى عظےم واہم تھا_ ايك طرف آپ ديكھ رہے تھے كہ خلافت واسلامى قيادت اصل راہ سے دور ہوگئي ہے جس كے باعث فطرى طور پر بہت سے حقوق پائمال ہوكر رہ جائيں گے_

دوسرى طرف آپ ديكھ رہے تھے كہ مسلمان چونكہ گروہوں ميں تقسيم ہوگئے تھے،اسى لئے ان ميں اختلافات بھى شروع ہوگئے ہيں _ اب ديكھنا يہ ہے كہ اس حساس حالت و كيفيت ميں حضرت علىعليه‌السلام كا كيا فرض ہے كيا داخلى موقع پرست جماعت كى خود غرضى پر مبنى حركات كو برداشت كركے سكوت اختيار كئے رہنا يا ان حالات كے خلاف سركشى اور كسى تحريك كا آغاز كرنا؟

۵۰

اگرچہ مسجد نبوى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں مہاجرين و انصار كى موجودگى ميں حضرت علىعليه‌السلام اور آپ كے طرفداروں كى پند ونصےحت نيز روشن و واضح تقارير نے اس حقيقت كو آشكارا كردياتھا _ آپ كے سامنے اب دو ہى راہيں تھيں پہلى تو يہى كہ بغاوت كركے اپنا حق واپس لے ليا جائے اور دوسرى يہ كہ اسلام كے تحفظ كى خاطر سكوت اختيار كياجائے_

موجود قرائن ودلائل سے ثابت ہے كہ ان حالات ميں حضرت علىعليه‌السلام كے لئے قيام كرنا اسلام كے حق ميں ہرگز سود مند نہ تھا _ جس كا نتيجہ يہ ہوسكتا تھا كہ اسلامى معاشرہ منتشر ہوكر رہ جائے اور لاتعداد گروہ و افراد دين اسلام سے برگشتہ ہوكر واپس عہد جاہليت ميں اور ديگر خرافات كى جانب چلے جائيں _

قيام نہ كرنے كے دلائل اور وجوہات

حضرت علىعليه‌السلام نے مختلف مواقع پر جو تقارير كيں اگر ہم ان كا اور ان حالات كا جو اس وقت اسلامى معاشرہ پر مسلط و طارى تھے جائزہ ليں تو ہميں اس سوال كا جواب مل جائے گا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے كيوں قيام نہيں كيا اب ہم ان نكات كو بيان كر رہے ہيں جن سے يہ باتيں روشن ہوجائےں گي_

۱_ معقول فوجى طاقت كى كمي

مندرجہ بالا سوال كا جواب ديتے ہوئے خود حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا تھا:

امر خلافت ميں ميرى كوتاہى موت كے خوف كى وجہ سے نہيں تھى بلكہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق تھى كيونكہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ امت نے تجھ سے خيانت كى ہے ، انہوں نے مجھ سے جو عہد كيا ہے اسے وہ وفا نہيں كريں گے_ درحاليكہ تم ميرے لئے ايسے ہى ہو جيسے حضرت موسىعليه‌السلام

۵۱

كے لئے حضرت ہارون عليه‌السلام تھے_

اس كے بعد آپ نے مزيد فرمايا كہ ميں نے سوال كيا كہ ايسى حالت ميں مجھے كيا كرنا چاہيئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ اگر كوئي ايسا شخص مل گيا جو تمہارى مدد كرے تو تم ان سے جنگ وجدال كرنا اور اپنا حق حاصل كرلينا اگر ايسا نہ ہوا تو تم اس خيال سے در گذر كرنا ، اپنى خون كى حفاظت كرنا تاكہ تم ميرے پاس مظلوم آؤ _(۴)

آپ نے ايك جگہ اور بھى اس تلخ حقيقت كى صراحت كرتے ہوئے فرمايا تھا: اگرمجھے چاليس با عزم افراد مل جاتے تو ميں اس گروہ كے خلاف انقلاب اور جنگ و جدال كرتا_(۵)

ايك جگہ آپ نے يہ بھى فرمايا تھا كہ ميں نے اپنے اطراف ميں نظر ڈالى اور ديكھا كہ جز ميرے اہل بيتعليه‌السلام كے ميرا كوئي يار ومددگار نہيں مجھے يہ گوارانہ ہوا كہ انہيں موت كے منہ ميں دے دوں _(۶)

۲_ اسلام اور اسلامى وحدت كا تحفظ

وہ نو مسلم عرب جن ميں سے دور جاہليت كے رسم ورواج كى عادت و خوا بھى مكمل طور پر ختم نہيں ہوئي تھى اور جذبہ ايمان واسلامى عقيدہ ان كے دلوں ميں پورے طور پر راسخ نہيں ہوا تھا انہيں مد نظر ركھتے ہوئے ہر قسم كى داخلى جنگ مسلمانوں كى طاقت كے انحلال اور اسلام كے انہدام كا باعث ہوتى بالخصوص ان حالات ميں جب كہ ''اہل ردہ'' نے جزيرہ العرب كے اطراف ميں مركزى حكومت كے خلاف اپنا پرچم لہرادياتھا(۷) ان كے علاوہ ايران اور روم كى دو شاہنشاہى طاقتيں اس موقع كى تلاش ميں تھيں كہ قائم شدہ حكومت سے برسر پيكار ہوں اگر حضرت علىعليه‌السلام ان متزلزل مسلمانوں اور بيرونى دشمنوں كو پيش نظر ركھتے ہوئے بھى تلوار كا سہارا ليتے اوراپنا حق حاصل كرنے كى خاطر ابوبكر سے جنگ وجدال كرتے تو نوعمر اسلامى طاقت اور مركزيت كو مدينہ ميں نقصان پہنچتا اور اسلام كو نيست ونابود كرنے كى غرض سے بيرونى طاقتوں كے لئے يہ بہترين

۵۲

موقع ہوتا شايد يہى وجہ تھى كہ سقيفہ كے واقعات سے متعلق آپ نے جو تقرير كى تھى اس ميں اتحاد كى اہميت اور تفرقہ اندازى كے برے نتائج كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا تھا: فتنے كى امواج كو نجات كى كشتيوں سے چاك كردو، اختلاف پيدا كرنے سے گريز كرو ، فخر فروشى كى علامات كو سرسے اتار دو ، ميرى خاموشى كا سبب ميرى وہ دانش وباطنى آگاہى ہے جس ميں ميں غرق ہوں اگر تم بھى ميرى طرح باخبر ہوتے تو كنويں كى رسى كى مانند مضطرب و لرزاں ہوجاتے_ (۸)

۳_ جاہليت كى طرف بازگشت

قرآن مجيد ميں ايك آيت اس امر كى جانب اشارہ كر رہى تھى كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد ايك گروہ واپس دور جاہليت كى طرف چلاجائے گا چنانچہ فرماتا ہے :( فان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ) _(۹)

اس آيت مباركہ كى روشنى ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اسلامى معاشرہ كى آيندہ زندگى كے بارے ميں سخت تشويش تھى _ سقيفہ ميں جو واقعہ پيش آيا اس كا جائزہ لياجائے تو يہ بات واضح ہوجائے گى اس روز كس طرح يہ راز روشن عياں ہوگيا اور ايك بار پھر قبائلى تعصبات اور دور جاہليت سے متعلق افكار و خيالات دونوں جانب سے تقارير كے دوران اشارہ و كنايہ ميں نماياں ہوگئے_

اس كے عالوہ قبائل ميں سے بعض گروہ جو كچھ عرصہ قبل ہى مسلمان ہوئے تھے، رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خبر رحلت سنتے ہى مرتد ہوگئے اور اپنے آبا واجدا كے دين كى طرف واپس چلے گئے اور مركزى حكومت كى مخالفت شروع كردي_

دوسرى طرف ''مسيلمہ'' ، ''سجاح'' اور ''طليحہ '' نے بھى نجد ويمامہ كے علاقوں ميں اپنى نبوت كا دعوا كركے دوسرا پرچم لہراديا اور كچھ لوگوں كو بھى اپنے گرد جمع بھى كرليا_

اگرچہ حضرت علىعليه‌السلام حق بجانب تھے مگر اس وضع وكيفيت كو ديكھتے ہوئے كيا يہ زيبا تھا كہ اپنا پرچم لہراكر انقلاب وقيام كا اعلان كرديں ؟ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام نے اہالى مصركو جو خط لكھا تھا اس ميں آپ

۵۳

نے اس نكتے كى جانب اشارہ فرمايا تھا ميں نے ديكھا ہے كہ لوگوں ميں ايك گروہ دين اسلام سے برگشتہ ہوگيا ہے اور وہ اس فكر ميں ہے كہ آئين محمدى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو نيست ونابود كردے ، مجھے يہ خوف محسوس ہواكہ اگر ميں اسلام اور اہل اسلام كى مدد نہ كروں تو مجھے اس بات كے لئے بھى تيار رہنا چاہيئے كہ اسلام كى تباہى كا منظر اپنے آنكھوں سے ديكھوں دنيا كى حكومت چند روزہ ہے جو سراب يا ابر كى طرح سرعت سے گذر جانے والى ہے _ اسلام كى تباہى اس حكومت كے ترك كرنے سے زيادہ مجھ پر شاق والمناك گذرے گى _(۱۰)

۴_ كينہ تو ز دشمن

حضرت علىعليه‌السلام كے مسلمانوں ميں ہى بہت سے دشمن موجود تھے اور يہ وہ لوگ تھے جن ميں سے كسى كا باپ ' كسى كا بھائي يا كوئي دوسرا قرابت دار جنگ كے دوران آپ كے ہاتھوں مارا گيا تھا اور يہ دشمنى وكينہ توزى ان كے دلوں ميں اسى وقت سے چلى آرہى تھي_

ايسے حالات ميں جب كبھى حضرت علىعليه‌السلام نے مسلح ہوكر قيام كيا اور اپنا حق طلب كرنے كى كوشش كى تو يہى دشمن فريب ونفاق كو ہوا دينے لگتے اور يہ كہتے پھرتے كہ علىعليه‌السلام نے مسلمانوں كے درميان رخنہ پيدا كرديا ہے اور دين كے نام پر جنگ و پيكار بر اتر آئے _اگر حضرت علىعليه‌السلام نے ان سے جنگ كى ہوتى تو اس كے يہ نتائج نكل سكتے تھے_

ممكن تھا كہ جنگ كے ابتدائي چند لمحات ميں ہى آپعليه‌السلام كے بہت سے عزيز و ہمدرد تہ تيغ كئے جاتے اور پھر بھى حق حقدار كو نہ ملتا_

جب آپ كے دوست خير خواہ تہ تيغ كرديئے جاتے تو مخالفين كا قتل ہونا بھى فطرى امر تھا اور اس كا مجموعى نتيجہ يہ ہوتا كہ مركز ميں مسلمانوں كى طاقت رو بزوال ہونے لگتي_

اور جب مركزى طاقت كمزور ہونے لگتى تو وہ قبائل جو مركز سے دور تھے اور جن كے دلوں ميں دين اسلام نے پورى طرح رسوخ نہيں كيا تھا ، مرتدين كى صفوں ميں جاملتے اور شايد ان كے طاقتور ہونے اور مركز ميں رہبر كى زبونى كے باعث اسلام كے چراغ كى روشنى ماند پڑنے لگتي_

۵۴

بيعت كا انجام

اكثر مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے حضرت فاطمہعليه‌السلام كى رحلت تك ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت نہيں كي_(۱۱)

حضرت فاطمہ(سلام عليہا) كى وفات كے بعد جب آپعليه‌السلام نے لوگوں كى بے رخى اور مسلمانوں كى پريشان حالى كا مشاہد ہ كيا تو آپعليه‌السلام نے اسلام اور مسلمانوں كى خاطر خاموشى اختيار كرنے ميں ہى مصلحت سمجھى مگر اس كے باوجود يہ تلخ واقعات آپعليه‌السلام كے دل سے كبھى محو نہ ہوسكے اور ہميشہ ان دنوں كو ياد كركے شكوہ و شكايت كرتے تھے_

چنانچہ خطبہ''شقشقيہ '' ميں فرماتے ہيں : ''فرائت ان الصبر على ہاتااحجى فصبرت وفى العين قذى و فى الملق شجا''(عقل اور اس فرض كے مطابق جس كا پورا كرنا مجھ پر واجب تھا) مجھ پر يہ بات واضح و روشن تھى كہ ميرے لئے صبر و شكيبائي كے علاوہ كوئي چارہ نہيں لہذا ميں نے صبر وتحمل سے كام ليا مگر اس طرح گويا ميرى آنكھ ميں خار اور گلے ميں ہڈى اٹك گئي ہو_(۱۲)

مسئلہ فدك

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كو ابھى دس دن بھى نہ گذرے تھے كہ حضرت فاطمہعليه‌السلام كو يہ خبر ملى كہ خليفہ كے كارندوں نے ان كے كام كرنے والوں كو ''فدك'' سے باہر نكال ديا ہے اور اس كے تمام كاموں كو اپنے اختيار ميں لے ليا ہے_

بنت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس زمين كو حاصل كرنے كى غرض سے بنى ہاشم كى خواتين كے ہمراہ خليفہ كے پاس گئيں اس وقت ابوبكر اور حضرت فاطمہعليه‌السلام كى درميان جو گفتگو ہوئي وہ ذيل ميں درج ہے:

حضرت فاطمہعليه‌السلام : تم نے ميرے كارندوں كو ''فدك'' سے كيوں باہر نكالا اور مجھے ميرے حق سے محروم كيا ؟

خليفہ: ميں نے آپ كے والد سے سنا ہے كہ پيغمبركوئي چيز ميراث ميں نہيں چھوڑتے_

۵۵

حضرت فاطمہ عليه‌السلام : فدك كى زمين ميرے والد نے اپنے زمانہ حيات ميں مجھے بخش دى تھى اور اس وقت اس كى مالك ميں ہى تھي_

خليفہ: آپ كے پاس اس دعوے كے ثبوت ميں كيا شاہد و گواہ موجود ہيں ؟

حضرت فاطمہعليه‌السلام : ہاں ميرے شاہد وگواہ علىعليه‌السلام اور ام ايمن ہيں چنانچہ ان حضرات نے حضرت زہراعليه‌السلام كى درخواست پر يہ شہادت دى كہ آپعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں اس كى مالك تھيں _(۱۴) بعض مورخين نے يہ بھى نقل كيا ہے كہ حضرت امام حسنعليه‌السلام و حضرت امام حسينعليه‌السلام نے بھى گواہى دي_(۱۵)

فخر رازى نے يہ قول نقل كيا ہے كہ : پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے غلاموں ميں سے ايك غلام نے بھى حضرت فاطمہعليه‌السلام كے مالك ہونے كى گواہى دى بلاذرى نے اس غلام كے نام كے تصريح بھى كى ہے اور لكھا ہے كہ اس كا نام ''رباح'' تھا_( ۱۶)

جب يہ گواہياں گذر گئيں تو حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ كو ان (ابوبكر)كى خطاء كى طرف متوجہ كيا (كيونكہ خليفہ نے گواہى اس شخص سے طلب كى تھى جس كے تصرف ميں فدك تھا اور متصرف (قابض) سے گواہى مانگنا اسلامى ميزان و عدل كے سراسر خلاف ہے) اور فرمايا كہ اگر ميں اس مال كا دعويدار ہوں جو دوسرے كے قبضے ميں ہے تو آپ گواہ كس سے طلب كريں گے مجھ سے كہ مدعى ہوں يا اس سے جس كے تصرف ميں مال ہے؟

ابوبكر نے كہا كہ آپ گواہ پيش كريں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ فدك ہمارے تحت تصرف ہے اور اب دوسروں نے يہ دعوى كيا ہے كہ يہ اموال عامہ ہيں ايسى صورت ميں وہ گواہ پيش كريں ناكہ ہم(۱۷)

خليفہ نے حضرت علىعليه‌السلام كى اس دليل پر سكوت اختيار كيا اور حلبى كے قول كے مطابق انہوں نے بذريعہ تحرير اس بات كى تصديق كى كہ فدك حضرت فاطمہ زہراعليه‌السلام كى ملكيت ہے _ ليكن عين اسى وقت عمر وہاں پہنچ گئے اور دريافت كيا كہ يہ كيسا مكتوب ہے ؟ اس پر ابوبكر نے كہا كہ ميں نے اس ورق

۵۶

پر تصديق حق مالكيت حضرت فاطمہ عليه‌السلام كى ہے عمر نے كہا كہ فدك سے جو آمدنى ہوگى اس كى تو آپ كو ضرورت ہے كيونكہ عرب مشركين نے اگر كل كہيں مسلمانوں كے خلاف بغاوت كردى تو آپ جنگ كے اخراجات كہاں سے مہيا كريں گے_

چنانچہ اس نے ابوبكر سے ورق ليا اور چاك كرديا_(۱۸)

فدك پر قابض ہونے كے محركات

خليفہ كى جانب سے فدك پر قابض ہونے كے جو مختلف محركات تھے ان كى كيفيت ذيل ميں درج ہے:

۱_ مخالفين كو اپنے جانب متوجہ كرنا

خليفہ وقت نے اس بات كو بخوبى سمجھ ليا تھا كہ وہ عوام پر اس وقت تك اپنى فرمانروائي قائم نہيں كرسكتے تاوقتى كہ وہ اپنے مخالفين كو اپنا ہمنوا و ہمخيال نہ بناليں اور مختلف طريقوں سے جب تك ان كے افكار و قلوب كو اپنى جانب متوجہ نہ كريں گے ان دستوں پر حكمرانى كرتے رہنا ان كے لئے مشكل ہوگا_

بااثر افراد اشخاص ميں سے ايك ابوسفيان كہ جس كے اعتقاد كو بدلا جاسكتا تھا كيونكہ سقيفہ كا واقعہ جب پيش آيا تو اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے بيعت لينے كى تجويز پيش كى تھى نيز مسلح ہوكر قيام كرنے كو دعوت دى تھى اور(بنى ہاشم سے خطاب كرتے ہوئے) كہاتھا كہ آپ لوگ اٹھيں اور زمام امور اپنے ہاتھ ميں ليں تو ميں مدينہ كو سوار وپيادہ فوج سے بھردوں گا_(۱۹) ليكن يہ شور و غل ابتدائي چند روز تك برقرار رہا اس كے بعد ختم ہوگيا_

خليفہ وقت نے ابوسفيان كى خوشنودى حاصل كرنے كى غرض سے وہ دولت جو بيت المال و زكات كے نام پر جمع كركے لائے تھے ، اسے بخش دى اس كے علاوہ اس كے لڑكے يزيد كا بھى

۵۷

انہوں نے سپاہ اسلام كے فرماندار كى حيثيت سے شام كے علاقے فتح كرنے كے لئے انتخاب كيا اور بالآخر اسے عالم اسلام كے شاداب ترين علاقے يعنى شام كا فرمانروا مقرر كرديا جس وقت يہ خبر ابوسفيان كو پہنچى اس نے كہا ابوبكر نے صلہ رحم كيا ہے_(۲۰)

جن افراد كى خوشنودى حاصل كرنا خليفہ كيلئے ضرورى تھى وہ بہت سے افراد تھے_ اور بہت سے افراد مہاجرين اور انصار ميں سے ايسے تھے جو سقيفہ ميں موجود نہيں تھے يا بعد ميں جنہوں نے مجبوراً خليفہ كى بيعت كى تھى ان كا شمار بھى اس زمرے ميں تھا_

اس كے علاوہ خزرجى قبيلے كے لوگوں نے چونكہ پہلے دن بيعت نہيں كى تھى ان كى دلجوئي بھى خليفہ كے لئے ضرورى تھى يہى نہيں بلكہ انصار كى خواتين بھى خليفہ كے عطيات سے بے بہرہ نہ رہيں _(۲۱)

۲_ جمع وخرچ كى مد ميں كمي

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس جو كچھ اثاثہ و سرمايہ تھا اسے آپ نے رحلت سے قبل تقسيم كرديا اور رحلت كے بعد آپ كے جو بھى نمايندگان مدينے پہنچے وہ بھى اس شہر ميں مختصر پونچى لے كر داخل ہوئے مگر يہ قليل آمدنى نئي قائم شدہ حكومت كى نظر ميں كافى نہ تھى بالخصوص ان حالات ميں جب كہ اطراف كے قبائل نے مخالفت كا پرچم لہرا ديا تھا اور مركزى حكومت كو زكات دينے ميں پس وپيش كررہے تھے_

۳_ علىعليه‌السلام كى اقتصادى قوت كے باعث خطرے كا احتمال

قيادت ورہبرى كى جو شرائط ہوسكتى ہيں وہ سب حضرت علىعليه‌السلام ميں موجود تھےں او رمالى اعتبار سے بھى اگر آپ كى حالت قوى ہوتى تو فطرى طور پر ضرورت مند افراد آپ كے گرد جمع ہونے لگتے چنانچہ ممكن تھا كہ افراد كايہ اجتماع خلافت كى مشينرى كے لئے كوئي مسئلہ پيدا كرديتا_

۵۸

مخالفين كى سركوبي

اپنى خلافت كے ابتدائي دنوں ميں ابوبكر كے سامنے جو مشكلات آئيں ان ميں سے ايك يہ تھى كہ بعض مسلمان مرتد ہوگئے تھے ان كا مقابلہ كرنے كى غرض سے خليفہ نے جنگ كا حكم ديا اور ان سے جنگ كرنے كے لئے سپاہى روانہ كيئے_

يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ وہ لوگ جو ابوبكر كے دور خلافت ميں ''اہل ردّہ'' كے نام سے مشہور ہوئے تھے كيا واقعى وہ اسلام سے برگشتہ ہوگئے تھے يا محض اس لئے كہ انہوں نے حكومت وقت كے سامنے چونكہ اپنا سر خم نہيں كيا تھا اس لئے انہيں مرتد كہہ كر بدنام كرديا گيا در حاليكہ وہ اصلى و حقيقى اسلام پر كاربند تھے؟

اس سوال كى وضاحت كے لئے يہ بتانا ضرورى ہے كہ : لفظ ارتدادكا مادہ ''ردد'' ہے اور اس كے معنى ہيں واپس ہوجانا' عرف عام اور مسلم فقہاء كى اصطلاح ميں اس كے معنى دين سے پھر جانا ہے اور يہ ضرورى نہيں كہ لفظ دين اس كے ساتھ استعمال ہو _ اب بھى ردد اور ارتداد كے معانى دين سے پھر جانا كے ہے _

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جان سوز خبر رحلت جب پھيلى تو بعض وہ لوگ جو كچھ عرصہ قبل ہى مسلمان ہوئے تھے اور دور دراز مقامات پر آباد تھے تردد ميں مبتلا ہو كر دين سے برگشتہ ہوگئے اور بالخصوص اس وقت جبكہ مشركين ميں ہمت و حوصلہ پيدا ہونے لگا تھا اور وہ اسلام كے خلاف بر سر پيكار ہونے كے لئے زيادہ سنجيدگى سے سوچنے لگے تھے_

ليكن اطراف وجوانب كى باقى مسلمانوں كى نگاہيں مركز پر لگى ہوئي تھيں اور وہ اس بات كا انتظار كر رہے تھے كہ ديكھيں جانشينى كا مسئلہ كہاں جاكر ختم ہوتا ہے چنانچہ جب انہيں اس واقعے كى اطلاع ملى كہ بعض افراد نے سقيفہ بنى ساعدہ ميں ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كرلى مگر بعض قبائل كے لوگوں نے جن ميں بنى ہاشم اور ان كے سربراہ حضرت علىعليه‌السلام چند صحابہ رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قبيلہ خزرج كے سردار (سعد بن عبادہ) نے بيعت كرنے سے انكار ركرديا ہے_

۵۹

مدينہ ميں مسئلہ خلافت پر جو كشمكش ہوئي اس كے باعث كچھ عرب قبائل سقيفہ ميں ابوبكر كے ہاتھ پر كى جانے والى بيعت كى مخالفت پر اتر آئے اور انہيں حكومت وقت كو زكات ادا كرنے ميں تامل ہوا (كيونكہ زكات اس شخص كو دى جاسكتى تھى جسے متفقہ طور پر خليفہ وقت تسليم كرليا گيا ہو)جس كا سبب قانون زكات سے منكر ہونا نہ تھا كيونكہ اس كى ادائيگى كو وہ جزو دين سمجھتے تھے بلكہ اس كا اصل سبب يہ تھا كہ حكومت جيسے شاندار منصب كے لئے اس شخص كو جوپيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا جانشين كہلائے جانے كا بھى مستحق نہيں تھا ، اسے متفقہ طور پر تسليم نہيں كيا گيا تھا_

ابوبكر نے خالد بن وليد كى سركردگى ميں چند سپاہى زكات وصول كرنے كى غرض سے روانہ كئے اور يہ ہدايت دى كہ اگر لوگ زكات نہ ديں تو ان سے جنگ كى جائے _ ابن ماجہ كے علاوہ اہل سنت كے ديگر تمام محدثين نے ابوہريرہ سے نقل كيا ہے كہ عمر نے اس مسئلہ پر ابوبكر سے اختلاف كيا اور كہا كہ آپ كيوں بے سبب لوگوں كا خون بہانے پرتلے ہوئے ہيں درحاليكہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تو يہ فرمايا ہے كہ ميں اس كام كے لئے مامور كيا گيا ہوں كہ لوگوں سے اس وقت تك جنگ كر تا رہوں جب تك وہ شہادين نہ كہہ ليں ، مگر اس كے بعد ان كا خون نيز ان كا مال قابل احترام ہے_ اس پر ابوبكر نے فرمايا قسم ہے خدا كى كہ اگر لوگ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو زكات ميں خواہ اونٹ كى رسى ہى ديتے تھے مگر مجھے نہ ديں گے اور نماز وزكات كے درميان تفرقہ ڈاليں گے تو ميں ان سے جنگ كروں گا _ يہ سن كر عمر نے كہا كہ ميں نے ديكھا ہے كہ خداوند تعالى نے ابوبكر كا سينہ قتال(جنگ وپيكار) كے لئے فراخ كرديا ہے اور ميں نے جان ليا ہے كہ وہ حق بجانب ہےں _(۲۲)

جامعة الازہر كے استاد دانشكدہ ادبيات عالم متبحر حسن(۲۳) ابراہيم حسن فرماتے ہيں كہ ابوبكر جن لوگوں سے اس بنا پر جنگ كررہے تھے كہ وہ مرتد ہوگئے تھے در حقيقت ان ميں سے كوئي بھى مرتد نہيں ہوا تھا وہ لوگ دين اسلام سے نہيں پھرے تھے بلكہ حكومت سے ان كے اختلاف كا سبب كچھ اور تھا_(۲۴)

اس كے بعد ابوبكر كى ان لوگوں سے جنگ كے محرك كے متعلق لكھتے ہيں خليفہ نے مرتدين

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ترجمہ : انسانوں ميں ايسے لوگ بھى ہيں جنكى باتيں زندگانى دنيا ميں بھلى لگتى ہيں اور وہ اپنے دل كى باتوں پر خدا كو گواہ بناتے ہيں حالانكہ وہ بد ترين دشمن ہيں ، كو حضرت على (ع) سے منسوب كر دے اور'' و من الناس من يشرى نفسہ بتغاء مرضات اللہ واللّہ رئوف با العباد '' سورہ بقرہ آيت ۲۰۷كو جو حضرت على (ع) كى شان ميں نازل ہوئي تھى اسكے متعلق ايك حديث رسول (ص) سے منسوب كر كے امير المومنين كے قاتل ابن ملجم كے نام كر دے ، سمرہ بن جندب نے قبول نہيں كيا _

معاويہ نے مزيد دو لاكھ درہم بھجوائے پھر بھى قبول نہيں كيا ليكن جب معاملہ چار لاكھ درہم تك پہونچ گيا تب جا كر سمرہ بن جندب نے رسول اكرم (ص) سے جھوٹى حديث ان آيتوں كے سلسلے ميں گڑھى اور لوگوں سے بيان كيا(۱)

معاويہ كے مقابلے ميں بعض دليروں كا كردار

پرو پيگنڈے كى جنگ اتنى خطرناك تھى كہ ايمان كى اساس طوفان كے زد پر اكر فنا ہو رہى تھى ، اور بعض صحابہ و تابعين نے معاويہ كى آواز پر لبيك كہہ كر اپنا خوب پيٹ بھرا_

مملكت اسلامى كے با رسوخ افراد مسلمانوں كے بيت المال سے خريدے جانے لگے اور ان لوگوں كو خوب سونے اور چاندى كى تھيلياں دى جانے لگيں يا كسى حكومتى عہدے پر فائز كر ديا گيا ، مگر ايك چھوٹا سا گروہ تھا جس نے دين و شرافت كو مد نظر ركھتے ہوئے معاويہ كى ہونكارى نہيں بھرى تھى ، ان لوگوں كو اتنا ستايا گيا كہ انھوں نے اپنى جان و مال سب كچھ راہ خدا ميں قربان كر ديا _

جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ ہزاروں جھوٹى حديثيں منظر عام پر اگئيں اور اسلامى معاشرہ تاريك ماحول ميں چلا گيا ، ان گڑھى ہوئي حديثوں كے ہوتے ہوئے كون انسان اسلام حقيقى كو پہچان سكتا تھا اور دوسرے يہ كہ وہ ہزاروں افراد جو متقى و پرہيزگار تھے وہ سختيوں كو جھيل كر موت كے دامن ميں سو چكے تھے _

ہم نے اس سے پہلے ان لوگوں كا تذكرہ كيا ہے جنھوں نے معاويہ كے دام فريب ميں اكر جھوٹى حديثيں گڑھيں كہ انہى ميں ايك سمرہ بن جندب ہے ، يہ وہ شخص ہے جو معاويہ كے اشارے پر ناچتا رہا جسكى وجہ سے اسكو بصرہ كى حكومت ملى تھى _

سمرہ كى اور سياہكاريوں كو چھوڑ كر صرف جو كوفہ ميں تباہياں اور قتل و غارتگرى كا اس نے بازار گرم كيا تھا ، اسكو طبرى يوں بيان كرتا ہے _

____________________

۱_شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۳۶۱

۱۸۱

مشہور عالم ابن سيريں سے پوچھا گيا كہ سمرہ بن جندب نے كسى كو قتل كيا ہے يا نہيں سيرين نے جواب ديا ، تم لوگ سمرہ كے قتل كو شمار كر لو گے ؟

ايك مرتبہ زياد نے بصرہ ميں اپنا جا نشين بنا ديا تو چھہ مہينے كے اندر اس نے اٹھ ہزار بے گناہ مسلمانوں كو قتل كيا جن ميں پينتاليس افراد وہ تھے جو حافظان قران تھے(۲)

طبرى مزيد كہتا ہے ، جب معاويہ نے زياد كى جگہ سمرہ بن جندب كو چند مہينے تك حاكم بصرہ بنا كر معزول كر ديا تو اس نے كہا ، خدا معاويہ كو غارت كرے ، خدا كى قسم ، ميں نے جس طرح معاويہ كے حكم كو مانا تھا اگر اسى طرح اپنے پروردگار كى اطاعت كرتا تو ہرگز مستحق عذاب نہ ہوتا(۳)

انھيں ميں دوسرا ضمير فروش مغيرہ بن شعبہ تھا ، جس نے سات سال كچھ مہينے كوفہ پر حكومت كى اور ايك لمحہ بھى حضرت على (ع) اور قاتلان عثمان پر نفريں كئے بغير اور عثمان كے حق ميں دعا كئے بغير چين و سكون سے نہيں بيٹھا _

البتہ مغيرہ اپنى چالاكى و ذہانت كيوجہ سے حكومتى امور كو كبھى نرميت اور خاطر مدارات كے ذريعے تو كبھى سختى سے انجا م ديتا تھا _

طبرى لكھتے ہيں :

ايك روز مغيرہ بن شعبہ نے صحابى امام (ع) صعصہ بن صوحان سے كہا ، ذرا كان كھول كر سن لو ، ايسا نہ ہو كہ ايك دن تمھارى خبر عثمان كى بد گوئي كرتے ہوئے ميرے كانوں تك پہونچے ، اگر على (ع) كے فضائل كو بيان كرنا ہے تو علنى طور پر بيان نہ كرنا بلكہ مخفى مقام پر بيان كرنا جس طرح على (ع) كے فضائل تم جانتے ہو اسى طرح ميں بھى واقف ہوں ليكن كيا كروں حكومت اموى كى طرف سے ڈنڈا ہے كہ على (ع) كو برا بھلا كہو ، البتہ ميں نے اكثر مقامات پر ان امور ميں رو گردانى كى ہے مگر جہاں پر مجبور ہو جاتا ہوں تو اپنى محافظت كے لئے بعض جملے برائي كے كہہ ڈالتا ہوں ، اگر زياد ہ فضائل على (ع) كے بيان كرنے كا شوق ركھتے ہو تو اپنے قريبى رشتہ داروں كے گھروں ميں بيان كرنا مگر مسجد اور شاہراہ پر بيان كرنا ايك ايسا مسئلہ ہے جسكو خليفہ ( معاويہ ) برداشت نہيں كر سكتا ، اور نہ ہى اس سلسلے ميں ميرے عذر كو قبول كر سكتا ہے(۴)

____________________

۲_ طبرى ج۶ ص ۱۳۲ ، ابن اثير ج۳ ص ۱۸۹

۳_طبرى ج۶ ص ۱۶۴ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۱۲

۴_طبرى ج۶ ص ۱۰۸

۱۸۲

اخر ى فرد زياد بن ابيہ كى ہے جس نے معاويہ كے حكم كو نافذ كرنے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا ہے ، حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ جو اس نے سلوك كيا تھا اسكو اپ نے ملاحظہ فرمايا ليكن اس وقت اسى واقعہ كى ايك كڑى جو زياد اور صيفى بن فسيل كے درميان آيا تھا اسكو بيان كر رہا ہوں _

ايك روز زياد نے صيفى كو بلوايا اور اس سے كہا ، اے دشمن خدا تم ابو تراب كے بارے ميں كيا كہتے ہو ، صيفى نے كہا ، ابو تراب كس كا نام ہے _

زياد نے كہا _ تمھيں نہيں معلوم ہے ارے تم اچھى طرح سے ان كو پہچانتے ہو _

صيفى نے كہا _ مجھے نہيں معلوم ہے _

زياد نے كہا _ على بن ابيطالب كا لقب ہے _

صيفى نے كہا _ اچھا وہ ہيں _

ايك طويل مدت تك ايسے ہى مكالمہ ہوتا رہا ، اخر زياد نے چھڑى منگوائي اور صيفى سے كہا كہ اب بتائو تمھارا على (ع) كے بارے ميں كيا خيال ہے _

صيفى نے كہا ، اس بندئہ خدا ميں جو خوبى ہو گى اسى كو بيان كرونگا _

زياد نے اپنے جلادوں سے كہا كہ اسكو اتنا مارو كہ انكى گردن ٹوٹ جائے ، ان لوگوں نے صيفى كى خوب پٹائي كى _

زياد نے پھر پوچھا ، اب على (ع) كے بارے ميں كيا كہتے ہو _

صيفى نے كہا خدا كى قسم ، اگر تم لوگ مجھے تلوار سے ٹكڑے ٹكڑے بھى كر دو گے تو وہى كہوں گا جو انكى خوبى كى علامت ہے _

زياد نے كہا _ اگر على (ع) پر نفرين نہيں كرو گے تو تمہارى گردن اڑا دو نگا _

صيفى نے جواب ديا _ تم ميرى گردن كو تن سے جدا كر سكتے ہو مگر جس چيز كو سننا چاہتے ہو اسكو ميرى زبان سے نہيں سن سكتے ہو ، ميں قتل ہو كر خوش نصيب بن جائو نگا اور تم قتل كر كے بدبخت ہو جائو گے _

يہ سننا تھا كہ زياد نے حكم ديا كہ اسكو زنجيروں ميں جكڑ كر قيد خانہ ميں ڈال ديا جائے اخر اس شخص ( صيفى ) كو بھى حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ شھيد كر ديا گيا(۵)

____________________

۵_ طبرى ج۶ ص ۱۴۹ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۴ ، اغانى ج ۱۶ ص ۷ ، ابن عساكر ج ۶ ص ۴۵۹

۱۸۳

،واقعہ يہ ہے كہ زياد نے حضر موت كے اطراف سے دو ادميوں كو معاويہ كے پاس بھيجا اور اس نے خط ميں يہ لكھا كہ يہ لوگ دين على (ع) اور انكے چاہنے والے ہيں _

معاويہ نے جواب ديا _ جو بھى دين على (ع) اور انكى اطاعت ميں ہے انكو قتل كر كے ان كى لاشوں كو پا ئمال كر دو _

زياد نے ان دونوں محبان على (ع) كو كوفے كے دار الامارہ پر سولى ديدى(۶)

ايك دوسرا خط معاويہ كے پاس يہ لكھا كہ ايك قبيلہ خثعمى كے فرد نے ميرے سامنے على (ع) كى مدح سرائي كى ہے اور عثمان كو

برے الفاظ سے ياد كيا ہے ، اس سلسلہ ميں تمھارا حتمى فيصلہ كيا ہے _

معاويہ نے جواب ديا _ اس شخص كو زندہ در گور كر دو ، زياد نے يہ كام معاويہ كے كہنے پر انجام ديا كہ لوگ خوف و دہشت كے مارے فضائل على (ع) كو بيان نہ كر سكيں(۷) _

مورخين نے زياد كى تباہكاريوں كے سلسلے ميں بہت كچھ تحرير كيا ہے خود ابن عساكر لكھتا ہے ، ايك روز زياد نے تمام اہل كوفہ كو دعوت دى جب مسجد كوفہ لوگوں سے بھر گئي تو زياد نے اس جم غفير كو حكم ديا كہ تم لوگ على (ع) پر نفريں كرو(۸) _

مسعودى لكھتے ہيں :

زياد نے اہل كوفہ كو اپنے قصر ميں بلايا اور ان لوگوں سے كہا كہ تم لوگ على (ع) كو برا بھلا كہو اور اپنے مامورين سے جتا ديا كہ اگر كوئي شخص على (ع) پر نفرين كرنے سے كترائے تو اسكى گردن فوراً اڑا دو مگر خوش قسمتى يہ رہى كہ اسى وقت مرض طاعون ميں مبتلا ہو گيا اور اس دنيا سے مر كھپ گيا اس طرح اہل كوفہ نے چين و سكون كى سانس لى(۹)

____________________

۶_ المحبر ص ۴۷۹

۷_طبرى ج۶ ص ۱۶۰ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۹ ، ا غانى ج ۱۶ ص ۱۰ ، ابن عساكر ج۲ ص ۳۷۹

۸_ ابن عساكر ج۲ ص ۵۱۷

۹_ مروج الذھب ج۳ ص ۳۰

۱۸۴

عمرو بن حمق خزاعى كى ذات وہ تھى جن كا شماربہادروں ميں ہوتا تھا ، مگر حاكم كوفہ زياد نے انكے قتل كا فرمان جارى كر ديا تھا ، يہ امام عليہ السلام پر تبرا نہ بھيجنے كے ڈر سے جنگل ميں جا كر چھپ گئے ، ليكن حاكم كوفہ ( زياد ) كے ظالم سپاہيوں نے انكو چراغ كے ذريعہ ڈھونڈھنا شروع كيا اخر كار عراق كے تپتا صحراء كے ايك غار ميں انكو گرفتار كر ليا گيا اور حاكم كوفہ كى خدمت ميں پيش كيا گيا ، مگر عمر و بن حمق خزاعى نے امام (ع) كو كچھ نہ كہا جسكے بدلے ميں انكو زياد نے قتل كر ديا پھر انكے سر كو معاويہ كے پاس بھيجا اس نے حكم ديا كہ اس سر كو بازار ميں لٹكا ديا جائے تاكہ لوگ اس سر سے عبرت ليں _

چند دنوں بعد اس سر كو عمرو بن حمق كى بيوى كے پاس بھيجا گيا جو خود اسى محبت على (ع) كيوجہ سے قيد خانہ كى صعوبتوں كو برداشت كر رہى تھيں ، جب انھوں نے اپنے شوہر كے كٹے ہوئے سر كو ديكھا تو حسرت و ياس كے مارے يہ كہا ، كتنا زمانہ ہو گيا كہ تم لوگوں نے ميرے شوہر كو مجھ سے چھڑا ديا تھا ، ليكن اب اسكے سر كو ميرى خدمت ميں تحفہ بنا كر پيش كرتے ہو ارے يہ تحفہ بڑا قيمتى _(۱۰) _

بلاد اسلامى كے منبروں سے امير المومنين پر نفرين

امام عليہ السلام كے اصحاب كو صفحہ ہستى سے مٹانے كى كوشش اور جھوٹى حديثوں كے ذريعہ نيك كردار كو بد نام كرنا نيز بد كردار كو نيك كردار كرنے كى سازش يہ سارى كى سارى معاويہ كى سياست تھى جو تمام بلاد اسلامى ميں اگ كى طرح پھيل چكى تھى ، زياد بن ابيہ اور معاويہ كے ديگر حكمرانوں نے اس سياست كو تر ويج دينے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا تھا اور اس سلسلہ ميں مورخين نے ان حكمرانوں كى زيادتيوں اور تباہكاريوں كو بيان بھى كيا ہے _

يہ تمام تباہكارياں اور گندى سياست بنى اميہ كے دور ميں ديكھنے ميں اتى ہے ، كيونكہ ان لوگوں نے مسلمانوں كے ذہن و دماغ كو اسى لئے حقائق سے دور ركھا تھا تاكہ تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا كہا جائے اور صرف ايك سيستان كا صوبہ تھا جو معاويہ كے حكم كو نہيں مان رہا تھا اور ايك مرتبہ كے علاوہ اہل سيستان نے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا نہيں كہا :

____________________

۱۰_ابن قتيبہ كى المعارف ص ۱۲۷ ، استيعاب ج۲ ص ۵۱۷ ، اصابہ ج۲ ص ۵۲۶ ، ابن كثير ج۸ ص ۴۸ ، المعبر ص ۴۹۰

۱۸۵

اس ايك مرتبہ كے بعد سيستانيوں نے اموى اركان خلافت سے عہد و پيمان كيا كہ ہم كو حضرت امير المومنين (ع) پر نفرين كرنے سے باز ركھا جائے ، درانحاليكہ اسى زمانے ميں شہر اسلامى كے دو مقدس ترين شھروں ( مكہ و مدينہ ) ميں منبروں سے امام (ع) پر لعنت بھيجى جا رہى تھى(۱۱)

ضمير فروش خطيبوں نے خاندان علوى (ع) كے سامنے امام (ع) بزرگوار پر لعن و طعن كى تھى جنھيں مورخين نے نقل كئے ہيں ،ليكن ميں ان تمام واقعات كو چھوڑتے ہوئے صرف ايك واقعہ پيش كر رہا ہوں _

ايك مرتبہ عمر و بن عاص نے منبر سے حضرت على (ع) كو خوب برا بھلا كہا ، جب يہ اترگيا تو اسكے بعد مغيرہ بن شعبہ منبر پر اگيا اور اس نے بھى امام (ع) كے حق ميں نا زيبا كلمات زبان پر جارى كئے ، درانحاليكہ اس مجلس ميں حضرت امام حسن مجتبى (ع) موجود تھے ، حاضرين نے امام (ع) سے ان دونوں ( عمر و عاص، مغيرہ ) كا جواب دينے كے لئے كہا :

انحضرت (ص) نے ايك صورت ميں جواب دينے كى پيشكش كو قبول كيا كہ اگر ميں حق بات كہوں تو تم سب ميرى تصديق كرنا اور اگر نا حق بات كہوں تو ( العياذ باللہ ) ميرى تكذيب كرنا ، امام عليہ السلام اس عہد و پيمان كے بعد منبر پر گئے اور حمدالہى كے بعد عمر واور مغيرہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ ، تم دونوں سے خدا كى قسم ديكر پوچھتا ہوں كہ آيا تم دونوں بھول گئے ہو جو رسول (ص) نے مہار پكڑنے والے كو اور مركب ہنكانے والے كو نيز سوار پر لعنت بھيجى تھى جن ميں ايك فلاں شخص ( معاويہ ) تھا(۱۲) _

حاضرين نے كہا اپ سچ كہتے ہيں :

دوسرى مرتبہ پھر عمر و عاص و مغيرہ كو مخاطب كرتے ہوئے كہا :

ايا تم دونوں كو معلوم نہيں ہے جو پيغمبر اسلام (ص) نے عمر و عاص كے ہر شعركے بيت پر لعنت بھيجى تھى(۱۳) ، تمام لوگوں نے كہا خدا كى قسم اپ سچ كہتے ہيں(۱۴) _

____________________

۱۱_ياقوت حموى ج۵ ص ۳۸ مطبوعہ مصر

۱۲_ سوار ابو سفيان، مہار تھامنے والا يزيد بن ابو سفيان نيز ہنكانے والا معاويہ تھا اور پيغمبر اسلام (ص) نے ان تينوں پر لعنت بھيجى تھي

۱۳_ عمر و عاص نے عصر جاہليت ميں ايك قصيدہ رسول (ص) كى مذمت ميں كہا تھا انحضرت نے بد دعا كر كے خدا وند عالم سے درخواست كى كہ اسكے ہر بيت پر ايك لعنت بھيجے

۱۴_ تطہير اللسان ص۵۵

۱۸۶

ليكن جو مومن اور اہلبيت عليہم السلام كے چاہنے والے تھے كبھى بھى خطبوں ميں نيز جس نشست ميں على (ع) كو برا بھلا كہا جاتا تھا اس ميں شريك نہيں ہوتے تھے ، اور قبل اسكے كہ خطبہ ديا جائے مسجد كو چھوڑ ديتے تھے _

يہى وجہ تھى جو معاويہ كے حكمرانوں نے حكم خدا و رسو ل(ص) كو بدل ديا تھا ، اور جس نماز ميں پہلے خطبہ تھا اسكو بعد ميں پڑھا گيا _

كتاب محلى ميں ابن حزم رقمطراز ہيں :

بنى اميہ كى حكومت ميں سب سے پہلے جو كام انجام ديا گيا وہ يہ تھا كہ خطبہ نماز كو نماز پر مقدم كر ديا گيا ، ان لوگوں نے اپنے نا مشروع فعل كى توجيہ و تاويل اس طرح كى كہ لوگ نماز ختم ہونے كے بعد چلے جاتے ہيں اور خطبہ كو نہيں سنتے ہيں _

ليكن حقيقت تو يہ ہے كہ ان لوگوں نے اتنا على (ع) كو برا بھلا كہا كہ نمازى اپنى نماز تمام كر كے مسجد سے بھاگ جاتے تھے اور مسلمان كا يہ فعل صحيح معنوں ميں درست و حق تھا(۱۵)

صحيح بخارى اور صحيح مسلم نيز حديث كى دوسرى معتبر كتابوں ميں ابو سعيد خدرى سے يوں نقل ہوا ہے _

ميں ( سعيد ) حاكم مدينہ مروان كے ساتھ عيد الاضحى يا عيد الفطر كى نماز عيد گاہ ميں پڑھنے گيا ، كثير بن صلت كے بنائے ہوئے منبر كے قريب جيسے ہى مروان پہونچا تو اس پر چڑھ گيا اور نماز سے پہلے خطبہ دے ڈالا ، ميں نے اسكو لاكھ روكا مگر وہ نہ مانا ، جب خطبہ ديكر مروان نيچے اترا تو ميں نے اس سے كہا كہ خدا كى قسم ، تم نے تو دين و شريعت كو بدل ڈالا ہے

مروان نے كہا ، اے ابو سعيد جن چيزوں كو تم بنام دين سمجھتے ہو وہ تمام كى تمام دنيا سے اٹھ گئي ہيں _

ابو سعيد نے كہا ، خدا كى قسم ، ان بدعتوں سے بھتر يہ تھا كہ كچھ جانتے ہى نہيں ، مروان نے كہا ، اگر نماز سے پہلے خطبہ نہ ديتے تو لوگ ميرے خطبے كو ہرگز نہيں سنتے اسى وجہ سے ميں نے نماز سے پہلے خطبہ ديديا ہے(۱۶)

____________________

۱۵_ محلى ج۵ ص ۱۸۶ ، امام شافعى ج۱ ص ۲۰۸

۱۶_بخارى ج۲ ص ۱۱۱ ، مسلم ج۳ ص ۲۰ ، سنن ابى داو د ج۱ ص ۱۷۸ ، ابن ماجہ ج۱ ص ۳۸۶ ، بيہقى ج۳ ص ۲۹۷ ، مسند احمد ج۳ ص ۲۰

۱۸۷

بعض لوگوں كا لعنت سے گريز خلافت اموى كے حكام و مامورين نے صرف عام لوگوں سے حضرت على (ع) پر لعنت نہيں بھجوائي ، بلكہ اصحاب رسول (ص) جو اسلام كى معرفت ركھنے كيوجہ سے زيادہ مستحق پيروى تھے ان سے بھى كہا كہ ميرے حكم كو مانيں اور على (ع) پر لعنت بھيجيں _

سہل بن سعد كہتے ہيں :

ايك روز ال مروان(۱۷) كے ايك حاكم نے مدينہ ميں مجھے طلب كيا اور ہم سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، ميں نے حاكم مدينہ كى بات كو ٹھكرا ديا _

حاكم نے كہا اچھا ابو تراب(ع) پر لعنت بھيج دو _

سہل نے كہا ، حضرت على (ع) كو سارے ناموں ميں سب سے زيادہ محبوب نام ابو تراب(ع) تھا اور جب لوگوں نے اس نام سے ياد كيا تو اپ بہت خوش ہوئے _

حاكم مدينہ نے كہا _ مجھے اس نام كى داستان سے مطلع كرو اور خوش ہونے كا سبب بتائو ، ميں نے كہا ايك مرتبہ پيغمبر(ص)

اسلام جناب سيدہ(ع) كے گھر تشريف لائے اور على (ع) كو وہاں موجود نہ پاكر اپنى بيٹى سے پوچھا كہ تمھارے چچا زاد بھائي كہا ں ہيں _

فاطمہ(ع) نے كہا كہ ميرے اور ان كے درميان تھوڑا سا سخت كلامى ہو گئي ہے اور اسكے بعد انھوں نے گھر ميں ارام نہيں كيا اور باہر چلے گئے _

انحضرت (ص) نے ايك شخص سے كہا كہ جا كر ديكھوكہ على (ع) كہا ں ہيں اس نے جب مسجد ميں حضرت على (ع) كو ليٹے ہوئے ديكھا تو رسول اكرم (ص) سے جا كر كہا كہ وہ مسجد ميں سو رہے ہيں ، جب رسول اكرم (ص) نے على (ع) كو خاك ميں اٹے ہوئے ديكھا تو بڑى مہر بانى سے انكے جسم سے خاك كو جھاڑا اور كہا ، اٹھو ابو تراب ، اٹھو ابو تراب(۱۸)

____________________

۱۷_مقصود مروان بن حكم ہو گا

۱۸_صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۴

۱۸۸

ابو تراب كے معنى مٹى كو دوست ركھنے والا ہے بنى اميہ نے يہ گمان كر ليا تھا كہ على (ع) كى يہ كيفييت ذليل و حقير ہے درانحاليكہ انكو يہ بھى نہ معلوم ہو سكا كہ يہ لقب خود على (ع) كے كمال كى دليل ہے جو اس طرح رسول (ص) اپ سے لطف و مہربانى سے پيش ارہے تھے ، ورنہ بنى اميہ لوگوں سے يہ نہ كہتے كہ ابو تراب(ع) پر لعنت بھيجو _

عامر بن سعد جو خود اس واقعہ كا چشم ديد گواہ ہے كہتا ہے :

ايك مرتبہ معاويہ نے ميرے باپ ( سعد ) كو اپنى خدمت ميں بلايا اور ان سے كہنے لگا كہ تم على (ع) كو برا بھلا كيوں نہيں كہتے ہو ؟

ميرے باپ نے جواب ديا كہ _ اے معاويہ جب تك مجھے يہ تين حديثيں ياد رہيں گى كبھى على (ع) كو برا بھلا نہيں كہہ سكتا ، اور رسول (ص) كى يہ حديثيں ميرى نظر ميں عرب كے سرخ رنگ كے اونٹوں سے زيادہ قيمتى ہيں _

۱_ جب رسول (ص) ايك جنگ ( تبوك ) ميں جا رہے تھے اور على (ع) كو ساتھ نہ لے گئے اور انكو شہر مدينہ كے منافقوں سے نپٹنے كے لئے چھوڑ ديا تھا تو اس وقت على (ع) نے بہت گريہ كيا اور انحضرت (ص) سے فرمايا : اے رسول(ص) خدا مجھے عورتوں اور بچوں كے درميان چھوڑ كر جاتے ہيں تو ميں نے اپنے كانوں سے رسول(ص) اكرم كو يہ فرماتے ہوئے سنا تھا ''اما ترضى ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الّا انه لا نبى بعدى ''

ترجمہ : آيا تم راضى نہيں ہو كہ تمھارا وہى مرتبہ ہے جو موسى كے لئے ہارون كا تھا فرق اتنا ہے كہ ميرے بعد كوئي نبى ہونے والا نہيں ہے _

۲_ دوسرى مرتبہ جنگ خيبر ميں كہتے ہوئے سنا تھا''لاعطينّ الراية غدا رجلا ً يحب الله و رسوله و يحبه الله و رسوله ''

ترجمہ : كل ميں اس مرد كو علم دوں گا جو خدا و رسول كو دوست ركھتا ہے اور خدا و رسول (ص) اسے دوست ركھتے ہيں ،ہم تمام لوگ گردنوں كو بلند كر كے رسول (ص) خدا كو ديكھنے لگے اپ (ص) نے فرمايا : على (ع) كہاں ہيں ؟

۱۸۹

حاضرين ان كو بلانے كے لئے دوڑے جبكہ على (ع) كے انكھوں ميں شديد درد تھا وہ اسى حالت ميں پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں لائے گئے ، انحضرت (ص) نے ان كى انكھوں ميں اپنا لعاب دہن لگايا پھر علم جنگ انكے ہاتھوں ميں ديا جسكے بعد خدا وند عالم نے انكو فتحيابى سے ہمكنار كيا _

مجھے وہ بھى وقت ياد ہے جب يہ آيت نازل ہوئي تھى ،كہ''فقل تعالوا ندع ابنا ئنا الخ_

ترجمہ : پس ان سے كہو كہ ائو اس طرح فيصلہ كر ليں كہ ہم اپنے بيٹوں كو لاتے ہيں تم اپنے بيٹوں كو لائو ، پيغمبر(ص) اسلام نے على (ع) ، فاطمہ(ع) ، حسن(ع) ، حسين(ع) كو بلايا اور كہا ، اے ميرے مالك يہى ہمارے اہلبيت(ع) ہيں _

مسعودى سعد بن وقاص اور معاويہ كى ملاقات كو طبرى سے يوں نقل كرتا ہے _

جب معاويہ حج كرنے كے لئے مكہ آيا تو سعد بن وقاص سے طواف كعبہ كے وقت ملاقات ہوئي ، جب طواف كر چكا تو سعد كو ليكر دار الندوہ ( جو عصر جاہليت ميں بزرگان قريش كے اجتماع كى جگہ تھى ) آيا اور سعد سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، معاويہ كى اس بات پر سعد كو اتنا غصہ آيا كہ اپنى جگہ سے كھڑے ہو گئے اور كہا :

اے معاويہ ، تو مجھے اسى لئے ليكر آيا ہے تاكہ على (ع) جيسے شخص پر لعن و طعن كروں خدا كى قسم ، اگر على كے فضائل و كمالات ميں سے ايك فضيلت ميرے اندر ہوتى تو دنيا كى تمام چيزوں سے زيادہ محبوب و قيمتى ہوتى(۱۹)

مسعودى نے اس واقعہ كو لكھنے كے بعد ايك عبارت پيش كى ہے جو اس واقعہ سے تھوڑا سا فرق ركھتى ہے_

سعد نے معاويہ سے كہا كہ ، خدا كى قسم ، جب تك زندہ رہو نگا تيرے گھر ميں قدم نہيں ركھوں گا يہ كہا اور اٹھ كھڑے ہوئے(۲۰)

ابن عبد ربہ اندلسى اپنى كتاب ميں لكھتے ہيں :

امام حسن (ع) مجتبى كى شہادت كے بعد معاويہ خليفہ بن كر مكہ حج كرنے گيا پھر مدينہ كى طرف رخ كيا اسكى اس سفر ميں يہ خواہش تھى كہ مسجد النبوى (ص) كے منبر سے على (ع) كو برا بھلا كہے_

____________________

۱۹_صحيح مسلم ج۷ ص ۱۲۰ ، ترمذى ج ۱۳ ص ۱۷۱ ، مستدرك ج۳ ص ۱۰۹ ، اصابہ ج۲ ص ۵۰۲

۲۰_مروج الذھب ج۳ ص ۲۴

۱۹۰

معاويہ كے اطرافيوں نے اس سے كہا ، اس شہر ( مدينہ ) ميں فاتح ايران اور با عظمت صحابى سعد بن وقاص رہتے ہيں ، وہ اس كام كو ہرگز ہونے نہيں ديں گے لہذا بہتر يہى ہے كہ انكے پاس جا كر ان سے پوچھ ليا جائے _

مامورين معاويہ، سعد كے پاس گئے جيسے ہى انھوں نے سنا تو ان لوگوں سے كہا _ اگر اس كام كو انجام ديا گيا تو ياد ركھو جس مسجد كے در سے على (ع) كو برا بھلا كہا گيا اس در ميں ہرگز قدم نہيں ركھےں گے_

يہ بات اس وقت واضح ہوگى جب ہميں يہ معلوم ہو جائے كہ مدينہ ميں مسجد نبوى (ص) كے بارے ميں گفتگو ہوئي تھى يا كوئي اور مسجد تھى _

معاويہ سعد كے نفوذ كے سامنے مات كھا گيا اورجب تك وہ زندہ رہے معاويہ اس كام كو انجام نہ دے سكا _

ليكن جب سعد بن وقاص اس دنيا سے چلے گئے تو معاويہ نے مدينہ كے اندر بار ديگر سعى و كوشش كى اور امام على (ع) كو مسجد نبوى (ص) كے منبر سے گالى دي_

يہى وہ دور تھا جس ميں معاويہ نے اپنے تمام كارندوں كو خط لكھا اور حضرت على (ع) پر تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے لعن و طعن كروائي _

زوجہ رسول (ص) ام سلمى نے كئي خطوط معاويہ كے پاس بھيجے جن ميں ان باتوں كو لكھا اے معاويہ ، تو تمام منبروں سے على (ع) اور انكے ساتھيوں پر نفرين كروا رہا ہے جبكہ يہ نفرين خدا و رسول (ص) پر ہو رہى ہے _

ميں قسم كھاتى ہوں كہ خدا اور پيغمبر(ص) اسلام اسكو دوست ركھتے تھے ، مگر ام سلمى كے خط نے كوئي خاص اثر معاويہ پر نہيں ڈالا

۱۹۱

بلكہ اس نے ان خطوط كو ردى كى ٹوكرى ميں ڈال ديا تھا _(۲۱) _

معاويہ كا اخرى ہدف

جب بھى معاويہ اپنے حسب و نسب اور اپنے خاندان كے كرتوت پر (جو اسلام كے مقابلے ميں جنگ كى تھى )نظر دوڑاتا تھا تو شرم و حياء كے مارے اسكا سر جھك جاتا تھا اور يہ تمام چيزيں اسكى حيرانى و پريشانى كى باعث بن جاتى تھيں ، كيونكہ ايك طرف اسلام نے اس كو اور اسكے خاندان كو ضرب كارى لگا كر ذلت و رسوائي كے كھنڈر ميں ڈال ديا تھا _

دوسرى طرف اس كے ديرينہ رقيب بنى ہاشم شہرت كے فلك چہارم پر جا رہے تھے ، يہ تمام مشكلات اسكے ذہن و دماغ پر پہاڑ كى طرح بوجھ بنى ہوئي تھى ، جنكو ہلكا كرنے كے لئے اس نے اصحاب پيغمبر (ص) سے جنگ كى تھى _

ليكن ان تمام جنگوں ميں امير شام معاويہ كى يہى كوشش رہى كہ كہيں سے اپنے كينے كا اظہار نہ ہو كيونكہ ابھى حكومت نئي ہے ورنہ جان و مال خطرے ميں پڑ جائے گا ، ليكن جب ايك دن مغيرہ بن شعبہ كے ساتھ تنہائي ميں بيٹھا، چونكہ دونوں عصر جاہليت سے اپس ميں دوست تھے نيز سالہا سال دونوں سياہكاريوں و تباہكاريوں ميں ايك دوسرے كا ہاتھ بٹا رہے تھے تو معاويہ نے اپنى سياست كو فاش كر ديا _

كتاب الموفقيات ميں زبير بن بكار ، مطرف بن مغيرہ ، سے نقل كرتے ہيں ، ميں اپنے والد (مغيرہ ) كے ساتھ شام گيا ہم دونوں كا قيام معاويہ كے يہاں تھا ميرے والد ہر روز امير شام معاويہ كے پاس جا يا كرتے تھے اور جا كر گھنٹوں باتيں كيا كرتے تھے اور جب معاويہ كے پاس سے اتے تھے تو سارى باتوں كو بيان كرتے تھے _ايك دن معاويہ كے پاس سے آئے تو ميں نے كھانا حاضر كيا ، ليكن انھوں نے نہيں كھايا ، ميں اپنے دل ميں سوچنے لگا كہ كہيں ہم سے كوئي خطا تو سرزد نہيں ہو گئي ہے _

لہذا ميں نے اپنے باپ ( مغيرہ ) سے سوال كيا كہ اج كى شب اپ كيوں اتنا كبيدہ خاطر ہيں _

____________________

۲۱_عقد الفريد ج۳ ص ۱۲۷

۱۹۲

ميرے باپ نے جواب ديا كہ ، اے ميرے لال ، اج ہم خبيث ترين و كافر ترين شخص كے پاس سے ارہے ہيں _

ميں نے پوچھا وہ كون ہے ؟

ميرے باپ نے كہا ارے وہى معاويہ ہے اج اسكى مجلس اغيار سے خالى تھى ، تو ميں نے اس سے كہا كہ اے امير المومنين اپ تو اپنے ہدف تك پہونچ گئے ہيں _

لہذا اس بوڑھاپے ميں عدل و انصاف سے كام ليجئے اور اپنے رشتہ داروں ( بنى ہاشم ) پر رحم و كرم كيجئے تاكہ لوگ اپكى تعريف و تمجيد كريں _

خدا كى قسم ، اب ان لوگوں سے كسى چيز كا خوف نہيں ہے _

اس پر معاويہ نے كہا ، جو كچھ تم نے كہا ہے بہت مشكل ہے ، ابو بكر تخت خلافت پر آئے عدل و انصاف كيا تمام زحمتوں كو برداشت كيا مگر خدا كى قسم ، ايك موذن بھى ان كا نام اذان ميں نہيں ليتا ہے _

عمر خليفہ بنے دس سال كى طويل مدت تك سختيوں كو جھيلا مرنے كے بعد كوئي بھى ان كا نام ليوا نہيں ہے _

اخر ميں ہمارے بھائي عثمان تخت خلافت پربرا جمان ہوئے جو نسب كے اعتبار سے كوئي بھى ان كا ہم پلہ نہيں ہے اور جو كچھ كرنا تھا انھوں نے انجام ديا ليكن ان كے ساتھ كيسا حادثہ پيش آيا جسكى وجہ سے مار ڈالے گئے ، مگر ان كا بھى كوئي نام نہيں ليتا ہے ، اور لوگوں نے انكى كار كردگى كو بالائے طاق ركھ ديا ہے درانحاليكہ اس مرد ہاشمى ( محمد(ص) ) كا نام موذن ہر روز پانچ مرتبہ تمام بلاد اسلامى كے گلدستہ اذان سے ليتا ہے كہ

اشھد ان محمد رسول(ص) اللہ_

اے مغيرہ تم ہى فيصلہ كرو كہ ايسى صورت ميں كون سا اچھا كام اور كس كا نام باقى رہ سكتا ہے _

خدا كى قسم ، جب تك اس نام كو نہ مٹادونگا اس وقت تك چين و سكون سے نہيں بيٹھوں گا(۲۲) رسول خدا (ص) كى شہرت

عامہ سے معاويہ كا سينہ اگ كى بھٹى ہو رہا تھا ( كيونكہ معاويہ كے بھائي ، ماموں اور دوسرے رشتہ داروں كو جنگ بدر ميں مارا تھا ) لہذا اس نام كو مٹانے كے لئے اس نے ان دو سياستوں انتخاب كيا ، اسكى پہلى سياست يہ تھى جس كا خلاصہ يہ ہے ، كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى زمين پر زندہ نہ رہے يہ بات صرف ميں نہيں كہہ رہا ہوں ، بلكہ اسكى وضاحت خود مولائے

____________________

۲۲_مروج الذھب ج ۹ ص ۴۹ ، شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۴۶۳

۱۹۳

كائنات امير المومنين (ع) نے بھى كى ہے كہ خدا كى قسم معاويہ چاہتا ہے كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى روئے زمين پر باقى نہ رہے اور خدا كا نور بجھ جائے درانحاليكہ خدا وند عالم اپنے نور كو تمام عالم ميں پھيلا كر رہے گا چاہے كافروں كو برا ہى كيوں نہ لگے(۲۳)

معاويہ كى دوسرى سياست يہ تھى كہ بنى ہاشم كے نام و نشان كو صفحہ ہستى سے مٹا ديا جائے اسى لئے جھوٹى حديثوں اور سيرت و تاريخ كا ايك بڑا كارخانہ كھولا تاكہ ان كى منقصت كر كے كردار كو بد نام كر ديا جائے اور بنى اميہ كى فضيلت و منزلت كا پر چار كيا جائے ، يہى وجہ تھى كہ اس نے رسول (ص) كى لعنت والى حديث جو خود اسكے اور ابو سفيان يا خاندان اموى كى كسى ايك فرد جسيے عمر و بن عاص كے سلسلے ميں تھى كے مقابلے ميں رسول اسلام (ص) سے جھوٹى حديث منسوب كر كے لوگوں كے درميان پر چار كرائي كہ ، بارالہا ميں انسان ہوں _

اگر غصے كى حالت ميں كسى پر غلطى سے لعنت بھيجدى ہے يا اسكى مذمت كر دى ہے تو اس لعن و تشنيع كے بدلہ ميں اسكے گناہوں كو معاف كر دے تاكہ پاك و پاكيزہ ہو جائے _

ان جعلى حديثوں نے معاويہ كے حق ميں شمشير برّان كا كام كيا ، ايك طرف رسول اكرم (ص) نے جو كچھ ا س كے يا اس كے خاندان والوں كے سلسلے ميں كہا تھا جو حقيقت ميں سچ تھا ان حديثوں سے اس نے داغدار دامن كو پاك و صاف كر ليا _

دوسرى طرف پيغمبروں (ص) كو ايك معمولى انسان دكھايا كہ انھوں نے جو كچھ كہا تھا وہ سب غصے ميں كہا ، جبكہ اپ لوگ اچھى طرح سے جانتے ہيں كہ خدا وند عالم نے اپنے رسول(ص) كے اخلاق و كردار كى كتنى تعريف و تمجيد كى ہے ، اور انكو انك لعلى خلق عظيم سے ياد كيا ہے ، اور اپكے متعلق سورہ ال عمران ميں ارشاد فرمايا ہے ، ''فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو كنت فظا غليط القلب لا نفضوا من حولك ''نيز دوسرى جگہ كہا كہ ، انكى تمام باتيں وحى الہى كا سر چشمہ ہيں '' وما ينطق عن الھوى ان ھو الّا وحى يوحى '' سورہ نجم آيت۳_۳

معاويہ كى اس برى سياست كو ہر كس و نا كس نہيں سمجھ پايا تھا يہى وجہ تھى جو سادہ لوح افراد تھے اور وہ اپنى ذات سے بے بہرہ تھے اسكى آواز پر دوڑنے لگے ، اور معاويہ كى ہاں ميں ہاں ملانے لگے ، اور جو ضمير فروشوں نے اسكے حكم سے بناوٹى حديثيں تيار كى تھيں انھيں ہر جگہ بيان كرنے لگے اگر چہ معاويہ نے اپنے اندر ونى كينے كو لوگوں كے سامنے ظاہر نہيں كيا

____________________

۲۳_ مروج الذھب ج۳ ص ۲۸

۱۹۴

ليكن اپنى نا پاك تمنائوں كو كھلے عام انجام ديا ہاں ،اس نے ايك طرف عثمان اور ان كے ہمراہيوں كا كھل كر ساتھ ديا_ اور دوسرى طرف على (ع) اور ان كے خاندان والوں نيز ان كے چاہنے والوں پر كہ جنھوں نے اس كى سياہكاريوں ميں ہاتھ نہيں بٹايا تھا ظلم و ستم كا پہاڑ ڈھايا ، اور كسى كو اذيت دى تو كسى كو قيد خانے ميں ڈلوايا تو كسى كو زندہ در گور كيا گيا ، ہمارى بحث كى محور ام المومنين عائشه كى ذات ہے كہ جس وقت انسانيت سولى پر چڑھائي جا رہى تھى اور شيعيان على (ع) كو شكنجوں اور قيد خانوں كى اذيتوں ميں مبتلا كيا جا رہا تھا اپ اسوقت بھى اركان حكومت اموى كى نظر ميں باعث صد احترام تھيں اور معاويہ نے جو امير المومنين (ع) سے جنگ كى تھى تو اس ميں بھى اپ نے معاويہ ہى كا ساتھ ديا تھا ،جب اپ حضرات نے يہاں تك ان كى كاركردگى كو ملاحظہ فرما ليا تو اس بات كو بھى ذہن نشين كر ليجئے كہ انھوں نے معاويہ كى جعلى حديثوں كے كار خانے ميں كتنا حصہ ليا ہے_

سعد بن ہشام نے حكيم بن افلح سے عائشه كے گھر جانے كو كہا ، اس نے كہا كہ ہم ان كے يہاں ہر گز نہيں جائيں گے ، ميں نے عائشه كو جب دو گروہوں (حزب علوى اور حزب عثمان ) ميں اختلاف چل رہا تھا تو ان كو مداخلت كرنے سے منع كيا ليكن انھوں نے ميرى بات نہيں مانى اور اپنى ڈگر پر چلتى رہيں(۲۴) يہ جو افلح نے عائشه كے بارے ميں كہا كہ حزب علوى (ع) اور حزب عثمان كے اختلاف ميں مداخلت كي، اس كا مطلب كيا ہے ؟

اپ نے پہلے ديكھا نيز ائندہ ملاحظہ فرمائيں گے كہ عائشه نے ان حالات ميں عثمان كے پارٹى كى خوب تعريف و تمجيد كى اور ان كے حق ميں رسول اسلام(ص) سے جھوٹى حديثوں كو منسوب كر كے بيان كيا تھا _

انھوں نے حزب علوى (ع) كى خدمت ميں يقيناً حديثيں گڑھى ہو نگى ، ان ہى باتوں كى وجہ سے حكيم افلح نے انكو منع كيا ليكن انھوں نے اسكى بات پر كان نہيں دھرا _

عائشه كى ايك حديث

احمد بن حنبل اپنى مسند ميں نعمان بن بشير سے نقل كرتے ہيں :

معاويہ نے مجھے ايك خط ديكر عائشه كے يہاں بھيجا ، ميں نے اس خط كو عائشه كى خدمت ميں پيش كيا تو اپ نے فرمايا ، اے ميرے لال ، ميں نے جو كچھ پيغمبر(ص) اسلام سے سنا ہے اس كو تم سے بيان نہ كروں ؟

___________________

۲۴_مسند احمد ج۶ ص ۵۶ ، تہذيب التہذيب ج۲ ص ۴۴۴

۱۹۵

نعمان نے كہا ، ضرور بيان كيجئے :

عائشه نے كہا ، ايك روز ہم اور حفصہ رسول (ص) كى خدمت ميں بيٹھى ہوئي تھى كہ اپ(ص) نے فرمايا كہ كتنا اچھا ہوتا كہ كوئي بات كرنے والا اجاتا _

عائشه نے كہا اے رسول خدا (ص) ہم اپنے باپ ( ابو بكر ) كو بلا ديں

انحضرت (ص) نے كچھ جواب نہيں ديا

رسول (ص) نے بار ديگر اپنى خواہش بيان كى حفصہ نے كہا ہم اپنے باپ ( عمر )كو بلاديں حضور (ص) خاموش رہے _

اس كے بعد رسول اسلام (ص) نے ايك شخص كو بلايا اور چپكے سے اسكے كان ميں كچھ كہا وہ ادمى چلا گيا ، تھوڑى دير بعد عثمان اگئے ، انحضرت(ص) نے ان سے خوب باتيں كيں ، گفتگو كے درميان ميں نے سنا كہ حضور(ص) يہ فرما رہے ہيں _

اے عثمان ، عنقريب خدا وند متعال تمہارے جسم پر ايك لباس ( خلافت ) پہنانے والا ہے اگر لوگوں نے اس لباس كو تم سے چھيننے كى كوشش كى تو تم اسكو ہر گز نہ اتارنا _

رسول(ص) خدا نے اس فقرے كو تين بار دہرايا

نعمان بن بشير كہتا ہے كہ ميں نے كہا :

اے ام المومنين يہ حديث عثمان كى مخالفت كرتے وقت اور لوگوں كو انكے خلاف بھڑكاتے وقت ياد نہيں رہى تھى _

عائشه نے كہا اے نعمان ميں اسكو ايسا بھول گئي تھى گويا كبھى سنا ہى نہيں تھا(۲۵)

يہ واقعہ اس زمانہ ميں پيش آيا كہ خليفہ وقت معاويہ نے عائشه كو خط لكھا اور نعمان اس كو ليكر گيا اور يہ اس كا منتظر ہے كہ يہ

جواب ديں ايسے وقت ميں رسول (ص) كى ايك حديث عائشه كو ياد ائي ہے اور قاصد سے بيان فرمائي كہ رسول (ص) نے عثمان كے بارے ميں وصيت كى تھى كہ ائندہ كا خليفہ عثمان ہے پھر لباس خلافت كو ہرگز جسم سے نہ اتارنا _

غور طلب بات يہ ہے كہ اس خط سے حديث كا كيا ربط ہے ؟

ايا معاويہ نے اپنے خط ميں ان سے سفارش كى تھى كہ عثمان كا دفاع كريں ؟

__________________

۲۵_مسند احمد ج۶ ص ۱۴۹

۱۹۶

يا يہ كہ جب قاصد امير شام معاويہ كے يہاں پلٹ كر جائے تو انكى حديث كو معاويہ سے بيان كرے ؟

يا كوئي دوسرى بات تھى ؟

ايا ممكن ہے كہ جو عائشه ايك طويل مدت تك عثمان سے جھگڑا كرتى رہيں اور لوگوں كو ان كے خلاف بھڑكاتى رہيں يا اسى قسم كى دوسرى باتيں جو معاويہ كے زمانے ميں پيش ائيں ، اور لوگوں سے بيان كيا تھا اسكى وجہ صرف اتنى ہے كہ معاويہ كے زمانے ميں عائشه ايك كنيز كى طرح زندگى گذار رہى تھيں _

اور جو كچھ جھوٹى حديثيں اپنے باپ يا عمر و طلحہ نيز خاندان كى فضيلت ميں بيان كى تھى اسكى وجہ يہ تھى كہ معاويہ كى حديث گڑھنے والى سياست كو كامياب بنا كر اس كو خوش كرنا تھا اور اس سلسلہ ميں انھوں نے اپنے رشتہ دار اور چاہنے والوں كے فضائل كو نشر كرنے ميں ايڑى چوٹى كا زور بھى لگايا تھا اسى لئے محاورہ بھى ہے كہ جسكو چوٹ لگتى ہے اسى كو درد ہوتا ہے '' ليست الثكلى المستاجرہ ''

ہم نے ان بحثوں ميں نہ كسى كے فضائل كو بڑھا چڑھا كر بيان كيا ہے اور نہ ہى ميرا مقصد كسى كى عيب جوئي كرنا تھا ، بلكہ ہمارا واحد ہدف يہ تھا كہ ان حديثوں كى جانچ پڑتال كى جائے جو رسول اسلام (ص) سے جھوٹ منسوب كر كے بيان كى گئي ہيں جسكو انشاء اللہ اس كتاب كى اخرى بحث ميں ملاحظہ فرمائيں گے _

تحقيق اور نتيجہ

ہم نے اس سے پہلے زندگانى عائشه كى اچھى طرح تحقيق كى تاكہ ان كى سياسى و اجتماعى اور معاشراتى كارناموں كے ساتھ انكے اغراض و مقاصد سامنے اجائيں ، اب اس كے پس منظر ميں ان چيزوں كو پيش كروں گا كہ وہ كون سى چيز باعث بنى جنھوں نے حديث نقل كرنے پر بر انگيختہ كيا تھا _

اگر اس كا خلاصہ كيا جائے تو يہ ہو گا كہ ، عائشه ايك تيز طرار عورت كے ساتھ ساتھ ايك بہترين خطيبہ تھيں جس كے ذريعہ عالم و جاہل سب كے افكار و قلوب كو جذب كر ليتى تھيں ، ايك بہترين سياستدان تھيں جس كى وجہ سے لشكر عظيم كو كنٹرول كر ليتى تھيں ، ان كا عوام ميں اتنا اثر و رسوخ تھا كہ ايك اشارے پر لوگوں كو خليفہ وقت كے خلاف ايسا بھڑكا ديا كہ انھوں نے اسكى بساط حكومت كو پلٹ ديا _

۱۹۷

عائشه جاہ و حشم كى بھوكى عورت كا نام ہے جس كو حاصل كرنے ميں كسى چيز سے خوف نہيں كھايا تھا ، بلكہ كسى نہ كسى طرح اس كو حاصل كر كے رہيں ، انھوں نے اپنے چاہنے والوں كے ساتھ اتنا مہربانى كى كہ حد سے اگے بڑھ گئيں _

اپنے خاندان اور اپنے مخالفوں كى نسبت اتنى كينہ توز تھيں كہ ان كے دشمنوں سے مرنے مارنے پر اجاتى تھيں ، المختصر يہ كہ ايسى عورت تاريخ ميں ڈھونڈھنے سے بھى نہ ملے گى ، اگر كوئي بات اپنے خاندان يا چاہنے والوں كے حق ميں كہہ دى تو وہ سب كے زبان پر چڑھ جاتى تھى ، اور تاريخ كے صفحات ميں زندہ جاويد ہو جاتى تھى تاكہ لوگوں كے لئے مشعل راہ بن جائے اور انے والى پيڑياں انكى معرفت و شہرت سے پہچان ليں _

اگر كوئي بات اپنے دشمنوں كو شكست دينے كے لئے بيان كر دى تو تاريخ نے ہميشہ كےلئے اپنے دامن ميں جگہ ديدى ، يا يوں كہوں كہ اگر اس نے كسى كى حمايت يا مخالفت ميں كوئي بات كسى سے كہہ ڈالى تو يہ بات مسافروں و كاردانوں كے ذريعہ ايك دوسرے تك پہونچ جاتى تھى اور لوگ اس كو حديث سمجھ كر ايك شہر سے دوسرے شہر تحفہ سمجھ كرلے جاتے تھے اخر ميں يہ باتيں كتابوں ميں منتقل ہو گئيں اور انے والى نسلوں نے ان باتوں كو حديث كا نام دے ديا _

يہ تمام باتيں خود ام المومنين عائشه كى عظمت و منزلت كى بڑى دليليں ہيں ، ہم نے جب عائشه كے چہرے كو تاريخ كى حقيقت ميں ديكھا اور جن لوگوں نے ان كى ذات كو عظمت كے سانچے ميں ڈھال كے پيش كيا تو ان دونوں ميں بہت

۱۹۸

فرق پايا ، ليكن جن لوگوں نے ان كى عظمتوں كا گيت گايا ہے ان سے ميرى ايك درخواست ہے كہ عائشه كے بطن سے ايك رسول (ص) كا بيٹا دكھا ديجئے ، البتہ يہ دونوں فضيلتيں حقيقت سے كوسوں دور ہيں _

ہميں صدر اسلام كى شخصيتوں كى اپنى طرف سے تعريف نہيں كرنى چاہيئے ، كيونكہ ايسى صورت ميں مدح و ثنا ء ايك خيالى ہو كر رہ جائيگى جسكى كوئي حيثيت نہيں ہے ، ہمارى پيش كى ہوئي سارى باتيں حقيقت سے تعلق ركھتى ہيں _

زندگانى عائشه كى تحقيق كا مقصد ہم نے بارہا كہا اور اخر ميں پھر كہتا ہوں كہ ام المومنين عائشه نے اپنے مقاصد تك پہونچنے كے لئے دو زبردست چيزوں كا سہارا ليا تھا _

۱_ عائشه نے اپنى پورى زندگى ميں زوجہء رسول (ص) نيز ام المومنين كے لقب كا سہارا ليا اور اس سے اپنى طرف لوگوں كى توجہ مبذول كروائي ، اور اس موثر حربے كو استعمال كر كے اپنے مخالفوں كى زد و كوب كى اور اپنے چاہنے والوں كى ہمت افزائي كى _

۲_ وقت كى نزاكت كو ديكھتے ہوئے پيغمبر(ص) اسلام سے ان كى حديث نقل كى ، يا اپنى قابليت جھاڑنے كے لئے زوجيت كا فائدہ اٹھا كر جھوٹى حديثيں گڑھيں ، عائشه نے جن جگہوں پر رسول (ص) كى بيوى ہونے كے ناطے فائدہ اٹھايا ہے اس كو اس مختصر بحث ميں بيان كرنا بہت مشكل ہے ، ليكن نمونے كے طور پر دو تين حديثيں پيش كر رہا ہوں _

۱_ مسلم اپنى صحيح ميں نقل كرتے ہيں :

عائشه فرماتى ہيں : جب رسول خدا (ص) بستر مرگ پر تھے تو انھوں نے ہم سے فرمايا:

اے عائشه _ اپنے باپ ( ابو بكر )اور بھائي كو بلا لائو تاكہ ايك وصيت لكھدوں كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ كہيں لوگ ارزو نہ كرنے لگيں اور كہنے والے يہ نہ كہنے لگيں كہ ميں خلافت كا زيادہ مستحق تھا ، درانحاليكہ ، خدا اور مومنين ابو بكر ہى كو چاہتے ہيں _

۲_ صحيح بخارى ميں ہے كہ : عائشه فرماتى ہيں ، جب رسول خدا (ص) پر مرض نے شدت پكڑلى تو عبد الرحمن بن ابو بكر سے فرمايا : ہڈى يا كوئي تختى لے ائو تاكہ ميں ابو بكر كے حق ميں نوشتہ لكھدوں تاكہ ميرے بعد كوئي اس ( ابوبكر ) سے خلافت كے

۱۹۹

سلسلے ميں جھگڑا كرنے نہ لگے ، عبد الرحمن ادھر تختى وغيرہ لينے گئے تو پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا :اے ابو بكر خدا اور مومنين تمھارے سلسلہ ميں تھوڑا سا بھى اختلاف نہيں ركھتے ہيں _

اپ نے ديكھا كہ عائشه نے ان دو حديثوں سے اپنے باپ كى حكومت و خلافت كو رسول (ص) كى بيمارى سے ملتے جلتے واقعات سے كس طرح ثابت كر ديا اور اپنے باپ كى خلافت كے لئے دو دليليں پيش كر ديں _

۳_ جب عائشه كے روابط عثمان سے مسالمت اميز تھے تو ان كى خوب مدد كى اور ان كى حكومت كى حمايت ميں بولتى رہيں ، اور زوجيت رسول (ص) سے فائدہ اٹھا تے ہوئے عثمان كے حق ميں ايك حديث بھى گڑھ ڈالى تھى ، جس كو صحيح مسلم نے عائشه سے نقل كيا ہے كہ :

ميں رسول (ص) كے ساتھ ايك چادر ميں ارام كر رہى تھى كہ ابو بكر اگئے ، پيغمبر(ص) اسلام نے انكو اندر بلا ليا ، پھر تھوڑى دير بعد عمر بن خطاب چلے آئے رسول(ص) اسلام نے انكو بھى اسى حالت ميں بلاليا ; ليكن جب حضرت عثمان آئے تو رسول خدا (ص) چادر سے باہر اگئے پھر عثمان كو گھر ميں بلايا ، جب عثمان چلے گئے تو ميں نے رسول(ص) اسلام سے سوال كيا كہ يا رسول(ص) اللہ جب ابو بكر اور عمر آئے تو اپ چادر كے اندر ليٹے رہے ليكن جب عثمان آئے تو اپنے كو چادر سے باہر كر ليا ، اس ميں كيا راز ہے ، پيغمبر(ص) اسلام نے فرمايا : چونكہ عثمان ايك شرم و حيا كا پيكر ہے لہذا ميں ڈرا كہ اگر اسى حالت ميں عثمان سے ملاقات كر ليتا تو وہ شدت شرم سے مجھ سے بات نہ كر پاتا _

۴_ صحيح مسلم نے اسى حديث كو دوسرى طرح سے عائشه كا يوں بيان نقل كيا ہے:

ايك دن پيغمبر(ص) اسلام ميرے ساتھ چادر اوڑھے ليٹے ہوئے تھے ، جيسے ہى عثمان آئے تو رسول (ص) نے مجھ سے كہا اے عائشه تم اپنا لباس وغيرہ ٹھيك كر لو ، ميں نے كہا ، يا رسول(ص) اللہ ، ابو بكر اور عمر كے انے پر اپ نے مجھ سے لباس ٹھيك كرنے كو نہيں كہا ليكن جب عثمان آئے تو اپنے ہوش و حواس كو كھو ديا نيز ان سے ملاقات كرنے كے لئے اپنے جسم پر لباس بھى پہن ليا _

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348