آئینۂ اخلاق

آئینۂ اخلاق0%

آئینۂ اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

آئینۂ اخلاق

مؤلف: آیۃ اللہ الشیخ عبد اللہ المامقانی طاب ثراہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 7446
ڈاؤنلوڈ: 2869

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7446 / ڈاؤنلوڈ: 2869
سائز سائز سائز
آئینۂ اخلاق

آئینۂ اخلاق

مؤلف:
اردو

توکل

فرزند! خدا تمہیں دنیا و آخرت کی نیکی عطا کرے۔ اپنے تمام امور میں خدا پر اعتماد کرو۔ تمام امور کی رفتار اسی کے ہاتھ میں ہے اور سب کچھ اسی کے فیصلے سے ہوتا ہے۔ توکل سے انسان رنج و غم سے نجات پا جاتا ہے اور بیجا کوشش نہیں کرتا۔ یاد رکھو کہ کوشش اور مقصد کبھی مل جاتے ہیں اور کبھی الگ ہو جاتے ہیں تو اگر توکل نہ ہوگا تو جب بھی جدا ہو جائیں گے صدمہ ہوگا ورنہ جب بھی حاصل ہو جائے گا خوشی ہوگی اور نہ ملا تو سعی رائگاں کا صدمہ نہ ہوگا۔ قرآن میں ہمیشہ اسباب پر نگاہ رکھنے کو شرک سے تعبیر کیا گیا ہے.( ۱ )

لہٰذا اپنے تمام معاملات میں خدائے لطیف و خبیر مالک قضا و تقدیر پر بھروسہ کرو اور اسباب ظاہری پر اعتماد کرنا چھوڑ دو۔ اسباب کی اہمیت ایک مچھر کے برابر بھی نہیں ہے۔

خبردار! عالم اسباب کے نام پر یہ دھوکہ نہ کھا جانا کہ انسان کی نگاہ اسباب پر ہونی چاہئے یہ وسوسہ شیطانی ہے۔ عالم اسباب کے معنی فقط یہ ہیں کہ اشیاء کا وجود اسباب سے ہوگا نہ کہ بندہ کا اعتماد اسباب پر ہونا چاہئے۔ بندہ کا اعتماد تو خدا ہی پر ہونا چاہئے۔ وہ جب چاہے گا تو اسباب بھی پیدا کر دے گا۔

فرزند! تمہیں طلبِ رزق کے اوامر سے بھی دھوکہ نہ ہو جائے کہ انسان کو ہر وقت روزی کے لئے رواں دواں رہنا چاہئے اس لئے کہ یہ اوامر فقط تنظیم عالم کے لئے ہیں ورنہ عطائے خداوندی تمہاری طلب کی پابند نہیں ہے۔ اللہ پر اعتماد کرو اسباب کا کام مسبب الاسباب کے حوالے کر دو وہ خود اسباب پیدا کر کے روزی فراہم کر دے گا۔ البتہ طالب علم کے علاوہ ہر شخص کو بقدرِ ضرورت محنت کرنی چاہئے کہ تجربہ یہی ہے کہ جن لوگوں نے اسباب کا کام بھی خدا کے حوالے کر دیا ہے اور صرف اپنے فرائض پر عمل کرتے رہے وہ زیادہ بہتر حالت میں رہے ہیں اور جنہوں نے معرفت کے باوجود اسباب پر اعتماد کیا ہے انہیں نقصان ہوا ہے جس طرح کہ جناب یوسف علیہ السلام نے حاکم مصر سے کہا کہ مجھے خزانوں کا امین بنا دے تو خدا نے مدت امتحان ایک سال بڑھا دی ورنہ بندے کے بجائے خدا سے کہا ہوتا تو فوراً نجات مل جاتی یا جب قید خانہ کے ساتھی سے کہا کہ اپنے مالک سے میری بھی شفارش کر دینا تو اللہ نے قید کی مدت میں سات سال کا اضافہ کر دیا کہ میرے غیر سے کیوں کہا ورنہ براہ راست پروردگار سے کہا ہوتا تو فوراً نجات مل جاتی۔ پروردگار نے اس ترک اولیٰ پر تنبیہ کی تم نے بندہ کے ذریعہ بندہ سے کہلوایا جبکہ دونوںمیرے قبضہ میں ہیں۔ مجھ سے کیوں نہیں کہا جبکہ میں مالک الملوک ہوں۔ اسکے بعد جبرئیل امین کو بھیجا گیا اور انہوں نے پوچھا کہ کب تک قید میں رہنے کا ارادہ ہے تو کہا جب تک خدا چاہے تو جب انہوں نے ہمارا حوالہ دیا تو ہم نے دعائے توسل کے ذریعہ انہیں نجات دلوا دی۔( ۲ )

یہی حال جناب یعقوب علیہ السلام کا ہوا کہ انہوں نے عزیز مصر سے شکایت کی تو پروردگار نے اس وقت تک نجات نہیں دلائی جب تک اس سے رجوع نہیں کی کہ اولیاء کے لئے یہ باتیں ترکِ اولیٰ کا مرتبہ رکھتی ہیں۔

میرے فرزند! خبردار، اپنی حاجت کو غیر خدا سے بیان نہ کرنا جو کہنا ہے خدا سے کہنا وہی مالک و مہربان ہے۔ اسی نے ابراہیم علیہ السلام کو صرف اس بات پر خلیل بنا دیا کہ انہوں نے اس کے علاوہ کسی سے نہیں مانگا۔( ۳ )

مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ تمام خیر کا مرکز و مصدر یہ ہے کہ لوگوں کے ہاتھوں سے امید منقطع کر کے خدا سے لو لگائے۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی ہر دعا قبول ہو جائے اسے چاہئے کہ بندوں سے امید قطع کر کے صرف خدا سے امیدیں وابستہ کرے۔ جب خداوند عالم یہ کیفیت دیکھ لے گا تو فوراً مراد پوری کر دیگا۔

اس سلسلے میں امام سجاد علیہ السلام کی صحیفۂ سجادیہ کی تیرہویں دعا کا مطالعہ نہایت درجہ مناسب رہے گا جس میں اسباب کی حقیقت کا اظہار کر کے خدا سے مانگنے کا سلیقہ سکھایا گیا ہے۔

قناعت

فرزند! قناعت اختیار کرو۔ اس میں عزت دنیا و آخرت ہے۔ قناعت کو ترک کرنے والا یا تو اہل دنیا کی نظر میں حقیر ہو جائے گا یا ایسے کام کرے گا جو اسے آخرت میں مبتلائے عذاب کر دیںگے۔

قناعت کے معنی پیسہ ہوتے ہوئے تنگ حالی سے زندگی گزارنا نہیں ہے۔ یہ توسعۂ رزق کے خلاف ہے جس کی اہل و عیال کے بارے میں تاکید کی گئی ہے۔ بلکہ کبھی کبھی یہ کام حقوق نفقہ میں کوتاہی کا مرادف ہو جائے گا۔ قناعت کے معنی ہر ممکن پر راضی رہنا اور آمدنی کے برابر خرچ کرنا ہے کہ اگر صاحبِ دولت ہے تو اہل و عیال کے لباس و غذا میں وسعت پیدا کرے اور اسراف نہ کرے اور اگر غریب و نادار ہو تو مقدارِ ممکن پر قانع رہے اور مقدر پر راضی رہے۔ اپنا راز کسی سے بیان نہ کرے اور اپنے فقر کا اظہار نہ کرے کہ اس طرح لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل ہو جائے گا۔ لوگ بندگانِ دنیا ہیں انہیں غربت کا حال معلوم ہو گای تو کبھی عزت نہیں کریں گے۔

میرا تجربہ یہ ہے کہ غربت کا اظہار غربت میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ اور باعثِ ذلت و توہین ہو جاتا ہے تو خبردار اپنے راز کو افشاء نہ کرنا۔ رزق مقدر ہو چکا ہے وہ بہر حال ملے گا۔ اسے خدائے حکیم نے اپنی حکمت و مصلحت سے تقسیم کیا ہے نہ آبرو دینے سے اضافہ ہوگا نہ عفت و قناعت سے کمی ہوگی۔۔۔ بلکہ کبھی کبھی اظہارِ غربت کا سلسلہ خالق کی شکایت سے مل جاتا ہے تو موجبِ غضبِ جبّار بھی ہو جاتا ہے اور آخرت میں استحقاق عذاب بھی پیدا ہو جاتا ہے۔( ۴ )

حدیث قدسی میں ارشاد ہوتا ہے ’’میری عزت و جلال کی قسم جو شخص میرے غیر سے لَو لگائے گا اس کی امیدیں منقطع کر دوںگا اور اسے ذلت کا لباس پہنا دوں گا۔ اور اپنے فضل و کرم سے دور رکھوں گا.( ۵ )

حیاَ

فرزند!

حیا بہترین صفت اور محبوب ترین عادت ہے۔ اسے دنیا و آخرت دونوں میں ممدوح قرار دیا گیا ہے۔

روایت میں ہے کہ حیا جزوِ ایمان ہے۔ حیا اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ حیا جائے گی تو ایمان بھی چلا جائے گا۔جس میں چار چیزیں پائی جائیں گی وہ سر تا پا گناہ میں بھی ہوگا تو پروردگار اسے بخش دے گا:

۱. صداقت۔

۲. حیا۔

۳. حسنِ اخلاق۔

۴. شکر یا امانت۔( ۶ )

____________________

[۱] مجمع البیان

[۲] مجمع البیان

[۳] تفسیر صافی، ص ۱۲

[۴] وسائل الشیعہ ۲، ص ۵۳۲

[۵] وسائل الشیعہ ۲، ص ۴۴۷

[۶] اصول کافی ۲، ص ۱۰

حُسنِ اخلاق

فرزند! بہترین اخلاق اختیار کرو کہ اس میں دنیا و آخرت دونوں کے فائدے ہیں۔ پروردگار نے حسنِ اخلاق کو اپنے حبیب کی صفت خاص قرار دیا ہے۔ حسنِ اخلاق نصف دین ہے۔( ۱ )

حسنِ اخلاق بہتبرین عطائے پروردگار ہے۔( ۲ )

روز قیامت انسان کی نیکی کے پلّے میں حسنِ اخلاق سے بہتر کوئی شے نہ ہوگی۔( ۳ )

احب حسن اخلاق مثلِ مستقل نمازی اور روزہ دار کے ہے۔ اسکے لئے مجاہد فی سبیل اللہ کا اجر و ثواب ہے۔( ۴ )

حسنِ اخلاق گناہوں کو پگھلا کر رکھ دیتا ہے جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے۔ جنت جانے والوں کی اکثریت متقین اور صاحبان حسنِ خلق کی ہوگی۔( ۵ )

پروردگار کا ارشاد ہے کہ صاحب حسنِ اخلاق کے گوشت کو جہنم کے حوالے کرنے سے مجھے حیا آتی ہے۔( ۶ )

حسنِ اخلاق سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ یہودی کا ساتھ بھی ہو تو حسنِ اخلاق کا مظاہرہ ضروری ہے۔( ۷ )

فرزند! میں نے حسنِ اخلاق کے بہترین آثار دیکھے ہیں اور امام صادق علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا کہ اگر لوگوں کے ساتھ مالی برتاؤ نہ کر سکو تو کم از کم حسنِ اخلاق کا مظاہرہ تو کرو۔( ۸ )

امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ ہر شخص کے ساتھ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرو تاکہ چلے جاؤ تو محبت کرے اور مر جاؤ تو گریہ کرے اور اِنَّا لِلّٰہِ کہے ایسا نہ ہو کہ اَلحَمدُ لِلّٰہِ کہنا پڑے۔( ۹ )

امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ حسنِ اخلاق کی حد کیا ہے؟ تو فرمایا کہ پہلو کو نرم رکھو، کلام کو پاکیزہ رکھو اور خوش خلقی سے ملاقات کرو۔( ۱۰ )

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے کہ مومنین کے ساتھ خوش اخلاقی بشاشت کے ساتھ ملاقات کرنا ہے اور مخالفین کے ساتھ حسن اخلاق مودت کے ساتھ گفتگو کرنا ہے تاکہ ایمان کی طرف کھنچ آئے۔ اور ایمان سے مایوس ہو تو کم سے کم مومنین اس کے شر سے محفوظ رہیں گے۔( ۱۱ )

فرزند! خبردار اہل و عیال کے ساتھ بد اخلاقی کا برتاؤ نہ کرنا کہ بد خلقی موجب جہنم ہے۔ بد اخلاقی سے ایمان یوں ہی برباد ہو جاتا ہے جس طرح سرکہ سے شہد۔

سعد بن معاذ کے مرنے پر ستّر ہزار فرشتوں نے مشائعت جنازہ کی ہے مگر اس کے باوجود فشار قبر میں مبتلا ہوئے ہیں کہ اہل و عیال کے ساتھ برتاؤ اچھا نہ تھا۔( ۱۲ )

حلم و عفو

فرزند! حلم اور عفو سے کام لو کہ اہل حلم و عفو جنت میں بلا حساب داخل ہوں گے۔ ان صفات کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ پروردگار نے انہیں اپنے اوصاف میں شمار کیا ہے۔ حلم کے بارے میں انبیاء و اولیاء کے واقعات بکثرت پائے جاتے ہیں اور بعض روایات میں یہ ہے کہ انسان جب تک حلیم نہ ہو عبادت گذار نہیں ہو سکتا۔( ۱۳ )

اللہ بندۂ بردبار کو دوست رکھتا ہے۔

حلم صفات مومنین میں سے ہے۔( ۱۴ )

جو شخص اقدام کی طاقت رکھتا ہو اور حلم سے کام لے پروردگار روز قیامت اس کے دل کو رضا و امن و ایمان سے بھر دے گا اور قیامت کے بھرے مجمع میں اسے اختیار دے گا کہ جس حور العین کا چاہے انتخاب کر لے اور اسے اجر شہید عطا فرمائے گا۔( ۱۵ )

نگاہِ پروردگار میں بندۂ مومن کا کوئی گھونٹ اس گھونٹ سے زیادہ عزیز نہیں ہے جو غصہ کو پی جانے میں استعمال ہوتا ہے چاہے صبر کے ذریعہ ہو یا حلم کے ذریعہ۔ انسان جس قدر بھی غصہ کو ضبط کرتا ہے پروردگار اسی مقدار میں دنیا و آخرت میں عزت عطا کرتا ہے اور قیامت کے دن جب اولین و آخرین ایک زمین پر جمع ہوں گے تو ایک منادی آواز دےگا ’’صاحبانِ فضیلت کہاں ہیں؟‘‘

اس وقت ایک جماعت برآمد ہوگی اور ملائکہ سوال کریں گے ’’تمہاری فضیلت کیا ہے؟‘‘ وہ جواب دیں گے کہ ہم قطع تعلقات کرنے والوں سے صلۂ رحم کرتے تھے۔ محروم کرنے والوں کو عطا کرتے تھے، ظلم کرنے والوں کو معاف کر دیتے تھے۔ آواز آئے گی ’’سچ کہا تم نے، جاؤ جنت میں بلا حساب داخل ہو جاؤ۔‘‘( ۱۶ )

٭ معافی کامیابی کی زکوٰۃ ہے۔( ۱۷ )

٭ سب سے زیادہ معاف کرنے کا حقدار وہی ہے جو سزا دینے پر سب سے زیادہ قدرت رکھتا ہے۔( ۱۸ )

فرزند! جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کرو تاکہ جس پروردگار کی نافرمانی کر کے تم نے ظلم کیا ہے وہ تمہیں معاف کر دے اور تمہیں بلند ترین درجات حاصل ہوں۔ خبردار غیظ و غضب سے کام نہ لینا کہ یہ غیظ و غضب سے کام نہ لینا کہ یہ ضعف عقیدہ کی علامت ہے۔ روایات میں ہے کہ غضب سے ایمان یوں ہی برباد ہو جاتا ہے جیسے سرکہ سے شہد۔( ۱۹ )

٭ کفر کے چار ارکان ہیں رغبت، خوف، غصہ اور غضب۔ اور غضب ہر برائی کی کنجی ہے۔( ۲۰ )

٭ غضب سے صاحبان حکمت کا دل بھی تباہ ہو جاتاہے۔( ۲۱ )

٭ جو اپنے غضب پر قابو نہ رکھ سکے وہ اپنی عقل پر بھی قابو نہ رکھے گا۔( ۲۲ )

٭ ابلیس کا قول ہے کہ غضب میرا جال اور میرا پھندا ہے۔ میں اس کے ذریعہ بہترین افراد کو جنت کی راہ سے شکار کرتا ہوں۔( ۲۳ )

علماء نے غضب پر قابو پانے کے لئے چند نسخے تجویز کئے ہیں۔

۱.اَعُوذُ بِاللّٰ ه ِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ کہنا۔

۲. خدا کو یاد کرنا کہ توریت میں ارشادِ احدیت ہے، ’’فرزند آدم جب تجھے غصّہ آئے تو مجھے یاد کرنا تاکہ میں اپنے غضب میں تجھے یاد رکھوں اور تجھے تباہ نہ کر دوں اور جب تجھ پر کوئی زیادتی ہو تو میرے انتقام کا انتظار کرنا کہ میرا انتقام تیرے انتقام سے بہر حال بہتر ہے۔( ۲۴ )

۳. اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور لیٹا ہو تو کھڑا ہو جائے۔( ۲۵ )

۴. جگہ بدل دے کہ شیطان نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو کرتے ہوئے یہ نصیحت کی کہ جب تمہیں غصہ آئے تو اپنی جگہ بدل دینا ورنہ میں مصیبت میں مبتلا کردوں گا۔

۵. وضو کرلے اور ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ دھو ڈالے۔( ۲۶ )

۶. اگر قرابتدار پر غصّہ ہے تو اس کے جسم سے اپنے جسم کو مس کر دے کہ اس طرح غصّہ فرو ہو جاتا ہے۔ (اصول کافی ۲ ، ص ۳۰۲)

۷. پانی پی لے۔ (محاسن برقی، ص ۵۷۲)

۸. کشمِش کھالے کہ اس سے غصّہ دب جاتا ہے۔ (مستدرک ۳ ، ص ۱۱۵)

۹. یہ دعا پڑھ لے:

اَللّٰهُمَّ اَذْهِبْ عَنِّىْ غَيْظَ قَلْبِىْ وَ اَجِرْنِىْ مِنْ مُضِلاَّتِ الْفِتَنِ اَسْئَلُكَ جَنَّتَكَ وَ اَعَعُوْذُ بِكَ مِنَ الشِّرْكِ اَللّٰهُمَّ ثَبِّتْنِىْ عَلَى الْهُدٰى وَ الصَّوَابِ وَاجْعَلْنِىْ رَاضِيًا مَرْضِيًّا غَيْرَ ضَآلٍّ وَ لاَ مُضِلٍّ .( ۲۷ )

روایات میں وارد ہوا ہے کہ جو شخص اپنے غصّہ کو روک لے گا، پروردگار روز قیامت اسے معاف کرے گا اور اس کے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گا اور اسے جنت عطا فرمائے گا۔( ۲۸ )

____________________

[۱] وسائل الشیعہ ۳، ص ۳۳۱

[۲] وسائل الشیعہ

[۳] اصول کافی ۲، ص ۹۹

[۴] اصول کافی ۲، ص ۱۰۱

[۵] اصول کافی ۲، ص ۱۰

[۶] وسائل الشیعہ ۲، ص ۲۲۱

[۷] مستدرک

[۸] اصول کافی ۲، ص ۱۰۳

[۹] وسائل ۲، ص ۲۷۷

[۱۰] اصول کافی ۲، ص ۱۰۳

[۱۱] وسائل ۲، ص ۵۱

[۱۲] مستدرک وسائل ۲، ص ۳۳۴

[۱۳] مستدرک ۲، ص ۳۰۴

[۱۴] مشکوٰۃ الانوار، ص ۱۹۵

[۱۵] مستدرک ۲، ص ۸۸

[۱۶] مستدرک ۲، ص ۸۷

[۱۷] نہج البلاغہ

[۱۸] وسائل الشیعہ ۲، ص ۲۲۳

[۱۹] اصول کافی ۲، ص ۳۰۲

[۲۰] اصول کافی ۲، ص ۳۰۳

[۲۱] اصول کافی ۲، ص ۳۰۵

[۲۲] اصول کافی ۲، ص ۳۰۵

[۲۳] مستدرک ۲، ص۳۲۶

[۲۴] وسائل الشیعہ ۲، ص ۴۷۰

[۲۵] وسائل الشیعہ

[۲۶] جامع السعادات ۱، ص ۲۹۶

[۲۷] مستدرک۲، ص ۳۲

[۲۸] وسائل الشیعہ ۲، ص ۴۷۰

انصاف و مروّت

فرزند! ان دونوں صفتوں کو اپنائے رہنا اور کبھی ترک نہ کرنا۔ یہ نجات دہندہ صفتیں ہیں اور ان کا ترک کر دینا باعثِ ہلاکت ہے۔

٭ روایات میں ہے کہ جس کے پاس مروت نہیں ہے اس کے پاس دین نہیں ہے۔( ۱ )

٭ سخت ترین فریضۂ پروردگار اپنے نفس سے انصاف کرنا ہے۔( ۲ )

انصاف کے معنی یہ ہیں کہ دوسروں کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور دوسروں کے لئے وہی ناپسند کرے جو اپنے لئے ناپسند کرتا ہے۔

وفا و عہد

فرزند! خدا تمہارے بارے میں عہد محبت کو پورا کرے۔ جب بھی کسی شے کا وعدہ کرو تو اسے وفا ضرور کرو۔ کتاب و سنت میں اس کی بے حد تاکید وارد ہوئی ہے۔ ارشاد احدیت ہوتا ہے ’’عہد کو پورا کرو کہ اس کے بارے میں روز قیامت سوال ہوگا۔( ۳ )

٭ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جس سخص کا بھی خدا اور آخرت پر ایمان ہے اس کا فرض ہے کہ وعدہ کو وفا کرے۔( ۴ )

٭ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ مومن کا مومن سے وعدہ ایک ایسی نذر ہے جس کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔ لہٰذا جو شخص بھی وعدہ کی خلاف ورزی کرے گا وہ حکم خدا کی مخالفت کرے گا اور اس کی ناراضگی کا حقدار ہوگا۔( ۵ )

٭ وفاء عہد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پروردگار عالم نے اسے جناب اسماعیل علیہ السلام کے اوصاف و کمالات میں شمار کیا ہے اور مومنین کو وعدہ کی خلاف ورزی پر سخت تنبیہ کی ہے کہ خبردار جو کرنا نہ ہو اسے کہنا بھی نہیں۔ پروردگار کو یہ بات سخت ناپسند ہے۔

٭ جناب اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں روایت ہے کہ ایک شخص سے انتظار کرنے کا وعدہ کر لیا تھا اور وہ جاکر بھول گیا تو آپ ایک سال تک اسی مقام پر کھڑے رہے۔ یہاں تک کہ شدت تمازتِ آفتاب میں بھی جگہ نہیں چھوڑی کہ کہیں وعدہ کی خلاف ورزی نہ ہو جائے۔ درختوں کے پتے چباتے رہے لیکن وعدہ پر قائم رہے۔( ۶ )

فرزند! ایفائے وعدہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا طریقہ اختیار کرو اور اگر ایسانہ کر سکو تو اس کے قریب تر رہنے کی کوشش کرو۔

خبردار جس وعدہ کے وفا کرنے کی طاقت نہ ہو اس کا وعدہ نہ کرنا۔ خلف وعدہ سے انسان بدنام ہو جاتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

’’نعم‘‘ سے پہلے ہی ’’لا‘‘ کہہ دے یہ ہے طرزِ حسن

کہ ’’لا‘‘ ہو بعد ’’نعم‘‘ یہ ہے غیر مستحسن

)جوادی(

سخاوت

فرزند! سخاوت اختیار کرو کہ اس کا انجام دنیا اور آخرت دونوں میں بہتر ہے۔ سخی ہر مقام پر با عزت ہوتا ہے۔ بخیل دنیا و آخرت دونوں میں ذلیل رہتا ہے۔

٭ سخاوت کی فضیلت کے لئے یہ کافی ہے کہ حاتم طائی جہنم میں رہ کر بھی آگ کی شدت سے محفوظ ہے جیسا کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حاتم کے فرزند عدی سے فرمایا تھا۔

٭ فرزند! بخل دنیا و آخرت کی روسیاہی ہے لیکن خبردار اتنی سخاوت کا شوق نہ کرنا کہ خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ جاؤ۔ (اسراء ۲۹)

٭ میانہ روی سے کام لو اور بخل و اسراف کے درمیان سے زندگی کا راستہ نکالو۔

____________________

[۱] ومستمسک ۵، ص ۲۱۴

[۲] اصول کافی ۲، ص ۱۴۵

[۳] سورۂ اسراء ۳

[۴] اصول کافی ۲، ص ۳۶۴

[۵] اصول کافی ۲، ص ۳۶۳

[۶] اصول کافی ۲، ص ۱۰۵

فصل سوم

دیگر مختلف و صیتیں

فرزند! اللہ تمہیں ہر خیر کی توفیق دے اور ہر شر سے محفوظ رکھے۔ حب دنیا کو دل سے نکال دو۔ یہ ایک زہر قاتل اور مرض مہلک ہے۔ اس کا انجام رحمت خدا سے دوری اور آتش جہنم ہے۔

محبت دنیا کے دل سے نکال لنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دنیا کے بارے میں غور کر، کہ یہ کوئی عمدہ شے ہوتی تو رب کریم اپنے اولیاء و انبیاء کو اس سے محروم کیوں کرتا، جبکہ ان کی عقلیں سب سے زیادہ کامل تر تھیں اور وہ اس سے اس طرح الگ نہ رہتے جس طرح ہم لوگ شیر سے دور بھاگتے ہیں۔ (اصول کافی ۲ ، ۳۱۵)

٭ پروردگار نے مختلف آیات میں محبت دنیا کی مذمت کی ہے اور احادیث میں اس کی شدید تاکید وارد ہوئی ہے۔

امام سجاد علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ بہترین عمل بغض دنیا ہے کہ دنیا کی محبت میں گناہ کے بے شمار رخ نکلتے ہیں۔ ایک رخ تکبر ہے جس میں ابلیس مبتلا ہوا۔ ایک حرص ہے جس کی وجہ سے حوّا نے آدم علیہ السلام کو گندم کھانے کی دعوت دی۔ ایک حسد ہے جس کی وجہ سے قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد حب نساء، حب دنیا، حب ریاست، حب راحت، حب کلام، حب ثروت و بلندی وغیرہ ہے کہ جس میں حب دنیا تمام برایؤں کی اصل ہے۔ (اصول کافی ۲ ، ص ۳۱۵)

روایات متواترہ میں حب دنیا کی مذمت وارد ہوئی ہے اور بعض روایات میں حب دنیا کو آخرت کی فراموشی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور اس کی طلب کو آخرت کا نقصان بتایا گیا ہے۔

٭ دنیا و آخرت دو سَو٘ت ہیں جو ایک گھر میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ (مستدرک ۲ ، ص ۳۳۰)

٭ دنیا و آخرت مشرق و مغرب ہیں جو ایک سے قریب ہوگا وہ دوسرے سے دور ہو جائے گا۔ (مستدرک ۲ ، ۳۳۱)

٭ دنیا و آخرت مثل آگ اور پانی کے ہیں جن کا اجتماع ناممکن ہے۔ اور سچ پوچھئے تو محبت دنیا ایک طرح کا شرک ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کو آخرت پر اعتماد اور کتاب و سنت کے بیانات پر اطمینان نہیں ہے۔ ورنہ آخرت کے ہوتے ہوئے دنیا سے دل لگانے کا کیا مطلب ہے۔

فرزند! دنیا میں زہد اختیار کرو حرام کو چھوڑو کہ عذاب کا خطرہ ہے۔ شبہات سے پرہیز کرو کہ عتاب کا اندیشہ ہے۔ حلال میں بھی حساب ہے لہٰذا اس سے بھی ہوشیار رہو۔ انھیں خواہشات پر عمل کرو جنھیں شریعت نے سہارا دیا ہے جیسے نکاح۔ اس کے بعد کم سے کم پر قناعت کرو۔ لباس و غذا معمولی رکھو۔ آخرت پر توجہ دو تاکہ لذت آخرت سے آشنا ہو سکو۔

یاد رکھو کہ زہد کے معنی کھانے پینے کے ترک کر دینے کے نہیں ہیں اس کے معنی مقدر پر راضی رہنے کے ہیں اور وسعت میں بھی میانہ روی اختیار کرنے کے ہیں۔

٭ امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ زہد مال کی بربادی اور حلال کی حرام سازی نہیں ہے۔ زہد کے معنی صرف یہ ہیں کہ اپنے ہاتھ کے مال پر وعدہ خدا سے زیادہ اعتماد نہ ہو۔ (مستدرک ۲ ، ص ۳۳۱)

٭ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ دنیا میں زہد کے معنی امیدوں میں کمی نعمتوں پر شکر اور حرام سے پر ہیز ہے۔ (مستدرک ۲ ، ص ۳۳۳)

فرزند! رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آل رسول علیہم السلام سے توسل اختیار کرو کہ میں نے تمام روایات کے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ پروردگار نے جس نبی(ص) کے ترک اولیٰ پر توبہ قبول کی ہے اسے انھیں کے وسیلہ سے قبول کیا ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد انوار معصومین (ع) کو عرش سے ان کے صلب میں منتقل کردیا اور ملائکہ کا سجدہ درحقیقت اسی نور کے طفیل میں تھا اور اصل سجدہ پروردگار کا تھا کہ اس کے حکم پر سجدہ ہو رہا تھا یہ اللہ کی بندگی محمد و آلِ محمد علیہم السلام کی تعظیم اور حضرت آدم علیہ السلام کی اطاعت کا ایک مظاہرہ تھا۔

جب آدم علیہ السلام نے سوال کیا پروردگار یہ انوار کس کے ہیں تو ارشاد ہوا کہ یہ بہترین مخلوقات ہیں۔ بزرگ ترین بندے ہیں۔ انھیں کے ذریعہ میں عطا کرتا ہوں اور انھیں کے ذریعہ ثواب و عتاب کا کام ہوتا ہے۔ آدم (ع) انھیں وسیلہ بناؤ تاکہ تمہاری مشکل حل ہو جائے۔ میں نے یہ طے کر لیا ہے کہ ان کے ذریعہ مانگنے والے کو مایوس نہ کروں گا اور سائل کو ردنہ کروں گا۔

اس کے بعد جناب یعقوب علیہ السلام جناب یوسف علیہ السلام سب نے انھیں کو وسیلہ بنایا ہے تو ان کی دعائیں قبول ہوئی ہیں۔ (تفسیر صافی، ص ۲۴۲)

فرزند! عزائے سید الشہداء کا خیال رکھنا اور روزانہ بقدر امکان عزا قائم کرنا اور اگر مصارف نہ ہوں تو گھروالوں کو جمع کر کے مصائب سنا دینا اس لئے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام پروردگار کو بہت عزیز ہیں۔ انھوں نے شہادت کا عظیم درجہ حاصل کیا ہے اور راہ خدا میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہے۔ ان سے توسل میں خیر دارین اور فلاحِ دنیا و آخرت ہے۔

فرزند! زیارت امام حسین علیہ السلام کا بھی خیال رکھنا اور روزانہ کم از کم ایک مرتبہ زیارت ضرور پڑھنا اور ممکن ہو تو ہر مہینہ کربلا جانا اور یہ بھی نہ ہو سکے تو سال میں سات مواقع پر کربلا میں ضرور حاضری دینا۔

(۱) شب عاشور اور روزِ عاشور(۲) اربعین(۳) اوّل رجب(۴) ۱۵! رجب(۵) ۱۵! شعبان(۶) شب عید الفطر(۷) روز عرفہ۔ (جوادی)

اور یہ بھی ممکن نہ ہوا تو کم از کم سال میں ایک مرتبہ حاضری دینا۔ (وسائل الشیعہ ۲ ، ص ۳۹۳)

اس لئے کہ اس کے بے شمار اثرات ہیں اور میں نے زیارت و عزاداری کے ایسے اثرات دیکھے ہیں جو عقل سے بالاتر ہیں اور کم از کم مشاہدہ یہ ہے کہ جب بھی زیارت حسین علیہ السلام کی ہے ایک نہ ایک مشکل ضرور حل ہوئی ہے اور رزق میں اضافہ ہوا ہے اس کے بعد ثواب تو سب سے بالاتر ہے۔ (وسائل الشیعہ ۲ ، ص ۳۹۰)

فرزند! خدا تمہیں ہر عمل خیر کی توفیق دے اور عمر طبیعی تک زندہ رکھے دیکھو بزرگوں کا احترام کرنا۔ پروردگار ان کے ذریعہ بلاؤں کو رد کرتا ہے۔ (حدیث قدسی) خبردار انھیں ناراض نہ کرنا کہ اس کے برے اثرات ہیں۔

جس قدر ممکن ہو ماں باپ کا احترام اور ان کے ساتھ نیکی کرنا کہ قرآن و حدیث میں اس کی شدید تاکید وارد ہوئی ہے۔ خبردار ان کے معاملہ میں سستی نہ برتنا کہ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جب جناب یعقوب علیہ السلام جناب یوسف علیہ السلام کے پاس آئے تو انھوں نے سواری سے اتر کر باپ کا استقبال نہیں کیا تو اس ترکِ اولیٰ کا نتیجہ یہ ہوا کہ جناب جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور یوسف علیہ السلام کی ہتھیلی سے ایک نور نکال لیا۔ یوسف علیہ السلام نے سوال کیا، جبرئیل یہ کیا؟ فرمایا کہ اب نبوت آپ کی اولاد میں نہیں رہے گی اس لئے کہ آپ نے باپ کا مکمل استقبال نہیں کیا ہے اور پروردگار نے اس کے زیرِاثر آپ کی نسل سے سلسلۂ نبوت ختم کردیا ہے۔ (مجمع البیان ۵ ، ص ۲۶۴)

ظاہر ہے کہ یہ روایتیں اخلاقیات کی اہمیت کے اظہار کے لئے ہیں ورنہ نبوت کا فیصلہ روز اوّل ہو چکا ہے اس کا انحصار تعظیم اور عدم تعظیم پر نہیں ہے۔ (جوادی)

احترامِ علماء

فرزند! علماء عاملین کا احترام کرنا۔ یہ دین کے منارے، شریعت کے امانتدار اور امام عصر(ع) کے نائب ہیں۔ البتہ بے عمل علماء سے دور بھاگنا جس طرح شیر سے فرار کرتے ہیں کہ یہ بحکم امام (ع) عالم نہیں ہیں اور ان کا ضرردین کے بارے میں لشکر یزید بن معاویہ سے زیادہ ہے۔ (تفسیر برہان ۱ ، ص ۱۱۸)

احترام ذریت پیغمبر اسلام(ص)

فرزند! اولادِ رسول(ص) کا احترام کرنا کہ یہ ذریت علی (ع) و فاطمہ (ع) ہیں اور ان کی محبت مطلوب پروردگار ہے۔ جہاں تک ممکن ہو ان کا احترام کرنا کہ رضائے پروردگار اور خیر دنیا و آخرت ہے۔ (مستدرک، ص ۴۰۰)

اور دیکھو خبردار! اپنے احترام کو صرف نیک کردار سادات تک محدود نہ رکھنا کہ ان کا حکم علماء کا نہیں ہے کہ بے عمل قابل احترام نہ ہوں ان کا حکم اولاد کا ہے اور اولاد بہر حال اولاد ہوتی ہے۔ ہاں اگر ترک احترام سے ہدایت کا امکان ہو تو احترام نہ کرو تاکہ ہدایت کے راستے پر آجائیں اور یہ نہی عن المنکر کا ایک طریقہ ہے۔ اگرچہ اس میں بھی احتیاط یہی ہے کہ ظاہراً احترام کرتے رہو اور تنہائی میں نصیحت کر دو جیسا کہ احمد بن اسحاق اشعری کے واقعہ میں ہے کہ حسین بن حسن فاطمی ان سے ملنے کے لئے آئے تو انھوں نے شرابی ہونے کی وجہ سے ملنے سے انکار کر دیا اور جب حج میں جاتے ہوئے سامرہ میں امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے بھی ملاقات سے انکار کر دیا۔ جب اصرار شدید کے بعد اجازت ملی تو ابن اسحاق نے عرض کی فرزند رسول(ص) آپ ناراض کیوں ہیں؟ فرمایا تم نے حسین بن حسن کو کیوں روکا تھا۔ عرض کی میرا مقصد شراب سے پرہیز کرانا تھا۔ فرمایا صحیح ہے۔ نہی عن المنکر فریضہ ہے لیکن احترام میں فرق نہیں آنا چاہئے۔ ابن اسحاق نے یہ بات محفوظ کرلی اور واپسی پر حسین کا بے حد احترام کیا۔ انھوں نے گھبرا کر سبب پوچھا۔ احمد نے سبب بیان کیا۔ حسین پر اس بیان کا اس قدر اثر ہوا کہ توبہ کر کے شراب کے سارے ظروف توڑ کر پھینک دیئے اور مسجد میں اعتکاف کر کے انتقال کر گئے۔ (مستدرک مسائل ۲ ، ص ۴۰۰)

یہ بھی یادر کھو کہ یہ تاکید غیر فاطمی سادات کے لئے نہیں ہے۔ اگر چہ ہاشمی ہونے کے اعتبار سے اشرف اور محترم ہیں لیکن ان کا شمار ذریت و قربیٰ رسول میں نہیں ہے اور داخل النسب افراد کا احترام تو بالکل نہیں ہونا چاہئے اور ان کے احترام سے پر ہیز ہی اولیٰ اور النسب ہے۔ مشتبہ حالات میں احتیاط سے کام لینا چاہئے البتہ جو لوگ ماں کی طرف سے سید ہیں ان کا احترام ہونا چاہئے اس لئے کہ بیٹی کی اولاد بھی اولاد ہی ہوتی ہے اور امام حسن اور امام حسین علیہم السلام اسی رشتے سے ابناء پیغمبر(ص) ہیں۔ صرف اس رشتہ کے لوگوں کو خمس کا استحقاق نہیں ہوتا کہ روایت مرسلہ جماد بن عیسیٰ میں خمس کے لئے باپ کی طرف سے سیّد ہونے کی شرط ہے ورنہ احترام میں دونوں برابر ہیں اور دونوں کا احترام ہونا چاہئے۔

صلۂ رحم

فرزند! قرابت داروں سے تعلقات قائم رکھو کہ اس سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور رزق میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ یہ رضا بے شمار نفع دنیا و آخرت کا ذریعہ ہے۔ وہ قطع تعلق بھی کریں تو تم رابطہ قائم رکھو جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ قطع تعلق کرنے والے قرابتداروں سے صلہ رحم کرنا زیادہ فضیلت اور ثواب رکھتا ہے اور نفس کی اطاعت سے زیادہ محفوظ رکھتا ہے۔

خبردار! قطع رحم نہ کرنا کہ قرابت اللہ کی راہ میں فریادی رہتی ہے کہ پروردگار جو مجھ سے تعلق رکھے تو اس سے تعلق رکھنا اور جو مجھ سے قطع تعلق کر لے تو اس سے قطع تعلق کر لینا۔

میں نے صلۂ رحم کے بے شمار اثرات دیکھے ہیں اور قطع تعلق رکھنے والے کے ساتھ تعلقات کا عجیب و غریب اثر مشاہدہ کیا ہے لہٰذا تم اس باب میں سستی اور کمزوری سے کام نہ لینا اور برابر تعلقات کو استوار رکھنا۔

مفلوک الحال شیعوں کا خیال رکھنا بالخصوص ہمسایہ اور قرابت دار کہ ان کے خیال میں عزت دنیا و آخرت ہے اور مرضیٔ پروردگار بھی ہے۔ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جناب یعقوب علیہ السلام پر فراق یوسف کی افتاد اس لئے پڑی تھی کہ انھوں نے ایک دنبہ ذبح کیا اور ہمسایہ کے حالات دریافت کئے بغیر استعمال کر لیا حالانکہ ہمسایہ میں ایک شخص فاقہ شکنی کے لئے آذوقہ کا محتاج تھا۔ (تفسیر صافی، ص ۲۶۹)

(یہ بھی ترک اولیٰ کی ایک قسم ہے جس پر انبیاء کرام(ع) کا امتحان سخت ہو جاتا ہے لہٰذا تم بھی نعمات دنیا سے استفادہ کرنے سے پہلے دوسروں کا لحاظ کرو ورنہ کسی وقت بھی تمہارا امتحان ہو سکتا ہے۔ جوادی)

فرزند! اپنے جملہ امور میں میانہ روی سے کام لینا۔ اس کا انجام بہتر اور عاقبت قابل تعریف ہے۔ مالک کائنات نے اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اقتصاد و میانہ روی کا حکم دیا ہے اور جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا گیا کہ راہِ خدا میں کیا خرچ کیا جائے تو قرآن نے یہی جواب دیا کہ ’’اپنی ضرورت سے زیادہ۔‘‘

فرزند! ہمیشہ اپنے سے پست افراد کے حالات پر نگاہ رکھنا اور شکر خدا کرتے رہنا کہ ان سے بہتر ہو۔ اپنے سے اچھے حالات والوں پر نگاہ نہ کرنا کہ نفس کو اذیت ہو اور راحت دنیا اور اجر آخرت دونوں کا خاتمہ ہو جائے۔

فرزند! جہاں تک ممکن ہو لوگوں سے زیادہ میل جول نہ رکھنا کہ اس طرح انسان حق سے غافل اور موت سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ عبادت کا وقت کم ہو جاتا ہے اور تحصیل علم دین، ذکر، فکر کے مواقع ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ لوگوں کے حالات کی طمع پیدا ہو جاتی ہے اور غیبت، بہتان وغیرہ سننے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی مہمل قسم کے لوگوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے اور اس طرح فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے اور قیامت کے دن ندامت کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے خبردار وقت گزار نے سے پہلے ہوشیار ہوجاؤ۔

فرزند! خبردار خواہشات نفس کی مخالفت کرو۔ نفس کی متابعت ہلاکت اور زہر قاتل ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ سب سے زیادہ خطرہ خواہشات کے اتباع اور امیدوں کے طول طویل ہونے سے ہے کہ خواہشات کا اتباع حق سے روک دیتا ہے اور امیدوں کا طول آخرت کو بھلا دیتا ہے۔ (روضہ کافی، ص ۵۸) دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: ’’اپنے خواہشات سے اس طرح بچو جس طرح دشمن سے بچتے ہو۔ خواہشات سے بدتر دنیا کا کوئی دشمن نہیں ہے۔ ہر تبائی خواہشات اور بدزبانی سے پیدا ہوتی ہے۔ (اصول کافی ۲ ، ص ۲۳۵) فرزند! صبح کے وقت شام اور شام کے وقت صبح کی فکر نہ کرو ورنہ امیدیں غافل بنادیں گی۔ ہر وقت یہ سوچو کہ دوسرے وقت نہیں رہنا ہے اور اپنی حیثیت اس جنازہ کی ہے جو غسال کے سامنے رکھا ہوا ہے۔