آئینۂ اخلاق

آئینۂ اخلاق0%

آئینۂ اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

آئینۂ اخلاق

مؤلف: آیۃ اللہ الشیخ عبد اللہ المامقانی طاب ثراہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 7372
ڈاؤنلوڈ: 2798

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7372 / ڈاؤنلوڈ: 2798
سائز سائز سائز
آئینۂ اخلاق

آئینۂ اخلاق

مؤلف:
اردو

قصد قربت

فرزند! خدا تمہیں دنیا و آخرت کی نیکی نصیب کرے۔ دیکھو طلب علم میں نیت صاف رکھنا۔ دل دنیوی اغراض سے پاک اور نفس قوت عمل میں کمال کی طرف مائل رہے رذائل سے اجتناب کرو۔ اخلاقی فضائل کو اختیار کرو۔ قوت شہوت اور غضب کو قابو میں رکھو اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس ارشاد پر نظر رکھو کہ ’’جو شخص بھی علم حاصل کر کے اس پر عمل کرے گا اور دوسروں کو تعلیم دے گا وہ آسمانوں میں عظیم پکارا جائے گا، اور اعلان ہوگا کہ اس نے خدا کے لئے سیکھا، خدا کے لئے عمل کیا اور خدا کے لئے سکھایا ہے۔( ۱ )

٭ باد بن صہیب بصری نے امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا ہے کہ طلاّبِ علم کی تین قسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو جہالت اور جھگڑے کے لئے علم حاصل کرتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو غرور اور فریب کے لئے علم حاصل کرتی ہے اور تیسری قسم فقہ و عقل کے لئے حاصل کرنے والی ہے صاحب جہالت موذی اور محفلوں میں فقط بات کرنے والا ہے۔ علم کے تذکرے کرتا ہے۔ علم کا انداز اختیار کر کے خشوع کا لباس پہنے ہوئے ہے اور اندر سے تقویٰ سے بالکل خالی ہے۔ اللہ اس کی ناک رگڑدے گا اور اس کی کمر توڑدے گا۔ طالب رفعت و فریب لوگوں سے اونچا ہونا چاہتا ہے۔ مالداروں کے سامنے تواضع اختیار کرتا ہے۔ ان کا حلوہ کھاتا ہے اور ان کے دین کو برباد کرتا ہے۔ اللہ نے اس کا رشتہ اہل علم سے قطع کردیا ہے اور یہ بالکل اندھا ہو گیا ہے۔ البتہ صاحب عقل و فقہ و فہم وہ ہے جو ہمیشہ رنجیدہ پریشان اور فکر آخرت میں سرگرداں رہتا ہے۔ رات کی تاریکیوں میں عمل کرتا ہے اور لرزتا رہتا ہے۔ اہل زمانہ کو پہچانتا ہے۔ قریب ترین برادر سے بھی مانوس نہیں ہوتا۔ اللہ نے اس کے ارکان کو مضبوط کردیا ہے اور قیامت کے دن اسکے نام امان لکھ دی ہے۔( ۲ )

٭ لیم بن قیس نے امیر المومنین علیہ السلام کے حوالے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ دو پیاسے کبھی سیراب نہیں ہو سکتے۔ طالب دنیا اور طالب علم، لہٰذا جو شخص بھی دنیا میں حلال پر اکتفا کریگا وہ سلامت رہے گا ورنہ ہلاک ہوجائے گا جب تک توبہ و رجوع نہ کرلے اور جو شخص بھی علم کو اس کے اہل سے حاصل کر کے اس پر عمل کرے گا وہ نجات یافتہ ہوگا ورنہ فقط تحصیل دنیا کا ارادہ ہے تو وہی ہاتھ آئے گی اور آدمی محروم ہی رہے گا۔

٭ بو خدیجہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ جو شخص حدیث کا طلب گار منفعت دنیا کے لئے رہتا ہے وہ آخرت سے محروم رہتا ہے اور جو خیر آخرت کا طلب گار ہوتا ہے وہ دنیا و آخرت دونوں سے بہرہ ور ہوتا ہے( ۳ )

٭ حصض بن غیاث نے امام صادق علیہ السلام کا قول نقل کیا ہے کہ عالم کو دنیا کی طرف متوجہ دیکھو تو اپنے دین کے بارے میں اس سے ہوشیار رہو اس لئے کہ ہر دوست اپنے محبوب کی فکر میں رہتا ہے۔

٭ دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ نے جناب داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ خبردار میرے اور اپنے درمیان کسی فریفتہ دنیا عالم کو واسطہ نہ قرار دینا کہ وہ تمہیں راہِ محبت سے ہٹادے گا ایسے لوگ رہزن ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ میرا کمترین سلوک یہ ہوگا کہ میں ان کے دل سے اپنے مناجات کی لذت سلب کرلوں گا۔( ۴ )

٭ سکونی نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فقہاء مرسلین کے امین ہیں جب تک دنیا میں داخل نہ ہو جائیں۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ یہ دنیا میں داخل کیسے ہوگا؟ فرمایا بادشاہوں کا اتباع کرنا اور جب ایسا کرنے لگیں تو ان سے اپنے دین کے بارے میں ہوشیار رہنا۔( ۵ )

٭ ربعی بن عبد اللہ نے اپنے واسطے سے امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ جو شخص بھی علم دین علماء سے مقابلہ، سفہاء سے مجادلہ اور عوام کی توجہ جذب کرنے کی غرض سے حاصل کرتا ہے وہ روز قیامت جہنم میں ہو گا اور ریاست تو صرف اہل ریاست کا حق ہے۔( ۶ )

فرزند! خبردار علم کے بعد گناہ نہ کرنا کہ عالم پر حجت پروردگار زیادہ شدید و اکید ہے۔ توبہ صرف جاہلوں کی قبول ہوتی ہے جو غلطی سے گناہ کر بیٹھتے ہیں عالم کے لئے نہیں۔( ۷ )

٭ امام صادق علیہ السلام نے ابن غیاث سے فرمایا کہ اللہ جاہل کے ستر گناہ بخش دتیا ہے قبل اس کے کہ عالم کا ایک گناہ بخش دے ۔( ۸ )

(اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر انسان بخشش کے خیال سے جاہل ہی رہ جائے اس لئے کہ قصداً علم دین حاصل نہ کرنا خود ایک گناہ اور معصیت ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو حالات کی بناء پر علم حاصل نہیں کر سکے اور ان کی رسائی اہل علم تک نہیں ہو سکی۔ جوادی)

فرزند! جب بھی علم حاصل کرنا تو صالح، نیک کردار اور پرہیزگار استاد تلاش کرنا۔ اس لئے کہ غیر متقی سے ہر وقت دین کو خطرہ رہتا ہے۔ اسلئے امام جعفر صادق علیہ السلام نے پروردگار کے ارشاد ’’انسان کو اپنے طعام پر غور کرنا چاہئے‘‘ کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اس سے مراد علم ہے جہاں انسان کو ہر وقت نگاہ رکھنی چاہئے کہ کس سے حاصل کر رہا ہے۔( ۹ )

فرزند! شہید ثانی علیہ الرحمہ کی کتاب ’’منیتہ المرید‘‘ کا مطالعہ کرو کہ اس میں استاد و شاگرد کے آداب کا مفصل تذکرہ کیا گیا ہے اور آداب کے بغیر کوئی عمل قابل تعریف نہیں ہوتا۔ علماء کا احترام کرو ان کی تعظیم کرو خصوصیت سے جو تمہارے استاد ہوں ان کا زیادہ احترام کرو کہ استاد باپ کے برابر ہوتا ہے۔( ۱۰ )

٭ ثابت بن دینار ثمالی نے امام سجاد علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ جو علم میں تمہاری رہبری کرے اس کا حق ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے اس کی نشست کی توقیر کی جائے۔ توجہ سے اس کی بات سنی جائے اور اس کی طرف سراپا توجہ رکھی جائے۔ اس کی آواز پر آواز بلند نہ کی جائے اس سے سوال کیا جائے تو اس سے پہلے جواب دینے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس کی مجلس میں کسی کی بات نہ کی جائے۔ کسی کی غیبت نہ کی جائے۔ کسی کی برائی کی جائے تو اس کی طرف سے دفاع کیا جائے اسکے عیوب پر پردہ ڈالا جائے اور اسکے مناقب کا اعلان کیا جائے، اسکے دشمن کا ہم نشین نہ بنے، اس کے دوست سے دشمنی نہ کرے۔ ان سب کی پابندی کرے گا تو ملائکہ بھی گواہی دیں گے کہ خدا کے لئے علم حاصل کیا ہے لوگوں کے لئے نہیں۔

شاگرد کا حق یہ ہے کہ یہ خیال رکھا جائے کہ اللہ نے تمہیں اسکا نگراں قرار دیا ہے اور اس کے لئے تمہارے خزانے کھول دیئے ہیں۔ اب اگر تم نے تعلیم میں اچھا برتاؤ کیا جھڑکا نہیں، ڈانٹا نہیں تو خدا مزید عنایت کرے گا ورنہ اگر تعلیم دینے سے منع کردیا یا ان کی طلب کو ٹھکرا دیا تو خدا پر فرض ہو جائے گا کہ تم سے علم کی رونق سلب کرلے اور لوگوں کے دلوں سے تمہارے مرتبہ کو ساقط کردے۔( ۱۱ )

٭ سلیمان بن جعفر جعفری نے امام صادق علیہ السلام کے حوالہ سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا ہے کہ عالم کا حق یہ ہے کہ اس سے زیادہ سوال نہ کرو۔ اسکا کپڑا نہ کھینچو اور محفل میں اس کے پاس وارد ہو تو اجتماعی کے علاوہ اسے خصوصی سلام کرو۔ اس کے سامنے بیٹھو، پیچھے نہ بیٹھو، آنکھوں اور ہاتھوں سے اِدھر اُدھر اشارہ نہ کرو۔ زیادہ باتیں نہ کرو۔ اس کے مقابلہ میں دوسروں کے اقوال کا تذکرہ نہ کرو۔ زیادہ دیر بیٹھ کر اسے پریشان نہ کرو۔ اس کی مثال ایک درخت خرما کی ہے جس کے پاس بیٹھنے والا خاموشی سے پھلوں کا انتظار کرتا رہتا ہے اور جو مل جاتا ہے لے لیتا ہے۔( ۱۲ )

فرزند! خدا تمہیں علماء دین میں قراردے۔ جو بھی علم حاصل کیا ہے اُس پر عمل کرو۔ علم کی محبوبیت عمل کی وجہ سے ہے ورنہ عالم بلا عمل مثل شجر بلا ثمر کے ہے۔

خبردار! عمل ترک نہ کرنا کہ ایسا علم وبال بن کر رہ جائے گا۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ ’’تمام بندوں پر عمل کی ذمہ داری ہے لیکن عالم پر یہ ذمہ داری زیادہ شدید ہے اور اسی لئے ازواجِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اطاعت گزار بیویوں کا اجر زیادہ ہے اور گنہگاروں کا عذاب بھی زیادہ ہے کہ حالات کے اعتبار سے ثواب و عقاب میں فرق پیدا ہو جاتا ہے۔

٭ سلیم بن قیس کی روایت میں امیر المومنین علیہ السلام سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ علماء دو طرح کے ہیں بعض اپنے علم پر عمل کرتے ہیں اور نجات یافتہ ہیں اور بعض بے عمل ہیں اور یہ ہلاک ہونے والے ہیں اہل جہنم بے عمل عالم کی بدبو سے پریشان ہوں گے۔ بدبخت ترین انسان روز قیامت وہ عالم ہے جس کی دعوت و تبلیغ پر لوگ عمل کر کے جنت میں چلے جائیں گے اور وہ خود بے عملی کی بنا پر داخل جہنم ہو جائے گا۔ خبردار خواہشوں کے اتباع اور امیدوں کے طول سے ہوشیار رہنا کہ خواہشات کا تباع حق سے روک دیتا ہے اور طول امل آخرت کو فراموش کر دیتا ہے۔( ۱۳ )

٭ اسماعیل بن جابر کی روایت میں امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ علم عمل کے ساتھ ملا ہوا ہے جو علم حاصل کرے اسے عمل بھی کرنا چاہئے اور جو عمل کرے اسے صاحبِ علم ہونا چاہئے۔ علم عمل کے نام پر آواز دیتا ہے اور عمل نہیں ہوتا تو چل دیتا ہے۔( ۱۴ )

٭ عبد اللہ بن القسم الجعفری امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ جو عالم اپنے علم پر عمل نہیں کرتا اس کا موعظہ اسی طرح دلوں سے پھسل جاتا ہے جس طرح صاف چٹان سے پانی بہہ کر نکل جاتا ہے۔

٭ ابن علی ہاشم بن برید کہتے ہیں کہ ایک شخص امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے چند مسائل دریافت کئے۔ حضرت نے جواب دیا۔ پھر مزید سوال کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ انجیل میں لکھا ہوا ہے۔ کہ جس چز کا علم نہیں ہے اس کا علم حاصل کرنے سے پہلے جس کا علم ہے اس پر عمل کرو۔ علم بے عمل ہوجائے تو موجب کفر ہوجاتا ہے اور صاحب علم خدا سے دور تر ہوجاتا ہے۔( ۱۵ )

٭ امیر المومنین علیہ السلام کے بعض خطبوں میں مذکور ہے کہ ’’اپنے علم پر عمل کرو تاکہ ہدایت پاؤ۔ عالم بے عمل اس جاہل کے مانند ہے جو جہالت سے نجات نہیں پاتا اور اسی میں حیران و سرگرداں رہتا ہے بلکہ اس کے خلاف حجت پروردگار زیادہ شدید ہے اور اس کی حسرت و ندامت بھی زیادہ ہے۔ ایسا عالم اور جاہل دونوں ہلاک و برباد ہیں لہٰذا خبردار شک و شبہہ پیدا نہ کرنا ورنہ کافر ہو جاؤ گے اور حق کو نظر انداز نہ کرو ورنہ گھاٹے میں رہوگے۔ حق یہ ہے کہ علم دین حاصل کرو اور علم دین یہ ہے کہ دھوکہ نہ کھاؤ۔ اپنے نفس کو نصیحت کرو کہ رب کی اطاعت کرے۔ نفس کو دھوکہ نہ دو کہ یہ معصیت پروردگار ہے۔ اطاعتِ خدا کرنے والا مامون و مسرور رہتا ہے اور معصیت کرنے والا خائف و پشیمان ہوتا ہے۔( ۱۶ )

٭ عبد اللہ بن میمون بن قداح نے امام صادق علیہ السلام کے ذریئے انکے بزرگوں سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ علم کیا چیز ہے؟ فرمایا خاموشی، پوچھا اس کے بعد؟ فرمایا توجہ سے سماعت، عرض کی اس کے بعد؟ فرمایا حفظ۔ عرض کی اس کے بعد؟ فرمایا: عمل۔ سوال کیا اس کے بعد؟ فرمایا نشر و اشاعت۔( ۱۷ )

٭ حرث بن مغیرہ نے ’’انما یخشی اللہ‘‘ کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ عالم وہی ہے جس کا عمل اس کے قول کی تصدیق کرے ورنہ قول و فعل میں فرق ہو جائے تو انسان عالم نہیں ہے۔ فرزند! دیکھا تم نے کہ حضرت نے عالم بے عمل کو علم ہی سے برخاست کردیا ہے اور اسے عالم ہی تسلیم نہیں کیا ہے لہٰذا خبردار عمل کا دامن ہاتھ سے نہ جانے پائے ورنہ علم کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔

فرزند! علماء اعلام کے مذکورہ صفات سے انصاف پیدا کرو کہ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ علم حاصل کرو اپنے کو علم سے آراستہ کرو جسے علم دو اس سے بھی تواضع برتو اور جس سے علم لو اس کے سامنے بھی متواضع رہو۔ خبردار عالم جابر نہ بن جانا۔ کہ اس طرح باطل حق کو ضائع اور برباد کر دیتا ہے۔( ۱۸ )

٭ صحیحہ حلبی میں امام صادق علیہ السلام نے امیر المومنین علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا ہے کہ میں تمہیں واقعی فقیہہ سے باخبر کرنا چاہتا ہوں۔ واقعی فقیہہ اور عالم دین وہ ہے جو لوگوں کو رحمت خدا سے مایوس نہ کرے اور انھیں عذاب خدا کی طرف سے مطمئن نہ بنا دے۔ معصیت کی اجازت نہ دے دے اور قرآن کو چھوڑ کر کوئی دوسری شئے اختیار نہ کرلے۔ ایسے علم میں کوئی خبر نہیں ہے جس میں فہم نہ ہو اور ایسی قرائت میں کوئی خوبی نہیں جس میں غور و فکر نہ ہو۔ ایسی عبادت بے کار ہے جس میں علم دین شامل نہ ہو اور ایسے اعمال بے فیض ہیں جن میں خوفِ خدا کا دخل نہ ہو۔( ۱۹ )

٭ معاویہ بن وہب نے امام صادق علیہ السلام کے حوالے سے امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد نقل کیا ہے کہ ’’اے طالبِ علم، علم کی تین نشانیاں ہیں علم، حلم، خاموشی۔ اور بنے ہوئے عالم کی بھی تین علامتیں ہیں۔ اپنے سے اونچے سے معصیت کے ذریعہ جھگڑا کرنا، اپنے سے کمتر پر غلبہ پیدا کر کے ظلم کرنا اور ظالموں کی مدد کرنا۔( ۲۰ )

٭ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ عالم کے دل میں جہالت اور فریب کا گزر نہیں ہو سکتا۔

٭ ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے امیر المومنین علیہ السلام کا یہ ارشاد سنا ہے کہ ’’ اے طالب علم یاد رکھ کہ علم کے بہت سے فضائل ہیں اس کا سر تواضع ہے۔ اسکی آنکھیں حسد سے بیزاری ہے اسکا کان فہم ہے اس کی زبان صداقت ہے اس کا حافظہ جستجو ہے اس کا قلب حسن نیت ہے اس کی عقل معرفت اشیاء و امور ہے اسکے ہاتھ رحمت ہیں، اسکے پیر زیارتِ علماء ہیں۔ اس کی ہمت سلامتی ہے۔ اسکی حکمت تقوی ہے اسکے مرکز نجات ہے اسکا فائدہ عافیت ہے اس کا مرکب وفا ہے اسکا اسلحہ نرم کلامی ہے۔ اس کی تلوار رضا ہے، اس کی کمان مدارات ہے اسکا لشکر مباحثہ ہے۔ اس کا مال ادب ہے اسکا ذخیرہ گنا ہوں سے اجتناب ہے اسکا زادِ راہ نیکی ہے اس کی پناہ باہمی تعلقات ہیں۔ اس کی دلیل ہدایت ہے۔ اسکی رفیق نیکوں کی محبت ہے۔( ۲۱ )

٭ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ایمان کا بہترین وزیر علم ہے اور علم کا بہترین وزیر حلم ہے اور حلم کا بہترین وزیر نرمی ہے اور نرمی کا بہترین وزیر صبر ہے۔( ۲۲ )

فرزند! خبردار کوئی بات بغیر علم کے نہ کہنا کہ امام صادق علیہ السلام نے مفضل سے فرمایا ہے کہ دو خصلتوں سے ہوشیار رہنا اسی میں انسانوں کی ہلاکت ہے۔ باطل کے ذریعہ دینداری اور علم کے بغیر فتویٰ۔

امام باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے جو شخص علم اور ہدایت کے بغیر فتوی دے گا اس پر ملائکہ رحمت اور ملائکہ عذاب دونوں لعنت کریں گے اور اس کے ذمہ تمام عمل کرنے والوں کا عذاب ہوگا۔( ۲۳ )

مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے جو ناسخ و منسوخ محکم و متشابہ کو پہچانے بغیر فتوی دے گا وہ خود بھی ہلاک ہوگا اور دوسروں کو بھی ہلاک کر دے گا۔( ۲۴ )

فرزند! یاد رکھو جو بات معلوم نہیں ہے اس کے بارے میں صاف کہہ دو کہ نہیں معلوم ہے۔ اللہ اعلم نہ کہو۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ اعلم کہنے سے سننے والے کے دل میں شبہ پیدا ہوجاتا ہے کہ شاید جانتے ہیں جبکہ ’’نہیں معلوم ہے‘‘ سے بات واضح ہے کہ دیانتداری سے کام لے رہا ہے۔( ۲۵ )

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ عالم کو مسئلہ نہیں معلوم ہے تو ’’اللہ اعلم‘‘ کہہ سکتا ہے لیکن جاہل کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے (اس لئے کہ اس میں جستجو ہی کی صلاحیت نہیں ہے تو اسے صاف اقرار جہل کرنا چاہئے۔)( ۲۶ )

ایک مقام پر فرمایا کہ جس حکم کو نہیں جانتے ہو اس کے بارے میں سکوت اور احتیاط سے کام لو اور صاحبانِ عصمت کی طرف پلٹا دو تاکہ وہ سیدھے راستے پر چلائیں اور تاریکیوں کو دور کر دیں اور حق کو واضح کر دیں۔ پروردگار کا حکم ہے جو نہیں جانتے ہو اس کے بارے میں اہل ذکر اور علماء سے دریافت کرو۔( ۲۷ )

فرزند! خبردار علم کے بغیر عمل نہ کرنا کہ اس طرح انسان غلط راستے پر چلا جاتا ہے اور جتنا آگے بڑھتا جاتا ہے حق سے گمراہ ہوتا جاتا ہے۔( ۲۸ )

٭ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ بغیر علم کے عمل کرنے والا اصلاح سے زیادہ فساد برپا کرتا ہے۔ فرزند! علماء عاملین سے محبت کرو۔ ان کے ساتھ رہو۔ اللہ ہر محبت کرنے والے کو محبوب کے ساتھ محشور کرتا ہے اور جو جس قوم کے عمل کو پسند کرتا ہے اسے اس کے عمل میں شریک قراردے دیتا ہے۔( ۲۹ )

٭ امام صادق علیہ السلام نے ابو حمزہ ثمالی سے فرمایا کہ عالم بنویا متعلم بنویا علم دوست بنو کہ علماء کی دشمنی میں ہلاکت ہے۔( ۳۰ )

٭ امام سجاد علیہ السلام کی یہ روایت مشہور ہے کہ ثواب کا طلبگار علماء کا ہم نشین اور پرہیزگار انسان اللہ کا محبوب ترین بندہ ہے۔

فرزند! علم کو اس کے اہل کے حوالے ضرور کرو کہ تعلیم دینا ہی علم کی زکوۃ ہے۔( ۳۱ )

٭ پروردگار نے جاہلوں سے طلب علم کا عہد اسی وقت لیا ہے جب عالموں سے تعلیم دینے کا عہد لے لیا ہے۔( ۳۲ )

٭ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ خبردار جاہلوں سے حکمت کی بات نہ کرنا کہ یہ حکمت پر ظلم ہے اور صاحبانِ صلاحیت سے حکمت کو محفوظ نہ رکھنا کہ یہ ان پر ظلم ہے۔

فرزند! خدا تمہیں زندہ رکھے اور اپنی مرضی کی توفیق کرامت فرمائے۔ خبردار تمام علوم کے حاصل کرنے میں صرف مقدارِ ضرورت ہی پر اکتفا کرنا اور باقی وقت صرف علم فقہ کے حاصل کرنے میں صرف کرنا کہ علم کی محبوبیت کا راز عمل ہے اور عمل کا تعلق فقہ سے ہے اور فقہ سے ہی اوامر و نواہی پروردگار کا علم ہوتا ہے اور احکام الٰہیہ ہی کائنات میں اشرف معلومات ہیں انھیں سے امور معاش و معاد کی تنظیم ہوتی ہے اور انھیں سے کمال انسانیت حاصل ہوتا ہے۔

صاحب معالم الاصول نے بہت خوب فرمایا ہے کہ اللہ نے تمام محکم افعال کسی غرض و غایت کے تحت انجام دیئے ہیں اور انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو اس کی خلقت کی غرض و غایت بھی تمام اغراض سے اشرف ہوگی اور ظاہر ہے کہ یہ غرض بندوں کو نقصان پہنچانا نہیں ہو سکتا کہ یہ کام جاہل اور محتاج کا ہوتا ہے اور خداوند عالم عالم اور مستغنی ہے لہٰذا غرض خلقت بندوں کو فائدہ پہونچانا ہے اور دنیاوی فوائد حقیقتاًفوائد نہیں ہیں یہ توفقط نقصانات کو دفع کرنے کا نام ہیں۔ فائدہ تو اسے شاذ و نادر ہی کہا جاتا ہے۔ اور ایسی چیز غرض خلقت نہیں بن سکتی۔ لہٰذا غرض فائدہ آخرت ہے اور یہ وہ بہترین فائدہ ہے جو ہر کس و ناکس کو حاصل نہیں ہوتا اس کے لئے استحقاق ضروری ہے اور استحقاق عمل سے پیدا ہوتا ہے اور عمل علم سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا اس عظیم فائدہ آخرت کی تحصیل کے لئے علم لازم ہے اور جو علم اس عظیم فائدہ تک پہنچا دے اس سے عظیم کوئی علم نہیں ہے اور اسی لئے امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابان بن تغلب سے فرمایا تھا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنے اصحاب کو کوڑوں سے ماروں تاکہ یہ علم دین حاصل کریں۔( ۳۳ )

٭ علی بن حمزہ کی روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ علم دین حاصل کرو۔ علم دین حاصل نہ کرنے والا گنوار اور دیہاتی ہے۔ پروردگار نے علم دین کی تحصیل کو واجب قرار دیا ہے اور پھر قوم میں انذاز و تبلیغ کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔( ۳۴ )

٭ مفضل بن عمر کی روایت میں امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جو شخص بھی علم دین حاصل نہ کریگا وہ روز قیامت نگاہِ مرحمت پروردگار کا حقدار نہ ہوگا اور اس کے اعمال طیب و طاہر نہ ہوں گے۔( ۳۵ )

٭ ابراہیم بن عبد الحمید امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مسجد میں داخل ہوئے دیکھا کہ ایک جماعت ایک شخص کو گھیرے بیٹھی ہے۔ فرمایا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ علامہ ہے۔ فرمایا علامہ کیا ہوتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ انسابِ عرب، وقائع عرب، اشعار عرب اور ایام جاہلیت کا اعلم ہے۔ آپ نے فرمایا، ہوشیار! یہ وہ علم ہے جس کا جاننا مفید نہیں ہے اور نہ جاننا مضر نہیں ہے علم کی تین ہی قسمیں ہیں، محکم آیت، عادل فریضہ، مستقیم سیرت، اسکے علاوہ سب فضیلت ہے (یعنی علامہ وہ ہے جو ان تین علوم کا ماہر ہو جسے شریعت نے علم کہا ہے اسکے علاوہ اچھا شاعر، اچھا ادیب، اچھا مفکر یا پروفیسر علامہ نہیں ہو سکتا۔ جوادی)

٭ امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ انسان کا سب سے بڑا کمال علم دین حاصل کرنا مصائب پر صبر کرنا اور معیشت کو معین رکھنا ہے۔( ۳۶ )

٭ حماد نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ پروردگار جب کسی بندے کو خیر دینا چاہتا ہے تو علم دین دیتا ہے۔( ۳۷ )

٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ علماء امانتدار ہیں متقی قلعے ہیں اور اوصیاء سردار ہیں۔

فرزند! یاد رکھو کہ علم کا مذاکرہ عبادت ہے اس سے غافل نہ رہنا۔ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ مذاکرۂ علمی کرو۔ آپس میں ملاقات اور گفتگو کرو کہ حدیث سے دل پر جلا ہوتی ہے قلوب بھی تلوار کی طرح زنگ آلود ہو جاتے ہیں اور ان کی صیقل حدیث ہے۔( ۳۸ )

٭ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ اس بندے پر رحمت نازل کرتا ہے جو علم کو زندہ کرے۔ یعنی اہل دین اور اہل تقویٰ سے مذاکرہ کرے۔( ۳۹ )

فرزند! خدا تمہیں علم اور عمل صالح کی توفیق کرامت فرمائے۔ اگر حالات زمانہ کی بناپر کسب معاش ضروری ہوجائے اور کسب معاش نہ کرنا موجب ذلت اور باعث ارتکابِ محرمات ہو جائے تو خبردار کسب معاش کے پیچھے تحصیل علم کو یکسر نظر انداز نہ کر دینا بلکہ تھوڑی دیر تحصیل علم کرنا اور تھوڑی دیر کسب معاش۔ روایات و تجربات کا خلاصہ یہ ہے کہ زیادہ دوڑ دھوپ کرنے سے رزق میں اضافہ نہیں ہوتا اور کم وقت صرف کرنے سے اس میں کمی نہیں ہوتی۔( ۴۰ )

خبردار تحصیل علم چھوڑ کر تمام عمر معیشت جمع کرنے میں صرف نہ کر دینا کہ یہ حیوانوں کا انداز ہے بلکہ ان سے زیادہ گمراہی ہے کہ انسان اپنی ذمہ داریوں سے ناواقف رہے اور اس کی تلاوت و دعا فقط ایک جنبش زبان بن جائے جس کا کوئی مفہوم نہ ہو۔

سب سے زیادہ مناسب یہ ہے کہ مجالس عزا کو ذریعہ زندگی بنایا جائے کہ اس میں دین اور دنیا دونوں ہیں۔ منفعت مادی بھی ہے اور تحصیل علم بھی ہے۔

(کاش مصنف مرحوم کی نگاہ اس دور پر بھی ہوتی جبکہ عام تقریریں تحصیل علم سے بے نیاز ہوتی جا رہی ہیں اور ذکر و بیان کیلئے کسی طرح کا علم دین ضروری نہیں ہے۔ جوادی)

لیکن یہ خیال رہے کہ زبان کو کذب اور بہتان سے پاک رکھنا۔ ائمہ معصومین (ع) کی طرف بغیر تحقیق کسی بات کو منسوب نہ کرنا۔ مصائب میں فقط معتبر روایات پر اکتفا کرنا۔ یہ خیال کبھی نہ آئے کہ کثرتِ بکا کثرت ذکر مصائب پر موقوف ہے۔ گریہ دل پر اثر سے پیدا ہوتا ہے روایات کی تشکیل سے نہیں اور اثر کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ پہلے اہل بیت طاہرین (ع) کی کرامت و فضیلت بیان کی جائے تا کہ ان کی عظمت اور شخصیت کا احساس پیدا ہو جائے اس کے بعد مصیبت کا ذکر کیا جائے کہ اس طرح ذکر بے ساختہ دل پر اثر کرتا ہے۔

فرزند! خبردار طبابت کا پیشہ اختیار نہ کرنا کہ اس کا خطرہ بہت عظیم ہے اور اس سے نجات بہت مشکل ہے خصوصاً اگر ہاتھ لگا کر علاج کرنا پڑے کہ ہر آن وسوسۂ شیطان کا اندیشہ رہتا ہے (حکیم اور ڈاکٹر صاحبان کو اس نکتہ پر نگاہ رکھنی چاہئے کہ پروردگار دلوں کے حالات سے بھی باخبر ہے۔ کسی خاتون کے علاج میں نبض پر ہاتھ رکھتے وقت اور اسکے جسم کی تفتیش کرتے وقت ذرابھی نیت میں فتور پیدا ہو گیا تو فیس تو بعد میں ملے گی جہنم کا استحقاق پہلے پیدا ہوگا۔ علاج سامانِ تفریح نہیں ہے۔ سبب حیات انسانی ہے۔ جوادی)

فرزند! خبردار علم کے بلند ترین درجہ پر پہونچنے کے بعد بھی ریاست کی فکر نہ کرنا کہ یہ باعث ہلاکت اور سبب فنائے دین ہے۔ میں تمہیں تجربہ کی بات بتاتا ہوں کہ ریاست پانے کے بعد تم حق کی تلخی برقرار رکھو گے تو راحت ختم ہو جائے گی اور لوگ برا بھلا کہیں گے اور اگر لوگوں کی خواہش کے ساتھ چلو گے تو آخرت کا خسارہ ہوگا ۔

فرزند! ریاست سے اسی طرح بھاگو جس طرح شیر سے فرار کیا جاتا ہے اس لئے کہ جو چیز عبادت سے غافل کر دے اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں کوئی رئیس ایسا نہیں دیکھا جو دیانتداری سے کام کرلے اور لوگوں کے طعن و طنز کا نشانہ نہ بنے۔ لوگ اس کے مال و آبرو کو مباح سمجھ لیتے ہیں اور ان کی نظروں میں اسے گالیاں دینا بھی جائز ہو جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ کافر حربی جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔

خبردار! ریاست کے اسباب فراہم نہ کرنا۔ اس کے جال نہ بچھانا۔ اس کے مقدمات فراہم نہ کرنا کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنے کو ہلاکت میں ڈال دو اور دین و دنیا کی راحت سے محروم ہو جاؤ۔ ہاں از خود آجائے تو قبول کر لو لیکن ہر آن اپنے نفس کی نگرانی کرتے رہنا کہ نفس کا خطرہ عظیم ہے اور لغزش کے امکانات کثیر ہیں منفعت کم ہے اور نقصان زیادہ۔ محفوظ رہنے والے قلیل ہوتے ہیں اور پھسل جانے والے زیادہ۔ صاحب ریاست عالم کے لئے چند طرح کے خطرات پائے جاتے ہیں جن کی نشاندہی ضروری ہے۔

پہلا خطرہ قضاوت:

قضاوت ایک سم قاتل اور زہر ہلاہل ہے اس سے ہوشیار رہنا۔ اس میں اکثر پیر پھسل جاتے ہیں اور انسان تباہ ہو جاتا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ اس زمانے میں جبکہ دیانتدار کم اور شیطان کے بندے زیادہ ہو گئے ہیں۔ مرد عاقل ایسے عمل پر کیسے اقدام کرے گا جس کے تین چوتھائی عمل کرنے والے جہنمی ہیں اور صرف ایک چوتھائی جنتی۔ (اس لئے کہ جو دیدہ و دانستہ غلط فیصلہ کرے گا وہ بھی جہنمی ہے اور جو لا علمی میں غلط فیصلہ کرے گا وہ بھی جہنمی ہے اور جو لا علمی میں صحیح فیصلہ کریگا وہ بھی جہنمی ہے کہ ایسا اقدام کیوں کیا جس میں غلطی کا واضح امکان تھا۔ صرف وہ شخص جنتی ہے جو حق کا فیصلہ کرے اور وہ بھی علم و اطلاع کے ساتھ۔ اس طرح تین چوتھائی افراد جہنمی ہوئے ایک چوتھائی جنتی۔ جوادی)

صاحب عقل ایسے معاملہ پر کیسے تیار ہوگا جس میں خسارہ کا امکان زیادہ ہے اور فائدہ کا امکان کم۔ دیندار ایسی جگہ بیٹھنے کی ہمت کیسے کرے گا جہاں نبی و وصی بیٹھتے ہیں یا مردِ شقی۔( ۴۱ )

کسے اپنے نفس کی طرف سے اطمینان کامل ہے اور کون اپنے بارے میں نبوت و وصایت کا احتمال دیتا ہے کہ شقاوت سے محفوظ ہو جائے۔

خبردار! شیطان کے بہکانے میں نہ آنا اور قضاوت کو واجب عینی سمجھ کر اس کے چکر میں نہ پڑجانا کہ لاعلمی میں ہلاک ہو جاؤ۔ ہاں کسی ایسے علاقہ میں پہنچ جاؤ جہاں کوئی دوسرا نہ ہو اور خالی الذہن ہو کر سوچنے پر بھی قضاوت واجب عینی نظرآئے تو حتی الامکان فریقین میں صلح کرانے کی کوشش کرو اور حق کے واضح ہو جانے کے بعد بھی احتیاط سے کام لینا۔

دوسرا خطرہ خیانت:

فقراو مساکین، اولاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، رعایا کے حقوق میں خیانت کبھی بغیر دلیل شرعی کے اپنے اور اپنے اہل و عیال کو دوسروں پر مقدم کرنے میں ظاہر ہوتی ہے اور کبھی مال کے صرف کرنے میں خواہش کے اتباع اور حقدار تک پہونچا نے میں خلوص کی کمی سے نمایاں ہوتی ہے۔

خبردار! حقوق شرعیہ میں مرجع بن جاؤ تو میرے والد مرحوم طاب ثراہ کی ان نصیحتوں کو نگاہ میں رکھنا۔

(۱) حتی الامکان حقوق شرعیہ کو اپنی ذات پر صرف نہ کرنا اور ہدیہ و تحفہ پر گزارا کرنا۔ اس لئے کہ مجھے خطرہ ہے کہ اگر ابتدا میں بقدر ضرورت حق لینے کی عادت پڑگئی تو آگے چل کر ضرورت کا دائرہ وسیع ہو جائے گا اور زینت و جمال پر بھی مال صرف ہوگا اور آخر میں ملکیت و جائداد کی فراہمی بھی ضرورت کے دائرہ میں شامل ہوجائے گی جو ہلاکت کا بہترین ذریعہ ہے اور جس کے بعد انسان عذاب دائمی کا حقدار ہوجاتا ہے۔ حقوق کی حیثیت شبہات کی ہے کہ جو اس کے گرد چکر لگائے گا ایک دن مبتلا ضرور ہوجائے گا۔

ہاں اگر مرجع تقلید و حقوق نہیں ہو تو بقدر ضرورت اپنا حق لے سکتے ہو اور خبردار یہ خیال نہ کرنا کہ اگر حقوق شریعہ کو استعمال نہ کرو گے تو بھوکے مرجاؤ گے اس لئے کہ رزق کا مسئلہ مضمون ہے۔ اس کا ذمہ دار معتبر ہے۔ وہ حقوق سے اجتناب کرتے دیکھے گا تو ہدیہ و تحفہ سے پیٹ بھر دے گا جیسا کہ مسلسل دیکھنے میں آیا ہے اور حقوق شریعہ استعمال نہ کرنے کے عجیب و غریب اثر دیکھے گئے ہیں۔ اس سے قلب میں نور، عمر میں برکت، اطاعت کی توفیق اور لغزشوں سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ رب کریم تمہیں بھی ایسے مشاہدے کرا دے کہ اعتماد اور بھی پختہ ہو جائے کہ بیان مثل عیان نہیں ہوتا۔

(۲) ہمیشہ حقوق کی تقسیم میں قربتِ خدا کا خیال رہے اور اپنے ذاتی اغراض کو محور نہ بنانا کہ اپنے خدام اور مریدوں پر تقسیم کر دو اور جو دور رہے اسے محروم کرو یا قریب والے کا حصہ زیادہ رکھو اور دور والے کا کم۔ صرف اس لئے کہ وہ اظہار خلوص و محبت کرتا ہے اور دوسرا ایسا نہیں کرتا۔ خبردار ہمیشہ وجوہ شریعہ پر نگاہ رکھنا اور شرعی اسباب کی بنا پر ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا، اس لئے کہ ایصال حقوق عبادت ہے اور عبادت میں قصد قربت ضروری ہے۔ اگر نیت صادق نہ ہوگی تو صاحب حق اور فقیر دونوں کی طرف سے ذمہ داری باقی رہ جائے گی اور روزِ قیامت شفاعت کرنے والے ہی فریق بن جائیں گے۔ دنیا میں بھی خسارہ ہوگا کہ مال ہاتھ سے نکل گیا اور آخرت میں بھی خسارہ ہوگا کہ نیت صاف نہ ہونے کی بناء پر ثواب بھی نہیں ملا اور آخر کار ’’نہ خداہی ملا نہ وصال صنم‘‘ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔

تیسرا خطرہ فتوی میں جلد بازی:

خبردار فتویٰ میں جلد بازی سے احتیاط کرنا کہ یہ بدترین مرض ہے اور تمام ابواب فقہ پر نظر کئے بغیر فتویٰ نہ دینا۔ ممکن ہے کہ ایک باب کے مسئلہ کی دلیل دوسرے باب میں پائی جاتی ہو اور تم صرف ایک متعلقہ باب کا مطالعہ کر کے فتویٰ دے دو اور اس طرح مستحق عذاب الیم ہو جاؤ۔

میں نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ بعض علماء نے صرف ایک باب کی روایت کو دیکھ کر یا اطلاقات پر اعتماد کر کے فتوی دے دیا اور بعد میں ان کا فتوی اجماع اصحاب کے خلاف ثابت ہوا اس لئے کہ انھوں نے دوسرے ابواب کے مطالعہ کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔

اگر تم خچر کو کرایہ پر دینے کے بارے میں ابو ولاّد کی روایت کا مطالعہ کرو گے تو تمہیں اندازہ ہو گا کہ فتویٰ کا مسئلہ کس قدر سنگین ہے اور جب چند درہم کے بارے میں غلط فتویٰ آسمان کے پانی اور زمین کی برکتوں کے رک جانے کا سبب بن جاتا ہے تو کثیر اموال، آبرو ااور نفس محترم کے بارے میں غلط فتویٰ کا انجام کیا ہوگا۔

علامہ حلّیؒ کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے مرنے کے بعد خواب میں اپنے فرزند کو خبردی کہ اگر کتاب الفتن اور زیارت امام حسین (ع) نہ ہوتی تو فتووں نے مجھے برباد ہی کردیا تھا حالانکہ وہ واقعی آیت اللہ تھے اور ان کی نگاہ تمام مدارک بروایات، استاد اور رجال پر تھی تو دوسروں کا کیا انجام ہوگا؟

خبردار! مکمل اطلاع سے پہلے فتویٰ نہ دینا اور مکمل اطلاع کے بعد بھی حتی الامکان پرہیز کرنا۔ ہاں عوام کے گمراہ ہوجانے اور جاہلوں کے منظر عام پر آجانے کا خطرہ ہو تو ضرور اقدام کرنا لیکن پوری احتیاط کو پھر بھی نگاہ میں رکھنا۔

چوتھا خطرہ حب جاہ:

مرجعیت کے ساتھ عام طور سے جاہ و جلال کی محبت بھی آجاتی ہے اور یہی چیز اجر کو فنا کر دینے والی اور انسان کو ہلاکت میں ڈال دینے والی ہے۔ خبردار اس خطرہ سے ہوشیار رہنا اور اپنے نفس کی نگرانی کرتے رہنا۔ نفس ہمیشہ برائیوں کا حکم دیتا ہے جب تک رحمت پروردگار شامل حال نہ ہو جائے، خدا تمہیں اور مجھے اصلاح نفس اور خواہشات سے دور رہنے کی توفیق کرامت فرمائے وہی اپنے بندوں پر لطف کرنے والا اور اپنے مقصد کو نافذ کرنے والا ہے۔

پانچواں خطرہ جعلسازی:

خبردار! تمہارا باطن ظاہر کے خلاف نہ ہونے پائے کہ باہر سے زہد و قناعت کا اظہار کرو اور اندر یہ جذبہ نہ ہو کہ دورِ حاضر میں یہ بات عام ہوگئی ہے۔

خبردار ہوشیار رہنا کہ یہ شرک خفی ہے اور غور کرو تو شرکِ جلی بھی ہے کہ گویا بندہ خدا کے علاوہ دوسروں کی عبادت کرنا چاہتا ہے اور ان کے خیال میں ڈوبا ہوا ہے جبکہ باطن بھی چھپنے والا نہیں ہے ایک دن اس کا بھی اظہار ہوگا تو انسان نگاہوں سے گر جائے گا اور عوام کے درمیان رسوا ہو جائے گا۔( ۴۲ )

____________________

[۱] اصول کافی ۱، ص ۳۵

[۲] اصول کافی ۱، ص ۴۹

[۳] اصول کافی ۱، ص ۴۶

[۴] اصول کافی ۱، ص ۴۶

[۵] اصول کافی ۱، ص ۴۶

[۶] اصول کافی ۱، ص ۴۷

[۷] سورۂ نسائ

[۸] اصول کافی ۱، ص ۴۷

[۹] اصول کافی ۱، ص ۵۰

[۱۰] اثناعشریہ، ص ۸۱

[۱۱] بحار ۴، ص ۶۴

[۱۲] اصول کافی ۱، ص ۳۷

[۱۳] اصول کافی ۱، ص ۴۲

[۱۴] صول کافی ۱، ص۴۴

[۱۵] اصول کافی ۱، ص ۴۴

[۱۶] اصول کافی ۱، ص ۴۰

[۱۷] اصول کافی ۱، ص ۴۸

[۱۸] اصول کافی ۱، ص ۳۶

[۱۹] اصول کافی ۱، ص ۳۶

[۲۰] اصول کافی ۱، ص ۳۷

[۲۱] اصول کافی ۱و ص ۴۲

[۲۲] اصول کافی ۱، ص ۴۸

[۲۳] اصول کافی ۱، ص ۴۲

[۲۴] اصول کافی ۱، ص ۴۲

[۲۵] اصول کافی ۱، ص ۴۲

[۲۶] اصول کافی ۱، ص ۴۲

[۲۷] سورہ نمل ۴۳

[۲۸] اصول کافی ۱، ص ۴۳

[۲۹] تفسیر صافی، ص ۵۶

[۳۰] اصول کافی ۱، ص ۳۴

[۳۱] اصول کافی ۱، ص ۴۱

[۳۲] اصول کافی ۱، ص ۴۱

[۳۳] معالم الاصول ۲۰، ۲۱

[۳۴] اصول کافی ۱، ص ۳۱

[۳۵] اصول کافی ۱، ص ۳۳

[۳۶] اصول کافی ۱، ص ۳۲

[۳۷] اصول کافی ۱، ص ۳۲

[۳۸] اصول کافی ۱، ص ۳۲

[۳۹] اصول کافی ۱، ص ۴۱

[۴۰ مستدرک وسائل الشیعہ ۲، ص ۴۱۸

[۴۱] وسائل الشیعہ۳، ص۳۶۹

[۴۲] اصول کافی ۲، ص ۲۹۳