تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) 16%

 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 348

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 348 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 175293 / ڈاؤنلوڈ: 4063
سائز سائز سائز
 تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام (امير المؤمنين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

مقابل لايا گيا ہے_ (۲۷)

جب شورى كے نتيجے كا اعلان كيا گيا تو اس وقت بھى آپ نے فرمايا تھا عمر نے اپنى موت كے بعد خلافت كو ايك جماعت ميں محدود كرديا اور مجھے بھى اس جماعت كا ايك ركن قرار ديا ہے بھلا ميرا اس شورى سے كيا تعلق ہے ان ميں سے سب سے پہلے ہى كے مقابلہ ميں ميرے استحقاق ميں كب شك تھا كہ جواب اس قسم كے لوگوں ميں شامل كرليا گيا ہوں ؟ وہ پرندہ كى طرح كبھى زمين پر چلتے تھے اور كبھى اڑنے لگتے تھے مجبوراً ميں نے بھى نشيب وفراز ميں ان سے ہم آہنگى كى ان ميں سے ايك (سعد بن ابى وقاص) تو كينہ توزى كى وجہ سے حضرت عثمان كى طرف چلاگيا اور دوسرا (عبدالرحمن بن عوف) دامادى اور بعض ناگفتہ باتوں كى وجہ سے ادھر جھك گيا_(۲۸)

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے اس بيان كے ذريعے اس مجلس مشاورت كے حقيقى چہرے كو بے نقاب كرديا اور يہ بات واضح كردى كہ آپ كا شمار كسى طرح بھى اس شورى كے اراكين ميں نہےں ہے اس كے علاوہ عثمان كے حق ميں رائے دہى ان كے رائے غير جانبدار نہ تھى بلكہ اس ميں كينہ توزى اور قرابت دارى جيسى ذاتى اغراض شامل تھيں اور جس وقت خلافت كيلئے فيصلہ كيا جارہا تھا اس وقت يہ عوامل كار فرما تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ

جيسا كہ اس سے قبل اشارہ كياجاچكا ہے كہ عمر نے جس شورى كى تشكيل كى تھى اس كى ہيئت شروع سے ہى يہ بتا رہى تھى كہ اس كے ذريعے حضرت عليعليه‌السلام كو اميرالمومنينعليه‌السلام منتخب نہيں كياجائے گا اب يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ جب حضرت علىعليه‌السلام نے جب پہلے ہى يہ انداز لگاليا تھا تو آپ نے اس شورى ميں شركت ہى كيوں فرمائي؟

اس سوال كا جواب دينے كے لئے ضرورى ہے كہ ان نكات كى جانب توجہ دلائي جائے جن ميں بعض آپ ہى كے اقوال ہيں _

۸۱

۱_ ابن عباس نے آپ سے كہا تھا كہ اس شورى ميں شركت نہ كيجئے تواس پر آپ نے يہ فرمايا كہ مجھے اختلاف پسند نہيں _ (۲۹)

۲_ قطب راوندى كے قول كے مطابق ابن عباس كے سوال كے جواب ميں ہى آپ نے يہ فرمايا تھا كہ ميں جانتا تھا كہ شورى كى تشكيل كس نہج پر ہوئي ہے اس كے باعث خلافت ہمارى خاندان سے چلى جائے گى ليكن ميں نے ان كى اس شورى ميں شركت كى جس كى وجہ يہ تھى كہ عمر نے مجھے خلافت كا اہل و شايستہ جانا ليكن اس سے قبل انہوں نے ہى كہا تھاكہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ہے كہ نبوت اور امامت ايك گھر ميں جمع نہ ہوں اب ميں اس شورى ميں شامل كرليا گياہوں تو چاہتاہوں لوگوں كے سامنے كہ ان (عمر)كے فعل كى ان كى بيان كردہ روايت كى مخالفت كو واضح كردوں _(۳۰)

مذكورہ شورى ميں حضرت علىعليه‌السلام كى عدم شركت كے باعث فيصلہ كرنے كا اختيار عبدالرحمن كو ہوتا ايسى صورت ميں اگر حضرت علىعليه‌السلام مخالفت كرتے تو اس ہدايت كے مطابق جو عمر نے كى تھى تو آپ كو قتل كروايا جاتا اس اعتبار سے صحيح اور منطقى راہ وہى تھى جسے آپ نے پيش نظر ركھا_

عثمان كى خلافت

خليفہ دوم كى وفات كے بعد عثمان نے زمام امور اپنے ہاتھوں ميں سنبھالى ، انہوں نے روز اول سے وہى راہ اختيار كى جس كا عمر كو خدشہ تھا_ چنانچہ بتدريج اپنے قرابت داروں (بنى اميہ) كو اہم مناصب پرمقرر كرنا شروع كيا_

اپنے ماموں زاد بھائي عبداللہ ابن عامر كو جس كى عمر ابھى پچيس سال ہى كى تھى بصرے كا والى مقرر كرديا اور اپنے ماموں وليد ابن عقبہ جيسے بدكار شخض كو كوفہ كا گورنر مقرر كيا يہ شخص بحالت مستى مسجد ميں داخل ہوا اور فجر كى نماز ميں چار ركعت پڑھادى نماز پڑھانے كے بعد اس نے اپنے مقتديوں سے كہا كہ اگر آپ چاہيں تو ميں مزيد چند ركعت پڑھاسكتاہوں _

۸۲

معاويہ كو عمر نے دمشق اور اردن كا گورنر مقرر كيا تھا ليكن عثمان نے ان ميں حمص ، فلسطين اور جزيرہ كے علاقوں كا بھى اضافہ كرديا اور اس كے لئے ايسے مواقع فراہم كرديئے جس سے اس كے تسلط واقتدار ميں اضافہ ہوسكے_

اسى طرح انہوں نے اپنے رضاعى بھائي عبداللہ بن سعد كو مصر كا گورنر مقرر كيا_ مروان بن حكم كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہر بدر كرديا تھا مگر عثمان نے اسے اپنے حواريوں ميں شامل كركے اسے اپنا مشير مقرر كرديا_

مختصر يہ كہ ان كى خلافت كے دوران قليل عرصے ميں ہى بصرہ، كوفہ ، شام اور مصر جيسے چار عظےم صوبے جنہيں فوجى اجتماعى اور اقتصادى اعتبار سے خاص اہميت حاصل تھى ، بنى اميہ كے زير تسلط آگئے اور وہ عرب خاندان جو صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نسلوں سے تھے نيز ديگر افراد قبائل حكومت كے عہدوں سے محروم كرديئے گئے_

اموى دستے نے بھى اس موقع كو غنيمت جانا اور شروع سے ہى اپنى وضع وحالت كو استحكام دينے سے كوئي دقيقہ فرو گذاشت نہ كيا_

ابوسفيان نے عثمان كے دور خلافت كى ابتدا ميں ہى اپنے قبيلے كے لوگوں سے كہنا شروع كرديا تھا كہ اے بنى اميہ حكومت كو گيند كى مانند ايك ہاتھ سے دوسرے ہاتھ كى جانب اچھالتے رہو ميرى ہميشہ يہى آرزو رہى ہے كہ حكومت تمہارے ہى ہاتھوں ميں رہے اور تمہارے بچوں كو ورثے ميں ملے_(۳۱) ابوسفيان كى نصےحت كے مطابق بنى اميہ اس پر كاربند ہوگئے كہ امور حكومت ميں داخل ہوكر اپنے ان رسوخ كو وسيع كريں اور خلافت كو سلطنت ميں تبديل كرديں تاكہ اسے اموى خاندان كى ميراث بنانے ميں كامياب ہوسكيں _

مسلمانوں كا بيت المال

وہ كثير دولت جو تازہ مفتوحہ علاقوں سے بطور خراج اور مال غنيمت خلافت اسلاميہ كے مركز كى

۸۳

جانب كشاں كشاں چلى آرہى تھى ، ايسا طرہ امتياز بن گئي تھى جس نے خليفہ سوم كى حيثيت كو ديگر خلفاء سے عليحدہ كرديا تھا_ چنانچہ خليفہ نے خود ہى يہ امتياز حاصل كرليا تھا كہ اگر چاہيں تو وہ اس مال و دولت ميں تصرف كرسكتے ہيں _

قرابت دار،ہم قوم افراد ،قريش كے امرا اور بعض اراكين مجلس ومشاورت اس مال و دولت سے بخشش و بخشايش كے ذريعے فيضياب ہورہے تھے_ اسلامى خلافت كى وسيع و عريض سرزمين پر صوبہ دار اور حكام بھى اسى راہ و روش پر عمل كر رہے تھے_( ۳۳) چنانچہ مسعودى لكھتا ہے كہ : جس وقت عثمان كا قتل ہوا اس وقت ان كے پاس ايك لاكھ پچاس ہزار سونے كے دينار تھے اور دس لاكھ درہم تھے_ ''وادى القري'' ، ''حنين '' اور ديگر مقامات پر جو باغات تھے ان كى قيمت كا تخمينہ ايك لاكھ سونے كے دينار لگايا گيا تھا _ اونٹوں كے گلے اور گھوڑوں كے غول ان سے عليحدہ تھے _(۳۴) حاكم بصرہ بيت المال سے جو سونے اور چاندى كے سكے نكال كر عثمان كے پاس لايا تھا انہوں نے انہيں كيل سے ناپ ناپ كر پيمانے سے خاندان بنى اميہ كى خواتين اور ان كے بچوں كے درميان تقسيم كئے تھے_(۳۵)

عبداللہ بن شرح كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہر بدر كرديا تھا _ فتح افريقہ كے بعد جب وہ واپس آيا اور وہاں سے مال غنيمت اپنے ساتھ لايا تو اس كى قيمت پچيس لاكھ بيس ہزار دينار تھى _ عثمان نے يہ سارا مال اسے ہى بخش ديا_(۳۶)

ايك روز اس نے حكم ديا كہ بيت المال سے دو لاكھ درہم سفيان اور ايك لاكھ درہم مروان كو عطا كرديئے جائيں _(۳۷) اس كے علاوہ ديگر ايسے بہت سے مواقع پر جن كے ذكر كى يہاں گنجائشے نہيں ، موصوف نے دل كھول كر داد و دہش سے كام ليا_

حضرت علىعليه‌السلام كے پندو نصايح

جس وقت لوگ اور بزرگ صحابى عثمان كى راہ و روش اور ان كے كارندوں كى زيادتيوں سے

۸۴

تنگ آگئے تو وہ حضرت علىعليه‌السلام كے پاس پہنچے اور شكايات كے ضمن ميں يہ درخواست كى كہ وہ ان كے نمايندے كى حيثيت سے عثمان كے پاس جائيں اور كہيں كہ وہ لوگوں كو اپنے كارندوں كے شر سے نجات دلائيں _اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام عثمان كے پاس تشريف لے گئے اور آپ نے نصيحت فرمائي _ دوران گفتگو ان سے كہاكہ : عثمان خدا سے ڈرو اور اپنے اوپر رحم كرو خدا كے بہترين بندوں ميں وہ عادل پيشوا ہے جو خود ہدايت يافتہ ہو اور دوسروں كو بھى ہدايت كرے مروان سے تم اتنے نہ دبو كہ وہ تمہيں اس پختہ عمر اور پيرانہ سالى ميں جہاں چاہے ليئے پھرے_(۳۸) بعض صحابہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب عثمان كى كاركردگى اور ان كے كارندوں كى زيادتيوں پر اعتراض كيا تو عثمان كا عتاب نازل ہوا _ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جن بزرگ صحابہ سے انہوں نے ناروا سلوك كيا ان ميں سے تين قابل ذكرہيں _

حضرت ابوذرعليه‌السلام نيك صالح بزرگ تھے ان كا شمار پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عظےم الشان صحابہ ميں ہوتا تھا _ عثمان نے انہيں شہر بدر كركے ''ربذہ''(۳۹) چلے جانے كا حكم ديا يہى نہيں بلكہ يہ حكم جارى كرديا كہ رخصت كرنے كى غرض سے ان كے ساتھ كوئي شخص نہ جائے_ چنانچہ جس وقت وہ روانہ ہوئے تو انہيں رخصت كرنے كے لئے حضرت علىعليه‌السلام آپ كے دو فرزند اور حضرت عقيل و حضرت عمار ياسر كے علاوہ اور كوئي شخص نہ تھا _(۴۰)

عمار ياسر اور عبداللہ بن مسعود بزرگ صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھى وہى حالت گذر گئي جس سے حضرت ابوذرعليه‌السلام دوچار ہوئے تھے_ عبداللہ كے بارے ميں ان كے غلاموں كو حكم ديا گيا كہ وہ انہيں خوب زدو كوب كريں _چنانچہ انہوں نے موصوف كو اس برى طرح زمين پر پٹخا اور اتنا مارا كہ ان كى پسلياں ٹوٹ گئيں _ بيت المال سے جو انہيں وظيفہ دياجاتا تھا وہ بھى منقطع كرديا گيا اور لوگوں كو منع كرديا گيا كہ كوئي ان كى عيادت كو نہ جائے_(۴۱)

حضرت عمار نے جب يہ اعتراض كيا كہ بيت المال كو پانى كى طرح بہايا جارہا ہے اور حكومت كے عہدے نالايق افراد كو ديئے جارہے ہيں تو ان پر بھى خليفہ اور انكے خدمتگاروں كا عتاب نازل ہوا جن كے باعث وہ مرض فتق ميں مبتلا ہوگئے _(۴۲)

۸۵

خليفہ سوم كا قتل

بنى اميہ كو كارگاہ خلافت اور ولايت كے صدر ومقامات پر بروئے كار اور بر سر اقتدار لانا ، ان كا موقع سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور ان بزرگ ہستيوں كى جانب نكتہ چينى كيا جانا جن كا شمار بزرگ صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں ہوتاتھا ايسے عوامل تھے جن كے باعث لوگ عثمان كے خلاف طيش وغضب ميں آگئے اور انفرادى اعتراضات، عوامى غم وغصہ كا سبب بن گئے_

عوامى غم وغصہ كا مقابلہ كرنے كى غرض سے عثمان نے حاكم شام معاويہ اور بصرہ كے گورنر عبداللہ بن سعد كو خط لكھا اور مخالفين كى سركوبى كے لئے ان سے مدد چاہي_(۴۳)

مسلمين كو جب اس بات كى اطلاع ہوئي كہ خليفہ نے اپنى راہ و روش پر تجديد نظر كى بجائے ان كى سركوبى كے اقدامات شروع كرديئے ہيں تو انہوں نے فيصلہ كيا كہ اس قضيے كا فيصلہ ہى كرديں _ چنانچہ اس غرض سے كثير تعداد ميں لوگ مصر سے اور كچھ لوگ كوفہ سے مدينہ پہنچے ، مزيد مہاجرين و انصار بھى ان كے ساتھ شامل ہوگئے اور سب نے دل بناكر عثمان كے گھر كا محاصرہ كرليا_

اگرچہ عوام كے نمايندگان اور خليفہ كے درميان بہت زيادہ كشمكش نيز كئي مرتبہ طولانى گفتگو ہوئي اس موقع پر حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ كو پند ونصائح بھى كئے اور عثمان نے ان پر كاربند رہنے كا وعدہ كيا مگر انہوں نے نہ صرف انہيں عملى جامہ نہ پہنايا بلكہ جنگ و مقابلے پر اتر آئے اور اس بات پر اصرار كركے كہہ ''وہ پيراہن جو خداوند متعال نے مجھے پہنايا ہے ميں اسے ہرگز نہ اتاروں گا''(۴۴) خلافت سے برطرف ہونے كے احتمال كو مسترد كرديا_

عثمان كے گھر كا محاصرہ چاليس دن تك جارى رہا اس دوران گھر كے اندر سے تير چلتے رہے جس ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ايك ضعيف العمر صحابى بھى شہيد ہوگئے _ عوام نے مطالبہ كيا كہ قاتل كو ان كے حوالے كياجائے مگر انہوں نے يہ بات نہ مانى چنانچہ لوگوں نے ان كے گھر پر ہجوم بپا كرديا جس كے باعث عثمان قتل ہوگئے_(۴۵)

۸۶

حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل(۴۶)

نہج البلاغہ ميں مجموعى طور پر سولہ مقامات پر عثمان كے بارے ميں بحث ہوئي ہے جن ميں سے زيادہ كا تعلق قتل عثمان سے ہے _ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے خطبات ميں ايك طرف تو خود كو اس حادثہ قتل سے برى الذمہ قرار ديا ہے اور دوسرى طرف انہوں نے خود كو عثمان كے مددگار ميں شامل نہيں كيا ہے بلكہ جن لوگوں نے ان كے خلاف شورش كى تھى انہيں عثمان كے مددگاروں پر ترجيح دى ہے اس كے ساتھ ہى يہ سانحہ قتل آپ كى نظر ميں مجموعى طور پر اسلامى مصالح و منافع كے مواقع و سازگار نہ تھا_

بظاہر يہ اقوال اور موضوعات مختلف و متضاد نظر آتے ہيں مگر ان ميں اس طرح ہم آہنگى و مطابقت پيدا كى جاسكتى ہے كہ : حضرت علىعليه‌السلام چاہتے تھے كہ عثمان اپنے طريقہ كار سے دست بردار ہوجائيں اور اسلامى عدل كى صحيح راہ اختيار كرديں اورضرورت پيش آجائے تو انہيں گرفتار بھى كرليں تاكہ ان كى جگہ اہل خليفہ بر سر اقتدار آئے اور وہ ان كے دو ركے بدعنوانيوں كى تفتيش كرے اور اس سے متعلق جو حكم خداوندى ہواسے جارى كرے_

اس طرح حضرت علىعليه‌السلام نے نہ تو عثمان كے قتل سے اپنى رضا مندى كا اظہار كيا ہے اور نہ ہى ان كى شورش كرنے والوں كے ساتھ رويے كى تائيد كى ہے _ حضرت علىعليه‌السلام كى يہى كوشش تھى كہ خون نہ بہاياجائے اور شورش كرنے والوں كے جو جائز مطالبات ہيں انہيں تسليم كياجائے اور اس طرح عثمان يا تو اپنى راہ و روش پر تجديد نظر كريں يا خلافت سے برطرف ہوجائيں تاكہ يہ كام كسى ايسے شخص كے سپرد كياجاسكے جو اس كا اہل ومستحق ہو_

عثمان اور انقلابيوں كے درميان جو تنازع ہوا ا س كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كا فيصلہ يہ تھا كہ عثمان نے ہر چيز كو اپنے اور اپنے عزيز واقارب كے لئے مخصوص كرديا تھا اور جو شيوہ انہوں نے اختيار كيا تھا وہ پسنديدہ نہ تھا اور تم شورش كرنے والوں نے بھى عجلت و بے تابى سے كام ليا جو برى چيز ہے_(۴۷)

۸۷

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام فرد ثالث كى حيثيت سے انقلابيوں كے مطالبات عثمان كو بتا رہے تھے تو آپ نے اس تشويش كا اظہار فرمايا تھا كہ ہوسكتا ہے كہ انہيں مسند خلافت پر قتل كردياجائے اور اگر ايسا ہوا تو مسلمانوں پرعظےم مصيبتوں كے دروازے كھل جائيں گے _ چنانچہ اس ضمن ميں آپ نے عثمان سے كہا كہ ميں تمہيں قسم دلا كر كہتا ہوں كہ ايسا كوئي كام نہ كرنا جس كے باعث تمہارا شمار امت كے مقتول پيشواؤں ميں ہو كيونكہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اكثر فرياد كرتے تھے كہ اس امت كے ايك پيشوا كا قتل ہوگا اور اس كے بعد كشت وكشتار كے دروازے كھل جائيں گے''_(۴۸)

عثمان كے قتل كو بہانہ بناكر طلحہ وزبير نے لوگوں كو حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف مشتعل كرنا چاہا تھا اسى لئے ايك موقعے پر آپعليه‌السلام نے انہيں عثمان كے قتل ميں ملوث قرار ديا تھا اور فرمايا تھا:

عثمان كے خون كا بدلہ لينے كى اس لئے جلدى تھى كہيں ايسا نہ ہو كہ انہيں اس خون كا ذمہ دار قرار دياجائے كيونكہ ان پر الزام آرہا تھا كہ انہيں سب سے زيادہ عثمان كے قتل كئے جانے پر اصرار تھا _(۴۹)

حضرت علىعليه‌السلام نے دو موقعوں پر معاويہ كو سخت قصور وارقرار ديا كيونكہ عثمان كے قتل كو اس نے سازش نيز حضرت عليعليه‌السلام كى اسلامى حكومت ميں رخنہ اندازى كى غرض سے بطور آلہ كار استعمال كرنا چاہاتھا _ اس لئے اس قتل پر وہ بہت زيادہ رنج و افسوس ظاہر كر رہا تھا اور اپنے مفاد كى خاطر وہ مظلوم خليفہ كے خون كا قصاص لينے كيلئے لوگوں ميں اشتعال پيدا كر رہا تھا_(۵۰)

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران علىعليه‌السلام كے كارنامے

عثمان كا قتل ''۳۵ھ'' كے اواخر ميں ہوا اور يہيں پر حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے چوتھے مرحلے كى تكميل ہوئي وہ خلافت كو چونكہ اپنا حق سمجھتے تھے اسى لئے اس پچيس سالہ دور ميں انہيں خلفائے ثلاثہ كى حكومت سے اختلاف بھى رہا اس كے باوجود انہوں نے خلفائے وقت كى مدد، ہدايت اور تعليم احكام سے كوئي دريغ نہ كيا اور اسى طرح آپ نے عالم اسلام كى قابل قدر خدمات انجام

۸۸

ديں _

اگرچہ گذشتہ اسباق ميں ہم حضرت علىعليه‌السلام كى بعض كارگزاريوں كے بارے ميں واقفيت حاصل كرچكے ہيں ، ليكن يہاں ہم محض بطور ياد دہانى ترتيب وار آپ كے اہم ترين كارناموں كا ذكر كريں گے:

۱_ قرآن كى تفسير ،ا س كى جمع آورى اور علم تفسير ميں بعض شاگردوں كى تربيت_

۲_ دانشوران علم بالخصوص يہود ونصارى كے سوالات كے جواب اور ان كے شبہات كا ازالہ_

۳_ ايسے واقعات كے احكامات بيان كرنا جو اس وقت تازہ اسلام ميں رونما ہوچكے تھے اور ان كے بارے ميں بالخصوص نص قرآن و سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موجود نہيں تھي_

۴_ خلفاء كے سياسى وعلمى مسائل حل كرنا اور ان كى جانب سے مشورہ كئے جانے پر ايسے نظريات پيش كرنا جو ان كے مشكلات كو دور كرسكيں چنانچہ ان كى بعض مشكلات كو گذشتہ صفحات ميں بطور نمونہ پيش كياجاچكاہے_

۵_ اپنے پاك ضمير اور روشن ذہن شاگردوں كى تربيت وپرورش كرنا جو سير وسلوك كيلئے آمادہ رہيں _

۶_ بعض لاچار و مجبور انسانوں كى زندگى كے مخارج پورا كرنے كى سعى وكوشش كرنا_

۷_ ان لوگوں كى دل جوئي و پاسبانى جن پر حكام وقت كى جانب سے ستم روا ركھے جاچكے تھے_

۸۹

سوالات

۱_ ابوبكر نے داخلى مسائل حل كرنے كے بعد كيا اقدامات كيئے؟

۲_ حضرت علىعليه‌السلام نے دو مرتبہ ابوبكر كے سياسى وعلمى مسائل حل كئے ان كے بارے ميں بھى لكھيئے؟

۳_ عمر كس طرح بر سر اقتدار آئے كيا انہيں عہدہ خلافت پر منصوب كيا گيا يا منتخب كيا گيا _ ان كے بارے ميں شورى كى تشكيل ہوئي اس كے بارے ميں وضاحت كرتے ہوئے ابوبكر كے اقدام سے متعلق حضرت علىعليه‌السلام كے نظريے كى صراحت كيجئے؟

۴_ مسلمانوں نے ايران كو كب فتح كيا؟ مختصر طور پر وضاحت كيجئے ؟

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد احاديث كو نقل وجمع كرنا كيوں ممنوع قرار ديا گيا اس كے اسباب كيا تھے؟

۶_ عمر نے جانشين مقرر كرنے كے سلسلے ميں كيا راہ اختيار كي؟

۷_ عثمان كى مالى حكمت عملى كس بنياد پر قائم تھي؟

۸_ عثمان كے عہد خلافت ميں اموى گروہ كو كيا مراعات حاصل تھي؟

۹_ عثمان كے قتل كے كيا اسباب تھے؟

۱۰_ حضرت علىعليه‌السلام نے پچيس سال تك سكوت وخاموشى كى زندگى بسر كى اس دوران آپ نے كون سے نماياں كارنامے انجام ديئے پانچ واقعات كا ذكر كيجئے_

۹۰

حوالہ جات

۱_ يہ شہر كوفہ اورموجودہ نجف كے درميان واقع تھا_

۲_ بعقوبى (ج۲/۱۳۱) نے يہ رقم ستر ہزار اور ايك لاكھ كے درميان ترديد كے ساتھ نقل كى ہے_

۳_ نہراردن اور جھيل طبريہ كے نزديك صحرائي علاقہ جہاں لشكر اسلام اور سپاہ روم كا مقابلہ ہوا_

۴_ بلاذرى لكھتا ہے كہ لشكر اسلام نے پہلے دمشق فتح كيا اور اس كے بعد اسے يرموك پر كاميابى حاصل ہوئي(فتوح البلدان /۱۴۰)

۵_ اتقان ج ۲ / ۳۲۸

۶_ تذكرة الحفاظ ذہبى ج ۲ /۴۳۱

۷_ مسند حنبل ج ۱/ ۱۴_۲

۸_ تاريخ خلفاء ۹۴_۸۶

۹_ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۳۲

۱۰_ كافى ج ۲/ حديث ۱۶ / ارشاد مفيد /۱۰۷ حضرت علىعليه‌السلام نے اس مسئلے كو اس طرح حل كيا كہ وہ شخص اسے عام لوگوں كے درميان لےجائيں اور ان سے پوچھيں كيا تم نے اس شخص كے سامنے اس آيت كى تلاوت كى ہے جس كى رو سے شراب كو حرام قرار ديا گيا ہے اگر ان كا جواب مثبت ہو تو اس شخص پر حد جارى كى جائے_ وگرنہ اس سے كہاجائے كہ وہ اپنے اس فعل سے توبہ كرے خليفہ نے ايسا ہى كيا اور اس شخص نے نجات پائي_

۱۱_ كامل ابن اثير ج ۲/ ۴۲۵ ' تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۹ ' شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۱۶۳_

نہج البلاغہ خطبہ سوم''فواعجباً بينا هو يستقبلها فى حياته اذ عقدر لاخر بعد وفاية''

۱۲_ يہ عراق ميں كوفہ كے نزديك نہر ہے جو فرات سے نكلى ہے_

۱۳_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۴۹_ نہج البلاغہ خ ۱۴۶_ بحار مطبوعہ كمپانى ج ۹/۵۰۱

۱۴_وحملہ وفصالہ ثلاثون شہرا (احقاف آيہ ۱۵)

۱۵_ والوالدات يرضعن اولادہن حولين كاملين (بقرہ ۲۳۲)

۱۶_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۲۱ _

۹۱

۱۷_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۳۱

۱۸ _ تاريخ يعقوبى ج۲ / ۱۵۵ ' كامل ابن اثير ج۳ / ۳۳ ۳۱ _

۱۹ _ تاريخ يعقوبى ج۲ / ۱۵۸ ' شرح ابن ابى الحديد ج' / ۱۸۶ ''ان ولى حمَّل بن ابى معيط وبنى امية على رقاب الناس

۲۰ _ شيعہ در اسلام / ۱۱ منقول از '' كنزالعمال ' مقدمہ مراہ العقول ج۱ / ۳۰ _

۲۱ _ طبقات ابن سعد ج۵ / ۱۸۸ ' مقدمہ مراة العقول ج۱ / ۲۹ _

۲۲ _ شيعہ در اسلام ۱۱ _

۲۳ _ سورہ حشر آيہ( ماآتا كم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا )

۲۴ _ مورخين نے سپاہيوں اور كاركنان حكومت كى تنخواہوں كے جو اعداد و شمار درج كيے ہيں ان كى رقوم ميں نماياں فرق ہے مثلا عباس بن عبدالمطلب كى سالانہ تنخواہ بارہ ہزار درہم تھى جب كہ ايك مصرى سپاہى كو سالانہ تنخواہ صرف تين سو درہم دى جاتى تھى معاويہ اور ان كے باپ كى سالانہ تنخواہ پانج ہزار درہم مقرر تھى جب كہ مكہ كے ايك عام باشندے كى تنخواہ جس نے مہاجرت نہيں كى تھى صرف چھ سو درہم ہى تھى ازدواج پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو سالانہ تنخواہ چار سو درہم ملتے تھے جبكہ ايك يمنى سپاہى كى تنخواہ ۴۰۰ درہم تھى (تاريخ يعقوبى ج۲ / ۱۵۳ ' كامل ابن اثير ج۲ / ۵۰۲ _

۲۵ _ (خلاصہ)شرح ابن ابى الحديد ج۱ / ۱۸۶ _

۲۶ _ طبرى كے قول كے مطابق (ج۴ / ۲۲۷)جس وقت مجلس مشاورت (شورى)كى تشكيل ہوئي طلحہ مدينہ ميں نہ تھے اور اس مجلس كى تشكيل باقى پانج فرادنے كى _

۲۷_ شرح نہج البلاغہ جلد ۳_

۲۸_ كامل ابن اثير جلد ۳ ص ۶۷ ، شرح نہج البلاغہ ج ۱ ص ۱۹۱ ، تاريخ طبرى ج ۴ ص ۲۲۶_

۲۹ _ نہج البلاغہ خ ۳ _

۳۰ _حتى اذا مضى لمبيله جعلها فيى جماعة زعم انيى احدهم فيالله وللشورى متى اعترض الريب فيى مع الاول منهم حتى صرت آقرن الى هده النظائر لكنيى اسففت اذاسفوا

۹۲

وطرت اذ طاروا فصغى رجل منھم لضغنہ ومال الاخر لصہرہ مع ھن وھن

۳۱_ كامل ابن اثير ج۳ / ۶۶ ' ' انيى اكرہ الخلاف '' _

۳۲ _ شرح ابن ابى الحديد ج۱ / ۱۸۹ _

۳۳ _ تاريخ يعقوبى ج۲ / ۱۶۵ ' شرح ابن ابى الحديد ج ۳ / ۱۹ ' مروج الذھب ج۲ / ۳۳۵ ' كامل ابن اثير ج۳ / ۱۰۷ _

۳۴ _ مروج الذھب ج۲ / ۳۴۳ الاغانى ۶/ ۳۵۶ الفاظ كے معمولى اختلاف كى ساتھ يہ عبارت نقل كى ہے '' :

يا بنيى امية تلقفوها تلقف الكرة فوالذيى يحلف به ابو سفيان مازلت ارجوها لكم لتصيد ن الى صبيانكم وراثة

۳۵ _مروج الذہب ج ۲/ ۳۴۳_ ۳۴۱

۳۶_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۳۲

۳۷_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۱۹۹ ، الغدير ج ۸/۲۵۸

۳۸ _ ايضاَ

۳۹_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱/۱۹۹

۴۰_ نہج البلاغہ خ ۱۶۴_ ''... فلا تكون لمروان سيقة بسوقك حيث شاء بعد جلال السن و تقضى العمر'' _

۴۱_ ربذہ كا انتخاب اس لئے كيا گيا تھا كہ يہ جگہ بہت خشك اور سخت مقامات پر واقع تھى اور حضرت ابوذر نے اپنے كفر كا بشيرر زمانہ اسى جگہ گذارا تھا اس لئے انہيں اس سے سخت نفرت تھي_

۴۲_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۳۹_ ۳۴۲ كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۱۳ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۲۸۳

۴۳ _ الغدير ج ۹/ ۳، ۶، ۱۱۰ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۳/ ۴۰

۴۴_ الغدير ج ۹/۱۱۳ _ ۱۱۰ شرح ابن ابى الحديد ج ۳/ ۴۷ ، الامامة والسياسة ج ۱ / ۳۶ _ ۳۵

۴۵_ ان خطوط كے متوب كتاب الغدير كى جلد ۹ ميں مشاہدہ كريں _

۴۶_ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۱۵۲ _۱۵۱ _ لا انزع قميصاً البسنية اللہ _

۹۳

۴۷_ عثمان كے سانحہ قتل كے بارے ميں يہ كتابيں ملاحظہ ہوں :''الامامة والسياسة ج ۱_ الغدير ج ۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۲ اور كامل ابن اثير ج ۳

۴۸_ يہاں اس سانحہ كا محض جائزہ ليا گيا ہے_

۴۹_استا ثر فاساء الاثرة وجزعتم فسا تم الجزع (نہج البلاغہ خ ۳۰)

۵۰_ نہج البلاغہ خ ۱۶۴''انى انشدك الله الا تكون امام هذه الامة المقتول فانه كان يقال يقتل فى هذه الامة امام يفتح عليها القتل والقتال الى يوم القيامة ''

۵۱_نہج البلاغہ خ ۱۷۴''والله ما استعجل متجردا الطلب بدم عثمان الاخوفاً من ان يطالب بدمه لانه مظنه ولم يكن فى القوم احرص عليه منه'' _

۵۲ _ اس واقعے كى تفصيلات آيندہ صفحات ميں آئے گى _

۵۳ _ اس سلسلہ ميں نہج البلاغہ كا تيسرا حصہ ملاحظہ ہو (سيرى در نہج البلاغہ نامى كتاب تاليف شہيد استاد مطہرى (رح)كے صفحات ۱۷۵ ' ۱۶۵ سے بطور خلاصہ ماخوذ)_

۵۴ _ يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى ولادت سے خلافت ظاہرى تك كى زندگى كے حالات محقق گرانقدر استاد جعفر سبحانى كى كتاب '' پوھشى عميق از زندگى عليعليه‌السلام (و ديگر معتبر كتب سے اخذ كئے گئے ہيں )_

۹۴

پانچواں سبق

خلافت ظاہرى سے شہادت تك

حضرت عليعليه‌السلام كى بيعت

بيعت كے بعد لوگوں ميں سرور و شادمانى

قريش كى وحشت و پريشانى

گوشہ نشين لوگ

حضرت عليعليه‌السلام كى بيعت كے امتيازات

سوالات كے جوابات

حضرت عليعليه‌السلام نے كن مقاصد كے تحت حكومت قبول فرمائي

ابتدائي اقدامات

نيك اور صالح كاركنوں كا تقرر

معاويہ كى برطرفي

مساوى حقوق كى ضمانت

لوٹے ہوئے مال كى واپسي

بدعنوانيوں ميں ملوث دولتمندوں كى رخنہ اندازي

سوالات

حوالہ جات

۹۵

حضرت عليعليه‌السلام كى بيعت

عثمان كے قتل كے بعد اپنے آيندہ كے ہادى و راہنما كا انتخاب كرنے كى غرض سے مہاجرين و انصار حضرت علىعليه‌السلام كے گرد جمع ہو گئے جو لوگ اس مقصد كے تحت حضرت علىعليه‌السلام كے پاس آئے ان مےں عمار ياسر ' ابوالھيشم ' ابو ايوب انصارى ، طلحہ اور زبير جيسے جليل القدر صحابہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پيش پيش تھے _

حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كى خاطر آپ كے گھر كى طرف ايك جم غفير روانہ ہوا ان ميں سب كا يہى اصرار تھا كہ امور خلافت كى لگام آپ سنبھاليں انہوں نے ايك زبان ہو كر كہا : اے ابوالحسن عثمان قتل كر ديئے گئے اور ہميں اپنے ہادى و راہنما كى ضرورت ہے اور ہم آج آپ سے زيادہ كسى كو شايستہ و قابل نہيں سمجھتے جن لوگوں نے دين اسلام قبول كيا آپ ان مےں سب پر سبقت لے گئے اور دوسروں كے مقابل پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آپ ہى سب سے زيادہ نزديك تھے _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : مجھے تمہارى حكومت كى ضرورت نہيں تم جسے بھى اپنا رہنما اختيار كرو گے ميں بھى اس سے اتفاق كروں گا _(۱)

سب نے ايك زبان ہو كر كہا : آپ كے علاوہ ہم كسى كو بھى نہےں چاہتے(۲) لوگوں كا اصرار جارى رہا مگر حضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے انھيں جواب نفى كى صورت ميں ہى ملتا رہا بالآخر وہ اپنے مقصد ميں كامياب ہوئے بغير حضرت كے گھر سے باہر نكل آئے _

اگرچہ لوگوں كى آمد و رفت كا سلسلہ جارى رہا مگر حضرت عليعليه‌السلام كسى طرح بھى خلافت قبول

۹۶

كرنے كے لئے راضى ہى نہےں ہوتے تھے اور ہر بار يہى جواب ديتے كہ اس امر كے لئے تم لوگ مجھے مجبور مت كرو امير بننے سے ميرے لئے بہتر يہى ہے كہ وزير (۳) رہوں ليكن انہوں نے يہى كہا كہ ہم اپنے اس فيصلے سے ہرگز رو گرداں نہ ہوں گے اور آپ كے دست مبارك پر بيعت كريں گے(۴) اور ہر طرف سے بيعت كى خاطر آپ كے گرد ہجوم ہونے لگا _

آپ كے گرد لوگ كس طرح جمع ہوئے اس كى كيفيت خود ہى بيان فرماتے ہيں :

اچانك ميرے گرد لوگوں كا ہجوم اس طرح ہو گيا كہ لگتا تھا گويا يہ انسان نہ ہوں بلكہ چرغ بجو كى گردن پر گھنے بال ہوں اس ازدحام ميں ميرے بچے حسن و حسين بھى روندے گئے اور لوگوں كے اس ہجوم كے باعث ميرا لباس بھى دو جانب چاك ہو گيا لوگوں كى يہ حالت تھى گويا اوہ انسان نہےں بلكہ ايسے مويشى ہيں جن كے سر پر گلے بان نہ ہو ان مےں سے ہر ايك ميرى طرف ہى چلا آرہا تھا _(۵)

ليكن اس كے بعد بھى حضرت عليعليه‌السلام نے بلا قيد و شرط حكومت قبول كرنے سے انكار كر ديا اور فرمايا كہ : ميں تمہيں كل صبح تك كى مہلت ديتا ہوں اپنے اپنے گھر جاؤ اور اپنے فيصلے پر غور كر لو اگر اس كے بعد بھى تم لوگ اپنے فيصلے پر قائم رہے تو تمہيں ميرى حكومت كے سامنے سر تسليم خم كرنا ہو گا اور تم مجھ سے يہ نہ چاھو گے كہ ميں سابق خلفاء كى روش كا پيرو كار رہوں اگر يہ شرط منظور ہے تو كل صبح مسجد ميں جمع ہو جانا ورنہ تمہيں اختيار ہے جسے چاہو اپنا خليفہ مقرر كر لو _

اگلے روز لوگ مسجد ميں جمع ہوئے امير المومنين حضرت عليعليه‌السلام منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا : لوگو كل جب ہم آپس ميں جدا ہوئے تو اس وقت ميرى يہ كيفيت تھى كہ مجھے تمہارى حكومت سے بيزارى تھى جب كہ تمہارا يہ اصرار تھا كہ ميرے علاوہ كوئي دوسرا شخص تمہارے امور كى زمام نہ سنبھالے يہ جان لو اگرچہ تمہارے مال (بيت المال مسلمين)ميرے دست اختيار ميں ہے مگر مجھے يہ حق نہيں كہ تمہارے بغير اس ميں سے ايك درہم بھى نكالوں ميں اسى صورت ميں تم پر حكومت كر سكتا ہوں ورنہ تم ميں سے كسى كى ذمہ دارى قبول كرنے كو ميں تيار نہيں(۶) جس وقت حضرت

۹۷

على عليه‌السلام كى تقرير ختم ہوئي تو لوگوں نے بلند آواز كہا ہم نے جو عہد كيا تھا آج بھى اسى پر قائم ہيں اور خدا كو گواہ كر كے كہتے ہيں كہ ہم آپ كے دست مبارك پر بيعت كرنے كيلئے تيار ہيں اس كے بعد موجوں كى مانند لوگوں ميں جوش و خروش پيدا ہو گيا اور بيعت كے لئے لوگوں كا اد حام ہو گيا _

سب سے پہلے طلحہ اور زبير نے آپ كے دست مبارك پر بيعت كى اس كے بعد ان لوگوں نے بيعت كى جو مصر ' بصرہ اور كوفہ سے آئے ہوئے تھے اس كے بعد عام لوگ اس سعادت سے سرفراز ہوئے _(۷)

بيعت كے بعد لوگوں ميں سرور و شادماني

حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے بعد لوگ انتہائي خوش و خرم تھے كيونكہ انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھ پر بيعت كى تھى _

بيعت كے بعد لوگوں ميں جو باطنى خوشى و مسرت تھى اسے حضرت علىعليه‌السلام نے اس طرح بيان فرمايا ہے : ميرے ہاتھ پر بيعت كرنے كے بعد لوگوں كى مسرت و شادمانى كا يہ حال تھا كہ بچے تك وجد و سرور ميں آگئے تھے _ ضعيف العمر لرزتے ہوئے پيروں سے چل كر ' بيمار دوسروں كے كاندھوں پر سوار ہو كر ميرے پاس آئے اور جو لوگ معذور تھے ان كى دلوں ميں مجھ تك پہنچنے كى حسرت ہى رہ گئي _(۸)

عام لوگوں كى خوشى و مسرت كے علاوہ بعض بزرگ صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايك دوسرے كے بعد عوام ميں تشريف لائے اور انہوں نے بھى تقارير كے ذريعے اپنى دلى مسرت كا اظہار كيا اس ضمن ميں انہوں نے عوام كو دعوت دى كہ وہ عہد و پيمان پر مضبوطى سے قائم رہيں اور نئي حكومت كو تقويت بخشيں جن لوگوں نے اس موقعے پر تقارير كيں ان مےں سے بعض كے نام درج ذيل ہيں _

۱ _ انصار كے نمائندہ ثابت بن قيس نے كہا : يا اميرالمو منين خدا كى قسم اگرچہ دوسرے لوگوں كو خلافت كے لحاظ سے آپ پر سبقت حاصل ہے ليكن دين ميں وہ آپ پر برترى حاصل نہ كر

۹۸

سكے انھيں آپ كى ضرورت تھى ليكن آپ ان سب سے بے نياز رہے '' ۲ _ (۹) خزيمہ بن ثابت نے اس موقعے پر كہا : يا اميرالمومنين ہمارى نظر ميں آپ كے علاوہ كوئي ايسا نہيں جس كے ہاتھوں ميں اپنے معاملات كى لگام دے سكيں

ايمان ميں آپ كو سب پر برترى حاصل ہے خدا شناسى مےں آپ عارف كامل ہيں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مقامات و مراتب كے سب سے زيادہ حق دار آپ ہى ہيں دوسروں ميں جو خصوصيات پائي جاتى ہيں وہ آپ ميں بھى موجود ہيں ليكن جو فضائل و كمالات آپ كى ذات ميں ہيں ان سے وہ محروم ہيں(۱۰)

۳ _ صعصعہ بن صوحان نے كہا : يا اميرالمو منين مقام خلافت نے آپ كى ذات كے ذريعے بنت و رونق پائي ،خلافت كو آپ كى ضرورت ہے اور آپكو اس كى ضرورت قطعى نہيں _(۱۱)

قريش كى وحشت و پريشاني

قريش اور حق سے روگرداں وہ تمام لوگ جنہوں نے عثمان كے عہد ميں حكومت مےں خاص مراعات حاصل كر لى تھيں حضرت علىعليه‌السلام كے دورخلافت ميں بہت مضطرب و پريشان ہوئے چنانچہ ان كے لئے اس كے سوا كوئي چارہ كار نہ تھا كہ سرتسليم خم كرديں كيونكہ اب رائے عامہ اميرالمومنين حضرت عليعليه‌السلام كے ساتھ تھى اور وہ لوگ كسى ايسى راہ پر گامزن نہيں رہ سكتے تھے جو اسلامى معاشرے كے منافى ہو اسى لئے انہوں نے حضرت عليعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كر لى ليكن ان كے دلوں ميں كدورت ابھى تك باقى تھى جس كى وجہ يہ تھى كہ حضرت عليعليه‌السلام كى تلوار نے بہت سے مشركين قريش اور كفار كے سرتن سے جدا كئے تھے _

اس كے علاوہ وہ يہ بھى جانتے تھے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى حكمت علمى اس بات كو ہرگز برداشت نہيں كر سكتى كہ بيت المال كو غارت كيا جائے _

قريش كے دلوں ميں حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف جو كينہ و دشمنى كے جذبات تھے ان كے بارے

۹۹

ميں ابن ابى الحديد لكھتا ہے : اگرچہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے اس وقت تك كافى عرصہ گذر چكا تھا مگر قريش كے دلوں ميں انعليه‌السلام كے خلاف اس قدر بغض و كينہ تھا كہ كسى طرح كم نہيں ہوتا تھا يہى نہيں بلكہ اس كينہ و عداوت كو انہوں نے اپنے بچوں تك كے ذھنوں پر نقش كر ديا _(۱۲)

گوشہ نشين لوگ

بعض لوگوں نے حضرت عليعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے سے كنارہ كشى بھى كى _مسعودى نے انھيں قعاد (زمين گير)(۱۳) اور ابوالفداء نے انھيں معتزلہ (گوشہ نشين(۱۴) )كے عنوان سے ياد كيا ہے جب حضرت علىعليه‌السلام سے ان كے بارے مےں سوال كيا گيا تو آپ نے فرمايا : يہ وہ لوگ ہيں جنھوں نے نہ حق كا ساتھ ديا اور نہ ہى باطل كى مدد كيلئے كھڑے ہوئے(۱۵) ان لوگوں ميں سعد بن و قاص ' عبداللہ بن عمر ' حسان بن ثابت ' كعب بن مالك ' قدامہ بن فطعون ' مغيرہ بن شعبہ اور ديگر چند افراد شامل تھے _(۱۶)

يہ لوگ اپنے اس فعل كى توجيہ كے لئے بيجا عذر بہانے تراشتے تھے مثلا جب سعد قاص سے بيعت كے لئے كہا گيا تو انہوں نے جواب ديا كہ جب تك سب لوگ بيعت نہ كر ليں گے ميں بيعت نہيں كروں گا _(۱۷)

يہ لوگ تو اچھى طرح جانتے تھے كہ اميرالمومنين علىعليه‌السلام حق پر ہيں اور حق بھى ان كے ساتھ ہے آپ كوہر اعتبار سے دوسروں پر فضيلت و برترى حاصل تھى ليكن ان كى نخوت اور جسمانى ہوا و ہوس نے انھيں حق سے دور كر ديا تھا چنانچہ اميرالمو منين حضرت عليعليه‌السلام نے ان كو ان كے حال پر چھوڑ ديا اور بيعت كيلئے مجبور نہ كيا البتہ ان ميں سے چند لوگ بالخصوص سعد بن و قاص اور عبداللہ بن عمر بعد ميں بہت پشيمان ہوئے _

۱۰۰

آخری سانس تک زندگی سے استفادہ کریں

ہمیں آخری سانس اور آ خری لحظہ تک اپنے وظیفہ کو انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اپنی زندگی کے لحظات کو ایسے امور میں ضائع نہ کریں  کہ جن میں خدا کی رضایت شامل نہ ہو ۔

حضرت امیر المو منین  (ع) فرما تے ہیں :

'' انّ انفا سک اجزاء عمرک ، فلا تفنها الاَّ فی طاعةٍ تزلفک ''(1)

تمہاری سانسیں تمہاری زندگی کے اجزا ء ہیں لہذا انہیں ضائع نہ کریں مگر ایسی عبادت میں کہ جوتمہارے لئے بیشتر تقرب کا باعث بنے۔

ہمارے بزرگان نے زندگی کے آخری لمحات اور آخری سانسوں تک فرصت اور وقت سے  بہترین استفادہ کیا ۔

شیعہ تاریخ  کے علماء و بزرگ شخصیات میں سے بر جستہ شخصیت آیت اللہ العظمیٰ حاج سید محمد حجت ایسے افراد میں سے تہے ۔

مرحوم آیت اللہ العظمیٰ شیخ مرتضی حائری اس بزرگوار کے بارے میں یوں لکہتے ہیں کہ وہ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی  کے زمان میں تقریباً مرجع مطلق یا اکثر آذر بائیجان کے مرجع تہے تہران میں مقیم آذر بائیجانی اور بعض غیر آذر بائیجانی ان کی طرف مراجعہ کرتے تہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ غرر الحکم :ج2  ص9 9 4

۱۰۱

جس سال سردیوں کے اوائل میں وہ مرحوم ہوئے ، اس وقت موسم ابہی تک مکمل طور پر سرد نہیں ہوا تہا ، وہ گہر کی تعمیر میں مشغول تہے گہر کے ایک حصے کو توڑ چکے تہے تا کہ جدید گہر تعمیر کر سکیں اور گہر کے دوسرے حصے میں کاریگر دوسرے کاموں میں مصروف تہے جیسے کنویں کی کہودائی یا اس میں پتہر لگانا ، ان تعمیرات کے بانی ان کے ایک ارادتمند تہے ۔ ایک دن صبح کے وقت ان کی خدمت میں حاضر ہوا وہ تخت پر تشریف فرما تہے اور ان کی حالت عادی تہی وہ اکثر دمہ کی وجہ سے سر دیوں میں نفس تنگی کا شکار ہوتے تہے لیکن اس وقت سرد موسم کے باوجود ان کی حالت عادی و معمول کے مطابق تہی ۔ مجہے اطلاع ملی کہ انہوں نے ٹہیکے دار اور دیگر کاریگر وں کو کام سے فارغ کر دیا ہے ۔ میں نے کہا کہ آغا آپ نے انہیں کیوں جواب دے دیا ؟ انہوں نے بڑے وثوق و صراحت سے کہا کہ ! مجہے لگتا ہے کہ میں مرجاؤں گا تو پہر یہ گہر کی تعمیر کس لئے ؟

پہر میں نے بہی کچہ نہ کہا دوسرے دن شاید بروز چہار شنبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا سید احمد زنجانی ان کے پاس بیٹہے تہے انہوں نے جائیداد کے کاغذات و اسناد آغا زنجانی کو دیئے اور ایک  چہوٹے صندوق میں پڑہی نقد رقم مجہے دی کہ اسے معین مصارف میں صرف کرو ں اور اس میں سے کچہ حصہ مجہے عطا فرمایا ۔

اس سے پہلے انہو ں نے وصیت کو چند نسخوں میں لکہا تہا کہ جن میں سے ایک انہوں نے مجہے بہیجوا یا تہا جواب بہی موجود ہے ۔ انہوں نے وصیت کی تہی کہ ان کے اور ان کے وکلا کے پاس تمام موجود رقم سہم امام ہے ۔

انہوں نے  جو زمین مدرسہ کے نام پر خریدی تہی ، وہ ان کے نام پر تہی کہ جس کا یک بڑا حصہ بعد میں آغا بروجردی کی مسجد میں شامل ہو گیا انہوں نے وصیت نامہ لکہا تہا کہ وہ زمین بہی سہم مبارک امام سے جو ارث میں نہیں دی جاسکتی اور اگر آغا بروجردی نے چا ہا تو انہیں مسجد کے لئے دے دیں ۔

۱۰۲

ان کی رقم وہ ہی صندوق میں موجود رقم میں ہی منحصر تہی اور چند دن سے وجوہات شرعیہ نہیں لیتے تہے انہوں نے جب وہ رقم مجہے دی کہ میں وہ ان کے موارد میں صرف کروں تو انہوں نے آسمان کی طرف ہاتہ بلند کئے اور کہا کہ خدا یا میں نے اپنی تکلیف  پر عمل کیا اب تو میری موت کو پہنچا دے ۔

میں نے ان کی طرف دیکہا  اور کہا کہ آغا آپ ویسے ہی اس قدر ڈر رہے ہیں آپ ہر سال سردیوں میں اسی بیماری میں مبتلا ہو تے ہیں اور پہر ٹہیک ہو جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ نہیں میں ظہر کے وقت فوت ہو جاؤں گا میں خاموش رہا اور ان کے فرمان کے مطابق کاموں کو انجام دینے کے لئے نکل پڑا میرے دل میں خیال آیا کہ کہیں یہ اسی دن ظہر کے وقت وفات نہ پاجائیں اور ان پیسوں کے بارے میں تکلیف معلوم نہ ہو کہ کیا ورثہ کو دیں یا ان موارد میں خرچ کریں ۔ اسی شک میں میں سوار ہوا اور ظہر تک ان کو انجام دیا وہ اس دن ظہر کے وقت فوت نہ ہوئے بلکہ اس چہار شنبہ کے بعد آنے والے ہفتہ کو ظہر کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جاملے میں گہر سے باہر آیا تو اسی وقت مدرسہ حجتیہ سے اذان کی صدا بلند تہی  ۔

انہیں راتوں میں سے ایک رات انہوں نے مجہے کہا کہ مجہے قرآن دو انہوں نے قرآن کہو لا تو  پہلے  صفحہ پر یہ آیت شریفہ تہی ، '' لہ دعوة الحق '' ظاہراً انہوں نے گریہ کیا اور انہوں نے اسی رات یا دوسری رات اپنی مہر توڑدی ۔

وفات کے نزدیک ایک دن وہ اپنی آنکہیں دروازے پر لگائے بیٹہے تہے اور ایسے لگتا تہا کہ وہ کسی چیز کا مشاہدہ فر ما رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا ! آغا علی تشریف لائیں لیکن کچہ دیر بعد وہ عادی حالت  پہ واپس آگئے ۔ آخری دوتین دن وہ ذکر اور خدا  سے راز ونیاز میں زیادہ مشغول ہوتے تہے ۔

۱۰۳

ان کی وفات کے دن میں نے بڑے اطمینان سے گہر میں مکاسب کا درس دیا اور پہر ان کے چہوٹے کمرے میں گیا کہ جہاں وہ لیٹے تہے ۔ اس وقت فقط ان کی بیٹی وہاں موجود تہی کہ جومیری زوجہ بہی تہیں لیکن آغا کا چہرہ دیوار کی طرف تہا اور وہ ذکر  و دعا میں مشغول تہے ۔ انہوں نے کہا کہ آغا آج کچہ مضطرب ہیں ظاہراً ان کے اضطراب کی دلیل وہ ہی زیادہ ذکر و دعا تہا میں نے سلام کیا انہوں نے میرے سلام کاجواب دیا ور کہا آج کیا دن ہے میں نے کہا ، ہفتہ ، انہوں نے فر مایا کہ آج آغابروجردی درس پہ گئے تہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ، انہوں نے صمیم قلب سے چند بار کہا ۔ الحمد للہ ۔

غرض یہ کہ ان کی بیٹی نے کہا کہ انہیں تہوڑی سی تربت امام حسین (ع)  دیں ۔ میں نے کہا ٹہیک ہے وہ تربت لائیں میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ نوش فرمائیں وہ بیٹہ گئے میں ان کے سامنے گلاس لے گیا انہوں نے سو چا غذا یا دوا ہے انہوں  نے کچہ تلخ لہجے میں کہا یہ کیا ہے ؟ میں  نے کہا ، تربت امام حسین  ۔ ان کا چہرہ کہل گیا اور تربت اور پانی نوش فرمایا اس کے بعد میں نے ان سے یہ کلمہ سنا کہ  انہوں نے کہا'' آخر زادی من الدنیا تربة الحسین '' دنیا سے میرا آخری توشہ تربت امام حسین (ع)  ہے۔ وہ دوبارہ لیٹ گئے میں نے دوسری مرتبہ ان کی فرمائش پر دعاء عدیلہ قرائت کی ۔ ان کے دوسرے بیٹے آغا سید حسن رو بہ قبلہ بیٹہے تہے اور آغا تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹہے ہوئے پڑہ رہے تہے اور وہ خدا وند متعال کے سامنے بڑی شدت اور صمیمیت سے اپنے عقائد کا اظہار کر رہے تہے ۔

مجہے یاد ہے کہ وہ امیر المو منین علی(ع)  کی خدمت کے اقرار کے بعد ترکی زبان میں یہ کہہ رہے تہے :بلافصل ، ہیچ فصلی یخدی ، لاپ بلا فصل لاپ بلا فصل ، کیمین بلا فصل وار؟

۱۰۴

آئمہ معصو مین علیہم السلام کے بارے میں انہوں نے اس آیت کی تلاوت فرمائی '' الم تر کیف ضرب اللّٰه مثلاً کلمةً طیّبةً کشجرةٍ طیّبةٍ اصلها ثابت و فرعها فی السماء ''(1)

کیا تم نے نہیں دیکہا کہ اللہ نے کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے ۔

میں وہاں کہڑا اس معنو ی منظر کا مشاہدہ کر رہا تہا میرے ذہن میں آیا کہ ا ن سے کہوں کہ آغا میرے لئے بہی دعا فرمائیں لیکن شرم مانع ہوئی کیو نکہ وہ اپنے حال میں مشغول تہے اور کسی دوسری جانب متوجہ نہیں تہے کیو نکہ وہ موت سے پہلے اپنے خدا کے  ساتہ راز ونیاز کر رہے تہے اور معنوی وظائف انجام دے رہے تہے اور ثانیاً یہ تقا ضا کرنا اس چیز کی طرف اشارہ تہا کہ ہم بہی آغا کی موت کی طرف متوجہ ہیں اور ان کی موت کے سامنے تسلیم ہو چکے ہیں ۔

میں خاموشی سے کہڑا اس ماجرا کو دیکہ رہا تہا وہاں آغا سید حسن ، ان کی بیٹی اور خاندان کے دوسرے افراد موجود تہے۔ میں نے یہ بہی سنا کہ آغا کہہ رہے تہے ! خدا یا میرے تمام عقائد حاضر ہیں وہ تمام تجہے سپرد کر دیئے اب مجہے لوٹا دو ۔

میں وہیں کہڑا ہوا تہا اور وہ بہی اسی حالت میں تکیہ پر ٹیک لگائے رو بہ قبلہ

بیٹہ تہے  ۔ اچانک انکی سانس رک گئی ہم نے سوچا کہ شاید ان کا دل بند ہوا ہے ہم نے ان کے منہ میں کرامین کے چند قطرے ڈالے لیکن دوا ان کی لبوں کی اطراف سے باہر نکل آئی ۔ وہ اسی وقت وفات پاگئے تہے اس پانی اور تربت امام حسین  کے بعد کرامین کے چند قطرے بہی ان کے حلق تک نہیں پہنچے تہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ ابراہیم آیت: 4 2

۱۰۵

مجہے یقین ہوگیا کہ آغا فوت ہوگئے ہیں میں گہر سے باہر آیا تو مدرسہ حجتیہ سے اذان کی آواز سنی   ان کی وفات اول ظہر کے قریب تہی جس کے بارے میں انہوں نے چہار شنبہ کو کہاتہا کہ میری موت ظہر کے وقت واقع ہو گی ۔

یہ مرد بزرگوار وہ تہے کہ جنہوں نے زندگی کے اس سفر میں ، سفر کی تمام قید و شرط کی رعایت کی اور وجوہات شرعیہ کے مصرف کو بہی کاملاً واضح کرد یا کہ اس میں ورثہ کو کچہ بہی نہ ملا ۔

ایک ایمان محکم شخص کی یہ گزشتہ داستان چند چیزوں پر مشتمل ہے :

1 ۔ ان کا ظہر کے وقت اپنی  موت کے بارے میں خبر دینا اور پہر حقیقتاً ان کی موت ظہر کے وقت واقع ہوئی ۔

2 ۔ وہ مکاشفہ کہ جس میں انہوں نے حضرت امیر المو منین(ع)  کو دیکہا تہا ۔

3 ۔ ان کا یہ خبر دینا کہ ان کا آخری توشہ تربت امام حسین  (ع)ہو گا اور پہر ایسا ہی ہوا  ۔

مرحوم آیة اللہ العظمیٰ آغا حجت مو لا امیر المومنین (ع) کے فرمان کے واضح مصداق ہیں کہ :

'' انّ انفاسک اجزاء عمرک فلا تفنها الاَّ فی طاعة تزلفک ''

انہوں نے زندگی کے آخری لمحے اور آخری سانس کو راہ عبادت اور اطاعت خداوند میں بسر کیا ۔

جولوگ شیعہ  بزرگوںکی زندگی سے درس لیتے ہیں وہ آخری لحظہ تک مقام عبودیت اور اپنی  ذمہ  داری  کو انجام دیتے ہیں آخرت میں خداوند کریم کا خاص لطف ان کے شامل حال ہو گا ور اہل بیت  علیہم  السلام  کے جوار رحمت میں قرار پائیں گے ۔

۱۰۶

نتیجہ ٔ بحث

وقت اہم ترین نعمت ہے کہ جو خداوند تعالیٰ نے آپ کو عنایت کی ہے یہ آپ کی زندگی اور وجود کا بہترین اور بزرگترین سرمایہ ہے اسے بہترین راہ اور عالی ترین ہدف میں مصرف کریں ۔

آپ کی موجودہ وضعیت ، آپ کے گزشتہ اعمال و کردار کا نتیجہ و محصول ہے اور آپ کا مستقبل ، آپ کے حال کی رفتار و کردار کا ثمرہ ہوگا ۔

اگر آپ ارزشمند اور اعلیٰ اہداف کے خواہاں ہیں اگر آپ روشن مستقبل کے امید وار ہیں تو اپنے وقت کو فضول ضائع نہ کریں ۔

آپ متوجہ رہیں کہ اگر آپ نے اپنے ماضی سے استفادہ نہ کیا ہو اور آپ کو گزرے ہوئے کل پر افسوس ہو تو آپ اب اس طرح سے زندگی بسر کریں کہ آپ کو آئندہ اپنے آج پر شرمندگی و افسوس نہ ہو ۔

جستجو اور کوشش کے ذریعہ اپنے ماضی کا جبران اور باقی ماندہ فرصت سے بہترین طریقے سے استفادہ کریں اورجو لوگ اپنے گزرے ہوئے وقت سے درس عبرت  لیتے ہیں اپنے لئے درخشاں اور روشن مستقبل کا انتخاب کرتے ہیں ۔

قدر وقت از نشناشی تو و کاری نکنی

پس خجالت کہ از این حاصل اوقات بری

اگر آپ وقت کی قدر و اہمیت کو نہیںپہچانیں گے اور کوئی کام انجام نہیں دیں گے تو وقت ضائع کرنے کے بعد صرف شرمندگی حاصل ہو گی ۔

۱۰۷

ساتواں باب

اہل تقویٰ کی صحبت

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''  اکثر  الصّلاح و الصّواب فی صحبة اولی النهیٰ والا لباب ''

اکثر و بیشتر اصلاح اور درستی صاحبان عقل و خرد کی صحبت میں ہے ۔ ۔

    صالحین سے ہمنشینی کی اہمیت کا راز

    جن افراد کی صحبت روح کی تقویت کا باعث ہے

   1 ۔ علماء ربانی کی صحبت

   2 ۔ صالحین کی صحبت

    اپنے ہمنشینوں کو پہچانیں

    جن افراد کی صحبت ترقی کی راہ میں رکاوٹ

   1 ۔ چہوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت

   2 ۔ گمراہوں کی صحبت

   3 ۔ خواہش پرستوں کی صحبت

    ۴ ۔ شکّی لوگوں کی صحبت

    نتیجۂ بحث

۱۰۸

صالحین سے ہمنشینی کی اہمیت کا راز

معنوی مقاصد تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن ان میں سے کون سا راستہ اہم ترین ہے کہ جو انسان کو جلد منزل و مقصد تک پہنچا دے ۔

اس بارے میں مختلف عقائد و نظریات ہیں ہر گروہ کسی راہ کو اقرب الطرق کے عنوان سے قبول کرتاہے اور اسے نزدیک ترین ، بہتر اور سریع ترین راہ سمجہتے ہیں ان میں سے بعض نیک اور صالح افراد کے ساتہ ہمنشینی کو اقرب الطرق سمجہتے ہیں ۔

ان میںسے جو نظریہ صحیح لگتاہے وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے ہمنشینی کہ جو خدا کو خدا کے لئے چاہیں نہ کہ اپنے لئے ، اور ان کی صحبت کہ جو اپنے اندر حقیقت ایمان کو واقعیت کے مرحلہ تک پہنچا ئیں ۔ یہ فوق العادہ اثر رکہتا ہے ۔

اسی وجہ سے کائنات کے پہلے مظلوم حضرت امیر المو منین(ع)  اپنے دل نشین کلام میں فرماتے ہیں :

'' لیس شیء اوعیٰ لخیر و انجیٰ من شرّ من صحبة الاخیار '' (1)

اچہے افراد کی صحبت سے بڑہ کر کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو انسان کو بیشتر خوبیوں کی دعوت دے اور برائیوں  سے نجات دے  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ شرح غر ر الحکم :ج5ص  87

۱۰۹

کیو نکہ معاشرے کے شریف اور صالح افراد کے ساتہ بیٹہنا انسان کے لئے شرف و ہدایت کا باعث ہوتا ہے جو زنگ آلود دلوں کو صاف اور منور کر تا ہے اور انسان کو معنویت کی طرف مائل کرتاہے ۔

حضرت امام زین العابدین (ع) فر ماتے ہیں :

'' مجالسة الصالحین داعیة الی الصلاح '' (1)

صالح افراد کی صحبت انسان کو صلاح کی دعوت دیتی ہے  ۔

ایسے افراد میں معنوی قوت و طاقت ، ان کے ہمنشین حضرات میں بہی نفوذ کرتی ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتہ ان کے اعمال و کردار و رفتار ان ہی کی مانند ہو جاتے ہیں ۔

کبہی ایسے افراد کا دوسروں میں معنوی نفوذ جلد ہو تا ہے جس میں طولانی مدت کی صحبت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ بلکہ ایک نشست یا ایک نگاہ یا ایک دلنشین جملہ دوسروں کی فکر ی و اعتقادی وضعیت کو بدل کر ان میں حیات جاویداں ایجاد کر تا ہے ۔

جی ہاں ، نیک افراد کے مجمع میں دوسرے بہی ان سے معطر ہو کر نیک اور اچہے لوگوں کی صف میں آجاتے ہیں نیک لوگوں کی نورانیت و پاکیزگی دوسروں پر بہی اثر انداز ہوتی ہے اور ان کے قلب کی آلودگی و ظلمت کو دور کر کے اپنی طرف جذب کر تی ہے۔

نیک اور پاکیزہ افراد کی صحبت سے قلب کی پاکیزگی میں اضافہ ہو تا ہے ۔ اچہے لوگوں کے ساتہ رہنا اچہائی سکہا تا ہے اور نیک اور خود ساختہ افراد کے ہمراہ رہنا ، انسان بناتا ہے اور ان پر ہونے والی توجہات ان کے ہمراہ رہنے والوں کو بہی شامل ہو تی ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ اصول کافی:ج 1ص  20

۱۱۰

یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کی طرف دعاؤں میں بہی اشارہ ہواہے ۔ مرحوم شیخ مفید   کتاب مزار میں ایک دعانقل فرماتے ہیں کہ آئمہ معصومین  کی زیارت کے بعد اس دعا کو پڑہنا مستحب ہےاوراس دعا کے ایک حصے میں یوں بیان ہو اہے :

'' یا ولیّ اللّٰه عزّ و جلّ حظّی من زیارتک تخلیطی بخالصی زوّارک الّذین تسأل اللّٰه عزّ و جلّ فی عتق رقابهم و ترغب الیه فی حسن ثوابهم ''

اے ولی خدا ! اپنی زیارت سے مجہے اپنے خالص زوار وں میں سے قرار دے   کہ جن افراد کی خداوند کریم سے آزادی چاہتے ہو اور جن کے لئے خدا سے نیک ثواب اور جن کے لئے خدا کی رغبت چاہتے ہو ۔ ۔

جس طرح خشک و تر ایک ساتہ جل جاتے ہیں جس طرح پہول اور کانٹے ایک ہی چشمہ سے سیراب ہو تے ہیں جس طرح باغبان کی گلستان پر پڑنے والی محبت آمیز نگاہ میں باغ میں موجود کانٹوں کو بہی شامل کر تی ہے اور پہول کی خوشبو سے کانٹے بہی معطر ہو جاتے ہیں جس طرح پہول فروخت کرنے والے پہول کو کانٹوںکے ساتہ فروخت کر تے ہیں اسی طرح خریدار بہی پہول کو کانٹوں سمیت خرید تا ہے اسی طرح جو نیک افراد کی خدمت میں حاضر ہو وہ ان پر پڑنے والے تابناک انوار سے بہی بہرہ مند ہو تا ہے ۔

اسی لئے زیارت کے بعد پڑہی جانے والی دعامیں امام  کی خدمت میں عرض کر تے ہیں کہ اے ولی خدا ! مجہے اپنی زیارت سے اپنے خالص زوار وں میں سے قرار دے ۔

نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹہنا ایک ایسے نسخہ کیمیا کی مانند ہے کہ جو اولیاء خدا کے اطراف بدن میں موجود ہو تا ہے کہ جو ان کے ہمراہ اور ان کی صحبت میں بیٹہنے والے شخص میں موجود ضعف کو ختم کرکے اسے شہامت و ا چہائی عطا کر تے ہیں اسے بال و پر عطا کر تے ہیں تاکہ وہ معنویت کی بیکراں فضا میں پرواز کر سکے اور عالم معنی کی لذّتوں سے مستفید ہو ۔

۱۱۱

انسان ایک دوسرے کی صحبت اور ہمنشینی سے ایک دوسرے پر مثبت و منفی اثرات مرتب کر تا ہے  انسان کی نفسیات اور اعتقا دات مختلف ہو تے ہیں جس کی وجہ سے ان میں کیفیت کے لحاظ  سے بہت  تفاوت ہو تا ہے ۔ اسی طرح ان افراد میں ایک دوسرے پر اثر گزاری کی مقدار و کمیت کے لحاظ سے بہی درجات کا اختلاف ہو تا ہے ۔

افراد کی ایک دوسرے سے مصاحبت ، ہمنشینی اور رفاقت سے افراد کی فکری اور اعتقادی خصوصیات ایک دوسرے کی طرف منتقل ہو تی ہیں ۔

عام طور پر صاحب یقین افراد دوسروں پر زیادہ اثر چہوڑ تے ہیں کیو نکہ یہ ارادہ و نفوذ رکہتے ہیں لہذا یہ اپنی فکری اور اعتقادی خصوصیات دوسروں میں ایجاد کر تے ہیں یا انہیں تقویت دیتے ہیں ۔ معنوی افراد کی صحبت ، صرف مقابل کی فکری خصو صیات میں تحول ایجاد کر تا ہے اور غیر سالم اور غلط افکار کو صحیح اعتقادات میں تبدیل کر تا ہے لیکن یہ ایک قانون کلی ہے کیو نکہ جس طرح دین ایک آگاہ و عالم شخصیت کو دستور دیتا ہے کہ جاہل اور نا آگاہ افراد میں جا کر انہیں دین و مذہب کی طرف لائیں اور انہیں تشیع کے حیات بخش دستورات سے آشنا کروا ئیں ۔ اسی طرح وہ دستور و حکم دیتا ہے کہ پست اور منحرف افراد سے ہمنشینی سے دور رہو کہ جب ان کے ساتہ آمد و رفت تم پر اثر انداز ہو ۔

یہ تشخیص دینا عالم اور با خبر شخص کی  ذمہ  داری ہے کہ جاہل افراد کی ہمنشینی کس حد تک منفی یا مثبت اثرات رکہتی ہے ؟ کیا وہ دوسروں میں نفوذ کر تا ہے اور ان افکار و عقائد کو کمال کی طر ف لے جارہا ہے یا ان کی نفسیات اس پر مسلط ہو چکی ہے اور ان کی صحبت اس پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہے؟ کیا وہ دوسروں پر اثر انداز ہو رہا ہے یا دوسرے اس پر اثر انداز ہو رہے ہیں ؟

لہذا اہل علم کا یہ وظیفہ و ذمہ داری ہے کہ وہ لو گوں کو تبلیغ کریں اور اپنے روحانی و نفسانی حالات کی جانب بہی متوجہ رہیں تاکہ دوسروں کے تحت تاثیر قرار نہ پائیں ۔

۱۱۲

جن افراد کی صحبت روح کی تقویت کا باعث ہے

ہم جلد ایسے افراد کے بارے میں بحث کریں گے کہ جن کی صحبت انسان کی علمی و عملی ترقی کے لئے نقصان دہ ہے اب ہم نمونہ کے طور پر چند ایسے افراد کا ذکر کر تے ہیں کہ جن کی صحبت اور ہمنشینی معنوی سیر اور پرواز کا باعث ہے :

1 ۔ علماء ربانی کی صحبت

ان افراد کی صحبت اور ہمنشینی کے بہت زیادہ آثار اور فوائد ہیں مخصوصا اگر انسان ان کے لئے خاص احترام و محبت کا قائل ہو ۔

پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں :

'' لا تجلسوا عند کلّ عالمٍ الاَّ عالم یدعوکم الی الاخلاص '' (1)

ہر عالم کے پاس نہ بیٹہو مگر اس عالم کے پاس کہ جو تمہیں ریا سے روکے اور اخلاص کی طرف لے کر جائے ۔

جو آپ کوصحیح راستہ کی طرف لے جا کر اللہ کی طرف دعوت دے اس کی رہنمائی اور گفتار کا ہدف اپنی طرف دعوت دینا نہیں ہے ۔ ایسے ربانی علماء کی صحبت آپ پر اثر انداز ہو گی اور آپ کو اہل بیت  کے نورانی معارف سے آشنا کر ے گی وہ تمہارے دل کو خاندان وحی کی محبت سے پیوند لگا دیں گے اور تمہیں منافقین تاریخ کی کالی کر توتوں سے آگاہ کر کے تمہارے دلوں میں ان کے لئے نفرت کو زیادہ کریں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]بحار الانوار:ج 1  ص5 20۔

۱۱۳

2 ۔ صالحین کی صحبت

پیغمبر اکرم(ص) اپنے ارشادات میں مجالست و مصاحبت کے مورد میں اپنے محبوں اور دوستوں کی رہنمائی فرماتے ہیں اور انہیں تاکید فرماتے ہیں کہ پر ہیز گار اورمو من افراد میں سے اپنے ہمنشینی منتخب کریں اور بے ہدف اور دنیا پرست افراد کی صحبت سے پر ہیز کریں ۔ آپ  نے اپنے ایک مفصل ارشاد میں عبد اللہ بن مسعود  سے  یوں فرمایا :

'' یابن مسعود فلیکن جلساؤک الا برار واخوانک الا تقیاء والزّهاد ، لانّ اللّٰ هتعالیٰ قال فی کتاب ه: الاخلاَّئ یو مئذٍ بعضهم لبعضٍ عدوّ والاَّ المتّقین ''(1)

اے ابن مسعود ، تمہارے ہمنشین نیک افراد ہوں او ر تمہارے بہائی متقی اور زاہد ہوں کیو نکہ خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے : آج کے دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجا ئیں گے  ۔

رسول اکرم(ص) نے  جناب ابوذر کو کی گئی وصیت میں ارشاد فرمایا :

'' یا اباذر لا تصاحب الاَّ مومناً '' (2)

اے ابوذر ! اپنے لئے کسی مصاحب کو منتخب نہ کرو ، مگر یہ کہ وہ مومن ہو  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ زخرف ، آ یت 67 ، بحار الا نوار:ج 77ص  2 10

[2]۔ بحار الانوار:ج 77ص  86

۱۱۴

کیو نکہ زندگی کا لطف ، اولیاء خدا اور نیک لو گوں کی صحبت میں ہے حضرت امیر المومنین  اپنے ایک حیات بخش فرمان میں رسول(ص) سے فرماتے ہیں :

'' هل احبّ الحیاة الاَّ بخدمتک والتّصرّف بین امرک و نهیک ولمحبّة اولیائک ''(1)

کیا زندگی کو دوست رکہتا ہوں مگر آپ کی خدمت ، آپ کے امر و نہی کی اطاعت اور آپ نے اولیا ء  و محبین سے محبت کے لئے ؟ 

دنیا کی ارزش و اہمیت صرف اولیاء  خدا ور نیک و خود ساختہ افراد کی وجہ سے ہے ورنہ زندگی صرف رنج و غم کا نام ہے جیسا کہ حضرت امیر المومنین کی نظر میں دنیا کی کوئی ارزش و واقعیت نہیں ہے زندگی میں کچہ بے ارزش ، رنج آور اور نا راحت کرنے والے و اقعات ہو تے ہیں لہذا صرف اولیاء خدا کا وجود ہی خدا کے بندوں کے لئے دنیا میں زندگی گزار نے کا سبب ہے نہ کہ دنیا کی زرق برق رونقیں اس بناء پر خدا کے بندوں کے لئے جو چیز دنیا میں زندگی بسر کرنے کو شیریں بنا تی ہے وہ اولیاء خدا اور نیک لوگوں کا وجود ہے کہ جن کی صحبت انسان کے دل میں یاد خدا اور اہل بیت  کو زندہ کرتی ہے یہ چیز ان شخصیات کے لئے دنیا میں زند گی گزار نے کے لئے شیرینی ، مسرت و فرحت کا باعث ہے کہ جنہوں نے دنیا کو فروخت کر دیا ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[3]۔ بحا ر الانوار:ج 19ص  81

۱۱۵

اپنے ہمنشینوں کو پہچانیں

ان دو قسم کے افراد کے درمیاں فرق کو مد نظر رکہیں کہ جن میں سے بعض کا ہدف اپنے نام  چمکانا  ہوتا  ہےاور  کچہ   کا ہدف اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے نام کی نشر و اشاعت کے علاوہ کچہ نہ ہو ، انہیں ایک دوسرے سے تشخیص دیں ۔ افراد کی پہچان اور ان کو آزمانے سے پہلے ان پر اطمینان ہلا کت وگمراہی یا توقف کا باعث بن سکتا ہے ۔ حضرت جواد الائمہ امام تقی (ع)   فرما تے ہیں :

'' من انقاد الیٰ الطّمانینة قبل الحبرة ، فقد عرض نفسه للهلکة و لعاقبة المتعبة ''(1)

جو کسی کو آزمانے سے پہلے ان پر اطمینان کرے وہ اپنے نفس کو ہلا کت میں ڈالتا ہے جس کا انجام بہت سخت ہو گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحار الا نوار :ج71 ص 40 3

۱۱۶

اکثر دہو کا کہانے والے یا پہر آسمان سے گرنے  اور کہجور پر اٹہکنے کے مصداق وہ افراد ہیںجوحسن ظن ، جلدی فریفتہ ہو نے والے اور تحقیق کے بغیر اطمینان کر نے کی وجہ سے دہو کا دینے والوں کے چکر میں پہنس جاتے ہیں ۔ اگر وہ مکتب اہل بیت  کی پیروی کرتے ہوئے کسی سے دل لگی اور محبت سےپہلے ان کو آزمالیں تو وہ کبہی بہی  ہلاکت اور گمراہی میں مبتلا نہ ہوں  ۔

اسی وجہ سے ہمیں اپنے دوستوں اور ہمنشین افراد کو پہچا ننا چاہیئے ۔ ان کی کامل پہچان کے بعد ان پر اطمینان و اعتماد کریں اور یہ صحیح و کامل شناخت انہیں آزمانے کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے ۔

           حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

          '' یعرف النّاس بالا ختیار '' (1)

           لوگوں کو امتحان اور آزمائش کے ذریعہ پہچانو  ۔

پس  کیوں  سب  پر  بہروسہ  کریں؟  کیوں کسی  بہی قسم کے افراد کے ساتہ ہمنشینی و رفاقت کے لئے تیار ہو جائیں ؟ ہمیں اپنی زند گی کا برنامہ اہل بیت  کے ہدایت کر نے والے ارشا دات کے مطابق قراردیں  اور ان کے فرامین پر عمل پیرا ہو کر  اپنے مستقبل کو درخشاں بنا ئیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ اصول کافی :ج۱  ص30

۱۱۷

جن افراد کی صحبت ترقی کی راہ میں رکاوٹ

 خاندان وحی علیہم  السلام  نے ہمیں اپنے فرامین میں لوگوں کے چند گروہوں کی صحبت و دوستی سے پر ہیز کرنے کا حکم دیا ہے

1 ۔ چھوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت

           جو معا شرے میں اپنا مقام و مرتبہ اور شخصیت بنانا چاہتے ہیں وہ اپنے اطرافی اور دوستوں کی شناخت کی سعی و کوشش کریں کہ ان کا ماضی اور اس پر لوگوں کے اعتبار کو مد نظر رکہیں ۔ انجان دوست ، یاجو لوگوں میں اچہی صفات سے نہ پہچا نا جا تا ہو ، وہ نہ صرف مشکل میں انسان کی پشت پنا ہی نہیں کرے گا بلکہ اس کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا ۔

           حضرت امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں :

           '' واحذر صحابة من یفیل رایه و ینکر عمله فانّ الصّاحب معتبر بصاحبه ''(1)

           کمزور و ضعیف الرأی شخص کی ہمنشینی اور صحبت اختیار نہ کرنا کہ جس کے اعمال نا پسند یدہ ہوں کیو نکہ ساتہی کا قیاس اس کے ساتہی پر کیا جا تاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ نہج البلاغہ مکتوب: 69

۱۱۸

           کیو نکہ لوگ ظاہر کو دیکہ کر قضاوت کر تے ہیں ۔ ہمیشہ انسان کی اہمیت اس کے دوستوں کی اہمیت کے مانند ہو تی ہے ۔لہذا معاشرے میں بے ارزش اور ضعیف الرأی افراد کی دوستی سے دور رہیں تا کہ ان کے منفی روحانی حالات سے محفوظ رہیں ۔ نیز اجتماعی و معاشرتی لحا ظ سے بہی ا ن کے ہم ردیف شمار نہ ہوں ۔

           یہ کائنات کے ہادی و رہنما حضرت امیر المو منین علی  کی را ہنمائی ہے جس سے درس لے کر اور زندگی کے برنامہ میں اس پر عمل پیرا ہو کر آپ اپنے آئندہ کو درخشاں بنا  سکتے ہیں ۔ اپنے روزانہ کے برنامہ و اعمال اور رفتار کو تشیع کے غنی ترین مکتب کی بنیاد پر قرار دیں تا کہ ابدی سعادت حاصل کر سکیں۔

           ملاحظہ فرمائیں کہ سید عزیز اللہ تہرانی کس طرح چہوٹی فکر والے افراد سے کنارہ کش ہو کر عظیم معنوی فیض تک پہنچ گئے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نجف اشرف میں شرعی ریاضتوں مثلا نماز ، روزہ اور دعاؤں میں مشغول رہتا اور ایک لمحہ کے لئے بہی اس سے غافل نہ ہوتا ۔ جب عید الفطر کی مخصوص زیارت کے لئے کربلا مشرف ہوا تو میں مدرسہ صدر میں ایک دوست کا مہمان تہا ۔ بیشتر اوقات حرم مطہر حضرت سید الشہداء امام حسین  (ع)میں مشرف ہو تا اور کبہی آرام و استراحت کی غرض سے مدرسہ چلاجاتا ۔

           ایک دن کمرے میں داخل ہوا تو وہاں چند دوست جمع تہے اور واپس نجف جانے کی باتیں ہو رہی تہیں ، انہوں نے مجہ سے پوچہا کہ آپ کب واپس جائیں گے ؟ میں نے کہا کہ آپ چلے جائیں میں اس سال خانہ خدا کی زیارت کا قصد رکہتا ہوں اور محبوب کی زیارت کے لئے پیدل جاؤں گا ۔ میں نے حضرت سید الشہداء  (ع)کے قبہ کے نیچے دعا کی ہے اور مجہے امید ہے کہ میری دعا مستجاب ہو گی ۔

۱۱۹

           میرے دوست مجہے مذاق کر رہے تہے اور کہہ رہے تہے کہ سید ایسا لگتا ہے کہ عبادت و ریاضت کی کثرت سے تمہارا دماغ خشک ہو گیاہے ۔ تم کس طرح توشہ راہ کے بغیر بیابانوں میں ضعف مزاج کے ساتہ پیدل سفر کر سکتے ہو ۔ تم پہلی منزل پر ہی رہ جاؤ گے اور بادیہ نشین عربوں کے چنگل میں گرفتار ہو جاؤگے ۔

           جب ان کی سر زنش حد  سے بڑہ گئی تو میں غصہ کے عالم میں کمرے سے باہر چلا آیا اور شکستہ دل اور پر نم آنکہوں کے ساتہ حرم کی طرف روانہ ہو گیا کسی چیز کی طرف توجہ نہیں کر رہا تہا ۔ حرم میں مختصر زیارت کی اور بالا سر حرم مطہر کی جانب متوجہ ہوا جس جگہ ہمیشہ نماز اور دعا پڑہتا وہاں بیٹہ کر گریہ و توسل کو جاری  رکہا ۔

           اچانک ایک دست ید اللّٰہی میرے کندہے پر آیا ، میں نے دست مبارک کی طرف دیکہا وہ عربی لباس میں ملبّس تہے ۔ لیکن مجہ سے فارسی زبان میں فرمایا کہ کیا تم پیا د ہ خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہونا چاہتے ہو ؟ میں  نے عرض کیا ! جی ہاں ۔ انہوں نے فرمایا ! کچہ نان جو تمہارے ایک ہفتہ کے لئے کافی ہوں ؟ ایک آفتابہ اور احرام اپنے ساتہ لے کر فلاں دن فلاں وقت اسی جگہ حاضر ہو جاؤ اور زیارت و داع انجام دو تا کہ ایک ساتہ اس مقدس جگہ سے منزل مقصود کی طرف حرکت کریں ۔

           میں ان کے حکم کی بجا آوری و اطاعت کا کہہ کر حرم سے باہر آیا ۔ کچہ گندم لی اور بعض رشتہ دار خواتین کو دی کہ میرے لئے نان تیار کر دیں ۔ میرے تمام دوست نجف واپس چلے گئے اور پہر وہ دن بہی آگیا ۔ اپنا سامان لے کر معین جگہ پہنچ گیا ، میں زیارت وداع میں مشغول تہا کہ میں نے ان  بزرگوار سے ملاقات کی ، ہم حرم سے باہر آئے ، پہر صحن اور پہر شہر سے بہی خارج ہوگئے ۔ کچہ دیر چلتے رہے نہ تو انہوں نے مجہے اپنے شیرین سخن سے سر فراز فرمایا اور نہ ہی میں نے ہی ان سے بولنے کی جسارت کی کچہ دیر کے بعد پانی تک پہنچے ۔ انہوں نے فرمایا : یہاں آرام کرو۔ اپنا کہانا کہاؤ اور انہوں نے زمین پر ایک خط کہینچا اور فرمایا یہ خط قبلہ ہے نماز بجا لاؤ عصر کے وقت تمہارے پاس آؤں گا ۔ یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گئے میں وہیں ٹہہرا رہا ، کہا نا کہایا  ، وضو کیا اور پہر نماز پڑہی ۔ عصر کے وقت وہ بزرگوار تشریف لائے اور فرمایا : اٹہو چلیں ، چند گہنٹے چلنے کے بعد پہر اک جگہ اور پانی تک پہنچے، انہوں نے پہر زمین پر خط کہینچا اور فرمایا

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348