آئینۂ اخلاق

آئینۂ اخلاق33%

آئینۂ اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8517 / ڈاؤنلوڈ: 4575
سائز سائز سائز
آئینۂ اخلاق

آئینۂ اخلاق

مؤلف:
اردو

قصد قربت

فرزند! خدا تمہیں دنیا و آخرت کی نیکی نصیب کرے۔ دیکھو طلب علم میں نیت صاف رکھنا۔ دل دنیوی اغراض سے پاک اور نفس قوت عمل میں کمال کی طرف مائل رہے رذائل سے اجتناب کرو۔ اخلاقی فضائل کو اختیار کرو۔ قوت شہوت اور غضب کو قابو میں رکھو اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس ارشاد پر نظر رکھو کہ ’’جو شخص بھی علم حاصل کر کے اس پر عمل کرے گا اور دوسروں کو تعلیم دے گا وہ آسمانوں میں عظیم پکارا جائے گا، اور اعلان ہوگا کہ اس نے خدا کے لئے سیکھا، خدا کے لئے عمل کیا اور خدا کے لئے سکھایا ہے۔( ۱ )

٭ باد بن صہیب بصری نے امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا ہے کہ طلاّبِ علم کی تین قسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو جہالت اور جھگڑے کے لئے علم حاصل کرتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو غرور اور فریب کے لئے علم حاصل کرتی ہے اور تیسری قسم فقہ و عقل کے لئے حاصل کرنے والی ہے صاحب جہالت موذی اور محفلوں میں فقط بات کرنے والا ہے۔ علم کے تذکرے کرتا ہے۔ علم کا انداز اختیار کر کے خشوع کا لباس پہنے ہوئے ہے اور اندر سے تقویٰ سے بالکل خالی ہے۔ اللہ اس کی ناک رگڑدے گا اور اس کی کمر توڑدے گا۔ طالب رفعت و فریب لوگوں سے اونچا ہونا چاہتا ہے۔ مالداروں کے سامنے تواضع اختیار کرتا ہے۔ ان کا حلوہ کھاتا ہے اور ان کے دین کو برباد کرتا ہے۔ اللہ نے اس کا رشتہ اہل علم سے قطع کردیا ہے اور یہ بالکل اندھا ہو گیا ہے۔ البتہ صاحب عقل و فقہ و فہم وہ ہے جو ہمیشہ رنجیدہ پریشان اور فکر آخرت میں سرگرداں رہتا ہے۔ رات کی تاریکیوں میں عمل کرتا ہے اور لرزتا رہتا ہے۔ اہل زمانہ کو پہچانتا ہے۔ قریب ترین برادر سے بھی مانوس نہیں ہوتا۔ اللہ نے اس کے ارکان کو مضبوط کردیا ہے اور قیامت کے دن اسکے نام امان لکھ دی ہے۔( ۲ )

٭ لیم بن قیس نے امیر المومنین علیہ السلام کے حوالے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ دو پیاسے کبھی سیراب نہیں ہو سکتے۔ طالب دنیا اور طالب علم، لہٰذا جو شخص بھی دنیا میں حلال پر اکتفا کریگا وہ سلامت رہے گا ورنہ ہلاک ہوجائے گا جب تک توبہ و رجوع نہ کرلے اور جو شخص بھی علم کو اس کے اہل سے حاصل کر کے اس پر عمل کرے گا وہ نجات یافتہ ہوگا ورنہ فقط تحصیل دنیا کا ارادہ ہے تو وہی ہاتھ آئے گی اور آدمی محروم ہی رہے گا۔

٭ بو خدیجہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ جو شخص حدیث کا طلب گار منفعت دنیا کے لئے رہتا ہے وہ آخرت سے محروم رہتا ہے اور جو خیر آخرت کا طلب گار ہوتا ہے وہ دنیا و آخرت دونوں سے بہرہ ور ہوتا ہے( ۳ )

٭ حصض بن غیاث نے امام صادق علیہ السلام کا قول نقل کیا ہے کہ عالم کو دنیا کی طرف متوجہ دیکھو تو اپنے دین کے بارے میں اس سے ہوشیار رہو اس لئے کہ ہر دوست اپنے محبوب کی فکر میں رہتا ہے۔

٭ دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ نے جناب داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ خبردار میرے اور اپنے درمیان کسی فریفتہ دنیا عالم کو واسطہ نہ قرار دینا کہ وہ تمہیں راہِ محبت سے ہٹادے گا ایسے لوگ رہزن ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ میرا کمترین سلوک یہ ہوگا کہ میں ان کے دل سے اپنے مناجات کی لذت سلب کرلوں گا۔( ۴ )

٭ سکونی نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فقہاء مرسلین کے امین ہیں جب تک دنیا میں داخل نہ ہو جائیں۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ یہ دنیا میں داخل کیسے ہوگا؟ فرمایا بادشاہوں کا اتباع کرنا اور جب ایسا کرنے لگیں تو ان سے اپنے دین کے بارے میں ہوشیار رہنا۔( ۵ )

٭ ربعی بن عبد اللہ نے اپنے واسطے سے امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ جو شخص بھی علم دین علماء سے مقابلہ، سفہاء سے مجادلہ اور عوام کی توجہ جذب کرنے کی غرض سے حاصل کرتا ہے وہ روز قیامت جہنم میں ہو گا اور ریاست تو صرف اہل ریاست کا حق ہے۔( ۶ )

فرزند! خبردار علم کے بعد گناہ نہ کرنا کہ عالم پر حجت پروردگار زیادہ شدید و اکید ہے۔ توبہ صرف جاہلوں کی قبول ہوتی ہے جو غلطی سے گناہ کر بیٹھتے ہیں عالم کے لئے نہیں۔( ۷ )

٭ امام صادق علیہ السلام نے ابن غیاث سے فرمایا کہ اللہ جاہل کے ستر گناہ بخش دتیا ہے قبل اس کے کہ عالم کا ایک گناہ بخش دے ۔( ۸ )

(اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر انسان بخشش کے خیال سے جاہل ہی رہ جائے اس لئے کہ قصداً علم دین حاصل نہ کرنا خود ایک گناہ اور معصیت ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو حالات کی بناء پر علم حاصل نہیں کر سکے اور ان کی رسائی اہل علم تک نہیں ہو سکی۔ جوادی)

فرزند! جب بھی علم حاصل کرنا تو صالح، نیک کردار اور پرہیزگار استاد تلاش کرنا۔ اس لئے کہ غیر متقی سے ہر وقت دین کو خطرہ رہتا ہے۔ اسلئے امام جعفر صادق علیہ السلام نے پروردگار کے ارشاد ’’انسان کو اپنے طعام پر غور کرنا چاہئے‘‘ کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اس سے مراد علم ہے جہاں انسان کو ہر وقت نگاہ رکھنی چاہئے کہ کس سے حاصل کر رہا ہے۔( ۹ )

فرزند! شہید ثانی علیہ الرحمہ کی کتاب ’’منیتہ المرید‘‘ کا مطالعہ کرو کہ اس میں استاد و شاگرد کے آداب کا مفصل تذکرہ کیا گیا ہے اور آداب کے بغیر کوئی عمل قابل تعریف نہیں ہوتا۔ علماء کا احترام کرو ان کی تعظیم کرو خصوصیت سے جو تمہارے استاد ہوں ان کا زیادہ احترام کرو کہ استاد باپ کے برابر ہوتا ہے۔( ۱۰ )

٭ ثابت بن دینار ثمالی نے امام سجاد علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ جو علم میں تمہاری رہبری کرے اس کا حق ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے اس کی نشست کی توقیر کی جائے۔ توجہ سے اس کی بات سنی جائے اور اس کی طرف سراپا توجہ رکھی جائے۔ اس کی آواز پر آواز بلند نہ کی جائے اس سے سوال کیا جائے تو اس سے پہلے جواب دینے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس کی مجلس میں کسی کی بات نہ کی جائے۔ کسی کی غیبت نہ کی جائے۔ کسی کی برائی کی جائے تو اس کی طرف سے دفاع کیا جائے اسکے عیوب پر پردہ ڈالا جائے اور اسکے مناقب کا اعلان کیا جائے، اسکے دشمن کا ہم نشین نہ بنے، اس کے دوست سے دشمنی نہ کرے۔ ان سب کی پابندی کرے گا تو ملائکہ بھی گواہی دیں گے کہ خدا کے لئے علم حاصل کیا ہے لوگوں کے لئے نہیں۔

شاگرد کا حق یہ ہے کہ یہ خیال رکھا جائے کہ اللہ نے تمہیں اسکا نگراں قرار دیا ہے اور اس کے لئے تمہارے خزانے کھول دیئے ہیں۔ اب اگر تم نے تعلیم میں اچھا برتاؤ کیا جھڑکا نہیں، ڈانٹا نہیں تو خدا مزید عنایت کرے گا ورنہ اگر تعلیم دینے سے منع کردیا یا ان کی طلب کو ٹھکرا دیا تو خدا پر فرض ہو جائے گا کہ تم سے علم کی رونق سلب کرلے اور لوگوں کے دلوں سے تمہارے مرتبہ کو ساقط کردے۔( ۱۱ )

٭ سلیمان بن جعفر جعفری نے امام صادق علیہ السلام کے حوالہ سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا ہے کہ عالم کا حق یہ ہے کہ اس سے زیادہ سوال نہ کرو۔ اسکا کپڑا نہ کھینچو اور محفل میں اس کے پاس وارد ہو تو اجتماعی کے علاوہ اسے خصوصی سلام کرو۔ اس کے سامنے بیٹھو، پیچھے نہ بیٹھو، آنکھوں اور ہاتھوں سے اِدھر اُدھر اشارہ نہ کرو۔ زیادہ باتیں نہ کرو۔ اس کے مقابلہ میں دوسروں کے اقوال کا تذکرہ نہ کرو۔ زیادہ دیر بیٹھ کر اسے پریشان نہ کرو۔ اس کی مثال ایک درخت خرما کی ہے جس کے پاس بیٹھنے والا خاموشی سے پھلوں کا انتظار کرتا رہتا ہے اور جو مل جاتا ہے لے لیتا ہے۔( ۱۲ )

فرزند! خدا تمہیں علماء دین میں قراردے۔ جو بھی علم حاصل کیا ہے اُس پر عمل کرو۔ علم کی محبوبیت عمل کی وجہ سے ہے ورنہ عالم بلا عمل مثل شجر بلا ثمر کے ہے۔

خبردار! عمل ترک نہ کرنا کہ ایسا علم وبال بن کر رہ جائے گا۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ ’’تمام بندوں پر عمل کی ذمہ داری ہے لیکن عالم پر یہ ذمہ داری زیادہ شدید ہے اور اسی لئے ازواجِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اطاعت گزار بیویوں کا اجر زیادہ ہے اور گنہگاروں کا عذاب بھی زیادہ ہے کہ حالات کے اعتبار سے ثواب و عقاب میں فرق پیدا ہو جاتا ہے۔

٭ سلیم بن قیس کی روایت میں امیر المومنین علیہ السلام سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ علماء دو طرح کے ہیں بعض اپنے علم پر عمل کرتے ہیں اور نجات یافتہ ہیں اور بعض بے عمل ہیں اور یہ ہلاک ہونے والے ہیں اہل جہنم بے عمل عالم کی بدبو سے پریشان ہوں گے۔ بدبخت ترین انسان روز قیامت وہ عالم ہے جس کی دعوت و تبلیغ پر لوگ عمل کر کے جنت میں چلے جائیں گے اور وہ خود بے عملی کی بنا پر داخل جہنم ہو جائے گا۔ خبردار خواہشوں کے اتباع اور امیدوں کے طول سے ہوشیار رہنا کہ خواہشات کا تباع حق سے روک دیتا ہے اور طول امل آخرت کو فراموش کر دیتا ہے۔( ۱۳ )

٭ اسماعیل بن جابر کی روایت میں امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ علم عمل کے ساتھ ملا ہوا ہے جو علم حاصل کرے اسے عمل بھی کرنا چاہئے اور جو عمل کرے اسے صاحبِ علم ہونا چاہئے۔ علم عمل کے نام پر آواز دیتا ہے اور عمل نہیں ہوتا تو چل دیتا ہے۔( ۱۴ )

٭ عبد اللہ بن القسم الجعفری امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ جو عالم اپنے علم پر عمل نہیں کرتا اس کا موعظہ اسی طرح دلوں سے پھسل جاتا ہے جس طرح صاف چٹان سے پانی بہہ کر نکل جاتا ہے۔

٭ ابن علی ہاشم بن برید کہتے ہیں کہ ایک شخص امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے چند مسائل دریافت کئے۔ حضرت نے جواب دیا۔ پھر مزید سوال کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ انجیل میں لکھا ہوا ہے۔ کہ جس چز کا علم نہیں ہے اس کا علم حاصل کرنے سے پہلے جس کا علم ہے اس پر عمل کرو۔ علم بے عمل ہوجائے تو موجب کفر ہوجاتا ہے اور صاحب علم خدا سے دور تر ہوجاتا ہے۔( ۱۵ )

٭ امیر المومنین علیہ السلام کے بعض خطبوں میں مذکور ہے کہ ’’اپنے علم پر عمل کرو تاکہ ہدایت پاؤ۔ عالم بے عمل اس جاہل کے مانند ہے جو جہالت سے نجات نہیں پاتا اور اسی میں حیران و سرگرداں رہتا ہے بلکہ اس کے خلاف حجت پروردگار زیادہ شدید ہے اور اس کی حسرت و ندامت بھی زیادہ ہے۔ ایسا عالم اور جاہل دونوں ہلاک و برباد ہیں لہٰذا خبردار شک و شبہہ پیدا نہ کرنا ورنہ کافر ہو جاؤ گے اور حق کو نظر انداز نہ کرو ورنہ گھاٹے میں رہوگے۔ حق یہ ہے کہ علم دین حاصل کرو اور علم دین یہ ہے کہ دھوکہ نہ کھاؤ۔ اپنے نفس کو نصیحت کرو کہ رب کی اطاعت کرے۔ نفس کو دھوکہ نہ دو کہ یہ معصیت پروردگار ہے۔ اطاعتِ خدا کرنے والا مامون و مسرور رہتا ہے اور معصیت کرنے والا خائف و پشیمان ہوتا ہے۔( ۱۶ )

٭ عبد اللہ بن میمون بن قداح نے امام صادق علیہ السلام کے ذریئے انکے بزرگوں سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ علم کیا چیز ہے؟ فرمایا خاموشی، پوچھا اس کے بعد؟ فرمایا توجہ سے سماعت، عرض کی اس کے بعد؟ فرمایا حفظ۔ عرض کی اس کے بعد؟ فرمایا: عمل۔ سوال کیا اس کے بعد؟ فرمایا نشر و اشاعت۔( ۱۷ )

٭ حرث بن مغیرہ نے ’’انما یخشی اللہ‘‘ کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ عالم وہی ہے جس کا عمل اس کے قول کی تصدیق کرے ورنہ قول و فعل میں فرق ہو جائے تو انسان عالم نہیں ہے۔ فرزند! دیکھا تم نے کہ حضرت نے عالم بے عمل کو علم ہی سے برخاست کردیا ہے اور اسے عالم ہی تسلیم نہیں کیا ہے لہٰذا خبردار عمل کا دامن ہاتھ سے نہ جانے پائے ورنہ علم کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔

فرزند! علماء اعلام کے مذکورہ صفات سے انصاف پیدا کرو کہ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ علم حاصل کرو اپنے کو علم سے آراستہ کرو جسے علم دو اس سے بھی تواضع برتو اور جس سے علم لو اس کے سامنے بھی متواضع رہو۔ خبردار عالم جابر نہ بن جانا۔ کہ اس طرح باطل حق کو ضائع اور برباد کر دیتا ہے۔( ۱۸ )

٭ صحیحہ حلبی میں امام صادق علیہ السلام نے امیر المومنین علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا ہے کہ میں تمہیں واقعی فقیہہ سے باخبر کرنا چاہتا ہوں۔ واقعی فقیہہ اور عالم دین وہ ہے جو لوگوں کو رحمت خدا سے مایوس نہ کرے اور انھیں عذاب خدا کی طرف سے مطمئن نہ بنا دے۔ معصیت کی اجازت نہ دے دے اور قرآن کو چھوڑ کر کوئی دوسری شئے اختیار نہ کرلے۔ ایسے علم میں کوئی خبر نہیں ہے جس میں فہم نہ ہو اور ایسی قرائت میں کوئی خوبی نہیں جس میں غور و فکر نہ ہو۔ ایسی عبادت بے کار ہے جس میں علم دین شامل نہ ہو اور ایسے اعمال بے فیض ہیں جن میں خوفِ خدا کا دخل نہ ہو۔( ۱۹ )

٭ معاویہ بن وہب نے امام صادق علیہ السلام کے حوالے سے امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد نقل کیا ہے کہ ’’اے طالبِ علم، علم کی تین نشانیاں ہیں علم، حلم، خاموشی۔ اور بنے ہوئے عالم کی بھی تین علامتیں ہیں۔ اپنے سے اونچے سے معصیت کے ذریعہ جھگڑا کرنا، اپنے سے کمتر پر غلبہ پیدا کر کے ظلم کرنا اور ظالموں کی مدد کرنا۔( ۲۰ )

٭ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ عالم کے دل میں جہالت اور فریب کا گزر نہیں ہو سکتا۔

٭ ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے امیر المومنین علیہ السلام کا یہ ارشاد سنا ہے کہ ’’ اے طالب علم یاد رکھ کہ علم کے بہت سے فضائل ہیں اس کا سر تواضع ہے۔ اسکی آنکھیں حسد سے بیزاری ہے اسکا کان فہم ہے اس کی زبان صداقت ہے اس کا حافظہ جستجو ہے اس کا قلب حسن نیت ہے اس کی عقل معرفت اشیاء و امور ہے اسکے ہاتھ رحمت ہیں، اسکے پیر زیارتِ علماء ہیں۔ اس کی ہمت سلامتی ہے۔ اسکی حکمت تقوی ہے اسکے مرکز نجات ہے اسکا فائدہ عافیت ہے اس کا مرکب وفا ہے اسکا اسلحہ نرم کلامی ہے۔ اس کی تلوار رضا ہے، اس کی کمان مدارات ہے اسکا لشکر مباحثہ ہے۔ اس کا مال ادب ہے اسکا ذخیرہ گنا ہوں سے اجتناب ہے اسکا زادِ راہ نیکی ہے اس کی پناہ باہمی تعلقات ہیں۔ اس کی دلیل ہدایت ہے۔ اسکی رفیق نیکوں کی محبت ہے۔( ۲۱ )

٭ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ایمان کا بہترین وزیر علم ہے اور علم کا بہترین وزیر حلم ہے اور حلم کا بہترین وزیر نرمی ہے اور نرمی کا بہترین وزیر صبر ہے۔( ۲۲ )

فرزند! خبردار کوئی بات بغیر علم کے نہ کہنا کہ امام صادق علیہ السلام نے مفضل سے فرمایا ہے کہ دو خصلتوں سے ہوشیار رہنا اسی میں انسانوں کی ہلاکت ہے۔ باطل کے ذریعہ دینداری اور علم کے بغیر فتویٰ۔

امام باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے جو شخص علم اور ہدایت کے بغیر فتوی دے گا اس پر ملائکہ رحمت اور ملائکہ عذاب دونوں لعنت کریں گے اور اس کے ذمہ تمام عمل کرنے والوں کا عذاب ہوگا۔( ۲۳ )

مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے جو ناسخ و منسوخ محکم و متشابہ کو پہچانے بغیر فتوی دے گا وہ خود بھی ہلاک ہوگا اور دوسروں کو بھی ہلاک کر دے گا۔( ۲۴ )

فرزند! یاد رکھو جو بات معلوم نہیں ہے اس کے بارے میں صاف کہہ دو کہ نہیں معلوم ہے۔ اللہ اعلم نہ کہو۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ اعلم کہنے سے سننے والے کے دل میں شبہ پیدا ہوجاتا ہے کہ شاید جانتے ہیں جبکہ ’’نہیں معلوم ہے‘‘ سے بات واضح ہے کہ دیانتداری سے کام لے رہا ہے۔( ۲۵ )

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ عالم کو مسئلہ نہیں معلوم ہے تو ’’اللہ اعلم‘‘ کہہ سکتا ہے لیکن جاہل کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے (اس لئے کہ اس میں جستجو ہی کی صلاحیت نہیں ہے تو اسے صاف اقرار جہل کرنا چاہئے۔)( ۲۶ )

ایک مقام پر فرمایا کہ جس حکم کو نہیں جانتے ہو اس کے بارے میں سکوت اور احتیاط سے کام لو اور صاحبانِ عصمت کی طرف پلٹا دو تاکہ وہ سیدھے راستے پر چلائیں اور تاریکیوں کو دور کر دیں اور حق کو واضح کر دیں۔ پروردگار کا حکم ہے جو نہیں جانتے ہو اس کے بارے میں اہل ذکر اور علماء سے دریافت کرو۔( ۲۷ )

فرزند! خبردار علم کے بغیر عمل نہ کرنا کہ اس طرح انسان غلط راستے پر چلا جاتا ہے اور جتنا آگے بڑھتا جاتا ہے حق سے گمراہ ہوتا جاتا ہے۔( ۲۸ )

٭ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ بغیر علم کے عمل کرنے والا اصلاح سے زیادہ فساد برپا کرتا ہے۔ فرزند! علماء عاملین سے محبت کرو۔ ان کے ساتھ رہو۔ اللہ ہر محبت کرنے والے کو محبوب کے ساتھ محشور کرتا ہے اور جو جس قوم کے عمل کو پسند کرتا ہے اسے اس کے عمل میں شریک قراردے دیتا ہے۔( ۲۹ )

٭ امام صادق علیہ السلام نے ابو حمزہ ثمالی سے فرمایا کہ عالم بنویا متعلم بنویا علم دوست بنو کہ علماء کی دشمنی میں ہلاکت ہے۔( ۳۰ )

٭ امام سجاد علیہ السلام کی یہ روایت مشہور ہے کہ ثواب کا طلبگار علماء کا ہم نشین اور پرہیزگار انسان اللہ کا محبوب ترین بندہ ہے۔

فرزند! علم کو اس کے اہل کے حوالے ضرور کرو کہ تعلیم دینا ہی علم کی زکوۃ ہے۔( ۳۱ )

٭ پروردگار نے جاہلوں سے طلب علم کا عہد اسی وقت لیا ہے جب عالموں سے تعلیم دینے کا عہد لے لیا ہے۔( ۳۲ )

٭ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ خبردار جاہلوں سے حکمت کی بات نہ کرنا کہ یہ حکمت پر ظلم ہے اور صاحبانِ صلاحیت سے حکمت کو محفوظ نہ رکھنا کہ یہ ان پر ظلم ہے۔

فرزند! خدا تمہیں زندہ رکھے اور اپنی مرضی کی توفیق کرامت فرمائے۔ خبردار تمام علوم کے حاصل کرنے میں صرف مقدارِ ضرورت ہی پر اکتفا کرنا اور باقی وقت صرف علم فقہ کے حاصل کرنے میں صرف کرنا کہ علم کی محبوبیت کا راز عمل ہے اور عمل کا تعلق فقہ سے ہے اور فقہ سے ہی اوامر و نواہی پروردگار کا علم ہوتا ہے اور احکام الٰہیہ ہی کائنات میں اشرف معلومات ہیں انھیں سے امور معاش و معاد کی تنظیم ہوتی ہے اور انھیں سے کمال انسانیت حاصل ہوتا ہے۔

صاحب معالم الاصول نے بہت خوب فرمایا ہے کہ اللہ نے تمام محکم افعال کسی غرض و غایت کے تحت انجام دیئے ہیں اور انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو اس کی خلقت کی غرض و غایت بھی تمام اغراض سے اشرف ہوگی اور ظاہر ہے کہ یہ غرض بندوں کو نقصان پہنچانا نہیں ہو سکتا کہ یہ کام جاہل اور محتاج کا ہوتا ہے اور خداوند عالم عالم اور مستغنی ہے لہٰذا غرض خلقت بندوں کو فائدہ پہونچانا ہے اور دنیاوی فوائد حقیقتاًفوائد نہیں ہیں یہ توفقط نقصانات کو دفع کرنے کا نام ہیں۔ فائدہ تو اسے شاذ و نادر ہی کہا جاتا ہے۔ اور ایسی چیز غرض خلقت نہیں بن سکتی۔ لہٰذا غرض فائدہ آخرت ہے اور یہ وہ بہترین فائدہ ہے جو ہر کس و ناکس کو حاصل نہیں ہوتا اس کے لئے استحقاق ضروری ہے اور استحقاق عمل سے پیدا ہوتا ہے اور عمل علم سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا اس عظیم فائدہ آخرت کی تحصیل کے لئے علم لازم ہے اور جو علم اس عظیم فائدہ تک پہنچا دے اس سے عظیم کوئی علم نہیں ہے اور اسی لئے امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابان بن تغلب سے فرمایا تھا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنے اصحاب کو کوڑوں سے ماروں تاکہ یہ علم دین حاصل کریں۔( ۳۳ )

٭ علی بن حمزہ کی روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ علم دین حاصل کرو۔ علم دین حاصل نہ کرنے والا گنوار اور دیہاتی ہے۔ پروردگار نے علم دین کی تحصیل کو واجب قرار دیا ہے اور پھر قوم میں انذاز و تبلیغ کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔( ۳۴ )

٭ مفضل بن عمر کی روایت میں امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جو شخص بھی علم دین حاصل نہ کریگا وہ روز قیامت نگاہِ مرحمت پروردگار کا حقدار نہ ہوگا اور اس کے اعمال طیب و طاہر نہ ہوں گے۔( ۳۵ )

٭ ابراہیم بن عبد الحمید امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مسجد میں داخل ہوئے دیکھا کہ ایک جماعت ایک شخص کو گھیرے بیٹھی ہے۔ فرمایا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ علامہ ہے۔ فرمایا علامہ کیا ہوتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ انسابِ عرب، وقائع عرب، اشعار عرب اور ایام جاہلیت کا اعلم ہے۔ آپ نے فرمایا، ہوشیار! یہ وہ علم ہے جس کا جاننا مفید نہیں ہے اور نہ جاننا مضر نہیں ہے علم کی تین ہی قسمیں ہیں، محکم آیت، عادل فریضہ، مستقیم سیرت، اسکے علاوہ سب فضیلت ہے (یعنی علامہ وہ ہے جو ان تین علوم کا ماہر ہو جسے شریعت نے علم کہا ہے اسکے علاوہ اچھا شاعر، اچھا ادیب، اچھا مفکر یا پروفیسر علامہ نہیں ہو سکتا۔ جوادی)

٭ امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ انسان کا سب سے بڑا کمال علم دین حاصل کرنا مصائب پر صبر کرنا اور معیشت کو معین رکھنا ہے۔( ۳۶ )

٭ حماد نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ پروردگار جب کسی بندے کو خیر دینا چاہتا ہے تو علم دین دیتا ہے۔( ۳۷ )

٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ علماء امانتدار ہیں متقی قلعے ہیں اور اوصیاء سردار ہیں۔

فرزند! یاد رکھو کہ علم کا مذاکرہ عبادت ہے اس سے غافل نہ رہنا۔ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ مذاکرۂ علمی کرو۔ آپس میں ملاقات اور گفتگو کرو کہ حدیث سے دل پر جلا ہوتی ہے قلوب بھی تلوار کی طرح زنگ آلود ہو جاتے ہیں اور ان کی صیقل حدیث ہے۔( ۳۸ )

٭ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ اس بندے پر رحمت نازل کرتا ہے جو علم کو زندہ کرے۔ یعنی اہل دین اور اہل تقویٰ سے مذاکرہ کرے۔( ۳۹ )

فرزند! خدا تمہیں علم اور عمل صالح کی توفیق کرامت فرمائے۔ اگر حالات زمانہ کی بناپر کسب معاش ضروری ہوجائے اور کسب معاش نہ کرنا موجب ذلت اور باعث ارتکابِ محرمات ہو جائے تو خبردار کسب معاش کے پیچھے تحصیل علم کو یکسر نظر انداز نہ کر دینا بلکہ تھوڑی دیر تحصیل علم کرنا اور تھوڑی دیر کسب معاش۔ روایات و تجربات کا خلاصہ یہ ہے کہ زیادہ دوڑ دھوپ کرنے سے رزق میں اضافہ نہیں ہوتا اور کم وقت صرف کرنے سے اس میں کمی نہیں ہوتی۔( ۴۰ )

خبردار تحصیل علم چھوڑ کر تمام عمر معیشت جمع کرنے میں صرف نہ کر دینا کہ یہ حیوانوں کا انداز ہے بلکہ ان سے زیادہ گمراہی ہے کہ انسان اپنی ذمہ داریوں سے ناواقف رہے اور اس کی تلاوت و دعا فقط ایک جنبش زبان بن جائے جس کا کوئی مفہوم نہ ہو۔

سب سے زیادہ مناسب یہ ہے کہ مجالس عزا کو ذریعہ زندگی بنایا جائے کہ اس میں دین اور دنیا دونوں ہیں۔ منفعت مادی بھی ہے اور تحصیل علم بھی ہے۔

(کاش مصنف مرحوم کی نگاہ اس دور پر بھی ہوتی جبکہ عام تقریریں تحصیل علم سے بے نیاز ہوتی جا رہی ہیں اور ذکر و بیان کیلئے کسی طرح کا علم دین ضروری نہیں ہے۔ جوادی)

لیکن یہ خیال رہے کہ زبان کو کذب اور بہتان سے پاک رکھنا۔ ائمہ معصومین (ع) کی طرف بغیر تحقیق کسی بات کو منسوب نہ کرنا۔ مصائب میں فقط معتبر روایات پر اکتفا کرنا۔ یہ خیال کبھی نہ آئے کہ کثرتِ بکا کثرت ذکر مصائب پر موقوف ہے۔ گریہ دل پر اثر سے پیدا ہوتا ہے روایات کی تشکیل سے نہیں اور اثر کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ پہلے اہل بیت طاہرین (ع) کی کرامت و فضیلت بیان کی جائے تا کہ ان کی عظمت اور شخصیت کا احساس پیدا ہو جائے اس کے بعد مصیبت کا ذکر کیا جائے کہ اس طرح ذکر بے ساختہ دل پر اثر کرتا ہے۔

فرزند! خبردار طبابت کا پیشہ اختیار نہ کرنا کہ اس کا خطرہ بہت عظیم ہے اور اس سے نجات بہت مشکل ہے خصوصاً اگر ہاتھ لگا کر علاج کرنا پڑے کہ ہر آن وسوسۂ شیطان کا اندیشہ رہتا ہے (حکیم اور ڈاکٹر صاحبان کو اس نکتہ پر نگاہ رکھنی چاہئے کہ پروردگار دلوں کے حالات سے بھی باخبر ہے۔ کسی خاتون کے علاج میں نبض پر ہاتھ رکھتے وقت اور اسکے جسم کی تفتیش کرتے وقت ذرابھی نیت میں فتور پیدا ہو گیا تو فیس تو بعد میں ملے گی جہنم کا استحقاق پہلے پیدا ہوگا۔ علاج سامانِ تفریح نہیں ہے۔ سبب حیات انسانی ہے۔ جوادی)

فرزند! خبردار علم کے بلند ترین درجہ پر پہونچنے کے بعد بھی ریاست کی فکر نہ کرنا کہ یہ باعث ہلاکت اور سبب فنائے دین ہے۔ میں تمہیں تجربہ کی بات بتاتا ہوں کہ ریاست پانے کے بعد تم حق کی تلخی برقرار رکھو گے تو راحت ختم ہو جائے گی اور لوگ برا بھلا کہیں گے اور اگر لوگوں کی خواہش کے ساتھ چلو گے تو آخرت کا خسارہ ہوگا ۔

فرزند! ریاست سے اسی طرح بھاگو جس طرح شیر سے فرار کیا جاتا ہے اس لئے کہ جو چیز عبادت سے غافل کر دے اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں کوئی رئیس ایسا نہیں دیکھا جو دیانتداری سے کام کرلے اور لوگوں کے طعن و طنز کا نشانہ نہ بنے۔ لوگ اس کے مال و آبرو کو مباح سمجھ لیتے ہیں اور ان کی نظروں میں اسے گالیاں دینا بھی جائز ہو جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ کافر حربی جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔

خبردار! ریاست کے اسباب فراہم نہ کرنا۔ اس کے جال نہ بچھانا۔ اس کے مقدمات فراہم نہ کرنا کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنے کو ہلاکت میں ڈال دو اور دین و دنیا کی راحت سے محروم ہو جاؤ۔ ہاں از خود آجائے تو قبول کر لو لیکن ہر آن اپنے نفس کی نگرانی کرتے رہنا کہ نفس کا خطرہ عظیم ہے اور لغزش کے امکانات کثیر ہیں منفعت کم ہے اور نقصان زیادہ۔ محفوظ رہنے والے قلیل ہوتے ہیں اور پھسل جانے والے زیادہ۔ صاحب ریاست عالم کے لئے چند طرح کے خطرات پائے جاتے ہیں جن کی نشاندہی ضروری ہے۔

پہلا خطرہ قضاوت:

قضاوت ایک سم قاتل اور زہر ہلاہل ہے اس سے ہوشیار رہنا۔ اس میں اکثر پیر پھسل جاتے ہیں اور انسان تباہ ہو جاتا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ اس زمانے میں جبکہ دیانتدار کم اور شیطان کے بندے زیادہ ہو گئے ہیں۔ مرد عاقل ایسے عمل پر کیسے اقدام کرے گا جس کے تین چوتھائی عمل کرنے والے جہنمی ہیں اور صرف ایک چوتھائی جنتی۔ (اس لئے کہ جو دیدہ و دانستہ غلط فیصلہ کرے گا وہ بھی جہنمی ہے اور جو لا علمی میں غلط فیصلہ کرے گا وہ بھی جہنمی ہے اور جو لا علمی میں صحیح فیصلہ کریگا وہ بھی جہنمی ہے کہ ایسا اقدام کیوں کیا جس میں غلطی کا واضح امکان تھا۔ صرف وہ شخص جنتی ہے جو حق کا فیصلہ کرے اور وہ بھی علم و اطلاع کے ساتھ۔ اس طرح تین چوتھائی افراد جہنمی ہوئے ایک چوتھائی جنتی۔ جوادی)

صاحب عقل ایسے معاملہ پر کیسے تیار ہوگا جس میں خسارہ کا امکان زیادہ ہے اور فائدہ کا امکان کم۔ دیندار ایسی جگہ بیٹھنے کی ہمت کیسے کرے گا جہاں نبی و وصی بیٹھتے ہیں یا مردِ شقی۔( ۴۱ )

کسے اپنے نفس کی طرف سے اطمینان کامل ہے اور کون اپنے بارے میں نبوت و وصایت کا احتمال دیتا ہے کہ شقاوت سے محفوظ ہو جائے۔

خبردار! شیطان کے بہکانے میں نہ آنا اور قضاوت کو واجب عینی سمجھ کر اس کے چکر میں نہ پڑجانا کہ لاعلمی میں ہلاک ہو جاؤ۔ ہاں کسی ایسے علاقہ میں پہنچ جاؤ جہاں کوئی دوسرا نہ ہو اور خالی الذہن ہو کر سوچنے پر بھی قضاوت واجب عینی نظرآئے تو حتی الامکان فریقین میں صلح کرانے کی کوشش کرو اور حق کے واضح ہو جانے کے بعد بھی احتیاط سے کام لینا۔

دوسرا خطرہ خیانت:

فقراو مساکین، اولاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، رعایا کے حقوق میں خیانت کبھی بغیر دلیل شرعی کے اپنے اور اپنے اہل و عیال کو دوسروں پر مقدم کرنے میں ظاہر ہوتی ہے اور کبھی مال کے صرف کرنے میں خواہش کے اتباع اور حقدار تک پہونچا نے میں خلوص کی کمی سے نمایاں ہوتی ہے۔

خبردار! حقوق شرعیہ میں مرجع بن جاؤ تو میرے والد مرحوم طاب ثراہ کی ان نصیحتوں کو نگاہ میں رکھنا۔

(۱) حتی الامکان حقوق شرعیہ کو اپنی ذات پر صرف نہ کرنا اور ہدیہ و تحفہ پر گزارا کرنا۔ اس لئے کہ مجھے خطرہ ہے کہ اگر ابتدا میں بقدر ضرورت حق لینے کی عادت پڑگئی تو آگے چل کر ضرورت کا دائرہ وسیع ہو جائے گا اور زینت و جمال پر بھی مال صرف ہوگا اور آخر میں ملکیت و جائداد کی فراہمی بھی ضرورت کے دائرہ میں شامل ہوجائے گی جو ہلاکت کا بہترین ذریعہ ہے اور جس کے بعد انسان عذاب دائمی کا حقدار ہوجاتا ہے۔ حقوق کی حیثیت شبہات کی ہے کہ جو اس کے گرد چکر لگائے گا ایک دن مبتلا ضرور ہوجائے گا۔

ہاں اگر مرجع تقلید و حقوق نہیں ہو تو بقدر ضرورت اپنا حق لے سکتے ہو اور خبردار یہ خیال نہ کرنا کہ اگر حقوق شریعہ کو استعمال نہ کرو گے تو بھوکے مرجاؤ گے اس لئے کہ رزق کا مسئلہ مضمون ہے۔ اس کا ذمہ دار معتبر ہے۔ وہ حقوق سے اجتناب کرتے دیکھے گا تو ہدیہ و تحفہ سے پیٹ بھر دے گا جیسا کہ مسلسل دیکھنے میں آیا ہے اور حقوق شریعہ استعمال نہ کرنے کے عجیب و غریب اثر دیکھے گئے ہیں۔ اس سے قلب میں نور، عمر میں برکت، اطاعت کی توفیق اور لغزشوں سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ رب کریم تمہیں بھی ایسے مشاہدے کرا دے کہ اعتماد اور بھی پختہ ہو جائے کہ بیان مثل عیان نہیں ہوتا۔

(۲) ہمیشہ حقوق کی تقسیم میں قربتِ خدا کا خیال رہے اور اپنے ذاتی اغراض کو محور نہ بنانا کہ اپنے خدام اور مریدوں پر تقسیم کر دو اور جو دور رہے اسے محروم کرو یا قریب والے کا حصہ زیادہ رکھو اور دور والے کا کم۔ صرف اس لئے کہ وہ اظہار خلوص و محبت کرتا ہے اور دوسرا ایسا نہیں کرتا۔ خبردار ہمیشہ وجوہ شریعہ پر نگاہ رکھنا اور شرعی اسباب کی بنا پر ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا، اس لئے کہ ایصال حقوق عبادت ہے اور عبادت میں قصد قربت ضروری ہے۔ اگر نیت صادق نہ ہوگی تو صاحب حق اور فقیر دونوں کی طرف سے ذمہ داری باقی رہ جائے گی اور روزِ قیامت شفاعت کرنے والے ہی فریق بن جائیں گے۔ دنیا میں بھی خسارہ ہوگا کہ مال ہاتھ سے نکل گیا اور آخرت میں بھی خسارہ ہوگا کہ نیت صاف نہ ہونے کی بناء پر ثواب بھی نہیں ملا اور آخر کار ’’نہ خداہی ملا نہ وصال صنم‘‘ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔

تیسرا خطرہ فتوی میں جلد بازی:

خبردار فتویٰ میں جلد بازی سے احتیاط کرنا کہ یہ بدترین مرض ہے اور تمام ابواب فقہ پر نظر کئے بغیر فتویٰ نہ دینا۔ ممکن ہے کہ ایک باب کے مسئلہ کی دلیل دوسرے باب میں پائی جاتی ہو اور تم صرف ایک متعلقہ باب کا مطالعہ کر کے فتویٰ دے دو اور اس طرح مستحق عذاب الیم ہو جاؤ۔

میں نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ بعض علماء نے صرف ایک باب کی روایت کو دیکھ کر یا اطلاقات پر اعتماد کر کے فتوی دے دیا اور بعد میں ان کا فتوی اجماع اصحاب کے خلاف ثابت ہوا اس لئے کہ انھوں نے دوسرے ابواب کے مطالعہ کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔

اگر تم خچر کو کرایہ پر دینے کے بارے میں ابو ولاّد کی روایت کا مطالعہ کرو گے تو تمہیں اندازہ ہو گا کہ فتویٰ کا مسئلہ کس قدر سنگین ہے اور جب چند درہم کے بارے میں غلط فتویٰ آسمان کے پانی اور زمین کی برکتوں کے رک جانے کا سبب بن جاتا ہے تو کثیر اموال، آبرو ااور نفس محترم کے بارے میں غلط فتویٰ کا انجام کیا ہوگا۔

علامہ حلّیؒ کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے مرنے کے بعد خواب میں اپنے فرزند کو خبردی کہ اگر کتاب الفتن اور زیارت امام حسین (ع) نہ ہوتی تو فتووں نے مجھے برباد ہی کردیا تھا حالانکہ وہ واقعی آیت اللہ تھے اور ان کی نگاہ تمام مدارک بروایات، استاد اور رجال پر تھی تو دوسروں کا کیا انجام ہوگا؟

خبردار! مکمل اطلاع سے پہلے فتویٰ نہ دینا اور مکمل اطلاع کے بعد بھی حتی الامکان پرہیز کرنا۔ ہاں عوام کے گمراہ ہوجانے اور جاہلوں کے منظر عام پر آجانے کا خطرہ ہو تو ضرور اقدام کرنا لیکن پوری احتیاط کو پھر بھی نگاہ میں رکھنا۔

چوتھا خطرہ حب جاہ:

مرجعیت کے ساتھ عام طور سے جاہ و جلال کی محبت بھی آجاتی ہے اور یہی چیز اجر کو فنا کر دینے والی اور انسان کو ہلاکت میں ڈال دینے والی ہے۔ خبردار اس خطرہ سے ہوشیار رہنا اور اپنے نفس کی نگرانی کرتے رہنا۔ نفس ہمیشہ برائیوں کا حکم دیتا ہے جب تک رحمت پروردگار شامل حال نہ ہو جائے، خدا تمہیں اور مجھے اصلاح نفس اور خواہشات سے دور رہنے کی توفیق کرامت فرمائے وہی اپنے بندوں پر لطف کرنے والا اور اپنے مقصد کو نافذ کرنے والا ہے۔

پانچواں خطرہ جعلسازی:

خبردار! تمہارا باطن ظاہر کے خلاف نہ ہونے پائے کہ باہر سے زہد و قناعت کا اظہار کرو اور اندر یہ جذبہ نہ ہو کہ دورِ حاضر میں یہ بات عام ہوگئی ہے۔

خبردار ہوشیار رہنا کہ یہ شرک خفی ہے اور غور کرو تو شرکِ جلی بھی ہے کہ گویا بندہ خدا کے علاوہ دوسروں کی عبادت کرنا چاہتا ہے اور ان کے خیال میں ڈوبا ہوا ہے جبکہ باطن بھی چھپنے والا نہیں ہے ایک دن اس کا بھی اظہار ہوگا تو انسان نگاہوں سے گر جائے گا اور عوام کے درمیان رسوا ہو جائے گا۔( ۴۲ )

____________________

[۱] اصول کافی ۱، ص ۳۵

[۲] اصول کافی ۱، ص ۴۹

[۳] اصول کافی ۱، ص ۴۶

[۴] اصول کافی ۱، ص ۴۶

[۵] اصول کافی ۱، ص ۴۶

[۶] اصول کافی ۱، ص ۴۷

[۷] سورۂ نسائ

[۸] اصول کافی ۱، ص ۴۷

[۹] اصول کافی ۱، ص ۵۰

[۱۰] اثناعشریہ، ص ۸۱

[۱۱] بحار ۴، ص ۶۴

[۱۲] اصول کافی ۱، ص ۳۷

[۱۳] اصول کافی ۱، ص ۴۲

[۱۴] صول کافی ۱، ص۴۴

[۱۵] اصول کافی ۱، ص ۴۴

[۱۶] اصول کافی ۱، ص ۴۰

[۱۷] اصول کافی ۱، ص ۴۸

[۱۸] اصول کافی ۱، ص ۳۶

[۱۹] اصول کافی ۱، ص ۳۶

[۲۰] اصول کافی ۱، ص ۳۷

[۲۱] اصول کافی ۱و ص ۴۲

[۲۲] اصول کافی ۱، ص ۴۸

[۲۳] اصول کافی ۱، ص ۴۲

[۲۴] اصول کافی ۱، ص ۴۲

[۲۵] اصول کافی ۱، ص ۴۲

[۲۶] اصول کافی ۱، ص ۴۲

[۲۷] سورہ نمل ۴۳

[۲۸] اصول کافی ۱، ص ۴۳

[۲۹] تفسیر صافی، ص ۵۶

[۳۰] اصول کافی ۱، ص ۳۴

[۳۱] اصول کافی ۱، ص ۴۱

[۳۲] اصول کافی ۱، ص ۴۱

[۳۳] معالم الاصول ۲۰، ۲۱

[۳۴] اصول کافی ۱، ص ۳۱

[۳۵] اصول کافی ۱، ص ۳۳

[۳۶] اصول کافی ۱، ص ۳۲

[۳۷] اصول کافی ۱، ص ۳۲

[۳۸] اصول کافی ۱، ص ۳۲

[۳۹] اصول کافی ۱، ص ۴۱

[۴۰ مستدرک وسائل الشیعہ ۲، ص ۴۱۸

[۴۱] وسائل الشیعہ۳، ص۳۶۹

[۴۲] اصول کافی ۲، ص ۲۹۳

توکل

فرزند! خدا تمہیں دنیا و آخرت کی نیکی عطا کرے۔ اپنے تمام امور میں خدا پر اعتماد کرو۔ تمام امور کی رفتار اسی کے ہاتھ میں ہے اور سب کچھ اسی کے فیصلے سے ہوتا ہے۔ توکل سے انسان رنج و غم سے نجات پا جاتا ہے اور بیجا کوشش نہیں کرتا۔ یاد رکھو کہ کوشش اور مقصد کبھی مل جاتے ہیں اور کبھی الگ ہو جاتے ہیں تو اگر توکل نہ ہوگا تو جب بھی جدا ہو جائیں گے صدمہ ہوگا ورنہ جب بھی حاصل ہو جائے گا خوشی ہوگی اور نہ ملا تو سعی رائگاں کا صدمہ نہ ہوگا۔ قرآن میں ہمیشہ اسباب پر نگاہ رکھنے کو شرک سے تعبیر کیا گیا ہے.( ۱ )

لہٰذا اپنے تمام معاملات میں خدائے لطیف و خبیر مالک قضا و تقدیر پر بھروسہ کرو اور اسباب ظاہری پر اعتماد کرنا چھوڑ دو۔ اسباب کی اہمیت ایک مچھر کے برابر بھی نہیں ہے۔

خبردار! عالم اسباب کے نام پر یہ دھوکہ نہ کھا جانا کہ انسان کی نگاہ اسباب پر ہونی چاہئے یہ وسوسہ شیطانی ہے۔ عالم اسباب کے معنی فقط یہ ہیں کہ اشیاء کا وجود اسباب سے ہوگا نہ کہ بندہ کا اعتماد اسباب پر ہونا چاہئے۔ بندہ کا اعتماد تو خدا ہی پر ہونا چاہئے۔ وہ جب چاہے گا تو اسباب بھی پیدا کر دے گا۔

فرزند! تمہیں طلبِ رزق کے اوامر سے بھی دھوکہ نہ ہو جائے کہ انسان کو ہر وقت روزی کے لئے رواں دواں رہنا چاہئے اس لئے کہ یہ اوامر فقط تنظیم عالم کے لئے ہیں ورنہ عطائے خداوندی تمہاری طلب کی پابند نہیں ہے۔ اللہ پر اعتماد کرو اسباب کا کام مسبب الاسباب کے حوالے کر دو وہ خود اسباب پیدا کر کے روزی فراہم کر دے گا۔ البتہ طالب علم کے علاوہ ہر شخص کو بقدرِ ضرورت محنت کرنی چاہئے کہ تجربہ یہی ہے کہ جن لوگوں نے اسباب کا کام بھی خدا کے حوالے کر دیا ہے اور صرف اپنے فرائض پر عمل کرتے رہے وہ زیادہ بہتر حالت میں رہے ہیں اور جنہوں نے معرفت کے باوجود اسباب پر اعتماد کیا ہے انہیں نقصان ہوا ہے جس طرح کہ جناب یوسف علیہ السلام نے حاکم مصر سے کہا کہ مجھے خزانوں کا امین بنا دے تو خدا نے مدت امتحان ایک سال بڑھا دی ورنہ بندے کے بجائے خدا سے کہا ہوتا تو فوراً نجات مل جاتی یا جب قید خانہ کے ساتھی سے کہا کہ اپنے مالک سے میری بھی شفارش کر دینا تو اللہ نے قید کی مدت میں سات سال کا اضافہ کر دیا کہ میرے غیر سے کیوں کہا ورنہ براہ راست پروردگار سے کہا ہوتا تو فوراً نجات مل جاتی۔ پروردگار نے اس ترک اولیٰ پر تنبیہ کی تم نے بندہ کے ذریعہ بندہ سے کہلوایا جبکہ دونوںمیرے قبضہ میں ہیں۔ مجھ سے کیوں نہیں کہا جبکہ میں مالک الملوک ہوں۔ اسکے بعد جبرئیل امین کو بھیجا گیا اور انہوں نے پوچھا کہ کب تک قید میں رہنے کا ارادہ ہے تو کہا جب تک خدا چاہے تو جب انہوں نے ہمارا حوالہ دیا تو ہم نے دعائے توسل کے ذریعہ انہیں نجات دلوا دی۔( ۲ )

یہی حال جناب یعقوب علیہ السلام کا ہوا کہ انہوں نے عزیز مصر سے شکایت کی تو پروردگار نے اس وقت تک نجات نہیں دلائی جب تک اس سے رجوع نہیں کی کہ اولیاء کے لئے یہ باتیں ترکِ اولیٰ کا مرتبہ رکھتی ہیں۔

میرے فرزند! خبردار، اپنی حاجت کو غیر خدا سے بیان نہ کرنا جو کہنا ہے خدا سے کہنا وہی مالک و مہربان ہے۔ اسی نے ابراہیم علیہ السلام کو صرف اس بات پر خلیل بنا دیا کہ انہوں نے اس کے علاوہ کسی سے نہیں مانگا۔( ۳ )

مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ تمام خیر کا مرکز و مصدر یہ ہے کہ لوگوں کے ہاتھوں سے امید منقطع کر کے خدا سے لو لگائے۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی ہر دعا قبول ہو جائے اسے چاہئے کہ بندوں سے امید قطع کر کے صرف خدا سے امیدیں وابستہ کرے۔ جب خداوند عالم یہ کیفیت دیکھ لے گا تو فوراً مراد پوری کر دیگا۔

اس سلسلے میں امام سجاد علیہ السلام کی صحیفۂ سجادیہ کی تیرہویں دعا کا مطالعہ نہایت درجہ مناسب رہے گا جس میں اسباب کی حقیقت کا اظہار کر کے خدا سے مانگنے کا سلیقہ سکھایا گیا ہے۔

قناعت

فرزند! قناعت اختیار کرو۔ اس میں عزت دنیا و آخرت ہے۔ قناعت کو ترک کرنے والا یا تو اہل دنیا کی نظر میں حقیر ہو جائے گا یا ایسے کام کرے گا جو اسے آخرت میں مبتلائے عذاب کر دیںگے۔

قناعت کے معنی پیسہ ہوتے ہوئے تنگ حالی سے زندگی گزارنا نہیں ہے۔ یہ توسعۂ رزق کے خلاف ہے جس کی اہل و عیال کے بارے میں تاکید کی گئی ہے۔ بلکہ کبھی کبھی یہ کام حقوق نفقہ میں کوتاہی کا مرادف ہو جائے گا۔ قناعت کے معنی ہر ممکن پر راضی رہنا اور آمدنی کے برابر خرچ کرنا ہے کہ اگر صاحبِ دولت ہے تو اہل و عیال کے لباس و غذا میں وسعت پیدا کرے اور اسراف نہ کرے اور اگر غریب و نادار ہو تو مقدارِ ممکن پر قانع رہے اور مقدر پر راضی رہے۔ اپنا راز کسی سے بیان نہ کرے اور اپنے فقر کا اظہار نہ کرے کہ اس طرح لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل ہو جائے گا۔ لوگ بندگانِ دنیا ہیں انہیں غربت کا حال معلوم ہو گای تو کبھی عزت نہیں کریں گے۔

میرا تجربہ یہ ہے کہ غربت کا اظہار غربت میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ اور باعثِ ذلت و توہین ہو جاتا ہے تو خبردار اپنے راز کو افشاء نہ کرنا۔ رزق مقدر ہو چکا ہے وہ بہر حال ملے گا۔ اسے خدائے حکیم نے اپنی حکمت و مصلحت سے تقسیم کیا ہے نہ آبرو دینے سے اضافہ ہوگا نہ عفت و قناعت سے کمی ہوگی۔۔۔ بلکہ کبھی کبھی اظہارِ غربت کا سلسلہ خالق کی شکایت سے مل جاتا ہے تو موجبِ غضبِ جبّار بھی ہو جاتا ہے اور آخرت میں استحقاق عذاب بھی پیدا ہو جاتا ہے۔( ۴ )

حدیث قدسی میں ارشاد ہوتا ہے ’’میری عزت و جلال کی قسم جو شخص میرے غیر سے لَو لگائے گا اس کی امیدیں منقطع کر دوںگا اور اسے ذلت کا لباس پہنا دوں گا۔ اور اپنے فضل و کرم سے دور رکھوں گا.( ۵ )

حیاَ

فرزند!

حیا بہترین صفت اور محبوب ترین عادت ہے۔ اسے دنیا و آخرت دونوں میں ممدوح قرار دیا گیا ہے۔

روایت میں ہے کہ حیا جزوِ ایمان ہے۔ حیا اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ حیا جائے گی تو ایمان بھی چلا جائے گا۔جس میں چار چیزیں پائی جائیں گی وہ سر تا پا گناہ میں بھی ہوگا تو پروردگار اسے بخش دے گا:

۱. صداقت۔

۲. حیا۔

۳. حسنِ اخلاق۔

۴. شکر یا امانت۔( ۶ )

____________________

[۱] مجمع البیان

[۲] مجمع البیان

[۳] تفسیر صافی، ص ۱۲

[۴] وسائل الشیعہ ۲، ص ۵۳۲

[۵] وسائل الشیعہ ۲، ص ۴۴۷

[۶] اصول کافی ۲، ص ۱۰

حُسنِ اخلاق

فرزند! بہترین اخلاق اختیار کرو کہ اس میں دنیا و آخرت دونوں کے فائدے ہیں۔ پروردگار نے حسنِ اخلاق کو اپنے حبیب کی صفت خاص قرار دیا ہے۔ حسنِ اخلاق نصف دین ہے۔( ۱ )

حسنِ اخلاق بہتبرین عطائے پروردگار ہے۔( ۲ )

روز قیامت انسان کی نیکی کے پلّے میں حسنِ اخلاق سے بہتر کوئی شے نہ ہوگی۔( ۳ )

احب حسن اخلاق مثلِ مستقل نمازی اور روزہ دار کے ہے۔ اسکے لئے مجاہد فی سبیل اللہ کا اجر و ثواب ہے۔( ۴ )

حسنِ اخلاق گناہوں کو پگھلا کر رکھ دیتا ہے جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے۔ جنت جانے والوں کی اکثریت متقین اور صاحبان حسنِ خلق کی ہوگی۔( ۵ )

پروردگار کا ارشاد ہے کہ صاحب حسنِ اخلاق کے گوشت کو جہنم کے حوالے کرنے سے مجھے حیا آتی ہے۔( ۶ )

حسنِ اخلاق سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ یہودی کا ساتھ بھی ہو تو حسنِ اخلاق کا مظاہرہ ضروری ہے۔( ۷ )

فرزند! میں نے حسنِ اخلاق کے بہترین آثار دیکھے ہیں اور امام صادق علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا کہ اگر لوگوں کے ساتھ مالی برتاؤ نہ کر سکو تو کم از کم حسنِ اخلاق کا مظاہرہ تو کرو۔( ۸ )

امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ ہر شخص کے ساتھ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرو تاکہ چلے جاؤ تو محبت کرے اور مر جاؤ تو گریہ کرے اور اِنَّا لِلّٰہِ کہے ایسا نہ ہو کہ اَلحَمدُ لِلّٰہِ کہنا پڑے۔( ۹ )

امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ حسنِ اخلاق کی حد کیا ہے؟ تو فرمایا کہ پہلو کو نرم رکھو، کلام کو پاکیزہ رکھو اور خوش خلقی سے ملاقات کرو۔( ۱۰ )

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے کہ مومنین کے ساتھ خوش اخلاقی بشاشت کے ساتھ ملاقات کرنا ہے اور مخالفین کے ساتھ حسن اخلاق مودت کے ساتھ گفتگو کرنا ہے تاکہ ایمان کی طرف کھنچ آئے۔ اور ایمان سے مایوس ہو تو کم سے کم مومنین اس کے شر سے محفوظ رہیں گے۔( ۱۱ )

فرزند! خبردار اہل و عیال کے ساتھ بد اخلاقی کا برتاؤ نہ کرنا کہ بد خلقی موجب جہنم ہے۔ بد اخلاقی سے ایمان یوں ہی برباد ہو جاتا ہے جس طرح سرکہ سے شہد۔

سعد بن معاذ کے مرنے پر ستّر ہزار فرشتوں نے مشائعت جنازہ کی ہے مگر اس کے باوجود فشار قبر میں مبتلا ہوئے ہیں کہ اہل و عیال کے ساتھ برتاؤ اچھا نہ تھا۔( ۱۲ )

حلم و عفو

فرزند! حلم اور عفو سے کام لو کہ اہل حلم و عفو جنت میں بلا حساب داخل ہوں گے۔ ان صفات کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ پروردگار نے انہیں اپنے اوصاف میں شمار کیا ہے۔ حلم کے بارے میں انبیاء و اولیاء کے واقعات بکثرت پائے جاتے ہیں اور بعض روایات میں یہ ہے کہ انسان جب تک حلیم نہ ہو عبادت گذار نہیں ہو سکتا۔( ۱۳ )

اللہ بندۂ بردبار کو دوست رکھتا ہے۔

حلم صفات مومنین میں سے ہے۔( ۱۴ )

جو شخص اقدام کی طاقت رکھتا ہو اور حلم سے کام لے پروردگار روز قیامت اس کے دل کو رضا و امن و ایمان سے بھر دے گا اور قیامت کے بھرے مجمع میں اسے اختیار دے گا کہ جس حور العین کا چاہے انتخاب کر لے اور اسے اجر شہید عطا فرمائے گا۔( ۱۵ )

نگاہِ پروردگار میں بندۂ مومن کا کوئی گھونٹ اس گھونٹ سے زیادہ عزیز نہیں ہے جو غصہ کو پی جانے میں استعمال ہوتا ہے چاہے صبر کے ذریعہ ہو یا حلم کے ذریعہ۔ انسان جس قدر بھی غصہ کو ضبط کرتا ہے پروردگار اسی مقدار میں دنیا و آخرت میں عزت عطا کرتا ہے اور قیامت کے دن جب اولین و آخرین ایک زمین پر جمع ہوں گے تو ایک منادی آواز دےگا ’’صاحبانِ فضیلت کہاں ہیں؟‘‘

اس وقت ایک جماعت برآمد ہوگی اور ملائکہ سوال کریں گے ’’تمہاری فضیلت کیا ہے؟‘‘ وہ جواب دیں گے کہ ہم قطع تعلقات کرنے والوں سے صلۂ رحم کرتے تھے۔ محروم کرنے والوں کو عطا کرتے تھے، ظلم کرنے والوں کو معاف کر دیتے تھے۔ آواز آئے گی ’’سچ کہا تم نے، جاؤ جنت میں بلا حساب داخل ہو جاؤ۔‘‘( ۱۶ )

٭ معافی کامیابی کی زکوٰۃ ہے۔( ۱۷ )

٭ سب سے زیادہ معاف کرنے کا حقدار وہی ہے جو سزا دینے پر سب سے زیادہ قدرت رکھتا ہے۔( ۱۸ )

فرزند! جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کرو تاکہ جس پروردگار کی نافرمانی کر کے تم نے ظلم کیا ہے وہ تمہیں معاف کر دے اور تمہیں بلند ترین درجات حاصل ہوں۔ خبردار غیظ و غضب سے کام نہ لینا کہ یہ غیظ و غضب سے کام نہ لینا کہ یہ ضعف عقیدہ کی علامت ہے۔ روایات میں ہے کہ غضب سے ایمان یوں ہی برباد ہو جاتا ہے جیسے سرکہ سے شہد۔( ۱۹ )

٭ کفر کے چار ارکان ہیں رغبت، خوف، غصہ اور غضب۔ اور غضب ہر برائی کی کنجی ہے۔( ۲۰ )

٭ غضب سے صاحبان حکمت کا دل بھی تباہ ہو جاتاہے۔( ۲۱ )

٭ جو اپنے غضب پر قابو نہ رکھ سکے وہ اپنی عقل پر بھی قابو نہ رکھے گا۔( ۲۲ )

٭ ابلیس کا قول ہے کہ غضب میرا جال اور میرا پھندا ہے۔ میں اس کے ذریعہ بہترین افراد کو جنت کی راہ سے شکار کرتا ہوں۔( ۲۳ )

علماء نے غضب پر قابو پانے کے لئے چند نسخے تجویز کئے ہیں۔

۱.اَعُوذُ بِاللّٰ ه ِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ کہنا۔

۲. خدا کو یاد کرنا کہ توریت میں ارشادِ احدیت ہے، ’’فرزند آدم جب تجھے غصّہ آئے تو مجھے یاد کرنا تاکہ میں اپنے غضب میں تجھے یاد رکھوں اور تجھے تباہ نہ کر دوں اور جب تجھ پر کوئی زیادتی ہو تو میرے انتقام کا انتظار کرنا کہ میرا انتقام تیرے انتقام سے بہر حال بہتر ہے۔( ۲۴ )

۳. اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور لیٹا ہو تو کھڑا ہو جائے۔( ۲۵ )

۴. جگہ بدل دے کہ شیطان نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو کرتے ہوئے یہ نصیحت کی کہ جب تمہیں غصہ آئے تو اپنی جگہ بدل دینا ورنہ میں مصیبت میں مبتلا کردوں گا۔

۵. وضو کرلے اور ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ دھو ڈالے۔( ۲۶ )

۶. اگر قرابتدار پر غصّہ ہے تو اس کے جسم سے اپنے جسم کو مس کر دے کہ اس طرح غصّہ فرو ہو جاتا ہے۔ (اصول کافی ۲ ، ص ۳۰۲)

۷. پانی پی لے۔ (محاسن برقی، ص ۵۷۲)

۸. کشمِش کھالے کہ اس سے غصّہ دب جاتا ہے۔ (مستدرک ۳ ، ص ۱۱۵)

۹. یہ دعا پڑھ لے:

اَللّٰهُمَّ اَذْهِبْ عَنِّىْ غَيْظَ قَلْبِىْ وَ اَجِرْنِىْ مِنْ مُضِلاَّتِ الْفِتَنِ اَسْئَلُكَ جَنَّتَكَ وَ اَعَعُوْذُ بِكَ مِنَ الشِّرْكِ اَللّٰهُمَّ ثَبِّتْنِىْ عَلَى الْهُدٰى وَ الصَّوَابِ وَاجْعَلْنِىْ رَاضِيًا مَرْضِيًّا غَيْرَ ضَآلٍّ وَ لاَ مُضِلٍّ .( ۲۷ )

روایات میں وارد ہوا ہے کہ جو شخص اپنے غصّہ کو روک لے گا، پروردگار روز قیامت اسے معاف کرے گا اور اس کے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گا اور اسے جنت عطا فرمائے گا۔( ۲۸ )

____________________

[۱] وسائل الشیعہ ۳، ص ۳۳۱

[۲] وسائل الشیعہ

[۳] اصول کافی ۲، ص ۹۹

[۴] اصول کافی ۲، ص ۱۰۱

[۵] اصول کافی ۲، ص ۱۰

[۶] وسائل الشیعہ ۲، ص ۲۲۱

[۷] مستدرک

[۸] اصول کافی ۲، ص ۱۰۳

[۹] وسائل ۲، ص ۲۷۷

[۱۰] اصول کافی ۲، ص ۱۰۳

[۱۱] وسائل ۲، ص ۵۱

[۱۲] مستدرک وسائل ۲، ص ۳۳۴

[۱۳] مستدرک ۲، ص ۳۰۴

[۱۴] مشکوٰۃ الانوار، ص ۱۹۵

[۱۵] مستدرک ۲، ص ۸۸

[۱۶] مستدرک ۲، ص ۸۷

[۱۷] نہج البلاغہ

[۱۸] وسائل الشیعہ ۲، ص ۲۲۳

[۱۹] اصول کافی ۲، ص ۳۰۲

[۲۰] اصول کافی ۲، ص ۳۰۳

[۲۱] اصول کافی ۲، ص ۳۰۵

[۲۲] اصول کافی ۲، ص ۳۰۵

[۲۳] مستدرک ۲، ص۳۲۶

[۲۴] وسائل الشیعہ ۲، ص ۴۷۰

[۲۵] وسائل الشیعہ

[۲۶] جامع السعادات ۱، ص ۲۹۶

[۲۷] مستدرک۲، ص ۳۲

[۲۸] وسائل الشیعہ ۲، ص ۴۷۰

انصاف و مروّت

فرزند! ان دونوں صفتوں کو اپنائے رہنا اور کبھی ترک نہ کرنا۔ یہ نجات دہندہ صفتیں ہیں اور ان کا ترک کر دینا باعثِ ہلاکت ہے۔

٭ روایات میں ہے کہ جس کے پاس مروت نہیں ہے اس کے پاس دین نہیں ہے۔( ۱ )

٭ سخت ترین فریضۂ پروردگار اپنے نفس سے انصاف کرنا ہے۔( ۲ )

انصاف کے معنی یہ ہیں کہ دوسروں کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور دوسروں کے لئے وہی ناپسند کرے جو اپنے لئے ناپسند کرتا ہے۔

وفا و عہد

فرزند! خدا تمہارے بارے میں عہد محبت کو پورا کرے۔ جب بھی کسی شے کا وعدہ کرو تو اسے وفا ضرور کرو۔ کتاب و سنت میں اس کی بے حد تاکید وارد ہوئی ہے۔ ارشاد احدیت ہوتا ہے ’’عہد کو پورا کرو کہ اس کے بارے میں روز قیامت سوال ہوگا۔( ۳ )

٭ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جس سخص کا بھی خدا اور آخرت پر ایمان ہے اس کا فرض ہے کہ وعدہ کو وفا کرے۔( ۴ )

٭ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ مومن کا مومن سے وعدہ ایک ایسی نذر ہے جس کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔ لہٰذا جو شخص بھی وعدہ کی خلاف ورزی کرے گا وہ حکم خدا کی مخالفت کرے گا اور اس کی ناراضگی کا حقدار ہوگا۔( ۵ )

٭ وفاء عہد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پروردگار عالم نے اسے جناب اسماعیل علیہ السلام کے اوصاف و کمالات میں شمار کیا ہے اور مومنین کو وعدہ کی خلاف ورزی پر سخت تنبیہ کی ہے کہ خبردار جو کرنا نہ ہو اسے کہنا بھی نہیں۔ پروردگار کو یہ بات سخت ناپسند ہے۔

٭ جناب اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں روایت ہے کہ ایک شخص سے انتظار کرنے کا وعدہ کر لیا تھا اور وہ جاکر بھول گیا تو آپ ایک سال تک اسی مقام پر کھڑے رہے۔ یہاں تک کہ شدت تمازتِ آفتاب میں بھی جگہ نہیں چھوڑی کہ کہیں وعدہ کی خلاف ورزی نہ ہو جائے۔ درختوں کے پتے چباتے رہے لیکن وعدہ پر قائم رہے۔( ۶ )

فرزند! ایفائے وعدہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا طریقہ اختیار کرو اور اگر ایسانہ کر سکو تو اس کے قریب تر رہنے کی کوشش کرو۔

خبردار جس وعدہ کے وفا کرنے کی طاقت نہ ہو اس کا وعدہ نہ کرنا۔ خلف وعدہ سے انسان بدنام ہو جاتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

’’نعم‘‘ سے پہلے ہی ’’لا‘‘ کہہ دے یہ ہے طرزِ حسن

کہ ’’لا‘‘ ہو بعد ’’نعم‘‘ یہ ہے غیر مستحسن

)جوادی(

سخاوت

فرزند! سخاوت اختیار کرو کہ اس کا انجام دنیا اور آخرت دونوں میں بہتر ہے۔ سخی ہر مقام پر با عزت ہوتا ہے۔ بخیل دنیا و آخرت دونوں میں ذلیل رہتا ہے۔

٭ سخاوت کی فضیلت کے لئے یہ کافی ہے کہ حاتم طائی جہنم میں رہ کر بھی آگ کی شدت سے محفوظ ہے جیسا کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حاتم کے فرزند عدی سے فرمایا تھا۔

٭ فرزند! بخل دنیا و آخرت کی روسیاہی ہے لیکن خبردار اتنی سخاوت کا شوق نہ کرنا کہ خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ جاؤ۔ (اسراء ۲۹)

٭ میانہ روی سے کام لو اور بخل و اسراف کے درمیان سے زندگی کا راستہ نکالو۔

____________________

[۱] ومستمسک ۵، ص ۲۱۴

[۲] اصول کافی ۲، ص ۱۴۵

[۳] سورۂ اسراء ۳

[۴] اصول کافی ۲، ص ۳۶۴

[۵] اصول کافی ۲، ص ۳۶۳

[۶] اصول کافی ۲، ص ۱۰۵

فصل سوم

دیگر مختلف و صیتیں

فرزند! اللہ تمہیں ہر خیر کی توفیق دے اور ہر شر سے محفوظ رکھے۔ حب دنیا کو دل سے نکال دو۔ یہ ایک زہر قاتل اور مرض مہلک ہے۔ اس کا انجام رحمت خدا سے دوری اور آتش جہنم ہے۔

محبت دنیا کے دل سے نکال لنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دنیا کے بارے میں غور کر، کہ یہ کوئی عمدہ شے ہوتی تو رب کریم اپنے اولیاء و انبیاء کو اس سے محروم کیوں کرتا، جبکہ ان کی عقلیں سب سے زیادہ کامل تر تھیں اور وہ اس سے اس طرح الگ نہ رہتے جس طرح ہم لوگ شیر سے دور بھاگتے ہیں۔ (اصول کافی ۲ ، ۳۱۵)

٭ پروردگار نے مختلف آیات میں محبت دنیا کی مذمت کی ہے اور احادیث میں اس کی شدید تاکید وارد ہوئی ہے۔

امام سجاد علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ بہترین عمل بغض دنیا ہے کہ دنیا کی محبت میں گناہ کے بے شمار رخ نکلتے ہیں۔ ایک رخ تکبر ہے جس میں ابلیس مبتلا ہوا۔ ایک حرص ہے جس کی وجہ سے حوّا نے آدم علیہ السلام کو گندم کھانے کی دعوت دی۔ ایک حسد ہے جس کی وجہ سے قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد حب نساء، حب دنیا، حب ریاست، حب راحت، حب کلام، حب ثروت و بلندی وغیرہ ہے کہ جس میں حب دنیا تمام برایؤں کی اصل ہے۔ (اصول کافی ۲ ، ص ۳۱۵)

روایات متواترہ میں حب دنیا کی مذمت وارد ہوئی ہے اور بعض روایات میں حب دنیا کو آخرت کی فراموشی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور اس کی طلب کو آخرت کا نقصان بتایا گیا ہے۔

٭ دنیا و آخرت دو سَو٘ت ہیں جو ایک گھر میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ (مستدرک ۲ ، ص ۳۳۰)

٭ دنیا و آخرت مشرق و مغرب ہیں جو ایک سے قریب ہوگا وہ دوسرے سے دور ہو جائے گا۔ (مستدرک ۲ ، ۳۳۱)

٭ دنیا و آخرت مثل آگ اور پانی کے ہیں جن کا اجتماع ناممکن ہے۔ اور سچ پوچھئے تو محبت دنیا ایک طرح کا شرک ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کو آخرت پر اعتماد اور کتاب و سنت کے بیانات پر اطمینان نہیں ہے۔ ورنہ آخرت کے ہوتے ہوئے دنیا سے دل لگانے کا کیا مطلب ہے۔

فرزند! دنیا میں زہد اختیار کرو حرام کو چھوڑو کہ عذاب کا خطرہ ہے۔ شبہات سے پرہیز کرو کہ عتاب کا اندیشہ ہے۔ حلال میں بھی حساب ہے لہٰذا اس سے بھی ہوشیار رہو۔ انھیں خواہشات پر عمل کرو جنھیں شریعت نے سہارا دیا ہے جیسے نکاح۔ اس کے بعد کم سے کم پر قناعت کرو۔ لباس و غذا معمولی رکھو۔ آخرت پر توجہ دو تاکہ لذت آخرت سے آشنا ہو سکو۔

یاد رکھو کہ زہد کے معنی کھانے پینے کے ترک کر دینے کے نہیں ہیں اس کے معنی مقدر پر راضی رہنے کے ہیں اور وسعت میں بھی میانہ روی اختیار کرنے کے ہیں۔

٭ امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ زہد مال کی بربادی اور حلال کی حرام سازی نہیں ہے۔ زہد کے معنی صرف یہ ہیں کہ اپنے ہاتھ کے مال پر وعدہ خدا سے زیادہ اعتماد نہ ہو۔ (مستدرک ۲ ، ص ۳۳۱)

٭ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ دنیا میں زہد کے معنی امیدوں میں کمی نعمتوں پر شکر اور حرام سے پر ہیز ہے۔ (مستدرک ۲ ، ص ۳۳۳)

فرزند! رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آل رسول علیہم السلام سے توسل اختیار کرو کہ میں نے تمام روایات کے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ پروردگار نے جس نبی(ص) کے ترک اولیٰ پر توبہ قبول کی ہے اسے انھیں کے وسیلہ سے قبول کیا ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد انوار معصومین (ع) کو عرش سے ان کے صلب میں منتقل کردیا اور ملائکہ کا سجدہ درحقیقت اسی نور کے طفیل میں تھا اور اصل سجدہ پروردگار کا تھا کہ اس کے حکم پر سجدہ ہو رہا تھا یہ اللہ کی بندگی محمد و آلِ محمد علیہم السلام کی تعظیم اور حضرت آدم علیہ السلام کی اطاعت کا ایک مظاہرہ تھا۔

جب آدم علیہ السلام نے سوال کیا پروردگار یہ انوار کس کے ہیں تو ارشاد ہوا کہ یہ بہترین مخلوقات ہیں۔ بزرگ ترین بندے ہیں۔ انھیں کے ذریعہ میں عطا کرتا ہوں اور انھیں کے ذریعہ ثواب و عتاب کا کام ہوتا ہے۔ آدم (ع) انھیں وسیلہ بناؤ تاکہ تمہاری مشکل حل ہو جائے۔ میں نے یہ طے کر لیا ہے کہ ان کے ذریعہ مانگنے والے کو مایوس نہ کروں گا اور سائل کو ردنہ کروں گا۔

اس کے بعد جناب یعقوب علیہ السلام جناب یوسف علیہ السلام سب نے انھیں کو وسیلہ بنایا ہے تو ان کی دعائیں قبول ہوئی ہیں۔ (تفسیر صافی، ص ۲۴۲)

فرزند! عزائے سید الشہداء کا خیال رکھنا اور روزانہ بقدر امکان عزا قائم کرنا اور اگر مصارف نہ ہوں تو گھروالوں کو جمع کر کے مصائب سنا دینا اس لئے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام پروردگار کو بہت عزیز ہیں۔ انھوں نے شہادت کا عظیم درجہ حاصل کیا ہے اور راہ خدا میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہے۔ ان سے توسل میں خیر دارین اور فلاحِ دنیا و آخرت ہے۔

فرزند! زیارت امام حسین علیہ السلام کا بھی خیال رکھنا اور روزانہ کم از کم ایک مرتبہ زیارت ضرور پڑھنا اور ممکن ہو تو ہر مہینہ کربلا جانا اور یہ بھی نہ ہو سکے تو سال میں سات مواقع پر کربلا میں ضرور حاضری دینا۔

(۱) شب عاشور اور روزِ عاشور(۲) اربعین(۳) اوّل رجب(۴) ۱۵! رجب(۵) ۱۵! شعبان(۶) شب عید الفطر(۷) روز عرفہ۔ (جوادی)

اور یہ بھی ممکن نہ ہوا تو کم از کم سال میں ایک مرتبہ حاضری دینا۔ (وسائل الشیعہ ۲ ، ص ۳۹۳)

اس لئے کہ اس کے بے شمار اثرات ہیں اور میں نے زیارت و عزاداری کے ایسے اثرات دیکھے ہیں جو عقل سے بالاتر ہیں اور کم از کم مشاہدہ یہ ہے کہ جب بھی زیارت حسین علیہ السلام کی ہے ایک نہ ایک مشکل ضرور حل ہوئی ہے اور رزق میں اضافہ ہوا ہے اس کے بعد ثواب تو سب سے بالاتر ہے۔ (وسائل الشیعہ ۲ ، ص ۳۹۰)

فرزند! خدا تمہیں ہر عمل خیر کی توفیق دے اور عمر طبیعی تک زندہ رکھے دیکھو بزرگوں کا احترام کرنا۔ پروردگار ان کے ذریعہ بلاؤں کو رد کرتا ہے۔ (حدیث قدسی) خبردار انھیں ناراض نہ کرنا کہ اس کے برے اثرات ہیں۔

جس قدر ممکن ہو ماں باپ کا احترام اور ان کے ساتھ نیکی کرنا کہ قرآن و حدیث میں اس کی شدید تاکید وارد ہوئی ہے۔ خبردار ان کے معاملہ میں سستی نہ برتنا کہ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جب جناب یعقوب علیہ السلام جناب یوسف علیہ السلام کے پاس آئے تو انھوں نے سواری سے اتر کر باپ کا استقبال نہیں کیا تو اس ترکِ اولیٰ کا نتیجہ یہ ہوا کہ جناب جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور یوسف علیہ السلام کی ہتھیلی سے ایک نور نکال لیا۔ یوسف علیہ السلام نے سوال کیا، جبرئیل یہ کیا؟ فرمایا کہ اب نبوت آپ کی اولاد میں نہیں رہے گی اس لئے کہ آپ نے باپ کا مکمل استقبال نہیں کیا ہے اور پروردگار نے اس کے زیرِاثر آپ کی نسل سے سلسلۂ نبوت ختم کردیا ہے۔ (مجمع البیان ۵ ، ص ۲۶۴)

ظاہر ہے کہ یہ روایتیں اخلاقیات کی اہمیت کے اظہار کے لئے ہیں ورنہ نبوت کا فیصلہ روز اوّل ہو چکا ہے اس کا انحصار تعظیم اور عدم تعظیم پر نہیں ہے۔ (جوادی)

احترامِ علماء

فرزند! علماء عاملین کا احترام کرنا۔ یہ دین کے منارے، شریعت کے امانتدار اور امام عصر(ع) کے نائب ہیں۔ البتہ بے عمل علماء سے دور بھاگنا جس طرح شیر سے فرار کرتے ہیں کہ یہ بحکم امام (ع) عالم نہیں ہیں اور ان کا ضرردین کے بارے میں لشکر یزید بن معاویہ سے زیادہ ہے۔ (تفسیر برہان ۱ ، ص ۱۱۸)

احترام ذریت پیغمبر اسلام(ص)

فرزند! اولادِ رسول(ص) کا احترام کرنا کہ یہ ذریت علی (ع) و فاطمہ (ع) ہیں اور ان کی محبت مطلوب پروردگار ہے۔ جہاں تک ممکن ہو ان کا احترام کرنا کہ رضائے پروردگار اور خیر دنیا و آخرت ہے۔ (مستدرک، ص ۴۰۰)

اور دیکھو خبردار! اپنے احترام کو صرف نیک کردار سادات تک محدود نہ رکھنا کہ ان کا حکم علماء کا نہیں ہے کہ بے عمل قابل احترام نہ ہوں ان کا حکم اولاد کا ہے اور اولاد بہر حال اولاد ہوتی ہے۔ ہاں اگر ترک احترام سے ہدایت کا امکان ہو تو احترام نہ کرو تاکہ ہدایت کے راستے پر آجائیں اور یہ نہی عن المنکر کا ایک طریقہ ہے۔ اگرچہ اس میں بھی احتیاط یہی ہے کہ ظاہراً احترام کرتے رہو اور تنہائی میں نصیحت کر دو جیسا کہ احمد بن اسحاق اشعری کے واقعہ میں ہے کہ حسین بن حسن فاطمی ان سے ملنے کے لئے آئے تو انھوں نے شرابی ہونے کی وجہ سے ملنے سے انکار کر دیا اور جب حج میں جاتے ہوئے سامرہ میں امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے بھی ملاقات سے انکار کر دیا۔ جب اصرار شدید کے بعد اجازت ملی تو ابن اسحاق نے عرض کی فرزند رسول(ص) آپ ناراض کیوں ہیں؟ فرمایا تم نے حسین بن حسن کو کیوں روکا تھا۔ عرض کی میرا مقصد شراب سے پرہیز کرانا تھا۔ فرمایا صحیح ہے۔ نہی عن المنکر فریضہ ہے لیکن احترام میں فرق نہیں آنا چاہئے۔ ابن اسحاق نے یہ بات محفوظ کرلی اور واپسی پر حسین کا بے حد احترام کیا۔ انھوں نے گھبرا کر سبب پوچھا۔ احمد نے سبب بیان کیا۔ حسین پر اس بیان کا اس قدر اثر ہوا کہ توبہ کر کے شراب کے سارے ظروف توڑ کر پھینک دیئے اور مسجد میں اعتکاف کر کے انتقال کر گئے۔ (مستدرک مسائل ۲ ، ص ۴۰۰)

یہ بھی یادر کھو کہ یہ تاکید غیر فاطمی سادات کے لئے نہیں ہے۔ اگر چہ ہاشمی ہونے کے اعتبار سے اشرف اور محترم ہیں لیکن ان کا شمار ذریت و قربیٰ رسول میں نہیں ہے اور داخل النسب افراد کا احترام تو بالکل نہیں ہونا چاہئے اور ان کے احترام سے پر ہیز ہی اولیٰ اور النسب ہے۔ مشتبہ حالات میں احتیاط سے کام لینا چاہئے البتہ جو لوگ ماں کی طرف سے سید ہیں ان کا احترام ہونا چاہئے اس لئے کہ بیٹی کی اولاد بھی اولاد ہی ہوتی ہے اور امام حسن اور امام حسین علیہم السلام اسی رشتے سے ابناء پیغمبر(ص) ہیں۔ صرف اس رشتہ کے لوگوں کو خمس کا استحقاق نہیں ہوتا کہ روایت مرسلہ جماد بن عیسیٰ میں خمس کے لئے باپ کی طرف سے سیّد ہونے کی شرط ہے ورنہ احترام میں دونوں برابر ہیں اور دونوں کا احترام ہونا چاہئے۔

صلۂ رحم

فرزند! قرابت داروں سے تعلقات قائم رکھو کہ اس سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور رزق میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ یہ رضا بے شمار نفع دنیا و آخرت کا ذریعہ ہے۔ وہ قطع تعلق بھی کریں تو تم رابطہ قائم رکھو جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ قطع تعلق کرنے والے قرابتداروں سے صلہ رحم کرنا زیادہ فضیلت اور ثواب رکھتا ہے اور نفس کی اطاعت سے زیادہ محفوظ رکھتا ہے۔

خبردار! قطع رحم نہ کرنا کہ قرابت اللہ کی راہ میں فریادی رہتی ہے کہ پروردگار جو مجھ سے تعلق رکھے تو اس سے تعلق رکھنا اور جو مجھ سے قطع تعلق کر لے تو اس سے قطع تعلق کر لینا۔

میں نے صلۂ رحم کے بے شمار اثرات دیکھے ہیں اور قطع تعلق رکھنے والے کے ساتھ تعلقات کا عجیب و غریب اثر مشاہدہ کیا ہے لہٰذا تم اس باب میں سستی اور کمزوری سے کام نہ لینا اور برابر تعلقات کو استوار رکھنا۔

مفلوک الحال شیعوں کا خیال رکھنا بالخصوص ہمسایہ اور قرابت دار کہ ان کے خیال میں عزت دنیا و آخرت ہے اور مرضیٔ پروردگار بھی ہے۔ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جناب یعقوب علیہ السلام پر فراق یوسف کی افتاد اس لئے پڑی تھی کہ انھوں نے ایک دنبہ ذبح کیا اور ہمسایہ کے حالات دریافت کئے بغیر استعمال کر لیا حالانکہ ہمسایہ میں ایک شخص فاقہ شکنی کے لئے آذوقہ کا محتاج تھا۔ (تفسیر صافی، ص ۲۶۹)

(یہ بھی ترک اولیٰ کی ایک قسم ہے جس پر انبیاء کرام(ع) کا امتحان سخت ہو جاتا ہے لہٰذا تم بھی نعمات دنیا سے استفادہ کرنے سے پہلے دوسروں کا لحاظ کرو ورنہ کسی وقت بھی تمہارا امتحان ہو سکتا ہے۔ جوادی)

فرزند! اپنے جملہ امور میں میانہ روی سے کام لینا۔ اس کا انجام بہتر اور عاقبت قابل تعریف ہے۔ مالک کائنات نے اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اقتصاد و میانہ روی کا حکم دیا ہے اور جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا گیا کہ راہِ خدا میں کیا خرچ کیا جائے تو قرآن نے یہی جواب دیا کہ ’’اپنی ضرورت سے زیادہ۔‘‘

فرزند! ہمیشہ اپنے سے پست افراد کے حالات پر نگاہ رکھنا اور شکر خدا کرتے رہنا کہ ان سے بہتر ہو۔ اپنے سے اچھے حالات والوں پر نگاہ نہ کرنا کہ نفس کو اذیت ہو اور راحت دنیا اور اجر آخرت دونوں کا خاتمہ ہو جائے۔

فرزند! جہاں تک ممکن ہو لوگوں سے زیادہ میل جول نہ رکھنا کہ اس طرح انسان حق سے غافل اور موت سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ عبادت کا وقت کم ہو جاتا ہے اور تحصیل علم دین، ذکر، فکر کے مواقع ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ لوگوں کے حالات کی طمع پیدا ہو جاتی ہے اور غیبت، بہتان وغیرہ سننے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی مہمل قسم کے لوگوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے اور اس طرح فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے اور قیامت کے دن ندامت کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے خبردار وقت گزار نے سے پہلے ہوشیار ہوجاؤ۔

فرزند! خبردار خواہشات نفس کی مخالفت کرو۔ نفس کی متابعت ہلاکت اور زہر قاتل ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ سب سے زیادہ خطرہ خواہشات کے اتباع اور امیدوں کے طول طویل ہونے سے ہے کہ خواہشات کا اتباع حق سے روک دیتا ہے اور امیدوں کا طول آخرت کو بھلا دیتا ہے۔ (روضہ کافی، ص ۵۸) دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: ’’اپنے خواہشات سے اس طرح بچو جس طرح دشمن سے بچتے ہو۔ خواہشات سے بدتر دنیا کا کوئی دشمن نہیں ہے۔ ہر تبائی خواہشات اور بدزبانی سے پیدا ہوتی ہے۔ (اصول کافی ۲ ، ص ۲۳۵) فرزند! صبح کے وقت شام اور شام کے وقت صبح کی فکر نہ کرو ورنہ امیدیں غافل بنادیں گی۔ ہر وقت یہ سوچو کہ دوسرے وقت نہیں رہنا ہے اور اپنی حیثیت اس جنازہ کی ہے جو غسال کے سامنے رکھا ہوا ہے۔


3

4

5

6