تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 22%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175311 / ڈاؤنلوڈ: 4063
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

كيلئے سزا معين كى اور انہيں قتل كرديا يہ ايك سياسى حكم تھا اس وقت اس كا جارى كرنا حكومت كيلئے ان كے اسلام لانے سے بہتر تھا_

شورشوں كا دباجانا

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں اسامہ كے ہمراہ لشكر روانہ كرنے كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس خدمت كو ابوبكر نے انجام نہ ديا اس لشكر كے روانہ كئے جانے كے بعد خليفہ وقت اور ان كے ہمنوا افراد نے كوشش كى كہ جتنى بھى شورشيں اس وقت ابھرى تھيں يكے بعد ديگر ے دبادى جائيں _

طليحہ' سجاح' مسيلمہ اور اياس بن عبداللہ ان لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے يا كسى گوشے ميں پيغمبرى كا دعوا كيا يا سركشى كى ، قتل كرديئے گے يا انہوں نے فرار كى راہ اختيار كى _ جنوب اور مشرق ميں آبا د قبائل اور وہاں كے شہروں ميں آباد لوگ دوبارہ مدينہ كے مطيع و فرمانبردار ہوگئے كيونكہ انہوں نے اس بات كو سمجھ ليا تھا كہ خانہ جنگى سے كوئي فائدہ نہيں بلكہ مصلحت اس ميں ہے كہ مركزى حكومت كى اطاعت قبول كرليں _

حضرت فاطمہعليه‌السلام كى وفات

جس سال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انتقال ہوا اسى سال آپ كى اكلوتى بيٹى فاطمہ زہراعليه‌السلام نے بھى وفات پائي باپ كى موت اور مختصر مدت كے بعد جو سانحات پيش آئے انہوں نے فاطمہ زہراعليه‌السلام كے جسم و روح كو غمگين بناديا _

حضرت زہراعليه‌السلام كے دل ودماغ پر ان واقعات كا ايسا گہرا اثر ہوا كہ آپ كے فرمانے كے بموجب اگر يہ مصائب وآلام دنوں پر پڑتے تو رات كى تاريكى ميں تبديل ہوجاتے _(۲۵) ان

۶۱

صدمات كى تاب نہ لاكر صاحب فراش ہوگئيں ، وہ لوگ جو پيغمبرا كرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خاطر جان بكف رہا كرتے تھے اور ان كے پاس جو كچھ تھا وہ آپ كے والد محترمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وجود كى بركت سے ہى تھا اب ايسے پھرے كہ ان ميں سے چند ہى آپ كى عيادت كو آئے_

جناب صدوق اس ضمن ميں فرماتے ہيں : مہاجر وانصار كى كچھ خواتين آپ كى عيادت كے لئے گئيں آپ نے اس وقت كو غنيمت جانا اور اس موقعے پر جو خطبہ ارشاد فرمايا اس كے بعض اہم اقتباسات يہاں كئے جاتے ہيں :

افسوس تمہارے مردوں نے خلافت كو رسالت كى پائيگاہ، نبوت كى اقامت گاہ اور منزل وحى سے الگ كرديا اور دنيا ودين كے ماہروں سے زمام خلافت چھين ليں يقينا اس ميں انكا سراسر نقصان ہے انہيں ابوالحسنعليه‌السلام سے كيا عداوت تھي_

جى ہاں : انہےں علىعليه‌السلام كى راہ خدا ميں برہنہ شمشير، دليرى اور شجاعت كا خوف تھا_

قسم خدا كى اگر خلافت كو علىعليه‌السلام كے ہاتھ سے نہ ليا ہوتا تو ان كے امور و مسائل كو حل كرنے ميں وہعليه‌السلام خود حصہ ليتے اور انتہائي رضا و رغبت سے شادمانى وكامرانى كى جانب انہيں ہدايت كرتے، تشنگان عدل وانصاف آپ كے چشمہ داد و عدالت سے سيراب ہوتے محروم ولاچار لوگ ان كى پناہ صولت ميں دلير و شير دل ہوجاتے _(۲۶)

بنت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب تك علالت كے باعث صاحب فراش رہيں(۲۷) كسى شخص نے آپكے چہرے پر شادابى اور مسكراہٹ نہ ديكھى آپ ہفتے ميں دو مرتبہ (پير اور جمعرات) شہداء كے مزارات پر جاتيں اور ان كے لئے دعائے خير فرماتےں _(۲۸)

اور بالاخر ہجرت كے گيارہوےں سال ميں بتاريخ سوم جمادى الآخر اٹھارہ سال كى عمر ميں آپ نے اس جہان فانى سے كنارہ كرليا اور اپنے والد بزرگوار كے پاس پہنچ گئيں _(۲۹)

حضرت علىعليه‌السلام نے دختر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل ديا نيز آپ كى وصيت كے مطابق خواص كے علاوہ ديگر افراد كى غير موجودگى ميں نماز جنازہ ادا كى اور راتوں رات آپ كے جسد مطہر كو سپرد خاك كركے

۶۲

قبركے نشان كو محو كرديا اس كے بعد آنحضرتعليه‌السلام نے مزار پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب رخ كيا اور فرمايا:

يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرى اور اپنى دختر كى جانب سے جواب آپ كے جوار ميں پہنچ گئي ہيں اور بہت جلد آپ سے جاملى ہيں سلام قبول فرمايئے اور يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ كى برگزيدہ و پاك دختر كى جدائي كے باعث ميرا پيمانہ صبر لبريز ہوچكا ہے اور اب مجھ ميں غم برداشت كرنے كى تاب نہيں

آپ كے پيارى بيٹى جلد ہى آپ كو مطلع كرديں گى كہ آپ كى امت نے ان پر ستم رواركھنے كى غرض سے كيا كيا باہمى سازشيں نہ كيں ان پر جو كچھ گذرى انہى كى زبانى سنيئے اور يہ وقت كس طرح گذرا اس كى كيفيت انہى سے دريافت فرمايئے اگرچہ آپ كى رحلت و زمانہ حيات كے درميان كافى عرصہ نہيں گذرا ہے اور آپ كى ياد دلوں سے بھى محو نہيں ہوئي ہے_(۳۰)

-

۶۳

سوالات

۱ _ حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں كن لوگوں نے پناہ لى اور كيوں ؟

۲ _ واقعہ سقيفہ كے بعد حضرت عليعليه‌السلام كا كيا موقف رہا ؟ اس حساس كيفيت كى وضاحت كيجئے ؟

۳ _ حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال كى روشنى ميں كنارہ كشى كے اسباب بيان كيجئے ؟

۴ _ حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ وقت سے كس وقت مصالحت كى تھى ؟

۵ _ فدك كہاں واقع ہے يہ مسلمانوں كے ہاتھ كس طرح آيا اور رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے زمانہ حيات مےں كسے بخشا ؟

۶ _ فدك پر قابض ہونے كے محركات بيان كيجئے ؟

۷ _ ابوبكر كى حكومت كے مقابل اہل '' ردہ '' كا كيا ردعمل رہا كيا وہ سب مرتد ہو گئے تھے ؟

۸ _ مرتدين كے ساتھ جنگ كرنے ميں ابوبكر كے پيش نظر كيا محركات تھے اس بارے ميں خليفہ ثانى كا بھى نظريہ پيش كيجئے ؟

۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى وفات كس سنہ ميں واقع ہوئي رحلت كے وقت آپ كى كيا عمر تھى آپ كى تكفين و تدفين كى رسومات كس طرح ادا كى گئيں ؟

۶۴

حوالہ جات

۱ _ جن حضرات كے نام ديئے گئے ہيں ان مےں زبير ' عباس بن ابى لہب ' سلمان ' ابوذر ' مقداد عمار، براء ' ابى بن كعب'سعد بن ابى وقاص اور طلحہ شامل ہيں ليكن الفصول المہمة ميں ان افراد كے علاوہ ديگر حضرات كے نام بھى درج ہيں _

۲ _ الامامة والسيلة ج۱ / ۲۰ _

۳ _ الامامة والسيلمة ج۱ / ۱۹_

۴ _ الشيعة والى كمون / ۱۸ _

۵ _لو وجدت اربعين ذويى عذم منهم لنا هضت القوم شرح ابن ابى الحديد ج۲ / ۴۷ و ۲۲

۶ _ نہج البلاغہ (صبحى صالح)خلبہ ''فنظرت فاذا ليس معين الا اهل بيتيى فضنت بهم عن الموت _

۷ _ اس جماعت نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد اسلام كى مركزى حكومت كے خلاف بغاوت شروع كر دى اور ايك مدت اس كے حملے جارى رہے _

۸ _ نہج البلاغہ خطبہ ج'' شقوا امواج الفتن بسفن النجاة ، عرجوا عن طريق المناضرة وضعوا بتيجان المفاخرة اندمجت على مكنون علم لوبحت به لاضطربتم الاشية فى الطوى البيصره'' _

۹ _'' وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيہ فلن يضراللہ شيئا وسيجزى اللہ الشاكرين'' (محمد اس كے سوا كچھ نہيں كہ بس ايك رسول نہيں ان سے پہلے اور رسول بھى گذر چكے ہيں كيا اگر وہ مر جائيں يا قتل كر ديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤں گے ؟ ياد ركھو جو الٹا پھرے گا وہ اللہ كا كچھ نقصان نہ كرے گا البتہ جو اللہ كے شكر گزار بندے بن كر رہيں گے انھيں وہ اس كى جزادے گا)آل عمران آيہ ۱۴۴_

۱۰ _ نہج البلاغہ خط ۶۲ _

''فامسكت يديى حتى رايت راجعة الناس قد رجعت عن الاسلام يدعون الى محق دين محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فخشيت ان لم انصر الاسلام واهله ان ارى فيه ثلما اوهدما تكون المصيبة به على اعظم من فوت ولايتكم التى هيى متاع ايام قلائل يزول منها ماكان كما يزول السراب اوكما يتقشع السحاب '' _

۶۵

۱۱ _ تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو اسد الغابہ ج۳ / ۲۲۲ ' تاريخ يعقوبى ۲ / ۱۲۶ ' استيعاب ج۲ / ۲۴۴ ' التنبيہ والا شراف / ۲۵۰ اور الامامة والسيامة ج۱ / ۲۰ _

۱۲ _ نہج البلاغہ خطبہ ۳، يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مصالحت اور اجتماعا ميں شركت اسى حد تك تھى كہ جتنى اسلام و مسلمين كى حفاظت كا تقاضا تھا _

۱۳ _فدك خيبر كے نزديك مدينہ سے ۱۴۰ كلوميٹر كے فاصلے پر سرسبز و زرخيز زمين تھى فتح خيبر كے بعد رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك وفد ''فدك'' كے سرداروں كے پاس بھيجا اور بحث و گفتگو كے بعد وہاں كے رہنے والوں نے يہ عہد كيا كہ ہر سال خيبر كى جتنى پيداوار ہوگى اس كا نصف حصہ وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيج ديا كريں گے اور اس كے عوض حكومت كى جانب سے ان كى حفاظت كى جائے گي_اسلامى نظريے كے مطابق وہ زمين جو بغير جنگ كے مسلمانوں كو حاصل ہوتى ہے وہ خالص پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و امامعليه‌السلام كا حصہ ہے اس مسئلے كى رو سے ''فدك'' صرف رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حق تھا چنانچہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى شيعہ محدثين و مفسرين نيز بعض سنى مفكرين كے قول كے مطابق جس وقت آيت ذالقربى حقہ (سورہ اسراء آيت ۲۶) نازل ہوئي تو آپ نے اپنى دختر حضرت فاطمہعليه‌السلام كو بلايا اور ''فدك'' انہيں ديديا(كشف الغمہ ج ۱ / ۷۶ ۴) _

۱۴_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۳۱_

۱۵_ مروج الذہب ج ۳/ ۲۳۷_

۱۶_ فتوح البلدان ۴۴ شيعہ احاديث ميں مذكورہ بالا شواہد كے علاوہ اسماء بنت عميس كا نام بھى شاہد كى حيثيت سے آيا ہے_

۱۷_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۲۲_

۱۸_ اعيان الشيعہ (دس جلدي) ج۱/۳۱۸ منقول از سيرہ حلبي_

۱۹_ كامل ابن اثير ج ۲ / ۳۲۶ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۴۵ _

۲۰_ تاريخ طبرى ج۳/۲۰۲_

۲۱_ زيد بن ثابت كچھ رقم لے كر بنى عدى كى ايك خاتون كے پاس پہنچے اور كہا كہ يہ وہ رقم ہے جو خليفہ نے عورتوں كے درميان تقسيم كى ہے اور يہ تمہارا حصہ ہے اس نيك خاتون نے اپنى ذہانت كے باعث اس رقم كو قبول

۶۶

كرنے سے انكار كيا اور كہا كيا ميرا دين خريدنے كے لئے مجھے يہ رشوت دى جارہى ہے _ (شرح ابن ابى الحديدج۲/۵۳، طبقات ابن سعد ج ۳/۱۸۲)_

۲۲_البدايہ والنہايہ ج ۶ /۳۱۱ قال عمر ھو الاّ ان را يت اللہ قد شرح صدر ابى بكرللقتال فعرفت انہ الحق ''ليكن صحيح بخارى ج ۷/ ۱۷۱ ميں عمر كا جملہ اس طرح نقل كيا ہے فواللہ ما ہو الا ان قد شرح اللہ صدر ابى بكر فعرفت انہ الحق ''_

۲۳_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۱_

۲۴_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۲_

۲۵_ صبت على مصائب لوانہاصبت على الايام صرن لياليا

۲۶_احتجاج طبرسى ج ۱/ ۱۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج /۱۶ / ۲۳۳، بلاغات النساء /۱۹ اور دلائل الامامہ طبري/ ۳۹_

۲۷_ حضرت فاطمہعليه‌السلام كتنے عرصے تك عليل رہيں اس كے بارے ميں اختلاف ہے ابن شہر آشوب نے مناقب ميں بيان كيا ہے كہ آپ چاليس دن تك مريض رہيں اور اسى مرضى كے باعث آپ كى وفات واقع ہوئي حضرت امام باقرعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپ پندرہ تك عليل رہيں اور اس كے بعد آپ كى رحلت ہوئي_(اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹)_

۲۸_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹_

۲۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى تاريخ وفات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد آپ كى مدت عمر كے بارے ميں اختلاف ہے كتاب كے متن مےں جو بات درج كى گئي ہے وہ اقوال مشہور كے مطابق ہے مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت فاطمہ(س)رحلت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد كم از كم چاليس دن اور زيادہ سے زيادہ آٹھ ماہ اس جہان فانى ميں تشريف فرما رہيں مذكورہ بالا دونوں اقوال كے علاوہ مختلف روايات ميں دو ماہ سے پچھتر دن ' تين ماہ اور چھ ماہ عرصہ بھى نقل كيا گيا ہے _

۳۰ _ نہج البلاعہ (صبحى صالح)خ ۲۰۲ _

۶۷

چوتھا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳

سر زمين شام و عراق كى فتح

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

حضرت علىعليه‌السلام ، اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

جانشينى كا تعين

قلمر و اسلام كى وسعت

فتوحات كى خوشنجريوں كے اثرات

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى و علمى مشورے

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

بيت المال كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

خليفہ دوم كا قتل

كونسى شورى ؟

مذكورہ شورى كے بارے ميں عليعليه‌السلام كا رويہ

حضرت علىعليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ

۶۸

عثمان كى خلافت

مسلمانوں كا بيت المال

حضرت علىعليه‌السلام كے پند و نصايح

خليفہ سوم كا قتل

حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران علىعليه‌السلام كے كارنامے

سوالات

حوالہ جات

۶۹

سرزمين شام و عراق كى فتح

داخلى جنگوں كى آگ جب خاموش ہو گئي تو خليفہ وقت نے دو اہم لشكر تيار كيئے ان ميں سے ايك لشكر خالد كے زير فرمان عراق كى جانب روانہ كياجس پر اس وقت ساسانى حكومت كا اثر و غلبہ تھا اور دوسرا لشكر ابو عبيدہ كى سركردگى ميں شام كى سمت ' مشرقى روم كى جانب روانہ كيا _

خالد سب سے پہلے '' حيرہ '' كى طرف متوجہ ہوا ليكن وہاں كے حاكم نے صلح و امن كا طريقہ اختيار كيا اور نوے ہزار درہم ادا كر كے اپنے ملك كے تابع سرزمين كو مسلمين كى در ازدستى سے بچا ليا حيرہ كے بعد '' آبلہ '' '' عين التمر '' اور '' انبار '' جيسے شہر جنگ يا معاہدہ صلح كے ذريعے تابع و مطيع كئے گئے _

عراق كى جانب جب لشكر روانہ كيا گيا تھا تو وہ كاميابى سے ہمكنار ہوا مگر جو لشكر رومى شانہشاہيت كے متصرفات كو فتح كرنے كى غرض سے بھيجا گيا تھا اس كے بارے مےں احتمال تھا كہ كہيں شكست سے دو چار نہ ہو اس خدشے كے پيش نظر ابوبكر نے خالد كو عراق سے واپس بلا ليا اور مسلمانوں كى مدد كے لئے انھيں شام كى جانب جانے پر مقرر كيا خالد كے چلے جانے كے بعد قبيلہ بكر كے سردار مثنى نے لشكر عراق كے ماندارى كى ذمہ دارى قبول كى اور حيرہ سے بابل (يہ شہر موجودہ حلہ كے نزديك واقع تھا)كى جانب روانہ ہوئے خالد جب اپنا مختصر لشكر اسلام لے كر '' يرموك '' پہنچے تو لشكر اسلام كو اس سے بہت فرحت حاصل ہوئي اور بے مثال بہادرى و دليرى سے جنگ كر

۷۰

كے انہوں نے سپاہ روم كو شكست دى چنانچہ انھوں نے پسپا ہو كر دمشق ميں پناہ لى _

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

ابوبكر اگرچہ مسند خلافت پر متمكن ہو گئے ليكن مہاجر و انصار كى نظروں ميں ان كا شمار افضل و اعلى دانشور صحابہ رسول ميں نہيں ہوتا تھا مثلا تفسير قرآن مجيد كے وہ قابل اعتناء توجہ مطالب بيان نہےں كر سكتے تھے چنانچہ جلال الدين سيوطى جيسا تتبع مفسردس سے زيادہ تفسير و مطالب تفسير ان سے نقل نہےں كر سكا ہے جبكہ وہى مفسر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں لكھتا ہے كہ علم تفسير ميں آپ كى بہت سے روايات بيان كى گئي ہيں _(۵)

حنبلى مسلك كے پيشوا مام احمد بن حنبل كو دس لاكھ احاديث ياد تھيں ''(۶) مسند'' ميں انہوں نے پچاس ہزار سات سو احاديث نقل كى ہيں او جو احاديث انہوں نے ابوبكر كے واسطے سے نقل كى ہيں ان كى تعداد اسى (۸۰) سے كم ہى ہے(۷)

ابن كثير نے بہت زيادہ تلاش و جستجو كے بعد ابوبكر سے منقول بہتر (۷۲) احاديث جمع كى ہےں اور انھيں ''مجموعہ مسند صديق '' كا نام ديا ہے جلال الدين سيوطى كى علم تفسير و احاديث پر كافى دسترس تھى اس نے مجموعہ ابن كثير كا سند كے اعتبار سے جايزہ ليا ہے اور ان كى تعداد كو اس نے ايك سو چار تك پہنچا ديا ہے(۸)

حضرت علىعليه‌السلام ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

اوپر جو بيان كيا گيا ہے اس كے پيش نظر ابوبكر كے لئے علمى ہى نہيں بلكہ سياسى مشكلات ميں بھى اس كے سوا چارہ نہ تھا كہ ضرورت كے وقت حضرت علىعليه‌السلام سے رجوع كريں اور آپ سے مدد چاہيں اور يہ بات اس امر كى واضح دليل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كتاب خدا ،حديث رسولعليه‌السلام اور اسلام

۷۱

كے سياسى مصالح كے بارے ميں سب سے زيادہ باخبر ، ذى ہوش شخص تھے مثال كے طور پر ہم يہاں دو واقعے بيان كر رہے ہيں _

اہل روم سے جنگ كرنے كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خود فرمان تھا اسے نافذ كرنے مےں ابوبكر كو تردد تھا اس سلسلے ميں انہوں نے بعض صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشورہ بھى كيا چنانچہ ہر شخص نے اس سے متعلق اپنى رائے كا اظہار كيا بالاخر انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے مشورہ كيا اور رائے جاننا چاہى آپ نے پيغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كو نافذ كئے جانے كى ترغيب دلائي اور مزيد فرمايا '' ان فعلت ظفرت '' يعنى اگر آپ يہ اقدام كريں گے تو كامياب ہوں گے خليفہ نے بھى آپ كے كہنے پر عمل كيا _(۹)

۲ _ ايك شخص نے شراب پى ركھى تھى نشہ كى حالت ميں اسے خليفہ كے روبرو لايا گيا اس شخص نے كہا مجھے علم نہ تھا كہ شراب پينا حرام قرار ديا گيا ہے كيونكہ اب تك ميں نے اس ماحول ميں پرورش پائي ہے جہاں شراب كو حلال سمجھا جاتا ہے خليفہ كى سمجھ ميں نہيں آيا كہ كيا كريں چنانچہ انہوں نے ايك شخص كو حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں روانہ كيا اور كہا كہ اس مشكل كو حل فرمائيں _(۱۰)

جانشينى كا تعين

عمر نے ابوبكر كو خليفہ بنانے كے لئے بہت زيادہ سعى وكوشش كى جس كا مقصد يہ تھا كہ خليفہ اول كے بعد خلافت ان كو ملے ، ابوبكر نے بھى ان كى مرضى كے خلاف كوئي اقدام نہ كيا_ جس وقت بستر علالت پر وہ تھے تو انہوں نے عثمان كو بلايا اور كہا لكھو:

يہ عہد نامہ ابوبكر جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مسلمانوں كے لئے ہے بات يہيں تك پہنچى كہ ابوبكر پر غشى طارى ہوگئي عثمان كو يہ گمان گذرا كہ شايد خليفہ گذر گئے ہيں چنانچہ انہوں نے اس عہدنامے كى اس طرح تكميل كي_ ابوبكر نے اپنے بعد عمر بن خطاب كو اپنا جانشين مقرر كيا ہے _ اسى اثناء ميں ابوبكر كو ہوش آگيا اور جب انہيں يہ معلوم ہوا كہ عثمان نے كيا لكھا ہے تو انہوں نے كہا ''تم نے

۷۲

ٹھيك لكھا ہے اس معاملے ميں ميرى اور تمہارى ايك ہى رائے ہے_ (۱۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے نہج البلاغہ ميں ابوبكر كے اس اقدام پر سخت تنقيد كى ہے _ چنانچہ فرماتے ہيں ''عجيب بات ہے كہ وہ شخص جو زندگى ميں لوگوں سے كہا كرتا تھا كہ وہ ميرا عذر قبول كريں اور (علىعليه‌السلام كے ہوتے ہوئے) اس كو خلافت سے معذور ركھيں خود مرتے وقت خلافت (كى دلہن) كا پلا دوسرے سے باندھ گيا _(۱۲)

قلمرواسلام كى وسعت

عمر كے دور خلافت ميں مسلمانوں كو بہت سى فتوحات نصيب ہوئيں اور ايران و روم جيسى دو عظےم شہانشاہى حكومتوں كے دروازے ان پر كھل گئے_

عراق ميں مسلمانوں نے جس تيزى سے پيشرفت كى اس كے باعث انہيں يہ اميد نظر آنے لگى كہ ساسانى حكومت كے اصل سرزمين پر بھى وہ حملہ كرسكيں گے چنانچہ عمر نے ابوعبيدہ كو ايران كى فتح كے لئے فرماندار مقرر كيا اور مثنى چونكہ عراق ميں مقيم تھے انہيں حكم ديا كہ وہ اپنے لشكر كے ساتھ ابوعبيدہ كى اطاعت و پيروى كريں _

ايران كے بادشاہ ''يزدگرد سوم'' نے اپنے سرداروں كو كثير طاقت جمع كرنے كے بعد حكم ديا كہ وہ مسلمانوں كى پيشرفت كو روكيں اگرچہ اس كے سردار ہر چند لايق و جنگجو تھے مگر وہ سب ايك دوسرے كے بعد يا تو قتل ہوئے يا انہوں نے لشكر اسلام سے صلح كرلي_ ايرانى سرداروں ميں بہمن جادويہ ہى ايسا سردار تھا جو مطيع و فرمانبردار نہ ہوا چونكہ اس كى فوج ہاتھيوں كے لشكر سے آراستہ تھى جنہيں ديكھ كر عربوں كے گھوڑے بھڑك گئے چنانچہ ''جسر'' ميں ابوعبيدہ شہيد ہوئے اورباقى لشكر نے پسپا ہوكر فرات كے پار جاكر پناہ لي_

ليكن ايك سال بعد(۱۴ ھ) ميں سپاہ اسلام نے مثنى كے زير فرمان ''بويب(۱۲) '' ميں سپاہ ايران پر فتح پائي اور اس سے جنگ جسر كى شكست كى تلافى ہوگئي_

۷۳

اس كے بعد قادسيہ وقوع پذير ہوئي اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو ايرانى اور اسلامى افواج كے سپہ سالاروں (سعد وقاص اور رستم فرح زاد) كے درميان ايلچيوں كے ذريعے گفت وشنيد ہوتى رہى _ ايلچيوں كى اس ملاقات ميں سپاہ اسلام كے سپہ سلار نے بھى مطالبہ كيا كہ دو چيزوں ميں سے ايك چيز قبول كى جائے، اسلام يا جزيے كى ادائيگى _ ليكن رستم فرح زاد جو بڑا خود سر سردار تھا يہى كہتا رہا كہ جس وقت تك ہم تمہيں قتل نہ كرديں گے دم نہ ليں گے_

بالآخر چار دن كى جنگ كى بعد مسلمان فتح و كامرانى سے ہمكنار ہوئے اور اس طرح محرم سنہ ۱۴ ھ ميں ايران كے دروازے لشكر اسلام پر كھل گئے اور نور ايمان وتوحيد نے اس سرزمين كو اپنى آمد سے منور كيا_

دوسرى طرف شہنشاہ روم كى فوج نے يرموك ميں اپنى شكست كے بعد دمشق ميں پناہ لى اور اپنى اس شكست كے تلافى كرنے كى غرض سے اس نے عظےم فوجى طاقت جمع كى ليكن يہ لشكر بھى شكست سے دوچار ہوا اور مسلمانوں نے دمشق و اردن جيسے شہروں پر فتح پائي_ سنہ ۱۷ ميں مسلمانوں نے فلسطين كو بھى جو فوجى اور تاريخى لحاظ سے اہم شہر تھا ، تسخير كيا_ ۱۹ ھ ميں عمر وعاص نے بحر احمر كو عبور كركے مصر كى جانب رخ كيا_''بابليوں '' ميں باز نطينى سپاہ سے مقابلہ ہوا اس ميں بھى لشكر اسلام كو كاميابى نصيب ہوئي _ وہاں سے وہ عين الشمس اور روم كى جانب روانہ ہوا تاكہ شہنشاہ روم كى رضايت حاصل كركے اسكندريہ پہنچ جائے _ چنانچہ چند ماہ كے محاصرے كے بعد اسكندريہ كو بھى فتح كرليا اور اس طرح شمالى افريقہ كے لئے راستہ ہموار ہوگيا_

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات

مغايرت و مخالفت سے قطع نظر جو محركات خلفاء كے زمانے ميں ان فتوحات كے ذريعے مسلمانوں كو ہوئے اگر ان كا موازنہ ان جنگوں اور فتوحات سے كياجائے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ظہور پذير ہوئيں تو اس نكتے كو ملحوظ خاطر ركھنا ضرورى ہے ، ان فتوحات سے يہ ثابت نہيں ہوتا

۷۴

كہ ان كے باعث دربار خلافت كى شان وشوكت ميں اضافہ ہوا ، اس ميں شك نہيں كہ ايك طاقتور و فاتح فوج كو اعلى مقاصد ، حوصلہ مندانہ آمادگى ، فن حرب وضرب سے واقفيت اور فوجى تربيت جيسے عوامل و اوصاف كا مجموعہ ہوناچاہئے مگر اس كا چندان ربط و تعلق موجودہ سپہ سالاروں سے نہيں تھا _ مسلمانوں كى فتح وكامرانى ميں جو عوامل كار فرما تھے اور انہيں دو عظيم شہنشاہى حكومتوں سے قوت آزما ہونے كيلئے ترغيب دلاتے تھے، وہ پيغمبرا كرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ خوش خبرى تھى كہ مسلمان ايران اور وم جيسى سرزمينوں كو فتح كريں گے ان كے علاوہ بھى ديگر ايسے عوامل تھے جن سے مسلمانوں كى ميدان جنگ ميں حوصلہ افزائي ہوتى تھى مگر انكا تعلق كسى طرح بھى حكومت وقت سے نہ تھا بلكہ ان ميں وہ شہرت ونيك نامى كے عناصر كار فرماتھے جو رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شير خدا علىعليه‌السلام جيسے پيشوايان اسلام نے اپنے كردار كے ذريعے قائم كئے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے

حضرت علىعليه‌السلام خليفہ اول كى طرح خليفہ دوم كے بھى اہم مشكل كشا تھے اور ان كى بھى سياسى و علمى مشكلات كو حل فرماتے تھے يہاں ہم بطور مثال دو واقعات پيش كررہے ہيں _

جنگ قادسيہ ميں سپاہ ايران كى شكست كے بعد ايران كے بادشاہ يزدجرد نے فيروزان كے كمانڈرى ميں عظيم لشكر مرتب كيا تاكہ وہ آيندہ عربوں كے حملات كا سد باب كرسكے ، كوفہ كے حاكم نے خط كے ذريعے تمام واقعات كى اطلاع خليفہ كو دى ، عمر مسجد ميں آئے اور اصحاب سے مشورہ كيا كہ وہ مدينہ ميں ہى رہيں يا اس علاقے ميں پہنچ كر جو بصرہ وكوفہ كے درميان واقع ہے ، سپاہ اسلام كى كمان سنبھاليں _ عثمان اور طلحہ نے دوسرے نظريے كى تائيد كى اور اس ضمن ميں مزيد كہا كہ آپ سرداران سپاہ شام ويمن كو لكھيں كہ وہ آپ سے ملحق ہوں _ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے دونوں ہى نظريات كى مخالفت كى اور فرمايا كہ وہ شہر جو حال ہى ميں مسلمانوں كے تصرف ميں آئے ہيں انہيں فوج سے خالى نہيں رہنا چاہيئےيونكہ ايسى صورت ميں ممكن ہے كہ حبشہ كى فوج يمن پر اور روم كا لشكر

۷۵

شام پر قبضہ كرلے _ عمر كى پہلى تجويز كے بارے ميں بھى آپ نے مشورہ ديا اور فرمايا كہ اگر آپ مدينہ سے باہر چلے جائيں گے تو ممكن ہے كہ اطراف كے اعراب اس موقع كا فائدہ اٹھائيں اور يہاں كوئي فتنہ بپا كريں اس كے علاوہ اگر آپ محاذ جنگ پر پہنچيں گے تو دشمن جرى ہوجائے گا كيونكہ جب عجمى سپاہى آپ كو ديكھيں گے تو كہيں گے كہ عربوں كى جڑ بنياد يہى شخص ہے گر اس كو كاٹ ڈاليں تو سارا جھگڑا ہى پاك ہوجائے گا_

حضرت علىعليه‌السلام كى بات سننے كے بعد عمر نے روانگى كے خيال كو ترك كرديا اور كہا كہ قابل عمل رائے علىعليه‌السلام كى ہے مجھے انہى كى پيروى كرنى چاہيئے_(۱۳)

ايك شخص خليفہ كے پاس آيا اور شكايت كى كہ ميرى بيوى كے يہاں شادى كے چھ ماہ بعد ولادت ہوئي ہے عورت نے بھى اس بات كو قبول كيا اس پر خليفہ نے حكم ديا كہ اسے سنگسار كياجائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حد جارى كرنے سے منع كيا اور فرمايا كہ قرآن كى روسے عورت چھ ماہ پورے ہوجانے پر وضع حمل كرسكتى ہے كيونكہ مدت حمل اور شيرخوار تيس ماہ معين ہے_(۱۴)

اور دوسرى آيت ميں دودھ پلانے كى مدت دوسال بتائي گئي ہے _(۱۵) اور اگر تيس ماہ ميں سے دو سال كم كرديئے جائيں تو مدت حمل چھ ماہ رہ جاتى ہے _ حضرت علىعليه‌السلام كى منطقانہ گفتگو سننے كے بعد عمر نے كہا''لو لا على عليه‌السلام لهلك عمر'' _''اگر علىعليه‌السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاك ہوجاتا''_(۱۶)

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

ابوبكر و عمر كے زمانہ خلافت ميں بنى ہاشم اور حضرت علىعليه‌السلام كے ہوا خواہوں كو عملى طور پر حكومت كے اہم عہدوں سے دور ركھا گيا اور يہ كوشش كى گئي كہ اس زمانے كہ دل ودماغ سے اہل بيتعليه‌السلام كى اعلى اقتدار كو محو كردياجائے_

اس كے مقابل اموى گروہ بتدريج معاشرے كى رہبرى ميں اثر رسوخ پيدا كرتا رہا _ اس

۷۶

نظريے كے بہت سے تاريخى شواہد موجود ہيں جن ميں سے چند كا ذكر ذيل ميں كياجاتا ہے_

۱_ ابوبكر نے اس زمانے كى وسيع وعريض مملكت ميں سے چھوٹا سا حصہ بھى بنى ہاشم ميں سے كسى كو نہيں ديا كہ جبكہ شام كو سياسى اہميت حاصل ہونے كے باوجود ابوسفيان كے بيٹے يزيد كے اختيار ميں ديديا تھا _(۱۷)

۲_ عمر ''حميص'' كى حكومت حضرت ابن عباس كو دينے سے منصرف ہوگئے جبكہ معاويہ كو شام پر مسلط كرنے كے سلسلہ ميں كسى قسم كا دريغ نہيں كيا _

۳_ محض چند لوگوں كى اس شكايت پر كہ عمار ياسر ايك ضعيف انسان ہيں خليفہ دوم نے كوفہ كى گورنرى سے انہيں معزول كيا اور مغيرہ كو گورنر مقرر كيا چند روز بعد مغيرہ كى بھى شكايت پہنچى ليكن اس كا ذرہ برابر اثر نہ ہوا_(۱۸)

خليفہ اول و دوم اگرچہ ابوسفيان سے بہت زيادہ خوش نہ تھے اور اسى وجہ سے انہوں نے اموى خاندان كے افراد كو حد سے زيادہ سياسى امور ميں داخل ہونے نہيں ديا مگر اس كا ميدان انہوں نے عثمان كے زمانہ خلافت ميں ہموار كرديا تھا _ مثلاً عمر جانتے تھے كہ شورى جس كى انہوں نے تشكيل كى ہے اس كانتيجہ يہ برآمد ہوگا كہ عثمان كو خليفہ منتخب كرلياجائے گا چنانچہ اس نے خود بھى يہ بات كہہ دى تھى كہ اگر عثمان حاكم ہوئے تو وہ بنى اميہ كو لوگوں پر مسلط كرديں گے_(۱۹)

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

جيسا كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تاريخ حيات ميں بيان كياجاچكا ہے كہ آپ نے اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں چاہا تھا كہ امت كے لئے ايك نوشتہ لكھ ديں تاكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد وہ گمراہ نہ ہو مگر عمر نے منع كيا اور كہا كہ ہمارى لئے قرآن كافى ہے_

اس خيال كى پيروى كرتے ہوئے انہوں نے اپنے زمانہ خلافت ميں حكم ديا كہ احاديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قلم بند نہ كياجائے اور اگر انہيں كوئي حديث لكھى ہوئي مل جاتى تو اسے ضبط كركے جلوا ديتے_

۷۷

انہوں نے تمام شہروں ميں يہ منادى كرادى كہ اگر كسى كے پاس كوئي حديث ہے تو وہ اسے نيست ونابود كردے _(۲۰) چنانچہ قاسم بن محمد بن ابى بكر سے منقول ہے كہ عمر كے زمانے ميں احاديث بہت زيادہ جمع ہوگئيں جب ان كے پاس لائي گئيں تو حكم ديا كہ انہيں جلاديا جائے_(۲۱)

ابوبكر نے بھى اپنے زمانہ خلافت ميں پانچ سو احاديث جمع كيں _ عائشہ فرماتى ہيں : مجھ سے كہا كہ احاديث ميرے پاس لاؤ جب انہيں لايا گيا تو ان سب ميں آگ لگادى گئي _(۲۲) چنانچہ يہ روش عمر بن عبدالعزيز كے دور خلافت تك جار رہى _

اس رويے كو اختيار كرنے كى وجہ وہ يہ بتاتے تھے كہ اگر عوام كى توجہ احاديث كى جانب رہے تو وہ قرآن سے دور ہوجائيں گے درحاليكہ قرآن كا يہ ارشاد ہے كہ ''پيغمبر جو كچھ تمہارے لئے لائے ہيں ، اسے قبول كرلو اور جس چيز سے منع كيا ہے اس سے باز رہو ''_(۲۳) رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كا امكان پيدا ہونے كے لئے ضرورى ہے كہ وہ احاديث جن ميں بالخصوص اوامر و نواہى كے بارے ميں آپ نے فرمايا محفوظ رہنى چاہئے ورنہ كس طرح رسول كى اطاعت ہوسكے گى ؟

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عہد ميں سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ مقرر نہ تھى بلكہ اخراجات زندگى مال غنيمت كے ذريعے مہيا كئے جاتے تھے _ اس كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ زندگي' عربوں كى نسلى فضيلت يا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ قرابت دارى كو ملحوظ نہيں ركھا جاتا تھا_

خليفہ اول كے زمانے ميں بھى يہى طريقہ رائج رہا ليكن خليفہ دوم كے زمانے ميں اس طريقہ كار كو بدل ديا گيا انہوں نے سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ كے لئے عليحدہ رجسٹر بنايا اور اس كى تقسيم كے لئے نسل ونسبت كو معيار قرار ديا ان كے درميان عرب كو عجم پر ، قحطان كے عرب كو عدنان كے عرب پر ، مضر كو ربعيہ پر ، قريش كو غير قريش پر اور بنى ہاشم كو بنى اميہ پر برترى و

۷۸

فضيلت تھى اور انہيں بيشتر مراعات حاصل تھيں _(۲۴)

كچھ عرصہ گذرا تھا كہ ذخيرہ اندوزوں اور دنيا پرستوں نے اس طريقہ كار كى بدولت جس طرح بھى ممكن ہوسكتا تھا مال جمع كرنا شروع كرديا وہ غلاموں اور كنيزوں كو خريد ليتے اور انہيں مختلف كاموں پر زبردستى لگاديتے تاكہ ان كے لئے زندگى كى سہولتيں فراہم كرنے كے علاوہ ہر روز نقدرقم بھى اپنے آقائوں كو لاكر ديں _

خليفہ دوم كا قتل

فيرو زايرانى ابولو لو مغيرہ كا غلام تھا_ اپنى زندگى كے اخراجات پوركرنے كے علاوہ وہ مجبور تھا كہ ہر روز دو درہم مغيرہ كو ادا كرے اس نے ايك روز خليفہ كو بازار ميں ديكھا اس نے فرياد كى كہ اس كے آقانے اس سے ہرروز دو درہم وصول كرنے كا جو بار اس پر ڈالا ہے وہ اس كےلئے ناقابل برداشت ہے _ ليكن خليفہ نے بڑى بے اعتنائي سے جواب ديا كہ تجھ جيسے ہنرمند اور ماہر فن شخص كے لئے اتنى مقرر كردہ رقم كوئي زيادہ نہيں ميں نے تو يہ سنا ہے كہ تو ايسى چكى بناسكتا ہے جو ہوا كے رخ پر گردش كرتى ہے_ كيا ايسى چكى تو ميرے لئے بھى بناسكتا ہے ؟ فيروز كو چونكہ خليفہ كى بے اعتنائي سے بہت تكليف پہنچى تھى اس نے كہا كہ ميں آپ كيلئے ايسى چكى بنائوں گا جس كى مشرق و مغرب ميں كہيں مثال نہ ملے گى اور بالآخر ماہ ذى الحجہ ۲۳ ھ ميں اس نے خليفہ كو قتل كرديا_

كونسى شوري؟

عمر نے جب موت كے آثار ديكھے تو انہوں نے چھ ايسے افراد كو جن سے اس كے بقول پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں بہت خوش تھے ، بلوايا وہ يہ چھ افراد تھے:

حضرت علىعليه‌السلام _ عثمان _ طلحہ اور زبير _ عبدالرحمن بن عوف اور سعد وقاص_

۷۹

عمر نے ہر ايك كى معنوى خصوصيت بيان كرنے كے بعد كہا كہ : اگر ميرے بعد خليفہ مقرر كرنے كے سلسلے ميں تم نے اتفاق رائے سے كام ليا تو تمہيں نيز تمہارے فرزندان كو درخت خلافت كے ميوے سے فےض پہنچے گا ورنہ خلافت كى گيند كو معاويہ اچك ليگا _ اس كے بعد انہوں نے اباطلحہ كو كچھ ضرورى نصيحتيں كيں اور مزيد فرمايا اگر پانچ افراد نے اتفاق رائے كيا اور ايك نے مخالفت يا چار افراد ايك طرف ہوگئے اور دو شخص دوسرى جانب ، تو ايسى صورت ميں جو اقليت ميں ہوں ان كى گردن اڑا دينا اگر دونوں فريق برابر ہوئے تو حق اس طرف جائے گا جس طرف عبدالرحمن ہوں گے اگر تين دن گذر جائيں او ركسى بھى مرحلے پر اتفاق رائے نہ ہو تو سب كو قتل كردينا اور مسلمانوں كو ان كے حال پر چھوڑنا كہ اس كے بعد وہ جسے بھى چاہيں خليفہ مقرر كريں _(۲۵)

حضرت عمر كے انتقال كے بعد اس شورى ميں طلحہ نے اپنا حق حضرت عثمان كو دے ديا اور زبير حضرت علىعليه‌السلام كے حق ميں دستبردار اور سعد بن ابى وقاص نے اپنا ووٹ عبدالرحمن بن عوف كو دےديا ، يوں خلافت كے ليئے صرف تين اميدوار يعنى حضرت عثمان، حضرت علىعليه‌السلام اور عبدالرحمن باقى بچ گئے پھر عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب رخ كيا اور كہا كہ ميں اس شرط پر آپ كى بيعت كرتاہوں كہ آپ كتاب خدا ، سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شيخين كى روش پر عمل كريں گے اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں كتاب خدا اور سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اپنے اجتہاد كى بنياد پر عمل كروں گا_ عبدالرحمن نے يہى بات عثمان كى جانب رخ كركے كہى عثمان نے ان كى اس شرط كو فوراً قبول كرليا ،ا س كے بعد انہوں نے عثمان كے ہاتھ پر ہاتھ ركھديا اور انہےں ''اميرالمؤمنين'' ہونے كى حيثيت سے سلام كيا _(۲۶)

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كى نظر

جس وقت شورى كے اراكين كا تعين ہوا تو حضرت علىعليه‌السلام نے ابتدا ہى ميں اس كے فيصلے سے باخبر كرديا تھا اور عباس سے كہا تھا ''عدلت عنا'' يعنى ہمارے خاندان سے خلافت كا رخ موڑ ديا گيا ہے انہوں نے دريافت كيا كہ آپ نے كيسے جانا تو آپ نے فرمايا كيونكہ عثمان كو ميرے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

كپڑا اور قالين بننے كا كام

صفويوں نے قالين بننے كى صنعت كو ديہاتوں سے بڑھا كر ملكى سطح تك ترقى دى اور ملك كے اقتصاد كا اہم جزو قرار ديا_ قالين بننے كا سب سے پہلا كارخانہ تقريباً شاہ عباس كبير كے زمانہ ميں اصفہان ميں قائم ہوا(۱) صفوى دور كے قالينوں ميں سے قديم ترين نمونہ ''اردبيل'' نام كا مشہور قالين ہے كہ جو لندن كے ويكٹوريا البرٹ ميوزيم ميں موجود ہے اسے سال ۹۴۲ قمرى ميں تيار كيا گيا تھا_

شاہ عباس كے زمانہ ميں قالين تيار كرنے كے حكومتى كارخانوں كى تعداد زيادہ تھى اور آرڈر پر قيمتى قالين تيار كيے جاتے تھے_ مثلاپولينڈ كے بادشاہ سيگسمنڈ سوم نے ايران سے قالين خريد كر اپنى بيٹى كو جہيز ميں ديے _ قالين تيار ہونے كے علاوہ كپڑا بننے كى صنعت نے بھى قابل ذكر ترقى كي_ قيمتى لباس اور محلات كے خوبصورت پردوں نے سياحوں كو مبہوت كرديا تھا_ درخشاں رنگوں كى آميزش ، جدت اور اسليمى وگل دار ڈيزائينوں سے تزيين نے ايرانى ماہرين كو اس قابل بناديا كہ وہ ايسا كپڑا بنائيں جو خوبصورتى اور جدت ميں بے نظير ہو(۲)

كہا يہ جاتا ہے كہ اصفہان كے بازار ميں پچيس ہزار كاريگر كام كرتے تھے اور كپڑا بنانے كى انجمن كا صدر ملك كا ايك طاقتور ترين شخص شمار ہوتا تھا_ ريشم اور ريشم كے كپڑوں كى تجارت اس دور كى ايك اور صنعت تھى كہ جو انتہائي اہميت كى حامل تھى بقول چارڈن:شاہ عباس ريشم بنانے اور برآمد كرنے والا سب سے پہلابادشاہ تھا _ ريشم جارجيا ، خراسان، كرمان بالخصوص گيلان اور مازندران كے علاقوں سے حاصل ہوتا تھا اور سالانہ ۲۲ ہزار عدل(۳) ريشم كى پيداوار يورپ برآمد ہوتى تھى _(۴)

____________________

۱) راجر سيوري،سابقہ حوالہ ص ۳۳ _ ۱۳۲_

۲) سابقہ حوالہ ص ۶ _ ۱۲۵ _

۳) عدل: وزن كا ايك پيمانہ (مصحح)

۴) شاردن ، سياحتنامہ شاردن ، ترجمہ محمد عباسى ، تہران امير كبير ج ۴ ص ۳۷۰ _ ۳۶۹

۲۲۱

فوجى اسلحہ

چالدران كى جنگ ميں صفوى فوجى عثمانى فوج كے بارودى اسلحے اور توپخانہ كے مد مقابل زيادہ نہ ٹھہرسكے ، چونكہ اس قسم كے اسلحہ كے استعمال سے واقف نہ ہونے كى وجہ سے ايرانى فوج زيادہ طاقتور نہ تھي_

شاہ عباس كے بادشاہ بننے اور ماڈرن فوج كى تشكيل سے پہلے ايرانى فوج كا ڈھانچہ قزلباشوں كے گروہوں پر مشتمل تھا_ يہ وہ خوفناك جنگى طاقت تھى جنكا عثمانى بھى احترام كرتے تھے_ ليكن چالدران كى جنگ كے بعد فوجى ڈھانچے ميں تبديلى ناگزير تھى _ شاہ تھماسب نے جوانوں كے انتخاب سے پانچ ہزار افراد كى ايك رجمنٹ تشكيل دى كہ جنہيں ''قورچي'' كہا گيا _ اس رجمنٹ سے ايك ماڈرن فوج كى بنياد فراہم ہوئي اور شاہ عباس كبير كيلئے راستہ ہموار ہوا _(۲)

شاہ عباس كبير نے فوج كى ابتدائي بنياد (شا ہسونہا يعنى بادشاہ كے حامي) تشكيل دينے كے ساتھ ايك نئي فوج خاص نظم كے ساتھ تشكيل دى كہ جو مختلف اقوام اور اقليتوں پر مشتمل تھى _ شاہ نے اس كام كے ساتھ ساتھ شرلى برادران سے بہت قيمتى فوجى علوم بھى كسب كيے _ اور پہلى دفعہ ايرانى فوج ميں مختلف دھڑے ، پيادے ، سوار اور توپخانہ وجود ميں آئے _ اسى طرح توپ بنانے اور گولے مارنے كا فن بھى شرلى برادران سے سيكھا گيا _(۳) ليكن قابل افسوس بات يہ ہے كہ شاہ عباس نے ايرانى فوج ميں جس چيز كى بنياد ركھى اس كے جانشينوں نے اس كى طرف توجہ نہ كى جس كے نتيجہ ميں ايرانى فوج روز بروز كمزور ہوتى چلى گئي يہاں تك كہ نادر شاہ كے زمانہ ميں ايرانى فوج ميں دوبارہ قوت پيدا ہوئي_

____________________

۱) خانبابابيانى ، تاريخ نظامى ايران، جنگہاى دورہ صفويہ ص ۵۹_

۲) راجو سيوري، سابقہ حوالہ ص ۱۹۹ _

۲۲۲

صفويوں كا دفترى نظام

صفويوں كے حكومتى ڈھانچے ميں بادشاہ تمام امور كا سربراہ ہوتا تھا كہ جو ملك كو اداروں اور شعبوں كے عہديداروں اور منصب داروں كے ذريعہ چلا تا تھا ، ذيل ميں ان عہدوں اور مناصب كى طرف اشارہ كيا جاتا ہے:

ايك عہدہ ''وكيل نفس نفيس ہمايون' ' تھا كہ جو سياسى امور ميں برجستہ كردار ادا كرتا تھا يہ عہدہ سپہ سالاروں ميں سے ہوتا تھا اور ''صدر '' كے عہدہ كيلئے انتخاب ميں بہت زيادہ اثر و رسوخ ركھتا تھا_ چالدران كى جنگ كے بعد اس عہدہ كى اہميت ختم ہوگئي ،اب يہ دين اور دنياوى امور ميں نائب السلطنہ شاہ نہيں رہا تھا بلكہ دفاتر كے شعبہ كے سربراہ كى حيثيت اور صفوى حكومت كے نمائندہ كے حيثيت سے پہچانا جاتا تھا اور صفوى دور كے آخر ميں تو اس عہدہ كانام و نشان ہى نہ رہا _

دوسرا مقام ''اميرالامرائ'' كا تھا_ صفوى دور ميں قزلباش لشكروں كا سپہ سالار اس عہدہ پر فائز ہوتا تھا جو فوجى طاقت ركھنے كے ساتھ ساتھ دفترى امور پر واضح كنٹرول ركھتا تھا_(۱)

صفوى حكومت كے فوجى عہدوں ميں سے ايك عہدہ''قورچى باشي'' تھا كہ جو قبائلى رجمنٹوں كا كمانڈر ہوتا تھا _ شاہ اسماعيل اول كے بعد يہ عہدہ بہت اہميت كا حامل ہوا _ شاہ عباس كے دور ميں جارجين اور چركسوں كى وجہ سے ان فوجى مناصب نے ايك منظم اور مسلح فوج كو وجود بخشا_

شاہ كے بعد كا مقام '' وزير '' كہلاتا تھا كہ جسے''اعتماد الدولہ '' كا لقب ديا جا تا تھا _ ديوان كا سربراہ وزير اعظم ہوتا تھا كہ جسكے ماتحت بہت سے وزير ، منشى اور ديگر حكومتى عہديدار كام كرتے تھے _ ديوانى عہديداروں كا انتخاب وزير كى مہر كے بغير كوئي حيثيت نہ ركھتاتھا _''صدر'' كا عہدہ كہ جسكى ذمہ دارى نظرياتى اور مذہبى وحدت كو وجود ميں لانا تھا، صفوى حكومت كے مسلك مناصب ميں سے اہم منصب تھا_ اگر چہ ''صدر'' مسلك شيعہ

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۷۹_ ۷۰_

۲۲۳

كا سربراہ تھا ليكن سياسى نظام كى ہم آہنگى كے بغير فعاليت انجام نہيں ديتا تھا _ وہ ديوان بيگى (عمومى قوانين ميں شاہ كا مكمل اختيارات ركھنے والا نمائندہ) كے ساتھ عدالتى امور كو بھى نمٹا تا تھا _ يہ سب اعلى حكام درالحكومت ميں ہوتے تھے كہ جنكے ماتحت بہت سے عہديدار انكى ذمہ داريوں كو بجالانے ميں ان سے تعاون كيا كرتے تھے_(۱)

صفويوں كا زوال

اس شاہى سلسلہ كے زوال كے بارے ميں مختلف نظريات سامنے آئے ہيں _ صفوى جوكہ ايك شيعہ حكومت تھى تقريباً ۲۲۰ سال تك جارى رہى ، اس مدت ميں صفوى بادشاہوں نے جو بھى سياسى پاليسياں بنائيں وہ ايك طرح اس حكومت كے تدريجى زوال ميں كردار ادا كرتى ہيں _ شاہ عباس كبير كى تجربہ كار شخصيتوں اور شاہزادوں كو ختم كرنے كى سياست اور املاك ممالك كو املاك خاص ميں تبديل كركے بيشتر درآمد كے ذرائع پيدا كرنے كى سياست نے حكومتى ڈھانچے پر بہت برے اثرات ڈالے_ شاہ عباس كى فوج ميں بہت سى خوبيوں اور امتيازات كے باوجود قزلباشوں كى نسبت ديگر قبائل اور اقوام كے سپاہى صفوى حكومت اور ايران سے بہت كم عقيدت ركھتے تھے_

صفويوں كے سقوط كے ديگر اسباب ميں سے عہدوں اور مناصب پر نااہل اور نالائق افراد كا ہونا اور مريدى و مرشدى كا روحانى رابطہ ختم ہونا نيز افغانوں كا اصفہان پر ناگہان اور برق رفتارى سے حملہ تھا كہ اس طولانى مدت ميں ان تمام اسباب نے اكھٹے ہوكر ايرانى حكومت كے ايك اہم سلسلہ كو ختم كرديا_

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۹۷_

۲۲۴

عثمانى حكومت

امارت سے بادشاہت تك

عثمانى حكومت كى بنياد آٹھويں صدى ہجرى اور چودہويں صدى عيسوى كے آغاز ميں ركھى گئي _ اس حكومت كا نام عثمان غازى (حكومت ۷۲۴_۶۸۰) سے ليا گيا كہ جو اغوز تركوں كے ايك قبيلہ كا سردار تھا _ يہ ان ترك قبائل كا حصہ تھے جو سن ۴۶۳ ہجرى ذيقعدہ ميں الپ ارسلان سلجوقى كى بيزانس( مشرقى روم) كے بادشاہ رومانس چہارم پر فتح كے بعد موجودہ تركى ميں سلجوقى حكومت قائم ہونے كے ساتھ سلاجقہ روم اور بيز انس كے ما بين سرحدى علاقوں ميں سكونت پذير ہوئے(۱) منگولوں كے رومى سلاجقہ پر تسلط كے بعد جب ايلخانان (منگولوں ) كى گرفت كمزور پڑگئي تھى تو انہوں نے اسى علاقہ ميں سردارى حاصل كرلى تھي_

اگرچہ عثمانى قبائلى امراء كو اناتولى كے ديگر امراء پر كوئي برترى حاصل نہ تھى بلكہ ان كى نسبت كمزور اور حقير محسوس ہوتے تھے(۲) _ ليكن اپنى خاص جغرافيائي حدود اور ديگر عوامل بالخصوص جہاد كيلئے فوج تيار كرنا اور بحيرہ اسود كے كنارے كے ساتھ ساتھ بيز انس كى ديگر سرزمينوں كو اپنے ساتھ ملحق كرنے كى بناء پر يہ مملكت وسعت اختيار كر گئي اور روز بروز يہ اقتدار بڑھتا گيا جسكے نتيجہ ميں يہ ايك قبيلہ سے ايك وسيع حكومت اور بادشاہت تك پہنچ گئے _(۳)

عثمان غازى كى حكومت كے درميانى دور ميں عثمانى حكومت تشكيل پائي _ يہ كاميابى اہل تصوف كے شيوخ، ابدالوں اور با باؤں نيز علماء و فقہاء سے اچھے روابط كى وجہ سے حاصل ہوئي كيونكہ علماء وفقہاء كا مسلمان تركوں ميں روحانى اثر ورسوخ بہت زيادہ تھا _

____________________

۱) ادموند كليفورد ياسورٹ_ سلسلہ ہاى اسلامى ، ترجمہ فريدون بدرہ اى ص ۲۱۰_

۲) چاستا نفورد جى ، شاد، تاريخ امپراتورى عثمانى تركيہ جديد _ ترجمہ محمود رمضان زادہ ص ۳۶ _

۳) ہامر پور گشتال _ تاريخ امپراتورى عثمانى ، ترجمہ ميرزا ازكى على آبادي، تہران ج ۱ ص ۴۳ _

۲۲۵

اور اہل فتوت كى تنظيميں كہ جو انتہائي وسعت كے ساتھ تمام شہرى طبقات ميں مؤثر كردار ادا كر رہى تھيں ، انكى خدمات اور كوششوں كا نتيجہ عثمانى حكومت كى صورت ميں سامنے آيا _(۱)

عثمان غازى جو كہ اپنى مدبرانہ سياست اور عثمانى سماج كے تمام طبقات اور مختلف شعبہ جات زندگى كے لوگوں سے اچھے تعلقات اور اپنے مسلمان اور عيسائي ہمسايوں سے اچھے مراسم ركھنے كى بناء پر ترك قبائل كے رہبر كے مقام پر فائز ہوچكا تھا ،اس اپنى مملكت كو وسعت بخش كر اپنے جانشينوں كے لئے مزيد فتوحات كے اسباب فراہم كرديے تھے اور اپنى چھوٹى سى حكومت كى ايسى مضبوط بنياد ركھى تھى كہ جو حكومت كے استحكام اور وسعت كى ضمانت فراہم كرتى تھي_(۲)

اورخان غازى ( ۷۶۱_۷۲۴ق) جو كہ اپنے والد عثمان غازى كے سياسى اور فوجى معاملات ميں انكا داياں بازو تھا اس فتوحات كو جارى ركھنے كے ساتھ ساتھ حكومت كو منظم كركے اسے بادشاہت ميں تبديل كرنے كى كوشش جارى ركھي_ اس نے اہم شہر بروسہ پر قبضہ كرليا كہ جس پر فتح پانے كے حالات چند سالوں سے بن رہے تھے اور اسى شہر كو اپنا دارالحكومت قرار ديا اور عثمانى حكومت كے مستقل ہونے كے اعلان كيلئے اپنے نام سے سكہ جارى كيا اور اس كا نام خطبات ميں پڑھاجانے لگا_ يہ سال ۷۲۶ قمرى تھا(۳) اس ليے بعض مورخين اسے عثمانى حكومت كا پہلا بادشاہ شمار كرتے ہيں(۴)

اس نے اس كے بعد ايشاے كوچك اور ديگر اہم مناطق اور شہروں پر قبضہ كرتے ہوئے بيزانس (روم) كو ايشيا سے باہر دھكيل ديا(۵) _ اس سلطنت كے اندرونى كشمكش ميں بعض رقيبوں كى درخواست پر

____________________

۱) اوزون چارشيعى واسماعيل حقي، تاريخ عثمانى ،ترجمہ ايرج نوبخت تہران ج ۱ ص ۱۲۶ _ ۱۲۵_استانفورد چى ، شاو،سابقہ حوالہ ص ۴۳_

۲) استانفورد چى شاد، سابقہ حوالہ ص ۲۲۳ ، لردكين راس، قرون عثمانى ، ترجمہ پروانہ ستارى ، ص ۲۴ _

۳) مادر _ يورگشتال ، سابقہ حوالہ ص ۸۳ كے بعد سے ، اوزون چارشيلى ص ۱۴۱ _ ۱۲۹ _ ۱۴۷ كے _

۴) Sanderora ، siyasi Tarib ، Ank ، ۱۹۸۹ ، p۳۱

۵) اوزون چارشيلى ،سابقہ حوالہ ص ۱۴۷ _ ۱۴۱ _ استانفوردچى شاو، گذشتہ مدرك ص ۴۵_ ۴۴_

۲۲۶

اس كے اندرونى امور ميں دخل ديا اور كچھ مواقع سے بہترين فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں اپنى فوج كو داخل كيا _ بالكان ميں مزيد فتوحات كيلئے اپنے آپ كو تزويرى اہميت كے حامل جزيرے گيلى پولى ( Gallipoli )ميں مستحكم كيا _(۱)

بيزانسى (رومي) طاقت كے تشنہ لوگوں كے لئے اسكى اہميت اسقدر زيادہ تھى كہ اس ملك كے دوبادشاہوں نے اسكے ساتھ اپنى بيٹيوں كى شادى كيلئے ارادے كا اظہار كيا _ ايك اور بادشاہ نے مجبور ہوكر اپنى مملكت ميں اس كى فتوحات كو تسليم كرليا_(۲)

اور خان بيگ حكومت اور فوج كے معاملات كو منظم كرنے ميں بھى فعال تھا اس نے ايك منظم فوج كو تشكيل ديا تھا نيز ''ينى چري'' سپاہيوں كى ابتدائي شكل بھى اسى دور ميں وجود ميں آئي(۳) _ اسكے اپنے والد كى مانند اہل فتوت و تصوف اور علماء سے روابط بہت اچھے تھے ،اہل فتوت ميں سے اسكے كچھ وزير بھى تھے اس نے ابدالان (زاہدوں ) كے لئے خانقاہيں اور دينى علوم كى تدريس كيلئے مدارس بنائے(۴) اس كے بعد سب سے پہلے سياسى روابط جمہورى جنيوا(۵) سے ہوئے كہ جس كى كالونياں بحيرہ روم كے جزائر وسواحل ميں تھيں _ ان روابط كے نتيجہ ميں انكے درميان ايك تجارتى معاہدہ بھى وقوع پذير ہوا_(۶)

اور خان غازى كى وفات كے بعد اس كا بيٹا مراد اول (۷۹۱_ ۷۶۱ق) المعروف خداوندگار اسكا جانشين بنا_ وہ اپنے والدكے زمانہ حيات ميں ''روم ايلى ''ميں جنگ ميں مصروف تھا _ اس نے بھى اپنے والد كى مانند اسى سرزمين ميں فتوحات كا دائرہ بڑھانے كى كوشش جارى ركھي_ ادرنہ (موجودہ تركى كا ايك شہر) كى فتح

____________________

۱) Kramers ، op ، cil- p -۱۹۲-۱۹۳

۲) Gokbilgin ، Tayyib ، otnonin Ta ، vol ۹ ، P -۴۰۲-۴۰۳

۳_ احمد راسم، عثمانى تاريخى ، ج ۱ _ ص ۵۲_۵۱ استانفورد جى شاو،سابقہ حوالہ ص ۴۳ كے بعد ،اوزون چارشيلي،سابقہ حوالہ ص ۱۵۲_ ۱۵۰

۴_ شمس الدين ساى ، قاموس الاعلام، استانبول _ ص ۳۹۴۳ ،حامر ، يورگشتال ،سابقہ حوالہ ص ۱۱۱ _

۵- Genova

۶- kromers ، op c.+ p ۱۹۳

۲۲۷

كہ جو اس كے تخت نشينى كے سال انجام پائي برا عظم يورپ ميں عثمانيوں كى حكومت قائم ہونے كے اعتبار سے بہت اہميت كى حامل تھي_

يہ اور بالكان كى تاريخ بلكہ يورپ كى تاريخ ميں اہم مرحلہ شمار ہوتى ہے_(۱) اس بہت بڑے شہر جو كہ بعد ميں عثمانيوں كا درالحكومت بنا ،فتح كے بعد قسطنطنيہ كا خشكى كے راستے سے يورپ سے رابطہ كٹ گيا_(۲) اس طرح در حقيقت مشرقى روم كے دارالحكومت كے محاصرہ كا پہلا قدم اٹھايا گيا تھا_

مراد كے دور ميں بعد والى فتوحات نے جزيرہ يونان كے علاوہ تمام بالكان كو عثمانيوں كے اختيار ميں دے ديا_ كہاجاسكتا ہے كہ ان فتوحات كے ذريعہ پانچ صديوں تك چلنے والى حاكميت كے بيج بوئے گئے _ ايسى حاكميت كے جس نے اس نئے تمدن كو جنم ديا كہ جو تاريخ كے اوراق پر مختلف قومي، دينى اور لسانى عناصركى آميزش سے ظاہر ہوا_(۳) بہرحال ان فتوحات نے دنيائے غرب كو وحشت زدہ كرديا يہاں تك كہ پاپائے روم نے عثمانيوں كو روكنے كيلئے دو صليبى جنگوں كا آغاز كيا_(۴)

لارڈ كيں اس كے تجزيہ كے مطابق مراد اول فوجى اور سياسى قيادت ميں اپنے والد اور دادا سے بڑھ كر تھا اسكى كوششوں سے مغرب مشرق كى گرفت ميں آگيا جيسا كہ يونانيوں اور روميوں كے دور ميں مشرق اہل مغرب كى گرفت ميں تھا ،وہ پہلے تين عثمانى حكمرانوں كے باہمى موازنہ كے بعد اس نتيجہ پر پہنچا كہ عثمان نے اپنے گرد قوم كو جمع كيا ،اس كے بيٹے اور خان نے ايك قوم سے ايك حكومت تشكيل دى جبكہ اس كے پوتے مراد اول نے اس حكومت كو بادشاہت پہچاديا_ مراد كے بھى اپنے والد اور دادا كى مانند اہل فتوت سے بہت اچھے

____________________

۱- Inalcik ، in IA vol /p- ;sevim - yucel ، op ، cit ، vol ، p .۲۶ -۲۷

۲_ احمد راسم ،سابقہ حوالہ ص ۶۳_

۳- sander ، op. cit ، P .۳۱

۴ _ اوزون چارشيلى ، سابقہ حوالہ ، ص ۲۰۰ _ ۱۹۳ _ احمد راسم ،سابقہ حوالہ ج۱ ص ۶۷_۶۵_ ۷۹_ ۷۸_ لارڈكيں ، سابقہ حوالہ ، ص ۵۸_ ۵۷_

۲۲۸

روابط تھے يہاں تك كہ اس كے زمانے كے و قف ناموں ميں يہ عبارات موجود ہيں كہ فلان كو فلان جگہ اخى كى حيثيت سے معين كرتاہوں _(۱)

مراد كے بعد سلطان بايزيد اول (۸۰۴_ ۷۹۱ ق) نے روم ايلى ميں فتوحات كا دائرہ بڑھايا اور آناتولى كے چند امراء كو اپنا اطاعت گزار بنايا_ اور قسطنطنيہ كا تين بار محاصرہ كيا اور بيزانس كے بادشاہ كو ايسى قرار داد قبول كرنے پر مجبور كيا كہ جسكے تحت وہ شہر ميں ايك محلہ كہ جس ميں مسجد ہو مسلمانوں كے ساتھ خاص كردے اورعدالتى امور كے ليے ايك اسلامى ادارہ بھى قائم كرے(۲) اس كى فتوحات نے عثمانى مملكت كو فرات سے دانوب تك پھيلاديا تھا،ليكن آناتولى پر تيمور كى يلغار سے فتوحات كا يہ سلسلہ ختم ہوگيا_ انقرہ كى جنگ(۳) (ذى الحجہ ۸۰۴ق) ميں بايزيد كى تيمور سے شكست كھانے سے عثمانى تاريخ كا پہلا دور كہ جسے اسلامى فتوحات كا پہلا دور كہا گياہے ،ا پنے اختتام كو پہنچا_

عثمانى كاميابيوں اور انكے تسلط واقتدار كے اسباب كو دو اقسام ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے :

۱_ بيزانس اور بالكان كى حكومتوں كو كمزور اور عثمانى فتوحات كيلئے راستہ ہموار ہو نے كے اسباب:

۱) مذكورہ حكومتوں ميں اندرونى كشمكش اور ختم نہ ہونے والى باہمى جنگيں اور ملوك الطوايفى كا دور دورہ كہ جسكے نتيجہ ميں مركزى حكومت كا اقتدار كمزور پڑگيا_(۴)

۲) بالكان كے آرتھوڈوكس عيسائيوں كا لاطينى كليسائوں سے نفرت كرنا اور عثمانيوں كے خلاف پادريوں كے صليبى فوج تيار كرنے كے اقدامات كر قبول نہ كرنا_ يہ احساسات اتنے شديد تھے كہ بالكان كے بہت سے عيسائي عثمانيوں كو اپنے ليئے كيتھولك كليسا كے تسلط سے نجات دہندہ سمجھتے تھے_(۵)

____________________

۱- Neset ، Cagatar ، Makaleler velncele meler ، konra ،۱۹۸۳ ، P ۲۹۰

۲)ہامر، يورگشتال ، سابقہ حوالہ ص ۲۰۶ اوزون چارشيلى ،سابقہ حوالہ ص ۳۳۴_

۳- Yinane ، Op. Cit. P ۳۸۶ ، Sevil-Yucel ، Op. Cit P ۶۳ ،۶۸

۴) شاو، سابقہ حوالہ ص ۳۶ _ لارڈكين راس، سابقہ حوالہ ص ۵۵ _

۵) لارڈ كين رس ، سابقہ حوالہ ص ۴۴_ ۵۱_

۲۲۹

۳_ٹيكسوں كے بڑھانے كى وجہ سے ديہاتى لوگوں كا حكومتوں سے ناراض ہونا يہ ٹيكس وغيرہ اتنے زيادہ تھے كہ كبھى كبھى يہ لوگ حكومت كے خلاف بغاوت كيا كرتے تھے_(۱)

۲_ عثمانيوں كو مستحكم كرنے والے اسباب : فوجى صلاحيتوں سے مالامال ہونے كے ساتھ ساتھ اس دور ميں عثمانى حكومتوں كو اندرونى اختلافات كا سامنا نہيں كرنا پڑو_ اور مذہبى اور اقتصادى محركات كے ساتھ ساتھ فتوحات كى خاطر دائمى جنگ كے ليے آمادگى بھى اہم اسباب تھے_(۲)

عثمانيوں كو مستحكم كرنے والے بعض ديگر اسباب يہ ہيں كہ مفتوحہ سرزمين پر لچكدار سياست اور پاليسياں روا ركھنا ركھا، مفتوحہ علاقوں كے لوگوں سے مذہبى تعصب سے پاك رويہ ركھنا ، غير مسلم رعايا كو اپنى رسم و رواج كے مطابق رہنے كى اجازت دينا، آرتھوڈوكس كليسا كے ٹيكسوں كو معاف كرنے والے قانون كو برقرار ركھنا(۳) اورگردو نواح كے عيسائي امراء سے دوستانہ روابط ركھنا اور بعض اوقات ان ميں سے كچھ اسلام كى طرف راغب ہوكر مسلمان ہوجاتے تھے، اسى وجہ ان امراء كى بعد والى نسليں مثلاً ميخال اوغلواور اورنوس او غلو عثمانى مملك كے بارسوخ خاندانوں ميں ميں شمار ہونے لگے_(۴)

مفتوحہ سرزمينوں ميں رعايا كى سہولت كے پيش نظر قانون و نظم كى برقرارى ، انكى جان ومال كى حفاظت اور حكومت كا رعايا پر ٹيكسوں ميں كمى كرنا يہ وہ امور تھے جنكى بناء عيسائي رعايا عثمانيوں كو اپنے سابق حاكموں پر ترجےح ديتے تھے_(۵)

____________________

۱) استانفورڈ جى ، شاد ،سابقہ حوالہ ص ۱۰۰

۲) استانفورد جى شاد،سابقہ حوالہ ص ۴۰

۳) لارڈكين راس ، سابقہ حوالہ ص ۲۶_ ۲۴

۴) اوزون چارشيلى ، سابقہ حوالہ ص ۱۳۱ ، ۱۴۱ ، استانفورڈ جى شاو،سابقہ حوالہ ص ۸۵ _ ۸۲ _ ۵۲ لارڈكين راس، سابقہ حوالہ ص ۲۷ _ ۲۴

۵) Sender ، Op.Cit.P.۳۰

۲۳۰

تيمور كى يلغار اور بايزيد اول كے بيٹوں كے باہمى كشمكش سے خلاء پيدا ہوا ،اسكے بعد عثمانى تاريخ كا دوسرا دور شروع ہوا كہ جسے عثمانى بادشاہت كى دوبارہ تشكيل اور عثمانى حكومت كے عروج كے دور سے ياد كياجاتا ہے_ سلطان محمد اول كے زمانہ ميں دوبارہ عثمانيوں ميں يكجہتى پيدا ہونے كے بعد مراد دوم نے قسطنطيہ كو ايك مدت تك محاصرہ ميں ركھا_(۱) اور اناتولى كے بہت سے امراء كو اطاعت گزار بنايا _(۲)

سلطان محمد دوم (حكومت ۸۸۶_۸۵۵ / ۱۴۸۱_ ۱۴۵۱ عيسوي) المعروف فاتح تخت نشين ہوا، اسے عثمانى فتوحات كى تاريخ ميں اہم ترين فتح يعنى سنہ ۸۵۷ كا / ۱۴۵۲ عيسوى ميں قسطنطيہ كى فتح اور بيزانس كى بادشاہت كے خاتمہ كى توفيق حاصل ہوئي يہاں تك كہ قرون وسطى كا دور ختم ہوا اور قرون جديد كا دور شروع ہوا_ اس نے قسطنطيہ كو عظیم الشان مساجد اور مدارس كے اسلامى دارالحكومت ميں تبديل كرديا_(۳)

مغرب ميں سربيا ، بوسنيا، ہرزگوينيا اور شمال ميں جزيرہ كريمہ پر قبضہ كرليا_ ليكن شہربلغراد كو فتح كرنے سے ناكام رہا(۴) فاتح نے مشرقى روم كے دارالحكومت كو فتح كرنے اور ديگر فتوحات كے ذريعے مملكت عثمانيہ كو ايك بہت بڑى طاقتور بادشاہت ميں تبديل كيا اور خود ايك عظيم الشان بادشاہ كے روپ ميں دنيا كے سامنے جلوہ گر ہوا_(۵)

وہ تجارت كے پھلنے پھولنے كو بہت اہميت ديتا تھا_ عمومى مصالح كے پيش نظر اس نے مملكت عثمانيہ كے اٹلى سے روابط كو كنٹرول كرتے ہوئے انہيں ايك خاص نظم ميں لايا _ اٹلى كے تاجروں پر كسٹم ٹيكس كى معافى ختم كردي_ اور بعد ميں انكے تجارتى مال پر كسٹم ٹيكس دو فى صد سے پانچ فيصد بڑھاديا اور مملكت عثمانيہ كے شہرى خواہ يوناني، يہودى ، ارمنى اور مسلمانوں كو سہولت دى كہ اٹلى كے تاجروں كى جگہ يہ لوگ تجارت كريں _

____________________

۱) sevim-yucel ، Op.cit ، PP ،۶۹-۹۷

۲)احمد راسم،سابقہ حوالہ ، ص ۵۴_

۳) سابقہ حوالہ ص ۲۰۵_ ۲۰۲، ۲۱۵_ ۲۱۴_

۴) احمدراسم ، سابقہ حوالہ ص ۲۰۵ _ ۲۰۲_ ۲۱۵_۲۱۴_

۵) Kunt ، Metin ، Op.cit ، P ۷۶ ، inalcik ، intarkdunvasi...P ۴۶۴

۲۳۱

اس دور ميں بعض شہر مثلاً بروسہ جو كہ ايران اور سعودى عرب كے تجارتى قافلوں كے راستہ ميں آتا تھا ، تجارت كے مركز ميں تبديل ہوگيا بالخصوص يہ شہر ايرانى ريشم كى تجارت كے باعث ريشمى كپڑوں كى صنعت كا بہت بڑا مركز بن گيا _(۱)

سلطان محمد فاتح كا دور تہذيب وتمدن اور علوم كى ترقى اور پھلنے پھولنے كا زمانہ بھى تھا _ وہ خود بھى اعلى سطح كى تعليم حاصل كيے ہوئے تھا اور تركي، فارسي، عربى لاطينى ، يونانى اور عربى زبانوں كو جانتا تھا _(۲) استانبول كو فتح كرنے كے بعد فورى طور پر اس نے اياصوفيہ كليسا كو مسجد ميں تبديل كرنے اوراسكے نزديك ايك مدرسہ بنانے كا فرمان جارى كيا_ اور علاء الدين على قوشجى (متوفى ۸۷۹ قمري) كو وہاں كا سرپرست اور منتظم بنايا_

قوشجى ايك زمانہ ميں سمرقند كے رصدخانہ كا منتظم تھا_ الغ بيگ كے قتل كے بعد اوزدن حسن آق قونيلو كى خدمت ميں پيش ہوا چونكہ وہ مذكورہ بادشاہ اور عثمانى سلطان ميں ايك مصالحت كيلئے فاتح كے دربار ميں حاضر ہوا تھا اس ليے فاتح كى توجہ كا مركز قرار پايا اور اس نے قوشجى كے استنبول ميں اقامت پذير ہونے پر رضايت كا اظہار كيا_ قوشچى نے ثمرقند كے علمى مركز كو مملكت عثمانيہ ميں منقتل كرنے اور مملكت عثمانيہ ميں بہت سے علوم مثلاً رياضى اور نجوم كى ترقى ميں اہم كردار ادا كيا اس نے عربى زبان ميں علم ہيئت كے متعلق ايك رسالہ لكھا اور فاتح كى اوزدن حسن پر فتح كى مناسبت سے اسكانام فتحےہ ركھا_(۳)

فاتح كے حكم پر مسجد فاتح كے گرد ونواح ميں بننے والے مدارس نيز دربارسے وابستہ مدارس اور علمى مراكز علماء دين اور حكومتى عہديداروں كى تربيت كے اہم مراكز بن چكے تھے_(۴)

____________________

۱) Inalcik ، Op.cit ، P ۴۶۵ ، Inalcik ، La ، Vol ،۷ PP ۵۳۳ -۵۳۴

۲_ احمد راسم ، سابقہ حوالہ ص ۲۱۹_

۳_ ابوالقاسم قرباني، زندگى نامہ رياضى دانان دورہ اسلامي_ تہران ص ۳۶۴ _۳۶۰ _

۴) Huseyin ، Yurdaydin ، Dusunceve bilim Tavihi( ۱۳۰۰-۱۶۰۰ ) in Turkiye Tarihi ، ed sim Aksin ، Vd ۲ ، PP. ۱۸۱-۱۸۲

۲۳۲

فاتح كے بعد سلطان بايزيد دوم اور اس كے بعد سلطان سليم اول ( ۹۲۶_ ۹۱۸ق) المعروف ياووز (بے رحم) تخت نشين ہوا _ اس نے چالدران كى جنگ ميں شاہ اسماعيل صفوى پر كاميابى كے علاوہ مكمل طور پرا ناتولى پر تسلط، شام اور مصر كو فتح كرنا اور مماليك (غلاموں ) كى حكومت ختم كرتے ہوئے عثمانى مملكت كو دوگنا كرديا_ ''خادم حرمين شرفين'' كا لقب اختيار كيا اور شريف مكہ كى طرف سے اس كے نام كاخطبہ پڑھا گيا اور مصر ميں خاندان عباسى كے آخرى خليفہ ''متوكل على اللہ سوم'' سے خليفہ كا عنوان اپنے ليے اور اپنے عثمانى خاندان كيلئے منتقل كرنے كے ليے پورے عالم اسلام پر حكمرانى كے درپے ہوا(۱) _ انہى فتوحات بالخصوص بحيرہ روم كے مشرقى اور شمال مشرقى تمام سواحل كے عثمانى مملكت سے الحاق نے اس مملكت كى اقتصادى ترقى ميں اہم كردار ادا كيا _(۲)

شاہ سليم بذات خود شاعر تھا فارسى ميں اسكا ديوان آج بھى اس كى يادگار كے طور پر باقى ہے _ وہ علماء اور عرفاء كى محفل ميں بيٹھنا پسند كرتا تھا_ شيخ محى الدين ابن عربى كے ساتھ عقيدت كى بناء پر شام ميں انكى قبرپر ايك مقبرہ بنايا _(۳) اس نے اپنے زمانے كے مشہور علمى وثقافتى مراكز كى لائبريريوں سے نفيس كتابوں كو استنبول منتقل كيا اور علماء ، ہنرمندوں اور تاجروں كو بھى استنبول دعوت دي، اسطرح وہ چاہتا تھا كہ جسطرح وہ اسلامى دنيا كا طاقتورترين سلطان نظر آتا ہے _ اسى طرح اسكا دارالحكومت بھى عالم اسلام كا عظیم الشان شہر بن جائے(۴) _ اگر چہ شاہ سليم نے آٹھ سال سے زيادہ حكومت نہيں كى اسكے باوجود اتنى قليل مدت ميں روم ايلى اور آناتولى كے علاقوں كى ايك مقامى مملكت ايك عالمگير بادشاہت تك ترقى كرگئي _(۵)

____________________

۱) Serafeddinturan ، selim in La ، Vol ۱۰ p ۴۲۷-۴۳۲ sander ، opcit ، p ۳۵

۲) Derin ، op. citP ۴۸۱

۳) محمد امين رياحي، زبان و ادب فارسى در قلمرو عثمانى ،تہران ص ۱۷۸ _ ۱۶۸ الہامہ مفتاح و وہاب ولى ، نگاہى بہ روند نفوذ وگسترش زبان و ادب فارسى در تركيہ ، تہران ص ۲۰۲_۱۹۴

۴) P.۱۱۶ ، Kunt ، op دربارہ ہنرمندان و دانشمندان وشعراى راہى شدہ از ايران بہ استانبول در زمان سلطان سليم _ نصراللہ فلسفى ، جنگ چالدران _ مجلہ دانشكدہ ادبيات، س۱ ،ش ۲ ،ص ۱۱۱ _ فريدون بيك منشات السلاطين _ استانبول ج ۱ ، ص ۴۰۵ _

۵) kunt ، op ، cit ، p-۱۱۹

۲۳۳

سليم كے بعد اسكابيٹا سليمان ( ۹۷۴ _ ۹۲۶ قمرى / ۱۵۶۶_ ۱۵۲۰ عيسوي) المعروف قانوني، كبير اور باشكوہ _(۱) تخت نشين ہوا_ اس نے اپنے آباؤ اجداد كى روايت كو جارى ركھا _ اپنے اقتدار كے ابتدائي دور سے ہى مملكت عثمانيہ كو مشرق ومغرب سے برّى و بحرى مناطق ميں وسعت دينا شروع كرديا_ مثلاً اس نے سات مرتبہ ہنگرى پر حملہ كيا_(۲) جنگوں اور حملوں كا يہ دائرہ وہاں سے بڑھا يہاں تك كہ ہنگرى سے آگے بوہم (چيكو سلواكيہ) اور باداريا تك جاپہنچا_(۳) اس نے دوبارہ سن ۱۵۲۹ اور ۱۵۳۲ عيسوى ميں اس اميد پر ہيسبورگ خاندان كے مركز حكومت پر حملہ كيا جو يورپ كے وسيع حصہ پر حاكم تھے_(۴) تا كہ اس پر قبضہ كرسكے يا كم از كم آسٹرياكى فوجى حيثيت كو ايسا تباہ كردے كہ ہنگرى كے معاملات ميں دخل دينے سے باز رہے(۵) _ ليكن مختلف اسباب كى بناء پر اس شہر كو فتح نہ كرسكا(۶) _

سليمان نے كئي بارمسلسل چند سال تك صفوى سلطنت پر بھى حملہ كيا ليكن تہماسب صفوى كى افواج كى طرف سے زمين جلانے والى سياست كى بناء پر سليمان كى آذربائيجان عراق عجم اور عراق عرب پر فوجى كاميابياں زيادہ مستحكم نہ رہ سكيں _ بالآخر ۹۶۲ قمرى / ۱۵۰۵ عيسوى ميں آماسيہ معاہدہ پر دستخط كرتے ہوئے ان جنگى ثمرات كو بھى كھو بيٹھا_(۷)

ليكن عراق اس كے پہلے حملے (سال ۹۴۲ _ ۹۴۰ قمري) _( ۱۵۳۴ _۱۵۳۳عيسوي) ميں شاہ سليمان كے قبضہ ميں آگيا اس فتح كے ساتھ شاہ سليم كے زمانے سے شروع ہونے والى اسلامى خلافت كے تمام

____________________

۱- Magnificent

۲) لردكين راس ، سابقہ حوالہ ص ۲۶۱_

۳)استانفورڈجى ، شاو، سابقہ حوالہ ، ص ۱۷۱_

۴) دايرة المعارف فارسى ، ج ۱ ص ۳۲ _ ۲۵_

۵) استانفورد جى ، شاد،سابقہ حوالہ ص ۱۷۰_

۶) لرد كين راس، سابقہ حوالہ ص ۲۰۵_ ۱۹۸_

۷) رئيس نيا مقدمہ : نصوح مطراق چي، بيان منازل ، تہران ص ۵۳_ ۳۱ _ دايرة المعارف فارسى ج ۱ ص ۲۳۶_

۸- Kramers ، Op Cit ، P ۱۹۵

۲۳۴

دارالحكومتوں كو فتح كرنے كى مہم ختم ہوگئي_(۱)

مملكت عثمانيہ كى وسعت مشرق ميں خليج فارس تك پھيل گئي(۲) بلاشبہ باشكوہ سليمان كے دور ميں مملكت عثمانيہ كى سرحديں وسعت كى آخرى حدوں كو چھونے لگيں تھيں _ اسكى وفات كے زمانہ ميں يورپ ميں بن بوڈاپسٹ كى تمام سرزمين جزيرہ عرب كے آخرى كنارے بندگارہ عدن تك اور افريقا ميں مراكش سے ايشيا ميں ايران تك تمام سرزمينيں اسكى مملكت ميں شامل تھيں _(۳)

شاہ سليمان نے اپنى آدھى صدى پر محيط حكومت ميں سوائے زندگى كے آخرى چند سال كے بقيہ زندگى ايك محاذ سے دوسرے محاذ پر جنگ و حملہ ميں گذارى كيونكہ دارالحرب كى طرف مملكت كو وسعت دينا ، اسلامى عقيدہ جہاد كے ضرورى احكام ميں سے تھا_ اسى لئے جب وہ اپنى عمر كے آخرى دور ميں اندرونى مشكلات ومسائل كو حل كرنے اور بڑھاپے كى بناء پر چند سال جہاد نہ كرسكا تو شيخ نوراللہ جو كہ اس زمانہ كے فقہاء ميں سے تھے ، انہوں نے اعلان كيا كہ جو بادشاہ جہاد جيسا فرض اجرا نہيں كررہا ہے اسكا مواخذہ كرنا چاہئے _ بعض محققين اس تنقيد كو اس كے لشكر كشى كے دور كے اختتام كى وجہ سمجھتے ہيں اسى دور ميں وہ وفات پاگيا _(۴)

شاہ سليمان ايك انتھك جنگى كمانڈر ہونے كے ساتھ ساتھ عدل و نظم كے قيام كى خواہش ركھنے والا قانون دان بھى تھا_ اسكى واضح مثال اسكا ''قانون نامہ سليمان'' ہے كہ جو اس كى براہ راست نگرانى ميں شرعى احكام اور گذشتہ قوانين بالخصوص قانون نامہ محمد دوم فاتح كى رعايت كرتے ہوئے اور اس زمانہ كے تقاضوں كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے تدوين كيا گيا _ نيز اس قانون نامہ كو مترتب كرنے كى وجہ يہ تھى كہ طبقہ حاكم اور سلطان كے تابع افراد كے حقوق اور فرائض كى تشخيص كى جائے اور رعايا كے حقوق و مالى مسائل كو حل كياجائے اور حكومتى اداروں كے فرائض كى حدود معين كى جائيں وغيرہ

____________________

۱) kramers ، op.cit ، p ۳۷

۲)_ استانفورد چى ، شاوسابقہ حوالہ ص ۱۷۵_ ۱۷۴_

۳) Sander ، op cit ، P ۳۷

۴) Gokbilgin LA ،۱۱ ، P ۱۵۵

۲۳۵

مذكورہ قانون نامہ شيخ الاسلام ابوالسعود آفندى كى راہنمائي اور فتاوى كے ساتھ ساتھ ملا ابراہيم حلبى كى نگرانى ميں تدوين ہوا _ اس قانون نامہ كے وسيع پيمانہ پر اجراء ہونے كى صلاحيت كى بناء پر اسے ''ملتقى الابحر'' يعنى سمندروں كى ملاقات كى جگہ '' كانام ديا گيا _ اور يہ قانون نامہ انيسويں صدى ميں قانون ميں اصلاحات اور تراميم كے دور تك باقى رہا(۱) _ سليمان كو قانونى كا لقب بھى اسى لئے ديا گيا تھا_

شاہ سليمان كا طولانى دور حكومت ہنر و ادب كى رونق كے ادوار ميں سے ايك دور جانا جاتا ہے _ شعراء ، ہنرمند، قانون دان، فلاسفہ ، مورخےن ، دانشور حضرات ، علماء ، اہل ادب اور دربار كے مہمان ان تمام مادى وسائل سے بہرہ مند تھے جو اس نے ان كيلئے فراہم كئے تھے_(۲)

اسكے دور حكومت ميں برگزيدہ علماء كى فہرست ميں عبداللہ شيخ ابراہيم شبسترى اور ظہيرالدين اردبيلى بلاشبہ ايرانى مملكت سے تعلق ركھتے تھے_(۳)

معمارى كے آثار مثلاً سليمانيہ ، مسجد سلطان سليم اور اس كے گردو نواح كے آثار كہ جو شاہ سليمان كے حكم پر سال (۹۹۶_ ۸۹۴ قمري/۱۵۸۸_ ۱۴۸۹ عيسوي) ميں معروف معمارسنان كى نگرانى ميں دائرہ وجود ميں آئے، شاہ سليمان كے دور كے عظيم الشان شاہكار ہيں _ سنان فن معمارى ميں نابغہ روزگار تھا وہ سليمان كے بہت سے حملات ميں شريك تھا اور ۳۵۰ سے زيادہ معمارى كے فن پارے مثلاً بڑى ، چھوٹى مساجد، مدرسہ ، دالقرائ، مقبرہ ، عمارت، محل ، دارالشفاء ، كاروانسرااور حمام و غيرہ اس سے منسوب كيے جاتے ہيں(۴)

____________________

۱) استانفورد جى شاد،سابقہ حوالہ ص ۱۶۲ ، ۱۸۵_ ۱۸۴_ ۲۳۸ _ ۲۳۷ ،ورڈكين راس ،سابقہ حوالہ ص ۲۱۴_ شمس الدين سامى ،سابقہ حوالہ ص ۵۶۸_

۲) الہامہ مفتاح و وحاب لى ،سابقہ حوالہ ص ۲۰۶ _

۳) Gokbilgin ، OP.cit ، P ۱۵۲

۴) Oktay ، Aslanapa ، sinan in la ،۱۰ ، pp - Meydan. Lorousse ، vol.۱۱ ) ۱st ۱۹۸۱ ، pp ،۳۵ : Gokbilgin ، La vol.۱۱ p ،۱۴۹

۲۳۶

كہاجاتا ہے كہ شاہ سليم كے دور ميں جتنے ہنرمند لوگ اسكے حكم پر استنبول ميں آئے وہ سب شاہ سليمان كے دور ميں بھى اپنے ہنر وفن كے كرشمے دكھاتے رہے_(۱)

شاہ سليمان كا دور مملكت عثمانيہ كى عظمت كے عروج كا دور تھا ايك نظريے كے مطابق خود شاہ سليمان سياست ميں تمام عثمانى بادشاہوں ميں پہلے نمبر پر ہے(۲) _ ان سب عظمتوں كے ساتھ ساتھ، اسى شاہ كے نصف دور حكومت سے مملكت عثمانيہ كى جڑيں كھوكھلى ہونابھى شروع ہوگئيں يہ صورتحال بعد كى صديوں ميں بھى جارى رہي_(۳)

لارڈ كين راس نے اگر چہ شاہ سليمان كى شخصيت كے مختلف مثبت اور اہم پہلوؤں پر خاص توجہ اور انہيں زور دار انداز ميں بيان كياہے كہ جن كى بدولت اس نے عثمانى حكومت كو ايك خاص نظم ديكر عظمت و قدرت كى معراج پر پہنچايا ليكن وہ اس بات كو نہيں بھولا كہ انہى عظمتوں اور بلنديوں ميں زوال وپستى كے بيج بھى مخفى تھے كيونكہ اس كے بعد جو بھى سلاطين آئے ان ميں نہ كوئي فاتح تھا نہ قانون گذار اور نہ ہى فعال حاكم(۴)

۳_مغل سلاطين

دين اسلام كا ہندوستان ميں داخل ہونا اور پھر اسلامى حكومت كى تشكيل مختلف مراحل پر مشتمل ہے _ قرن اول كى ابتداء سے ہى مسلمان تجار نے مالابار اور گجرات كے ساحلوں ميں سكونت پذير ہندوستانيوں كى مقامى آبادى سے تجارتى تعلقات قائم كيے پھر اسلام كا ايك نئے اور پركشش دين كے عنوان سے ان علاقوں ميں آہستہ آہستہ تعارف ہوا_

____________________

۱) استانفورد جى شاد، سابقہ حوالہ ص ۶۱_

۲) آنستونى بريج، سابقہ حوالہ ص ۲۲_

۳) استانفورد جى شادسابقہ حوالہ ص ۲۹۱_

۴)لارڈكين راس_سابقہ حوالہ ص ۲۶۴_

۲۳۷

بعد كے ادوار ميں مسلمان غازيوں كے ان علاقوں پر حملوں سے ہندوستانيوں كى دين اسلام سے آگاہى اور دلچسپى بڑھتى چلى گئي _ مسلمان مجاہدين كے ساتھ عرفا اور صوفيوں كى بہت بڑى تعداد اسلام كى تبليغ و ترويج كيلئے اس سرزمين ميں داخل ہوئي كہ انہوں نے مسلمان مجاہدين سے مختلف انداز سے اپنے مكتب كى بہت وسيع شكل ميں اور عميق انداز ميں ہندوستانيوں ميں ترويج كى _

مسلمانوں كى زيادہ تر فتوحات ہندوستان كے شمالى علاقوں ميں انجام پائيں _ شروع ميں ترك اور افغان سلاطين ان علاقوں ميں داخل ہوئے_ بعد كے ادوار ميں مختلف مسلمان خاندان ہندوستان ميں حكومت كرتے رہے _ مثلاً دكن كے بہمن ، قطب شاہي، تغلق و آخركار مغل مسلمان خاندان ہندوستان كى بلا مقابلہ سياسى اور اقتصادى قوت كى صورت ميں سامنے آيا_ مغليہ خاندان اپنے منظم اور مرتب نظام حكومت كى بناء پورے ہندوستان كو ايك حكومت كے پرچم تلے لے آئے_ بلاشبہ ہندوستان ميں مسلمانوں كى حكومت كا عروج مغليہ خاندان كے اقتدار كے دوران تھا_

سياسى تاريخ

ہند كے مغليہ سلسلہ حكومت يا بابرى حكومت كى بنياد ظہر الدين بابر نے ركھى كہ جسكا نسب تيمور مغل تك پہنچتا تھا_ تيمور چونكہ منگول قوم سے نسبت ركھتا تھا اسى لئے بعض تاريخى ماخذات ميں مغليہ سلسلہ حكومت كو ہندوستان كے منگولوں كے عنوان سے بھى ياد كيا گيا ہے_(۱)

ظہيرالدين ابتدا ميں سمرقند كا حاكم تھا_ اس نے ۹۱۰ ہجرى قمرى ميں شہر كابل پر قبضہ كرليا اس دور ميں اسكے ہمسايوں ميں دو بڑى طاقتيں صفوى اور ازبك تھے ان كى موجودگى ميں وہ ہرگز اپنى مملكت كو مركزى ايشيا يا ايران كى طرف نہيں بڑھا سكتا تھااسى لئے اس نے اپنے حملات اور فتوحات كا مركز مشرقى علاقوں مثلاً ہند اور

____________________

۱) شيخ ابوالفضل مبارك ، اكبرنامہ، غلامرضا طباطبائي مجد كى كوشش سے تہران _ مؤسسہ مطالعات وتحقيقات فرہنگى ص ۱۳۸

۲۳۸

كابل كو قرار ديا _ بابر كى ۹۳۶ہجرى قمرى ميں وفات كے بعد اسكا فرزند ہمايوں تخت نشين ہوا ، ہمايوں اپنے طاقتور رقيبوں يعنى اپنے سوتيلے بھائي كامران ميرزا اور شيرشاہ سورى كى طرف سے دبائو ميں تھا ،بالآخر ۹۵۱ ہجرى قمرى ميں شير شاہ سورى سے شكست كھانے كے بعد اس نے شاہ طہماسب صفوى كے دربار ميں پناہ لى _ يہاں تك كہ ۹۶۲ہجرى قمرى ميں ايرانيوں كى مدد سے دوبارہ اپنا تاج و تخت واپس لے ليا _(۱)

ہمايوں كے بعد جلال الدين اكبر تخت نشين ہوا اگر چہ اس كى عمر چودہ سال سے زيادہ نہ تھى ليكن اس نے اپنے ايرانى شيعہ سرپرست بہرام خان كى تدبيروں سے اپنى حكومت كى ابتدائي مشكلات پر قابو پاليا _

اكبر نے اپنے دور حكومت ميں دارالحكومت كو دہلى سے آگرہ كى طرف منتقل كيا _ اس نے اپنے دانا وزير ابوالفضل علامى كى مدد سے اپنے ماتحت علاقوں ميں ايك خاص نظم و قانون جارى كيا_ اكبر بادشاہ كا دور حكومت مغليہ دور كا عروج شمار ہوتا ہے_(۲)

اس نے اپنے رقيبوں كى بہت سى بغاوتوں اور ہندووں كى بغاوت كا قلع قمع كرتے ہوئے اپنى حكومت كو پندرہ صوبوں ميں تقسيم كيا اور بذات خود گورنروں كے كاموں كى نگرانى كرتا تھا_

۱۰۱۴ ہجرى ميں جلال الدين اكبر نے آگرہ ميں انتقال كيا _ اسكے بعد اسكا بيٹا جہانگير تخت نشين ہوا_ جہانگير نے اپنى حكومت كے دوران سكھوں كى سب سے بڑى بغاوت كا خاتمہ كيا_ اس وجہ سے ہندوؤں ميں اسكے حوالے سے كينہ پيدا ہوا_ ہندوؤں نے جہانگير كے رقيبوں كا ساتھ ديا جسكى بناء پر بعض علاقے احمد نگر، دكن وغيرہ مغليہ مملكت سے نكل گئے_ جہانگير نے بھى زندگى كے آخرى سالوں ميں مجبورہوكر كابل ميں سكونت اختيار كي_

۱۰۳۷ قمرى ميں جہانگير كابڑا بيٹا شاہ جہاں تخت نشين ہوا چونكہ اسكى ملكہ نورجہاں ايرانى تھي، اسى ليے بہت

____________________

۱) بايزيد بيات _ تذكرہ ہمايوں واكبر، محمد ہدايت حسن كى تصحيح سے_ تہران، انتشارات اساطير ، ص ۳_

۲) شيخ ابوالفضل مبارك سابقہ حوالہ ص ۲۰۵_

۲۳۹

سے ايرانيو ں نے مغليہ دربار ميں جگہ پائي_(۱)

مغليہ سلسلہ كا آخرى قوى ترين بادشاہ اورنگ زيب تھا كہ اس نے اپنے خاص مذہبى رجحان كى بناء پر ايرانيوں سے اچھے روابط نہيں ركھے_ اسكے دور اقتدار كے بعد مغليہ حكومت روز بروز كمزور اور ضعيف ہوتى چلى گئي اور آہستہ آہستہ زوال پذير ہوگئي_

مغلوں كے صفويوں سے روابط

بابر بادشاہ نے كابل ميں حكومت كے دوران شاہ اسماعيل صفوى اور شاہ طہماسب صفوى سے محدود سے روابط شروع كيے اس نے صفويوں سے دوستى كى بناء پر ازبكوں كے مد مقابل اپنى حكومت كو محفوظ ركھا_ ہمايوں كا دور حكومت بہت اہميت كا حامل تھا_ ہمايوں كى ايران ميں اقامت اور ايرانيوں سے آشنائي كى بناء پر دونوں حكومتوں ميں قريبى روابط برقرار ہوئے اور بہت سے ايرانى مغليہ دربار ميں وابستہ ہوئے كہ ان ميں سب سے اہم ہمايوں كا وزير بہرام خان تھا_

جلال الدين اكبر صفويوں كے دوبادشاہوں شاہ طہماسب اور شاہ عباس كا ہم عصر تھا(۲) دونوں حكومتوں كے اچھے روابط ميں اہم مسئلہ قندھار تھا كہ جسے اكبر نے اپنے قبضہ ميں لے ليا تھا يہ شاہ عباس كبير كے ابتدائي دور ميں ہوا كہ جب ايران كے حالات كچھ اچھے نہ تھے_

اكبر كى مانند جہانگير اور شاہ جہاں كے بھى صفويوں كے ساتھ روابط ميں قندھار كا مسئلہ موجود رہا _مجموعى طور پر بابر كے زمانہ سے ليكر بعد تك قندھار دونوں حكومتوں كے مابين ادھر اُدھرمنتقل ہوتا رہا_ ليكن دونوں حكومتوں كے صبر وحوصلہ كى بناء پر اس مسئلہ سے خصومت نہيں بڑھى كيونكہ جب ايك حكومت قندھار پر قابض

____________________

۱) ش، ف ، دولافوز تاريخ ہند، ترجمہ محمد تقى فخرداعي، گيلانى ، تہران كميسيون معارف ص ۱۶۱_

۲) رياض الاسلام ، تاريخ روابط ايران وہند ، اميركبير ص ۲_۲۷۱ _

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348