تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180670 / ڈاؤنلوڈ: 4273
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

خلا صہ کلا م یہ ہے کہ خدا کی حکمت کا تقا ضا تھا کہ اس کا فرستادہ اپنے ربّ کی طرف سے کو ئی معجزہ پیش کرے جو اس کے ادّعا کی صداقت پر دلیل ہو اور اس طرح سے لوگوں پر حجت تمام ہو. اس صورت میں جو ما ئل ہو وہ ایمان لے آئے اور جو سر کشی و عناد کر نا چا ہے وہ کرے جیسا کہ تمام معجزا ت پیش کر نے کے بعد حضرت موسیٰ اور حضرت ہا رون کی قوم کا حال تھا.یعنی جادو گر وںنے ایمان قبول کیا لیکن فر عو نیوں اور اس کے گردو پیش والوں نے کفر و عناد کا راستہ اختیار کیا کہ خداوند عالم نے بھی انھیں غرق کر کے ذلت و خواری کی طرف کھینچ دیا۔

جو کچھ انبیا ء اللہ کی جانب سے پیش کرتے ہیں اسلامی اصطلا ح میں اسے معجزہ کہتے ہیں جو کہ خود ہی ان کی صداقت پر ایک دلیل ہے۔

لہٰذا جو کچھ ہم نے بیان کیا اس کے مطا بق ہر پیغمبراور رسول نبی ہو گا، لیکن ہر نبی پیغمبر نہیں ہو گا جیسے یسع کہ وہ نبی اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے وصی تھے۔

بعض پیغمبر ایسی شریعت لے کر آئے جو بعض ان موارد اور اعمال کی جنھیں گزشتہ شریعتوں نے پیش کیا تھا ،ناسخ قرار پائی جیسے حضرت موسیٰ کی شریعت سابق شریعتوں کی بہ نسبت اور بعض کی شریعت گزشتہ شریعت کو مکمّل کر نے والی یا تجدید کر نے والی تھی جیسے حضرت ختمی مر تبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت حضرت ابراہیم خلیل الرحمن کی شریعت کی بہ نسبت ،کہ خدا فرماتا ہے:

( ثُمَّ اَوْحَیْناَاالَیکَ اَن اتّبع مِلّةابرا هیم حنَیفاً... )

پھر اُس وقت ہم نے تمھیں وحی کی کہ ابراہیم کے پاک وپاکیزہ آئین کا اتباع کرو.( ۱ )

اور سورۂ مائدہ کی تیسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( اَلْیَو م اَکْمَلْتُ لَکُمْ دینکُم وَاَتمَمْتُ عَلیَکُم نِعمتی وَرضیتُ لَکُمُ الاِسلامَ دِیْناً )

آج کے دن ہم نے تمہارے دین کو کا مل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کیا اور تمہارے لئے اسلام کو پسند کیا ۔

ان چند اصطلا حوں سے آشنا ئی کے بعد کہ جن پر قرآن کریم ، حدیث اور سیرت کی کتابوں میں انبیاء کی خبروں کا سمجھنا موقوف ہے.اب ہم انشا ء اللہ ان کے اخبار کی تحقیق کر یں گے اور اپنی بات کا آغا ز حضرت آدم ابو لبشر سے کریں گے۔

____________________

(۱) سورۂ نحل:آیت ۱۲۳.

۴۱

( ۲ )

حضرت آدم ـ

* حضرت آدم ـ کی خلقت سے متعلق چند آیات.

* کلمات کی تشریح

* آیات کی تفسیر

آدم ـ کی خلقت

۱۔ خدا وند سبحا ن سورئہ طہٰ ٰکی ۱۱۵ اور ۱۲۲ آیات میں فرماتا ہے.

( وَلَقَدْعَهِدْنَا اِلٰی آدمَ مِن قَبْلُ فَنَسِیَ واَلَمْ نَجدلَهُ عزماً٭...٭ ثم أجْتَباه رَبُّهُ فَتابَ عَلَیْهِ وَهَدیٰ )

اور ہم نے آدم سے عہد وپیمان لیا (کہ شیطا ن کے دھو کے میں نہ آئیں)اور اس عہد میں اُن کو ثابت قدم اور پا ئدار نہیں پا یا ٭ ٭ پھر خدا نے ان کی تو بہ قبو ل کی اور ان کی ہدایت فر مائی اور انھیں مقام نبوت کے لئے انتخاب کیا.

۲۔سورۂ بقرہ کی ۲۷ اور ۳۰ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ ِنِّی جَاعِل فِی الَرْضِ خَلِیفَةً قَالُوا َتَجْعَلُ فِیهَا مَنْ یُفْسِدُ فِیهَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ وَنَحْنُ نُساَبِحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ ِنِّی َعْلَمُ مَا لاَتَعْلَمُونَ ٭ وَعَلَّمَ آدَمَ الَسْمَائَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ َنْبِئُونِی بَِسْمَائِ هَؤُلاَء ِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ ٭ قَالُوا سُبْحَانَکَ لاَعِلْمَ لَنَا ِلاَّ مَا عاَلَمْتَنَا ِنَّکَ َنْتَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ ٭ قَالَ یَاآدَمُ َنْبِئْهُمْ بَِسْمَائِهِمْ فَلَمَّا َنْبََهُمْ بَِسْمَائِهِمْ قَالَ اَلَمْ َقُلْ لَکُمْ ِنِّی َعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالَرْضِ وََعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ ٭ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ فَسَجَدُوا ِلاَّ ِبْلِیسَ َبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنْ الْکَافِرِینَ ٭ وَقُلْنَا یَاآدَمُ اسْکُنْ َنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُلاَمِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَتَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنْ الظَّالِمِینَ ٭ فََزَلَّهُمَا الشَّیْطَانُ عَنْهَا فََخْرَجَهُمَا مِمَّا کَانَا فِیهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ وَلَکُمْ فِی الَرْضِ مُسْتَقَرّ وَمَتَاع الَی حِینٍ ٭ فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ راَبِهِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ ِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ٭ )

۴۲

٭ جب تمہارے رب نے فر شتوں سے کہا:میں روئے زمین پرایک جا نشین بنا ؤں گا ان لوگوں نے کہا آیا ایسے کو بنا ئے گا جو اس میں خو نر یزی اور فساد بر پا کر تے ہیں؟ جب کہ ہم تیری تسبیح اور حمد کر تے ہیں اور تیری پا کیز گی بیان کرتے ہیں فرمایا ! جومیں جا نتا ہو تم نہیں جا نتے اور آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی اس کے بعد انھیں فر شتوں کے سا منے پیش کیا اور ان سے سوال کیا اگر سچّے ہو تو ان کے اسماء کے بارے میں مجھے خبر دو ۔٭ بو لے خدا وند! تو منزہ ہے ہم تو وہی جا نتے ہیں جو تو نے ہمیں سکھا یا ہے تو دانا اور حکیم ہے۔ ٭

فرمایا : اے آدم ! تم ان کے اسماء کی انھیں خبر دو جب آدم نے انھیں آگاہ کیا تو فرمایا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ ہم زمین و آسما ن کے غیب کے بارے میں یا جو کچھ ظا ہر اور مخفی رکھتے ہواس سے باخبرہیں٭

جب ہم نے فر شتوں سے کہا آدم کا سجدہ کرو سب نے سجدہ کیا جز ابلیس کے اس نے انکار کیا اور تکبر سے کام لیا اور وہ کافروں میں سے تھا۔ ٭ اور ہم نے کہا اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں سکو نت اختیار کرو اور وہ پر جہ سے چا ہو کھا ؤ جو تمھیں پسند آئے ،لیکن اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جا ؤ گے ٭ شیطا ن نے انھیں فریب دینے کی کوشش کی اور انھیں جنّت سے باہر کر دیا اور میں نے کہا تم سب کے سب نیچے اترو تم میں سے بعض بعض کا دشمن ہوگا اور تمہارے لئے زمین میں ایک مدت تک کے لئے ٹھہر سکتے ہو اور اس سے بہرہ مند ہوسکتے ہو ٭ پھر آدم نے اپنے خدا سے چند کلمات یا د کئے اور خدا نے ان کی تو بہ قبو ل کی کہ وہ تو بہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے ۔٭

۳۔ سورۂ آل عمران کی ۳۳ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( انَّ اللّٰهَ اِصطَفَیٰ آدَمَ وَ نُوحاً وَآلَ ااِبْرَاهیمَ وَآل عِمرَانَ عَلی العَا لمین )

خدا وند عالم نے آدم ،نوح ،خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو سارے جہان پر انتخا ب کیا۔

سورۂ انعام کی ۸۹ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( اُولئک الَّذِینَ آتَینَاهُمُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالَنُّبوَّة... )

وہ لوگ ( انبیائ)وہی ہیں جنھیں ہم نے آسمانی کتاب، فر ما نروائی اور نبوت عطا کی ہے...

۴۳

کلمات کی تشریح

۱۔اجتباہ :

اسے چنااور انتخاب کیا. مفردات راغب میں مذ کور ہے کہ: اجتباہ اللہ العبد یعنی یہ کہ خدا نے بندہ کو الٰہی فیض سے مخصوص کیاوہ بھی اس طرح سے کہ انواع واقسام کی نعمتیں اُس کے اختیار میںدے دیتا ہے بغیر اس کے کہ بندہ نے اس سلسلے میں کوئی کوشش کی ہو. یہ فیض انبیاء اور ان کے ہم مرتبہ صدیقین اور شہداء سے مخصوص ہے۔

۲۔ تابَ :

اُس نے تو بہ کی بندہ کی توبہ اس کی ند امت اور پشیمانی کا پتہ دیتی ہے اس گناہ سے جو انجام دیا ہے لہٰذا اس گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ کرنا اور جہاں تک ممکن ہو اس کی تلافی اور تدارک کرنا بندہ کی توبہ ہے۔

لیکن ربّ کی تو بہ کے معنی اپنے بندے کی تو بہ قبول کرنا ، اس کی خطاؤں سے در گذر کر نا ، اس کے ساتھ لطف واحسان کر نا اوراس کی بخشش کر نا ہے۔

۳۔خلیفة :

فرشتوں کی آفر نیش سے متعلق ذکر شدہ بحثوں کے ذیل میں ہم کہیں گے:

خلیفہ کی لفظ قرآن میں مفرد اور جمع دونوں صورتوں میں ذکر ہوئی ہے اور مفرد، جمع کی ضمیر کے ساتھ بھی استعمال ہوئی ہے لیکن جہاں پر مفرد ذکر ہوئی ہے اس سے مراد زمین پر اصفیاء اللہ میں سے برگزیدہ شخص ہے اور جہاں جمع یا جمع کی ضمیر کے ساتھ استعما ل ہوئی ہے وہاں اپنے سے پہلے والی قوموں کی جگہ پر زمین میں لوگوں کی جانشینی مراد ہے۔

پہلی وجہ سے متعلق:

۱۔ خدا کا فرشتوں سے خطاب :( اِنّیِ جَاعِل فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً )

میں روئے زمین پر ایک خلیفہ بنا ؤں گا.

۴۴

۲۔خدا کا داؤد سے خطاب:

( یَادَائُ وْدُ اِنَّاجَعَلنَاکَ خَلیفَةً فِی الْاَرْضِ )

اے داؤد!ہم نے تمھیں زمین پرمقام خلا فت عطاکیا.اگرپہلے مورد میں مراد یہ ہو کہ خدا نوع انسان کو زمین پراپنا خلیفہ اورجانشین بنا ئے گا ۔

پھر داؤد کے لئے مقام خلا فت سے مخصوص ہو نے کا شرف باقی نہیں رہ جا تا کیونکہ وہ بھی لوگوں میں سے ایک ہیں کہ خدا نے ان سب کو تا قیام قیا مت زمین پر اپنا خلیفہ اور جا نشین بنا یا ہے.اس بنا ء پر مجبورا ً کہنا چا ہئے: اپنے فرشتوں سے خدا کے خطاب( اِنّی جَاعِل فی الاَرضِ خَلیفہ )کا مطلب تنہا حضرت آدم ہیں یا حضرت آدم اور ان کی بر گزیدہ اولا د جو لوگوں کے امام اور راہ راست کے پیشوا اور راہنما ہیں۔

دوسری وجہ سے متعلق:

۱۔جہاں سورہ ٔ اعراف کی ۶۹ ویں آیت میںحضرت ہود کی اپنی قوم سے گفتگو کی حکایت کرتے ہوئے بیان فرما تا ہے.

( ... وَاذْکُرُ وا اإِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفائَ مِنْ بَعدِ قُومِ نُوح ٍ )

یا د رکھو خدا نے تمھیں قوم نوح کے جانشینوں میں قرار دیا ہے...

۲۔ اس کے بعد، صا لح کی گفتگو اپنی قوم سے متعلق اسی سورۂ کی ۷۴ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَاِذکُرُوا اِذجَعَلَکُم خُلَفائَ مِن بَعدِ عاد ٍ )

یاد رکھو کہ تمھیں قوم عاد کے بعد جا نشین بنا یا.

کیسے ممکن ہے خدا کے دشمن جیسے عاد و ثمود کی اقوام اور ان سے پہلے نوح کی قوم نافرمانی اور خدا سے دشمنی کے سبب، خدا نے انھیں ہلاک کیا اور انکو صفحہ ہستی سے مٹادیا ہے، روئے زمین پر خدا کے خلفا ء اور جانشین ہوں ؟

اس لحا ظ سے جناب ہود علیہ اسلام کی اپنے قوم سے گفتگو کا مطلب جو انھوں نے کی ہے :

( جَعَلَکُم خُلفَاء مِن بَعدِ قُومِ نُوح ٍ ) یہ ہے کہ خدا نے روئے زمین پر تم کو قوم نوح کا جانشین قرار دیا ہے اور حضرت صا لح کی اپنی قوم سے گفتگو کہ جو انھوں نے کی ہے:

۴۵

( جَعَلَکُم خُلفَاء مِن بَعدِ قُومِ عاد ٍ ) یہ ہے کہ قوم عاد کے بعد تمھیں روئے زمین پر ان کا جا نشین قرار دیا ہے۔

تیسری وجہ جو جمع کی ضمیر کے ساتھ ذکر ہوئی ہے وہ بھی اسی طرح سے ہے مثلاً سورہ ٔ اعراف کی ۱۲۹ ویں آیت میں حضرت یو نس کے اپنی قوم سے خطاب میں اسی طرح ذکر ہوا ہے:

( عََسَیٰ رَبَّکُمْ اَنْ یُهْلِکَ عَدُ وَّکُم وَیَسَتخِلَفکُمْ فِی الْاَرْضِ... )

امید ہے کہ خدا وند عالم تمہارے دشمنوں کو زمین سے نابود کر دے اور تمھیں روئے زمین پر ان کا جا نشین قرار دے... مراد یہ ہے کہ خدا وند عالم انھیں ان کے دشمنوں کی جگہ روئے زمین پر جانشین قرار دے گا۔

۴۔ا لاسماء :

عربی لغت میں اسم کے دو معنی ہیں:

۱۔ ایسا لفظ جو مسمیٰ پر دلالت کرتا ہے اور اسے دیگر تمام لوگوں سے ممتاز کر تا ہے مانند مکّہ جو کہ ایک شہر کا نام ہے جس میںکعبہ مشرفہ اور بیت ﷲ الحرام پایا جاتا ہے اور اشخاص کے نام جیسے یوسف، فیصل، عباس وغیرہ۔

۲۔ ایسا لفظ جو مسّمیٰ کی حقیقت یا اس کی صفت پر دلالت کرتا ہے جیسے اس آیہ شریفہ میں لفظ (اسم) (ساَبِحِ اسْمَ راَبِکَ الْاَ عْلٰی) (اے ہمارے رسول! ) اپنے خدا کے نام کی تسبیح کرو جو کہ تمام مو جودات سے بلند و با لا ہے (سورۂ اعلی آیت۱) کہ یہاں پر مراد اسم خدا کی تسبیح کرنا نہیں ہے بلکہ مراد ربّ کی صفت ہے یعنی اپنے بلند رتبہ ربّ کی ربو بیت کو پاک و منزہ قراردو ان چیزوںسے جو اس کی کبر یا ئی کے لئے زیبا نہیں ہیں۔اور اسی طرح سے یہ آیہ شریفہ ہے کہ فرماتا ہے ( وَعَلّمَ آدَمَ ا لْاَ سْمَاْئَ کُلَّھَا) (آدم کو تما م اسماء کی تعلیم دی ) اس سے یہاں پر یہ مراد نہیں ہے کہ خدا وند عالم نے اپنے خلیفہ آدم کو مراکز کے اسماء جیسے بغداد، تہرا ن اور لندن یا آدمی کے بد ن کے اعضا ء جیسے آنکھ، سر اور گردن ْیاپھلوں کے نام جیسے انجیر، زیتون اور انار، یا پتھروں جیسے یاقوت، دُر، زبرجد، یا معادن جیسے سونا، چاندی، پیتل، لوہا، وغیرہ وغیرہ کہ آدمی نے ان چیزوں کے مختلف عنوان سے نام رکھے ہیں،تعلیم دی ہو بلکہ مقصود یہ ہے کہ خدا نے اپنے خلیفہ کو اشیاء کے صفات اور ان کے حقائق سے آگاہ کیا ہے ہم نے خدا کی مرضی سے دوسری جلد میں '' (اسمائے حسنیٰ الٰہی'' ) کی بحث میںاسی سے متعلق تفصیل سے گفتگو کی ہے۔

۴۶

۵۔نسبّح بحمدک:

سَبحّ یعنی منزہ خیال کیا اور سبحان اللہ یعنی خدا پاک اور منزہ ہے.

۶۔نقدّس:

قدّس اللّٰہ تقد یسا ً، یعنی خدا کی شا ئستہ ترین انداز سے تقدیس کی.اور اس کی حمد و ثنا کی اور اسے عظیم اور با عظمت جانا اور اسے تمام ان چیزوں سے جو اس کی ذات اور مقام کے لئے مناسب اور شائستہ نہیں ہے اور مسند الوہیت کے لئے زیبا نہیں ہے، پاک و منزہ جانا۔

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے حضرت آدم علیہ اسلام کی توبہ قبول کی اور اُن کا انتخاب کیا اور اپنی وحی کے لئے چنا ٹھیک اسی طرح جس طرح دیگر پیغمبروں کو لوگوںکی ہدایت کے لئے چنا ہے۔

ابن سعد کی طبقات اور احمد ابن حنبل کی مسند میں اسی طرح ذکر کیا گیاہے اور ہم یہاںپر صرف ابن سعد کی طبقات سے عبارت نقل کرتے ہیں:

لوگوں نے حضرت آدم کے سلسلہ میںحضرت رسول اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا کہ آیا حضرت آدم نبی تھے یا فرشتہ؟

تو رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب دیا:

وہ نبی مکلَّم تھے یعنی ایسے شخص تھے جن سے خدا نے وحی کے ذریعہ گفتگو کی ہے۔

حضرت ابوذر سے مروی ہے کہ آپ نے کہا میں نے رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا۔سب سے پہلے نبی کو ن تھے ؟

۴۷

فرمایا:آدم ۔

میں نے سوال کیا : کیا آدم نبی تھے؟

جواب دیا : ہاں ،نبی مکلّم تھے۔

میں نے پو چھا رسولوں کی تعداد کتنے افراد پر مشتمل تھی؟

جواب دیا: ان کی مجمو عی تعداد تین سو پندرہ (۳۱۵)افراد پر مشتمل( ۱ ) ہے۔

منجملہ وہ امور جو ان کی شریعت میں ذکر ہوئے ہیں، حج ،خانہ کعبہ کے ارد گرد طواف اور جمعہ کی نماز تھی۔

ابن سعد کی طبقات میں مذکور ہے:

رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرما یا: جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار اور خدا کے نز دیک ان میں

____________________

(۱) طبقات ابن سعد ،طبع بیروت، سال : ۱۳۷۶، ج۱، ص ۳۲و ۳۴، طبع یورپ ، ص ۱۰ و۱۲ اور مسند احمد، ج ۵، ص ۱۷۸، ۱۷۹، ۲۶۵، ۲۶۶ اور تاریخ طبری طبع یورپ، ج۱، ص ۱۵۲ اور دوسری حدیثیں دوسرے مصادر میں مختلف الفاظ کے ساتھ

۴۸

سب سے عظیم دن ہے، کیو نکہ، خدا نے اُس دن حضرت آدم ـکو پیدا کیا اور اسی دن آدم کو زمین پر بھیجا اور اسی دن آدم ـ کو دنیا سے اٹھا یا ۔( ۱ )

حضرت آدم ایسے پیغمبر تھے کہ خدا وند سبحا ن نے انھیں کتاب اور حکمت عطا کی تھی تاکہ اپنے زمانے کے لوگوں کو کہ ان کے زمانے میں ان کی بیوی اور بچے تھے ہدایت کریں۔ وہ اولوالعزم پیغمبروں میں نہیں تھے یعنی بشیر(بشارت دینے وا لے) اور نذ یر(ڈرانے والے) نہیں تھے۔

پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ حضرت آدم کو عراق کی سر زمین پر جہاں انھوں نے وفات پا ئی ہے دفن کیا گیا ہے۔

حضرت آدم نے اپنی حیات میں اپنے فرزند(شیث) سے وصیت کی اور انھیں اپنی شریعت کی حفا ظت اور اس کی تبلیغ کی تاکید کی.خدا کی توفیق سے انشاء اللہ آیندہ فصل میںاس موضوع کے حالات کی تحقیق کریں گے۔

____________________

(۱)طبقات ابن سعد ،طبع بیروت ، ج۱،ص ۳۰ ، طبع یورپ ، ج۱ ، ص ۸.

۴۹

( ۳ )

حضرت آدم ـکے بعد اوصیاء سیرت کی کتابوں میں :

* مقدمہ

* شیث ہبة اللہ

* شیث کے فرزند انوش

* انوش کے فرزند قینان

* قینان کے فرزند مہلائیل

* مہلائیل کے فرزند یرد

* یرد کے فرزنداخنوخ(ادریس)

* اخنوخ (ادریس) کے فرزند متوشلح

* متوشلح کے فرزند لمک

مقدمہ

ابن سعد کی طبقات اور تاریخ طبری اور دیگر مآخذ میں اختصار کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ انھوں نے فر مایا:

حوا سے آدم علیہ اسلام کے بیٹے ہبة اللہ پیدا ہوئے جنھیں عبری زبان میں(شیث)کہا جا تا ہے اور حضرت آدم نے انھیں اپنا وصی قرار دیا .شیث انوش نامی فرزند کے باپ ہوئے اور جب شیث بیمار ہوئے تو انوش کو اپنا وصی اور جا نشین بنایا اور دنیا سے رحلت کر گئے۔

انوش کے فرزند قینان اپنے باپ کے وصی ہوئے۔

قینان کے فرزند مہلائیل اپنے باپ کے وصی ہوئے۔

مہلائیل کے فرزند''یردیا الیارد'' ان کے وصی ہوئے۔

۵۰

اخنوخ کہ وہی ادریس پیغمبر ہیں یرد کے فرزند اور ان کے وصی ہیں۔( ۱ )

متوشلح کے فرزند لمک ان کے وصی ہوئے۔

یہ سارے مطا لب ابن سعد اور طبری کی اس روایت کا خلا صہ ہیں جو ابن عباس سے حضرت آدم کے اوصیاء کے اخبار سے متعلق مروی ہے۔

ان کے اخبار کا فی بسط وتفصیل سے تاریخ یعقوبی متو فی۲۸۴ھ اور مسعودی متوفی ٰ ۲۴۶ھ اور سبط ابن جوزی متوفی ٰ ۶۵۴ ھ میں مذکور ہیں انشاء اللہ اس کی تفصیل بیان کی جائے گی ۔

____________________

( ۱)۔ مذکورہ اخبار کا پتہ لگا نے کے لئے ملاحظہ فرمائیں ابن سعد کی طبقات،طبع یورپ،ج۱،ص ۱۴۔۱۷؛تاریخ طبری، طبع یورپ، ج۱، ص ۱۵۳، ۱۶۵، ۱۶۶؛ شیث سے جناب آدم کی وصیت کی خبر : تاریخ ابن اثیر میں، ج، ۱،ص ۱۹۔۲۰ اور ج۱، ص ۴۰۔ ۴۸ اور تاریخ ابن کیثر، ج۱، ص ۹۸؛ تاریخ یعقوبی، ج۱، ص ۱۱ ، اُس میں ذکر کیا گیا ہے کہ اخنوخ وہی ادریس پیغمبر ہیں.

۵۱

شیث ہبة اللہ سیرت کی کتابوں میں

* شیث ـ کی ولادت

* حضرت شیث ـسے حضرت آدم ـ کی وصیت

* ان کا حکم اور خانہ خدا کا حج

* ان کا اپنے فرزند انوش ـسے وصیت کرنا

حضرت شیث ـکی ولا دت

مسعودی نے مروج الذ ھب میں تحریر فر مایا ہے:

جب جناب حو ّ ا کے بطن میں شیث قرار پا ئے تو ان کی پیشا نی سے نورچمکنے لگا. اور جب شیث پیدا ہوگئے تو وہ نورشیث میں منتقل ہو گیا اور جب شیث بالغ ہوئے اور ایک کا مل اور پختہ جوان ہوگئے تو حضرت آدم نے انھیں اپنا جا نشین قرار دیا اور اپنی وصیت ان کے درمیان رکھی اور انھیں آگاہ کیا کہ وہ آدم کے بعد خدا کی حجت اور روئے زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں.انھیں چاہئے کہ اپنے جا نشینوں تک حق کو پہنچا ئیں اور وہ دوسرے وہ شخص ہیں کہ خاتم ا لا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور جن میںمنتقل ہوا ہے ۔( ۱ )

حضرت آدم ـ کی وصیت حضرت شیث سے

اخبار الزمان میں مذکور ہے:

جب خدا وند عالم نے حضرت آدم کی موت کا ارادہ کیا تو انھیں حکم دیا کہ اپنی وصیت اپنے فرزندشیث کے حوالے کر دیں اور تمام وہ علوم و دانش جو انھیں تعلیم دیئے گئے تھے انھیں تعلیم دے دیں، تو آدم نے ایسا ہی کیا۔( ۲ )

تا ریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

جب حضرت آدم کی موت کا وقت قر یب آیا تو حضرت شیث اپنے فرزند اور پوتوں کے ہمراہ ان کی خدمت میں پہو نچے حضرت آدم نے اُن پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا وند عالم سے بر کت کی درخواست

____________________

(۱)مسعودی کی مروج الذھب کی ج۱،ص ۴۷،۴۸ میں شیث کے حالا ت زندگی کا خلاصہ.(۲)مسعودی کی اخبار الزمان کا خلا صہ،طبع دار الاندلس بیروت ۱۹۷۸ ئ، سبط ابن جوزی نے بھی بعض اخبار وصیت کوشیث کے حالات زندگی کے ضمن میں مرآة الزمان نامی کتاب،طبع دار الشروق بیروت ۱۴۰۵ ھ ص ۲۲۳ پر ذکر کیا ہے.

۵۲

کی ، پھر اُس کے بعد اپنی وصیت شیث کے حوالے کی اور انھیں حکم دیا کہ ان کے جسد کی حفا ظت کریںاور ان کے مر نے کے بعد غار گنج میں رکھد یںاور پھر اس کے بعد اپنی رحلت کے وقت اپنے فرزند او رپو توں کو یکے بعد دیگرے وصیت کریں اور موت کے وقت ہر شخص دوسرے کو اپنا وصی و جا نشین بنائے؛ اور جب اپنی سرزمین سے نیچے آجائیں تو ان کے جسد کو لے کر زمین کے وسط(درمیان) میں رکھ دیں. پھر شیث کو حکم دیا کہ ان کے بعد ان کے فرزندوں میں ان کا قائم مقام رہتے ہوئے، انھیں تقوای الٰہی اور اس کی عبادت وپرستش کا حکم دیں اور انھیں قابیلیوں کے ساتھ مخلوط ہو نے سے روکیں، پھر اس کے بعد حضرت آدم نے ان تمام پر درود بھیجا اور آپ کی آنکھ بند ہوگئی اور جمعہ کے دن دنیا سے رحلت کر گئے۔( ۱ )

ان کا فیصلہ اور خا نۂ خدا کا حج

الف۔ تا ریخ یعقو بی میں مذ کور ہے:

شیثاپنے باپ حضرت آدم کی موت کے بعد ان کے جانشین ہوئے اور لوگوں کو تقوائے الٰہی اور نیک کاموں کا حکم دیا۔( ۲ )

اخبار الزمان میں ذ کر ہے کہ: خدا وند عالم نے حکم دیاکہ خانہ کعبہ کی تعمیر کریں اور حج وعمرہ بجالائیں شیث سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے عمرہ کیا ہے۔( ۳ )

ب۔مرآة الزمان کتاب میں مذکور ہے :

جب حضرت آدم دنیا سے رخصت ہوگئے، شیث مکّہ تشر یف لائے اور حج و عمرہ انجام دیااور خانہ کعبہ کی فرسودگی اور پرانے ہو نے کے بعد اس کی نئے سر ے سے تعمیر کی اور اسے پتھر اور مٹی سے تعمیر کر کے زمین کی آبادی و عمران کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے باپ کے مانند مفسدوں پر حدود الٰہی کا اجراء کیا ۔( ۴ )

ج۔ مروج الذھب نامی کتاب میں مذکور ہے :

جب حضرت آدم نے شیث سے وصیت کی تو شیث نے اس کے مضمون کو ذہن میں رکھ لیااور لوگوں کے درمیان حکو مت اور فرمانر وائی کر نے لگے اور باپ کے قوا نین کا اجراء کیا پھر اس کے بعد ان کی بیوی

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی، طبع بیروت، ج۱،ص۷.(۲)تاریخ یعقوبی،ج۱، ص۸.(۳)اخبار الزمان ،ص۷۶.(۴)مرآة الزمان، ص ۲۲۳.

۵۳

حاملہ ہوئیں اور انوش کو جنم دیا یہی وقت تھا کہ شیث کی پیشانی میں موجود درخشاں نور انوش میں منتقل ہوگیا. یہ انتقال ان کی ولادت کے وقت عمل میں آیا. جب انوش بالغ ہوئے اور کمال کی منزل کو پہونچے تو شیث نے حضرت آدم کی امانت ان کے حوالے کی اور انھیں اس وصیت کی کرامت، عظمت، شرافت اور مرتبہ سے آگا ہ کیا اور انھیں وصیت کی کہ( وہ بھی) اپنے فرزند کو اس شرف وکرامت کی حقیقت سے آگا ہ کریں اور وہ اپنے فر زندوں کو بھی اس امر سے آگاہ کریں اور اس وصیت کے امر کو جب تک نسلوں کا سلسلہ قائم ہے یکے بعد دیگرے آپس میں منتقل کرتے رہیں۔( ۱ )

وصیت کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور ایک صدی سے دوسری صدی تک منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ خداوند عالم نے نور تاباں کو جناب عبد المطلب اور اُن سے اُن کے فرزند عبد اللہ رسول اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد تک پہنچا یا اور ہم انشاء اللہ ان میں سے بعض اخبار کو اجداد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اخبار کے ضمن میں ذکر کریں گے۔

شیث کی اپنے فرزند انوش سے وصیت

تاریخ یعقوبی میں مذ کور ہے:

جب شیث کی موت کا زمانہ آیا تو ان کے فرزندوں اور پوتوں نے کہ جن میں انوش، قینان، مہلائیل، یرد،اخنوخ اور ان کی عورتیں اور بچے شامل تھے، ان کے بستر کے پاس سب جمع ہوگئے شیث نے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے برکت طلب کی اور تمام چیزوں سے پہلے اس بات کی وصیت کی کہ قا بیل ملعون کی اولاد کے قریب نہ جائیں اور ان سے رفت وآمد نہ رکھیں، پھر اس وقت اپنے بیٹے انوش سے وصیت کی اور انھیں حکم دیا کہ حضرت آدم کے جسدکو اسی طرح محفوظ رکھیں.اور یہ کہ تقوائے الٰہی اختیار کریں اور اپنی قوم کوبھی تقوائے الٰہی اور نیکی کا حکم دیں؛ پھر اس کے بعد آنکھ بند ہو گئی اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۲ )

____________________

(۱) مروج الذھب، مسعودی،۱۔۴۸.(۲) تاریخ یعقوبی، ج ۱، ص ۸۔۹.

۵۴

حضرت شیث ـ کے فرزند انوش ـ

* انوش ـکی ولادت اور ان سے شیث ـکی وصیتاور خا تم ا لا نبیاء صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کا ان میں منتقل ہو نا

* انوش ـ سب سے پہلے شخص جنھوں نے درخت لگا یا اور زراعت کی.

* انوش ـ کی اپنے فرزند قینان سے وصیت اور حضرت آدم ـ کے صحیفوں کی انھیں تعلیم

* انوش ـ کی وفات

۵۵

انوش کی ولادت اور ان سے شیث کی وصیت اورخا تم ا لا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کا ان میں منتقل ہو نا ۔

مرآة الزمان میں مذ کور ہے:

انوش حضرت آدم کی حیات ہی میں پیدا ہو چکے تھے. جب حضرت شیث نے اپنی موت کو قر یب پا یا تو اپنے فر زند انوش کو اپنا وصی قرار دیااور انھیں اس نور سے جو ولادت کے وقت اُن میں منتقل ہوا تھا (یعنی حضرت خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور کہ ان کی نسل سے دنیا میں آئیں گے) آگاہ کیااور انھیں حکم دیا کہ اپنی اولاد کو اس افتخار و شرف سے کہ ایک بزرگ سے دوسرے بزرگ اور ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو گا آگاہ کریں۔

انوش نے اپنے باپ کے انتقال کے بعد ان کے فرا مین کی انجام دہی میں س بہترین طریقہ اپنایا اور رعا یا کے امور کی تد بیر اور قوانین الٰہی کے اجراء کے لئے اپنے باپ کے زمانے کی طرح قیام کیا وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے خرمے کا درخت لگا یا اور زمین میں دانہ ڈ الا۔(۱ )

سب سے پہلا شخص جس نے درخت لگا یا اورکھیتی کی

مر وج الذ ھب میں مذکور ہے :

انوش نے زمین کو آباد کرنے اور اُسے قا بل زارعت بنا نے کے لئے اقدام کیا.اس کے بعدان کے فرزند قینان پیدا ہوئے، تا بندہ نور قینان کی پیشانی پر درخشندہ ہوا.انوش نے اس نور کے بارے میں قینان سے عہد وپیمان لیا( ۲ ) ( یعنی ان سے عہد و پیمان لیا کہ پیغمبر ختمی مرتبت صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کے حاملین کو جو کہ انھیں کے فرزند وںمیں سے ہو گے اس نور کے وجود اور اس کی بر کت سے آگاہ کریں گے۔

____________________

(۱)مرآة الزمان، ص ۲۲۳.(۲) مروج الذھب، مسعودی،ج۱،ص۴۹.

۵۶

انوش کی اپنے فرزند قینان کو وصیت اور انھیں حضرت آدم ـکے صحیفوں کی تعلیم دینا

اخبار الزمان میں مذکور ہے:

انوش حضرت شیث کے فرزند تھے جو کہ ان کے سب سے پہلے فرزند شمار کئے جاتے ہیں اور اپنے باپ کے وصی تھے.انوش نے بھی اپنی رحلت کے وقت اپنے بیٹے قینان کو اپنا وصی بنایا اور (حضرت آدم کے) صحیفوں کی تعلیم دی۔( ۱ )

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

شیث کے فرزند انوش نے اپنے باپ اور دادا کی وصیت کی حفا ظت اور نگہد اشت کی اور انھوں نے باحسن الوجوہ خدا کی بند گی اور عبادت کی اور اپنی قوم کو بھی حکم دیا کہ خدا کی احسن طریقہ سے عبادت وپرستش کریں۔( ۲ )

انوش کی وفات

تاریخ طبری میں مذ کور ہے :

انوش اپنے با پ کے بعد ملکی نظام کو چلانے اور رعا یا کے نظم و تد بیر میں مشغول ہوگئے.( ۳ )

جب رحلت کا وقت قریب آیا تو اپنے فر زندوں اور فرزندوں کے فرزندوں ( پو توں ) مہلائیل، یرد، اخنوخ (ادریس)متوشلح اور ان کی عورتوں اور ان کے فرزندوں کو بلا یا.اور جب سب حا ضر ہوگئے توسب پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے برکت کی درخواست کی؛اور اس بات سے منع فر مایا کہ ان کے فرزندوں میں سے کو ئی بھی قا بیل ملعون کی اولاد سے معا شرت اور رفت وآمد کرے، پھر اس وقت قینان کو اپنا وصی نامزد کیا اور انھیں حضر ت آدمکے جسد کی حفا ظت کی وصیت کی اور سب کو حکم دیا کہ ان کی خد مت میں خدا کی نما ز پڑھیں اور اس کی بکثرت تقدیس کریں .پھر اس وقت آنکھ بند ہو گئی اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۴ )

____________________

(۱) اخبار الزمان ص۲۲۳۔ ۲۲۴ .(۲)تاریخ یعقوبی ، طبع بیروت، ج ۱ ،ص۸.(۳) تاریخ طبری ، طبع یورپ،ج ۱ ،ص ۱۶۵

(۴) تاریخ یعقوبی ،ج ۱ ، ص۸۔۹.

۵۷

انوش کے فرزند قینان

* قینان کا عرصہ وجود پر قدم رکھنا اور ان کی پیشا نی میں خا تم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کا درخشاں ہو نا

* انوش نے قینان کو حضرت آدم کے صحیفوں کی تعلیم دیتے ہوئے حکم دیا کہ نما ز قا ئم کریں اور تمام احکام کا اجراء کریں

* قینان کی اپنے فرزند مہلائیل سے وصیت

حضرت قینان کا عرصہ وجود پر قدم رکھنا اور ان کی پیشانی میں حضرت خاتم الا نبیا ء کے نو ر کا درخشاں ہو نا.

الف۔ مروج الذھب میں ذ کر کیا گیا ہے:

انوش کے فرزند قینان پیدا ہوئے جب کہ وہ نورِمعہود ( خا تم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور )ان کی پیشا نی میں ضوبارتھاانوش نے قینان کے پیدا ہو جا نے کے بعد ان کی جا نشینی اور وصا یت کے بارے میںدوسروں سے عہد وپیمان لیا.( ۱ )

ب ۔مرآة الزمان نا می کتاب میں مذ کور ہے:

جب حضرت انوش کی موت کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے فر زندقینان سے وصیت کی اور وہ معہود نور قینان میں منتقل ہو گیا۔

انوش نے قینان کو اس راز کی حقیقت سے جو انھیں سپرد کیا گیا تھا آگاہ کیا پھر انوش کے انتقال کے بعد قینان نے باپ کی روش اپنا ئی۔( ۲ )

مؤ لف فرماتے ہیں: سرسے مراد، وہی حضرت خا تم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور ہے کہ جو پے در پے ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتا رہااورہم ا نشاء اللہ اس عہد کے معنی کی خدا کی مر ضی سے انھیں مطا لب کے ذیل میں تحقیق کریں گے.

____________________

(۱) مروج الذ ھب، ج ۱، ص ۴۹.(۲)مرآة الز مان، ص ۲۲۴.

۵۸

انوش نے صحیفوں کی قینان کو تعلیم دی اور انھیں نماز قائم کر نے اور دیگر احکام کا حکم دیا

اخبار الزمان نامی کتاب میں مذکور ہے:

انوش نے اپنے فرزند قینان کو اپنا وصی مقر ر کیا وہ اس سے پہلے حضرت آدم کے صحیفوں کی تعلیم انھیں

دے چکے تھے اور زمین کے ٹکروں اور اس بات کو کہ کون کو ن سی چیز ان کے اندر ہے ان کے لئے بیان کیا۔

انھوں نے قینان کو حکم دیا کہ نما ز قا ئم کریں زکاة دیں، حج بجا لائیں اور قا بیل کی اولاد سے جنگ کریں قینان نے حکم کی تعمیل کی اور باپ کے دستورات کا اجراء کیا۔( ۱ )

قینان کی اپنے فرزند مہلائیل سے وصیت

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے :

قینان ایک خلیق ،ملنسا ر اہل تقویٰ اور پر ہیز گار انسا ن تھے اپنے باپ کے بعد وظا ئف کے انجام دینے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی قوم کو خدا کی اطا عت و فرما نبرداری اور اس کی بنحو احسن عبادت کر نے اور حضرت آدم اور حضرت شیث کی وصیتوں کی پیروی کا حکم دیا.اور جب قینان کی موت کا وقت قریب آیا تو ان کے فر زند اور فر زندوں کے فرزند '' پو تے ''یعنی مہلائیل، یرد ، متوشلح،لمک ان کی عورتیں اور ان کے بچے ان کے پا س جمع ہوگئے. قینان نے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے بر کت کی دعا کی پھر اس وقت مہلائیل سے وصیت کی اور انھیں حضرت آدم کے جسد کی حفا ظت اور نگہداشت کا حکم دیا۔( ۲ )

____________________

(۱)اخبار الزمان،ص۷۷.(۲ )تاریخ یعقوبی ۔ج۱،ص ۹.

۵۹

قینان کے فرزند مہلائیل

* مہلائیل اپنی قوم کو خدا کی اطا عت و فر مانبرداری کا حکم دیتے ہیں.

* مہلائیل وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے درخت کاٹا، شہروںاور مسا جد کی بنا ڈالی اور معدنیات کے نکالنے میں مشغو ل ہوئے.

* مہلائیل اپنے فر زند یر د کو وصیت کرتے ہیں اور حضرت آدم کے صحیفوں کی انھیںتعلیم دیتے ہیں.

* مہلائیل اپنی قوم کو اپنے فرزند یرد کے اندر حضرت خاتم الا نبیا ءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کے منتقل ہونے کی خبر دیتے ہیں.

۶۰

كيلئے سزا معين كى اور انہيں قتل كرديا يہ ايك سياسى حكم تھا اس وقت اس كا جارى كرنا حكومت كيلئے ان كے اسلام لانے سے بہتر تھا_

شورشوں كا دباجانا

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں اسامہ كے ہمراہ لشكر روانہ كرنے كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس خدمت كو ابوبكر نے انجام نہ ديا اس لشكر كے روانہ كئے جانے كے بعد خليفہ وقت اور ان كے ہمنوا افراد نے كوشش كى كہ جتنى بھى شورشيں اس وقت ابھرى تھيں يكے بعد ديگر ے دبادى جائيں _

طليحہ' سجاح' مسيلمہ اور اياس بن عبداللہ ان لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے يا كسى گوشے ميں پيغمبرى كا دعوا كيا يا سركشى كى ، قتل كرديئے گے يا انہوں نے فرار كى راہ اختيار كى _ جنوب اور مشرق ميں آبا د قبائل اور وہاں كے شہروں ميں آباد لوگ دوبارہ مدينہ كے مطيع و فرمانبردار ہوگئے كيونكہ انہوں نے اس بات كو سمجھ ليا تھا كہ خانہ جنگى سے كوئي فائدہ نہيں بلكہ مصلحت اس ميں ہے كہ مركزى حكومت كى اطاعت قبول كرليں _

حضرت فاطمہعليه‌السلام كى وفات

جس سال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انتقال ہوا اسى سال آپ كى اكلوتى بيٹى فاطمہ زہراعليه‌السلام نے بھى وفات پائي باپ كى موت اور مختصر مدت كے بعد جو سانحات پيش آئے انہوں نے فاطمہ زہراعليه‌السلام كے جسم و روح كو غمگين بناديا _

حضرت زہراعليه‌السلام كے دل ودماغ پر ان واقعات كا ايسا گہرا اثر ہوا كہ آپ كے فرمانے كے بموجب اگر يہ مصائب وآلام دنوں پر پڑتے تو رات كى تاريكى ميں تبديل ہوجاتے _(۲۵) ان

۶۱

صدمات كى تاب نہ لاكر صاحب فراش ہوگئيں ، وہ لوگ جو پيغمبرا كرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خاطر جان بكف رہا كرتے تھے اور ان كے پاس جو كچھ تھا وہ آپ كے والد محترمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وجود كى بركت سے ہى تھا اب ايسے پھرے كہ ان ميں سے چند ہى آپ كى عيادت كو آئے_

جناب صدوق اس ضمن ميں فرماتے ہيں : مہاجر وانصار كى كچھ خواتين آپ كى عيادت كے لئے گئيں آپ نے اس وقت كو غنيمت جانا اور اس موقعے پر جو خطبہ ارشاد فرمايا اس كے بعض اہم اقتباسات يہاں كئے جاتے ہيں :

افسوس تمہارے مردوں نے خلافت كو رسالت كى پائيگاہ، نبوت كى اقامت گاہ اور منزل وحى سے الگ كرديا اور دنيا ودين كے ماہروں سے زمام خلافت چھين ليں يقينا اس ميں انكا سراسر نقصان ہے انہيں ابوالحسنعليه‌السلام سے كيا عداوت تھي_

جى ہاں : انہےں علىعليه‌السلام كى راہ خدا ميں برہنہ شمشير، دليرى اور شجاعت كا خوف تھا_

قسم خدا كى اگر خلافت كو علىعليه‌السلام كے ہاتھ سے نہ ليا ہوتا تو ان كے امور و مسائل كو حل كرنے ميں وہعليه‌السلام خود حصہ ليتے اور انتہائي رضا و رغبت سے شادمانى وكامرانى كى جانب انہيں ہدايت كرتے، تشنگان عدل وانصاف آپ كے چشمہ داد و عدالت سے سيراب ہوتے محروم ولاچار لوگ ان كى پناہ صولت ميں دلير و شير دل ہوجاتے _(۲۶)

بنت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب تك علالت كے باعث صاحب فراش رہيں(۲۷) كسى شخص نے آپكے چہرے پر شادابى اور مسكراہٹ نہ ديكھى آپ ہفتے ميں دو مرتبہ (پير اور جمعرات) شہداء كے مزارات پر جاتيں اور ان كے لئے دعائے خير فرماتےں _(۲۸)

اور بالاخر ہجرت كے گيارہوےں سال ميں بتاريخ سوم جمادى الآخر اٹھارہ سال كى عمر ميں آپ نے اس جہان فانى سے كنارہ كرليا اور اپنے والد بزرگوار كے پاس پہنچ گئيں _(۲۹)

حضرت علىعليه‌السلام نے دختر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل ديا نيز آپ كى وصيت كے مطابق خواص كے علاوہ ديگر افراد كى غير موجودگى ميں نماز جنازہ ادا كى اور راتوں رات آپ كے جسد مطہر كو سپرد خاك كركے

۶۲

قبركے نشان كو محو كرديا اس كے بعد آنحضرتعليه‌السلام نے مزار پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب رخ كيا اور فرمايا:

يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرى اور اپنى دختر كى جانب سے جواب آپ كے جوار ميں پہنچ گئي ہيں اور بہت جلد آپ سے جاملى ہيں سلام قبول فرمايئے اور يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ كى برگزيدہ و پاك دختر كى جدائي كے باعث ميرا پيمانہ صبر لبريز ہوچكا ہے اور اب مجھ ميں غم برداشت كرنے كى تاب نہيں

آپ كے پيارى بيٹى جلد ہى آپ كو مطلع كرديں گى كہ آپ كى امت نے ان پر ستم رواركھنے كى غرض سے كيا كيا باہمى سازشيں نہ كيں ان پر جو كچھ گذرى انہى كى زبانى سنيئے اور يہ وقت كس طرح گذرا اس كى كيفيت انہى سے دريافت فرمايئے اگرچہ آپ كى رحلت و زمانہ حيات كے درميان كافى عرصہ نہيں گذرا ہے اور آپ كى ياد دلوں سے بھى محو نہيں ہوئي ہے_(۳۰)

-

۶۳

سوالات

۱ _ حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں كن لوگوں نے پناہ لى اور كيوں ؟

۲ _ واقعہ سقيفہ كے بعد حضرت عليعليه‌السلام كا كيا موقف رہا ؟ اس حساس كيفيت كى وضاحت كيجئے ؟

۳ _ حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال كى روشنى ميں كنارہ كشى كے اسباب بيان كيجئے ؟

۴ _ حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ وقت سے كس وقت مصالحت كى تھى ؟

۵ _ فدك كہاں واقع ہے يہ مسلمانوں كے ہاتھ كس طرح آيا اور رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے زمانہ حيات مےں كسے بخشا ؟

۶ _ فدك پر قابض ہونے كے محركات بيان كيجئے ؟

۷ _ ابوبكر كى حكومت كے مقابل اہل '' ردہ '' كا كيا ردعمل رہا كيا وہ سب مرتد ہو گئے تھے ؟

۸ _ مرتدين كے ساتھ جنگ كرنے ميں ابوبكر كے پيش نظر كيا محركات تھے اس بارے ميں خليفہ ثانى كا بھى نظريہ پيش كيجئے ؟

۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى وفات كس سنہ ميں واقع ہوئي رحلت كے وقت آپ كى كيا عمر تھى آپ كى تكفين و تدفين كى رسومات كس طرح ادا كى گئيں ؟

۶۴

حوالہ جات

۱ _ جن حضرات كے نام ديئے گئے ہيں ان مےں زبير ' عباس بن ابى لہب ' سلمان ' ابوذر ' مقداد عمار، براء ' ابى بن كعب'سعد بن ابى وقاص اور طلحہ شامل ہيں ليكن الفصول المہمة ميں ان افراد كے علاوہ ديگر حضرات كے نام بھى درج ہيں _

۲ _ الامامة والسيلة ج۱ / ۲۰ _

۳ _ الامامة والسيلمة ج۱ / ۱۹_

۴ _ الشيعة والى كمون / ۱۸ _

۵ _لو وجدت اربعين ذويى عذم منهم لنا هضت القوم شرح ابن ابى الحديد ج۲ / ۴۷ و ۲۲

۶ _ نہج البلاغہ (صبحى صالح)خلبہ ''فنظرت فاذا ليس معين الا اهل بيتيى فضنت بهم عن الموت _

۷ _ اس جماعت نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد اسلام كى مركزى حكومت كے خلاف بغاوت شروع كر دى اور ايك مدت اس كے حملے جارى رہے _

۸ _ نہج البلاغہ خطبہ ج'' شقوا امواج الفتن بسفن النجاة ، عرجوا عن طريق المناضرة وضعوا بتيجان المفاخرة اندمجت على مكنون علم لوبحت به لاضطربتم الاشية فى الطوى البيصره'' _

۹ _'' وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيہ فلن يضراللہ شيئا وسيجزى اللہ الشاكرين'' (محمد اس كے سوا كچھ نہيں كہ بس ايك رسول نہيں ان سے پہلے اور رسول بھى گذر چكے ہيں كيا اگر وہ مر جائيں يا قتل كر ديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤں گے ؟ ياد ركھو جو الٹا پھرے گا وہ اللہ كا كچھ نقصان نہ كرے گا البتہ جو اللہ كے شكر گزار بندے بن كر رہيں گے انھيں وہ اس كى جزادے گا)آل عمران آيہ ۱۴۴_

۱۰ _ نہج البلاغہ خط ۶۲ _

''فامسكت يديى حتى رايت راجعة الناس قد رجعت عن الاسلام يدعون الى محق دين محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فخشيت ان لم انصر الاسلام واهله ان ارى فيه ثلما اوهدما تكون المصيبة به على اعظم من فوت ولايتكم التى هيى متاع ايام قلائل يزول منها ماكان كما يزول السراب اوكما يتقشع السحاب '' _

۶۵

۱۱ _ تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو اسد الغابہ ج۳ / ۲۲۲ ' تاريخ يعقوبى ۲ / ۱۲۶ ' استيعاب ج۲ / ۲۴۴ ' التنبيہ والا شراف / ۲۵۰ اور الامامة والسيامة ج۱ / ۲۰ _

۱۲ _ نہج البلاغہ خطبہ ۳، يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مصالحت اور اجتماعا ميں شركت اسى حد تك تھى كہ جتنى اسلام و مسلمين كى حفاظت كا تقاضا تھا _

۱۳ _فدك خيبر كے نزديك مدينہ سے ۱۴۰ كلوميٹر كے فاصلے پر سرسبز و زرخيز زمين تھى فتح خيبر كے بعد رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك وفد ''فدك'' كے سرداروں كے پاس بھيجا اور بحث و گفتگو كے بعد وہاں كے رہنے والوں نے يہ عہد كيا كہ ہر سال خيبر كى جتنى پيداوار ہوگى اس كا نصف حصہ وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيج ديا كريں گے اور اس كے عوض حكومت كى جانب سے ان كى حفاظت كى جائے گي_اسلامى نظريے كے مطابق وہ زمين جو بغير جنگ كے مسلمانوں كو حاصل ہوتى ہے وہ خالص پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و امامعليه‌السلام كا حصہ ہے اس مسئلے كى رو سے ''فدك'' صرف رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حق تھا چنانچہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى شيعہ محدثين و مفسرين نيز بعض سنى مفكرين كے قول كے مطابق جس وقت آيت ذالقربى حقہ (سورہ اسراء آيت ۲۶) نازل ہوئي تو آپ نے اپنى دختر حضرت فاطمہعليه‌السلام كو بلايا اور ''فدك'' انہيں ديديا(كشف الغمہ ج ۱ / ۷۶ ۴) _

۱۴_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۳۱_

۱۵_ مروج الذہب ج ۳/ ۲۳۷_

۱۶_ فتوح البلدان ۴۴ شيعہ احاديث ميں مذكورہ بالا شواہد كے علاوہ اسماء بنت عميس كا نام بھى شاہد كى حيثيت سے آيا ہے_

۱۷_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۲۲_

۱۸_ اعيان الشيعہ (دس جلدي) ج۱/۳۱۸ منقول از سيرہ حلبي_

۱۹_ كامل ابن اثير ج ۲ / ۳۲۶ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۴۵ _

۲۰_ تاريخ طبرى ج۳/۲۰۲_

۲۱_ زيد بن ثابت كچھ رقم لے كر بنى عدى كى ايك خاتون كے پاس پہنچے اور كہا كہ يہ وہ رقم ہے جو خليفہ نے عورتوں كے درميان تقسيم كى ہے اور يہ تمہارا حصہ ہے اس نيك خاتون نے اپنى ذہانت كے باعث اس رقم كو قبول

۶۶

كرنے سے انكار كيا اور كہا كيا ميرا دين خريدنے كے لئے مجھے يہ رشوت دى جارہى ہے _ (شرح ابن ابى الحديدج۲/۵۳، طبقات ابن سعد ج ۳/۱۸۲)_

۲۲_البدايہ والنہايہ ج ۶ /۳۱۱ قال عمر ھو الاّ ان را يت اللہ قد شرح صدر ابى بكرللقتال فعرفت انہ الحق ''ليكن صحيح بخارى ج ۷/ ۱۷۱ ميں عمر كا جملہ اس طرح نقل كيا ہے فواللہ ما ہو الا ان قد شرح اللہ صدر ابى بكر فعرفت انہ الحق ''_

۲۳_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۱_

۲۴_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۲_

۲۵_ صبت على مصائب لوانہاصبت على الايام صرن لياليا

۲۶_احتجاج طبرسى ج ۱/ ۱۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج /۱۶ / ۲۳۳، بلاغات النساء /۱۹ اور دلائل الامامہ طبري/ ۳۹_

۲۷_ حضرت فاطمہعليه‌السلام كتنے عرصے تك عليل رہيں اس كے بارے ميں اختلاف ہے ابن شہر آشوب نے مناقب ميں بيان كيا ہے كہ آپ چاليس دن تك مريض رہيں اور اسى مرضى كے باعث آپ كى وفات واقع ہوئي حضرت امام باقرعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپ پندرہ تك عليل رہيں اور اس كے بعد آپ كى رحلت ہوئي_(اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹)_

۲۸_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹_

۲۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى تاريخ وفات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد آپ كى مدت عمر كے بارے ميں اختلاف ہے كتاب كے متن مےں جو بات درج كى گئي ہے وہ اقوال مشہور كے مطابق ہے مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت فاطمہ(س)رحلت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد كم از كم چاليس دن اور زيادہ سے زيادہ آٹھ ماہ اس جہان فانى ميں تشريف فرما رہيں مذكورہ بالا دونوں اقوال كے علاوہ مختلف روايات ميں دو ماہ سے پچھتر دن ' تين ماہ اور چھ ماہ عرصہ بھى نقل كيا گيا ہے _

۳۰ _ نہج البلاعہ (صبحى صالح)خ ۲۰۲ _

۶۷

چوتھا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳

سر زمين شام و عراق كى فتح

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

حضرت علىعليه‌السلام ، اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

جانشينى كا تعين

قلمر و اسلام كى وسعت

فتوحات كى خوشنجريوں كے اثرات

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى و علمى مشورے

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

بيت المال كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

خليفہ دوم كا قتل

كونسى شورى ؟

مذكورہ شورى كے بارے ميں عليعليه‌السلام كا رويہ

حضرت علىعليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ

۶۸

عثمان كى خلافت

مسلمانوں كا بيت المال

حضرت علىعليه‌السلام كے پند و نصايح

خليفہ سوم كا قتل

حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران علىعليه‌السلام كے كارنامے

سوالات

حوالہ جات

۶۹

سرزمين شام و عراق كى فتح

داخلى جنگوں كى آگ جب خاموش ہو گئي تو خليفہ وقت نے دو اہم لشكر تيار كيئے ان ميں سے ايك لشكر خالد كے زير فرمان عراق كى جانب روانہ كياجس پر اس وقت ساسانى حكومت كا اثر و غلبہ تھا اور دوسرا لشكر ابو عبيدہ كى سركردگى ميں شام كى سمت ' مشرقى روم كى جانب روانہ كيا _

خالد سب سے پہلے '' حيرہ '' كى طرف متوجہ ہوا ليكن وہاں كے حاكم نے صلح و امن كا طريقہ اختيار كيا اور نوے ہزار درہم ادا كر كے اپنے ملك كے تابع سرزمين كو مسلمين كى در ازدستى سے بچا ليا حيرہ كے بعد '' آبلہ '' '' عين التمر '' اور '' انبار '' جيسے شہر جنگ يا معاہدہ صلح كے ذريعے تابع و مطيع كئے گئے _

عراق كى جانب جب لشكر روانہ كيا گيا تھا تو وہ كاميابى سے ہمكنار ہوا مگر جو لشكر رومى شانہشاہيت كے متصرفات كو فتح كرنے كى غرض سے بھيجا گيا تھا اس كے بارے مےں احتمال تھا كہ كہيں شكست سے دو چار نہ ہو اس خدشے كے پيش نظر ابوبكر نے خالد كو عراق سے واپس بلا ليا اور مسلمانوں كى مدد كے لئے انھيں شام كى جانب جانے پر مقرر كيا خالد كے چلے جانے كے بعد قبيلہ بكر كے سردار مثنى نے لشكر عراق كے ماندارى كى ذمہ دارى قبول كى اور حيرہ سے بابل (يہ شہر موجودہ حلہ كے نزديك واقع تھا)كى جانب روانہ ہوئے خالد جب اپنا مختصر لشكر اسلام لے كر '' يرموك '' پہنچے تو لشكر اسلام كو اس سے بہت فرحت حاصل ہوئي اور بے مثال بہادرى و دليرى سے جنگ كر

۷۰

كے انہوں نے سپاہ روم كو شكست دى چنانچہ انھوں نے پسپا ہو كر دمشق ميں پناہ لى _

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

ابوبكر اگرچہ مسند خلافت پر متمكن ہو گئے ليكن مہاجر و انصار كى نظروں ميں ان كا شمار افضل و اعلى دانشور صحابہ رسول ميں نہيں ہوتا تھا مثلا تفسير قرآن مجيد كے وہ قابل اعتناء توجہ مطالب بيان نہےں كر سكتے تھے چنانچہ جلال الدين سيوطى جيسا تتبع مفسردس سے زيادہ تفسير و مطالب تفسير ان سے نقل نہےں كر سكا ہے جبكہ وہى مفسر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں لكھتا ہے كہ علم تفسير ميں آپ كى بہت سے روايات بيان كى گئي ہيں _(۵)

حنبلى مسلك كے پيشوا مام احمد بن حنبل كو دس لاكھ احاديث ياد تھيں ''(۶) مسند'' ميں انہوں نے پچاس ہزار سات سو احاديث نقل كى ہيں او جو احاديث انہوں نے ابوبكر كے واسطے سے نقل كى ہيں ان كى تعداد اسى (۸۰) سے كم ہى ہے(۷)

ابن كثير نے بہت زيادہ تلاش و جستجو كے بعد ابوبكر سے منقول بہتر (۷۲) احاديث جمع كى ہےں اور انھيں ''مجموعہ مسند صديق '' كا نام ديا ہے جلال الدين سيوطى كى علم تفسير و احاديث پر كافى دسترس تھى اس نے مجموعہ ابن كثير كا سند كے اعتبار سے جايزہ ليا ہے اور ان كى تعداد كو اس نے ايك سو چار تك پہنچا ديا ہے(۸)

حضرت علىعليه‌السلام ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

اوپر جو بيان كيا گيا ہے اس كے پيش نظر ابوبكر كے لئے علمى ہى نہيں بلكہ سياسى مشكلات ميں بھى اس كے سوا چارہ نہ تھا كہ ضرورت كے وقت حضرت علىعليه‌السلام سے رجوع كريں اور آپ سے مدد چاہيں اور يہ بات اس امر كى واضح دليل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كتاب خدا ،حديث رسولعليه‌السلام اور اسلام

۷۱

كے سياسى مصالح كے بارے ميں سب سے زيادہ باخبر ، ذى ہوش شخص تھے مثال كے طور پر ہم يہاں دو واقعے بيان كر رہے ہيں _

اہل روم سے جنگ كرنے كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خود فرمان تھا اسے نافذ كرنے مےں ابوبكر كو تردد تھا اس سلسلے ميں انہوں نے بعض صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشورہ بھى كيا چنانچہ ہر شخص نے اس سے متعلق اپنى رائے كا اظہار كيا بالاخر انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے مشورہ كيا اور رائے جاننا چاہى آپ نے پيغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كو نافذ كئے جانے كى ترغيب دلائي اور مزيد فرمايا '' ان فعلت ظفرت '' يعنى اگر آپ يہ اقدام كريں گے تو كامياب ہوں گے خليفہ نے بھى آپ كے كہنے پر عمل كيا _(۹)

۲ _ ايك شخص نے شراب پى ركھى تھى نشہ كى حالت ميں اسے خليفہ كے روبرو لايا گيا اس شخص نے كہا مجھے علم نہ تھا كہ شراب پينا حرام قرار ديا گيا ہے كيونكہ اب تك ميں نے اس ماحول ميں پرورش پائي ہے جہاں شراب كو حلال سمجھا جاتا ہے خليفہ كى سمجھ ميں نہيں آيا كہ كيا كريں چنانچہ انہوں نے ايك شخص كو حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں روانہ كيا اور كہا كہ اس مشكل كو حل فرمائيں _(۱۰)

جانشينى كا تعين

عمر نے ابوبكر كو خليفہ بنانے كے لئے بہت زيادہ سعى وكوشش كى جس كا مقصد يہ تھا كہ خليفہ اول كے بعد خلافت ان كو ملے ، ابوبكر نے بھى ان كى مرضى كے خلاف كوئي اقدام نہ كيا_ جس وقت بستر علالت پر وہ تھے تو انہوں نے عثمان كو بلايا اور كہا لكھو:

يہ عہد نامہ ابوبكر جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مسلمانوں كے لئے ہے بات يہيں تك پہنچى كہ ابوبكر پر غشى طارى ہوگئي عثمان كو يہ گمان گذرا كہ شايد خليفہ گذر گئے ہيں چنانچہ انہوں نے اس عہدنامے كى اس طرح تكميل كي_ ابوبكر نے اپنے بعد عمر بن خطاب كو اپنا جانشين مقرر كيا ہے _ اسى اثناء ميں ابوبكر كو ہوش آگيا اور جب انہيں يہ معلوم ہوا كہ عثمان نے كيا لكھا ہے تو انہوں نے كہا ''تم نے

۷۲

ٹھيك لكھا ہے اس معاملے ميں ميرى اور تمہارى ايك ہى رائے ہے_ (۱۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے نہج البلاغہ ميں ابوبكر كے اس اقدام پر سخت تنقيد كى ہے _ چنانچہ فرماتے ہيں ''عجيب بات ہے كہ وہ شخص جو زندگى ميں لوگوں سے كہا كرتا تھا كہ وہ ميرا عذر قبول كريں اور (علىعليه‌السلام كے ہوتے ہوئے) اس كو خلافت سے معذور ركھيں خود مرتے وقت خلافت (كى دلہن) كا پلا دوسرے سے باندھ گيا _(۱۲)

قلمرواسلام كى وسعت

عمر كے دور خلافت ميں مسلمانوں كو بہت سى فتوحات نصيب ہوئيں اور ايران و روم جيسى دو عظےم شہانشاہى حكومتوں كے دروازے ان پر كھل گئے_

عراق ميں مسلمانوں نے جس تيزى سے پيشرفت كى اس كے باعث انہيں يہ اميد نظر آنے لگى كہ ساسانى حكومت كے اصل سرزمين پر بھى وہ حملہ كرسكيں گے چنانچہ عمر نے ابوعبيدہ كو ايران كى فتح كے لئے فرماندار مقرر كيا اور مثنى چونكہ عراق ميں مقيم تھے انہيں حكم ديا كہ وہ اپنے لشكر كے ساتھ ابوعبيدہ كى اطاعت و پيروى كريں _

ايران كے بادشاہ ''يزدگرد سوم'' نے اپنے سرداروں كو كثير طاقت جمع كرنے كے بعد حكم ديا كہ وہ مسلمانوں كى پيشرفت كو روكيں اگرچہ اس كے سردار ہر چند لايق و جنگجو تھے مگر وہ سب ايك دوسرے كے بعد يا تو قتل ہوئے يا انہوں نے لشكر اسلام سے صلح كرلي_ ايرانى سرداروں ميں بہمن جادويہ ہى ايسا سردار تھا جو مطيع و فرمانبردار نہ ہوا چونكہ اس كى فوج ہاتھيوں كے لشكر سے آراستہ تھى جنہيں ديكھ كر عربوں كے گھوڑے بھڑك گئے چنانچہ ''جسر'' ميں ابوعبيدہ شہيد ہوئے اورباقى لشكر نے پسپا ہوكر فرات كے پار جاكر پناہ لي_

ليكن ايك سال بعد(۱۴ ھ) ميں سپاہ اسلام نے مثنى كے زير فرمان ''بويب(۱۲) '' ميں سپاہ ايران پر فتح پائي اور اس سے جنگ جسر كى شكست كى تلافى ہوگئي_

۷۳

اس كے بعد قادسيہ وقوع پذير ہوئي اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو ايرانى اور اسلامى افواج كے سپہ سالاروں (سعد وقاص اور رستم فرح زاد) كے درميان ايلچيوں كے ذريعے گفت وشنيد ہوتى رہى _ ايلچيوں كى اس ملاقات ميں سپاہ اسلام كے سپہ سلار نے بھى مطالبہ كيا كہ دو چيزوں ميں سے ايك چيز قبول كى جائے، اسلام يا جزيے كى ادائيگى _ ليكن رستم فرح زاد جو بڑا خود سر سردار تھا يہى كہتا رہا كہ جس وقت تك ہم تمہيں قتل نہ كرديں گے دم نہ ليں گے_

بالآخر چار دن كى جنگ كى بعد مسلمان فتح و كامرانى سے ہمكنار ہوئے اور اس طرح محرم سنہ ۱۴ ھ ميں ايران كے دروازے لشكر اسلام پر كھل گئے اور نور ايمان وتوحيد نے اس سرزمين كو اپنى آمد سے منور كيا_

دوسرى طرف شہنشاہ روم كى فوج نے يرموك ميں اپنى شكست كے بعد دمشق ميں پناہ لى اور اپنى اس شكست كے تلافى كرنے كى غرض سے اس نے عظےم فوجى طاقت جمع كى ليكن يہ لشكر بھى شكست سے دوچار ہوا اور مسلمانوں نے دمشق و اردن جيسے شہروں پر فتح پائي_ سنہ ۱۷ ميں مسلمانوں نے فلسطين كو بھى جو فوجى اور تاريخى لحاظ سے اہم شہر تھا ، تسخير كيا_ ۱۹ ھ ميں عمر وعاص نے بحر احمر كو عبور كركے مصر كى جانب رخ كيا_''بابليوں '' ميں باز نطينى سپاہ سے مقابلہ ہوا اس ميں بھى لشكر اسلام كو كاميابى نصيب ہوئي _ وہاں سے وہ عين الشمس اور روم كى جانب روانہ ہوا تاكہ شہنشاہ روم كى رضايت حاصل كركے اسكندريہ پہنچ جائے _ چنانچہ چند ماہ كے محاصرے كے بعد اسكندريہ كو بھى فتح كرليا اور اس طرح شمالى افريقہ كے لئے راستہ ہموار ہوگيا_

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات

مغايرت و مخالفت سے قطع نظر جو محركات خلفاء كے زمانے ميں ان فتوحات كے ذريعے مسلمانوں كو ہوئے اگر ان كا موازنہ ان جنگوں اور فتوحات سے كياجائے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ظہور پذير ہوئيں تو اس نكتے كو ملحوظ خاطر ركھنا ضرورى ہے ، ان فتوحات سے يہ ثابت نہيں ہوتا

۷۴

كہ ان كے باعث دربار خلافت كى شان وشوكت ميں اضافہ ہوا ، اس ميں شك نہيں كہ ايك طاقتور و فاتح فوج كو اعلى مقاصد ، حوصلہ مندانہ آمادگى ، فن حرب وضرب سے واقفيت اور فوجى تربيت جيسے عوامل و اوصاف كا مجموعہ ہوناچاہئے مگر اس كا چندان ربط و تعلق موجودہ سپہ سالاروں سے نہيں تھا _ مسلمانوں كى فتح وكامرانى ميں جو عوامل كار فرما تھے اور انہيں دو عظيم شہنشاہى حكومتوں سے قوت آزما ہونے كيلئے ترغيب دلاتے تھے، وہ پيغمبرا كرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ خوش خبرى تھى كہ مسلمان ايران اور وم جيسى سرزمينوں كو فتح كريں گے ان كے علاوہ بھى ديگر ايسے عوامل تھے جن سے مسلمانوں كى ميدان جنگ ميں حوصلہ افزائي ہوتى تھى مگر انكا تعلق كسى طرح بھى حكومت وقت سے نہ تھا بلكہ ان ميں وہ شہرت ونيك نامى كے عناصر كار فرماتھے جو رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شير خدا علىعليه‌السلام جيسے پيشوايان اسلام نے اپنے كردار كے ذريعے قائم كئے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے

حضرت علىعليه‌السلام خليفہ اول كى طرح خليفہ دوم كے بھى اہم مشكل كشا تھے اور ان كى بھى سياسى و علمى مشكلات كو حل فرماتے تھے يہاں ہم بطور مثال دو واقعات پيش كررہے ہيں _

جنگ قادسيہ ميں سپاہ ايران كى شكست كے بعد ايران كے بادشاہ يزدجرد نے فيروزان كے كمانڈرى ميں عظيم لشكر مرتب كيا تاكہ وہ آيندہ عربوں كے حملات كا سد باب كرسكے ، كوفہ كے حاكم نے خط كے ذريعے تمام واقعات كى اطلاع خليفہ كو دى ، عمر مسجد ميں آئے اور اصحاب سے مشورہ كيا كہ وہ مدينہ ميں ہى رہيں يا اس علاقے ميں پہنچ كر جو بصرہ وكوفہ كے درميان واقع ہے ، سپاہ اسلام كى كمان سنبھاليں _ عثمان اور طلحہ نے دوسرے نظريے كى تائيد كى اور اس ضمن ميں مزيد كہا كہ آپ سرداران سپاہ شام ويمن كو لكھيں كہ وہ آپ سے ملحق ہوں _ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے دونوں ہى نظريات كى مخالفت كى اور فرمايا كہ وہ شہر جو حال ہى ميں مسلمانوں كے تصرف ميں آئے ہيں انہيں فوج سے خالى نہيں رہنا چاہيئےيونكہ ايسى صورت ميں ممكن ہے كہ حبشہ كى فوج يمن پر اور روم كا لشكر

۷۵

شام پر قبضہ كرلے _ عمر كى پہلى تجويز كے بارے ميں بھى آپ نے مشورہ ديا اور فرمايا كہ اگر آپ مدينہ سے باہر چلے جائيں گے تو ممكن ہے كہ اطراف كے اعراب اس موقع كا فائدہ اٹھائيں اور يہاں كوئي فتنہ بپا كريں اس كے علاوہ اگر آپ محاذ جنگ پر پہنچيں گے تو دشمن جرى ہوجائے گا كيونكہ جب عجمى سپاہى آپ كو ديكھيں گے تو كہيں گے كہ عربوں كى جڑ بنياد يہى شخص ہے گر اس كو كاٹ ڈاليں تو سارا جھگڑا ہى پاك ہوجائے گا_

حضرت علىعليه‌السلام كى بات سننے كے بعد عمر نے روانگى كے خيال كو ترك كرديا اور كہا كہ قابل عمل رائے علىعليه‌السلام كى ہے مجھے انہى كى پيروى كرنى چاہيئے_(۱۳)

ايك شخص خليفہ كے پاس آيا اور شكايت كى كہ ميرى بيوى كے يہاں شادى كے چھ ماہ بعد ولادت ہوئي ہے عورت نے بھى اس بات كو قبول كيا اس پر خليفہ نے حكم ديا كہ اسے سنگسار كياجائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حد جارى كرنے سے منع كيا اور فرمايا كہ قرآن كى روسے عورت چھ ماہ پورے ہوجانے پر وضع حمل كرسكتى ہے كيونكہ مدت حمل اور شيرخوار تيس ماہ معين ہے_(۱۴)

اور دوسرى آيت ميں دودھ پلانے كى مدت دوسال بتائي گئي ہے _(۱۵) اور اگر تيس ماہ ميں سے دو سال كم كرديئے جائيں تو مدت حمل چھ ماہ رہ جاتى ہے _ حضرت علىعليه‌السلام كى منطقانہ گفتگو سننے كے بعد عمر نے كہا''لو لا على عليه‌السلام لهلك عمر'' _''اگر علىعليه‌السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاك ہوجاتا''_(۱۶)

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

ابوبكر و عمر كے زمانہ خلافت ميں بنى ہاشم اور حضرت علىعليه‌السلام كے ہوا خواہوں كو عملى طور پر حكومت كے اہم عہدوں سے دور ركھا گيا اور يہ كوشش كى گئي كہ اس زمانے كہ دل ودماغ سے اہل بيتعليه‌السلام كى اعلى اقتدار كو محو كردياجائے_

اس كے مقابل اموى گروہ بتدريج معاشرے كى رہبرى ميں اثر رسوخ پيدا كرتا رہا _ اس

۷۶

نظريے كے بہت سے تاريخى شواہد موجود ہيں جن ميں سے چند كا ذكر ذيل ميں كياجاتا ہے_

۱_ ابوبكر نے اس زمانے كى وسيع وعريض مملكت ميں سے چھوٹا سا حصہ بھى بنى ہاشم ميں سے كسى كو نہيں ديا كہ جبكہ شام كو سياسى اہميت حاصل ہونے كے باوجود ابوسفيان كے بيٹے يزيد كے اختيار ميں ديديا تھا _(۱۷)

۲_ عمر ''حميص'' كى حكومت حضرت ابن عباس كو دينے سے منصرف ہوگئے جبكہ معاويہ كو شام پر مسلط كرنے كے سلسلہ ميں كسى قسم كا دريغ نہيں كيا _

۳_ محض چند لوگوں كى اس شكايت پر كہ عمار ياسر ايك ضعيف انسان ہيں خليفہ دوم نے كوفہ كى گورنرى سے انہيں معزول كيا اور مغيرہ كو گورنر مقرر كيا چند روز بعد مغيرہ كى بھى شكايت پہنچى ليكن اس كا ذرہ برابر اثر نہ ہوا_(۱۸)

خليفہ اول و دوم اگرچہ ابوسفيان سے بہت زيادہ خوش نہ تھے اور اسى وجہ سے انہوں نے اموى خاندان كے افراد كو حد سے زيادہ سياسى امور ميں داخل ہونے نہيں ديا مگر اس كا ميدان انہوں نے عثمان كے زمانہ خلافت ميں ہموار كرديا تھا _ مثلاً عمر جانتے تھے كہ شورى جس كى انہوں نے تشكيل كى ہے اس كانتيجہ يہ برآمد ہوگا كہ عثمان كو خليفہ منتخب كرلياجائے گا چنانچہ اس نے خود بھى يہ بات كہہ دى تھى كہ اگر عثمان حاكم ہوئے تو وہ بنى اميہ كو لوگوں پر مسلط كرديں گے_(۱۹)

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

جيسا كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تاريخ حيات ميں بيان كياجاچكا ہے كہ آپ نے اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں چاہا تھا كہ امت كے لئے ايك نوشتہ لكھ ديں تاكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد وہ گمراہ نہ ہو مگر عمر نے منع كيا اور كہا كہ ہمارى لئے قرآن كافى ہے_

اس خيال كى پيروى كرتے ہوئے انہوں نے اپنے زمانہ خلافت ميں حكم ديا كہ احاديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قلم بند نہ كياجائے اور اگر انہيں كوئي حديث لكھى ہوئي مل جاتى تو اسے ضبط كركے جلوا ديتے_

۷۷

انہوں نے تمام شہروں ميں يہ منادى كرادى كہ اگر كسى كے پاس كوئي حديث ہے تو وہ اسے نيست ونابود كردے _(۲۰) چنانچہ قاسم بن محمد بن ابى بكر سے منقول ہے كہ عمر كے زمانے ميں احاديث بہت زيادہ جمع ہوگئيں جب ان كے پاس لائي گئيں تو حكم ديا كہ انہيں جلاديا جائے_(۲۱)

ابوبكر نے بھى اپنے زمانہ خلافت ميں پانچ سو احاديث جمع كيں _ عائشہ فرماتى ہيں : مجھ سے كہا كہ احاديث ميرے پاس لاؤ جب انہيں لايا گيا تو ان سب ميں آگ لگادى گئي _(۲۲) چنانچہ يہ روش عمر بن عبدالعزيز كے دور خلافت تك جار رہى _

اس رويے كو اختيار كرنے كى وجہ وہ يہ بتاتے تھے كہ اگر عوام كى توجہ احاديث كى جانب رہے تو وہ قرآن سے دور ہوجائيں گے درحاليكہ قرآن كا يہ ارشاد ہے كہ ''پيغمبر جو كچھ تمہارے لئے لائے ہيں ، اسے قبول كرلو اور جس چيز سے منع كيا ہے اس سے باز رہو ''_(۲۳) رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كا امكان پيدا ہونے كے لئے ضرورى ہے كہ وہ احاديث جن ميں بالخصوص اوامر و نواہى كے بارے ميں آپ نے فرمايا محفوظ رہنى چاہئے ورنہ كس طرح رسول كى اطاعت ہوسكے گى ؟

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عہد ميں سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ مقرر نہ تھى بلكہ اخراجات زندگى مال غنيمت كے ذريعے مہيا كئے جاتے تھے _ اس كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ زندگي' عربوں كى نسلى فضيلت يا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ قرابت دارى كو ملحوظ نہيں ركھا جاتا تھا_

خليفہ اول كے زمانے ميں بھى يہى طريقہ رائج رہا ليكن خليفہ دوم كے زمانے ميں اس طريقہ كار كو بدل ديا گيا انہوں نے سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ كے لئے عليحدہ رجسٹر بنايا اور اس كى تقسيم كے لئے نسل ونسبت كو معيار قرار ديا ان كے درميان عرب كو عجم پر ، قحطان كے عرب كو عدنان كے عرب پر ، مضر كو ربعيہ پر ، قريش كو غير قريش پر اور بنى ہاشم كو بنى اميہ پر برترى و

۷۸

فضيلت تھى اور انہيں بيشتر مراعات حاصل تھيں _(۲۴)

كچھ عرصہ گذرا تھا كہ ذخيرہ اندوزوں اور دنيا پرستوں نے اس طريقہ كار كى بدولت جس طرح بھى ممكن ہوسكتا تھا مال جمع كرنا شروع كرديا وہ غلاموں اور كنيزوں كو خريد ليتے اور انہيں مختلف كاموں پر زبردستى لگاديتے تاكہ ان كے لئے زندگى كى سہولتيں فراہم كرنے كے علاوہ ہر روز نقدرقم بھى اپنے آقائوں كو لاكر ديں _

خليفہ دوم كا قتل

فيرو زايرانى ابولو لو مغيرہ كا غلام تھا_ اپنى زندگى كے اخراجات پوركرنے كے علاوہ وہ مجبور تھا كہ ہر روز دو درہم مغيرہ كو ادا كرے اس نے ايك روز خليفہ كو بازار ميں ديكھا اس نے فرياد كى كہ اس كے آقانے اس سے ہرروز دو درہم وصول كرنے كا جو بار اس پر ڈالا ہے وہ اس كےلئے ناقابل برداشت ہے _ ليكن خليفہ نے بڑى بے اعتنائي سے جواب ديا كہ تجھ جيسے ہنرمند اور ماہر فن شخص كے لئے اتنى مقرر كردہ رقم كوئي زيادہ نہيں ميں نے تو يہ سنا ہے كہ تو ايسى چكى بناسكتا ہے جو ہوا كے رخ پر گردش كرتى ہے_ كيا ايسى چكى تو ميرے لئے بھى بناسكتا ہے ؟ فيروز كو چونكہ خليفہ كى بے اعتنائي سے بہت تكليف پہنچى تھى اس نے كہا كہ ميں آپ كيلئے ايسى چكى بنائوں گا جس كى مشرق و مغرب ميں كہيں مثال نہ ملے گى اور بالآخر ماہ ذى الحجہ ۲۳ ھ ميں اس نے خليفہ كو قتل كرديا_

كونسى شوري؟

عمر نے جب موت كے آثار ديكھے تو انہوں نے چھ ايسے افراد كو جن سے اس كے بقول پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں بہت خوش تھے ، بلوايا وہ يہ چھ افراد تھے:

حضرت علىعليه‌السلام _ عثمان _ طلحہ اور زبير _ عبدالرحمن بن عوف اور سعد وقاص_

۷۹

عمر نے ہر ايك كى معنوى خصوصيت بيان كرنے كے بعد كہا كہ : اگر ميرے بعد خليفہ مقرر كرنے كے سلسلے ميں تم نے اتفاق رائے سے كام ليا تو تمہيں نيز تمہارے فرزندان كو درخت خلافت كے ميوے سے فےض پہنچے گا ورنہ خلافت كى گيند كو معاويہ اچك ليگا _ اس كے بعد انہوں نے اباطلحہ كو كچھ ضرورى نصيحتيں كيں اور مزيد فرمايا اگر پانچ افراد نے اتفاق رائے كيا اور ايك نے مخالفت يا چار افراد ايك طرف ہوگئے اور دو شخص دوسرى جانب ، تو ايسى صورت ميں جو اقليت ميں ہوں ان كى گردن اڑا دينا اگر دونوں فريق برابر ہوئے تو حق اس طرف جائے گا جس طرف عبدالرحمن ہوں گے اگر تين دن گذر جائيں او ركسى بھى مرحلے پر اتفاق رائے نہ ہو تو سب كو قتل كردينا اور مسلمانوں كو ان كے حال پر چھوڑنا كہ اس كے بعد وہ جسے بھى چاہيں خليفہ مقرر كريں _(۲۵)

حضرت عمر كے انتقال كے بعد اس شورى ميں طلحہ نے اپنا حق حضرت عثمان كو دے ديا اور زبير حضرت علىعليه‌السلام كے حق ميں دستبردار اور سعد بن ابى وقاص نے اپنا ووٹ عبدالرحمن بن عوف كو دےديا ، يوں خلافت كے ليئے صرف تين اميدوار يعنى حضرت عثمان، حضرت علىعليه‌السلام اور عبدالرحمن باقى بچ گئے پھر عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب رخ كيا اور كہا كہ ميں اس شرط پر آپ كى بيعت كرتاہوں كہ آپ كتاب خدا ، سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شيخين كى روش پر عمل كريں گے اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں كتاب خدا اور سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اپنے اجتہاد كى بنياد پر عمل كروں گا_ عبدالرحمن نے يہى بات عثمان كى جانب رخ كركے كہى عثمان نے ان كى اس شرط كو فوراً قبول كرليا ،ا س كے بعد انہوں نے عثمان كے ہاتھ پر ہاتھ ركھديا اور انہےں ''اميرالمؤمنين'' ہونے كى حيثيت سے سلام كيا _(۲۶)

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كى نظر

جس وقت شورى كے اراكين كا تعين ہوا تو حضرت علىعليه‌السلام نے ابتدا ہى ميں اس كے فيصلے سے باخبر كرديا تھا اور عباس سے كہا تھا ''عدلت عنا'' يعنى ہمارے خاندان سے خلافت كا رخ موڑ ديا گيا ہے انہوں نے دريافت كيا كہ آپ نے كيسے جانا تو آپ نے فرمايا كيونكہ عثمان كو ميرے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348