مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مھدی منتظر اور اسلامی فکر0%

مھدی منتظر اور اسلامی فکر مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مؤلف: سید محمد نقوی
زمرہ جات:

مشاہدے: 8456
ڈاؤنلوڈ: 1892

تبصرے:

مھدی منتظر اور اسلامی فکر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 14 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8456 / ڈاؤنلوڈ: 1892
سائز سائز سائز
مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مصنف: سید محمد نقوی

امام مہدی علیہ السلام کے نسب کے بارے میں احادیث

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے سلسلہ نسب کے بارے میں جو احادیث واردہوئی ہیں وہ سب کی سب ایک ہی نسب کوبیان کرتی ہیں ۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کنانی ،قریشی اورہاشمی ہیں

مقدسی شافعی نے ’عقدالدرر میں حاکم نے "مستدرک "میں ایک حدیث نقل کی ہے جوحضرت امام مہدی علیہ السلام کے نسب کوکنانہ تک پھرقریش تک اور بنی ہاشم تک پہنچاتی ہے یہ قتادہ کی روایت ہے جسے اس نے سعید بن مسیب سے روایت کیاہے قتادہ کہتا ہے میں نے سعید بن مسیب سے کہا کیا (وجود)حضرت امام مہدی علیہ السلام حق ہے ؟۔

اس نے جواب دیاحق ہے ۔

میں نے کہا:وہ کس کی اولادسے ہوں گے ؟

اس نے جواب دیاکہ !کنانہ کی اولادسے۔

میں نے کہا:اس کے بعدکس سے؟۔

کہتا ہے :قریش سے

میں نے کہا:پھرکس سے ؟۔

کہتا ہے !بنی ہاشم سے شافعی لکھتے ہی اسے امام ابوعمر عثمان بن سعید مقری نے اپنی سنن میں ذکرہے اوراس کوذکرکے تھوڑے سے اختلاف سے قتادہ سے اورانہوں نے سعیدبن مسیب سے نقل کیاہے ۔

اس کے بعدتحریرکرتے ہیں کہ خوداسے امام ابوالحسین احمدبن جعفرمناوی اورامام عبداللہ نعیم بن حمادنے بھی ذکرکیاہے(عقدالددر۴۲۔۴۴ باب اول ،مستدرک حاکم ۴:۵۵۳مجمع الزوید ۷:۱۱۵)

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خود حدیث میں تضادہے کیونکہ ایک مرتبہ ا س حدیث میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کا سلسلہ نسب کنانہ بتایاگیا ہے ،دوسری مرتبہ قریش اورتیسری مرتبہ بنی ہاشم۔

ہاشمی قریشی ہیں اورہرقریشی کنانہ کی اولادسے ہے کیونکہ علماء انساب کا اتفاق ہے کہ قریش کنانہ کے بیٹے نضرکا لقب ہے

حدیث کی روشنی میں حضرت امام مہدی (عج)کا حضرت عبدالمطلب کی اولادسے ہونا

اس حدیث کو ابن ماجہ وغیرہ نے انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہتے ہیں پیغمبر اسلام نے فرمایا:۔

نحن ولد عبدالمطلب سادةااهل الجنة :انا وحمزه وعلی وجعفر ،والحسن،والحسین ،والمهدی

ہم اولادعبدالمطلب اہل بہشت کے سردارہیں "حمزہ ،علی جعفر،حسن ،حسین اورمہدی"(سنن ابن ماجہ۲:۱۳۶۸،باب خروج المہدی ،مستدرک حاکم ۳:۲۱۱، شیخ طوسی کی کتاب الغیبة :۱۱۳،سیوطی کی جمع الجوامع۱:۸۵۱)

اور عقد الدرر میں اسے ا ن الفاظ کے ساتھ ذکرکیاہے۔

"نحن سبعة بنو ابو مطلب سادات اهل الجنة :انا واخی علی وعمی حمزه وجعفر ،والحسن،،والحسین ،والمهدی

عبدالمطلب کے ہم سات بیٹے اہل بہشت کیاسردارہیں "میں ۔میرا بھائی علی ۔میراچچا حمزہ ۔جعفر ۔حسن ۔حسین اورمہدی اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ محدثین کی جماعت نے اسے اپنی اپنی کتابو ں میں ذکرکیا ہے "۔

ان میں سے چندہیں امام ابوعبداللہ محمدبن یزیدبن ماجہ قزوینی نے اپنی سنن میں ابو القاسم طبرانی نے اپنی معجم میں حفاظ ابونعیم اصفہانی وغیرہ ۔

یہ حدیث پہلی حدیث کے ساتھ تضادنہیں رکھتی (عقدالدرر:۱۹۵باب ہفتم۔)کیونکہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت ابومطلب حضرت محمدکے داداہیں وہ ہاشم کے بیٹے ہیں پس عبدالمطلب کے بیٹے حتمی طورپرہاشمی ہیں لہذاحضرت امام مہدی علیہ السلام عبدالمطلب بن ہاشم قریشی کنانی کی اولا دمیں سے ہیں۔

حدیث کی روشنی میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کاحضرت ابو طالب کی اولادسے ہونا

اس حدیث کوشیخ مفیدنے ارشادمیں اورمقدسی شافعی نے عقدالدررمیں نقل کیا ہے اورلکھاہے کہ نعیم بن حمادنے کتاب الفتن میں اسے ذکرکیاہے۔

اوریہ حدیث سیف بن عمیرہ سے مروی ہے کہتے ہیں میں ابوجعفرکے پاس بیٹھاتھاکہ اس نے مجھے سے کہاکہ اے سیف بن عمیرہ آسمان سے ایک منادی اولادابو طالب میں سے ایک مردکا نام لیکرندادے گا۔

میں نے کہا آپ پرفداہوجاوں اے امیرالمومنین آپ یہ کیسی روایت سنارہے ہیں۔انہوں نے کہا ہاں اس ذات کی قسم جس کے قبضے قدرت میں میری جاں ہے اس لیے کہ میرے کانوں نے اسے سناہے۔

میں نے کہااے امیرالمومنین میں نے یہ حدیث اس سے پہلے نہیں سنی تھی۔

انہوں نے کہااے سیف بن عمیرہ یہ حق ہے اورجب یہ ہوگاہو سب سے پہلے میں اس پرلبیک کہوں گابیشک یہ ندا ہمارے چچا کی اولاد میں سے ایک مردکے لیے ہوگی میں نے کہاوہ اولادفاطمہ سلام اللہ علیھا سے ہوگا۔

انہوں نے جواب دیا!ہاں اے سیف اگراس میں نے اسے ابوجعفرمحمدبن علی سے نہ سنا ہوتاتوسارے اہل علم زمین مجھے یہ حدیث سناتے توبھی قبول نہ کرتالیکن کیا کروں یہ محمدبن علی نے مجھے سنائی ہے (ارشادشیخ مفید۲:۳۷۰۔۳۷۱،عقدالدرر:۱۴۹باب چہارم)

یہ حدیث بھی پہلی حدیث کے ساتھ تضادنہیں رکھتی کیونکہ جوابوطالب کی اولادمیں سے ہے وہ حتما آپ کے والدعبدالمطلب کی اولادمیں سے ہے

اوراس حدیث میں بیان ہواہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اولادفاطمہ سلام اللہ علیھاسے ہوں گے لیکن اس سے ہم بعدمیں بحث کریں گے۔

لہذااب تک کی بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ آخری زمانے میں جس امام مہدی علیہ السلام کے ظہورکی بشارت دی گئی اورابوطالب بن عبدالمطلب ہاشم قریشی کنانی کی اولادمیں سے ہوں گے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اولادعباس سے ہونے والی احادیث

اس میں شک نہیں کہ ایسی احادیث حضرت امام مہدی علیہ السلام کے نسب کوابہام میں ڈال دیں گی کیونکہ عباس کی اولادابوطالب کی اولادنہیں ہے۔

اس لئے ایسی احادیث پرغورکرناضروری ہے تاکہ ابہام رفع ہوجائے۔اس سلسلہ میں واردہونے والی احادیث دوطرح کی ہیں۔

مجمل احادیث

یہ فقط جھنڈوں سے متعلق احادیث ہیں ان میں سے ایک وہ حدیث ہے جسے احمدنے اپنی مسندمیں ثوبان سے روایت کیا ہے کہ پیغمبراکرم نے فرمایا:۔

"اذارایتم الرایات السودقداقبلت من خراسان فاتوها ولو حبوا علی الثلج فان فیها خلیفة الله المهدی "

جب دیکھوکہ سیاہ جھنڈے خراسان کی طرف سے آرہے ہیں توان کے پاس آوچا ہے برف پرہی گھسٹ کرہی نہ آنا پڑے اس لئے کہ ان میں اللہ کا خلیفہ مہدی ہوگا(مسنداحمد۵:۲۷۷)اسی سے ملتی جلتی وہ حدیث ہے جسے ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ذکرکیا ہے(سنن ابن ماجہ ۲:۱۳۳۶۔۴۰۸۲)

اسی طرح ترمذی نے ابو ھریرہ سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرم نے فرمایا

تخرج من خراسان رایات سود ،فلایررها شی حتی تنصب بايلیاء "

"خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے انہیں کوئی شئی نہیں روک سکے گی حتی کہ انہیں ایلیا میں گاڑھ دیا جائے گا(سنن ترمذی ۴:۵۳۱۔۲۲۶۹)

ان احادیث میں اگرچہ واضح طور پر نہیں کہاگیاکہ حضرت مہدی علیہ السلام ،عباس کی اولادمیں سے ہیں لیکن بعض لوگوں نے اس کایہی معنی کیا ہے وہ یوں کہ یہ سیای جھنڈے ہوسکتا ہے وہ ہوں جنہیں ابو مسلم خراسان سے لے کرنکلا تھااوراس نے بنی عباس کی حکومت کو مضبوط کیا تھا لہذاان احادیث سے مرادمہدی عباسی ہے۔

مذکورہ مجمل احادیث پرایک نظر

مسنداحمدابن حنبل اورسنن ابن ماجہ کی حدیثوں کو کئی علماء نے ضعیف قراردیاہے ۔

ابن قیم المسنادالنیف میں لکھتے ہیں کہ "یہ (یعنی ابن ماجہ کی )حدیث اوراس سے پہلے والی حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو اس پردلالت کرتی ہو کہ مہدی عباسی ہی وہی مہدی ہے جوآخری زمانے میں ظہورکریں (المنازالنیف ابن قیم ۱۳۷۔۱۳۸۔۳۳۸ اور۳۳۹ نمبر حدیثوں کے ذیل میں )ان کی دلیل یہ ہے کہ مہدی عباسی کا ۱۶۹ئھ میں انتقال ہواتھااوراس کازمانہ ایسا تھا کہ عورتیں بھی امرمملکت میں مداخلت کرتی تھیں

چنانچہ طبری نے بیان کیاہے کہ خلیفہ مہدی عباسی کی بیوی خیزران امورحکومت میں مداخلت کرتی تھی حتی کہ اس کے بیٹے ھادی کے زمانے میں تویہ امورمملکت پر قابض ہوگئی تھی "(تاریخ طبری ۳:۴۶۶)اور جس کا یہ حال ہووہ کیسے زمین پرخداکاخلیفہ ہوسکتاہے۔

مزید یہ کہ مہدی عباسی بلکہ تمام خلفا ء آخری زمانے میں نہیں تھے نہ ان میں سے کسی کے ہاتھ کثیرمال لگا تھا اورنہ انہوں نے رکن ومقام کے درمیان لوگوں سے بیعت لی تھی اورنہ ہی دجال کو قتل کی تھا اورنہ ہی عیسی نے نازل ہوکران کے پیچھے نمازپڑھی تھی اورنہ ہی ان کے زمانے میں بیدانامی جگہ دھنسی تھی ۔

بلکہ ان کے پورے دورمیں ظہورحضرت مہدی علیہ السلام کی کوئی چھوٹی سی علامت بھی ظاہرنہ ہوئی

رہی ترمذی کی حدیث تواس کے بارے میں ابن کثیراس حدیث غریب قراردینے کے بعدکہتے ہیں :۔

یہ سیاہ جھنڈے وہ نہیں ہیں جنہیں ابومسلم خراسانی لے کرنکلا تھا اوراس نے ۱۳۲ئھ میں بنی امیہ سے حکومت چھین لی تھی بلکہ یہ سیاہ جھنڈے اورہیں جوحضرت امام مہدی علیہ السلام کے ہمراہ آئیں گے۔

مقصود یہ ہے کہ جس مہدی کے آخری زمانے میں ظہورکاوعدہ کیاگیا ہے اس کا خروج اورظہورومشرق کی طرف سے ہوگا(النہایة فی الفتن والملاحم ابن کثیر ا:۵۵)معیارصحیح قراردیاہے(مستدرک الحاکم ۴:۵۰۲)

واضح احادیث

۱۔یہ حدیث کہ (المهدی من ولد العباس عمی )

(کہ مہدی میرے چچا عباس کی اولادسے ہیں )کو سیوطی نے الجامع الصیغیر میں ذکرکیا ہے یہ ضعیف ہے(الجامع الصیغر ۲:۶۷۲۔۹۲۴۲)

مناوی شافعی فیض التقدیرمیں تحریرکرتے ہیں کہ اسے دارقطنی نے الافراد میں روایت کیا ہے اورابن جوزی کہتے ہیں اس کی سندمیں محمدبن ولیدمقری ہے کہ جس کے بارے میں ابن عدی کا کہنا ہے ۔

یہ احادیث گھڑتاتھااوران کے متون اسانیدتبدیل کرتاتھا۔اور ابن ابی معشرکہتا ہے کہ یہ بڑاجھوٹ شخص تھا

سمہودی کاکہنا ہے کہ اس سے پہلی اورباروالی حدیثیں اس سے زیادہ صحیح ہیں لیکن خوداس میں محمدبن ولیدہے وہ خوداحادیث وضع کرتاتھا"(فیض القدیرشرح الجامع الصغیر۶:۲۷۸۔۹۲۴۲)

اورسیوطی نے الحاوی میں ابن حجرنے صواعق محرقہ میں صبان بے اسعاف میں وہ ابوالفیض نے انرازالوھم المکنون میں اسے ضعیف قراردیاہے اس کے جعلی ہونے کے بورے میں بہت سارے اقوال نقل کئے ہیں(الحاوی للفتاوی ۲:۸۵،صواعق محرقہ :۱۶۶،اسعاف الراغبین: ۵۱ابوابر ازالوھم المکنون :۵۶۳۔)

۱۔ ابن عمرکی حدیث ہے کہ "رجل یخرج من ولدالعباس "

"عباس کی اولادمیں سے ایک شخص خروج کرے گا۔اسے خریدة العائب میں ابن عمرسے مرسل طورروایت کیاہے اوریہ حدیث ابن ابوموقوفہ ہے ()خریدة العجائب ابن وردی :۱۹۹)اس حدیث میں جومرسل ہونے کی وجہ دلیل نہیں بن سکتی مہدی کی وضاحت نہیں کی گئی ۔

پس بہتریہ ہے کہ اسے پہلی قسم یعنی مجمل احادیث میں شامل کی جائے اگرچہ اس میں عباس کانام ہے۔

۳۔ ابن عباس نے پیغمبراکرم سے روایت کی ہے کہ آپ نے اپنے چچا عباس سے فرمایا

ان الله ابتداء بی الاسلام وسیختمه بغلام من ولدک وهو الذی یتقدم عیسی بن مریم

بیشک اللہ تعالی نے میرے ذریعے اس کا اختتام کرے گا اوریہ وہی ہے جوعیسی بن مریم کے آگے ہوگا۔

اسے خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں روایت کیا ہے اوراس کی سندمیں محمدبن مخلدہے(تاریخ بغداد۳:۳۲۳،۴:۱۱۷) کہ جسے ذھبی نے ضعیف قراردیاہے اوراس کے ساتھ اس بات پرتعجب کا اظہارکیاہے کہ خطیب بغدادی نے اسے ضعیف کیوں نہیں دیا ! لکھتے ہیں :۔

اے محمد بن مخلدعطارسے روایت کیا ہے اورتعجب ہے کہ خطیب نے اسے اپنی تاریخ میں ذکرکیا ہے لیکن اسے ضعیف قرارنہیں دیاشایداسے اہمیت نہ دیتے ہوئے خاموشی اختیارکی ہو(میزان الاعتدال ۱:۸۹۔۳۲۸)

۴۔ام فضل نے پیغمبر اسلام سے توایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:۔

یا عباس اذا کانت سنة خمس وثلاثین ومائة فهی لک ولو لدک ،منهم السفاح ،ومنهم المنصور ،ومنهم المهدی "

اے عباس ۱۳۵ئھ تمہارااورتمہاری اولادکا سال ہے ان میں سفاح ، منصور اورمہدی ہوں گے

اس حدیث کوخطیب اورابن عسا کرنے ام فضل سے نقل کیا ہے ()تاریخ بغداد۱:۶۳،تاریخ دمشق ۴:۱۷۸ اس کے متعلق ذھبی تحریرکرتے ہیں :۔

اس کی سندمیں احمدبن راشدہلالی ہے اس نے سعیدبن خیشم سے بنی عباس کے بارے میں ایک باطل حدیث کی روایت کی ہے احمدبن راشدکے بارے میں ذھبی کانظریہ یہ ہے کہ اس نے جہالت کی وجہ سے اس حدیث کوگھڑاہے()میزان الاعتدال ا:۹۷

میں کہتا ہوں کہ :۔ ذھبی نے حدیچ کے گھڑنے میں احمدبن راشدکی جہالت کاحوالہ دیاہے جبکہ اس بات پراتفاق ہے کہ عباسیوں کی حکومت کاآغاز ۱۳۵ئھ میں نہیں بلکہ ۱۳۲ء ھ میں ہوااوراس سے پتہ چلتاہے کہ حدیث گھڑنے والے کوبنی عباس کی حکومت کے آغازکا بھی علم نہیں تھا۔

۵ اسی سے ملتی جلتی حدیث سیوطی نے ابن عباس سے اپنی کتاب " اللآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ"میں نقل کی ہے اور کہا ہے یہ حدیث جعلی ہے اور اس کا گھڑنے والاشایدغلابی ہے( " اللآلی المصنوعة۱:۴۳۴۔۴۲۵)

اسے ابن کثیر نے "البدایة والنھایة" میں ضحاک کی ابن عباس سے روایت کی صورت میں نقل کیا ہے اورکہا ہے یہ سندضعیف ہے اورصحیح یہ ہے کہ ضحاک نے ابن عباس سے کچھ نہیں سنا پس یہ منطقع ہے۔(البدایہ والنہایة ۶:۲۴۶)

اور حاکم نے اسے ایک اورسند کے ساتھ ذکرکیا ہے جس میں اسماعیل بن ابراھیم مہاجرہے(مستدرک الحاکم ۴:۵۱۴)ہے اورابوالفیض الغماری الشافعی نے ذھبی سے نقل کیا ہے کہ اسماعیل کے ضعیف ہونے پراجماع ہے جبکہ اس کاباپ ایسانہیں ہے۔(ابرازالوھم المکنون:۵۴۳)

یہی احادیث ہیں جن سے بعض سے لوگ دھوکہ کھاتے ہیں اورحضرت امام مہدی علیہ السلام کے نسب کو پہچاننے میں انہیں مانع تصورکرتے ہیں لہذا حضرت مہدی علیہ السلام کا اولادابوطالب سے ہوناجعلی ہیں اورجھنڈوں والی احادیث بھی اس نتیجے کے خلاف دلالت نہیں کرتیں۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام سے متعلق دیگراحادیث پرنظرڈالنے سے آپ کومزیدیقین ہوجائے گاکہ آپ اولادعباس سے نہیں ہیں ۔

چونکہ حضرت ابو طالب کی اولاد زیادہ تھی اس لئے احادیث نے معین کردیاکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ابوطالب کے فرزند حضرت علی کی اولادسے ہوں گے چنانچہ اس سلسلے میں کثیرروایات واردہوئیں ہیں ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

"هورجل منی "مہدی مجھ سے ہیں(نعیم بن حماد کی "الفتن "۱:۳۶۹۔۱۰۸۴،سید ابن طاوس کی التشریف بالنن"۱۷۶۔۲۳۸ با ب ۱۹

یہ بات واضح ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی اولادزیادہ ہے لیکن بہت ساری صحیح بلکہ متواترروایات میں ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اہلبیت علھیم السلام سے ہیں یا عترت سے ہے یا پیغمبرسے ہیں ۔

لہذا اس سلسلے میں کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ اہل بیت علیھم السلام ،عترت اوراولادنبی علی کی اولاد میں سے صرف ان کوکہا جاتا ہے جن کا سلسلہ فاطمہ زھرااسلام علیھا سے ہوابطورنمونہ چنداحادیث پیش کی جارہی ہیں۔

حدیث:۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام اہل بیت علیھم السلام سے ہیں

۱۔لا تنفضی الایام ،ولایذهب الدهر ،حتی یملک العرب رجل من اهل بیتی اسمه یواطی اسمی

اس وقت تک ایام ختم نہیں ہوں گے اورزمانہ گزرے گا نہیں جب تک میرے اہلبیت میں سے ایک شخص عرب کا بادشاہ نہ بن جائے گا اوروہ میرا اہم نام ہوگا"۔اس حدیث کو احمدنے اپنی مسندمیں ابن مسعودسے کئی طرق سے نقل کیا ہے اورابن داودنے اپنی سنن میں طبرانی نے اپنی معجم کبیرمیں اسے ذکرکیا ہے اورترمزی ارع کنجی شافعی نے اسے صحیح قراردیاہے اوربغوی نے اسے حسن بتایاہے (مسنداحمد۱:۳۷۶۔۳۷۷۔۴۳۰، سنن ابی داود۴:۱۰۷۔۴۲۸۳)

۲۔لو لم یبق من الدهر الایوم لبعث الله رجلا من اهل البیت یملئو عد لاکما ملئت جورا "

"اگر حیات دنیامین سے صرف ایک دن باقی رہ جائے تب بھی خدامیری اہل بیت میں سے ایک مردکو بھیجے گا جوزمین کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم جوسے بھری ہوئی ہوگی۔

اس حدیث کوحضرت علی علیہ السلام نے پیغمبراکرم سے روایت کیا ہے اوراحمدنے اسے اپنی مسندمیں نقل کیا ہے نیزاسے ابن ابی شبیہ ابوداؤداوعربیقہی نے بھی ذکرکیا ہے اورطبری نے مجمع البیان میں کہا ہے "شیعہ اورسنی علماء نے متفقہ طورپرنقل کیاہے (مسنداحمد۱:۹۹ ابن ابی شیبہ کی المصنف ۱۵:۱۹۸۔ ۱۹۴۹۴، سنن ابی داود۴:۱۰۷۔ ۴۲۸۳ بیہقی کی الاعتقاد: ۱۷۳مجمع البیان ۷:۶۷)

ابوفیض الفیض غماری نے اس حدیث کے متعلق کہا ہے "یہ حدیث بلا شک وشبہ صحیح ہے(بواز الوھم المکنون:۴۹۵)

۳۔لا تقوم الساعة حتی یلی رجل من اهل بیتی یواطی اسمه اسمی

"قیامت اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک میرے لیے اہل بیت علیھم السلام کاایک مردحکومت نہ سنبھال لے کہ جو میرا ہم نام ہوگا "اس حدیث کومسعود نے پیغمبراسلام سے نقل کیا ہے۔

اورابن مسعودسے احمدبن حنبل ،ترمذی، کنجی اورطبرانی نے کئی طرق سے نقل کیا ہے اوراسے صحیح قراردیاہے۔

اورشیخ طوسی نے بھی اسے ذکرکیاہے اورابویعلی موصلی نے اسے ابوھریرہ سے اپنی مسندمیں بیان کیا ہے(مسنداحمد:۳۷۶،سنن ترمذی۴:۵۰۵۔۳۲۳۱،طبرانی کی المعجم الکبیرا :۱۶۵۔۱۰۲۲۰ وا:۱۰۱۶۷۔کنجی کی البیان :۴۸۱،شیخ طوسی کی کتاب الغیبة :۱۱۳، مسندابی یعلی موصلی ۱۲:۱۹۔۶۶۶۵)اوردرمنشور میں کہاہے کہ"اسے ترمذی نے ابوھریرہ سے روایت کیاہے اورصحیح قراردیاہے"(ادرالمنشور ۶:۵۸)

۴۔ "المهدی منااهل البیت اشم الانف ،اجلی الجبهة ،یملا الارض قسطا وعد لاکما ملئت جورا وظلما "

"مہدی ہم اھل بیت سے ہیں ناک ابھری ہوئی اورجبین کشادہ ہے وہ زمین کواسی طرح عدل وانصاف سے بھردیں گے جس طرح ظلم وجور سے بھری ہوگی"اس حدیث کو ابوسعیدخدری نے پیغمبراسلام سے نقل کیا ہے اوران سے عبدالرزاق نے ذکرکیا ہے اورحاکم نے اسے مسلم کی شرط پرصحیح قراردیا ہے اورابلی نے اسے کشف الغمہ میں بیان کیاہے (عبدالرزاق کی المصنف ۱۱:۳۷۲۔۲۰۷۷۳،مستدرک حاکم ۴:۵۵۷، کشف الغمہ ۳:۲۵۹)

حدیث: حضرت امام مہدی(عج)عترت سے ہیں

اس سلسلہ میں بہت زیادہ احادیث وارد ہوئی ہیں ہم صرف ایک حدیث کے ذکرپراکتفاء کریں گے۔

ابوسعیدخدری نے پیغمبراکرم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:۔

"لا تقوم الساعة حتی تملاالارض ظلما وعدوانا ،ثم یخرج رجل من عترتی اومن اهل بیتی التردید من الراوی یملئو ها قسطا وعدلا کما ملئت ظلما وعدوانا "

"قیامت سے پہلے زمین ظلم وجور سے بھر جائے گی پھرمیری عترت یا میرے اھل بیت (روای کو شک ہوا ہے)سے ایک مردخروج کرے گا جواسے عدل وانصاف سے اسی طرح بھردے گاجس طرح یہ ظلم وجورسے بھری ہوگی"

اس حدیث کو احمدبن حنبل ، ابن حبان اورحاکم نے بیان کیاہے اوربخاری ومسلم کے معیارپراسے صحیح قراردیا ہے اورصافی نے اسے "منتخب الاثر"میں نقل کیاہے (مسند احمد۳:۳۶، صحیح ابن صبان۸:۲۹۰۔۶۲۸۴، مستدرک حاکم ۴:۵۵۷، منتخب الاثر۱۹:۱۴۸)

ابوالفیض غماری شافعی اس کے طرق اورروایوں کے حالات کا بغورمطالعہ کرنے کے بعدلکھتے ہیں"یہ حدیث بخاری اورمسلم کے معیارپرصحیح ہے جیسا کہ حاکم نے کہا ہے "(ابرازالوھمالمکنون :۵۱۵)

احادیث۔ حضرت امام مہدی (عج)پیغمبر اکرم کی اولاد میں سے ہیں

۱۔ابوسعیدخدری نے پیغمبراسلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:۔

"المهدی منی اجلنی الجبهة ،اقنی الانف ،یملوالارض قسطا وعد لا کما ملت ظلما وجورایملک سبع سنین "

مہدی مجھ سے ہیں وہ کشادہ جبین اورابھری ناک والے ہوں گے زمین کوعدل وانصاف سے اس طرح بھر دیں گے جس طرح ظلم وجورسے بھری ہوگی اورسات سال تک حکومت کریں گے"۔

اس حدیث کو حاکم نے مسلم کی شرط پرصحیح قرار دیا ہے نیزکنجی شافعی ، سیوطی ، شیخ منصورعلی ناصف نے "التاج الجامع الاصول "،میں اورابوفیض نے اسے صحیح قرار ہے (مستدرک حاکم ۴:۵۵۷،کنجی کی البیان :۵۰۰، الجامع الصیغر۲:۶۷۲ ۔۹۲۴۴، التاج الجامع للاصول ۵:۳۴۳، ابرازالوھم :۵۰۸)

بغوی نے اسے حسن شمارکیا ہے ابن قیم نے اس کی سندکوجیدکہا ہے (مصابیح السنة ۳:۴۹۲۔۴۲۱۲، ابن قیم کی المنارالنیف:۱۴۴۔۳۳۰)

اوراس کو ابوسعیدسے ابوداؤد،عبدالرزاق اورخطابی نے معالم السنن میں ذکرکیاہے اور شیعوں میں سے اسے ابن طاؤس اورابن بطریق نے نقل کیا ہے(سنن ابی داؤد ۴:۱۰۷۔۴۳۸۵،التشریف بالنن :۱۵۳۔۱۸۹و۱۹۰ باب ۱۵۰ ابن حمادسے"فتن"میں۱:۳۶۴۔۱۰۶۳ور ۱۰۶۴،اورابن بطریق حلی کی العمدہ:۴۳۳۔۹۱۰)

۲۔ امیر المومنین علیہ السلام پیغمبراکرم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:۔

"المهدی من ولدی تکون له غیبة و حیرة تضل فیها الامم ،یاتی بذخیرة الانبیاء فیملوها عدلا وقسطا کما ملئت جوراوظلما "

"مہدی میری اولادسے ہیں انہیں غیبت کا سامنا ہوگا جس میں اقوام گمراہ ہوجائیں گی آپ انبیائکا خزانہ لے کے آئیں گے پس زمین کواس طرح عدل وانصاف سے بھردیں گے جس طرح ظلم وجورسے بھری ہوگی"۔

اس حدیث کوشیخ صدوق نے کمال الدین میں ذکرکیا ہے اورجوینی شافعی نے فرائد السمطین میں اورقندوزی حنفی نے ینابیعالمودة میں اس سے استد لال کیا ہے(کمال الدین ۱:۲۸۷۔۲۵فرائد السمطین ۲:۳۲۵۔ ۵۸۷ ینابیع المودة :۳باب نمبر ۹۴)

اب تک جن احادیث کوہم نے ذکر کیا ہے اب سے واضح ہوگیا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام حضرت علی علیہ السلام کی اس اولادسے ہوں گے جس کاسلسلہ حضرت فاطمہ زھرااسلام علیھا سے چلا ہے جیسا کہ اس کی وضاحت خودحدیث نے کی ہے۔

حدیث:۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی اولادسے ہیں

ام سلمہ اسلام سے روایت کرتی ہیں کہ :۔

"المهدی حق و هو من ولد فاطمة "

"مہدی حق ہے اوروہ اولادفاطمہ میں سے ہے"۔

اس حدیث کو ام سلمہ سے ابوداؤد ابن ماجہ ،طبرانی اورحاکم نے دوطریق سے نقل کیا ہے اوراہل سنت کے چارعلماء نے اسے صحیح مسلم سے نقل کیاہے (سنن ابی داؤد۴:۱۰۷۔ ۴۲۸۴، سنن ابن ماجہ ۲:۱۳۶۸۔۴۰۸۶ طبرانی کی المعجم الکبیر۲۳:۲۶۷۔۵۶۶، مستدرک حاکم ۴:۵۵۷۔

اورمندرجہ ذیل چار علما اہلسنت نے اسے صحیح مسلم سے نقل کیا ہے جو اسبات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث صحیح مسلم میں تھی لیکن اب اس میں نہیں ہے۔

ابن حجرھیتمی نے صواعق محرقہ میں :۱۶۳ باب نمبر۱۱ فصل اول۔

متقی ہندی نے کنزالعمال میں ۱۴:۲۶۴۔۳۸۶۶۲

شیخ محمد بن علی صبان نے اسعاف الراغبین میں صفحہ ۱۴۵۔

شیخ حسن عمودی حمزاوی مالکی بنے مشاق الانوارمیں صفحہ ۱۱۲۔

)اوردوسرے نے اس کے صحیح اورسندکے سندہونے کا اعتراف کیا ہے بلکہ بعض نے اسے متواترقراردیا ہے (کنجی نے البیان میں اسے صحیح قراردیا : ۴۸۶باب نمبر ۲ نیزسیوطی نے جامع الصیغر میں ۲:۶۷۲۔ ۹۲۴۱، اسی طرح التاج الجامع للاصول کے ہاشے پر۵:۳۴۳، بغوی نے اسے حسن قراردیا ہے مصابیح السنة ۳:۴۹۲۔۴۲۱۱، ابو الفیض نے ابرازالوھم :۵۰۰ میں حدیث کی سندکی تحقیق کرکے لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اوراس کے سارے راوی عادل ہیں۔

البانی نے اس کی سندکو عمدہ قراردیا ہے جیسا کہ"عقیدہ اہل السنة "اور محسن بن حمدحمادکی "الاثرفی المہدی المنتظر "صفحہ ۱۸، پراورقرطبی وغیرہ کے تواترکا قول ہم پہلے ذکرکرچکے ہیں ۔

نعیم بن حماد نے اپنی سندکے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:۔

"المهدی رجل منا من ولد فاطمة "

"مہدی ہم میں سے ہے اوراولادفاطمہ میں سے ہے"

(نعیم بن حمادکی الفتن ۱:۳۷۵۔۱۱۱۷ ،اسی سے کنزاالعمال میں نقل ہواہے۱۴:۵۹۱۔۳۹۶۷۵)

نیزھری سے نقل کیا ہے کہ :۔

"المهدی من ولد فاطمة "

"مہدی اولافاطمہ میں سے ہے"

(۱)نعیم بن حمادکی الفتن ۱:۳۷۵۔۱۱۱۴ ،اوراسی سے تشریف بالنن میں نقل ہوا ہے :۱۷۶۔۲۳۷ باب نمبر۱۶۳۔

اسی طرح کعب سے بھی واردہوئی ہے

(۲)نعیم بن حمادکی الفتن ۱:۳۷۴ سے۲ااا،اوراسی سے تشریف بالنن میں نقل ہواہے :۱۵۷۔۲۰۲باب نمبر۱۶۳۔

جوان ساری گزشتہ احادیث کی جامع ہے قتادہ سے روایت ہے کہ میں نے سعیدسے کہاکیامہدی حق ہے َ

انہوں نے کہا حق ہے ۔ میں نے کہاکس کی نسل سے ہی؟انہوں نے کہاقریش کی نسل سے۔ میں نے کہا کون سے قریش کی نسل سے ؟

کہا :ہاشم کی میں نے کہاہاشم کے کس بیٹے سے؟ انہوں کہا:عبدالمطلب کی اولادسے ۔ میں نے پوچھا میں نے پوچھا : عبدالمطلب کے کس بیٹے سے ؟ توانہوں نے جواب دیا:اولادفاطمہ سے"(۱)عقدالدرر:۴۴ باب اول ، نعیم بن حمادکی الفتن ۳۶۸۱ ۔۳۶۹۔۱۰۸۲، اوراسی سے سید ابن طاوس نے التشریف بالنن میں بالنن میں نقل کیا ہے :۱۵۷۔۲۰۱ باب نمبر۱۶۳

لیکن احادیث میں پہلے دواحتمالوں کی تائیدسے تیسرااحتمال باطل ہوجاتاہے۔

رہا چوتھا احتمال کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام حضرت امام حسن علیہ السلام وحضرت امام حسین علیہ السلام کے علاوہ کسی دوسرے کی اولاد سے ہیں تویہ واضح طورپرباطل اورغیرمعقول ہے۔

کیونکہ صحیح بلکہ متواتراحادیث سے ثابت ہوچکا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اہل بیت علیھم السلام اورحضرت فاطمہ زھر اسلام اللہ علیھا کی اولاد سے ہیں۔لہذا پہلے دواحتمالوں کو ثابت کرنے والی احادیث میں غورکرنے کی ضرورت ہے اگرپہلے احتمال کو ثابت کرنے والی احادیث جھوٹی ثابت ہوجائیں تو دوسرے احتمال کوثابت کرنے والی احادیث میں غورکرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اوروہی یقینی اورصحیح ہوگا کیونکہ دونوں احتمالوں کا جھوٹاہونامحال ہے