مجموعہ تقاریر(حصہ دوم) جلد ۲

مجموعہ تقاریر(حصہ دوم)0%

مجموعہ تقاریر(حصہ دوم) مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

مجموعہ تقاریر(حصہ دوم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مولانا جان علی شاہ کاظمی
زمرہ جات: مشاہدے: 15059
ڈاؤنلوڈ: 3021


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15059 / ڈاؤنلوڈ: 3021
سائز سائز سائز
مجموعہ تقاریر(حصہ دوم)

مجموعہ تقاریر(حصہ دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مجلس ۷

فقد قا ل الله تبارک وتعالیٰ فی کتابه المجید و فر قانه الحمید و قوله الحق بسم الله الرحمن الرحیم

( بقیة الله خیر لکم ان کنتم مومنین ) “(سورہ ہود آیت ۸۶)

ہر شخص پر واجب ہے کہ اپنے زمانے کی امام کی معرفت حاصل کرے ۔ ہمیں جو بھی مل رہا ہے رزق مل رہا ہے اولاد مل رہی ہے عزت مل رہی ہے دولت مل رہی ہے یہ سب امام زمانہ کے صدقے میں مل رہی ہے امام حجت خدا ہیں اُن کی معرفت اور روحانیت برقرار کرنا ہے اور جسمانی رابطہ کے لئے بھی کوشش کر نی چا ہئے کہ مو لا کی زیارت ہو جائے ،مگر امام سے ہمیشہ رو حانی رابطہ میں رہیں ہم پر لازم ہے کہ وہ کام کریں جو امام کو پسند ہو جیسے تبلیغ اسلام جو امام کو پسند ہے کیونکہ یہی وہ طریقے ہیں کہ ہم امام سے رابطہ بر قرار کر سکیں آج کل تو یہودی مسلمان ممالک کو غلام بنا نے کے چکر میں ہیں ہمارے پاس ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم انٹرنیٹ کے ذریعے سے عیسائیوں کو مسلمان بنا نا شروع کریں ہم احمد دیدت کی کتابوں کے ذریعے سے عیسائیوں کو مسلمان بنا سکتے ہیں ہم عیسائیوں کو مسلمان بناکر یورپ امریکا میں ایک لابی بنا سکتے ہیں جو اس یہودیوں کی شیطنت کو روکے اور دوسرا غیبت امام زمانہ میں جو مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ جہالت کو ختم کیا جا ئے اگر جہا لت اور گمراہی پھیلتی گئی نو دشمن سازشوں میں کامیاب ہو جائے گا ، دشمن اصل میں جہالت سے فائدہ اٹھاتا ہے جہالت اور گمراہی کو ختم کرنا ہر مو من کی ذمہ داری ہے یہودیوں نے شیعیت کے خلاف تین بڑی سازش شروع کر دی ہیں ایک وہابیت کا حملہ ہم پرشروع کر دیا ہے کچھ بے دین مولویوں کو خریدا ہے جو کہتے ہیں یا علی مدد کہنا بھی بدعت ہے جب کہ یا علی مدد کہنا حدیث ،قرآن ، توریت و انجیل سے ثابت ہے اور دوسرا حملہ اخباریت کا حملہ ہے اخباریت کا مذہب اگر ہمارے درمیان آجاتا تو اس وقت شیعیت ختم ہو چکی ہو تی یہ چا رسو سال پرا نا مذہب ہے جسے انگریزوں نے بنا یا تھا آج یہ یہودی دو بارہ اسے زندہ کرنا چا ہتے ہیں اخباری لوگ کہتے ہیں کہ ہم قرآنی دلیل کو نہیں مانتے ہیں اگر شیعہ قرآنی دلیل کو نہ مانیں تو مولا علی کی خلافت اور امامت کو کہاں سے ثابت کریں گے دو ہی نقطہ ہیں جس سے سنی مسلمان شیعہ بنتا ہے ایک مو لا علی کے خلافت کا مسئلہ ہے اور دوسرا مسئلہ بی بی فاطمة الزہرا کے فدک کا حق کا ہے ان دو نوں کو ہم قرآن سے ثابت کرتے ہیں اگر ہم قرآن کی دلیل کو نہ مانیں تو کوئی چیز ہم ثابت نہیں کرسکتے ہیں یہ وہی آیتیں جو قرآن میں ہیں ”( یا ایها الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالته ) “ (سورہ مائدہ آیت ۶۷) اے میرے محبوب آ ج اعلان کردو جو ہم نے آ پ پر حکم نازل کیا اگر آپ نے اس کولوگوں تک نہیں پہنچایا تو آپ نے رسالت کا کوئی کام ہی انجام نہیں دیا ہے یہ مشہور واقعہ اہل سنت کی تین سو کتابوں میں موجود ہے کہ اس کے بعد اللہ کے رسول ممبر پر آئے خدا کی حمد و ثنا کر نے کے بعد فر مایا :مسلمانو!کیا تم مجھے اپنا آقا مانتے ہو کیا تم مجھے مو لا مانتے ہو؟ ہم کہیں گے اگر ہم رسول کو نہیں مانتے تو ”لا الہ الا اللہ“ کیوں کہتے ،اگر ہم رسول کو مو لا نہیں مانتے ” محمد رسول اللہ “ کیوں کہتے، اگر ہم رسول کو مولا نہیں مانتے تو نماز کیوں پڑھتے، اگر مو لا نہیں مانتے تو حج میں کیوں آ تے ،مگر رسول خدا سوال کر رہے ہیں تو بے کار نہیں پوچھ رہے ہیں ظاہرا اگر ناسمجھ آ دمی وہ کہے گا کہ یہ عجیب سوال ہے کہ کیا تم مجھے مو لا مانتے ہو؟ ہم مانتے ہیں تو حج پر آتے ہیں،نہیں نہیں رسول خدا ایک اور اہم مسئلہ کی طرف متوجہ کررہے ہیں کہ دیکھو ماننے کے دو طریقے ہیں خدا کو فرشتے بھی مانتے ہیں اور خدا کو شیطان بھی مانتا ہے شیطان نے خدا کی خدائی کا انکار نہیں کیا ہے شیطان کہتا ہے ”( فبعزتک لاغوینهم اجمعین ) “ (سورہ ص آیت ۸۲) خدا کو مانتا ہے قیامت کو مانتا ہے فرشتے بھی خدا کو مانتے ہیں شیطان بھی خدا کو مانتا ہے ماننے کے دو طریقے ہیں فرشتے کیسے مانتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں :ہم تجھے مانیں گے ہم تجھے مانتے ہیں اور جس جس کو تومنوائے گا اُس کو بھی ہم مانیں گے یہ فرشتوں کے ماننے کا طریقہ ہے ،شیطان ملعون کے ماننے کا کیا طریقہ ہے ؟وہ کہتا ہے کہ پروردگار تجھے ما نوں گا لیکن اگر تو آدم کو منوائے گا تو میں اُسے نہیں مانوں گا تو اللہ کے رسول کا سوال بھی یہی ہے کہ مجھے مانتے ہو تو کیسے مانتے ہو فرشتوں کی طرح مانتے ہو یا شیطان کی طرح مانتے ہو؟ اگر فرشتوں کی مانند مانتے ہو تو اے مسلمانو! سنو تو یہی اصل ایمان ہے کہ مجھے بھی مانو گے اور جسے میں منواوں گا اُسے بھی مانو گے اس کے بعد اللہ کے رسول نے اقرار لیا مجھے مانتے ہو تو سب نے کہا مانتے ہیں تو اب اللہ کے رسول نے ”من کنت مو لاه فهذا علی مولاه “ جس جس کا میں مو لا ہوں اُس اس کے علی مولا ہیں اب جو نبی کو فرشتوں کی طرح ما نتے ہیں وہ نبی کو بھی مو لا مانتے ہیں اور علی کو بھی مو لا مانتے ہیں ،مگر جو فرشتوں کی طرح نہیں مانتے ہیں وہ کہتے ہیں نبی کو مانیں گی مگر علی کو نہیں مانیں گے۔

یہیں سے فرقہ بنا انہوں نے ایمان کا اظہار اس طرح سے کیا جیسے شیطان خدا کو مانتا ہے لیکن اگر خدا نے کسی کو منوایا اُسے نہیں مانتا ہے ہم مو من ہیں ہمیں فر شتوں کی طرح ما ننا ہے ہم کہیں گے اللہ کے رسول ہم آ پ کو مانتے ہیں اور جسے آپ منوا ئیں گے اُسے بھی ہم مانیں گے مو لا علی کو کہا ہے یہ مو لا ہیں مولا علی نے فر مایا میرے بعد میرا بیٹا حسن تم لوگوں کا مولا ہے ہم امام حسن کو بھی ما نتے ہیں امام حسن نے فرمایا میرے بعدحسین تمہارا امام ہے ہم مولا حسین کو بھی مانتے ہیں( یا ایها الرسول بلغ ----- ) یہ آ یت ناسخ ہے قیامت تک ہے یعنی جب امام علی کی شہادت ہو گئی تو یہ آیت مو لا علی سے کہے گی آپ وارث پیامبر ہیں اگر آ پ نے جا نے سے پہلے مو لا مقرر نہیں کیا تو گو یا دین کا کوئی کام ہی انجام نہیں دیا ہے اسی لئے مولا حسین زخموں میں چو ر چور ہیں مگر سجاد کے خیمہ میں آ تے ہیں تا کہ اہل حرم کو بتلائیں کہ سید سجاد میرے بعد تمہارے مولا ہیں ہم حسین کو بھی مو لا مانتے ہیں اور حسین نے جس کو منوا یا امام زین العابدین کو بھی مانتے ہیں ہم آ خر میں بارہویں امام تک پہنچے اب یہاں ایک فرقہ بن گیا کیوں اس لئے امام غیبت میں جارہے ہیں اب جب امام غیبت میں جا ئیں گے تو یہ آ یت کہے گی ”( یا ایها الرسول ) “ اے وارث رسول اُمت کو کس کے حوالہ کر کے جارہے ہیں اگر آپ نے جانے سے پہلے اعلان نہیں کیا کہ امت کا سر براہ کون ہے امت کارہبر کو ن ہے اُمت کس کے حوالے ہے احکام خدا نافذ کرنے والا کون ہے تو گویا آپ نے دین کا کوئی کام انجام نہیں دیا لہذا امام نے غیبت میں جانے سے پہلے کہا؛ اے شیعو! میں تمہیں بے وارث چھو ڑ کر نہیں جا رہا ہوں ،بلکہ تم پر واجب ہے اُس مجتہد اُس عالم کی اطاعت کرنا جو دنیا میں سب سے بڑا متقی ہو اور سب سے بڑا عالم ہو اب یہاں ایک فرقہ بن گیا کہتا ہے ہے ہم بارہویں امام کو مانیں گی مگر جس کو امام نے منوا یا ہے مجتہد کو نہیں مانیں گے یہ اخباری لوگ ہیں ان کا وہی شیطان کا عقیدہ ہے کہ خدا کو مانتا ہوں مگر جسے خدا منوا ئے گا آدم کو نہیں مانوں گا ہم بارہویں امام کو مانیں گے مگر جسے بارہویں امام منوا ئیں گے اُسے نہیں مانیں گے ہم خود ہی مجتہدہیں ۔

اخباریت کا مقصد کیا ہے ؟ اُن کا مقصد یہ ہے کہ شیعیت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں یہ امیریکی خبیث اس مذہب کو ہمارے اندر ایجاد کرنا چا ہتے ہیں مگر وہ لوگ نعرہ کیا لگا تے ہیں جو ہر شیعہ کا نعرہ ہے جو ہر شیعہ کے دل کی دہڑکن کا نعرہ ہے ہر شیعہ کا ایمان ہے یہ لوگ نعرہ تو علی ولی اللہ کا لگا تے ہیں وہ ہمارا ایمان ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے مگر اس کے پیچھے اُن کے مقاصد کیا ہیں یہ لوگ علی ولی کی روایت کہاں سے لاتے ہیں علی ولی اللہ کی روایت اُس کتاب سے لاتے ہیں جس کو ہمارے تمام مجتہدین تمام عالم دین نے اس کتاب کو رد کیا ہے یہ کتاب امام علی رضا (ع) کی نہیں ہے یہ دشمن نے لکھی ہے یہ منافق نے لکھی ہے اگر اس کتاب کو ہم مان لیں تو ہمارا مذہب ختم ہو جا ئے گا تو ایک شیعہ کو کافر کرنے میں کو ئی دیر ہی نہیں ہے اس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ سورہ ” قل اعوذ بر ب الفلق“ اور سورہ ”قل اعوذ برب الناس“ قرآن کی سورہ نہیں ہے امام کی تو ہین کی گئی ہے اہل بیت کی توہین کی گئی ہے اہل بیت کے علم کی توہین کی گئی ہے اس کی کسی حدیث کو ہم نہیں مانتے ہیں کس حدیث کو ہم مانتے ہیں ہم اُس حدیث کو مانتے ہیں جو قرآن کے مطابق ہو حدیثوں کے بارے میں اللہ کے رسول نے بھی بتلا یا امام نے بھی بتلا یا میرے بعد جوبھی حدیثیں بنا نے والے ہزاروں لوگ ہوں گے اے شیعو! ہر حدیث کو نہ ماننا نہج البلا غہ میں مو لا علی نے معیا ر بتلا یا فر ما یا حدیث بیان کر نے والے چا ر قسم کے لوگ ہیں ایک منافق ہیں اور منافق کی حدیث کو نہ ماننا منافق نے اس لئے بتلا ئی تا کہ فساد ہو اسلام بدنام ہو شیعیت بدنام ہو۔

مو لا علی نہج البلا غہ میں فر مارہے ہیں: ایک حدیث بیان کرنے والا مو من ہے مو لا فر ما تے ہیں :اُس سے بھی حدیث نہ لینا اس لئے کہ اُس مو من کا حافظہ ضعیف ہے وہ آدھی حدیث بھو ل گیا ہے اور اُسے آ دھی یاد ہے جو کام کی چیز ہے وہ بھول گیا ہے وہ چیز یا دہے جس میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے فرمایا: ایسے مومن سے بھی حدیث نہیں لینا جس کا حافظہ کم ہو جس شخص کا حافطہ بھی صحیح ہے حدیث بھی صحیح بتلا تا ہے مگر اُسے یہ نہیں معلوم کہ یہ حدیث ناسخ ہے یا منسوخ کیونکہ حدیثوں کی قسمیں ہیں امام ایک حکم وقتی دیتے ہیں علی ابن یقطین وزیر تھا اُس کی جان خطرہ میں پڑ گئی تو امام نے اُسے فر ما یا : تم اہل سنت کی مانند وضو کرو اُسی لحظہ ایک مو من آیا اور اُس نے امام کی اس بات کو سن لیا مگر اُسے یہ نہیں معلوم کہ یہ اس کی جان بچانے کے لئے ہے بعد میں امام نے اُسے فرمایا : اب وہ وضو کر نا چھوڑدو جو قرآن نے کہا ہے اُس طرح سے وضو کرو اُس دو سرے مو من نے جو اس حدیث کو سنا تھا اور اُس نے بعد والی نہیں سنی اُس نے اپنے گاوں میں آ کر کہہ دیا کہ وضو تو وہی طریقہ جو اہل سنت کا ہے صحیح ہے امام نے فر ما یا : ایسے صحابی سے بھی حدیث نہیں لینا جسے ناسخ اورمنسوخ کا پتہ نہ ہو کہ یہ حدیث ناسخ ہے یا منسوخ یعنی اسے مو لا نے کنسل کر دیا ہے یا آ خری حکم ہے مو لا علی نے چار اصول بتلا ئے : حدیث اُس سے لینا جو مومن بھی ہو حافطہ بھی صحیح ہو ناسخ اور منسوخ کے بارے میں جانتا ہو اور جس کے بارے میں ہر ایک بندہ نہیں جانتا ہے اس کے لئے علم رجال پڑھنا پڑتا ہے علم رجال یعنی جتنے راوی ہمارے اماموں کے زمانے میں گذرے ہیں اُن کو چیک کر نا پڑتا ہے کہ یہ مو من تھا ،منافق تھا ،دنیا پرست تھا یا خدا پرست تھا امام کے ساتھ ایک سال رہا تھا یا دس سال رہا تھا امام نے اُس کی تا یید کی تھی یا نہیں کی تھی ان سب تحقیق کر نے کے بعد ہم حدیث کو مانتے ہیں یہ جو مسئلہ اٹھا یا جارہا ہے پہلے انہوں نے جس کتاب سے حدیث بیان کی وہ کتاب ہی ہماری نہیں ہے یہ ہمارے دشمنوں کی ہے پھر وہ جو چند حدیثیں بحار الانوار سے نقل کرتے ہیں وہ بھی بالکل غلط اور ضعیف اور جھوٹی حدیث ہے کیونکہ بحار الانوار کو جو علامہ مجلسی نے لکھا ہے وہ سو جلدوں سے بھی زیادہ ہے علامہ مجلسی نے گاوں گاوں جا کر ان حدیثوں کو نقل کیا ہے اور انہوں نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ میں نے یہ تحقیق نہیں کی ہے کہ ان میں سے کتنی حدیثیں جھوٹی ہیں کتنی ضعیف ہیں اور کتنی غلط ہیں یہ آ نے والے علماء کا کام ہے اہم یہ ہے کہ علم رجا ل کے ساتھ انسان کو حدیثوں کا بھی علم ہو نا چا ہئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حدیث کی سند کو دیکھا جاتا ہے کہ حدیث کس نے سنائی ہے مثال احمد نے مسلم سے سنی مسلم نے یوسف سے سنی یو سف نے حسن سے سنی اور حسن نے اُس سے سنی جو منافق تھا اگر بیچ میں ایک بھی منافق آگیا تو وہ حدیث قابل قبول نہیں ہے بعض پمفلٹ میں اور کتابوں میں لکھا گیا ہے کہ علم حدیث نقل کی گئی ہے کہ تشہد فلا ن طریقے سے پڑھا جا تا تھا امام رضا(ع) اس طرح سے پڑھا کرتے تھے اور اس کتاب کو ہمارے دشمنوں نے لکھا ہے جس میں اہل بیت کی تو ہین کی گئی ہے کہا گیا ہے کہ ”اشهد انک نعم الرب و ان محمدا نعم الرسول و ان علیا نعم المولا “ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو میرا اتنا اچھا رب ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول خدا (ص) میرے اچھے رسول ہیں اور گواہی دیتا ہوں مولا علی میرے اچھے امام ہیں ہمارا تشہد کیا ہے ”اشهد ان لا اله الاالله وحده لا شریک له واشهد ان محمد اًعبده و رسوله “ انہوں نے ایک نیا تشہد ایک غلط کتاب جو ہمارے دشمنوں نے لکھی ہے وہاں سے لیکر آ گئے ہیں اور اب ہم دونوں تشہدوں کو دیکھتے ہیں کہ کون سا تشہد قرآن کے مطابق ہے انہوں نے کہا ”اشهد انک نعم الرب “ اگر کوئی انسان یا رب یا رب کہتا رہے مسلمان نہیں ہو سکتا ہے کیوں اس لئے کافر بھی اور مشرک بھی عیسائی بھی رب کو مانتے ہیں یہود بھی مانتے ہیں مسلمان بننے کا پہلے جو مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ جب انسان کہے ”اشهد ان لا اله الا لله “ اس کے بغیر کو ئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا ہے ”اشهد ان لا اله الا الله “ کہنا لازم و ملزوم ہے اس میں وہ جملہ ہی غائب ہے ،اس جملہ میں ”اشهد ان لا اله الا الله “ ہی نہیں ہے یہ خود بتلا رہا ہے کہ یہ روایت جھوٹی ہے ”لا اله الا الله “ اگر کسی جملہ میں غائب ہے تو اس میں کوئی شک ہی نہیں ہے کہ یہ جھوٹی حدیث ہے ضعیف حدیث ہےلا اله الا الله کے بغیر کوئی مسلمان ہی نہیں ہے انہوں نےلا اله الا الله ہی کو غائب کردیا اور رب کا نام ڈال دیا اور رب جو ہے یہ صفتی نام ہے گواہی جب بھی دی جا تی ہے تو وہ ذاتی نام سے دی جاتی ہے اگر ہم کورٹ میں گواہی دیں گے تو ہم اپنے اصلی نام سے گواہی دیں گے تو اللہ کی گواہی جب بھی دیتے ہیں تو اللہ کے ذاتی نام سے دیتے ہیں اور اللہ کا ذاتی نام اللہ ہے رب نہیں ہے ،رب یعنی پالنے والا رب کا لفظ سورہ یوسف میں مصر کے بادشاہ کے لئے بھی جو کا فر تھا اُس کے لئے بھی استعمال ہوا ہے تو گواہی جب بھی دی جاتی ہے تو وہ ذاتی نام سے دی جاتی ہے ان دو نکتوں سے معلوم ہوا کہ یہ روایت جھوٹی ہے ،اور پھر کہا ”ان محمداً نعم الرسول “ ہم کیا کہتے ہیں کہ ”و اشهد ان محمداً عبده و رسوله “ پہلے عبد کہتے ہیں پھر رسول کہتے ہیں اس کے بارے میں کبھی ہم نے غور کیا کہ پہلے عبد کیوں کہتے ہیں پھر رسول کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں آپ عبد ہیں پھر رسول ہیں سوال یہ ہے کہ پہلے عبد کا لفظ کیوں ا یا اور پھر رسول کا لفظ کیوں آیا ؟ اس لئے کہ عبدیت کا مقام رسالت کے مقام سے بلند ہے رسول تو بہت زیادہ ہیں مگر عبدیت کا مقام ہر ایک کو نہیں ملا اس کی دلیل کیا ہے ؟ سورہ نبی اسرائیل میں اللہ نے فر ما یا ”( سبحان الذی اسری بعبده لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ ) “سورہ اسراء آیت ۱) یعنی جب ہم نے عبدکہا تو ہم نے اعلان کیا کہ ہم معراج رسول کے بھی قائل ہیں اس سے معلوم ہوا کہ عبدیت کا مقام رسالت کے مقام سے بلند ہے انہوں نے عبدیت کو بھی غائب کر دیا جبکہ یہ سب سے بلند مقام ہے کہ معراج نہ حضرت عیسی کو نصیب ہوئی اورنہ موسی کو نصیب ہوئی ہمارے نبی کو معراج نصیب ہوئی، کیوں ؟ اس لئے کہ ہمارے نبی مقام عبدیت پر تھے اگر ہم عبدیت کی گواہی نہ دیں تو ہم نے رسول خدا (ص) کے مقام کو کم کردیا گرا دیا۔ جتنے بھی نئے مذہب بنے ہیں مثال بہائی مذہب انہوں نے آ یتوں کا غلط ترجمہ کر کے اور غلط تفسیر اور کچھ ضعیف حدیثوں کے ذریعے سے انہوں نے مذہب بنا یا ہے یہ لوگکہتے ہیں کہ تشہد میں علی ولی اللہ پڑھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ قرآن کی آیت ہے کہ مو من وہ ہے جو تین گواہیاں دے اگر آپ نے مو لا علی کی ولایت کی گواہی نہیں دی تو آپ مو من بھی نہیں ہیں ہم آپ کو تین گواہیاں دیں گے پہلی گواہی یہ ہے ”اشهد ان لا اله الا الله “ یہ اللہ کی خدائی کی گواہی ہے ہم نے گواہی دی کہ اے میرے مالک تیرے سواء کوئی بھی رب نہیں ہے اگر ہم نے خدا کی گواہی دی مگر ہم فقط خدا کو نہیں مانتے ہیں عیسائی بھی خدا کو مانتے ہیں مگر اُن کے یہاں ھولی ٹرنٹی ہے اُن کے یہاں شرک ہے ہم دوسری گواہی دیں کہ ہم خدا کو عیسائیوں اور یہودیوں کی طرح نہیں مانتے ہیں بلکہ ”وحده لا شریک له “ یہ دوسری گواہی ہے پروردگار ہم تجھے ایسے مانتے ہیں کہ تیرا کوئی شریک نہیں ہے تیسری گواہی ”وا شهد ان محمد اً عبده و رسوله “ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے عبد ہیں چو تھی گواہی یہ ہے ”ورسولہ“ اور آ پ اللہ کے رسول ہیں جب ہم نے کہا ”وا شهد ان محمد اً “ تو اسی پاک رسول نے کہا ”اولنا محمد ،آخرنا محمد ،اوسطنا محمد ، کلنا محمد “ ہمارا پہلا بھی محمد ہے ہمارادرمیانہ بھی محمد ہے ہمارا آخری بھی محمد ہے ہم سب کے سب محمد ہیں جب ایک محمد کی گواہی دے دی تو اسی نے بارہ کی گواہیاں دے دی ہیں ۔

انہوں نے ایسا نعرہ لگا یا ہے جو ہر شیعہ کے دل کا نعرہ ہے ہر شیعہ کا ایمان ”علی ولی الله “ ہے مگر یہ لوگ اس نعرہ کو اس طرح سے استعمال کر رہے ہیں جیسے دشمن علی نے ”لا حکم الا الله “ کا نعرہ لگا یا تھا کہ حکم اللہ کا چلے گا نہ علی کا اور نہ میرا جس کے نتیجہ میں خارجی گمراہ ہو گئے کہ یہ لوگ تو بات صحیح کہہ رہے ہیں کہ علی کا حکم بھی نہ چلے اور نہ دشمن علی کا حکم چلے مو لا نے اُن سے فر ما یا تم لوگ دھو کا کھا رہے ہو یہ تمہیں دھوکا دے رہے ہیں نعرہ تو اس کا حق ہے مگر اس کی نیت باطل ہے کیونکہ حکم خدا چلا نے کے لئے یا نبی آ ئے گا یا امام آ ئے گا ان کا اصل مقصد کیا ہے وہ یہ ہے کہ فقہ امام رضا کا حوالہ دیں جس سے شیعوں کو کا فر کہنے میں کوئی دیر ہی نہیں ہو گی اسے منظر عام پر لا یا جا رہا ہے یہ اندرونی دشمن باہر کے دشمن سے زیادہ خطرناک ہیں اگر کل کورٹ میں کوئی مسئلہ ہو گیا تو وہ ہمیں کہیں گے کہ یہ آپ کی کتاب ہے اور عوام کو بھی بیوقوف بنا یا جا رہا ہے کہ فقہ امام رضا میں یہ لکھا ہوا ہے یہ عوام کو تونہیں معلوم کہ یہ کتاب کیا ہے با ہر کا دشمن ہمیں کافر کہنے میں اُس کے لئے مشکلات نہ ہو گی یہ اندر کے دشمن ہیں جو ظاہر علی ولی اللہ کہہ رہے ہیں ،مگر یہودیوں کے ایجنٹ ہیں اور دوسرا مقصد کیا ہے وہ یہ ہے کہ مقصد ٹوٹ جائے شیعوں کے یہاں مفت میں مفتی نہیں بنتے ہیں دوسروں کے یہاں چار سال پڑھ لیتے ہیں مفتی بن جاتے ہیں ،ہمارے مجتہد کیسے بنتے ہیں جب ہمارے علماء سات سبجیکٹ میں پی اچ ڈی کرلیں پھر وہ مجتہد بنتا ہے ہمارے یہاں یہ ہے کہ پہلے قرآن کے علم میں مجتہد بنے دو سرا علم حدیث میں پی اچ ڈی کرنا ہے تیسرا علم رجال میں پی اچ ڈی کرے چوتھا فقہ میں پی اچ ڈی کرے اسی طرح سے اصول میں پی اچ ڈی کرلے منطق میں پی اچ ڈی کر لے عربی میں پی اچ ڈی کر لے تقریبا سات دروس میں پی اچ ڈی کرنے کے بعدہمارے یہاں ایک شخص مجتہد بنتا ہے اُسے تیس چالیس سال لگ جاتے ہیں اب مجتہد بن گیا مگر اب بھی فتویٰ نہیں دے سکتا ہے دشمن جانتا ہے کہ یہ مذہب جو آ ج تک جو مقابلہ کر رہا ہے کیونکہ اُس کی بنیاد مضبوط ہے ایک شخص نے چالیس سال علم حاصل کر نے کے بعد اور سات دروس میں پی اچ ڈی کر نے کے بعد مگر اب بھی فتویٰ نہیں دے سکتا ہے اب بھی رسالہ نہیں لکھ سکتا ہے وہ شخص مجتہد بن گیا فتویٰ نہیں دے سکتا ہے اُسے کسی کی تقلید کرنا واجب نہیں ہے وہ خود ہی مسئلہ سمجھ لے گا مگر فتویٰ نہیں دے سکتا ہے کسی کی تقلید نہیں کر سکتا ہے تقلید تب ہو گئی جب تیس چالیس پچاس سال علما ء گواہی دیں کہ ہم نے دس سال بارہ سال اس کے دروس کو سنا ہے واقعاً یہ اعلم بھی ہے ،متقی بھی ہے امام نے فقط عالم کی شر ط نہیں بتا ئی متقی بھی ہو۔

دشمن اس مضبوط نظام کو توڑنا چاہتا ہے کہ شیعہ اسی لئے مضبوط ہیں اور اسی لئے ایران میں انقلاب کا میاب ہوا اسی لئے انگریز نے پوری دنیا کو غلام بنا دیا مگر ایران کے شیعوں کو غلام نہ بنا سکا کیونکہ اُس زمانے کے مجتہد حسن شیرازی نے فتویٰ دیا اور یہ فتویٰ انگریز کے منھ پر طماچہ تھا انگریز کو وہاں سے شکست ملی جب کہ پوری دینا پر انگریز قبضہ کر چکا تھاآج بھی امریکا دیکھ رہا ہے کہ شیعیت کی مضبوطی وہ یہ ان کے مجتہدین ہیں ان کا مرکز ایک ہے اس مرکز کو توڑدو، لہذ ا وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سے نعرہ لگوارہا ہے جوہر شیعہ کا نعرہ ہے مگر مقصد کیا ہے مقصد یہ ہے کہ چار حدیثیں دیکھ لیں اور فتویٰ دے دیا کہ تشہد میں علی ولی اللہ پڑھ لو پنجاب میں ایک اور فرقہ بن گیا ہے اُن کا مقصد یہ ہے کہ کئی فر قہ بن جا ئیں اور انہوں نے بھی کچھ احادیث کو نکا لا ہے وہ کہتے ہیں اگر تشہد میں علی ولی اللہ پڑھ سکتے ہیں تو پھر امام زمانہ نے کیا قصور کیا ہے تو انہوں نے اذان میں امام زمانہ کی گواہی دینا شروع کر دی ہے یہ اُسی سازش کے تحت ہے ۔ یہ خبیث ٹولہ ظا ہرا تو مو لا علی کا نام لگا رہا ہے مگر ان کا مقصد یہ ہے کہ شیعوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جا ئیں اور ان چند سالوں میں ایک اور فرقہ بھی پیدا ہو گیا ہے اور انہوں نے اذان میں امام زمانہ کی گواہی دینا شروع کر دی ہے اور دوسرا فرقہ بن جا ئے گا وہ کہے گا کہ ہم کا ظمی ہیں تو امام مو سیٰ کا ظم کا نام بھی نماز میں ہو نا چاہئے اور پھر رضوی کہیں گے کہ ہم رضوی ہیں تو امام رضا (ع) کا نام بھی نماز میں ہو نا چا ہئے مقصد دشمن کا یہ ہے کہ چار پانچ حدیثیں دیکھ کر بغیر علم رجا ل کے بغیر علم حدیث کے بغیراجتہاد کے ان کو مفتی بنا دو تو چند سالوں میں شیعوں کے اندر بھی ہزار فرقہ بن جا ئیں گے ۔

یہ خطرناک سازش ہے اسے معمولی سازش مت سمجھئے علی ولی اللہ ہمارا ایمان ہے علی ولی اللہ کے بغیر کو ئی شیعہ ہی نہیں ہے مگر یہ خبیث اس طر ح سے مو لا علی کا نعرہ لگا کر مو لا علی کے ہی دین کو ختم کر نا چا ہتے ہیں مو لا علی کے ہی مذہب کے ٹکڑے کر نا چا ہتے ہیں مثال ایک شخص ہے اُس کا بچہ بیمار ہو گیا وہ شخص بچے کو ڈاکٹر کے یہاں لے گیا تو ڈاکٹر نے کہا کہ اس کا آ پریشن ہو گا تمہارے بچہ کے دل کی کچھ رگیں وہ بلاک ہو گئی ہیں تو اُس نے کہا کیا ہے تو ڈاکٹر نے اُسے نقشہ دکھا یا کہ یہ جو دل ہے یہ جو سیدھے ہاتھ کے طرف کی رگ اُس میں بلاکج ہے تو میں آپریشن کروں گا تو اُس شخص نے کہا کتنے پیسہ لگیں گے تو ڈاکٹر نے کہا دو لا کھ روپیہ لگیں گے وہ انپڑہ اور جاہل تھا تو اُس نے کہا میں دو لاکھ رو پیہ کیوں دوں تو اُس نے ڈاکٹر سے پو چھا کس طرح سے ٹھیک کریں گے تو ڈاکٹر نے کہا یہ والی رگ ہے اس کو اس طر ح سے صاف کروں گا تو اُس نے اپنے سے کہا یہ کام میں خود کیوں نہ کروں دو لا کھ روپیہ میں کیوں دوں پہلے تو ایسا کو ئی بیوقوف نہیں ہو گا اگر کو ئی ایسی بیوقوفی کرے اور اپنے بیٹے کا سینہ چاک کرے کہے کہ میں خود اس کی آٹریز کا آ پریشن کروں تو کیا اُس کا بیٹا بچے گا ہر گز نہیں وہ مر جا ئے گا تو اگر مر جا ئے تو پوری دینا لعنت کر ے گی کہ تو اپنے بیٹے کا قاتل ہے تو وہ لو گوں کو جواب دے گا کہ جو کام ڈاکٹر کر رہا تھا وہ میں نے خود ہی کر ڈالا تو لوگ اُسے کہیں گے اے بیوقوف ڈاکٹر دس بیس سال پڑھا ہے اگر وہ یہی آپریشن کرے تو وہ دو لاکھ کا مستحق ہے اگر تو جاہل آ کر آپریشن کرے تو اپنے بیٹے کا قاتل ہے بالکل اسی طرح سے جو مجتہد تیس سال علم حاصل کرے اگر وہ فتویٰ دے تو وہ ثواب کا مستحق ہے اگر کو ئی جا ہل جو دس بیس حدیثیں پڑھ کر فتویٰ دے تو وہ دین کا قاتل ہے ایسے لوگوں سے انسان کو ہوشیار رہنا چائیے اور وہ کون لوگ ہیں جو خون حسین کے تاجر ہیں اگر ہم جب تک ممبر کے تقدس کو بحال نہ کریں گے ایسے فتنہ اٹھتے رہیں گے تو پھر کو ئی اور فتنہ اٹھا ئیں گے اس کا صرف حل یہ ہے کہ امام جعفر صادق (ع) نے فر ما یا اے شیعو! ہر عالم سے دین مت لینا اُس عالم سے دین لینا جس کے بارے میں یقین ہو پرکھ لو کہ اس کے دل میں پیسہ کی محبت ہے یا نہیں؟ جس کے دل میں پیسہ کی محبت ہے وہ تمہیں دین نہیں دے گا بلکہ وہ تمہیں بے دین بنا ئے گا۔

آ ج ممبر حسین پر اہل بیت کی تو ہین ہو رہی ہے کو ئی معیار نہیں ہے وہ بدبخت لوگ طوائفوں کے کوٹھو ں پر جا کر مجلسیں پڑھتے ہیں اور وہی لوگ آکر ممبر حسین پر مجلس حسین پڑھتے ہیں اہل بیت کا صاف طاہر مذہب آج ہم ممبر پر کس قدر ظلم کر رہے ہیں ممبر پر اہل بیت کی تو ہین ہو رہی ہے اور وہ بڑے بڑے ذاکر خود کو علامہ کہلاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ چا ہتے ہیں کہ حضرت عباس (ع) کے بال کیسے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ فلاں ہندوستانی ایکٹر کے بال دیکھ لیجئے اس سے بڑی تو ہین کیا ہوگی یہ سب ممبر پر کہا جا رہا ہے اے شیعو! کب تک چپ رہو گے یہ آ پ کے دین کو گھٹیا بنا دیں گے یہ آ پ کو آپس میں لڑائیں گے یہ تفرقہ کر یں گے کیونکہ اُن کا مقصد فقط پیسہ ہے ہمارے ذاکر ایک بات امربالمعروف کی نہیں کر تے ہیں۔

اے مو منین اگر ذاکر امر بالمعروف نہیں کرتے تو آ پ مو منین پر فرض ہے کہ امر بالمعروف کریں آپ انہیں کہیں کہ حسین کے ممبر پر آ نے کا حق ادا کریں ہم ہر زیارت میں پڑھتے ہیں ”اشھد انک قد اقمت الصلاة و آتیت الزکوٰة و امرت بالمعروف و نھیت عن المنکر“ مو لا حسین آ پ کی قربانی اسی لئے ہے کہ نماز قائم رہے زکات قائم رہے اور امربالمعروف قائم رہے ا گر ممبر پر آ نے والا صرف واہ واہ کر کے چلا جائے اور پانچ منٹ نماز کے بارے میں گفتگو نہیں اور پانچ منٹ تزکیہ نفس کے بارے میں گفتگو نہیں صرف وہ مجرم نہیں ہم بھی مجرم ہیں جو اُن کے دروس میںآ تے ہیں ۔ رسول خدا (ص) سے سوال کیا گیا کہ کن کی مجلس میں شرکت کریں کن کے دروس میں جا ئیں ؟رسول خدا ﷺنے فر ما یا کہ اُن کے مجلس اور دروس میں جاو جن کے دل میں پیسہ کی محبت نہ ہو ،اور اللہ کے رسول نے کیا فر ما یا، فر ما یا: اُن کی مجلسوں میں جا و جہاں جا نے سے تمہارے علم میں اضافہ ہو دوسرا جہاں جانے سے آداب اسلامی سکھا ئے جا ئیں تمہیں معلوم ہو کہ حلال کیا ہے حرام کیا ہے ہمارے لوگ بوڑھے ہو جاتے ہیں مگر اُن کو حرام حلال کا معلوم ہی نہیں ہوتا ہے غسل کا اُن کو معلوم نہیں ہو تا وضو کر نے کا طریقہ نہیں معلوم ہو تا ہے ممبر پر آداب اسلامی بتا ئے جا ئیں بیوی کے حقوق کیا ہیں شو ہر کے حقوق کیا ہیں ،رسول خدا نے تیسری شرط بتا ئی کہ اُن مجالس میں جا یا کرو جہاں تزکیہ نفس ہو جہاں تیرے نفوس کو پاک کیا جا ئے ۔ اے مو منین اگر آ پ ایسے دروس اور مجالس میں جا ئیں جہاں تزکیہ نفس نہیں ہو تا امر بالمعروف نہیں ہو تا تو درس دینے والے عالم کو کہئے کہ مو لانا صاحب آ پ نے ایک گھنٹہ تقریرکی آپ نے پانچ منٹ بھی مو لا حسین کے مقصد کو بیان نہیں کیا ۔

آج قوم تباہ ہو رہی ہے آ ج نو جوان پریشان ہیں ایک طرف ڈش کے ذریعے دوسرا کبل کے ذریعے سے اور تیسرا انٹرنٹ کے ذریعے سے نو جوان تباہ ہو رہے ہیں اور جب ممبر حسین پر آئے تو ادھر بھی آیت کے بجائے لطیفہ سنا ئے جا تے ہیں ۹ ربیع الاول کا دن تھا ایک ذاکر نے ممبر پر آ کر فلمی گانا سنا ئے ممبر ما تم کر نے کی جگہ ہے اس قدر ممبر کا تقدس پامال ہو رہا ہے قرآن کی آ یت ہے کہ یہودیوں پر عذاب آیا اور وہ عذاب کیوں آ یا ؟ وہ امر بالمعروف نہ کرنے کی وجہ سے یہودیوں پر عذاب آ یا اللہ نے اُن سے کہا کہ سنیجر کے دن مچھلیاں مت پکڑنا مگر وہ لوگ اُس دن مچھلیاں پکڑتے تھے اور دوسرا کس وجہ سے آیا اس لئے کہ خود نہیں پکڑتے تھے مگر انہیں منع نہیں کرتے تھے وہ دو نوں قسم کے لوگ عذاب الہی سے بچ نہ سکے کیونکہ وہ خود تو گناہ نہیں کرتے تھے مگر دوسروں کو روکتے نہیں تھے فقط وہ عذاب سے بچ گئے جو مچھلیاں بھی نہیں پکڑتے تھے اور پکڑنے والے کو امر بالمعروف کرتے تھے یعنی آپ بھی اُن کے جرم میں شریک ہیں اگر ایک ذاکر ہے وہ مقصد حسین بیان نہیں کر رہا ہے تو آپ اگر وہاں چپ رہے تو آ پ بھی اگر آپ ڈر کی وجہ سے کہ میری بے عزتی نہ ہو جا ئے ۔ مجلس حسین میں ریا کاری آ گئی ہے ریا کا ری شرک ہے یہ آ ج مو لا حسین کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے کہ یہ ذاکر امر بالمعروف نہیں کر تے ہیں رسول خدا (ص) کی پیاری حدیث فر ما یا : کہ جو لا الہ الا اللہ سچے دل سے کہے وہ عذاب الہی سے محفوظ ہے فقط ایک شرط ہے اصحاب کرا م نے فر ما یا اللہ کے رسول وہ کیا ہے رسول خدا نے فر ما یا وہ شرط یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ کی تو ہین نہ کرے تو اصحاب نے فر ما یا کیا لا لہ الا اللہ کی تو ہین مسلمان کر ے گا رسول خدا نے فر ما یا : ہاں کچھ لوگ ہیں کہتے ہیں لا الہ الا اللہ مگر لا الہ الا اللہ کی تو ہین بھی کرتے ہیں تو اصحاب نے فر ما یا اللہ کے رسول ہمیں یہ حدیث سمجھ نے میں نہیں آ ر ہی ہے کہ کون مسلمان ہو گا کہ وہ لا الہ الا اللہ کی تو ہین کرے گا اللہ کے رسول نے فر ما یا اگر کو ئی لا الہ الا اللہ کر نے والا بیٹھا ہوا ہے اور اُس کے سامنے ایسا عمل ہو رہا ہے جو قرآن کے خلاف ہے جو شریعت کے خلاف ہے مثال یہی ذاکر جو آج کل کہتے ہیں کہ نماز کی کو ئی ضرورت ہی نہیں ہے علی علی کریں گے تو جنت میں چلے جا ئیں گے جب کہ قرآن کی آیت ہے ”( اقیموا الصلاة ولا تکو نوا من المشرکین ) “ جو نماز نہیں پڑھتا وہ مشرک ہے اللہ کے رسول فرماتے ہیں ”لیس من امتی من استخف بالصلاة “ وہ میرے امت سے خارج ہے اب اگر کسی ذاکر نے یہ پڑھ دیا قرآن کی تو ہین کی رسول خدا کے فر ما ن کی تو ہین کی سارے ائمہ معصومین کے فر ما ن کی تو ہین کی اگر آ پ نے اس کے دروس کو سنا مگر آ پ نے اٹھ کر احتجا ج نہیں کیا تو گو یا آپ نے بھی لاالہ الا اللہ کی تو ہین کی ۔

مثال اگر آ پ کسی کی شادی میں چلے گئے اور آپ نے امر بالمعروف نہ کیا تو آپ نے لا الہ الا اللہ کی تو ہین کی ہے فر ما یا لا الہ الا اللہ اُسے عذاب سے بچا ئے گا جو زندگی میں لا الہ الا اللہ کی تو ہین نہ کرے یعنی جہاں بھی گناہ دیکھے ہم پر واجب ہے کہ امر بالمعروف کریں ۔ حدیث قدسی میں اللہ نے فرما یا : اگر کوئی مو من ہے مگر بے دین ہے میں اُس سے بغض و دشمنی رکہتا ہوں تو اصحاب نے فر ما یا مو لا یہ کیا حدیث ہے ہماری سمجھ سے بالا ہے کہ مو من بھی ہو اور بے دین بھی ہو مو لا نے فر ما یا : ہاں یہ وہ مو من ہے جو بزدل ہے امر بالمعروف نہیں کرتا ہے وہ کہتے ہیں فلان شخص ناراض ہو جا ئے گا وہ لوگ اللہ کو ناراض کر تے ہیں مگر مو لا نا صاحب نا راض نہ ہوں میری خالہ نا راض نہ ہو ،میرا دوست نا راض نہ ہو فر ما یا یہ مو من بے دین ہے اُس سے خدا دشمنی رکھتا ہے کبھی خدا اُس کے دل میں اپنی محبت کا نور نہیں ڈالے گا جو گناہ دیکھ رہا ہے مگر امر بالمعروف نہیں کر رہا ہے جو مو من امر بالمعروف نہ کرے خدا نے اُسے بے دین کہا مگر عالم کے لئے اس سے بھی سخت حکم ہے امام جعفر صادق (ع) نے فر ما یا : اگر ایک عالم معاشرہ میں گناہ دیکھ رہا ہے اگر امر بالمعروف نہ کرے اُس پر خدا کی لعنت ہے۔

عراق کے سلسلہ میں بھی بہت سازش ہو رہی ہیں یہودی کربلا نجف میں گھر خرید رہے ہیں یہ لوگ دوسرا اسرا ئیل بنا نا چا ہتے ہیں ہم میں سے کو ئی مومن وہاں جا ئیں اور گھر خریدیں وہاں اپنے نام سے بھی گھر خرید سکتے ہیں وہاں کو ئی دوا خانہ ہی نہیں ہے وہاں کو ئی لائٹ بھی نہیں ہے پانی کا بندوبست نہیں ہے کر بلا نجف میں صدام نے بہت ظلم کیا تھا اس وقت بہت مو قعہ ہے وہاں کا اوقاف کا منسٹر بھی شیعہ ہے اُس سے بات بھی ہو چکی ہے اُس نے کہا جی جو مومن بھی آ نا چاہتا ہے ہم انہیں ٹرسٹ سے رجسٹرڈ کر اکر دے دیں گے اگر کوئی وہاں امام بارگاہ بنا نا چا ہتے ہیں تو بنا سکتے ہیں ہاسپٹل بنا نا چا ہتے ہیں تو بھی بنا سکتے ہیں وہاں کے مو منین بہت مجبور ہیں وہاں ڈاکٹر کی بھی بہت ضرورت ہے وہاں کی حالت بہت بری ہے صدام نے شیعوں کو بہت ما ر اہے بہت ظلم کیا ہے اس خبیث نے دس لاکھ شیعوں کا قتل عام کیا اس وقت سارے مو منین کو چا ہئے کہ وہاں کے لو گوں کی مدد کریں وہاں پر حوزوں کی حالت بہت ضعیف ہے وہاں مدرسوں میں کوئی پانی کا بندوبست نہیں ہے اور مدرسوں میں لائٹ کا بھی انتظام نہیں ہے وہاں بچہ لالٹین میں پڑھتے ہیں اسی نجف کے حوزہ سے ہی علم آل محمد پھیلا ہے اور اسے دوبارہ آباد کر نا چا ہئے۔

اختتام