تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175245 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

كيلئے سزا معين كى اور انہيں قتل كرديا يہ ايك سياسى حكم تھا اس وقت اس كا جارى كرنا حكومت كيلئے ان كے اسلام لانے سے بہتر تھا_

شورشوں كا دباجانا

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں اسامہ كے ہمراہ لشكر روانہ كرنے كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس خدمت كو ابوبكر نے انجام نہ ديا اس لشكر كے روانہ كئے جانے كے بعد خليفہ وقت اور ان كے ہمنوا افراد نے كوشش كى كہ جتنى بھى شورشيں اس وقت ابھرى تھيں يكے بعد ديگر ے دبادى جائيں _

طليحہ' سجاح' مسيلمہ اور اياس بن عبداللہ ان لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے يا كسى گوشے ميں پيغمبرى كا دعوا كيا يا سركشى كى ، قتل كرديئے گے يا انہوں نے فرار كى راہ اختيار كى _ جنوب اور مشرق ميں آبا د قبائل اور وہاں كے شہروں ميں آباد لوگ دوبارہ مدينہ كے مطيع و فرمانبردار ہوگئے كيونكہ انہوں نے اس بات كو سمجھ ليا تھا كہ خانہ جنگى سے كوئي فائدہ نہيں بلكہ مصلحت اس ميں ہے كہ مركزى حكومت كى اطاعت قبول كرليں _

حضرت فاطمہعليه‌السلام كى وفات

جس سال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انتقال ہوا اسى سال آپ كى اكلوتى بيٹى فاطمہ زہراعليه‌السلام نے بھى وفات پائي باپ كى موت اور مختصر مدت كے بعد جو سانحات پيش آئے انہوں نے فاطمہ زہراعليه‌السلام كے جسم و روح كو غمگين بناديا _

حضرت زہراعليه‌السلام كے دل ودماغ پر ان واقعات كا ايسا گہرا اثر ہوا كہ آپ كے فرمانے كے بموجب اگر يہ مصائب وآلام دنوں پر پڑتے تو رات كى تاريكى ميں تبديل ہوجاتے _(۲۵) ان

۶۱

صدمات كى تاب نہ لاكر صاحب فراش ہوگئيں ، وہ لوگ جو پيغمبرا كرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خاطر جان بكف رہا كرتے تھے اور ان كے پاس جو كچھ تھا وہ آپ كے والد محترمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وجود كى بركت سے ہى تھا اب ايسے پھرے كہ ان ميں سے چند ہى آپ كى عيادت كو آئے_

جناب صدوق اس ضمن ميں فرماتے ہيں : مہاجر وانصار كى كچھ خواتين آپ كى عيادت كے لئے گئيں آپ نے اس وقت كو غنيمت جانا اور اس موقعے پر جو خطبہ ارشاد فرمايا اس كے بعض اہم اقتباسات يہاں كئے جاتے ہيں :

افسوس تمہارے مردوں نے خلافت كو رسالت كى پائيگاہ، نبوت كى اقامت گاہ اور منزل وحى سے الگ كرديا اور دنيا ودين كے ماہروں سے زمام خلافت چھين ليں يقينا اس ميں انكا سراسر نقصان ہے انہيں ابوالحسنعليه‌السلام سے كيا عداوت تھي_

جى ہاں : انہےں علىعليه‌السلام كى راہ خدا ميں برہنہ شمشير، دليرى اور شجاعت كا خوف تھا_

قسم خدا كى اگر خلافت كو علىعليه‌السلام كے ہاتھ سے نہ ليا ہوتا تو ان كے امور و مسائل كو حل كرنے ميں وہعليه‌السلام خود حصہ ليتے اور انتہائي رضا و رغبت سے شادمانى وكامرانى كى جانب انہيں ہدايت كرتے، تشنگان عدل وانصاف آپ كے چشمہ داد و عدالت سے سيراب ہوتے محروم ولاچار لوگ ان كى پناہ صولت ميں دلير و شير دل ہوجاتے _(۲۶)

بنت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب تك علالت كے باعث صاحب فراش رہيں(۲۷) كسى شخص نے آپكے چہرے پر شادابى اور مسكراہٹ نہ ديكھى آپ ہفتے ميں دو مرتبہ (پير اور جمعرات) شہداء كے مزارات پر جاتيں اور ان كے لئے دعائے خير فرماتےں _(۲۸)

اور بالاخر ہجرت كے گيارہوےں سال ميں بتاريخ سوم جمادى الآخر اٹھارہ سال كى عمر ميں آپ نے اس جہان فانى سے كنارہ كرليا اور اپنے والد بزرگوار كے پاس پہنچ گئيں _(۲۹)

حضرت علىعليه‌السلام نے دختر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل ديا نيز آپ كى وصيت كے مطابق خواص كے علاوہ ديگر افراد كى غير موجودگى ميں نماز جنازہ ادا كى اور راتوں رات آپ كے جسد مطہر كو سپرد خاك كركے

۶۲

قبركے نشان كو محو كرديا اس كے بعد آنحضرتعليه‌السلام نے مزار پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب رخ كيا اور فرمايا:

يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرى اور اپنى دختر كى جانب سے جواب آپ كے جوار ميں پہنچ گئي ہيں اور بہت جلد آپ سے جاملى ہيں سلام قبول فرمايئے اور يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ كى برگزيدہ و پاك دختر كى جدائي كے باعث ميرا پيمانہ صبر لبريز ہوچكا ہے اور اب مجھ ميں غم برداشت كرنے كى تاب نہيں

آپ كے پيارى بيٹى جلد ہى آپ كو مطلع كرديں گى كہ آپ كى امت نے ان پر ستم رواركھنے كى غرض سے كيا كيا باہمى سازشيں نہ كيں ان پر جو كچھ گذرى انہى كى زبانى سنيئے اور يہ وقت كس طرح گذرا اس كى كيفيت انہى سے دريافت فرمايئے اگرچہ آپ كى رحلت و زمانہ حيات كے درميان كافى عرصہ نہيں گذرا ہے اور آپ كى ياد دلوں سے بھى محو نہيں ہوئي ہے_(۳۰)

-

۶۳

سوالات

۱ _ حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں كن لوگوں نے پناہ لى اور كيوں ؟

۲ _ واقعہ سقيفہ كے بعد حضرت عليعليه‌السلام كا كيا موقف رہا ؟ اس حساس كيفيت كى وضاحت كيجئے ؟

۳ _ حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال كى روشنى ميں كنارہ كشى كے اسباب بيان كيجئے ؟

۴ _ حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ وقت سے كس وقت مصالحت كى تھى ؟

۵ _ فدك كہاں واقع ہے يہ مسلمانوں كے ہاتھ كس طرح آيا اور رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے زمانہ حيات مےں كسے بخشا ؟

۶ _ فدك پر قابض ہونے كے محركات بيان كيجئے ؟

۷ _ ابوبكر كى حكومت كے مقابل اہل '' ردہ '' كا كيا ردعمل رہا كيا وہ سب مرتد ہو گئے تھے ؟

۸ _ مرتدين كے ساتھ جنگ كرنے ميں ابوبكر كے پيش نظر كيا محركات تھے اس بارے ميں خليفہ ثانى كا بھى نظريہ پيش كيجئے ؟

۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى وفات كس سنہ ميں واقع ہوئي رحلت كے وقت آپ كى كيا عمر تھى آپ كى تكفين و تدفين كى رسومات كس طرح ادا كى گئيں ؟

۶۴

حوالہ جات

۱ _ جن حضرات كے نام ديئے گئے ہيں ان مےں زبير ' عباس بن ابى لہب ' سلمان ' ابوذر ' مقداد عمار، براء ' ابى بن كعب'سعد بن ابى وقاص اور طلحہ شامل ہيں ليكن الفصول المہمة ميں ان افراد كے علاوہ ديگر حضرات كے نام بھى درج ہيں _

۲ _ الامامة والسيلة ج۱ / ۲۰ _

۳ _ الامامة والسيلمة ج۱ / ۱۹_

۴ _ الشيعة والى كمون / ۱۸ _

۵ _لو وجدت اربعين ذويى عذم منهم لنا هضت القوم شرح ابن ابى الحديد ج۲ / ۴۷ و ۲۲

۶ _ نہج البلاغہ (صبحى صالح)خلبہ ''فنظرت فاذا ليس معين الا اهل بيتيى فضنت بهم عن الموت _

۷ _ اس جماعت نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد اسلام كى مركزى حكومت كے خلاف بغاوت شروع كر دى اور ايك مدت اس كے حملے جارى رہے _

۸ _ نہج البلاغہ خطبہ ج'' شقوا امواج الفتن بسفن النجاة ، عرجوا عن طريق المناضرة وضعوا بتيجان المفاخرة اندمجت على مكنون علم لوبحت به لاضطربتم الاشية فى الطوى البيصره'' _

۹ _'' وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيہ فلن يضراللہ شيئا وسيجزى اللہ الشاكرين'' (محمد اس كے سوا كچھ نہيں كہ بس ايك رسول نہيں ان سے پہلے اور رسول بھى گذر چكے ہيں كيا اگر وہ مر جائيں يا قتل كر ديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤں گے ؟ ياد ركھو جو الٹا پھرے گا وہ اللہ كا كچھ نقصان نہ كرے گا البتہ جو اللہ كے شكر گزار بندے بن كر رہيں گے انھيں وہ اس كى جزادے گا)آل عمران آيہ ۱۴۴_

۱۰ _ نہج البلاغہ خط ۶۲ _

''فامسكت يديى حتى رايت راجعة الناس قد رجعت عن الاسلام يدعون الى محق دين محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فخشيت ان لم انصر الاسلام واهله ان ارى فيه ثلما اوهدما تكون المصيبة به على اعظم من فوت ولايتكم التى هيى متاع ايام قلائل يزول منها ماكان كما يزول السراب اوكما يتقشع السحاب '' _

۶۵

۱۱ _ تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو اسد الغابہ ج۳ / ۲۲۲ ' تاريخ يعقوبى ۲ / ۱۲۶ ' استيعاب ج۲ / ۲۴۴ ' التنبيہ والا شراف / ۲۵۰ اور الامامة والسيامة ج۱ / ۲۰ _

۱۲ _ نہج البلاغہ خطبہ ۳، يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مصالحت اور اجتماعا ميں شركت اسى حد تك تھى كہ جتنى اسلام و مسلمين كى حفاظت كا تقاضا تھا _

۱۳ _فدك خيبر كے نزديك مدينہ سے ۱۴۰ كلوميٹر كے فاصلے پر سرسبز و زرخيز زمين تھى فتح خيبر كے بعد رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك وفد ''فدك'' كے سرداروں كے پاس بھيجا اور بحث و گفتگو كے بعد وہاں كے رہنے والوں نے يہ عہد كيا كہ ہر سال خيبر كى جتنى پيداوار ہوگى اس كا نصف حصہ وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيج ديا كريں گے اور اس كے عوض حكومت كى جانب سے ان كى حفاظت كى جائے گي_اسلامى نظريے كے مطابق وہ زمين جو بغير جنگ كے مسلمانوں كو حاصل ہوتى ہے وہ خالص پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و امامعليه‌السلام كا حصہ ہے اس مسئلے كى رو سے ''فدك'' صرف رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حق تھا چنانچہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى شيعہ محدثين و مفسرين نيز بعض سنى مفكرين كے قول كے مطابق جس وقت آيت ذالقربى حقہ (سورہ اسراء آيت ۲۶) نازل ہوئي تو آپ نے اپنى دختر حضرت فاطمہعليه‌السلام كو بلايا اور ''فدك'' انہيں ديديا(كشف الغمہ ج ۱ / ۷۶ ۴) _

۱۴_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۳۱_

۱۵_ مروج الذہب ج ۳/ ۲۳۷_

۱۶_ فتوح البلدان ۴۴ شيعہ احاديث ميں مذكورہ بالا شواہد كے علاوہ اسماء بنت عميس كا نام بھى شاہد كى حيثيت سے آيا ہے_

۱۷_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۲۲_

۱۸_ اعيان الشيعہ (دس جلدي) ج۱/۳۱۸ منقول از سيرہ حلبي_

۱۹_ كامل ابن اثير ج ۲ / ۳۲۶ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۴۵ _

۲۰_ تاريخ طبرى ج۳/۲۰۲_

۲۱_ زيد بن ثابت كچھ رقم لے كر بنى عدى كى ايك خاتون كے پاس پہنچے اور كہا كہ يہ وہ رقم ہے جو خليفہ نے عورتوں كے درميان تقسيم كى ہے اور يہ تمہارا حصہ ہے اس نيك خاتون نے اپنى ذہانت كے باعث اس رقم كو قبول

۶۶

كرنے سے انكار كيا اور كہا كيا ميرا دين خريدنے كے لئے مجھے يہ رشوت دى جارہى ہے _ (شرح ابن ابى الحديدج۲/۵۳، طبقات ابن سعد ج ۳/۱۸۲)_

۲۲_البدايہ والنہايہ ج ۶ /۳۱۱ قال عمر ھو الاّ ان را يت اللہ قد شرح صدر ابى بكرللقتال فعرفت انہ الحق ''ليكن صحيح بخارى ج ۷/ ۱۷۱ ميں عمر كا جملہ اس طرح نقل كيا ہے فواللہ ما ہو الا ان قد شرح اللہ صدر ابى بكر فعرفت انہ الحق ''_

۲۳_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۱_

۲۴_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۲_

۲۵_ صبت على مصائب لوانہاصبت على الايام صرن لياليا

۲۶_احتجاج طبرسى ج ۱/ ۱۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج /۱۶ / ۲۳۳، بلاغات النساء /۱۹ اور دلائل الامامہ طبري/ ۳۹_

۲۷_ حضرت فاطمہعليه‌السلام كتنے عرصے تك عليل رہيں اس كے بارے ميں اختلاف ہے ابن شہر آشوب نے مناقب ميں بيان كيا ہے كہ آپ چاليس دن تك مريض رہيں اور اسى مرضى كے باعث آپ كى وفات واقع ہوئي حضرت امام باقرعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپ پندرہ تك عليل رہيں اور اس كے بعد آپ كى رحلت ہوئي_(اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹)_

۲۸_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹_

۲۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى تاريخ وفات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد آپ كى مدت عمر كے بارے ميں اختلاف ہے كتاب كے متن مےں جو بات درج كى گئي ہے وہ اقوال مشہور كے مطابق ہے مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت فاطمہ(س)رحلت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد كم از كم چاليس دن اور زيادہ سے زيادہ آٹھ ماہ اس جہان فانى ميں تشريف فرما رہيں مذكورہ بالا دونوں اقوال كے علاوہ مختلف روايات ميں دو ماہ سے پچھتر دن ' تين ماہ اور چھ ماہ عرصہ بھى نقل كيا گيا ہے _

۳۰ _ نہج البلاعہ (صبحى صالح)خ ۲۰۲ _

۶۷

چوتھا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳

سر زمين شام و عراق كى فتح

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

حضرت علىعليه‌السلام ، اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

جانشينى كا تعين

قلمر و اسلام كى وسعت

فتوحات كى خوشنجريوں كے اثرات

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى و علمى مشورے

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

بيت المال كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

خليفہ دوم كا قتل

كونسى شورى ؟

مذكورہ شورى كے بارے ميں عليعليه‌السلام كا رويہ

حضرت علىعليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ

۶۸

عثمان كى خلافت

مسلمانوں كا بيت المال

حضرت علىعليه‌السلام كے پند و نصايح

خليفہ سوم كا قتل

حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران علىعليه‌السلام كے كارنامے

سوالات

حوالہ جات

۶۹

سرزمين شام و عراق كى فتح

داخلى جنگوں كى آگ جب خاموش ہو گئي تو خليفہ وقت نے دو اہم لشكر تيار كيئے ان ميں سے ايك لشكر خالد كے زير فرمان عراق كى جانب روانہ كياجس پر اس وقت ساسانى حكومت كا اثر و غلبہ تھا اور دوسرا لشكر ابو عبيدہ كى سركردگى ميں شام كى سمت ' مشرقى روم كى جانب روانہ كيا _

خالد سب سے پہلے '' حيرہ '' كى طرف متوجہ ہوا ليكن وہاں كے حاكم نے صلح و امن كا طريقہ اختيار كيا اور نوے ہزار درہم ادا كر كے اپنے ملك كے تابع سرزمين كو مسلمين كى در ازدستى سے بچا ليا حيرہ كے بعد '' آبلہ '' '' عين التمر '' اور '' انبار '' جيسے شہر جنگ يا معاہدہ صلح كے ذريعے تابع و مطيع كئے گئے _

عراق كى جانب جب لشكر روانہ كيا گيا تھا تو وہ كاميابى سے ہمكنار ہوا مگر جو لشكر رومى شانہشاہيت كے متصرفات كو فتح كرنے كى غرض سے بھيجا گيا تھا اس كے بارے مےں احتمال تھا كہ كہيں شكست سے دو چار نہ ہو اس خدشے كے پيش نظر ابوبكر نے خالد كو عراق سے واپس بلا ليا اور مسلمانوں كى مدد كے لئے انھيں شام كى جانب جانے پر مقرر كيا خالد كے چلے جانے كے بعد قبيلہ بكر كے سردار مثنى نے لشكر عراق كے ماندارى كى ذمہ دارى قبول كى اور حيرہ سے بابل (يہ شہر موجودہ حلہ كے نزديك واقع تھا)كى جانب روانہ ہوئے خالد جب اپنا مختصر لشكر اسلام لے كر '' يرموك '' پہنچے تو لشكر اسلام كو اس سے بہت فرحت حاصل ہوئي اور بے مثال بہادرى و دليرى سے جنگ كر

۷۰

كے انہوں نے سپاہ روم كو شكست دى چنانچہ انھوں نے پسپا ہو كر دمشق ميں پناہ لى _

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

ابوبكر اگرچہ مسند خلافت پر متمكن ہو گئے ليكن مہاجر و انصار كى نظروں ميں ان كا شمار افضل و اعلى دانشور صحابہ رسول ميں نہيں ہوتا تھا مثلا تفسير قرآن مجيد كے وہ قابل اعتناء توجہ مطالب بيان نہےں كر سكتے تھے چنانچہ جلال الدين سيوطى جيسا تتبع مفسردس سے زيادہ تفسير و مطالب تفسير ان سے نقل نہےں كر سكا ہے جبكہ وہى مفسر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں لكھتا ہے كہ علم تفسير ميں آپ كى بہت سے روايات بيان كى گئي ہيں _(۵)

حنبلى مسلك كے پيشوا مام احمد بن حنبل كو دس لاكھ احاديث ياد تھيں ''(۶) مسند'' ميں انہوں نے پچاس ہزار سات سو احاديث نقل كى ہيں او جو احاديث انہوں نے ابوبكر كے واسطے سے نقل كى ہيں ان كى تعداد اسى (۸۰) سے كم ہى ہے(۷)

ابن كثير نے بہت زيادہ تلاش و جستجو كے بعد ابوبكر سے منقول بہتر (۷۲) احاديث جمع كى ہےں اور انھيں ''مجموعہ مسند صديق '' كا نام ديا ہے جلال الدين سيوطى كى علم تفسير و احاديث پر كافى دسترس تھى اس نے مجموعہ ابن كثير كا سند كے اعتبار سے جايزہ ليا ہے اور ان كى تعداد كو اس نے ايك سو چار تك پہنچا ديا ہے(۸)

حضرت علىعليه‌السلام ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

اوپر جو بيان كيا گيا ہے اس كے پيش نظر ابوبكر كے لئے علمى ہى نہيں بلكہ سياسى مشكلات ميں بھى اس كے سوا چارہ نہ تھا كہ ضرورت كے وقت حضرت علىعليه‌السلام سے رجوع كريں اور آپ سے مدد چاہيں اور يہ بات اس امر كى واضح دليل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كتاب خدا ،حديث رسولعليه‌السلام اور اسلام

۷۱

كے سياسى مصالح كے بارے ميں سب سے زيادہ باخبر ، ذى ہوش شخص تھے مثال كے طور پر ہم يہاں دو واقعے بيان كر رہے ہيں _

اہل روم سے جنگ كرنے كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خود فرمان تھا اسے نافذ كرنے مےں ابوبكر كو تردد تھا اس سلسلے ميں انہوں نے بعض صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشورہ بھى كيا چنانچہ ہر شخص نے اس سے متعلق اپنى رائے كا اظہار كيا بالاخر انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے مشورہ كيا اور رائے جاننا چاہى آپ نے پيغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كو نافذ كئے جانے كى ترغيب دلائي اور مزيد فرمايا '' ان فعلت ظفرت '' يعنى اگر آپ يہ اقدام كريں گے تو كامياب ہوں گے خليفہ نے بھى آپ كے كہنے پر عمل كيا _(۹)

۲ _ ايك شخص نے شراب پى ركھى تھى نشہ كى حالت ميں اسے خليفہ كے روبرو لايا گيا اس شخص نے كہا مجھے علم نہ تھا كہ شراب پينا حرام قرار ديا گيا ہے كيونكہ اب تك ميں نے اس ماحول ميں پرورش پائي ہے جہاں شراب كو حلال سمجھا جاتا ہے خليفہ كى سمجھ ميں نہيں آيا كہ كيا كريں چنانچہ انہوں نے ايك شخص كو حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں روانہ كيا اور كہا كہ اس مشكل كو حل فرمائيں _(۱۰)

جانشينى كا تعين

عمر نے ابوبكر كو خليفہ بنانے كے لئے بہت زيادہ سعى وكوشش كى جس كا مقصد يہ تھا كہ خليفہ اول كے بعد خلافت ان كو ملے ، ابوبكر نے بھى ان كى مرضى كے خلاف كوئي اقدام نہ كيا_ جس وقت بستر علالت پر وہ تھے تو انہوں نے عثمان كو بلايا اور كہا لكھو:

يہ عہد نامہ ابوبكر جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مسلمانوں كے لئے ہے بات يہيں تك پہنچى كہ ابوبكر پر غشى طارى ہوگئي عثمان كو يہ گمان گذرا كہ شايد خليفہ گذر گئے ہيں چنانچہ انہوں نے اس عہدنامے كى اس طرح تكميل كي_ ابوبكر نے اپنے بعد عمر بن خطاب كو اپنا جانشين مقرر كيا ہے _ اسى اثناء ميں ابوبكر كو ہوش آگيا اور جب انہيں يہ معلوم ہوا كہ عثمان نے كيا لكھا ہے تو انہوں نے كہا ''تم نے

۷۲

ٹھيك لكھا ہے اس معاملے ميں ميرى اور تمہارى ايك ہى رائے ہے_ (۱۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے نہج البلاغہ ميں ابوبكر كے اس اقدام پر سخت تنقيد كى ہے _ چنانچہ فرماتے ہيں ''عجيب بات ہے كہ وہ شخص جو زندگى ميں لوگوں سے كہا كرتا تھا كہ وہ ميرا عذر قبول كريں اور (علىعليه‌السلام كے ہوتے ہوئے) اس كو خلافت سے معذور ركھيں خود مرتے وقت خلافت (كى دلہن) كا پلا دوسرے سے باندھ گيا _(۱۲)

قلمرواسلام كى وسعت

عمر كے دور خلافت ميں مسلمانوں كو بہت سى فتوحات نصيب ہوئيں اور ايران و روم جيسى دو عظےم شہانشاہى حكومتوں كے دروازے ان پر كھل گئے_

عراق ميں مسلمانوں نے جس تيزى سے پيشرفت كى اس كے باعث انہيں يہ اميد نظر آنے لگى كہ ساسانى حكومت كے اصل سرزمين پر بھى وہ حملہ كرسكيں گے چنانچہ عمر نے ابوعبيدہ كو ايران كى فتح كے لئے فرماندار مقرر كيا اور مثنى چونكہ عراق ميں مقيم تھے انہيں حكم ديا كہ وہ اپنے لشكر كے ساتھ ابوعبيدہ كى اطاعت و پيروى كريں _

ايران كے بادشاہ ''يزدگرد سوم'' نے اپنے سرداروں كو كثير طاقت جمع كرنے كے بعد حكم ديا كہ وہ مسلمانوں كى پيشرفت كو روكيں اگرچہ اس كے سردار ہر چند لايق و جنگجو تھے مگر وہ سب ايك دوسرے كے بعد يا تو قتل ہوئے يا انہوں نے لشكر اسلام سے صلح كرلي_ ايرانى سرداروں ميں بہمن جادويہ ہى ايسا سردار تھا جو مطيع و فرمانبردار نہ ہوا چونكہ اس كى فوج ہاتھيوں كے لشكر سے آراستہ تھى جنہيں ديكھ كر عربوں كے گھوڑے بھڑك گئے چنانچہ ''جسر'' ميں ابوعبيدہ شہيد ہوئے اورباقى لشكر نے پسپا ہوكر فرات كے پار جاكر پناہ لي_

ليكن ايك سال بعد(۱۴ ھ) ميں سپاہ اسلام نے مثنى كے زير فرمان ''بويب(۱۲) '' ميں سپاہ ايران پر فتح پائي اور اس سے جنگ جسر كى شكست كى تلافى ہوگئي_

۷۳

اس كے بعد قادسيہ وقوع پذير ہوئي اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو ايرانى اور اسلامى افواج كے سپہ سالاروں (سعد وقاص اور رستم فرح زاد) كے درميان ايلچيوں كے ذريعے گفت وشنيد ہوتى رہى _ ايلچيوں كى اس ملاقات ميں سپاہ اسلام كے سپہ سلار نے بھى مطالبہ كيا كہ دو چيزوں ميں سے ايك چيز قبول كى جائے، اسلام يا جزيے كى ادائيگى _ ليكن رستم فرح زاد جو بڑا خود سر سردار تھا يہى كہتا رہا كہ جس وقت تك ہم تمہيں قتل نہ كرديں گے دم نہ ليں گے_

بالآخر چار دن كى جنگ كى بعد مسلمان فتح و كامرانى سے ہمكنار ہوئے اور اس طرح محرم سنہ ۱۴ ھ ميں ايران كے دروازے لشكر اسلام پر كھل گئے اور نور ايمان وتوحيد نے اس سرزمين كو اپنى آمد سے منور كيا_

دوسرى طرف شہنشاہ روم كى فوج نے يرموك ميں اپنى شكست كے بعد دمشق ميں پناہ لى اور اپنى اس شكست كے تلافى كرنے كى غرض سے اس نے عظےم فوجى طاقت جمع كى ليكن يہ لشكر بھى شكست سے دوچار ہوا اور مسلمانوں نے دمشق و اردن جيسے شہروں پر فتح پائي_ سنہ ۱۷ ميں مسلمانوں نے فلسطين كو بھى جو فوجى اور تاريخى لحاظ سے اہم شہر تھا ، تسخير كيا_ ۱۹ ھ ميں عمر وعاص نے بحر احمر كو عبور كركے مصر كى جانب رخ كيا_''بابليوں '' ميں باز نطينى سپاہ سے مقابلہ ہوا اس ميں بھى لشكر اسلام كو كاميابى نصيب ہوئي _ وہاں سے وہ عين الشمس اور روم كى جانب روانہ ہوا تاكہ شہنشاہ روم كى رضايت حاصل كركے اسكندريہ پہنچ جائے _ چنانچہ چند ماہ كے محاصرے كے بعد اسكندريہ كو بھى فتح كرليا اور اس طرح شمالى افريقہ كے لئے راستہ ہموار ہوگيا_

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات

مغايرت و مخالفت سے قطع نظر جو محركات خلفاء كے زمانے ميں ان فتوحات كے ذريعے مسلمانوں كو ہوئے اگر ان كا موازنہ ان جنگوں اور فتوحات سے كياجائے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ظہور پذير ہوئيں تو اس نكتے كو ملحوظ خاطر ركھنا ضرورى ہے ، ان فتوحات سے يہ ثابت نہيں ہوتا

۷۴

كہ ان كے باعث دربار خلافت كى شان وشوكت ميں اضافہ ہوا ، اس ميں شك نہيں كہ ايك طاقتور و فاتح فوج كو اعلى مقاصد ، حوصلہ مندانہ آمادگى ، فن حرب وضرب سے واقفيت اور فوجى تربيت جيسے عوامل و اوصاف كا مجموعہ ہوناچاہئے مگر اس كا چندان ربط و تعلق موجودہ سپہ سالاروں سے نہيں تھا _ مسلمانوں كى فتح وكامرانى ميں جو عوامل كار فرما تھے اور انہيں دو عظيم شہنشاہى حكومتوں سے قوت آزما ہونے كيلئے ترغيب دلاتے تھے، وہ پيغمبرا كرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ خوش خبرى تھى كہ مسلمان ايران اور وم جيسى سرزمينوں كو فتح كريں گے ان كے علاوہ بھى ديگر ايسے عوامل تھے جن سے مسلمانوں كى ميدان جنگ ميں حوصلہ افزائي ہوتى تھى مگر انكا تعلق كسى طرح بھى حكومت وقت سے نہ تھا بلكہ ان ميں وہ شہرت ونيك نامى كے عناصر كار فرماتھے جو رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شير خدا علىعليه‌السلام جيسے پيشوايان اسلام نے اپنے كردار كے ذريعے قائم كئے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے

حضرت علىعليه‌السلام خليفہ اول كى طرح خليفہ دوم كے بھى اہم مشكل كشا تھے اور ان كى بھى سياسى و علمى مشكلات كو حل فرماتے تھے يہاں ہم بطور مثال دو واقعات پيش كررہے ہيں _

جنگ قادسيہ ميں سپاہ ايران كى شكست كے بعد ايران كے بادشاہ يزدجرد نے فيروزان كے كمانڈرى ميں عظيم لشكر مرتب كيا تاكہ وہ آيندہ عربوں كے حملات كا سد باب كرسكے ، كوفہ كے حاكم نے خط كے ذريعے تمام واقعات كى اطلاع خليفہ كو دى ، عمر مسجد ميں آئے اور اصحاب سے مشورہ كيا كہ وہ مدينہ ميں ہى رہيں يا اس علاقے ميں پہنچ كر جو بصرہ وكوفہ كے درميان واقع ہے ، سپاہ اسلام كى كمان سنبھاليں _ عثمان اور طلحہ نے دوسرے نظريے كى تائيد كى اور اس ضمن ميں مزيد كہا كہ آپ سرداران سپاہ شام ويمن كو لكھيں كہ وہ آپ سے ملحق ہوں _ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے دونوں ہى نظريات كى مخالفت كى اور فرمايا كہ وہ شہر جو حال ہى ميں مسلمانوں كے تصرف ميں آئے ہيں انہيں فوج سے خالى نہيں رہنا چاہيئےيونكہ ايسى صورت ميں ممكن ہے كہ حبشہ كى فوج يمن پر اور روم كا لشكر

۷۵

شام پر قبضہ كرلے _ عمر كى پہلى تجويز كے بارے ميں بھى آپ نے مشورہ ديا اور فرمايا كہ اگر آپ مدينہ سے باہر چلے جائيں گے تو ممكن ہے كہ اطراف كے اعراب اس موقع كا فائدہ اٹھائيں اور يہاں كوئي فتنہ بپا كريں اس كے علاوہ اگر آپ محاذ جنگ پر پہنچيں گے تو دشمن جرى ہوجائے گا كيونكہ جب عجمى سپاہى آپ كو ديكھيں گے تو كہيں گے كہ عربوں كى جڑ بنياد يہى شخص ہے گر اس كو كاٹ ڈاليں تو سارا جھگڑا ہى پاك ہوجائے گا_

حضرت علىعليه‌السلام كى بات سننے كے بعد عمر نے روانگى كے خيال كو ترك كرديا اور كہا كہ قابل عمل رائے علىعليه‌السلام كى ہے مجھے انہى كى پيروى كرنى چاہيئے_(۱۳)

ايك شخص خليفہ كے پاس آيا اور شكايت كى كہ ميرى بيوى كے يہاں شادى كے چھ ماہ بعد ولادت ہوئي ہے عورت نے بھى اس بات كو قبول كيا اس پر خليفہ نے حكم ديا كہ اسے سنگسار كياجائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حد جارى كرنے سے منع كيا اور فرمايا كہ قرآن كى روسے عورت چھ ماہ پورے ہوجانے پر وضع حمل كرسكتى ہے كيونكہ مدت حمل اور شيرخوار تيس ماہ معين ہے_(۱۴)

اور دوسرى آيت ميں دودھ پلانے كى مدت دوسال بتائي گئي ہے _(۱۵) اور اگر تيس ماہ ميں سے دو سال كم كرديئے جائيں تو مدت حمل چھ ماہ رہ جاتى ہے _ حضرت علىعليه‌السلام كى منطقانہ گفتگو سننے كے بعد عمر نے كہا''لو لا على عليه‌السلام لهلك عمر'' _''اگر علىعليه‌السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاك ہوجاتا''_(۱۶)

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

ابوبكر و عمر كے زمانہ خلافت ميں بنى ہاشم اور حضرت علىعليه‌السلام كے ہوا خواہوں كو عملى طور پر حكومت كے اہم عہدوں سے دور ركھا گيا اور يہ كوشش كى گئي كہ اس زمانے كہ دل ودماغ سے اہل بيتعليه‌السلام كى اعلى اقتدار كو محو كردياجائے_

اس كے مقابل اموى گروہ بتدريج معاشرے كى رہبرى ميں اثر رسوخ پيدا كرتا رہا _ اس

۷۶

نظريے كے بہت سے تاريخى شواہد موجود ہيں جن ميں سے چند كا ذكر ذيل ميں كياجاتا ہے_

۱_ ابوبكر نے اس زمانے كى وسيع وعريض مملكت ميں سے چھوٹا سا حصہ بھى بنى ہاشم ميں سے كسى كو نہيں ديا كہ جبكہ شام كو سياسى اہميت حاصل ہونے كے باوجود ابوسفيان كے بيٹے يزيد كے اختيار ميں ديديا تھا _(۱۷)

۲_ عمر ''حميص'' كى حكومت حضرت ابن عباس كو دينے سے منصرف ہوگئے جبكہ معاويہ كو شام پر مسلط كرنے كے سلسلہ ميں كسى قسم كا دريغ نہيں كيا _

۳_ محض چند لوگوں كى اس شكايت پر كہ عمار ياسر ايك ضعيف انسان ہيں خليفہ دوم نے كوفہ كى گورنرى سے انہيں معزول كيا اور مغيرہ كو گورنر مقرر كيا چند روز بعد مغيرہ كى بھى شكايت پہنچى ليكن اس كا ذرہ برابر اثر نہ ہوا_(۱۸)

خليفہ اول و دوم اگرچہ ابوسفيان سے بہت زيادہ خوش نہ تھے اور اسى وجہ سے انہوں نے اموى خاندان كے افراد كو حد سے زيادہ سياسى امور ميں داخل ہونے نہيں ديا مگر اس كا ميدان انہوں نے عثمان كے زمانہ خلافت ميں ہموار كرديا تھا _ مثلاً عمر جانتے تھے كہ شورى جس كى انہوں نے تشكيل كى ہے اس كانتيجہ يہ برآمد ہوگا كہ عثمان كو خليفہ منتخب كرلياجائے گا چنانچہ اس نے خود بھى يہ بات كہہ دى تھى كہ اگر عثمان حاكم ہوئے تو وہ بنى اميہ كو لوگوں پر مسلط كرديں گے_(۱۹)

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

جيسا كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تاريخ حيات ميں بيان كياجاچكا ہے كہ آپ نے اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں چاہا تھا كہ امت كے لئے ايك نوشتہ لكھ ديں تاكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد وہ گمراہ نہ ہو مگر عمر نے منع كيا اور كہا كہ ہمارى لئے قرآن كافى ہے_

اس خيال كى پيروى كرتے ہوئے انہوں نے اپنے زمانہ خلافت ميں حكم ديا كہ احاديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قلم بند نہ كياجائے اور اگر انہيں كوئي حديث لكھى ہوئي مل جاتى تو اسے ضبط كركے جلوا ديتے_

۷۷

انہوں نے تمام شہروں ميں يہ منادى كرادى كہ اگر كسى كے پاس كوئي حديث ہے تو وہ اسے نيست ونابود كردے _(۲۰) چنانچہ قاسم بن محمد بن ابى بكر سے منقول ہے كہ عمر كے زمانے ميں احاديث بہت زيادہ جمع ہوگئيں جب ان كے پاس لائي گئيں تو حكم ديا كہ انہيں جلاديا جائے_(۲۱)

ابوبكر نے بھى اپنے زمانہ خلافت ميں پانچ سو احاديث جمع كيں _ عائشہ فرماتى ہيں : مجھ سے كہا كہ احاديث ميرے پاس لاؤ جب انہيں لايا گيا تو ان سب ميں آگ لگادى گئي _(۲۲) چنانچہ يہ روش عمر بن عبدالعزيز كے دور خلافت تك جار رہى _

اس رويے كو اختيار كرنے كى وجہ وہ يہ بتاتے تھے كہ اگر عوام كى توجہ احاديث كى جانب رہے تو وہ قرآن سے دور ہوجائيں گے درحاليكہ قرآن كا يہ ارشاد ہے كہ ''پيغمبر جو كچھ تمہارے لئے لائے ہيں ، اسے قبول كرلو اور جس چيز سے منع كيا ہے اس سے باز رہو ''_(۲۳) رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كا امكان پيدا ہونے كے لئے ضرورى ہے كہ وہ احاديث جن ميں بالخصوص اوامر و نواہى كے بارے ميں آپ نے فرمايا محفوظ رہنى چاہئے ورنہ كس طرح رسول كى اطاعت ہوسكے گى ؟

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عہد ميں سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ مقرر نہ تھى بلكہ اخراجات زندگى مال غنيمت كے ذريعے مہيا كئے جاتے تھے _ اس كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ زندگي' عربوں كى نسلى فضيلت يا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ قرابت دارى كو ملحوظ نہيں ركھا جاتا تھا_

خليفہ اول كے زمانے ميں بھى يہى طريقہ رائج رہا ليكن خليفہ دوم كے زمانے ميں اس طريقہ كار كو بدل ديا گيا انہوں نے سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ كے لئے عليحدہ رجسٹر بنايا اور اس كى تقسيم كے لئے نسل ونسبت كو معيار قرار ديا ان كے درميان عرب كو عجم پر ، قحطان كے عرب كو عدنان كے عرب پر ، مضر كو ربعيہ پر ، قريش كو غير قريش پر اور بنى ہاشم كو بنى اميہ پر برترى و

۷۸

فضيلت تھى اور انہيں بيشتر مراعات حاصل تھيں _(۲۴)

كچھ عرصہ گذرا تھا كہ ذخيرہ اندوزوں اور دنيا پرستوں نے اس طريقہ كار كى بدولت جس طرح بھى ممكن ہوسكتا تھا مال جمع كرنا شروع كرديا وہ غلاموں اور كنيزوں كو خريد ليتے اور انہيں مختلف كاموں پر زبردستى لگاديتے تاكہ ان كے لئے زندگى كى سہولتيں فراہم كرنے كے علاوہ ہر روز نقدرقم بھى اپنے آقائوں كو لاكر ديں _

خليفہ دوم كا قتل

فيرو زايرانى ابولو لو مغيرہ كا غلام تھا_ اپنى زندگى كے اخراجات پوركرنے كے علاوہ وہ مجبور تھا كہ ہر روز دو درہم مغيرہ كو ادا كرے اس نے ايك روز خليفہ كو بازار ميں ديكھا اس نے فرياد كى كہ اس كے آقانے اس سے ہرروز دو درہم وصول كرنے كا جو بار اس پر ڈالا ہے وہ اس كےلئے ناقابل برداشت ہے _ ليكن خليفہ نے بڑى بے اعتنائي سے جواب ديا كہ تجھ جيسے ہنرمند اور ماہر فن شخص كے لئے اتنى مقرر كردہ رقم كوئي زيادہ نہيں ميں نے تو يہ سنا ہے كہ تو ايسى چكى بناسكتا ہے جو ہوا كے رخ پر گردش كرتى ہے_ كيا ايسى چكى تو ميرے لئے بھى بناسكتا ہے ؟ فيروز كو چونكہ خليفہ كى بے اعتنائي سے بہت تكليف پہنچى تھى اس نے كہا كہ ميں آپ كيلئے ايسى چكى بنائوں گا جس كى مشرق و مغرب ميں كہيں مثال نہ ملے گى اور بالآخر ماہ ذى الحجہ ۲۳ ھ ميں اس نے خليفہ كو قتل كرديا_

كونسى شوري؟

عمر نے جب موت كے آثار ديكھے تو انہوں نے چھ ايسے افراد كو جن سے اس كے بقول پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں بہت خوش تھے ، بلوايا وہ يہ چھ افراد تھے:

حضرت علىعليه‌السلام _ عثمان _ طلحہ اور زبير _ عبدالرحمن بن عوف اور سعد وقاص_

۷۹

عمر نے ہر ايك كى معنوى خصوصيت بيان كرنے كے بعد كہا كہ : اگر ميرے بعد خليفہ مقرر كرنے كے سلسلے ميں تم نے اتفاق رائے سے كام ليا تو تمہيں نيز تمہارے فرزندان كو درخت خلافت كے ميوے سے فےض پہنچے گا ورنہ خلافت كى گيند كو معاويہ اچك ليگا _ اس كے بعد انہوں نے اباطلحہ كو كچھ ضرورى نصيحتيں كيں اور مزيد فرمايا اگر پانچ افراد نے اتفاق رائے كيا اور ايك نے مخالفت يا چار افراد ايك طرف ہوگئے اور دو شخص دوسرى جانب ، تو ايسى صورت ميں جو اقليت ميں ہوں ان كى گردن اڑا دينا اگر دونوں فريق برابر ہوئے تو حق اس طرف جائے گا جس طرف عبدالرحمن ہوں گے اگر تين دن گذر جائيں او ركسى بھى مرحلے پر اتفاق رائے نہ ہو تو سب كو قتل كردينا اور مسلمانوں كو ان كے حال پر چھوڑنا كہ اس كے بعد وہ جسے بھى چاہيں خليفہ مقرر كريں _(۲۵)

حضرت عمر كے انتقال كے بعد اس شورى ميں طلحہ نے اپنا حق حضرت عثمان كو دے ديا اور زبير حضرت علىعليه‌السلام كے حق ميں دستبردار اور سعد بن ابى وقاص نے اپنا ووٹ عبدالرحمن بن عوف كو دےديا ، يوں خلافت كے ليئے صرف تين اميدوار يعنى حضرت عثمان، حضرت علىعليه‌السلام اور عبدالرحمن باقى بچ گئے پھر عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب رخ كيا اور كہا كہ ميں اس شرط پر آپ كى بيعت كرتاہوں كہ آپ كتاب خدا ، سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شيخين كى روش پر عمل كريں گے اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں كتاب خدا اور سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اپنے اجتہاد كى بنياد پر عمل كروں گا_ عبدالرحمن نے يہى بات عثمان كى جانب رخ كركے كہى عثمان نے ان كى اس شرط كو فوراً قبول كرليا ،ا س كے بعد انہوں نے عثمان كے ہاتھ پر ہاتھ ركھديا اور انہےں ''اميرالمؤمنين'' ہونے كى حيثيت سے سلام كيا _(۲۶)

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كى نظر

جس وقت شورى كے اراكين كا تعين ہوا تو حضرت علىعليه‌السلام نے ابتدا ہى ميں اس كے فيصلے سے باخبر كرديا تھا اور عباس سے كہا تھا ''عدلت عنا'' يعنى ہمارے خاندان سے خلافت كا رخ موڑ ديا گيا ہے انہوں نے دريافت كيا كہ آپ نے كيسے جانا تو آپ نے فرمايا كيونكہ عثمان كو ميرے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

پوری شیعہ تاریخ میں علماء حقہ نے جن زحمات و تکالیف کو برداشت کیا ،ان کی زحمات لوگوں کو بتائیں اور ان کے احترام کی کوشش کریں،ان کی بدگوئی اور استخفاف سے گریز کریں۔

امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' من اَفسَدَ بالعلَماء اَفسَدَدینَه''( 1 )

علماء کی اہانت کرنے والا اپنے دین کو فاسد کرتا ہے۔

یہ فرامین ان علماء کے بارے میں صادر ہوئے ہیں کہ جنہوں نے دین خدا کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کی۔ایسے علماء کی اہانت ،دین اور خدا کے دستورات کی اہانت ہے۔ کیونکہ ایسے علماء علم ودانش کو کسب کرنے کی جستجو و کوشش اور اسے معاشرے میں فروغ دینے کی وجہ سے خدا کی بارگاہ اوراہلبیت عصمت و طہارت علیہم  السلام  کے مقربین میں سے ہیں۔

اس بناء پر جو ان کی اہانت کرے،حقیقت میں  وہ دین کی اہانت کرتا ہے،اور جو خدا کے دستورات کی اہانت کرے وہ اپنے دین کو تباہ کرتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج23ص378

۲۰۱

نتیجۂ بحث

علم و دانش کے حصول کیلئے شوق اور ارادہ بہت اہم کردار کے حامل ہیں۔لہٰذا اپنے اندر ان دونوں صفات کو ایجاد کریںاور انہیں تقویت دیں۔اس علم کو حاصل کرنے کی کوشش کہ جس کا سرچشمہ مکتب وحی ہو،اور اپنے وجود کو ان کے تابناک انوار سے منوّر کریں۔

ان علوم کو حاصل کرنے سے آپ کے نفس میںعظیم تحولات جنم لیںگے۔کیونکہ علم و دانش شعور پر اثرانداز ہوتے ہیں اور آپ کے افکار کو بلند مقام پر پہنچاتے ہیں۔

ان روحانی تحولات کا نتیجہ جاویدانی حیات اور اغیار سے پوشیدہ اسرار تک رسائی ہے۔اس صورت میں آپ کو بلند درجات کا وسیلہ فراہم ہوجائے گا۔

آپ ان عالی اور علمی مقامات کو کسب کرنے سے معاشرے اور امت کی ہدایت اور راہنمائی کریں اور انہیں ضلالت اور گمراہی نجات دے کر مکتب اہل بیت سے آشنا کروائیں۔

چو علمت ہست خدمت کن کہ زشت آید بردانا

گرفتہ چینیان احرام و مکّی خفتہ در بطحا

تمہارے پاس علم ہے تو خدمت کرو کیونکہ عالم کے لئے زشت ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے علم سے مستفید نہ کرے ہماری غفلت کا یہ حال ہے کہ اہل چین نے احرام بہی باندہ لیا اور ہم مدینہ میں بیٹہے سو  رہے ہیں۔

۲۰۲

بارہواں باب

توفیق

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' لَا ینفَع اجتهاد بغیر تَوفیق ''

توفیق کے بغیر کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

    انسان کی ترقی میں توفیق کا کردار

    سعادت کے چار بنیادی ارکان

    توفیق نیکیوں کی طرف ہدایت کا ذریعہ

    کامیاب اشخاص

    توفیق حاصل کرنے کے ذرائع

   1 ۔ کسب توفیق کے لئے دعا کرنا

    ایک اہم نکتہ

   2 ۔ ماں باپ کی دعا توفیق کا سبب

   3 ۔ توفیق کے حصول کے لئے جستجو اور کوشش کرنا

   4 ۔ خدا کی نعمتوں میں تفکر، توفیق الٰہی کا سبب

    نتیجۂ بحث

۲۰۳

انسان کی ترقی میں توفیق کا کردار

نیک کام انجام دینے کے لئیانسان کو خداوند متعال کی جانب سے توفیق اور عنایت کی ضرورت ہوتی ہے،جب تک توفیق الٰہی شامل حال نہ ہو تب تک وہ کسی بہی خدا پسندانہ کام کو انجام دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔لہٰذا اپنے اہداف تک پہنچنے اور اپنے امور زندگی میں کامیابی کے لئے خداوندعالم سے دعا کرنا ضروری  ہے کہ اے پروردگار ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم اہم اور عالی اہداف و مقاصد تک پہنچ سکیں اور ان کا حصول ہمارے لئے آسان فرما۔

حضرت جوادالائمہ امام محمد تقی (ع) فرماتے ہیں:

''اَلمؤمن يَحتاج الٰی تَوفیقٍ من اللّه وَ وَاعظٍ من نفسه وَ قَبول ممَّن يَنصَحَه''(1) مومن تین چیزوں کا محتاج ہے:

1 ۔ خدا کی طرف سے حاصل ہونے والی توفیق۔

2 ۔ اپنے نفس کے ذریعہ خود کو وعظ کرنے والا ہو۔

3 ۔ جو اسے نصیحت کرے اس کی نصیحت قبول کرے۔

اس فرمان کی رو سے توفیق الٰہی ہر مومن شخص کی ضرورتوں میں سے ہے تاکہ اس کی مدد سے وہ اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہنائے،زیارت سے مشرف ہوتے وقت جس دعا کو پڑہنا مستحب ہے،اس دعا میں کہتے ہیں:

''اَلَّلهمَّ صل  نیَّتی باالتَوفیق ''(2) پروردگارا  میرے ارادہ کو  تو فیق  کے سات ھ متصل فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ تحف العقول مرحوم حرّانی:457

[2]۔ بحارالانوار:ج 102 ص162

۲۰۴

کیونکہ جس خدا پسندانہ اور نیک کام کی نیت و ارادہ میں توفیق الٰہی شامل نہ ہو ،وہ کام کبہی بہی مؤثر نہیں ہوتا۔

لہٰذا انسان کی نیت و ارادہ ،توفیق الٰہی کے ہمراہ ہونی چاہئے تاکہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ سکے ۔ لیکن اگر نیت کے ساتہ توفیق الٰہی شامل نہ ہو تو اس کام کا کوئی عملی اثر نہیں ہوگا،اگرچہ انسا ن وعدہ دیئے گئے ثواب سے بہرہ مند ہوجائے گا۔

اس بناء پر خدا کی توفیق ہر مؤمن کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔کیونکہ کسی نیک کام کو انجام دینے کی قدرت اور نیت ،اس کام کے وقوع پذیر ہونے کی علت تامّہ نہیںہے۔

کار خیر کو انجام دینے کے لئے نیت اور توانائی کے علاوہ توفیق الٰہی کی بہی ضرورت ہوتی ہے،اگر خدا کی توفیق آپ کے شامل حال نہ ہو تو نیک کام انجام دینے کا امکان ہی نہیں ہے۔

خدا وند متعال قرآن میں حضرت شعیب کے قول کو یوں بیان فرماتا ہے ،جو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا تہا:

'' ان اریدَ الّا الاصلَاح مَا اَستَطَعت وَ مَا تَوفیقی الَّا باللّٰه ''( 1 )

میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں، جہاں تک میرے امکان میں ہو،میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی نیک کام کو انجام دینے کے لئے فقط استطاعت اور قدرت کافی نہیں ہے بلکہ خدا کی توفیق بہی مورد نیاز ہے۔

پروردگا ر کی توفیق اور لطف انسان کی قوت اور قدرت کی تکمیل کرتی ہے ورنہ صرف انسان کی توانائی مشکلات کو حل کرنے سے قاصر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ ہود آیت:88

۲۰۵

اس بیان کی رو سے نہ صرف عام افراد بلکہ اولیاء خدا اور بزرگان دین بہی اسی صورت میں نیک کاموں کو انجام دینے میں کامیاب ہوسکتے  ہیں کہ جب خدا کی جانب سے توفیق شامل حال ہو۔

اس نکتہ کی جانب توجہ نہ صرف لازم اور ضروری ہے، بلکہ اس کے بہت اہم اثرات بہی ہیں۔

اس نکتہ پر اعتقاد اور توجہ کہ تمام افراد کے لئے خداپسندانہ امور کو انجام دینے میںتوفیق الٰہی کا حاصل ہونا نہ صرف لازم اور ضروری ہے بلکہ اس کے بہت مہم اثرات بہی ہیں اور وہ یہ کہ اس سے انسان میں غرور اور تکبر پیدا نہیں ہوتا۔اولیائ خدا اور بزرگان دین اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ ان کے تمام نیک کاموں میں خدا کی توفیق شامل ہے، لہٰذا ان میں غرور اور تکبر پیدا نہیں ہوتا۔

وہ اس دنیا میں  خود کو کچہ بہی نہیں سمجہتے،اس اعتقاد سے ان کے اخلاص میں اضافہ ہوتا ہے۔جو انہیں خود پسندی اور انانیّت سے باز رکہتا ہے۔

صبر بردرد، نہ از ہمت مردانہ ماست

درد  از او، صبر از او، ہمت مردانہ از اوست

دگری را بہ جز او،راہ بہ ویرانہ دل

نتوان داد،کہ این گوشہ ویرانہ از او  ست

شمع و پروانہ از او سوختن آموختہ اند

شعلہ شمع از او ،سوزش پروانہ از اوست

مصیبتوں پہ صبر ہماری مردانگی کی علامت نہیں ہے ، صبر درد اور ہمت مردانہ اسی کی عطا ہے لہذا اپنے دل میں اس کے علاوہ کسی اور کو نہ بٹہائوکیونکہ یہ دل اسی کا گہر ہے، شمع اور پروانے نے جلنا اسی سے سیکہا شمع کا شعلہ اور پروانے کا جلنا بہی اسی سے ہی ہے۔

۲۰۶

سعادت کے چار بنیادی ارکان

نیت ، قدرت، توفیق، منزل تک پہنچنا۔

توفیق کے مطابق عمل کرنے والا انسان سعادتمند ہوتاہے ،یعنی جو نیت و ارادہ اور قدرت و توفیق کے علاوہ توفیق الٰہی کو عملی صورت میں لائے اور شیطان کے فریب و وسوسہ سے توفیق کو نہ کہودے۔ بہت سے لوگ کامیابی کی تمام شرائط کے با وجود منفی و شیطانی افکار کی وجہ سے کام کو انجام دینے سے گریز کرتے ہیں اور یوں توفیق کہودیتے ہیں۔امام صادق(ع) فرماتے ہیں:

'' مَا کلّ مَن نَویٰ شَیئا قَدَرَ عَلَیه وَ لَا کلّ مَن قَدَرَ عَلیٰ شئی وفّقَ لَه وَلَا کلّ مَن وفّقَ لشَئی اَصَابَ لَه فَاذااجتَمَعَت النّيةوَالقدرَة وَالتَّوفیق وَالاصَابَةفَهنَالک تَمَّت السَّعَادَة''(1)

ایسا نہیں ہے کہ جو شخص کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کر ے وہ اسے انجام دینے کی قدرت بہی رکہتا ہو اور جو قدرت بہی رکہتا ہو وہ اسے انجام دینے کی توفیق بہی رکہتا ہو،نیز ایسا بہی نہیں ہے کہ جو کسی کام انجام دینے کی توفیق بہی رکہتا ہو وہ اس تک پہنچ جائے ، پس جب نیت، قدرت، توفیق اور مقصد تک پہنچنا ایک ساتہ جمع ہوجائیں تو انسان کی سعادت مکمل ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:۵ ص۲۱۰

۲۰۷

توفیق نیکیوں کی طرف ہدایت کا ذریعہ

روایت سے لائے گئے نکتہ سے استفادہ کرتے ہیں کہ توفیق کے مسئلہ میں اجباری طور پر اجراء کی قدرت کا وجود نہیں ہے،کیونکہ سعادت تک پہنچنے کے لئے توفیق کے علاوہ مقصد تک پہنچنے کی بہی ضرورت ہے۔توفیق،ایک ایسی قوت ہے کہ جو انسان کی خوبیوں اور پسندیدہ امور کی طرف ہدایت کرتی ہے۔حقیقت میں توفیق نیک کاموں کو انجام دینے کے لئے راہنمائی کرتی ہے۔اس مسئلہ میں جبر کا کوئی عمل دخل نہیں ہے کیونکہ کامیاب فرد اسے انجام دینے کے لئے مجبور نہیں ہے البتہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قوت سے استفادہ کرے اور اسے ضائع نہ کرے۔اس بناء پر توفیق نیک اعمال کے لئے فقط راہنمائی کرتی ہے۔اس میں کسی قسم کا اجبار اور اکراہ موجود نہیں ہوتا۔اسی وجہ سے حضرت امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں:''  لَا قَائدَ خَیر من التَّوفیق'' (1) توفیق سے بہتر کوئی راہنماموجود نہیں ہے۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) توفیق کو بہترین راہنما کے عنوان سے متعارف کرواتے ہیں ۔ کیونکہ جس طرح ہم نے کہا کہ اعطائ توفیق میں کوئی اجباری قدرت پوشیدہ نہیں ہوتی، لہٰذا کبہی خدا ہمیں توفیق عنایت کرتا ہے لیکن ہم اسے ضائع کرتے ہیں۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) نے جو تعبیر فرمائی ہے وہ ان افراد کے لئے جواب ہے کہ جو نیک اور پسندیدہ کاموں کو انجام دینے سے گریز کرتے ہیں۔اگر ان سے اس بارے میں پوچہا جائے اور ان پر اعتراض کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ خدا وند تعالی نے ہمیں توفیق عطا نہیں کی ۔اس بیان کی رو سے واضح ہوجاتا ہے کہ بہت سے موارد میں توفیق الٰہی ہماری مدد کرتی ہے۔لیکن ہم اسے ضائع کر دیتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے اس بناء پر حتمی کامیابی اور ہدف تک رسائی کی شرائط میں سے ایک شرط توفیق الٰہی کے مطابق عمل کرنا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج9ص41

۲۰۸

کامیاب اشخاص

مرحوم سید محمد باقر قزوینی بزرگ شخصیت کے مالک تہے ۔ وہ عظیم و بیکران توفیق سے بہرہ مند تہے۔یہ مرحوم بزرگ علماء شیعہ میں سے اور خلق خدا کے گزار تہے ،یہ سید بحرالعلوم کے بہانجے تہے۔

ان کے بہتیجے مرحوم سید مہدی قزوینی (جو خود بہی بزرگ علماء میں سے تہے) نقل کرتے ہیں کہ عراق میں طاعون کی وباء پہیلنے سے دو سال پہلے اس بزرگ نے اس کے آنے کی خبر دی تہی اور اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں میں سے ہر ایک کو دعا لکہ کر دی اور فرمایا حضرت امیرالمؤمنین(ع) نے خواب میں مجہ سے فرمایا ہے'' وَ بکَ ختم یا وَلَدی'' طاعون کی بیماری تم پر ختم ہوجائے گی۔اس سال انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی ایسی خدمت کہ جس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔انہوں نے شہر اور شہر سے باہر ہر میت کی نماز پڑہی،وہ ہر بیس ،تیس یا اس سے کم یا زیادہ افراد پر ایک نماز پڑہتے۔طاعون کے مرض سے اتنی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں کہ ایک دن ہزار افرادکے لئے  ایک نماز بجا لائی گئی۔وہ  1246 ہ کو عرفہ کی رات نمازمغرب کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔وہ طاعون کے مرض سے ہلاک ہونے والے آخری  شخص تہے۔

ایک بار وہ دسیوں علماء و صلحاء کے ہمراہ کشتی میں سوار تہے،طوفان کی وجہ سے وہ سب غرق ہونے کے قریب تہے ،لیکن اس بزرگوار نے اپنی غیر معمولی معنوی قوّت سے طوفان کو ٹال دیا اور کشتی کو غرق ہونے سے بچالیا۔ان کے بہتیجے کا کہنا ہے کہ علماء و صالحین کے ایک گروہ کے ساتہ کشتی میں سوار ہوکر کربلا سے آرہے تہے کہ اچانک بہت تیز ہوا چلنے لگی کہ جس سے کشتی کے الٹنے کا خطرہ لاحق ہوا،ہمارے ساتہ ایک شخص بہت خوفزدہ اور مضطرب ہوگیا اور اس کی حالت متغیر ہوگئی،وہ کبہی روتا تہا اور کبہی حضرت امیرالمؤمنین سے متوسّل ہوتا،لیکن اس دوران مرحوم سید اپنی عادی حالت میں بیٹہے رہے،

۲۰۹

جب وہ شخص خوف کے مارے بہت زیادہ رونے لگا تو اس سے فرمایا:تم کس چیز سے ڈر رہے ہو؟ہوا،آندہی،اور رعد و برق یہ تمام خدا کے امر کے مطیع ہیں،پہر انہوں نے اپنی عباء کو اکٹہا کیا اور ہوا کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:آرام کرو اسی وقت طوفان تہم گیا اور کشتی بہی طوفان سے بچ گئی۔

یہ بزرگوار اس توفیق کی وجہ سے ایسے عظیم علوم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ عام حالات اور شرائط میں جن کا حصول ممکن نہیں ہے۔

اس مرحوم کی شخصیت اور غیر معمولی عظمت کو بیان کرنے والے اس واقعہ کو مرحوم محدّث نوری یوں بیان کرتے ہیں۔امام زمان نے اس بزرگوار کو بشارت دی تہی کہ مستقبل میں تمہاری روزی علم توحید ہوگا۔مرحوم فرماتے ہیں کہ اس بشارت کے بعد ایک رات خواب میں دیکہا کہ دو فرشتے آسمان سے نازل ہوئے ،ان میں سے ایک کے ہاتہ میں کچہ لوح تہے جن پر کچہ لکہا تہا اور دوسرے کے ہاتہ میں ایک میزان تہا، ان فرشتوں کے دونوں لوح ترازو کے دونوں پلڑوں میں رکہے اور انہیں تولنے لگے ،پہر انہوں نے وہ لوح مجہے دیئے اور میں نے ان پر لکہی ہوئی تحریر کو پڑہا ،پہر انہوں نے تمام لوح میرے سامنے رکہے اور میں نے انہیں پڑہا ،ان میں سے بعض لوح پر اصحاب پیغمبر (ص) اور اصحاب ائمہ اطہار (سلمان،ابوذر،سے نوّاب اربعہ تک)کے علوم و عقائد لکہے تہے اور بعض دیگر پر علماء شیعہ جیسے کلینی،صدوق،تا بحرالعلوم اور ان کے متاخرین علماء کے علوم و عقائد درج تہے،وہ دونوں فرشتے پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ اطہار علیہم  السلام  کے اصحاب اور بزرگ شیعہ علماء کے علوم و عقائد کو ترازو میں رکہ کر تول رہے تہے۔اس خواب کی وجہ سے میں علوم کے بہت سے اسرار سے آگاہ ہوا کی اگرمجہے نوح کی عمر بہی مل جاتی اور میں جستجو کرتا تو اس کا ایک فیصد بہی حاصل نہ ہوتا۔

۲۱۰

توفیق حاصل کرنے کے ذرائع

1۔ کسب توفیق کے لئے دعا کرنا

خدا وند متعال سے توفیق کی درخواست و دعا کریں تاکہ بزرگان دین کو حاصل ہونے والی توفیقات الٰہی سے ہم بہی بہرہ مند ہوسکیں ،اکثر دعائوں میں خدا وند بزرگ و برتر سے توفیق کا سوال کرتے ہیں۔

1 ۔ نماز جعفر طیار کے بعد دعا میں پڑہتے ہیں :

''اللّٰهمَّ انّی اَساَلکَ تَو فیقَ اَهل الهدیٰ وَ اَعمَالَ اَهل التَّقویٰ''(1)

پروردگار ا میں تجہ سے اہل ہدایت کی توفیق اور اہل تقویٰ کے اعمال و رفتار کا سوال کرتا ہوں۔

یہ جملہ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ فقط توفیق کا حاصل ہوجانا نیک کام کو انجام دینے کی دلیل نہیں ہے ،اسی وجہ سے اس دعا میں اہل ہدایت کی توفیق طلب کرنے کے علاوہ خدا سے پرہیزگاروں کے اعمال و رفتار کا بہی سوال کرتے ہیں۔

2 ۔آیت قرآن''صرَاطَ الَّذینَ اَنعَمتَ عَلَیہم'' کی تفسیر میں امام حسن عسکری  (ع) سے نقل ہوا ہے کہ امام نے فرمایا:

''قولوا اهدنَا الصّراطَ الَّذینَ اَنعَمتَ عَلَیهم باالتَّوفیق لدینک وَ طَا عَتکَ''(2)

کہو کہ ہمیں ان کے راستے کی طرف ہدایت فرما جن پر تو نے اپنے دین کو قبول کرنے اور تیری اطاعت کرنے کی توفیق کے ذریعہ نعمتیں نازل کی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:۹۱ص۱۹۸

[2]۔ معانی الاخبار: 15 ، بحارالانوار: 1024، تفسیر الامام العسکری:17

۲۱۱

اس بناء پر خدا کی اطاعت و فرمانبرداری اور دینداری کی توفیق ،خدا کی طرف سے بندوں کو عنایت ہونے والا لطف ہے۔ہم سب کو خدا سے دعا کرنی چاہیئے کہ پروردگار دنیا کے اس پر خطر سفر میں توفیق الٰہی کو ہمارا مونس و ہمسفر قرار دے تاکہ ہمارا سفر خیریت سے اختتام پذیر ہو۔

3 ۔ماہ مبارک رمضان کی تیرہویں دن کی دعا میں آیا ہے:

''اَلَّلهمَّ وَفّقنی فیه عَلی التّقیٰ وَ صحبَةالاَبرَار''( 1 )

پروردگارا! اس دن میں مجہے تقویٰ کی اور نیک و متقی افراد کی صحبت کی توفیق عطا فرما۔

4 ۔ماہ رمضان کی بائیسویں شب کی دعا میں وارد ہوا ہے :

''وَارزقنی فیها التَّوفیقَ لماوَفَّقتَ له شیعَةَ آل محمَّد ''( 2 )

پروردگارا! آج کی رات میں مجہے وہ توفیق عنایت فرما کہ جس سے تو نے پیروان  آل محمد کو کامیاب فرمایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج۹۸ص۳۷

[2]۔ بحارالانوار:ج۹۸ص۵۳

۲۱۲

ایک اہم نکتہ

اگرچہ ممکن ہے کہ سائل مقربین آل محمد اور شیعوں کی توفیقات کو بہت بڑی حاجت سمجہے اور اپنے آپ کو اس عظیم نعمت کے سامنے پست اور  نا اہل سمجہے ، لیکن چونکہ وہ خدا بزرگ و برتر کے حضور میں ہے اور خالق کائنات کی بارگاہ میں سوال کررہا ہے،لہٰذا وہ بہترین اور پر ثمر ترین حاجات طلب کرے ۔ کیونکہ خدا کے حضور اور خدا کی بارگاہ میں خدا کی عظمت و بزرگی کو مدّ نظر رکہیں نہ کہ فقط اپنی پستی و ذلت کو ملاحظہ کریں۔

بعض لوگ معتقد ہیں کہ انسان خدا وند متعال سے اپنی حد اور اوقات سے زیادہ طلب نہ کرے ، لہٰذا اپنی حیثیت و صلاحیت اور حدود کو مد نظر رکھ کر اپنے ہدف تک پہنچنے کی دعا کریں۔اگر فرض کریں کہ   یہ عقیدہ صحیح بھی ہو تو یہ کلیّت نہیں رکھتا۔کیونکہ بعض مقامات پر اور بعض اوقات  انسان خدا کے نزدیک اس قدر عظیم و عالی مقام رکھتا ہے کہ انسان خدا سے ہر قسم کی عظیم حاجت طلب کرسکتا ہے۔حضرت امیرالمؤمنین (ع)  کی زیارت  وداع میں پڑھتے ہیں:''اَلَّلهمَّ وَفّقنا لکلّ مَقامٍ مَحمودٍوَ اَقلبنی من هذا الحَرَم بکلّ خَیرٍ مَوجودٍ'' (1)

پروردگارا، مجہے ہر قسم کے مقام محمود کے حصول کی توفیق عطا فرما اور مجہے اس حرم سے ہر موجود خیر کے ساتہ لوٹا۔

خدا کے نزدیک حضرت امیرالمؤمنین  کے حرم مطہر کی شرافت و محبوبیت کی وجہ سے زائر کو اجازت ہے کہ وہ خدا سے ہر قسم کی توفیق اور مقام محمود کو طلب کرسکتا ہے۔

اسی بناء پر اگرچہ سائل بعض مقامات کو طلب کرنے کی لیاقت و صلاحیت نہ رکہتا ہو لیکن زمان ومکان کی عظمت کی وجہ سے ایسی بزرگ حاجات کو طلب کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج۱۰۰ص۳۸۲

۲۱۳

2۔ ماں باپ کی دعا  توفیق کا سبب

ماں باپ کی دعا توفیق کو ایجاد کرنے میں مؤثر کردار کی حامل ہے،بعض بزرگان اپنی تمام تر توفیقات کو اپنے والدین کی دعائوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں،مرحوم مجلسی جو کہ کثرت تالیفات اور اہلبیت کی خدمت کے لحاظ سے شیعہ علماء میں کم نظیر بلکہ بے نظیر ہیں،وہ اپنی عظیم توفیقات کو اپنے والد بزرگوار کی دعائوں کے مرہون منت سمجہتے ہیں۔

مرحوم مجلسی اول فرماتے ہیں کہ ایک رات نماز شب سے فارغ ہونے کے بعد مجہ  پرایک ایسی حالت  طاری ہوئی کہ جس سے میں یہ سمجہا کہ اگر دعا کروں تو ضرور مستجاب ہوگی،میں ابہی اسی سوچ   میں مبتلا تہا کہ آخر خدا سے کس چیز کی دعا کروں؟اچانک جہولے سے سے محمد باقر کے رونے کی آواز بلند ہوئی،میں نے کہا :پروردگار بحق محمد و آل محمدعلیہم السلام اس بچے کو شریعت محمد(ص) اور دین کا خادم اور مروّج قرار دے اور اسے بے انتہا توفیقات سے بہرہ مند فرما۔صاحب مراةالاحوال کہتے ہیں علامہ مجلسی سے ظاہر ہونے والے غیر معمولی امور مسلما ًاسی دعا کے آثار ہیں(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ فوائد الرضویہ محدث قمی:411

۲۱۴

3۔ توفیق کے حصول کے لئے جستجو اور کوشش کرنا

جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ توفیق حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک خدا سے دعا کرنا ہے ۔ دل سے دعا کے لئے ہاتہ اٹہائیںاور پروردگار بزرگ و مہربان سے نیک مقاصد کے حصول کی دعا کریں،دعا کے بعد ان مقاصد کو حاصل کرنے کی سعی و کوشش بہی کریں ورنہ آپ کی دعا استہزاء اور تمسخر شمار ہوگی۔

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں:

''مَن سَاَله التَّوفیق وَ لَم یَجتَهد فَقَد استَهزَئَ بنَفسه ''(1)

جو خدا سے توفیق کا سوال کرے لیکن اس کے لئے کوشش نہ رے وہ اپنے ساتہ مذاق کرتا ہے۔

کیونکہ توفیق کی دعا کے علاوہ ایک اور بنیاد بہی ہے کی جسے سعی و کوشش کہتے ہیں ،اس بناء پر عالی مقاصد اور خدا پسندانہ اہداف کو حاصل کرنے کیلئے توفیق کی دعا کے علاوہ کوشش اور جستجو بہی کریں، جب آپ دعا کے بعد کوشش بہی کریں گے تو خدا کی توفیق آپ کے لئے شامل حال ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج۷۸ص۳۵6

۲۱۵

4۔ خدا کی نعمتوں میں تفکر، توفیق الٰہی کا سبب

پروردگار کی بے شمار نعمتوں کے بارے میں تفکر کرنا توفیق حاصل کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔خدا کی مخلوقات میں تفکر سے آپ خدا کی توفیقات کو جلب کرسکتے ہیں۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں:''مَن تَفَکَّر فی آلائ اللّه وفّقَ '' (1) جو خدا کی نعمتوں میں تفکر کرے ،وہ کامیاب ہوگیا۔

کیونکہ انسان اس ذریعہ سے اپنے دل میں خدا کی محبت پیدا کرتا ہے۔جب دل میں خدا کی محبت پیدا ہوجائے تو وہ خدا کی طرف جذب ہوجاتا ہے  اور خدا کی طرف مجذوب ہونے کے ثمرات میں سے ایک ہے۔اسی وجہ سے امیرالمؤمنین(ع) اپنے دوسرے فرمان میں ارشاد فرماتے ہیں:''التَّوفیق من جَذَبات الرَّب '' (2) توفیق خداوند تعالیٰ کے جذبات میں سے ہے۔

مذکورہ بیان کے رو سے انسان خدا کی بے شمار نعمتوں میں تفکر کے ذریعہ توفیقات کو اپنی طرف جذب کرکے درگاہ الہٰی کے مقربین سے مخصوص جذبہ ربّانی سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔البتہ اس امر کی جانب متوجہ رہیں کہ اہلبیت اطہار کا وجود مبارک نہ صرف خدا کی مہم ترین نعمت ہے ۔بلکہ ہم پرنازل ہونے والی ہر نعمت ان ہی مقدس ہستیوں کے طفیل ہے،یہ بزرگ ہستیاں وجہ تخلیق کائنات ہیں،اسی بناء پر اہلبیت عصمت و طہارت بالخصوص اس خاندان کی آخری کڑی حضرت امام زمان کے فضائل و مناقب میں تفکر و تامّل کے ذریعہ اپنی توفیقات میں اضافہ کریں۔اس صورت میں جذبہ رحمانی شامل حال ہوگا، اس صراط مستقیم پر عمل پیرا رہنے اور ان ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے سے آپ بلند مقام حاصل کرسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ شرح غرر الحکم:ج۵ ص۳۰۸

[2]۔ شرح غرر الحکم:ج۱ص۱۴۴

۲۱۶

نتیجۂ بحث

عظیم مقاصد اور عالی معنوی اہدا ف تک پہنچنے کے لئے ارادہ و تصمیم کے علاوہ توفیق کی قوت سے بہی بہرہ مند ہوں،توفیق راہنما کی حیثیت رکہتی ہے اسی وجہ سے اگرچہ یہ کامیابی کی علت تامہ نہیں ہے لیکن اس کے متحقق ہونے سے مؤثر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

آپ کی ذمہ داری ہے کہ توفیق کے حصول کے لئے دعا کریں اور پہر توفیقحاصل ہونے پر اکتفاء نہ کریں بلکہ کوشش کریں کہ یہ حاصل ہونے والی توفیق ضائع نہ ہوجائے۔

خدا کی نعمتوں اور بالخصوص وجود اہلبیت اطہارعلیہم  السلام کی عظیم نعمت کے فضائل ومناقب میں تفکر کرنا ، توفیق کے مہم ترین عوامل میں سے ہے ،اپنی توفیقات میں اضافہ کے لئے حضرت بقیةاللہ (ارواحنا فداہ) کی عظمت پر تفکر کریں اور امام عصر کی غیبی امداد کو اپنے ذہن میں پروان چڑہائیں اس سے آپ کی توفیقات میں اضافہ ہوگا ،ضعف، سستی و کاہلی اور گناہوں کے ارتکاب سے فراہم ہونے والی توفیقات کو ضائع نہ ہونے دیں۔

راہ  جستن  ز تو ہدایت از او        جہد کردن زتو عنایت ا ز او

جہد بر  تو  است  و  بر خدا  توفیق     زآن کہ  توفیق  و جہد ہست رفیق

یعنی تم کسی راہ کا انتخاب کرو اور وہ تمہاری ہدایت کرے گا۔تم کوشش کرو ،خدا عنایت کرے گا۔ جدوجہد کرنا تمہاری ذمہ داری ہے  جب تم کوشش کرو گے تو خدا تمہیں توفیق عطا فرمائے گا۔کیونکہ توفیق اور کوشش ہمیشہ سے دوست ہیں۔

۲۱۷

تیرہواں باب

یقین

حضرت امیر المو منین علی علیہ  السلام  فرماتے ہیں :'' باالیَقین تد رَک غَایَة القصویٰ ' 'یقین کے ذریعہ مقصد کی انتہا حاصل ہوتی ہے ۔    یقین کی اہمیت    یقین کے آثار

   1 ۔ یقین دل کو محکم کرتا ہے

    مجلس مباہلہ میں حاضری

    ۲۔ یقین اعمال کی اہمیت میں اضافہ کا ذریعہ

   3 ۔ یقین آپ کے باطن کی اصلاح کرتا ہے

    یقین کو متزلزل کرنے والے امور

   1 ۔ شک و شبہ

   2 ۔ گناہ

    یقین کہودینا

    تحصیل یقین کے ذرائع

   1 ۔ کسب معارف

   2 ۔ دعا اور خدا سے راز و نیاز

   3 ۔ تہذیب و اصلاح نفس

    نتیجۂ بحث

۲۱۸

یقین کی اہمیت

یقین با عظمت عالم غیب کی طرف جانے کا آسان اور سیدہا راستہ ہے۔ یقین عالم ملکوت تک پہنچنے اور نا مرئی دنیا سے ارتباط کے لئے صراط مستقیم ہے۔ یقین تہذیب یافتہ اشخاص اور بزرگان کی اہم ترین صفات میں سے ہے، یقین اہلبیت اطہار کے اصحاب اور اللہ کے خاص بندوں کی اہم ترین خصوصیات میں سے ہے۔یقین ،انسان میں قوی ترین روحانی قوّت کو ایجاد کرتا ہے، یقین خاندان وحی سے ارتباط کا وسیلہ ہے، دل میں یقین کا وجود معنوی پیوند کے موانع کو برطرف کرتا ہے اور اہلبیت کے تقرب اور ان تک پہنچنے کی راہ کو ہموار کرتا ہے۔یقین کی افزائش سے آپ اپنے دل کو ملائکہ کی قیامگاہ قرار دے کر اسے شیاطین کے شر اور وسوسوں سے نجات دے سکتے ہیں۔شیطان کے شر سے رہائی پانے کے بعد آپ کو بہت سے معنوی فیض حاصل ہوںگے۔اس صورت میں آپ کا دل نورانیت سے سرشار ہوجائیگا۔

اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ (عج)  کے ظہور کے دن تمام لوگوں کے دل و جان میں یقین پیدا ہوجائیگا ، کیونکہ اس دن جب تاریخ کی قدیم ترین  عبات گاہ (خانہ کعبہ) سے حضرت قائم آل محمد (عج)  کی حیات بخش صدا لوگوں کی سماعتوں تک پہنچے گی توابلیس اور اس کے پیروکاروں کے دلوںمیں خوف طاری ہوجائے گا ،حضرت بقیةاللہ اعظم  کے ظہور سے سب شیاطین ہلاک ہوجائیں گے۔ اس وقت لوگوں کے دل وسوسہ سے نجات پاجائیں گے اور ان کے دل و جان پر آرام و اطمینان کی حاکمیت ہوگی۔اس دن لوگوں کے دلوں میں یقین اور ایمان میں اضافہ ہوگا۔اس دن یقین پیدا کرنے والے سب امور فراہم ہوجائیں  گے اور یقین کے ذریعہ سب کے باطن کی اصلاح ہوجائے گی۔ یہ بات ثابت کرنے کے لئے کہ ظہور کے وقت سب اہل یقین بن جائیں گے، ہم مقدمہ کے طور پر کچہ مطالب ذکر کرتے ہیں:  خدا وند متعال قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کے بارے میں فرماتا ہے:

۲۱۹

'' وَ کَذٰلکَ نری َابرَاهیمَ مَلَکوت السمٰوات وَالاَرض وَ لیَکون من المؤمنین''(1)

او ر اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمان اور زمین کے اختیارات دکہاتے ہیں اور اس لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔

صفوان کہتا ہے کہ میں نے امام رضا(ع)  سے پوچہا کہ خدا نے حضرت ابراہیم  (ع) کے بارے فرمایاہے:

'' اَوَ لَم نؤمن قَال بلیٰ وَ لٰکن لیَطمَئنَّ قَلبی '' (2)

کیا ابراہیم کو یقین نہیں تہا اور کیا ان کے دل میں شک و شبہہ موجود تہا؟

'' قَالَ لَا،کَانَ عَلیٰ یَقینٍ وَ لٰکن اَرادَ منَ اللّٰه الزّیَا دَةَ فی یَقینه ''(3)

حضرت امام رضا (ع) نے فرمایا : نہیں ، انہیں یقین تہا لیکن اس نے خدا سے چاہا کہ اس کا یقین زیادہ ہوجائے۔

اس بناء پر حضرت ابراہیم  نے ملکوت آسمانی اور زمین کو دیکہا اور ان کے یقین میں اضافہ ہوا ملکوت آسمان و زمین کو دیکہنے کی وجہ سے ان کا یقین زیادہ ہوا ، پہر ان میں دوسروں  کے دلوں میں بہی یقین ایجاد کرنے کی قدرت پیدا ہو گئی۔

ظہور کے زمانے کے لوگوں کی حالت اور امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی سلطنت پر توجہ کریں کہ آنحضرت صاحب ملکوت ہیں وہ جلوہ ولایت و ملکوتی سے زمین و آسمان کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کیا اس زمان کے لوگ یقین یقین حاصل نہیں کرسکتے؟پس عصر غیبت میں بہی ہر کوئی یقین حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔یقین حاصل کرنے سے انسان شیطان پر حاکم بنسکتا ہے اور معنویت کے صراط مستقیم پر گامزن ہوسکتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ  آیت انعام:75

[2]۔ سورہ بقرہ  آیت:260

[3]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۱۷6

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348